’’ اچھے بُرے اخلاق ‘‘(part 04)

حکایات:

حکایت: (۳۷) رنگین گیدڑ(Colourful Jackal)

ایک گیدڑ(Jackal) کو مور(Peacock) کی طرح رنگ برنگ نظر آنے کا شوق ہوگیا جس کو پورا کرنے کی وہ بہت کوششیں کرتا لیکن ہر مرتبہ ناکام ہوجاتا۔ ایک بار پھر نصیب آزمانے گھر سےنکل پڑا، سارا دن جنگل (Jungle)میں گھومتا رہا مگر مور بننے کا کوئی طریقہ ہاتھ نہ آیا۔ شام کے وقت مایوس ہوکر گھر لوٹنے لگا تو راستے میں اسے ایک بڑا سا مَٹکا(مٹی کا برتن Pitcher) نظر آیا۔ قریب جا کے دیکھا تو مٹکا رنگوں سے بھرا ہوا تھا۔ گیدڑ اپنی خواہش پوری کرنے کے لئےاس میں کُود گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے رنگ برنگا ہوگیا۔ جب دوسرے دن کا سورج طلوع ہوا تو وہ گیدڑ خود کو مور سمجھ کر دوسرے گیدڑ دوستوں سے جدا ہوکر ناز نخرے سےچلنے لگا۔ اس پر اس کے ایک دوست نے کہا: ارے بھائی! مور بننا چھوڑدے اور خود کو گیدڑ مان لے، اوپر رنگ لگانے سے کوئی مور نہیں بن جاتا۔ کچھ دیر بعد جنگل میں تیز بارش شروع ہوگئی جس سے اس مور نُما گیدڑ کے سارے رنگ(Colours) اُتر گئے اور اسے سب کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا۔

پیارے بچّوں! اللہ پاک نےہمیں جس طرح کی شکل و صورت دی ہے اس پر راضی رہنا چاہئے۔ ہمیں پیداکرنے والامہربان مالِک و مولیٰ ارشاد فرماتا ہے(تَرجَمۂ کنز الایمان):بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا۔(پ30، التین:4)اللہ پاک نے ہمیں انسان بنایا اس بات پر اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اپنی حیثیت اور حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے۔ ہمیں ایسی چیزوں کے پیچھے اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہئے جو نہ دنیا کے لئے اور نہ آخرت کے لئے فائدہ مند ہوں۔(رجب المرجب 1440 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۳۸) چیتے کی موت

ایک ہَرے بَھرے جنگل میں تمام جانور خوش و خُرَّم زندگی گزار رہے تھے کوئی کسی کو تکلیف نہیں دیتا تھا، اس جنگل میں ہرن اور ہرنی کا ایک جوڑا بھی رہتا تھا۔ جن کا ایک پیارا سا بچّہ بھی تھا۔ ایک دن یہ تینوں اکٹھے گھاس (Grass)کھارہے تھے کہ ایک چیتے (Cheetah) پر ان کی نظر پڑی جو ان کی طرف دیکھتے ہوئے وہاں سے گزر گیا۔ گھاس چَر لینے کے بعد ہرن اور ہرنی آرام کرنے لگے اور بچّہ اپنی مستی میں مگن اُچھل کُود میں مصروف ہوگیا۔ کچھ دیر بعد طوطوں (Parrots)کے شور مچانے پر ہرنی کی آنکھ کھلی تو دیکھتی ہے کہ اس کا بچّہ وہاں سے غائب ہے۔ وہاں موجود طوطوں اور مُرغ کے بتانے پر معلوم ہوا کہ ان کے بچّے کو چیتا لے گیا ہے۔ اپنی پریشانی کے حل کے لئے بے چارے ہرن اور ہرنی جنگل کے بادشاہ شیر (Lion) کے پاس گئے۔ جانوروں کی موجودگی میں شیر(Lion)نے ہرن سے پوچھا: تمہارے بچّے کو لے جانے والا کون تھا؟ ہرن: مجھے پورا یقین ہے کہ میرے بچّے کو چیتا اُٹھا لے گیا ہے، جس کے گواہ وہاں موجود طوطے اور مُرغ ہیں۔ شیر نے ہرن کی بات سننے کے بعد ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا کہ سب جانور جانتے ہیں کہ چیتا میرے خاندان (Family)سے ہے لیکن اسے اپنے کئے کی سزا ملے گی۔ اس کے بعد شیر نے حکم دیا کہ جنگل کے تمام جانور ہاتھی کی سربراہی میں چیتے کو پہاڑ(Mountain)سے نیچے پھینک دیں۔

پیارے بچّو! ہمیں سب کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہئے اور ہر کام میں انصاف (یعنی جو جس کا حق ہے اسے دینا) ضروری ہے، چاہے اس کی وجہ سے ہمیں خود کو ہی نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو۔(شوال المکرم 1440 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۳۹) سفید کبوتری

نَدی کنارے واقع سرسبز و شاداب جنگل میں ایک سفید کبوتری اپنے اکلوتے بچے کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہی تھی، کبوتری صبح سویرے اُٹھ کر اللہ پاک کی تعریف و ثنا کرنے کے بعددانے دُنکے کی تلاش میں نکل پڑتی، ایک روز کبوتری کھانا لے کر جیسے ہی واپس پہنچی تو ننھے کبوتر کو گھونسلے میں نہ پاکر پریشان ہو گئی، آس پاس ہر جگہ دیکھ لیا لیکن اس کا کہیں پتا نہ چلا۔ تھک ہار کر وہ ندی کنارے آ بیٹھی اور شدتِ غم سے رونے لگی کبوتری کو روتا دیکھ کر ندی سے پانی پیتا خرگوش اس کے پاس آیا اورتسلی دیتے ہوئے رونے کی وجہ پوچھی، ننھے کبوتر کے غائب ہوجانے کی خبر سن کر خرگوش بولا: کبوتری بہن!رونے دھونے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ننھے کبوتر کوتلاش کرنا چاہئے۔کبوتری نے خرگوش کا شکریہ ادا کیا اور دوبارہ اپنے بچے کی تلاش میں نکل پڑی۔کافی دیر تک جنگل میں ننھے کبوتر کو تلاش کرنے کے باجود بچہ نہ ملا، تھکاوٹ اور غم سے بےحال ہو کر گھونسلے کا رخ کیاواپس پہنچی تو بچے کو گھونسلے میں بیٹھا دیکھ کر اس کی ساری تھکاوٹ اور پریشانی دُور ہوگئی، ننھےکبوتر کو پیار کرنے کے بعد اس سے پوچھنے لگی کہ تم کہاں چلے گئے تھے؟ کہنے لگا: میں جنگل کی سیر کرنے گیا تھا لیکن واپسی پر گھر کا راستہ بھول گیا تھا ،کافی دیر تک تلاش کرتا رہا لیکن نہیں ملا۔ آخر خرگوش انکل مجھے مل گئے اور یہاں تک پہنچا گئے۔

پیارے بچّو!کبھی بھی گھر سے باہر اکیلے مت جائیں، اپنے امی ابو یا بڑے بھائی کے ساتھ جائیں۔کوئی ساتھ جانے والا نہ ہو تو گھر والوں کو ضرور بتاکر جائیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں! تاکہ آپ کی غیر موجودگی سے وہ پریشان نہ ہوں۔(ذی الحجۃ الحرام 1440 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۴۰) گیدڑ کا شور (Jackal’s Howl)

ایک جنگل میں اُونٹ (Camel) اور گِیدڑ (Jackal) رہتے تھے۔ ان کی آپَس میں دوستی تھی۔ ایک دن گیدڑ اُونٹ کے پاس آکر کہنے لگا: دوست! ساتھ والے گاؤں میں تَربوز (Watermelon) کے کھیت ہیں، آؤ مِل کر کھاتے ہیں۔ اُونٹ اپنے دوست کی بات مان گیا اوراس کے ساتھ چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر یہ دونوں تربوز کھانے میں مصروف ہوگئے۔ گیدڑ تربوز کھانے کے بعد شور مچانے لگا جسے سُن کر کھیت کا مالِک وہاں آپہنچا۔ گیدڑ تو بھاگ نکلا مگر اُونٹ نہ بھاگ سکا اور مالِک کے ہاتھ آگیا جس کی وجہ سے اسے بہت مار کھانی پڑی۔ کچھ دیر بعد جب دونوں ملے تو اُونٹ نے ناراض ہوتے ہوئےگیدڑ سے کہا: تم نے یہ کیا حرکت کی تھی؟ تمہاری وجہ سے مجھے بہت مار کھانی پڑی۔ گیدڑ چالاکی سے کہنے لگا:کیا کروں! میں مجبور تھا کیونکہ میری عادَت ہےکہ تربوز کھاکر شور مچاتا ہوں۔ اس کی بات سُن کر اُونٹ خاموش ہوگیا۔ شام ہوچکی تھی، یہ دونوں واپَس جنگل کی طرف چل پڑے، جب راستے میں نہر (Canal) آئی توپچھلی بار کی طرح گیدڑ اُونٹ کی پیٹھ پر سُوار ہوگیا، جب دونوں نہر کے بیچ میں پہنچے تو اُونٹ نہر میں بیٹھنے لگا۔ گیدڑ چیخا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس طرح تو میں ڈُوب جاؤں گا۔ اُونٹ بولا: بھائی! میری بھی عادَت ہے کہ تربوز کھانے کے بعد کچھ دیر پانی میں بیٹھتا ہوں۔

پیارے بچّو! کسی کو دھوکا دینا اچّھی بات نہیں ہے، اگر آج ہم کسی کے ساتھ دھوکا کریں گے تو کل کو ہمارے ساتھ بھی کوئی دھوکا کر سکتا ہے۔سچ ہے : جیسی کرنی ویسی بھرنی۔(محرم الحرام 1441 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۴۱) بہرامینڈک Deaf frog

ایک بہرا مینڈک (Deaf frog) اُچھلتے کُودتے گھر سے سیر کرنے نکلا۔ بارش کی وجہ سے ہر طرف ٹھہرا ہوا پانی اس کی خوشی بڑھا رہا تھا۔اپنی مستی میں مگن مینڈک کُودتے کُودتے اچانک ایک گڑھے (Pit) میں گِرگیا۔ وہاں پہلے سے دوسرے مینڈک کئی سالوں سے رہ رہے تھے۔ یہ مینڈک پہلے تو گھبرا گیا کہ کس جگہ آگیا ہے! مگر رَفتہ رَفتہ جان گیا کہ کسی گڑھے میں گِر کر پھنس گیا ہے۔ کچھ دیر بعد جب اس مینڈک نے باہر نکلنےکے لئے کوشش کرنا شروع کی تو اس گڑھے میں موجود دوسرے مینڈک ہنس ہنس کر اس سے کہنے لگے: ارے بھائی! اتنی محنت کیوں کر رہے ہو، اس کا کوئی فائدہ نہیں، ہماری عمریں اس گڑھے میں گزر گئیں مگر یہاں سے نہیں نکل پائے، تم بھی بات مان لو، محنت کرنا چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ رہنے کے لئے اپنا ذہن بنالو۔مگرنیا مینڈک چونکہ بہرا (یعنی اسے سُنائی نہیں دیتا) تھا، اس لئے کسی کی پرواہ کئے بغیر مسلسل باہر نکلنے کی کوشش میں لگا رہا۔ کافی بار گِرنے کے بعد بالآخر وہ اس گڑھے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا جبکہ ہمت ہارنے والے دوسرے مینڈک وہیں قیدرہ گئے۔

پیارے بچّو! اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں مسلسل محنت کرتے رہیں، ہمت نہ ہاریں۔ دوسروں کی ایسی باتیں جو ہمت توڑنے اور مایوسی والی ہوں،انہیں سننے سے اس مینڈک کی طرح بہرے ہوجائیں اور اپنے مقصد کو پانے میں مصروف رہیں، اِنْ شَآءَ اللہ! ضرور کامیابی ملے گی۔(صفر المظفر 1441 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

حکایت: (۴۲) لالچ نے جان لےلی

ایک پرندہ درخت کی شاخ پر بیٹھاتھا،اچانک اس کی نظر زمین پربکھرے ہوئے دانوں پر پڑی جو دراصل ایک شکاری نے اُسے پکڑنے کے لئے پھیلائے تھے، دانوں کے لالچ نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ بغیرسوچے سمجھے زمین پر اُترا اور مزے سے دانےچُگنے لگا، ابھی اس نے چند دانے ہی کھا ئے تھے کہ ایک جال اُس پر گِرا اور وہ پرندہ اُس میں پھنس گیا۔ شکاری نے اسے پکڑا، ذَبح کیا اور بھون کرکھاگیا۔ اس کے بعد شکاری نے دوسرے پرندے کو پکڑنے کے لئےایک اور جگہ دانے ڈالے مگروہ پرندہ لالچ میں نہ آیااورخطرے کو بھانپ (یعنی سمجھ)گیا ، اُس نے جنگل کی راہ لی ،یوں وہ شکاری کے جال میں پھنسنے سے بچ گیا۔ (مثنوی مولانا روم، ص293ملخصاً وملتقطاً)

پیارے پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنِّیُو! دیکھا آپ نے کہ شکاری نے دانہ دونوں پرندوں کے لئے ڈالا مگر پہلا پرندہ لالَچ میں آگیا اوربغیرسوچے سمجھے اسےکھانے کے لئے اُترااور شکاری کا شکار ہوگیا،اس سے یہ مدنی پھول سیکھنے کو ملا کہ ہمیں کوئی بھی کام بغیرسوچے سمجھے نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ کام کرنے سے پہلے اچّھی طرح غور کرلینا چاہئے کہ جو کام ہم کر نے جارہے ہیں کہیں اس میں ہمارا نقصان تونہیں؟مثلاً گلی محلے یا سفر وغیرہ میں اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیرکسی اجنبی شخص (یعنی جسے آپ نہ جانتے ہوں) سے کوئی ٹافی وغیرہ لے کر نہ کھائیں ہوسکتا ہے کہ اس میں بے ہوشی کی دوا(Medicine)ملی ہو جسے کھا کر آپ بے ہوش ہو جائیں اور وہ اجنبی آپ کو اغوا کرکے لے جائے۔اسی طرح یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ جو کام ہم کرنے لگے ہیں وہ گناہ کا کام تو نہیں؟کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ دیر کے مزے کی خاطر ہم شیطان کے جال میں پھنس کر اپنے ربعَزَّوَجَلَّ کو ناراض کردیں،جیسے کسی کا مذاق اُڑانے، نام بگاڑنے اور کسی کی چیز زبردستی کھاجانے میں مزا تو بہت آتا ہے لیکن ایسا کرنے سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ بھی ناراض ہوتاہے۔)ذوالقعدہ الحرام 1438(

حکایت: (۴۳) شیر اور ہاتھی

ایک دفعہ جنگل کے بادشاہ شیر نے غُرور و تکبّر کے نشے میں مست ہوکر ہاتھی سے جھگڑا کر لیا، ہاتھی نے شیر کو مار مار کر لہو لُہان کردیا، شیر بڑی مشکل سے اپنی جان بچاکر بھاگا۔ زخْم زیادہ ہونے کی وجہ سےشیر کو صحّتیاب ہونے میں کافی دن لگ گئے،ایک دن شیر پہاڑ پر کھڑا جنگل کا نظارہ کر رہا تھا کہ اُسے وہی ہاتھی نیچے سے گزرتا ہوا نظر آیا، بلندی کی وجہ سے ہاتھی اسے چھوٹا لگنے لگا اُس نے پہاڑ سے ہی ہاتھی کو للکار کر کہا: اب تُو میرے سامنے آ! پچھلا سارا حساب برابر کردوں گا۔ ہاتھی نے شیر سے کہا: ”یہ تُو نہیں بلکہ پہاڑکی بلندی بول رہی ہے“ اور چلتا بنا۔ پیارے پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنِّیُو! غرور و تکبّر کا انجام بُرا ہوتا ہے جیسا کہ اس حکایت میں شیر کے ساتھ ہوا، وہ تو جانور تھا لیکن ہم اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ انسان اور مسلمان ہیں، ہمیں تکبّر سے ضرور بچنا ہے۔ تکبّر کرنے والے کو اللہ تَعَالٰی پسند نہیں فرماتا۔ جب اللہ تَعَالٰی نے شیطان کو حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، شیطان نے تکبّر کیااورسجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تَعَالٰی نے اسے ہمیشہ کے لئے لعنَتی (رحمت سے دُور)کردیا۔ لہٰذا ہمیں کبھی بھی کسی کو اپنے سے کمتر اور حقیر نہیں سمجھنا چاہئے،کوئی امیر کسی غریب کو، ذہین نالائق کو ، خوبصورت بد صورت کو ، طاقت ور کمزور کو حقیر نہ سمجھے کیونکہ دولت، ذِہانت، خوبصورتی اور طاقت سب اللہ تَعَالٰی کی دی ہوئی نعمتیں ہیں، اللہ تَعَالٰی جب چاہے ہم سے یہ نعمتیں واپس لے سکتا ہے۔ ہمیں اللہ تَعَالٰی کی ناراضی سے ڈرنا چاہئے اور تکبّر جیسی بُری صفت سے بچنا چاہئے اللہ تَعَالٰی ہمیں غرور و تکبّر سے محفوظ فرمائے اور عاجزی کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ذی الحجۃ الحرام 1438

حکایت: (۴۴) مغرور چیونٹی اور چینی کا دانہ

ایک بوڑھی چیونٹی جس کا نام ڈولی تھا،غرور و تکبر کی وجہ سے اکیلی رہتی اور کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھی۔ ایک دن دوپہر کے وقت اسے بھوک لگی، وہ کھانے کی تلاش میں گھر سے باہر نکلی تو راستے میں چینی کا ایک بڑا دانہ نظرآیا جسے دیکھتے ہی اس کے منہ میں پانی آگیا۔ بس پھر کیا تھا، وہ جلدی سے آگے بڑھی اور اسے اپنے گھر کی طرف کھینچنے لگی۔ اس دوران جو چیونٹی اس کے پاس سے گزرتی یہ تکبر کی وجہ سے اپنا منہ دوسری طرف پھیرلیتی اور بات نہ کرتی، لیکن اتنا بڑا چینی کا دانہ اور اوپر سے تیز دھوپ! مغرور چیونٹی جلد ہی تھک گئی۔ اچانک اسے پڑوسن چیونٹی کے دو بچے چُنّو مُنّو اپنی جانب آتے دکھائی دیئے۔ جب وہ دونوں اس کے پاس پہنچے تو احتراماً اس كا حال چال پوچھا۔ اس نے بجائے جواب دینے کے تکبر کی وجہ سے منہ بنا کر کہا: ”اونہہ“ اور بڑ بڑانے لگی:بڑے آئے حال پوچھنے! خیریت دریافت کرنے کے بہانے میرا چینی کا دانہ لینے کے چکر میں ہیں۔ ڈولی چینی کے دانہ کے ساتھ اپنے گھر کی طرف تھکی ہاری جارہی تھی۔ گھر سے تھوڑے فاصلے پراس کا پیر مڑ گیا اور پاؤں میں موچ آگئی، دردکی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگےاور وہ راستے میں ہی چینی کے دانے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اسی حالت میں اسے دوپہر سے شام ہوگئی ۔ شام کو چُنو مُنو جب اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کر واپس آرہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ڈولی ابھی تک اپنے چینی کے دانے کے ساتھ راستے میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ جب وہ اس کے پاس سے گزر کر آگے جانے لگے تو ان کے کانوں میں کسی کےرونے کی آواز آئی۔ دونوں نے گردن گھما کر اِدھر اُدھر دیکھا تو کوئی اورنظر نہیں آیا اچانک انہیں ڈولی کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو نظر آئے۔ دونوں آگے بڑھے اور بولے :ارے آنٹی! آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو کیسے؟ ڈولی روتے ہوئے بولی: میرے پیر میں موچ آگئی ہے جس کی وجہ سے میں دوپہر سے یہیں بیٹھی ہوں اور گھر بھی نہیں جاسکتی۔چُنو جلدی سے بولا: آپ فکر مت کریں ، ہم دوسروں کولے کر ابھی آتے ہیں۔ یہ کہہ کر دونوں گھر کی طرف بھاگے اور کچھ ہی دیر میں اپنی امی، باجی اوربرابر والی خالہ (چیونٹیوں)کو لے کر آپہنچے۔ان سب نے ڈولی کواُٹھایا اوراس کے گھر لے آئےاور آرام سے لٹا دیا۔خالہ نے ڈولی کے پاؤں پر مرہم لگاکر پٹی باندھ دی، دوسری طرف چُنو مُنو چینی کے دانے کو اپنے دوستوں کے ساتھ اٹھا لائے اور گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا، ڈولی اپنے پچھلے سلوک پر بہت شرمندہ تھی اور سب سے اپنے بُرے انداز کی معافیاں مانگنے لگی۔ سب نے اسے معاف کردیا،آج اسے معلوم ہوگیاکہ اچھے اخلاق اور ملنساری میں بہت فائدہ ہے، غرور و تکبر میں کچھ نہیں رکھا۔

پیارے پیارے مدنی منّواور مدنی منّیو!ہمیں بھی اچھے اخلاق والا اور ملنسار ہونا چاہئے۔سب سے مسکراکر ملنا چاہئے، مسکرانا ہمارے پیارے نبیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بہت ہی پیاری سنّت ہے جبکہ غرور کرنا اور منہ چڑھا کر سب سے الگ تھلگ رہنا اچھی بات نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ غرور و تکبر کی بری عادت سے خود کو بچائیں اور اچھے اخلاق کو اپنائیں۔)ذوالقعدۃ الحرام 1439

حکایت: (۴۵) نادان بکری (Witless goat)

ایک لُومڑی (Fox)کُنویں (Well) میں گِر پڑی۔ اس کی خوش قسمتی کہ کنویں کی گہرائی کم تھی اس لئے بچ گئی۔ اس نے اِدھر اُدھر بہت ہاتھ پیر مارے اور باہر نکلنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔ اتنے میں ایک پیاسی بکری (Thirsty goat)پانی پینے اس کنویں کے پاس آنکلی۔ لومڑی کو کنویں میں دیکھ کر بکری بولی: بہن! خیریت تو ہے؟ لومڑی نے جواب دیا: ہاں بہن! خیر ہی ہے۔ گرمی لگ رہی تھی تو ٹھنڈک لینے کے لئے آئی ہوں۔ بکری: پانی کاذائقہ (Taste) کیسا ہے؟ لومڑی: پانی بہت ہی اچھا ہے، ایسا میٹھا اور ٹھنڈا پانی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا۔ میں خود اتنا پی گئی ہوں کہ ڈر ہے کہیں بیمار ہی نہ پڑ جاؤں۔ تم بھی آجاؤ اورآرام سے پانی پیو، یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے، یہ سُن کر پیاسی بکری پیاس بجھانے کے لئے جھٹ سے کنویں میں کُود گئی۔لومڑی نے موقع کا فائدہ اُٹھایا اور چھلانگ لگاکراپنے پاؤں بکری کی کمر پر رکھے پھر فوراً دوسری چھلانگ لگا کرکنویں سے باہر آگئی اور نادان بکری چالاک لومڑی کی باتوں میں آکر وہیں رہ گئی۔

پیارے بچّو! شیطان ہمارا دشمن ہے،ہمیں چاہئے کہ اس کی باتوں میں آکر اپنی دنیا اور آخرت کانقصان ہونے سے بچائیں۔ اللہ پاک او ر اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کرنے والے کام کرکے دنیا اور آخرت کو سنواریں۔)شعبان المعظم 1440

حکایت: (۴۶) چیل کی چال

ایک چیل(Eagle) کئی دن سے کبوتر خانے کے پاس چکر لگا رہی تھی تاکہ کبوتروں کا شکار کرسکے لیکن! ایک بھی کبوتر اس کے ہاتھ نہیں آیا۔ آخر کار چیل کبوترخانے کے قریب جاکر بولی: پیارے کبوترو! میں تمہاری حفاظت کرنا چاہتی ہوں۔ سردارکبوتر بولا: تم حفاظت کے بہانے ہمارا شکار کرنا چاہتی ہو؟ چیل: ایسا نہیں ہے، میں بھی تمہاری طرح کا ایک پرندہ ہوں۔ تم اگر مجھے اپنا کِنگ (King) بنا لو تو پھر تمہاری حفاظت کرنا میری ذمّے داری ہوگی۔سردار کبوتر نے منع کردیا مگر چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑی محبت سے ان باتوں کو دہراتی۔ ایک مرتبہ ایک بلّی نے کبوتر خانے پر حملہ کیا تو وہی چیل بلّی پر جَھپٹ پڑی اور پنجے مار مار کر بلّی کو وہاں سے بھگا دیا یہ دیکھ کر سردارکبوتر کو چیل کی باتوں پر یقین آگیا کہ چیل ہمیں نقصان نہیں دے گی۔ اگلے دن سارے کبوتروں نے آپس میں مشورہ کیااورچیل کو اپنا کِنگ(King) بنالیا۔ کچھ دنوں تک تو چیل ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی جس کی وجہ سے کبوتروں کا اس پر بھروسا اور بڑھ گیا اور کبوتر خانے کی چابیاں اس کے حوالے کر دیں۔ ایک صبح کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آکر بولی: تم لوگوں نے مجھے اپنا کِنگ (King) تو بنالیا ہے، لیکن میں کب تک بغیر کھائے پیئے زندہ رہ سکتی ہوں لہٰذا میں روزانہ اپنی مرضی سے تم میں سے کسی ایک کا شکار کروں گی۔ یہ کہہ کر چیل قریب آئی اور ایک موٹے کبوتر کو پنجوں میں دَبوچ کر لے گئی۔

پیارے بچّو! اعتماد اور بھروسا ہمیشہ اپنوں ہی پر کرنا چاہئے۔ بعض لوگ بڑی چالبازی سے آپ کا اعتماد حاصل کرتے ہیں اور بعد میں نقصان پہنچادیتے ہیں، لہٰذا مدرسہ یا اسکول سے آتے ہوئے اَنجان شخص کچھ بھی بولے یا کھانے کی کوئی چیز دے اس کی بات پر ہرگزاعتماد نہ کریں۔رمضان المبارک 1440

حکایت: (۴۷) میمنے کی خواہش

جنگل میں ایک جِھیل (Lake) تھی جہاں شام کے وقت سارے جانور آتے اور خوب پانی پیتے تھے۔ سب جانوروں کو دُور سے ساتھ پانی پیتا ہوا دیکھ کر ایک میمنے (بھیڑ کے بچّے، Lamb) کا بھی بڑا دل چاہتا کہ وہ بھی جھیل پر جائے اور خوب پانی پئے لیکن! اس کی ماں اسے وہاں جانے سے منع کردیتی۔ وہ وجہ پوچھتا تو ماں یہ کہہ کر منع کردیتی کہ وہاں بڑے بڑے جانور آتے ہیں اور تم ابھی چھوٹے ہو۔ ایک دن میمنے نے جانے کی بہت ضِد کی تو اس کی ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا: بیٹا! میں تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں۔ میمنا بولا: کون سی کہانی؟ ماں: کہانی یہ ہے کہ میری سہیلی کا ایک تمہارے جتنا ہی بچّہ تھا۔ وہ بھی بڑی ضِد کرتا تھا کہ جِھیل پر جاکر پانی پئے۔ ایک دن اپنی ماں سے چُھپ کر چلا گیا، وہاں پہنچ کر ابھی اس نے پانی کے چند گھونٹ ہی پئے تھے کہ سامنے کھڑا بھیڑیا (Wolf) اس کی طرف آیا اور بولا: تم پانی گندا کیوں کر رہے ہو دیکھتے نہیں میں پانی پی رہا ہوں! اس نے ڈرتے ڈرتےکہا: پانی تو صاف ہے اس میں کوئی گندگی نہیں۔ بھیڑئیے نے غصّے میں اس پر حملہ کردیا اور اس کو کھا گیا۔ میمنا یہ سُن ڈر گیا اور بولا: امّی جان! اب میں وہاں نہیں جاؤں گا یہیں سے دیکھتا رہوں گا۔

پیارے بچّو! ہماری کسی خواہش کو والدین پورا نہ کریں تو ہمیں چاہئے کہ انہیں تنگ نہ کریں اور ان کی بات مان لیں۔ ہمارے بڑے ہمیشہ ہمارے فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں ہوسکتا ہے وہ چیز ہمارے لئے نقصان دہ ہو اور ہمیں اس کا پتا نہ ہو۔)ذو القعدۃ الحرام 1440

حکایت: (۴۸) دھوکے باز بھیڑیا (Cheater Wolf

ایک مرتبہ پوری رات تیز ہواؤں کے ساتھ بارش ہوتی رہی۔ جس سے جنگل کے جانور ڈر گئے اور اپنے گھروں میں صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ صبح کے وقت جانور باہَر نکلےتو انہیں ہر طرف برسات کا پانی اور تیز ہواؤں کی وجہ سے گِرے ہوئے درخت نظر آئے۔ دیگر جانوروں کی طرح لمبے سینگ والا ہرن (Deer)بھی جنگل کی صبح کا مزہ اٹھانے سیر کو نکل پڑا۔ راستے میں اسے گھنے درختوں کے پاس سے آوازیں سنائی دیں کہ کوئی چیخ چیخ کرکہہ رہا ہے:”کوئی ہے؟میری مدد کرو۔“ ہرن دوڑا دوڑا وہاں پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک بھیڑئیے (Wolf) کے اُوپر درخت کی شاخ گِری ہوئی ہے اور وہ درد سے چِلّارہا ہے۔ ہرن کچھ دیر تک اسے دیکھتا رہا، پھراس کی مدد کئےبغیر وہاں سے جانے لگا۔ بھیڑیا: پیارے ہرن! مجھے بچاؤ گے نہیں؟ ہرن: اگر میں نے تمہیں بچایا تو آزاد ہونے کے بعد تم مجھ پر حملہ کردو گے۔ بھیڑیا: اپنی جان بچانے والے کے ساتھ میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں، میں عمْر بھر تمہارا احسان نہیں بُھولوں گا۔ ہرن: اچھا ٹھیک ہے، لیکن میں اکیلے اس شاخ کو کیسے اٹھاؤں گا؟ بھیڑیا: اپنے سینگ اس کے نیچے دےکر زور لگاؤ، میں بھی اُٹھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بہت کوشش کے بعد وہ بھیڑیا شاخ سے نکل آیا۔ آزاد ہونے کے بعد بھیڑئیے نے پہلے کچھ دیر سانس لیا پھر بڑی خطرناک نظروں سے ہرن کو گُھورنے لگا، ہرن نے اس کا ارادہ بھانپ کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی مگر نہ بھاگ سکا اور دھوکے باز بھیڑئیےکا لقمہ بن گیا۔

پیارے بچّو! کسی کی مدد کرنا اچّھی بات ہے کہ جو لوگوں کی مدد کرتا ہے اللہ پاک اس کی مدد کرتا ہے۔ مگر! کچھ لوگ دھوکے باز اور ناشکرے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ان کی مدد کرے تو اس کا شکریہ ادا کرنا تو دُور کی بات بلکہ اسی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اللہ کریم ہمیں ایسوں سے بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔)ربیع الثانی 1441