’’نیکیوں کا ثواب پارٹ 01’’

(01): ’’ ذکر اللہ کرنے کے فائدے اور ثوابات ‘‘

اللہ پاک کا ذکر کرنا بہت آسان اور افضل عبادت ہے۔ ذکر اللہ رضائے الٰہی پانے کا ذریعہ ہے۔اس کی بَرَکَت سے قربِ الٰہی نصیب ہوتا اور اس کی معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔ذکر کرنے والے کو خود اللہ پاک یاد فرماتا ہے۔ذکر کرنے والاقیامت کے دن حسرت سے محفوظ ہوگا۔ کثرت سے ذکر کرنا بدبختی سے امان ہے۔ اللہ پاک کا ذکر کرنا سکینہ نازل ہونے اور رَحْمتِ الٰہی چھا جانے کا سبب ہے۔ ذِکر کی برکت سے گناہ اور خطائیں مٹ جاتی ہیں۔ غیبت، چغلی، جھوٹ اور فحش کلامی سے زبان محفوظ رہتی ہے۔ ذکر اللہ کی برکت سے غم دور ہوتے، دل کو راحت اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ذکر الٰہی سے دل اور بدن مضبوط ہوتےاور چہرہ روشن ہوتاہے۔ ذکر کرنے سے مشکلات آسان ہوتی اور تنگیاں دور ہوتی ہیں۔فرشتے ذکر کرنے والے کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ اللہ پاک کا ذکرکرنارزق ملنے کا سبب ہے۔ ذکر میں مشغول رہنے والا مانگنے والوں سے زیادہ اللہ کریم کی عطا پاتا ہے۔ ہمیشہ ذکر کرنے والا جنت میں داخل ہو گا۔) تفسیرصراط الجنان، پ۲۲، الاحزاب، تحت الآیۃ۴۱،۸/٥۲ ملخصاً ( اللہکا ذکر کرنے سے شیطان دل سے ہٹ جاتا ہے۔ ) بخاری، کتاب التفسير، سورة قل اعوذ برب الناس،ص١٢٨٩، حدیث: ١١٤ ( ذکر کرنے والے کی آواز جہاں جہاں تک جاتی ہے وہ شے اس کی گواہ بن جاتی ہے۔) بلند آواز سے ذکر کرنے میں حکمت، ص۵ملخصاً، مکتبۃ المدینہ کراچی ( ذِکْرُ اللہ دنیا و آخرت میں ہر بھلائی پانے کا ذریعہ ہے۔) ترمذی، کتاب الدعوات، ٩٥-باب، ص٨٠٧، حدیث:٣٥٢٦ ماخوذًا ( ذکرِ الٰہی عذابِ الٰہی سے نجات دلاتا ہے۔) موطاامام مالک، کتاب القران، باب ماجاء فى ذكر الله تبارك و تعالى،ص١٢٣، حدیث: ٥٠١( کثرت سے ذکر کرنے والے قیامت کے دن بلند درجے میں ہوں گے۔) شرح السنة،کتاب الدعوات، باب فضل الذكر...الخ، ٣/٢٩٨،حدیث:١٢٤٧ماخوذََا،دار الفكر بيروت ((نیکیوں کا ثواب ح۱، ص ۱۰۸)

(02): ’’ دُرُودِ پاک پڑھنے کے فائدے اور ثوابات‘‘

دُرودشریف پڑھنا عِبَادت ہے۔دُرُود تمام نفل عِبَادتوں میں اَفْضل ہے۔ دُرود پڑھنے والے پر اللہ پاک درود بھیجتا ہے، اس کے لئے فرشتے رَحْمت کی دُعائیں کرتے ہیں، اس کے دَرَجات بلند ہوتے ہیںدُرود گُنَاہوں کا کفارہ ہے۔ دُرود پڑھنے سے اَعْمال پاک ہوتے ہیں۔دُرود پڑھنے والے کو ایک قیراط اَجْر ملتا ہے اور قیراط اُحُد پہاڑ جتنا ہے۔ دُرُود پڑھنے والے کے لئے شفاعت واجِب ہو جاتی ہے۔دُرُود ِپاک کی برکت سے اللہ پاک کی رِضا و رَحْمت ملتی، غضبِ الٰہی سے امان نصیب ہوتاہے۔دُرُود پڑھنے والا قِیامت کے دِن سایۂ عرش میں ہو گا۔ دُرُود پڑھنے والا قِیَامت کی پیاس سے محفوظ رہے گا۔ دُرود پڑھنے والا پُل صِراط پر آسانی اور تیزی سے گزرے گا۔دُرود پُل صِراط کا نور ہے۔ دُرود پڑھنے والا نَزع کی سختی سے محفوظ رہے گا۔دُرود پڑھنے والا مرنے سے پہلے جنّت میں اپنا مکان دیکھ لے گا۔دُرودِ پاک مجلس کی زینت ہے۔ دُرود پڑھنے سے پریشانیوں سے نجات ملتی، دُکھ دور ہوتے، مصیبت ٹلتی اَور رِزْق میں برکت ہوتی ہے۔ کثرت سے دُرود پڑھنے والا روزِ قیامت حُضُور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زیادہ قریب ہو گا۔ دُرود پڑھنے والے سے قِیامت کے دِن حُضُورِ اَنْور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مُصَافحہ فرمائیں (یعنی ہاتھ مِلائیں)گے۔ دُرود پڑھنے سے اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قُرب ملتا ہے۔ دُرود پڑھنے سے دِل پاک ہو تا ہے۔ ایک بار دُرود پڑھنے سے دَس رحمتیں نازِل ہوتیں، دس گُنَاہ معاف ہوتے، دَس دَرَجات بلند ہوتے اور دس نیکیاں ملتی ہیں۔ دُرود پڑھنے سے دُعا قبول ہوتی ہے۔ دُرود پڑھنے سے عشقِ رسول میں اضافہ ہوتا ہے۔ دُرود پڑھنے والے سے فرشتے مَحَبَّت کرتے ہیں۔ دُرود ہر بھلائی پانے، ہر بُرائی دور کرنے کا ذریعہ ہے۔ دُرودِ پاک کی کثرت اہلِ سنت کی علامت ہے۔( آب کوثر، ص ۸تا۱۴ملخصاً، مکتبۃ المدینہ کراچی) (نیکیوں کا ثواب ح۱، ص ۶۴)

(03): ’’ سنّت پر عمل کا ثواب ‘‘

سنتِ رسول پر عمل جنت میں داخلے کا سبب ہے۔ (حدیث پاک میں ہے:جس نے پاکیزہ کھانا کھایا اور سنت کے مطابق عمل کیا اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہے وہ جنت میں داخل ہو گا۔)( مستدرك، کتاب الاطعمة، باب ذكر معيشة النبى،٥/ ١٤٢، حدیث: ٧١٥٥ (فسادِ امت کے وقت سنت پر عمل کرنے والے کو شہادت کا ثواب ملتا ہے۔( الترغیب والترھیب، کتاب الايمان، باب الترغيب فى اتباع الكتاب والسنة،ص٣٤،حدیث:٥ ( نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک سنت پر عمل کرنے والوں کو حدیث مُبارَکہ میں ہدایت یافتہ ہونے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔( مسند بزار، مسند عبد الله بن عمرو بن العاص،٦/ ٣٣٨، حدیث:٢٣٤٥ ( نیک لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔( فیضان ریاض الصالحین،۳/٥٥، مکتبۃ المدینہ کراچی ( سنتِ مصطفےٰ پر عمل کرنے والے خوش نصیب لوگ گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں(فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: میں نے تم لوگوں میں دو ایسی چیزیں چھوڑی ہیں کہ جب تک ان دونوں پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرتے رہو گے ہرگز ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔(۱)کتابُ اللہ (قرآن کریم)(۲)سنتِ رسول۔( موطاامام مالک، کتاب القدر، باب النهى بالقول بالقدر،ص٤٧٩،حدیث:١٧٠٨ () سنت مصطفےٰسے مَحبَّت، حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت کرنے والا جنت میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پڑوسی ہوگا۔( مشکاة المصابیح،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالكتاب و السنة،١/٥٥، حدیث:١٧٥ (

سنت پر عمل نہ کرنے کے نقصانات :

سنت پر عمل نہ کرنے والا شفاعت مصطفےٰ سے محروم ہوگا۔(حدیث پاک میں ہے: جس نے میری سنت کو ضائع کیا اس پر میری شفاعت حرام ہے) (تفسیر روح البيان، پ٥، النساء، تحت الآية:٦٥، ٢/٢٣٦ (سنت مبارکہ کو چھوڑ دینا گمراہی کا سبب ہے۔( مسلم، کتاب المساجد و مواضع، باب صلاة الجماعة من سنن الهدى،ص٢٣٨، حدیث:٦٥٤ ( سنت چھوڑنے والے کا دل مردہ ہونے کا خطرہ ہے۔( احیاء العلوم، کتاب شرح عجائب القلب، بيان تسلط الشيطان على القلب...الخ،٣/٤٨،ملخصًا ( سنت مبارکہ کی مخالفت ناشکری ہے۔( مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلاة، باب الصلاة فى السفر،٢/ ٣٤٣، حدیث:٤٢٩٢ (بلاعذر سنت چھوڑنے کا عادی حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مُبارَک گروہ سے نکل جاتا ہے (حدیث پاک میں ہے:جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں)۔( بخاری،کتاب النكاح، باب الترغيب فى النكاح،ص١٣٠٧حدیث: ٥٠٦٣ ( سنت رسول پر عمل نہ کرنے والا ہلاکت میں مبتلا ہوگا۔( صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصیام، باب استحباب صوم...الخ، ص٤٨٥، حدیث:٢١٠٥ ماخوذًا ((نیکیوں کا ثواب ح۱، ص ۱۱۳)

(04): ’’ مسجد آباد کرنے کے فائدے اور ثواب ‘‘

مسجد اللہ پاک کا گھر ہے۔ مسجد مومِن کا باغ ہے۔( علم القلوب، باب النية فى جلوس...الخ، ص١٩٤، دار الكتب العلمية بيروت)مسجد آخِرت کا بازار ہے (یعنی یہاں آکر، عِبَادت کر کے اللہ پاک سے جَنّت لینے کے اسباب کئے جاتے ہیں)۔( تفسير قرطبى، پ١٨، النور، تحت الآية:٣٦، ٦/١٧٧دار الفكر بيروت) مسجد شیطان سے بچنے کا مضبوط ترین قلعہ ہے۔(مصنف ابن ابى شيبة، كتاب الزهد، ما جاء فى لزوم المساجد، ٨/١٧٢، حديث:٤ملتان)جس کا گھر مسجد ہو، اللہ پاک اس کی مغفرت، رحمت اور پُل صراط سے بحفاظت گزارنے کا ضامِن بن جاتا ہے۔( مصنف ابن ابى شيبة، كتاب الزهد، ما جاء فى لزوم المساجد، ٨/١٧٢، حديث:١)(مسجد کو گھر بنانے کا مطلب: وہاں اتنی کثرت سے وَقْت گزارنا جیسے گھر میں گزارتے ہیں یا مسجدمیں دِل ایسے لگنا، جیسے گھرمیں لگتا ہے)۔ جومسجد کی طرف چلے، اللہ پاک اس کا ضامِن ہے، زِندہ رہے تو رِزْق دیا جائے، مر جائے تو جَنّت میں داخِل ہو۔( صحيح ابن حبان، كتاب البر والاحسان، ذكر الامر بابتداء السلام ...الخ،ص٢٥٠، حديث:٤٩٩ بتقدم وتاخر، دار المعرفة بيروت)جو مسجد سے مَحَبَّت کرے، اللہ پاک اسے اپنا محبوب (یعنی پیارا) بنا لیتا ہے۔( معجم اوسط، ٣/٥٧٩، حديث: ٦٠١٦)مسجد میں آنے والا اللہ پاک سے ملاقات کرنے والا ہے۔ (معجم كبير، ٤/٤٠٠، حديث: ٦٣٨٣) مسجد جانے والے کے قدم زمین کے جس حصّے پر پڑتے ہیں، روزِ قِیَامت تَحْتُ الثَّریٰ (زمین کے سب سے نیچے کا طبقے) تک وہ حصّے نیکیوں والے پلڑے میں رکھے جائیں گے۔( علم القلوب، باب نية الاختلاف فى المساجد، ص١٨٨) مسجد میں دِل لگنا کامِل ایمان کی نشانی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: جب تم کسی کو مسجد میں آتا جاتا دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دے دو۔( ترمذى، كتا ب الايمان،باب ما جاء فى حرمة الصلاة، ص٦١٧، حديث:٢٦١٧)جو سب سے پہلے مسجد آئے اور سب سے آخِر میں باہر نکلے، حدیثِ پاک میں اسے سب سے بہترین بندہ فرمایا گیا۔ مسجد آباد کرنے والوں کی بَرَکت سے اللہ پاک اپنا عذاب روک لیتا ہے۔( شعب الايمان، باب فى الصلوات، فصل المشی الى المساجد،٣/٨٢، حديث:٢٩٤٦)مسجد میں آنا، یہاں بیٹھنا عِبَادت ہے۔ مسجد کی طرف اُٹھنے والے ہر قدم پر نیکیاں ملتی ہیں۔ مسجد آنے والا عزت پاتا ہے۔ مسجد میں آنے والوں کے لئے عِلْمِ دین سیکھنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔جو مسجد سے تکلیف دِہ چیز نکالے، اللہ پاک اس کے لئے جَنّت میں گھر بنائے گا۔ (ابن ماجہ، كتا ب المساجد والجماعات،باب تطهير المساجد وتطييبها، ص١٣٠، حديث:٧٥٧) (نیکیوں کا ثواب ح۱، ص ۵۲،۵۴)

(05): ’’ دُعا کے فائدے اور ثوابات‘‘

دُعا افضل عِبَادت ہے۔( فیضانِ دعا، ص۵۱، مکتبہ اہلسنت فیصل آباد)دُعا عِبَادت کا مغز ہے۔( ترمذى، كتاب الدعوات، باب ما جاء فى فضل الدعاء، ص٧٧٧، حديث:٣٣٧١)دُعا مانگنا تمام انبیائے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سُنّت ہے۔دُعا بَرَکت کا ذریعہ ہے۔دُعا اللہ پاک سے ہم کلامی ہے۔دُعا عافیت کا ذریعہ ہے۔ دُعا مانگنے والے کا یقین بڑھ جاتا ہے۔دُعا مانگنے والا شیطانی تکَبُّر سے بری ہوجاتا ہے۔ دُعا کرنے والے کے لئے فرشتے دُعا کرتے ہیں۔( فیضان دعا، ص۱۸۶-۱۸۷ملتقطاً) دُعا رَحْمَت کی چابی ہے۔( مسند الفردوس، ٢/٢٢٤، حديث:٣٠٨٦)دُعا اللہ پاک کو محبوب (یعنی پیاری) ہے۔ دُعا کرنے والے کی آواز اللہ پاک کو محبوب ہے۔(كنزالعمال، كتاب الأذكار، باب الثامن فى الدعاء، جز٢، ١/٣٩، حديث:٣٢٦١ملخصًا)دُعا کرنے والے کی طرف حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام مُتَوجّہ ہوتے ہیں۔دُعا مومِن کا ہتھیار ہے۔( مسند ابى يعلى، مسند جابر بن عبد الله، ٢/١٢٣، حديث:١٨١٢)دُعا دین کا ستون ہے دُعا آسمان وزمین کا نور ہے۔(مستدرك،كتاب الدعاءوالتكبير...الخ، باب الدعاء سلاح ...الخ، ٢/١٦٢، حديث:١٨٥٥)دُعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے۔( ابن ماجہ، كتاب الفتن، باب العقوبات، ص٦٤٩، حديث:٤٠٢٢بتقدم وتأخر)دُعا بلاؤں کو دُور کرتی ہے۔( كنزالعمال، كتاب الأذكار، باب الثامن فى الدعاء، جز٢، ١/٢٨، حديث:٣١١٨) (نیکیوں کا ثواب ح۱، ص ۵۹)

(06): ’’ ہمیشہ باوضو رہنے کے فائدے اور ثوابات‘‘

ہر وَقْت باوُضُو رہنا عِبَادَت ہے۔( احیاءالعلوم،کتاب آداب الاکل ،2/26)ہمیشہ باوُضُو رہنا مَومِن کی علامت ہے۔(حدیث پاک میں ہے مومن ہی ہر وَقْت باوُضُو رہ سکتا ہے۔ )( ابن ماجہ ، کتا ب الطہارۃ وسننها،باب المحافظۃ علی الوضوء ،ص58، حدیث:277 ماخوذًا) باوُضُو سونے والے کے لئے اللہ پاک کانوری فرشتہ دعائے مَغْفِرَت کرتا ہے۔( ابن حبان ،کتا ب الطہارۃ ،باب فضل الوضوء ،ص385 ،حدیث:1051)باوُضو سونے والا روزہ رکھ کر عِبَادَت کرنے والے کی طرح ہے۔( مسند الفردوس، 2/463، حدیث:3981) با وُضُو مرنے والا شہید ہے۔(حدیث پاک میں اگر تم ہمیشہ باوُضُو رہنے کی قدرت رکھتےہو تو ایسا ہی کرو کیونکہ مَلَکُ الموت جب کسی بندے کی روح حالتِ وضو میں قبض کرتا ہے تو اس کے لئےشہادت لکھ دی جاتی ہے۔) (شعب الایمان، باب الطہارة، 3/29، حدیث:2783) ہمیشہ باوُضُو رہنے سے رزق میں وسعت اور کشادگی آتی ہے۔( کنزالعمال، کتاب المواعظ والرقائق ...الخ، باب خطب النبی و مواعظہ،جز16، 8/54، حدیث:44147 ماخوذًا)بعض صوفیا فرماتے ہیں: پاک کپڑوں میں رہنا، پاک بستر پر سونا ہمیشہ باوضو رہنا دل کی صفائی کا ذریعہ ہے۔( مرآۃ المناجیح ،1/468) باوضو رہنے سے خود اعتمادی کی دولت میسر آتی اور احساسِ کمتری سے چھٹکارا ملتا ہے۔( حافظہ کیسےمضبوط ہو؟ص96 بتصرف)ہمیشہ باوُضُو رہنے والےسے نگہبان فرشتے مَحبَّت رکھتے ہیں۔( حلیۃالاولیاء، سفیان الثوری، 7/64، رقم: 9631 ماخوذًا)باوُضُو سونے والا شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔( فيضان رياض الصالحين،2/58) بندہ جب باوُضُو سوتا ہے تو اس کی روح عرش کی جانب پرواز کر جاتی ہے اور اس حالت میں اس کے خواب سچے ہوتے ہیں۔( معجم اوسط،4/65، حديث:5220)صحت کو برقرار رکھنے کے لئے باوضو رہنا ایک بہترین عمل ہے۔( وضو کا ثواب،ص3)باوُضُو رہنے والے افراد کا چہرہ خوبصورت،تروتازہ اوربارونق ہوجاتا ہے۔( وضو کا ثواب،ص13) بعض عارفین فرماتے ہیں:جو ہمیشہ باوُضو رہے اللہ کریم اُس کو سات فضیلتوں سے مشرف فرماتا ہے:(١) فرشتے اس کی صحبت میں رَغبت کرتے ہیں،(٢)قَلم اُس کی نیکیاں لکھتا ہے،(٣) اُس کے اَعضا تسبیح کریں کرتے ہیں،(٤)اُس کی تکبیرِ اُولیٰ فوت نہیں ہوتی،(٥)وہ جب سوتا ہے اللہ پاک کچھ فرشتے بھیجتا ہے کہ جِنوں اور انسانوں کے شَر سے اُس کی حِفاظت کرتے ہیں ،(٦) موت کی سختیاں اس پر آسان ہوجاتی ہیں (٧) جب تک باوُضو رہتا ہے اللہ کی اَمان میں رہتا ہے۔ (مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام، فصل فی تفضیل سنن الطہارۃ،ص97)(نیکیوں کا ثواب ح۲، ص ۲۱۵)

(07): ’’ سلام اور جوا ب کے فائدےاور ثوابات ‘‘

کسی مسلمان کو سلام کرنا جنت کو واجب کرنے(معجم کبیر،9/238، حدیث:17918ملخصاً)اور مغفرت کروانے والے اعمال میں سے ایک عمل ہے۔( معجم کبیر،9/238، حدیث:17920)سلام کرنے والے مسلمان کو صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے۔( حلیۃ الاولیاء، سفیان الثوری،7/119، رقم:9859 ماخوذًا) مسلمانوں کو سَلام کرنا اِسلام کا بہترین عمل ہے۔ (بخاری،کتاب الایمان،باب اطعام الطعام من الاسلام،ص 74 ،حدیث:12 ملخصاً)سلام کرنے سے آپس میں مَحبَّت پیدا ہوتی ہے۔( ابو داود، کتاب الادب،باب افشاء السلام،ص809،حدیث:5193)سلام میں پہل کرنے والا اللہ پاک کا مُقرَّب بندہ ہے۔( ابوداود ، کتاب الادب ،باب فی فضل من بدا بالسلام ،ص810 ،حدیث:5197 ملخصاً)سلام میں پہل کرنے والا تکبُّر سے بری ہوجاتا ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : پہلے سلام کہنے والا تکبُّر سے بَری ہے۔( شعب الایمان، باب فى مقاربۃوموادة اہل الدين،6/433، حدیث: 8786) سلام کرنے والے پر 90 رَحمتیں اور جواب دینے والے پر 10 رَحمتیں نازِل ہوتی ہیں۔( جامع صغیر ،ص36 ،حدیث:487) اَلسّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے سے 10 نیکیاں ملتی ہیں ، ساتھ میں وَ رَحْمَةُ اللهِ بھی کہیں گے تو 20نیکیاں اور وَبَرَکاتُهٗ شامل کریں گے تو 30 نیکیاں ملتی ہیں۔( ابوداود، کتاب الادب، باب کیف السلام ، ص810، حدیث:5195ملخصاً) گھر میں داخِل ہوتے وقت سلام کرنے سے گھر میں اتفاق،رزق میں برکت اور نیک اعمال کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔( مرآۃ المناجیح ،1/448 ملخصاً)سلام کرنا حفاظت و سلامتی کا سبب ہے۔حدیث پاک میں ہے:سلام کو عام کرو سلامتی پالو گے۔ (ابن حبان، کتاب البر والاحسان ،باب افشاء السلام...الخ،ص249 ،حدیث:491 ملخصاً) حدیث پاک میں ہے:جس نے سلام کا جواب دیا ثواب پائے گا۔( عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، باب التغلیظ فی ترک السلام، ص137، حدیث:211) سلام کا جواب دینا ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔( عمدۃ القاری، کتاب الایمان ، باب امور الایمان،1/202، تحت الحدیث: 9)سلام کرنے والا مسلمان کا حق ادا کرنے کا ثواب پاتا ہے۔( بخاری ، کتاب الجنائز، باب الامر باتباع الجنائز، ص355،حديث:1240ماخوذًا)سلام کا جواب دینے والے کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بہترین شخص قرار دیا ہے۔ (مسند امام احمد ، مسند الانصار، 9/701، حدیث:24649 ملخصاً)

سلام نہ کرنے اور جواب نہ دینے کے نقصانات:

حدیثِ پاک میں ہے لوگوں میں سب سے بڑا بخیل (کنجوس)وہ ہے جو سلام کرنے میں کنجوسی کرے۔( معجم اوسط ،4/166 ،حديث:5591) جس نے سلام کا جواب نہ دیا وہ ہم سے نہیں۔( عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، باب التغلیظ فی ترک السلام، ص137، حدیث:211) سلام نہ کرنے اوراس کا جواب نہ دینے کا بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ ان تمام فوائد اورثوابات سے محرومی ہے جو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کی صورت میں حاصل ہوتے ہیں۔(نیکیوں کا ثواب ح۲، ص ۲۲۵)

(08): ’’ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے سے متعلق مختلف احکام‘‘

(1) نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی چند صورتیں:(١) اگر غالب گمان ہو کہ سامنے والا نصیحت قبول کرلے گا اور برائی سے رُک جائےگا تو ایسی صورت میں نصیحت کرنا واجب ہے خاموش رہنا جائز نہیں۔ (٢)اگر غالب گمان ہو کہ نصیحت کرنے پر لوگ بُرا بھلا کہیں گے یا مار پیٹ کریں گے جس سے دشمنی اور عداوت پیدا ہوگی تو ان صورتوں میں خاموش رہنا افضل ہے۔ (٣) اگر مار پیٹ پر صبر کرلے گا تو مجاہد ہے ایسے شخص کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر جانتا ہے کہ نصیحت قبول نہ کریں گے اور مار پیٹ و گالی گلوچ کا اندیشہ بھی نہیں تو نصیحت کرنے نہ کرنے کا اختیار ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس صورت میں نصیحت کرے۔( الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب السابع عشر :فی الغناء واللہو...الخ،5/342) (2) برائی دیکھنے والے پرلازم ہے کہ اس سے روکے اگرچہ وہ خود اس برائی میں مبتلا ہو اس لیے کہ شريعت نے برائی سے بچنا اور دوسرے کو اس سے روکنا یہ دونوں باتیں لازم کی ہیں لِہٰذا خود برائی سے نہ بچنے کی صورت میں دوسرے کو روکنے سے بری الذمہ نہیں ہوگا۔( الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب السابع عشر :فی الغناء واللہو...الخ،5/342) (3) جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین ہوجاتا ہے۔( تفسیرصراط الجنان، پ4، اٰل عمران، تحت الآیۃ:104 ،2/27) فرمان مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعے روکے، اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النہی عن المنكر ... الخ، ص 42، حدیث: 78)

نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے کے فائدے اور ثوابات:

نیکی کا حکم کرنا اور بُرائیوں سے روکنا بہترین جہاد ہے۔( تفسیرخزائن العرفان ،پ 4،اٰل عمران، تحت الآیۃ:104 ) نیکی کی دعوت دینا اوربرائی سے روکنا کامیابی کا ذریعہ ہے۔(پ4 ،اٰل عمران: 104ماخوذاً) نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے والے کے لئے اللہ پاک ہرکلمے کے بدلے ایک ایک سال کی عِبادت کا ثواب لکھتا ہے اور اُسے جہنم کی سزا دینے میں حَیا فرماتا ہے۔( مکاشفۃ القلوب ،باب فی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر،ص65) جنّتُ الفردوس خاص اُس شخص کے لیے ہے جو نیکی کا حکم دے اور بُرائی سے منع کرے۔( تنبیہ المغترین، من اخلاق السلف...الخ، امرہم بالمعروف و نہیہم عن المنکر...الخ، ص201) نیکی کا راستہ دکھانے والانیکی کرنے والے کی طرح ہے۔( ترمذی ،ابواب العلم ،باب ماجاء الدال علی الخیر کفاعلہ،ص628 ،حدیث:2670) نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا جہنم سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃ ...الخ،ص362 ،حديث:1007ملخصاً) جو اچھی باتوں کا حکم دے، برائیوں سے روکے وہ اللہ پاک ، اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اور اس کی کتاب قرآن پاک کا خلیفہ ہے ۔ (مکاشفۃ القلوب ،باب فی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر،ص65)نیکی کی دعوت دینا اور بُرائی سے مَنع کرنا صَدَقہ ہے۔( ترمذی ،کتاب البر والصلۃ ،باب ما جاء فی صنائع المعروف ،ص478 ،حدیث:1956) نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے منع کرنے والے زمین میں اللہ پاک کے ایسے مجاہدین ہیں جو شہدا سے افضل ہیں،انہیں رزق دیا جاتا ہے اور وہ زمین میں چلتے پھرتے ہیں، اللہ پاک ان کی وجہ سے آسمانی فرشتوں کے سامنے فخرفرماتا ہے ۔( احیاء العلوم ،کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر ،الباب الاول:فی وجوب الامر بالمعروف...الخ ،2/382 ملخصاً)جس نے نیکی کاحکم دیا، برائی سے منع کیا ا ور لوگوں کو الله پاک کی اطاعت کی طرف بلایا تو اسے دنیا اور قبر میں الله پاک کا قُرب اور قیامت کے دن اللہ پاک کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔ (حلیۃ الالیاء،کعب الاحبار،6/36،رقم:7716 ملخصاً) نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے منع کرنے والا بندہ بلند ترین بالا خانے میں ہو گا جو شہدا کے بالاخانوں سے بڑھ کر ہو ں گے،ان میں سے ایک بالاخانے کے 3لاکھ دروازے ہوں گے جو یاقوت اور سبز زَمُرُّد سے بنے ہوں گے اور ہر دروازے پر ایک نور ہو گا اور ان میں سے ایک شخص 3 لاکھ حُوروں سے نکاح کرے گا جن کی نگاہیں کسی اور طرف نہیں اٹھیں گی جب بھی وہ کسی ایک حُور کی طرف نظر کرے گا تو وہ کہے گی:کیا تمہیں فلاں فلاں دن یاد ہے جس میں تم نے نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا تھا؟ جب بھی وہ ان میں سے کسی کی طرف دیکھے گا تو وہ اس کو اُس مَقام کی یاد دلائے گی جہاں اس نے نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا تھا۔( احیاء العلوم ،کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر ،الباب الاول:فی وجوب الامر بالمعروف...الخ ،2/382ملخصاً)

نیکی کی دعوت نہ دینے اور برائی سے نہ روکنے کے نقصانات:

فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جب میری امت نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا چھوڑدے گی تو وحی کی برکات سے محرو م ہوجائے گی ۔( موسوعۃ ابن ابی الدنیا، کتاب الامربالمعروف…الخ، 2/212 ،حديث:67) حضرت ابودردا فرماتے ہیں:اے لوگو! تمہیں لازمی طور پر نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہو گا ورنہ اللہ پاک تم پر ظالم حکمران مُسلَّط کر دے گا جو تمہارے بڑوں کی بزرگی کا خیال نہیں رکھے گا اور تمہارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرے گا، تمہارے نیک لوگ ا س کے خلاف دعا مانگیں گے لیکن ان کی دعا قبول نہ ہو گی اور تم مدد مانگو گے لیکن تمہیں مدد نہ ملے گی۔( احیاءعلوم الدین، کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الباب الاول فی وجوب الامر بالمعروف... الخ،2 /383) جس نے نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا چھوڑ دیا وہ گویا مؤمنین کی صف سے نکل گیا۔( احیاء علوم الدین،کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الباب الاول، 2/378 ملخصاً) (نیکیوں کا ثواب ح۲، ص ۲۴۸)

(09): ’’ اللهسے ڈرنے کے فائدے و ثوابات ‘‘

خوف خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتیں ہیں۔( پ ٢٧، الرحمٰن: ٤٦ماخوذًا) اپنے دل میں خوفِ خدا بسانے والوں کو جنت کے باغات اور چشمے عطا کئے جائیں گے۔(پ ١٤، الحجر ٤٥ ماخوذًا) خوف خدا رکھنے والوں کو اللہ کی مَدَد حاصِل ہوتی ہے ۔(پ ١٤، النحل: ١٢٨)اللہ پاک ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔( پ٢، البقرة:١٩٤) اللہ سے ڈرنے والے کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔(پ٩، الاعراف:١٥٤) اللہ ڈروالوں کا دوست ہے۔(پ٢٥، الجاثية:١٩) خوفِ خدارکھنے والے خوش نصیبوں سے اللہ كريم محبت فرماتا ہے۔(پ١٠،التوبة:٧)خوفِ خدا اَعمال کی قبولِیَّت کا سَبَب ہے۔ (پ ٦،المائدة:٢٧ ماخوذًا) اپنے رب سے ڈرنے والے سَعَادَت مند اس کی بارگاہ میں مُقرّب قرار پاتے ہیں۔(پ ٢٦، الحجرات: ١٣ماخوذًا) اللہ پاک کا خوف دنیا و آخِرَت میں کامیابی کا سامان ہے۔( پ١٨، النور:٥٢ ماخوذًا)جو اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔( پ٢٨، الطلاق:٢،٣) خوفِ خدا دنیا اور آخِرَت کی ہر بھلائی کی اصل ہے۔( حلیة الاولیاء، ابوسليمان الدارانى،٩/٢٧٢، رقم:١٣٨٦٩)جو شخص اللہ پاک سے ڈرتا ہے ، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے۔( شعب الایمان ،باب فی الخوف من الله تعالی،١/٥٤٠ ،حديث:٩٧٤)اللہ پاک سے ڈرنے والوں کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں جیسے خشك دَرَخْت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔( مسند بزار، مسند العباس بن عبد المطلب،٤/١٤٨، حدیث:١٣٢٢)اللہ کریم کا خوف جہنّم سے رہائی کا ذَرِیْعَہ ہے۔( ترمذى ،كتاب صفة جهنم ،باب من جاء ان للنار...الخ،ص٦١١ ،حديث:٤٥٩٤ماخوذًا)زیادہ خوف خدا رکھنے والا زیادہ عقل مند ہے۔ (احیاء العلوم ،کتاب الخوف والرجاء ،٤/١٩٧) خوف خدا سے رونے والوں کو اللہ پاک اپنے عَرْش کا سایہ عطا فرمائے گا۔( شعب الایمان ،باب فی الخوف من الله تعالی،١/٤٨٧ ،حديث:٧٩٣)خوف خدا بہت بڑی نیکی ہے اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔( مرآة المناجيح ،٣/٣٧٢)خوف خدا شہوات کو توڑ دیتا، دنیا سے بے رغبت کردیتا اور زبان کو ذکر ِ دنیا سے روک دیتا ہے ۔( شعب الایمان ،باب فی الخوف من الله تعالی،١/٥١٣ ،حديث:٨٨٦) نفس کی خواہشات ہلاکت میں ڈال دیتی اور خوف ِ خدا اس سے شفا دیتا ہے۔( شعب الایمان ،باب فی الخوف من الله تعالی،١/٥١١ ،حديث:٨٧٦)

خوفِ خدا نہ کرنے کے نقصانات:

جس دل سے خوف دور ہوجاتا ہے وہ ویران ہوجاتا ہے ۔( احیاء العلوم ،کتاب الخوف والرجاء ،٤/١٩٨)جو اللہ پاک کے سوا کسی اور سے ڈرتا ہے تو اللہ پاک اسے ہر شے سے خوف زدہ کرتا ہے۔( شعب الایمان ،باب فی الخوف من الله تعالی،١/٥٤٠ ،حديث:٩٧٤)جس شخص کے دل میں خوفِ خدا نہ ہو اس کے ظاہری اعضا بھی خوفِ خدا سے خالی ہو جاتے ہیں۔( احیاء العلوم،كتاب آداب المعيشة و اخلاق النبوة ،٢/٤٣٧)اگر انسان کے دل میں خوفِ خدا نہ ہوتو وہ سرکشی اور بغاوت جیسے برے کاموں میں پڑ جاتاہے۔( فیضان ریاض الصالحین،٤/٥٩٢) (نیکیوں کا ثواب ح۲، ص ۱۴۶)

(10): ’’ حُسْنِ ظَن کےفائدے اور ثوابات ‘‘

حُسْنِ ظَن ایک اچھی عِبَادَت ، باعِث اجر وثواب اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔حُسْنِ ظَن بخشش کا سبب ہے۔(احیاء العلوم، کتاب ذم الکبر والعجب،٣/٤٢٩ ماخوذًا)حُسنِ ظَن کی بدولت بُرے خیالات سے نجات مل جاتی ہے۔ اچھا گمان کرنے میں کوئی نُقْصَان نہیں بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے جبکہ بُرے گمان میں سَراسَر نُقْصَان ہے۔ اچھے اور نیک گُمان کے باعِث مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔ حُسْنِ ظَن سے مَحبَّت اور بھائی چارہ قائم ہوتا ہے۔حُسْنِ ظَن سے احترامِ مسلم پیدا ہوتا ہے۔ اپنے مسلمان بھائی سے نیک گُمان کرنے کی بَرَکَت سے بغض و کینہ دور ہوتا ہے۔ اچھا گُمان کرنے سے قلبی سکون حاصِل ہوتا ہے۔ حُسْنِ ظَنمعاشرے میں اَمْن و سکون اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں اضافے کا سبب ہے۔ اچھا گُمان بغیر کچھ عَمَل کیے اجرو ثواب کا حقدار بنا دیتا ہے۔ (نیکیوں کا ثواب ح۲، ص ۱۵۸)

(11): ’’ مصیبت پر صَبْر کے فائدے اور ثوابات ‘‘

مصیبت پر صبر کرنااللہ پاک کے نزدیک افضل نیکی ہے۔( کنز العمال،کتاب المواعظ والرقائق...الخ، جز :١٦، ٨ / ٥٤ ، حدیث : ٤٤١٤٧) جسے مُصِیْبَت پر صَبْر کرنے والا بدن ملا،اسے دنیا و آخرت کی بھلائی مل گئی۔ (معجم کبیر،٥/٢٩٧، حدیث:١١١١١)اللہ کریم مُصِیْبَت پر صَبْر کرنے والوں کو اپنے علم اور حِلْم سے حِصّہ عطا فرماتا ہے ۔( مستدرک ،کتاب الجنائز ،باب المریض یکتب لہ من الخیر...الخ ،١/٦٦٩،حديث:١٣٢٩)قِیامَت کے دن مُصِیْبَت زدہ لوگوں کو لایا جائے گا تو ان کے لئے نہ تو مِیزان نَصْب کیا جائے گا اور نہ ہی ان کا اَعمال نامہ کھولا جائے گا۔ پھر ان پر اجر نچھاور کیا جائے گا تو وہاں موجود دنیا میں عَافِـیَّت کے ساتھ رہنے والے لوگ اللہ کے دئیے ہوئے اس ثواب کو دیکھ کر تمنا کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے جِسْم قینچیوں سے کاٹ دئیے جاتے۔( معجم کبیر ،٦/١١٥ ،حديث:١٢٦٥٨) اللہ كريم جب کسی قوم سے مَحبَّت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مُبْتَلا کر دیتا ہے تو جو اس کے فیصلے پر راضی ہو اس کے لئے ربّ کی رضا ہے ۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء ،ص۶٥١ ،حديث:٤٠٣١)مسلمان کو جو مُصِیْبَت پہنچتی ہے حتی کہ کانٹا بھی چُبھے تو اس کی وجہ سے یاتو اللہ کریم اس کا کوئی ایساگناہ مٹادیتا ہے جس کا مٹانا اسی مُصِیْبَت پر مَوْقُوف ہوتا ہے یا اسے کوئی بزرگی عطا فرماتا ہے کہ بندہ اس مُصِیْبَت کے عِلاوہ کسی اور ذریعے سے اس تک نہ پہنچ پاتا۔( موسوعة ابن ابی دنیا، کتاب المرض والكفارات،٤/٢٩٣، حدیث:٢٤٢) مصیبت اپنے صاحب کا چہرہ اس دن چمکائے گی جس دن چہرے سیاہ ہوں گے۔ (معجم اوسط ،٣/٢٩٠ ،حديث:٤٦٢٢)جو مُصِیْبَت آنے پر راضی رہتا ہے وہ اللہ کریم کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔( مرقاة المفاتیح،کتاب الجنائز، باب عيادة المریض وثواب المرض،٤/٣٧، تحت الحدیث:١٥٦٦)جو مُصِیْبَت پرحمدِ الٰہی کرتاہے اللہ پاک اُس پر رحم فرماتا ہے۔( مرآۃ المناجیح ،٢/٥٠٢) جس نے مُصِیْبَت پر صَبْر کیا یہاں تک کے اس(مصیبت) کو اچھے صَبْر کے ساتھ لوٹا دیا،اللہ پاک اس کے لئے 300 درجات لکھے گا ، ہر ایک دَرْجَہ کے درمیان زمین وآسمان کا فا صِلہ ہو گا۔( موسوعة ابن ابی دنیا، کتاب الصبر ،٤/٢٥، حدیث:٢٤)

مصیبت پر صبر نہ کرنے کے نقصانات:

حضرتِ عبداللہ بِنْ مُبَارَک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: مُصِیْبَت ایک ہوتی ہے لیکن جب وہ کسی پر پہنچے اور وہ صَبْر نہ کرے تو دو مصیبتیں بن جاتی ہیں ، ایک تو وہی مُصِیْبَت اور دوسری مُصِیْبَت صَبْر کے اجر کا ضائع ہونا اور یہ مُصِیْبَت پہلی سے بڑھ کر ہے۔( درة الناصحین، المجلس الخمسون فی بیان صبر ایوب ، ص١٩٣) مصیبت کے وقت رانوں پر ہاتھ مارنا مصیبت کے ثواب کو ضائع کر دیتا ہے۔( مسند الفردوس، ٢/ ٤٣٤، حدیث:٣٩٠٣) جو مُصِیْبَتپربکواس بکتا ہے وہ سزا پاتا ہے۔( مرآۃ المناجیح ،٢/٥٠٢ بتصرف)جس نے مُصِیْبَت پر صَبْر نہ کیا اور اللہ کریم کے فیصلے پر راضی نہ رہا تو اس کے لئے دنیا میں اللہ پاک کی ناراضی اور آخِرَت میں اس کا غضب ہے ۔ (مرقاة المفاتیح،کتاب الجنائز، باب عيادةالمریض وثواب المرض،٤/٣٧، تحت الحدیث:١٥٦٦)جو مُصِیْبَت آنے پر ناراض ہوتا ہے وہ اللہ پاک کا ناپسندیدہ بندہ بن جاتا ہے۔( مرقاة المفاتیح،کتاب الجنائز، باب عيادةالمریض وثواب المرض،٤/٣٧، تحت الحدیث:١٥٦٦) جو شخص صَبْر نہیں کرتا بلکہ روتا اور چیختاہے اللہ کریم اسے نَفْس کے سپرد کر دیتا ہے پھر اسے شکوہ وشکایت سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔( تفسیرروح ا لبیان ،پ٢٥، الشوری،تحت الآية:٤٣،٨/٣٧٠) جو کسی مُصِیْبَت پہنچنے پر اپنے کپڑے پھاڑے، گال پیٹے ، گریبان چاک کرے یا اپنے بالوں کو نوچے تو وہ گويا ایسے ہے جیسے اس نے اپنے رَبِّ کریم سے جنگ کے لئے نیزہ اُٹھا لیا۔( الکبائر ، الکبیرة التاسعة والاربعون فى اللطم والنياحةوشق الجيوب...الخ ، ص١٤٠)(نیکیوں کا ثواب ح۲، ص ۱۷۵)

(12): ’’ مسجدکی تعمیر میں حصّہ لینے کے فائدے اور ثوابات ‘‘

مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے والے کے لئے جنت میں محل بنایا جاتا ہے۔ تعمیرِ مسجد میں حصہ لینے والے کا جنتی محل دوسرے محلات سے ایسا افضل ہو گا جیسے مسجد دنیا کے دوسرے گھروں سے افضل ہے۔( مرآۃ المناجیح،۱/۴۳۳ملخصاً)مسجد بنانا یا اس کی تعمیر میں حصہ لینا صدقۂ جاریہ ہے۔ امیر اہلسنت،بانیِ دعوتِ اسلامیدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:مسجد بنانے والے کو ملنے والے ثواب کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مسجد قِیامت تک کے لیے مسجد ہوتی ہے اور جس نے مسجد بنائی ہو گی اُسے قِیامت تک اس کا ثواب ملتا رہے گا۔( ملفوظات امیر اہلسنت، ۱/۱۸۲) مسجد بنانا ایمان پر خاتمہ پانے کا عَمَل ہے۔”تفسیر نعیمی“میں ہے: مسجد بنانے یا اسے آباد کرنے یا وہاں باجماعت نماز ادا کرنے کا شوق صحیح مومن ہونے کی عَلامت (یعنی نشانی) ہے۔ اِنْ شَآءَ اللہ! ایسے لوگوں کا خاتِمہ ایمان پر ہو گا۔( تفسیر نعیمی، پ۱۰، التوبۃ، تحت الآیۃ:۱۸،۱۰/۲۰۴)جو شخص مسجد میں روشنی کرے، جب تک اس کا چراغ (یا لائٹ وغیرہ) روشن رہےگا، اس کے لئے فرشتے دعائے رحمت کرتے رہیں گے۔( تفسیر نعیمی، پ۱۰، التوبۃ، تحت الآیۃ:۱۸،۱۰/۲۰۵)مسجد بنانا گویا دِین کی حِفَاظت کا قلعہ تعمیر کرنا ہے۔ مسجد بنانے والا اسلام کی شان و شوکت بڑھاتا ہے۔ مسجد بنانے والا لوگوں کو باجماعت نماز پر مدد فراہَم کرتا ہے۔ مسجد بنانے والا لوگوں کے دِین کی حِفَاظت کا سامان کرتا ہے۔ (نیکیوں کا ثواب ح۱، ص ۴۸)