’’ دین کے مسائل ‘‘(part 01 c)

25) ’’ تکبیر تحریمہ اور قراءت ( ان دو فرضوں )کے ساتھ تسبیحات کی وضاحت (explanation)‘‘

امیرالمؤمنین حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: جب مسلمان کا انتقال ہوتا ہے توزمین میں اُس کی نمازکی جگہ اور آسمان میں اُس کاعمل چڑھنے کادروازہ اس پر روتے ہیں۔پھرآپ نے قرآنِ پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی(ترجمہ (Translation) : تو ان پر آسمان وزمین نہ روئے۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ ۲۵، الدخان: ۲۹)

حکایت: نماز میں صحت اور شفاء ہے حضرت ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ ایک بار میں نماز پڑھ کرسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس بیٹھ گیا،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:کیا تجھے پیٹ میں دَرد ہے؟ میں نے عر ض کی: جی ہاں۔ فرمایا: قُمْ فَصَلِّ، فَاِنَّ فِی الصَّلَاۃِ شِفَآء۔ یعنی ’’اُٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ نماز میں شِفا ہے ‘‘۔ (ابن ماجہ ج۴ص۹۸حدیث ۳۴۵۸) تکبیرتحریمہ: {1}امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے نے تکبیر تحریمہ میں’’اَللّٰہ‘‘ امام صاحب کے ساتھ کہا مگر ’’اَکْبَر‘‘ امام صاحب سے پہلے ختم کر لیا تو اس کی نماز شروع ہی نہ ہوئی۔ {2} بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب امام صاحب ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کے آخِری حصّے ’’بَر‘‘ پر پہنچے تب ہم ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا شروع کرے۔ قراءت اور تسبیحات: {1} اللہ کو اٰللّٰہ یا اَکْبَر کو اٰ کْبَر یا اَکبَار کہا نماز نہ ہو گی بلکہ اگر ان کے بدلے ہوئے، بگڑے ہوئے معنی (یعنی کفریہ معنی )سمجھ کر جان بوجھ کر کہے تو کافرہے۔(نماز کا طریقہ ص ۲۲،۲۳، مُلخصاً) سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ پڑھنا سنّت ہے: {2}بلا ضرورت سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ چھوڑنے کی اجازت نہیں اور اگر چھوڑنے کی عادت بنالی تو گناہ گار ہے (کہ یہ سنّت مؤکدّہ ہے) (فتاوٰی رضویہ ج۶،ص۱۷۲) نماز میں قرآن اور تسبیحات پڑھنے کے مسائل : {3}آہستہ آواز میں قرائت کرنےمیں بھی یہ ضروری ہے کہ کوئی روکاوٹ مثلا شور نہ ہوتو خودسن سکے، اگر اتنی آواز بھی نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی {4} ثنا ، اَعُوْذُ ، بِسْمِ اللہ ، قراءت ، رکوع ا ور سجدے کی تسبیحات اور اَلتَّحِیَّات وغیرہ میں بھی کم از کم اتنی آواز ہونا ضروری ہے کہ کوئی روکاوٹ مثلا شور نہ ہوتو خود سن سکے {5} یہ بات یاد رہے کہ خود سننا ضروری ہے مگریہ اِحتیاط رہے کہ آہستہ قراء ت والی نمازوں میں قراء ت اورتسبیحات وغیرہ کی آواز بھی دوسروں تک نہ پہنچے {6}بلکہ قریب نمازی نماز پڑھ رہے ہوں تو انہیں بھی تکلیف نہ ہو اور جماعت میں تو اور بھی احتیاط کرنی چاہیے کہ نمازی قریب قریب ہوتے ہیں۔(نماز کا طریقہ ص ۲۵ ماخوذاً) حُرُوف کی صحیح ادائیگی ضَروری ہے: {9}اکثر لوگ ’’ط ۔ت، س ۔ص۔ ث، ا ۔ء ۔ع، ہ ۔ح اور ض۔ ذ ۔ظ‘‘ میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ یاد رکھئے ! حُرُوف بدل جانے سے اگر معنیٰ بگڑگئے تو نماز نہ ہوگی۔(بہارِ شریعت ج۱، ص۵۵۷، مُلخصاً){10}مَثَلاً جس نے ’’سُبْحٰنَ رَبِّیَ ا لْعَظِیْم‘‘ میں ’’عظیم‘‘ کو ’’عَزِیْم‘‘ (ظ کے بجائے ز) پڑھ دیا نماز ٹوٹ جائے گی لہٰذا جس سے ’’عظیم‘‘ صحیح ادا نہ ہو وہ ’’سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْکَرِیْم‘‘ پڑھے ۔(قانونِ شریعت حصّہ اوّل ص۱۰۵، رَدُّالْمُحتار ج۲ص۲۴۲) {11}خبردار!خبردار!خبردار! جس سے حروف صحیح ادانہیں ہوتے اُس کے لئے تھوڑی دیر مشق(practice) کر لینا کافی نہیں بلکہ لازِم ہے کہ انہیں سیکھنے کے لئے رات دن پوری کوشش کرے ۔ آج کل کافی لوگ اِس برائی کا شکار ہیں کہ نہ انہیں قراٰنِ کریم صحیح پڑھنا نہیں آتا ہے اور نہ ہی وہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یادرکھئے!اِس طرح نمازیں بربادہوسکتی ہیں۔(بہارِ شریعت ج۱ص۵۷۰ مُلَخَّصاً) {12}جس نے رات دن کوشش کی مگرسیکھنے میں نا کام رہا جیسے بعض لوگوں سے صحیح حُروف ادا ہوتے ہی نہیں تب بھی ان کے لئے لازِمی ہے کہ رات دن سیکھنے کی کوشِش کرے اور کوشش کے دِنوں میں اُن کی اپنی نمازہو جائے گی ۔ (ماخوذ اَزفتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۶ص۲۵۴) {13} قرآنِ پاک درست پڑھنے کے لیے بچے کسی صحیح قاری اور بچیاں کسی صحیح قاریہ سے پڑھیں (دعوتِ اسلامی کے مدرسۃ المدینہ میں قاری صاحب اور قاریہ صاحبہ کا ٹیسٹ ہوتااور امتحان بھی لیا جاتا ہے۔اگر آپ کے قریب میں مدرسۃ المدینہ نہیں تو online تعلیمِ قرآن حاصل کریں۔ یاد رہے! online پڑھنےکی فیس بھی لی جاتی ہے)۔ ( )

(2) جواب دیجئے: س۱) قرائت میں کم از کم کتنی آواز رکھنی چاہیے؟ س۲) ہمیں یہ کیسے پتا چلے کہ ہماری قرائت درست نہیں ہے؟ اور اسے صحیح کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

26) ’’ نماز کے دو فرائض: قیام اور سجدے،کی وضاحت (explanation)‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نماز اِیمان کی علامت (یعنی پہچان)ہے تو جو نماز کے فرائض، سنّتیں اور آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے سچّے دل سے اِس کی حفاظت کرے گا وہ مومِن ہے۔(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۳ص۴۱ حدیث ۴۱۰۲)

حکایت: مسجد دور تھی مگر حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: میں ایک ایسے صاحِب کو جانتا ہوں جن کا گھر مسجد ِنَبوی سے سب سے زیادہ دُور تھا اور اُن کی(باجماعت) نماز کبھی نہ چھوٹتی تھی، میں نے اُن کومشورہ دیا کہ جانور خرید لیجئے تا کہ اس پر بیٹھ کر دھوپ اور اندھیرے میں آسانی سے (مسجد تک) آسکیں۔ انہوں نے کہا: میری نیَّت یہ ہے کہ میرے لئے گھر سے مسجد تک آنے اور مسجد سے اپنے گھر واپس آنے کا ثواب لکھا جائے۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے (اُن صحابی سے) فرمایا: ’’اللہ پاک نے یہ تمام (ثواب)تمہارے لئے جمع کر دیا۔‘‘ (مسلم ص ۲۶۲ حدیث ۱۵۱۴ مختصراً ) نماز میں کھڑے ہونے(قیام کرنے) کی صورَتیں: {1}فرائض و واجبات ( مَثَلاً وِتر کی نماز ،نماز عید، نفل کی نماز جو ٹوٹ گئی) اور سنت ِ فجر کی ہر رکعت میں قیام (یعنی کھڑا ہونا) فرض ہے۔ {2}ان نمازوں کو اگر شریعت کی اجازت کے بغیر بیٹھ کر پڑھیں گے تو یہ نمازیں ادا نہ ہوں گی۔ {3}جو لوگ سجدہ کرنے کی طاقت رکھتے ہوں لیکن یہ نمازیں خود کھڑے ہوکر نہیں پڑھ سکتے مگر عصالکڑی/ لاٹھی (stick)یا دیوار یا آدَمی کے سہارے کھڑا ہونا ممکن ہو تو جس جس رکعت میں جتنی دیر اس طرح سہارے سے کھڑے ہو سکتے ہیں اُس رکعت میں اُتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، یہاں تک کہ صرف تکبیر ِتحریمہ (یعنی ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘) کھڑے ہو کر کہہ سکتے ہیں تو اُتنا ہی قیام (یعنی کھڑا ہونا)فرض ہے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو اب سب نمازیں بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں( )۔(نماز کا طریقہ ص ۱۰۴، ۱۰۵ مُلخصاً) نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کا طریقہ: {1} نفل بیٹھ کر پڑھے تو اس طرح بیٹھے جیسے تَشَہُّد (یعنی اَلتَّحِیَّات)میں بیٹھا کرتے ہیں(اب تکبیر تحریمہ یعنی ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘کہہ کر نماز شروع کریں پھر) قراء ت کی حالت میں ناف(پیٹ کے سوراخ) کے نیچے ہاتھ باندھے رہے جیسے قیام میں باندھتے ہیں۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۶۷۱،مسئلہ۴۵) {2} جتنارکوع میں جھکتے ہیں(یعنی سر گھٹنوں(knees) کی سیدھ میں آجائے) ،اتنا جھک کر نماز کی نیّت باندھی( یعنی اس حالت (condition)میں ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘کہہ کر نماز شروع کی) تو نماز نہ ہوگی۔ (مسئلہ۴۱ مُلخصاً) {3} عام نمازوں کی طرح اس میں ثناء، اَعُوْذُ ، بِسْمِ اللہ پڑھیں اور قراءت کریں۔ {4} بیٹھ کر نماز میں رکوع کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پیشانی(forehead) گھٹنوں (knees) کی سیدھ میں آجائے۔(ماخوذاً فتاوی رضویہ جلد۶،ص ۱۵۷) {5} قومے میں اس طرح بیٹھیں کہ جیسے تَشَہُّد (یعنی اَلتَّحِیَّات) میں بیٹھا کرتے ہیں۔ {6} باقی سجدہ وغیرہ عام نمازوں کی طرح کریں۔اسی طرح دوسری رکعت پڑھ کر اَلتَّحِیَّات وغیرہ پڑھ کر نماز مکمل کر لیں۔ نوٹ: نفل نمازیں بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے البتہ بلا عذر(یعنی بغیر مجبوری کے) بیٹھ کر پڑھنے میں آدھا ثواب ملتا ہے۔ (صَحِیح مُسلِم ،ص۳۷۰ حدیث۷۳۵ ماخوذاً) سجدہ(سات ہڈیوں پر): فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :مجھے حکم ہواکہ سات (7)ہڈیوں (bones)پرسجدہ کروں ،منہ اوردونوں ہاتھ اوردونوں گھٹنے(knees) اور دونوں پنجے(claws) پر۔(صحیح البخاري، الحدیث: ۸۱۲، ج۱، ص۲۸۵) سجدے میں لگنے والی ہڈیوں کے مسائل: {1}پیشانی(forehead) کا زمین پر جمنا (یعنی ٹک جانا)سجدے کی حقیقت ہے اور پاوں کی ایک انگلی کا پیٹ ( یعنی اُنگلی کا وہ اُبھرا ہوا حصّہ جو چلنے میں زمین پر لگتا ہے) لگنا شرط ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص ۵۱۳) تو اگر کسی نے اس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پاؤں زمین سے اٹھے رہے، نماز نہ ہوئی بلکہ اگر صرف انگلی کی نوک زمین سے لگی، جب بھی نماز نہ ہوئی ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص ۵۱۳) {2} ہر پاؤں کی اکثر (مثلاً تین تین)انگلیوں کا پیٹ ( یعنی اُنگلی کا وہ اُبھرا ہوا حصّہ جو چلنے میں زمین پر لگتا ہے) زمین پر جما ہونا واجب ہے(عورتیں اپنے دونوں پاؤں سیدھی طرف نکالیں گی)۔ {3} ناک کی ہڈی زمین پر لگنا واجب ہے۔ {4} بہت سے لوگ سجدے میں ناک کی ہڈی نہیں بلکہ نوک لگاتے ہیں،اس وجہ سے واجب چھوٹ جاتا اور نمازی گناہ گار ہوتا ہے۔ (فتاوی رضویہ جلد۳،ص۲۵۳مُلخصاً) {5}سجدے میں زمین پر ہاتھ اور گھٹنے (knees) رکھناواجب ہے۔ (جدّ الممتار، جلد ۳، صفحہ ۱۸۰) ( )

(3) جواب دیجئے: س۱) وہ کون سی نمازیں کہ جو بیٹھ کر ادا نہیں ہوتیں؟ س۲) سجدے میں کون کون سی ہڈیاں لگانا واجب ہیں؟

27)’’ جماعت کے ساتھ نماز‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جماعت کے ساتھ نَماز پڑھنے کےلئے چل کر نہ آنے والا اگر جانتا کہ جماعت کے ساتھ نَماز پڑھنے کے لئے چل کر آنے والے کے لئے کیا اَجْر (یعنی ثواب)ہے تو وہ ضرور آتا، اگر چہ اسے گھسٹتے(زمین پر رگڑتے) ہوئے آنا پڑتا۔ (معجم کبیر، ۸/۲۲۴، حدیث: ۷۸۸۶)

حکایت: ۴۰ سال پہلی صف میں نمازیں حضرت سعید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:بیس(20) سال ہونے کو آئے کہ اذان کی آواز ٹھیک اُس وقت کان میں پڑتی ہے جب کہ مسجد کے سامنے پہنچ چکا ہوتا ہوں (کیمیا ئے سعادت ج۱ص۱۸۴) ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:چالیس (40)سال سے میری جماعت کبھی نہیں نکلی اور نہ میری نظر لوگوں کی گردنوں کے پچھلے حصّے پر پڑی(یعنی آپ پہلی صف ہی میں نماز پڑھتے تھے)۔ (ا لطبقات الکبری ج۵ ،ص ۹۹) جماعت سے نماز: {1} جماعت اہم واجب اور دین کی نشانیوں میں سے ہے (ماخوذاً فتاوی رضویہ جلد۶،ص ۴۳۵)ہر عاقل بالِغ ( ) (grown-up) قدرت رکھنے والے مرد مسلمان پر جماعت واجِب ہے ، شرعی مجبوری کے بغیر ایک(1) بار بھی چھوڑنے والاگناہ گار وعذابِ کا حق دار ہے۔جماعت کئی بار چھوڑنےوالا فاسِق (اور بڑا گناہ گار)ہے ۔ (بہار شريعت،ج۱،ح ۳،ص۶۷، مُلخصاً) {2} عورتوں کو کسی نماز میں جماعت کی حاضری کی اجازت نہیں ۔(بہار شریعت ج۱،ح۳ ،ص۵۸۴ مُلخصاً)اور انہیں جماعت کرنے یا جماعت میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہیں۔ {3} نمازِجمعہ اور عیدمیں جماعت شرط ہے ۔(بغیر جماعت کے یہ نمازیں نہیں ہونگی۔ جمعہ و عیدین کی اور بھی شرطیں(conditions) ہیں۔جس طرح شہروں میں عام طور پر مسجدوں میں جماعت سے نمازہوتی ہے تو اسی میں جا کر،صحیح عقیدے والے امام صاحب کے پیچھے نماز ادا کریں) (درمختارو ردالمحتار ج۲ص۳۴۱۔۳۴۲) {4}عورتیں جمعہ کی نماز نہیں پڑھیں گی، وہ ظہر ہی پڑھیں گیں اور عیدکی نمازعورتوں پر واجب نہیں ہے۔ {5} جماعت اس طرح حاصل کرناکہ اس کی کوئی رَکعت نہ نکلے ، وُضو میں تین(3) تین بار اعضا (چہرہ، ہاتھ ، پاؤں)دھونے سے بہتر ہے اور تین (3) تین بار دھونا تکبیر اُولیٰ(نماز شروع کرنے کے لیے اَللّٰہُ اَکْبَر کہنے کو) پانے سے بہتر ہےیعنی اگر وُضو میں تین (3) تین بار دھوتا ہے تو رَکعت نکل جائے گی، تو افضل یہ ہے کہ تین (3) تین بار نہ دھوئے اور رکعت نہ جانے دے اور اگر جانتا ہے کہ رَکعت تو مِل جائے گی مگر تکبیر اُولیٰ نہ ملے گی تو تین(3) تین بار دھوئے۔ (بہار شریعت ج۱ ص۵۸۳) {6} اگر پہلی(1st ) رَکْعَت کا رُکوع مل گیا تو (بعض علما کے نزدیک) تکبیر اُولیٰ (یعنی نماز شروع کرنے کے لیے اَللّٰہُ اَکْبَر کہنے) کی فضیلت حاصل ہوجاتی ہے(اور وہ ثواب مل جاتا ہے)۔ (عالمگیری ج۱ص۶۹) {7} جب نماز کے لیے صفیں (rows) بنائی جارہی ہوں اُس وقت اگر ایک (سمجھدار) نابالِغ بچہ ہو تو وہ کسی بھی صف یہاں تک کہ پہلی (1st )صف میں بھی جہاں چاہے کھڑا ہوسکتا ہے۔(در مختار ج ۲ ص ۳۷۷ ماخوذاً ) {8} اگر ایک سے زیادہ بچے ہوں تو اُن کی صف(یعنی لائن) مردوں کی آخری صف کے پیچھے بنائی جائے۔ (در مختار ج ۲ ص ۳۷۷ ماخوذاً ) {9}مقتدی (یعنی امام صاحب کے پیچھے جماعت میں شامل )کو نماز میں قراءت جائز نہیں، نہ سورۃ الفاتحہ نہ آیت، نہ آہستہ قراءت والی نمازوں میں اور نہ بلند آواز سے قراء ت والی نمازوں میں،امام صاحب کی قراءت مقتدی کے لئے بھی کافی ہے۔(مؤطا امام مالک ترک القرأۃ خلف الامام مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ص ۸۶، ماخوذاً) امام صاحب رکوع میں ہوں توشامل ہونے کا طریقہ: {1}امام صاحب رکوع میں ہوں تب بھی پہلے بالکل سیدھے کھڑے کھڑے پوری تکبیر تحریمہ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ پوری کہہ لیجئے(اس صورت میں ہاتھ نہیں باندھیں گے بلکہ لٹکا دیں گے)، اِس کے بعد دوسری مرتبہ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے رُکوع کیلئے اس طرح جھکئے کہ ’’الف ‘‘ سے جُھکنا شروع ہوں اور ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کی راء رکوع میں ختم ہو {2}امام صاحب کے ساتھ اگررُکوع میں تھوڑی سی بھی شرکت ہوگئی مَثَلاً امام صاحب رکوع سے اٹھنے لگے تھے مگر اُن کےہاتھ گھٹنوں(knees) تک تھے اور آپ کے ہاتھ بھی(اوپر بیان کئے ہوئے انداز کے مطابق )گٹھنوں تک پہنچ گئےتورَکعت مل گئی۔ اگر آپ کے رُکوع میں پہنچنے سے پہلے ہی اما م صاحب کھڑے ہوگئےتورَکعت نہ ملی{3} امام صاحب کورُکوع میں پایا اور تکبیرتحریمہ کہتا ہوا رُکوع میں گیا یعنی تکبیر تحریمہ اُس وَقت ختم ہوئی جب کہ(اتنا جھک چکا تھا کہ) ہاتھ بڑھائے تو گھٹنے تک پہنچ جائے تو نماز ہی نہیں ہوئی(کہ قیام کا فرض ادا نہیں ہوا) ( )۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۰۸، ص ۳،مُلخصاً)

(4) جواب دیجئے: س۱) جماعت کے چندمسائل بیان کریں؟ س۲) امام صاحب رکوع میں ہیں تو نماز میں کس طرح شامل ہونگے؟

28)’’ جمعہ کی سنتیں اور خطبہ ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو شخص جُمُعہ کے دن نہائے اور جس طہارت( یعنی پاکیزگی) کی استِطاعت(یعنی طاقت) ہو(وہ حاصل ) کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو لگائے پھر نَماز کو نکلے اور دو بندوں میں جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نَماز اُس کے لئے لکھی گئی ہے پڑھے اور امام صاحب جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اُس کے لئے اُن گناہوں کی، جو اِس جُمُعہ اور دوسرے جُمُعہ کے درمیان ہیں مغفِرت ہو جا ئے گی ۔ (صَحیح بُخاری ج۱ص۳۰۶حدیث۸۸۳)

حکایت: نماز کی وجہ سے سفر نہ کیا حضرت ابوحازِم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں : میں جمعہ کے دن (ایک شہر)دِمشق میں آیا، لوگ اُس وقت نمازِ جمعہ کے لئے جارہے تھے،میں نے سوچاکہ مجھے جہاں پہنچنا ہے اگرسفر کرتا ہوا وہاں پہنچ جاؤں تو نمازِ جمعہ نہیں ملے گی، لہٰذامیں پہلے نماز پڑھ لوں ،یہ سوچ کر میں نماز کے لئے چلا اور مسجد کے دروازے کے پاس آکر اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اسے باندھ کر مسجد کے اندر چلاگیا۔ (اللّٰہ والوں کی باتیں ج۵،ص۳۹۱) جُمُعہ کی سنّتیں اور مستحبات : {1}نَمازِجُمُعہ کے لئے اوّل وَقت میں جانا،مِسواک کرنا، اچھّے اور سفید کپڑے پہننا ،تیل اور خوشبو لگانا اور پہلی صَف میں بیٹھنا مُستَحَب ہے اور غُسل (یعنی شریعت نے جو طریقہ نہانے کا بتایا ہے، اُس طرح نہانا)سنّت ہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۴۹، غُنیہ ص۵۵۹) {2}غسلِ جُمُعہ کا وقت فجرکا وقت شروع ہوتے ہی ہوجاتا ہے۔(مِراٰۃ ج۲ ص ۳۴ ۳ مُلخصاً) {3}نمازِ جُمُعہ کیلئے غُسل کرنا ایسی سُنّت ہے کہ اگرکوئی اسے چھوڑے تو اُسے بُرا بھلا نہیں کہا جائے گا ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۱ص۳۳۹ مُلخصاً) {4} عورت اور مسافِر وغیرہ جن پر جُمُعہ واجِب نہیں ہے اُن کیلئے غسلِ جُمُعہ بھی سنّت نہیں ۔ جمعہ کے خطبے کے چند دینی مسائل : فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں(یعنی اُنہیں ٹاپ کر آیا) اُس نے جہنَّم کی طرف پل بنایا۔ (تِرمِذی ج۲ ص۴۸ حدیث۵۱۳)اس کے ایک معنیٰ یہ ہیں کہ اس پر چڑھ چڑھ کر لوگ جہنَّم میں داخِل ہو ں گے ۔ (حاشیۂ بہارِ شریعت ج ۱ ص۷۶۱تا۷۶۲) {1}(جمعہ وغیرہ میں) خطیب صاحب کی طرف منہ کر کے بیٹھنا سنّتِ صحابہ ہے۔ {2}بزرگانِ دین فرماتے ہیں: دوزانو(جیسے اَلتَّحِیَّات میں بیٹھتے ہیں اس طرح) بیٹھ کرخطبہ سنے، پہلے خطبے میں ہاتھ باندھے، دوسرے میں رانوں(thighs) پر ہاتھ رکھے تو اِنْ شَاءَ اللہ! دو(2) رَکعَت کا ثواب ملے گا۔ (مِراٰۃ المناجیح ج۲ص ۳۳۸ مُلخصاً) {3}اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : خطبے میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا نامِ پاک سن کر دل میں درود پڑھیں کہ زَبان سے خاموشی فرض ہے۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۳۶۵) {4}خطبے میں کھانا پینا،بات کرنااگر چِہ سُبْحَانَ اللہِ کہنا، سلام کا جواب دینا یا نیکی کی بات بتانا حرام ہے۔(دُرِّمُختار ج۳ص۳۹) {5}خطبے کی حالت میں چلنا حرام ہے۔ یہاں تک علماء فرماتے ہیں کہ اگر ایسے وقت آیا کہ خطبہ شروع ہو گیا تو مسجِد میں جہاں تک پہنچا وَہیں رُک جائے ، آگے نہ بڑھے کہ یہ عمل ہو گا اور خطبے کی حالت میں میں کوئی عمل جائز نہیں۔(فتاوی رضویہ،ج۸،ص۳۳۳ مُلخصاً) {6} خطبے میں کسی طرف گردن پھیر کر دیکھنا (بھی) حرام ہے۔(ایضاً) ( )

(5) جواب دیجئے: س۱) نماز جمعہ کی چند سنتیں بیان کریں؟ س۲) خطبے کے چند مسائل بیان کریں؟

29)’’ نَمازی کے آگے سے گزرنا ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اگر کوئی جانتا کہ اپنے بھائی کے سامنے نمازمیں آڑے ہو کر (یعنی سامنے سے)گزرنے میں کیا (سزا)ہے تو سو سال کھڑا رہنا اس ایک قدم چلنے سے بہتر سمجھتا۔(سنن ابن ماجہ، ابواب اقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا، الحدیث: ۹۴۶، ج۱، ص۵۰۶)

حکایت: اسی کمرے میں نماز ادا فرماتےحکایت: اسی کمرے میں نماز ادا فرماتے حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَافرماتی ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رات میں نماز پڑھتے تھے حالانکہ میں آپ کے سامنے لیٹی ہوتی تھی (مسلم،بخاری مُلخصاً) حجرہ شریف(یعنی مُبارک کمرہ بظاہر) چھوٹا تھا جس میں نفل نماز کے لیے الگ سے جگہ نہیں بن سکتی تھی اس لیے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اس طرح تہجّد کی نماز پڑھتے تھے۔ اس سے معلو م ہوا کہ نمازی کے آگے سے گزرنا الگ بات ہے اورکسی کا آگے ہونا الگ بات ہے۔ گزرنا جائز نہیں لیکن آگے ہونا منع نہیں۔(مراۃ، جلد۲،حدیث۸، ص۸)یاد رہے! کسی شخص کے مُنہ کے بالکل سامنے اور سیدھ میں (جیسے آئینہ mirror دیکھتے وقت چہرہ، آئینے کے سامنے ہوتا ہے،اس طرح)نماز پڑھنا مکروہ تحریمی، ناجائز اور گناہ ہے۔(درمختار معہ ردالمحتار ج۲،ص۴۹۶) البتہ چہرے کے علاوہ جسم کے کسی حصّے کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھی جا سکتی ہے مگر ہمارے لیےبہتر یہ ہے کہ سونے والے کے سامنے نماز نہ پڑھی جائے(درمختار معہ ردالمحتار ج۱،ص۶۵۲ ماخوذاً)۔ نمازی کے آگے سے گزرنا : {1}نمازی کے آگے سے گزرنے والا بے شک گناہ گار ہے مگرجس نمازی کے آگے سے گزرا اُس نمازی کی نمازمیں کوئی فرق نہیں پڑا۔ {2}نمازی کے آگے سُترہ یعنی کوئی آڑہوتواُس سُترے کے بعد سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سترہ کیسا ہو؟: {3}سُترہ کم از کم ایک ہاتھ(یعنی ڈیڑھ فٹ یا18 انچ) اُونچا اور انگلی برابر موٹا ہو، اور سنّت یہ ہے کہ نمازی اور سُترے کے درمیان فاصلہ زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہو۔ {4}نمازی کے آگے (اگر) کپڑے کا پردہ یا لکڑی کا ایک انگلی سے کم موٹائی کا تختہ یا ٹن کی پتلی چادر کا سُترہ (بھی) ہو تو اُس کے آگے سے گزر سکتے ہیں، یہ چیزیں سُترے کا کام دے دیں گی۔ {5}آدَمی کواِس حالت میں سُترہ بنایا جائے جبکہ اُس کی پیٹھ نمازی کی طرف ہو (یعنی اگر نمازی کی طرف آدمی کا منہ ہو تب بھی سترہ ہوسکتا ہے مگر نمازی کی طرف منہ کرنا، جائز نہیں ۔یاد رہے ! اگر نماز پڑھنے والے کے عین رُخ کی طرف کسی نے منہ کیا تو اب کراہت نمازی پر نہیں اُس منہ کر نے والے پر ہے)۔(نماز کا طریقہ ص۸۱، مُلخصاً) نوٹ: سُترے کے مزید مسائل جاننے کے لیے نماز کی کتاب پڑھیں

(6) جواب دیجئے: س۱) سُترہ کیا ہوتا ؟ اور بتائیں کہ نمازی کے آگے سے گزرنا کیسا ہے؟ س۲) نمازی کے چہرے کی طرف چہرہ کرنا کیسا؟

30)’’ سجدہ تلاوت کے مسائل‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جب ابنِ آدم (یعنی انسان)آیتِ سجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا دور ہَٹ جاتا ہے اور کہتا ہے:ہائے میری خرابی! ابنِ آدم(یعنی انسان) کو سجدے کا حکم ہوا تو وہ سجدہ کر کے جنّتی ہو گیا اور مجھے سجدے کا حکم ہوا تو میں انکار کر کے جہنّمی ہو گیا۔(مسلم،کتاب الایمان،ص۵۶،حدیث:۸۱)

حکایت: سجدہ کر لیا، مگر رونا کہاں ہے؟ حضرت عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے سورۂ مریم کی تلاوت کی ،جب وہ آیتِ سجدہ پر پہنچے تو انہوں نے سجدۂ تلاوت کیا اور جب سجدے سے سر اٹھایا تو فرمایا :یہ توسجدہ ہے لیکن رونا کہاں ہے؟( شرح البخاری لابن بطال، کتاب فضائل القرآن، ۱۰ / ۲۸۲) اس سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ سجدہ کر کے رونے والے لوگ اب کہاں ہیں ؟ ان بزرگوں کے یہ فرمان دراصل ہماری تربیت اور اِصلاح کے لئے ہیں ،اے کاش! ہمیں بھی تلاوتِ قرآن کے وقت اللہ پاک کے خوف سے رونا نصیب ہو جائے۔(صراط الجنان ج۶،ص۱۲۰ مُلخصاً) سجدہ تلاوت : {1} آیت ِ سجدہ پڑھنے یا سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ {2}فارسی یا کسی اور زَبان میں(بھی اگر) آیت کا ترجمہ پڑھا تو پڑھنے والے اور سننے والے پر سجدہ واجب ہوگیالیکن یہ ضَروری ہے کہ اگراسے معلوم نہ ہو کہ یہ آیت ِسجدہ ہے، تواُسے بتا دیا گیا ہو کہ یہ آیتِ سجدہ تھی۔ {3} پڑھنے میں یہ شرط ہے کہ اتنی آواز میں ہو کہ اگر کوئی عذر (شور وغیرہ)نہ ہو تو خود سُن سکے ۔ {4}سننے والے کے لئے یہ ضَروری نہیں کہ اُس نے آیتِ سجدہ ارادۃًسنی ہو، بلا ارادہ (مثلا کسی کام سے جار ہا تھا اور کوئی آیتِ سجدہ تلاوت کر رہا تھا اور اُس نے سُن لی تو اس طرح)آیت سجدہ سننے سے بھی سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ {5}پوری سورت پڑھنا اور آیتِ سجدہ چھوڑ دینا مکروہِ تحریمی،ناجائز و گناہ ہے اور صرف آیتِ سجدہ کی تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ، مگر بہتر یہ ہے کہ دو ایک آیت پہلے یا بعد کی ملا کر پڑھے۔ (دُرِّ مُختار ج۲ ص۷۱۷ وغیرہ) {6}آیتِ سجدہ، اگرنماز کے باہرپڑھی تو فوراً سجدہ کر لینا واجب نہیں ہاں بہتر ہے کہ فوراً کر لے اوراگر وُضو ہو تو تاخیر(یعنی سجدہ lateکرنا) مکروہِ تنزیہی(یعنی ناپسندیدہ) ہے ۔ (دُرِّمُختارج۲ص۷۰۳) {7}سجدۂ تلاوت نماز میں فوراً کرنا واجب ہے تاخیر کریگا گنہگار ہو گا۔نیز نماز میں آیت سجدہ پڑھی تو اس کا سجدہ نماز ہی میں کرنا واجب ہے(نماز پڑھ کر یہ سجدہ نہیں کرنا بلکہ نماز میں ہی کرنا ہے)۔(نماز کا طریقہ ص۹۸، ۹۹ مُلخصاً) {8}سَجدۂ تِلاوت کا طریقہ : (۱) کھڑے ہو کر ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئےسجدے میں جائیں اور کم سے کم تین(3) بار’’سُبْحٰنَ رَبّیَ الْاَعْلٰی‘‘ کہیں، پھر ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوا کھڑاےہو جائیں۔ (۲)سجدے میں جاتے ہوئے اور سجدے سے واپسی پر، دونوں بار ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا سنّت ہے۔ (۳)کھڑے ہو کر سجدے میں جانا اور سجدے کے بعد کھڑا ہونا یہ دونوں قیام(یعنی دونوں مرتبہ کھڑا ہونا) مُسْتَحَب (اور ثواب کا کام)ہیں(اگر کوئی بیٹھے بیٹھے ہی سجد ۂ تلاوت کر لے تب بھی ہو جائے گا)۔ (۴)سجدۂ تلاوت کے لئے ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے وقت ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ (۵) سجدہ تلاوت میں نہ تَشَہُّد (یعنی اَلتَّحِیَّات نہیں پڑھنی) ہے اورنہ سلام پھیر نا(یعنی سجدے سے سراُٹھاتے ہی سجدہ تلاوت مکمل ہو گیا)۔ (نماز کا طریقہ ص۹۹مُلخصاً) ( )

(7) جواب دیجئے: س۱) سجدہ تلاوت کب واجب ہوتا ہے؟ س۲) سجدہ تلاوت کا طریقہ کیا ہے؟

31(a) ’’ مرد اور بچوں کی نمازشروع ہونے سے پہلےہونے والی کچھ غلطیاں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا سوال کیاجائے گا، اگر یہ صحیح ہوئی تو باقی اعمال بھی درست ہوں گے، اگر نماز ہی صحیح نہ ہوئی تو باقی اعمال زیادہ خراب ہوں گے۔ ( سنن ترمذی ،الحدیث :۴۱۳ ،ج۱،ص۴۲۱ )

حکایت: ۷۰ سال سے پہلی تکبیر فوت نہ ہوئی حضرت وَکیع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں حضرت اعمش رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں تقریباً دو (2)سال سے حاضر ہورہا ہوں میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کی جماعت کی کوئی رکعت نکلی ہو بلکہ تقریباستر(70) سال سے آپ کی تکبیرِ اُولیٰ (یعنی امام صاحب کے ساتھ ، نماز کی پہلی ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ بھی)نہیں نکلی ۔ (تہذیب التہذیب ج۳ص۵۰۸) غلط اور صحیح طریقے:: (1) غلط طریقہ: شلوار اُڑسنا یا پینٹ fold کرنا۔ صحیح طریقہ: شلوار ،پاجامہ اس size کا سلوناکہ ٹخنوں(ankles) سے اونچا ہو اور اگر شلوار یا پینٹ لمبی ہو تواُسےٹخنوں سے نیچے ہی رہنے دینا، فولڈ وغیرہ نہ کرنا۔ (2) غلط طریقہ: ed fold آستین میں نماز شروع کرنا اور نمازمیں اُسے درست کر لینا۔ صحیح طریقہ: آستین صحیح کر کے نماز شروع کرنا۔ (3) غلط طریقہ: گریبان کھول کر نماز شروع کرنا۔ صحیح طریقہ: گریبان کے بٹن بندکر کے نماز شروع کرنا ۔ (4) غلط طریقہ: مسجد میں دوڑ کر اس انداز سے آنا کہ وضو کا پانی ٹپک رہا ہو۔ صحیح طریقہ: وضو کے بعد ٹپکنے والےپانیپر ہاتھ پھیر کر پانی وضو خانے ہی میں گرا دینا یاکسی کپڑے یا رومال سے جسم سکھا نا (مگر گیلے کپڑے کو مسجد کے اندر نہ سوکھنا) پھر مسجد میں اطمینان سے آنا۔ (5) غلط طریقہ: باجماعت نماز شروع کرنےسے پہلے ایڑیاں(پیر کے پیچھے کا حصّہ) ، گردن اور کندھے (shoulder) آگے پیچھے ہونا یا اگلی صف میں جگہ ہونے کے باجود پیچھے صف بنانا۔ صحیح طریقہ: باجماعت نمازشروع کرنےسے پہلے ایڑیاں، گردنیں اور کندھے ایک سیدھ میں کرنا اور اگر اگلی صف میں جگہ ہو تو پہلے اُس صف کو مکمل کرنا۔ نوٹ: نماز میں ہونے والی جن غلطیاں کو بتایاگیاہے،وہ ساری ایسی نہیں کہ ان غلطیوں کے ساتھ نماز ہی نہ ہوں یا جان بوجھ کر ایسا کرنے سے نمازدوبارہ پڑھنے کا حکم ہو ۔البتہ ان غلطیوں میں اس قسم کی غلطیاں بھی شامل ہیں۔( )

(8) جواب دیجئے: س۱) نماز کے فرائض اور شرائط پر غور کرتے ہوئے ایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز ہی نہیں ہوتی؟ س۲) نماز کے مکروہات پر غور کرتے ہوئےایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز مکروہ ِ تحریمی ہوتی ہے؟

31(b) ’’ حنفی مردوں اور بچوں کی تکبیر و قیام میں ہونے والی بعض غلطیاں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس نے دو( 2 )رکعت نَماز ادا کی اور اس میں کوئی غلطی نہیں کی، اللہ پاک اس کے پچھلے (چھوٹے )گناہ معاف فرمادے گا۔ (مسند احمد، مسند الانصار، ۸/۱۶۲، حدیث:۲۱۷۴۹)

حکایت: بیس(20) سال کی کوشش کے بعد بیس(20) سال کی آسانی حضرت عمرو بن محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ حضرت ثابت بُنانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے بیس (20)سال تک نماز کے مُعامَلے میں مَشَقّت اُٹھائی(یعنی محنت کی) اور بیس (20)سال تک خوشی سے نماز ادا کی۔(صفۃ الصفوۃ ج۲رقم ۱۷۵ ، اللہ والوں کی باتیں ج۲ص۴۹۰) غلط اور صحیح طریقے:: (1) غلط طریقہ: دونوں پاؤں کے درمیان زیادہ فاصلہ رکھنا۔ صحیح طریقہ: دونوں پاؤں کے درمیان چار(4)اُنگَل(یعنی انگلیوں کی موٹائی کے برابر) کا فاصلہ ہونا۔ (2) غلط طریقہ: سرجُھکا کر’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا ۔ صحیح طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے وقت سرجُھکا ہوا نہ ہونا۔ (3) غلط طریقہ: دل میں’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا یا دل میں قراءت کرنا۔ صحیح طریقہ: اِتنی آواز سے ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا یا قراءت کرنا کہ اپنے کان سُن لیں، مگر ساتھ والوں کو آواز تنگ نہ کرے۔یاد رہے کہ امام صاحب کے پیچھے قراءت کرنا منع ہے ۔ (4) غلط طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر ہاتھ اُٹھانا اورپیٹ پر ہاتھ باندھنا۔ صحیح طریقہ: کان کی لوتک ہاتھ اٹھانے کے بعد ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے ہاتھ چھوڑنا ۔’’اَکْبَر‘‘ کی راء کے ختم پرہاتھ ناف (پیٹ کے سوراخ) کے نیچے زور سے باندھنا ۔ (5) غلط طریقہ: اُلٹا ہاتھ، سیدھے ہاتھ سے پکڑ لینا۔ صحیح طریقہ: اُلٹے ہاتھ کی کلائی(wrist) پر سیدھے ہاتھ کی تین(3) انگلیاں (رکھنا) اورچھوٹی انگلی اورانگوٹھا (کلائی کے) اَغَل بَغَل(یعنی دائیں بائیں رکھنا)۔ نوٹ: یہ نماز کے اندر ہونے والی بعض غلطیاں ہیں۔ نماز صحیح ہونے کے لیے نماز کی شرائط وفرائض پورے کرنے ہونگیں، نماز توڑنے والی باتوں سے بھی بچنا ہوگا مزید نماز کو مکروہ باتوں سے بچانا، سنّتوں کے مطابق ادا کرنا اور قراءت وغیرہ کا درست کرنابھی نمازی کی ذمہ داری ہے۔ ( )

(9) جواب دیجئے: س۱) نماز کے فرائض اور شرائط پر غور کرتے ہوئے ایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز ہی نہیں ہوتی؟ س۲) نماز کے مکروہات پر غور کرتے ہوئےایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز مکروہ ِ تحریمی ہوتی ہے؟

32(a) ’’ مرد اور بچوں کے رکوع میں ہونے والی بعض غلطیاں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس کی امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں، جس کی طہارت(یعنی پاکی) نہیں اس کی کوئی نماز نہیں اور جس کی نماز نہیں اس کا کوئی دین نہیں کیونکہ دین میں نماز کا وہی مقام ہے جو بدن میں سر کا۔ (معجم اوسط ج۱ص۶۲۶حدیث۲۲۹۲)

حکایت: نماز کی وجہ سے کام ہو گیا ایک شخص کو قاضی(judge) سے کوئی جائز کام پڑ گیا تو اس نے حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے مدد چاہی۔ آپ اس کے ساتھ چلے گئے۔ راستے میں جو بھی مسجد نظر آتی، آپ اُس میں نفل نماز پڑھتے یہاں تک کہ قاضی(judge) کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت قاضی(judge) کا وقت(time) ختم ہو چکا تھا۔ آپ نے قاضی سے اس شخص کے کام کے بارے میں بات کی توقاضی نے وہ کام کر دیا۔ پھر آپ نے اس شخص کی طرف دیکھ کر فرمایا: یہاں آتے وقت جو کچھ آپ نے دیکھا(کہ میں بار بار نماز پڑھ رہا تھا)، اُس سے آپ پریشان ہو رہے ہونگے۔اس نے عرض کی: جی ہاں !آپ نے فرمایا: میں نے جب بھی نماز پڑھی تو آپ کا کام ہوجانے کی اللہ پاک سے دعا کی(جس کی برکت سے آپ کا کام ہوگیا)۔ (اللّٰہ والوں کی باتیں ج۲ ص ۴۹۲مُلخصاً) غلط اور صحیح طریقے:: (1) غلط طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر رکوع میں جانا۔ صحیح طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے اس طرح رکوع میں جانا کہ ’’الف ‘‘سےحرکت شروع ہواور’’اَکْبَر‘‘ کی ’’ راء ‘‘پر ختم۔ (2) غلط طریقہ: پیٹھ ٹیڑھی ہونا یا ملی ہوئی اُنگلیوں کے ساتھ گھٹنوں(knees) پر ہاتھوں رکھ دینا یاٹانگیں ٹیڑھی رکھنا ۔ صحیح طریقہ: پیٹھ اچھی طرح بچھی ہوئی ہونا ،گھٹنوں کو ہاتھوں سے پکڑنا ، انگلیاں پھیلی ہوئی(یعنی الگ الگ) رکھنا اورٹانگوں کو بالکل سیدھا رکھنا ۔ (3) غلط طریقہ: رکوع سے کھڑ ے ہو کر’’سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ‘‘ کہنا۔ صحیح طریقہ: ’’سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ‘‘ اس طرح کہتے ہوئے کھڑے ہونا کہ جب اُٹھیں تو ’’سین‘‘ شروع ہو اور جب کھڑے ہو جائیں تو ’’حَمِدَہ ‘‘کی’’ہ‘‘ ختم ہو۔ (4) غلط طریقہ: رکوع سے کھڑے ہوتے ہی بغیررُکے’’اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جانا۔ صحیح طریقہ: (اکیلے نماز پڑھنے والے کا)مکمل کھڑے ہونے کے بعد’’اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد‘‘ کہنا پھر ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جانا۔ (5) غلط طریقہ: دوران ِ نماز دونوں ہاتھوں سے لباس درست کرنا۔ صحیح طریقہ: ضرورت پڑھنے پر ِ نماز میں ایک ہاتھ سے لباس درست کرنا۔ نوٹ: نماز میں ہونے والی جن غلطیاں کو بتایا گیاہے،وہ ساری ایسی نہیں کہ ان غلطیوں کے ساتھ نماز ہی نہ ہوں یا جان بوجھ کر ایسا کرنے سے نمازدوبارہ پڑھنے کا حکم ہو ۔( )

(10)جواب دیجئے: س۱) نماز کے فرائض اور شرائط پر غور کرتے ہوئے ایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز ہی نہیں ہوتی؟ س۲) نماز کے مکروہات پر غور کرتے ہوئےایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز مکروہ ِ تحریمی ہوتی ہے؟

32(b) ’’ مرد اور بچوں کے سجدے وغیرہ میں ہونے والی بعض غلطیاں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری (یعنی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )کی اُمت پر (دن رات میں)پانچ (5) نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جو اِن نمازوں کو ان کے وقت میں پابندی سے ادا کرے گا میں اس کو جنّت میں داخل فرماؤں گا۔ (ابو داود،کتاب الصلاۃ، ج۱، ص۱۸۸، حدیث:۴۳۰)

حکایت: مریض کے گھر پر پہلے نماز پڑھتے حضرت ابن ِ شَوْذَب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ جب کبھی ہم حضرت ثابت بُنانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ کسی مریض کو دیکھنےکے لئے جاتے تو مریض کے گھر جاکر سب سے پہلے حضرت ثابت بُنانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مسجد ِبیت (یعنی گھر میں نماز پڑھنے کی جو جگہ ہوتی ہے، اُ س) میں نماز ادا کرتے پھر مریض کے پاس تشریف لاتے۔ (اللّٰہ والوں کی باتیں ج۲ص۴۹۱مُلخصاً) غلط اور صحیح طریقے:: (1) غلط طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا پھر سجدے میں اس طرح جانا کہ زمین پرپہلے ہاتھ رکھنا پھر گھٹنے (knees) رکھنا یا سجدے میں جا کر’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا۔ صحیح طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے سجد ے میں جانا کہ’’الف ‘‘سے حرکت شروع ہو اور’’ اَکْبَر‘‘ کی ’’راء‘‘ پر اس طرح ختم ہو کہ زمین پرپہلے دونوں گھٹنے ایک ساتھ رکھنا، پھر ہاتھ، اس کے بعد دونوں ہاتھوں کے بیچ میں ناک اور پھر پیشانی(forehead) رکھنا۔ (2) غلط طریقہ: سجدے میں زمین پرناک کی نوک لگانا۔ صحیح طریقہ: سجدے میں پیشانی اورناک کی ہڈّی جمانا کہ زمین کی سختی محسوس ہو۔ (3) غلط طریقہ: پاؤں کی انگلیاں زمین پر بالکل نہ لگانا یا انگلیوں کی نوکیں) یعنی سِرا) زمین پر لگانا۔ صحیح طریقہ: پاؤں کی دسوں انگلیوں کا پیٹ ( یعنی اُنگلی کا وہ اُبھرا ہوا حصہ جو چلنے میں زمین پر لگتا ہے) قبلہ رُخ (towards qiblah) زمین پر لگانا۔ (4) غلط طریقہ: سجدے کے بعد بیٹھتے ہی دوسرے سجدے میں چلے جانا۔ صحیح طریقہ: تکبیر کہتے ہوئے جلسے میں جانا،مکمل بیٹھنے کے بعد’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘ کہنا پھر دوسرے سجدے میں جانا۔ (5) غلط طریقہ: اَلتَّحِیَّات میں ہاتھ سیدھے رکھ کر اُنگلی اُٹھا دینا۔ صحیح طریقہ: اَلتَّحِیَّات میں ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ اس طرح پڑھنا کہ سیدھے ہاتھ کی چھوٹی اور اس سے پہلے والی اُنگلی کو بند کر کہ ہاتھ سے ملا لینا، انگوٹھے اور بیچ والی اُنگلی سے گول دائرہ بنانا اور سب سے پہلی اُنگلی کو اس پر رکھنا، اب جب ’’لَا‘‘پر پہنچیں (یعنی اَشْھَدُ اَنْ لَّا ) تو سب سے پہلی انگلی (جسے شہادت کی انگلی بھی کہتے ہیں) کواٹھا نا اور ’’اِلَّا ‘‘ (یعنی لَا اِلٰـہَ اِلَّا) پرنیچے رکھ دینا اور سب اُنگلیاں سیدھی کرلینا۔ (6) غلط طریقہ: دونوں کندھوں کی طرف تھوڑا سا منہ پھیر کر سلام کرنا۔ صحیح طریقہ: دونوں کندھوں کی طرف سلام پھیرتے وقت اتنا منہ پھیرنا کہ پیچھے بیٹھے ہوئے شخص کو گال نظر آجائے۔ یاد ہے! یہ نماز کے اندر ہونے والی بعض غلطیاں ہیں۔ نماز صحیح ہونے کے لیے نماز کی شرائط وفرائض پورے کرنے ہونگیں، نماز توڑنے والی باتوں سے بھی بچنا ہوگا مزید نماز کو مکروہ باتوں سے بچانا، سنّتوں کے مطابق ادا کرنا اور قراءت وغیرہ کا درست کرنابھی نمازی کی ذمہ داری ہے۔( )

(11)جواب دیجئے: س۱) نماز کے فرائض اور شرائط پر غور کرتے ہوئے ایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز ہی نہیں ہوتی؟ س۲) نماز کے مکروہات پر غور کرتے ہوئےایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز مکروہ ِ تحریمی ہوتی ہے؟

33(a) ’’ خواتین اور بچیوں کی نماز کے شروع میں ہونے والی بعض غلطیاں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اَلصَّلَاۃُ نُوْرٌ۔ یعنی نماز نور ہے۔ (مسلم ص۱۴۰حدیث۲۲۳)علماء فرماتے ہیں: جس طرح نور کے ذریعے روشنی حاصل کی جاتی ہے اِسی طرح نماز بھی گناہوں سے روکتی ہے اور بے حیائی اور بری باتوں سے روک کرصحیح راہ دکھاتی ہے۔ (شرح مسلم ج۲ص۱۰۱ ملخصّاً)

حکایت: موت کی یاد میں نماز پڑھنے والی خاتون حضرت مُعاذَ ہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَاروزانہ صبح کے وَقت فرماتیں : (شاید) یہ وہ دن ہوجس میں مجھے مرنا ہے۔ پھر شام تک کچھ نہ کھاتیں پھر جب رات ہوتی توکہتیں : (شاید) یہ و ہ رات ہو جس میں مجھے مرنا ہے۔پھر صبح تک نماز پڑھتی رہتیں ۔ (احیاء العلوم ج۵ص ۳۸۵ ) غلط اور صحیح طریقے:: (1) غلط طریقہ: باریک دوپٹہ لینا یا باریک دوپٹہ سر پر کئی بار لپیٹنا مگر گلا باریک دوپٹے سے نظر آرہاہو۔ صحیح طریقہ: موٹی چادریا scarfوغیرہ کا استعمال کرناجس سے بال ، گردن وغیرہ کےسب حصّے چھپے ہوئے ہوں۔ (2) غلط طریقہ: چادر اس طرح لپیٹنا کہ سر کے بال کے ساتھ پیشانی (forehead)چھپا لینا یا اتنا پیچھے لپیٹنا کہ سر کے بال نظر آئیں یا (خصوصاً بڑی عمر کی خواتین کا اس طرح چادر لپیٹنا کہ) کان نظر آئیں ۔ صحیح طریقہ: موٹی چادریا scarfوغیرہ اس طرح لپیٹنا کہ نہ کان نظر آئیں ، نہ بال ،نہ گلا اور ایسا بھی نہ ہو کہ چادر سےپیشانی چھپالی جائے۔ (3) غلط طریقہ: آستین کلائیوں (wrists) یا شلوار ٹخنوں (ankles) سے اوپر ہونا ۔ صحیح طریقہ: لباس ایسا ہوکہ مُنہ کی ٹکلی ، دونوں ہاتھ گٹوں تک اور پاوں ٹخنوں تک ظاہر ہوں ، اس کے علاوہ باقی سارا جسم چھپا ہوا ہو۔ (4) غلط طریقہ: ایسا چوڑا پاجامہ یا ٹروزر (trousers)کا استعمال کرنا کہ جس سےسجدے میں جاتے ہوئے یا جلسے وغیرہ میں بیٹھ کر سیدھی طرف پیر نکالتے وقت پیڈلیاں(shins) ظاہر ہوجائیں۔ صحیح طریقہ: جوڑے ایسے سلوائے جائیں کہ مکمل نماز میں کہیں بھی جسم کا کوئی حصّہ نہ ظاہر ہو اور نہ لباس چست(skintight) ہو۔ نوٹ: نماز میں ہونے والی جن غلطیاں کو بتایا گیاہے،وہ ساری ایسی نہیں کہ ان غلطیوں کے ساتھ نماز ہی نہ ہوں یا جان بوجھ کر ایسا کرنے سے نمازدوبارہ پڑھنے کا حکم ہو ۔البتہ ان غلطیوں میں اس قسم کی غلطیاں بھی شامل ہیں۔( )

(12) جواب دیجئے: س۱) نماز کے فرائض اور شرائط پر غور کرتے ہوئے ایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز ہی نہیں ہوتی؟ س۲) نماز کے مکروہات پر غور کرتے ہوئےایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز مکروہ ِ تحریمی ہوتی ہے؟

33(b) ’’ خواتین اور بچیوں کی تکبیر وقیام میں ہونے والی بعض غلطیاں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو جا ن بوجھ کر ایک نَماز چھوڑ دیتا ہے اُس کا نام جَہَنَّم کے اس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا۔ (حلیۃ الاولیاء ج۷ص۹۹۲حدیث ۱۰۵۹۰) والد ِ اعلیٰ حضرت ،علامہ مفتی نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: قیامت کے دن اگر ایک(1) نماز نہ پڑھنےکے بدلے میں ہونے والے عذاب سے بچنے کے لیے تمام دنیا دینا چاہیں گے قبول نہ کی جائے گی اور اگر ہزار (1,000)سال روئیں گے(تب بھی) نجات نہ ملے گی۔ (انوارِ جمالِ مصطفٰے ص ۳۴۴مُلخصاً) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:جس نے جان بوجھ کر ایک وَقت کی نَماز چھوڑی ہزاروں سال جہنّم میں رہنے کا حقدار(entitled) ہے ، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قضا نہ پڑھ لے۔(فتاوی رضویہ جلد۹،ص۱۵۸ تا ۵۹ ملُخصاً)

حکایت: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نماز پڑھنے کی جگہ حضرت اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ میری والِدہ حضرت اُمِّ سُلَیْم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے گھر تشریف لا کر نماز ادا فرمانے کی عرض کی تا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نماز ادا فرمانے کی جگہ پر نماز پڑھا کریں ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے کرم فرمایا اور گھر تشریف لے آئے۔ حضرت اُمِّ سُلَیْم ر َضِیَ اللہُ عَنْہَا ایک چٹائی کی جانب بڑھیں اور اس پر پانی کا چھڑکاؤ کر دیا پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے نماز ادا فرمائی ۔( معجم الاوسط، من اسمه محمد، ٥ / ٢٩، حديث:٦٤٨١ مُلخصاً) غلط اور صحیح طریقے:: (1) غلط طریقہ: پیروں کو وی(V ) کی طرح ملا دینا۔ صحیح طریقہ: دونوں پاؤں کے درمیان 4اُنگَل(یعنی انگلیوں کی موٹائی کے برابر) کا فاصلہ ہونا۔ (2) غلط طریقہ: سرجُھکا کر’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا ۔ صحیح طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے وقت سرجُھکا ہوا نہ ہونا۔ (3) غلط طریقہ: دل میں’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا یا دل میں قراءت کرنا۔ صحیح طریقہ: اِتنی آواز سے ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنا یا قراءت کرنا کہ اپنے کان سُن سکیں، مگر ساتھ والوں کو آواز تنگ نہ کرے۔ (4) غلط طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر چادر سے ہاتھ اس طرح باہر نکال کراُٹھانا کہ کلائیاں(wrists) نظر آئیں یاکندھوں سے اوپر تک ہاتھ اُٹھانااور ہاتھ سینے پر اس طرح باندھنا کہ اُلٹے ہاتھ کی اُنگلیوں پر سیدھے ہاتھ کی اُنگلیاں رکھنا۔ صحیح طریقہ: چادر کے اندر سے دونوں ہاتھ کندھوں تک اُٹھانا اب’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے ہاتھ چھوڑنا کہ’’اَکْبَر‘‘ کی’’ راء ‘‘ کے ختم ہوتے ہی سینے پر اُلٹی ہتھیلی سینے پرچھاتی پررکھ کر اسکے اُوپرسیدھی ہتھیلی رکھنا۔ (5) غلط طریقہ: دوران ِ نماز دونوں ہاتھوں سے چادر درست کرنا۔ صحیح طریقہ: ضرورت پڑھنے پر دوران ِ نماز ایک ہاتھ سے چادر درست کرنا۔ یاد رہے! یہ نماز کے اندر ہونے والی بعض غلطیاں ہیں۔ نماز صحیح ہونے کے لیے نماز کی شرائط وفرائض پورے کرنے ہونگیں، نماز توڑنے والی باتوں سے بھی بچنا ہوگا مزید نماز کو مکروہ باتوں سے بچانا، سنتوں کے مطابق ادا کرنا اور قراءت وغیرہ کا درست کرنابھی نمازی کی ذمہ داری ہے۔

(13) جواب دیجئے: س۱) نماز کے فرائض اور شرائط پر غور کرتے ہوئے ایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز ہی نہیں ہوتی؟ س۲) نماز کے مکروہات پر غور کرتے ہوئےایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز تحریمی ہوتی ہے؟مکروہ ِ

34(a) ’’ خواتین اور بچیوں کے رکوع میں ہونے والی بعض غلطیاں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس کی نماز نہیں اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔ (مسند بزار ج۱۵ص۱۷۶حدیث ۸۵۳۹)

حکایت: خاتونِ جنّت کی نماز سے محبّت امام حَسَن رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: میں اپنی امی جان حضرت فاطِمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو دیکھتا تھاکہ کبھی تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا گھر کی مسجد(یعنی گھر کا وہ حصّہ کہ جو نماز پڑھنے کے لیے ہو) میں رات بھر نفل نماز پڑھتی رہتیں یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔ (مدارج النبوۃ(مترجم)، قسم پنجم، سیدہ فاطمۃ الزہرا، ج۲، ص۶۲۳مُلخصاً) غلط اور صحیح طریقے:: (1) غلط طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘کہہ کر رکوع میں جانا۔ صحیح طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے اس طرح رکوع میں جانا کہ ’’الف ‘‘سے حرکت شروع ہو اور’’ اَکْبَر‘‘کی ’’راء ‘‘پر ختم۔ (2) غلط طریقہ: گھٹنوں(knees) کو ہاتھوں سے پکڑنا اور انگلیاں پھیلی ہوئی رکھنایا مردوں کی طرح کمر سیدھی کرنا۔ صحیح طریقہ: بس اتنا جُھکنا کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں، گھٹنوں پر ہاتھ رکھنااور انگلیاں ملی ہوئی رکھنا۔ (3) غلط طریقہ: ٹانگیں سیدھی رکھنا۔ صحیح طریقہ: ٹانگیں جھکی ہوئی رکھنا یعنی سیدھی نہ رکھنا۔ (4) غلط طریقہ: رکوع سے کھڑ ے ہو کر’’سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ‘‘ کہنا۔ صحیح طریقہ: ’’سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ‘‘ اس طرح کہتے ہوئے کھڑی ہونا کہ جب اُٹھیں تو’’ سین‘‘ شروع ہو اور جب کھڑی ہو جائیں تو ’’حَمِدَہ‘‘کی’’ہ‘‘ ختم ہو۔ (5) غلط طریقہ: رکوع سے کھڑی ہوتے ہی بغیررُکے’’اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جانا۔ صحیح طریقہ: مکمل کھڑی ہونے کے بعد’’اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد‘‘ کہنا پھر ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘کہتے ہوئے سجدے میں جانا۔ نوٹ: نماز میں ہونے والی جن غلطیاں کو بتایاگیاہے،وہ ساری ایسی نہیں کہ ان غلطیوں کے ساتھ نماز ہی نہ ہو یا جان بوجھ کر ایسا کرنے سے نمازدوبارہ پڑھنے کا حکم ہو۔البتہ ان غلطیوں میں اس قسم کی غلطیاں بھی شامل ہیں۔( )

(14) جواب دیجئے: س۱) نماز کے فرائض اور شرائط پر غور کرتے ہوئے ایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز ہی نہیں ہوتی؟ س۲) نماز کے مکروہات پر غور کرتے ہوئےایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز مکروہ ِ تحریمی ہوتی ہے؟

(14) جواب دیجئے: س۱) نماز کے فرائض اور شرائط پر غور کرتے ہوئے ایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز ہی نہیں ہوتی؟ س۲) نماز کے مکروہات پر غور کرتے ہوئےایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز مکروہ ِ تحریمی ہوتی ہے؟

34(b) ’’ خواتین اور بچیوں کے سجدے وغیرہ میں ہونے والی بعض غلطیاں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نماز دین کا ستون ہے،جس نے اسے قائم رکھا(یعنی جس طرح پڑھنے کا حکم ہے، اُس طرح پڑھا تو )، دین کو قائم رکھا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اُس نے دین کو ڈھا دیا(یعنی اپنی دینی حالت کو گرا دیا)۔ (منیۃ المصلی ص۱۳)

حکایت: نماز کےساتھ ساتھ صدقہ حضرت عبد اللہ بن مَسْعُود رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی زوجہ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بہت صدقہ و خیرات کرنے والی اور نماز کی پابند صحابیہ تھیں۔ ایک دن اللہ پاک کےمحبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم صُبْح کی نماز ادا فرما کر واپَس آئے تو عورتوں کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا:اے بیبیو! میں نے جہنّم میں اَکْثَر عورتوں کو دیکھا، لہٰذا اپنی طاقت کے مُطابِق (صَدَقہ وخیرات کے ذریعے) اللہ پاک(کی رحمت) کے قریب ہوجاؤ۔وہاں حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بھی مَوجُود تھیں۔ آپ گھر گئیں، اپنے شوہر حضرت عبداللہ بن مَسْعُود رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے فرمان کے بارے میں بتایا اور زیورات اُٹھانے لگیں تو حضرتِ عبد اللہ رَضِیَاللّٰہُ عَنْہ نے پوچھا:انہیں کہاں لے جارہی ہیں؟عَرْض کی: اللہ و رسول عَزَّ وَجَلَّوَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم (کی رحمت) کے قریب ہونے کے لیے(انہیں صَدَقہ کروں)اور(اس صدقے کی وجہ سے) اللہ پاک مجھے جہنّم والوں میں سے نہ کرے ۔ ( الطبقات الکبری ، تسمية غرائب ...الخ، ۴۲۴۰-زینب بنت ابی معاویة، ۸/۲۲۶مُلخصاً) غلط اور صحیح طریقے:: (1) غلط طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘کہنا پھر سجدے میں اس طرح جانا کہ زمین پر پہلے بیٹھنا پھر سجدے میں جانا یا سجدے میں جا کر’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘کہنا۔ صحیح طریقہ: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘کہتے ہوئے سجد ے میں جانا کہ ’’اَللّٰہ‘‘کی ’’الف ‘‘سے حرکت شروع ہو اور’’ اَکْبَر‘‘کی’’ راء‘‘ پر اس طرح ختم ہو کہ زمین پرپہلے دونوں گھٹنے (knees) ایک ساتھ رکھنا پھر بغیر رکے ہاتھ رکھنا، اس کے بعد دونوں کندھوں کی سیدھ میں ناک اور پھر پیشانی(forehead) رکھنا۔ (2) غلط طریقہ: سجدے کے بعد بیٹھتے ہی دوسرے سجدے میں چلے جانا ، ہاتھ گھٹنوں (knees) کے قریب رکھنا اور پاؤں مردوں کی طرح کھڑے رکھنا۔ صحیح طریقہ: تکبیر کہتے ہوئے جلسے میں جانا،مکمل بیٹھنے کے بعد سید ھا ہا تھ سیدھی ران (thigh)کے بیچ میں اور اُلٹا ہاتھ ،اُلٹی ران(thigh) کے بیچ میں رکھ کر’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘ کہنا ، پھر دوسرے سجدے میں جانا۔ (3) غلط طریقہ: اَلتَّحِیَّات میں ہاتھ سیدھے رکھ کر اُنگلی اُٹھا دینا۔ صحیح طریقہ: اَلتَّحِیَّات میں ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ اس طرح پڑھنا کہ سیدھے ہاتھ کی چھوٹی اور اس سے پہلے والی اُنگلی کو بند کر کہ ہاتھ سے ملا لینا، انگوٹھے اور بیچ والی اُنگلی سے گول دائرہ بنانا اور سب سے پہلی اُنگلی کو اس پر رکھنا، اب جب ’’لَا‘‘پر پہنچیں (یعنی اَشْھَدُ اَنْ لَّا ) تو سب سے پہلی انگلی (جسے شہادت کی انگلی بھی کہتے ہیں) کواٹھا نا اور ’’اِلَّا ‘‘ (یعنی لَا اِلٰـہَ اِلَّا) پرنیچے رکھ دینا اور سب اُنگلیاں سیدھی کرلینا۔ (4)غلط طریقہ: دونوں کندھوں کی طرف سرسری سا منہ پھیر کر سلام کرنا۔ صحیح طریقہ: دونوں کندھوں کی طرف سلام پھیرتے وقت اتنا منہ پھیرنا کہ جو پیچھے بیٹھا ہو، اُسے گال نظر آجائے۔ یاد رہے! یہ نماز کے اندر ہونے والی بعض غلطیاں ہیں۔ نماز صحیح ہونے کے لیے نماز کی شرائط وفرائض پورے کرنے ہونگیں، نماز توڑنے والی باتوں سے بھی بچنا ہوگا مزید نماز کو مکروہ باتوں سے بچانا، سنّتوں کے مطابق ادا کرنا اور قراءت وغیرہ کا درست کرنابھی نمازی کی ذمہ داری ہے۔( )

(15) جواب دیجئے: س۱) نماز کے فرائض اور شرائط پر غور کرتے ہوئے ایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز ہی نہیں ہوتی؟ س۲) نماز کے مکروہات پر غور کرتے ہوئےایسی غلطیاں بتائیں کہ جن سے نماز مکروہ ِ تحریمی ہوتی ہے؟

35(a) ’’ مختلف نفل نمازیں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بندہ سجدے کی حالت میں اپنے ربّ سے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے، اِس لئے تم سجدے میں زیادہ دُعا کیا کرو۔ (مسلم ص ۱۹۸حدیث ۱۰۸۳) علماء فرماتے ہیں: نفل نماز کے سجدوں میں دُعائیں مانگیں اور دیگر (مثلاً فرض ،واجب)نمازوں کے سجدوں میں تسبیح کر کہ (مثلاً ’’سُبْحٰنَ رَبّیَ الْاَعْلٰی‘‘پڑھ کر)دعا مانگیں کیونکہ تسبیح بھی ایک طرح کی دعا ہے کہ اِن تسبیحات میں اللہ پاک کی تعریف ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۲ص۷۱ ماخوذاً) البتہ(نفل) نماز(کے سجدوں) میں عربی میں دُعا مانگیں ۔ قرآن و حدیث میں جو دعائیں ہیں اور یاد ہیں تو دُعا کی نیّت کے ساتھ یہ پڑھیں۔ اپنے لیے، اپنے (مسلمان)والدین، اساتذہ، پیر و مرشد اور تمام مسلمان مرد وں اور عورتوں کے ليے دُعا مانگیں، صرف اپنے ليے نہ مانگیں۔ (بہارِ شریعت، ج۱،ح ۳،ص ، ۵۳۴،۵۳۵، مسئلہ ۱۱۹ تا ۱۲۴ ماخوذاً)

حکایت: ہر مسجد میں نماز حضرت ابن شوذَب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ جب کبھی میں حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ کہیں جاتا تو جس مسجد کے قریب سے بھی گزر ہوتا وہ اس میں نفل نماز ضرور پڑھتے۔(اللّٰہ والوں کی باتیں ج۲ص۴۹۱) نفل نمازیں: {1} تَحِيَّۃُ الْمَسْجِد: پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: جو شخص مسجد میں داخل ہو، بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے۔)صحيح البخاري، کتاب الصلاۃ، الحديث: ۴۴۴، ج۱، ص۱۷۰( {} فرض یا سنّت یا کوئی نماز ،مسجد میں پڑھ لی تحیۃُ المسجد ادا ہوگئی اگرچہ تحیۃ ُالمسجد کی نیّت نہ کی ہو۔ اس نماز کا حکم اس کے ليے ہے جو نماز کی نیّت سے مسجد میں نہ گیا بلکہ درس و ذکر وغیرہ کے ليے گیا ہو۔ اگر فرض ادا کرنےیا جماعت سے نماز پڑھنےکی نیت سے مسجد میں گیا تو تحیۃُ المسجد بھی ہوگئی جبکہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد ہی پڑھ لی اور اگرزیادہ وقت گزر گیا پھر یہ نمازیں پڑھیں تو اب یہ تحیۃُ المسجد بھی پڑھے۔ {} ہر دن میں ایک(1) مرتبہ تحیۃُ المسجد کافی ہے ہر بار ضرورت نہیں اور اگر کوئی شخص بے وضو مسجد میں گیا یا اور کوئی وجہ ہے کہ تحیۃُ المسجد نہیں پڑھ سکتا تو چار (4)بار سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ کہے۔ (بہارِ شریعت، حصّہ ۴،ص۶۷۵،مسئلہ۲،۴) {2} تَحِيَّۃُ الْوُضُو : ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو شخص وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور ظاہر و باطن کی توجّہ (attention)کے ساتھ دو(2) رکعت پڑھے، اس کے ليے جنّت واجب ہو جاتی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، الحدیث: ۲۳۴، ص۱۴۴) {} تحيۃ ُالوضو کہ وضو کے بعد اعضا (یعنی جسم) خشک ہونے سے پہلے دو(2) رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے(اور ثواب کا کام ہے جبکہ مکروہ وقت نہ ہو)۔ {} غسل کے بعد بھی دو (2) رکعت نماز مستحب (اور ثواب کا کام )ہے۔ وضو کے بعد فرض وغیرہ پڑھے تو تحیۃُ الوضو بھی ہوگئی ۔ (بہارِ شریعت، حصّہ ۴،ص۶۷۵،مسئلہ۲،۴) {3} نمازِ اشراق: پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جو فجر کی نماز جماعت سے پڑھ کر اللہ پاک کاذکر کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج بلند ہوگیا پھر دو(2) رکعتیں پڑھیں تو اُسے پورے حج اور عمرہ کا ثواب ملے گا۔ (جامع الترمذي، أبواب السفر، الحديث ۵۸۶، ج۲، ص۱۰۰) {} نماز اشراق کا وقت سورج چمکنے کے بیس (20) منٹ بعد سے ہے، اسی میں احتیاط ہے کہ پاک و ہند اور عرب ممالک والے بیس (20) منٹ کاوقفہ(gap) دیں ۔(مراۃ شرح مشکوۃ،جلد۲،ص۵۴۳ مع واجباتِ حج اور تفصیلی احکام ص ۱۴۷ ماخوذاً) {4}نمازِ چاشت : حدیث شریف میں ہے، جس نے چاشت کی بارہ (12)رکعتیں پڑھیں، اللہ پاک اس کے ليے جنّت میں سونے کا محل بنائے گا۔ (جامع الترمذي، أبواب الوتر، الحدیث: ۴۷۲، ج۲، ص۱۷) {} نمازِ چاشت مستحب ہے، کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چاشت کی بارہ(12) رکعتیں ہیں اور افضل بارہ ہیں۔ {} نمازِ اِشراق کے فوراً بعد بھی چاہیں تو نمازِ چاشت پڑھ سکتے ہیں۔(اسلامی بہنوں کی نماز ص ۱۸۰) {5} نمازِ اوّابین : اﷲ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو مغرب کے بعد چھ (6)رکعتیں پڑھے جن کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو یہ بارہ (12)سال کی عبادت کے برابر ہوں گی ۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب اقامۃ الصلوۃ ،رقم ۱۱۶۷ ،ج ۲، ص ۴۵) {}اس نماز کا نام صلوۃ اوّابین ہے ۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ چھ (6)رکعتیں مغرب کی سنّتوں و نفلوں کے ساتھ ہیں(یعنی دو سنت، دو نفل مغرب اور اس کے بعد دو نفل پڑھنے سے اوّابین ادا ہو جائے گی)۔ {}اس طرح کی احادیث سے عبادت کا ثواب مراد ہوتا ہے، لہذا اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ایک بار نماز اوّابین پڑھ کر بارہ (12) سال تک نماز نہ پڑھو۔(مراۃ جلد۲،ص ۳۹۷ مُلخصاً)لہذافرض نمازیں پابندی سے پڑھنا اپنی جگہ فرض ہی ہیں۔ {6} نمازِ تَہَجُّد : نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو شخص رات کو جاگےاور اپنے گھر والوں کو جگائے پھر دونوں دو(2) دو (2) رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والے (لوگوں میں )لکھے جائیں گے۔ (المستدرک للحاکم، کتاب صلاۃ التطوع، الحدیث: ۱۲۳۰، ج۱، ص۶۲۴) {}نمازِ عشا کے فرض پڑھنے کے بعد تہجّد سے پہلے سو لینا ضروری ہے ،اگر کوئی بالکل نہ سویا تو اس کے یہ نوافل تہجّد نہ ہوں گے۔جن بزرگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے تیس (30)یا چالیس(40) سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی جیسے حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہیا امام ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہوہ حضرات رات میں تھوڑی دیر(بیٹھے بیٹھے) اونگھ لے لیتے ہونگے کہ جس سے تہجّد پڑھ سکتے ہوں لہذا ان بزرگوں پر یہ اعتراض نہیں(کیا جاسکتا کہ وہ تہجّد نہ پڑھتے تھے)۔(مراۃ جلد۲،ص ۴۱۴ مُلخصاً) {} کم سے کم تہجد کی دو(2) رکعتیں ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے آٹھ(8) رکعتیں تک پڑھنا ثابت ہے۔ (بہار شریعت ،ص۶۷۸،مسئلہ۳، حدیث ۳) {} جو سو کر اٹھنے کی طاقت رکھتا ہو اُس کیلئے افضل ہے کہ رات کے آخری حصّے(final part of night )پہلے تہجّد پڑھے بھی وتر کی نماز پڑھے۔(نماز کے احکام ص ۲۷۳ مُلخصاً) ( )

(16) جواب دیجئے: س۱) نمازِ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین کا وقت اور رکعتوں کی تعداد بتائیں؟

35(b)’’ مختلف نفل نمازیں ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو اکیلے میں دو (2)رکعت نماز پڑھے کہ اللہ پاک اور اُس کے فرشتوں کے علاوہ کوئی بھی اُسے نہ دیکھے اُس کے لیے جہنّم سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔ (کنز العمال ج۴ ص۱۲۵ حدیث ۱۹۰۱۵)

حکایت: ۱۳ جگہوں سے بندھے ہوئے بزرگ حضرتِ حسین بن منصور رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے جسم کو ٹخنوں (ankles)سے گھٹنوں(knees) تک تیرہ (13) جگہوں سے بیڑیوں (fetters)میں جکڑ رکھا تھا اور اسی حالت میں وہ د ن رات میں ایک ہزار(1000) رکعت نفل ادا کرتے تھے۔ (مکاشفۃ القلوب (اردو) ص۸۴) نفل نمازیں: نمازِ سفر : حدیث شریف میں ہے: کہ کسی نے سفر کے ارادے سے جاتےوقت، اپنے اہل کے پاس اُن دو (2)رکعتوں سے بہتر کچھ نہ چھوڑا، جو ان کے پاس پڑھیں۔ (ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مطلب في رکعتی السفر، ج۲، ص۵۶۵) سفر میں جاتے وقت دو رکعتیں اپنے گھر پر پڑھ کر جائے(یہ مستحب اور ثواب کا کام ہے اور) یہی نمازِ سفر ہے۔ (بہارِ شریعت، حصّہ ۴،ص۶۷۶ مُلخصاً) نمازِ واپسیِ سفر : رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سفر سے دن میں چاشت کے وقت تشریف لاتے اور ابتداءً (یعنی پہلے)مسجد میں جاتے اور دو رکعتیں مسجد میں نماز پڑھتے پھر وہیں ٹھہرتے ۔ (صحيح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب استحباب رکعتین في المسجد... إلخ، الحدیث: ۷۱۶، ص۳۶۱) نماز واپسی سفر کہ سفر سے واپس ہو کر دو رکعتیں مسجد میں ادا کرے(یہ مستحب اور ثواب کا کام ہے )۔ (بہارِ شریعت، حصّہ ۴، ص۶۷۷) یہ سب نمازیں عام نفل نمازوں کی طرح پڑھی جائیں گی اور نیّت یوں کریں کہ ” دورکعت نمازِ سفر“ یا ” دورکعت نماز واپسیِ سفر“۔ صلاۃُ التسبیح: نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کوصلاۃ التسبیح کا طریقہ بتایا پھر فرمایا: کہ اگر تم سے ہو سکے کہ تم ہر روز ایک بار پڑھ سکوتو پڑھا کرو اور اگر روز نہ پڑھ سکو تو ہر جمعہ میں ایک بار اور یہ بھی نہ کرسکو تو ہر مہینےمیں ایک بار اور يہ بھی نہ کرسکو تو سال ميں ايک بار اور یہ بھی نہ کرسکو تو عمر میں ایک بار۔ (ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مطلب في رکعتی الاستخارۃ، ج۲، ص۵۷۰.) طریقہ: نماز تسبیح کی نیّت کے ساتھ اَللہُ اَکْبَرْ کہہ کر سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَآ اِلٰـہَ غَیْرُکَ پڑھے پھر یہ پڑھے سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ پندرہ(15) بار پھر اَعُوْذُ اور بِسْمِ اللہ اور اَلْحَمْدُ اور سورت پڑھ کر دس بار(10) تسبیح(سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ) پڑھے پھر رکوع کرے اور رکوع میں(سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ کم از کم تین مرتبہ کہنے کے بعد) دس بار (10) وہی تسبیح پڑھے پھر رکوع سےسَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے ہوئے سر اٹھائے ، سیدھا کھڑا ہو کراَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدکہئے پھر دس بار(10) وہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ کو جائے اور اس میں (سبُحْاَنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کم از کم تین مرتبہ کہنے کے بعد) دس بار(10) وہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ سے جلسے میں جائے اور مکمل بیٹھنے کے بعداَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ کہے پھر دس بار (10) وہی تسبیح پڑھے پھر دوسرے سجدے کو جائے اور اس ميں(سبُحْاَنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کم از کم تین مرتبہ کہنے کے بعد) دس(10) مرتبہ وہی تسبیح پڑھے (اس طرح ایک رکعت میں75 تسبیحات ہوگئیں )۔ يوہيں چار رکعت پڑھے ہر رکعت میں 75 بار تسبیح اور چاروں میں تین سو (300)ہوئیں ۔(بہارِ شریعت، حصّہ ۴،ص ۶۸۳ مُلخصاً) قعدہ اولیٰ اور قعدہ اخیرہ میں تسبیح نہیں پڑھیں گے۔دو رکعت سے زیادہ رکعت والی نماز میں دوسری رکعت کے بعد بیٹھنے کو قعدہ اولیٰ کہتے ہیں اور ہر نماز کے آخر میں جو بیٹھتے ہیں، اُسے قعدہ اخیرہ کہتے ہیں۔ قعدہ اولیٰ میں اَ لتَّحِیَّات کے بعد درودِ ابراہیم اور دعا بھی پڑھیں۔ تیسری رکعت کے شروع میں ثناء (یعنی سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَآ اِلٰـہَ غَیْرُکَ) بھی پڑھے۔ اگر سجدۂ سہو واجب ہو تو(سجدہ سھو کے دو) سجدے کرے مگر ان دونوں سجدوں میں صلوۃ ُ التسبیح کی تسبیحات (یعنی سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ)نہ پڑھی جائیں ۔ اگر کسی جگہ بھول کر دس بار(10 times) سے کم پڑھی ہیں تو دوسری جگہ پڑھ لے تاکہ وہ مقدار (quantity) پوری ہو جائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے بعد جو دوسرا موقع(next turn) تسبیح کا آئے وہیں پڑھ لے مثلاً قومہ کی ( یعنی رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہوا اور تسبیح پڑھنا بھول گیا تو اب یہ دس (10)تسبیح بھی) سجدہ میں کہے اور رکوع میں بھولا تو اسے بھی سجدہ ہی میں کہے قومے میں( یعنی رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہو کر) نہ کہے کہ قومہ کی مقدار (duration) تھوڑی ہوتی ہے اور پہلے سجدہ میں بھولا تو دوسرے میں کہے جلسہ(یعنی سجدے کے بعد جو بیٹھتے ہیں، اس) میں(رہ جانے والی تسبیح) نہ(پڑھے)۔ (ردالمحتار) تسبیح اُنگلیوں پر نہ گنے بلکہ ہو سکے تو دل میں شمار(count) کرے ورنہ اُنگلیاں دبا کر۔ ہر اُس وقت میں کہ جو مکروہ نہ ہو یہ نماز پڑھ سکتا ہے اور بہتر یہ کہ ظہر سے پہلے پڑھے۔ (عالمگیری، ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،ج۱،ص۶۸۴، مسئلہ۳،۴)

(17) جواب دیجئے: س۱) نمازِ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین کا وقت اور رکعتوں کی تعداد بتائیں؟ س۲) صلوۃ التسبیح کا طریقہ بیان کریں؟

36 ’’ اذان کا طریقہ ا ور حکم ‘‘

حدیثِ مُبارک: جس بستی میں اَذان دی جائے،اُس دن اللہ پاک اپنے عذاب سےاُس بستی کو امن (peace)دے دیتا ہے۔(اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱ ص۲۵۷حدیث ۷۴۶)

حکایت: مزار شریف سے اَذان کی آواز آتی پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکے پیارے نواسے، امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو یزید کی فوج نے شہید کیا تھا۔ یزید بہت ظالم اور سخت گناہ گار تھا۔ اس کے بُرے کام بہت زیادہ تھے یہاں تک اس نے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پیاری مسجد ، مسجدِ نبوی شریف پر بھی حملہ کر دیا اور کئی صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو شہید بھی کردیا،مسجد میں ہونے والی اذان اور نمازیں بھی بند کروادیں۔حضرت ابو محمد سعید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دیوانے(insane) اور بیمار بن کر ان دنوں مسجدنبوی میں حاضر رہے، خود فرماتے ہیں :اُن دنوں مسجدنبوی شریف میں میرے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتا تھا، یزیدیوں کی جماعتیں مسجد نبوی شریف میں آتیں اوریہ لوگ کہتے:اِس بوڑھے دیوانےکو دیکھو!اور جب بھی نماز کا وقت ہوتا تو پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پیارے پیارے مزار شریف سے اذان کی آواز آتی پھر میں آگے بڑھتا اور نماز پڑھتا اورمیرے علاوہ مسجِد میں کوئی نہیں ہوتا تھا۔ (الطبقات الکبری ج ۵ ص ۱۰۰) اذان: {1} پانچوں فرض نَمازیں ان میں جُمُعہ بھی شامل ہے جب جماعت اُولیٰ(مسجد میں طے شدہ(decided) وقت میں ہونے والی نماز) کے ساتھ مسجِد میں وقت پراداکی جائیں توان میں اذان کہی جائے۔ اگراذان نہ کہی گئی تووہاں کے تمام لوگ گنہگارہونگے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص ۴۶۴ مُلخصاً) {2}اذان کا طریقہ:مسجد (میں جس جگہ نماز پڑھی جاتی ہے، اُس ) سے باہر(یا اذان کے کمرے وغیرہ میں) قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو۔ اور کانوں کے سوراخوں میں کلمہ کی انگلیاں ڈال کر بلند آواز سے اَللہُ اَکْبَر۔ اَللہُ اَکْبَرکہے پھر ذرا ٹھہر کر اَللہُ اَکْبَر۔اَللہُ اَکْبَرکہے۔ پھر ذراٹھہر کر اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَللہکہے پھر ذراٹھہر کر دوسری بار(second time) یہی کہےپھر اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲ ؕ کہے پھر ذرارُک کر دوسری بار یہی کہےپھر سیدھی طرف منہ کر کہ حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِؕ کہے پھر ذراٹھہر کر(اُلٹی طرف منہ پھیر ے اور) دوسری بار یہی کہےپھر سیدھی طرف منہ کر کے حَیَّ عَلَی الْفَلَا حِ ؕ کہےپھر ذراٹھہر کر(اُلٹی طرف منہ پھیر ے اور) دوسری بار یہی کہے۔ پھر قبلہ کی طرف منہ کرے اور اَللہُ اَکْبَر۔ اَللہُ اَکْبَرکہے پھر ایک مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہے۔(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ،ج۱،ص۵۵۔۵۶مُلخصاً) {3}مسجِدکے باہَرقِبلہ رُوکھڑے ہوکر،کانوں میں اُنگلیاں ڈال کربُلندآوا زسے اذان کہی جائے مگر طاقت سے زیادہ آواز بُلندکرنامکروہ ہے۔(بہارِ شریعت ج ۱ ص ۴۶۸ ، ۴۶۹ )اذان میں اُنگلیاں کان میں رکھنا مسنون و مُسْتَحب (ثواب کا کام)ہے مگر ہِلانا اور گھمانا فضول حرکت ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ ج ۵ ص ۳۷۳) {4} ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ‘‘ سیدھی طرف منہ کرکے کہے اور’’ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح ‘‘ اُلٹی طرف منہ کرکے، کہیں اگرچِہ اذان نَماز کیلئے نہ ہو مَثَلاًبچّے کے کان میں اذان کہی۔یہ ہلناصرف مُنہ کاہے سارا جسم نہیں موڑیں گے۔(دُرِّمُختار ج۲ص۶۶، بہارِ شریعت ج۱ص۴۶۹) {5} فجر کی اذان میں’’ حَیَّ عَلَی الْفَلَا حِ‘‘ کہنے کے بعد دو (2)مرتبہ’’ الصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘ کہنا بھی مستحب (اور ثواب کا کام)ہے۔(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ،ج۱،ص۵۵) اگرنہ کہاجب بھی اذان ہوجا ئے گی۔ (قانونِ شریعت ص ۸۹) {6} اذان کے بعد بلکہ پہلے بھی درود شریف پڑھے۔ پھر اذان پڑھنے والا اور اذان سننے والے سب یہ دعا پڑھیں: اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّا مَّۃِ وَ الصَّلوٰۃِ الْقَآئِمَۃِ اٰتِ سَیِّدَنَا مُحَمَّدَ نِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَاماً مَّحْمُوْدَانِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ وَارْزُقْنَا شَفَا عَتَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ O(جنتی زیور ص۲۶۴، مُلخصاً) ( )

(18) جواب دیجئے: س۱) اذان کا طریقہ بیان کریں؟ س۲) اذان کے بعد کی دعا کونسی ہے؟

37 ) ’’ اذان اور اس کا جواب‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جب اَذان کہی جاتی ہے، آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دُعا قبول ہوتی ہے۔ (کنزالعمال، کتاب الأذان، الحدیث: ۲۰۹۱۰، ج۷، ص۲۷۹.)

حکایت: زندگی کی آخری اذان سنتے ہی مسجد چلے گے حضرت عامر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی موت کا وقت تھا، آپ روح نکلنے کی تکالیف میں تھے کہ مغرب کی اذان شروع ہوگئی ۔ فرمایا : میراہاتھ پکڑو اور مجھے مسجد لے چلو۔ عرض کی گئی: آپ بیمار ہیں۔ فرمایا: میں اذان کے ذریعے اللہ پاک کے بلاوے کو سنوں اور قبول نہ کروں!(یعنی اذان سن لینے کے بعد میں جماعت میں شرکت نہ کروں!یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا) ۔ لوگ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو مسجد میں لے آئے اورآپ مغرب کی نماز امام کے پیچھے جماعت سے پڑھنے لگے، ابھی ایک(1) رَکعت نماز ہی پڑھی تھی کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔ (سیر اعلام النبلاء ج۶ص۵۲) اذان اور جواب : {1}اگرکوئی شخص( مثلاً سخت بیمار ہونے کی وجہ سے) شَہر کے اندر گھرمیں نَمازپڑھے تووہاں کی مسجِدکی اذا ن اس کیلئے کافی ہے مگراذان کہہ لینامُسْتَحَب ہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۲،۷۸)یاد رہے ! شرعی اجازت کے بغیر مرد کا مسجد میں ہونے والی فرض نمازوں کی جماعت کو چھوڑنا، ناجائز و گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے ۔ {2}وَقت شُروع ہونے کے بعداذان کہئے اگر وَقت سے پہلے کہہ دی یا وقت سے پہلے شُروع کی اوردورانِ اذان وقت آگیادونوں صورَتوں میں اذان دوبارہ کہئے۔ (الہدایۃ ج ۱ ص۴۵) {3}خواتین اپنی نَمازادا پڑھتی ہوں یاقضااس میں ان کیلئے اذان واِقامت کہنامکروہ ہے ۔(دُرِّمُختار ج۲ص۷۲) {4}بے وُضُوکی اذان صحیح ہے مگربے وُضُوکااذان کہنامکروہ ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۴۶۶،مَراقی الْفَلاح ص۴۶) {5} ناسمجھ بچّے کی اذان مکروہ ہے۔ایسی اذان دوبارہ دی جائے گی۔(بہارِ شریعت ج۱ص۴۶۶،دُرِّمُختار ج۲ص۷۵) سمجھداربچّہ اذان دے سکتا ہے۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۷۵) {6}اگر مؤذّن صاحب ہی امام صاحب بھی ہوں توبہترہے۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۸۸)(فیضانِ اذان ص ۹ تا ۱۱) اذان کا جواب: {1}نَماز کی اذان کے علاوہ دیگراذانوں کاجواب بھی دیاجائے گامَثَلاًبچّے کے(پیدا ہونے پر) کان میں کہی جانے والی اذان۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۸۲) {2} مقتدیوں (امام کے پیچھے جو نماز پڑھنے کے لیے موجود ہیں، اِن)کو خطبے کی اذان کا جواب ہرگزنہ دینا چاہئے یہی احتیاط سے قریب ہے ۔ ہاں اگر یہ جوابِ اذان یا (دو خطبوں کے درمیان) دعا، دل سے کریں ، زَبان سے کوئی لفظ ادا نہ کریں تو کوئی حرج نہیں ۔اور امام صاحب یعنی خطیب صاحب اگر زَبان سے بھی جوابِ اذان دے یا دُعا کریں تو جائز ہے ۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ ص ۳۰۰،۳۰۱ مُلخصاً) {3} اَذان سُننے والے کیلئے اَذان کا جواب دینے کاحکم ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۴۷۲) {4}جب اذان ہو تواُتنی دیر کیلئے سلام وکلام(یعنی بات چیت) ، سلام کا جواب اورتمام کام روک دیں یہاں تک کہ تِلاوت بھی روک دیں، اذان کو غور سے سنئے اورجوا ب دیجئے۔اِقامت میں بھی اِسی طرح کیجئے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۴۷۳،دُرِّمُختار ج۲ص۸۶، مُلَخّصاً) {5}جواَذان کے وَقت باتوں میں مصروف رہے ا س کا معاذاللہ!(اللہ پاک کی پناہ)خاتمہ بُراہونے کا خوف ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۴۷۳) {6}راستے پرچل رہاتھاکہ ا ذان کی آوازآئی تو(بہتر یہ ہے کہ) اُتنی دیرکھڑا ہوجائے (چپ چاپ ) سُنے اورجواب دے۔(عالَمگیری ج۱ص۵۷،ایضاً)ہاں دورانِ اذان مسجِد یا وُضو خانے کی طرف چلنے اوروُضو کرنے میں کوئی حَرَج نہیں اِس دوران زَبان سے جواب بھی دیتے رہئے۔ {7}اذان کے دوران استنجا خانے (toilet)جانا بہتر نہیں کیونکہ وہاں اذان کا جواب نہ دے سکے گا اور یہ بہت بڑے ثواب سے محرومی ہے البتہ سخت ضرورت ہو یاجماعت نکل جانے کا خوف ہو تو چلا جائے ۔ {8} اگرچنداذانیں سُنے تواس پر پہلی ہی کاجواب ہے اوربہتریہ ہے کہ سب کا جواب دے۔(دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۲ص۸۲،بہارِ شریعت ج۱ص۴۷۳) {9}اگراذان کے وقت جواب نہ دیااور زِیادہ دیرنہ گزری ہوتو اب جواب دے لے ۔(دُرِّمُختار ج۲ص۸۳) جوابِ اذان کا طریقہ: {1}جواب دینے والے کو چاہئے کہ جب مؤذّن صاحِباَللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ کہہ کر خاموش ہوں اُس وقت اَللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْکہے{2} اِسی طرح دیگرکلِمات کاجواب دے{3} جب مؤذّن صاحِب پہلی بار اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ کہیں تو جواب میں یہ کلمہ دہرائے پھریہ کہے :صَلَّی اللہُ عَلَیْكَ یَا رَسُوْلَ اللہِ پھر انگوٹھوں کے ناخن ہونٹ پر رکھ کر بغیر آواز نکالے آنکھوں سے لگالے، اور کہے: اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَر{4}جب مؤذّن صاحِب دوسری بار اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ کہیں تو جواب میں یہی کلمہ دہرائے اوریہ کہے : قُرَّۃُ عَیْنِیْ بِکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ پھر انگوٹھوں کے ناخن ہونٹ پر رکھ کر بغیر آواز نکالے آنکھوں سے لگالے، اور کہے: اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَر(رَدُّالْمُحتار ج۲ص ۸۴ بتغیر) {5}حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کے جواب میں بہتر ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کہے پھرلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِکہے اوربلکہ مزیدیہ بھی کہ لے:مَا شَاءَ اللہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُن {6}حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کاجواب بھی اسی طرح دے۔(دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۲ص۸۲، عالمگیری ج۱ص۵۷) {7}فجر کی اذان میںاَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم کے جواب میں کہے:صَدَقْتَ وَ بَرِرْتَ وَبِالْحَقِّ نَطَقْت کہے (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۲ص۸۳) (فیضانِ اذان ص۱۱تا ۱۳مُلخصاً) ( )

(19) جواب دیجئے: س۱) اذان کے چند نکات بیان کریں۔ س۲) اذان کے جواب کے چند نکات بیان کریں۔

38 ’’ اذان کے بعد مسجد سے نکلنا اوراقامت ‘‘

احادیثِ مُبارکہ : (1) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جو اَذان سُن کر یہ دُعا پڑھے تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(دعا یہ ہے:) اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلاۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ (سَیِّدَنَا) مُحَمَّدَنِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَاماً مَحْمُوْدَ نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ(ترجمہ: اے اللہ ! اے اس مکمل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے ربّ!تو( ہمارے سردار )حضرتِ محمد ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )کو وسیلہ(یعنی جنّت میں ایک ایسی جگہ کہ جوصرف ایک ہی کو ملے گی (فتاوی رضویہ جلد۳۰،ص۲۳۳ مُلخصا)) اور فضیلت اور بہت بلنددرَجہ عطا فرما اور اُن کو مقامِ محمود (یعنی گناہ گاروں کے گناہ مُعاف کرنے کی سفارش اور شفاعت والے درجے(فتاوی رضویہ جلد۳۰،ص۱۷۰ مُلخصاً))میں کھڑا کر جس کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے) ۔(صحيح البخاري، کتاب التفسير،۱۱۔ باب ، الحدیث: ۴۷۱۹، ج۳، ص۲۶۲) نوٹ: اللّٰہ پاک قیامت کے دن اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یقینی طور پر وسیلہ اور مقامِ محمود عطا فرمائے گا ، چاہے مسلمان نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے اس کی دعا کریں یا نہ کریں کیونکہ یہ اللّٰہ پاک کا اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے وعدہ ہے اور اللّٰہ پاک اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا، البتہ مسلمانوں کو وسیلہ اور مقامِ محمود کی دعا مانگنے کا جو فرمایا گیاہے وہ اس لئے ہے کہ اس دعا سے ، دعا کرنے والے کو یہ فائدہ ملے کہ وہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شفاعت حاصل کر لے۔(صراط الجنان ج۵،ص۴۹۹مُلخصاً) (2) فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جب تم مؤذن کو (اذان کہتے ہوئے) سنو تو اذان کے کلمات دہراتے جاؤ اور پھر مجھ پر دُرود پڑھو کیونکہ جو مجھ پر ایک (1)مرتبہ دُرود پڑھتا ہے اللہ پاک اس کے بدلے میں اس پر دس (10)رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس کے بعد اللہ پاک سے میرے لئے مقامِ وسیلہ کی دعا مانگو کیونکہ وہ جنّت کا ایک ایسا مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں۔ جو شخص میرے لئے مقامِ وسیلہ کی دعا مانگے تو میں اُس کی شفاعت کرونگا۔( مسلم ، ص۱۶۲ ، حدیث : ۸۴۹) (3) حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے اذان کے بعد پڑھنے کی جو دعا بتائی، اُ س میں یہ بھی ہے کہ: وَاجْعَلْنَا فِیْ شَفَاعَتِہٖ یَوْمَ القِیَامَۃِ(ترجمہ: اور ہمیں قیامت کے دِن اُن کی شفاعت نصیب فرما)۔ (المعجم الکبير للطبراني، الحدیث: ۱۲۵۵۴، ج۱۲، ص۶۶ ۔ ۶۷مُلخصاً)

حکایت: میں مؤذّن کی اذان سنتا ہوں حضرت ربیع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو جب فالج ہوگیا تودو(2) آدمیوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نمازکے لیے تشریف لاتے، جب کہا جاتا:حضور! آپ معذور (disabled)ہیں۔تو فرماتے: لیکن میں مُؤَذِّن سے ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ‘‘ (یعنی نماز کی طرف آؤ!)، ’’ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح ‘‘(یعنی بھلائی کی طرف آؤ!) سنتا ہوں اور جو اذان سنے اُسے چاہئے کہ وہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے آئے، چاہے گھسٹتے (dragging کرتے )ہوئے جانا پڑے! (حلیۃ الاولیاء ج۲ص۱۳۳رقم۱۷۰۷ملخصاً) یہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا جذبہ تھا، لیکن شریعت کا مسئلہ یہی ہے کہ ایسا مریض جس کو جماعت کے لئے جانے میں سخت مشکل ہو اُس کو مسجد کی حاضِری مُعاف ہے۔ اَذان کے بعد مسجِد سے نکلنا: {1}جس شخص نے نماز نہ پڑھی ہو اسے مسجد سے اذان کے بعد نکلنا مکروہِ تحریمی(ناجائز و گناہ) ہے۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: اذان کے بعد جو مسجِد سے چلا گیا اور کسی حاجت(یعنی ایسی ضرورت) کے لیے نہیں گیا (کہ جس کی شریعت نے اجازت دی ہو)اور واپس نہ ہونے کا ارادہ ہے وہ منافق ہے۔ (ابن ماجہ ج۱ص۴۰۴حدیث ۷۳۴) {2}اذان سے مراد نماز کا وقت شروع ہو جانا ہے،ابھی اذان ہوئی ہو یا نہیں ۔ (درمختار ج۲ص۶۱۳) {3}جو شخص کسی دوسری مسجد کی جماعت کاانتظام چلانے والا ہو، مَثَلاً امام صاحب یا مُؤَذِّن صاحب ہو ں کہ اُن کے ہونے سے لوگ وہاں ہوتے ہیں ورنہ اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں ، ایسے شخص کو اجازت ہے کہ یہاں سے اپنی مسجد کو چلا جائے اگرچِہ یہاں (جماعت کیلئے) اقامت بھی شروع ہوگئی ہو مگر جس مسجد کا انتظام چلاتاہے اگر وہاں جماعت ہو چکی تو اب یہاں سے جانے کی اجازت نہیں ۔ (در مختار و رد المحتار ج۲ص۶۱۳) {4}سبق کا وقت ہے تو یہاں سے اپنے استاد کی مسجد کو جاسکتا ہے۔ {5}کسی کو کوئی ضرورت ہو اور واپس ہونے کا ارادہ ہو تو بھی جانے کی اجازت ہے، جبکہ مضبوط خیال ہو کہ جماعت سے پہلے واپس آجائے گا۔ (درمختار ج۲ص۶۱۴) اقامت اور اس کے دینی مسائل: {1}مل کرجماعت سے نماز پڑھنے سے پہلے، اذان کی طرح کے الفاظ پڑھے جاتے ہیں،اِسے اقامت کہتے ہیں۔ یہ الفاظ اذان کی طرح ہوتے ہیں مگر اس میں ’’ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح ‘‘کے بعد دو مرتبہ ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلاۃ‘‘ پڑھتے ہیں۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۴۷۰،مسئلہ۴۱ ماخوذاً) {2} اِقامت مسجِدمیں امام صاحب کے عین پیچھے کھڑے ہوکر کہنابہترہے اگر عین پیچھے موقع نہ ملے تو سیدھی طرف مُناسِب ہے۔ (ماخوذ اَز فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۵ ص۳۷۲ ) {3} اقامت میں اتنی آواز ہو کہ جو نماز کے لیے آئے ہیں ، وہ سُن لیں ۔ اَذان کی طرح زور سے نہ کہی جائے۔ اِقامت میں یہ سنّت نہیں کہ بلند جگہ يا مسجد سے باہر ہو(بلکہ مسجد کے اندر، صف میں اقامت کہی جائے)۔ (بہارِ شریعت ج۱،ص۴۷۰،مسئلہ۴۱ ماخوذاً) {4} اِقامت اذان سے بھی زیادہ تاکیدی(اور اہم) سنَّت ہے۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۶۸) {5} اِقامت کاجواب دینامُسْتَحَب(اور ثواب کا کام) ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۴۷۳) {6}اِقامت کے کَلِمات جلدجلدکہیں اوردرمیان میں سَکْتہ(pause) مت کیجئے۔ (ایضاًص۴۷۰) {7}اِقامت میں بھی ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ‘‘ اور ’’ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح ‘‘میں دائیں بائیں منہ پھیریئے۔ (دُرِّمُختار ج ۲،ص۶۶) {8}اِقامت اُسی کاحق ہے جس نے اذان کہی ہے، اذان دینے والے کی اجاز ت سے دوسراکہہ سکتاہے اگربِغیراجازت کہی اور مؤذّن ( یعنی جس نے اذان دی تھی اُس )کو بُرا لگا تو مکروہ ہے ۔(عالمگیری ج۱ص۵۴) {9}اِقامت کے وَقت کوئی شخص آیاتواُسے کھڑے ہوکرانتِظارکرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جائے اِسی طرح جولوگ مسجِدمیں موجودہیں وہ بھی بیٹھے رہیں(جب کہ امام صاحب مسجد میں موجود ہوں) اوراُس وَقت کھڑے ہوں جب مُکَبِّر(اقامت پڑھنے والا) ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ‘‘ پرپہنچے یِہی حکم امام صاحب کیلئے ہے(کہ جو پہلے سے مسجد میں ہوں)۔ (ایضاًص۵۷،بہارِ شریعت ج۱ص۴۷۱)

(20) جواب دیجئے: س۱) اذان کے بعد مسجد سے نکلنے کے چندنکات بیان فرمائیں۔ س۲) اقامت کے چند نکات بیان کریں۔