’’ اچھے بُرے اخلاق ‘‘(part 03)

حکایات:

حکایت: (۲۵) تین مچھلیاں

ایک دریا میں تین مچھلیاں ایک ساتھ رہتی تھیں۔ایک دن کسی شکاری نے دریا میں اپنا جال پھینکا۔ اُن میں سے ایک مچھلی جال کو دیکھتے ہی پانی کی تہہ میں چلی گئی جبکہ دوسری دو مچھلیاں جال میں پھنس گئیں۔ان میں سے ایک مچھلی نے سمجھداری دکھائی اور خود کو مُردہ بنا لیا ، جب شکاری نے جال نکالا تو اسے دو مچھلیاں ملیں، مُردہ مچھلی کو اُس نے واپس دریا میں پھینک دیا اور جو مچھلی اُچھل کود کر رہی تھی اُسے گھرلے آیا اور آگ پر بُھون کر اس سے اپنی بھوک مٹائی۔(مثنوی روم، ص188)

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! یہ دنیا جس میں ہم رہ رہے ہیں ایک دریا کی مانند ہے جبکہ شیطان شکاری کی طرح ہے جو انسانوں کو پھنسانے کےلئے مختلف جال پھینکتا ہے۔کبھی کسی کے دل میں جھوٹ بولنے کا خیال ڈالتا ہےتو کبھی کسی کو دھوکا دینے کا،کبھی کسی کو تکلیف دینے کا وسوسہ ڈالتا ہےتو کبھی کسی پر ظلم ڈھانے کا!یہ سب شیطان کے جال ہی تو ہیں۔ جو اُس کا جال دیکھتے ہی اُس سے دور بھاگتا ہےوہ شیطان سے محفوظ رہتا ہے۔ جو اُس کے جال میں پھنس جائے لیکن اپنی ناجائز خواہشات کو مار ڈالے اور سچی توبہ کرلے تو شیطان سے بچ جاتا ہےاور جو اس کے جال میں پھنس کر بھی نہ سمجھ پائے کہ وہ کس مشکل میں گِرِفتار ہوگیا ہے تو شیطان اُسے پکڑ لیتا ہے اور بالآخر اُسے جہنم میں پہنچا دیتا ہے۔ اگر ہم جہنم کی آگ سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں شیطان کے جال سے بچنا ہوگا۔ اللہ تعالٰی ہمیں شیطان کے جال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم۔

شیطان کے خلاف جنگ! جاری رہے گی (رجب المرجب 1438،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۲۶) شیر اور خرگوش

ایک جنگل میں سارے جانور شیر سے بہت پریشان تھے۔ کیونکہ جب اُس کا دل چاہتا کسی بھی جانور کو پکڑ کر کھا جاتا۔ سب جانور اُس کے پاس گئے اور کہا: بادشاہ سلامت !آپ شکار کرنے نہ آیا کریں ہم روزانہ ایک جانور خُود آپ کے پاس بھیج دیا کریں گے، شیر نے جانوروں کی یہ بات منظور کرلی۔ اب روزانہ قرعہ اندازی کی جاتی اور جس جانور کا نام نکلتا اسے شیر کے پاس بھیج دیا جاتا ۔ایک دن خرگوش کا نام نکلا، وہ جان بوجھ کر شیر کے پاس دیر سے پہنچا شیر نے اسے دیکھتے ہی غصے میں کہا: اتنی دیر سے کیوں آئے؟ خرگوش بولا: ہم دو خرگوش آپ کے پاس آرہے تھے کہ راستے میں ایک شیر نے ہم پر حملہ کردیا اور میرے ساتھی کو پکڑ لیا میں بڑی مشکل سے جان بچا کر آیا ہوں۔ یہ سن کر شیر بپھر گیا کہ اس جنگل میں دوسرا شیر کہاں سے آ گیا جو میرے شکار کو کھانا چاہتا ہے، شیر نے خرگوش سے کہا: مجھے اس کے پاس لے چلو، پہلے میں اس سے نپٹ لوں۔ خرگوش شیر کو ایک کنویں کے پاس لے گیا اور بولا: اس میں دوسرا شیر اور میرا ساتھی خرگوش موجود ہے، شیر غصے میں اندھا ہوچکا تھا، جب اس نے کنویں میں جھانکا تو اُسے اپنا اور خرگوش کا عکس نظر آیا، جسے وہ دوسرا شیر اور خرگوش سمجھا، اس نے ”دوسرے شیر“ کو ختم کرنے کے لئے فوراً کنویں میں چھلانگ لگا دی، وہاں ”دوسرا شیر“ تھا کہاں! جو اس کے ہاتھ آتا۔ وہ شیر خود کنویں میں پھنس گیا، باہر کون نکالتا؟ چُنانچہ وہ وہیں ہلاک ہوگیا، یوں دوسرے جانوروں کی اس سے جان چھوٹی اور انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔(مثنوی، ص84 ملخصاً)

پیارے پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنِّیُو!اس حکایت سے پتا چلاکہ غُصّہ عقل کا دشمن ہے، غُصّے میں انسان بھی بہت سی غلطیاں کربیٹھتا ہے۔ جب بھی کسی پر غصہ آئے تو نہ زبان سے کوئی غلط بات کہیں، نہ اُس پر ہاتھ اُٹھائیں، الغرض اسے کسی بھی طرح سے تکلیف نہ دیں۔ اگر غصے پر قابو پانے کا ذہن نہ ہو تو بعض اوقات جان بھی چلی جاتی ہے جیسا کہ شیر کے ساتھ ہوا۔ اللہ تَعَالٰی ہمیں اپنے غصے پر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔ (شوال المکرم 1438،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۲۷) کاش! بیل شیر کی بات نہ سنتا

کسی جنگل میں دو بیل مِل جُل کر رہا کرتے تھے، شیر جب بھی اُن پر حملہ کرتا دونوں مل کر اس کا مقابلہ کرتے اور شیر کو بھگا دیتے، کافی کوششوں کے بعد بھی جب شیر اُن کا شکار کرنے میں ناکام رہا تو اُسے ایک ترکیب سوجھی،چنانچہ ایک دن شیر نے لومڑی کو ایک بیل کے پاس بھیجا کہ اس کے کان بھرے اور دوسرے بیل سے اس کی دوستی ختم کروا دے۔ لومڑی بیل کے پاس پہنچی اور کہنے لگی:کبھی تم نے سوچا ہے کہ جب کبھی تمہارا شیر سے مقابلہ ہوتا ہے تو تمہارا ساتھی تمہیں کیوں آگے کردیتا ہے؟ اس لئے کہ شیر کے پنجے اور دانتوں سے تم ہی زخمی ہو اور خود شیر پر پیچھے سے حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی جان بچی رہے، ایسے مفاد پرست سے دوستی اچّھی نہیں۔ بیل اُس کی باتوں میں آگیا اور دوسرے بیل سے الگ ہوگیا، پھر کیا تھا! اگلے ہی دن شیر نے دوسرے بیل پر حملہ کر دیا، بیچارہ اکیلا ہونے کی وجہ سے مُقَابَلَہ نہ کرسکا اور شیر کی خوراک بن گیا، اِس کے بعد شیر نے پہلے بیل پر حملہ کر کے اُسے بھی چیر پھاڑ دیا اور یوں اِتِّحاد ختم ہونے کی وجہ سے دونوں بیلوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔(مثنوی کی حکایات ، ص 304 ملخصاً)

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو!©اِتِّحاد بہت بڑی طاقت ہے ©ایک دھاگے سےبکری کے بچّے کو بھی نہیں باندھا جاسکتا لیکن دھاگوں سے مل کر بنا ہوا رَسَّا بڑے بڑے جانوروں کی لگام بن جاتا ہے ©سارے مسلمان ایک جِسْم کی طرح ہیں، جس طرح جِسْم کا کوئی حصّہ زخمی ہوجائے تو سارا جِسْم درد محسوس کرتا ہے، اِسی طرح اگر ہم بھی اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف محسوس کرنا شروع کردیں تو غم دُور اور مُعَاشَرہ پُر سُکون ہوسکتا ہے ©اِتِّحاد کی فَضا قائم کرنے کے لئے ہمارا کردار یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے دَرَجے (Class)کے طلبہ، اپنے محلّے اور خاندان کےافراد کے ساتھ حُسنِ اَخلاق سے پیش آئیں ©دل دُکھانے سے بچیں © جتنا ہوسکے سب کے کام آئیں ©عزت و اِحتِرام کریں©اپنی شرارتوں کے ذریعے اُنہیں تنگ نہ کریں۔اِس طرح آپس میں محبت پیدا ہوگی اور اِتِّفاق و اِتِّحاد کی راہ ہَمْوار ہوگی۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ

(محرم الحرام 1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۲۸) چیونٹی اور کبوتری

ایک چیونٹی نہر کے کنارے پانی پینے گئی وہ پانی پی رہی تھی کہ اچانک پانی میں گر گئی۔ وہ اپنی جان بچانے کے لئے کنارے کی طرف لپکی لیکن ایک لہر آئی اور اُسے کنارے سے دُور لے گئی، ایک کبوتری نے چیونٹی کو اِس طرح پانی میں ڈوبتے دیکھا تو اُسے چیونٹی پر بڑا رحم آیا اُس نے ایک تِنکا اپنی چونچ میں پکڑا اور اُس کے پاس پھینک دیا۔ چیونٹی اُس تنکے پر چڑھ کر کنارے تک پہنچ گئی اور یوں اُس کی جان بچ گئی۔ کچھ دِنوں بعد ایک شِکاری جنگل میں آیا۔ اُس نے شکار کرنے کے لئے کبوتری پر اپنی بندوق تانی اور نِشانہ لینے لگا۔ اتفاقاً چیونٹی نے اُسے دیکھ لیا، اِس سے پہلے کہ شِکاری گولی چلاتا چیونٹی نے اُس کے پاؤں پر کاٹ لیا۔ شِکاری درد سے تِلمِلا اُٹھا اور اُس کا نشانہ غلط ہو گیا، یوں کبوتری کی جان بچ گئی۔ اِس طرح چیونٹی نے کبوتری کے اچھے سُلوک کا بدلہ اُس کی جان بچا کر دیا۔

(طریقۃجدیدۃ، ص143، جُز ثانی، ملخصاً)

پیارے پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنِّیُو!اس حِکایت سے یہ دَرْس ملا کہ اگر ہم کسی کے ساتھ بھلائی کریں گے تو ہمارے ساتھ بھی بھلائی ہوگی جیسا کہ کبوتری نے چیونٹی کی جان بچائی تو چیونٹی نے بھی کبوتری کی جان بچائی لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں،کبھی کسی کو تکلیف نہ دیں، کسی کی چیز نہ چُرائیں، کسی کو دُھوکہ نہ دیں، کسی پر جُھوٹا اِلزام نہ لگائیں، کسی کا دِل نہ دُکھائیں، کسی کا نام نہ بگاڑیں، کسی کا مذاق نہ اُڑائیں، کیونکہ اگر ہم دوسروں کے ساتھ اچھا سُلوک کریں گے، اُن کی عزت کریں گے، دُکھ درد ،تکلیف و پریشانی میں دوسروں کی مدد کریں گے، سچ بولیں گے تو ان شآء اللہ عَزَّوَجَلَّ دوسرے بھی ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے۔ اللہ تَعَالٰی ہمیں سب کے ساتھ اچھا سُلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(صفر المظفر 1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۲۹) باز اور بطخ

ایک بطخ (Duck) پانی پر تَیر رہی تھی کہ ایک باز (Falcon) نے اسے اپنے پنجوں میں دَبوچنا چاہا مگر بطخ فوراً پانی میں چلی گئی ۔ جب بطخ دوبارہ پانی کے اوپر آئی تو باز نے اُسے لالچ دیتے ہوئے کہا: اےبطخ! تم اپنی زندگی پانی میں گزار رہی ہو، جنگل میں آکر دیکھو! وہاں سَرسَبز درخت ہیں، گھاس ہے، طرح طرح کے پرندے ہیں، تم جنگل میں آکر اِس پانی کو بھول جاؤ گی۔ بطخ سمجھ گئی کہ باز جنگل کا لالچ دے کر اُسے پکڑنا چاہتا ہے، بطخ نے باز کو جواب دیا: اے باز دھوکے باز! دور ہوجا، جنگل کی رونقیں تجھے مبارَک ہوں، میرے لئے توپانی ہی سکون کی جگہ ہے، میں جنگل میں نہیں آتی۔ (مثنوی کی حکایات،ص357،ملخصاً)

پیارے مَدَنی مُنّواور مَدَنی مُنّیو! اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہےکہ ہمیں ایسے لوگوں سے دور رہنا چاہئے جو ہمیں بُری جگہوں اور بُرے کاموں (جیسےموبائل و سوشل میڈیا(Social Media)کے غلط اِستعمال (Misuse) ، ویڈیو گیمز کی دکان،بُرے دوستوں کی صحبت وغیرہ) کی طرف اُن کی بُرائی کو اچھّا بتا کر لے جاتے ہیں اور پھر ہمیں بھی اُن بُرے کاموں میں لگاکر اچھّائی سے دور کر دیتے ہیں، ہمیں تو اپنا وقت پڑھائی،اچھے کاموں اورنیک دوستوں میں گزارنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں اچھّائی کی توفیق عطا فرمائے اور بُرائی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(جمادی الاخری 1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۳۰) غریب آدمی کا گدھا

ایک غریب آدمی کا گدھا(Donkey) گھاس کم ملنے اور کام زیادہ کرنےکی وجہ سے بہت کمزور ہو گیا تھا۔ ایک دن وہ گدھا حکومتی گھوڑوں(Horses)کےباندھنےکی جگہ جا پہنچا۔ جب اُس نے دیکھا کہ کئی لوگ اِن گھوڑوں کی خدمت میں لگے ہیں، اِنہیں وقت پرگھاس دیتے،اِن کی مالش کرتے، لید اور پیشاب صاف کرتے ہیں اور یہ گھوڑے خُوب موٹے تازے ہیں، تو کہنے لگا: اے اللہ! میں تو بھوک کی وجہ سے کمزور ہوگیا ہوں جبکہ یہ گھوڑے طرح طرح کی حکومتی خدمات کی وجہ سے موٹے تازے ہیں اور یہ کہتا ہوا چلا گیا۔

کچھ دِنوں بعد یہ حکومتی گھوڑے فو جیوں کی سواری کے لئے جنگ میں بھیجے گئے۔ جب گھو ڑے جنگ سے واپس آئے اوراس گدھے کا وہاں سے گزر ہوا تواس نے دیکھا کہ گھوڑوں کے جسموں پر تِیروں اور تلواروں کے زخم ہیں، خون بہہ رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ بہت تکلیف میں ہیں،یہ دیکھ کر گدھا کہنے لگا: اے اللہ ! مجھےکم گھاس پر گزارا کرنا اور بھوک برداشت کرنا منظور ہے لیکن ان زخموں کے ساتھ یہ عیش و آرام نہیں چاہئے۔ (مثنوی کی حکایات ،ص 319 تا 321 ملخصاً)

پیارے مَدَ نی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! اس کہانی سے یہ سبق ملا کہ ہم بھی دوسرے بچّوں کے پاس اچھے کپڑے یامہنگے کھلونے وغیرہ دیکھ کر اپنے والدین سے اُن جیسی چیزیں دلانے کی ضد نہ کریں، اللہ پاک ہمیں جس حال میں بھی رکھےخوش رہیں اوراللہ پاک کا شکر ادا کرتے رہیں کیونکہ اگر ہم شکر ادا کریں گے تو اللہ پاک ہمیں اور نعمتیں بھی عطا فرمائے گا ۔اللہ پاک ہمیں شکر ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(رجب المرجب 1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

= حکایت: (۳۱) شیر اور لومڑ

ایک شیر(Lion) بوڑھا ہو گیااور اسے شکار پکڑنے میں مشکل ہونے لگی تو ایک دن اُس نے سو چا کوئی ایسی چالاکی کرنی چاہئے جس سے روزانہ شِکار آسانی سے مِل سکے۔آخر کار اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور وہ بیمار بَن کر غار میں بیٹھ گیا تاکہ جو جانور بھی اس کی طبیعت پوچھنے آئے تو اُس جانور کوکھا جائے اور اِسے بیٹھے بِٹھائے شِکار مِل جائے۔ جب جانور وں کو شیر کی بیماری کا پتا چلا تو وہ طبیعت پوچھنے آنے لگے۔ جو جانور بھی غار کےاندر جاتا وہ واپس نہ آتا کیوں کہ شیر اُسے کھا جاتا تھا۔ ایک دن ایک لومڑی (Fox) آئی اور غار کے باہر ہی کھڑے ہو کر پوچھنے لگی:حضور!آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ شیر نے لومڑی سےکہا: باہر کیوں کھڑی ہو؟ اندر آجاؤ۔ لومڑی بولی: حضور ! میں اندر اس لئے نہیں آرہی کہ میں نے یہاں جتنے بھی جانوروں کےپاؤں کے نشان دیکھے ہیں،وہ نشان اندر جانے کے ہیں باہر آنے کا ایک بھی نشان نہیں، تو میں باہر ہی اچّھی ہوں،آپ کی طبیعت پوچھ کر یِہیں سے واپس چلی جاؤں گی۔(مثنوی کی حکایات، ص301)

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَ نی مُنّیو!دیکھا آپ نے! اُس لومڑی نے کس طرح ہوشیاری سے کام لیا کہ غار کے اندر جانے کے انجام پر غور کیااور شیر کا شِکار بننے سے بھی بچ گئی، بعض اوقات ہم طرح طرح کے بُرے کاموں (جیسے والدین کی نافرمانی، بڑوں کی بےادبی، پڑھائی میں سُستی ، وقت ضائع کرنے وغیرہ ) میں لگ جاتے ہیں اور ان کے انجام اور ان پر ملنے والی سزاؤں پر غور نہیں کرتے،اس لئےہمیں بھی چاہئے کہ ہم ہر بُرے کام کےانجام اور اُس کی سزا کو ذہن میں رکھیں اور اُس سے بچیں تاکہ دُنیا و آخِرت میں شیطان کا شِکار بننے سے بچ سکیں۔اللہ پاک ہمیں بُرے کاموں سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(شعبان المعظم 1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۳۲) بلی نے چوہا کیسے پکڑا؟

ایک دن ایک شخص اپنےمہمان خانےمیں آیا تو اُس نے وہاں ایک بلّی دیکھی جوایک کونے میں بیٹھی ہوئی تھی،اُس شخص کا غلام اُس بلّی کو بھگانےلگاتو اُس نے کہا: اِسے چھوڑ دو! دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کرتی ہے؟ وہ بلّی عصر کے بعد تک وہیں بیٹھی رہی یہاں تک کہ سورج غروب ہونے (مغرب )سے پہلے ایک چوہا کہیں سے نکلا تواُس بلّی نے فوراً اُسے دَبوچ لیا۔یہ منظر دیکھ کر وہ شخص بولا: جس نے کوئی کام کرنا ہو وہ اِس بلّی کی طرح مستقل اُس کام میں لگا رہےتو اُسے کامیابی مل جائے گی۔(الاذکیاء لابن جوزی،ص285 ملخصاً)

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق مِلا کہ اگرکسی کام کو استِقامت(یعنی ہمیشہ) اور پابندی سے کیا جائے تو اُس میں کامیابی مل جاتی ہے، عام طور پرہم رمضان کے مہینے میں تو خُوب نیکیاں کرتے ہیں لیکن رمضان کے جاتے ہی نیکیوں کی رغبت کم ہو جاتی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ہمیں چاہئے کہ جس طرح ہم رَمَضان میں نَماز، روزے،تلاوتِ قراٰن اور دیگر نیکیوں کی پابندی کرتے ہیں اِسی طرح رمضان کے بعد بھی پابندی کے ساتھ نیکیاں کرتے رہیں تاکہ استِقامت کی برکت سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور نعمتوں سے بھری جنّت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔اللہ پاک ہمیں استقامت کے ساتھ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔(رمضان المبارک 1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۳۳) ننھے ہاتھی کی بندروں سے دوستی

ایک جنگل کےہاتھی (Elephants) بندروں (Monkeys) سے بِلاوجہ نَفرت کرتے تھے لیکن ایک ننّھا ہاتھی بندروں سے دوستی رکھتا تھا، اِس پر دوسرے ہاتھی ننّھے ہاتھی کو بہت بُرا بھلا کہتےمگر وہ اِس کی پَروا نہ کرتا۔ ایک دن وہ ننّھا ہاتھی ایک گہرے گڑھے میں گِرگیا۔اُس نے بہت کوشش کی لیکن وہ گڑھے سے باہر نہ آ سکا۔ مایوس ہو کر وہ زور زور سے چیخنے لگا۔ ننھے ہاتھی کی آواز سُن کر کئی ہاتھی جمع ہو گئے لیکن وہ بھی ننھے ہاتھی کو نہ نکال سکے اورایک ایک کر کے سب چلے گئے۔ ننھا ہاتھی رو رہا تھا کہ اچانک اُس نے اُوپر دیکھا تو اُسے گڑھے کے پاس ایک بندرنظر آیا۔ بندرنے ننّھے ہاتھی کو تسلّی دی اور جاکر بہت سے بندروں کوبُلا لایا۔ وہ بندر اپنے ساتھ لمبی لمبی رسّیاں لائے اور رسّیوں کی مدد سے جلد ہی ننّھے ہاتھی کو نکال لیا۔ باہر آتے ہی ننھا ہاتھی بندروں سے ملا اور اُن کا شکریہ ادا کیا۔ تھوڑی دیر میں دوسرے ہاتھی بھی آگئے، پہلے تو ننّھا ہاتھی اُن سے مِلا اور پھر کہنے لگا: جن بندروں کو آپ اپنا دشمن سمجھتےہو اور اُن سے نفرت کرتے ہواُنہوں نے ہی آج میری جان بچائی ہے۔یہ سُن کرہاتھی بہت شرمندہ ہوئے اور اُنہوں نے بھی بند روں سے دوستی کرلی۔

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! اِس کہانی سےیہ سیکھنے کو مِلا کہ دوسروں سےبِلا وجہ دُشمنی اور نفرت نہیں رکھنی چاہئے۔ اِس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اللہ کی رِضا کے لئےسب کے ساتھ اچّھا سُلوک کریں، اچھّے اَخلاق سے پیش آئیں اور بِلاوجہ کسی سے نفرت نہ کریں، اِس طرح کرنے سےمحبتیں بڑھیں گی،نفرتوں کی دِیوارختم ہو گی، ہمیں ثواب بھی ملےگااور دُنیا کی مصیبت میں بھی دوسرے ہمارے کام آئیں گے۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ

(ذی الحجۃا لحرام 1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۳۴) چڑیا کی نصیحتیں

ایک چڑیا شکاری کے جال میں پھنس گئی۔ اس نے شکاری سے کہا: اگرتم مجھے چھوڑ دو تو میں تمہیں تین اہم نصیحتیں کروں گی: ایک ابھی، دوسری آزاد ہونے کے بعد اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب درخت کی شاخ پربیٹھ جاؤں گی۔ شکاری نے چڑیا کی بات مان لی، چڑیا نے پہلی نصیحت یہ کی:”جوبات ممکن نہ ہو اس کایقین مت کرنا۔“ شکاری نے چڑیا کو چھوڑا تو اس نے دوسری نصیحت کی: ”جو وقت گزر گیا اس پر غم نہ کرنا۔“ پھر فوراً کہنے لگی: اے انسان ! تم نے مجھے چھوڑ کر بڑی غلطی کی کیونکہ میرے پیٹ میں ایک قیمتی موتی ہے جس کا وزن ایک پاؤ (250گرام) ہے، اگر تم مجھےنہ چھوڑ تے اور ذبح کرلیتے تو اس موتی کو بیچ کر امیر ہوجاتے ۔ یہ سن کر وہ شخص افسوس کرنے لگا کہ کاش! میں اس چڑیا کو نہ چھوڑتا تو میری زندگی سنور جاتی۔ اب چڑیا اُڑ کر درخت کی شاخ پرجابیٹھی۔ شکاری نے تیسری نصیحت کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: تمہیں نصیحت کرنا بے کار ہے کیونکہ تم نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کب عمل کیا ہے! جو تیسری پر عمل کرو گے۔ میرا کُل وزن بھی پاؤ (250گرام) نہ ہوگا تو بھلا ایک پاؤ کا موتی میرے پیٹ میں کیسے ہوسکتاہے؟ یہ کہتے ہوئے چڑیا وہاں سے اُڑ گئی۔ پیارے پیارے مدنی منّو اور مدنی منّیو! اس حکایت سے تین مدنی پھول حاصل ہوئے : (1)بلا وجہ ہر ایک کی بات پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔ (2)لالچ بری چیز ہے اس سے بچنا چاہئے۔ (3) اچھی نصیحت کو اپنا نا چاہئے۔

(محرم الحرام 1440 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۳۵) نادان کی دوستی

ایک اژدہا اپنی بھوک مٹانے کے لئے شکار کرنے نکل پڑا۔ اسے ایک بندر نظر آیا جسے اُس نے موقع پاکر پکڑ لیا۔ بندر نے موت کو سامنے دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔قریب ہی کھیتوں میں ایک کسان نے بندر کی آواز سنی تو اس جانب بھاگتا ہوا آیا۔ کسان نے جب بندر کو اس حال میں دیکھا تو ترس کھاکر بڑی مشکل سے اُسے اژدہے سے بچالیا۔ بندر اس احسان کے بدلے میں کسان کا فرمانبردار ہوگیا اور وفادار دوست کی طرح اس کے ساتھ رہنے لگا اور کام کاج میں اس کی مدد کرنے لگا۔ کسان آرام کرتا تو بندر اس کی حفاظت کرتا اور مکھیاں وغیرہ دور کرتا۔ گاؤں کے ایک سمجھدار شخص نے کسان سے کہا: میاں سنو! بندر سے دوستی اچھی نہیں، وہ ایک بےعقل جانور ہے، تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کسان نے جواب دیا: آپ اپنی نصیحت اپنے پاس رکھیں، مجھے اس بندر پر اعتماد ہے۔ دن گزرتے گئے اور بندر کسان کی خدمت کرتا رہا۔ ایک دن کسان سو رہا تھا اور بندر اس پر بیٹھنے والی مکھیاں اُڑا رہا تھا، لیکن ایک مکھی بار بار اس کے منہ پر آکر بیٹھ جاتی تھی۔ بندر اسے اُڑاتا وہ پھر آبیٹھتی جب کئی مرتبہ ایسا ہوگیا تو بندر بڑا تنگ ہوا اور غصہ میں آکر ایک پتھر اُٹھایا اور زور سے اس مکھی پر دے مارا۔ مکھی تو اُڑ گئی مگر کسان پتھر لگنے سے شدید زخمی ہوگیا، اب اسے گاؤں کے اسی شخص کی نصیحت یادآئی اور اس نے بندر کو اپنے پاس سے بھگا دیا۔

پیارے پیارے مدنی منو اور مدنی منیو!(1)کوئی مصیبت میں نظر آئے تو ہمیں ضرور اس کی مدد کرنی چاہئے۔ (2)بیوقوف کی دوستی دشمن کی دشمنی سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ (3)بیوقوف شخص اچھے کام کو بھی خراب کردیتا ہے۔ (4)بڑوں کی بات ماننے میں بہت فائدے ہوتے ہیں ۔ (صفر المظفر 1440 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۳۶) چیونٹی کو کھانا کیسے ملا؟

ایک چیونٹی اپنے کھانے کا سامان اُٹھائے گھرجا رہی تھی۔راستے میں اس کی مُلاقات ایک بِھڑ (پیلےرنگ کاپروں والا کیڑا جس کے کاٹنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے)سےہوئی۔ بِھڑنے چیونٹی سے کہا: تم اپنی کھانےکی چیزیں کتنی محنت سے جمع کرتی ہو پھر بڑی مشکل کے ساتھ اُٹھاکر اپنے گھر تک لاتی ہو!اس طرح کی زندگی گزارنے سے تو موت اچّھی ہے۔دیکھو!میری زندگی کیسی مزیدار اور سُکون والی ہے، میں گُھومتے پِھرتے جو چاہتی ہوں کھاتی ہوں اور وہ بھی تازہ تازہ !کبھی کبھی تو امیروں کے دسترخوان پر بھی جا بیٹھتی ہوں جہاں مزیدار چیزیں کھانے کو ملتی ہیں۔یہ دل دُکھانے والی باتیں کہہ کر وہ بِھڑوہاں سے اُڑی اور قریب ہی گوشت والے کی دکان میں گوشت پر جا بیٹھی،جواُس وقت گوشت کا ٹ رہا تھا۔گوشت کاٹتے کاٹتے اس کی چُھری بِھڑکو جا لگی جس کی وجہ سے بِھڑکے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور وہ مَرگئی۔گوشت والے نے اسے نیچے زمین پر پھینک دیا ، چیونٹی دوڑی دوڑی بِھڑکے پاس پہنچی اور دیگر چیونٹیوں کی مدد سے اسےگھسیٹتے ہوئے اپنے گھر لے گئی تاکہ بعد میں اُسے کھاسکے۔

پیارے پیارے مدنی منّو اور مدنی منّیو!کسی محنت کرنے والے کا مذاق اُڑانا ،اسے کمزوراور حقیر سمجھنا اچھی بات نہیں ۔

(ربیع الاخر 1440 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)