’’تلاوات، طہارت، قسام یا کفن دفن ک مدنی پھول’’

’’ تلاوت، طہارت، قسم اور کفن دفن کے مدنی پھول ‘‘

(01): ’’ استنجاء کا طریقہ ‘‘

اِستنجا خانے میں جِنّات اور شیاطین رہتے ہیں اگر جانے سے پہلے بِسْمِ اللہِ پڑھ لی جائے تو اِس کی بَرَکت سے وہ سِتْر دیکھ نہیں سکتے۔ حدیثِ پاک میں ہے: جنّ کی آنکھوں اورلوگوں کے سِتْرکے درمیان پردہ یہ ہے کہ جب پاخانے کو جائے تو بِسْمِ اللہِ کہہ لے(سُنَنِ تِرمِذی ج

ج۲ص۱۱۳حدیث۶۰۶ )۔ یعنی جیسے دیوار اور پردے لوگوں کی نگاہ کیلئے آڑ بنتے ہیں ایسے ہی یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر جنّات کی نگاہوں سے آڑ بنے گا کہ جنّات اس کو دیکھ نہ سکیں گے( مِراٰۃ المناجیح ج۱ص ۲۶۸)۔ اِستنجا خانے میں داخِل ہونے سے پہلے بِسْمِ اللہِ پڑھ لیجئے بلکہ بہتر ہے کہ یہ دُعا پڑھ لیجئے:( اول و آخِر درود شریف)بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ یعنی اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! میں ناپاک جِنّوں (نرومادہ) سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔(کِتابُ الدّعاء لِلطّبَرانی حدیث۳۵۷ص۱۳۲)

پھر پہلے الٹا قدم اِستنجا خانے میں رکھ کر داخِل ہوں سر ڈھانپ کر استنجا کریں ننگے سر اِستِنجاخانے میں داخِل ہونا ممنوع ہی جب پیشاب کرنے یا قضائے حاجت کے لئے بیٹھیں تو منہ اور پیٹھ دونوں میں سے کوئی بھی قِبلہ کی طرف نہ ہو اگر بھول کرقِبلہ کی طرف مُنہ یاپُشت کرکے بیٹھ گئے تو یاد آتے ہی فوراً قبلہ کی طرف سے اس طرح رُخ بدل دے کہ کم از کم45 ڈگری سے باہر ہو جائے اس میں اُمّید ہے کہ فوراً اس کے لئے مغفِرت و بخشش فرمادی جائی بچّوں کو بھی قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کراکے پیشاب یا پاخانہ نہ کرائیں ،اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ گنہگار ہوگاجب تک قضائے حاجت کے لئے بیٹھنے کے قریب نہ ہو کپڑا بدن سے نہ ہٹائے اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ بدن کھولے پھر دونوں پائوں ذرا کُشادہ(یعنی کُھلے) کرکے بائیں( یعنی الٹے) پائوں پر زور دے کر بیٹھے کہ اِس طرح بڑی آنت کا مُنہ کُھلتا ہے اور اِجابت آسانی سے ہوتی ہی کسی دینی مسئلے پر غور نہ کرے کہ محرومی کا باعث ہے اس وَقت چھینک سلام یا اذان کا جواب زبان سے نہ دے اگرخود چھینکے تو زَبان سے اَلْحَمْدُلِلّٰہ نہ کہے ، دل میں کہہ لی بات چیت نہ کرے اپنی شرم گاہ کی طرف نہ دیکھی اُس نَجاست کونہ دیکھے جو بدن سے نکلی ہے خوامخواہ دیر تک اِستِنجا خانے میں نہ بیٹھے کہ بواسیر ہونے کا اندیشہ ہے پیشاب میں نہ تھوکے، نہ ناک صاف کرے، نہ بِلاضَرورت کھنکارے، نہ بار بار اِدھر اُدھر دیکھے، نہ بیکار بدن چھوئے، نہ آسمان کی طرف نگاہ کرے ،بلکہ شرم کے ساتھ سر جھکائے رہی قضائے حاجت سے فارِغ ہونے کے بعد پہلے پیشاب کامقام دھوئے پھر پاخانے کا مقام پانی سے اِستِنجا کرنے کا مُستَحَب طریقہ یہ ہے کہ ذرا کُشادہ (یعنی کُھلا) ہو کر بیٹھے اور سیدھے ہاتھ سے آہِستہ آہِستہ پانی ڈالے اور اُلٹے ہاتھ کی انگلیوں کے پیٹ سے نَجاست کے مقام کو دھوئے اُنگلیوں کا سِرا نہ لگے اور پہلے بیچ کی اُنگلی اونچی رکھے پھر اس کے برابر والی اِس کے بعد چھوٹی انگلی کو اُونچی رکھے،لوٹا اُونچا رکھے کہ چھینٹیں نہ پڑیں، سیدھے ہاتھ سے اِستنجا کرنا مکروہ ہے اور دھونے میں مُبالَغہ کرے یعنی سانس کا دباؤنیچے کی جانِب ڈالے یہاں تک کہ اچّھی طرح نَجاست کا مَقام دُھل جائے یعنی اس طرح کہ چِکنائی کا اثر باقی نہ رہے اگر روزہ دار ہو تو پھر مُبالَغہ نہ کرے طہارت حاصِل ہونے کے بعد ہاتھ بھی پاک ہوگئے لیکن بعد میں صابُن وغیرہ سے بھی دھولے(بہارِ شریعت ج۱ص۴۰۸تا۴۱۳، رَدُّالْمُحتار ج۱ص۶۱۵ وغیرہ) جب اِستِنجا خانے سے نکلے تو پہلے سیدھاقدم باہَر نکالے اور باہر نکلنے کے بعد (اوّل آخر درود شریف کے ساتھ )یہ دُعا پڑھے:اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَا فَانِیْ

یعنی اللہ تَعَالٰی کا شکر ہے جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کیا اور مجھے عافیت (راحت) بخشی ۔( سُنَن ابن ماجہ ج۱ص۱۹۳حدیث۳۰۱)

بہتر یہ ہے کہ ساتھ میں یہ دُعا بھی ملا لے اِس طرح دو حدیثوں پر عمل ہو جائیگا : غُفْرَانَکترجمہ : میں اللہ عَزَّوَجَلَّسے مغفِرت کا سُوال کرتا ہوں۔ (سُنَنِ تِرمِذی ج۱ص۸۷حدیث۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(استنجاء کا طریقہ ص۲ تا ۵)

(02): ’’ مسواک کی ۲۵ برکتوں بھرے مدنی پھول ‘‘

حضرتِ علَّامہ سیِّد احمد طَحطاوی حنفی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی’’حاشِیَۃُ الطَّحْطاوی ‘‘ میں مِسواک کے فوائد وفضائل یوں نقل فرماتے ہیں :مِسواک شریف کو لازِم کرلو، اِس سے غفلت نہ کرو۔ اِسے ہمیشہ کرتے رہو کیونکہ اِس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خوشنودی ہے ہمیشہمِسواک کرتے رہنے سے روزی میں آسانی اور برَکت رہتی ہے دَردِ سر دُور ہوتا ہے بلغم کو دُور کرتی ہے نظر کو تیز کرتی ہے مِعدے کو دُرست رکھتی ہے جسم کو توانائی بخشتی ہے حافظہ(قُوتِ یادداشت) کو تیز کرتی ہے اور عقل کو بڑھاتی ہےدل کو پاک کرتی ہے نیکیوں میں اِضافہ ہوجاتا ہے فرشتے خوش ہوتے ہیں مِسواک شیطان کو ناراض کردیتی ہے کھانا ہضم کرتی ہے بچو ں کی پیدائش میں اضافہ ہوتا ہے بڑھاپا دیر میں آتا ہےپیٹھ کو مضبوط کرتی ہے بدن کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اِطاعت کے لیے قوت دیتی ہے نزع میں آسانی اور کلمۂ شہادَت یاد دلاتی ہے قِیامت میں نامۂ اعمال سِیدھے ہاتھ میں دِلاتی ہے پُل صراط سے بجلی کی طرح تیزی سے گزار دے گی حاجات پوری ہونے میں اُس کی اِمداد کی جاتی ہےقبر میں آرام وسکون پاتا ہےاس کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں دنیا سے پاک صاف ہوکررخصت ہوتا ہےسب سے بڑھ کر فائدہ یہ ہے کہ اُس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا ہے۔ (حاشیۃُالطَّحطاوی علی مراقی الفلاح ص ۶۸،۶۹ملخّصاً ) (مسواک کے فضائل ص۱۹)

(03): ’’ وضو کے40 مدنی پھولوں کا رضوی گلدستہ‘‘

(تمام مدنی پھول فتاوٰی رضویہ مخرجہ جلد 4 کے آخرمیں دیئے ہوئے’’ فوائدِ جلیلہ‘‘ صفحہ 613تا746سے لئے گئے ہیں)

وُضو میں آنکھیں زور سے نہ بند کرے مگر وُضو ہو جائے گا اگر لب (یعنی ہونٹ) وب زور سے بند کر کے وُضو کیا اور کُلّی نہ کی وُضو نہ ہو گاوُضو کا پانی روزِ قِیامت نیکیوں کے پلّے میں رکھا جائیگا۔(مگریاد رہے ! ضَرورت سے زیادہ پانی گرانا اِسراف ہے) مِسواک موجود ہو تو اُنگلی سے دانت مانجنا ادائے سنّت وحُصُولِ ثواب کے لیے کافی نہیں ، ہاں مسواک نہ ہو تو اُنگلی یا کَھر کَھرا(یعنی کُھردَرا) کپڑا اَدائے سنَّت کر دے گا اور عورَتوں کے لیے مِسواک موجود ہو جب بھی مِسّی کافی ہیانگوٹھی ڈِھیلی ہو تو وُضو میں اُسے پھرا کر پانی ڈالنا سنَّت ہے اور تنگ ہو کہ بے جُنبِشدئیے پانی نہ پہنچے تو فرض۔ یِہی حکم بالی(یعنی کان کے زَیور) وغیرہ کا ہے اعضاء کامَل مَل کر دھونا وُضو اور غسل دونوں میں سنَّت ہی اَعضاءِ وُضو دھونے میں حدِّ شَرعی سے اِتنی فیف تحریر(یعنی ہر طرف سے معمولی سا) بڑھانا جس سے حدِّ شَرعی تک اِستِیعاب (یعنی مکمَّل ہونے)میں شُبہ نہ رہے واجِب ہے وُضو میں کُلّی یا ناک میں پانی ڈالنے کاتَرک مکروہ ہے اور اس کی عادت ڈالے تو گُنہگار ہو گا ۔ یہ مسئلہ وہ لوگ وب یادرکھیں جو کُلیاں ایسی نہیں کرتے کہ حَلق تک ہر چیز کو دھوئیں اوروہ کہ پانی جن کی ناک کو(فَقَط) چُھو جاتا ہے سُونگھ کر اوپر نہیں چڑھاتے یہ سب لوگ گنہگار ہیں اور غسل میں تو ایسا نہ ہو تو سِرے سے نہ غسل ہو گا نہ نَماز وُضو میں ہرعُضو کاپورا تین بار دھونا سنَّتِ مُؤَکَّدہ ہے،تَرک کی عادت سے گنہگار ہو گا وُضو میں جلدی نہ چاہئے بلکہ دَرَنگ (یعنی اطمینان )و احتیاط کے ساتھ کرے۔ عوام میںجو مشہور ہے کہ’’ وُضو جوانوں کا سا، نماز بوڑھوں کی سی‘‘ یہ وُضو کے بارے میں غَلَط ہے مُنہ دھونے میں نہ گالوں پر ڈالے نہ ناک پر نہ زور سے پیشانی پر، یہ سب افعال جُہّال(یعنی جاہلوں) کے ہیں بلکہ باآہِستگی بالائے پیشانی(یعنی پیشانی کے اُوپر) سے ڈالے کہٹھوڑی سے نیچے تک بہتا آئے وُضو میں منہ سے گرتا ہوا پانی مَثَلاً کلائی پر لیا اور(کلائی پر) بَہا لیا(یعنی منہ دھونے میں منہ سے گرنے والے پانی سے ہاتھ کی کلائی نہیں دھو سکتے کہ) اِس سے وُضو نہ ہوگا اور غسل میں(مُعاملہ جُدا ہے) مَثَلاً سر کا پانی پائوں تک جہا ں جہاں گزرے گا پاک کرتا جائیگا وہاں نئے پانی کی ضَرورت نہیں آدَمی وُضو کرنے بیٹھا پھر کسی مانِع (یعنی رُکاوٹ) کے سبب تمام(یعنی مکمَّل) نہ کر سکا تو جتنے اَفعال کیے اُن پر ثواب پائیگا اگر چِہ وُضو نہ ہواجس نے ود ہی قَصد(یعنی ارادہ) کیا کہ آدھا وُضو کرے گا وہ ان اَفعال پر ثواب نہ پائیگا، یُونہی جو وُضو کرنے بیٹھا اور بِلا عُذر ناقِص(یعنی ادھورا) چھوڑدیا وہ بھی جتنے اَفعال بجا لایا اُن پر مستحقِ ثواب نہ ہونا چاہییاگر سر پر مینہ(یعنی بارِش) کی بُوندیں اِتنی گریںکہ چہارُم (یعنی چوتھائی ) سر بھیگ گیا مَسح ہو گیا اگر چِہ اس شص نے ہاتھ لگایا نہ قَصد(یعنی نہ نیّت وارادہ )کیا اَوس (یعنی شبنم) میں سر بَرَہنہ(یعنی ننگے سر) بیٹھا اور اُس سے چہارُم سر کے قَدَ ر بھیگ گیا مَسح ہو گیا اتنے گَرم یا اتنے سر د پانی سے وُضو مکروہ ہے جو بدن پر اچّھی طرح نہ ڈالا جائے، تکمیلِ سنّت نہ کرنے دے، اور اگر کوئی فرض پورا کرنے سے مانِع(یعنی رُکاوٹ) ہوا تو وُضو ہی نہ ہوگا پانی بیکا ر صَرف(یعنی رچ) کرنا یا پھینک دینا حرام ہے۔ (اپنے یا دوسر ے کے پینے کے بعد گلاس یا جگ کابچا ہوا پانی واہ مواہ پھینک دینے والے توبہ کریںاور آیندہ اِس سے بچیں) ناف سے زَرد پانی بہ کر نکلے وُضو جاتا رہیون یا پیپ آنکھ میں بہا مگر آنکھ سے باہَر نہ گیاتو وُضو نہ جائے گا اُسے کپڑے سے پونچھ کر پانی میں ڈال دیں تو (پانی) ناپاک نہ ہوگازَم پر پٹّی بندھی ہے اُس میں ون وغیرہ لگ گیا اگر اس قابِل تھا کہ بندِش نہ ہوتی توبَہ جاتا تو وُضو گیا ورنہ نہیں ، نہ پٹّی ناپاک قطرہ اُتر آیا یا ون وغیرہ ذَکَر (یعنی عُضو تَناسُل)کے اندر بَہا جب تک اُس کے سُورا سے باہَر نہ آئے وُضو نہ جائیگا اور پیشاب کاصِرف سورا کے منہ پر چمکنا (وُضو توڑنے کیلئے )کافی ہے نابالِغ نہ کبھی بے وُضو ہو نہ جُنُب(یعنی بے غُسلا) ۔ انہیں(یعنی نابالغان کو) وُضو و غسل کاحکم عادت ڈالنے اورآداب سکھانے کے لیے ہے ورنہ کسی حَدَث (یعنی وضو توڑنے والے عمل)سے ان کا وُضونہیں جاتا نہ جِماع سے ان پر غسل فرض ہو باوُضو نے ماں باپ کے کپڑے یا ان کے کھانے کے لیے پھل یا مسجِد کا فرش ثواب کے لیے دھویا پانی مُستَعمَل نہ ہوگا اگر چِہ یہ اَفعال قُربَت(یعنی رضائے الٰہی) کے ہیںنابالغ کا پاک ہاتھ یا بدن کا کوئی جز اگرچہ بے وُضو ہو پانی میں ڈالنے سے قابلِ وُضو رہے گابدن سُتھرا رکھنا، مَیل دُور کرنا،شَرع میں مطلوب ہے کہ اسلام کی بِنا(یعنی بنیاد) سُتھرائی (یعنی پاکیزگی و صفائی)پر ہے۔ اِس نیّت سے باوُضو نے بدن دھویا تو قُربت(یعنی کارِ ثواب) بے شک ہے مگر پانیمُستَعمَل نہ ہوا مُستَعمَل پانی پاک ہے اس سے کپڑا دھو سکتے ہیں مگر اس سے وُضو نہیں ہو سکتا اور اس کا پینا یا اس سے آٹا گوندھنا مکروہِ(تنزیہی) ہیپَرایا پانی بے اجازت لے گیا اگر چِہ زبردستی یا چُرا کر اس سے وُضو ہو جائے مگر حرام ہے۔ البتّہ کسی کے مَملوک(یعنی ملکیَّت کے) کنویں سے اُس کی مُمانَعَت پر بھی پانی بھر لیا اس کا استِعمال جائز ہے جس پانی میں مائے مُستَعمَل کی دھار پہنچی یا واضِح قطرے گرے اس سے وُضو نہ کرنا بہتر جاڑے میں وُضو کرنے سے سردی بَہُت معلوم ہو گی اس کی تکلیف ہو گی مگر کسی مرض کا اندیشہ نہیں تو تَیَمُّم کی اجازت نہیں شیطان کے تھوک اور پھونک سے نَماز میں قطرے اور رِیح کاشُبہ ہو جاتا ہے، حکم ہے کہ جب تک ایسا یقین نہ ہو جس پر قسم کھا سکے اِس (وسوسے )پرلحاظ نہ کرے، شیطان کہے کہ تیرا وضو جاتا رہا تو دل میںجوا ب دے لے کہ بیث تو جھوٹا ہے اور اپنی نَماز میں مشغول رہے مسجِد کو ہرگِھن کی چیز سے بچانا واجِب ہے اگر چِہ پاک ہو جیسے لُعابِ دَہَن(منہ کی رال،تھوک،بلغم) آب ِبینی ( مَثَلاًرِینٹھ یا ناک سے نزلے کا بہنے والا پانی) آبِ وُضو تَنبِیْہ: بعض لوگ کہ وُضو کے بعد اپنے منہ اور ہاتھوں سے پانی پونچھ کر مسجِد میں ہاتھ جھاڑتے ہیں (یہ) محض حرام اور ناجائز ہے۔پانی میں پیشاب کرنا مُطلَقاً مکروہ ہے اگر چِہ دریا میں ہو جہاں کوئی نَجاست پڑی ہو تِلاوت مکروہ ہیپانی ضائِع کرنا حرام ہے مال ضائِع کرناحرام ہیزمزم شریف سے غسل و وُضو بِلا کراہت جائز ہے( اورپیشاب وغیرہ کر کے )ڈَھیلے (سے شک کر لینے ) کے بعد(آبِ زم زم سے) اِستنجا مکروہ اور نَجاست دھونا(مثلاً پیشاب کے بعد ٹِشوپیپر وغیرہ سے سُکھائے بغیر)گناہ(وہ )اِسراف کہ(جو) نا جائز و گناہ ہے (وہ)صرف (ان)دو صورَتوں میں ہوتا ہے، ایک یہ کہ کسی گناہ میں صَرف (یعنی رچ)و استِعمال کریں، دوسرے بیکارمحض مال ضائِع کریں غسلِ میِّت سکھانے کے لیے مُردے کو نہلایا او راُسے غسل دینے کی نیّت نہ کی وہ بھی پاک ہو گیا اور زِندوں پر سے بھی فرض اُتر گیا کہ فِعل بِالقصد کافی ہے، ہاں بے نیّت ثواب نہ ملے گا۔(وضو کا طریقہ۴۸تا۵۲)

(04): ’’ تیمم کے ۲۵ مدنی پھول اور سنتیں ‘‘

جوچیزآگ سے جل کر راکھ ہوتی ہے نہ پگھلتی ہے نہ نَرم ہوتی ہے وہ زمین کی جِنس(یعنی قِسم)سے ہے اُس سے تَیَمُّمْ جائز ہے۔رَیتا، چُونا، سُرمہ ، گندھک،پتھّر (ماربل )، زَبَرجد،فِیروزہ،عَقیق وغیرہ جَواہِر سے تَیَمُّمْ جائزہے چاہے ان پر غُبارہویا نہ ہو۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۳۵۷، البحرُ الرَّائق ج۱ص۲۵۷)

پکّی اینٹ،چینی یامِٹّی کے برتن سے تَیَمُّمْ جائزہے۔ہاں اگران پرکسی ایسی چیز کا جِرم (یعنی جسم یا تِہ)ہوجوجِنسِ زمین سے نہیں مَثَلاًکانچ کاجِرم ہوتو تَیَمُّمْ جائز نہیں۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۳۵۸)عُموماً چینی کے برتن پر کانچ کی تہ چڑھی ہوتی ہے اِس سے تَیَمُّمْ نہیں ہو سکتا۔

جس مِٹّی،پتھّروغیرہ سے تَیَمُّمْ کیاجائے اُس کاپاک ہوناضَروری ہے یعنی نہ اس پرکسی نَجاست کا اثر ہونہ یہ ہوکہ صِرف شک ہونے سے نَجا ست کااثرجاتا رہاہو۔(اَیْضاً ص ۳۵۷) زمین، دیوار اور وہ گَرد جو زمین پر پڑی رہتی ہے اگر ناپاک ہوجائے پھر دھوپ یا ہوا سے سُوکھ جائے اور نَجاست کا اثر تم ہوجائے تو پاک ہے اور اس پر نَماز جائز ہے مگر اس سے تَیَمُّمْ نہیں ہوسکتا۔

یہ وَہم کہ کبھی نَجِس ہوئی ہوگی فُضول ہے اس کااِعتبارنہیں۔ (اَیْضاً ص۳۵۷)

اگرکسی لکڑی،کپڑے،یادَری وغیرہ پراتنی گَردہے کہ ہاتھ مارنے سے انُگلیوں کا نشان بن جائے تواس سے تَیَمُّمْ جائزہے۔ (اَیْضاً ص۳۵۹)

چُونا،مِٹّی یا اینٹوں کی دیوارواہ گھر کی ہویامسجِدکی اس سے تَیَمُّمْ جائز ہے ۔ مگراس پرآئل پینٹ،پلاسٹک پینٹ اورمَیٹ فنش یاوال پیپروغیر ہ کوئی ایسی چیزنہیں ہونی چاہئے جوجنس زمین کے علاوہ ہو،دیوارپرماربل ہوتوکوئی حَرَج نہیں۔

جس کاوُضونہ ہویانہانے کی حاجت ہواورپانی پرقدرت نہ ہووہ وُضو اور غسل کی جگہ تَیَمُّمْ کرے۔ ( بہارِ شریعت ج۱ ص۳۴۶)

ایسی بیماری کہ وُضویاغسل سے اس کے بڑھ جانے یادیر میں اچھّا ہو نے کا صحیح اندیشہ ہویاوداپناتجرِبہ ہو کہ جب بھی وُضویاغُسل کیابیماری بڑھ گئی یایُوں کہ کوئی مسلمان اچھّاقابِل طبیب جو ظاہِری طورپرفاسِق نہ ہووہ کہہ دے کہ پانی نقصان کرے گا۔توان صورَتوں میں تَیَمُّمْ کرسکتے ہیں ۔ ( اَیْضاً ، دُرِّمُتار ورَدُّالْمُحتار ج۱ص۴۴۱،۴۴۲)

اگرسرسے نَہانے میں پانی نقصان کرتاہوتوگلے سے نہائیں اورپورے سر کامسح کریں ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۴۷)

جہاں چاروں طرف ایک ایک میل تک پانی کاپتانہ ہووہاں بھی تَیَمُّمْ کرسکتے ہیں۔ (اَیْضاً ) اگراتناآبِ زم زم شریف پاس ہے جو وُضُوکیلئے کافی ہے تو تَیَمُّمْ جائزنہیں ۔ (اَیْضاً )

اتنی سردی ہوکہ نہانے سے مرجانے یابیمارہوجانے کاقَوی اندیشہ ہے اورنہانے کے بعدسردی سے بچنے کاکوئی سامان بھی نہ ہوتو تَیَمُّمْ جائزہے ۔ (اَیضاً ص۳۴۸) قیدی کوقیدانے والے وُضونہ کرنے دیں تو تَیَمُّمْ کرکے نَمازپڑھ لے بعد میں اعادہ کرے اوراگروہ دشمن یاقیدانے والے نمازبھی نہ پڑھنے دیں تواشارے سے پڑھے اوربعدمیں اعاد ہ کرے۔ (اَیضاً ص۳۴۹) اگریہ گُمان ہے کہ پانی تلاش کرنے میں قافِلہ نظروں سے غائب ہوجا ئے گاتو تَیَمُّمْ جائزہے۔ (اَیضاً ص۳۵۰) مسجِدمیں سورہاتھاکہ غسل فرض ہوگیا توجہاں تھاوہیں فوراً تَیَمُّمْ کرلے یہی اَحوط ( یعنی احتیاط کے زِیادہ قریب) ہے ۔(ماوذ اَز فتاوٰی رضویہ مَُرَّجہ ج۳ص۴۷۹) پھرباہَرنکل آئے تایرکرناحرام ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۵۲) وقت اتناتنگ ہوگیاکہ وُضویاغسل کرے

اتنی سردی ہوکہ نہانے سے مرجانے یابیمارہوجانے کاقَوی اندیشہ ہے اورنہانے کے بعدسردی سے بچنے کاکوئی سامان بھی نہ ہوتو تَیَمُّمْ جائزہے ۔ (اَیضاً ص۳۴۸) قیدی کوقیدانے والے وُضونہ کرنے دیں تو تَیَمُّمْ کرکے نَمازپڑھ لے بعد میں اعادہ کرے اوراگروہ دشمن یاقیدانے والے نمازبھی نہ پڑھنے دیں تواشارے سے پڑھے اوربعدمیں اعاد ہ کرے۔ (اَیضاً ص۳۴۹) اگریہ گُمان ہے کہ پانی تلاش کرنے میں قافِلہ نظروں سے غائب ہوجا ئے گاتو تَیَمُّمْ جائزہے۔ (اَیضاً ص۳۵۰) مسجِدمیں سورہاتھاکہ غسل فرض ہوگیا توجہاں تھاوہیں فوراً تَیَمُّمْ کرلے یہی اَحوط ( یعنی احتیاط کے زِیادہ قریب) ہے ۔(ماوذ اَز فتاوٰی رضویہ مَُرَّجہ ج۳ص۴۷۹) پھرباہَرنکل آئے تایرکرناحرام ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۵۲) وقت اتناتنگ ہوگیاکہ وُضویاغسل کرے

عورَت حیض ونِفاس سے پاک ہوگئی اورپانی پرقادِرنہیں تو تَیَمُّمْ کرے ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۵۲) اگرکوئی ایسی جگہ ہے جہاں نہ پانی ملتاہے نہ ہی تَیَمُّمْ کیلئے پاک مِٹّی تو اسے چاہئے کہ وقتِ نَمازمیں نَمازکی سی صورت بنائے یعنی تمام حَرَکاتِ نَمازبِلانیّتِ نَمازبجالائے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۵۳)مگر پاک پانی یا مِٹّی پر قادر ہونے پر وُضو یا تیمم کرکے نماز پڑھنی ہوگی ۔

وُضواورغسل دونوں کی تَیَمُّمْ کاایک ہی طریقہ ہے۔ (جوہرہ ص۲۸) جس پر غُسل فرض ہے اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وُضواورغُسل دونوں کیلئے دو تَیَمُّمْ کرے بلکہ ایک ہی میں دونوں کی نیَّت کرلے دونوں ہوجا ئیں گے اوراگرصرف غسل یا وُضوکی نیت کی جب بھی کافی ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۵۴)

جن چیزوں سے وُضوٹوٹ جاتاہے یاغُسل فَرض ہوجاتاہے اُن سے تَیَمُّمْ بھی ٹوٹ جاتاہے اورپانی پر قادِر ہونے سے بھی تَیَمُّمْ ٹو ٹ جاتا ہے ۔ (اَیْضاً ص۳۶۰) عورت نے اگرناک میں پھو ل وغیرہ پہنے ہوں تونکال لے ورنہ پھول کی جگہ مسح نہیں ہوسکے گا۔(اَیْضاً ص۳۵۵)

ہونٹوں کاوہ حِصّہ جوعادَتاًمنہ بندہونے کی حالت میں دکھائی دیتاہے اِس پرمسح ہوناضَروری ہے اگرمنہ پرہاتھ پھَیرتے وقت کسی نے ہونٹوں کو زورسے دبالیاکہ کچھ حِصّہ مَسح ہونے سے رَہ گیا تو تَیَمُّمْ نہیں ہوگا ۔ اِسی طرح زورسے آنکھیں بندکرلِیں جب بھی نہ ہوگا۔ (اَیْضاً)

انگوٹھی،گھڑی وغیرہ پہنے ہوں تواُتارکران کے نیچے ہاتھ پھَیرنافرض ہے۔اسلامی بہنیں بھی چُوڑیا ں وغیر ہ ہٹاکراُن کے نیچے مسح کریں۔ تَیَمُّمْ کی اِحتیاطیں وُضو سے بڑھ کر ہیں۔ (اَیْضاً)

انگوٹھی،گھڑی وغیرہ پہنے ہوں تواُتارکران کے نیچے ہاتھ پھَیرنافرض ہے۔اسلامی بہنیں بھی چُوڑیا ں وغیر ہ ہٹاکراُن کے نیچے مسح کریں۔ تَیَمُّمْ کی اِحتیاطیں وُضو سے بڑھ کر ہیں۔ (اَیْضاً)

(05): ’’ اسراف ‘‘

وضو میں اسراف سے بچنے کی 7 تدابیر

{1} بعض لوگ چُلّو لینے میں پانی ایسا ڈالتے ہیں کہ اُبل جاتا ہے حالانکہ جو گرا بیکا ر گیا اس سے احتیاط چاہئے ۔

{2}ہرچُلّو بھرا ہونا ضَروری نہیں بلکہ جس کام کیلئے لیں اُس کا اندازہ رکھیں مَثَلاً ناک میں نَرم بانسے(یعنی نرم ہڈی) تک پانی چڑھانے کوپورا چُلّو کیا ضَرور نِصف (یعنی آدھا)بھی کافی ہے بلکہ بھرا چُلّو کُلّیکیلئے بھی درکار نہیں۔

{3} لوٹے کی ٹونٹی مُتَوسِّط مُعتَدِل (یعنی درمِیانی)چاہئے کہ نہ ایسی تنگ کہ پانی بَدیَر ( یعنی دیر میں ) دے نہ فرا( یعنی کُشادہ) کہ حاجت سے زِیادہ گرائے، اس کا فرق یُوں معلوم ہوسکتا ہے کہ کٹوروں میں پانی لے کر وُضو کیجئے تو بَہُت رچ ہوگا یونہی فرا( یعنی کُشادہ ) ٹونٹی سے بہانا زِیادہ رچ کا باعث ہے۔ اگر لوٹا ایسا ( یعنی کُشادہ ٹونٹی والا)ہو تو احتیاط کرے پُوری دھار نہ گرائے بلکہ باریک۔(نل کھولنے میں بھی انہیں باتوں کا یال رکھئے)

{4}اَعضاء دھونے سے پہلے اُن پر بھیگا ہاتھ پھیرلے کہ پانی جلد دوڑتا ہے اور تھوڑا ( پانی )، بَہُت(سے پانی ) کا کا م دیتا ہے ،صوصاً موسِمِ سرما( یعنی سردیوں) میں اِس کی زِیادہ حاجت ہے کہ اَعضاء میں شکی ہوتی ہے اور بہتی دھار بیچ میں جگہ الی چھوڑدیتی ہے جیسا کہ مُشاہَدہ(یعنی دیکھی بھالی بات) ہے ۔

{5}کلائیوں پر بال ہوں تو تَرشوا(یعنی کٹوا)دیں کہ اُن کا ہونا پانی زِیادہ چاہتاہے اورمُونڈنے سے بال ست ہوجاتے ہیں اور تَراشنا مشین سے بہتر کہ وب صاف کردیتی ہے اور سب سے احسن و افضل نورہ( ایک طرح کا بال صفا پاؤڈر) ہے کہ ان اَعضاء میں یِہی سنّت سے ثابِت ۔ چُنانچِہ

امُّ المؤمنینسیِّدَتُنا امِّ سَلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا فرماتی ہیں : صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب نورہ کا استِعمال فرماتے تو سَتْرِ مقدّس پر اپنے دستِ مبارَک سے لگاتے اور باقی بدنِ منوَّر پر اَزْوَاجِ مُطہَّرات رضی اللہ تعالٰی عَنْھُنَّلگادیتیں ۔ ( اِبن ماجہج۴ص۲۲۶ حدیث ۳۷۵۱)

اور ایسا نہ کریں تو دھونے سے پہلے پانی سے وب بِھگولیں کہ سب بال بِچھ جائیں ورنہ کھڑے بال کی جَڑ میں پانی گزر گیا اور نوک سے نہ بہا تو وُضو نہ ہوگا۔

{6}دست و پا( ہاتھ و پاؤں) پراگر لوٹے سے دھار ڈالیں تو نانوں سے کہنیوں یا( پاؤں کے )گَٹّوں کے اوپر(یعنی ٹنوں) تک عَلَی الْاِتِّصال( یعنی مسلسل ) اُتاریں کہ ایک بار میں ہر جگہ پر ایک ہی بار گرے، پانی جبکہ گررہاہے اور ہاتھ کی رَوانی( ہل جُل) میں دیر ہوگی تو ایک جگہ پر مکرَّر ( یعنی بار بار) گرے گا ۔( اور اس طرح اِسراف کی صورت پیدا ہو سکتی ہے)

{7} بعض لوگ یوں کرتے ہیں کہ نان سے کُہنی تک یا( پاؤں کے) گٹّے تک بہاتے لائے پھر دوبارہ سہ بارہ کیلئے جو نان کی طرف لے گئے تو ہاتھ نہ روکا بلکہ دھار جاری رکھی ایسا نہ کریں کہ تثلیث کے عوض(یعنی تین بار کے بجائے) پانچ بار ہوجائے گا بلکہ ہربار کُہنی یا( پاؤں کے )گٹّے تک لاکر دھار روک لیں اور رُکا ہوا ہاتھ نانوں تک لے جاکر وہاں سے پھر اِجرا ء ( پانی جاری) کریں کہ سنَّت یِہی ہے کہ نان سے کُہنیوںیا گَٹّو ں(ٹنوں) تک پانی بہے نہ اس کا عکس۔(یعنی الٹ۔مطلب یہ کہ کہنی یا گَٹّے سے نانوں کی طرف پانی بہاتے ہوئے لے جانا سنّت نہیں )

قولِ جامِع یہ ہے کہ سلیقے سے کام لیں ۔امامِ شافِعی رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہنے کیا وب فرمایا:’’سلیقے سے اُٹھاؤ تو تھوڑا بھی کافی ہوجاتا ہے اور بد سلیقگی پر تو بہت( سا) بھی کِفایت نہیں کرتا ۔‘‘ (اَز اِفاداتِ فتاوٰی رضویہ مَُرَّجہ ج۱ص۷۶۵۔۷۷۰)

"یار ب اسراف سے بچا" کے چودہ حروف کی نسبت

سے اسراف سے بچنے کیلئے 14 مدنی پھول

{1} آج تک جتنا بھی ناجائز اِسراف کیا ہے ،اُس سے توبہ کرکے آیندہ بچنے کی بھرپور کوشش شروع کیجئے ۔

{2}غور وفکر کیجئے کہ ایسی صورت مُتعیَّن(یعنی مقرَّر) ہوجائے کہ وُضو اور غسل بھی سنّت کے مطابِق ہو اور پانی بھی کم سے کم رچ ہو ۔اپنے آپ کو ڈرائیے کہ قِیامت میں ایک ایک ذرّے اور قطرے قطرے کا حساب ہوناہے ۔اللّٰہتبارَکَ وَتَعالٰی پارہ 30 سُوْرَۃُ الزّلْزَالآیت نمبر 7اور8میں ارشاد فرماتا ہے: فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ َیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾ ترجَمَۂ کنزالایمان: تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اورجو ایک ذرّہ بھر بُرائی کرے اسے دیکھے گا۔

{3} وُضو کرتے وقت نل احتِیاط سے کھولئے ،دَورانِ وُضو مُمکنہ صورت میں ایک ہاتھ نل کے دستے پر رکھئے اور ضَرورت پوری ہونے پر بار بار نل بند کرتے رہئے ۔

{4}نل کے مقابلے میں لوٹے سے وُضو کرنے میں پانی کم َرچ ہوتا ہے جس سے ممکن ہو وہ لوٹے سے وُضو کرے ،اگر نل کے بِغیر گزارا نہیں تو مُمکِنہ صورت میں یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ جن جن اَعضاء میں آسانی ہو وہ لوٹے سے دھولے ۔نل سے وُضو کرنا جائز ہے ،بس کسی طرح بھی اِسراف سے بچنے کی صورت نکالنی چاہئے ۔

{5} مِسواک ،کُلّی ،غَرغَرہ ،ناک کی صفائی،داڑھی اور ہاتھ پاؤں کی اُنگلیوں کا ِلال اور مسح کرتے وقت ایک بھی قطرہ نہ ٹپکتا ہو یوں اچّھی طرح نل بند کرنے کی عادت بنائیے ۔

{6}باِلصوص سردیوں میں وُضو یاغسل کرنے نیز برتن اور کپڑے وغیرہ دھونے کیلئے گرم پانی کے حُصُول کی اطِر نل کھول کر پائپ میں جمع شُدہ ٹھنڈاپانی یوں ہی بہا دینے کے بجائے کسی برتن میں پہلے نکال لینے کی ترکیب بنائیے۔

{7}ہاتھ یا منہ دھونے کیلئے صابون کا جھاگ بنانے میں بھی پانی احتیاط سے رچ کیجئے ۔ مَثَلاً ہاتھ دھونے کیلئے چُلّو میں پانی کے تھوڑے قطرے ڈال کر صابون لیکر جھاگ بنایا جاسکتا ہے اگر پہلے سے صابون ہاتھ میں لے کر پانی ڈالیں گے تو پانی زِیادہ رچ ہوسکتا ہے۔

{8}استِعمال کے بعد ایسی صابون دانی میں صابون رکھئے جس میں پانی بالکل نہ ہو ،پانی میں رکھ دینے سے صابون گُھل کر ضائِع ہوگا ۔ہاتھ دھونے کے بیسن کے کناروں پر بھی صابون نہ رکھا جائے کہ پانی کی وجہ سے جلدی گُھل جاتا ہے۔

{9}پی چکنے کے بعد گلاس میں بچا ہوا پانی پھینک دینے کے بجائے دوسرے کو پلا دیجئے یا کسی اور استعمال میں لیجئے۔

{10}پھل،کپڑے ،برتن اورفرش بلکہ چائے کا کپ یا ایک چمچ بھی دھوتے وقت نیز نل کھول کر اِس قَدر زِیادہ غیر ضَروری پانی بہانے کاآج کل رَواج ہے کہ حُسّاس اور دل جلے آدمی سے دیکھا نہیں جاتا !!!اے کاش ! ع: شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مِری بات

{11}اکثرمسجدوں، گھروں، دفتروں ، دوکانوں وغیرہ میں وامواہ دن رات بتّیاں جلتی A.C اور پنکھے چلتے رہتے ہیں ، ضَرور ت پوری ہوجانے کے بعدبتّیاں، پنکھے اورA.C. اور کمپیوٹر وغیرہ بند کردینے کی عادت بنائیے ،ہم سبھی کو حسابِ آرت سے ڈرنا اور ہر معامَلے میں اِسراف سے بچتے رہنا چاہئے۔

{12}استنجا انے میں لوٹا استعمال کیجئے کہ فوارے سے طہارت کرنے میں پانی بھی زِیادہ رچ ہوتاہے اور پاؤں بھی اکثر آلود ہ ہوجاتے ہیں ۔ہر ایک کو چاہئے کہ ہر بارپیشاب کرنے کے بعد ایک لوٹا پانی لے کر W.C.کے کناروں پر تھوڑا سا بہائے پھر قدرے اوپر سے( مگر چھینٹوں سے بچتے ہوئے) بڑے سورا میں ڈال دیا کرے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بدبو اور جراثیم کی افزائش میں کمی ہوگی۔’ ’’فلش ٹینک‘‘ سے صفائی میں پانی بہت زِیادہ صَرف ہوتا ہے ۔

{13} نل سے قطرے ٹپکتے رہتے ہوں تو فوراً اِسکا حل نکالئے ورنہ پانی ضائع ہوتا رہے گا۔بسا اوقات مساجِد و مدارِس کے نل ٹپکتے رَہتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا !اِنتظامیہ کو اپنی ذِمّہ داری سمجھتے ہوئے اپنی آِرت کی بہتری کیلئے فوراً کوئی ترکیب کرنی چاہئے۔

{14} کھانا کھانے ،چائے یا کوئی مشروب پینے ،پھل کاٹنے وغیرہ مُعامَلات میں وب احتیاط فرمائیے تاکہ ہر دانہ، ہرغذا ئی ذرّہ اور ہر قطرہ استِعمال ہوجائے ۔(رسالہ: وضو کا طریقہ ص ۴۲ تا ۴۸)

(06): ’’ قسم کے ۱۵ مدنی پھول ‘‘

دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1182 صَفحات پر مشتمل کتاب بہارِ شریعت جلد2 صَفْحَہ 298 تا 311اور319 سے قسم اور کَفّارے سے مُتَعلِّق15 مَدَنی پھول پیش کئے جاتے ہیں،(ضرورتًا کہیں کہیں تصرُّف کیا گیا ہے)

بات بات پر قسم نہیں کھانی چاہئے

(1)قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم کھانی نہ چاہیے اور بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھاہے(یعنی دورانِ گفتگوباربارقسم کھانے کی عادت بنارکھی ہے)کہ قَصد و بے قَصد(یعنی اِرادتًا اوربِغیرارادے کے)زَبان سے(قسم)جاری ہوتی ہے اور اس کابھی یال نہیں رکھتے کہ بات سچّی ہے یا جھوٹی! یہ ست مَعیوب(یعنی بَہت بُری بات)ہے اور غیرِ دا کی قسم مکروہ ہے اور یہ شَرعًا قسم بھی نہیں یعنی اس کے توڑنے سے کفّارہ لازِم نہیں۔

(2)غلطی سے قسم کھا بیٹھا مَثَلًا کہنا چاہتا تھا کہ پانی لاؤ یاپانی پیوں گا اور زَبان سے نکل گیا کہ’’ دا کی قسم پانی نہیں پیوں گا‘‘ تویہ بھی قسم ہے اگر توڑے گا کفَّارہ دینا ہوگا۔(بہارِ شریعت ج۲ص۳۰۰)

(3)قسم توڑنا اتیار سے ہو یا دوسرے کے مجبور کرنے سے،قَصدًا(یعنی جان بوجھ کر)ہو یا بھول چوک سے ہر صورت میں کَفّارہ ہے بلکہ اگر بیہوشی یا جُنُون میں قسم توڑنا ہوا جب بھی کفَّارہ واجِب ہے جب کہ ہوش میں قسم کھائی ہواور اگر بے ہوشی یا جُنُون(یعنی پاگل پن)میں قسم کھائی تو قسم نہیں کہ عاقل ہونا شَرط ہے اور یہ عاقل نہیں۔(تَبیِینُ الحقائق ج۳ ص ۴۲۳)

ایسے الفاظ جن سے قسم نہیں ہوتی

(4) یہ الفاظ قسم نہیں اگرچِہ ان کے بولنے سے گنہگار ہوگا جبکہ اپنی بات میں جھوٹا ہے:اگر ایسا کروں تومجھ پر اللہ(عزوجل)کا غَضَب ہو۔اُس کی لعنت ہو۔اُس کا عذاب ہو۔ُدا کا قہرٹوٹے۔مجھ پر آسمان پھٹ پڑے۔مجھے زمین نگل جائے۔مجھ پر دا کی مارہو۔دا کی پِھٹکارہو۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی شَفاعت نہ ملے۔مجھے دا کا دیدار نہ نصیب ہو۔مرتے وقت کلمہ نہ نصیب ہو۔ (فتاوٰی عالمگیری ج ۲ ص ۵۴)

قَسَم کی چار اَقسام

(5)بعض قسمیں ایسی ہیں کہ اُن کا پورا کرنا ضَروری ہے،مَثَلًا کسی ایسے کام کے کرنے کی قسم کھائی جس کابِغیر قسم(بھی)کرنا ضَروری تھا یا گناہ سے بچنے کی قسم کھائی(کہ گنا ہ سے بچنے کی قسم نہ بھی کھائیں تب بھی گناہ سے بچنا ضَروری ہی ہے)تو اس صورت میں قسم سچّی کرنا ضَرورہے۔مَثَلًا(کہا)دا کی قسم ظُہرپڑھوں گا یا چوری یا زِنا نہ کروں گا۔(قسم کی)دوسری(قِسم)وہ کہ اُس کا توڑنا ضَروری ہے مَثَلًا گناہ کرنے یا فرائض و واجِبات(پورے)نہ کرنے کی قسم کھائی،جیسے قسم کھائی کہ نَماز نہ پڑھوں گا یا چوری کروں گا یا ماں باپ سے کلام(یعنی بات چیت)نہ کروں گا تو قسم توڑ دے۔تیسری وہ کہ اُس کا توڑنا مُستَحب ہے مَثَلًا ایسے اَمر(یعنی مُعاملے یاکام)کی قسم کھائی کہ اُس کے غیر(یعنی علاوہ)میں بہتری ہے تو ایسی قسم کو توڑ کروہ کرے جو بہتر ہے۔چوتھی وہ کہ مُباح کی قسم کھائی یعنی(جس کا)کرنا اور نہ کرنا دونوں یکساں ہے اس میں قسم کا باقی رکھنا افضل ہے۔ (المبسوط للسرسی ج۴ ص ۱۳۳)

(6)اللہ عزوجل کے جتنے نام ہیں اُن میں سے جس نام کے ساتھ قسم کھائے گا قسم ہوجا ئے گی واہ بول چال میں اُس نام کے ساتھ قسم کھاتے ہوں یانہیں۔مَثَلًا اللہ(عزوجل)کی قسم،دا کی قسم،رحمن کی قسم،رحیم کی قسم، پَروَردَگار کی قسم۔یوہیں دا کی جس صِفَت کی قسمکھائی جاتی ہو اُس کی قسم کھائی،ہوگئی مَثَلًادا کی عزّت وجلال کی قسم،اُس کی کِبریائی(عَظَمت،بڑائی)کی قسم،اُس کی بُزُرگی یا بڑائی کی قسم،اُس کی عَظَمت کی قسم،اُس کی قدرت و قوَّت کی قسم،قرآن کی قسم،کلامُ اﷲ کی قسم۔ (فتاوٰی عالمگیریج ۲ ص ۵۲)

(7) ان الفاظ سے بھی قسم ہوجاتی ہے:حَلف کرتا ہوں۔ قسم کھاتا ہوں۔میں شہادت دیتا ہوں۔داکو گواہ کرکے کہتا ہوں۔مجھ پر قسم ہے۔لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہ میں یہ کام نہ کروں گا۔(اَیضًا)

ایسی قسم جن کے توڑنے میں کُفر کااندیشہ ہے

(8)اگر یہ کام کرے یا کیا ہو تو یہودی ہے یا نصرانی یا کافر یا کافروں کا شریک۔مرتے وقت ایمان نصیب نہ ہو۔بے ایمان مرے۔کافر ہوکرمرے۔اور یہ الفاظ بَہُت ست ہیں کہ اگر جھوٹی قسم کھائی یا قسم توڑ دی تو بعض صورت میں کافرہوجائے گا۔جو شص اِس قِسم کی جھوٹی قَسَم کھائے اُس کی نسبت حدیث میں فرمایا:’’وہ وَیسا ہی ہے جیسا اُس نے کہا۔‘‘ یعنی یہودی ہونے کی قسم کھائی تو یہودی ہوگیا۔یونہی اگر کہا:’’ دا جانتاہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا ہے۔‘‘ اور یہ بات اُس نے جھوٹ کہی ہے تو اکثرعُلَما کے نزدیک کافرہے۔(بہارِ شریعت ج۲ص۳۰۱)

کسی چیز کو اپنے اوپرحرام کر لینا

(9)جو شص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرے مَثَلًا کہے کہ فُلاں چیز مجھ پر حرام ہے تو اِس کہدینے سے وہ شے حرام نہیں ہوگی کہ اللہ(عزوجل)نے جس چیز کو حلال کیا اُسے کون حرام کرسکے ؟مگر(جس چیز کو اپنے اُوپر حرام کیا)اُس کے بَرَتنے(بَ۔رَت۔نے یعنی استِعمال کرنے)سے کفّارہ لازِم آئیگا یعنی یہ بھی قسم ہے۔(تَبیِینُ الحقائق ج ۳ص ۴۳۶)تجھ سے بات کرنا حرام ہے یہ(بھی)یَمین(یَ۔مِین۔یعنی قسم)ہے۔بات کرے گا تو کفّارہ لازِم ہوگا۔(فتاوٰی عالمگیریج ۲ ص ۵۸)

غیرِ دا کی قسم ’’ قسم‘‘ نہیں

(10)غیرِدا کی قسم،’’ قسم ‘‘نہیں مَثَلًا تمہاری قسم۔اپنی قسم۔تمہاری جان کی قسم۔اپنی جان کی قسم۔تمہارے سرکی قسم۔اپنے سرکی قسم۔آنکھوں کی قسم۔جوانی کی قسم۔ماں باپ کی قسم۔اولادکی قسم۔مذہب کی قسم۔دین کی قسم۔علم کی قسم۔کعبے کی قسم۔عرشِ اِلٰہی کی قسم۔رسول اللہ کی قسم۔(ایضًاص۵۱) (11)دا ورسول کی قسم یہ کام نہ کروں گا یہ قسم نہیں۔(ایضًاص۵۷،۵۸)

دوسرے کے قسم دلانے سے قسم نہیں ہوتی

(12) اگر یہ کام کروں تو کافِروں سے بدتر ہوجاؤں(کہا)تو(یہ)قسم ہے اور اگر کہا کہ یہ کام کرے(یعنی کروں)تو کافر کو اِس(یعنی مجھ)پرشَرَف ہو(یعنی فضیلت ہو)تو قسم نہیں۔(ایضًاص۵۸)

(13)دوسرے کے قسم دِلانے سے قسم نہیں ہوتی مَثَلًا کہا:تمہیں دا کی قسم یہ کام کردو۔تو اِس کہنے سے(جس سے کہا)اُس پر قسم نہ ہوئی یعنی نہ کرنے سے کفّارہ لازِم نہیں۔ایک شص کسی کے پاس گیا اُس نے اٹھنا چاہا اُس نے کہا:داکی قسم نہ اُٹھنا اور(جس سے کہا)وہ کھڑا ہوگیا تواُس قسم کھانے والے پر کفّارہ نہیں۔(ایضًاص۵۹۔۶۰)

(14)یہاں ایک قاعدہ یاد رکھنا چاہیے جس کا قسم میں ہرجگہ لحاظ ضرور ہے وہ یہ کہ قسم کے تمام الفاظ سے وہ معنے لیے جائیں گے جن میں اہلِ عُرف استعمال کرتے ہوں مثَلًا کسی نے قسم کھائی کہ کسی مکان میں نہیں جائیگا اور مسجد میں یا کعبۂ معظمہ میں گیا تو قسم نہیں ٹوٹی اگرچہ یہ بھی مکان ہیں،یوں ہی حمّام میں جانے سے بھی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ (فتاوٰی عالمگیری ج ۲ ص ۶۸)

قَسَم میں نیت اور غَرَض کا اِعتبار نہیں

(15)قسم میں الفاظ کا لحاظ ہوگا،اِس کا لحاظ نہ ہوگا کہ اِس قسم سے غَرَض کیا ہے یعنی ان لفظوں کے بول چال میں جو معنٰے ہیں وہ مُراد لیے جائیں گے قسم کھانے والے کی نیّت اور مقصد کا اعتِبار نہ ہوگا مَثَلًا قسم کھائی کہ’’ فُلاں کے لیے ایک پیسے کی کوئی چیز نہیں ریدوں گا ‘‘اور ایک رُوپے کی ریدی تو قسم نہیں ٹوٹی حالانکہ اِس کلام سے مقصد یہ ہوا کرتا ہے کہ نہ پیسے کی ریدوں گا نہ رُوپے کی مگرچُونکہ لَفظ سے یہ نہیں سمجھا جاتا لہٰذا اس کا اعتبار نہیں یا قسم کھائی کہ’’ دروازے سے باہَرنہ جاؤں گا‘‘ اور دیوار کُود کریا سیڑھی لگا کر باہَر چلاگیا تو قسم نہیں ٹوٹی اگرچِہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ گھرسے باہَر نہ جاؤں گا۔ (دُرِّمُتارو رَدُّالْمُحتارج۵ ص۵۵۰) (نیکی کی دعوت۱۷۵ تا۱۷۸)

(07): ’’ کفارہِ قسم کے ۱۳ مدنی پھول ‘‘

{1} قسم کے لیے چند شَرطیں ہیں ، کہ اگر وہ نہ ہوں تو کفّارہ نہیں ۔ قسم کھانے والا (۱) مسلمان (۲) عاقِل (۳) بالِغ ہو۔ کافر کی قسم، قسم نہیں یعنی اگر زمانۂ کُفر میں قسم کھائی پھرمسلمان ہوا تواُس قسم کے توڑنے پر کفّارہ واجِب نہ ہوگا۔ اور مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّیعنی اللہ کی پناہ) قسم کھانے کے بعد مُرتَد ہوگیا تو قسم باطلِ ہوگئی یعنی اگر پھر مسلمان ہوا اور قسم توڑ دی تو کفّارہ نہیں اور (۴) قسم میں یہ بھی شَرط ہے کہ وہ چیز جس کی قسم کھائی عَقلاً ممکن ہو یعنی ہوسکتی ہو، اگرچِہ مُحالِ عادی ہو اور (۵) یہ بھی شَرط ہے کہ قسم اور جس چیز کی قسم کھائی دونوں کو ایک ساتھ کہا ہو درمیان میں فاصِلہ ہوگا تو قسم نہ ہوگی مَثَلاً کسی نے اس سے کہلایا کہ کہہ، دا کی قسم! اِس نے کہا: دا کی قسم ! اُس نے کہا : کہہ ، فُلاں کام کروں گا، اِس نے کہاتو یہ قسم نہ ہوئی۔ (فتاوٰی عالمگیری ج ۲ ص ۵۱)

قَسَم کا کَفَّارہ

{2} غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا اُن کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اتیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔ (تَبیِینُ الحَقائق ج ۳ص ۴۳۰) (یاد رہے! جہاں کَفّارہ ہے بھی تو وہ صِرف آیَندہ کے لئے کھائی گئی قسم پر ہے، گزَشتہ یاموجودہ کیمُتَعلِّق کھائی ہوئی قسم پر کَفّارہ نہیں ۔ مَثَلاً کہا: ’’ دا کی قسم! میں نے کل ایک بھی گلاس ٹھنڈا پانی نہیں پِیا۔ ‘‘ اگر پیا تھا اور یاد ہونے کے باوُجُود جھوٹی قسم کھائی تھی تو گنہگار ہوا توبہ کرے، کفّارہ نہیں )

کَفّارہ ادا کرنے کا طریقہ

{3} (دس) مَساکین کو دونوں وَقت پیٹ بھر کر کھلانا ہوگااور جن مَساکین کو صبح کے وَقت کھلایا اُنھیں کو شام کے وَقت بھی کِھلائے، دوسرے دس مساکین کو کِھلانے سے (کفّارہ) ادانہ ہوگا۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ دَسوں کو ایک ہی دن (دونوں وَقت) کھلادے یا ہرروزایک ایک کو (دو وقت) یا ایک ہی کو دس دن تک دونوں وَقت کھلائے۔ اورمَساکین جن کو کھلایا ان میں کوئی بچّہ نہ ہو اور کھلانے میں اِباحَت (کھانے کی اجازت دے دینا ) وتَملیک (تَم۔لِیک ۔یعنی مالِک بنا دینا کہ چاہے کھائے چاہے لے جائے ) دونوں صورَتیں ہوسکتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھلانے کے عِوَض (یعنی بجائے) ہرمِسکین کونِصف (یعنی آدھا) صاع گیہوں یا ایک صاع جَو ( ایک صاع 4کلو میں سے 160گرام کم اورنِصف یعنی آدھا صاع 2کلو میں سے 80گرام کم کاہوتاہے) یا ان کی قیمت کا مالِک کردے یا دس روز تک ایک ہی مسکین کو ہر روزبَقَدَرِصَدَقۂ فِطردے دیا کرے یا بعض کو کِھلائے اور بعض کو دیدے ۔ غَرَض یہ کہ اُس کی ( یعنی کَفّارہ ادا کرنے کی) تمام صورَتیں وَہیں سے (یعنی مکتبۃُ المدینہکی مطبوعہ بہارِ شریعت جلد 2صَفْحَہ 205 تا217 پر دیئے ہوئے (ظِہار کے ) کفّارے کے بیان سے ) معلوم کریں فرق اِتنا ہے کہ وہاں (یعنی ظِہار کے کفّارے میں ) ساٹھ مسکین تھے (جبکہ) یہاں (یعنی قَسَم کے کَفّارے میں ) دس ہیں ۔ (دُرِّمُتارو رَدُّالْمُحتارج۵ ص ۵۲۳)

کَفّارے کیلئے نیّت شَرط ہے

{4} کَفَّارہ ادا ہونے کے لیے نیّت شَرط ہے بِغیر نیّت ادانہ ہوگا ہاں اگروہ شے جو مسکین کو دی اور دیتے وَقت نیّت نہ کی مگر وہ چیز ابھی مِسکین کے پاس موجود ہے اور اب نیَّت کرلی تو ادا ہوگیا جیسا کہ زکوٰۃ میں فقیر کو دینے کے بعد نیّت کرنے میں یِہی شَرط ہے کہ ہُنُوز (یعنی ابھی تک) وہ چیز فقیر کے پاس باقی ہو تو نیّت کام کرے گی ورنہ نہیں ۔

(حاشیۃُ الطّحطاوی علی الدّرالمتارج۲ص ۱۹۸)

{5} رَمَضان میں اگر کَفَّارے کا کھانا کھلانا چاہتاہے تو شام اورسَحری دونوں وَقت کھلائے یا ایک مِسکین کو 20 دن شام کا کھانا کھلائے۔ (الجوھرۃ النیرہ ص ۲۵۳)

کفَّارے میں تین روزوں کی اجازت کی صورت

{6} اگر غلام آزاد کرنے یا10مِسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادِر نہ ہو توپے دَرپے (یعنی لگا تار) تین روزے رکھے۔ (اَیضاً)

کَفّارہ ادا کرتے وَقت کی حیثیت کا اعتبار ہے کہ روزے رکھے یا۔۔۔

{7} عاجِز (یعنی مجبور) ہونا اُس وَقت کامُعتَبر ہے جب کفّارہ ادا کرنا چاہتا ہے مَثَلاً جس وَقت قسم توڑی تھی اُس وَقت مالدار تھا مگر کفّارہ ادا کرنے کے وَقت (مالی اِعتِبار سے) مُحتاج ہے تو روزے سے کَفَّارہ ادا کرسکتا ہے اور اگر (قسم) توڑنے کے وَقت مُفلِس (و مسکین) تھا اور اب (کفّارہ ادا کرنے کے وقت ) مالدار ہے تو روزے سے (کَفَّارہ) نہیں ادا کرسکتا۔ (الجوھرۃ النیرہ ص ۲۵۳وغیرہا)

کَفّارے کے تینوں روزے پے در پے ہونا ضَروری ہیں

{8} ایک ساتھ (اگر) تین روزے نہ رکھے یعنی درمِیان میں فاصِلہ کردیا تو کفّارہ ادا نہ ہوا اگرچِہ کسی مجبوری کے سبب ناغہ ہوا ہو، یہاں تک کہ عورت کو اگرحَیض آگیا تو پہلے کے روزے کا اِعتبار نہ ہوگا یعنی اب پاک ہونے کے بعد (نئے سِرے سے) لگاتار تین روزے رکھے۔ (دُرِّمُتارج۵ص۵۲۶)

روزوں سے کَفّارے کی ایک ضَروری شَرط

{9} روزوں سے کَفّارہ ادا ہونے کے لیے یہ بھی شَرط ہے کہ تم تک (یعنی تینوں روزے مکمَّل ہونے تک ) مال پر قدرت نہ ہو مَثَلاً اگر دورَوزے رکھنے کے بعد اِتنا مال مل گیا کہ کَفّارہ ادا کر سکتا ہے تو اب روزوں سے (کَفّارہ ادا) نہیں ہوسکتابلکہ اگرتیسرا روزہ بھی رکھ لیا ہے اورغُروبِ آفتاب سے پہلے مال پر قادِر ہوگیا تو روزے ناکافی ہیں اگرچِہ مال پر قادِر ہونا یوں ہوا کہ اُس کے مُورِث (یعنی وارِث بنانے والے) کا انتِقال ہوگیا اور اُس کوتَرکہ (یعنی وِرثہ) اتنا ملے گا جو کَفّارے کے لیے کافی ہے۔ (دُرِّمُتارج۵ص۵۲۶)

کَفّارے کے روزے کی نیّت کے دو اَحکام

{10} ان روزوں میں رات سے نیّت شَرط ہے اور یہ بھی ضَرور ہے کہ کفّارے کی نیّت سے ہوں مُطلَق روزے کی نیّت کافی نہیں ۔ ( مبسوط ج۴ ص ۱۶۶)

قسم توڑنے سے پہلے کفّارہ دیا تو ادا نہ ہو۱

{11} قسم توڑنے سے پہلے کَفّارہ نہیں ، اور (اگر دے بھی) دیا تو ادا نہ ہوا یعنی اگر کفّارہ دینے کے بعد قسم توڑی تو اب پھر دے کہ جو پہلے دیا ہے وہ کفّارہ نہیں ، مگر فقیر سے دیے ہوئے کو واپَس نہیں لے سکتا۔ (فتاوٰی عالمگیری ج ۲ ص ۶۴ )

کَفّارے کا مُستحِق کون؟

{12} کفّارہ اُنھیں مَساکِین کو دے سکتاہے جن کو زکوٰۃ دے سکتا ہے یعنی اپنے باپ، ماں ، اولاد وغیرہُم کو جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا کَفّارہ بھی نہیں دے سکتا ۔ (دُرِّمُتارج۵، ص۵۲۷) {13} کَفّارۂ قَسَم کی قیمت مسجِد میں صَرف (یعنی رچ) نہیں کرسکتا نہ مُردے کے کفن میں لگا سکتا ہے یعنی جہاں جہاں زکوٰۃ نہیں َرچ کر سکتا وہاں کَفّارے کی قیمت نہیں دی جا سکتی۔ (عالمگیری ج ۲ ص ۶۲) ( قسم اور کفّارے کے بارے میں تفصیلی معلومات کیلئے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1182 صَفحات پر مشتمل کتاب بہارِ شریعت جلد2 صَفْحَہ 298 تا 311کا مُطالَعہ ضَروری ہے )

دینی یا سماجی ادارے کو کَفّارے کی رقم دینے کا اہم مسئلہ

اگر کسی دینی یامسلمانوں کے سماجی ادارے کو کَفّارے کی رقم دینا چاہے تو دے سکتا ہے مگر بتانا ہوگا کہ یہ کَفّارے کی رقم ہے تا کہ وہ اُس رقم کو الگ رکھ کر اُسے بیان کردہ طریقے پر کام میں لائیں یعنی ایک ہی مسکین کو دس دن تک دونوں وَقت کھلانا یا دس مَساکین کو دونوں وَقت کِھلانا وغیرہ ۔اگر دینی ادارہ دینی کاموں میں صَرف کرنا چاہے تو حیلہ کرنے کا طریقہ یہ ہے ، مَثَلاً ایک ہی مسکین کو روزانہ ایک صدقۂ فطر یا دس مسکینوں کو ایک ہی دن میں ایک ایک صَدَقۂ فِطر کا مالِک بنا یا جائے اوروہ اپنی طرف سے دینی کاموں کیلئے پیش کریں ۔ (قسم کے بارے میں مدنی پھول۳۳ تا۳۸)

(08): ’’ تعزیت کے مدنی پھول ‘‘

3فرامین مصطفیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کریگا اُس کے لئے اُس مصیبت زدہ جیسا ثواب ہے (ترمذی ج۲ص ۳۳۸ حدیث ۱۰۷۵))۲(جو بندۂ مومِن اپنے کسی مصیبت زدہ بھائی کی تعزیت کر ے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّقیامت کے دن اُسے کرامت کا جوڑا پہنائے گا (ابن ماجہ ج۲ ص ۲۶۸ حدیث۱۶۰۱))۳(جو کسی غمزدہ شص سے تعزیت کر ے گااللہ عَزَّ وَجَلَّاُسے تقوٰی کا لباس پہنائے گا اور رُوحو ں کے درمِیان اس کی رُوح پر رَحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گااللہ عَزَّ وَجَلَّاُسے جنّت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت (ساری )دنیا بھی نہیں ہوسکتی( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَطج۶ ص ۴۲۹حدیث ۹۲۹۲) حضرتِ سیِّدُناموسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بارگاہِ ربُّ العزَّت میں عرض کی:اے میرے ربعَزَّ وَجَلَّ! وہ کون ہے جو تیرے عرش کے سائے میں ہوگاجس دن اُس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگااللہ عَزَّ وَجَلَّنے فرمایا: ’’ اے موسی عَلَیْہِ السَّلام! وہ لوگ جو مریضوں کی عِیادت کرتے ہیں ، جنازے کے ساتھ جاتے ہیں اور کسی فوت شدہ بچّے کی ماں سے تعزیت کرتے ہیں ‘‘ ( تمہیدالفرش للسیوطی ص۶۲) تعزیت کا معنیٰ ہے :مصیبت زدہ آدمی کو صبر کی تلقین کرنا ۔ ’’ تعزیت مسنون (یعنی سنّت )ہے ‘‘ (بہار ِشریعت ج۱ص۸۵۲) دَفْن سے پہلے بھی تعزیت جائز ہے ، مگر اَفضل یہ ہے کہ دَفْن کے بعد ہو یہ اُس وَقت ہے کہ اولیائے میِّت (میّت کے اہلِ انہ ) جَزع وفَزع (یعنی رونا پیٹنا)نہ کرتے ہوں ، ورنہ اُن کی تسلّی کے لیے دَفْن سے پہلے ہی کرے (جوہرہ ص۱۴۱) تعزیت کا وَقْت موت سے تین دن تک ہے، اِس کے بعد مکروہ ہے کہ غم تازہ ہوگا مگر جب تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے وہاں موجود نہ ہو یا موجود ہے مگر اُسے عِلْم نہیں تو بعد میں حَرَج نہیں (ایضاً ، رَدُّالْمُحتار ج ۳ ص۱۷۷) (تعزیت کرنے والا) عاجِزی وانکساری اور رنج وغم کا اظہار کرے، گفتگو کم کرے اور مسکرانے سے بچے کہ (ایسے موقع پر) مسکرانا (دلوں میں ) بغض و کینہ پیدا کرتا ہے (آدابِ دین ص۳۵) مستحب یہ ہے کہ میِّت کے تمام اَقارِب کو تعزیت کریں ، چھوٹے بڑے مرد و عورت سب کو مگر عورت کو اُس کے مَحارِم ہی تعزیت کریں ۔ (بہار ِشریعت ج ۱ ص ۸۵۲ ) تعزیت میں یہ کہےاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور اس مصیبت پر اجرِ عظیم عطا فرمائے اوراللہ عَزَّ وَجَلَّمرحوم کی مغفِرت فرمائے۔ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان لفظوں سے تعزیت فرمائی: اِنَّ لِلّٰہِ مَااَذَ وَلَہُ مَااَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ (ترجمہ:)دا ہی کا ہے جو اُس نے لیا اور جو دیا اور اُس کے نزدیک ہر چیز ایک مقّررہ وقت تک ہے، لہٰذا صبر کرو اور ثواب کی اُمّید رکھو (بُاری ج۱ص۴۳۴حدیث۱۲۸۴) میِّت کے اَعِزّہ (یعنی عزیزوں ) کا گھر میں بیٹھنا کہ لوگ اُن کی تعزیت کیلئے آئیں اس میں حَرَج نہیں اور مکان کے درواز ے پر یا شارِع عام (یعنی عام راستے )پر بچھونے(یا دری وغیرہ) بچھا کر بیٹھنا بُری بات ہے (عالمگیری ج۱ ص ۱۶۷ ، رَدُّالْمُتار ج۳ ص۱۷۷) قَبْر کے قریب تعزیت کرنا مکروہِ (تنزیہی ) ہے ( دُرِّمتار ج۳ ص۱۷۷)بعض قوموں میں وفات کے بعد آنے والی پہلی شبِ براء ت یا پہلی عید کے موقع پر عزیز واَقرِبا ء اہلِ میّت کے گھرتعزیت کیلئے اکٹّھے ہوتے ہیں یہ رسم غَلَط ہے ، ہاں جو کسی وجہ سے تعزیت نہ کر سکا تھا وہ عید کے دن تعزیت کرے تو حرج نہیں اِسی طرح پہلی بقر عید پر جن اہلِ میّت پر قربانی واجب ہو انہیں قربانی کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سوگ کے ایّام گزر جانے کے باوُجُود عید آنے پر میِّت کا سوگ (غم) کرنا یا سوگ کے سبب عمدہ لباس وغیرہ نہ پہنناناجائز و گناہ ہے۔البتّہ ویسے ہی کوئی عمدہ لباس نہ پہنے تو گناہ نہیں جو ایک بار تعزیت کر آیا اُسے دوبارہ تعزیت کے لیے جانا مکروہ ہے ( دُرِّمُتار ج۳ ص۱۷۷) اگر تعزیت کے لئے عورَتیں جَمْعْ ہوں کہ نوحہ کریں تو انہیں کھانا نہ دیا جائے کہ گناہ پر مدد دینا ہے (بہار ِشریعت ج ۱ ص ۸۵۳ ) نوحہ یعنی میّت کے اَوصاف مبالَغہ کے ساتھ(یعنی بڑھا چڑھا کروبیاں ) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو ’’ بَین ‘‘ کہتے ہیں بِالاِْجماع حرام ہے۔ یوہیں واوَیلا وامُصیبتا (یعنی ہائے مصیبت ) کہہ کے چلّانا (ایضاً ص ۸۵۴) اَطِبّاء (یعنی طبیب) کہتے ہیں کہ(جو اپنے عزیز کی موت پر ست صدمے سے دو چار ہواُس کے) میِّت پر بالکل نہ رونے سے ست بیماری پیدا ہوجاتی ہے ، آنسو بہنے سے دل کی گرمی نکل جاتی ہے ، اِس لیے اِس(بغیر نوحہ ) رونے سے ہر گز مَنْعْ نہ کیا جائے (مراٰۃ المناجیح ج۲ ص۵۰۱) مُفَسّرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار ان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّانفرماتے ہیں : تعزیَت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں جس سے اُس غمزدہ کی تسلّی ہوجائے، فقیر کا تجرِبہ ہے کہ اگر اس موقع پر غمزدوں کو واقِعاتِ کربلا یاد دلائے جائیں توبَہُت تسلّی ہوتی ہے۔ تمام تعزیتیں ہی بہتر ہیں مگر بچّے کی وفات پر(مَحارِم کا اُس کی) ماں کو تسلی دینا بَہُت ثواب ہے۔ (مُلَص ازمراٰۃ المناجیح ج۲ ص ۵۰۷) (نیک بننے کا نسہ ۱۹ تا ۲۱)

(09): ’’ کفن کے مدنی پھول ‘‘

6فرامِینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : {۱} ’’ جومیِّت کوکفن دے تو اس کے لیے میِّت کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ ‘‘ حضرتِ علامہ عبد الرء ُوف مُناوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی حدیث ِ پاک کے اس حصے ’’ جومیِّت کوکفن دے ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی ’’ جس نے اپنے مال سے میِّت کے کفن کا انتِظام کیا۔ ‘‘ {۲}جومیِّت کوکفن دے اللہ پاک اسے جنت کے باریک اور موٹے ریشم کا لباس پہنائے گا {۳} ’’ جو کسی میِّت کو نہلائے ، کفن دے ، وشبو لگائے ، جنازہ اُٹھائے ، نماز پڑھے اور جو ناقص بات نظر آئے اسے چھپا ئے وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسا جس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۔ ‘‘اس حصۂ حدیث ’’ ناقِص بات ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ: ’’ جو بات ظاہر کرنے کے قابل نہ ہو جیسے چہرے کا رنگ سیاہ ہوجانا ‘‘ {۴} اپنے مرد وں کو اچھا کفن دو کیونکہ وہ اپنی قبروں میں آپس میں ملاقات کرتے اور ( اچھے کفن سے) تفار کرتے (یعنی وش ہوتے ) ہیں {۵} جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے ، تواُسے اچھا کفن دے {۶} اپنے مردوں کو سفید کفن میں کفناؤ۔

کفن پہنانے کی نیّت

کفن پہنانے کی نیّت: رضائے الٰہی پانے اور ثوابِ آرت کمانے کے لیے اپنی موت کے بعد ود کو پہنائے جانے والے کفن کو یاد کرتے ہوئے ادائے فرض کیلئے میِّت کوھ سنّت کے مطابق کفن پہناؤں گا میِّت کو کفن دینا ’’فرضِ کفایہ ‘‘ ہے یعنی کسی ایک کے دینے سے سب بَرِیُّ الذِّمَّہ ہو گئے (یعنی سب کے سر سے فرض اتر گیا) ورنہ جن جن کو بر پہنچی تھی اور کفن نہ دیاوہ سب گناہ گار ہوں گے ۔

مَرْد کا مسنون کفَن

(۱) لِفافہ یعنی چادر (۲) اِزار یعنی تَہبند (۳) قمیص یعنی کَفنی۔ عورت کیلئے ان تین کے ساتھ ساتھ مزید دو یہ ہیں : (۴) اَوڑھنی (۵) سینہ بند۔ (عالمگیری ج۱ص۱۶۰) جو نابالغ حدِّشَہْوَت کو پہنچ گیا وہ بالغ کے حکم میں ہے یعنی بالغ کو کفن میں جتنے کپڑے دیے جاتے ہیں اِسے بھی دیے جائیں اور اس سے چھوٹے لڑکے کو ایک کپڑا اور چھوٹی لڑکی کو دوکپڑے دے سکتے ہیں اور لڑکے کو بھی دو کپڑے دیے جائیں تو اچھا ہے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں کو پورا کفن دیں اگرچِہ ایک دن کا بچّہ ہو۔ (بہارِ شریعت ج ۱ص۸۱۹ ) صرف علما ومشائ کو باعمامہ دَفن کیا جاسکتاہے، عام لوگوں کی میِّت کومع عمامہ دفنانا منع ہے۔ (مدَنی وصیّت نامہ ص ۴) مرد کے بدن پر ایسی وشبو لگانا جائز نہیں جس میں زعفران کی آمیزش ہو عورت کے لیے جائز ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۲۱) جس نے احرام باندھا (اور اِسی حالت میں وفات پائی) ہے اُس کے بدن پر بھی وشبو لگائیں اور اُس کا مُنہ اور سر کفن سے چھپایا جائے۔ (ایضاً)

کفَن کی تفصیل

{۱} لفافہ (یعنی چادر ) : یعنی میِّت کے قد سے اتنی بڑی ہوکہ دونوں طرف باندھ سکیں {۲} اِزار (یعنی تَہبند ) : چوٹی (یعنی سرکے شروع) سے قدم تک یعنی لفافے سے اِتنا چھوٹا جو بندش کیلئے زائد تھا {۳}قمیص (یعنی کَفنی) : گردن سے گھٹنوں کے نیچے تک اور یہ آگے اور پیچھے دونوں طرف برابر ہو اِس میں چاک اور آستینیں نہ ہوں ۔مردو عورت کی کفنی میں فرق ہے، مرد کی کفنی کندھوں پر چیریں اور عورت کیلئے سینے کی طرف {۴} اوڑھنی : تین ہاتھ یعنی ڈیڑھ گز کی ہونی چاہئے{۵} سینہ بند: پستان سے ناف تک اور بہتر یہ ہے کہ ران تک ہو۔ (مُلََّصازبہار شریعت ج۱ص۸۱۸) عُمُوماً تیار کفن ریدلیا جاتا ہے اس کا میِّت کے قد کے مطابق مسنون سائز کاہونا ضَروری نہیں ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اِتنازیادہ ہوکہ اِسراف میں داِل ہوجائے، لہٰذا اِحتیاط اِسی میں ہے کہ تھان میں سے حسبِ ضرورت کپڑا کاٹاجائے زکفن اچھا ہونا چاہیے یعنی مرد عیدین و جمعہ کے لیے جیسے کپڑے پہنتا تھا اور عورت جیسے کپڑے پہن کر میکے جاتی تھی اُس قیمت کا ہونا چاہیے ۔ (بہار شریعت ج ۱ص۸۱۸ )

کفن پہنانے کا طریقہ

غسل دینے کے بعد آہستہ سے بدن کسی پاک کپڑے سے پونچھ لیجئے تا کہ کفن تر نہ ہو، کفن کو ایک یاتین یا پانچ یا سات بار دُھونی دیجئے، اِس سے زیادہ نہیں ، پھر اِس طرح بچھایئے کہ پہلے لِفافہ یعنی بڑی چادر اِس پر تہبند اوراِس کے اوپر کفنی رکھئے، اب میِّت کو اِس پر لٹایئے اورکفنی پہنایئے، اب سر ، داڑھی (اور داڑھی نہ ہو تو ٹھوڑی) اوربقیہ تمام جسم پر وشبو ملئے، وہ اعضا جن پر سجدہ کیا جاتا ہے یعنی پیشانی ، ناک، ہاتھوں ، گھٹنوں اور قدموں پر کافور لگایئے۔ پھر اِزار یعنی تہبند لپیٹئے، پہلے بائیں یعنی اُلٹی جانب سے پھر سیدھی جانب سے ۔ پھر لفافہ بھی اِسی طرح پہلے بائیں یعنی اُلٹی جانب سے پھر سیدھی جانب سے لپیٹئے تاکہ سیدھا اُوپر رہے۔سر اور پاؤں کی طرف باندھ دیجئے کہ اُڑنے کا اندیشہ نہ رہے۔عورت کو ’’ کفنی ‘‘ پہنا کر اُس کے بال دو حصے کر کے کفنی کے اوپر سینے پر ڈال دیجئے اور اوڑھنی آدھی پیٹھ کے نیچے سے بچھا کر سر پر لا کر منہ پر نِقاب کی طرح ڈال دیجئے کہ سینے پر رہے کہ اُس کا طول ( یعنی لمبائی) آدھی پیٹھ سے سینے تک ہے اور عرض ( یعنی چوڑائی) ایک کان کی لوسے دوسرے کان کی لو تک ہے پھر بد ستور اِزارو لفافہ لپیٹئے پھر سب کے اوپر سینہ بند پستان کے اوپر سے ران تک لا کر باندھئے۔ (مزید تفصیلات کیلئے بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ817تا822کا مُطالعہ فرمایئے)(ویران محل ص ۲۰ تا ۲۴ )

(10): ’’ تلاوت کے21 مدنی پھول ‘‘

{۱}امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح قراٰنِ مجیدکو چُومتے تھے اور فرماتے:’’ یہ میرے رب عَزَّوَجَلَّ کا عہد اور اس کی کتاب ہے۔‘‘(دُرِّمُتار ج ۹ ص۶۳۴ دار المعرفۃ بیروت){۲} تلاوت کے آغاز میں اعوذُپڑھنا مُسْتَحَب ہے اور ابتِدائے سورت میں بسم اﷲ سنّت، ورنہ مُسْتَحَب( بہارِ شریعتج۱حصّہ ۳ ص ۵۵۰ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ) {۳}سورۂ براءَت(سورۂ توبہ )سے اگر تلاوت شروع کی تو اَعُوْذُ بِاللّٰہ (اور) بِسْمِ اللہ (دونوں )کہہ لیجئے اور جو اس کے پہلے سے تلاوت شروع کی اور سورۂ توبہ (دورانِ تِلاوت ) آگئی تو تَسْمِیہ (یعنی بِسْمِ اللہ شریف)پڑھنے کی حاجت نہیں ۔ اور اس کی ابتِدا میں نیا تَعَوُّذ (تَعَوْ ۔ وُذ )جو آج کل کے حافِظوں نے نکالا ہے، بے اَصل ہے اور یہ جو مشہو ر ہے کہ سورۂ توبہ ابتِداء ً بھی پڑھے جب بھی بِسْمِ اللہ نہ پڑھے یہ مَحض غَلَط ہے (اَیضاًص۵۵۱){۴} باوُضُو، قِبلہ رُو، اچّھے کپڑے پہن کر تِلاوت کرنا مُسْتَحَبہے (اَیضاًص۵۵۰){۵} قراٰنِ مجیددیکھ کر پڑھنا، زَبانی پڑھنے سے افضل ہے کہ یہ پڑھنا بھی ہے اور دیکھنا اور ہاتھ سے اس کا چُھونا بھی اور یہ سب کام عِبادت ہیں ۔(غُنْیَۃُ المُتَمَلّیص۴۹۵){۶} قراٰنِ مجید کو نہایت اچّھی آواز سے پڑھنا چاہیے، اگرآواز اچّھی نہ ہو تو اچّھی آواز بنانے کی کوشش کرے،مگر لَحن کے ساتھ پڑھنا کہ حُرُوف میں کمی بیشی ہوجائے جیسے گانے والے کیا کرتے ہیں یہ ناجائز ہے، بلکہ پڑھنے میں قواعِدِ تَجوید کی رعایت کیجئے (دُرِّمُتار، رَدُّالْمُحتار ج۹،ص۶۹۴){۷} قراٰنِ مجید بلند آواز سے پڑھنا افضل ہے جب کہ کسی نَمازی یا مریض یا سوتے کو اِیذا نہ پہنچے۔ (غُنْیَۃُ المُتَمَلّی ص ۴۹۷) {۸}جب قراٰنِ پاک کی سورَتیں یا آیَتیں پڑھی جاتی ہیں اُس وقت بعض لوگ چپ تو رہتے ہیں مگر اِدھر اُدھر دیکھنے اور دیگر حرکات و اشارات وغیرہ سے باز نہیں آتے،ایسوں کی دمت میں عرض ہے کہ چپ رہنے کے ساتھ ساتھ غور سے سننا بھی لازِمی ہے جیسا کہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صَفْحَہ 352پرمیرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا انعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں :قراٰنِ مجید پڑھا جائے اسے کان لگا کر غور سے سُننا اور اموش رہنا فرض ہے۔قالَ اللّٰہُ تعالٰی (اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ) وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴)(پ۹ الاعراف ۲۰۴) (ترجَمۂ کنزالایمان:اورجب قراٰن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور اموش رہو کہ تم پر رحم ہو){۹} جب بلند آواز سے قراٰن پڑھا جائے تو تمام حاضِرین پر سُننا فرض ہے، جب کہ وہ مجمع سُننے کے لئے حاضر ہو ورنہ ایک کا سننا کافی ہے، اگرچِہ اور (لوگ) اپنے کام میں ہوں ۔ (فتاوٰی رضویہ مَُرَّجہ ج۲۳ص۳۵۳ مُلََّصاً) {۱۰} مجمع میں سب لوگ بلند آواز سے پڑھیں یہ حرام ہے، اکثر تیجوں میں سب بلند آواز سے پڑھتے ہیں یہ حرام ہے، اگر چند شص پڑھنے والے ہوں تو حکم ہے کہ آہستہ پڑھیں ۔ (بہارِشریعتج۱حصّہ ۳ص۵۵۲) {۱۱}مسجِدمیں دوسرے لوگ ہوں ، نَماز یا اپنے وِرد ووظائف پڑھ رہے ہوں اُس وقت فَقَط اتنی آواز سے تلاوت کیجئے کہ صرف آپ ود سن سکیں برابر والے کو آواز نہ پہنچے {۱۲} بازاروں میں اور جہاں لوگ کام میں مشغول ہوں بلند آواز سے پڑھنا ناجائز ہے، لوگ اگر نہ سُنیں گے تو گناہ پڑھنے والے پر ہے اگر کام میں مشغول ہونے سے پہلے اِس نے پڑھنا شروع کر دیا ہو اور اگر وہ جگہ کام کرنے کے لیے مقرَّر نہ ہو تو اگر پہلے پڑھنا اِس نے شروع کیا اور لوگ نہیں سنتے تو لوگوں پر گناہ اور اگرکام شروع کرنے کے بعد اِس نے پڑھنا شروع کیا ، تو اِس(یعنی پڑھنے والے) پر گناہ(غُنْیَۃُ المُتَمَلّیص۴۹۷) {۱۳}جہاں کوئی شص علمِ دین پڑھا رہا ہے یا طالبِ علم علمِ دین کی تکرار کرتے یا مُطالَعَہ دیکھتے ہوں ، وہاں بھی بلند آواز سے پڑھنا منع ہے۔ (اَیضاً ){۱۴} لیٹ کر قراٰن پڑھنے میں حرج نہیں جبکہ پاؤں سِمٹے ہوں اور منہ کُھلا ہو، یوہیں چلنے اور کام کرنے کی حالت میں بھی تلاوت جائز ہے، جبکہ دل نہ بٹے، ورنہ مکروہ ہے۔ (اَیضاً ص۴۹۶) {۱۵} غسل انے اورنَجاست کی جگہوں میں قراٰنِ مجید پڑھنا، ناجائز ہے(اَیضاً ) {۱۶} قراٰنِ مجید سُننا، تلاوت کرنے اورنَفل پڑھنے سے افضل ہے (اَیضاً ص ۴۹۷) {۱۷} جو شص غَلَط پڑھتا ہو تو سُننے والے پر واجِب ہے کہ بتا دے، بشرطیکہ بتانے کی وجہ سے کینہ و حسد پیدا نہ ہو۔ (اَیضاًص۴۹۸) {۱۸} اسی طرح اگر کسی کا مُصْحف شریف (قراٰنِ پاک )اپنے پاس عارِیَت (یعنی وقتی طور پر لیا ہوا) ہے، اگر اس میں کِتابت کی غَلَطی دیکھے، (تو جس کا ہے اُسے ) بتا دینا واجِب ہے۔ (بہارِشریعتج۱حصّہ ۳ ص۵۵۳ ) {۱۹} گرمیوں میں صبح کو قراٰنِ مجید تم کرنا بہتر ہے اورسردیوں میں اوّل شب کو کہ حدیث میں ہے: ’’جس نے شروع دن میں قراٰن تم کیا ، شام تک فرِشتے اس کے لیے اِستِغفار کرتے ہیں اور جس نے اِبتِدائے شب میں تم کیا ، صبح تک اِستِغفار کرتے ہیں ۔‘‘ گرمیوں میں چُونکہ دن بڑا ہوتا ہے تو صبح کے وَقت تم کرنے میں اِستِغفارِ ملائکہ زیا دہ ہوگی اور جاڑوں (یعنی سردیوں ) کی راتیں بڑی ہوتی ہیں تو شروع رات میں تم کرنے سے اِستِغفار زیا دہ ہوگی۔(غُنْیَۃُ المُتَمَلّیص۴۹۶){۲۰}جب قراٰنِ پاک تم ہو تو تین بار سورۂ اِلاص پڑھنابہتر ہے۔ اگرچِہ تراویح میں ہو، البتَّہ اگر فرض نَماز میں تم کرے تو ایک بار سے زیا دہ نہ پڑھے۔ (غُنْیَۃُ المُتَمَلّی ص۴۹۶){۲۱} تمِ قراٰن کا طریقہ یہ ہے کہ سورۂ ناس پڑھنے کے بعد سورۂ فاتحہ اورسورۂ بقرہ سے وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)تک پڑھئے اور اس کے بعد دعا مانگئے کہ یہ سنّت ہے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرتِ سیِّدُنا اُبی بِن کعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں : ’’نبیِّ کریم، رء وفٌ رَّحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم جب’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(۱)‘‘ پڑھتے توسورۂ فاتحہ شروع فرماتے پھرسورۂ بقرہ سے ’’وَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)‘‘تک پڑھتے پھر تم قراٰن کی دعا پڑھ کر کھڑے ہوتے۔(اَلْاِتقَان فِیْ عُلُوْمِ الْقُرْاٰن،ج۱،ص۱۵۸)

اِجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا

دلہن بن کے نکلی دُعائے محمد

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(11): ’’ کلام اللہ کے آٹھ مدنی پھول ‘‘

{۱} قراٰنِ مجید کو جُزدان و غِلاف میں رکھنا ادب ہے۔ صَحابہ و تابِعین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین کے زمانے سے اس پر مسلمانوں کا عمل ہے۔ (بہارِ شریعتحصّہ ۱۶ص۱۳۹) {۲} قراٰنِ مجید کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اس کی طرف پیٹھ نہ کی جائے، نہ پاؤں پھیلائے جائیں ، نہ پاؤں کو اس سے اونچا کریں ، نہ یہ کہ ود اونچی جگہ پر ہواور قراٰن مجید نیچے ہو۔ (اَیضاً) {۳} لُغَت و نَحو و صَرف(تینوں عُلُوم) کاایک (ہی )مرتبہ ہے، ان میں ہر ایک(علم) کی کتاب کو دوسرے کی کتاب پر رکھ سکتے ہیں اور ان سے اوپر عِلمِ کلام کی کتابیں رکھی جائیں ان کے اوپرفِقْہ اور احادیث و مَوَاعِظ و دعواتِ ماثُورہ (یعنی قراٰن واحادیث سے منقول دعائیں ) فِقہ سے اوپر اور تفسیر کو ان کے اوپر اور قراٰنِ مجید کو سب کے اوپر رکھئے۔ قرآن مجید جس صَندُوق میں ہو اس پر کپڑاوغیرہ نہ رکھا جائے۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۵ص۳۲۳۔۳۲۴ ) {۴} کسی نے محض یرو بَرَکت کے لیے اپنے مکان میں قراٰنِ مجید رکھ چھوڑا ہے اور تلاوت نہیں کرتا تو گناہ نہیں بلکہ اس کی یہ نیّت باعثِ ثواب ہے۔ (فتاوی قاضی ان ج۲،ص۳۷۸) {۵}بے یا لی میں قراٰنِ کریم اگر ہاتھ سے چُھوٹ کر یا طاق وغیرہ پر سے زمین پر تشریف لے آیا (یعنی گڑ پڑا) تو نہ گناہ ہے نہ کوئی کفّارہ {۶}گستای کی نیّت سے کسی نے معاذاللہعَزَّوَجَلَّ قراٰنِ پاک زمین پر دے مارا یا بہ نیّتِ توہین اِس پر پاؤں رکھ دیا تو کافِر ہو گیا {۷}اگر قراٰنِ مجید ہاتھ میں اٹھا کر یا اس پر ہاتھ رکھ کرحَلَف یا قَسَم کا لفظ بول کر کوئی بات کی تو یہ بَہُت ’’ست قَسَم‘‘ ہوئی اور اگرحَلَف یا قَسَم کالفظ نہ بولا تو صِرف قراٰنِ کریم ہاتھ میں اُٹھا کر یا اُس پر ہاتھ رکھ کر بات کرنا نہ قَسَم ہے نہ اس کا کوئی کفّارہ ۔ (فتاوٰی رضویہ مَُرَّجہ ج۱۳ ص ۵۷۴ ۔ ۵۷۵ مُلََّصاً ) {۸} اگر مسجِد میں بَہُت سارے قراٰنِ پاک جمع ہو گئے اور سب استِعمال میں نہیں آ رہے ،رکھے رکھے بوسیدہ ہو رہے ہیں تب بھی انہیں ھَدِیَّۃًدے کر ( یعنی بیچ کر) ان کی قیمت مسجِد میں صَرف نہیں کر سکتے۔ البتّہ ایسی صورت میں وہ قراٰنِ پاک دیگر مساجِد و مدارِس میں رکھنے کیلئے تقسیم کئے جا سکتے ہیں ۔(فتاوٰی رضویہ مَُرَّجہ ج۱۶ ص ۱۶۴ مُلََّصاً )

ہر روز میں قراٰن پڑھوں کاش دایا

اللہ! تلاوت میں مرے دل کو لگا دے

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(12): ’’ ترجمہ قرآن کے۴ مدنی پھول ‘‘

{۱}بِغیر تفسیر صرف ترجمۂ قراٰن نہ پڑھا جائے میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارَک فتوے کے ایک جُز(یعنی حصّے) کا لاصہ ہے:بغیر علمِ کثیر کے صرف ترجمۂ قُراٰن پڑھ کر سمجھ لینا ممکن نہیں ، بلکہ اس میں نفع کے مقابلے میں نقصان زیا دہ ہے۔ ترجَمہ پڑھنا ہے تو کسی عالِم ماہر کامل سنّی دیندار سے پڑھے۔ (فتاوٰی رضویہ مُحَرَّجہ ج۲۳ ص ۳۸۲ مُلََّصاً) {۲}قراٰن پاک کو سمجھنے کے لئے میرے آقا اعلیٰ حضرت،ولیٔ نعمت،اِمامِ اہلسنّت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِ سنّت ، ماحِیِ بدعت، عالمِ شریعت ، پیرِ طریقت،امامِ عشق و محبت ،باعثِ یر وبرکت، حضرت علامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام احمد رضا ان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن کا شُہرۂ آفاق ترجَمۂ قراٰن ’’کَنزُالِایمان‘‘ مع تفسیر ’’َزَائِنُ العِرفَان ‘‘(از حضرت علامہ مولاناسیِّد نعیمُ الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی ) حاصِل کیجئے {۳} روزانہ قراٰن پاک کی کم از کم 3آیا ت (مع ترجمہ و تفسیر ) کی تلاوت کے مَدَنی انعام پر عمل کیجئے ،ان شاء اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اس کی برکتیں آپ ود ہی دیکھ لیں گے{۴}دعوتِ اسلامی کے تنظیمی انداز کے مطابِق ہر مسجد کو ایک ذیلی حلقہ قرار دیا گیا ہے۔تمام ذیلی حلقوں میں روزانہ نمازِ فجر کے بعد اجتماعی طور پر تین آیا ت کی تلاوت مع ترجمۂ کنز الایمان و تفسیر زائن العرفان کے مَدَنی حلقے کا ہَدَف ہے ۔ اگر مُیسَّر ہو تو اسلامی بھائی اس میں شرکت کی سعادت پائیں ۔

’’کنزالایمان‘‘ اے دا میں کاش! روزانہ پڑھوں

پڑھ کے تفسیر اِس کی پھر اُس پر عمل کرتا رہوں

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد