’’نیکیوں کا ثواب پارٹ 02’’

(13): ’’ مصافحہ کرنے (ہاتھ ملانے)کے فوائد وثمرات ‘‘

Dفرمان ِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جب کوئی مسلمان اپنے بھائی سے ملاقات کرتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑتا (یعنی مُصَافَحہ کرتا )ہے تو اسکے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے تیز آندھی میں خشک درخت کے پتے جھڑتے ہیں اور Dان دونوں کی مغفرت کردی جاتی ہے اگرچہ ان کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔( معجم کبیر،3/582،حدیث:6027)D مُصَافَحہ کرنے والوں کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔( ابوداود،كتاب الادب،باب فی المصافحۃص812،حدیث:5212) Dملاقات کے وقت مُصَافَحہ کرنے والوں کے لئے دعا کے قبول ہونے کی بَشَارَت ہے۔ حدیث پاک میں ہے جب دومسلمان مُلاقات کرتے ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتا ہے (یعنی مُصَافَحہ کرتا ہے) تو اللہ پاک کے ذمۂ کرم پر حق ہے کہ ان کی دعا قبول فرما لے۔( مسند امام احمد ، مسند انس بن مالک ،5/401،حديث: 12786) Dمُصَافَحہ کرنے سے ایک باطنی بیماری بغض و کینہ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ حدیث ِ پاک میں ہے :مُصَافَحہ کیا کرو کینہ دور ہوگا اور تحفہ دیا کرو محبت بڑھے گی اور بغض دور ہوگا ۔( موطااما م مالک، کتاب حسن الخلق ، باب ماجاء فی المہاجرۃ ، ص482،حدیث:1731) (ہفتہ وار اجتماع ۲۳ ستمبر۲۰۲۱)

(14): ’’ خندہ پیشانی سے ملنے کے فوائد وثمرات ‘‘

(1):خندہ پیشانی سے ملاقات کرنا افضل ترین عَمَل ہے۔( حسن اخلاق، ص15) (2):خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے والے کو 69 مغفرتیں ملتی ہیں، رسولِ اَکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشاد فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مُصَافَحہکرتے ہیں تو ان کے درمیان70 مغفرتیں تقسیم کی جاتی ہیں69 مغفرتیں اس کے لئے ہوتی ہیں جو ان دونوں میں سے زیادہ خندہ پیشانی سے ملاقات کرتا ہے۔( مکارم الاخلاق للخرائطی،باب ما يستحب من مصافحۃاخيہ المسلم…الخ،4/175،حديث:1028) (3):خندہ پیشانی اور مسکرا کر ملنے سے اپنائیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ (4):مسکرا کر ملنا لوگوں کو خوشی دیتا ہےجو بسا اوقات کثیر مال و دولت سے بھی نہیں ملتی۔ حدیث پاک میں ہے: لوگوں کو تم اپنے اموال سے خوش نہیں کرسکتے لیکن تمہاری خندہ پیشانی اورخوش اخلاقی انہیں خوش کرسکتی ہيں۔( شعب الایمان ، باب حسن الخلق ،فصل فی طلاقۃ الوجہ ،6/253 ،حدیث:8054) (5):مسلمانوں کا آپس میں خندہ پیشانی سے ملنا شریعت کومحبوب ہے، اس پر اَجر دیا جاتا ہے اور یہ آپس میں محبت اور اُخوَّت کا پیش خیمہ ہے۔( فیضان ریاض الصالحین،2/343)(6):خندہ پیشانی سے ملنا اُنسیت کا سبب اور تنگ دلی سے ملنا وحشت کاباعث ہے۔( دین ودنیا کی انوکھی باتیں ،ص84) (7):خَندہ پیشانی کے ساتھ مُلاقات کرنے والا اللہ پاک كا زیادہ محبوب ہے، فرمان مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: جب دو مسلمان مُلاقات کرتے ہیں اور ان میں سے ایک اپنے بھائی کو سلام کرتا ہے تو ان میں سے اللہ پاک کے نزدیک زیادہ محبوب وہ ہوتا ہے جو اپنے بھائی سے زیادہ گرم جوشی سے مُلاقات کرتا ہے۔( مسند بزار، مسند عمر بن الخطاب،1 /437، حدیث :308) (8):لوگوں سے خندہ پیشانی سے مسکرا کر ملنا نبوت کے اخلاق میں سے ہے۔( شرح صحیح البخاری لابن بطال،کتاب الجہاد،باب من لایثبت علی الخیل،5/193)(9): خندہ پیشانی سےملاقات کرنا دل کی کشادگی کا سبب ہے۔(10): خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے والے سے لوگ ملنا اور گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں۔(11):حکماء کا قول ہے کہ کوئی بھلائی، خوش روئی، خوش گفتاری اور خندہ پیشانی کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتی۔( مکاشفۃ القلوب،الباب السابع بعدالمائۃ فی فضل ضیافۃ الفقراء،ص313)(12):کریم و مہربان شخص کی یہ علامت ہے کہ وہ ملاقات کے لئے آنے والے ہر شخص کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے اور اس کی طرف مکمل طور پر مُتَوجّہ ہوتا ہے۔( بريقۃمحموديۃفی شرح طريقۃ محمديۃ،الباب الثامن السخریہ والاستہزاء ، 5/36) (13):خندہ پیشانی سے ملاقات کرنا اللہ پاک کے بندوں کا زیور ہے۔( الزهد الكبير للبيهقی، ص288 ،حديث:752) (14):اگر ملاقات کرنے والے کے پاس دینے کے لیے کوئی مادی چیز نہ ہو تب بھی اس کا مسکراہٹ کے ساتھ ملنا خود ایک صدقہ اور نیک عمل ہے۔ (15):بسا اوقات چہرے کی مسکراہٹ مریض کے لیے دوا ثابت ہوتی ہےچنانچہ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ مریض کی عیادت کے وقت مسکراہٹ اس کی طبیعت کی بحالی کا سبب ہوتی ہے۔(16):خندہ پیشانی سے ملاقات کرنا دل کی سختی کو دور کرتاا ور شخصیت میں نکھارپیدا کرتا ہے۔ (ہفتہ وار اجتماع نومبر۲۰۲۱)

(15): ’’ عیب پوشی کرنے کے فوائد وثمرات ‘‘

فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ کریم دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔( مسلم، کتاب الذکر والدعا، باب فضل الاجتماع علی ...الخ،ص1039،حدیث:2699) جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو دیکھ لے اور پھر اس کی پردہ پوشی کرے تو اس کو اﷲ پاک اتنا بڑا ثواب عطا فرمائے گا جیسے کہ زندہ دفن کی ہوئی بچی کو کوئی قبر سے نکال کر اس کی زندگی کا سامان کردے۔( مسند طیالسی، مسند عقبۃ بن عامر، ص345،حدیث:1098) جو شخص اپنے بھائی کا عیب دیکھ کر اس کی پَردَہ پوشی کر دے تو وہ جنَّت میں داخِل کردیا جائے گا۔( مسند عبد بن حمید، ص279، حدیث:885) جو مسلمان کی ایک عیب پوشی کرے گااللہ پاک اس کی سات سو عیب پوشیاں فرمائے گا۔( مرآۃ المناجیح ، 6 /552) مسلمان کی برائیوں پر پردہ ڈالنا اس کے ساتھ خیرخواہی کرنا ہے۔( عمدة القاری، کتاب الايمان ، باب قول النبی:الدین النصیحۃ ، 1/470 ملخصاً)امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: دوسروں کے عُیُوب کی پردہ پوشی اور ان سے لا علمی کا اظہار کرنا دین داروں کا شعار ہے۔ لوگوں کی برائیاں چھپانے اور خوبیاں ظاہر کرنے کی ترغیب دلانے کے لئے تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ پیارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا مانگتے ہوئے رَبِّ کریم کو ان صفات سے یاد فرمایا:” اےخوبیاں ظاہر کرنے والے اور برائیاں چھپانے والے!“ (احیاء العلوم، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ، الباب الثانی،2/220) (ہفتہ وار اجتماع (۱۶ دسمبر ۲۰۲۱))

(16): ’’ جھگڑا نہ کرنے کے فوائد وثمرات ‘‘

(1):فرمان ِمصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جو غلطی پر ہوتے ہوئے جھگڑنا چھوڑ دے اس کے لئے جنت کے کنارے پر ایک گھر بنایا جائے گا اور جو حق پر ہوتے ہوئے جھگڑنا چھوڑدے گا اس کے لئے جنت کے درمیان میں ایک گھر بنایا جائے گا۔) ترمذی ، کتا ب البروالصلۃ ، باب ماجاء فی المراء ، ص484،حدیث:1992( (2): لڑائی جھگڑے اور جھوٹ سے بچنے والے کو کامِل مَومِن قرار دیا گیاہے ،حدیثِ پاک میں ہے:بندہ پورا مَومِن نہیں ہوتا جب تک مذاق میں بھی جھوٹ کو نہ چھوڑ دے اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑ دے، اگرچہ سچا ہو۔) مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ،4/375،حدیث:8862( (3): لڑائی جھگڑے سے بچنا گمراہی سے حفاظت ہے،حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جو قوم ہدایت پر رہنے کےبعد گمراہ ہوئی وہ جھگڑوں کے سبب گمراہ ہوئی۔) ترمذی ، کتاب التفسیر، باب ومن سورة الزخرف،ص751،حدیث :3253( (4): لڑائی جھگڑے سے بچنا ایمان کی حقیقت پا لینے کا ذریعہ ہے، حدیث پاک میں ہے:6 چیزیں جس شخص کے اندر ہوں گی وہ ایمان کی حقیقت کو پالے گا :ان میں سے ایک ”حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہ کرنا“ بھی ہے۔( تعظیم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروزی ،ست من کن فیہ ..الخ ،1/ 436،حديث:443) (5): لڑائی جھگڑے سے بچنے والے کا دل سخت نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے دل میں کینہ پیدا ہوتا ہے۔( احیاء العلوم ،کتاب آفات اللسان،3/145) (6): لڑائی جھگڑے سے بچنے والا اللہ پاک کی ناراضی مَول لینے سے بچ جاتا ہے۔ کیونکہ جوشخص بے جا (ناجائز) جھگڑتاہے، وہ ہمیشہ اللہ پاک کی ناراضی میں ہوتاہے،یہاں تک کہ اسے چھوڑدے۔( موسوعۃ ابن ابی الدنیا، کتاب الصمت وآداب اللسان، 7/111، حدیث:153) (7): لڑائی جھگڑا چھوڑ دینا ایمان کی لذّت پا لینے کا سبب ہے،فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے : جس میں 3 باتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پالے گا۔ان میں سے ایک”حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دینا “ہے۔( معجم كبير،4/498، حدیث:8702ملتقطا) (8): لڑائی جھگڑے سے بچنے والے کو شفاعتِ مصطفےٰ نصیب ہونے کی بَشَارَت ہے۔( ابانۃ الكبرى لابن بطۃ،باب فی المراء و الخصومات...الخ،1/ 489،حدیث:532 ماخوذًا) (9): لڑائی جھگڑے سے بچنے والے کے اعمال ضائع ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔( ابانۃ الكبرى لابن بطۃ،باب فی المراء و الخصومات...الخ،1/ 489،حدیث:532ماخوذًا) (10): لڑائی جھگڑوں سے بچنے والوں کے گھر امن و سکون کے گہوارے بن جاتے ہیں۔(11): لڑائی جھگڑا ترک کرنے میں فتنہ و فساد سے امان ہے۔ (ہفتہ وار اجتماع(۲ دسمبر ۲۰۲۱))

(17): ’’ معاف کرنے کے فائدے اور ثوابات‘‘

معاف کرنا بخشش کا ذریعہ ہے۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: مُعَاف کرو! اللہ پاک تمہیں مُعَاف فرمائے گا۔روزِ قِیَامت مُعَاف کرنے والے کا حساب آسانی سے لیا جائے گا اور اسے جَنّت میں داخِل کر دیا جائے گا۔مُعَاف کرنے سے عِزت بڑھتی ہے۔( مسلم، كتاب البر والصلة...الخ، باب استحباب العفو والتواضع، ص١٠٠٢، حديث:٢٥٨٨)مُعَاف کرنے والا اللہ پاک کے ہاں زیادہ عِزت والا ہے۔ شُعَبُ الْاِیْمان میں ہے: حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عَرْض کیا: اِلٰہی! تیرے حُضُور کون زِیادہ عِزت والا ہے؟ فرمایا: جو بدلہ لینے کی طاقت ہوتے ہوئے بھی مُعَاف کر دے۔( شعب الايمان، با ب فى حسن الخلق، ٦/٣١٩، حديث:٨٣٢٧بتغير قليل) مُعَاف کرنا اَفْضَل اَخْلاق سے ہے۔( مستدرك، كتاب البروالصلة، باب من أراد أن يمد...الخ، ٥/٢٢٤، حديث:٧٣٦٧ملخصًا)مُعَاف کرنے میں اَمن اور ہِدایت ہے۔ چنانچہ حدیثِ پاک میں شکر، صبر اور اِسْتِغْفار کرنے اور ظالِم کو مُعَاف کر دینے والوں کے مُتَعَلِّق فرمایا: ایسے لوگ امن وہدایت والے ہیں۔( معجم كبير، ٤/٦٩، حديث:٦٤٨٢)مُعَاف كرنا فتنوں سے بچاتا ہے۔ مُعَاف کرنے سے مُعَاشرے میں اَمن قائم ہوتا ہے۔ عفو و درگزر کی بَرَکت سے نفرتیں مٹتیں، محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ مُعَاف کرنے کی عادَت نیکی کی دعوت عام کرنے میں ترقی کا سبب ہے۔

لڑائی جھگڑے کے نقصانات:

بہت جھگڑالو اللہ پاک کے حُضُور ناپسندیدہ ہے۔( بخارى، كتاب فى المظالم والغضب، باب قول الله تعالى..الخ، ص٦٣٣، حديث:٢٤٥٧)لڑائی جھگڑا دِل کو بگاڑتا اور نِفاق پیدا کرتا ہے۔( حلية الاولياء، محمد بن على الباقر، ٣/٢١٥، رقم:٣٧٤٩)دُنیاوی لڑائی جھگڑا منحوس ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ پاک کی آتی ہوئی رَحمتیں رُک جاتی ہیں۔( مرآۃالمناجیح، ۳/۲۱۰ملتقطاً)لڑائی جھگڑا کے سبب غیبت، چغلی، حَسَد، بُغْض وکینہ، گالی گلوچ وغیرہ کئی بڑے گُنَاہوں کے دَرْوازے کھل جاتے ہیں اور کبھی معمولی لڑائی قتل جیسے گھناؤنے جُرْم کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ لڑائی جھگڑے سے آپَس کا اتحاد ٹُوٹتا، محبتیں کم ہوتی، نفرتیں بڑھتی، گھر ٹُوٹتے، مُعَاشَرہ تباہ ہوتا، طاقت کمزور ہوتی، دُشْمن غالِب آتا، وَقْت برباد ہوتا بلکہ کبھی ہزاروں لاکھوں کی رقْم بھی ضائع ہوتی ہے۔(نیکیوں کا ثواب ح۱، ص ۱۲۹)

(18): ’’ صلح کروانے کے فائدے اور ثوابات ‘‘

صلح کروانا اعلیٰ درجے کی عِبَادت ہے۔( تفسیرصراط الجنان، پ٢٦، الحجرات، تحت الآیۃ: ٩،٩/٤١٦ ملخصاً) صلح کروانا نفل نمازوں، نفل روزوں اور نفلی صدقہ سے اَفْضَل عَمَل ہے،سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟پھر فرمایا: آپس میں روٹھے ہوؤں کی صلح کروا دینا۔( ابو داود،کتاب الادب، باب فى اصلاح ذات البين، ص٧٧١، حدیث:٤٩١٩) صلح کروانا جنت میں لے جانے والا عمل ہے،حدیثِ پاک میں ہے:جس نے دو۲ شخصوں کے درمیان صلح کروائی، اس کے لئے جنّت واجب ہو گئی۔( بحر الدموع،الفصل التاسع والعشرون:ذم النميمة،ص١٥٦)صلح کروانا اَفْضَل صدقہ ہے۔( شعب الایمان، باب فى اصلاح الناس اذامرجوا...الخ، ٧/ ٤٩٠، حدیث: ١١٠٩٢) صلح کروانے والے کو ہر کلمے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے، اللہ پاک اس کا مُعَامَلہ دُرست فرما دیتا ہے اور اس کے پہلے گُنَاہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترھیب، کتاب الادب و غيره، باب الترغيب فى اصلاح الناس،ص٨٩٣،حدیث:٩)صلح کروانے والے اللہ پاک کے خاص بندے ہیں۔( حلیة الاولیاء، ثور بن يزيد،٦/٩٨، رقم: ٧٩٤٨)صلح کروانے میں مسلمانوں کی خیر خواہِی ہے۔( تفسیرنورالعرفان، پ۵، النساء، تحت الآیۃ: ۳۵)صلح کروانے والا اَمن قائِم کرتا اور ہدایت کا سبب بنتا ہے۔ صلح کروانے والا بڑے گُنَاہوں کا دروازہ بند کرتا ہے۔

مسلمانوں میں پُھوٹ ڈلوانے کے نقصانات:

فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہے۔(پ۲، البقرۃ:۱۹۱) مسلمانوں کو لڑانا جہنّم میں لے جانے والا کام ہے، نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: جس نے دو۲ شخصوں کے درمیان دُشمنی ڈالی وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔( بحر الدموع،الفصل التاسع والعشرون:ذم النميمة،ص١٥٦)لوگوں کو لڑانا دِین کو سخت نقصان پہنچاتاہے، ترمذی شریف کی حدیث میں ہے: لوگوں کو لڑانا دِین کو مُونڈھ دیتا ہے جس سے دین ختم ہو جاتا ہے۔( ترمذی،ابواب صفة القيامة،٥٦- باب،ص٥٩٣،حدیث:٢٥٠٨ماخوذًا)مسلمانوں کو لڑانا شیطان کا پسندیدہ عَمَل اور منافقوں کا طریقہ ہے۔پُھوٹ ڈلوانا مُعَاشرے کو تباہ کرتا اور کئی گُنَاہوں مثلاً غیبت، چغلی، قَتْل وغیرہ کے دروازے کھولتا ہے۔ پھوٹ ڈلوانے والا محبتوں کا دُشمن ہے۔ (نیکیوں کا ثواب ح۱، ص ۱۲۹)

(19): ’’ مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کے فائدے اور ثواب ‘‘

مسلمان کی حاجَت پوری کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔ (شرح بخاری لابن بطال، کتاب الہبۃوفضلہا التحریض، باب فضل المنیحۃ،7 /149- 153ملتقطا) اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے والا ساری عمر اللہ پاک کی عبادت کرنے والے کی طرح ہے ۔ (مسندالشامیین، 3/196،حدیث:2068)جو کسی مومن کی کوئی حاجت پوری کرے تواللہ پاک کے ذِمَّۂ کرم پر حق ہے کہ وہ جنت میں اسے خُدّام (نوکر)عطاکرے۔ (مکارم الاخلاق للطبرانی،باب فضل معونۃ المسلمین...الخ،ص192،حدیث:94) بندہ جب تک اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ پاک اس کی ضرورت پوری فرماتا رہتا ہے۔ (ترمذی ،کتاب الحدود،باب ماجاء فی الستر علی المسلم، ص366 ، حدیث :1426) سب سے افضل عمل مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرناہے خواہ اُس کی ستر پوشی کرکے ہو یا اسے شکم سیر کرکے یا اس کی حاجت پوری کرنے کے ذریعے ہو۔( معجم اوسط ،4/24 ،حديث:5081 ملخصاً)جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلے اس کا یہ عمل اس کے لیے 10 سال اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔( معجم اوسط ،5/279، حدیث:7326) جس نے کسی کی ضرورت میں اس کی مدد کی اللہ کریم اسے اس دن ایسی جگہ پر ثابت قدمی عطا فرمائے گا جس دن قدم پھسلیں گے۔( موسوعۃابن ابی دنیا، کتاب قضاء الحوائج ،4/169، حدیث: 36)جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلتاہے اللہ کریم اس کے اپنی جگہ واپس آنے تک ہر قدم پر ایک نیکی لکھتاہے ۔ پھر اگر اس کے ہاتھو ں وہ حاجت پوری ہوگئی تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل جاتاہے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا اور اگر اس دوران اس کا انتقال ہوگیا تو وہ بغیر حساب جنت میں داخل ہوگا ۔( مسند ابی یعلی، مسند انس بن مالک،2/397، حدیث:2790) فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے، میں اس کے میزان کے قریب کھڑا ہوں گا،اگر اس کی نیکیاں زیادہ ہوئیں تو صحیح ورنہ میں اس کی شفاعت کروں گا۔( حلیۃ الاولیاء، مالک بن انس ،6/389، رقم:9038)جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے اس کے ساتھ جاتا ہے اور اس کی حاجت پوری کردیتا ہے تو اللہ کریم اس کے اور جہنم کے درمیان 7 خندقیں بنادیتا ہے اور دو خندقوں کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے کے برابر ہوتا ہے۔( موسوعۃابن ابی دنیا، کتاب قضاء الحوائج ،4/167، حدیث: 35)اللہ کریم کے کچھ ایسے انعامات ہیں جو ان لوگوں کے لئے مخصوص ہیں جو لوگوں کی حاجت روائی کرتے رہتے ہیں ۔( موسوعۃابن ابی دنیا، کتاب قضاء الحوائج ،4/167، حدیث: 35)جو اپنے بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلا تو وہ ایسا ہے جیسے رمضان میں روزے رکھے اور اعتکاف کیا۔( حلیۃالاولیاء، مالک بن انس، 6/383، حدیث:9012)جب اللہ کریم کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اس سے مخلوق کی حاجت روائی کا کام لیتا ہے۔ (شعب الایمان،باب فی التعاون علی البر والتقوی،6/117،حدیث:6759) (نیکیوں کا ثواب ح۲، ص ۲۷۰)

(20): ’’ نگاہوں کی حفاظت کے فائدے اور ثوابات‘‘

اپنی نگاہوں کی حِفَاظَت کرنے میں اللہ پاک کے حکم کی فرمانبرداری ہے جو بندے کی سعادت مندی کی معراج ہے۔ نظر کی حِفَاظَت کرنا جنت میں لے جانے والا کام ہے۔( بخارى، کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان، ص 1591 ،حدیث:6474 ماخوذاً) نگاہوں کی حِفَاظَت ایمان کی مٹھاس پانے کا ذریعہ ہے۔ (معجم کبیر،5/127 ،حديث:10211 ماخوذا) نگاہوں کی حفاظت بروزِ قیامت سُرخروئی (التر غیب والتر ہیب ،کتاب الجہاد ، باب فی الحراسۃ فی سبیل اللہ ،ص424 ،حديث:12) اور جہنم سے بچنے کا سبب ہے۔ (معجم کبیر،8/347،حديث:16347) نَظَر کی حفاظت کرتے ہوئے اسے جھکائے رکھنے، بے فائدہ وبے کار چیزوں کی طرف نہ دیکھنے سے سینہ صاف ہوتا ہےدل فارغ ہو کر کثیر وسوسوں سے راحت پاتا اور نفس آفات سے سلامت ہو کر نیکیوں میں اضافے کی طرف بڑھتاہے ۔( منہاج العابدین، الفصل الاول :العین، ص162) وہ شخص جس نے حرام چیزوں کو دیکھنے سے خود کو بچائے رکھا وہ بروزِ قیامت عرش کے سائے میں ہوگا جبکہ لوگ حساب وکتاب میں مشغول ہوں گے۔ (الترغيب والترہیب لقوام السنۃ،3/144،حدیث:2256ملتقطا)جو لوگ اپنی نگاہ حَرام چیزوں پر نہیں ڈالتےاللہ ان کی آنکھوں اور دل کو نورانی کردیتا ہے۔( تفسیرابن کثیر،پ18، النور، تحت ا لآیۃ:30 ، 3/386) حدیثِ پاک میں ہے، جس کی نظر کسی عورت کے حسن وجمال پر پڑجائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے تو اللہ کریم اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذّت وہ اپنے دل میں پاتا ہے۔ (معجم کبیر،4/320،حديث:7748)جو حَرام چیزوں سے اپنی آنکھ کی حفاظت کرتا ہے اللہ پاک اسے ایسی حکمت عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے اس کی گفتگو سننے والے ہدایت پائیں گے۔( البدایۃوالنہایۃ، باب بعض الحوادث التى وقعت،الجز:11، 6/199) حدیث پاک میں ہے ، ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی سوائے اس آنکھ کے جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بازرہی اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہی اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئی اگرچہ اس سے مکھی کے سر کے برابر ہی آنسو نکلا ہو۔( مسند الفردوس، 3/256، حدیث: 4759)

نگاہوں کی حفاظت نہ کرنے کے نقصانات:

جس نے نامَحرم سے آنکھ کی حفاظت نہ کی اُس کی آنکھ میں بروزِ قِیامت آگ کی سَلائی پھیری جائی گی۔( بحر الدموع،الفصل السابع والعشرون،ص148) اللہ کے پیارے نبی حضرت عیسیٰعلیہ السّلام فرماتے ہیں: اپنی نظر کی حفاظت کرو کیونکہ یہ دل میں شہوت کابیج بوتی ہےاورنظر ڈالنےوالےکےلئےاس کافتنہ کافی ہے۔( مختصر منہاج العابدین ،ص63)آنکھوں کی حفاظت نہ کرنا حافظے کی کمزوری کا سبب ہے۔( باحیانوجوان ،ص44 ماخوذاً)بدنگاہی شیطان کا ایساکامیاب اور زہریلا تیر ہے کہ بہت سے عابد و زاہد اس سے زخمی ہوکر جہنم میں چلے گئے۔( الروض الفائق، ص16ماخوذا) نوٹ: نگاہوں کی حفاظت سے مُتَعَلِّق تفصیلی معلومات کے لئے بہارِ شریعت جلد 3 حصہ 16سے دیکھنے اور چھونے کا بیان مطالعہ کیجئے۔(نیکیوں کا ثواب ح۲، ص ۲۲۰)

(21): ’’ بیٹیوں کی پرورش کے فائدے اور ثوابات ‘‘

بیٹیوں کی پَروَرِش جنت میں داخلے (معجم کبیر ،5/340،حديث:11377)اور جہنم سے نَجات کا ذریعہ ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الادب ،باب برالوالد ....الخ ،ص591 ،حدیث:3669)بیٹیوں کی پَروَرِش کرنے والے کو جنت میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پڑوس نصیب ہو گا ۔( معجم اوسط ،4/124،حديث:5432 ملخصاً) بیٹیوں کی پَروَرِش میں کوشش کرنے والا اللہ پاک کی راہ میں روزہ رکھنے اور رات میں قیام کرنے والے مُجاہِد کی مثل اجر پاتا ہے۔ (مسند بزار، مسند ابو ہریرۃ،17/116، حدیث:9689)حدیثِ پاک میں ہے:جو شخص بازار سے کوئی چیز خرید کر صرف بیٹیوں کو دے تو اللہ پاک ایسے شخص پر نظرِ رحمت فرمائےگا اور جس پر اللہ کریم نظرِ رحمت فرمائے اسے عذاب نہ دے گا۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی،باب العطف علی البنات والاحسان الیہن،3/301،حديث:758) بیٹیوں کی پَروَرِش کرنے والے کو بروزِ قیامت محبوبِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ساتھ نصیب ہوگا، فرمانِ مُصْطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :جس نے دو بچیوں کے بالغ ہونے تک ان کی پَروَرِش کی تو میں اور وہ شخص قیامت کے دن اس طر ح آئيں گے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر دکھایا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃوالآداب ، باب فضل الا حسان الی البنات ص1015،حدیث:2631ملخصاً)حصولِ ثواب کی نیت سے بیٹیوں کی پَروَرِشپر صبر کرنےوالے سے اللہ پاک مَحبَّت فرماتا ہے۔( کنزالعمال، کتاب النکاح،،جز16، 8/187، حدیث:45372) بیٹیوں کی کَفَالَت کرنے پر تا قیامت مدد کی خوشخبری دی گئی ہے حدیث پاک میں ہے، جب كسى كے ہاں بىٹى كى ولادت ہوتى ہے تو اللہ پاک اس كے گھر فِرِشْتوں كو بھىجتا ہے، جو آكر كہتے ہىں: اے گھر والو!تم پر سلامتی ہو۔پھر فِرِشْتے اپنے پروں سےاس لڑکی كا اِحَاطہ كر لىتے ہىں اور اس كے سر پر ہاتھ پھىرکر كہتے ہىں: اىك كمزور لڑكى كمزور عورت سے پىدا ہوئى،جو اس كى كفالَت كرے گا قىامت تك اس كى مدد كى جائے گى۔( معجم صغیر،ص69، حديث:69) بیٹیوں کی پَروَرِش ان کی مَحبَّت اور ہمدردی پانے کا سبب و ذریعہ ہے، فرمانِ مُصْطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:بیٹیوں کو بُرا مت کہو ،میں بھی بیٹیوں والا ہوں،بے شک بیٹیاں تو بہت محبت کرنے والیاں ، غمگسار، اور بہت زیادہ مہربان ہوتی ہیں ۔( مسند الفردوس ،5/37 ،حدیث:7385) بیٹی کے والِد کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ پاک بیٹی کے باپ کا مدد گارہے۔(سیر روح البیان،پ25، الشوری ،تحت الآیۃ:49 ،8/377ماخوذاً)

بیٹیوں کی پرورش نہ کرنے کے نقصانات:

(22): ’’ سوال نہ کرنے کے فوائد وثمرات ‘‘

(1)جب تک بندہ کسی سے سوال نہیں کرتا اس کے لئے فقر و تنگ دستی کا دروازہ بند رہتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے جس بندے نے (بِلاضرورت)سوال کا دروازہ کھولا اللہ پاک اس پر فقر کا دروازہ کھول دے گا۔( ترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء مثل الدنیا مثل اربعۃ نفر،ص 557، حدیث:2325)(2)جو کسی سے کوئی چیز مانگنے سے بچتا ہے۔ اللہ پاک ا سے مال دے کر اُس کی حاجات پوری فرما دیتا ہے اور اُسے دوسروں سے بے نیاز کر دیتا ہے یا اُس کے دل کو قناعت سے بھر دیتا ہے۔( دلیل الفالحین ، باب فی النفقۃ علی العیال ، 2 /123 ، تحت الحدیث : 297) (3)دوسروں کی چیزوں سے بے پرواہ رہنا اور ان سے کچھ نہ مانگنا انسان کی عزت میں اضافہ کرتا اور اسے لوگوں کےنزدیک پسندیدہ بنادیتا ہے۔2 فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ کیجئے: (1) مومن کی عزت لوگوں سے بے نیاز ہونے میں ہے۔( شعب الایمان ،باب فی الصلوات، 3 / 171 ، حدیث : 3248)(2) دوسروں کے مال سے بے نیاز ہوجاؤ!وہ تم سے مَحبَّتکریں گے۔( ابن ماجہ ،کتاب الزہد، باب الزہد فی الدنیا، ص 667 ، حدیث : 4102)(4)سوال سے بچنے والے کو حضورِ انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی امان میں لے ليتے ہيں پھر اس پر نہ شیطان کا داؤ چلتا ہے، نہ نفس ِاَمارہ قابو پاتا ہے۔( مرآۃ المناجيح ،3/68 بتصرف قلیل)(5)فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: اللہ پاک اپنے اس بندۂ مومن کو پسند فرماتا ہے، جو محتاج اور عیال دار ہونے کے باوجود سوال کرنے سے بچتا ہے۔( ابن ماجہ،کتاب الزہد، باب فضل الفقر،ص670، حدیث: 4121) (6)جنت میں سب سے پہلے جانے والے 3 اشخاص کی فہرست میں ایک شخص وہ بھی شامل ہے جو پاک دامن، عیال دار اور سوال کرنے سے بچنے والا ہے۔( ابن خزیمۃ،کتاب الزکاۃ ،باب ذکرادخال مانع...الخ،ص515، حدیث:2249)(ہفتہ وار اجتماع ۱۴ اکتوبر۲۰۲۱)

(23): ’’ رزق حلال کمانے کے فائدے اور ثوابات‘‘

حلال اور پاکیزہ غِذا حاصِل کرنی بڑی عِبادت ہے۔ اس سے عِبادت میں لذت آتی ہے۔ (تفسیرنورالعرفان، پ18، المومنون، تحت الآیۃ:51 ) رزقِ حَلال کمانا انبیائے کِرام علیہمُ السّلام کی سنّتِ مُبارَکہ ہے۔ (تفسیر روح البیان، پ۲، البقرۃ، تحت الآیۃ:169، 1/276)اللہ پاک پیشہ ور مَومِن کو پسند فرماتا ہے ۔( معجم اوسط،6/327 ،حديث:8934) جس نے حَلال مال کمایا اور سنّت کے مُطابِق عَمَل کیا اور لوگ اس کے شر سے مَحْفُوظ رہے تو وہ جنت میں داخِل ہو گا۔ (ترمذی ،ابواب صفۃ القیامۃوالرقائق والورع،54- باب ،ص595 ،حديث:2520) بعض گناہ ایسے ہیں جنہیں رِزق حاصل کرنے میں پہنچنے والا رَنج و غم ہی مٹا سکتا ہے ۔ (معجم اوسط ، 1/ 42، حدیث :102 ماخوذًا) فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: جو کوئی سوال سے بچنے، اَہل وعیال کی پرورش اور پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنے کے لئے رِزقِ حلال کمائے تو بروزِ قِیامَت اُس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمکتا ہو گا۔ (شعب الایمان ، باب فی الزھد وقصر الامل ،7/298، حدیث :10375)حدیثِ پاک میں ہے:جسے مزدوری سے تھک کر شام آئے اُس کی وہ شام، شامِ مغفِرت ہو۔( معجم اوسط ،5/337 ، حدیث:7520) جو شخص رزقِ حلال کی تلاش میں تھک کر سو جائے اللہ اس سے راضی ہو جاتا ہے۔( شعب الایمان،باب التوکل والتسلیم،2/86، حدیث:1232) جو کوئی کمائی کے لئے نکلتا ہے تو اَعمال لکھنے والے فرشتے اس کے لئے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک تیری اس حرکت میں بَرَکَت دے اور تیری کمائی کو جنت کا ذخیرہ بنائے اور اس دعا پر زمین و آسمان کے فرشتے آمین کہتے ہیں۔( تفسیررو ح البیان ، پ 2، البقرة، تحت الآیۃ:169 ،1/ 272، ملخصاً) حلال کمائی سے عبادات میں لذّت ،دل میں بیداری،آنکھوں میں تری،دعا میں قبولِیَّت پیدا ہوتی ہے۔ (مرآۃ المناجیح، 7/95)

حلال روزی نہ کمانے کے نقصانات:

حلال روزی کے بجائے حَرام کمانا گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔( شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان،4/396، حدیث:5527 ماخوذًا) جو بندہ مالِ حَرام کما کر صدقہ کرتا ہے تو وہ صَدَقہ قبول نہیں ہوتا۔حرام کمائی میں بَرَکت نہیں ہوتی ۔ جو بندہ حرام کمائی چھوڑ کر مرجائے تو وہ اس کےلئے جہنَّم میں جانے کا سامان ہے۔( معجم کبیر ،5/160 ،حديث:10401) حَرام کمائی سےقوتِ دل اور قوتِ نظر دونوں بُری طرح متأثر ہوتے ہیں،بدن اور قوتِ حافظہ میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے،نہ حرام رزق میں برکت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی مدد سے اچھے کاموں پر مدد ملتی ہے۔( الجامع فی الحث علی حفظ العلم،ص95)(نیکیوں کا ثواب ح۲، ص ۱۸۲)

(24): ’’ نماز کے انتطار کرنے کے فضائل و برکات‘‘

(1):نماز کے انتظار میں بیٹھنے والا قیام کرنے والے کی طرح ہے اور اپنے گھر سے نکلنے کے وقت سے لوٹنے تک نمازیوں میں لکھاجاتا ہے۔( ابن حبا ن ، کتا ب الصلاۃ ،با ب الامامۃ والجماعۃ ،ص624، حدیث:2038)(2):نماز کا انتظار کرنے والے کے لئے اللہ پاک کے معصوم فرشتے دعائے مغفرت ورحمت کرتے ہیں۔( مسلم ،کتا ب المساجد ، باب فضل صلاۃ الجماۃ...الخ ،ص240،حدیث:649) (3): نماز کا انتظار کرنا گناہوں کو اچھی طرح دھو دیتا ہے ۔( مستدرک ،کتا ب الطہارۃ ،با ب فضیلۃ تحیۃ الوضوء ، 1/342،حدیث: 468) (4): نماز کا انتظار کرنے والے خوش نصیب افراد پر اللہ پاک اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے۔ (5): آسمان کے دروازوں میں ایک دروازہ کھول دیتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے ، حضرتِ عبداللہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَروَرکے ساتھ نمازِمغرب پڑھی، نماز کے بعد جانے والے چلے گئے اور جسے وہیں بیٹھنا تھا وہ دوسری نماز کا انتظار کرنے لگا۔ پھر رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جلدی سے تشریف لائے اور فرمایا: تمہیں خوشخبری ہو! تمہارے ربِّ کریم نے آسمانوں کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا ہےاورفرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: میرے ان بندوں کودیکھوجنہوں نے ایک فرض ادا کرلیا اور دوسرے کےانتظار میں ہیں۔( ابن ماجہ ، کتاب المساجد والجماعات ،باب لزوم المساجد ،ص136،حدیث:801)(6):نماز کا انتظار کرنے والا نماز ہی میں ہوتا ہے ۔( بخاری ، کتا ب الاذان ،باب من جلس فی المسجد ینتظرالصلاۃ ، ص236،حدیث:661) (7): ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنے کا ثواب اسلامی سرحد پر دشمنانِ اسلام سے لڑنے اور اپنے ملک کی حفاظت کرنے کی مِثل ہے۔( بہشت کی کنجیاں، ص59 ملخصاً) (8): ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنے والا اس شہسوار کی طرح ہے جس نے اپنا گھوڑا اللہ پاک کی راہ میں باندھا اور یہ شخص اس گھوڑے کے پہلو سے ٹیک لگائے بیٹھا ہے اوریہ جہادِ اکبر میں ہے۔( مسند امام احمد،مسند ابی ہریرۃ ،4/374 ،حدیث:8857 ملخصاً) (9):مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھنے والے خوش نصیب کو اللہ پاک کے فرشتوں کی صحبت نصیب ہوتی ہے ۔( مستدرک ، کتاب التفسیر ،3/162 ، حدیث :3559 ماخوذاً) (10):نبی ِکریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میری اُمت کا ترکِ دنیا نماز کے انتظار میں مسجدوں میں بیٹھنا ہے ۔( الزھد لابن مبارک، باب التواضع ،1/190 ،حدیث:845) (11): نماز کا انتظار کرنے والا بھلائی پر رہتا ہے۔( تاریخ ابن عساکر، رقم3597، عبد اللہ بن میمون ....الخ ،33/258) (12): نماز کا انتظار کرنا نیکیوں میں اضافہ کرنے والا عمل ہے۔( ابن ماجہ ،کتاب الطہارۃ وسننھا ، باب ماجاء فی اسباغ الوضوء ،ص80،حدیث:427) (13): ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنادرجات بلند کرنے والا عَمَل ہے۔( مسلم،کتاب الطہارۃ،باب فضل اسباغ الوضوء...الخ،ص114،حدیث:251) (14): نماز کا اس طرح انتظار کرنا کہ ان میں فضول حرکت نہ ہو یہ عِلِّیِّیْنمیں نام لکھے جانے کا سبب ہے۔( ابوداود،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی فضل المشی الی الصلاۃ،ص102،حدیث:558) (ہفتہ وار اجتماع۳۰ دسمبر۲۰۲۱)