’’ دین کی ضروری باتیں ‘‘(part 04_D)

262 ’’مجھے پسند نہیں‘‘

امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے شاگرد امام ابو یوسف حنفی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ قاضی القُضاۃ (chief Justice)، علماء کے استاد اور بہت بڑے اِمام تھے۔(تاریخ ِبغداد،ج ۱۴،ص۲۴۷-۲۶۳) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے سامنے یہ بات ہوئی کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کدو (pumpkin) پسند فرماتے تھے ،آپ کی محفل میں موجود ایک شخص نے کہا:لیکن مجھے کدو (سبزی )پسند نہیں ہے ۔یہ سن کر حضرت امام ابو یوسف حنفی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت غصّے میں آگئے اور کچھ اس طرح فرمایا : اس بات سے توبہ کرکے کلمہ شریف پڑھو ورنہ تمہیں جان سے مار دونگا۔(الشفاللقاضی، باب الثانی، ج۲،ص۵۱) یاد رہے کہ اس طرح کی سزا (punishment) دینا مسلمان حاکم(ruler) یا قاضی(judge) کا کام ہے۔ اس سچی حکایت سے سیکھنے کوملا کہ سنّت کی بہت زیادہ اہمیّت (importance)ہے نیز کسی بھی دینی چیز کے بارے میں زبان استعمال کرتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک حدیثِ پاک میں یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اولاد آدم مختلف طبقات(different classes) پر پیدا کی گئی ان میں سے بعض مومن پیدا ہوئے ایمان کی حالت(condition) پر زندہ رہے اور مومن ہی مریں گے۔ بعض کافر پیدا ہوئے کُفر کی حالت(condition) پر زندہ رہے اور کافِر ہی مریں گے۔ بعض مومِن پیدا ہوئے مسلمانوں والی زندگی گزاری مگرکُفر کی حالت(condition) پر مریں گے ۔ بعض کافِر پیدا ہوئے ،کافِر زندہ رہے اور(ایمان لا کر) مومِن ہو کرفوت ہونگے (ترمذی،کتاب الفتن، ۴/۸۱ ،حدیث: ۲۱۹۸ )لھذا ہمیں ہر وقت اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ہمارے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے کہ جس سے ہمارا ایمان خراب ہو جائے۔

263 ’’ہم تو اپنے دین میں پکّے ہیں ‘‘

جب دجّال نکلے گا ، کچھ لوگ اس کی حرکتوں کو دیکھنے کے لیے جائیں گے اور آپس میں یہ کہتے ہونگے کہ ہم تو اپنے دین پر مضبوط (strong) ہیں،ہمیں دجّال کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن جب وہاں جائیں گے تودجاّل پر ایمان لے آئیں گے (اور کافر ہو جائیں گے)۔ (سُنَنِ ابوداو،دج۴ ص۱۵۷حدیث ۴۳۱۹ مُلخصاً)حدیث میں فرمایاکہ: شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح تَیرتا(circulating کرتا) ہے (سنن ابی داؤد ،کتاب السنۃ ،الحدیث۴۷۱۹ ، ص۱۵۷۰) ۔ دل کو’”قَلْب “اِسی وجہ سے کہتے ہیں کہ لَوٹ پَوٹ( اُلٹ پلٹ) ہوتا رہتا ہے ۔ اللہ پاک ہی کے کرم سے کوئی ایمان پر قائم رہ سکتا ہے ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏دل کی مثال (example) اس پر(feather) کی سی ہے جو میدانی زمین میں ہو، جسے ہوائیں ظاہروباطن الٹیں پلٹیں۔(‫ابن ماجه ، کتاب السنة ، ۱ / ۶۸ ، حدیث : ۸۸ مُلخصاً) اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اورتم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے (یعنی پھر جائے، دین چھوڑ دے)پھر کافر ہی مرجائےتوان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئےاور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ ۲،البقرۃ، ۲۱۷)‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

ایماں پہ ربِّ رحمت، دیدے تو استِقامت ‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

دیتا ہوں واسِطہ میں تجھ کو تِرے نبی کا ‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

ہونے والے اس سچے واقعےسے معلوم ہوا کہ انسان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ میں کس حالت (condition)میں مروں گا؟ یعنی اگر میں مسلمان ہوں تو کیا مرتے وقت تک مسلمان ہی رہونگا۔ ہمیں اپنے آپ کو ہر گناہ سے بچانا چاہیے اور آسانی کے ساتھ اسلام پر مرنے کی دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے۔یاد رہے! ایک گناہ بھی جہنمّ میں جانے کا سبب بن سکتا ہے(فتاوی رضویہ جلد۲۲،ص۱۲۹ ماخوذاً) اور گناہ کُفر کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں(الزواجر ج،۱ص۲۸) ۔ ‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

264 ’’ایمان اور کفر کے بارے میں چند ضروری باتیں‘‘

ایمان :
’’اِیمان‘‘ سے مراد یہ ہے کہ سچےّ دل سے اُن تمام باتوں کو مانا جائے جو ’’ضروریاتِ دین‘‘ ہیں ’’ضروریاتِ دین‘‘ سے مراد دین کے وہ مسائل ہیں جن کو ہر خاص و عام(special n common people) ا یسے مسلمان جا نتے ہوں جو عُلَمائے کِرام کے پاس آتے جاتےہوں اور دین سیکھنے کا شوق رکھتے ہوں۔ جیسے: () اللہ پاک کا ایک ہونا () انسانوں کی رہنمائی (guidance)کے لیے نبیوں(عَلَیْہِمُ السَّلَام )کا آنا ()پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا آخِری نبی ہونا () جنّت و دوزخ کا ہونا () قیامت اور حساب و کتاب ( )کا ہونا وغیرہ دور دراز کے علاقوں یا جنگلوں اور پہاڑوں میں رہنے والے وہ لوگ جن کو کلمہ بھی صحیح سے نہ آتا ہو اور نہ ہی وہ دین کی ضروری باتوں کو جانتے ہیں ، اُن کے مسلمان ہونے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ ضروریاتِ دین میں کسی بھی چیز کا انکار(denial) نہ کرتے ہوں اور یہ عقیدہ(belief) رکھتے ہوں کہ اِسلام میں جو کچھ ہے ،سب حق اور سچ ہے۔ (بہار شریعت،ح۱،ص ۱۷۲،ا۷۳مُلخصاً)
ایمان کی ایک اور تعریف(definition):
وہ تمام باتیں جو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،اللّٰہ پاک کی طرف سے لائے اور جن کے بارےمیں یقینی طور پرمعلوم ہے کہ یہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دین سے ہیں ان سب کو سچے دل سے یقین(believe) کے ساتھ ماننا ایمان کہلاتاہے۔(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنّت ص۵۰تا ۴۹ مُلخصاً))ایسے شخص کو مسلمان سمجھیں گے جب تک اس کی کسی بات یا کام یا حالت (condition)سے اللہ پاک یا رسول ِ پاک ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )کا انکار(denial) یا توہین(insult) نہ پائی جائے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۹، ص ۲۵۴، مُلخصاً) مسلمان کو مسلمان یا کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین میں سے(یعنی بہت زیادہ ضروری) ہے مسلمان ہونے کے لئے یہ شرط (condition) ہے کہ زبان بلکہ اپنے کسی بھی فعل(یعنی کام) سے کسی ایک بھی ایسی چیز کا انکار (denial) نہ کرے جو ضروریاتِ دین سے تعلّق رکھتی (related)ہو کبیرہ یعنی بڑے گناہ کرنے والا مسلمان ہی رہتا ہے اور جنّت میں بھی جائے گا۔ چاہے اللہ پاک اپنے فضل اور کرم سے اُسے بخش(یعنی گناہ مُعاف کر) دے اور جنّت میں بھیج دے یا پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شفاعت سے اسے جنّت مل جائے یا اپنے بُرے اعمال کی سزا پانے (punishment) کے بعد جنّت میں جانا نصیب ہو۔البتہ گناہ گار مسلمانوں کی ایک تعداد (a number of Muslims)شروع میں جہنّم میں ضرور جائے گی(ہم اللہ پاک سے بلاحساب جنّت میں داخلے کی دعا کرتے ہیں)۔(بہار شریعت،ح۱،ص ۱۸۵،۱۷۳مُلخصاً)
کُفر :
’’ضروریاتِ دین‘‘ میں سے کسی ایک کا یا سب کا انکار(denial) کرنا’’کفر‘‘ ہے وہ کام جو واضح طور پر(یعنی صاف صاف۔clearly) ایمان کے خلاف (against) ہوں ،اُس کام کو کرنے سے انسان اسلام سے نکل جا تا ہے ۔ جیسے: () بُت یا ()چاند یا ()سورج کو سجدہ کرنا یا () کسی بھی نبی کی توہین(insult) کرنا یا() قرآن کریم یا ()کعبہ شریف کی توہین (insult) کرنا یا () کسی سنّت کو ہلکا (یعنی گھٹیا)بتانا یا()زُنّار باندھنا ( یعنی وہ دھاگہ یا ڈوری جو ہندو گلے سے نیچے تک ڈالتے ہیں اور عیسائی(christian)، مجوسی(magus) اور یہودی(jews) کمر پر باندھتے ہیں) یا () قَشْقہ لگانا (یعنی پیشانی (forehead) پر صندل یا زعفران(saffron) کے دو(2) ڈیکے اورنشان لگانا جو ہندو لگاتے ہیں) یا () سر پر چٹیا (وہ چند بال جو بچّے کے سر پر ہندو خاص طریقے (special methods)سے لگاتے ہیں) رکھنا یا() صلیب(cross)لگانا وغیرہجس نے کفر کہا اُس پر لازِم ہوگا کہ سچّی توبہ کرے(یعنی ایسی توبہ کرے جس طرح توبہ کرنے کا حکم ہے۔ مثلاً سو(100) لوگوں کے سامنے کفر کیا، تو اُن سو(100) کے سامنے توبہ کرے یا اُن سو(100) تک اپنی توبہ کر لینے کا پیغام (message)پہنچائے)اور دوبارہ (again)کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو )البتہ پوری کوشش کے باوجود کسی کو اطلاع(information) نہ مل سکی مثلا وہ فوت ہو گیا یا اس کا معلوم ہی نہیں کہ کون تھا ، اب کہاں ملے گا مگر توبہ کرنے والا اتنے ہی لوگوں کے سامنے توبہ کر چکا تو یہ بھی کافی(enough) ہے (اگر کوئی زبان سے تو کہے کہ میں مسلمان ہوں اور دل میں اِسلام کا انکار (denial) کرے جسے نِفاق بھی کہتے ہیں، یہ بالکل کفر ہے جس شخص نے صاف صاف کفر والا کام کیا ہو اور یقینی طور پر (definitely)کافِر ہو (یعنی علماء کرام نے اُسے کافر کہہ دیا ہو،جیسے:اللہ پاک کو ایک نہ ماننا، کسی نبی کی توہین(insult) کی ہو، حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کا انکار(denial) کیا ہو ) اُس کے کافر ہونے میں شک کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے ایمان اور کفر کے درمیان کوئی چیز نہیں، یعنی آدَمی مسلمان ہوگا یا کافر، تیسری کوئی صورت نہیں ہوسکتی یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ نہ مسلمان ہو اور نہ ہی کافر جس شخص کو اپنے ایمان میں شک ہو یعنی کہتاہے کہ مجھے اپنے مومن ہونے کا یقین (believe) نہیں یا کہتا ہے معلوم نہیں میں مومن ہوں یا کافر تووہ کافر ہی ہے ۔ہاں اگر اُس کے کہنےکا یہ مطلب ہو کہ مجھے معلوم نہیں میرا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا نہیں(یعنی میں مسلمان مرونگا یا کافر) تو اب وہ کافر نہیں۔ جو شخص ایمان و کفر کو ایک سمجھے یعنی کہتا ہے کہ سب ٹھیک ہے خدا کو سب پسند ہے وہ کافر ہے۔ یوہیں جو شخص ایمان پر راضی نہیں یا کفر پر راضی (اور خوش)ہے تووہ بھی کافر ہے۔(بہار شریعت،ح۹،ص ۴۵۴ تا ۴۶۱، مُلخصاً)
اَکراہِ شرعی :
اگر کوئی یہ دھمکی (threat) دے کہ ’’ کُفریّہ بات کہو! یا یہ کُفریّہ کام کرو! ورنہ تمہیں جان سے ماردوں گا یا تمہارے جسم کا کوئی حصّہ(part of body) کاٹ دوں گا‘‘ تو اِس صورت میں اگر یقین (believe)ہے کہ جو دھمکی(threat) دے رہا ہے وہ جیسا کہہ رہا ہے ویسا کر لے گا تو: (1) پہلے ایسی بات یا ایسا کام کرے کہ جس سے سامنے والے کو لگے کہ اس نے میری بات مان لی اور اصل میں اُس شخص نے "کُفر" نہ کیا ہو بلکہ" توریہ" کیا ہو۔ مثلاً اس کو مجبور(force) کیا گیا کہ بت(یا کسی بھی جھوٹے خدا ) کو سجدہ کرے اور اس نے سجدہ تو کیا مگریہ نیّت کی کہ میں اللہ پاک کو سجدہ کرتا ہوں۔ یاد رہے کہ اگر اس شخص کے دل میں" توریہ" کا خیال آیا مگر اُس نے" توریہ" نہ کیا یعنی اللہ پاک کے لیے سجدےکی نیّت نہیں کی تو یہ شخص کافر ہو جائے گا اور اس کی عورت نکاح سے نکل جائے گی۔ (2) اگر اس شخص کو "توریہ" کی طرف دھیان (یعنی توجّہ۔attention)ہی نہ رہی اور بت ہی کو سجدہ کر دیا، لیکن دل میں "کُفر"کا انکار (denial) ہواور دل "ایمان" پر ویسے ہی مضبوط(strong) رہے جیسے پہلے مضبوط تھا۔ یعنی دل میں یہ بات ہو کہ مجبوراً زبان سے کفر کہہ رہا ہوں یا مجبوراً کُفریّہ کام کر رہا ہوں مگرہوں پکّا مسلمان تو اس صورت میں کافر نہیں ہوگا۔ (بہارِ شریعت ح۹، ص ۴۵۶ مع ح۱۵، ص۱۹۲ مُلخصاً) کفر کرنے پر مجبور کیا گیا اور کفر نہ کیا اس وجہ سے قتل کر دیا گیا تو ثواب پائے گا۔( ح۱۵، ص۱۹۲، مسئلہ ۱۷)
حلال و حرام:
جس چیز کا حلال ہونا بہت مضبوط (strong) شرعی دلیل سے ثابت ہو(جسے علماء قطعی حلال کہتے ہیں) اُسے حرام کہنا یا جو چیز یقینی طور پر(definitely) حرام ہو اُسے حلال کہنا کفر ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱۴، ص ۱۴۷، خلاصۃُالفتاوٰی ج۴، ص ۳۸۳ ، ماخوذ اً) اور وہ بات ضروریات دین ( ) کی حد تک ہو ۔(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب ص۴۱۵)
مُرتد:
مسلمان ہونےکے بعد کسی ایسی بات کا انکار(denial) کرنے والاجو ضَرور يا تِ دین سے ہو یعنی زَبان سے ایسی بات کہے جو بالکل کفرہو(یعنی علماءِ کرام اُس بات یا کام کو صاف صاف کُفر کہتے ہوں)۔ یونہی کوئی ایسا کام کرنے والا جس کو کرنے سے انسان کافر ہوجاتا ہو مَثَلاً بُت کو سجدہ کرنے والا یاقراٰن پاک کو ناپاک جگہ پھینک دینے والا” مُرتد“ (یعنی اسلام سے پھرجانے والا) ہے۔ (بہار شریعت ح۹، ص ۱۷۳ مُلخصاً)
نوٹ:
جو بالکل صاف صاف کفر کہے، اُس کا اِسلام ختم ہوجاتا ہے۔
یادرہے:
: کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے اسلام کے خلاف (against) کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔

265 ’’مفتیٔ اعظم ہند اور ایک تقریر کرنے والا ‘‘

کہا جاتا ہے:ایک بار کسی محفل میں اعلیٰ حضرت کے شہزادے(یعنی بیٹے) حُضور مفتیٔ اعظم ہند، محمد مصطَفےٰ رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مَنچ (stage)پر موجود تھے۔ ایک مُقرِّر(speaker) کا بہت زور دار بیان چل رہا تھا اور جوش جوش میں انہوں نے خُفیہ پولیس(secret police) کو کہہ دیا:اگر حُکومت کے کِراماً کاتِبِین موجود ہیں تو وہ بھی لکھ لیں ۔۔۔( کِراماً کاتِبِین عَلَیْہِمَاالسَّلَام وہ دو(2) مُبارک فرشتے ہیں جو انسانوں کے اچھے بُرے کام لکھتے ہیں، اس میں نہ تو کسی قسم کی کمی کرتے ہیں اور نہ اپنی طرف سے کچھ بڑھاتے ہیں ، فرشتوں کی شان بہت بڑی ہے، ان کی توہین (insult)کرنا، کُفر ہے یعنی وہ مُقرِّر خُفیہ پولیس(secret police) کو کِراماً کاتِبِین کہہ گئے جو اُن پاک فرشتوں کی توہین (insult)ہے لھذا)یہ بات سنتے ہی حُضور مفتیٔ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فوراً اُس کو روکا ا ور توبہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس پر مقرِّر صاحب نے فوراً سب کے سامنےتوبہ کر لی۔ (کفریہ کلمات ص۳۰۰ تا۳۰۱ مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ بیان کرنا سُنی عالم ہی کا کام ہے، مُبلغین کو چاہیے کہ سُنی عالم کی کتاب سے دیکھ کر بیان کریں یہ بھی پتا چلا کہبہت زیادہ بولنے اور لوگوں کا دل جیتنے کی کوشش کرنے میں آخرت کا بہت زیادہ نقصان ہے، لھذا ہمیں اس طرح کے کاموں سے بچنا چاہیے۔

266 ’’فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نماز پڑھانے والے کو بھی نہ چھوڑا! ‘‘

قرآن پاک کی معنیٰ بتانے والی تفسیر کی کتاب لکھنے والے امام، حافظ اسماعیل حقّی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (جن کا انتقال چند سو سال پہلے1137ھ میں ہوا)اپنی مشہور تفسیرروحُ البیان میں ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ: حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے زمانے(time) میں ایک امام ہر نماز میں پارہ 30 کی سورت عَبَسَ وَتَوَلّٰیہی پڑھا کرتا تھا(اس سورت میں ہمارے پیارے ربّ نے اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اپنی شان کے مطابق کسی بات کی طرف توجّہ (attention)دلائی ہے )۔ حضرتِ عمر فاروق(رَضِیَ اللہُ عَنْہ) اُس وقت مسلمانوں کے خلیفہ (caliph) تھے ، جب اُن کو یہ بات پتا چلی تو آپ(رَضِیَ اللہُ عَنْہ)نے اُس امام کو بُلا کر قتل کرادیا ، کیونکہ ہرنَماز میں یہ سورت پڑھنے سے آپ کو پتا چل گیا تھا یہ شخص عقیدے(beliefs) کامُنافِق ہے( یعنی زبان سےتو کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور دل میں یہ ہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں) اور اس کے دل میں حُضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نفرت ہے ،اس لئے اِس سورت کو ہرنَماز میں پڑھتا ہے ۔ ( رُوحُ البیان ج ۱۰، ص ۳۳۱) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ مسلمانوں کے امیر یا قاضی کا کام ہے کہ اسلام کی تعلیمات(teachings) پر عمل کرنے کے لیے ہر بڑے سے بڑا کام کیا جائے۔اسی لیے مسلمانوں کے دوسرے (2nd )خلیفہ، امیرالمؤمنین فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے مُنافق کا فیصلہ کر دیا۔ دوسری بات یہ بھی پتا چلی کہ اللہ پاک کا اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو توجّہ (attention)دلانا ایک الگ بات ہے اور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نفرت کی وجہ سے اس طرح کی باتوں کو بیان کرنا، بہت بڑا جرم ہے۔

267 ’’ کفر کی مثالیں‘‘

(1) یہ کہنا کفر ہے:'' اللہ پاک آسمان سے یا عرش ( )سے دیکھ رہا ہے ''(مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ) ۔ (فتاویٰ عالَمگیری ج۲، ص ۲۵۷)کیونکہ اللہ پاک جگہ سے پاک ہے اور وہ اپنے علم اور قدرت کے ساتھ انسان کے بالکل قریب ہے۔

(2) یہ کہنا کفر ہے:'' فُلاں کی حرکتوں سے تو اللہ پاک بھی پریشان ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(3) یہ کہنا کفر ہے:'' فُلاں کو پیدا کرکے تو اللہ پاک بھی پچھتا رہا ہے '' (مَعَاذَاللہ!)

(4) یہ کہنا کفر ہے:''ا ے اللہ !مجھے رِزق دے اور مجھ پر تنگدستی(یعنی غربت وغیرہ) ڈال کر ظلم نہ کر'' (مَعَاذَاللہ!) ۔(فتاویٰ خانیہ ج ۳، ص ۴۶۷ )

(5)اس طرح کہنے پر، کُفر کا حکم ہے:'' اللہ جانتا ہے کہ یہ کام میں نے نہیں کیا حالانکہ (although،کہنے والے شخص کو معلوم ہے کہ)وہ کام اس نے(یعنی میں نے) کیا ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔(منح الروض الازھر لِلقاری ص۵۱۱)

(6)اگر کوئی اعتِراض(objection) کرتے ہوئے یہ کہے تو کافر ہوجائے گا:'' اللہ پاک نے آخِر عَرَبی ہی میں قراٰنِ پاک کیوں نازِل کیا، اُردو یا سندھی یا فُلاں زَبان میں نازِل کرنا چاہئے تھا'' (مَعَاذَاللہ!)۔

(7) اعتِراض (objection) کرتے ہوئے ، یہ کہنا کفر ہے:'' اللہ نے فجر کی نَماز بَہُت جلدی رکھ دی ہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(8) یہ کہنا کفر ہے: ''وہ شخص لوگوں کے ساتھ کچھ بھی کرے اللہ کی طرف سے اُس کوفُل (full )آزادی ہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(9) '' قراٰنِ مجید کی کسی آیت کا مذاق اُڑانا کفر ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (مِنَحُ الرَّوض الازھرللقاری ص۴۵۸)

(10) '' جان بوجھ کر قراٰنِ پاک کو زمین پر پھینکنا کُفر ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (فتاوٰی امجدیہ ج۴،ص۴۴۱)

(11) '' ہنسی مذاق کی نِیّت سے بے موقع آیاتِ قرآنیہ پڑھنا کفر ہے '' (مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ) ۔ (بہارِ شريعت ح۹، ص ۱۸۲)

(12) ایسا شخص کافر ہے: '' جو یہ مانے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد کسی کو نُبُوَّت ملی '' (مَعَاذَاللہ!)۔

(13) ایسا شخص کافر ہے: '' جو اس بات کو جائز سمجھے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد کسی کو نُبُوَّت مل سکتی ہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (بہارِ شریعت ح۱، ص۴۰ ،ماخوذ اً)

(14) '' شیطانِ لعین کا علم نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے علم غیب سے زیادہ ماننا خالِص (اور صاف صاف)کفر ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (ماخوذ ازبہارِ شریعت حص۱، ص۱۲۰)

(15) '' حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے علمِ شریف کو بچّوں، جانوروں اور پاگلوں کے علم کی طرح کہناصریح (یعنی واضح طور پر، صاف صاف) کفر ہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (بہارِ شریعت ح۱،ص۱۲۰،ماخوذاً)

(16) '' رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے کسی عمل(یعنی کام) مَثَلاً عمامہ باندھنے یا شملہ(جو عمامے کے پیچھے سر سے کمر تک ہوتا ہے) لٹکانے وغیرہ کی توہین (insult) کفر ہے جب کہ سنّت کی توہین مقصود (یعنی نیّت)ہو'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (بہارِ شریعت ح۹، ص۱۸۱ماخوذ ا)

(17) '' حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے کی بَشَرِیَّت کا مُطَلْقاً انکار(denial یعنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو انسان ہی نہ ماننا) کفر ہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۴، ص ۳۵۸)

(18) '' رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو اللہ پاک نے اپنےبعض غُیُوب(یعنی کچھ نہ کچھ غیب) کا علم دیا۔یہ مسئلہ ضَروریاتِ دین( ) سے ہے اور اس کا منکِر(انکار(denial) کرنے والابلکہ) اس میں ادنیٰ(یعنی معمولی سا)شک لانے والا قَطْعاً (یعنی یقیناً)کافر ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(19) ایسا کہنے والاکافر ہے کہ: '' حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام،اللہ پاک کے بیٹے ہیں'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(20) ایسا شخص کافر ہے کہ: '' جو غیرِ نبی(مثلاً کسی پیر یا ولی یا صحابی یا اہلِ بیت) کو (کسی بھی )نبی سے افضل (superior) مانے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(21) ایسا شخص بھی کافر ہے کہ: '' جو غیرِ نبی کو نبی کےبرابر مانے'' (مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ) ۔ (بہارِ شریعت ح۱، ص ۳۴)

(22) '' انبیاءِ کرام عَلَیْہِم ُالسَّلَام کی جناب میں(یعنی اُن کی) گستاخی کرنا کفر ہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (بہارِشریعت ح۹، ص۱۸۱، عالمگیری ج ۲،ص ۲۶۳)

(23)یہ کہنا،صاف کُفر ہے :''فِرِشتے اللہ پاک کی بیٹیاں ہیں '' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(24) یہ کہنا کفر ہے:'' اللہ پاک نے کسی اور کی روح قبض کرنے (یعنی نکالنے) کا حکم دیا تھا اورمَلَکُ الْمَوت(عَلَیْہِ السَّلَام) غلطی سے دوسرے کی روح قبض کرنے پہنچ گئے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۴، ص ۶۰۲، ماخوذ ا)

(25)یہ کہنے والا کافر ہے بلکہ وہ اسلام سے نکل کر مُرتد ہوگیا :''حضرتِ جبرئیلِ امین( عَلَیْہِ السَّلَام)نے وحی لانے میں غَلَطی کی '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۶، ص ۳۶۴)

(26) قِیامت کا اِنکار(denial) کرنے والا کافر ہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(27) یہ کہنا کفر ہے: '' دنیا میں روٹی ہونی چاہئے، آخِرت میں جو چاہے ہو'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ ( مِنَحُ الرَّوض ص ۵۲۲)

(28) '' حسابِ قِیامت کے مُنکِر(انکار (denial) کرنے والے)پر کفر کا حکم ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ ( مِنَحُ الرَّوض ص ۵۲۰، بہار شریعت ح۱، ص۷۳)

(29)کسی کے سامنے شریعت کی بات کی تو دوسرا جواب میں اگر یہ کہے:''شریعت گئی بھاڑ میں!کیا ہر وقَت شریعت شریعت کرتے رہتے ہو '' تو کافر ہو گیا (مَعَاذَاللہ!) ۔

(30) کسی کو حدیث سنائی جائے تو سن کر یہ کہنے والے پر کُفر کا حکم ہے:''میں نے اِسٹوریاں بَہُت سنی ہیں بس کرو'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(31)ایسا گمان کرنے والا شخص کافر ہے کہ ''مسلمان اسلام ہی کی وجہ سے کافروں سے پیچھے رہ گئے ہیں'' (مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ) ۔

(32) ایسا کہنا کفر ہے :''شریعت تو مولویوں کی گھڑی (یعنی بنائی)ہوئی باتیں ہیں'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(33) یہ کہنا کفر ہے: '' عُلَماء جو علم سکھاتے ہیں محض (یعنی بس) قصّے کہانیا ں ہیں '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (عالمگیری ج ۲،ص ۲۷۰ )

(34) '' جو اذان کا مذاق اُڑائے وہ کافر ہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۵، ص۱۰۲) اذان سُن

(35) اذان سُن کر، اذان کو ناپسند کرتے ہوئے اس طرح کہنا کُفر ہے : '' کیا شور مچا رکھا ہے؟'' (مَعَاذَاللہ!) (عالمگیری ج۲،ص۲۶۹ )

(36)جو صِرف رَمَضانُ الْمبارَک میں نَماز پڑھے اور اس کے علاوہ نہیں پڑھے، اُس کا یہ کہنا کُفر ہے:''یِہی بَہُت ہے کیونکہ ہرفرض نَماز ستَّر گُنا (seventy times)ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (مِنَحُ الرَّوض ص۴۶۵)

(37)کسی سے کہا گیا:''نَماز پڑھو''۔ اُس کا جواب میں یہ کہنا کُفر ہے:'' اللہ پاک نے ہمیں کیا دیا ہے جونَماز پڑھیں!'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(38) یہ کہنا کفر ہے: '' نَماز دل کی ہوتی ہے ظاہِری نَماز میں کیا رکھا ہے! '' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(39)کوئی شخص تھکا ہوا(tired) تھا اورنَماز کا وَقت آگیا، اُس کانَماز کے بارے میں یہ کہنا، کُفر ہے:''ایک تو یہ مصیبت جان نہیں چھوڑتی '' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(40) یہ کہنا کفر ہے:''بَہُت نَماز پڑھ لی کیا فائدہ ہوا !'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ ( عالمگیری ج ۲،ص ۲۶۸)

(41) یہ کہنا کفر ہے:''اللہ پاک جہنَّم میں بھیجنے کے علاوہ کیا کرسکتا ہے؟'' (مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ) ۔ ( عالمگیری ج ۲،ص۲۶۲)

(42)کسی سے کہا گیا: '' گناہ نہ کر اللہ پاک عذاب (punishment) دے گا '' ۔ تواُس کے جواب میں ایسا کہنے والا کافر ہے:'' میں ایک ہاتھ سے ساراعذاب اُٹھالوں گا'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (عالمگیری ج۲، ص۲۶۰)

(43)کسی سے کہا گیا: '' حلال کھا'' ۔ تواُس کے جواب میں ایسا کہنا کُفر ہے: '' مجھے حرام ہی چاہیۓ'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (عالمگیری ج۲، ص ۲۷۲)

(44) یہ کہنا کفر ہے:''کسی سے کہا کہ یہ کیا تُونے عِمامہ وغیرہ پاگلوں والا لباس پہنا ہوا ہے ! '' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(45)سُنَّت کی توہین(insult) کرتے ہوئے کسی کا اس طرح کہنا کفر ہے:''تجھے داڑھی اچّھی نہیں لگ رہی'' (مَعَاذَاللہ!)۔

(46) سُنَّت کی توہین (insult) کرتے ہوئے کسی کا اس طرح کہنا کفر ہے:''تیرا چِہرہ داڑھی کی وجہ سے بگڑ گیا ہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(47) '' اپنے کفر کا اقرار کرنے (یعنی اپنے آپ کو” کافر“کہنے )والا کافر ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (فتاوٰی رضويہ ج ۱۴،ص۳۲۴)

(48) '' کسی بھی حالت (condition)میں اﷲ پاک کو گالی دینا کفر ہے'' (مَعَاذَاللہ!) چاہے(سنجیدگی (Seriousness) میں دے یامذاق میں یا خوشی سے دے یا غصے میں دے)۔

(49) یہ کہنا کفر ہے:''اتنی نیکیاں نہ کرو کہ خُدا کی جزا (یعنی انعام)کم پڑجائے'' ۔ (مَعَاذَاللہ!) ''

(50) '' مذاق کے طور پر کافِروں جیسی شکل و صورت بنانے(مَثَلاً ہنود کی طرح قشقہ( ) لگانے یا زُنّار باندھنے) پر کفر کا حکم ہے'' (مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ) ۔ (مِنَحُ الرَّوض ص۴۲۶)

(51) یہ کہنا کفر ہے: '' جہنَّم میں جائیں گے تو سردی میں اگر جنّتی آگ لینے آئیں گے تو ہم ان کو نہیں دیں گے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(51) یہ کہنا کفر ہے: '' جہنَّم میں جائیں گے تو سردی میں اگر جنّتی آگ لینے آئیں گے تو ہم ان کو نہیں دیں گے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(52) کسی کرسچین عورت کو دیکھ کر یہ کہنا کفر ہے:''کاش!میں بھی کرسچین ہوتا تاکہ اس سے نِکاح کرسکتا '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (مِنَحُ الرَّوض ص۴۸۶)

(53)بیوی شوہر سے یہ کہتے ہی کافرہ ہو جائے گی :''اگرتُونے آئندہ (next time)مجھ پر زِیادَتی کی یا میرے لئے فُلاں چیز نہ خریدی تو میں کافِرہ ہوجاؤنگی '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲، ص ۲۷۹)

(54) یہ کہنا کفر ہے:''میں مسلمانوں کے ساتھ مسلمان اور کافِروں کے ساتھ کافر ہوں'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (اَیضاً ص۴۸۷)

(55) '' کافر کو کافر نہ جانناکفرہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ (فتاوٰی امجدیہ ج۴، ص ۳۹۹)

(56) کسی سے کہا گیا: '' اللہ پاک سے حیا کر'' ۔ اُس کا جواب میں یہ کہنا کفر ہے:''میں نہیں کرتا'' (مَعَاذَاللہ!) ۔

(57)کسی دوسرے سے یہ کہنا کفر ہے:'' تجھ پر اور تیرے اسلام پر لعنت ہے '' (مَعَاذَاللہ!) ۔ ( عالمگیری ج۲، ص ۲۵۷)

(58) '' جنّت و دوزخ حق ہیں ان کا انکار (denial) کرنے والا کافرہے'' (مَعَاذَاللہ!) ۔ ( بہارِ شريعت ح ۱، ص ۴۲)

59) جس سے کہا گیا:'' کیا تُو اللہ سے نہیں ڈرتا؟''اُس کا جواب میں یہ کہنا کفر ہے:''نہیں '' (مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ) ۔ (مَجْمَعُ الْاَنْہُر ج ۲،ص ۵۰۵ )


نوٹ:
جو بالکل صاف صاف کفر کہے، اُس کا اِسلام ختم ہوجاتا ہے۔ وسوسہ: کیا ایک بات کہنے سے بھی کوئی اسلام سے نکل جاتا ہے جبکہ وہ سو(100)کام مسلمانوں والے کرتا ہے! جواب: غیر مسلم سو (100)بلکہ ہزاروں باتیں اسلام کے خلاف (against) کرنے کے بعد جب سچے دل سے ایک جملہ(یعنی کلمہ شریف ) کہتا ہے تو مسلمان ہو جاتا ہے،کوئی (نکاح کی شرطوں(conditions) کو پورا کرنے کے ساتھ) ایک جملہ کہتا ہے تو عورت اس کی بیوی(wife) بن جاتی ہے، کوئی ایک جملہ(طلاق کا) کہتا ہے تو نکاح ختم ہوجاتا ہے۔یاد رہے کہہر قوم(nation) کے اصول(principles) ہوتے ہیں اور ہر قوم اپنے رہنما(leader) کے خلاف (against) باتیں کرنے والوں سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے تو کیا اسلام کا کوئی اصول نہیں؟ کیا اسلام کی کوئی اہمیّت (importance)نہیں؟۔ ”اسلام“ ایک صاف ستھرا سمندر(neat and clean sea) ہے، جو کفر سے توبہ کر کہ آتا ہے تو ” اسلام“ اُسے پاک کر دیتا ہے اور جو کفر کی گندی مٹی ، اپنے اوپر لگا لیتا ہے، تو ” اسلام“ اُسے باہر کر دیتا ہے۔

یادرہے:
: کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے اسلام کے خلاف (against) کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔

تُوبُوا اِلَی اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ