’’رمضان واگیرہ کے مدنی پھول’’

’’ رمضان وغیرہ کے مدنی پھول ‘‘

(01): ’’ ماہ رمضان کے ۱۳ مدنی پھول ‘‘

{۱}کعبۂ مُعَظّمہ مسلمانوں کو بلا کر دیتا ہے اور یہ آکر رَحمتیں بانٹتا ہے۔ گویا وہ(یعنی کعبہ) کنواں ہے اور یہ (یعنی رَمضان شریف) دریا ،یاوہ (یعنی کعبہ) دریا ہے اور یہ (یعنی رَمضان ) بارِش۔

{۲} ہر مہینے میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وَقت میں عبادت ہوتی ہے، مَثَلاً بقر عید کی چند (مخصوص) تاریخوں میں حج ،محرم کی دسویں تاریخ اَفضل ،مگر ماہِ رَمضان میں ہر دن اور ہَر َوقت عبادت ہوتی ہے۔ روزہ عبادت، اِفطار عبادت، اِفطارکے بعد تراویح کا اِنتِظار عبادت، تراویح پڑھ کر سحری کے اِنتِظار میں سونا عبادت، پھر سحری کھانا بھی عبادت، اَلْغَرَض ہر آن میں خدا(عَزّوَجَلَّ)کی شان نظر آتی ہے۔

{۳} رَمضان ایک بھٹی ہے جیسے کہ بھٹی گند ے لوہے کو صاف اور صاف لَوہے کو مشین کا پرزہ بنا کر قیمتی کردیتی ہے اور سونے کو زیور بنا کر اِستعمال کے لائق کردیتی ہے، ایسے ہی ماہِ رَمضان گنہگاروں کو پاک کرتااور نیک لوگوں کے دَرَجے بڑھا تا ہے۔

{۴} رَمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ا ور فرض کا ثواب70 گنا ملتا ہے۔

{۵} بعض عُلَما فرماتے ہیں کہ جو رَمضان میں مرجائے اُس سے سُوالاتِ قَبْر بھی نہیں ہوتے۔

{۶} اِس مہینے میں شبِ قدر ہے،گزشتہ آیت(یعنی پارہ2 سورۃ البقرۃ آیت 185) سے معلوم ہوا کہ قراٰن رَمضان میں آیا اور دُوسری جگہ فرمایا:

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱) (پ۳۰، القدر:۱) تَرجَمَۂ کَنْزُ الْاِیْمَان:بے شک ہم نے اِسے شبِ قَدْر میں اُتارا۔

دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ شبِ قدر رَمضان میں ہی ہے اور وہ غالباً ستائیسویں شب ہے، کیونکہ لَیلۃُ الْقَدْر میں نو حروف ہیں اور یہ لفظ سورۂ قَدر میں تین بار آیا۔جس سے ستائیس حاصل ہوئے معلوم ہو ا کہ وہ ستائیسویں شَب ہے۔

{۷} رَمضان میں دَوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں جنت آراستہ کی جاتی ہے، اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ اِسی لئے اِن دنوں میں نیکیوں کی زیادَتی اورگناہوں کی کمی ہوتی ہے جو لوگ گناہ کرتے بھی ہیں وہ نفسِ اَمارہ یا اپنے ساتھی شیطان ( ہمزاد) کے بہکانے سے کرتے ہیں ۔

{۸} رَمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں ۔( یعنی سحروافطار کے کھانے پینے کا)

{۹} قیامت میں رَمضان و قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رَمضان تو کہے گا: مولیٰ( عَزّوَجَلَّ)! میں نے اِسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا اور قراٰن عَرض کرے گا کہ یا ربّ(عَزّوَجَلَّ)! میں نے اِسے رات میں تلاوت و تراویح کے ذَرِیعے سونے سے روکا ۔

{۱۰} حضور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )رَمَضانُ الْمبارَک میں ہر قیدی کو چھوڑدیتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرماتے تھے، ربّ عَزّوَجَلَّ بھی رَمضان میں جہنمیوں کو چھوڑتا ہے،لہٰذا چاہئے کہ رَمضان میں نیک کام کئے جائیں اور گناہوں سے بچا جائے۔

{۱۱} قراٰن کریم میں صرف رَمضان شریف ہی کانام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے ، کسی دُوسرے مہینے کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل ۔ مہینوں میں صِرف ماہِ رَمضان کا نام قرآن شریف میں لیا گیا۔ عورتوں میں صرف بی بی مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکا نام قراٰن میں آیا ۔ صحابہ میں صرف حضرت( سَیِدُنا) زید ابنِ حارِثہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)کا نام قراٰن میں لیا گیا جس سے ان تینوں کی عظمت معلوم ہوئی۔

{۱۲} رَمضان شریف میں اِفطار اور سحری کے وقت دُعا قبول ہوتی ہے یعنی اِفطار کرتے وَقت اور سحری کھا کر ۔یہ مرتبہ کسی اور مہینے کو حاصل نہیں ۔

{۱۳} رَمضان میں پانچ حروف ہیں ر،م،ض،ا،ن۔رسے مراد رَحمتِ الٰہی، میمسے مراد مَحبّتِ الٰہی ، ضسے مراد ضمانِ الٰہی، اَلِف سے امانِ اِلٰہی،ن سے نورِ الٰہی۔اور رَمضان میں پانچ عبادات خصوصی ہوتی ہیں : روزہ، تراویح، تلاوتِ قراٰن، اِعتکا ف ، شبِ قَدر میں عبادات ۔تو جو کوئی صِدْقِ دِل سے یہ پانچ عبادات کرے وہ اُن پانچ اِنعاموں کا مستحق ہے۔ (تفسیر نعیمی ج۲ص۲۰۸)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(فیضانِ رمضان ص ۱۵ تا ۱۳)

(02): ’’ روزے کے گیارہ مدنی پھول ‘‘

جنتی دروازہ:

{۱}بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَیَّان کہا جاتا ہے ،اس سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہ ہوگا۔کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں ؟پس یہ لوگ کھڑے ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور اِس دروازے سے داخِل نہ ہوگا۔ جب یہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا پس پھر کوئی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔ (بُخاری ج۱ص۶۲۵حدیث۱۸۹۶)

سابقہ گناہوں کا کفارہ:

{۲}جس نے رَمضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اُس سے بچا تو جو(کچھ گناہ) پہلے کرچکا ہے اُس کاکفارہ ہو گیا ۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابنِ حَبّان ج۵ ص۱۸۳حدیث۳۴۲۴)

سابقہ گناہوں کا کفارہ:

{۲}جس نے رَمضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اُس سے بچا تو جو(کچھ گناہ) پہلے کرچکا ہے اُس کاکفارہ ہو گیا ۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابنِ حَبّان ج۵ ص۱۸۳حدیث۳۴۲۴)

جہنم سے 70سال کی مسافت دُور:

{۳}جس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت دور کردے گا۔ ( بُخاری ج۲ص۲۶۵حدیث۲۸۴۰)

ایک روزے کی فضیلت:

{۴}جس نے ایک دن کا روز ہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا حاصِل کرنے کیلئے رکھا ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا کہ ایک کوّا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہوکر مَرجائے۔ ( ابو یعلٰی ج۱ ص۳۸۳حدیث۹۱۷)

سرخ یاقوت کا مکان:

{۵}جس نے ماہِ رَمضان کاایک روزہ بھی خاموشی اور سکون سے رکھا اس کے لئے جنت میں ایک گھرسبز زَبرجد یا سرخ یا قوت کا بنایا جائے گا۔ (مُعجَم اَوسَط ج ۱ ص ۳۷۹ حدیث ۱۷۶۸)

جسم کی زکٰوۃ:

{۶}ہر شے کیلئے زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صَبْرہے۔ ( ابنِ ماجہ ج ۲ ص۳۴۷حدیث۱۷۴۵)

سونا بھی عبادت ہے:

{۷}روزہ دار کا سونا عبادت اور ا س کی خاموشی تسبیح کرنا اور اس کی دعا قبول او را س کا عمل مقبول ہوتا ہے ۔(شُعَبُ الْایمان ج۳ ص۴۱۵حدیث۳۹۳۸)

اَعضا کا تسبیح کرنا:

{۸}جو بندہ روزے کی حالت میں صبح کرتا ہے، اُس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اسکے اَعضا تسبیح کرتے ہیں اور آسمانِ دُنیا پر رَہنے والے (فرشتے) اس کے لئے سورج ڈوبنے تک مغفرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں ۔اگر وہ ایک یادورَکْعتیں پڑھتا ہے تویہ آسمانوں میں اس کے لئے نوربن جاتی ہیں اور حورِعین (یعنی بڑی آنکھوں والی حوروں )میں سے اُس کی بیویاں کہتی ہیں : اےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!تو اس کو ہمارے پاس بھیج دے ہم اس کے دیدار کی بہت زِیادہ مشتاق ہیں ۔اور اگر وہ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ یا سُبْحَا نَ اللہِ یا اَللہُ اَکْبَرُ پڑھتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اُ س کا ثواب سورج ڈوبنے تک لکھتے رہتے ہیں ۔ (ایضاً ص۲۹۹حدیث۳۵۹۱ )

جنتی پھل:

{۹}جس کو روزے نے کھانے یا پینے سے روک دیا کہ جس کی اسے خواہش تھی تو اللّٰہ تَعَالٰی اسے جنتی پھلوں میں سے کھلائے گا اور جنتی شراب سے سیراب کرے گا۔ (ایضاً ص۴۱۰حدیث۳۹۱۷ )

سونے کا دستر خوان:

{۱۰}قیامت والے دن روزہ داروں کیلئے ایک سونے کا دستر خوان رکھا جائے گا ، جس سے وہ کھائیں گے حالانکہ لوگ (حساب کتا ب کے) مُنتظِر ہوں گے۔ (کَنْزُ الْعُمّال ج۸ص۲۱۴حدیث۲۳۶۴۰)

سات قسم کے اعمال:

{۱۱} ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک اعمال سات قسم پر ہیں ، دو عمل واجب کرنے والے ،دو عملوں کی جزا ان کی مثل ،ایک عمل کی جزا اپنے سے دس گنا ، ایک عمل کی سات سوگنا تک اور ایک عمل ایسا ہے کہ اس کا ثواب اللّٰہ تَعَالٰی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔پس جو دو واجب کرنے والے ہیں {۱}وہ شخص جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّسے اِس حال میں ملا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی عِبادت اِخْلاص کے ساتھ اس طرح کی کہ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا تو اس کیلئے جنت واجب ہوگئی {۲}اور جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّسے اس حال میں ملا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو اس کیلئے دوزخ واجب ہوگئی۔اور جس نے ایک گناہ کیا تو اس کی مثل (یعنی ایک ہی گناہ کی ) جزا پائے گا اورجس نے صرف نیکی کا ارادہ کیا تو ایک نیکی کی جزا پائے گا۔اور جس نے نیکی کرلی تووہ دس ( نیکیوں کا اجر) پائے گا اور جس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں اپنا مال خرچ کیاتو اس کے خرچ کئے ہوئے ایک دِرہم کو سات سو دِرہم اور ایک دینار کو سات سو دینار میں بڑھا دیا جائے گا اور روزہ اللّٰہ تَعَالٰی کیلئے ہے اس کے رکھنے والے کا ثواب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ‘‘ (شُعَبُ الایمان ج۳ص۲۹۸حدیث۳۵۸۹ )

(فیضانِ رمضان ص ۷۱ تا ۶۹)

(03): ’’ روزے کے تین درجے ‘‘

روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار قصداً کھانے پینے اورجماع سے باز رہے ۔تاہم روزے کے کچھ باطنی آداب بھی ہیں جن کا جاننا ضروری ہے تاکہ حقیقی معنوں میں ہم روزہ کی برکتیں حاصِل کرسکیں ۔ چنانچہ روزے کے تین دَرَجے ہیں :

<

(۱) عوام کا روزہ (۲)خَواص کا روزہ (۳) اَخَصُّ الْخَواص کا روزہ (۱) عوام کا روزہ:

روزے کے لغوی معنٰی ہیں :’’رُکنا‘‘لہٰذا شریعت کی اِصطلاح میں صبح صادِق سے لے کر غروب آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے ’’رُکے رہنے‘‘کو روزہ کہتے ہیں اور یہی عوام یعنی عام لوگوں کا روزہ ہے۔

(۲)خَواص کا روزہ:

کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے تمام اَعضا کو برائیوں سے ’’روکنا‘‘خَوَاص یعنی خاص لوگوں کا روزہ ہے۔

(۳) اَخَصُّ الْخَواص کا روزہ:

اپنے آپ کو تمام تر اُمور سے ’’روک‘‘ کر صرف اور صرف اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی طرف مُتَوَجِّہ ہونا، یہ اَخَصُّ الْخوَاص یعنی خاص الخاص لوگوں کا روزہ ہے۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۶۶ مُلَخَّصاً)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ضرورت اِس اَمرکی ہے کہ کھانے پینے وغیرہ سے ’’رُکے رہنے ‘‘کے ساتھ ساتھ اپنے تمام تر اَعضائے بدن کو بھی روزے کا پابند بنایا جائے۔

داتا صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا اِرشاد:

حضرت سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں : ’’روزے کی حقیقت رُکنا‘‘ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مَثَلاً معدے کو کھانے پینے سے رَوکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زَبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حکم الٰہی عَزَّوَجَلَّکی مخالفت سے روکے رکھناروزہ ہے۔ جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گاتب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔‘‘ (کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۵۴،۳۵۳)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

روزہ رکھ کر بھی گناہ توبہ! توبہ!:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خدا را! اپنے حالِ زار پر ترس کھایئے اور غور فرمایئے! کہ روزہ دار ماہِ رَمَضانُ المُبارَک میں دن کے وَقت کھانا پینا چھوڑدیتا ہے حالانکہ یہ کھانا پینا اِس سے پہلے دِن میں بھی بِالکل جائز تھا، اب خود ہی سوچ لیجئے کہ جو چیزیں رَمضان شریف سے پہلے حلال تھیں وہ بھی جب اِس مبارَک مہینے کے مقدس دِنوں میں منع کردی گئیں تو جو چیزیں رَمَضانُ المبارَک سے پہلے بھی حرام تھیں ، مَثَلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، بد گمانی، گالم گلوچ، فلمیں ڈرامے، گانے باجے، بد نگاہی، داڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے گھٹانا، والدین کو ستانا، لوگوں کا دل دُکھانا وغیرہ وہ رَمَضانُ المبارَک میں کیوں نہ اور بھی زیادہ حرام ہوجائیں گی! روزہ دار جب رَمَضانُ المبارَک میں حلال وطیب کھانا پینا چھوڑدیتا ہے،حرام کام کیوں نہ چھوڑے؟ اب فرمائیے ! جو شخص پاک اور حلال کھانا پینا تو چھوڑ دے لیکن حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام بدستور جاری رکھے وہ کس قسم کا روزہ دار ہے؟

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو کچھ حاجت نہیں :

یاد رکھئے! نبیوں کے سلطان، سرورِ ذیشان، محبوبِ رَحْمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’جو بری بات کہنا اور اُ س پر عمل کرنا نہ چھوڑے تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو اس کی کچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ (بُخاری ج۱ص۶۲۸حدیث۱۹۰۳) حضرت عَلَّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیاس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :بُری بات سے مُرادہر ناجائز گفتگو ہے جیسے جھوٹ، بہتان، غیبت، تہمت، گالی، لعن طعن وغیرہ جن سے بچنا ضروری ہے ۔(مِرقاۃ المفاتیح ج ۴ص۴۹۱) ایک اور مقام پر فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’صِرف کھانے اور پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لَغْو اور بے ہُودہ باتوں ( یعنی وہ بات جس کے کرنے میں مَعاصی ( یعنی نافرمانی) ہے اُس) سے بچا جائے ۔‘‘(المُستَدرَک ج ۲ ص ۶۷ حدیث ۱۶۱۱ )

میں روزہ دار ہوں :

حضور سراپا نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے: تم سے اگر کوئی لڑائی کرے، گالی دے تو تم اُس سے کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں ۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۱ص۸۷حدیث۱)

اعضا کے روزوں کی تعریف:

اَعضا کا روزہ یعنی’’ جسم کے تمام حصوں کو گناہوں سے بچانا۔‘‘یہ صرف روزوں ہی کیلئے مخصوص نہیں ، بلکہ پوری زندگی اِن اَعضا کو گناہوں سے بچانا ضروری ہے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ ہمارے دِلوں میں خوب خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ پیدا ہوجائے۔آہ! قیامت کے اُس ہوشربا منظر کو یاد کیجئے جب ہر طرف ’’نفسی نفسی ‘‘ کا عالم ہوگا، سورج آگ برسا رہا ہوگا، زَبانیں شدتِ پیاس کے سبب منہ سے باہر نکل پڑی ہوں گی، بیوی شوہر سے، ماں اپنے لخت جگر سے اور باپ اپنے نورِ نظرسے نظربچا رہا ہوگا، مجرموں کو پکڑ پکڑ کر لایا جارہا ہوگا، اُن کے منہ پرمہر ماردی جائے گی اور اُن کے اَعضا اُن کے گناہوں کی داستان سنارہے ہوں گے جس کا ’’ سُوْرَۃُ یٰسٓ ‘‘کی آیت نمبر 65 میں یوں تذکرہ کیاگیا ہے:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجَمۂ کنزالایمان:آج ہم اِن کے مونہوں پر مہر کردیں گے اور ن کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کئے کی گواہی دیں گے۔

آہ !اے کمزور وناتواں اسلامی بھائیو!قیامت کے اُس کڑے وَقت سے اپنے دِل کو ڈرایئے اور ہر وَقت اپنے اَعضائے بَدَن کومعصیت (یعنی نافرمانی ) سے باز رکھئے۔ اب اَعضا کے روزے کی تفصیلات پیش کی جاتی ہیں :

آنکھ کا روزہ:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آنکھ کا روزہ اِس طرح رکھنا چاہئے کہ آنکھ جب بھی اُٹھے تو صرف اورصرف جائز اُمور ہی کی طرف اُٹھے۔آنکھ سے مسجِد دیکھئے، قراٰنِ کریم دیکھئے ،مزاراتِ اَولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کی زیارت کیجئے ،علمائے کرام،مشائخِ عظام اور اللّٰہ تَبارَکَ وَ تَعَالٰی کے نیک بندوں کا دیدار کیجئے ،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّدِکھائے تو کعبۂ مُعَظَّمہ کے اَنوار دیکھئے ، مکّۂ مُکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی مہکی مہکی گلیاں اور وہاں کے وادی و کہسار دیکھئے، مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے دَرودیوار دیکھئے، سبز سبز گنبدومینار دیکھئے ، میٹھے میٹھے مدینے کے صحرا و گلزار دیکھئے ، سنہری جالیوں کے اَنوار دیکھئے ، جنت کی پیاری پیاری کیاری کی بہار دیکھئے۔ تاجدارِ اہل سنت حضور مفتی ٔاَعظم ہند سَیِّدُنا محمد مصطَفٰے رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنخدائے حنان و منانعَزَّوَجَلَّکی بارگاہِ بے کس پناہ میں عرض کرتے ہیں : ؎

کچھ ایسا کر دے مِرے کرد گار آنکھوں میں ہمیشہ نقش رہے رُو ئے یار آنکھوں میں

انہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں

پیارے روزہ دارو! آنکھ کا روزہ رکھئے اور ضرور رکھئے بلکہ آنکھ کا روزہ تو ڈبل بارہ گھنٹے ،تیسوں دِن اور بارہ مہینے ہونا چائیے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی عطا کردہ آنکھوں سے ہرگز ہرگز فلمیں نہ دیکھئے ،ڈرامے نہ دیکھئے ،نامحرم عورَتوں کو نہ دیکھئے، شہوت کے ساتھ اَمردوں کو نہ دیکھئے ،کِسی کا کھلا ہوا ستر نہ دیکھئے ، بلکہ بہتر یہ ہے کہ بلا ضرورت اپنا کھلا ہوا ستربھی مت دیکھئے ،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی یاد سے غافل کرنے والے کھیل تماشے مَثَلاً ریچھ اور بند ر کا ناچ وغیرہ نہ دیکھئے ( ان کو نچانا اور ان کا ناچ دیکھنا دونوں کام ناجائز ہیں ) کرکٹ ،کبڈی ،فٹ بال ،ہاکی ، تاش ، شطرنج ،وِڈیوگیمز ،ٹیبل فٹ بال وغیرہ وغیرہ کھیل نہ دیکھئے ۔(جب دیکھنے کی اِجازت نہیں تو کھیلنے کی اِجازت کس طرح ہوسکتی ہے؟اور اِن میں بعض کھیل تَو ایسے ہیں جو نیکر یا چڈی پہن کر کھیلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے گھٹنے بلکہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّرانیں تک کھلی رہتی ہیں اور اِس طرح دُوسروں کے آگے رانیں یا گھٹنے کھولے رہنا گناہ ہے اور دُوسروں کو اِس طرف نظر کرنا بھی گناہ) کسی کے گھر میں بے اِجازت نہ جھانکئے ،کسی کا خط یا چٹھی یا ڈائری کی تحریرشرعی اجازت کے بغیر نہ دیکھئے ،یاد رکھئے ! فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’جو اپنے بھائی کا خط بغیر اجازت دیکھتا ہے گویا وہ آگ میں دیکھتا ہے۔‘‘ (المُسْتَدْرَک ج۵ص۳۸۴حدیث۷۷۷۹)

اٹھے نہ آ نکھ کبھی بھی گناہ کی جانب عطا کر م سے ہوایسی ہمیں حیا یارب!

کسی کی خامیاں دیکھیں نہ میری آ نکھیں اور سنیں نہ کان بھی عیبوں کا تذکرہ یا رب

دکھا دے ایک جھلک سبز سبز گنبد کی بس ان کے جلووں میں آجائے پھر قضا یا رب(وسائل بخشش ص۸۳،۸۷ )

کان کا روزہ:

کانوں کا روزہ یہ ہے کہ صرف و صرف جائز باتیں سنیں ۔ مَثَلاً کانوں سے تلاوت و نعت سنئے، سنتوں بھرے بیانات سُنئے، اچھی بات، اَذان و اِقامت سنئے، سن کر جواب دیجئے،ہرگز ہرگز گانے باجے اور موسیقی نہ سُنئے، جھوٹے چٹکلے نہ سنئے ،کسی کی غیبت نہ سنئے ،کسی کی چغلی نہ سنئے ،کسی کے عیب نہ سنئے اور جب دو آدمی چھپ کر بات کریں تو کان لگا کر نہ سنئے۔فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: جو شخص کسی قوم کی باتیں کان لگا کر سنے حالانکہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے ہوں یا اس بات کو چھپانا چاہتے ہوں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ ( بُخاری ج۴ ص ۴۲۳حدیث ۷۰۴۲)

سنوں نہ فحش کلامی نہ غیبت و چغلی تری پسند کی باتیں فقط سنا یا رب(وسائل بخشش ص۸۷ )

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

زبان کا روزہ:

زَبان کا روزہ یہ ہے کہ زَبان صرف و صرف نیک وجائز باتوں کیلئے ہی حرکت میں آئے۔ مَثَلاً زَبان سے تلاوتِ قراٰن کیجئے، ذِکر و دُرُود کا وِرْد کیجئے۔ نعت شریف پڑھئے، درس دیجئے،سنتوں بھرا بیان کیجئے ،نیکی کی دعوت دیجئے، اچھی اور پیاری پیاری دینداری والی باتیں کیجئے۔ فضول ’’بک بک‘‘ سے بچتے رہئے۔ خبردار! گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت ، چغلی وغیرہ سے زَبان ناپاک نہ ہونے پائے کہ ’’چمچہ اگر نجاست سے آلودہ ہوگیا تو دو ایک گلاس پانی سے پاک ہوجائے گا مگر زَبان بے حَیائی کی باتوں سے ناپاک ہوگئی تواِسے سات سمندر بھی نہیں دھوسکیں گے۔‘‘

زَبان کی بے احتیاطی کی تباہ کاریاں :

حضرتِ سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ سے رِوایت ہے، سلطانِ دوجہان، شہنشاہِ کون ومکان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکوایک دِن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا: ’’جب تک میں اِجازت نہ دوں ،تم میں سے کوئی بھی اِفطار نہ کرے۔‘‘ لوگوں نے روزہ رکھا۔ جب شام ہوئی تو تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانایک ایک کرکے حاضر خدمت بابرکت ہوکر عرض کرتے رہے: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! میں روزے سے رہا ، اِجازت دیجئے تاکہ روزہ کھول دُوں ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُسے اِجازت مرحمت فرما دیتے۔ ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ نے حاضر ہوکرعرض کی: آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! دوعورَتوں نے روزہ رکھا اور وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت بابرکت میں آنے سے حیا محسوس کرتی ہیں ، اُنہیں اجازت دیجئے تاکہ وہ بھی روزہ کھول لیں ۔ اللّٰہ کے مَحبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سے رُخِ انور پھیر لیا ، اُنہوں نے پھرعرض کی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر چہرۂ انور پھیرلیا، اُنہوں نے پھر یہی بات دُہرا ئی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر چہرئہ انور پھیرلیا وہ پھر یہی با ت دُہرانے لگے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر رُخِ انورپھیرلیا، پھر رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے(غیب کی خبر دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا: ’’اُن دونوں نے روزہ نہیں رکھا وہ کیسی روزہ دار ہیں ؟ وہ تو سارا دن لوگوں کا گوشت کھاتی رہیں !جاؤ ،ان دونوں کو حکم دو کہ وہ اگر روزہ دار ہیں تو قے کردیں ۔ ‘‘ وہ صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ اُن کے پاس تشریف لائے اور انہیں فرمان شاہی سنایا۔اُن دونوں نے قے کی، تو قے سے جما ہوا خون نکلا۔ اُن صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ بابرکت میں واپس حاضر ہو کر صورتِ حال عرض کی۔ مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اُس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر یہ اُن کے پیٹوں میں باقی رہتا ، تو اُن دونوں کو آگ کھاتی۔(کیوں کہ انہوں نے غیبت کی تھی) (ذَمُّ الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۷۲ رقم۳۱) ایک اور رِوایت میں ہے کہ جب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ سے منہ پھیرا تو وہ سامنے آئے اورعرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! وہ دونوں پیاس کی شدت سے مرنے کے قریب ہیں ۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایا: ’’اُن دونوں کو میرے پاس لاؤ۔‘‘ وہ دونوں حاضر ہوئیں ۔ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک پیالہ منگوایا اور اُن میں سے ایک کوحکم فرمایا: ’’اِس میں قے کرو!‘‘ اُس نے خون، پیپ اور گوشت کی قے کی، حتی کہ آدھاپیالہ بھر گیا۔پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دُوسری کو حکم دیا کہ تم بھی اِس میں قے کرو!اُس نے بھی اِسی طرح کی قے کی،یہاں تک کہ پیالہ بھر گیا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہا کے گلشن کے مہکتے پھول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اِن دونوں نےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی حلال کردہ چیزوں (یعنی کھانے ،پینے وغیرہ) سے تو روزہ رکھا مگر جن چیزوں کواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے (عِلاوہ روزے کے بھی)حرام رکھا ہے اُن (حرام چیزوں )سے روزہ اِفطار کر ڈالا!ہوا یوں کہ ایک لڑکی دُوسری لڑکی کے پاس بیٹھ گئی اور دونوں مل کر لوگوں کا گوشت کھانے(یعنی غیبت کرنے) لگیں ۔(1) (مُسندِ اِمام احمد ج۹ص۱۶۵حدیث۲۳۷۱۴) علم غیب مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حکایت سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوا کہاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی عطا سے ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو علم غیب حاصل ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے غلاموں کے تمام معاملات معلوم ہوجاتے ہیں ۔جبھی تو اُن لڑکیوں کے بارے میں مسجد شریف میں بیٹھے بیٹھے غیب کی خبر ارشاد فرما دی۔ بہرحال روزہ ہویا نہ ہو، زَبان کا قفلِ مدینہ ہی بھلا ورنہ یہ ایسے گل کھلاتی ہے کہ توبہ! اگر ان تین اُصولوں کو پیش نظر رکھ لیا جائے تو اِن شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ بڑا نفع ہوگا: {۱} بری بات کہنا ہر حال میں برا ہے {۲}فضول بات سے خاموشی اَفضل ہے {۳}اچھی بات کرنا خاموشی سے بہتر ہے۔

مر ی زبان پہ قفلِ مدینہ لگ جائے فضول گوئی سے بچتا رہوں سدا یا رب!

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ہاتھوں کا روزہ:

ہاتھوں کا روزہ یہ ہے کہ جب بھی ہاتھ اُٹھیں ، صرف نیک کاموں کے لئے اُٹھیں ۔ مَثَلاً باطہارت قراٰنِ کریم کو ہاتھ لگائیے،نیک لوگوں سے مصافحہ کیجئے۔فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی خاطر آپس میں مَحَبَّت رکھنے والے جب باہم ملیں اور مصافحہ کریں اور نبی(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) پر دُرُود پاک بھیجیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔‘‘ (ابو یعلیٰ ج ۳ ص۹۵حدیث ۲۹۵۱) ہوسکے تو کسی یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر یئے کہ ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے عوض ایک ایک نیکی مِلے گی۔(بچہ یا بچی اُس وَقت تک ہی یتیم ہیں جب تک نا بالغ ہیں جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔لڑکا 12اور 15 سال کے درمیان بالغ اور لڑکی 9 اور 15 سال کے درمیان بالغہ ہو تی ہے)خبردار ! کسی پر ظلماً ہاتھ نہ اُٹھیں ،رِشوت لینے دینے کے لئے نہ اُٹھیں ، نہ کسی کامال چرائیں ،نہ تاش کھیلیں نہ پتنگ اُڑائیں ، نہ کسی نامحرم عورت سے مصافحہ کریں ۔ (بلکہ شہوت کا اندیشہ ہو تو اَمرد سے بھی ہاتھ نہ ملائیں )

ہمیشہ ہاتھ بھلائی کے واسطے اٹھیں بچانا ظلم و ستم سے مجھے سدا یا رب!(وسائل بخشش ص۷۷)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پاؤں کا روزہ:

پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ پاؤں اُٹھیں تَو صرف و صرف نیک کاموں کیلئے اُٹھیں ۔ مَثَلاً پاؤں چلیں تومساجد کی طرف چلیں ،مزاراتِ اولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکی طرف چلیں ، علما و صلحا کی زیارت کے لئے چلیں ،سنتوں بھرے اِجتماع کی طرف چلیں ، نیکی کی دعوت دینے کیلئے چلیں ،سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں میں سفرکیلئے چلیں ،نیک صُحبتوں کی طرف چلیں ، کسی کی مدد کیلئے چلیں ،کاش! مکّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًومدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی طرف چلیں ،سوئے منیٰ و عرفات ومزدَلفہ چلیں ،طواف وسعی میں چلیں ۔ہر گز ہرگز سینما گھر کی طرف نہ چلیں ،ڈرامہ گاہ کی طرف نہ چلیں ، برے دوستوں کی مجلسوں کی طرف نہ چلیں ، شطرنج، لڈو ، تاش، کرکٹ، فٹ بال، وِڈیوگیمز، ٹیبل فٹ بال وغیرہ وغیرہ کھیل کھیلنے یا دیکھنے کی طرف نہ چلیں ، کاش!پاؤں کبھی تو ایسے بھی چلیں کہ بس مدینہ ہی مدینہ لب پر ہواورسفر بھی مدینے کا ہو۔ ؎

رہیں بھلائی کی راہوں میں گامزن ہر دم کریں نہ رُخ مرے پاؤں گناہ کا یا رب!

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حقیقی معنوں میں روزے کی برکتیں تواُسی وَقت نصیب ہوں گی،جب ہم تمام اَعضا کا بھی روزہ رکھیں گے، ورنہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا جیسا کہ حضرت سیّدِنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ عالی وَقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے: ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ اُن کو اُن کے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ ( ابنِ ماجہ ج۲ص۳۲۰حدیث۱۶۹۰)

(04): ’’ سحری اور سحری کا وقت ‘‘

3 فرامین مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

{۱} روزہ رکھنے کیلئے سحری کھا کر قوت حاصل کرو اوردن (یعنی دوپہر ) کے وَقت آرام (یعنی قیلولہ ) کرکے رات کی عبادت کیلئے طاقت حاصل کرو۔ ( ابنِ مَاجَہ ج۲ص۳۲۱حدیث۱۶۹۳)

{۲}تین آدمی جتنا بھی کھالیں اُن سے کوئی حساب نہ ہوگابشرطیکہ کھانا حلال ہو(۱) روزہ دار اِفطار کے وَقت

(۲) سحری کھانے والا (۳)مجاہدجو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں سر حد اسلام کی حفاظت کرے۔(مُعجَم کبیر ج۱۱ ص ۲۸۵ حدیث ۱۲۰۱۲)

{۳} سحری پوری کی پوری بَرَکت ہے پس تم نہ چھوڑو چاہے یِہی ہو کہ تم پانی کا ایک گھونٹ پی لو۔ بے شک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فرشتے رَحمت بھیجتے ہیں سحری کرنے والوں پر ۔ (مُسند امام احمد ج۴ ص۸۸ حدیث۱۱۳۹۶)

کیا روزے کے لیے سحری شرط ہے؟:

سحری روزے کیلئے شرط نہیں ، سحری کے بِغیر بھی روزہ ہوسکتا ہے مگر جان بوجھ کر سحری نہ کرنا مناسب نہیں کہ ایک عظیم سنت سے محرومی ہے او رسحری میں خوب ڈٹ کر کھانا ہی ضَروری نہیں ، چند کَھجوریں اور پانی ہی اگر بہ نیت سحری استعمال کر لیں جب بھی کافی ہے ۔

کھجوراورپانی سے سحری :

حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ مدینہ، سرورِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سحری کے وَقت مجھ سے فرمایا: ’’میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہے مجھے کچھ کھلاؤ۔‘‘ تو میں نے کچھ

کھجور سے سحری کرنا سنت ہے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ روزہ دار کیلئے ایک تو سحری کرنا بذاتِ خود سُنَّت اور کھجور سے سحری کرنا دوسری سُنَّت، کیوں کہ اللّٰہ تَعَالٰی کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کھجور سے سحری کرنے کی ترغیب دی ہے۔چنانچِہ سَیِّدُنا سائب بن یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ سے مر وی ہے، اللّٰہ کے پیارے حبیب ، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’نِعْمَ السَّحُوْرُ التَّمْرُ۔ یعنی کھجور بہترین سحری ہے۔‘‘ (مُعجَم کبیر ج۷ ص۱۵۹حدیث ۶۶۸۹)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’نِعْمَ سَحُوْرُالْمُؤْمِنِ التَّمْرُ۔یعنی کھجور مومن کی کیا ہی اچّھی سحری ہے۔‘‘( ابوداوٗد ج ۲ ص۴۴۳حدیث۲۳۴۵)

سحری کا وقت کب ہوتا ہے؟

حنفیوں کے بہت بڑے عالم حضرتِ علامہ مولانا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیفرماتے ہیں : ’’بعضوں کے نزدیک سحری کا وَقت آدھی رات سے شروع ہوجاتا ہے۔‘‘(مِرقاۃُالمفاتیح ج۴ ص۴۷۷)

سحری میں تاخیر اَفضل ہے جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُنا یعلی بن مرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ سے رِوایت ہے کہ پیارے سرکار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’تین چیزوں کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ محبوب رکھتا ہے(ا)اِفطار میں جلدی اور (۲)سحری میں تاخیر اور (۳)نماز (کے قیام ) میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا۔‘‘ (مُعجَم اَوسَط ج۵ ص ۳۲۰ حدیث۷۴۷۰)

سحر ی میں تاخیر سے کون سا وقت مراد ہے؟

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سحری میں تاخِیر کرنا مُسْتَحَب ہے مگر اتنی تاخیر بھی نہ کی جائے کہ صبحِ صادق کا شبہ ہونے لگے!یہاں ذِہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’تاخیر ‘‘ سے مراد کون سا وَقت ہے ؟ مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان ’’ تفسیرنعیمی ‘‘میں فرماتے ہیں : ’’اِس سے مراد رات کا چھٹا حصہ ہے ۔‘‘پھر سوال ذِہن میں اُبھرا کہ رات کا چھٹا حصہ کیسے معلوم کیا جائے ؟اِس کا جواب یہ ہے کہ غروبِ آفتاب سے لے کر صبح صادِق تک رات کہلاتی ہے ۔ مَثَلاً کسی دِن سات بجے شام کو سورج غروب ہوا اورپھر چار بجے صبح صادِق ہوئی۔اِس طرح غروبِ آفتاب سے لے کر صبحِ صادِق تک جو نو گھنٹے کا وَقفہ گزرا وہ رات کہلایا۔اب رات کے اِ ن نو گھنٹوں کے برابر برابر چھ حصے کر دیجئے ۔ہر حصہ ڈیڑھ گھنٹے کا ہوا ،اب رات کے آخر ی ڈیڑھ گھنٹے (یعنی اڑھائی بجے تا چار بجے ) کے دوران صبحِ صادِق سے پہلے پہلے سحری کرنا تاخیر سے کرنا ہوا۔ سحری واِفطَار کا وَقت روزانہ بدلتا رہتا ہے۔ بیان کئے ہوئے طریقے کے مطابق جب چاہیں رات کا چھٹا حصہ نکال سکتے ہیں ۔اگر رات سحری کر لی اور روزے کی نیت بھی کرلی ۔تب بھی بقیہ رات کے دوران کھاپی سکتے ہیں ، نئی نیت کی حاجت نہیں ۔

اَذانِ فجر نماز کے لیے ہے نہ کہ روزہ بند کرنے کے لیے!:

بعض لوگ صبح صادِق کے بعد فجر کی اذان کے دوران کھاتے پیتے رہتے ہیں ، اور بعض کان لگا کر سنتے ہیں کہ ابھی فلاں مسجِد کی اذان ختم نہیں ہوئی یا کہتے ہیں : وہ سنو! دُور سے اذان کی آواز آرہی ہے! اور یوں کچھ نہ کچھ کھا لیتے ہیں ۔ اگر کھاتے نہیں تو پانی پی کر اپنی اِصطلاح میں ’’روزہ بند ‘‘ کرتے ہیں ۔ آہ ! اِس طرح ’’روزہ بند‘ ‘ تو کیاکریں گے روزے کو بالکل ہی ’’کھلا‘‘ چھوڑ دیتے ہیں اور یوں صبح صادق کے بعد کھایا پی لینے کے سبب ان کا روزہ ہوتا ہی نہیں ،اور سارادن بھوک پیاس کے سوا کچھ ان کے ہاتھ آتا ہی نہیں ۔’’ روزہ بند ‘‘کرنے کا تعلق اَذانِ فجر سے نہیں صبح صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضروری ہے، جیسا کہ آیت مقدسہ کے تحت گزرا۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور صحیح اَوقات کی معلومات کرکے روزہ نماز وغیرہ عبادات دُرست بجالانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

کھانا پینا بند کردیجئے:

علم دین سے دُوری کے سبب آج کل کافی لوگ اَذان یا سائرن ہی پر سحری و اِفطار کا دارو مَدار رکھتے ہیں بلکہ بعض تو اَذانِ فجر کے دَوران ہی ’’روزہ بند ‘‘ کرتے ہیں ۔اِس عام غلطی کو دُور کرنے کیلئے کیا ہی اچھا ہوکہ رَمَضان الْمُبارَک میں روزانہ صبحِ صادِق سے تین منٹ پہلے ہرمسجد میں بلندآواز سے

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

کہنے کے بعد اِس طرح تین بار اِعلان کردیا جائے: ’’عاشقانِ رسول متوجہ ہوں ، آج سحری کا آخری وَقت (مَثَلاً)چار بج کر بارہ منٹ ہے، وَقت ختم ہورہا ہے، فوراًکھانا پینا بند کر دیجئے ، اذان کا ہرگز انتظار نہ فرمائیے ، اذان سحری کاوقت ختم ہو جانے کے بعدنمازِ فجر کے لئے دی جاتی ہے۔‘‘

ہر ایک کو یہ بات ذِہن نشین کرنی ضروری ہے کہ اَذانِ فجر صبح صادِق کے بعد ہی دینی ہوتی ہے اور وہ ’’روزہ بند‘‘ کرنے کیلئے نہیں بلکہ صرف نمازِ فجر کیلئے دی جاتی ہے۔

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(فیضانِ رمضان ص۹۳ تا ۹۶)

(05): ’’ افطار کا بیان ‘‘

جب غروبِ آفتاب کا یقین ہوجائے، اِفطَار کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے، نہ سائرن کا اِنتظار کیجئے نہ اَذان کا، فَوراً کوئی چیز کھایا پی لیجئے مگر کَھجور یا چھوہارا یا پانی سے اِفطَار کرنا سُنَّت ہے۔ ’’فتاوٰی رضویہ ‘‘ میں ہے، سوال : روزہ اِفطار کرنا کس چیز سے مسنون (سنّت)ہے۔ جواب: خرمائے تر(یعنی کھجور) اور نہ ہوتو خشک (یعنی چھوہارا)اور نہ ہوتو پانی ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ ص ۶۲۸۔۶۲۹)

اِفطار کی دُعا :

اِفطار کرلینے کے بعد مثلاًکَھجورکھا کر یا تھوڑا سا پانی پی لینے کے بعد سنت پر عمل کرنے کی نیت سے نیچے دی ہوئی دُعا بھی پڑھئے، کہ مدینے کے تاجدار ، شہنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بوقت افطار یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔(ترجمہ:اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّمیں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطا کردہ رِزق سے اِفطار کیا۔) ( ابو داوٗد ج۲ص۴۴۷ حدیث ۲۳۵۸ )دوسری حدیث پاک میں فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’اے علی! جب تم رمضان کے مہینے میں روزہ رکھو تو افطار کے بعد یہ دعا پڑھو: اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ (ترجمہ: اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!میں نے تیرے لئے روزہ رکھااور تجھی پر بھروسا کیا اور تیرے ہی عطا کردہ رِزق سے اِفطار کیا) تو تمہارے لیے تمام روزے داروں کی مثل اجر لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں بھی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘(بُغْیَۃُ الْباحِث عن زوائِدِ مسندِ الْحارث ج۱ص۵۲۷ حدیث۴۶۹) اس کے بعد ہوسکے تو مزید دعائیں بھی کیجئے کہ وقت قبول ہے۔

اِفطار کے لیے اذان شرط نہیں :

اِفطار کی دُعا عموماًقبل از اِفطار پڑھنے کا رواج ہے مگر امامِ اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے ’’ فتاویٰ رضویہ(مُخَرَّجہ) جلد10 صفحہ631‘‘ میں اپنی تحقیق یہی پیش کی ہے کہ دُعا اِفطار کے بعد پڑھی جائے۔افطار کیلئے اذان شرط نہیں ، ورنہ اُن عَلاقوں یاشہروں میں روزہ کیسے کھلے گا جہاں مساجد ہی نہیں یا اذان کی آواز نہیں آتی ۔ بہر حال اَذان نَمازِ مغرب کیلئے ہوتی ہے ۔ جہاں مساجد ہوں ! زہے نصیب! وہاں یہ طریقہ رائج ہو جائے کہ جیسے ہی آفتاب غروب ہونے کا یقین ہوجائے، بلندآواز سے ’’ صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد ‘‘کہنے کے بعد اس طرح تین بار اِعلان کر دیا جائے : ’’عاشقانِ رسول! روزہ اِفطار کرلیجئے۔‘‘

’’مدینہ‘‘ کے پانچ حروف کی نسنت سےافطار کے فضائل

کے متعلق 5 فرامین مصطَفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

{۱} ’’ہمیشہ لوگ خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک اِفطار میں جلدی کر یں گے۔‘‘ ( بُخاری ج۱ص۶۴۵حدیث۱۹۵۷)

اِفطار کروانے کی عظیم الشّان فضیلت

{۲} ’’جس نے حلال کھانے یا پانی سے(کسی مسلمان کو)روزہ اِفطار کروایا،فرشتے ماہِ رَمضان کے اَوقات میں اُس کے لئے اِستغفار کرتے ہیں اور جبریل(عَلَيْهِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) شبِ قدرمیں اُس کیلئے اِستغفار کرتے ہیں ۔ ‘ ‘ ( مُعجَم کبیر ج۶ ص۲ ۶ ۲ حدیث۶۱۶۲)

جِبرِیل امین کے مُصافَحَہ کرنے کی علامت

{۳}’’جو حلال کمائی سے رَمضان میں روزہ اِفطار کروائے رَمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اُس پر دُرُودبھیجتے ہیں اور شبِ قدر میں جبریل(عَلَيْهِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)اُس سے مُصَافَحَہ کرتے ہیں اور جس سے جبریل(عَلَيْهِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) مُصافَحَہ کرلیں اُس کی آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں اور اس کا دل نرم ہوجاتا ہے۔‘‘ (جَمْعُ الْجَوامِع ج۷ص۲۱۷حدیث۲۲۵۳۴)

{۴}’’جو روزہ دار کو پانی پلائے گا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُسے میرے حوض سے پلائے گا کہ جنت میں داخِل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔‘‘ (ابن خُزَیمہ ج ۳ ص۱۹۲ حدیث۱۸۸۷)

{۵} ’’جب تم میں کوئی روزہ اِفطار کرے تو کَھجُور یا چھوہارے سے اِفطار کرے کہ وہ برکت ہے اور اگر نہ ملے تو پانی سے کہ وہ پاک کرنے والا ہے ۔‘‘ ( تِرْمذی ج۲ص۱۶۲حدیث۶۹۵) سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اِفطار

حضرتِ سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہسے رِوایت ہے: ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز سے پہلے تر کھجوروں سے روزہ اِفطار فرماتے ،تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوریں یعنی چھوہاروں سے اور یہ بھی نہ ہوتیں تو چند چلو پانی پیتے۔‘‘ ( ابوداوٗد ج۲ص۴۴۷حدیث۲۳۵۶)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! احادیثِ مبارَکہ میں سحری اور افِطار میں کھجور کے استعمال کی ترغیب موجود ہے، بے شککھجور میں لا تعداد برکتیں اورکئی بیماریوں کا علاج ہے ۔

’’سیِّدی اعلٰی حضرت کی پچیسویں شریف‘‘ کے پچیس حروف کی نسبت سے کھجور کے 25 مَدَنی پھو ل

{۱} اللّٰہ کے حبیب ، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ صحت نشان ہے: ’’عالِیہ‘‘ ( یعنی مدینۂ منوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں مسجد قبا شریف کی جانِب ایک جگہ کا نام ) کی عَجْوَہ (مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی سب سے عظیم کھجور کا نام ) میں ہر بیماری سے شفا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق ’’سات روزتک روزانہ سات عجوہ کَھجوریں کھاناجذام(یعنی کوڑھ) میں نفع دیتا ہے ۔‘‘(الکامل لابن عدی ج۷ ص ۴۰۷)

{۲}میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان جنت نشان ہے: عجوہ کھجور جنت سے ہے، اس میں زہر سے شفا ہے ۔(تِرمذی ۴ ص۱۷حدیث ۲۰۷۳ ) بخاری شریف کی روایت کے مطابق جس نے نہارمنہ عجوہ کھجور کے سات دانے کھالئے اس دن اسے جادو اورزہر بھی نقصان نہ دے سکیں گے ۔ (بُخارِی ج۳ص۵۴۰ حدیث ۵۴۴۵)

{۳}سیِّدُنا ابوہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہسے روایت ہے ، کھجورکھانے سے قولنج(یعنی بڑی انتڑی کا درد) نہیں ہوتا۔ (کَنْزُ الْعُمَّال ج۱۰ ص۱۲حدیث۲۸۱۹۱)

{۴} طبیبوں کے طبیب ، اللّٰہ کے حبیب ، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان صحت نشان ہے: ’’نہارمنہ کھجور کھاؤ اس سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں ۔‘‘ (اَلْجَامِعُ الصَّغِیْرص۳۹۸حدیث۶۳۹۴)

{۵}حضرت سیِّدُنا رَبِیع بن خُثَیْمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہفرماتے ہیں :’’میرے نزدیک حاملہ کے لئے کھجور سے اور مریض کیلئے شہد سے بہتر کسی چیز میں شفا نہیں ۔‘‘ (تفسیرِدُرِّ مَنْثُورج۵ص۵۰۵)

{۵}حضرت سیِّدُنا رَبِیع بن خُثَیْمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہفرماتے ہیں :’’میرے نزدیک حاملہ کے لئے کھجور سے اور مریض کیلئے شہد سے بہتر کسی چیز میں شفا نہیں ۔‘‘ (تفسیرِدُرِّ مَنْثُورج۵ص۵۰۵)

لڑکا پیداہو گا جو کہ خوبصورت بردبار اورنرم مزاج ہو گا ۔‘‘

{۷}جو فاقے(یعنی بھوک) کی وجہ سے کمزور ہو گیا ہو اُس کیلئے کھجوربہت مفید ہے کیونکہ یہ غذائیت سے بھرپور ہے اس کے کھانے سے جلد توانائی بحال ہو جاتی ہے، لہٰذا کھجورسے اِفطار کرنے میں یہ حکمت بھی ہے۔

{۸} روزے میں فوراً برف کا ٹھنڈا پانی پی لینے سے گیس ، تبخیر (تَبْ۔ خیر) مِعدہ اور جگر کے ورم کا سخت خطرہ ہے، کھجور کھا کر ٹھنڈاپانی پینے سے نقصان کا خطرہ ٹل جاتاہے ،مگر سخْت ٹھنڈاپانی ہرگز نہیں پیناچاہئے۔

{۹}کھجوراور ککڑی(1)،نیز کھجور اور تربوز ایک ساتھ کھانانبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت ہے(2)۔ اس میں بھی حکمتوں کے مدنی پھول ہیں ۔ طبیبوں کا کہنا ہے کہ اس سے جنسی و جسمانی کمزوری اور دبلاپن دور ہوتا ہے۔ مکّھن کے ساتھ کھجورکھانا بھی نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت ہے۔ (ابن ماجہ ج۴ص۴۱حدیث۳۳۳۴)

{۱۰}کھجور کھانے سے پُر انی قبض دور ہوتی ہے ۔

{۱۱} دَمے ،دل، گردے ،مثانے ،پتے اور آنتوں کے امراض میں کھجور مفید ہے ۔ یہ بلغم خارِج کرتی ، منہ کی خشکی دور کر تی اور پیشاب آور ہے ۔

{۱۲} دل کی بیماری اور کالا موتیا کیلئے کجھور گٹھلی سمیت کوٹ کر کھانا مفید ہے۔

{۱۳}کھجور بھگو کراس کا پانی پی لینے سے جگر کی بیماریا ں دور ہوتی ہیں ۔ دست کی بیماری میں بھی یہ پانی مفید ہے۔ (رات کو بھگو کرصبح نہار منہ اس کا پانی پئیں مگر بھگونے کے لئے پانی ڈال کر فریزر میں نہ رکھیں )

{۱۴}کھجور دودھ میں اُبال کرکھانابہترین مقوی(مُ۔قَوْ۔وِی یعنی طاقت دینے والی)غذا ہے، یہ غذا بیماری کے بعد کی کمزوری دور کرنے کیلئے بے حد مفید ہے۔

{۱۵}کھجورکھانے سے زَخم جلدی بھرتا ہے ۔

{۱۶} یرقان(یعنی پیلیا ) کیلئے کھجور بہترین دواہے ۔

{۱۷}تازہ پکی کھجوریں صفرا (یعنی ’’ پت ‘‘ جس سے قے کے ذَریعے کڑوا پانی نکلتا ہے) اور تیزابیت کوختم کرتی ہیں ۔

{۱۸}کھجورکی گٹھلیاں آگ میں جلا کر اس کا منجن بنا لیجئے، یہ دانت چمکدار اور منہ کی بدبو دور کرتا ہے

{۱۹}کھجورکی جلی ہوئی گٹھلیوں کی راکھ لگانے سے زخم کا خون بند ہوتا اور زخم بھر جاتا ہے ۔

{۲۰}کھجورکی گٹھلیوں کوآگ میں ڈال کردھونی لینے سے بواسیرکے مسے خشک ہو جاتے ہے۔

{۲۱}کھجورکے درخت کی جڑوں یا پتوں کی راکھ سے منجن کرنا دانتوں کے درد کیلئے مفید ہے، جڑوں یا پتوں کو پانی میں اُبال کر اُس سے کلیاں کرنا بھی دانتوں کے درد میں فائدے مند ہے ۔

{۲۲}جسے کھجور کھانے سے کسی قسم کا نقصان) (side effectہوتا ہو وہ انار کے رس یا خشخاش یا کالی مرچ کے ساتھ استعمال کرے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّفائدہ ہو گا ۔

{۲۳} اَدھ پکی اور پرانی کھجوریں بیک وقت(یعنی ایک ہی وقت میں ) کھانا نقصان دہ ہے ۔اسی طرح کھجور کے ساتھ انگور یا کشمش یا منقہ ملا کر کھانا ، کھجور اور انجیربیک وقت کھانا ، بیماری سے اٹھتے ہی کمزوری میں زیادہ کھجوریں کھانااور آنکھوں کی بیماری میں کھجوریں کھانا مضر یعنی نقصان دہ ہے ۔

{۲۴}ایک وقت میں 5 تولہ(یعنی 58.32گرام )سے زیادہ کھجوریں نہ کھائیں ۔ پرانی کھجورکھاتے وقت کھول کر اندر سے دیکھ لیجئے کیوں کہ اس میں بعض اوقات سرسریاں ( یعنی چھوٹے چھوٹے لال کیڑے )ہوتی ہیں ، لہٰذا صاف کرکے کھائیے۔ جس کھجور میں کیڑے ہونے کا گمان ہو اُسے صاف کئے بغیر کھانا مکروہ ہے۔بیچنے والے چمکانے کیلئے اکثر سرسوں کا تیل لگا دیتے ہیں لہٰذ ا بہتر یہ ہے کہ کھجوریں چند منٹ کیلئے پانی میں بھگو دیجئے تاکہ مکھیوں کی بیٹ اورمیل کچیل وغیرہ چھو ٹ جائے پھر دھوکر استعما ل فرمائیے ۔ درخت کی پکی ہوئی کھجوریں زیادہ مفید ہوتی ہیں ۔(مگر دھوئے بغیر کھجوریں بلکہ کوئی سا پھل اور سبزی وغیرہ استعمال نہ کریں ورنہ گرد و غبار ، مکھیوں ، کیڑے مکوڑوں کی بیٹ اور جراثیم کش دواؤں کے اثرات پیٹ میں جا کر بیماریوں کا باعث ہوسکتے ہیں )

{۲۵}مدینۂ منوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی کھجوروں کی گٹھلیاں مت پھینکئے، کسی ادب کی جگہ ڈالدیجئے یا دریا برد فرما دیجئے، بلکہ ہوسکے تو سروتے(سَ۔رَوْ۔تے) سے باریک ٹکڑیاں کر کے یا پیس کر ڈِبیہ میں ڈالکر جیب میں رکھ لیجئے اور چھالیہ کی جگہ استعمال کر کے اس کی برکتیں لوٹئے۔ کوئی چیز خواہ دنیا کے کسی بھی خطے کی ہو جب مدینۂ منوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی فضاؤں میں داخل ہوئی تو مدینے کی ہوگئی لہٰذا عاشِقانِ رسول اُس کا ادب کرتے ہیں ۔

کیا حدیث میں بتایا ہوا علاج ہر ایک کر سکتا ہے!:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بیان کردہ’’ کھجور کے25مدنی پھول ‘‘ میں مختلف امراض میں ’’کھجور‘‘ کے ذریعے علاج تجویز کیا گیا ہے، اِس سلسلے میں آیندہ سطور کا بغور مطالعہاِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّنفع بخش پائیں گے ۔ چنانچہ (حدیثِ پاک: ’’فِی الْحَبَّۃِ السَّوْدَائِ شِفَائٌ مِّنْ کُلِّ دَائٍ اِلَّا السَّامَ۔یعنی کالا دانہ(کلونجی) میں موت کے سوا ہر بیماری سے شفاہے‘‘کے تحت) مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں : ہر مرض(میں شفا) سے مراد ہر بلغمی اور رطوبت کے اَمراض میں (شفا ہے)، کیونکہ کلونجی گرم اور خشک ہوتی ہے لہٰذا مرطوب(یعنی تری والی) اور سردی کی بیماریوں میں مفید ہو گی ۔آگے چل کر مزید فرماتے ہیں : یہاں مراد عرب کی عام بیماریاں ہیں (مرقات) یعنی کلونجی عرب کی عام بیماریوں میں مفید ہے۔ خیال رہے کہ احادیثِ شریفہ کی دوائیں کسی حاذِق طبیب(یعنی ماہر طبیب ) کی رائے سے استعمال کرنی چاہئیں (اہلِ عرب کو تجویز کردہ دوائیں ) صرف (اپنی) رائے سے استعمال نہ کریں کہ ہمارے (طبعی ) مزاج اہلِ عرب کے(طبعی ) مزاج سے جداگانہ ہیں ۔ ( مراٰۃ ج ۶ ص ۲۱۶،۲۱۷)ساتھ ہی یہ بھی خاص تاکید ہے کہ اِس کتاب میں دیا ہوا کوئی بھی نسخہ اپنے طبیب سے مشورہ کئے بغیر استعمال نہ کیاجائے اگر چِہ یہ نسخہ اُسی بیماری کیلئے ہو جس سے آپ دو چار ہوں ۔ یاد رہے ! لوگوں کی طبعی(طَب۔عی) کیفیات جدا جدا ہوتی ہیں ،بسا اوقات ایک ہی دوا کسی کیلئے شفاو آرام کا باعث بنتی ہے تو کسی کیلئے موت کا پیام لاتی ہے۔ لہٰذا آپ کی جسمانی کیفیات سے واقف آپ کا مخصوص طبیب ہی یہ طے کر سکتا ہے کہ آپ کو کون سانسخہ موافق آ سکتا ہے اور کون سا نہیں ۔

اِفطار کے وقت دُعا قبول ہوتی ہے:

دو فرامینِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :(1)’’بے شک روزہ دار کے لئے اِفطار کے وَقت ایک ایسی دُعا ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جاتی۔‘‘( ابنِ ماجہ ج۲ ص۲۵۰ حدیث ۱۷۵۳ ) (2)’’تین شخصوں کی دُعا رَدّ نہیں کی جاتی{۱} بادشاہِ عادِل کی اور {۲} روزہ دار کی بوقت اِفطار اور {۳}مظلوم کی۔اِن تینوں کی دُعا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّبادَلوں سے بھی اُوپر اُٹھا لیتا ہے اور آسمان کے دروازے اُس کیلئے کھل جاتے ہیں اور اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) فرماتا ہے:’’مجھے میری عزت کی قسم!میں تیری ضرور مَدَد فرماؤں گااگرچہ کچھ دیر بعد۔‘‘ (اَیضاً ص ۳۴۹ حدیث ۱۷۵۲)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ہم کھانے پینے میں رَہ جاتے ہیں :

پیارے روزہ دارو! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اِفطَار کے وَقت دعا قبول ہوتی ہے، آہ! اِس قبولیت کی گھڑی میں ہمارا نفس اِس موقع پر سخت آزمائش میں پڑجاتا ہے ۔ کیونکہ اِس وَقت اکثر ہمارے آگے اَنواع واَقسام کے پھلوں ، کباب، سموسوں ، پکوڑوں کے ساتھ ساتھ گرمی کا موسم ہو تو ٹھنڈے ٹھنڈے شربت کے جام بھی موجود ہوتے ہیں ، اِدھر سورج غروب ہوا،اُدھر کھانوں اور شربتوں پر ہم ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ دُعا یادہی نہیں رہتی! دُعا تَو دُعا ہمارے کچھ اِسلامی بھائی اِفطَار کے دَوران کھانے پینے میں اس قَدَر مشغول ہوجاتے ہیں کہ ان کو نَمازِ مغرب کی پوری جماعت تک نہیں ملتی، بلکہ مَعَاذَ اللہ بعض تو اِس قدر سستی کرتے ہیں کہ گھر ہی میں اِفطار کرکے وَہیں پر بغیر جماعت نماز پڑ ھ لیتے ہیں ۔ توبہ! توبہ!!

جنت کے طلب گارو ! اتنی بھی غفلت مت کیجئے!!نمازِ باجماعت کی شریعت میں نہایت سخت تاکید آئی ہے ۔یاد رکھئے! بلا کسی صحیح شَرْعی مجبوری کے مسجِد کی پنج وقتہ نماز کی پہلی جماعت ترک کردینا گناہ ہے۔(فیضانِ رمضان ص ۹۸تا ۱۰۶)

(06): ’’ فیضان تراویح ‘‘

{۱}تراویح ہر عاقِل و بالغ اسلامی بھائی اور اسلامی بہن کیلئے سنَّت ِمُؤَکَّدہ ہے۔ (دُرِّ مُخْتارج ۲ص۵۹۶) اس کا تَرْک جائز نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۶۸۸)

{۲}تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ہیں ۔سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد میں بیس رَکْعَتَیں ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ (السُّنَن ُالکبرٰی للبیہقی ج۲ص۶۹۹حدیث۴۶۱۷)

{۳}تراویح کی جماعت سنّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہہے، اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑ دی تو سب اِسائَ ت کے مرتکب ہوئے (یعنی بُرا کیا)اور اگرچند افراد نے با جماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والا جماعت کی فضیلت سے محروم رہا۔ (ہِدایہ ج۱ص۷۰)

{۴}تراویح کا وقت عشا کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادِق تک ہے۔ عشا کے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو نہ ہو گی۔ (عالمگیری ج۱ص ۱۱۵ )

{۵} وترکے بعد بھی تراویح پڑھی جا سکتی ہے ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۵۹۷) جیساکہ بعض اوقات 29 کو رویت ہلا ل کی شہادت (یعنی چاند نظر آنے کی گواہی) ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے۔

{۶}مُستَحَب یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کریں ، اگر آدھی رات کے بعد پڑھیں تب بھی کراہت نہیں ۔ (لیکن عشا کے فرض اتنے مؤخّر (Late) نہ کئے جائیں ) (اَیضاًص۵۹۸)

{۷}تراویح اگر فوت ہو ئی تو اس کی قضا نہیں ۔ (اَیضاً)

{۸}بِہتر یہ ہے کہ تراویح کی بیس رَکْعَتَیں دو دو کر کے دس سلام کے ساتھ ادا کر یں ۔ (اَیضاص۵۹۹)

{۹}تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ایک سلام کے ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہیں ، مگر ایسا کرنا مکروہِ (تنزیہی)ہے۔(اَیضاً)ہر دو رَکعت پر قعدہ کرنافرض ہے،ہرقعدے میں اَلتَّحِیَّاتُکے بعد دُرُود شریف بھی پڑھے اور طاق رَکعت (یعنی پہلی ، تیسری،پانچویں وغیرہ) میں ثَنا پڑھے اور امام تعوذو تَسْمِیہبھی پڑھے ۔

{۱۰}جب دو دو رَکعت کر کے پڑ ھ رہا ہے تو ہر دو رَکعت پر الگ الگ نیت کرے اور اگر بیس رَکْعَتوں کی ایک ساتھ نیت کر لی تب بھی جائز ہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۵۹۷)

{۱۱}بلاعذر تراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے نز د یک تو ہوتی ہی نہیں ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۶۰۳)

{۱۲}تراویح مسجِدمیں باجماعت ادا کرنا افضل ہے،اگر گھر میں باجماعت ادا کی توترکِ جماعت کا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں پڑھنے کا تھا۔(عالمگیری ج۱ص۱۱۶) عشا کے فرض مسجد میں باجماعت ادا کرکے پھر گھر یا ہال وغیرہ میں تراویح ادا کیجئے اگر بلا عذرِشرعی مسجد کے بجائے گھر یا ہال وغیرہ میں عشا کے فرض کی جماعت قائم کر لی تو ترک واجب کے گناہ گار ہوں گے ۔ اس کا تفصیلی مسئلہ فیضان سنت (جلد اوّل)کے باب ’’پیٹ کا قفل مدینہ‘‘ صفحہ135 پر ملاحَظہ فرمالیجئے۔

{۱۳}نابالِغ امام کے پیچھے صرف نابالغان ہی تراویح پڑھ سکتے ہیں ۔

{۱۴}بالِغکی تراویح( بلکہ کوئی بھی نماز حتی کہ نفل بھی) نابالغ کے پیچھے نہیں ہوتی۔

{۱۵}تراویح میں پورا کلامُ اللّٰہ شریف پڑھنا اور سننا سنَّتِمُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہہے لہٰذا اگر چند لوگوں نے مل کر تراویح میں ختم قراٰن کا اہتما م کرلیا تو بقیہ علاقے والوں کیلئے کفایت کرے گا۔’’فتاوٰی رضویہ ‘‘ جلد10 صفحہ334 پر ہے: قرآن دَرْ تراویح خَتم کَرْ دَنْ نَہ فَرْضَ سْت وَ نَہ سُنَّتِ عین۔یعنی تراویح میں قراٰنِ کریم ختم کرنا نہ فرض نہ سنَّتِ عین ہے۔ اورصفحہ335 پرہے:خَتْمِ قُرآن دَرْ تراویح سنّتِ کِفایہ اَسْت۔ یعنی تراویح میں ختمِ قراٰن سنَّتِ کِفایہ ہے۔

{۱۶}اگر با شرائط حافِظ نہ مل سکے یا کسی وجہ سے ختم نہ ہو سکے تو تراویح میں کوئی سی بھی سورَتیں پڑھ لیجئے اگر چاہیں تو اَلَمْ تَرَسے وَالنَّاس دو بار پڑھ لیجئے، اِس طرح بیس رَکْعَتَیں یا د رکھنا آسان رہے گا۔ (ماخوذ از عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

{۱۷}ایک بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط جَہر کے ساتھ( یعنی اُونچی آواز سے ) پڑھنا سنت ہے اور ہرسورت کی ابتدا میں آہستہ پڑھنا مُستَحَب ہے۔ مُتَأَخِّرین (یعنی بعد میں آنے والے فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام )نے ختم تراویح میں تین بار قُل ھُوَ اللّٰہ شریف پڑھنا مُسْتَحَب کہا نیز بہتریہ ہے کہ ختم کے دن پچھلی رَکعت میں الٓمّٓۚ(۱)سے مُفْلِحُوْن تک پڑھے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۴،۶۹۵)

{۱۸}اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قراٰنِ پاک اُن رَکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اِعادہ کریں تاکہ ختم میں نقصان نہ رہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

{۱۹}امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُسْتَحَب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر پھر آگے بڑھے۔ (اَیضاً)

{۲۰}الگ الگ مسجِد میں تراویح پڑھ سکتاہے جبکہ ختم قراٰن میں نقصا ن نہ ہو، مَثَلاًتین مساجد ایسی ہیں کہ ان میں ہر روزسوا پارہ پڑھا جا تا ہے تو تینوں میں روزانہ باری باری جا سکتا ہے۔

{۲۱}دو رَکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جا ئے، آخر میں سجدۂ سہو کر لے۔اور اگر تیسری کاسجدہ کر لیا توچارپوری کر لے مگر یہ دو شمار ہوں گی۔ہاں دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں ۔ (اَیضاً)

{۲۲}تین رَکْعَتَیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں ان کے بدلے کی دو رَکْعَتَیں دوبارہ پڑھے۔ (اَیضاً)

{۲۳}سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین، تو امام کو جو یاد ہو اُس کا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب(یعنی شک و شبہ) کا شکار ہو تو جس پر اعتماد ہو اُس کی بات مان لے (اَیضاًص۱۱۷)

{۲۴} اگرلوگوں کوشک ہوکہ بیس ہوئیں یااٹھارہ؟تودورَکْعَت تنہا تنہا پڑھیں ۔ (اَیضاً)

{۲۵}افضل یہ ہے کہ تمام شفعوں میں قرائَ ت برابر ہو اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں ،اِسی طرح ہر شفع (کہ دو رکعت پر مشتمل ہوتا ہے اس ) کی پہلی اور دوسری رَکعت کی قرائَ ت مساوی (یعنی یکساں ) ہو، دوسری کی قرائَ ت پہلی سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ (اَیضاً)

{۲۶}امام و مقتدی ہر دو رَکعت کی پہلی میں ثنا پڑھیں (امام اَعُوْذ اور بِسْمِ اللّٰہبھی پڑھے ) اور اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُودِابراہیم اور دعابھی۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)

{۲۷}اگر مقتدیوں پر گِرانی(دشواری) ہوتی ہو توتشہدکے بعد اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍوَّاٰلِہٖ پر اکتفاکرے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰،دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)

{۲۸}اگر ستائیسویں کویا اس سے قبل قراٰنِ پاک ختم ہو گیا تب بھی آخرِ رَمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنّتِ مُؤَکَّدہ ہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

{۲۹}ہر چاررَکْعَتَوں کے بعد اُتنی دیر بیٹھنا مُستَحَبْ ہے جتنی دیر میں چاررَکعات پڑھی ہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰، عالمگیری ج۱ص۱۱۵)

{۳۰} اس بیٹھنے میں اسے اختیار ہے کہ چپ بیٹھا رہے یا ذِکر و دُرُود اور تلاوت کرے یا چار رَکعتیں تنہا نفل پڑھے (دُرِمُخْتار ج۲ص۶۰۰،بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰) یہ تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں :

سُبْحٰنَ ذِی الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوْتِ، سُبْحٰنَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَيْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْكِبْرِيَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحٰنَ الْمَلِكِ الْحَیِّ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ، سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلٰٓئِكَۃِ وَالرُّوْحِ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ ۔بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ

{۳۱}بیس رَکْعَتَیں ہو چکنے کے بعدپانچواں ترویحہ بھی مُسْتَحَب ہے،اگر لوگوں پر گراں ہو تو پانچویں بار نہ بیٹھے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۵)

{۳۲}مقتدی کو جائز نہیں کہ بیٹھا رہے ، جب امام رکوع کرنے والا ہو تو کھڑا ہو جائے، یہ مُنافقین سے مشابہت ہے۔سُوْرَۃُ النِّسَآء کی آیت نمبر 142 میں ہے: وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ (ترجَمۂ کنزالایمان: اور (منافِق ) جب نَماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے) (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۳، غُنیہ ص۴۱۰) فرض کی جماعت میں بھی اگر امام رُکوع سے اُٹھ گیا توسجدوں وغیرہ میں فورًا شریک ہو جائیں نیز امام قعدۂ اُولیٰ میں ہو تب بھی اُس کے کھڑے ہونے کاانتظار نہ کریں بلکہ شامل ہو جائیں ۔ اگر قعدے میں شامل ہو گئے اور امام کھڑا ہو گیا تو اَلتَّحِیَّاتُُپوری کئے بغیر نہ کھڑے ہوں ۔

{۳۳}رَمضان شریف میں وِتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے،مگر جس نے عشا کے فرض بغیر جماعت کے پڑھے وہ وِتر بھی تنہا پڑھے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۲،۶۹۳ مُلَخَّصاً )

{۳۴} یہ جائز ہے کہ ایک شخص عشا و وِتر پڑھائے اور دوسرا تراویح ۔

{۳۵}حضرت سیّدُنا عمرِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرض و وِتر کی جماعت کرواتے تھے اور حضرتِ سیِّدُنا اُبَیِّ بِنْ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تراویح پڑھاتے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۶)

اے ہمارے پیارے پیارے اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمیں نیک ،مخلص اور دُرُست قراٰنِ کریم پڑھنے والے حافظ صاحب کے پیچھے خشوع وخضوع کے ساتھ تراویح ادا کرنے کی سعادت نصیب کر اور قَبول بھی فرما۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(فیضانِ رمضان ص ۱۵۹تا ۱۶۴)

(07): ’’ فیضانِ لیلۃ القدر ‘‘

امام اعظم، امام شافعی اور صاحِبین کے اقوال:

سَیِّدُنا اِمامِ اعظم اَبو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اِس بارے میں دو قول منقول ہیں

{۱}لیلۃُ الْقَدْر رَمَضانُ الْمُبارَک ہی میں ہے لیکن کوئی رات مُعَیَّن(Fix) نہیں

{۲} سَیِّدُنا امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ایک مشہور قول یہ ہے کہ لَیْلَۃُ الْقَدْر پورا سال گھومتی رہتی ہے، کبھی ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں ہوتی ہے اور کبھی دوسرے مہینوں میں ۔ یہی قول سَیِّدُنا عبدُ اللّٰہ ابنِ عباس، سَیِّدُنا عبد اللّٰہ ابن مسعود اور سَیِّدُناعکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن سے بھی منقول ہے ۔ (عُمدۃُ القاری ج۸ ص ۲۵۳ تحتَ الحدیث ۲۰۱۵)

سَیِّدُنا امام شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے نزدیک ’’شبِ قدر‘‘ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے میں ہے اور اس کی رات مُعَیَّن (Fix) ہے ، ا س میں قیامت تک تبدیلی نہیں ہوگی۔(اَیضاً)

سَیِّدُنا امام ابویوسف اور سَیِّدُنا امام محمد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے نزدیکلیلۃُ الْقَدْر رَمَضانُ الْمُبارَک ہی میں ہے لیکن کوئی رات مُعَیَّن(Fix) نہیں ۔اور ان کاایک قول یہ ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی آخِری پندرہ راتوں میں لَیْلَۃُ الْقَدْر ہوتی ہے۔ (اَیضاً)

شب قدر بدلتی رہتی ہے:

سَیِّدُنا امامِ مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک شبِ قدررَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔مگر کوئی ایک رات مخصوص نہیں ،ہر سال اِن طاق راتوں میں گھومتی رہتی ہے،یعنی کبھی اِکیسویں شب لَیْلَۃُ القَدْرہوجاتی ہے توکبھی تئیسویں ،کبھی پچیسویں تو کبھی ستائیسویں اور کبھی کبھی اُنتیسویں شب بھی شبِ قدر ہوجایا کرتی ہے۔ (عمدۃُ القاری ج۱ص۳۳۵)

شیخ ابو الحسن شاذِلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الولی اورشب قدر:

سلسلۂ قادریہ شاذِلیہ کے عظیم پیشوا حضرتِ سَیِّدُنا شیخ ابُو الْحَسن شاذِلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی (متوفّٰی656ھ)فرماتے ہیں : ’’جب کبھی اتوار یا بُدھ کو پہلا روزہ ہوا تَو اُنتیسویں شب ، اگرپیر کا پہلا روزہ ہو ا تو اکیسویں شب، اگر پہلا روزہ منگل یاجمعہ کو ہوا تو ستائیسویں شب اگر پہلا روزہ جمعرات کو ہوا تو پچیسویں شب اور اگر پہلاروزہ ہفتے کو ہوا تو میں نے تئیسویں شب میں شَبِ قَدْر کوپایا۔ ‘‘ (تفسِیرِ صاوی ج۶ص۲۴۰۰)

ستائیسویں رات شب قدر:

اگرچہ بزرگانِ دین اور مفسرین و محدّثینرَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن کا شبِ قدر کے تعین میں اِختلاف ہے، تاہم بھاری اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستائیسویں شب ہی شب قدر ہے۔ سیّد الانصار، سیِّدُالقراء، حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک ستائیسویں شبِ رَمضان ہی’’ شب قدر‘‘ ہے۔(مسلم ص۳۸۳حدیث۷۶۲)

حضرتِ سَیِّدُنا شاہ عبد العزیز محدّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بھی فرماتے ہیں کہ شب قدر رَمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔ اپنے بَیان کی تائید کیلئے اُنہوں نے دو دلائل بَیان فرمائے ہیں :{۱} ’’لَیْلَۃُ الْقَدْر‘ ‘ میں نو حروف ہیں اور یہ کلمہ سُوْرَۃُ الْقَدْر میں تین مرتبہ ہے، اِس طرح ’’تین ‘‘کو ’’نو‘‘ سے ضرب دینے سے حاصلِ ضرب ’’ستائیس ‘‘ آتا ہے جو کہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔ {۲} اِس سورئہ مبارَکہ میں تیس کلمات (یعنی تیس الفاظ) ہیں ۔ ستائیسواں کلمہ ’’ھِیَ‘‘ہے جس کا مرکز لَیْلَۃُ الْقَدْر ہے۔ گویا اللّٰہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کی طرف سے نیک لوگوں کیلئے یہ اِشارہ ہے کہ َرمضان شریف کی ستائیسویں شبِ قَدْر ہوتی ہے۔(تَفسِیر عَزیزی ج۳ص۲۵۹ ملخّصاً)

گویا شب قدر حاصل کر لی:

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم:جس نے ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ،سُبحٰنَ اللہ ِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم ‘‘(1)تین مرتبہ پڑھا تو اُس نے گویا شب قدر حاصل کر لی ۔(ابنِ عَساکِر ج۶۵ ص۲۷۶)ہو سکے تو ہررات تین بار یہ دُعا پڑھ لینی چاہئے۔

رِضائے الٰہیعَزَّ وَجَلَّ کے خواہشمندو! ہوسکے تو سارا ہی سال ہر رات اہتمام کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک عمل کرلینا چاہیے کہ نہ جانے کب شب قدر ہوجائے ۔ ہر رات میں دو فرض نَمازیں آتی ہیں ، دیگر نَمازوں کے ساتھ ساتھ مغرب و عِشا کی نَمازوں کی جماعت کابھی خوب اِہتمام ہونا چاہئے کہ اگر شب قدر میں ان دونوں کی جماعت نصیب ہوگئی تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّبیڑا ہی پارہے ، بلکہ اسی طرح پانچوں نمازوں کے ساتھ ساتھ روزانہ عشا و فجر کی جماعت کی بھی خصو صِیَّت کے ساتھ عادت ڈال لیجئے۔ دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ملاحظہ ہوں : {۱}جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی اُس نے گویا آدھی رات قیام کیااور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی اُس نے گویا پوری رات قیام کیا۔ (مُسلم ص ۳۲۹ حدیث۶۵۶) {۲} ’’جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی تحقیق اُس نے لَیْلَۃُ الْقَدْر سے اپنا حصہ حاصل کرلیا۔‘‘ (مُعجَم کبیر ج۸ص۱۷۹حدیث۷۷۴۵) اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رَحمت کے متلاشیو! اگر تمام سال یہی عادتِ جماعت رہی تو شب قدر میں بھی اِن دونوں نَمازوں کی جماعتاِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّنصیب ہوجائے گی اور رات بھر سونے کے باوُجود اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّروزانہ کی طرح شب قدر میں بھی گویا ساری رات کی عبادت کرنے والے قرار پائیں گے۔

شب قدر کی دُعا:

اُمّ الْمُؤمِنِینحضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارِوایَت فرماتی ہیں : میں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ !اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں ؟‘‘ فرمایا: اِس طرح دُعا ما نگو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۔ یعنی اےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!بیشک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے مُعاف فرما دے ۔ ( تِرمذی ج۵ص۳۰۶حدیث۳۵۲۴)

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! کاش !ہم روزانہ رات یہ دُعا کم ازکم ایک بار ہی پڑھ لیا کریں کہ کبھی تو شَب قدر نصیب ہو جائے گی۔ اور ستائیسویں شب تو یہ دُعا بارہا پڑھنی چاہئے۔

شب قدر کے نوافل:

حضرت سَیِّدُنا اِسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی’’تفسیرِ رُوْحُ الْبَیان‘‘ میں یہ رِوایت نقل کرتے ہیں : جو شبِ قدر میں اِخلاصِ نیت سے نوافل پڑھے گااُس کے اگلے پچھلے گناہ مُعاف ہوجائیں گے۔ (رُوْحُ البَیان ج۱۰ص۴۸۰)

سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب رَمَضانُ المُبارککے آخری دس دِن آتے تو عبادت پر کمر باند ھ لیتے، ان میں راتیں جاگا کرتے اور اپنے اہل کو جگایا کرتے۔ ( ابنِ ماجہ ج۲ص۳۵۷حدیث۱۷۶۸)

حضرت سَیِّدُنا اِسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نقل کرتے ہیں کہبزرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن اس عشرے کی ہر رات میں دورکعت نفل شبِ قدر کی نیت سے پڑھا کرتے تھے ۔ نیز بعض اکابر سے منقول ہے کہ جو ہررات دس آیات اِس نیت سے پڑھ لے تو اس کی برکت اور ثواب سے محروم نہ ہوگا ۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یقینا یہ رات منبعِ برکات ہے ۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک بارجبماہِ رَمضان شریف تشریف لایاتوحضورِ انور ،شافِعِ مَحشر ،مدینے کے تاجور ،باِذنِ ربِّ اکبر غیبوں سے باخبر محبوبِ داوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’تمہارے پاس یہ مہینا آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا ،گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہے۔‘‘ (ابنِ مَاجَہ ج۲ص۲۹۸حدیث۱۶۴۴)

اے ہمارے پیارے پیار ےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہم گناہ گاروں کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کی برکتوں سے مالا مال کر اور زیادہ سے زیادہ اپنی عبادَت کی توفیق مرحمت فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

لَیْلَۃُ الْقَدْر میں مَطْلَعِ الْفَجْرِ حق

مانگ کی استِقامت پہ لاکھوں سلام (حدائقِ بخشِش ص۲۹۹)

(فیضانِ رمضان ۱۸۳-۱۸۷)

(08): ’’ اعتکاف کا ثواب و اقسام ‘‘

دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم دو حج اور دو عمروں کا ثواب:

{۱}’’جس نے رَمَضانُ الْمُبارَک میں دس دن کا اعتکاف کرلیاوہ ایسا ہے جیسے دوحج اوردوعمرے کئے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۲۵حدیث ۳۹۶۶) {۲}’’اِعتکاف کرنے والاگناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کیلئے تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جیسے ان کے کرنے والے کے لئے ہوتی ہیں ۔‘‘(ابنِ ماجہ ج۲ص۳۶۵حدیث۱۷۸۱)

بغیر کیے نیکیوں کا ثواب:

مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیث نمبر 2 کے تحت مراٰۃ جلد 3 صفحہ 217 پر فرماتے ہیں : ’’یعنی اعتکاف کا فوری فائدہ تو یہ ہے کہ یہ معتکف کو گناہوں سے باز رکھتا ہے۔ عَکْف کے معنی ہیں روکنا، باز رکھنا، کیونکہ اکثر گناہ غیبت، جھوٹ اور چغلی وغیرہ لوگوں سے اختلاط کے باعث ہوتی ہے معتکف گوشہ نشین ہے اور جو اس سے ملنے آتا ہے وہ بھی مسجد و اعتکاف کا لحاظ رکھتے ہوئے بری باتیں نہ کرتا ہے نہ کراتا ہے۔ یعنی معتکف اعتکاف کی وجہ سے جن نیکیوں سے محروم ہوگیا جیسے زیارتِ قبور مسلمان سے ملاقات بیمار کی مزاج پرسی ، نمازِ جنازہ میں حاضری اسے ان سب نیکیوں کا ثواب اسی طرح ملتا ہے جیسے یہ کام کرنے والوں کو ثواب ملتا ہے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ غازی، حاجی ، طالب علم دین کا بھی یہ ہی حال ہے۔‘‘

روزانہ حج کا ثواب:

حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے: ’’معتکف کو ہر روز ایک حج کا ثواب ملتاہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۲۵حدیث ۳۹۶۸)

اعتکاف کی تعریف:

’’مسجِد میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے بہ نیت اِعتکاف ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔‘‘ اس کیلئے مسلمان کا عاقل ہونا اور جَنابت اورحیض ونفاس سے پاک ہوناشرط ہے۔بلوغ شرط نہیں ، نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں ٹھہرے تواُس کا اعتکاف صحیح ہے۔ (عالمگیری ج۱ ص ۲۱۱ )

اعتکاف کے لفظی معنی:

اِعتکاف کے لغوی معنی ہیں :’’ایک جگہ جمے رہنا‘‘ مطلب یہ کہ معتکفاللّٰہُ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی بارگاہِ عظمت میں اُس کی عبادت پرکمر بستہ ہو کر ایک جگہ جم کر بیٹھا رہتا ہے۔ اس کی یہی دُھن ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا پَروردگارعَزَّوَجَلَّاس سے راضی ہوجائے۔

اب تو غنی کے در پر بستر جمادیئے ہیں :

حضرتِ سیِّدُنا عطا خراسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں : معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اللّٰہ تَعَالٰی کے در پر آپڑا ہو اور یہ کہہ رہا ہو: ’’ یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی! جب تک تو میر ی مغفرت نہیں فرمادے گا میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔‘‘ (بَدائعُ الصنائع ج۲ص۲۷۳)

ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گے

اب تو غنی کے در پر بستر جما دیئے ہیں

(حدائقِ بخشِش ص۱۰۱)

اعتکاف کی قسمیں :

اِعتکاف کی تین قسمیں ہیں {۱}اعتکافِ واجِب{۲}اعتکافِ سُنّت {۳} اِعتکافِ نَفْل۔

اعتکافِ واجب :

اِعتکاف کی نذر(یعنی منّت)مانی یعنی زَبان سے کہا: ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکیلئے میں فلاں دن یا اتنے دن کااِعتکاف کر و ں گا۔‘‘ تواب جتنے دن کا کہا ہے اُتنے دن کا اِعتکاف کرناواجب ہو گیا ۔ منَّت کے اَلفاظ زَبان سے اداکرنا شرط ہے،صرف دل ہی دل میں منَّت کی نیَّت کرلینے سے منَّت صحیح نہیں ہوتی۔ (اور ایسی منَّت کاپوراکرناواجب نہیں ہوتا) ( رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۴۹۵ مُلَخَّصاً ) منَّت کااعتکاف مردمسجدمیں کرے اورعورت مسجد بیت میں ، اِس میں روزہ بھی شرط ہے ۔ (عورت گھر میں جو جگہ نمازکیلئے مخصوص کرلے اُسے ’’مسجدِ بیت‘‘کہتے ہیں )

اعتکافِ سنت:

رَمَضانُ الْمُبارَککے آخِری عشرے کااعتکاف ’’سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ‘‘ ہے۔ (دُرِّ مُخْتار ج ۳ ص ۴۹۵) اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذِّمَّہ۔ بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱) اِس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں تاریخ کوغروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِدکے اندر بہ نیّتِ اعتکاف موجود ہو اور اُنتیس (اُن۔تیس)کے چاندکے بعد یاتیس کے غُروبِ آفتاب کے بعدمسجِدسے باہَر نکلے۔ اگر 20 رَمَضانُ المبارک کوغروبِ آفتاب کے بعدمسجدمیں داخل ہوئے تو اِعتکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ادانہ ہوئی۔

اعتکاف کی نیت اس طرح کیجئے:

’’میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رِضاکیلئے رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کے سنّتِ اِعتکاف کی نیَّت کرتا ہوں ۔‘‘(دل میں نیت ہونا شرط ہے، دل میں نیت حاضر ہوتے ہوئے زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے)

اعتکافِ نفل

نذر اور سنّتِ مُؤَکَّدہکے علاوہ جو اعتکاف کیاجائے وہ مستحب و سنّتِ غیر مُؤَکَّدہ ہے۔ (بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱)اِس کیلئے نہ روزہ شرط ہے نہ کوئی وَقت کی قید، جب بھی مسجِد میں داخل ہوں اِعتکاف کی نیّت کرلیجئے،جب مسجِد سے باہرنکلیں گے اِعتکاف ختم ہوجائے گا۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جب مسجد میں جائے اِعتکاف کی نیَّت کرلے، جب تک مسجد ہی میں رہے گا اِعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۹۸)نیَّت دل کے ارادے کوکہتے ہیں ، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کر لیا کہ ’’میں سنّتِ اِعتکاف کی نیّت کرتا ہوں ۔‘‘ آپ معتکف ہو گئے، دل میں نیّت حاضر ہوتے ہوئے زَبان سے بھی یہی الفاظ کہہ لینا بہتر ہے ۔ مادَری زَبان میں بھی نیّت ہوسکتی ہے مگرعربی میں زیادہ بہتر جبکہ معنی ذہن میں موجود ہوں ۔ ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ صَفْحَہ317پرہے:

’’نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکَاف

ترجَمہ:میں نے سنّتِ اِعتکاف کی نیت کی۔‘‘

مسجدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قدیم اور مشہور دروازے’’بابُ الرَّحمَۃ‘‘سے داخل ہوں تو سامنے ہی ستون مبارک ہے اس پر یاد دہانی کیلئے قدیم زمانے سے نمایاں طور پر نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاعتِکَاف لکھا ہوا ہے۔

مسجد میں کھانا پینا

یاد رکھئے! مسجِدکے اندر کھانے پینے، سحرو افطار کرنے، آبِ زم زم یا دم کیا ہوا پانی پینے اور سونے کی شَرْعاً اجازت نہیں ، اگر اعتکاف کی نیّت تھی توضمناً ان سب کاموں کی اجازت ہوجائے گی۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لیناضروری ہے کہ اعتکاف کی نیَّت صرف کھانے،پینے اورسونے وغیرہ کیلئے نہ کی جائے، ثواب کیلئے کی جائے۔ رَدُّالْمُحْتَار(شامی) میں ہے:’’ اگرکوئی مسجِد میں کھانا ، پینا یا سونا چاہے تو اعتکا ف کی نیت کرلے،کچھ دیر ذِکرُاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکرے پھر جو چاہے کرے (یعنی اب چاہے تو کھاپی یاسوسکتا ہے)۔‘‘ (رَدُّالمُحتار ج۳ص۵۰۶) (فیضانِ رمضان ص ۲۱۸تا ۲۲۱)

(09): ’’ اجتماعی اعتکاف کی 41 نیتیں ‘‘

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم:نِیَّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ۔ ’’مسلما ن کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘ (مُعْجَم کبِیرج۶ص۱۸۵ حدیث ۵۹۴۲) اپنے اعتکاف کی عظیم الشان نیکی کے ساتھ مزید اچھی اچھی نیتیں شامل کر کے ثواب میں خوب اِضافہ کیجئے ۔ مکتبۃُ المدینہ کی طرف سے شائع کردہ کارڈ میں سے سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بیان کردہ مسجد میں جانے کی40 نیتوں میں سے حسبِ حال نیتیں کرنے کے ساتھ ساتھ موقع کی مناسبت سے مزیدیہ نیتیں بھی کر کے گھر سے نکلئے، ( مسجِد میں آکر بھی حسبِ حال نیتیں کی جا سکتی ہیں ، جب بھی اچھی اچھی نیتیں کریں ثواب کی نیت پیش نظر رکھا کریں )

{۱} یکسوئی کے ساتھ عبادت بجالانے، ذاتی مطالعہ یا اہلِ علم کے مُیَسَّر ہونے پر اس سے علم دین سیکھنے کے موا قع سے فائدہ اٹھانے، لَیْلَۃُ الْقَدْر کی برکتیں پانے اور ماہِ رمَضانُ الْمُبارَک کے قیمتی لمحات سے مکمل فائدہ اٹھانے کے لئے پورے ماہِ رمَضانُ الْمُبارَک (یا آخِری دس دن)کے سنّتِ اعتکاف کیلئے جا رہا ہوں {۲} تصوُّف کے ان اُصولوں (الف)تقلیلِ طعام ( یعنی کم کھانا) (ب) تقلیلِ کلام ( یعنی کم بولنا) (ج) تقلیلِ منام ( یعنی کم سونا) پر کار بند رہوں گا {۳} روزانہ پانچوں نمازیں پہلی صف میں {۴} تکبیراولیٰ کے ساتھ {۵} با جما عت ادا کروں گا{۶} ہر اذان اور {۷} ہر اِقامت کا جواب دوں گا{۸} ہر بار مع اوّل و آخر دُرُود شریف اذان کے بعد کی دُعا پڑھوں گا {۹} روزانہ تہجُّد {۱۰} اِشراق {۱۱} چاشت و{۱۲} اَوّابین کے نوافل ادا کروں گا{۱۳} تلاوت اور{۱۴} دُرُود شریف کی کثرت کروں گا {۱۵}روزانہ رات سُورۃُ الْمُلْک پڑھو ں یا سُنوں گا {۱۶} کم از کم طاق(ODD) راتوں میں صلوٰۃُ التسبیح ادا کروں گا{۱۷} تمام سنتوں بھرے حلقوں اور {۱۸} بیانات میں اوّل تا آخر شرکت کروں گا {۱۹} رِشتے دار وں اور ملاقاتیوں کو بھی اِنفرادی کوشش کر کے سنتوں بھرے حلقوں میں بٹھا ؤں گا {۲۰} زَبان پر قفلِ مدینہ لگاؤں گا یعنی فضول گوئی سے بچوں گا اور ممکن ہوا تو اِس نیت خیر کے ساتھ ضرورت کی بات بھی حتی الامکان لکھ کر یا اشارے سے کروں گا تاکہ فضول ، یابری باتوں میں نہ جاپڑوں یا شوروغل کاسبب نہ بن جاؤں {۲۱}مسجد کو ہر طرح کی بد بو سے بچاؤں گا {۲۲}مسجد میں نظر آنے والے تنکے اور بالوں کے گچھے وغیرہ اٹھاکر ڈالنے کیلئے اپنی جیب میں شاپر رکھوں گا۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم: ’’جو مسجِد سے اَذِیت کی چیز نکالےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُس کیلئے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘ (ابنِ ماجہ ج۱ص۴۱۹حدیث۷۵۷) {۲۳}اپنے پسینے اور منہ کی رال وغیرہ کی آلودَگی سے مسجِد کے فرش یا دری یا کارپیٹ کو بچانے کیلئے صِرف اپنی ذاتی چادر یاچٹائی پر ہی سوؤں گا{۲۴}بہ نیت حیا ،سونے میں پردے میں پردہ رہے اس کا ہر طرح سے خیال رکھوں گا( سوتے وقت پاجامے پر تہبند باندھ کر مزید اوپر سے چادر اوڑھ لینا مفید ہے۔جامعۃ المدینہ، مَدَنی قافلے اورگھر وغیرہ میں ہر جگہ سوتے وقت اس کا خیال رکھنا چاہئے ) {۲۵} مسجد میں گندگی نہ ہو اس لئے وُضو خانہ فنائے مسجِد میں ہونے کی صورت میں تیل کنگھی وَہیں کروں گا اور جو بال جھڑیں گے اُٹھا لوں گا ( اگر کوئی وُضو کیلئے منتظر ہو تو نشست سے ہٹ کر تیل کنگھی کیجئے) {۲۶}بِغیر اجازت کسی کی کوئی چیز استعمال نہ کر کے خود کو گناہ سے بچاؤں گا مَثَلاًاِستنجا خانے جانے کیلئے دوسروں کے چپل وغیرہ استعمال نہیں کروں گا بلکہ {۲۷}جن سے پہلے سے لین دین اور دوستی نہیں تھی ان سے ہلکی پھلکی چیزیں بھی عاریۃً نہ مانگ کر خود کو خلافِ مروَّت کام سے بچاؤں گا اور اگر وہ چیز اُس کے استعمال میں ہے تو اُسے پریشانی نہ پہنچانے کی نیّت بھی مد نظر رکھوں گا لہٰذا چپل، چادر، تکیہ وغیرہ کسی چیز کیلئے دوسروں سے سُوال نہیں کروں گا {۲۸}وَقف اِملاک کو نقصان سے محفوظ رکھنے، نمازیوں کو اَذیت سے بچانے اور مسجد انتظامیہ کو پریشانی سے دور رکھنے کے لئے کھانا فنائے مسجد میں وہ بھی کھانے کی مخصوص دری یا دسترخوان وغیرہ بچھا کر اس پر کھاؤں گا، نماز کی دری پرہر گز نہیں کھاؤں گا{۲۹}کھانا کم ہونے کی صورت میں بھوک کے باوُجود ایثار کی نیت سے آہستہ آہستہ کھاؤں گا تاکہ دوسرے اسلامی بھائی زِیادہ کھا سکیں ۔ ایثار کا ثواب بے شمارہے چنانچِہ تاجدارِ رِسالت، ماہِ نُبُوَّت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ بخشش نشان ہے:’’جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اُ س خواہش کو روک کر اپنے اوپرکسی اور کو ترجیح دے، تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُسے بخش دیتا ہے‘‘ (ابنِ عَساکِر ج۳۱ص۱۴۲){۳۰}پیٹ کا قُفلِ مدینہ لگاؤں گا یعنی خواہِش سے کم کھاؤں گا تا کہ عبادت میں سستی واقع نہ ہو اور زیادہ کھانے کی وجہ سے صحّت میں کوئی ایسی خرابی نہ ہو جائے جو عبادات کو مُتَأَثِّر کرے {۳۱}اگر کسی نے زیادَتی کی تو اللّٰہ تَعَالٰی کی رضا کے لئے صَبْر کروں گااور {۳۲} اُس کواللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے معاف کروں گا {۳۳}خصوصاًپڑ و سی مُعتَکِف کے ساتھ اورعموماً ہر ایک کے ساتھ حسنِ سلوک کروں گا {۳۴}اعتکاف کے حلقہ نگران کی انتِظامی معاملات اورجَدوَل کے تعلُّق سے اطاعت کروں گا تا کہ مسجد کے اجتماعی نظم و نسق میں کوئی خلل نہ پڑے اور بد انتِظامی پیدا نہ ہو {۳۵} فکر مدینہ کرتے ہوئے روزانہ مَدَنی اِنعاما ت کا رسالہ پر کروں گا {۳۶}اسلامی بھائیوں کے سامنے موقع کی مناسبت سے مسکرا مسکرا کر صدقے کا ثواب کماؤں گا {۳۷}کوئی میری طرف دیکھ کر مسکرائے گا تو یہ دعا پڑھوں گا: اَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ (یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّتجھے ہنستا رکھے) {۳۸}اپنے لئے، گھر والوں ، اَحباب اور ساری اُمت کیلئے دعائیں کروں گا {۳۹}اگر کوئی معتکف بیمار ہو گیا تو جتنا ہو سکا اُس کی دلجوئی اور خدمت کروں گا {۴۰}بزرگ (یعنی عمر رسیدہ) معتکفین کے ساتھ بہت زیادہ حسنِ سلوک کروں گا{۴۱}دَورانِ اعتکاف حسبِ توفیق رسائل تقسیم کروں گا( ہرمعتکف اسلامی بھائی کی خدمت میں درد بھری مَدَنی التجا ہے کہ حسبِ توفیق یا دورانِ اعتکاف کم از کم 112 روپے کے مکتبۃُ المدینہ کے رسائل یا سنتوں بھرے بیان کی C.D. یا مَدَنی پھولوں کے مَدَنی پمفلٹ آنے والے ملاقاتیوں وغیرہ میں ضَرور تقسیم فرمائیں ۔ رمَضانُ الْمُبارَک میں تقسیمِ رسائل کا ثواب بھی زِیادہ ملے گا) (فیضانِ رمضان ص ۲۲۲تا۲۴ ۲)

(10): ’’ الوداع ماہِ رمضان کی12 نیتیں ‘‘

{۱}’’الوداع ماہِ رَمضان‘‘ پڑھنے سننے کے ذریعے وعظ و نصیحت حاصل کروں گا {۲} اللّٰہ ورَسُولَ عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مَحَبَّت، ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی اُلفت دل میں بڑھاؤں گا{۳} نیکیوں میں رغبت حاصل کروں گا{۴} گناہوں سے بچنے کا ذِہن بناؤں گا۔( یہ نیتیں اُسی صورت میں دُرُست ہوں گی جبکہ پڑھا جانے والا کلام شریعت کے مطابق ہو اور اُس میں وعظ و نصیحت وغیرہ شامل بھی ہو) {۵}رَمَضانُ الْمُبارَک کی آخری گھڑی تک بارگاہِ الٰہی میں اپنی مغفرت کیلئے وقتاً فوقتاً گریہ وزاری کی کوشش کرتا رہوں گا۔ (آہ!آہ!آہ!ایک فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّممیں یہ بھی ہے:’’محروم ہے وہ شخص جس نے رَمضا ن کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رَمضا ن میں مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی! ‘‘ (مُعجَم اَوسَط ج۵ص۳۶۶حدیث۷۶۲۷))

واسطہ رَمضان کا یارب! ہمیں تو بخش دے

نیکیوں کا اپنے پلے کچھ نہیں سامان ہے (وسائلِ بخشش ص۷۰۴)

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۶} اس نیت سے’’ الوداع ماہ ِ رمضان ‘‘کے اجتماع میں شرکت کروں گا کہ نیکیوں کا جذبہ باقی رہے بلکہ مزید بڑھے۔ (کیونکہ ماہِ رَمَضانُ الْمبارَکمیں نیک لوگوں کے اندر نیکیوں کا جذبہ بڑھ جاتا ہے) {۷}بہت سے لوگ خوف ِ خدا کے سبب گناہوں سے رُک جاتے ہیں مگر افسوس! رَمَضان شریف جوں ہی رخصت ہوتا ہے بے عملی ایک بارپھربڑھ جاتی ہے اور نمازیوں کی تعدادمیں بھی کمی آجاتی ہے ،آہ! مسجدیں خالی خالی نظر آتی ہیں ، ان تصوُّرات کے ساتھ نہ صرف خود بھی بے عملی سے بچنے کی نیت سے بلکہ دوسروں کے متعلق دل میں کڑھن (یعنی دُکھ) رکھ کر سوزورقت کے ساتھ ماہِ رَمضان کواَلوداع کر کے اپنا خوفِ خدا بڑھاؤں گا {۸}آیندہ سال ماہِ رَمضان نصیب ہونے کی آرزو اور اُس میں خوب خوب نیکیاں کرنے کی نیَّت شامل رکھ کر رو رو کر اِس سال کے ماہِ رَمضان کو اَلوداع کروں گا {۹} تَشَبُّہ بِالصّٰلِحِین (یعنی نیک لوگوں سے مشابہت) اختیار کروں گا کہ سلَف صالحین(یعنی گزشتہ زمانے کے بُزرگانِ دین) رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنرَمَضانُ الْمبارَک کی جدائی پرغمگین ہوتے تھے {۱۰} خائفین(یعنی خوفِ خدا رکھنے والوں ) کے اجتماع کی بَرَکات حاصل کروں گا(اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اس طرح کے روح پرور اجتماعات دعوت ِ اسلامی میں دیکھے جا سکتے ہیں ){۱۱} اشعارکی صورت میں مانگی جانے والی دعاؤں میں شرکت کروں گا کہ الوداع کے بعض اشعار ،اصلاحِ اعمال ،خاتمہ بالخیر اور مغفرت وغیرہ کی دعا پر مشتمل ہوتے ہیں {۱۲} اللّٰہ ورَسُولَ اور نیک اعمال کیمَحَبَّت میں رونے کی کوشش کروں گاکہ الوداع پڑھنے سننے والوں کو اللّٰہ ورَسُولَ عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی مَحَبَّت میں عموماً رونے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔جو علمِ نیت رکھتا ہے وہ مزید نیتیں بڑھا سکتا ہے۔

ہائے عطارِؔ بدکار کاہِل رہ گیا یہ عبادت سے غافل

اِس سے خوش ہو کے ہونا روانہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۳)

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(فیضانِ رمضان ص ۱۹۲تا ۱۹۴)

(11): ’’ قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی نیتیں اور احتیاطیں‘‘

دوفرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :{1} ’’مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘(مُعجَم کبیرج۶ص۱۸۵ حدیث ۵۹۴۲){2}’’اچھی نیّت بندے کو جنَّت میں داخِل کردیتی ہے۔‘‘ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخطّاب ج۴ ص۳۰۵ حدیث۶۸۹۵) دو مَدَنی پھول: (۱) بغیر اچھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا (۲) جتنی اچّھی نیتیں زیادہ، اتنا ثواب بھی زیادہ۔ {۱} رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کیلئے اچّھی اچّھی نیتیں کرتا ہوں{۲} ہر حال میں شَریعت و سنّت کا دامن تھامے رہوں گا{۳}قربانی کی کھالوں کے لئے بھاگ دوڑ کے ذَرِیعے دعوتِ اسلامی کے ساتھ تعاوُن کروں گا {۴} کوئی لاکھ بدسُلوکی کرے مگر اظہارِ غصّہ اور {۵}بد اَخلاقی سے پرہیز کر کے دعوتِ اسلامی کی ناموس و عزّت کی حفاظت کروں گا {۶}قربانی کی کھالوں کے سبب لاکھ مصروفیّت ہوئی بِلا عُذرِ شَرعی کسی بھی نَماز کیجماعت تو کیا تکبیرِاولیٰ بھی تَرْک نہیں کروں گا{۷} پاک لباس مع عِمامہ شریف اور تہبند شاپر وغیرہ میں ڈال کر نَمازوں کیلئے ساتھ رکھوں گا( حسب ضَرورت بستے وغیرہ پر بھی رکھ سکتے ہیں۔ اِس کی خاص تاکید ہے، کیوں کہ ذَبْح کے وَقْت نکلا ہوا خون نَجاستِ غَلِیظَہ اور پیشاب کی طرح ناپاک ہے اور کھالیں جمع کرنے والے کا اپنے کپڑے پاک رکھنا انتِہائی دشوار ہے۔بہارِ شریعت جلداوّل صَفَحہ 389 پر ہے :’’ نَجاستِ غَلِیظَہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک دِرہَم سے زیادہ لگ جائے تو اُس کا پاک کرنا فرض ہے، بے پاک کیے نَماز پڑھ لی تو ہو گی ہی نہیں اور قصداً پڑھی تو گناہ بھی ہوا اور اگر بہ نیّتِ اِسْتِخْفَاف( یعنی اِس حکمِ شریعت کوہلکا جان کر ) ہے تو کُفْرہوا اور اگر دِرہَم کے برابر ہے تو پاک کرنا واجِب ہے کہ بے پاک کیے نَماز پڑھی تو مکروہِ تَحریمی ہوئی یعنی اَیسی نَماز کا اِعادہ واجِب ہوا اورقَصداً پڑھی توگُنہگار بھی ہو ا اور اگر دِرہَم سے کم ہے تو پاک کرنا سنّت ہے کہ بے پاک کیے نَماز ہو گئی مگرخِلاف ِسنّت ہوئی اور اس کا اِعادہ بہتر ہے ‘‘){۸}مسجِد،گھر،مکتب اور مدرسے وغیرہ کی دَرِیّوں ،چٹائیوں ، کارپیٹ،اور دیگر چیزیں خون آلود ہونے سے بچاؤں گا( وُضُو خانے کے گِیلے فرش یا پائیدان وغیرہ پر بھی خون آلود پاؤں سَمیت جانے سے بچنے اوروُضُو کرتے ہوئے خوب اِحتیاط کرنے کی ضَرورت ہے ورنہ نَجاست کی آلودَگی اورناپاک پانی کے چِھینٹوں سے اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ناپاک کر ڈالنے کا احتمال رہے گا){۹} خون آلود بدبو دار کپڑوں سَمیت مسجِد میں نہیں جاؤں گا ( بدبو نہ بھی آتی ہو تب بھی ناپاک بدن یا کپڑا یا چیز مسجد میں لے جانا منع ہے ۔زخم،پھوڑے، کپڑے ، عمامے،چادر،بدن یا ہاتھ منہ وغیرہ سے بدبو آتی ہو تو تب بھی مسجِد کے اندر داخِل ہونا حرام ہے۔فیضانِ سنَّت جلد اوّل صفحہ نیچے سے1217پر ہے:مسجِد کو (بد)بُو سے بچانا واجِب ہے وَ لہٰذا مسجِد میں مِٹّی کا تیل جلانا حرام، مسجِدمیں دِیاسَلائی ( یعنی ماچِس کی تِیلی) سُلگانا حرام ، حتّٰی کہ حدیث میں ارشاد ہوا: مسجِد میں کچّا گوشت لے جانا جائز نہیں۔(اِبنِ ما جہ ج۱ ص۴۱۳ حدیث۷۴۸ ) حالانکہ کچّے گوشْتْ کی(بد) بُو بَہُتخَفِیف ( یعنی ہلکی ) ہے{۱۰} قلم ، رسید بُک ، پیڈ ، گلاس ، چائے کے پیالے وغیرہ پاک چیزوں کو ناپاک خون نہیں لگنے دو ں گا (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ جلد 4 صَفَحہ 585پر ہے ’’ پاک چیز کو (بلا اجازتِ شرعی) ناپاک کرنا حرام ہے‘‘) {۱۱} جو دوسرے اِدارے کو کھال دینے کا وعدہ کر چکا ہو گا اُس کوبدعَہدی کا مشورہ نہیں دوں گا( آسان طریقہ یہ ہے کہ اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ آپ سارا ہی سالمُتَوَجّہ رہئے اور خود ہی پَہَل کر کے کھال بُک کروا کر رکھئے ) {۱۲} اپنی طے شُدہ کھال اگر کسی سنّی اِدارے کا آدمی لینے نہیں پہنچا، یا{۱۳} غَلَطی سے میرے پاس آ گئی تو بہ نیّتِ ثواب اُدھر دے آؤں گا{۱۴} جو کھال د ے گا ہو سکا تواُس کو مَکتبۃُ المدینۃ کوئی رسالہ یا پمفلٹ تحفۃً پیش کروں گا {۱۵}نیزاُس کو ’’شکریہ،جَزاکَ اللہ‘‘ کہوں گا (فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللہَ۔ یعنی جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا اس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا بھی شکرادا نہ کیا۔(تِرمِذی ج۳ص۳۸۴حدیث ۱۹۶۲)){۱۶} کھال دینے والے پر انفِرادی کوشِش کر کے اُس کو سنّتوں بھرے اجتِماع اور {۱۷} مَدَنی قافِلوں میں سفر وغیرہ کی رغبت دلاؤں گا{۱۸} بعد میں بھی اُس سے رابِطہ رکھ کر کھال دینے کے اِحسان کے بدلے میں اُسے مَدَنی ماحول میں لانے کی کوشِش کروں گا اگر {۱۹} وہ مَدَنی ماحول میں ہوا تو اُسے مَدَنی قافِلے کا مسافِریا{۲۰} مَدَنی اِنعامات کا عامِل بناؤں گا یا {۲۱ } کوئی نہ کوئی مزید مَدَنی ترکیب کروں گا ( ذمّے داران کو چاہئے کہ بعد میں وَقت نکال کر کھال دینے والوں کا شکریہ ادا کرنے ضَرور جائیں نیز ان سب مُحسنین کو علاقائی سطح پر یا جس طرح مناسِب ہو اکٹّھا کر کے مختصراً نیکی کی دعوت اورلنگرِ رسائل وغیرہ کی ترکیب فرمائیں۔ رسائل کی دعوتِ اسلامی کے چندے سے نہیں جُدا گانہ ترکیب کرنی ہو گی ){۲۲} دُور و نزدیک جہاں سے بھی کھال اُٹھانے ( یا بستہ یا کوئی سا کام سنبھالنے ) کا ذمّے دار اسلامی بھائی حکم فرمائیں گے، بِلا رَدّ وکَد اِطاعت کروں گا۔( یہ نیّتیںبَہُت کم ہیں ، علمِ نیّت سے آشنا مزید بَہُت ساری نیّتیں نکال سکتا ہے) (ابلق گھوڑے سوارص۴۱تا ۴۴)

(12): ’’ قصاب کے لیے 20 مدنی پھول ‘‘

{1}پہلے کسی ماہرگوشْتْ فروش کی نگرانی میں ذَبْح وغیرہ کا کام سیکھ لے کہ اُس ناتجرِبہ کار کیلئے یہ کام جائز نہیں جس کی وجہ سے کسی کے جانور کے گوشْتْ اور کھال وغیرہ کوعُرف و عادت(یعنی عام معمول اور دستور) سے ہٹ کر نقصان پہنچتا ہو۔

{2} ماہر گوشْتْ فروش کو بھی چاہئے کہ جلد بازی یا لا پرواہی کے سبب کھال میں عُرف و عادت سے زائدگوشْتْ نہ لگا رہنے دے ،اِسی طرح چھیچھڑے اُتارنے میں بھی احتیاط سے کام لے کہ اِس میں خوامخواہ بوٹی اور چربی نہ چلی جائے۔نیز کھائی جانے والی ہڈیاں وغیرہ بھی پھینکنے کے بجائے ٹکڑے بنا کر گوشْتْ ہی میں ڈا ل دے اور ماہرگوشْتْ فروش کوبھی عُرف وعادت سے ہٹ کر گوشْتْ یا کھال کو نقصان پہنچانا جائز نہیں۔

{3} بَقَرہ عید میں عُموماً بڑے جانور کابھیجااور زَبان وغیرہ نکال کر سِری کا بقیّہ حصّہ اور پائے کے کُھر پھینک دیئے جاتے ہیں ، اِسی طرح بکرے کے سِری پائے کے بھی کھائے جانے والے بعض اجزا خوامخواہ ضائِع کر دیئے جاتے ہیں ایسا نہ کیا جائے اگر خود کھانا نہیں چاہتے تو کسی غریب مسلمان کو بُلا کر احترام کے ساتھ دیجئے کہ اِس طرح کے کافی افراد ان دنوں گوشْتْ اور چربی وغیرہ کی تلاش میں پھر رہے ہوتے ہیں۔نیز یہ بھی یاد رکھئے کہ بڑے جانور کے سِری پائے مکمَّل چمڑے سمیت اصل کھال سے جدا کر لینے کی وجہ سے کھال کی قیمت میں کمی آتی ہے۔

{4} عام دنوں میں پونچھ کا گوشْتْ دوسرے گوشْتْ کے ساتھ وَزْن میں بیچا جاتا ہے جبکہ قربانی کے جانور کی پونچھ عُموماً کھال میں ہی جانے دیتے ہیں اس سے اِس کا گوشْتْ ضائِع ہو جاتا ہے، بلکہ بڑے جانور میں سے بعض اوقات کھال سمیت پونچھ کاٹ کر پھینک دیتے ہیں ، یہ طریقہ بھی غَلَط ہے، اِس طرح کرنے سے کھال کی قیمت میں بھی کمی آتی ہے۔

{5} جن ملکوں میں کھال کام میں لے لی جاتی ہے(مَثَلاً پاک و ہند میں ) وہاں عُرف سے ہٹ کر خوامخواہ ایسی جگہ’’ کَٹ ‘‘ لگادینا جائز نہیں جس سے کھال کی قیمت میں کمی آجائے ۔گوشْتْ فروشوں کو چاہئے کہ جس طرح اپنے ذاتی جانور کی کھال سنبھال سنبھال کر اُدھیڑتے ہیں ،دوسروں کے مُعامَلے میں بھی اِسی طرح کریں۔

{6}دُنبے کی چکّی کی کھال اُدھیڑنے میں اِس بات کا خیال رکھئے کہ چربی کھال میں باقی نہ رہے ۔

{7} چھیچھڑے اور چربی ایک طرف جَمْعْ کر کے آخر میں چھیچھڑوں کی آڑ میں چربی بھی اُٹھا لے جانا دھوکا اور چوری ہے۔ پوچھ کربھی نہ لیں کہ’’ سُوال‘‘ہے اور بِلاحاجتِ شَرْعی سُوال جائز نہیں۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:جو شخص حاجت کے بِغیر لوگوں سے سُوال کرتا ہے وہ منہ میں انگارے ڈالنے والے کی طرح ہے۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۲۷۱ حدیث ۳۵۱۷)

{8}بسا اوقات قربانی کے جانور میں سے بوٹی کا بہترین گول لوتھڑا چپکے سے ٹوکری میں سَرکالیا جاتا ہے یہ صاف صاف چوری ہے ۔ بِلا اجازت شَرْعی مانگ کر لینا بھی دُرُست نہیں۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:’’جو مال میں اِضافے کے لئے لوگوں سے سُوال کرتا ہے وہ انگارے مانگتا ہے، اب اس کی مرضی ہے کہ انگارے کم جَمْع کرے یا زیادہ۔‘‘(مُسلِم ص۵۱۸حدیث ۱۰۴۱)ہاں اگرلوگوں میں گوشْتْ بانٹا جا رہا ہے اورگوشْتْ فروش نے بھی لینے کیلئے ہاتھ بڑھا دیا تو حَرَج نہیں۔

{9}گوشت کا ہروہ حصّہ جو عام دنوں میں استِعمال میں لیا جاتا ہے ، قربانی کے دنوں میں بھی کام میں لیا جائے۔پھیپھڑے اور چربی وغیرہ کے ٹکڑے کر کے گوشْتْ کے ساتھ تقسیم کر دینا مُناسب ہے، اِس طرح کی چیزوں کو پھینکا نہ جائے اگر خود کھانا یا گوشْتْ کے ساتھ تقسیم کرنا نہیں چاہتے تو یوں بھی ہو سکتا ہے کہ جوضَرورت مند لینا چاہے اُسے بلاکر دے دیا جائے یا کسی کے حوالے کردیا جائے کہ کسی ضَرورت مند کو دے دے بلکہ احتیاط اسی میں ہے کہ خود ہی کسی مسلمان کے حوالے کر دیجئے۔ یہ مسئلہ یاد رہے کہ غیر مسلم بھنگیوں وغیرہ کوکھال توکیا ایک بوٹی بھی قربانی کے گوشْتْ میں سے دینا جائز نہیں۔

{10} اگر جانور کے گلے میں رسی ، نَتھ، چمڑے کا پٹّا، گُھنگُرو، ہار وغیرہ ہے تو ان سب کو چُھری سے جُوں توں کاٹ کر نہیں بلکہ قاعدے کے مطابِق کھول کر نکال لینا چاہئے تاکہ ناپاک نہ ہو ں۔ بِغیر نکالے ذَبح کرنے کی صورت میں یہ چیزیں خون آلود ہو جاتی ہیں اورمسئلہ یہ ہے کہ بِلاحاجت کسی پاک چیز کوقَصْداً(یعنی جان بوجھ کر) ناپاک کرنا حرام ہے۔بِالفرض ناپاک ہو بھی جائیں تب بھی ان کو پھینک نہ دیا جائے ، پاک کر کے خود استِعمال میں لائیں یا کسی مسلمان کو دیدیں۔ یاد رکھئے ! ÊóÖیöیÚö مال( یعنی مال ضائع کرنا) حرام ہے۔

{11} چُھری پھیرنے سے قبل جانور کے گلے کی کھال نرم کرنے کیلئے اگر پاک پانی کے برتن میں ناپاک خون والا ہاتھ ڈال کر چُلّو بھرا تو چُلّو کا اور اُس برتن کا تمام پانی ناپاک ہو گیا۔ اب یہ پانی گلے پر مت ڈالئے ۔ اِس کا آسان سا حل یہ ہے کہ جن کاجانور ہے اُسی سے کہئے وہ پاک صاف پانی کا گلاس بھر کر اپنے ہاتھ سے جانور کے گلے پر ڈالئے مگریہ احتیاط کی جائے کہ گلاس سے پانی ڈالنے یا چھڑکنے کے دوران بیچ میں نہ کوئی اپنا خون آلود ہاتھ ڈالئے نہ ہی پانی والے گلے پر خون والا ہاتھ مَلے یہ بات صر ف قربانی کیلئے خاص نہیں ،جب بھی ذَبْح کریں اِس کا خیال رکھئے۔

{12} ذَبْح کے بعد خون آلود چُھری اور اُسی خون سے لِتھڑے ہوئے ہاتھ دھونے کیلئے پانی کی بالٹی میں ڈالدینے سے چُھری اور ہاتھ پاک نہیں ہوتے اُلٹا بالٹی کا سارا پانی بھی ناپاک ہو جاتا ہے۔ اکثر اِسی طرح کے ناپاک پانی سے کھال اُدھیڑنے میں بھی مدد لی جاتی ہے اوریِہی پانی گوشت کے اندرونی حصّے میں جمع شدہ خون دھونے کیلئے بھی بہا یا جاتا ہے گوشت کے اندر کا خون پاک ہوتا ہے مگر ناپاک پانی بہانے کے سبب یہ نقصان ہوتا ہے کہ یہ ناپاک پانی جہاں جہاں سے گزرتا ہے گوشت کے پاک حصّے کو بھی ناپاک کرتا چلا جاتا ہے ۔ ایسا مت کیجئے۔

{13} اَجیرگوشت فروش کیلئے یہ ضَروری ہے کہ بَقَرہ عید کے عُرف و عادت (یعنی دستو ر ) کے مطابِق قُربانی کے گوشْتْ کی بوٹیاں بنا کر دے۔ بعض قصّاب جلد بازی کے سبب گوشْتْ کے بڑے بڑے ٹکڑے بناتے ، نلیاں بھی صحیح سے توڑ کر نہیں دیتے اور سِری پائے بھی ثابِت چھوڑ کر چل دیتے ہیں ،ایسانہ کیا کریں۔ اِس طرح قربانی کروانے وا لے سخت آزمائش میں آجاتے ہیں اور بسا اوقات سِری پائے وغیرہ پھینکنے پڑ جاتے ہیں۔بعض لوگ صَبر کرنے کے بجائے قصّاب کو بُرے بُرے اَلْقاب اور گالیوں سے نوازتے اور خوب گناہوں بھری باتیں کرتے ہیں۔ہاں ، اِجارہ کرتے وَقْت قصّاب نے کہہ دیا ہو کہ سِری پائے بنا کر نہیں دوں گا تو اب ثابِت چھوڑ نے میں کوئی حرج نہیں۔

{14}بعض قصّاب حِرص کے سبب بَہُت زیادہ جانور ’’بُک‘‘ کر لیتے ہیں اور ایک جگہ چُھری پھیر کر دوسری جگہ چلے جاتے ہیں ،پھر اُدھر گلا کاٹ کر پہلی جگہ واپَس آ کر کھال اُدھیڑ نے لگتے ہیں اور اب دوسری جگہ والے’’ انتظار‘‘ کی آگ میں سُلگتے ہیں۔ اِس طرح لوگ بَہت تکلیف میں آتے، باتیں بناتے،قصّاب کو بُرا بھلا کہتے ہیں اورپھر کئی گناہوں کے دروازے کھلتے ہیں۔قصّابوں کو چاہئے کہ کام اُتنا ہی لیں جتنا سلیقے کے ساتھ کر سکیں اور کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔

{15}قصّاب کو چاہئے کہ گوشْتْ بناتے وَقت حرام اَجْزا جُدا کر کے پھینک دے۔ جسے گوشْتْ کھانا ہو اُس پر ذبیحہ کی حرام چیزوں کی شناخت فرض اورمکروہِ تحریمی اجزا کی پہچان واجِب ہے تاکہ گناہوں بھری چیزیں نہ کھا ڈالے۔(گوشْتْ کے نہ کھائے جانے والے اجزا کا بیان آگے آ رہا ہے)

{16} گوشْتْ فَروش کو چاہئے کہ قربانی کے دنوں میں پیسے کمانے کی حرص کے سبب شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 100 جانور غَلَط سلط کاٹ کر اپنی آخِرت داؤ پر لگانے کے بجائے شریعت کے مطابِق بے شک صِرْف ایک ہی جانور کاٹے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دونوں جہانوں میں اِس کی خوب برکتیں پائے گاکہ پیسوں کے لالچ میں جلد بازی کی وجہ سے اِس کام میں بسا اوقات بَہُت سارے گناہ کرنے پڑ جاتے ہیں۔

{17}بعض گوشْتْ فروش بیچنے کے بڑے (اور چھوٹے) جانور کی کھال اُتار لینے کے بعد گوشْتْ کے اندر موجوددل میں کٹ لگا کر اُس میں یاخون کی بڑی نس میں پائپ کے ذَرِیْعے پانی چڑھاتے ہیں ، اِس طرح کرنے سے گوشْتْ کا وَزْن بڑھ جاتا ہے۔اِس طرح کا گوشْتْ دھوکے سے بیچنا بھی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔بعض مُرغی کا گوشْتْ بیچنے والے ذَبْح کے بعد مُرغی کے پَر اُتار کر پیٹ کی صفائی کر کے صِرف دل اُس میں لگا رہنے دیتے اور اُس مرغی کوتقریباً15مِنَٹ کیلئے پانی میں ڈالدیتے ہیں ، اِس طرح اِس کے گوشْتْ کا وَزْن تقریباً 150گرام بڑھ جاتا ہے۔ذَبح شُدہ کمزور بکرے کے ٹھنڈا ہونے کے بعد اُس کی بونگ کے ذَرِیعے گوشت میں منہ سے ہوا بھر کر گوشت کوپھلا دیتے ہیں ، گاہک گوشت لیکر گھر پہنچتا ہے تو ہوا نکل چکی ہوتی ہے اور گوشت کی تہ والی ہڈیاں رہ جاتی ہیں۔ یہ بھی سرا سر دھوکا ہے،بالخصوص قربانی کے دنوں میں وَزْن سے بیچے جانے والے زندہ بکروں وغیرہ کو بَیسن (یعنی چنے کا آٹا) کھلا کر اُوپر خوب پانی وغیرہ پلا کر ان کا وَزْن بڑھا دیا جاتا ہے ، ایسے جانور بھی یُوں دھوکے سے بیچنا گناہ ہے۔ یا درکھئے! حرام کمائی میں کوئی بھلائی نہیں۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :جس نے حرام کا ایک لقمہ کھایااُس کی چالیس دن کی نَمازیں قَبول نہیں کی جائیں گی اور اس کی دعاچالیس دن تک نامقبول ہو گی۔(اَلْفِردَوس بمأثور الْخطّاب ج ۳ ص ۵۹۱ حدیث ۵۸۵۳ ) مزید ایک روایت میں ہے: ’’انسان کے پیٹ میں جب حرام کا لُقمہ پڑتا ہے، زمین و آسمان کا ہرفِرِشتہ اُس پر اُس وقت تک لعنت کرتا ہے جب تک کہ وہ حرام لقمہ اُس کے پیٹ میں رہے اور اگر اسی حالت میں مر گیا تو اس کا ٹھکانہ جہنَّم ہو گا۔‘‘(مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص۱۰)

{18}دُرُست کام کرنے میں یقینا وَقت زیادہ صَرْف ہو گا ، اِس پر ہو سکتا ہے ہم پیشہ افراد مذاق بھی اُڑائیں مگر اِس پر ÕóÈúÑ کیجئے،خبردار! کہیں شیطان لڑائی بِھڑائی میں اُلجھا کر گناہوں میں نہ پھنسا دے!

{19} گوشْتْ کا جو حصّہ گوبر یا ذَبْح کے وَقْت نکلے ہوئے خون والا ہو جائے، اُس کو جُدا رکھئے اور گوشْتْ کے مالِک کو بتا دیجئے تا کہ وہ اسے الگ سے پاک کر سکے۔ پکانے میں اگر ایک بھی ناپاک بوٹی ڈالدی تو وہ پوری دیگ کا قورمہ یا بریانی ناپاک کر دے گی اور اس کاکھانا حرام ہو جائے گا۔ (یاد رہے! ذَبْح کے بعد گردن کے کٹے ہوئے حصّے پر بچا ہوا خون اور گوشْتْ کے اندر مَثَلاً پیٹ میں یا چھوٹی چھوٹی رگوں میں جو خون رہ جاتا ہے وہ نیز دل ،کلیجی وغیرہ کا خون پاک ہوتا ہے۔ ہاں دمِ مَسْفُوح یعنی ذَبْح کے وَقْت جو خون بہ کر نکل چکا وہ اگر کٹے ہوئے گلے وغیرہ کو لگ گیا تو ناپاک کر د ے گا)

{20} جانور کاٹنے اور کٹوانے والے کو چاہئے کہ آپَس میں اُجرت طے کر لیں کیوں کہ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں دَلالۃً( UNDERSTOOD)یعنی علامت سے معلوم ہو، یا صَراَحَۃً(یعنی کھلَّم کُھلّا،ظاہِراً)اُجرت ثابِت ہو وہاں طے کرنا واجِب ہے۔ایسے موقع پر طے کرنے کے بجائے اِس طرح کہدینا: کام پر آ جاؤ دیکھ لیں گے، جو مناسِب ہو گا دیدیں گے، خوش کر دیں گے ،خرچی ملے گی وغیرہ الفاظ قَطْعاً ناکافی ہیں۔ بِغیر طے کئے اُجرت لینا دینا گناہ ہے، طے شُدہ سے زائد طَلَب کرنا بھی ممنوع ہے۔ ہاں جہاں ایسا مُعاملہ ہو کہ کام کروانے والے نے کہا : کچھ نہیں دوں گا ، اُس نے کہدیا: کچھ نہیں لوں گا ۔ اور پھر کام کروانے والے نے اپنی مرضی سے دے دیا تو اس لین دَین میں کوئی حَرج نہیں۔ (ابلق گھوڑے سوارص۲۹ تا)