’’ دین کی ضروری باتیں ‘‘(part 04_A)

184 ’’ بکری والے کی باتیں ‘‘

حضرت نافع رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں:میں ایک مرتبہ حضرت عبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہماکے ساتھ مدینے پاک کی ایک جگہ گیا، ہمارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے ،گرمی بہت زیادہ تھی،سمجھو سورج آگ بر سارہا تھا(the sun was blazing hot) ۔ ہم نے ایک سائے کی جگہ(place of shadow) میں کھانے کا دستر خوان لگایا اور سب مل کر کھانا کھانے لگے ۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے قریب سے ایک بکریوں والا گزرا ، حضرت عبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہما نے اس سے فرمایا: آؤ! ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔اس نے جواب دیا: میرا روزہ ہے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اس سے فرمایا: تم اس سخت گرمی میں سارا دن جنگل میں بکریاں لے کر چلتے رہتے ہو، اتنا مشکل کام کرتے ہو اور پھر بھی نفلی روزہ رکھا ہوا ہے؟ تو کیا ایسی حالت (condition)میں نفلی روزہ رکھنا ضروری ہے؟ یہ سن کر وہ کہنے لگا :کیا (جنّت میں جا نے کا) وقت آگیا جس کے بارے میں قرآن پاک میں فرمایا گیا،ترجمہ(Translation): گزرے ہوئے دنوں میں جو تم نے آگے بھیجا اس کے بدلے میں خوشگواری (یعنی دل کی پسند)کے ساتھ کھاؤ اور پیو ۔(پ۲۹، الحآ قۃ:۲۴)(ترجمہ کنز العرفان) حضرت عبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو اس کی باتیں اچھی لگیں توکچھ یوں فرمایا: کیا تم ہمیں ایک بکری (goat) بیچو (sell out کرو)گے؟ ہم اسے ذبح کریں (یعنی اس کے گلے پر چھری پھیریں)گے اور تمہیں بکری کے پیسے بھی دیں گے۔ اس نے کہا: حضور! یہ بکریاں میری نہیں ہیں بلکہ یہ میرے مالک(master) کی ہیں، میں تو غلام ہوں ، میں انہیں کیسے بیچ سکتاہوں؟ ( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو شخص ملا وہ غلام کہلاتا ہے، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اس کا امتحان لینے کے لیے کچھ اس طرح فرمایا: یہ بھی تو ممکن(possible) تھا کہ تم اپنے مالک سے جھوٹ بول دیتے کہ بکری کو بھیڑیا(wolf) کھا گیا۔ یہ بات سن کر وہ یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ: میرا مالک مجھے نہیں دیکھ رہا لیکن میرا ربّ اللہ پاک تو مجھے دیکھ رہا ہے ،میرا ربّ تو میرے ہر ہر کام کو جانتا ہے۔ حضرت عبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ اس نیک آدمی سے بہت خوش ہوئے اور اس کے مالک(master) کے پاس پہنچے اور اس نیک غلام(slave) کو خر ید کر آزاد کردیا (یعنی اب وہ غلام نہ رہا)اور ساری بکریاں بھی اس کے مالک سے خرید کر اس غلام کو تحفے(gifts) میں دے دیں۔ (عیون الحکایات، ۱/۱۵۷بتغیر) اس واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اپنی دنیا کی زندگی میں آخرت کے لیے نیکیاں جمع کریں تاکہ اللہ پاک ہم سے راضی اور خوش ہو جائے اور جس نیکی میں جتنی مشکل ہو اس کا ثواب بھی اتنا زیادہ ہوتا ہے، دوسری یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ہم کوئی بھی کام کریں جسے کوئی نہ بھی دیکھ رہا ہو مگر ہمیں پیدا کرنے والا ہمارا پیارا اللہ ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے، وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اور ہم سب کے ہر ہر کام کو جانتا ہے۔ ہمیں ایک دن مرنا پڑے گا اور اللہ پاک کو حساب دینا ہو گا، ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اللہ پاک کی ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

185 ’’ نہ کسی کا باپ اور نہ کسی کا بیٹا‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب اسلام کی دعوت دیتے تو عرب شریف کے غیر مسلم ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے اللہ پاک کے بارے میں طرح طرح (different kinds) کے سوالات کرتے، ان غیر مسلموں کے جواب میں اللہ پاک نے سورت اخلاص(قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ) اتاری اور ان تمام باتوں کاجواب دے دیا۔(سورۃ الاخلاص، خزائن العرفان مُلخصاً) قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱) اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ(۲)لَمْ یَلِدْ ﳔ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ(۳) وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠(۴) (ترجمہTranslation:)تم فرماؤ: وہ اللہ ایک ہے۔اللہبے نیاز ہے(یعنی اسے کسی کی ضرورت نہیں)۔نہ اس نے کسی کو جنم دیا (یعنی اس کی کوئی اولاد نہیں)اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور کوئی اس کے برابر نہیں ۔(پ۳۰، سورۃ الاخلاص) (ترجمہ کنزالعرفان) اس روایت اور قرآنی سورت سے ہمیں یہ سیکھنے کوملا کہ اللہ پاک کی شان بہت بہت بہت بڑی ہے، ہم اپنی عقل سے اللہ پاک کو پہچان نہیں سکتے۔ وہ سمت(direction) سے، جگہ(place)سے،شکل و صورت (shape) سے اور اس طرح کی ہر چیز سے پاک ہے اوربڑی شان والا ہے۔ اللہ پاک کی طرح کوئی بھی نہیں۔ہم اس کے بندے ہیں، اس پر ایمان (believe)رکھتے ہیں، وہ رحم کرنےوالا، کرم فرمانےوالا، عطاء کرنے والا (یعنی دینے والا)، معاف کرنے والا مہربان ہے۔

186 ’’اللہ پاک کا کوئی شریک نہیں‘‘

اللہ پاک ہمیشہ سے ہے، یعنی جب کچھ بھی نہیں تھا تب بھی اللہ پاک تھا اوراللہ پاک ہمیشہ رہے گا، یعنی جب سب کو موت آجائے گی تب بھی اللہ پاک ہوگا۔ اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو ہمیشہ سے ہمیشہ سمجھنا’’شِرْک‘‘ ہے اسی طرح اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو دنیا یا کائنات(universe) کو پیدا کرنے والا ماننا بھی ’’شِرْک‘‘ہےاسی طرح اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک کرنا (partner ماننا) مثلاً یہ کہنا کہ اللہ پاک نے فلاں کے ساتھ مل کر دنیا پیدا فرمائی ہے، یہ بھی ’’شِرْک‘‘ ہے اسی طرح اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو عبادت کے قابل سمجھنا (یعنی اس کی بھی عبادت ہو سکتی ہے، یہ)بھی ’’شِرْک‘‘ ہے اسی طرح کسی کو اللہ پاک کی طرح قدرت یا طاقت یا علم رکھنے والا سمجھنا یا اللہ پاک جیسا سمجھنا بھی ’’شِرْک‘‘ ہے۔
سوال:
: اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں ہو سکتی تو فرشتوں نے حضرت آدم عَـلَـيْهِ السَّلَام کو سجدہ کیوں کیا تھا؟
جواب
: یہ سجدہ تعظیم(respect) کے لیے تھا اور اس کا حکم خود اللہ پاک نے فرمایا تھا۔پہلی اُمتوں کو اس کی اجازت تھی مگر ہمیں اس کی اجازت نہیں ،اب جو سجدۂ تعظیمی کرے گا (یعنی اللہ پاک کے علاوہ کسی کی عزّت کرنے کے لیے اس کے سامنے جھکے گا اور اپنا سر زمین پر رکھے گا تو ) سخت گناہ گار ہوگا۔یاد رہے!شرک ہر اُمت کے لیے شرک ہی ہے،پہلی اُمتوں کے لیے بھی اور آج بھی اللہ پاک کے علاوہ کسی کو سجدۂ عبادت کرنے والا کافر ہوجائے گا۔(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنّت ص۱۶ ماخوذاً) شِرک کی مثالیں: بُتوں کو خدا،یا چھوٹا خدا، یا خدا کا مددگار(helpful)سمجھنارُوح کو ہمیشہ سے ہمیشہ زندہ رہنے والی سمجھنا اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو خدا سمجھ کر سجدہ کرنا وغیرہ۔ اسی طرحکسی کے لیے یہ سمجھنا کہ جیسا علم اللہ کو ہے، ایسا ہی فلاں (یعنی کسی اور )کو بھی ہے یا جیسے اللہ پاک مدد فرماتاہے،ویسے ہی فلاں مدد کر سکتا ہے ، یہ بھی شرک ہے۔ یاد رہے!اگر کوئی اللہ پاک کے علاوہ کسی سے مدد مانگےاوروہ یہ کہتا ہے کہ اللہ پاک نے انہیں طاقت دی ہے، یہ مدد کر سکتے ہیں تو یہ شرک نہیں۔لیکن یہ بھی یاد رہے کہ کوئی بھی اللہ پاک جیسی مدد نہیں کرسکتا کہ اللہ پاک کے علاوہ جو مدد کرے گا، وہ اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت سے ہی کر سکتا ہے مگر اللہ پاک وہ ہے کہ اُسے کسی نے نہیں دیا اور اسے کسی کی ضرورت بھی نہیں ، وہ خود مدد کرنے والا ہے۔

187 ’’بادشاہ کی قبر‘‘

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ تھا۔ ہم ایک جگہ پہنچے ،وہاں ایک قبر تھی، جسے دیکھ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رونے لگے۔ مَیں نے پوچھا :حضور!یہ کس کی قبر ہے ؟آپ نے فرمایا:یہ حمید بن جابر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی قبر ہے جو کہ ان تمام شہرو ں کے حاکم (ruler) تھے ، پہلے یہ غلط کام کرتےتھے ، پھر اللہ پاک نے انہیں ہدایت عطا فرمائی (تو یہ نیک آدمی بن گئے)۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ایک رات یہ گناہوں بھرے کام کر رہےتھے،جب کافی رات گزرگئی تو اپنی اہلیہ (wife) کے پاس جا کر سو گئے۔ اسی رات انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ایک کتاب لئے ان کے سامنے کھڑا ہے ، انہوں نے اس سے وہ کتاب لی اور اسے کھولا تو اس میں یہ لکھاہوا تھا: باقی رہنے والی چیزوں پر ختم ہونے والی چیزوں کو اہمیت (preference) نہ دے۔ اپنی بادشاہی(kingship)،اپنی طاقت،اپنے خادم اوراپنی خواہشات (desires) سے ہر گز دھوکا نہ کھا(یعنی یہ مت سمجھ کہ یہ سب کچھ ہمیشہ رہے گا)،اور اپنے آپ کو دنیا میں طاقتو ر نہ سمجھ، اصل قدرت و طاقت تو اللہ پاک کے لیے ہےکہ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہےگا۔اصل بادشاہی تو وہ ہے کہ جو کبھی ختم نہ ہو، حقیقی خوشی تو وہ ہے جو کھیل کود کے بغیر حاصل ہو۔ لہٰذا اپنے ربّ کے حکم پر جلدی سے عمل کر۔ بے شک اللہ پاک فرماتا ہے (ترجمہ۔ Translation:) اوردوڑواپنے ربّ کی بخشش (یعنی معافی)اور ایسی جنّت کی طرف جس کی چوڑان(width) میں سب آسمان وزمین آجائیں پرہیزگاروں (یعنی نیک لوگوں)کے لئے تیاررکھی ہے۔ (پ۴،اٰل عمران:۱۳۳) (ترجمہ کنز الایمان) حضرت ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:پھر اُس بادشاہ کی آنکھ کھل گئی ۔وہ بہت ڈرا ہوا تھا، خود سے کہنے لگا: یہ (خواب) اللہ پاک کی طر ف سے میرے لئے ہے۔یہ کہہ کر فوراً اپنی بادشاہت (kingship) چھوڑ دی اور اپنے ملک (kingdom) سے نکل کر ایسی جگہ آ گئے جہاں کوئی انہیں پہچان نہ سکے ، اور انہوں نے ایک پہاڑ پر اللہ پاک کی عبادت کرنا شرو ع کردی ۔ حضرت ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزیدفرماتے ہیں : جب مجھے ان کے بارے میں پتا چلا تو میں ان کے پاس آیا، پھر ان کے انتقال تک میں ملاقات کے لئے ان کے پا س آتا رہا،اب ان کا انتقال ہوگیا اور اسی جگہ انہیں دفن (buried)کردیا گیا،یہ انہی کی قبر ہے ۔(عیون الحکایات ح۱،ص۷۹ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ دنیا کی سب دولت اور طاقت کی کوئی اہمیّت (importance)نہیں، صرف اللہ پاک ہی باقی رہنے والا ہے اور وہی سب زمین آسمان کا حقیقی باشاہ (real king)ہے، دنیا کے بادشاہوں نے مر جانا ہے ہزاروں (thousands)آئے سب مر گئےاور جو ہیں یا آئیں گے ،وہ سب بھی مر جائیں گئے۔ لیکن ہمارا ربّ وہ ہے کہ جو ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا، اُسے کبھی موت نہ آئے گی۔ وہ اللہ پاک ہی ہےکہ جسے چاہتا ہے بادشاہی اور حکومت دیتا ہے،جسے چاہتا ہے حق اور سچ کی طرف ہدایت عطا فرماتا ہے۔ہمیں اللہ پاک کے حکم کو مانتے ہوئے، عبادت میں زندگی گزارنی چاہیے ۔

188 ’’جانور کے ذریعے مدد‘‘

حضرت ابو حمزہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ حج سے واپس آتے ہوئے میں ایک کنوئیں (well)میں گر گیا،سوچا کہ کسی کو مدد کے لیے بُلاؤں مگر پھر خود سے کہا کہ اللہ کی قسم کسی کو نہیں بلاؤں گا، اتنے میں دو آدمی کنوئیں پر آئے ایک نے دوسرے سے کہا: آؤ اس کنوئیں کو اوپر سےبند کر دیں تاکہ کوئی اس میں گر نہ جائے، تو وہ چٹائی وغیرہ لائے اورکنوئیں کا منہ بند کر دیا، خیال آیا کہ چیخ کر بولوں میں کنوئیں میں ہوں مجھے نکالومگر پھر سوچا کیا میں اللہ پاک کو چھوڑ کر ان دونوں سے مدد لوں حالانکہ(although) اللہ کریم اپنے علم،طاقت اور قدرت (power)کے مطابق میری گلے کی رگ (jugular vein)سے بھی زیادہ قریب ہے چنانچہ (so)میں چپ رہا۔وہ دونوں کنوئیں کو بند کر کے چلے گئے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ کنواں کھلا اور کسی نے اپنا پاؤں نیچےلٹکا کر کہا: میرا پاؤں پکڑ لو، میں نے پاؤں پکڑا، اس نے کھینچ کر مجھے باہر نکالا، دیکھا تو سامنے ایک خطرناک جانور (dangerous animals)تھا، اس نے مجھے وہیں چھوڑا اور چلا گیا۔ اتنے میں کہیں سے آواز آئی:اے ابو حمزہ! کیا یہ خوب بات نہیں کہ میں نے تجھے اسی درندے(beast) کے ذریعے بچا لیا جو تیرا دشمن ہے۔ (عجیب وغریب واقعات ، ص: ۲۹۱ بحوالہ نوادر قلیوبی) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک پر بندے کو مکمل یقین(believe) رکھنا چاہیے، زندگی، موت کا مالک وہی ہے ، اس کے کاموں کی حکمتیں (wisdom) ہم سمجھ نہیں سکتے، درندہ (beast)انسان کا دشمن ہے، انسان کو جان سے مار (kills کر ) دیتا ہے مگر اللہ پاک کی شان دیکھئے کہ اُس نے اِس خطرناک جانور ہی کو مدد کے لیے بھیج دیا۔ یہ بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اللہ پاک پر مکمل یقین (believe)رکھنے والے تھے لیکن اگر کوئی مصیبت میں کسی انسان سے مدد لے لے تو بھی ٹھیک ہے کہ مدد کسی سے مانگی جائے یا کوئی خود مدد کر دے تو اصل میں یہ ساری مدد اللہ پاک کی طرف سے ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ نہ چاہے تو ساری مخلوق (creatures)مل کر ایک پتہ (leaf)بھی نہیں ہلا سکتی۔ اللہ پاک سب کچھ کر سکتا ہے۔

189 ’’اللہ پاک کے علاوہ کسی کے لیےا ختیار(یعنی طاقت) ماننا‘‘

سوال
: کیا اللہ پاک کے نبیوں(عَلَیْہِمُ السَّلَام) اور ولیوں (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ)کے لیے علم اور اِختیار (یعنی طاقت)وغیرہ ماننا شرک ہے؟
جواب
:اللہ پاک کے نبیوں(عَلَیْہِمُ السَّلَام) اور ولیوں(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کے لیے علم، اِختیار(یعنی طاقت) وغیرہ مانناشِرْک نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ نہ ہی خدا ہیں اور نہ ہی عبادت کے لائق ہیں(یعنی ان کی عبادت نہیں کی جاسکتی ، عبادت صرف اور صرف اللہ پاک ہی کی ہوتی ہے)، اِن کے پاس جتنی بھی خوبیاں(یعنی اچھائیاں) ہیں وہ اِن کی اپنی نہیں ہیں بلکہ اللہ پاک کی طرف سے دی گئی ہیں۔ جبکہ شرک وہاں ہوتا ہے جہاں کسی کا علم، اختیار(یعنی طاقت) اور کمال(یعنی اچھائی) اُس کا ذاتی (یعنی اپنا) مانا جائے اور یہ کہا جائے کہ یہ اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے، خود ان کا اپنا ہے(تو شرک ہوگا، مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ نبیوں(عَلَیْہِمُ السَّلَام) اور ولیوں (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کا علم اور طاقت، اللہ پاک کی طرف سے ہے )۔ یہ بھی ذِہن میں رہے کہ اللہ پاک اپنے بندوں کو علم، قدرت، اختیارات (یعنی طاقت) اور عقل کو حیران(surprise) کردینے والے معجزے( ) (مثلاً دریا میں راستہ نکال دینا)اور کرامتیں( ) (مثلاً بہت دور سے ایکsecound میں تخت (throne)لے آنا) عطا فرما تا ہے، اور اس سے بہت سے فائدے حاصل ہوتےہیں کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے معجزے سےلوگوں کواُن کا”نبی“ ہونا پتا چلتا ہے اور لوگ” ایمان(believe) “ لے آتے ہیں جبکہ (شریعت پر عمل کرنے والے ”عالم “ جو کہ ”ولی “ بھی ہو سکتے ہیں تو اللہ پاک کے) ”ولی “ سے ہونے والی ”کرامت “کے ذریعے لوگ” ولی“ کے قریب آئیں گے تو اسلام کی تعلیمات(teachings) پر عمل کرنے لگ جائیں گے، لیکن یہ چیزیں ملنے کے بعد کوئی بھی خدایا عبادت کے لائق نہیں بن جاتا۔ مسلمان اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو خدا یاعبادت کے لائق یا اللہ پاک کے دئیے بغیر علم، قدرت، طاقت اور کمال رکھنے والا نہیں سمجھتے ، اسی طرح نبیوں(عَلَیْہِمُ السَّلَام) اور ولیوں (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کے لیے علم، اِختیار(طاقت) وغیرہ مانناشِرْک ہو ہی نہیں سکتا۔ (ماخوذ از الحق المبین، ص ۴۱ تا ۴۳) نوٹ: اللہ پاک اگر چاہے گا توکیسا ہی گنہگار شخص ہو اُسے بخش دے (یعنی معاف فرمائے) گا، لیکن کسی کافر اور مشرک (یعنی شرک کرنے والے) کی کبھی مغفرت نہیں فرمائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کافروں کو جہنّم میں رہنا ہوگا، کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے(ترجمہ Translation :) بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے۔(پ۵،سورۃ النساء،آیت۸) (ترجمہ کنز الایمان ) تو جو کفر پر مرا وہ کبھی بھی جنّت میں نہ جائے گا، ہمیشہ جہنّم میں رہے گا۔ اللہ پاک سچّا مالِک ہے، اُس کی باتوں میں تبدیلی (change)نہیں آتی اور وہ ظلم سے پاک ہے۔ وہ کَرَم کرنے والاربّ ہے اور جو اُس پاک ربّ کا شریک (partner ) مانے، وہ اللہ پاک کی شان میں کمی کرنے والا ہے، اُس کی یہی سزا (punishment) ہونی چاہئے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنّم میں رہے۔
سوال:
اگر کوئی نبیوں (عَلَیْہِمُ السَّلَام) اور ولیوں (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کے لئےعلم اور اِختیار(یعنی طاقت) وغیرہ ماننے کو شرک کہے تو ہم کیا کریں ؟
جواب
حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:بد مذہب سے دور رہو اور ان کو اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔(صحیح مسلم،مقدمة، ص۹،حدیث:۷) (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنّت ص ۱۱۸ماخوذاً)

190 ’’قرآنِ مجید کی پہلی آیات ‘‘

ایک دن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مکّہ پاک کے ایک غار (cave) جس کا نام’’حراء‘‘ تھا کے اندر عبادت فرما رہے تھے کہ اچانک(suddenly) غار میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےپاس ایک فرشتہ حاضر ہوا۔(یہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام تھے جو ہمیشہ اللہ پاک کا پیغام ، رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام تک لے کر حاضر ہوتے تھے) کہنے لگے : پڑھیے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا : میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔فرشتےنے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو پکڑا اور آپ سے گرم جوشی کے ساتھ گلے ملے (یعنی زور سے سینے(chest) سے سینہ ملایا)پھر چھوڑ کر کہا کہ: پڑھیے تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے پھر فرمایا کہ :میں پڑھنے والا نہیں ہوں ۔ فرشتےنے دوسری مرتبہ(second time) ایسا ہی کیا اور چھوڑ کر کہا کہ ’’پڑھیے‘‘ آپ نے پھر وہی فرمایا کہ:میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ تیسری مرتبہ(third time) پھر فرشتہ نے آپ کو بہت زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا (ترجمہ (Translation):اپنے ربّ کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔انسان کو خون کے لوتھڑے (یعنی ٹکڑےblood clot)سے بنایا۔پڑھواور تمہارا ربّ ہی سب سے بڑا کریم ہے۔جس نے قلم سے لکھناسکھایا۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔(پ۳۰،العلق:۱۔۵) (ترجمہ کنز العرفان) یہی سب سے پہلی وحی تھی جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر نازل ہوئی۔ ان آیتوں کو یاد کرکے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنے گھر تشریف لائے۔اس واقعے (incident)سے آپ کی ایک کیفیت(condition) بن گئ تھی۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے گھر والوں سے فرمایا :کہ مجھے چادر پہنا دو۔جب کچھ سکون ہوا تو آپ نے حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا سے غار میں ہونے والا واقعہ بیان کیااورکچھ بات کہی ۔وہ بات سن کر حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نے کہا کہ نہیں،ہر گز نہیں۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔اللہ کی قسم! اللہ پاک کبھی بھی آپ کو رسوا (disgraced)نہیں کریگا۔ آپ تورشتہ داروں کےساتھ بہترین سلوک کرتے ہیں۔ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھاتے(یعنی دوسروں کے کام بھی کرتے) ہیں۔ خود کما کما کر غریبوں اور ضرورت مندوں کو دیتے ہیں۔ مسافروں کی مہمان نوازی کرتے (یعنی انہیں کھانے پینے کو دیتے)ہیں اور حق و انصاف کی وجہ سے سب کی مصیبتوں اور مشکلوں میں کام آتے ہیں۔ اس کےبعدحضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ،آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اپنے چچا زاد بھائی(cousin)’’وَرقَہ بن نَوفَل‘‘کے پاس لے گئیں۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے غارِ حراء کا پورا واقعہ بتایا ۔یہ سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس بھیجا تھا۔ پھر ورقہ بن نوفل کہنے لگے: کاش! میں اُس وقت جوان ہوتاجب آپ کی قوم آپ کو(آپ کے شہر سے)نکال دے گی۔ )پ۲۹،المدثر:۱۔۵وصحیح البخاری،کتاب بدء الوحی، باب ۳،الحدیث:۳،۴،ج۱،ص۷( اس سچے واقعے سے یہ پتا چلا کہ سب سے پہلے قرآنِ پاک کی آیتیں غارِ حرا میں اتاری گئیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک کو ماننے والے اعلان ِنبوت (یعنی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا اپنے ’’ نبی ‘‘ ہونے کا اعلان (announcement) کرنے)سےپہلے بھی اس بات کی خواہش(desire) رکھتے تھے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جب اپنے ’’ نبی ‘‘ ہونے کا اعلان فرمائیں تو ہم بھی اس وقت زندہ ہوں اور آپ پر ایمان لائیں ۔

191 ’’قرآن پا ک کا کوئی مثل نہیں‘‘

ایک دن وَلید بن مُغِیرَہ نے قبیلہ(tribe) قریش کے لوگوں سے کہا کہ حج کے دن آنے والے ہیں جب عرب کے مختلف قبیلوں(different tribes) کے لوگ آئیں گے تو وہ اپنے آپ کو ’’ نبی ‘‘ کہنے والےشخص (یعنی حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) کے بارے میں پوچھیں گےتم سب لوگ ان کے بارے میں ایک ہی بات کہنا کہیں ایسا نہ ہو تم ان کے بارےمیں الگ الگ باتیں کہو اورلوگ سمجھ جائیں کہ ہم جھوٹ بول کر لوگوں کو ان سے دور رکھنا چاہتے ہیں ۔اس پر قریش کے لوگوں نے مختلف (different) باتیں کیں کہ ہم لوگوں کو کہیں گے کہ وہ (یعنی ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَعَاذَاللہ (یعنی اللہ پاک کی پناہ)) کاہن (یعنی جنّوں وغیرہ سے خبریں معلوم کرنے والا )ہے،بعض نے کہا ہم کہیں گے کہ وہ دیوانہ ہے(مَعَاذَاللہ یعنی اللہ پاک کی پناہ)،بعض نے شاعر(poet) اوربعض نے کہا کہ ہم لوگوں کو کہیں گے کہ وہ جادوگر (magician,)ہے۔ ولیدسب کی باتیں سنتا رہا اور آخر میں ولید نے کہا: ’’ اللّٰہ کی قسم! ان کی باتوں میں بہت مٹھاس ہے۔ جو تم نے کہا ہے،ان میں سے جو بات ہم کہیں گے تو لوگ ضرور پہچان لی جائےگی کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لوگوں کو کہنا کہ وہ ایسا کلام (کتاب وغیرہ) لایا ہے جوجادو (magic)ہے۔ اس کلام سے وہ باپ بیٹے میں،بھائی بھائی میں، میاں بیوی میں ، رشتہ داروں میں دوری ڈال دیتا ہے‘‘ ۔ ایک دن نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مسجدمیں اکیلے (alone)بیٹھے ہوئے تھے۔قریش نےاپنےسردار (chief)عُتْبَہ کو آپ کے پاس بھیجااور اس نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےبہت سی باتیں کیں تو جواب میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے سورۂ حم السجدہ کی شروع کی آیتیں تلاوت فرما ئیں۔عتبہ نے قریش سے جاکر کہا: ’’ اللّٰہ کی قسم ! میں نے ابھی (حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے جو) کلام سناہے ، اس جیسا کلام کبھی نہیں سنا اللّٰہ کی قسم ! وہ شعر (poem)نہیں،نہ جادو ہے، نہ کہانت(یعنی جنّوں کی بتائی ہوئی باتیں)۔ اے قریش کے لوگو ! میری بات مانو: یہ شخص جو کرتا ہے اسے کرنے دو۔اور اس سے الگ ہوجاؤ‘‘۔ قریش یہ سن کر کہنے لگے کہ اس نے تو اپنی زبان سے تجھ پر بھی جادو کردیا۔ عتبہ نے جواب دیا کہ :میرا یہی مشورہ ہے، باقی تمہاری مرضی۔ (سیرتِ مُصطفیٰ ص۳۸۷، مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے معلوم ہوا کہ عربی زبان پر مہارت رکھنے والے(expert) لوگ قرآن پاک سن کر سمجھ جاتے تھے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ یہ اللہ پاک کا کلام ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہمکّے کے غیر مسلم، دوسروں کو اسلام سے دور رکھنے کےلیے انہیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے دور رکھتے تھے ۔کیونکہ جو لوگ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےقرآن پاک سُن لیتے تو وہ سمجھ جاتے تھے کہ یہ کلام کسی بندے کا نہیں بلکہ اللہ پاک کا کلام ہے اوروہ مسلمان ہو جاتے تھے۔

192 ’’ قرآنِ مجید‘‘

قراٰن شریف پریوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ اللہ پاک کی طرف سے ہے اور سب کا سب حَق (اور سچ)ہے۔(ملخص ازصراط الجنان، ۱/۶۸) یہ اللہ پاک کی آخری آسمانی کتاب ہے، جواس نے اپنے آخری نبی محمدمصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر نازل فرمائی۔ (پ۱۶،طٰہٰ:۲ماخوذاً) مکمل قراٰنِ کریم ایک ساتھ،شبِ قدر( ) میں لوحِ محفوظ سے آسمان کی طرف اتارا گیا۔ (خازن، ۱/۱۲۱، البقرۃ،تحت الآیۃ:۱۸۵) (لوحِ محفوظ ،عرش کی سیدھی طرف ، سفید موتی سے بنا ہو ا ہے۔ اس میں تمام مخلوق (creatures)کے سب معمولات مَثَلًا موت،رزق،اعمال اور فیصلوں کابیان ہے۔ (تفسیرقرطبی ج۱۰ص۲۱۰ مع حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۴ص۳۳۸ رقم ۵۷۶۷ ماخوذاً))پھرآسمان سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامتقریباً تئیس(23)سال کے عرصے(period) میں قرآنِ پاک کی کچھ کچھ آیتیں لے کر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس آتے رہے قراٰنِ کریم کی موجودہ ترتیب (sequence)وہی ہے جو لوحِ محفوظ پر ہے۔(تفسیر نعیمی،۱/۲۱ملخصاً) قرآن پاک سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں وہ صرف نبیوں کو زبانی یاد ہوتی تھیں، لیکن یہ قرآن کریم کا معجزہ (یعنی عقل کو حیران کردینے والی بات) ہے کہ مسلمانوں کا بچّہ بچّہ قرآنِ کریم زبانی یاد کرلیتا ہے قراٰنِ کریم میں ہر چیز کا بیان ہے مگر اس کا علم، اللہ پاک نےجسے جتناچاہا، اُسے اُتنا عطا فرمایا قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ (responsibility )خود اللہ پاک نے لے رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں کسی حرف یا نقطے کی کمی کرنا یا زیادہ کرناممکن (possible) ہی نہیں قرآن کریم جیسا کوئی کلام، اس کی سورت جیسی کوئی ایک سورت، یا اس کی آیت جیسی کوئی ایک آیت بھی بنالینا ممکن نہیں، اِس سے صاف صاف پتا چلتا ہےکہ یہ سارے کا سارا کلام،اللہ پاک کا کلام ہے قراٰنِ کریم جیسا کلام بلکہ اس جیسی ایک آیت بھی تمام جنّات اوراِنسان مل کر بھی نہیں بنا سکتےاور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی (change)کرسکتے ہیں،جو کوئی قراٰن میں سے کمی یا زیادہ ہونے کا عقیدہ (belief) رکھےتو کافر ہے۔ (ماخوذ از بہار شریعت، ۱/۲۸ تا۵۸،حصہ۱۔ ہمارا سلام، ص ۴۸تا۵۴) قرآن ِ پاک کو ناقص(یعنی نامکمل) کہنایا قرآن ِ پاک کو ناقص سمجھنا کفر ہے اوریہ قرآنِ پاک کا انکار(denial) بھی ہے( بہار شریعت، ۱/۲۱۲ ماخوذاً)

193 ’’رونے والا ستون(pillar) ‘‘

(مدینے پاک کی) مسجد نبوی میں پہلے منبر (muslim pulpit یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں،وہ)نہیں تھا، کھجورکے درخت(palm trees) کا ایک ستون(pillar )تھا ،اُس پر ٹیک لگاکر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خطبہ دیا کرتے (یعنی بیان کرتے) تھے ۔جب ایک صحابیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے ایک منبر (muslim pulpit)بنا کر مسجد میں رکھ دیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کر دیا ،اس پر ستون (pillar )سے بچوں کی طرح رونے کی آواز آنے لگی ، ستون اتنی زور زور سے رونے لگا کہ ایسا لگتا تھا وہ پھٹ جائے گا اور اس رونے کی آواز کو مسجد کے نمازیوں نے اپنے کانوں سے سنا۔ ستون کے رونے کی یہ آوازسن کر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ منبر سے نیچے آگئے اور ستون پر محبّت سےاپنا پیاراہاتھ رکھ دیا اور اس کو اپنے سینے سے لگا لیا تو اُس ستون نے اِس طرح آہستہ آہستہ رونا کم کیا جس طرح رونے والے بچوں کو چپ کرایا جاتا ہے ۔پھر وہ خاموش ہو گیا اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ ستون اس وجہ سے رو رہا تھا کہ یہ پہلے اللہ پاک کا ذکر سنتا تھا اور اب (نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری آواز میں اللہ پاک کا ذکر) نہ سنا تو رونے لگا۔ (بخاری،ج۲،ص۴۹۶،حدیث:۳۵۸۴، سیرت مصطفیٰ،ص۷۷۸مُلخصاً) پھر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُس سے فرمایا! اگر تم چاہو تو تمھیں پھر اُسی باغ میں لگا دیا جائے جہاں تم تھے اور تم پہلے کی طرح پھل دو اور اگر تم چاہو تو میں تمھیں جنّت کا ایک درخت بنا دوں تا کہ جنّت میں اللہ پاک کے نیک بندے تمہارا پھل کھاتے رہیں۔ یہ سن کر ستون نے اتنی زور سے جواب دیا کہ سب لوگوں نے بھی سن لیا، کہا یا رسول اﷲ!( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) میں چاہتا ہوں کہ میں جنّت کا ایک درخت بنا دیا جاؤں تا کہ اللہ پاک کے نیک بندے میرا پھل کھاتے رہیں۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں نے تیری بات مان لی(یعنی تمھیں جنّت کا درخت بنا دیا)۔ پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ ! دیکھو اِس ستون نے ختم ہونے والی دنیا کو چھوڑ کر باقی رہنے والی زندگی (یعنی جنّت)کو لے لیا۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، ج۱، ص ۳۰۴،۳۰۵، سیرت مصطفیٰ،ص۷۷۹ تا۷۸۰مُلخصاً( اس حدیث ِ پاک سے یہ معلوم ہوا کہ بے جان چیزیں (non-living objects) بھی پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے محبت کرتی ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے دور ہونا پسند نہیں کرتیں۔ آج بھی عاشقانِ رسول مدینے پاک سے نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی وجہ سے محبت کرتے اور چاہتے ہیں کہ بار بار مدینہ پاک حاضرہوں اور مدینے پاک سے واپسی پر رو رہے ہوتے ہیں۔

194 (a)’’ایک رات میں کیا کیا ہوا؟‘‘

اللہ پاک کی طرف سے نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ملنے والے انعامات(rewards) میں سے ایک خاص انعام(special reward) معراج ہے ۔ایک رات آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جس گھر میں سو رہے تھے وہاں کی چھت کھلی اورحضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلاَم چند فرشتوں کےساتھ آئے اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو مسجد حرام ( یعنی جس مسجد میں کعبہ شریف ہے) میں لےگئے،وہاں آپ کے سینہ مبارک (chest) کو شق کیا (یعنی کاٹا split) گیااور آپ کےمبارک دل کو نکال کر آب ِزمزم شریف سےدھویا گیاپھر ایمان او رحکمت سے بھر کر دل سینےمیں واپس رکھ کرآپ کے سینے(chest) کو پہلے کی طرح کردیاگیا۔پھرآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم براق (یعنی گھوڑے جیسے تیز رفتار(fastest speed) والے جانور )پرسوار ہو کر بیتُ المقدس تشریف لائے ( یعنی دوسرے ملک میں بنی ہوئی” مسجدِ اقصیٰ‘‘ آئے، شروع میں مسلمان اس کی طرف منہ کر کہ نماز پڑھتے تھے۔ مکّہ پاک سے اس مسجد جانے کے لیے تقریباًپندرہ(15) دن کا سفر ہوتا تھا مگر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تھوڑی دیر میں پہنچ گئے) ۔آپ کی سواری ایسی تیز رفتار(fastest speed) تھی کہ جہاں براق کی آخری نظر جاتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا۔بیتُ المقدس پہنچ کر براق کو آپ نے اس جگہ باندھ دیا جس جگہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلاَم اپنی اپنی سواریوں (یعنی جانور وغیرہ)کو باندھا کرتے تھے پھرآپ نےتمام انبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلاَم کو جو وہاں موجود تھے دو(2) رکعت نمازنفل جماعت سے پڑھائی۔ (تفسیر روح البیان جلد ۵ ص ۱۱۲ملخصا) پھرحضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلاَم آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ساتھ لے کر آسمان کی طرف چلے ۔ پہلے(1st ) آسمان میں حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم سے، دوسرے (2nd )آسمان میں حضرت یحییٰ عَلَیْہِ السَّلاَم اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم سےملاقاتیں ہوئیں اور کچھ باتیں بھی ہوئی ۔تیسرے(3rd )آسمان میں حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلاَم ،چوتھے(4th ) آسمان میں حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلاَم اورپانچویں (5th )آسمان میں حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلاَم اورچھٹے(6th ) آسمان میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم ملےاور ساتویں(7th ) آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلاَم سے ملاقات ہوئی۔ملاقات میں ہر نبی عَلَیْہِ السَّلاَم نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ” خوش آمدید!(یعنی welcome) اے نیک نبی “کہہ کر آپ کا استقبال کیا۔ پھر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو جنّت کی سیر کرائی گئی۔اس کے بعد آپ سدرَۃ ُالْمُنتہَیٰ پر پہنچے(یہ آسمانی دنیا کا آخری کوناend) ہے)۔ یہاں پہنچ کر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلاَم یہ کہہ کر رُک گئے کہ اب اس سے آگے میں نہیں جا سکتا۔پھر عرش پر پہنچنے کے لیےآپ نے اکیلے(alone)سفر کیا۔معراج کی رات آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےاپنے سر کی آنکھوں سےاللہ پاک کا دیدار کیا (یعنی اللہ پاک کو دیکھا)اور بغیر کسی واسطہ کے(یعنی فرشتے وغیرہ کے بغیر ) اللہ پاک کا کلام سنا۔ (بہارشریعت ج۱، ص۶۷مُلخصاً) اس سچے واقعے سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمار ےپیارے آقا حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا اللہ پاک کی بارگاہ میں ایسابڑا مقام اور مرتبہ(rank) ہے جیسا کسی مخلوق(creatures) کا نہیں ،ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اللہ پاک نے وہ انعامات(rewards) دیے ہیں کہ جو کسی نبی عَلَیْہِ السَّلاَم تک کو نہیں دیے،جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو رات کے کچھ حصّے میں بیتُ المقدس ساتوں آسمان ،عرش الٰہی ، جنّت کی سیر کرائی اوربہت سی نشانیاں (signs)آپ کو دکھائیں ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہاللہ پاک نے ہمارے پیارےنبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اپنا دیدار (sight) خود بلا کرکرایا جس کے لیے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم اللہ پاک کی بارگاہ میں گزارش (یعنی عرض) کرتے رہے لیکن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کو اللہ پاک کا دیدار نہیں ہوا ۔ زندگی میں اللہ پاک کا جاگتے ہوئے دیدار صرف ہمارے آخری نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ہوااورقیامت تک کسی کو نہیں ہو سکتا۔ہاں! جنّت میں جانے کے بعد سب جنّتیوں کو ہوگا۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلاَم میں ہمارے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا سب سے بڑا مرتبہ (rank)ہے کہ معراج کی رات بیتُ المقد س میں آپ نے انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَم کی امامت فرمائی ۔

194 (b)’’اس رات میں اورکیا ہوا؟‘‘

اس رات اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو بے شمار انعامات(rewards) دیے، جن میں تین(3) خاص انعامات وہ دیئے گئے جن کی عظمتوں (اور اہمیّت (importance))کو اللہ پاک اور رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے علاوہ کوئی اور (صحیح طرح)نہیں جانتا:(۱) سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں (۲) یہ خوشخبری (good news)کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اُمّت کا ہر وہ شخص جس نے شرک( ) نہ کیا ہو بخش دیاجائے گا(یعنی بالاخر جنّت میں چلا جائے گا)۔ (۳) اُمّت پر پچاس(50) وقت کی نماز۔ (اللہ ولوں کی باتیں ج۵، ص۳۴مُلخصاً) جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کی طرف سے دیئے گئےتحفے(gifts) لے کر واپس آئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم نےآپ سے عرض کیا:کہ آپ کی اُمّت پچاس(50) نمازیں نہیں پڑھ سکے گی لہٰذا آپ واپس جائیں اور اللہ پاک سےکم کروائیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کےمشورہ سے چند بار آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کی بارگاہ میں آتے جاتے اورعرض کرتے رہے یہاں تک کہ صرف پانچ(5) وقت کی نمازیں رہ گئیں اور اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے فرمایا: کہ میراقول(یعنی اللہ پاک کا فرمان) بدل نہیں سکتا۔اےمحبوب! آپ کی اُمّت کےلیے یہ پانچ (5)نمازیں بھی پچاس(50) ہوں گی(یعنی نمازیں تو پانچ (5)پڑھیں گے مگر میں پچاس(50) نمازوں کاثواب دونگا)۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کی نشانیاں، دیکھ کر آسمان سےزمین پر تشریف لائےاور بیتُ المقدس سے براق پر بیٹھ کر مکّہ شریف واپس آ گئے۔مکّے شریف پہنچ کر جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے معراج کا واقعہ قریش کے لوگوں کو سنایا تو وہ بہت حیران ہوئے(کہ رات کے کچھ حصّے میں بیتُ المقدس ،آسمانوں اورعرشِ الہی کی سیر کس طرح ہوسکتی ہے اس میں تو کئی سال لگ جائیں گے ) اور بعض لوگوں نے آپ کو جھوٹا کہا اوربعض لوگوں نےامتحان کے طور پر بیتُ المقدس اور راستے کے بارے میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے بہت سے سوالات کیے اور ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ا ن کے تمام سوالات کے جوابات صحیح صحیح بتا دیے (یہاں تک کے اعتراض (یعنی اُلٹے سیدھے سوالات)کرنے والے خاموش ہوگئے )۔ (سیرت مصطفی ،ص ۷۳۴، ۷۳۵ملخصا مع بخاری ومسلم ، شفاء جلد۱ ص ۱۸۵ و تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنی اُمّت سے بہت محبت فرماتے ہیں کہ آپ اُمّتیوں کی آسانی کے لیے بار بار اللہ پاک کے پاس حاضر ہوتے رہےاور پچاس (50)نمازوں کی پانچ(5) نمازیں کروادیں ۔ہمیں بھی چاہیے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ملنے والے اس تحفے(gift) کی قدر کریں (value it) اور روزانہ پانچوں نمازیں ادا کریں۔

195 ’’پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پیاری شان‘‘

حاضر و ناظر:
اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو حاضر و ناظر بنایا ہے حاضِر و ناظِر ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت سے کسی مخلوق(creature) کا ایک ہی جگہ رہ کر تمام کائنات(یعنی زمین و آسمان وغیرہ) کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی (palm of the hand)کی طرح دیکھنا، قریب اور دُور کی آوازیں سُننا، ایک لمحے(secound) میں تمام کائنات (universe)کا چکر(revolving) لگا لینا اور اگر کوئی بہت دور بھی ہوتب بھی اس کا مسئلہ حل کر دینا چاہے یہ جانا رُوحانی طور پر ہو یا مبارک جسم کے ساتھ (جاء الحق،ص ۱۱۶ماخوذاً)سمجھنے کے لیے ایک مثال یہ ہے کہ سورج اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر ہے لیکن اپنی روشنی کے ساتھ زمین میں ہر جگہ موجود ہے ۔میرے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شان اس سے بہت بڑھ کر ہے کہ اپنے ظاہری جسم کے ساتھ مدینے شریف میں موجود ہیں لیکن اللہ پاک کی عطاسےساری کائنات (universe)کو دیکھ رہے ہیں اور ہم پر کرم فرما رہے ہیںحاضر وناظر کا یہ مطلب نہیں کہحُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ظاہری جسم کے ساتھ ہر ہر جگہ موجود ہیں بلکہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جب چاہیں ، جہاں چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں یہاں تک کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ جگہوں پر بھی تشریف لے جا سکتے ہیں۔(من عقائد اہل السنۃ، ص ۳۱۸ماخوذاً) اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت سے روح نکالنے والے فرشتے ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَامایک ہی وقت دنیا میں مختلف جگہوں پر رہنے والوں کی روح،اُن کے جسموں سے نکال سکتے ہیں، قبر میں سوالات کرنے والے فرشتے منکر نکیرعَلَیْہِمَاالسَّلَام ایک ہی وقت میں کئی لوگوں سے سوالاتِ قبر کر سکتے ہیں تو اللہ پاک کی عطا سے ،اس کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم حاضر وناظر کیوں نہیں ہو سکتے؟

196’’اونٹ رونے لگا ‘‘

ایک بار حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک آدمی کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ(camel)کھڑا ہوا زور زور سے آواز نکالنے لگااور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو گئے ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے قریب جا کر اس کے سرپر اپنامحبّت بھر ا ہاتھ پھیرا تو وہ بالکل خاموش ہوگیا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے لوگوں سے پوچھا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ لوگوں نے ایک آدمی کا نام بتایا،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فوراً اُسے بلوایا اور فرمایا کہ تم ان جانوروں پر رحم کیا کرو ۔تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ کام لے کر اس کو تکلیف دیتے ہو۔(شرح الزرقانی علی المواھب ، ج ۶،ص ۵۴۳ مُلخصاً)یعنی اُس آدمی کو سمجھا دیا کہ اِسے کھانے کو پورا دے اور کام کم لے۔ ایک بار حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک آدمی کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ(camel)کھڑا ہوا زور زور سے آواز نکالنے لگااور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو گئے ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے قریب جا کر اس کے سرپر اپنامحبّت بھر ا ہاتھ پھیرا تو وہ بالکل خاموش ہوگیا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے لوگوں سے پوچھا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ لوگوں نے ایک آدمی کا نام بتایا،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فوراً اُسے بلوایا اور فرمایا کہ تم ان جانوروں پر رحم کیا کرو ۔تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ کام لے کر اس کو تکلیف دیتے ہو۔(شرح الزرقانی علی المواھب ، ج ۶،ص ۵۴۳ مُلخصاً)یعنی اُس آدمی کو سمجھا دیا کہ اِسے کھانے کو پورا دے اور کام کم لے۔

197 ’’نُور کا کِھلونا(Toy) ‘‘

حضرتعبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہ (جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چچا اور جنّتی صحابی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کی:’’ یارَسُولَ اللہ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )! مجھے توآپ کے نبی ہونے کی نشانیوں (signs)نے اسلام کی طرف بُلایا، میں نے دیکھا کہ (بچپن(childhood) میں )آپ جُھولے میں چاند سے باتیں کرتے اوراپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ (hint)فرماتے تو جس طرف آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اشارہ فرماتے چاند اس طرف جُھک جاتا۔ حُضُور پُر نُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں چاندسے باتیں کرتاتھااور چاندمجھ سے باتیں کرتاتھا او ر وہ مجھے رونے سے روکتاتھااورجب چاند اللہ پاک کے عرش ( )کے نیچے سجدہ کرتا، اس وقت میں اُس کی تَسْبِیْح کرنے( یعنی اللہ کریم کی پاکی بیان کرنے) کی آواز سنا کرتاتھا۔(الخصائص الکبرٰی ج ۱،ص ۹۱مُلخصاً) چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں (مہد یعنی جھولا) کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمارے آقا مکی مدنی مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کواللہ پاک نے کیسی طاقت عطا فرمائی تھی کہ آپ بچپن میں اِشارے سے چاند کو جس طرف چاہتے لے جاتے تھے ۔جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا اور آپ کی عمر تقریباًاڑتالیس(48) سال ہوگئی تو مکّے کے کافروں نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے چاند کو دوٹکڑے کر کے دکھانے کا کہا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اِشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر کے دِکھا دیا۔ (مدارج النبوۃ ،ج۱،ص۱۸۱مُلخصاً)(نُور کا کھلونا ص ۶ تا ۷مُلخصاً)

198 ’’قرآن و حدیث اورحاضر و ناظر نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ‘‘

قرآنِ پاک اور حاضر و ناظر :
یٰۤاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ۲،الفتح، آیت۲۶)

ترجمہ (Translation) : اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں(شاہد) گواہ (بنا کر بھیجا)اور خوشخبری(good news) دینے والا اور ڈر سنانے والا۔ (ترجمہ کنز العرفان) علماء فرماتے ہیں: شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر( صراط الجنان ج۸،ص۵۲) ترجمہ (Translation) :اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین اُمّت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ (شاہد)ہوں ۔(پ۲،البقرۃ، آیت ۱۴۳) (ترجمہ کنز العرفان) علماء فرماتے ہیں: رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کے کرم سے نور نبوت سے ہر شخص کے حال(condition) ، اس کے ایمان (faith)اور اُس کے اچھے بُرے اعمال اور دل میں موجود اخلاص (یعنی اللہ پاک کو خوش کرنے کی نیّتوں)وغیرہ،سب چیزوں کوجانتے ہیں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳،ج ۱ ،ص ۲۴۸ماخوذاً) (خزائن العرفان)

احادیثِ مبارکہ اور حاضر و ناظر :
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:بے شک اللہ پاک نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں (یعنی تمام اطراف، sides) کو دیکھ لیا۔(مسلم، ص۱۱۸۲، حدیث: ۷۲۵۸) حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:اللہ پاک نے میرے سامنے دنیا کو حاضر کیا، میں دنیا اور اس میں پیش آنے والے قِیامت تک کے واقعات کو اپنی اس ہتھیلی(palm) کی طرح دیکھ رہا ہوں۔(مجمع الزوائد، ج۸،ص۵۱۰، حدیث:۱۴۰۶۷)

199’’سورج واپس آگیا ‘‘

ایک مرتبہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کہیں دور سے آ رہے تھے، راستے میں عصر کا وقت ہو گیا، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے عصر کی نماز پڑھی ، اس کے بعد حضرت على رَضِیَ اللہُ عَنْہکےگھٹنے(knee) پر اپناپیاراسررکھ کر لیٹ گئے اور نیند آگئی۔ حضرت علیرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی ،اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ عصر کی نماز کا وقت ختم ہورہا ہے، مگر ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر میں اپنا پاؤں ہٹاتا ہوں تو کہیں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری نیند خراب(disturb) نہ ہوجائے، اس لیے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے سر کونہ ہٹایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا(اور نماز کا وقت ختم ہو گیا) جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری آنکھ کُھلی تو حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنی نماز نہ پڑھنے کی بات بتائی۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی تو سورج واپس آگیا اورحضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نماز عصر ادا کی پھر سورج ڈوب ( sun set ہو) گیا۔ (معجم كبير،۲۴/۱۴۵،حدیث:۳۸۲،الشفا،۱/۲۸۴) اس حدیث شریف سےپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بھی معلوم ہوئی کہاللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ایسی طاقت دی ہے کہ چاہیں توسورج کو واپس بُلا لیں۔

200 ’’پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ہرنی کی مدد فرمائی‘‘

حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہيں کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میدان ميں تھےکہ کسی نے پکارا :’’يا رسول اللہ ( صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) !‘‘ آپ نے اس طرف توجّہ (attention)کی لیکن کوئی نظر نہ آيا، پھر توجہ فرمائی تو ايک ہرنی (female deer) جال ميں بندھی ہوئی تھی(tied to a net) اس نےعرض کی:يارسول اللہ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم)!ميرےقر يب تشريف لائيے۔آپ اس کےقر يب ہو گئےاور پوچھا :تجھے کيا کام ہے؟اس نےعرض کی: اس پہاڑ پر ميرے دو(2)بچے ہيں،آپ مجھے کھول دیں تا کہ ميں انہيں دودھ پلا کر آپ کےپاس واپس آجاؤں۔آپ نے اس سے فرمايا : کيا تم ايسا ہی کرو گی؟اس نے عرض کی: اگر ميں ايسا نہ کروں تو اللہ پاک مجھے وہی عذاب(punishment) دے جوظلماً ٹيکس لينے والوں کو دے گا۔تو آپ نے اسےکھول ديا، وہ چلی گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس بھی آگئی۔آپ نے اسے دوبارہ باندھ ديا،شکاری یہ سب دیکھ رہا تھا اور وہ یہ سب دیکھ کر بہت متاثر(impressed) ہوا اور عرض کی:يا رسولاللہ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )!آپ کا میرے لیے کیا حکم ہے؟آپ نے فرمايا: اسے آزاد کردو تو شکاری نے ہرنی کوکھول ديااور وہ دوڑکرجاتے ہوئے پڑھ رہی تھی: اَشْھَدُاَنْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَنَّکَ رَسُوْلُ اللہِ ۔ ترجمہ:میں گو اہی دیتی ہو ں کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبو د نہیں اورآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ کے رسول ہیں۔ (المعجم الکبیر،الحدیث:۷۶۳،ج۲۳،ص۳۳۱، مُلخصاً) اس حکایت اورسچے واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ جانور بھی نبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اطاعت (obedience) کرتے اورآپ کا حکم مانتےہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ جانور اپنے کاموں کےلیےنبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےمدد بھی مانگتے ہیں اورآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ان کی مشکلات دور بھی فرماتے ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم كی تعلیم (teaching) جانوروں پر ظلم کرنا نہیں بلکہ جانوروں پر رحم کرنا ہے۔

201 ’’ ہم غریبوں کے مددگار آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ‘‘

اللہ پاک کے علاوہ حقیقی طور پر،ذاتی طور پر(یعنی خود اپنی طاقت سے) کوئی مخلوق(creature) ، کسی کی مدد نہیں کر سکتی۔مخلوق کتنی ہی عزّت والی (honorable)ہو، بزرگ ہو لیکن اللہ پاک کی محتاج ہے(یعنی اُسےاللہ پاک کی مدد کی ضرورت ہے ) اللہ پاک نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اس سے یوں دعا کریں :اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ(۴) (پ۱، سورۃ الفاتحہ ،آیت ۴) ترجمہ (Translation) : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں(ترجمہ کنز العرفان) یعنی اے اللہ ! حقیقی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے اورتیری اجازت اورمرضی کے بغیر کوئی بھی شخص کسی اورکی ،کسی طرح کی مدد نہیں کر سکتا۔ مدد ظاہری ہو(مثلاً کسی کو کھانے کے لیے کچھ دینا ) یا مددباطنی ہو(مثلاًکسی کے وسوسے دور کر دینا)، یا مددجسمانی ہو(مثلاً جسم پر لگی ہوئی چوٹ صحیح کر دینا) یا مدد روحانی ہو(مثلاً کسی کوجنّات وغیرہ سے بچالینا)، یعنی چھوٹی بڑی کسی طرح کی مدد اللہ پاک کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا۔(صراط الجنان۱/۴۶مُلخصاً) جو بھی کسی طرح کی مدد کرتا ہے وہ اللہ کی دی ہوئی طاقت سے کرتا ہے ہر انسان دوسرے سے مدد لیتا ہی ہے۔ پیدا ہونے سے موت تک د وسروں سے مدد کی ضرورت ہر ایک شخص کو ہوتی ہے، ہر مسجد اور مدرسہ چندے کی صورت میں ملنے والی مدد سے ہی چلتا ہے مگر یہ سب حقیقی مدد نہیں حقیقی مدد کا مطلب یہ ہے کہ جس سے مدد مانگی جائے اسے ذاتی طور پر یعنی ازخود قادر (قدرت والا، طاقت والا، مدد کرنے والا)سمجھا جائےاوروہ (کہ جو ذاتی طور پر، ازخود، بغیر کسی کی مدد کیے خود مدد کرسکتا ہو، )صرف اورصرف اللہ پاک ہے کہ اُسے کسی کی ضرورت نہیں اگر کوئی شخص کسی بھی مخلوق (creature)کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے(یعنی وہ اِس بات پر یقین(believe) رکھتا ہو)کہ وہ آدمی اللہ پاک کی مدد کے بغیر خود اپنی طرف سے مدد کرنےکی طاقت رکھتا ہے تو یقیناً یہ عقیدہ(belief) یا یہ یقین رکھنا ’’شرک‘‘ ہے مسلمان اللہ پاک کے نیک بندوں کے بارے میں یہ عقیدہ(یا یقین) رکھتے ہیں کہ انبیاءِ کرام(عَلَیْہِمُ السَّلَام) اور اولیا ءِ کرام(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) ، اللہ پاک تک پہنچنے کے لئے واسطہ، وسیلہ ہیں(یعنی ان کی وجہ سے اللہ پاک ہم پر رحمت فرمائے گا،دنیا میں ہمارے مسائل حل فرمائے گا اور آخرت میں جنّت میں داخل فرمائے گا) (فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۳۰۴-۳۰۵، ماخوذاً) مدد ظاہری ہو، کرنے والا زندہ ہو مگر حقیقی طور پر مدد فرمانے والاصرف اللہ پاک ہے۔ڈاکٹر بھی اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت اور صلاحیت (ability)سے مدد کرتا ہے۔ہم دواء کھاتے ہیں لیکناللہ پاک ہی شفاء دیتا ہے۔ اسی طرح اولیائے کرام روحانی طور پر دنیا سے پردہ فرمانے کے بعدبھی اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت سے مدد فرماتے ہیں، یہ مدد ’’عطائی‘‘ ہے، ’’ذاتی اور حقیقی ‘‘ نہیں انتقال کے بعد زندگی کے بارے میں اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور (یعنی سمجھ)نہیں(ترجمہ کنز العرفان) (پ۲،سورۃ البقرۃ، آیت۱۵۴) اللہ پاک نے وسیلہ(واسطہ) ڈھونڈنے کا حکم فرمایا، ترجمہ (Translation) : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو(ترجمہ کنز العرفان)(پ۶، مائدہ: ۳۵) اللہ کریم کی شان بہت بڑی ہے اور وہ گناہ گاروں پر بہت کرم فرمانے والا ہے،قرآنِ پاک میں فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول(accept) کرنے والا مہربان پائیں (ترجمہ کنز الایمان ) (پ۵،النساء: ۶۴)اعلی حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: کیا ا اللہ پاک خود معاف نہیں فرماسکتا تھا، بے شک وہ معاف کر سکتا ہے پھر یہ کیوں فرمایا کہ نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس حاضر ہواور اللہ پاک کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک سے ہماری سفارش کریں تو ہمیں معافی ملے گی۔ یہی بات سمجھنے والی ہے کہ اللہ پاک ہی نے ہمیں انبیاءِ کرام(عَلَیْہِمُ السَّلَام) اور اولیا ءِ کرام(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کے پاس جانے کا فرمایا۔فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۳۰۴-۳۰۵، ماخوذاً) ایک نابینا صحابی (کہ جن کی آنکھیں نہیں تھیں) کووسیلے کے الفاظ خود حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے بتائے، انہیں حکم فرمایا کہ وُضو کرئیں اوراچّھا وُضو کرئیں اور دو(2) رَکْعَت نَماز پڑھ کر یہ دُعا کریں:اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ اَتَوَسَّلُ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِط یَامُحَمَّدُ ۱ ِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ ط اللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیّ ط اے اللہ میں تجھ سے سُوال کرتا ہوں اور وسیلہ (یعنی صَدَقَہ)پیش کرتا ہوں تیرے نبی محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا جو نبیِّ رَحمت ہیں اور تیری طرف توجّہ (attention)کرتا ہوں ۔ یَامُحَمَّد( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم)!میں آپ کے ذَرِیعے سے اپنے ربّ کی طرف اپنی ضرورت پیش کرتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو۔یا اللہ! ان کی شَفاعت میرے حق میں قَبول(accept) فرما۔حضرت عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں :خدا پاک کی قسم ! ہم اُٹھنے بھی نہ پائے تھے ،باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہ ہمارے پاس آئے گویا کبھی نابینا (blind) ہی نہیں تھے!( ابنِ ماجہ ج ۲ ص ۱۵۶ حدیث ۱۳۸۵،تِرمذی ج۵ص۳۳۶حدیث۳۵۸۹،اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج ۹ ص ۳۰ حدیث ۸۳۱۱)نوٹ:پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے اس دعا میں ’’یَا محمد‘‘(صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم) کے الفاظ بتائیں ہیں مگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ نےقرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ادب سکھایا ہے کہ ہم یَا رَسُوْلَ اللہ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم) کہیں گے۔( فتاویٰ رضویہ ج ۳۰ ص۱۵۶،۱۵۷ ماخوذاً)

202’’سانپ کا زہر ختم ہو گیا ‘‘

جب مکّے شریف سے مدینے پاک جانے کا حکم ہوا تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اورحضرت ِابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ دونوں، ایک ساتھ جانے لگے۔ راستے میں جب ایک غار (cave)کےقریب پہنچے تو پہلے صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ اندر گئے اور صفائی کی، غار کے تمام سوراخوں(holes) کو بند کیا، ایک سوراخ کو بند کرنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو آپ نے اپنے پاؤں کا انگوٹھا رکھ کر اس کو بند کیا، پھر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بلایا اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آئے اور حضرتِ ابو بکررَضِیَ اللہُ عَنْہ کے گھٹنے(knee) سے اوپر سر رکھ کر سوگئے۔ کچھ دیر بعد ایک سانپ، اُس سوراخ(hole) پر آیا جہاں صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے پاؤں کا انگوٹھا تھا اور اُس نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو کاٹ لیا، آپ کوبہت تکلیف ہوئی مگر ذہن میں یہ بات آئی کہ کہیں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری نیند خراب(disturb) نہ ہوجائے، اس لیے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےپیارے سر کونہ ہٹایا۔ جب بہت تکلیف ہوئی تو آنکھوں سے آنسو نکل آئے، جب وہ آنسو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے پیارےچہرے پر گرے تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جاگ گئے پھر ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ساری بات بتا دی ، حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُن کے پاؤں پر اپنا لُعاب (یعنی تھوک شریف) لگادیا جس کی برکت سے انہیں فوراً آرام آ گیا۔(مدارج النبوت،ج۲،ص۵۸،تفسیر خازن،ج۲،ص۲۴۰،بہار شریعت،ج۱،ص۷۵،حصہ۱) اس حدیثِ پاک سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت فرماتے تھے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے خوب محبت کریں اورآپ کی سنّتوں پر چلیں۔

203 ’’لکڑی تلوار بن گئی ‘‘

حضرت عَبْدُاللہرَضِیَ اللہُ عَنْہ کی تلوار(sword) ایک جنگ میں ٹوٹ گئی تھی تو ان کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایک کھجور کی شاخ(branch) دے کر فرمایا کہ ” تم اس سے لڑو“وہ لکڑی حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ہاتھ میں آتے ہی ایک بہترین تلوار(sword) بن گئی۔ (مدارج النبوت ، قسم سوم ،باب چھارم ،ج۲، ص ۱۲۳ملخصاً) اس حدیثِ مُبارک سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ جو چاہیں، جیسا چاہیں کر سکتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنےقصیدے(یعنی اپنی لکھی ہوئی نعت)میں پیارے آقا ، مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کرتے ہیں:’’اے تمام مخلوق(creatures) میں سب سے بڑے بزرگ، اللہ پاک نے اپنی نعمت کے خزانے(treasures) میں سے جو آپ کودیا ہے ،اس میں سے آپ مجھے بھی دیجئے اور اللہ پاک نے آپ کو خوش کیا ہے، آپ مجھے بھی خوش فرمادیجئے۔میں آپ کی سخاوت (یعنی غریبوں کو دینے) اور عطا کی اُمید (hope)رکھتا ہوں(یعنی آپ مجھے دین و دنیا کی نعمتیں دیں ) آپ کے سواابوحنیفہ (نعمان)کا مخلوق (creatures) میں کوئی نہیں۔( اخبار ابی حنیفہہ و اصحابہ ص ۸۹، مطبوعہ کراچی) اورامام شرف الدین رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنےقصیدے(یعنی اپنی لکھی ہوئی نعت)میں پیارے آقا ، مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کرتے ہیں:’’اے تمام مخلوق سے بہتر میرا (ساری دنیا یعنی مخلوق میں) آپ کے علاوہ کوئی نہیں

204 ’’قرآن و حدیث اور مدد ‘‘

قرآنِ پاک اور مدد :
ترجمہ (Translation) : تو بیشک اللّٰہ خود ان کا مددگار (یعنی مدد کرنے والا)ہے اور جبریل(عَلَیْہِ السَّلَام) اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مددگار(یعنی مدد کرنے والے) ہیں (ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۸،التحریم: ۴) ترجمہ (Translation) : اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا(یعنی تم دینِ اسلام پر رہو گے(خازن ماخوذاً))(ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۶، سورۃ محمد، آیت :۷) ترجمہ (Translation) :اور صبر اور نماز سے مددحاصل کرو(ترجمہ کنز العرفان) (پ۱، البقرۃ، آیت :۴۵) ترجمہ (Translation) : تو بیشک اللہ تمہیں کافی (enough)ہے۔وہی ہے جس نے اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعے تمہاری تائید(یعنی مدد) فرمائی(ترجمہ کنز العرفان) (پ۱۰،الانفال: ۶۴)
احادیثِ مبارکہ اور نیک لوگوں سے مدد :
میرے رَحْم دل اُمّتیوں سے حاجتیں(یعنی ضرورتیں) مانگو رزْق پاؤگے۔(الجامع الصغیر للسیوطی ص۷۲ حدیث ۱۱۰۶) بھلائی اوراپنی حاجتیں اچّھے چِہرے والوں سے مانگو۔(المعجم الکبیر للطبرانی ج۱۱ص۶۷حدیث۱۱۱۱۰ ) حدیثِ قدسی ہے(یعنی نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ، اللہ پاک کا فرمان سناتےہیں) کہ: فَضْل(بھلائی) میرے رَحْم دل بندوں سے مانگو، ان کے دامن میں آرام سے رہوگے کہ میں نے اپنی رحمت ان میں رکھی ہے ۔ (مسندُ الشّہاب ج۱ ص۴۰۶ حدیث۷۰۰) حضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے جنّت مانگی ( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحثّ علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶،۴۸۹ماخوذاً)
مدد کے تعلق سے مزید:
’’جب مدد لینا چاہے تو کہہ: اے اﷲ کے بندو! میری مد د کرو،اے اﷲ کے بندو! میری مدد کرو، اے اﷲ کے بندو! میری مدد کرو۔‘‘(الحصن الحصین للجزری ص۲ ۲مطبوعہ مصر) علامہ علی قاری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ: بندوں سے مراد یا تو فرشتے یا مسلمان یا جن یا ابدال( اولیاء کرام کی خاص قسم کا نام ) ہیں (کہ جن سے مدد مانگنے کا فرمایا گیا ہے)۔ (الحرزالثمین شرح حصن حصین ص ۲۰۲ مطبوعہ عرب شریف) مصیبت دور کرنے کے لئے مخلوق(creatures) سے مدد لینا جائز ہے۔ (تفسیر کبیروروح البیان وخازن پ۱۲،سورۃ یوسف،آیت ۴۲)