حکایات:
حکایت: (۱۳) بادشاہ بیمار ہو گیا
ایک بادشاہ اپنی رعایا(Subjects ) کے ساتھ انصاف (Justice )سے پیش آتا،ان کی پریشانیاں دور کرتا اور ان کے مسائل حل کرتا،بادشاہ کی عدل اور انصاف کی عادت سے سب ہی ملک والے بہت خوش تھے۔ایک رات اچانک بادشاہ بیمار ہو گیا ،دوا کا سلسلہ شروع ہوا لیکن دن بدن (day by day) بیماری بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ اس کے زندہ بچنے کی اُمید کم ہو گئی۔ یہ خبر ملک بھر میں پھیل گئی، بیماری کا سنتے ہی تمام ملک والوں نے اس کی صحت کے لیے دعا مانگی ،لوگوں کی دعاکی برکت سے بادشاہ جلد ہی ٹھیک ہوگیا۔ عدل اور انصاف(Justice): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!دین اسلام ہمیں عدل اور درمیانی راستہ(balanced way ) چلنے کا درس دیتا ہے ۔اور اس کے مختلف انداز ہیں مثلاًایک صورت تو یہ ہے کہ بندہ اُن کاموں کو کرے کہ جن کاموں کو اللہ پاک نے کرنے کا حکم دیا ہے۔اسی طرح جوبڑے عُہدے(post ) پر ہو تو اپنے ساتھ والوں اور اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ بے انصافی نہ کرے ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :ایک دن کا عدل 60 (justice ) سال کی عبادت سے افضل ہے۔(معجم کبیر،۱۱/ ۲۶۷،حدیث:۱۱۹۳۲) اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!یہ ذہن بنائیے کہ ہمارے امیرالمومنین حضرتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ انصاف کرنے والے تھے، نیّت کیجیے کہ ہم انصاف کرنےوالےبنیں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۱۴) خیانت کرنے کا انجام
ابو گھر میں مٹھائی کا ڈبہ لائے اور سب کو کھانے سے منع کردیاکہ یہ کسی کی امانت ہے اسے کوئی نہیں کھائے گا۔چھوٹا پھر بھی اس کو کھانے کی ضد کر رہا تھاجیسے ہی سب سونے لگے تو چھوٹے نے اس میں سے مٹھائی کھانا شروع کردی۔صبح اس کے پیٹ میں بہت درد ہو رہا تھا تو اس نے ابو کو رات کا سب واقعہ بتا دیا۔ پھرابو نے انہیں سمجھایا اور بتایا بیٹا میں نے آپ کو منع کیا تھا آپ نے امانت میں خیانت کی ہے ۔ شاید آپ کو اسی کی سزا ملی رہی ہے۔ خیانت(اجازت کے بغیر، امانت استعمال کرنا): پیارے بچو اور اچھی بچیو!! کسی کی چیز اجازت کے بغیر (without permission)استعمال کرناخیانت کہلاتاہے۔مثلاً کسی نے ٹافی پکڑائی کہ پکڑو میں تھوڑی دیر میں لیتا ہوں اور ہم کھا گئے۔ تو یہ خیانت(engbreach of trust)ہے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :منافق کی تین علامتیں ہیں: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲)جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (۳)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب خصال المنافق ،ص۵۳،حدیث:۲۱۱، ۲۱۴) اس برائی سے بچنے کا طریقہ!!یہ ذہن بنائیے کہ اگر خیانت کرنے والے کی خیانت کا لوگوں کو پتہ چل جائے تو بہت بدنامی ہوتی ہے ۔ نیّت کیجیے کہ ہم خیانت نہیں کریں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۱۵)حیا سے سر اُٹھانے کی ہمّت نہ ہوئی
ایک مدرسے کے استاد صاحب نے طالب ِعلم سے کہا : بیٹا جاؤ اور اوپر کے ریک (rack)سے فُلاں کتاب لے آؤ۔ شاگرد نے استاد صاحب سے عرض کی: حُضُور ! وہ ریک کہاں ہے؟ استاد صاحب نے حیرت سے کہا: ایک time سے آپ اس مدرسے میں پڑھ رہے ہیں اور آپ کو ریک کا پتہ نہیں ہے۔ شاگرد نے بڑے ادب سے عرض کی: حضور! مجھے آپ کی موجودگی میں سر اٹھانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی لہٰذا میں نے وہ ریک ہی نہیں دیکھا۔ شرم اور حیاء: پیارے بچو اور اچھی بچیو!! ملامت (reproach to oneself ) کے ڈرسے انسان کا کسی چیز سے رک جانا حیا (modesty)ہے۔لوگ بر ابھلا کہیں گے بندہ اس سے گھبراتا ہے لیکن بہترین حیا یہ ہے کہ بندہ اللہ پاک سے حیا کرے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :حیا ایمان کاحصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے۔(ترمذی،کتاب البر والصلۃ،۳/ ۴۰۶، حدیث:۲۰۱۶) اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!یہ ذہن بنائیں کہ ہمارے امیرالمومنین حضرتِ عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہبہت زیادہ حیا کرنے والے تھے، نیّت کیجیے کہ ہم بھی حیاء کرنے والا بنیں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۱۶)شیر آگیا شیر آگیا
ایک بچے کی عادت تھی کہ وہ پہاڑ پر چڑھ جاتا اور گاؤ ں والوں کو یوں چیخ چیخ کربلاتا:شیر آگیا شیر آگیا۔ہمیشہ اِس کی چیخ سُن کرگاؤ ں والے ڈنڈے اور ہتھیار(weapons )لے کر اُسے بچانے آجاتے تووہاں شیرکاکوئی نام و نشان نہ ہوتا۔کئی بارایسا ہونے کے بعد گاؤں والے بچے کی اِس حرکت سے تنگ آچکے تھے اور اس کا یقین کرناچھوڑ دیا تھا۔وہ بچہ پھر بھی باز نہ آیا اور یوں ڈراتا رہا۔ایک دن جب وہ پہاڑ پر گیا تو واقعی شیر آگیا اس بچے نے بہت شور مچایا شیر آگیا شیر آگیا،لیکن کسی نے اس کی بات کا یقین نہ کیااوراُسے بچانے کوئی نہ آیا یوں شیر اس کو کھا گیا۔ کذب(جھوٹ): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!جھوٹ دنیا وآخرت کی برباد ی کا سبب ہے اور سچ دنیا وآخرت میں نجات دلاتا ہے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :بے شک سچائی بھلائی(wellbeing) کی طرف ہدایت(guidance ) دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب،۴ / ۱۲۵،حدیث:۶۰۹۴) اس برائی سے بچنے کا طریقہ!! یہ ذہن بنائیں کہ شیطان جھوٹا ہے اور جھوٹ کی طرف بلانے والا ہے۔ نیّت کیجیے کہ ہم یہ شیطانی کام نہیں کریں گے۔جھوٹ کے خلاف جنگ جاری رہے گی، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۱۷) ایک گلاس پانی
دو شاگرد ایک کلاس میں پڑھتے تھے۔ ایک ہر بات میں عیب ( بری باتیں)نکالتا اورلوگوں کے بارے میں اُلٹے سیدھے گمان(guess) کرتا جبکہ دوسراہر بات میں اچھے پہلو(اور اچھی باتیں )ڈھونڈتا تھا۔پہلے کے دل میں کچھ اور زبان پہ کچھ ہوتا تھا جبکہ دوسرا ایسی باتوں سے بچتا تھا۔ استاد صاحب ان دونوں کی بہت سی باتیں note کرتے تھے۔ ایک دن استاد صاحب نے پانی منگوایا اورگلاس پہلے شاگردکے سامنے رکھا اور پوچھا تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ وہ بولا: ’’گرمی کا موسم ہے اور خادم تھوڑا سا پانی لایا ہے، دیکھیں آدھا گلاس خالی ہے۔‘‘ پھر دوسرے شاگر کو بلا کر پوچھا: تم اس گلاس کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ وہ کہنے لگا کہ یہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے، سخت پیاس میں کمی لاسکتا ہے۔ یہ سن کر استاد صاحب نے کلاس کو سمجھایا : اچھے پہلو (positive points)ڈھونڈنے کی عادت بنائیں۔ سلامت صدر(صاف دل ہونا): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!قرانِ پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے: اِلَّا مَنْ اَتَی اللہ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ۔ ترجمہ (Translation) :مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر۔ (پ۱۹،سورۃ الشعراء،آیت:۸۹) اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!یہ ذہن بنائیں کہ کامیاب وہ ہے کہ جو قیامت کے دن اللہ پاک کے حضور کفر، شرک اور نفاق سے پاک دل کے ساتھ حاضر ہوگا ۔ برائی والا دل شیطان کا ہے اور جو دل ان سے بچا وہ سلامتی والا ہے۔نیّت کیجیے کہ ہم اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچائیں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۱۸) بادشاہ کی نیّت
ایک بار باد شاہ اکیلا ہی کہیں سیر کو نکلا اور راستہ بھول گیا ،راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے رات ہوگئی۔ ایک گھر دیکھا تووہاں رات گزارنے کی بات کرلی۔گھر میں داخل ہوا تو اس گھر میں موجود بچی نے اس کے سامنے گائے کا دودھ نکالاتو بادشاہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ اس گائے نے کئی جانوروں کے برابر دودھ دیا۔یہ دیکھتے ہی باشاہ نے دل میں خیال کیا کہ میں جاتے ہی یہ گائے ان سے لے لوں گا۔صبح ہو ئی تو اس نے دیکھا کہ گائے نے بالکل ہی کم دودھ دیا،اس نے بچی سے پوچھا ایسا کیوں ہوا؟بچی نے جواب دیا لگتا ہے ہمارے بادشاہ نے ظلم کا ارادہ کیا ہے،یہ سنتے ہی بادشاہ نے اپنا ارادہ بدل دیا ۔ ظلم: پیارے بچو اور اچھی بچیو!!کسی کا حق مارنا یا اس کے ساتھ زیادتی کرناظلم ہے ۔ ظلم کی بہت سی صورتیں ہیں مثلاً کسی کوگالی دینا، اُس کی برائیاں سب کو بتانا، اِس کا مال کھانا یااُسے مارناوغیرہ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :اگرایک پہاڑ دوسرے پہاڑ پر ظلم کرے تو ان میں سے ظالم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔(شعب الایمان،۵/ ۲۹۱، حدیث:۶۶۹۳) اس برائی سے بچنے کا طریقہ!! یہ ذہن بنائیں کہ ظلم کرنے والے، دوسروںکو تکلیف دینے والے برے انسان ہوتے ہیں۔نیّت کیجیے کہ ہم اچھے مسلمان بنیں گے اور ظلم نہیں کریں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۱۹) پرندہ شکار ہوگیا
ایک بادشاہ کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اسے کسی پرندے کے بولنے کی آواز سنائی دی جسے سن کراس نے تیر پرندے کی طرف پھینکا، تیر جاکر پرندے کو لگا اوروہ بولتا پرندہ مر کر نیچے گر گیا۔ اس پربادشاہ نے کہا :زبان کی حفاظت(protection) انسان اور پرندے دونوں کو فائدہ دیتی ہے ۔ اگر یہ نہ بولتا تو اس کی جان بچ جاتی۔ (المستطرف،الباب الثالث عشر ،۱/ ۷۴۱) سلامت ِلسان(زبان کاصحیح استعمال): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!فضو ل باتیں وہ ہیں کہ جن میں دین و دنیا کا فائدہ نہیں ہوتامثلاً بلاوجہ یہ پوچھنا کہ یہ کھلونا کتنے کا لیا؟ بکرا کب کٹے گا؟ کتنی عیدی ملی؟وغیرہ ۔بس ہماری زبان ہر وقت اللہ پاک کو راضی کرنے والے کاموں میں مصروف رہے، تلاوت کرے، ذکر کرے، نعت پڑھے، درود و سلام پڑھے، بیان کرے، درس دے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ بات نہ کرو کیونکہ ذکرُ اللہ کے بغیر زیادہ کلام دل کی سختی ہے اور سخت دل لوگ اللّٰہ پاک(کی رحمت وعنایت)سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ (ترمذی، کتاب الزھد،۴ / ۱۸۴،حدیث:۲۴۱۹) اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!یہ ذہن بنائیے کہ فضول باتوں میں وقت ضایع(time-waste) ہوتا ہے جبکہ اللہ پاک کے ذکر سے ثواب ملتا ہے۔ نیّت کیجیےکہ ہم فضول بولنے سے بچیں گے اور اللہ پاک کا ذکر کریں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔ اُذْکُرُوا اللہ!! اللہ،اللہ،اللہ،اللہ
حکایت: (۲۰) بری عادت کا نتیجہ
ایک لڑکا بات بات پر گالیاں دیتا ، بہت بری بری باتیں بولتا۔کھیل کے میدان میں بھی لڑتا جھگڑتا اور دوستوں کو برا بھلا کہتا ۔لوگ اس کو سمجھانے کی کوشش کرتے تو ان سے بھی الجھ جاتا ۔آخر کار اس کے سب دوست اس سے ناراض ہو گئے اوراس کے ساتھ کھیلنا بھی چھوڑ دیا۔ اس طرح یہ لڑکا اپنی غلط باتوں اور غلط کاموں کی وجہ سے بالکل اکیلا(alone) رہ گیا۔ فحش گوئی(بے شرمی کی باتیں کرنا): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!بری باتیں کرنے میں اپنا ہی نقصان ہے،کبھی اس طرح کی گفتگو کرنے والے کی پٹائی ہو جاتی ہے، امی ابو بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :بے شک اللہ پاک بے حیااورفحش گو(یعنی گندی بات کرنے والے) کونا پسند فر ماتاہے۔ (الادب المفرد،باب الرفق ، ص۱۲۳،حدیث:۴۶۴) اس برائی سے بچنے کا طریقہ!! یہ ذہن بنائیے کہ بری باتیں کرنے والے سے لوگ دور رہتے ہیں ا وراس کے دوست بھی دشمن بن جاتے ہیں۔نیّت کیجیے کہ ہم بُری باتیں نہیں کریں گے بلکہ تلاوتِ قراٰن کریں گے ، ، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۲۱) نیک تاجر
ایک نیک تاجر بازار سے گھر واپس جا رہا تھا۔راستے میں وہ کسی کام سے ایک جگہ رُکا تو اُسے کچھ غریب مُلازم(servent) ایک درخت کے نیچے بیٹھ کرکھانا کھاتے نظر آئے۔ اچانک ان میں سے ایک نے کہا:اے بھائی! آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھا لیں۔وہ اپنی سواری سے اتر کر ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور کہا: بیشک اللہ پاک غرور کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ پھران کے ساتھ کھانا شروع کر دیا، جب کھانے سے فارغ ہوا تو کہا: شام کو آپ کہاں ہونگے؟انہوں نے کہا: یہیں، یہ سن کر وہ چلا گیا۔جب شام ہوئی تو وہ کئی گاڑیاں لے کران کے پاس آیا اور کہا :’’میں نے آپ لوگوں کی دعوت قبول کی ہے اس لئے اب آپ میری دعوت بھی قبول کریں، چنانچہ وہ تمام نوکر اُس تاجر کے گھر ، اس کے ساتھ چلے گئے۔ اس نے انہیں کھانا کھلایا ، پانی پلایا اوربہت سے تحفے دے کر گاڑیوں پر واپس ان کے گھروں پر بھیج دیا۔ تواضع(عاجزی): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!دوسروں کو اپنے جیسا یا اپنے سے اچھا سمجھناعاجزی ہے۔(منہاج العابدین، الفصل الرابع:القلب،ص۸۱) عاجزی کرنے والوں کے لیے بڑے درجات ہونگے لہٰذا ہمیں عاجزی کرنی چاہیے۔حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو اللہ پاک کے لیے ایک درجہ انکساری کرے گا اللہ پاک اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا۔ (ابن ماجہ،کتاب الزھد، ۴ /۴۵۸، حدیث:۴۱۷۶ ) اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!عاجزی کرناسنّت ہے۔نیّت کیجیے کہ ہم نرمی اور عاجزی کریں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۲۲) کوے کا کیا انجام ہوا؟
جنگل کے جانوروں سے ایک دوسرے کی برائی کرنا ،کوے(crow) کامعمول(routine ) بن چکا تھا۔ خرگوش (rabbit)کے پاس جاتا تو کچھوے (tortoise)کی برائی، کچھوے کے پاس آتا توخرگوش کی برائی۔اسی طرح ہرن(deer) کی مور (peacock)سے اور مورکی ہرن سے برائی، جانور کوے کی اِس عادت کوناپسند کرتے تھے ،جب تمام جانور اِس کی عادت سے تنگ ہوگئے تو سب نے مل کر شیر سے اس کی شکایت کر دی۔شیر نے کہا :جب تک میں کوے کی اس حرکت کو خود نہیں دیکھ لوں گااُس وقت تک اُسے سزا نہیں دے سکتا ۔چند ہی دنوں میں یہ کوا شیر کے پاس بھالو کی برائی لے کر پہنچ گیا۔شیراس کی عادت کو سمجھ گیا لہٰذااُس نے کوے کو سخت سزاسنائی اور 10 دن کے لئے کوے کو قید کردیا،اس سزا کی وجہ سے کّواسدھر گیا اور جنگل کے جانور اُس کی ،اِس بری عادت سے محفوظ ہوگئے۔ غیبت: پیارے بچو اور اچھی بچیو!! *غیبت(backbiting) سے نَماز روزے کی نورانیَّت چلی جاتی ہے* بہت غیبت کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی* غیبت کو اگر سمندر (sea)میں ڈال دیا جائے تو سارا سمندر بدبُو دار(stinky) ہو جائے۔ بلاوجہ کسی کی کمزوری یا غلطی کو مذاق یا برائی کے طور پر دوسرے کے آگے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ غیبت کی مثال اس حدیث سے سمجھیں: اللہ پاک کے آخری رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سامنے ایک شخص کا ذکر اس انداز میں کیاگیا کہ وہ کتنا کمزور ہے تو اللہ کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم نے اس کی غیبت کی ۔(مسندابی یعلی،مسندابی ہریرہ، ۵/ ۳۶۲،حدیث:۶۱۲۵) اس برائی سے بچنے کا طریقہ!! یہ ذہن بنائیں کہ میں جس کی غیبت کر رہا ہوں، اگر اسے پتہ چلے تو وہ مجھ سے کتنا ناراض ہوگا۔ مزید کتاب’’غیبت کی تباہ کاریاں‘‘پڑھ لیجیے۔ نیّت کیجیے:غیبت کے خلاف جنگ جاری رہے گی، نہ غیبت کریں گے، نہ غیبت سنیں گے ، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۲۳)دوسرے سے جلنے والا
ایک عقل مند(wise) شخص بادشاہ کے دربار میں آتا اور یہ الفاظ کہتا :’’نیک لوگوں کے ساتھ بھلائی کر واور جو کوئی برائی کرے گا وہ جلد اس کا نتیجہ (result)دیکھے گا۔‘‘تو بادشاہ اسے بہت عزت دیتا اور اس سے مشورے کرتا۔وزیرکو اس عقل مند شخص سے بہت جلن(jealousy) ہونے لگی۔ایک دن اس نے بادشاہ سے کہا: آپ جس شخص کو عزت ( respect)دیتے ہیں یہ آپ کی برائی کرتا ہے کہ بادشاہ کے منہ سے بدبو آتی ہے بادشاہ نے کہا: اب یہ آئے گا تو پتہ چلے گا۔اگلے دن وزیر نے عقل مند شخص کی دعوت کی اور اس کوخوب لہسن پیاز (garlic,onion)کھلا کر بادشاہ کے پاس بھیج دیا یہ شخص اپنے منہ میں بدبو کی وجہ سے منہ پر ہاتھ رکھ کر بادشاہ کے پاس آیا تو بادشاہ سمجھاکہ شاید وزیر نے سچ کہا تھا، بادشاہ نے ایک خط لکھا اور اس عقل مند شخص کو دیا کہ یہ تمہارا انعام ہے جو فلاں گورنر سے جا کر لے لو۔یہ شخص محل سے نکلا تو ہاتھ میں انعام کا خط دیکھ کر وہ وزیر لالچ میں آگیا اور بولا: خط مجھے دے دو عقل مند شخص نے اسے دے دیا۔ وزیر خط لئے انعام لینے گورنر کے پاس جا پہنچا مگر خط میں تو کچھ اور لکھا تھا لہٰذاگور نر نے خط پڑھتے ہی اس وزیر کو قتل کردیا۔ (عیون الحکایات،۱ / ۲۹۹ملخصاً) حسد: پیارے بچو اور اچھی بچیو!!کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے چھن جانے کی خواہش (wish)کرنا کہ فلاں شخص کی یہ نعمت ختم ہو جائے، اس کا نام حسد(envy) ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ ،الخلق الخامس عشر، ۱/۶۰۰)اگر اللہ پاک نے کسی کو کوئی نعمت عطافرمائی ہے تو ہمیں اس پر خوش رہنا چاہئےاور یہ دُعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ! جو نعمت تو نے اسے دی ہے اگر وہ نعمت ہمارے حق میں بہتر ہے تو ہمیں بھی عطافرما۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔(ابو داود،کتاب الادب،۴/۳۶۰، حدیث:۴۹۰۳) اس برائی سے بچنے کا طریقہ!! یہ ذہن بنائیں کہ جسے جو ملا اللہ پاک نے دیا، میں کون ہوتا ہوں کہ اللہ پاک کی تقسیم(distribution) کو بُرا جانوں۔نیّت کیجئے کہ کسی کی نعمت کو دیکھ کر حسد نہیں کریں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۲۴)کسان بیمار ہوگیا
کسی گائوں میں سب لوگ مل جل رہتے تھے صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھتے اور اپنے کام کاج میں لگ جاتے ۔کوئی جانوروں کو چارا کھلاتا تو کوئی کھیتوں (field)میں کام کرنے چلا جاتا۔ان ہی لوگوں کے درمیان ایک کسان ( farmer)بھی رہتا تھا جو اپنے پڑوسی سے بلاوجہ دل میں برائی رکھتا تھا۔اس لیے وہ اس سے ملنا جلنا بھی کم رکھتا ،بات چیت بھی زیادہ نہیں کرتا تھا۔ایک دن یہ کسان بیمار ہوگیااب اس کا ملنا جلنا توپڑوسی سے تھا ہی نہیں تو اس پڑوسی کو کسان کے بیمار ہونے کی اطلاع نہ ملی مگر بعد میں جیسے ہی اُس پڑوسی کو پتہ چلا تو فوراًاس کسان کے گھر آیا اور اس کا علاج کروانے لگا۔اس دن اس کسان کو احساس (feeling)ہوا کہ کسی کی برائی دل میں بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ کینہ(دل میں نفرت ہونا): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!کسی مسلمان سے شرعی وجہ کے بغیر نفرت ہونا اچھی بات نہیں۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اے میرے بچے! اگر تم یہ کرسکو کہ صبح اور شام ایسے گزارو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کھوٹ(کینہ) نہ ہو تو کرو ، پھر فرمایا کہ اے میرے بچے! یہ میری سنت ہے اور جو میری سنت سے محبت کرے اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(ترمذی،کتاب العلم، ۴/ ۳۰۹،حدیث:۷۸۶۳)یعنی مسلمان بھائی کی طرف سے دنیوی معاملے میں (بھی)صاف دل ہو،سینہ کینہ سے پاک ۔ اس برائی سے بچنے کا طریقہ!! یاد رہے کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سینے میں کسی مسلمان کا کینہ نہ تھا۔نیّت کیجیے ہم بھی کسی مسلمان کا کینہ نہیں رکھیں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔