’’ دین کے مسائل ‘‘(part 03 A)

’’ فرض علوم ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے ۔ (ابن ماجہ،ج۱،ص۱۴۶حدیث: ۲۲۴)
{1} اس حدیثِ پاک سے اسکول کالج کی دُنیوی تعلیم نہیں بلکہ ضَروری دینی علم مُرادہے۔
{2} سب سے پہلے اسلامی عقیدوں(beliefs) کا سیکھنا فرض ہے،اس کے بعدنَماز کے فرض، شرطیں (preconditions۔یعنی نَماز کس طرح دُرُست ہوتی ہے) اورمُفسِدات (یعنی کن باتوں سے نمازٹوٹ جاتی ہے، سیکھنا فرض ہے )پھر رَمَضانُ المُبارَک جب تشریف لائے توجس پر روزے فرض ہوں اُس کیلئے روزوں کے ضَروری مسائل(سیکھنا فرض ہے)،جس پر(جب) زکوٰۃ فرض ہو اُس کے لئے زکوٰۃ کے ضَروری مسائل(سیکھنا فرض ہے)،اسی طرح (جب)حج فرض ہو جائے تو حج کے ضَروری مسائل(سیکھنا فرض ہے)،نکاح کرنا چاہتا ہو تو نکاح کے ضَروری مسائل(سیکھنا فرض ہے)، اسی طرح تاجر کو تجارت کے،خریدار(buyer) کو خریدنے(buying) کے،نوکری کرنے والے (employee)اورنوکر رکھنے والے (employer)کو اِجارے(ملازم رکھنے کی اصولوں۔rulings about an employment contract) کو سیکھنا لازم ہے،وَعلٰی ھٰذا الْقِیاس(یعنی اوراسی پر سوچتے چلے جائیں کہ کون کون سے مسائل سیکھنا ضروری ہیں )۔
{3}یاد رہے کہ ہر مسلمان عاقِل (جو پاگل وغیرہ نہ ہو) اور بالِغ(grownup) مردو عورت پر اُس کی موجودہ حالت (current state)کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین(،لازم اور ضروری) ہیں۔
{4}اِسی طرح ہر ایک کیلئے حلال و حرام (یعنی یہ کام کرنا جائز ہے اور یہ کام کرنا جائز نہیں ہے) کے ضروری مسائل سیکھنا بھی فرض ہیں۔
{5}ظاہری گناہ جیسا کہ وعدہ خِلافی، جھوٹ، بدنِگاہی(مثلاً غیر عورتوں کو دیکھنا)،دھوکا(cheating)، ایذاءِ مسلم (یعنی مسلمانوں کو تکلیف دینا)وغیرہ وغیرہ کا علم سیکھنا ضروری ہے بلکہ تمام صغیرہ وکبیرہ (چھوٹے اور بڑے) گناہوں کے بارے میں ضَروری مسائل سیکھنا بھی فرض ہیں تاکہ اِن سے بچا جا سکے۔
{6}مزیز(more) باطِنی فرائض مَثَلاً عاجِزی(یعنی نرم انداز رکھنا) ، اِخلاص (یعنی نیک کام اللہ کریم کے لیے کرنا) اور توکُّل (یعنی اللہ کریم پر بھروسہ(trust) کرنا) وغیرہا اوران کو حاصِل کرنے کے طریقے(وغیرہ کا علم جاننا بھی لازم ہے) ۔ ,
{6}اور باطِنی گناہ مَثَلاً تکبُّر(یعنی کسی کو گھٹیا(یعنی حقیر) جاننا)،رِیاکاری (یعنی نیک کام لوگوں کو دکھانے کے لیے کرنا)،حَسَد(یعنی دوسرے کی نعمت چلے جانے کی خواہش (desire)کرنا)،بدگمانی ( شرعی ثبوت (Shariah evidence)کے بغیرمسلمان کے لیے گناہ کرنے کا خیال کرنا )،بغض اور کینہ(یعنی مسلمان سے نفرت کرنا)، شُماتَت(یعنی کسی کی مصیبت پر خوش ہونا) وغیرہا اوران کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(نیکی کی دعوت ص۱۳۵، ۱۳۶، مُلخصاً۔

واقعہ(incident): حلال اور حرام کے بارے میں بھی بتا یا

حضرت ابو صالِح رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جنّتی صحابی حضرت عبدُاللہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کے گھرکے پاس بہت سے لوگ آئے ہیں کہ گلی میں جگہ کم ہوگئی۔ میں نے حضرت عبدُاللہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو بتایاتو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے مجھے وُضُو کیلئے پانی لانے کا حُکْم دیا اور پھر وُضُو کے بعد آپ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے پھر فرمایا کہ: باہَر جا کر کہو کہ جسے قرآنِ مجید یا اس کے حُرُوف کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے تو وہ اندر آجائے ۔ میں نے لوگوں سے کہا تو اتنے لوگ گھر کے اندر آگئے کہ سارا گھر بھر گیا پھر اُن لوگوں نے سوالات کیے اور حضرت عبدُاللہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے جوابات دیے،پھر فرمایا کہ اپنے دوسرے بھائیوں کا بھی خَیال کرو تو وہ لوگ باہَر چلے گئے ۔

اب آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے قرآنِ مجید کی تفسیر (یعنی آیت کے معنیٰ، مطلب، شرح اور وضاحت) کے بارے میں سوال کرنے والوں کو بلایا تو گھر ان لوگوں سے بھر گیا پھر ان کے جوابات دے کر حَلال و حَرام کے مسائل پوچھنے والوں کو بلایا پھر فرض( یعنی کسی کے انتقال پر تقسیم(distribute) ہونے والے مال کے دینی مسائل) اور دوسرے شرعی مسائل پوچھنے والوں کو بلایا پھر عربی زبان کے بارے میں سوالات کرنے والوں کے جوابات دیے۔ (حلية الاولیاء ، ذکر الصحابة من المهاجرين ، ۴۵-عبدالله بن عباس ، ۱ /۳۹۵ ، رقم: ۱۱۲۹،مُلخصاً)

فرض، لازم اور ضروری علم:

پانچ (5)طرح کے علم حاصل کرنا ہر عاقل بالغ (wise, grownup)مسلمان پرفرض ہے:
{1}اسلامی عقیدے(یعنی ان عقیدوں (beliefs)کو جاننا کہ جن کے ذریعے آدمی سچا پکا مسلمان بنے اور ان کا انکار(denial)کرنے سے بندہ اسلام سے نکل جائے یا گمراہ (یعنی بدمذہب اور جہنّم میں لے جانے والا عقیدہ (belief)رکھنے والا)ہو جائے، ایسے عقیدوں کا علم سیکھنا فرض ہے۔
{2}ضرورت کے مسئلے یعنی عبادات(مثلاً نماز، روزہ،حج و زکوۃ وغیرہ)،معاملات (مثلاً ملازمت (employment) اور کاروبار وغیرہ جس کام سے اس شخص کا تعلق(relation) ہے) کے ضروری مسائل کا علم سیکھنا فرض ہے ۔
{3} حلال و حرام (مثلاً کھانا کھانے ،لباس پہننے،ناخن اور بال کاٹنے، نام رکھنے،عارضی (temporary) استعمال کے لیے چیزیں لینے، قرض(loan) لینے،امانت،تحفہ(gift)لینے دینے، قسم کھانے وغیرہ)کے ضروری مسائل کا علم سیکھنا فرض ہے ۔ نوٹ: ظاہری گناہ(مثلاً شراب پینا، جوا کھلینا وغیرہ) کی ضروری معلومات(necessary Information) بھی اس میں شامل(include) ہیں۔
{4}ہلاک کرنے والے اعمال (مثلاً: بدگمانی(negative assumption)، حسد(jealousy)، تکبُّر (arrogance) وغیرہ) کی ضروری معلومات(necessary Information) اور ان سے بچنے کے طریقوں کا علم سیکھنا بھی فرض ہے۔
{5}نجات دلانے والے اعمال (مثلاً: اخلاص(sincerity)، صبر(patience)، شُکر وغیرہ) کی ضروری معلومات (necessary Information)اور انہیں حاصل کرنے کےطریقوں کا علم سیکھنا بھی فرض ہے۔

اس کے ساتھ اور کیا سیکھنا ضروری ہے؟:

یاد رہے کہ ”فرض علم “ کے ساتھ ساتھ{1}تجوید کے ساتھ (یعنی صحیح طریقے سے)قرآن ِ پاک آنا {2} اذکار ِنماز(یعنی نماز میں تلاوت کے علاوہ جو کچھ پڑھا جاتا ہے) کا درست پڑھنا {3}جو قرآن حفظ (یعنی زبانی یاد)ہے، اس کا حفظ باقی رکھنا {4}واجب علوم اور دیگر (other)ضروری علوم کو سیکھنا بھی ضروری ہے ۔

{1}تجوید کے ساتھ (یعنی صحیح طریقے سے)قرآن ِ پاک آنا :(۱)امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ، اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: قرآنِ پاک اتنا درست آنا فرض اور لازم ہےکہ جس سےحُرُوف کودُرُست جگہ سے (کہ جہاں سے حرف کو پڑھنا ہوتا ہے، مثلاً”ح“ حلق کے بیچ سے) پڑھ سکے اورغَلَط پڑھنے سے بچ سکے۔( فتاوٰی رضویہ،۶ص، ۳۴۳،مُلخصاً)

(۲)کوئی شخص اگر قرآنی حرف غلط پڑھتا ہو تو اسے سیکھنے اور صحیح طرح پڑھنے کی کوشش کرنا، اُس آدمی پر واجب ہے بلکہ کئی عُلَمائے کِرام نے صحیح طرح پڑھنے کی کوشش کی کوئی حدّ(limit)نہیں رکھی اور حکم دیا کہ زندگی بھر، دن رات کوشش کرتا رہے اور اِس کوشش کو اس وقت تک جاری رکھے جب تک قرآنِ پاک درست پڑھنا سیکھ نہ جائے۔( فتاوٰی رضویہ،ج۲،ص ۲۶۲، مُلخصاً)

{2} اذکار ِنماز(یعنی نماز میں تلاوت کے علاوہ جو کچھ پڑھا جاتا ہے) کا درست پڑھنا :قرائت یا جو کچھ قرآنِ پاک کے علاوہ نماز میں پڑھا جاتا ہے، میں ایسی غلطی کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہےکہ جس غلطی سے لفظ کے معنیٰ فاسد ہو جائیں (یعنی بگڑ جائیں) (دُرِّ مُختار مع ردالمحتار،ج۲،ص۴۷۳) ۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ:جس نے”سُبْحٰنَ رَبّیَ الْعَظِیْم“میں” عَظِیْم “ کو ”عَزِیْم ( ظ کے بجائے ز ) “ پڑھ دیا نماز ٹوٹ جائے گی لہٰذا جو” عَظِیْم “صحیح نہ پڑھ سکتاہو وہ ” ’سُبْحٰنَ رَبّیَ الْکَرِیْم “پڑھے(قانونِ شریعت،ص۱۸۶) ۔اسی طرح نماز میں ایسا لفظ پڑھنا کہ جس کا کوئی معنیٰ نہ ہو ، یہ بھی نماز توڑ دیتا ہے۔(نماز کا طریقہ ص۵۴، مُلخصاً)

{3}جو قرآن حفظ (یعنی زبانی یاد)ہے، اس کا حفظ باقی رکھنا : فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جوشخص قرآن پڑھے پھر اسے بھلا دے تو قیامت کے دن اللہ کریم سے کوڑھی(leprosy) ہو کر ملےگا ( ابو داؤد،ج۲، ص ۱۰۷، حدیث:۱۴۷۴) ۔عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں :قرآن پڑھ کر بھلا دینا گناہ ہے (بہار شریعت،ج۱،ص۵۵۲) ۔ جو قرآنی آیتیں یاد کرنے کے بعد بھلادے گاقیامت کے دن اندھا اُٹھایا جائے گا (پ۱۶،طہ:۱۲۴، ماخوذاً) ۔ اعلیٰ حضرت ،امام اَحمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں :اس سے زیادہ نادان (simpleton)کون ہے جسے اللہ کریم نے قرآنِ پاک یاد کرنے کی نعمت دی اور وہ اس نعمت کواپنے ہاتھ سے کھودے ۔اگر اس نعمت کی اہمیّت (importance)جانتا اور اس پر جس ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کی طرف توجُّہ(attention) ہوتی تو اِسے دل و جان سے زِیادہ پیارا رکھتا۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس طرح بھی فرماتے ہیں : جہاں تک ہو سکے اِس کے پڑھانے ، یاد کرنے اور یاد رکھنے میں کوشش کرے تا کہ وہ ثواب اسے ملے کہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور قیامت کے دن اندھا اور کوڑھی (leprosy)ہو کر اُٹھنے سے بچے۔( فتاوٰی رضویہ،ج۲۳، ص۶۴۵،۶۴۷مُلخصاً)

{4}واجب علوم اور دیگر ضروری علوم کو سیکھنا بھی ضروری ہے:فرض عین کاعلم حاصل کرنافرض عین (اور لازم ہے یعنی جس پر جو سیکھنا فرض عین ہے، اُسے وہ سیکھنا ہی ہوگا)، فرض کفایہ کافرض کفایہ(یعنی کچھ لوگوں کو یہ علم آنا ضروری ہے ورنہ سب گناہ گار ہونگے)، واجب کاواجب(اور لازم ہے)، مستحب کا مستحب (اور ثواب کا کام)ہے (فتاوی رضویہ جلد۲۳، ص ۶۸۷) ۔ہمارے دیے گئے نصاب( syllabus) کودرجوں(levels) کے مطابق پڑھنے سے اِنْ شَاءَ اللہ!(یعنی اللہ کریم نے چاہا تو) واجب علوم بھی حاصل ہونگےاور سنّت مؤکدّہ کی معلومات بھی۔سنّت مؤکدّہ پر عمل اور اس کی معلومات کی بھی بہت اہمیّت(importance) ہے، سنّت مؤکدّہ وہ سنّت ہے کہ اگر ایک آدھ مرتبہ (یعنی کبھی)چھوڑی تو بُرا کیا اور اگر سنّت مؤکدّہ چھوڑنے کی عادت بنالی تو گناہ گار ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج ۱، ص۵۹۵ ،مُلخصاً)

نوٹ: تفصیل (detail) جاننے کیلئے ’’فرض علم اور اولاد‘‘ دیکھیں۔

علمِ دین کے بارے میں دینی مسائل:

{1} علم حاصل کرنا اگر اچھی نیّت سے ہو تو ہر بھلائی کے کام سے یہ بہتر ہے، کیونکہ اس کا فائدہ سب سے زیادہ ہے مگر یہ ضروری ہے کہ فرائض(اور جو چیز دین و شریعت نے لازم کی ہے، اُس میں) کمی نہ ہو۔ اچھی نیّت کا یہ مطلب ہے کہ اللہ کریم کی رضا اور اپنی آخرت کو اچھا کرنےکے لیے علم سیکھے، دنیا اور عزّت حاصل کرنے کے لیے نہ سیکھے۔ اسی طرح اگر علم حاصل کرنے کا مقصد(aim) یہ ہو کہ میں اپنے سے جہالت (یعنی بے علمی)کو دور کروں اور اس علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں گا یا میں اس لیے پڑھتا ہوں کہ علم باقی رہے، مثلاً لوگوں نے علمِ دین پڑھنا چھوڑ دیا ہے، میں بھی نہ پڑھوں گا تو علم مٹ جائے گا، یہ سب نیّتیں بھی اچھی ہیں لیکن اگر کوئی شخص اچھی نیّت نہیں کر پاتا تب بھی علم دین حاصل کرنا، علم دین نہ پڑھنے سے اچھا ہے(مثلاًاگر مکمل فرض علم حاصل کر لیا تو کم از کم یہ فائدہ تو ملاکہ علم حاصل کرنے کا فرض پورا ہو گیا)۔
{2}(دو شخصوں میں سے) ایک شخص نے نماز وغیرہ کے مسائل اس لیے سیکھے کہ دوسرے لوگوں کو سکھائے گا اور دوسرے نے اس لیے سیکھے کہ ان پر خود عمل کرے گا، پہلا شخص دوسرے آدمی سے افضل ہے۔ یعنی جبکہ پہلے کی یہ نیّت (intention)ہو کہ عَمَل بھی کرے گا اور سکھائے گا بھی کہ اس میں دوسروں کو فائدہ پہنچانا بھی ہے اور دوسرے آدمی کا مقصد (aim)صرف اپنے آپ کو فائدہ پہنچانا ہے۔
{3} کچھ قرآن مجید یاد کرچکا ہے اور اس کے پاس وقت ہے تو افضل(اور بہتر) یہ ہے کہ علم فقہ(یعنی دینی اور شرعی مسائل) سیکھے، کہ قرآن مجیدحفظ (یعنی یاد) کرنا فرض کفایہ ہے(یعنی چند حافظ ہونا ضروری ہیں) اور فقہ کی ضروری باتوں کا سیکھنا (ہر عاقل، بالغ (wise, grownup)پر)فرض عین (اور لازم)ہے۔
{4} اپنے بچّے کو قرآن و علمِ دین پڑھنے پر مجبور کرسکتا ہے، اور جہاں شریعت نے مارنے کی جس انداز (style) سے اجازت دی ہے، مار بھی سکتا ہے۔عموماً بچّے بغیر تنبیہ (warning)قابو (control)میں نہیں آتے اور جب تک انھیں ڈر نہ ہو کہنا نہیں مانتے، مگر مارنے میں نیّت اصلاح (reformation)کی ہو، صرف غصّہ اتارنے کے لیے نہ مارا جائے۔
یاد رہے! رَدُّالمحتار میں ہے:بِلاوجہ جانور کو نہ مارے اور سر یا چہرہ پر کسی حالت میں ہرگز نہ مارے کہ یہ بِالاجماع (یعنی عُلَمائے کِرام کے اتفاق سے۔with the consensus of scholars) ناجائز ہے (رد المحتار، کتاب الحظر والاباحۃ ،۹/۶۶۲، دارالمعرفہ بیروت) ۔اور انسان کے چہرے پر مارنے کا ناجائز ہونا تو جانوروں کو مارنے سے بہت سخت ہے ( فیض القدیر ۲/ ۲۰۷،تحت الحدیث:۱۵۹۰، مُلخصاً) ۔انسان یا جانور کے چہرے پر مارنا سخت منع ہے۔ منہ پر نہ طمانچہ (تھپڑslap) مارے نہ کوڑا (whip)وغیرہ کیونکہ چہرے میں نازک حصّے (sensitive parts) بھی ہوتے ہیں جیسے آنکھ،ناک،کان جن پر چوٹ لگنے سے موت یا اندھے ہوجانے یا چہرہ بگڑ جانے کا ڈر ہے اور چہرے میں داغ (scar)لگانا تو بہت ہی برا ہے کہ اس میں تکلیف بھی بہت ہے اوریہ منہ کو بگاڑنا بھی ہے (مراۃ ج۵، ص ۹۷۲سوفٹ ائیر،مُلخصاً) ۔ (جن لوگوں کو شریعت کی اجازت اور اصلاح(reformation) کی نیّت سے ، جس انداز (style) سے جہاں مارنے کی اجازت ہے، وہاں ) بھی تین مرتبہ سے زیادہ نہ مارا جائے(نور الایضاح مع مراقی الفلاح ، کتاب الصلوة ، ص ۱۰۸ ، مُلخصاً) اور جسم کے دوسرےنازک حصّوں (sensitive parts) پر بھی نہ مارا جائے۔(فیضان ریاض الصالحین ج۳،ص ۴۷۶، مُلخصاً)
{5} عالم صاحب چاہے جوان ہوں، غیرِ عالم مُعَمَّر (یعنی بوڑھے )پر فضیلت رکھتے ہیں لہٰذا چلنے، بیٹھنے ، بات کرنے میں بڑی عمر والے(غیر عالم) کو بھی عالم صاحب سے پہل نہیں کرنی(آگے نہیں چلنا) چاہیے یعنی جب بات کرنے کے لیے آئے ہوں تو عالم صاحب سے پہلے کوئی بات شروع نہ کرے، نہ عالم صاحب سے کوئی آگے آگے چلے، نہ عالم صاحب کے بیٹھنے کی جگہ سے اچھی جگہ پر کوئی بیٹھے۔
جوعالم صاحب قرشی(یعنی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے خاندان سے) نہ ہوں وہ بھی قرشی غیر عالم (یعنی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے خاندان والے ) پر فضیلت(یعنی درجہ) رکھتے ہیں ۔ عالم صاحب کا حق غیر عالم پر ویسا ہی ہے جیسا استادکا حق شاگرد پر ہے۔ عالم صاحب اگر کہیں چلے بھی جائیں تو ان کی جگہ پر غیر عالم کو نہیں بیٹھنا چاہیے۔ شوہر کا حق عورت پر اس سے بھی زیادہ ہے کہ عورت کو شوہر کی ہر ایسی چیز میں جو مباح ہو اطاعت کرنی پڑے گی۔
{6}منبر ( یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعہ کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں)پر بیٹھ کر وعظ و نصیحت (مثلاً بیان)کرنا انبیا ءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سنّت ہے اور اگر بیان سے مال اور عزّت حاصل کرنا چاہتا ہو تو یہ یہود و نصاریٰ(jews and christians) کا طریقہ ہے۔
{7} وعظ میں بے اصل اور بے ثبوت (without evidence) باتیں بیان کردینا، مثلاً حدیثوں میں اپنی طرف سے کچھ جملے ملا دینا یا ان میں کچھ ایسی کمی کردینا جس سے حدیث کے معنی بگڑ جائیں، جیسا کہ بعض لوگ اس لیےکرتے ہیں تاکہ لوگوں پر اثر (impression) پڑے ،اس طرح وعظ و بیان کرنا منع ہے۔
اگر واعظ غلط باتیں بیان نہیں کرتا اور حدیث وغیرہ میں کسی قسم کی کمی یا اضافہ نہیں کرتا ہے مگر الفاظ اورتقریر کا انداز(style) اچھا رکھتا ہے تاکہ لوگ توجُّہ (attention) سے سنیں ،اللہ کریم کے خوف یا عشقِ رسول میں روئیں تویہ اچھی چیز ہے(مگر ایسا انداز (style)ریاکاری ،یا لوگوں سےواہ، واہ ملنے، یا اُن کے دلوں میں اپنی عزّت بٹھانے کے لیے کرنا، گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے )۔
{8} یہ منع ہے کہ دوسروں کو نصیحت(advice) کرتا رہےمگر خود اُنھیں بُرائیوں کا شکار ر ہے۔ نصیحت کرنے والے کو سب سے پہلے اپنے آپ کو نصیحت کرنی چاہیے۔
{9} عالم اگر خود دوسروں کو بتائے کہ میں عالم ہوں تو اس میں حرج یا گناہ نہیں مگر یہ ضروری ہے کہ فخر (pride) یا ریاکاری وغیرہ کے لیے نہ ہو کیونکہ اس طرح فخر کرنا حرام ہے، بلکہ نیّت (intention)یہ ہو کہ اللہ کریم نے جو مجھے نعمت دی ہے ، میں اللہ کریم کے اس احسان کے بارے میں لوگوں کو بتا رہا ہوں یا یہ نیّت ہو کہ جب لوگوں کو پتا چلے گا کہ میں عالم ہوں تو وہ مجھ سے دینی سوالات کریں گے اور میرے جوابات سے انہیں دینی فائدہ ہوگا۔
{10} عالم یا طالبُ الْعِلم کو علم میں بخل (یعنی کنجوسی)نہیں کرنی چاہیے، مثلاً اس سے پڑھنے کے لیے کتاب مانگے یا اس سے کوئی دینی مسئلہ سمجھنا چاہے، تو منع نہ کرے، کتاب دے دے اورمسئلہ سمجھادے۔ حضرت عبد اﷲبن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:جو شخص علم میں بخل کرے گا، تین(3) باتوں میں سے کسی ایک کا شکار ہوگا یا (۱)وہ مرجائے گا اور اس کا علم جاتا رہے گا یا (۲)بادشاہ کی طرف سے کسی مصیبت میں پڑ جائےگا یا(۳) علم بھول جائے گا ( الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراھیۃ،الباب الثلاثون في المتفرقات،ج۵،ص۳۷۸) ۔کتاب دینا یا عالم صاحب کا مسئلہ بتانا بہت اچھی بات ہے مگر مسئلہ پوچھنے والے یا کتاب مانگنے والے کو ان دینی مسائل کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے: (a)مُفتِی صاحب کے لیے حکم ہے کہ ایسے وقت میں فتوی(یعنی شرعی سوالات کے جوابات) نہ دے جب مزاج(یا طبیعت) صحیح نہ ہو مثلاً غصہ یا غم یا خوشی (یا بیماری)کی حالت (condition)میں شرعی سوالات کے جواب نہ دے۔ یوہیں پیشاب وغیرہ کرنے(urinate) کی ضرورت ہو تو اُس وقت بھی فتوی نہ دے ۔ہاں !اگر اُسے یقین ہے کہ اس حالت (condition)میں بھی صحیح جواب ہو گا تو فتوی دینا صحیح ہے۔(بہار شریعت ح۱۲، ص۹۱۲، مسئلہ۱۸، مُلخصاً) (b) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ” عاریت“ (عارضی طور پر (temporary) کسی کو اپنی چیز دینا) ایک احسان (favor) اور بھلائی(goodness) کا کام ہے (الجوہرۃ النیرۃ، کتاب العاریۃ،ج۱، ص۳۵۰، بیروت، مُلخصاً) ۔ مگر یاد رہے کہ عارضی طور پر (temporary)کسی کواپنی چیز دینا واجب نہیں ہے(کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ لے کر بھول جاتے ہیں یا خراب کر دیتے ہیں، ان باتوں کی وجہ سے کوئی اپنی کتاب نہ دے تو اُسے برا بھلا کہنے کی اجازت نہیں) ۔ لھذا اگر کوئی طالب العلم وغیرہ اپنی کتاب نہ دے یا عالم صاحب دینی مسئلے کا جواب نہ دیں تب بھی اُن کے بارے میں ”حسنِ ظنّ(یعنی اچھا گمان۔good guess) “ رکھیں۔

{11} عالم یا طالبُ الْعِلم (دونوں کو علمِ دین )کی عزّت کرنی چاہیے، یہ نہ ہو کہ زمین پر کتابیں رکھے، استنجاء (relief)کے بعد کتابیں پڑھنی ہوں تو وضو کرلینا مستحب ہے، وضو نہ کرے تو ہاتھ ہی دھولے اب کتاب ہاتھ میں لے اور یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ عیش وآرام میں رہے۔ کھانے پہننے، رہنے سہنے میں معمولی حالت (normal condition)رکھے، عورتوں (یعنی بیوی)کی طرف زیادہ توجُّہ (attention)نہ رکھے، مگر یہ ضروری ہے کہ اپنی جان کا حق اور اپنے بی بی بَچّوں کا حق پورا کرے۔

{12} عالم یا طالبُ الْعِلم کو یہ بھی چاہیے کہ لوگوں سے میل جول کم رکھیں(کیونکہ بلاوجہ میل جول کےفائدے نہیں ہیں البتہ نیکی کی دعوت عام کرنے کی نیّت سے لوگوں سے میل جول رکھنے میں اپنی آخرت اور عام مسلمانوں کو حاصل ہونے والے فائدے بہت زیادہ ہیں) اور فضول باتوں میں نہ پڑیں اور پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ برابر جاری رکھیں، دینی مسائل ایک دوسرے کو بتاتے ر ہیں، کتابیں پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھیں ، کسی سے جھگڑا ہوجائے تو نرمی اور انصاف سے کام لیں یعنی عالم و جاہل میں غصّے یا جھگڑے کی حالت (state of anger or quarrel)میں بھی فرق(difference) ہونا چاہیے(یعنی طالب العلم پر کوئی ظلم بھی کرے تب بھی وہ بداخلاقی (immorality)سے کام نہ لے)۔

{13} استاد صاحب کا ادب کرے ان کے حقوق (rights) پورے کرے، مال سے ان کی خدمت کرے اوراستاد صاحب سے کوئی غلطی ہو جائے تو خود وہ غلطی نہ کرے۔ استادصاحب کا حق ماں باپ اور دوسرے لوگوں سے زیادہ جانے ،ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے، جب استاد صاحب کے گھر پر جائے تو دروازہ نہ کھٹکھٹائے(do not knock) بلکہ ان کےآنے کا انتظار کرے۔(بہار شریعت ح۱۶،ص۶۲۶،مسئلہ۶،۸،۱۰،۱۱، ۱۲،۶،۲،۵، ۹،۱۵،۱۷،۱مُلخصاً)

’’ فرض علم کے بعد ‘‘

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں:

واقعہ(incident): علمِ دین سیکھو

حضرت امام فخر الدّین رَازِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ''تفسیر کبیر ''میں لکھتے ہیں کہ : پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک صَحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے کچھ بات کر رہے تھے کہ آپ پر وحی آئی(یعنی اللہ کریم کی طرف سے پیغام(message) آیا) کہ اِن (صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ)کی زندگی کی ایک ساعَت(یعنی کچھ دیر) باقی رہ گئی ہے ،یہ وقت عَصْر کا تھا ۔ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جب یہ بات اُن صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بتائی تو وہ پریشان ہو کر کہنے لگے : یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائيے جو اِس وقت میرے لئے سب سے بہتر ہو۔ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :علمِ دین سیکھنے میں مصروف(busy) ہوجاؤ ۔ وہ صحابی َضِیَ اللہُ عَنْہ علم سیکھنےمیں لگ گئے اور مغرب سے پہلے ہی ان کا اِنْتِقال ہوگیا ۔ یہ واقعہ بتانے والے، فرماتے ہیں کہ اگر عِلْم سے اَفضل کوئی نیکی ہوتی تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُسی نیکی کو کرنے کا حُکْم فرماتے ۔(تفسیر کبیر ، ج۱،ص۴۱۰، مُلخصاً)

فرض علوم کے بعد مُباح و جائز علم کا حاصل کرنا:

جو فرض علوم حاصل کر لے وہ مباح اورجائز علم بعض شرطوں (preconditions) کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے۔ امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ، اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:

ہاں! جوشخص ضروریات دین مذکورہ (یعنی فرض اور لازم علم) حاصل کر چکا ہے، تو اب اقلیدس (geometry)،حساب(mathematics)،مساحت(trigonometry)،جغرافیہ(geography) وغیرہا وہ(جائز) فنون(یعنی علم) پڑھ سکتا ہے کہ جن میں کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہو تو اب یہ ایک جائز کام ہوگا اور اس پڑھنے میں یہ بھی شرط (precondition)ہے کہ اس پڑھنے کے دوران بھی کوئی واجب (مثلاً واجب ہونے کے باوجود جماعت)نہ چھوٹے، کوئی گناہ (مثلاً گانے سننے)کا کام نہ ہو ( فتاوی رضویہ ج ۲۳،صفحہ۸۴۶، مُلخصاً)۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ان ضروریات اور قرآن عظیم پڑھنے کے بعد پھر اگر اردو یاگجراتی کی دنیوی کتاب جس میں کوئی بات نہ دین کے خلاف ہو، نہ بے شرمی کی، نہ اخلاق وعادات پر برااثر(bad effect) ڈالنے کی(یعنی اس طرح کی کوئی بات نہ ہو)، اور پڑھانے والی عورت سنّی مسلمان پارسا(یعنی نیک)حیادار ہوتو(چھوٹے نابالغ بَچّوں کو ان سے پڑھوانے میں) کوئی حرج نہیں، وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔( فتاوی رضویہ ج ۲۳،صفحہ۶۹۳، مُلخصاً)

فرض چھوڑ کر نفل میں مصروف (busy) ہونا:

{1} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏ اﷲ کریم فرماتا ہےکہ جو میرے کسی ولی سےدشمنی کرے تو میری طرف سے اس کے خلاف جنگ کا اعلان ہےاور میرا بندہ جن اعمال (یعنی نیک کاموں)کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہےان میں سے مجھے سب سے زیادہ پسند فرض عبادت ہے اور میرا بندہ نفل کے ذریعے میرے(یعنی اﷲ کریم کی رحمت کے) قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں۔ (بخاری، ج ۴، ص ۲۴۸، حدیث: ۶۵۰۲)

{2}حضرت ِ مفتی احمد یار خان (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) حدیثِ پاک کے اس حصّے ((میرا بندہ جن اعمال کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہےان میں سے مجھے سب سے زیادہ پسند فرض عبادت ہے))کےبارے میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں: یعنی مجھ تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں،مگر ان تمام راستوں میں مجھ سب سے زیادہ پسند فرض کو پورا کرنا ہے ۔اسی لیے بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ فرماتے ہیں کہ فرض کے بغیر نفل قبول(accept) نہیں ہوتے، افسوس ان لوگوں پر جو فرض عبادتوں میں سستی کریں اور نفل پر زور دیتے ہیں ۔

{{3مُفتی صاحب، حدیثِ پاک کے اس حصّے ((اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں))کے بارے میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں :یعنی بندہ مسلمان فرض عبادت کے ساتھ نفل بھی پڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کریم کا پیارا ہوجاتا ہے کیونکہ و ہ فرض اور نفل دونوں طرح کی عبادت کرتا ہے(مرقات)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرض چھوڑ کر نفل پڑھ لیا کرے(یا فرض و لازم کاموں کو چھوڑ کر نفل کام کرتا رہے)، یہاں محبّت سے مراد کامل (یعنی مکمل) محبّت ہے(اور یہ مکمل محبّت فرض اور نفل دونوں کے ساتھ مل کر ہوتی ہے)۔(مراٰۃ المناجیح،ج۳،ص۳۰۸،مُلخصاً)

{{4 جب مسلمانوں کےپہلے(1st )خلیفہ(حاکم۔caliph) ،جنّتی صحابی، رفیقِ مُصطفیٰ، امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی موت کا وقت قریب آیا تو مسلمانوں کے دوسرے(2nd) خلیفہ (حاکم۔caliph) ، جنّتی صحابی، وفادارِ مُصطفیٰ ،امیر المومنین حضرت فاروق ِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بلا کر فرمایا: اے عمر! اﷲ کریم سے ڈرنا اور جان لو کہ اﷲ کریم کے کچھ کام دن میں ہیں کہ انہیں رات میں کرو ، تو اﷲ کریم اُسے قبول(accept) نہ فرمائے گا اور کچھ کام رات میں کہ انہیں دن میں کرو ، تو وہ کام مقبول(accept) نہ ہوں گے اور خبردار! رہو (beware) کہ کوئی نفل قبول(accept) نہیں ہوتا ، جب تک فرض پورا نہ کرلیا جائے ۔(حلیۃ الاولیاء، ذکرالمہاجرین ابوبکر الصدیق ، دارلکتاب العربی بیروت،ج۱،ص۳۶،مُلخصاً)

{{5 مسلمانوں کےچوتھے(4th )خلیفہ(حاکم۔caliph) ، جنّتی صحابی،اہلِ بیتِ مُصطفیٰ،قادریوں کے پیشوا،امیرُ المومنین حضرت علیّ المُرْتَضٰی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا فرمان لکھا:جو فرض چھوڑ کر سنّت و نفل میں مصروف (busy) ہوگا ، یہ قبول (accept) نہ ہوں گے اور وہ شخص خوار(یعنی ذلیل) ہو گا۔(فتوح الغیب مع شرح عبدالحق الدہلوی المقالۃ الثامنۃوالا ربعون ، منشی نولکشور لکھنؤ، ص ۲۷۳، مُلخصاً)

{{6حضورِ غوث اعظم، شیخ سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب شریف میں فرض چھوڑ کر نفل عبادت کرنے والوں کو بہترین مثال سے اُس کی غلطی سمجھاتے ہوئے،فرمایا: اس (یعنی فرض کام چھوڑ کر نفل عبادت کرنے والے )کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ نےاپنی خدمت(service) کے لیے بلایا ، یہ (فرض کام چھوڑ کرنفلی کام کرنے والا) وہاں (بادشاہ کے پاس)تو حاضر نہ ہو بلکہ اس(بادشاہ) کے غلام(slave) کی خدمت میں مصروف(busy) ہو جائے(تو فرض عبادت چھوڑ کر نفل عبادت کرنے والا ایسا ہی ہے) ۔(فتوح الغیب مع شرح عبدالحق الدہلوی ، منشی نولکشور لکھنؤ، ص ۲۷۳، مُلخصاً)

{{7 یاد رہے کہ فرض و واجب ا ور سنّت مؤکدّہ کا علم حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا نفل عبادت میں مصروف (busy) ہونے سے بہت اہم (very important)ہے۔ امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ، اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: کوئی مستحب کیسی ہی فضیلت(اور ثواب) والا ہو جب کسی سنت مؤکدہ کے چھوٹنے کا سبب بنے تو اب یہ عمل مستحب نہیں کہلائے گا بلکہ اب یہ کام، بُراکام ہے۔(فتاوی رضویہ،ج ۷،ص۴۱۰، مُلخصاً)

بلکہ یہاں تک فرمایا: جوفرض چھوڑ کر نفل میں مشغول(مصروف۔busy) ہو حدیثوں میں اس کی سخت برائی آئی اور اس کا وہ نیک کام مردود(یعنی نامقبول۔unacceptable) ہے۔(فتاوی رضویہ،ج ۲۳، ص۶۴۸،مُلخصاً)

ایک اورجگہ پر کچھ اس طرح فرماتے ہیں: اے عزیز(یعنی اے پیارے بھائی)! فرض خاص(pure) سلطانی قرض (یعنی فرض اللہ کریم کی طرف سے ایک لازم کام )ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ(gift)۔ قرض نہ دیجیے اورفضول تحفے بھیجیے ، تو ایسے تحفےکیسے قبول (accept) ہوں گے ؟ خصوصاً (specially)اس ( یعنی اللہ کریم کی) بارگاہ میں کہ جوسب سے بڑا بادشاہ ، تمام کائنات(universe) اور کائنات والوں سے بے نیاز (یعنی اُسے کسی کی بھی ضرورت نہیں)ہے(یعنی جس طرح یہ قرض لے کر تحفہ دینے والا غلطی کر رہا ہے، اُسی طرح فرض کام چھوڑ کر نفل کام کرنے والا غلطی کر رہا ہے)۔(فتاوی رضویہ،ج۱۰ ، ص ۱۷۹،ماخوذا)

’’ سیکھنا اور سکھانا ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

اَلْبَرَكَةُ مَعَ اَكَابِرِكُمْ یعنی بَرَکَت(blessing) تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے ۔
( مكارم الاخلاق للخرائطی ، باب اکرام الشیوخ و توقیرھم ، ۲ / ۲۱۴ ، حدیث: ۳۸۳) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ اس حدیثِ پاک میں مُـخْتَلِف کاموں میں تجربہ کار
(experienced) ہونے کی وجہ سے بڑوں کی بَرَکَت (blessing) حاصِل کرنے کا فرمایا گیا ہے ۔ بڑوں سے مُراد یا تو عمر میں بڑے ہیں تا کہ ان کے پاس بیٹھ کر ان کےزِنْدَگی بھر کے تجربات (experiences)سے فائدہ اُٹھایا جا سکے یا پھر(بڑوں سے مراد) عُلَمائے کِرام ہیں چاہے وہ چھوٹی عمر ہی کے کیوں نہ ہوں کہ اللہ کریم نے انہیں عِلْم کی دولت دی ہے ، لِہٰذا ان کی عزّت کرنا بھی سب پر لازِم ہے ۔(فیض القدیر ، حرف الباء ۳ / ۲۸۷ ، تحت الحدیث: ۳۲۰۵)

واقعہ(incident): ٹوکری بنانے کا کام

حضرت مَخلد بن حسین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ حضرت عُتبہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہمارے ساتھ حضرت ہشام بن حسانرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے دروازے کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت عُتبہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ہم سے فرمایا: مجھے وہ شخص اچھا نہیں لگتا جس کے ہاتھ میں کوئی ہنر (talent)نہ ہو۔ ہم نے عرض کی: آپ بھی تو ہمارے ساتھ بیٹھتے ہیں اور ہم نے کبھی آپ کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: کیوں نہیں ! میرے پاس کچھ پیسے ہیں کہ جن سے میں کھجور کے پتے خریدتا ہوں اور اس سے ٹوکری بناتا ہوں اور تین سِکوں(coins) میں بیچ دیتا ہوں ۔ ایک سکّہ اپنے پاس رکھ لیتا ہوں، ایک سے اپنے لئے کھانا خرید لیتا ہوں۔ (اللہ والوں کی باتیں ج۶،ص۳۲۵، مُلخصاً)

ہنر یا فن(art) سیکھنے اور امتحان دینےکے دینی مسائل:

{1} غیر محرم کے ساتھ کوئی ہنر یا فن (art)سیکھنا یا انہیں سکھانے میں اگرپانچ(5) سات(7) سال کے بچّے اور بَچِّیاں ہوں تو ان کے ساتھ سیکھ سکتے ہیں لیکن جَوان لڑکوں(مثلاً بارہ (12) یا پندرہ (15) سال یا اس سے بڑے) اور جوان لڑکیوں(مثلاً نو (9)یا پندرہ(15) سال یا ان سے بڑی) کا ایک دوسرے کے پاس سیکھنے سکھانے میں بہت زیادہ خطرات ہیں ۔ عموماً یہ سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بےپردگی وغیرہ کے ساتھ ہوتا ہے جو کہ حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے ۔ اگر یہ ایک دوسرے کو نہ بھی چھوئیں(یعنی touch نہ بھی کریں) تب بھی بَدنگاہی سے اپنے آپ کو بچانا بہت مشکل ہے ۔ غیرمحرم سے پَردہ ہی پَردہ ہے ، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: رہا پَردہ اس ميں اُستاذ وغَیرِ اُستاذ ، عالِم و غَیرِ عالم ، پِیر سب برابر ہيں۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۳، صفحہ ۶۳۹ )

{2}مرد(غیر محرم کہ جس سے نکاح ہو سکتا ہو ،) کا عورت(females) کو ٹریننگ(training) دینا جائز نہیں ہے کہ عورت کو جسم کے جن حصّوں(parts) کا چھپانا فرض ہے، مثلاً سر کے بال، گلا یا کلائی (wrist) وغیرہ اگر ان میں سے جسم کا کچھ حصّہ کھلا ہو تو اسے غیر محرم کے سامنے آنا حرام ہے، نیز ایسے ماحول میں بدنگاہی لازمی طور پر ہوتی ہے جو قرآن و حدیث کی تعلیمات (teachings)کے بالکل خلاف (against)ہے۔(جون2021 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً)

{3} ہنر یا فن سیکھنا سکھانا تو دُور کی بات ، علمِ دِین پڑھنا ہو اور پڑھنے والی طالبات(female students) باپَردہ بھی ہوں مگر پڑھانے والا اُستاد جَوان مرد ہے تب بھی طالبات کو نہیں پڑھنا کہ پَردے کے باوُجُود پڑھنے والیاں لگی بندھی اور جانی پہچانی ہوتی ہیں لہٰذا خَطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پَردے کی تما م پابندیاں(requirements) پوری کرنے کے بعد علمِ دِین سیکھنے کے لیے پِیر صاحب کے پاس جانے والی عورتوں کو اس بات پر جانے کی اجازت دی کہ پیر صاحب بھی جوان نہ ہوں ،اور فرما یا: اگر بدن ، موٹے اور ڈِھیلے کپڑوں سے ڈَھکا ہے ، نہ ایسے باریک (کپڑے ) کہ بدن یا بالوں کی رَنگت (color)چمکے، نہ ایسے تنگ (tight) کہ بدن کی حالت دِکھائیں (یعنی جسم کے کسی ایسے حصّے جسے چھپانے کا حکم ہے، ان کی صورت محسوس نہ ہوتی ہو) اور جانا تنہائی(یعنی اکیلے ) میں(بھی) نہ ہو اور پیر(صاحب) جَوان نہ ہوں ، غَرَض کوئی فتنہ نہ فی الحال(یعنی نہ ابھی کوئی بے پردگی وغیرہ کا معاملہ ) ہو نہ (آئندہ کے لیے) اس کا اَندیشہ(یعنی ڈر) ہو تو علمِ دِین (اور) اُمُورِ راہِ خُدا (یعنی تقویٰ اور پرہیزگاری کی باتیں)سیکھنے کے لئے (پیر صاحب کے پاس )جانے اور(پیر صاحب کے) بُلانے میں(کوئی)حَرَج نہیں (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۲، صفحہ ۲۴۰ ) ۔ اس سے وہ لوگ دَرسِ عِبرت حاصِل کریں جو بےپردگی کے ماحول میں کوئی فن یا کام سیکھتے یا سکھاتے ہیں ۔

{4} ہاں !پَردے کی حالت میں سُنی عالمِ دِین کا بیان سننا جائز ہے کہ بیان سننے اور پڑھنے میں بہت فرق ہے ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہيں: واعِظ ( یعنی بیان کرنے والے)يا مِيلاد خواں (یعنی نعت خوان)اگر عالِم سُنّی صحيحُ العقیدہ ہو اور اُس کا وَعظ و بيان صحيح و مُطابِقِ شَرع ہو اور (عورت کے آنے ) جانے ميں پوری اِحتياط اور کامِل پَردہ ہو اور کوئی اِحتمالِ فتنہ( یعنی بے پردگی وغیرہ کا خوف) نہ ہو اور مجلسِ رِجال (یعنی مَردوں کی بيٹھک ) سے دُور ان (عورتوں)کی نشست (یعنی بیٹھک یا جگہ ہو جہاں ایک دوسرے پر نظر بھی نہ پڑتی) ہو تو حَرَج نہيں۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۲، صفحہ ۲۳۹ )

{4} ہاں !پَردے کی حالت میں سُنی عالمِ دِین کا بیان سننا جائز ہے کہ بیان سننے اور پڑھنے میں بہت فرق ہے ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہيں: واعِظ ( یعنی بیان کرنے والے)يا مِيلاد خواں (یعنی نعت خوان)اگر عالِم سُنّی صحيحُ العقیدہ ہو اور اُس کا وَعظ و بيان صحيح و مُطابِقِ شَرع ہو اور (عورت کے آنے ) جانے ميں پوری اِحتياط اور کامِل پَردہ ہو اور کوئی اِحتمالِ فتنہ( یعنی بے پردگی وغیرہ کا خوف) نہ ہو اور مجلسِ رِجال (یعنی مَردوں کی بيٹھک ) سے دُور ان (عورتوں)کی نشست (یعنی بیٹھک یا جگہ ہو جہاں ایک دوسرے پر نظر بھی نہ پڑتی) ہو تو حَرَج نہيں۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۲، صفحہ ۲۳۹ )

{6} اِمتحان میں نقل(cheating) کر نا نہ تو شَرعاً دُرُست ہے اور نہ ہی عقلاً ۔ شَرعاً اس لیے دُرُست نہیں کہ اس میں دھوکا دینا ہے اور دھوکا دینے والے کے لیے حدیثِ پاک میں جنَّت سے محرومی کی سخت وعید (یعنی سزا)بیان فرمائی گئی ہے ۔جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمان ہے: تین شخص جنَّت میں داخِل نہیں ہوں گے: (۱)دھوکے باز (۲)بخیل(یعنی کنجوس)(۳)اِحسان جتانے والا ۔( کنزالعمال ، کتاب الأخلاق ،۲/۲۱۸ ، حدیث:۷۸۲۳ ) نیز نقل کرتے ہوئے پکڑے جانے کی صورت میں ذِلَّت(humiliation) کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک مسلمان کا ایسا کام کرنا کہ جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے سامنے ذلیل(dishonoured) ہو ہرگز جائز نہیں جیسا کہ ہمارے آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: جو شخص بِلا اِکراہ (یعنی شَرعی مجبوری کے بغیر) اپنے آپ کو اپنی خوشی سے ذِلَّت(humiliation) پر پیش کرے وہ ہم میں سے نہیں (معجم ا وسط ، باب الألف ، من اسمه احمد ، ۱/۱۴۷ ، حدیث: ۴۷۱) ۔نقل کرنا عقلاً بھی دُرُست نہیں اس لیے کہ اِمتحان کا مقصد(aim) یادداشت (memory) اور محنت کا امتحان ہے جبکہ نقل کی صورت میں یہ مقصد حاصِل نہیں ہو سکتا ۔ (رسالہ:چھٹیاں کیسے گزاریں ص ۸ تا ۱۱، ۱۴، مُلخصاً)

’’استنجاء کرنے اور کچھ چیزیں پاک کرنے کا طریقہ

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

تم میں سے کوئی شخص غسل خانے میں پیشاب کرکے وہاں غسل یا وضو نہ کرے کیونکہ اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ( ابوداوٗدج۱ص۴۴حدیث ۲۷)
عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں :اگر غسل خانے کی زمین پکّی(paved land) ہو، اور اس میں پانی نکلنے کی نالی (drain) بھی ہو تو وہاں پیشاب کرنے میں گناہ نہیں ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ پھر بھی پیشاب نہ کرے۔اگر زمین کچّی (raw land) ہو اور پانی نکلنے کا راستہ بھی نہ ہو تو پیشاب کرنا سخت بُرا ہے کہ زمین ناپاک ہو جائے گی اور غسل یا وُضُو میں گندا پانی جسم پر پڑے گا،حدیثِ پاک میں یہ صورت(case) مُراد ہے۔ (مِراٰۃ ج۱ص۲۶۶، مُلخصاً)

واقعہ(incident): اچھی طرح پاکی حاصل کرنے والوں کی تعریف کی گئی

اللہ کریم نے مدینے کی ایک مسجد ’’مسجدِ قُبا‘‘ کے نمازیوں کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : (ترجمہ Translation : ) اُس میں وہ لوگ ہیں جو خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں اور اللہ خوب پاک ہونے والوں سے محبّت فرماتا ہے۔ (پ۱۱ ، التوبة : ۱۰۸) (ترجمۂ کنز العرفان)

یہ آیت نازِل ہوئی (یعنی اللہ کریم کی طرف سے اُتری) تو ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُن لوگوں سے فرمایا : اللہ کریم نے تمہاری پاکی کی تعریف(appreciation) فرمائی ہے ، تم کس طرح پاکی حاصل کرتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی : یَا رَسُوْلَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! ہم نمازکے لئے وُضو کرتے ، فرض ہونے پر غسل کرتے اور پانی سے استنجا کرتے ہیں۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے تمہاری تعریف ہوئی ، تم اِن چیزوں کو لازِمی کرتے رہنا۔(إبن ماجہ ، أبواب الطهارة ، ۱ / ۲۲۲ ، حدیث : ۳۵۵)

استنجاء کا طریقہ:

{1} ہوسکے تو استنجا خانے میں جانے سے پہلے کی نیتیں بھی کرلیجئے(مثلاً:(۱)بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط اور دعا پڑھ کر (۲)سنّت پر عمل کرتے ہوئے پہلے اُلٹا پاؤں استنجاء خانے میں رکھو ں گا اور(۳) واپسی پر سیدھا پاؤں پہلے نکالوں گا(۴) باہَر آنے کے بعد دعاپڑھوں گا)
{2}اِستنجا خانے(washroom) میں جنّات اور شیطان رہتے ہیں۔ اگر جانے سے پہلے ’’بِسْمِ اللہ‘‘ پڑھ لی جائے تو اِس کی بَرَکت (blessing) ٍسے وہ پردے کی جگہ نہیں دیکھ سکیں گے
{3} داخل ہونے سے پہلے یہ دعا بھی پڑھ لیجئے : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ یعنی یا اللہ! میں ناپاک جِنّوں (نر و مادہ۔ male & female) سے تیری پناہ مانگتا ہوں
{4}سر ڈھانپ (مثلاً مرد ٹوپی یا عورت دوپٹہ پہن) کراستنجا کے لیےجائے
{5} استنجا خانے میں پہلے اُلٹا پیر داخل کیجئے
{6} یہ دھیان رکھئے کہ استنجا کے دوران قبلہ شریف کو منہ یا پیٹھ بالکل نہ ہوکہ اس دوران قبلے کو سینہ یا پیٹھ کرنا، جائز نہیں بلکہ اتنا ہٹ کر استنجا کیجئے کہ قبلے کے رخ سے 45ڈگری (degree) سے زیادہ باہر ہوں
ہوں {7} جب بیٹھنے کے قریب ہوں اُس وقت کپڑا بدن سے ہٹائیے اور ضرورت سے زیادہ جسم نہ کھولئے
{8} دونوں پاؤں ذرا کھلے کرکے اُلٹے پاؤں پر زور دے کر بیٹھئے کہ اِس سے آسانی ہوتی ہے
{9} اِس حالت میں کسی دینی مسئلے کو مت سوچیئے
{10} اذان یا چھینک کا جواب یا
{11} بات چیت مت کیجیئے
{12}اِدھر اُدھر یا
13} آسمان کی طرف یا
14} پردے کی جگہ یا
{15} بدن سے نکلی ہوئی گندگی کو مت دیکھئے
{16}اس وقت نہ تھوکیے
{17}نہ ناک صاف کیجیئے
{18} بلا وجہ دیر تک بیٹھے نہ رہیئے
{19} فارغ ہونے کے بعد پہلے اگلا مقام (front) دھوئیے اور پھر پچھلا (back)
{20}سیدھے ہاتھ سے پانی ڈالئے اور الٹے ہاتھ سے دھوئیے
{21} دھونے میں الٹے ہاتھ کی 3 انگلیاں (درمیان والی انگلی ، اس کے ساتھ والی انگلی اور چھوٹی انگلی ) استعمال کیجئے
{22} اتنا دھوئیے کہ چکناہٹ (slippery) اور بُو و غیرہ ختم ہوجائے
{23} لوٹا اونچا رکھئے تاکہ اُس میں چھینٹے (splashes) نہ پڑیں
{24} فارغ ہونے کے بعد ہاتھ صابن (soap) وغیرہ سے دھو نا چاہیں تو دھو لیجئے
{25} اپنے پیروں کو دھولیجئے تاکہ ناپاک چھینٹوں کا اثر (effect) ختم ہوجائے
{26}استنجا خانے سے باہر نکلتے وقت پہلے سیدھا پاؤں باہر نکالئے
{27} باہر آکر یہ دعا پڑھئے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَافَانِیْ یعنی اللہ کریم کا شکر ہے جس نے مجھ سے تکلیف دینے والی چیز کو دور کیا اور مجھے راحت(چین اور سکون) عطا فرمائی
{28} استنجا کے لئے جانے سے پہلے کچھ دیر چل(walkکر) لینا اچھا ہے ۔( استنجا کا طریقہ ، ص ۲-۱۰ ماخوذاً، ثواب بڑھانے کے نسخے ص۵ مُلخصاً)

w.c کا رُخ درست کیجیے:

بہارِ شریعت میں کچھ اس طرح ہے کہ: پیشاب وغیرہ کرتے وقت یا (اس کے بعد)طہارت کرنے (یعنی پاک ہونے کے لیے پانی سے جسم دھونے) میں نہ قِبلےکی طرف منہ کر سکتے ہیں ، نہ پیٹھ(back) ۔ یہ حکم ہر جگہ کے لیے ہے چاہے مکان کے اندر ہوں یا میدان میں ۔ اگر بھول کر قِبلے کی طرف منہ یا پیٹھ(back) کر کے بیٹھ گئے ،تو یاد آتے ہی فوراً اپنارُخ (direction) بدل دیجیئے اس میں اُمید(hope) ہے کہ فوراً اس کے لیے مغفرت فرمادی جائے (بہارِ شریعت ج۱، ح۲، ص ۴۰۸، مُلخصاً) ۔قِبلےکی طرف منہ یا پیٹھ کرنے سے بچنےکا مطلب یہ ہے کہ(منہ یا پیٹھ)قبلے شریف کےرُخ (direction) سے 45ڈِگری (e degre) باہر ہوں۔(بہارِ شریعت ج۱، ح۳، ص ۴۸۷، ماخوذاً)

اپنے گھر، فیکٹری وغیرہ کے ڈبلیو ۔ سی (w.c) اور فَوّارے کا رُخ(direction) اگر غَلَط ہو تو اسے صحیح کریں۔ زِیادہ احتیاط (caution) اس میں ہے کہ w.cقبلے سے90کے درجے (e degre)پر کر دیں یعنی نما ز ختم کرتے ہوئے سلام پھیرتے وقت ، منہ جس طرف ہوتا ہے، اُس طرف ڈبلیو ۔ سی (w.c) اور فَوّارے کا رُخ کردیجئے۔

کچھ چیزیں پاک کرنے کا طریقہ

دیوار ،زمین،درخت وغیرہ کیسے پاک ہوں؟

{1}ناپاک زمین اگر سوکھ جائے (dry up)اور نجاست(یعنی ناپاکی) کا اثر (effect) ختم ہوگیا ہو مثلاً رنگ (color)اور بو(smell) باقی نہ رہا ہو تو وہ زمین پاک ہوگئی ،چاہے وہ ناپاکی ہواسے سوکھی ہو یا دھوپ سے یا آگ سے، اس زمین پر نماز پڑھ سکتے ہیں مگر اس زمین سے تَیَمُّمْ نہیں کرسکتے

{2}درخت اور گھاس اور دیوار اور ایسی اینٹ (brick)جو زمین میں جَڑی (fixed) ہو،یہ سب خشک ہو جانے سے پاک ہوجاتے ہیں(جبکہ نَجاست کا اثر (effect) رنگ ، بو، ذائقہ(taste) جاتے رہے ہوں) اور () اگر اینٹ جَڑی ہوئی نہ ہو (بلکہ رکھی ہوئی ہو) تو خشک ہونے سے پاک نہ ہو گی بلکہ دھونا ضروری ہے

{3}ناپاک دَرَخت یا گھاس سُوکھنے سے پہلے ہی کاٹ لی، تو پاک کرنے کے لئے دھونا ضروری ہے

{4} اگر پتّھر ایسا ہو جو زمین سے الگ نہ ہو سکے تو خشک ہونے سے پاک ہو جائے گا جبکہ نَجاست کا اثر(رنگ، بو) ختم ہو جائے ورنہ پاک کرنے کے لیےدھونا پڑے گا

{5}جو چیز زمین سے ملی ہوئی تھی اور ناپاک ہو گئی، پھر خشک ہونے اور ناپاکی کا اثر(effect) دُور ہونے کے بعد الگ کی گئی، تو اب(زمین سے الگ ہونے کے بعد) بھی پاک ہی ہے

{6}جو چیز سوکھنے یا رگڑنے (rubbing) وغیرہ سے پاک ہوگئی پھر اس کے بعد گیلی (wet)ہوگئی تب بھی پاک ہی رہےگی( جیسے زمین پر پیشاب پڑ گیا پھر زمین سُوکھ گئی (dry up)اورنَجاست کا اثر(effect) ختم ہوگیا تو وہ زمین پاک ہو گئی، اس کے بعد پھر کسی پاک چیز سے گیلی ہوگئی تو اب بھی ناپاک نہیں ہوگی)۔(بہارِ شریعت حصّہ ۲ ص ۱۲۳ ،۱۲۴ مُلخصاً)

خُون لگی ہوئی زمین پاک کرنے کا طریقہ:

{7} بچّے یا بڑے نے زمین پرپَیشاب یا پاخانہ (stool)کر دیا یا زخم وغیرہ سے خون یا پِیپ(pus) نکل آیا یا جانور ذبح کرتے وقت نکلا ہوا خون زمین پر گر گیا اوربِغیر پانی کے کسی کپڑے وغیرہ سے پُونچھ لیا تو ناپاکی سوکھنے اور اس کا اثر(effect) ختم ہو جانے کے بعد وہ زمین پاک ہو گئی(جبکہ فرش پکا ہو۔ while the floor is baking) یعنی اُس پر نَماز پڑھ سکتے ہیں(کپڑے پاک کرنے کا طریقہ ص۱۲، مُلخصاً) مگر تَیَمُّمْ نہیں کرسکتے۔

بارِش کے پانی کے دینی مسائل:

{1}بارش ہو رہی ہے اورچھت کے پَرنالے(roof gutters) سےبارِش کاپانی گر رہا ہے وہ پاک ہے اگرچِہ چھت پر ناپاکی پڑی ہو،چاہے ناپاکی پَرنالے(roof gutters) کے قریب ہو، خواہ پانی نَجاست(یعنی ناپاکی) سے مل کر گرے چاہے ناپاکی نِصْف (half) سے کم یا برابر یا زِیادہ ہو(وہ پانی اس وقت تک پاک ہی ہے) جب تک نَجاست سے پانی کے کسی وَصف (یعنی رنگ یا بویا ذائقے) میں تبدیلی (change)نہ آئے{2} بارش ختم ہوگئی، اب بارش کا بچا ہوا پانی چھت سے ناپاکی کے ساتھ گرے یا ناپاکی سے لگ کر گرے، یہ ناپاک ہی ہے {3} بارش کے بعد نالی( canal) جو دَہ در دَہ (225 square feet مثلاً 15 feet لمبی اور 15 feet چوڑ ی ہو)یا اس سے بڑی ہو،اس میں جمع ہونے والےپانی میں اگر ناپاکی کے اجزاء(particles) محسوس ہوں یعنی پانی کا رنگ یا بُو بدل جائے تو پانی ناپاک ہے ۔(بہار ِشریعت حصّہ۲ ص۵۲،مُلخصاً)

گلیوں میں کھڑا ہوا بارش کا پانی:

{1}نِچان والی (یعنی جن کا slopeاوپر سے نیچے کی طرف ہو، ایسی)گلیوں اور سڑکوں پر بارش کا جو پانی کھڑا ہو جاتا ہے وہ پاک ہے ، چاہے اُس کا رنگ گدلا (muddy)ہو تا ہے

{2} کبھی گٹر کا پانی بھی اس میں مل جاتا ہے لیکن یہاں بھی یِہی اصول ہے کہ(بارش کے دوران) ناپاکی کی وجہ سے اِس پانی کے رنگ یا مزےیا بُو میں تبدیلی آئی تو ناپاک ہے ورنہ پاک

{3} اگر بارِش رُک گئی، پانی بھی چلنا بند ہو گیا لیکن دَہ در دہ (مثلاً225 square feet )سے کم ہے اور اُس میں کوئی ناپاکی یا اس کے اَجزا (particles)نظر آرہے ہیں تو اب یہ پانی ناپاک ہے

{4} چپل سے اُڑ کر جوکیچڑ کے چِھینٹے (splashes of mud)پاجامے یا شلوار یا پینٹ کے پچھلے حصّے پر پڑتے ہیں وہ پاک ہیں جب تک یقینی طورپر ان کا ناپاک ہونا معلوم نہ ہو

{5}بارش رکنے کے بعد،اگر اس میں کسی جانور وغیرہ نے پیشاب کر دیا تو یہ پانی ناپا ک ہو گیا ۔(کپڑے پاک کرنے کا طریقہ ص۱۶،۱۷، مُؒخصاً)

خون کی شیشی:

{1} اگر نَماز پڑھی اور جیب میں اَنڈا تھااور(بعد میں جب اُسے توڑا تو پتا چلا کہ) اس کی زردی توخون بن گئی تھی، تو نَماز ہو جائے گی
{2} لیکن اگر جیب وغیرہ میں شیشی ہے اور اس میں پیشاب یا خون یا شراب ہے تو نَماز نہ ہو گی (بہار شریعت حصہ۲ص۱۱۴،مُلخصاً)ٹیسٹ کروانے کے لئے جاتے ہوئے خون کی شیشی جیب میں ہو تو نَماز پڑھتے وَقت باہَر نکال دیا کریں۔یاد رہے! مسجد میں ایسی بوتل لانے کی بھی اجازت نہیں۔

’’ وضو میں داڑھی کا خلال اور مستعمل پانی‘‘

حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کہتے ہیں کہ:

ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے وضو کرتے ہوئے اپنی داڑھی شریف کا خلال فرمایا۔ ( معجم اوسط، ۲ / ۳۱، حدیث: ۲۳۹۵)

واقعہ(incident): ایک کے بدلے ہزاروں درہم

حضرت شیخ شبلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایاکہ ایک شخص کا درہم (چاندی کا سکّہ۔ silver coin)مجھ پر ہے،(اور وہ مالک مجھے مل نہیں رہا تھا تو) میں اس کے مالک کی طرف سے ہزاروں درہم صدقہ کرچکا ہوں مگر پھر بھی مجھے سب سے زیادہ اسی کی فکر ہے(کہ قیامت کے دن میرا کیا بنے گا؟)۔پھر فرمایا: مجھے نماز کے لئے وضو کروادو۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے خادم نے وضو کروادیا لیکن داڑھی میں خلال کروانا بھول گیااور اب آپ کی حالت (condition)یہ ہوگئی تھی کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بول نہیں پارہےتھے اس لئے خادم کاہاتھ پکڑکر اپنی داڑھی میں داخل کردیا پھر آپ انتقال فرما گئے۔حضرت جعفر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جب یہ بات سُنی تو فرمانے لگے: تم ایسے شخص کے بارے میں کیا کہو گے جس سے عمر کے آخری لمحے بھی شریعت کا کوئی ادب فوت نہ ہوا۔ (احیاء العلوم ،ج۵،ص۵۷۹، مُلخصاً)

داڑھی کا خلال:

{1}داڑھی کے بال اگر گھنے(thick) نہ ہوں تو جلد (skin)کا دھونا فرض ہے اور اگر گھنے ہوں تو گلے کی طرف دبانے سے جتنے بال چہرے(face) کے اوپر آئیں ان کا دھونا فرض ہے لیکن اُن کی بھی جڑوں(roots) کا دھونا فرض نہیں، اسی طرح جو بال چہرے سے نیچے ہوں ان کا دھونا ضروری نہیں () اگر چہرے کےکچھ حصّہ میں بال گھنے ہوں اور کچھ جگہ پر چَھدرے(non-thick hair)، تو جہاں گھنے ہوں وہاں کےبال دھونا فرض ہے اور جہاں چھدرے ہیں اس جگہ کی جلد(skin) کا دھونا فرض ہے۔(بہار شریعت ج۱،ح۲،ص ۲۸۹، مسئلہ۴)
{2}داڑھی کا خلال صرف گھنی داڑھی (thick beard)والوں کے لیے سنّت ہے(جبکہ وہ عمرے یا حج وغیرہ کے لیے احرام کی حالت میں نہ ہوں) کیونکہ جس کی داڑھی گھنی نہ ہو یعنی بال اتنے کم ہیں کہ نیچے کی کھال نظر آرہی ہو توا س کے لیے(چہرے پر موجودبال دھونے کے ساتھ) چہرے کی کھال تک پانی پہنچانا واجب ہے، لھذا ایسی داڑھی والے کے لیے خلال سنّت نہیں۔(انگلیوں اور داڑھی کے خلال کا شرعی حکم ص۳۵، مُلخصاً)
{3}ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَاس طرح داڑھی شریف کا خلال فرماتے کہ سیدھے ہاتھ کی مُبارک انگلیاں ، ٹھوڑی کے نیچے سے داڑھی کی جڑ میں کنگھی کی طرح ڈال دیتے۔ (مراۃ ج۱،ص،۲۸۹سوفٹ ائیر،مُلخصاً) داڑھی کا خِلال اس طرح کریں کہ انگلیوں کو گردن کی طرف سے ڈالیں اور سامنے نکالیں۔(بہار شریعت ج۱،ص ۲۹۵، مسئلہ۴۵ ، مُلخصاً)
{4} داڑھی کے جو بال منہ کے دائرے(face circle) سے نیچے ہیں ا ن کا مسح(یعنی ان پر گیلا ہاتھ پھیرنا) سنّت ہے اور دھونا مستحب ہے۔(بہار شریعت ج۱،ص ۲۹۶، مسئلہ۴۹، مُلخصاً)
{5} خلاصہ(conclusion) یہ ہے کہ داڑھی کے جو بال چہرے کی حد (face limit) میں آتے ہیں ، وضو میں ان کا دھونا فرض ہے اور داڑھی کے جو بال چہرے کے دائرے سے نیچے ہیں ا ن کا مسح سنّت ہے، (اگر احرام میں نہ ہوں تو)گھنی داڑھی (thick beard)والوں کے لیے داڑھی کا خلال سنّت ہے اور دھونا مستحب ہے ()اگر کوئی شخص داڑھی دھو لے تو خلال اور مسح کی سنّت پوری ہو جائے گی(انگلیوں اور داڑھی کے خلال کا شرعی حکم ص۴۶، مُلخصاً)۔ داڑھی دھو تے وقت داڑھی کے خلال اور مسح کی نیّت کر لیجیئے۔

مستعمل پانی:

{1}جو پانی وضو یاغسل کرنے میں بدن سے گرا وہ پاک ہے مگر(وضو یا غسل کرنے میں استعمال ہونے کی وجہ سے) مستعمل چکا ہے لہٰذا اس (استعمال شدہ)پانی سے(مزید۔more) وضو اور غسل نہیں ہو سکتا ۔

{2}یونہی اگر بے غسل یابے وُضو شخص کا( بغیردھلا ہوا۔unwashed) ہاتھ یا اُنگلی یا پورا(tip of finger) یا ناخن یا بدن کا کوئی ٹکڑا جو وُضو میں دھویا جاتا ہو،جان بوجھ(deliberately) کریا پھربے خیالی میں دَہ دَر دَہ (مثلاً225 square feet )سے کم پانی میں پڑ جائے تو اُس پانی سے وضو اور غسل نہیں کر سکتے۔

{3} جسم کے جن حصّوں کو وضو میں دھویا جاتا ہے، اُن میں سے اگر کسی حصّے کودھو لیا پھر اس کے بعد وضو ٹوٹنے والی کوئی بات نہ ہوئی تو وہ دُھلا ہوا حصّہ(چاہے بعد میں سوکھ ہی گیا ہو یعنی گیلا نہ ہو) دَہ دَر دَہ (مثلاً225 square feet ) سے کمپانی میں ڈالنے سے وہ (پانی) مستعمل نہ ہو گا(یعنی اس سے وضو اور غسل کرسکتے ہیں)۔

{4}عموماً حمّام (bathroom)کے ٹب ، گھریلو استعمال کے ڈول(bucket)، بالٹی ، پتیلے(boiler) ، لوٹے وغیرہ دَہ دَر دَہ(مثلاً225 square feet ) سے کم ہوتے ہیں ان میں بھرا ہوا پانی ٹھہرے(یعنی کم) پانی کے حکم میں ہوتا ہے۔ اگر (بے وضو یا بے غسل شخص کا)دُھلا ہوا ہاتھ یا بدن کا کوئی (دُھلا ہوا)حصّہ اتنے پانی میں پڑ جائے تو اس سے وضو اور غسل کر سکتے ہیں۔

{5}عورت کا حیض(یعنی منتھلی کورس۔ monthly course ) یا نفاس (یعنی بچّہ پیدا ہونے کے بعد آنے والا خون ) جب تک باقی ہے، دَہ دَر دَہ (مثلاً225 square feet ) سے کم پانی میں بغیر دُھلا ہاتھ یا بدن کا کوئی حصّہ ڈالنے سے پانی مستعمل نہیں ہوگا (یعنی اس سے وضو اور غسل کرسکتے ہیں کیونکہ جب تک یہ خون اپنے وقت میں ختم نہیں ہوتا، ان عورتوں پر غُسل فرض نہیں ہوتا)۔ہاں ! اگر یہ بھی ثواب کی نیّت سے پانی میں ہاتھ وغیرہ ڈالے گی تو پانی مستعمل ہو جائے گا، جیسے ایسی عورت کے لئے مستحب(اور ثواب کا کام) ہے کہ پانچوں نمازوں کےوقت میں ، اسی طرح عادت ہو تو اِشراق ،چاشت او رتہجّد کے وقت میں وضو کر کے کچھ دیر ذِکرو دُرود کر لیا کرے تا کہ عبادت کی عادت باقی رہے تو اب وضوکرنے کی نیّت کے ساتھ بغیر دُھلا ہوا ہاتھ ٹھہرے (یعنی کم)پانی میں ڈالے گی تو پانی مستعمل ہو جائے گا۔

{6}عورت کے نفاس (یعنی بچّہ پیدا ہونے کے بعد آنے والے خون )یا حیض (یعنی منتھلی کورس۔ monthly course ) کا خون بند ہوگیا مگر ابھی غسل نہیں کیا تھا، اب اگر جسم کاکوئی حصّہ دھونے سے پہلے دَہ دَر دَہ (مثلاً225 square feet ) سے کم پانی میں پڑا تو وہ پانی مستعمل ہوجائے گا یعنی اس سے وضو اور غسل نہیں کر سکتے۔

{7}نا بالغ یا نابالغہ کاپاک بدن ٹھہرے پانی مثلاً پانی کی بالٹی یا ٹب وغیرہ میں مکمّل ڈوب جائے تب بھی پانی مستعمل نہ ہوا۔

{8} سمجھدار (sensible)بچّی یا سمجھداربچّہ اگر ثواب ( مثلاً وضو کی )نیّت سے ٹھہرے پانی میں ہاتھ کی اُنگلی یا اس کا ناخن ہی ڈال دے تو پانی مستعمل ہو جائے گا۔

{9}باوُضو نے ماں باپ کے کپڑے یا ان کے کھانے کے لیے پھل دھوئے یا مسجِد کو ثواب کے لیے دھویا تو پانی مستعمل نہیں ہوگا اگر چِہ یہ کام ثواب کے ہیں۔

{10}بدن صاف کرنا، مَیل دُور کرنا،شَریعت کو پسند ہے اِس نیّت سے باوُضو شخص نے جسم دھویا تو یہ بھی ثواب کاکام ہے مگراس سے بھی پانی مستعمل نہ ہوگا ۔(وضو کا طریقہ ۵۰،۵۱، مُلخصاً)

{11} جس شخص پر غسل فرض نہیں لیکن وضو ٹوٹ گیا ہے اوراس نےکہنی (elbow)کے ساتھ ہاتھ دھو لیا تو اب پورا ہاتھ یہاں تک کہ کہنی کے بعد والا(مثلاً کندھے(shoulder) تک کا)حصّہ بھی ٹھہرے پانی میں ڈالنے سے پانی مستعمل نہ ہو گا(یعنی اس پانی سے وضو اور غسل کرسکتے ہیں) ۔

{12}با وضو نے یا جس کا ہاتھ دُھلا ہوا ہے، اس نے اگر پھر دھونے کی نیت(intention) سے ڈالا اور یہ دھونا ثواب کا کام ہو مثلاً کھانا کھانےسے پہلے یا بعد( ثواب کی نیّت سے) ہاتھ دھونے کے لیےیا وضو کی نیّت سے ٹھہرے(یعنی کم) پانی میں ڈالا تو وہ پانی مستعمل ہو جائے گا۔

{13} پانی کا گلاس لوٹا یا بالٹی وغیرہ اُٹھاتے وقت احتیاط (caution)ضروری ہے تا کہ بے دُھلی انگلیاں پانی میں نہ پڑیں ۔

{14} وضو کرتے ہوئے،اگر وضو ٹوٹنے والی کوئی بات پائی گئی تو (اب تک جتنا وضو ہوا تھا یعنی )جسم کے وہ حصّے جو پہلے دھل چکے تھے وہ بے دُھلے ہوگئے یہاں تک کہ اگر چلّو(hollow of the hand) میں پانی تھا تو وہ بھی مستعمل ہوگیا(مگر اسے ضائع(waste) نہ کریں بلکہ استعمال کر لیں)۔

{15}مستعمل پانی پاک ہوتا ہے ،اگر اس سے ناپاک بدن یا کپڑے وغیرہ دھوئیں گے تو پاک ہو جائیں گے۔

{16}مستعمل پانی پینا یا اس سے روٹی کھانے کے لیے آٹا گوندھنا مکروہِ تنزیہی(اور ناپسندیدہ۔unwanted) ہے ۔

{17} اگر غسل کرتے ہوئے وضو ٹوٹنے والی کوئی بات پائی گئی تو صرف جسم کے وہ حصّے بے دُھلے ہوگئے کہ جنہیں وضو میں دھونا ضروری ہے(یعنی اگر باقی غسل مکمل کر لیا اور جسم کے ان حصّوں کو دوبارہ نہ دھویا تو غسل ہوگیا مگر اب وضو کے بعد کرنے والا کوئی کام کرنا چاہتے ہیں(مثلاً: نماز پڑھنا، قرآن ِ پاک پکڑنا) تو نہیں کر سکتے جب تک وہ حصّے دوبارہ نہ دھو لے کہ جنہیں وضو میں دھونا لازم ہے( اور اُن حصّوں کو وضو ٹوٹنےسے پہلے دھویا تھا بعد میں نہیں دھویا تھا )بلکہ بہتر یہ ہے کہ پورا وضو دوبارہ کرلیں)۔

{18} غسل میّت کاپانی مستعمل ہے جبکہ اس میں کوئی نجاست(یعنی ناپاکی) نہ ہو(کیونکہ ناپاکی سے پانی ناپاک ہو جائے گا)۔

{19} اگر ضرورت (یا مجبوری ) کی وجہ سےٹھہرے (یعنی کم)پانی میں ہاتھ ڈالا تو پانی مستعمل نہ ہوا ،مثلاً دیگ یا بڑے مٹکے میں پانی ہے اسے جھکا کر(یعنی نیچے کر کے پانی) نہیں نکال سکتے(کہ بہت وزنی(heavy) ہے اور) نہ ہی کوئی چھوٹا برتن ایساہے کہ اس سے نکال لیں تو ایسی مجبوری کی صورت (condition) میں (جتنی ضرورت ہو اُتنا) بے دُھلا ہاتھ اس پانی والے برتن میں ڈال کر پانی نکال سکتے ہیں ، پانی مستعمل نہیں ہوگا ۔

{20} اچّھے پانی میں اگرمستعمل پانی مل جائے اور اگر اچّھا (untouched)پانی زیادہ ہے تو سب اچّھا ہو گیا مثلاً وضو یا غسل کے دوران بالٹی وغیرہ میں مستعمل پانی کے قطرے گر گئے، بالٹی میں اچّھاپانی زیادہ ہواور قطرے کم گرے ہوں تو اب یہ سب پانی اچّھا ہوگیا یعنی وضو اور غسل کے کام کا ہوگیا۔

{21} مستعمل پانی کو اچھا بنانے کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس میں ایک طرف سے اتنا پانی ڈالیں کہ دوسری طرف سے بہہ ( flow ہو)جائے، سب کام کا ہو جائے گا۔

{22}ہونٹوں کا وہ حصّہ جو عادتاً(یعنی عام طور پر) بند کرنے کے بعد (بھی ) نظر آتا ہے، وضو میں اس کا دھونا فرض ہے لہٰذا گلاس سے پانی پیتے وقت احتیاط(caution) کی جائے کہ اگر بے وضو شخص کے بے دھلے ہونٹوں کا یہ حصّہ ذرا سا بھی پانی میں پڑے گا تو پانی مستعمل ہو جائے گا(اور اب اس پانی کا پینا مکروہ تنزیہی(اور ناپسندیدہ) ہو جائے گا)۔ ہاں!اگروضو کر لیا تھایا ہونٹوں کا وہ حصہ دھو لیا تھا پھر وضو توڑنے والی کوئی بات بھی نہ پائی گئی اور یہ ہونٹ گلاس کے پانی کو لگ گئے چاہے ہونٹ خشک(dry) ہو گئے ہوں تو اب پانی مستعمل نہ ہوگا ۔

{23} پانی پیتے ہوئے مونچھوں کے بے دُھلے بال گلاس کے پانی میں لگے تو پانی مستعمل ہو گیا اس کا پینا مکروہ ہے۔ اگر کسی کا وضو تھا یا مونچھیں دُھلی ہوئی تھیں تو پانی مستعمل نہ ہوگا ۔یاد رہے!مونچھ کتروانا(یعنی کٹوانا)اتنا کہ اوپر کے ہونٹ کا سارا کنارہ کھل جائے(یعنی اوپر کےہونٹ پر کوئی بال نہ ہو) سنت مؤکّدہ بلکہ واجب(یعنی اتنی بڑی مونچھیں رکھنا کہ اوپر کے ہونٹ چھپ جائیں، یہ گناہ) ہے (مراۃ، ج۱، ص۱۱۸سوفٹ ائیر،مُلخصاً) ۔ پانی پیتے وقت یہ بال پانی میں نہیں ڈوبنے چاہیں ۔(مراۃ،ج۶،ص۲۶۳سوفٹ

{24} دودھ ،کافی(coffee)، چائے، پھلوں کے رس وغیرہ مشروبات(drinks) میں بے دُھلا ہاتھ وغیرہ پڑنے سے یہ مستعمل نہیں ہوتے کہ ان سے تو و یسے بھی وضو یاغسل نہیں ہوسکتا ۔

{25} جو پانی کم از کم دَہ دَر دَہ(مثلاً225 square feet ) یا زیادہ ہووہ بہتے پانی کے حکم میں ہوتا ہے، اتنے پانی میں بے وضو یا بے غسل کا بے دھلا ہاتھ پڑ جانے سے پانی مستعمل نہیں ہوتا(البتہ اتنے پانی میں ناپاکی چلی جائے تو اس کے شرعی مسائل الگ ہیں)۔(اسلامی بہنوں کی نماز ص۲۶ تا ۳۰ مُلخصاً) (مستعمل پانی کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لیے فتاویٰ رضویہ مخرجہ ،۲ / ۳۷۔۲۴۸، بہارِ شریعت، ۲ / ۳۳۳۔۳۳۴ اور فتاویٰ اَمجدیہ، ۱ / ۱۴۔۱۵مُلاحظہ فرمایئے)

’’ وضو کے کچھ مسائل اور زینت(fashion) کر کے طہارت حاصل کرنا‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

اے ابُوہریرہ (رَضِیَ اللہُ عَنْہ)جب تم وُضوکر و توبِسمِ اللہِ وَالْحَمْدُ للّٰہ کہہ لیاکروجب تک تمھارا وُضوباقی رہے گااُس وَقْت تک تمھارے فِرِشتے(یعنی کِراماً کاتِبِین ) تمہارے لئے نیکیاں لکھتے رہیں گے۔ (اَلْمُعْجَمُ الصَّغیر لِلطَّبَرَانِی ج۱ص۷۳حدیث ۱۸۶)

واقعہ(incident): بُرا کیا، ظُلم کیا

ایک گاؤں والے نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضِر ہوکر وُضو کے بارے میں پوچھا ، توحُضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُنہیں وُضو کرکے دِکھایا جس میں ہَر عُضْوْ(یعنی جسم کے جو حصّے وضو میں دھوئے جاتے ہیں،انہیں) تین(3) تین بار دھویا پھر فرمایا:وُضو اِس طرح ہے ،تو جو اِس سے زیادہ کرے یا کم کرے اُس نے بُرا کیا اور ظُلم کیا ۔ (سُنَنِ نَسائی ص۳۱حدیث۱۴۰)

وضو کے کچھ دینی مسائل:

{1}وُضو کرتے ہوئے آنکھیں زورسے بند کرنے میں پلکوں(eyelids) کےساتھ ملی ہوئ ایک چھوٹی سی تحریر (یعنی لکیر۔line) بند ہو جاتی ہے، اگر اس پر پانی نہ بہا تب بھی وضو ہو جائے گا مگر ایسا کرنا نہیں چاہیے اور اگر اس سے کچھ زیادہ حصّہ دُھلنے سے رہ گیا تو وضو نہیں ہوگا

{2}اگر ہونٹ خوب زور سے بند کر کے وُضو کیا اور کُلّی بھی نہ کی تووُضو نہیں ہو گا

{3}وُضو کا پانی قیامت کے دن نیکیوں کے پلّے(یعنی ترازو۔scale) میں رکھا جائیگا۔ (مگریاد رہے ! پانی ضائع(waste) کرنا اِسراف ہے)

{4} انگوٹھی ڈِھیلی ہو تو وُضو میں اُسےہلا کر پانی ڈالنا سنَّت ہے اور تنگ (tight)ہو کہ ہلائے بغیر پانی نہ پہنچے گاتو اسے ہلانا فرض۔ یِہی حکم بالی(یعنی کان کے زَیور) وغیرہ کا ہے(کہ پانی چلا جائے تو وضو ہو جائے گا ورنہ اسے ہلانا ہوگا )

{5}جسم کو مَل مَل کر دھونا(wash with rubbing) وُضو اور غسل دونوں میں سنَّت ہے

{6} جسم کے جن حصّوں کو وُضو میں دھویا جاتا ہے، ان میں حدِّ شَرعی(مثلاً ہاتھ کہنیوں(elbows) تک دھونا) سے معمولی (یعنی تھوڑا) سا ہر طرف سے بڑھا دینا کہ جس سے شَرعی حدّ (limit set by Shariah) مکمَّل ہونےمیں شک نہ رہے، واجِب (اور لازم)ہے

{7}وُضو میں(اس طرح ) کُلّی کرنا کہ منہ کے ہر حصّے میں پانی نہ پہنچے یا ناک کے نرم حصّے تک پانی چڑھانے کو چھوڑ دینامکروہ ہے اور اس کی عادت ڈالے گا(یعنی صحیح طرح کُلّی نہ کرنے کی عادت بنا لی یا صحیح طرح ناک کے نرم حصّے تک پانی نہ چڑھانے کی عادت بنائی ) تو گُنہگار ہو گا اور () جو غسل میں ایسا نہیں کرتے تو ان کا غسل نہیں ہوتا اور اس غسل سے پڑھی گئی نمازیں بھی نہیں ہوں گی

{8}وُضو میں جو جو حصّے دھوئے جاتے ہیں، اُس میں سے ہر حصّے کو مکمل تین (3) بار دھونا سنَّت مُؤَکَّدہ ہے(اسی طرح تین تین مرتبہ کُلّی کرنا اور تین تین مرتبہ ناک میں پانی چڑھانا بھی سنَّت مُؤَکَّدہ ہے )۔ مکمل تین(3) مرتبہ نہ دھونے ( یا ()تین تین مرتبہ کُلّی نہ کرنے یا () تین تین مرتبہ ناک میں پانی نہ چڑھانے) کی عادت سے بندہ گنہگار ہو گا

{9}وُضو میں جلدی نہیں کرنی چاہئے بلکہ اطمینان اور احتیاط(calmly and carefully) کے ساتھ کرے۔ عوام میں جو مشہور ہے کہ’’ وُضو جوانوں کا سا، نماز بوڑھوں کی سی‘‘ یہ طریقہ غَلَط ہے

{10}مُنہ دھونے میں پانی گالوں پر یا ناک پر یا پیشانی(forehead) پر ڈالنا، یہ سب غلط طریقے ہیں بلکہ اطمینان (calmly) سے پیشانی کے اُوپر سے اس طرح ڈالیے کہ ٹھوڑی (chin)سے نیچے تک بہتا ہوا آجائے

{11}جس پانی سےمنہ دھویا پھر اسی پانی (کوکسی برتن وغیرہ میں جمع کرنے کے بعد، اسی) سے ہاتھ کی کلائی(wrist) نہیں دھو سکتے کہ ا س سے وُضو نہ ہوگا ۔ ہاں!غسل میں آسانی ہے کہ مَثَلاً: سر کا پانی پاؤں تک جہا ں جہاں گزرے گا، وہ حصّہ غسل کے لیے دُھل جائے گا، وہاں نئے پانی کی ضَرورت نہیں

{12} آدَمی وُضو کرنے بیٹھا پھر کسی عذر (یعنی وجہ )سے وضو مکمَّل نہ کر سکا تو جتنا وضو کیا اُس پر ثواب ملےگا مگر اس کا وُضو نہیں ہوا

{13}جس کی شروع سے نیّت (intention) ہی آدھا وُضو کرنے کی ہو تو اب اُسے آدھے وضو پرثواب نہیں ملے گا

{14}اگر سر پر بارِش کے کچھ قطرے گرے مگر چوتھائی(1/4 یعنی25%) سر گیلا(wet) ہو گیا تو مَسح ہو گیا چاہے اس شخص نے سر پرہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور سر کے مسح کی نیّت بھی نہ کی ہو

{15} کوئی شخص ننگے سر(یعنی ٹوپی وغیرہ کے بغیر)، آسمان کے نیچے بیٹھا تھاکہ ا َوس (یعنی شبنم۔dew) گری اور اُس سے چوتھائی(1/4 یعنی25%)سر بھیگ (wet ہو) گیا تو سر کا مَسح ہو گیا

{16} اتنے گَرم یا اتنے ٹھنڈےپانی سے وُضو کرنا مکروہ ہے جو بدن پر اچّھی طرح نہ ڈالا جا سکے یعنی سنّت کے مطابق وضو نہ کر سکے اور اگر پانی ایسا ہو کہ فرض پورا نہ ہو سکے تو وُضو ہی نہ ہوگا

{17}( وضو میں بھی ) پانی ضائع کرنا یا ( وضو کے بعد)پھینک دینا حرام ہے

{18}ناف سے زَرد (yellow)پانی بہہ ( flow ہو)کر نکلا تو وُضو ٹوٹ جائے گا

{19}خون یا پیپ (pus) آنکھ میں بہا مگر آنکھ سے باہَر نہ نکلاتو وُضو نہیں ٹوٹے گا، اگر کسی نے ایسی پیپ یا خون کو کپڑے سے صاف کر کے پانی میں ڈال دیا تو (پانی بھی ) ناپاک نہ ہوگا(مگر ایسا کرنا نہیں چاہیے)۔

{20}زَخم پر پٹّی (bandage) بندھی ہے اُس میں خون وغیرہ نظر آرہا ہے اگر اتنا ہے کہ پٹی نہ ہوتی تو اپنی جگہ سے بہہ جاتا تو وُضو ٹوٹ گیا اور اگر خون اتنا نہیں بلکہ کم ہے تو وضو نہیں ٹوٹا اور وہ پٹّی بھی ناپاک نہیں ۔

{21}نابالِغ (بہت چھوٹا بچّا)بے وُضو نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پر غسل فرض ہوتا ہے۔ انہیں(یعنی نابالغان کو) وُضو و غسل کاحکم عادت ڈالنے اورآداب سکھانے کے لیے ہے ورنہ کسی حَدَث (یعنی وضو توڑنے والی بات)سے ان کا وُضونہیں ٹوٹتا۔

{22} کسی اور کا پانی بغیر اجازت لے لیا یا زبردستی لے لیا یا چوری کر کے لیا اور اس سے وُضو کر لیا تو وضو ہو جائے گا مگر اس طرح پانی لینا حرام ہے(پانی کی قیمت بھی مالک کو دینی ہوگی،اس سے معافی بھی مانگنی ہوگی اور اللہ کریم سے اس گناہ کی توبہ بھی کرنی ہوگی )۔ ہاں! کسی کی زمین میں موجود کنویں سے (مالک کی اجازت کے بغیر اپنے ڈول وغیرہ سے)پانی بھر لیا تو اس کا استِعمال جائز ہے(یاد رہے! زمین والا اُس کنویں کا مالک تو ہے مگر اسلام نے اُس شخص کو کنویں کے پانی کا مالک نہیں بنایا، جو چاہےاُس کنویں سے پانی لے لے)۔

{23} سردی میں وُضو کرنے سے ٹھنڈ بَہُت لگے گی یا تکلیف ہو گی مگر معلوم ہے کہ بیمار نہیں ہو گا تو تَیَمُّم کی اجازت نہیں

{24}شیطان کے تھوک اور پھونک سے نَماز میں (پیشاب وغیرہ کے)قطرے اور رِیح (release of air through passage) کا گمان ہو جاتا ہے، حکم ہے کہ جب تک ایسا یقین(sureness) نہ ہو جس پر قسم کھا سکے اِس (وسوسے ) کا خیال نہ کرے، شیطان کہے کہ تیرا وضو جاتا رہا تو دل میں جوا ب دے لے کہ ذلیل تو جھوٹا ہے اور اپنی نَماز پڑھتا رہے

{25} مسجِد کو ہرگِھن کی چیز (مثلاً کچرےوغیرہ) سے بچانا واجِب ہے، چاہے وہ چیز پاک ہو جیسے تھوک یا ناک سے نزلے کا بہنے والا پانی(ان سے بھی مسجد کو بچانا ضروری ہے)، اسی طرح وضو کے بعد ٹپکنے والا پانی جیسا کہ کچھ لوگ وُضو کے بعد اپنے منہ اور ہاتھوں سے پانی پونچھ کر (wipe off the water)مسجِد میں ہاتھ جھاڑتے ہیں (یہ) حرام اور ناجائز ہے

{26}پانی میں پیشاب کرنا مُطلَقاً(ہر جگہ) مکروہ ہے ، چاہے دریا (river)میں ہو

{27}زمزم شریف سے غسل و وُضو مکروہ نہیں بلکہ جائز ہے( اورپیشاب وغیرہ کر کے )ڈَھیلے(مثلاً سوکھی ہوئی سخت مٹی ۔dried hard soil)سےخشک(dry) کر لینے کے بعد(آبِ زم زم سے) اِستنجا (یعنی جسم دھونا) مکروہ ہے اور بغیر ڈَھیلا لیے نَجاست(یعنی ناپاکی) دھونا (مثلاً پیشاب کے بعد ٹِشوپیپر وغیرہ سے سُکھائے بغیر ہی جسم پر آبِ زم زم ڈال دینا)گناہ ہے۔

مردوں کےوضو کے کچھ مسائل:

{1}مِسواک موجود ہو تو اُنگلی سے دانت مانجنے(brushing the teeth) سے مسواک کی سنّت پوری نہیں ہوگی ا ور نہ ہی مسواک کاثواب ملے گا ۔ ہاں! مسواک نہ ہو تو اُنگلی یا کُھردَرے کپڑے (rough cloth) سے دانت صاف کرنے سے مسواک کی سنَّت پوری ہو جائے گی

{2}قطرہ اُتر آیا یا خون وغیرہ ذَکَر (یعنی مرد جس جگہ سے پیشاب کرتا ہے)کے اندر بَہا جب تک اُس کے سُوراخ سے باہَر نہ آئے وُضو نہ جائیگا اور پیشاب سوراخ کےمنہ پر چمک گیا (باہر نہ آیا)تووُضو ٹوٹ جائے گا ۔

عورتوں کے وضو کا مسئلہ:

عورَتوں کے لیے مِسواک موجود ہو جب بھی مِسّی( یعنی ایک کالا منجن یا پاؤڈر جسے عورتیں اپنے دانتوں پر ملتی ہیں) کافی (enough) ہے۔(وضو کا طریقہ۴۸تا۵۲، مُلخصاً)

زینت کے ساتھ وضو اور غسل کے مسائل:

{1}آنکھوں میں لینز (lens)ہو تو وضو اور غسل کے لیے نکالنا ضروری نہیں کیونکہ آنکھوں کا اندرونی حصّہ (inner part of the eye) وضو یا غسل میں دھونا فرض یا سنّت بلکہ مُستحب بھی نہیں۔(زینت کے شرعی احکام ص۱۵۵ مُلخصاً)

{2} جسم پر نیل پالش(nail polish)، اسٹیکر میک اپ(makeup sticker) اور جرم دار تہہ والی (layered) مہندی لگی ہو تو پانی جسم تک نہیں پہنچتا لھذا اس صورت میں وضو اور غسل نہیں ہوتا۔(زینت کے شرعی احکام ص۱۷۴ ماخوذاً)

{3} معلومات کے مطابق بریتھ ایبل ناخن پالش (breathable nail polish) لگانے کے بعدبھی ہوا اور پانی کی نمی(wetness) ناخن تک پہنچتی ہے مگر وضو اور غسل کرنے کے لیے اسے اُتارنا ضروری ہے کیونکہ وضو میں جسم کے جن حصّوں کو دھونے کا حکم ہے(اور غسل میں مکمل ظاہری جسم) تو وہاں دھونے سے مراد یہ ہے کہ اُس جگہ کےہر حصّے میں دو (2)دو قطرے پانی بہہ( flow ہو) جائے۔ ظاہر ہے یہ نیل پالش(nail polish) لگی ہو توناخن نہیں دھلتے اور ہاتھ و پاؤں دونوں کے ناخنوں کو وضو اور غسل(دونوں) میں دھونا ضروری ہے تو جب ناخنوں پر یہ نیل پالش لگی ہوگی، نہ وضو ہوگا اور نہ غسل۔(زینت کے شرعی احکام ص۱۵۶،۱۵۷ ماخوذاً)

{4}وضو اور غسل کرنےکے بعد نماز پڑھی تو دیکھا کہ نیل پالش(nail polish) لگی ہوئی تھی ،توایسی خواتین کہ جو عام طور پر زینت (یعنی خوبصورتی وغیرہ ) کے لیے نیل پالش استعمال کرتی ہیں اور اس کی صفائی کا مکمل طور پر خیال رکھنے میں حرج (یعنی بہت مشکل) ہوتی ہے، ان کے لیے شریعت کی طرف سے یہ آسانی ہے کہ نیل پالش لگانے کے بعد اُسے صاف کر کے وضو کریں ۔ اگر نیل پالش تھوڑی بہت لگی رہ گئی لیکن نظر نہیں آئی اور نماز پڑھ لی تو وہ نماز ہوگئی مگر(نظر آنے کے بعد) اب اسی وضو سے مزید (more)نماز پڑھنی ہو یا قرآنِ پاک پکڑناہو تو اب نیل پالش مکمل صاف کر کے اُ س جگہ پانی بہانا ہوگا۔ہاں ! اگر نشان ایسا ہے کہ صاف ہی نہیں ہو رہا یا اسے صاف کرنا بہت ہی مشکل ہے تو اب اسے صاف کرنا ضروری نہیں۔(زینت کے شرعی احکام ص۱۵۹،۱۶۰ ماخوذاً)

{5}پلکوں(eyelashes) کو لمبا کرنے کے لیے واٹر پروف مسکارا(waterproof mascara) لگانے سے وضو اور غسل نہیں ہوگا کہ دونوں(یعنی وضو اور غسل) میں ان پلکوں کا دھونا فرض ہے۔(زینت کے شرعی احکام ص۱۶۳ ماخوذاً)

{6} سرخی(lipstick) ایسی جرم دار (تہہ والی۔layered) ہو کہ پانی کو جسم تک پہنچنے سے روکتی ہو تو اس کے لگے ہوئے ہونے کی صورت میں وضو اور غسل صحیح نہیں ہوگا۔(زینت کے شرعی احکام ص۱۷۷ مُلخصاً)

{7}کولڈ کریم(cold cream) عام طور پر جرم دار(تہہ والی۔layered) نہیں ہوتی لھذا یہ لگی ہوئی ہو تب بھی پانی جسم تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے لگنے کے بعد بھی وضو اور غسل کر سکتے ہیں، صابن کے ذریعے اس کی چکنائی(greasy effect) ختم کرنا بھی ضروری نہیں۔(زینت کے شرعی احکام ص۱۶۴ ماخوذاً)

{8}عمامہ اور برقع اور نقاب(veil) اور دستانوں (gloves)پر مسح جائز نہیں۔(بہار شریعت،ح۲،ص ۳۶۷، مسئلہ۲۹،مُلخصاً)

وضومیں چمڑے موزوں(leather socks) کا مسح(wiping):

{1} وضو میں پاؤں میں پہنے ہوئے موزوں پر مسح کرنےکو جائز سمجھنا، ضروری ہے۔

{2}جس شخص نے(چمڑے کا) موزہ پہنا ہو تو اُس کا وُضو میں پاؤں دھونے کی جگہ مسح کرناجائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ پاؤں دھو لے۔

{3} عورتیں بھی پاؤں کا مسح کر سکتی ہیں۔

مسح کرنے کے لیے چند شرطیں(preconditions) ہیں:

{۱}(چمڑے کے) موزے ایسے ہوں کہ ٹخنے(ankles) چھپ جائیں اس سے زِیادہ بڑے ہوناضروری نہیں بلکہ موزہ ا گر ایک دو اُنگلی برابر کم بھی ہو، تب بھی اُس پر پاؤں کا مسح کرنا صحیح ہے مگر یاد رہے کہ پاؤں کی پوری ایڑی(heel) کھلی ہوئی نہ ہو۔

{۲} پاؤں سے چپٹا (stuck)ہو، کہ اس کو پہن کر آسانی کے ساتھ اچھی طرح چل سکتا ہو۔

{۳} پورا موزہ چمڑے (leather)کا ہو، یا صرف تَلا (bottom)چمڑے کا ہواور باقی کسی بھی دبیز(یعنی موٹے کپڑے)کا ہو (تب بھی اس پر مسح ہو جائے گا۔آج کل جو ریگزین کے موزے پہنے جاتے ہیں، اُن میں یہ شرطیں پوری پائی جائیں تو ان پر بھی مسح کر سکتے ہیں)۔

(a) آج کل جو سوتی (cotton)یا اُونی(woolen) موزے پہنے جاتے ہیں اُن پر مسح جائز نہیں، انہیں اتار کر پاؤں دھونا فرض ہے۔

(b) انگریزی جوتے( یعنی چمڑے کے سخت تلوے والا جوتا۔leather boots) پر مسح جائز ہے اگر ٹخنے (ankles)اس سے چھپے ہوں

{۴}موزہ(leather socks)وُضو کرکے پہنا ہو یا صرف پیر دھو کے پہنا ہو لیکن پیر دھو کر وضو مکمل کر لیا ہو اور اس ( یعنی پاؤں دھو کر وضو مکمل کرنے کے) درمیان کوئی ایسی بات نہ ہوئی ہو کہ جس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہو۔

{۵} (چمڑے کے موزے پر مسح کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ) نہ غسل فرض ہونے کے بعد پہنا ہو اور نہ پہننے کے بعد غسل فرض ہوا ہو۔

(a) جس پر غُسل فرض ہے وہ مَوزوں پر مسح نہیں کرسکتا۔

(a)مقیم(جو سفر میں نہ ہو) کی مدّت (duration) ایک دن رات (یعنی چوبیس (24)گھنٹے مثلاً دوپہر2بجے سےآگلے دن 2بجے)ہے اور مسافر (جو شرعی سفر میں ہو)کے لیے تین دن اور تین راتیں(بہتر(72) گھنٹے مثلاً دوپہر2بجے سے دو دن بعد دوپہر 2 بجے)ہے( یعنی اگر اتوار دوپہر2 بجےپہنا تو بدھ 2بجے تک)۔

(b)یاد رہے کہ موزہ پہننے کی مدّت (duration) کا مطلب یہ ہے کہ جب وضو کے بعد(چمڑے کا) موزہ پہنا پھر اُس کے بعد پہلی مرتبہ کوئی ایسی بات پائی گئی کہ جس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، تو اب دن رات (یعنی مقیم کے 24 اور مسافر کے72گھنٹے ) کا وقت شروع ہوگا۔ مثلاً فجر میں وضو کیا اور ظہر میں ٹوٹ گیا تو اب مقیم کا مسح کل ظہر میں ختم ہو جائے گا، اب اگر مسافر ہے تو چوتھے دن(fourth day) کی ظہر میں مسح ختم ہو گا یعنی اگر’’ اتوار ‘‘ کی صبح وضو کر کے(چمڑے کا) موزہ پہنا اورظہر میں وضو ٹوٹ گیا تو اب ’’ بدھ ‘‘ کی ظہر میں مسافر کا مسح ٹو ٹ جائے گا۔

نوٹ: مسح ٹوٹ جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب اگر کوئی ایسا کام کرنا ہے کہ جس کے لیے وضو کرنا لازم ہو (جیسے: نماز پڑھنا یا قرآنِ پاک پکڑنا وغیرہ) تو اب پاؤں دوبارہ دھونے پڑیں گے اور بہتر یہ ہے کہ پوار وضو کرے۔ ہاں! اگر یہ وقت آنے سے پہلے دوبارہ وضو ٹوٹ گیا تھا تو اب صرف پاؤں دھونا کافی(enough) نہیں بلکہ پورا وضو ہی کرنا ہوگا۔ {۷} دونوں میں سے کوئی ایک(چمڑے کا) موزہ بھی پاؤں کی چھوٹی تین (3)انگلیوں کے برابر پھٹا ہوا نظر نہ آتا ہو یعنی چلنے میں تین (3) اُنگلیوں جتنا جسم نظر نہ آتا ہو، اگر تین انگلیوں جتنا پھٹا ہوا ہے مگر چلنے میں جسم تین اُنگلیوں کے برابر نظر نہیں آتا(مثلاً موزہ بڑا ہے اور آگے سے پھٹا ہوا ہے) تو ایسے موزے پر مسح جائز ہے اور() اگر دونوں موزے پھٹے ہوئے ہیں مگر کوئی ایک موزہ بھی پاؤں کی چھوٹی تین (3)انگلیوں کے برابر پھٹا ہوا نہیں ہے مگر جب دونوں موزوں کے پھٹے ہوئے حصّوں کو ملاتے ہیں تو تین اُنگلی کے برابر بلکہ زیادہ ہو جاتا ہے پھر بھی اس صورت(case) میں ، ان موزوں پر مسح ہو سکتا ہے()اگر دونوں موزوں یا کسی موزے کی سلائی کھل جائے ، تب بھی یہی حکم ہے کہ کوئی ایک موزہ چھوٹی تین(3) اُنگلیوں یا اس سے زِیادہ پھٹا ہوا ہو اور اتنا جسم نظر آتا ہو تو اُس پر مسح نہیں کر سکتے اور اگر کم نظر آئے تو مسح کر سکتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اگر انگلیوں کی جگہ سے موزہ پھٹا ہے تو اب چھوٹی اُنگلیوں کے مطابق(according to the smaller fingers) جسم نہیں دیکھا جائے گا بلکہ جس طرف کی اُنگلیوں سے پھٹا ہے، وہاں کی تین اُنگلیاں نظر آتی ہیں تو مسح نہیں ہو سکتا اور وہ تینوں مکمل نظر نہیں آتیں تو مسح ہو جائے گا۔

(a) (چمڑے کا) موزہ پھٹ گیا یا سِلائی کھل گئی اور پہننے میں تین(3) اُنگلیوں جتنا پاؤں نظر نہیں آتا مگر چلنے میں تین (3) اُنگلیاں نظر آتی ہیں تب بھی اس موزے پر مسح جائز نہیں ہے۔

(b) ایک موزہ کچھ جگہوں سے پھٹا ہوا ہے، سوراخ(holes) بڑے نہیں ہیں تو اگر سوراخ اتنے ہیں کہ ان میں سوتالی (چمڑا چھیدنے کا آلہ۔leather piercing tool)جاسکے اور وہ سوراخ مل کر تین انگلیوں جتنے بن جاتے ہیں تو اب اس موزے پر مسح نہیں ہو سکتا(البتہ زپ(zip) والے چمڑے کے موزوں پر مسح جائز ہے کہ اُن میں اتنے بڑے بڑے سوراخ نہیں ہوتے)۔

(c)ٹخنے(ankles) سے اوپر کتنا ہی پھٹا ہو ایسے موزے پر مسح ہو سکتا ہے۔

(چمڑے کے) موزوں پر مسح کا طریقہ:

{1}(چمڑے کے) موزوں پرمسح میں نیّت کرنا ضروری نہیں ہے(۱)سیدھے ہاتھ کی تین(3) انگلیاں ، سیدھے پاؤں کی پُشت(یعنی اوپر کے حصّے ) پر ، اُنگلیوں کے ناخن سےاوپر موزے کی جگہ پر رکھیں(۲) اسی طرح اُلٹے ہاتھ کی اُنگلیاں،اُلٹے پاؤں کے موزے پر، اُسی جگہ رکھیں (۳)اب کم از کم تین اُنگلی تک کھینچتے ہوئے پیچھے لائیں بلکہ (۴) سنّت یہ ہے کہ پنڈلی (calf) تک لائیں(۵)مسح ایک ہی بار ہوگا، تین مرتبہ مسح کرنا سُنّت نہیں ہے۔

{2}انگلیوں کی پُشت(یعنی جس طرح ہاتھ دعا میں اُٹھاتے ہیں، اُس طرح ہاتھ اُٹھا کر نیچے والے حصّے) سے مسح کیا، یاپنڈلی (calve)کی طرف سے انگلیوں کی طرف ہاتھ لائے، یا موزے کی چوڑائی(width) کا مسح کیا، یا ہتھیلی (palm)سے مسح کیا تو ان سب صورتوں(cases) میں مسح تو ہو جائے گا گیا مگر یہ انداز(style) سنّت نہیں ہے۔

مسح کے فرض:

{1}(چمڑے کے)ہر موزےکا مسح ہاتھ کی چھوٹی تین(۳) انگلیوں کے برابر ہونا فرض ہے یہاں تک کہ() ایک پاؤں کا مسح دو (۲)انگلیوں کے برابر کیا اور دوسرے پاؤں کا چار انگلیوں برابر کر لیا تب بھی مسح نہ ہو گا۔

{2}مسح موزے کی پیٹھ (یعنی اوپر والے حصّے) پر ہونا بھی فرض ہے() ا گر کسی نے موزے کے تَلے(یعنی اُس حصّے پر کہ جو چلنے میں زمین پر لگتا ہے) میں مسح کیا، یا کروٹوں(sides)، یا پنڈلیوں(calves)، یا ایڑیوں

(heels) پر مسح کیا تو بھی مسح نہ ہوگا۔ (بہارِ شریعت ح۲، ص ۳۶۳ تا ۳۶۸،

کچھ چیزیں کہ جن سے مسح ٹوٹ جاتا ہے:

{1} جن چیزوں سے وُضو ٹوٹتا ہے ان سے مسح بھی جاتا رہتا ہے۔

{2}(چمڑے کا) موزے اُتارنے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے، چاہے ایک ہی موزہ اُتارا ہو۔ اسی طرح اگر ایک پاؤں آدھے سے زیادہ (یعنی اکثر)موزے سے باہر آگیا تو مسح ختم ہو جائے گا۔یاد رہے کہ موزہ اُتارنے میں اکثر(major part) کا مطلب یہ ہے کہ گٹوں (ankle)سے پنجوں(toes) تک پاؤں کا حصّہ،پنڈلی(calf) سے پاؤں کا اکثر نہیں دیکھا جائے گا۔

{3} (چمڑے کا)موزہ ڈھیلا(loose) ہو جائے کہ چلنے میں ایڑی(heel) باہر آجاتی ہو تو اس صورت میں مسح ختم نہیں ہوا (یعنی جب تک اکثر پاؤں باہر نہ نکلے)۔(بہارِ شریعت ح۲، ص ۳۶۸ تا ۳۶۹، مسئلہ۱،۲،۴،۵، مُلخصاً)

’’غسل کا طریقہ اور احتیاطیں(cautions)‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

بے شک جمعہ کے دن غسل کرنا گناہوں کو بالوں کی جڑوں سے بھی نکال دیتا ہے

واقعہ(incident): چشمے(spring) سے غسل فرمایا

دنیا میں ایسے چار(4) بادشاہ ہوئے ہیں جو تمام دنیا پر حکومت کرتے(ruler) تھے،جن میں دو(2) ایمان والے(۱) حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام (۲) حضرت ذوالقرنین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور دو (2)کافِر تھے(۳)نمرود(جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے زمانے میں تھا)(۴) بُخْتِ نصر (جو حضرت عُزیر عَلَیْہِ السَّلَام کے زمانے میں تھا)اور ایک پانچویں(5th ) بادشاہ اس اُمَت میں آنےوالے ہیں یعنی (۵)حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ، ان کی حکومت بھی پوری زمین پر ہو گی۔

حضرت ذوالقرنین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ، حضرت خضرعَلَیْہِ السَّلَام کے خالہ زاد بھائی(cousin) تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بارے میں حضرت علیرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا کہ: وہ اللہ کریم سے مَحبت کرنے والے بندے تھے، اللہ کریم نے انہیں محبوب بنایا (خزائن العرفان فی تفسیرالقراٰن،پارہ ۱۶، سورۂ کہف،آیت نمبر۸۳، مُلخصاً)۔حضرت ذوالقرنین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے بیٹے سام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمۂ حیات(یعنی ایسا چشمہ۔ spring کہ جو اُس سے پانی پی لے تو قیامت تک زندہ رہے) سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی۔ یہ پڑھ کر وہ چشمۂ حیات ڈھونڈنے کے لیےمغرب و مشرق (یعنی ہر جگہ)چلےگئے ، اس سفر میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ حضرت خضر عَلَیْہِ السَّلَامبھی تھے، وہ تو چشمۂ حیات تک پہنچ گئے مگر حضرت ذوالقرنین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نہ پہنچ سکے (مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۶۶۲، جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ۴ / ۴۵۲-۴۵۳، ملتقطاً) ۔حضرت خضر عَلَیْہِ السَّلَام نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا۔ عُلَمائے کِرام نے فرمایا کہ حضرت خضر عَلَیْہِ السَّلَام اکثر(most) عُلَمائے کِرام کے نزدیک زندہ ہیں ۔کچھ عُلَمائے کِرام کہتے ہیں کہ حضرت خضر عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت الیاس عَلَیْہِ السَّلَام دونوں زندہ ہیں اور ہر سال حج میں ملتے ہیں ۔(خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۲، مُلخصاً)

غسل میں یہ کام کریں:

(1)غسل کرنے سے پہلے کے کام (نیّت کرنا، ہاتھ دھونا اور جسم دھونا)(2)نماز کا سا وضو(3)نہانے سے پہلے کی

احتیاطیں(cautions) (4)بدن پر پانی ملنا (rubbing the body)(5)ترتیب وار بدن پر پانی بہانا۔

{1} غسل کرنے سے پہلے کے کام (نیّت، ہاتھ دھونا اور جسم دھونا):

(۱)بِغیرزَبان ہِلائے دل میں اِس طرح نیّت کرنا کہ میں پاکی حاصِل کرنے کیلئے غسل کرتاہوں پھر(۲) دونوں ہاتھ پہنچوں (wrist bone)تک تین (3)تین بار دھونا پھر(۳) اِستِنجے کی جگہ دھونا چاہےناپاکی وغیرہ ہویانہ ہوپھر(۴) جِسم پر اگر کہیں نَجاست(یعنی ناپاکی) ہوتو اُس کودُور کرنا۔

{2}نماز کا سا وضو:

(۱) پھرنَمازکاساوُضوکرنا(attached bath ہو تو دعا وغیرہ باہر آکر پڑھنا) (۲)مگر پاؤں نہ دھونا، ہاں! اگر چَوکی (stool or step) وغیرہ پر غسل کررہے ہیں (یاbathroom کا ایسا slopeہے کہ پانی زمین پر نہیں رُکتا) تو (وضو میں)پاؤں دھولینا۔ نوٹ: (۱)کُلی کرنا (۲)نا ک میں پانی چڑھاناغسل کے فرائض میں سے ہے( بہارِ شریعت،جلد ۱،صفحہ۳۱۶ ،مُلخصاً) غسل سے پہلے صحیح طریقے سے وضو کر لینے پر، یہ فرض بھی پورے ہوجائیں گے۔

وضاحت(explanation):

(۱)اگر روزہ نہ ہو تو (وضو کرتے ہوئے)غرغرہ کرنا اور(۲) ناک کی سخت ہڈی(یعنی اوپر) تک پانی چڑھانا کیونکہ جس کا روزہ نہ ہو اُس کے لیے ناک کی سخت ہڈی(یعنی ناک کی جڑ) تک پانی چڑھانا، وضو اور غسل میں سنّت (غیر مؤکّدہ) ہے (فتاویٰ رضویہ،جلد ۱،صفحہ۲۸۱،ملخصاً) ۔یاد رہے کہ سر میں پانی نہ چڑھے کیونکہ صحّت کے لیے اچھا نہیں ہے، بار بار مشق (practice) کرنے سے پانی ناک میں چڑھانے اور سر میں چڑھنے سے بچنے کا تجربہ (experience) ہوجائے گا۔ (۳)ناک کی نرم ہڈی تک پانی چڑھانا، روزہ دار اور غیرِ روزہ دار (دونوں) کے لیے وضو میں سُنّت مؤکدّہ اور غُسل میں فرض ہے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : غسل تو ہرگز نہیں ہوگا جب تک سارامنہ حلق کی حد (limit)تک (یعنی زبان کے اوپر، نیچے، آگے، پیچھے، سیدھی طرف، اُلٹی طرف، دانتوں اور گالوں کے درمیان ، اسی طرح دانتوں کے بیچ میں ہر طرف پانی نہ گھمائیں)اور (ناک کا)سارا نرم بانسہ ( یعنی ناک کے سوراخ والا نرم حصّہ)سخت ہڈی کے کنارہ(یعنی ہڈی شروع ہونے) تک پورا نہ دھل جائے یہاں تک کہ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ اگر ناک کے اندر کثافت (یعنی سخت چیز مثلاً ناک کی رینٹھ (یعنی میل) جمی ہے تو لازم کہ پہلے اسے صاف کرلے ، کیونکہ اس کے نیچے پانی نہیں گیا توغسل بھی نہ ہوگا ( فتاویٰ رضویہ،جلد ۱،صفحہ۴۴۲،مُلخصاً) ۔ (۴)روزہ دارچاہے وضو کرے یا غسل، کُلِّی تو کرے گا مگر اس میں غرغرہ(gargle) نہیں کرے گا۔ ہاں!روزہ دار کُلِّی میں پورے منہ کی ہر جگہ اچھی طرح پانی پہنچائے گا۔ (۵) روزہ دارچاہے وضو کرے یا غسل ،ناک میں پانی چڑھائے گا۔ ہاں! روزہ دار جب ناک میں پانی چڑھا ئے تو چند قطرے(a few drops) پانی لے اور آہستہ سے سونگھے تاکہ پانی اوپر(سَر) تک نہ جائے۔عام دنوں میں اس کی بار بار مشق (practice) کی جائےتاکہ تجربہ(experience) ہوجائے ۔ یاد رہے! روزہ دار کو بھی غسل اور وضو میں ناک کے نرم حصّے تک پانی چڑھانا ہے مگر سر پر چڑھانے سے بچانا بھی ہے۔اگر روزہ یاد ہوتے ہوئے بھی پانی سر تک چڑھ گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

{3}نہانے سے پہلے کی احتیاطیں(cautions):

(۱)نہانے میں قبلہ رُخ نہ ہونا (۲)ممکن (possible) ہو توایسی جگہ نہانا کہ جہاں کسی کی نظر نہ پڑے اگر ایسی جگہ نہ ہوتومَرد کااپنا سَتر (ناف سے لے کر دونوں گُھٹنوں کے ساتھ سارے جسم کو)کسی موٹے کپڑے سے چھپانا، موٹا کپڑا نہ ہوتو دو(2) یا (3)تین کپڑے لپیٹ لینا کیوں کہ باریک (thin)کپڑاہوگاتوپانی سے بدن پرچِپک (stick )جا ئے گا اور مَعَاذَاللہ !َ (یعنی اللہ کریم کی پناہ)گُھٹنوں(knees) یا رانوں(thighs) (یعنی ستَر)وغیرہ کارنگ نظر آئے گا (۳)عورت کو اوربھی زِیادہ احتیاط (caution) کرنا(کہ ہر کسی کی نظر سے بچ کر ہی غسل کرے)(۴) غسل کرتے ہوئے کسی قسم کی باتیں نہ کرنا(۵) کوئی دعا بھی نہ پڑھنا(یعنی بِسْمِ اللہ وغیرہ پڑھ کر غسل خانے (bathroom)میں آنا)۔

فوارے کی احتیاطیں(cautions):

غسل خانے(bathroom) میں فوارہ (shower) ہو تو اسے اچھی طرح دیکھ لینا کہ اس کی طرف منہ کرکے یا بغیر کپڑوں کے نہانے میں منہ یا پیٹھ قبلے شریف کی طرف تو نہیں ہورہی ۔ استنجا خانے میں بھی اِسی طرح احتیاط (caution) کرنا۔

فتاوی شامی میں کچھ اس طرح ہے کہ:

غسل کرنے کے ادب میں سے یہ بات بھی ہے کہ قبلہ کی طرف منہ نہ کرے اور قبلے کو منہ نہ کرنا مستحب ہے کیونکہ نہانے والا غالبا بغیر لباس کے نہائے گا(تو قبلے کی طرف منہ کرنے اور پیٹھ کرنے سے بچے) ( ردالمحتار کتاب الطہارۃ فصل الاستنجاء مُلخصاً) ۔ البتہ استنجاء کرتے ہوئے منہ یا پیٹھ قبلے شریف کی طرف کرنا، جائز نہیں ہے(بہارِ شریعت ج۱، ح۲، ص ۴۰۸، ماخوذاً) ۔ قِبلےکی طرف منہ یا پیٹھ کرنے سے بچنےکا مطلب یہ ہے کہ(منہ یا پیٹھ)قبلے شریف کےرُخ (direction) سے45ڈِگری ( degre) باہر ہوں۔(بہارِ شریعت ج۱، ح۳، ص ۴۸۷، ماخوذاً)

{4}بدن پر پانی مَلنا(getting water on the body):

بدن پر تیل کی طرح پانی مَلنا، خُصوصاً سردیوں میں ( اس دوران صابن بھی لگاسکتے ہیں)۔

{5}ترتیب وار بدن پر پانی بہانا:

(۱)تمام ظاہر بدن پر پانی بہانا غسل کے فرائض میں سے ہے ۔(بہارِ شریعت ج۱،ص ۳۱۶)

(۲)تین(3) بار سیدھے کندھے (shoulder)پر پانی ڈالنا پھر

(۳)تین (3)بار اُلٹے کندھے پر پانی ڈالنا

(۴) ہاتھوں کواچّھی طرح اٹھاکر بغلیں(armpits) بھی دھونا پھر

(۵) سر اور چہرے پر پانی ڈالنا

(۶) بَھنووں (eyebrows)کے ہربال کاجڑسےنوک تک (root to tip) اوران کے نیچے کی کھال(skin) کا دھونا ضَروری ہے

(۷)کان کی ہر ہر جگہ، کان کے اندر سوراخ سے پہلے تک دھونا(۸)کانوں کے پیچھے کے بال ہٹا کر پانی بہانا

۹)ٹَھوڑی (chin)اورگلے کاجوڑ (neck joint) دھونے کے لیے منہ اُٹھانا(کہ منہ اُٹھائے بِغیر یہ نہیں دُھلتا) (۱۰)بازو(arm) کے اوپر نیچے کی ہر جگہ دھونا

(۱۱)پِیٹھ(back) کاہر حصّہ دھونا

(۱۲)پیٹ کی بلٹیں (abdominal creases) اُٹھا کر دھونا

(۱۳)ناف(یعنی پیٹ کے سوراخ) میں بھی پانی ڈالنا( اگرپانی کے جانے آنے میں شک ہوتوناف میں انگلی ڈال کردھونا)

(۱۴)ناف کے نیچے سے لے کرران (thigh)تک کا سب جسم، ہر حصّہ ہر طرف سے اچھی طرح مَل مَل کردھونا(wash with rubbing)

(۱۵) یہاں تک کہ تمام بدن پر تین(3) بار پانی ڈالنا ۔(مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ص۳۱۷،۳۱۸)

نوٹ:(۱)سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے تلووں تک (soles of the feet) جسم کے ہر ہر حصّے، ہر ہر جگہ ہر ہر بال پر پانی بہہ جانا (water flowing)ضروری ہے (۲) تمام بدن پر ہاتھ پھیر کر مل کر نہانا اور جسم کو مَل مَل کر دھونا(wash with rubbing) وضو اور غسل دونوں میں سنّت ہے۔(غسل کا طریقہ ص ۵ تا ۷)

مردوں کیلئے پانچ(5) اِحتِیاطَیں(cautions):

(۱)اگرمَردکے سرکے بال گُندھے ہوئے (braided hair) ہوں توانہیں کھول کرجڑ سے نوک تک(root to tip) پانی بہانافرض ہے(۲) مُونچھوں اورداڑھی کے ہربال کاجڑسےنوک تک اوران کے نیچے کی کھال کا دھوناضَروری ہے (۳) ذَکَر(یعنی مرد جس جگہ سے پیشاب کرتا ہے)اور اُنْثَیَیْن ( یعنی فوطوں۔ ذَکَر کے نیچے کی تھیلی) پر اور ان دونوں کے بیچ میں اچھی طرح پانی ڈالنا (۴)اُنْثَیَیْنکے نیچے کی جگہ آخرتک دھونا (۵) جسکاخَتنہ نہ ہوا (یعنی شرم گاہ کے اوپر کی اضافی (extra)کھال (skin)نکالی نہ گئی ہو) ،وہ اگرکھال چڑھ سکتی (یعنی اوپر ہو سکتی)ہوتو کھال چڑھاکر دھونا اورکھال کے اندرپانی ڈالنا۔

خواتین کیلئے آٹھ( 8 )اِحتِیاطَیں(cautions):

(۱)اگر عورت کے سرکے بال گُندھے ہوئے (braided hair) ہوں تو صِرف جڑ(root) گیلی (wet) کرلینا ضَروری ہے، کھولناضَروری نہیں۔ ہاں!اگر چوٹی (braid) اتنی سخت گُندھی ہوئی ہو (tightly plaited) کہ بے کھولے جڑیں گیلی نہ ہوں گی توکھولنا ضَروری ہے(۲)اگر کانوں میں بالی (earring) یا ناک میں نَتھ(یعنی زیور) کا سُورا خ ہواوروہ بندنہ ہو(یعنی سوراخ ابھی بھی باقی ہو)تو اس میں پانی بہانافرض ہے۔ وُضومیں صِرف ناک کے نَتھ کے سوراخ میں اورغسل میں اگرکان اورناک دونوں میں سوراخ ہو تو دونوں میں پانی بہانا (۳)ڈھلکی ہوئی پِستان (breast)کواُٹھاکرپانی بہانا(۴)پِستان اورپیٹ کے جوڑ کی لکیر (abdominal crease)دھونا(۵)فَرجِ خارِج(یعنی عورت کی شرم گاہ کے باہَرکے حصّے)کی ہر جگہ ،اُوپرنیچے ، ہر طرف سے اچھی طرح دھونا(۶)فَرجِ داخِل(یعنی شرمگاہ کے اندرونی حصّے ) میں انگلی ڈال کر دھونا مُستَحَب ہے(۷)اگر نِفاس (یعنی بچّے کے پیدا ہونے کے بعد آنے والے خون ) یا حَیض (یعنی منتھلی کورس۔ menstrual period ) ختم ہونے کے بعد غُسل کرنا ہو توکسی پُرانے کپڑے سے فَرجِ داخِل (یعنی عورت کی شرم گاہ کے اندر کے حصّے)سے خون کا اثر(effect) صاف کر لینا مُسْتَحَب ہے(بہارِ شریعت ج۱ص۳۱۸) (۸)اگرنَیل پالِش ناخُنوں پرلگی ہوئی ہے تواس کابھی چُھڑانافرض ہے ورنہ غسل نہیں ہوگا۔ہاں ! (ایسی )مہندی ( جس کی تہہ (layer) وغیرہ نہ ہو)کا رنگ ختم کرنا ضروری نہیں ۔(غسل کا طریقہ ص ۵ تا ۷، مُلخصاً)

’’ تَیَمُّمْ کا طریقہ، سنّتیں اور مدنی پھول ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

پانچ (5)چیزیں مجھے ایسی ملی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں(۱) ہر نبی خاص(specific) قوم کی طرف بھیجا گیا اور میں سُرخ و سیاہ(یعنی سارے جہان۔ the entire Universe) کی طرف بھیجا گیا(۲) میرے لئے غنیمتیں (یعنی جہاد سے ملنے والے مال اور سامان)حلال کی گئیں اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے(اس مال کو لینے کی اجازت) نہیں ہوئی تھیں(۳)میرے لئے زمین پاک اور پاک کرنے والی (یعنی اس سے تَیَمُّمْ کیا جاسکتا ہے) اور مسجد کی گئی (یعنی)جس کسی کو کہیں نماز کا وقت آئے وہیں(نماز) پڑھ لے(۴)دشمن پر ایک ماہ کے فاصلے تک میرا رعب(یعنی میری شان کی وجہ سے ڈر) ڈال کر میری مدد فرمائی گئی(۵) اور مجھے شفاعت بھی دی گئی (بخاری، ۱ / ۱۶۸، الحدیث: ۴۳۸، مسلم، ص۲۶۵، الحدیث: ۳ (۵۲۱)) ۔ ایک دوسری حدیث میں یہ بھی ہے کہ:مجھے تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی ۔ (مسلم، ص۲۶۶، الحدیث: ۵ (۵۲۳))

واقعہ(incident): تھوڑی سی مٹی

حضرت ابونُعَیْمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن صالح رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک باغ کے پاس آئے ، مٹی کاایک ڈھیلا(یعنی سخت مٹی (a piece of clay) کا ٹکڑا) لے کر اس سے تَیَمُّمْ کیا پھر باغ والوں کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر(knocking the door)ان سے فرمایا: میں نے تمہارے باغ سے مٹی کا ڈھیلا لے کر اس سے تَیَمُّمْ کیا ہے لہٰذا مجھے معاف کر دو۔(اللہ والوں کی باتیں ج۷، ص۳۱۹)

تَیَمُّمْ کا طریقہ ، فرائض اور سنتیں :

{۱}نیّت کرنا اوربِسْمِ اللہ کہنا() نیّت کرنا فرض اور بِسْمِ اللہ کہنا سنّت ہے۔

{۱}نیّت کرنا اوربِسْمِ اللہ کہنا() نیّت کرنا فرض اور بِسْمِ اللہ کہنا سنّت ہے۔

{۳}(مٹی کے ذرّات(particles) یا چھوٹے پتھر وغیرہ ہاتھ سے گرانے کے لیے)انگوٹھوں کی جڑوں کو آپس میں مارنا () سنّت ہے(مگریہ احتیاط(caution) رہے کہ تالی کی آوازپیدانہ ہو)۔

{۴} سارے منہ پر اچھی طرح ہاتھ پھیرنا() مکمل چہرے کا مسح کرنا(یعنی ہر ہر جگہ مٹی یا زمین کی جنس سے لگا ہوا ہاتھ پھیرنا ) فرض ہے۔

نوٹ:ہونٹوں کاوہ حِصّہ جو عام طور پرمنہ بند کرنے کے بعد بھی نظر آتاہے ،اِس کا مسح کرنا بھی ضَروری ہے اگرمنہ پرہاتھ پھَیرتے وقت کسی نے ہونٹوں کو اس طرح زورسے بند کرلیاکہ کچھ حِصّہ مَسح ہونے سے رَہ گیا تو تَیَمُّمْ نہیں ہوگا ۔ اِسی طرح زورسے آنکھیں بندکرلِیں تو بھی تَیَمُّمْ نہ ہوگا۔

{۵}داڑھی ہو تو خلال کرنا() سنّت ہے۔

{۶}دوبارہ مٹی یا اُس کی جنس پر ہاتھ پھیرنا، اگر مٹی وغیرہ زیادہ لگی ہو تو انگوٹھوں کی جڑوں کو آپس میں مارنا() چہرے کے بعد ہاتھوں کامَسح کرنا () ہاتھوں کا مسح کرنا فرض ہے لیکن چہرےکے فوراً بعد ہاتھوں کا مسح کرنا سنّت ہے ۔

{۷}اُلٹے ہاتھ کے انگوٹھے کے علاوہ(other) چار (4)انگلیوں کاپَیٹ (یعنی آگے والا حصّہ)سید ھے ہاتھ کی پُشت (back) پررکھنا اورانگلیوں کے سِروں (یعنی بالکل اوپر)سے کُہنیوں تک لے جاناپھر وہاں سے اُلٹے ہی ہاتھ کی ہتھیلی سے سیدھے ہاتھ کے پیٹ(یعنی اندر کے حصّے) کومَس(touch) کرتے ہوئے گِٹّے (wrist bone) تک لا نا اوراُلٹے انگوٹھے کے پَیٹ(یعنی اندر کے حصّے) سے سیدھے انگوٹھے کی پشت(back) کامَسح کرنا۔

{۸} اسی طرح سیدھے ہاتھ سے اُلٹے ہاتھ کامسح کرنا() اور پہلے سیدھے پھراُلٹے ہاتھ کا مسح کرنا ، سنّت ہے۔

نوٹ:انگوٹھی،گھڑی وغیرہ پہنے ہوں تواُتارکران کے نیچے ہاتھ پھَیرنافرض ہے۔اسلامی بہنیں بھی چُوڑیا ں وغیر ہ ہٹاکراُن کے نیچے مسح کریں۔ یاد رہے! تَیَمُّمْ کی اِحتیاطیں(cautions) وُضو سے زیادہ ہیں۔

{۹}اُنگلیوں کاخِلال کرنا()سنّت ہے جبکہ غُبار(dust)پَہُنچ گیاہو۔اگرغبارنہ پہنچا ہو مَثَلاًپتھر وغیرہ کسی ایسی چیزپرہاتھ ماراجس پر غبار(یعنی مٹّی)نہ ہوتوخِلال(یعنی اُنگلیوں میں اُنگلیاں ڈالنا) فرض ہے (لیکن خِلال کیلئے دوبارہ زمین پرہاتھ مارنا ضَروری نہیں)۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۳۵۶، مُلخصاً)

نوٹ: وُضواورغسل دونوں کے تَیَمُّمْ کاایک ہی طریقہ ہے۔ (جوہرہ ص۲۸)

تَیَمُّمْ کس چیز سے کر سکتے ہیں؟ :

{1} جو چیزآگ سے جل کر راکھ (ash) نہ ہوتی ہے اور نہ ہی پگھلتی (melt ہوتی)ہے اور نہ ہی نَرم (soft) ہوتی ہے وہ زمین کی جِنس(یعنی قِسم ۔ category of land)سے ہے اُس سے تَیَمُّمْ جائز ہے۔ رَیت(sand)، چُونا (lime) ، سُرمہ ، گندھک (sulphur)،پتھّر ( مثلاً ماربل )، جَواہِر(gems) وغیرہ سے تَیَمُّمْ جائزہے چاہے ان پر غُبار(یعنی مٹی)ہویا نہ ہو۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۳۵۷،مُلخصاً)

{2}پکّی اینٹ(paved brick)،چینی کے برتن (procelain)یامِٹّی کے برتن سے تَیَمُّمْ جائزہے۔ہاں! اگران پرکسی ایسی چیز کا جِرم (یعنی تہہ۔ layer)ہوجوجِنسِ زمین سے نہیں مَثَلاًکانچ کاجِرم(molten glass layer) ہوتو تَیَمُّمْ جائز نہیں (بہارِ شریعت ج۱ ص۳۵۸،مُلخصاً) ۔عُموماً چینی کے برتن پر کانچ کی تہہ (layer) چڑھی ہوتی ہے اِس سے تَیَمُّمْ نہیں ہو سکتا۔

{3}جس مِٹّی،پتھّروغیرہ سے تَیَمُّمْ کیاجائے اُس کاپاک ہوناضَروری ہے یعنی نہ تو ابھی اس پر ناپاکی لگی ہوئی ہو اور نہ ایساہوکہ پہلے ناپاکی لگی تھی اور صِرف خشک ہونے سے نَجا ست (یعنی ناپاکی )کااثر(مثلاً رنگ یا بو یا ذائقہ) ختم ہوگیا۔ زمین، دیوار اور وہ گَرد ( یعنی مٹی)جو زمین کے اوپر پڑی رہتی ہے اگر ناپاک ہوجائے پھر دھوپ یا ہوا سے سُوکھ جائے اور نَجاست (یعنی ناپاکی)کا اثر (effect) ختم ہوجائے تو پاک ہوجاتی ہے کہ اس جگہ پر(بغیر کچھ بچھائے) نَماز پڑھنا جائز ہوتا ہے مگر اس سے تَیَمُّمْ نہیں ہوسکتا۔

{4}یہ خیال کرناکہ زمین وغیرہ کبھی ناپاک ہوئی ہوگی، بالکل فُضُول ہے(یعنی اس طرح کی سوچ سے کسی چیز کو ناپاک نہیں کہا جاسکتا جب تک یقینی طور پر ناپاک ہونا معلوم نہ ہو مثلاً اپنی آنکھوں سے زمین پر ناپاکی دیکھ نہ لے)۔

{5}اگرکسی لکڑی،کپڑے،یادَری وغیرہ پراتنی مٹی ہے کہ ہاتھ مارنے سے انُگلیوں کا نشان بن جائے تواس سے تَیَمُّمْ جائزہے(یعنی لکڑی اور کپڑے سے تو تَیَمُّمْ نہیں ہو سکتا، لیکن اس صورت میں اُس مٹی سے تَیَمُّمْ کیا جا رہا ہے جو ان کے اوپر بہت زیادہ لگی ہوئی ہے)۔

{6}چُونا(lime)،مِٹّی یا اینٹوں (bricks)کی دیوار سے تَیَمُّمْ جائز ہے چاہے گھر کی دیوارہویامسجِدکی ۔ مگراس پرآئل پینٹ(oil paint)،پلاسٹک پینٹ(plastic paint) اورمَیٹ فنش (matte finish)یاوال پیپر (wallpaper)وغیر ہ کوئی ایسی چیزنہیں ہونی چاہئے جوزمین کی جنس( یعنی قِسم۔ category of land)کے علاوہ(other) ہو(کہ ان کے ہوتے ہوئے دیوار سے بھی تَیَمُّمْ نہیں کرسکتے)۔ہاں!دیوارپر سادہ ماربل ہو(جس پر اس طرح کی چیزیں نہ ہوں)تو اُس سے تَیَمُّمْ ہو سکتا ہے۔

تَیَمُّمْ کے کچھ مسائل :

{1}جس پر غُسل فرض ہے اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وُضواورغُسل دونوں کیلئے دو تَیَمُّمْ کرے بلکہ ایک ہی میں دونوں کی نیَّت کرلے دونوں ہوجا ئیں گے اور()اگرصرف غسل یا وُضوکی نیّت کی جب بھی کافی ہے(یعنی وضو اور غسل دونوں ہو جائیں گے)۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۵۴)

{2}جہاں چاروں طرف ایک ایک میل(1 mile all around) تک پانی کاپتانہ ہووہاں بھی تَیَمُّمْ کرسکتے ہیں۔

{3}ایسی بیماری کہ وُضویاغسل کرنےسے(۱) اس (بیماری) کے بڑھ جانے یادیر میں اچھّا ہو نے کا مضبوط خیال (strong assumption) ہو یا (۲)پہلے یہ بیماری ہو چکی ہے اور خوداپناتجرِبہ(own experience) ہو کہ جب بھی وُضویاغُسل کیا تو یہ بیماری بڑھ گئی یا (۳)ایسا ہو کہ کہ کوئی مسلمان اچھّاقابِل طبیب (competent physician)جو ظاہِری طورپرفاسِق (مثلاً سب کے سامنے گناہ کرنے والا)نہ ہو، ایسا ڈاکٹر کہہ دے کہ پانی نقصان کرے گا۔توان صورَتوں میں تَیَمُّمْ کرسکتے ہیں( اَیْضاً ، دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۱ص۴۴۱،۴۴۲) ۔ آج کل ایسےڈاکٹرز کا ملنا بہت مشکل ہے تو اب اگر کوئی قابلِ اعتماد طبیب(trusted doctor) نے ایسا کہا اور مریض کا بھی گمان غالب(strong assumption) ہو تو اپنے مضبوط خیال پر عمل کرے(جیسا کہ اوپر بتایا گیا) لیکن زیادہ بہتریہ ہوگا کہ ایک سے زیادہ ڈاکٹرز سے مشورہ کر لیں ۔(تفصیل جانےکے لیے فیضانِ رمضان ص۱۳۱ پڑھ لیجیئے)

{4}اگرسرسے نَہانے میں پانی نقصان کرتاہوتوگلے سے نہائیں اورپورے سر کامسح کریں (بہارِ شریعت ج ۱ ،ص ۳۴۷) ۔بیماری ختم ہونے کے بعد سر دھونا ہوگا۔

{5}جس کاوُضونہ ہویانہانا ہواورپانی پرقدرت نہ ہووہ وُضو اور غسل کی جگہ تَیَمُّمْ کرے۔ ( بہارِ شریعت ج۱ ص۳۴۶)

{6}اگراتناآبِ زم زم شریف پاس ہے جو وُضُوکیلئے کافی (enough)ہے تو تَیَمُّمْ جائزنہیں ۔

{7}اتنی سردی ہوکہ نہانے سے مرجانے یابیمارہوجانے کا گمان غالب(strong assumption) ہے اور نہانے کے بعدسردی سے بچنے کاکوئی سامان بھی نہ ہوتو تَیَمُّمْ جائزہے ۔

{8}قیدی کوقیدخانے والے(jailers) وُضونہ کرنے دیں تو تَیَمُّمْ کرکے نَمازپڑھ لے لیکن یہ نماز بعد میں دوبارہ پڑھنی ہوگی اوراگروہ دشمن یاقیدخانے والے نمازبھی نہ پڑھنے دیں تواشارے سے پڑھے مگر یہ نماز بھی بعد میں دوبارہ پڑھنا ہوگی۔

{9}اگریہ گُمان ہے کہ پانی تلاش کرنے میں (ساتھ سفر کرنے والوں کا)قافِلہ نظروں سے غائب ہوجا ئے گاتو تَیَمُّمْ جائزہے۔

{10}وقت اتنا کم ہوگیاکہ وُضویاغسل کرے گاتونَمازقضاہوجائیگی تو تَیَمُّمْ کرکے نَماز پڑھ لے پھر وُضویاغسل کرکے نمازکو دوبارہ پڑھنا لازِم ہے۔(ماخوذ اَز فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۳ص۳۰۷)

{11} وُضو کرے گا تو ظہر یا مغرب یا عشاء یا جُمُعہ کی پچھلی(یعنی آخری) سُنّتوں کا وقت جاتا رہے گا تو تیَمُّم کرکے یہ نمازیں پڑھ لے (بہارِ شریعت ج۱، ص۳۵۱،مسئلہ، ۲۶، مُلخصاً) ۔فرض کا وقت تنگ (short time)ہو تو ہر نماز مکروہ ہے، یہاں تک کہ فجر او رظہر کی سنّتیں بھی مکروہ ہیں۔ (بہارِ شریعت ص۳، ص۴۵۷، پوائنٹ ۱۱،مُلخصاً)

{12} ایسا شخص جس کے ہاتھ اور پاؤں نہیں ہیں یا ایسا بیمار جو خود تَیَمُّمْ نہیں کرسکتا تو کوئی دوسرا انہیں تَیَمُّمْ کروادے۔ اِس تَیَمُّمْ میں بھی بیمار کو تَیَمُّمْ کی نیّت کرنا ہوگی ، تَیَمُّمْ کروانے والےکی نیّت بیمار کے لیے کافی (enough) نہیں ۔

{13}جن چیزوں سے وُضوٹوٹ جاتاہے یاغُسل فَرض ہوجاتاہے اُن سے تَیَمُّمْ بھی ٹوٹ جاتاہے اورپانی پر قادِر (یعنی پانی مل جانے یا بیمار کےصحیح)ہونے سے بھی تَیَمُّمْ ٹو ٹ جاتا ہے ۔ (اَیْضاً ص۳۶۰)

{14}اگرکوئی ایسی جگہ ہے جہاں نہ پانی ملتاہے نہ ہی تَیَمُّمْ کیلئے پاک مِٹّی تو اسے چاہئے کہ نماز کے وقت میں نَمازکی سی صورت بنائے یعنی جس طرح نَماز پڑھتے ہیں، اسی طرح قیام، رکوع وغیرہ کرے مگر نماز کی نیّت نہ کرے (بہارِ شریعت ج۱ص۳۵۳) ۔یاد رہے! پاک پانی یا مِٹّی پر قادر ہونے پر وُضو یا تَیَمُّمْ کرکے نماز پڑھنی ہوگی(یعنی نماز کاوقت ختم ہونے سے پہلے پانی یا مٹی وغیرہ ملی تو اسی وقت میں نماز پڑھنا لازم اور بعد میں ملی تو قضا پڑھنی ہوگی) ۔

مرد کے لیے تَیَمُّمْ کا مسئلہ:

مسجِدمیں سورہاتھاکہ غسل فرض ہوگیا توجہاں تھاوہیں فوراً تَیَمُّمْ کرلے(ماخوذ اَز فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۳، ص۴۷۹ ) پھرباہَرنکل آئے، شرعی اجازت کے بغیر (مسجد سے نکلنے میں ) دیر کرنے کی اجازت نہیں(بہارِ شریعت ج۱، ص ۳۵۲، مُلخصاً) البتہ اگرفنائےمسجدمیں غسل خانہ نہ ہواورباہرجانےمیں کوئی صحیح خطرہ (danger) ہو اور مسجد میں ٹھہرنےکےعلاوہ (other) کوئی صورت(condition) نہ ہو(مثلاً اذان دینے والے مؤذن صاحب تالا (lock) لگا کرچلے گئےاور مسجد کا کوئی حصّہ (part)فناء مسجد بھی نہیں)توفوراًتَیَمّم کرے اور اب مسجد میں رہنا بھی جائز ہے(لیکن اگر فناء مسجد ہو تو مسجد میں نہیں فناء مسجد میں رُکے)۔ یاد رہے!اس تَیَمّم سےنماز و تلاوت جائز نہیں، جیسےہی باہرنکلناممکن ہوفوراً نکل جائے۔( 16ذوالحجۃ الحرام1440ھ، 18اگست 2019ء۔افتاء مکتب دعوتِ اسلامی، مُلخصاً)

عورتوں کے لیے تَیَمُّمْ کے کچھ مسائل:

{1}عورَت حیض(یعنی منتھلی کورس۔ menstrual period ) ونِفاس (یعنی بچّے کے پیدا ہونے کے بعد آنے والے خون )سے پاک ہوگئی اورپانی پرقادِرنہیں (یعنی یا تو میل میل (1 mile) تک پانی نہیں یا بیمار ہے کہ پانی استعمال نہیں کرسکتی)تو تَیَمُّمْ کرے ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۵۲)

2}عورت نے اگرناک میں پھو ل(یعنی ایسا زیور وغیرہ جس کے نیچے ہاتھ نہ پھر سکے) پہنے ہوں تونکال لے ورنہ پھول کی جگہ مسح نہیں ہوسکے گا۔ (غسل کا طریقہ ص۲۲ تا ۲۶ ، مُلخصاً)

’’ قرآنِ پاک کی عزّت کیجیئے

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

تم میں بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا ۔ (صحیح البخاري،ج۳،ص۴۱۰،ح۵۰۲۷)

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

حضرتِ ثابِت بُنانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روزانہ ایک بار مکمل قرآن پاک کی تلاوت فرماتے (یعنی پڑھتے)تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہمیشہ دن کوروزہ رکھتے اورساری رات عبادت فرماتے ، جس مسجِد سے گزر تے اس میں دو (2)رَکعت نفل نماز ضَرور پڑھتے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےاپنی مسجِد کے ہرسُتُون(column) کے پاس مکمل قرآن پاک کی تلاوت فرمائی اور اللہ کریم سے رو رو کر دعا بھی کی تھی ۔ نَماز اور قرآنِ پاک کی تلاوت کے ساتھ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بہت زیادہ مَحَبَّتتھی، اللہ کریم نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پر ایسا کرم کیا کہ حیرت (surprise)ہوتی ہے کہ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال ہوا اور آپ کو قبر میں دفن میں کیا جارہاتھا تو قبر کی ایک اینٹ(brick) اندر کی طرف گر گئی،جب اُس اینٹ کوا ُٹھانے کے لیے لوگ جھکے(یعنی نیچے ہوئے)تو یہ دیکھ کر حیران(surprise) رَہ گئے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہقَبْر میں کھڑے ہو کرنَماز پڑھ رہے ہیں ! آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے گھر والوں سے جب معلوم کیا گیا تو آپ کی بیٹی نے بتایا : والد صاحب روزانہ دُعا کیا کرتے تھے: یَا اللّٰہ! اگرتُو کسی کو وفات کے بعد قَبْر میں نَماز پڑھنے کی اجازت دے تو مجھے بھی دینا۔ کہا جاتا ہے: جب بھی لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزار مُبارک کے قریب سے گزرتے تو قَبْر شریف سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز آرہی ہوتی۔(حِلیۃُ الاولیا ء، ج۲، ص۳۶۲تا۳۶۶ مُلتَقطاً دار الکتب العلمیۃ)

قرآن ِ کریم کے حقوق(rights):

قرآن ِ کریم کے بہت سے حقوق(rights) ہیں، ان میں سے یہ بھی ہیں :(۱) قرآن ِ کریم پر ایمان رکھا جائے(۲) قرآن ِ کریم کی تعظیم (respect)کی جائے(۳) قرآن ِ کریم سے محبّت کی جائے(۴) قرآن ِ کریم کی تلاوت کی جائے (۵)قرآن ِ کریم کو سمجھا جائے(۶)قرآن ِ کریم پر عمل کیا جائے اور(۷) دوسروں تک قرآن ِ کریم کی تعلیمات(teachings) پہنچائی جائیں۔( تفسیر صراط الجنان، پ۱، البقرۃ، تحت الآیۃ:۱۲۱،ج ۱،ص۲۰۰،مُلخصاً)

صحیح طریقے سے قرآنِ پاک پڑھنے سے دور رکھنے والی کچھ چیزیں :‏

(۱) والدین کا صحیح قاری سے نہ پڑھوانا(۲)والدین کو صحیح قاری کی پہچان نہ ہونا (یعنی خودقرآنِ شریف صحیح پڑھنا نہ آنا) (۳) خصوصاً رمضان شریف میں جلدی جلدی قرآنِ کریم پڑھنا(۴) قرآنِ پاک کی تلاوت نہ کرنا۔وغیرہ

صحیح طریقے سے قرآنِ پاک پڑھنے سے دور رکھنے والی کچھ چیزیں :‏

{1}قرآنِ مجید کو جُزدان و غِلاف (cloth cover)میں رکھنا ادب ہے۔ صَحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْاور تابِعینرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ(وہ کہ جن مسلمانوں نے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی زیارت کی یا اُن کی صُحبت (یعنی ان کے پاس جانے کی سعادت )پائی) کے زمانے سے اس پر مسلمانوں کا عمل ہے (بہارِ شریعت حصّہ ۱۶ص۱۳۹،مُلخصاً)

{2} قرآنِ پاک پر سونے چاندی کا پانی چڑھانا (gold/silver-plated)جائز ہے کہ اس سے عام مسلمانوں کے دل میں قرآنِ پاک سے محبّت زیادہ ہوگی

{3}قرآن شریف بہت اچھے انداز سے اور واضح لفظوں (clear words)میں لکھا جائے۔ کاغذ(paper) بھی بہت اچھا ہو، روشنائی (ink)بھی خوب اچھی ہو کہ دیکھنے والے کواچھا لگے۔ یاد رہے! قرآن شریف کا حَجم (جسامت۔size)چھوٹا کرنا مکروہ ہے

{4} لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ اگر قرآنِ پاک کھلا ہوا چھوڑ دیا جائے گا تو شیطان پڑھے گا، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بَچّوں کوقرآنِ پاک کا ادب سکھانے کے لیے بھی اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ہاں! ادب کی وجہ سے قرآنِ پاک کو پڑھنے کے بعد بند کرنا، ایک اچھی بات ہے

{5}عربی گرامر کی کتابوں سے اوپر شرعی اور دینی مسائل کی کتابوں کو رکھا جائے اور ان سے اوپر حدیثوں او رشرح(یعنی حدیث کے معنی ٰ سمجھانے والی کتابوں) کو رکھا جائے،اُن سے اوپر تفسیر(یعنی قرآن شریف کے معنی ٰ ، مطلب، شرح،وضاحت سمجھانے والی کتابوں) کو رکھا جائے اور سب سے اوپر قرآنِ پاک کو رکھا جائے(فتاوٰی عالمگیری ج۵ ، ص۳۲۳۔۳۲۴ ، مَاخوذاً)

{6} قرآن مجید جس صَندُوق(پیٹی۔trunk) میں ہو اس پر کپڑاوغیرہ بھی نہ رکھا جائے

{7} صرف بَرَکت (blessing یا رحمتیں پانے)کے لیے اپنے گھر میں قرآنِ پاک رکھنا ، ثواب کا کام ہے چاہے قرآنِ پاک کی تلاوت نہ کرتا ہو(فتاوی قاضی خان ج۲،ص۳۷۸، مُلخصاً) لیکن قرآنِ پاک کی تلاوت ضرور ضرور اور ضرورکرنی چاہیے بلکہ روزانہ(daily)کرنی چاہیے

{8} قرآنِ پاک کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اس کی طرف پیٹھ (back) نہ کی جائے، نہ پاؤں اس کی طرف کریں ، نہ ہی پاؤں اس سے اونچے کریں اور ایسا بھی نہ ہو کہ خود اونچی جگہ پر ہوں اور قرآنِ کریم نیچے تشریف فرما ہو

{9} جس گھر میں قرآن شریف ہو، اس میں بی بی سے صحبت(یعنی خاص ملاقات) کرنا جائز ہے جبکہ قرآن ِ پاک پردے میں ہو

{10}اگر قرآن شریف پرانا ہوگیا اوراب ایسی حالت (condition) ہے کہ اس میں تلاوت نہیں کی جاسکتی اور یہ ڈر ہے کہ اس کے کاغذ شہید ہو (یعنی پھٹ) جائیں گے، توکسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر احتیاط (caution)کی جگہ اس طرح دفن کردیا جائے کہ گڑھا کھودیں،قرآن شریف اس میں رکھ کرتختہ(board) رکھ کر چھت بنا کر مٹی ڈالیں تاکہ مٹی قرآنِ پاک پہ نہ آئے،پرانے قرآن شریف کو جلایا نہ جائے

{11}بے خیا لی میں قرآن شریف اگر ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر تشریف لے آئے (یعنی گر جائے) تو کوئی گناہ نہیں ہے اور کسی قسم کاکوئی کفّارہ بھی نہیں(ہاں! قرآن شریف کو بہت احتیاط سے (very carefully) رکھنا چاہیے کہ وہ نیچے نہ گرے) {12}قرآنِ پاک کی توہین(insult) اور بے ادبی کی نیّت سے، اسے زمین پر پھینکنے والا یا اِس پر پاؤں رکھنے والا کافِر ہوجائے گا ۔(بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۴۹۴ ملخصاً)

کچھ اہم (important) باتیں :

{1}تجوید کے ساتھ (یعنی صحیح طریقے سے)قرآن ِ پاک آنا :(۱)امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ، اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: قرآنِ پاک اتنا درست آنا فرض اور لازم ہےکہ جس سےحُرُوف کودُرُست جگہ سے (کہ جہاں سے حرف کو پڑھنا ہوتا ہے، مثلاً”ح“ حلق کے بیچ سے) پڑھ سکے اورغَلَط پڑھنے سے بچ سکے۔( فتاوٰی رضویہ،۶ص، ۳۴۳،مُلخصاً)

(۲) ’’قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ‘‘ کو’’ اَھَدٌ‘‘پڑھنا بالکل غلط ہے کیونکہ اللہ کریم نے(اپنی شان کے مطابق) ’’ اَھَدٌ‘‘ نہیں فرمایا ، نہ ہی جِبرئیل امین نے’’ اَھَدٌ‘‘ پہنچایا،نہ ہی صاحب قرآن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ’’ اَھَدٌ‘‘ پڑھایا پھر یہ (’’ اَھَدٌ‘‘) قرآن کیسے ہو سکتا ہے؟’’ اَحَدٌ‘‘کے معنی ایک اکیلا(alone)،شریک و نظیر (مِثل) سے پاک نرالا (یعنی کوئی اس جیسا ہو ہی نہیں سکتا)اور ’’ اَھَدٌ‘‘کے معنی مَعَاذَ اللہ! (یعنی اللہ کریم کی پناہ)بزدل کمزور۔(فتاوی رضویہ ،جلد۶، صفحہ۳۱۷، ماخوذاً)

(۳)کوئی شخص اگر قرآنی حرف غلط پڑھتا ہو تو اسے سیکھنے اور صحیح طرح پڑھنے کی کوشش کرنا، اُس آدمی پر واجب ہے بلکہ کئی عُلَمائے کِرام نے صحیح طرح پڑھنے کی کوشش کی کوئی حدّ(limit)نہیں رکھی اور حکم دیا کہ زندگی بھر، دن رات کوشش کرتا رہے اور اِس کوشش کو اس وقت تک جاری رکھے جب تک قرآنِ پاک درست پڑھنا سیکھ نہ جائے۔( فتاوٰی رضویہ،ج۲،ص ۲۶۲، مُلخصاً)

{2}جو قرآن حفظ (یعنی زبانی یاد)ہے، اس کا حفظ باقی رکھنا : فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جوشخص قرآن پڑھے پھر اسے بھلا دے تو قیامت کے دن اللہ کریم سے کوڑھی(leprosy) ہو کر ملےگا۔ ( ابو داؤد،ج۲، ص ۱۰۷، حدیث:۱۴۷۴) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں :قرآن پڑھ کر بھلا دینا گناہ ہے (بہار شریعت،ج۱،ص۵۵۲) ۔ جو قرآنی آیتیں یاد کرنے کے بعد بھلادے گاقیامت کے دن اندھا اُٹھایا جائے گا (پ۱۶،طہ:۱۲۴، ماخوذاً) ۔ اعلیٰ حضرت ،امام اَحمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں :اس سے زیادہ نادان (simpleton)کون ہے جسے اللہ کریم نے قرآنِ پاک یاد کرنے کی نعمت دی اور وہ اس نعمت کواپنے ہاتھ سے کھودے ۔اگر اس نعمت کی اہمیّت (importance)جانتا اور اس پر جس ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کی طرف توجُّہ(attention) ہوتی تو اِسے دل و جان سے زِیادہ پیارا رکھتا۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس طرح بھی فرماتے ہیں : جہاں تک ہو سکے اِس کے پڑھانے ، یاد کرنے اور یاد رکھنے میں کوشش کرے تا کہ وہ ثواب اسے ملے کہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور قیامت کے دن اندھا اور کوڑھی (leprosy)ہو کر اُٹھنے سے بچے۔( فتاوٰی رضویہ،ج۲۳، ص۶۴۵،۶۴۷مُلخصاً)

{3} غیر عربی میں آیاتِ قرآنی لکھنا: ہندی یا انگریزی رسم الخط (alphabets)میں قرآن لکھنا تو صریح تحریف (یعنی قرآن کو بدلنا اور حرام)ہے۔ مزید (more)یہ کہ: سین، صاد، ثاء میں ، اسی طرح: ق اور ک میں ، ز۔ذ۔ظ میں فرق بالکل نہ ہوسکے گا ۔ مَثَلاً ظاہر کے معنٰی ہیں ظاہِر اور زاہر کے معنٰی ہیں چمکدار ۔ اب اگر آپ نے انگریزی میں Zahirلکھا تو کیسے معلوم ہو کہ ظاہر ہے یا زاہِر۔ اسی طرح تاہر اور طاہر، قدیر اور قادر، سامع اورسمیع، عالم اور علیم میں کس طرح فرق رہے گا؟ ۔ (فتاوٰی نعیمیہ ص ۸۳،مُلتقظاً)

{5}وظیفہ پڑھنا اور نماز چھوڑنا:جو وظیفہ پڑھے اور نماز نہ پڑھے فاسق و فاجر اور بہت بڑا گناہ کرنے والا ہے۔ اُس کا وظیفہ اس کے منہ پر مارا جائے گا (فتاوی رضویہ ،جلد۶، صفحہ۲۲۳، مُلخصاً)، ایسوں ہی کوحدیث میں فرمایا : بہت سے لوگ قرآن پاک پڑھتے ہیں اور قرآن انہی پر لعنت کرتا ہے۔ ( المدخل للعبدری الکلام علی جمع القرآن الخ، مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت ۱/ ۸۵)

تلاوت کےکچھ دینی مسائل:

{1}قرآنِ پاک کی تلاوت شروع کرتے ہوئے اَعُوْذُ بِاللّٰہپڑھنا مُسْتَحَب (یعنی ثواب کا کام)ہے

{2} سورت سے تلاوت شروع کریں تو بِسْمِ اللہ پڑھناسنّت ہے اور تلاوت کرتے ہوئے بیچ میں سورت آجائے تو بِسْمِ اللہ پڑھنا مُسْتَحَب(اور ثواب کا کام)ہے ( بہارِ شریعت ج۱،ح ۳، ص ۵۵۰ ، مُلخصاً )

{3}سور ۂ براءَت(یعنی سورۂ توبہ ۔ پ10) سے اگر تلاوت شروع کی توا َعُوْذُ بِاللّٰہ (اور) بِسْمِ اللہ (دونوں )کہہ لیجئے ۔اگر اس سورت سے پہلے(مثلاً سورۂ انفال پ9 یا سور ۂ اعراف پ8)سے پڑھتے ہوئے آرہے تھے، اب سور ۂ براءَت(یعنی سورۂ توبہ ۔ پ10) آگئی تو ا َعُوْذُ بِاللّٰہ (اور) بِسْمِ اللہ (دونوں ہی) نہ پڑھیں

{4} باوُضُو، قِبلہ شریف کی طرف منہ کر کے، اچّھے کپڑے پہن کر تِلاوت کرنا مُسْتَحَب (اور ثواب کا کام)ہے

{5} قرآنِ مجیددیکھ کر پڑھنا، زَبانی پڑھنے سے افضل(یعنی زیادہ ثواب کا کام) ہے کیونکہ یہ پڑھنا بھی ہے، دیکھنا بھی ہے اور ہاتھ سے اس کو پکڑنا (touchکرنا) بھی اور یہ سب کام عِبادت ہیں (غُنْیَۃُ المُتَمَلّی ص۴۹۵

{ 6} قرآن شریف کو بہت اچّھی آواز سے پڑھنا چاہیے۔ اگرآواز اچّھی نہ ہو تو اچّھی آواز بنانے کی کوشش کرے،مگر لَحن کے ساتھ (یعنی گانے کی طرح)پڑھنا کہ حُرُوف میں کمی یا اضافہ (decrease or increase) ہوجائے جیسے گانے والے کیا کرتے ہیں ،یہ ناجائز ہے۔یاد رہے کہ قرآنِ پاک قواعِدِ تَجوید (یعنی قرآنِ پاک پڑھنے کے اصولوں۔ principles)کے مطابق پڑھا نا ہوتا ہے(دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج۹،ص۶۹۴)

{7} قرآنِ مجید اونچی آواز سے پڑھنا افضل (یعنی زیادہ ثواب والا کام)ہے جب کہ کسی نَمازی یا بیمار یا سونے والے کو تکلیف نہ پہنچے۔ (غُنْیَۃُ المُتَمَلّی ص ۴۹۷)

{8} جب اونچی آواز سے قرآن پڑھا جائے تو تمام آنے والوں پر قرآنِپاک کی تلاوت سُننا فرض ہے، جب کہ وہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت سُننے کے لئے آئے ہوں۔جیسا کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :قرآنِ مجید پڑھا جائے اُسے کان لگا کر غور سے سُننا اور خاموش رہنا(دونوں کام) فرض (ہیں)۔(فتاوی رضویہ ج۲۳،ص۳۵۲)

{9}اگر وہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت سُننے کے لئے نہ آئے ہوں تو ایک کے سننے سے بھی فرض پورا ہو جائے گا، چاہے باقی لوگ اپنا کام کر رہے ہوں۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۳،ص۳۵۳ مُلَخَّصاً)

{10} ایک جگہ سب لوگ اونچی آواز سے پڑھیں یہ حرام ہے، ایصالِ ثواب وغیرہ کے لیے مل کر پارے پڑھے جارہے ہوں اور ان میں کچھ لوگ اونچی آواز سے قرآنِ پاک پڑھ رہے ہوں تو یہ حرام ہے () اگر کچھ لوگ قرآنِ پاک پڑھ رہے ہوں تو حکم ہے کہ آہستہ پڑھیں (بہارِشریعت ج۱حصّہ ۳ص۵۵۲، مُلخصاً)

{11}مسجِدمیں دوسرے لوگ ہوں ، نَماز یا تسبیح یا کتاب پڑھ رہے ہوں تو اُس وقت صرف اتنی آواز سے تلاوت کیجئے کہ صرف آپ خود سن سکیں برابر والے کو بھی آواز نہ جائے ۔

{12} بازاروں میں اور جہاں لوگ اپنے کاموں میں مصروف(busy) ہوں، وہاں اونچی آواز سے قرآنِ پاک پڑھنا جائز نہیں ہے۔ لوگ اگر نہیں سُنیں گے تو گناہ اونچی آواز سےپڑھنے والے پر ہے ()اگر کام میں مصروف ہونے سے پہلے کسی نے قرآنِ پاک پڑھنا شروع کر دیا اور لوگ نہیں سنتے تو گناہ لوگوں پر ہوگا۔ ہاں! اگرکام شروع کرنے کے بعد اِس نے قرآنِ پاک پڑھنا شروع کیا ، تو اب گناہ اِسی پڑھنے والے پر ہوگا۔(غُنْیَۃُ المُتَمَلّی ، ص ۴۹۷ )

{13}جہاں کوئی عالم صاحب علمِ دین پڑھا رہے ہوں یا طالبِ علم سبق یاد کر رہے ہوں یا کتاب پڑھ رہے ہوں ، وہاں بھی اونچی آواز سے قرآنِ پاک پڑھنا منع ہے

{14} لیٹ کر قرآن ِ پاک پڑھنا ہو تو پاؤں سِمٹے (feet folded) ہوں اور منہ کُھلا ہو(یعنی منہ پر چادر ، لحاف ، رضائی (quilt) وغیرہ ڈالی ہوئی نہ ہو)

{15} یوہیں چلنے اور کام کرنے کی حالت میں بھی تلاوت جائز ہے، جبکہ دل نہ بٹے(یعنی توجّہ (attention) رہے) اور اگر دل بٹ رہا ہو تو اب چلنے یا کام کاج کرنے میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا مکروہ ہے

{16} غسل خانے اور نَجاست(یعنی ناپاکی ) کی جگہوں میں قرآنِ مجید پڑھنا، ناجائز ہے

{17} قرآن شریف سُننا، تلاوت کرنے اور نَفل پڑھنے سے افضل ہے (اَیضاً ص ۴۹۷) ۔البتہ قرآنِ پاک پڑھنے کی عادت بھی ضرور ہونی چاہیے،اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ جتنا قرآنِ پاک یاد ہے وہ یاد باقی رہے

{18} جو شخص غَلَط پڑھتا ہو تو سُننے والے پر واجِب ہے کہ بتا دے، جبکہ بتانے کی وجہ سے سامنے والے کے دل میں کینہ و حسد(یعنی نفرت وغیرہ) پیدانہ ہو

{19} اگر کسی سےقرآنِ پاک پڑھنے کے لیے لیا اوراِسں میں کِتابت(printing) کی غَلَطی دیکھی، تو جس کا ہے اُسے بتا دینا واجِب ہے۔ (تلاوت کی فضیلت ص۱۱ تا ۱۶)

ترجمہ قرآن :

{1}بِغیر تفسیر صرف ترجمۂ قرآن نہ پڑھا جائے ، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:بہت زیادہ علمِ دین اور قرآن کے علم کے بغیر صرف ترجمۂ قُرآن پڑھ کر سمجھا نہیں جاسکتا ، بلکہ اس طرح صرف ترجمہ پڑھنے کا فائدہ کم نقصان زیا دہ ہے۔ ترجَمہ پڑھنا ہو تو کسی عالِم ماہر (expert)بہترین سنّی دیندار (پرہیزگار یعنی دین پر عمل کرنے والا)سے پڑھے۔ (فتاوٰی رضویہ مُحَرَّجہ ج۲۳ ص ۳۸۲ مُلَخَّصاً) {2}قرآنِ پاک کو سمجھنے کے لئے ترجَمۂ قرآن ’’کَنزُالِایمان‘‘ یا ’’کَنز العرفان‘‘ اور تفسیر ’’خَزَائِنُ العِرفَان ‘‘یا’’ نُورُ العِرفَان ‘‘ یا ’’صراطُ الجنان ‘‘ پڑھیں۔(تلاوت کی فضیلت ص۳۲ تا ۳۴ بالتغیر)

’’ آئیں نماز پڑھیں ‘‘

پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے تقریباً20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں :

شب معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد ہمارے پیارے پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی حیاتِ ظاہِری (یعنی دُنیوی زندگی) کے گیارہ (11)سال چھ(6) ماہ میں تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں (ماخوذازدرّمختار ج۲ص ۶وغیرہ )،تقریباً 500 جمعے ادا کئے(مراٰۃ المناجیح ج۲ ص ۳۴۶)ا ور عید کی 9نمازیں پڑھیں (ملخص از سیرت مصطفٰے ص۲۴۹)۔قرآنِ کریم میں نماز کا ذِکر سینکڑوں مرتبہ(hundreds of times) آیا ہے اعلیٰ حضر ت رَحْمۃُ اللہِ علیہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : پانچ وقت کی نمازیں اللہ کریم کی وہ بہترین نعمت ہے جو اس نے اپنے کرم سے صرف ہماری اُمّت کو عطا فرمائی، ہم سے پہلے کسی اُمّت کو (پانچ نمازیں)نہ ملی۔(فتاوٰی رضویہ ج۵ ص۴۳، مُلخصاً)

واقعہ(incident): چور نے جب نَماز پڑھی

ایک بزرگ خاتون،حضرت رابعہ بصریہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَ کے گھر رات کے وقت ایک چور آگیا، اُس نے گھر میں ہر طرف دیکھا اُسے ایک لوٹے کے علاوہ(other) کوئی چیز نہ ملی ۔ جب وہ جانے لگاتوحضرت رابعہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا نے فرمایا:اگر تم چورہو تو خالی نہیں جاؤگے۔ اُس نے کہا: مجھے تو کوئی چیزنہیں ملی۔ فرمایا: اِس لوٹے سے وُضو کر کے کمرے میں چلےجاؤ اور دو(2) رَکعت نماز پڑھ لو،یہاں سے کچھ نہ کچھ لے کر جاؤگے۔اُس نے وضو کیا اور جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَانے دُعاکی: اے میرے پیارے پیارے اللہ! یہ شخص میرے پاس آیا لیکن اِس کو کچھ نہ ملا، اب میں نے اِسے تیرے سامنے کھڑا کر دیا ہے، اِسے اپنے کرم سے محروم نہ کرنا۔اس چور کو عبادت میں ایسا مزہ آیا کہ رات دیر تک نماز پڑھتا رہا۔سحری کے وقت آپ اس کے پاس آئیں تو وہ سجدہ کی طرح زمین پر سر رکھ کر اپنے آپ کو ڈانٹتے ہوئے کہہ رہا تھا:اگر اللہ کریم نے مجھ سے پوچھا کہ میری نافرمانیاں (disobediences)کرتے ہوئے تجھے شرم نہ آئی؟تُو ساری دنیا سے گناہ چھپاتا رہا اوراب وہ سارےگناہ لے کر میرے پاس آگیا ہے!(پھر کہنے لگا:) اگر اللہ کریم نےمجھےاپنی رحمت سے دور کر دیا تو میں کیا کروں گا؟

کچھ دیر بعد وہ کمرے سے نکل آیا تو حضرت رابعہ بصریہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَانے پوچھا: اے بھائی! رات کیسی گزری؟ کچھ اس طرح بولا: اللہ کریم نے مجھے نیکی تک پہنچا دیا، پھر وہ شخص چلا گیا۔ حضرت رابعہ بصریہرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَانے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر عرض کی: اے میرے پیارے پیارے اللہ! یہ شخص تیرے سامنے ایک گھڑی (یعنی کچھ دیر)کھڑا ہوا تو تو نے اِسے قبول کر لیا (یعنی نیکی کے راستے پر چلا دیا) اور میں کب سے تیرے سامنے کھڑی ہوں ، کیا تو نے مجھے بھی قَبول فرما لیا ہے؟اچانک(suddenly) آپ نے دِل کے کانوں سے کچھ اس طرح کی آواز سنی: اے رابعہ! ہم نےتیری ہی وجہ سے اس شخص کو قبول کیا اور تیری ہی وجہ سے اسے نیکی کا راستہ دیا ۔(حکایتیں اور نصیحتیں ص ۳۰۶ملخصاً)

نماز کےعملی طریقے سے پہلے:

(۱)نماز میں جو پڑھا جاتا ہے، اُسے سیکھنا ہوگا اور صحیح طریقے سے نماز میں پڑھنا ہوگا۔

(۲)نماز کے شرائط(یعنی جو چیزیں نماز میں ایسی لازم ہیں کہ ان کے بغیر نماز شروع ہی نہیں ہوتی ) ، فرائض (یعنی جو چیزیں نماز میں ایسی لازم ہیں کہ ان کے بغیر نماز مکمل ہی نہیں ہوتی )، واجبات(یعنی جو چیزیں نماز میں لازم ہوں مگران کا درجہ(level) فرض سے کم ہو کہ جان بوجھ کر(deliberately) نماز کا واجب چھوڑنے سے نماز دوبارہ پڑھنا ہوتی ہے) اور سنن ِ مؤکدات (کہ جن سُنّتوں کو شرعی اجازت کے بغیر چھوڑنے کی عادت بنانے والا گناہ گار ہو) کے مسائل سیکھنے ہوں گے اور ان پر عمل بھی کرنا ہوگا۔

(۳)دیگرسنّتوں اور مستحبّات کو سیکھا اور ان کا خیال بھی رکھا جائے۔

(۴)نماز توڑنے والی باتیں اور مکروہِ تحریمی(کہ جنہیں جان بوجھ کر (deliberately)کرنے والا گناہ گار ہو اور کئی صورتوں میں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے) کو سیکھنا ہوگا اور نماز کو ان (مکروہاتِ تحریمی) سے بچانا بھی ہوگا۔

(۵)مکروہ تنزیہی(ناپسندیدہ۔unwanted) اور خلافِ اولیٰ (یعنی جو بہتر نہ ہو)کو سیکھیں اور اس سے اپنی نماز کو بچائیں۔

(۶)عملی طریقہ صرف اس کا نام نہیں کہ"نماز اس طرح پڑھنی ہے" ، بلکہ نماز کو غلطیوں سے بچانا بھی لازم ہے مثلاً شلوار یا پینٹ فولڈکر کے نماز پڑھنا یا سجدے میں جاتے ہوئے کپڑے سمیٹنا مکروہ تحریمی وگناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے، اس طرح کے کاموں سے بچنا بھی ہے اور ان مسائل کوسیکھنا بھی ضروری ہے۔

ہم نماز کے عملی طریقے کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر ٹھہریں:

(۱) نما ز کے آداب وزینت نماز کا خیال رکھنا( مثلاًبد بو دار منہ(bad breath) اور بدبو دار کپڑوں (smelly clothes) سے بچنا یا نماز کے لیے اچھے کپڑے پہننا یا اچھا عطر استعمال کرنا)۔
(۲)نیّت کے الفاظ کہنا۔
(۳) شرائط نماز کا پایا جانا۔

نمازکا طریقہ(حنفی۔ 11 اسٹیپ ):

(1)نماز کی شرطیں (preconditions) اور آداب پورے کر کے تکبیر تحریمہ کہنا (2)قیام اور قراءت(3) رکوع(4) قومہ (5) سجدے (6)سجدوں کے بیچ میں جلسہ(7) دوسری رکعت کیلئے اٹھنا اور پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت پڑھنا(8) دوسری رکعت کے بعد قَعدہ اور اَلتَّحِیَّات(9) آخری رکعت میں قَعدۂ اخیرہ (10)سلام پھیرنا (11) نماز کے طریقے میں ان چیزوں کا بہت خیال رکھیں۔

’’ نماز کی شرطیں (preconditions) او رآداب پورے کر کے تکبیر تحریمہ کہنا ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو جانے والے شخص کی طرح یہ خیال رکھ کر نماز پڑھے کہ اب کبھی دوبارہ نماز نہیں پڑھ سکے گا(یعنی اپنی ہر نماز کو آخری نماز سمجھ کر پڑھے)۔ (جامعِ صغیر ص۵۰حدیث ۷۱۶)

واقعہ(incident): بیٹے کو پولیس نے چھوڑ دیا

حضرت ابو الحسن سَری سَقَطِیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاسں آپ کی پڑوسن(neighbour woman) نے حاضر ہو کر عرض کی : اے ابو الحسن! رات میرے بیٹے کو سپاہی(soldier) پکڑکرلے گئے ہیں شایدوہ اسے تکلیف پہنچا ئیں ، براہِ مہربانی! میرے بیٹے کی سفارش (recommendation)فرما دیجئے یا کسی کو میرے ساتھ بھیج دیجئے۔ پڑوسن کی بات سن کر آپ کھڑے ہوکر بہت توجّہ (very attentively)کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ جب بہت دیر ہوگئی تو اس عورت نے کہا :اے ابو الحسن!جلدی کیجئے! کہیں ایسا نہ ہو کہ حاکم(ruler) میرے بیٹے کو قید(jail) میں ڈال دے! پھر بھی آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نماز پڑھتے رہے ،پھر سلام پھیرنے کے بعد فرمایا: میں تیرا مسئلہ ہی تو حل کر رہا ہوں ۔ ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ اس پڑوسن کی نوکرانی(maid) آئی اور کہنے لگی : بی بی جی! گھر چلئے! آپ کا بیٹاگھر آ گیا ہے۔یہ سن کر وہ پڑوسن بہت خوش ہوئی اور آپ کو دعائیں دیتی ہوئی وہاں سے اپنے گھر چلی گئی ۔ (عیون الحکایات ص۱۶۴،ملخصاً)

نماز کی شرطیں (preconditions)اور آداب پورےکرکے تکبیر تحریمہ کہنا:

{1} نما ز کی شرطیں:

(۱)طہارت: نَماز پڑھنے والے کا (a) بدن (b)لباس اور (c) نَماز پڑھنے کی جگہ ناپاکی (یعنی ایسی گندگی جو نماز کے لیے رکاوٹ بنے) سےپاک ہو،نَماز پڑھنے والے پر غسل فرض نہ ہو اوراس کاوضو بھی ہو(یا شرعی اجازت کے ساتھ تَیَمُّمْ ہو)۔

(۲) سَتر عورت: مَرد کا ناف (یعنی پیٹ کے سوراخ) کے نیچےسےگھٹنے(knees) سمیت(یعنی مکمل گھٹنوں کے ساتھ) سارا حصّہ اور عورت کا ہتھیلیوں(palms)، پاؤں کے تلووں (soles of the feet)اور چہرے (face) کے علاوہ(other) اپنا سارا جسم چھپانا لازم ہے(عورت کے ہاتھ کلائیوں(wrists) تک اور پیر ، ٹخنوں (ankles) تک نظر آئیں تب بھی نماز ہوجائے گی)۔

(۳) اِستقبالِ قبلہ: نَماز میں خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہونا۔بلا وجہ سینے کو کعبہ (Qibla direction) سے 45درجے (degree)یا اس سے زیادہ پھیرنا(ہٹانا)، نماز توڑ دیتا ہے۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۶۱۱،مسئلہ۴۸، مُلخصاً)

(۴) وقت: جو نَماز پڑھنی ہے اس کا وقت ہونا ضروری ہے۔ اگر وقت سے پہلے نَماز پڑھی تونماز نہیں ہوگی بلکہ وقت میں دوبارہ پڑھنی ہوگی()نمازختم کرنے میں بھی بعض نمازوں میں وقت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً: فجر،جمعہ اور عید کہ ان نمازوں کا سلام وقت کے اندر پھیرنا ضروری ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ ،ج ۳ ،ص ۴۳۹،ماخوذاً)

(۵)تکبیرِتَحریمہ: سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ سے نماز شروع فرماتے (بہارِ شریعت ج۱،ص۵۰۰ ) ۔اس کے علاوہ (other)کئی الفاظ اوربھی ہیں جن سے نما ز شروع ہو جاتی ہے(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۰۹، ماخوذاً ) مگر ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر نماز شروع کرنا واجب ہے۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۱۷ )

نوٹ:تکبیرتحریمہ کیلئے طہارت، استقبالِ قبلہ، سَتْرِ عورت،وقت کی شرطوں (preconditions) کا پورا ہونا، اَللہُ اَکْبَر کے ختم ہونے سے پہلے ضروری ہے۔(بہار شریعت ،ج ۱، حصہ ۳،ص۵۰۷ ، مُلخصاً)

(۶)نیّت (intention): فرض نماز میں فرض نماز کی نیّت بھی ضروری ہے مَثَلاً دل میں یہ نیّت ہو کہ آج کی ظہرکی فرض نماز پڑھتا ہوں() واجب میں واجب کی نیّت کرنا بھی ضروری ہے اور یہ نیّت بھی کرنی ہوگی کہ کون سا واجب ہے؟ مثلاً عید ُالاضحیٰ میں قربانی والی عید اور عید ُالفطر میں میٹھی عید کی نیّت کرنا۔(حاشیۃ الطحطاوی ص۲۲۲ ماخوذاً)

نوٹ:نیّت کی سب سے چھوٹی حالت یہ ہے کہ اگر اُس وقت (جب نمازپڑھنے لگے)کوئی پوچھے کہ کون سی نماز پڑھتے ہو؟تو فوراً بتا دے ، اگر حالت ایسی ہے کہ سوچ کر بتائے گا تو نماز نہیں ہوگی ()تکبیر سے پہلے نیّت کی تھی پھر نماز شروع کرنے اور نیّت کے درمیان کوئی ایسا کام نہیں کیا جو نماز کے خلاف ہو( مثلاً کھانا، پینا، کلام کرنا وغیرہ نہ کیا) تونماز ہو جائے گی، چاہے تحریمہ(یعنی’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘) کے وقت نیّت حاضر نہ ہو(مثلاً ظہر کی سنتیں پڑھ کر جماعت کے انتظار میں بیٹھا ہے اور نہ موبائل استعمال کیا، نہ کسی سے بات کی پھر اقامت کے بعد اَللّٰہُ اَکْبَرکہہ کر نماز شروع کرلی مگر تکبیر یعنی’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘کے وقت نیّت کی طرف توجُّہ (attention) نہ تھی پھر بھی نماز ہوگئی)۔ (بہارِ شریعت ج۱،ص۴۲۹، مسئلہ۸۱، ماخوذاً) () احتیاط (caution)یہ ہے کہ تراویح میں تراویح یا سنّت ِ وَقت کی نیّت کرے اور باقی سنّتوں میں سنّت یا سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیروی (following)کی نیّت کرے()نفل نماز میں صرف نماز کی نیّت کی تب بھی نماز ہو جائے گی ۔(نماز کا طریقہ ص ۲۱مُلخصاً)

{2} نما ز کے آداب کا خیال رکھنا:

(۱) امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں کہ: وضو کے بعد جب آپ نماز کی طرف توجُّہ (attention) کریں تو اُس وقت یہ سوچیں کہ جسم کے جن حصّوں(parts) پر لوگوں کی نظر پڑتی ہے وہ تو پاک ہو گئے مگر دل کو پاک کئے بغیر اللہ کریم کے سامنے کھڑا ہونا،قرآن پڑھنا، تسبیح اور دعا کرنا شرم و حیاء کے خلاف ہے کیوں کہ اللہ کریم تو دلوں کو بھی دیکھنے والا ہے۔(اِحْیَاء الْعُلوم ج۱ص۱۸۵مُلَخَّصاً)

(۲) لباس ، جسم اور منہ میں بدبو وغیرہ کا نہ ہونا۔

(۲) لباس ، جسم اور منہ میں بدبو وغیرہ کا نہ ہونا۔

{2} نما ز کے آداب کا خیال رکھنا:{3} نیّت کرنا :

نیّت کے الفاظ زبان سے کہنا، مستحب(اور ثواب) ہے لیکن دل میں نیّت(intention) ہونا ضروری ہے۔( نماز کا طریقہ ص۲۰ ،مُلخصاً)

{4}دونوں پاؤں کے درمیان چار(4)انگل کا فاصلہ:

قیام میں دونوں(۲) پاؤں کے درمیان چار(۴)اُنگل کافاصلہ(gap) دینا مستحب ہے ( نماز کا طریقہ ص ۴۵، مُلخصاً) ۔نماز پڑھنے سے پہلے پیروں کے درمیان کا فاصلہ دیکھ لیں اور پیر سیدھے رکھے ہوں ، ٹیڑھے نہ ہوں ۔

{5} نظر سجدے کی جگہ :

قیام میں نظر سجدے کی جگہ رکھنامستحب ہے ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۳۸) نماز شروع کرنے سے پہلے ہی کرلیں

{6}کان کی لوتک ہاتھ اٹھانا :

(۱)تکبیرشروع کرنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا لینا بھی سنت ہے۔( بہار شریعت ح۳، ص ۵۲۱)

(۲)تکبیرِ تحریمہ(یعنی نماز میں پہلی بار ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنے) کیلئے ہاتھ اُٹھانا ، سنّت ہے۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۲۰) بلکہ سنّت مؤکّدہ ہے۔(جدّ الممتار، جلد۳،ص ۱۷۷،مطبوعۃ مکتبۃ المدینۃ)

(۳)تکبیر قنوت (یعنی تیسری (3 rd )رکعت میں دعائے قنوت پڑھنےسے پہلے اَللہُ اَکْبَر)کے لیے ہاتھ اُٹھانا بھی سنّت مؤکّدہ ہے۔(درمختار مع رد المحتار، جلد۲،ص۲۶۲ تا ۲۶۳)

{7}انگلیوں کو اپنے حال پر(normal state)چھوڑنا :

انگلیوں کو نارمل (normal)حالت میں رکھناسنّت ہے۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۲۰)

{8}ہتھیلیوں اورانگلیوں کا پیٹ قبلہ رخ ہونا:

ہتھیلیوں اورانگلیوں کا پیٹ قبلہ رخ رکھنا سنّت ہے۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۲۰) یعنی ہاتھ کی ہتھیلیاں (palms) اور انگلیاں، بالکل قبلے کی طرف ہوں، اس کے لیے دونوں ہاتھ کی چھوٹی انگلیوں کو تھوڑا سا پیچھے کریں تاکہ ہاتھ بالکل سیدھا ہو جائے۔

{9}سرجھکا ہوا (head bowed)نہ ہونا:

تکبیرکے وقت سر نہ جھکانا بھی سنّت ہے۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۲۱)

{10}تکبیر تحریمہ کے الفاظ :

(۱)تکبیر تحریمہ ویسے تو نمازکی شرط(precondition) ہے، لیکن چونکہ یہ نَماز کے ساتھ ملی ہوئی ہے، اس لئے اسے فرض بھی کہا گیاہے ۔( نماز کا طریقہ ص ۲۲، مُلخصاً)

(۲)’’الَلّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر نَماز شروع کریں گے۔ ’’الَلّٰہُ اَکْبَر‘‘کے ’’اَلِف‘‘ کو لمبا کرنے یعنی’’ آللہُ ‘‘ کہنے یا

’’اَکْبَر‘‘ کے ’’ب‘‘ کے بعد ’’اَلِف‘‘ بڑھا دینے یعنی ’’اَکْبَار‘‘ کہنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۰۹،مسئلہ۱۲، مُلخصاً)

اسلامی بہنوں کا فرق اور کچھ مسائل:

{1} دوپٹے کے نیچے کندھوں تک ہاتھ اٹھائیں :اسلامی بہنوں کے لیے سنّت ہے کہ تکبیر تحریمہ میں کندھوں تک ہاتھ اُٹھائیں۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۲۱، مسئلہ ۶۶)

{2}عورت اتنا باریک کپڑا پہن کر نماز پڑھے کہ جس سے جسم یا بالوں کا رنگ نظر آتا ہو تو نماز نہیں ہوگی(زینت کے شرعی احکام ص۱۸۰، مُلخصاً) چاہے وہ اکیلے میں نماز پڑھے، کیونکہ نماز کے لیے جسم کے جن حصّوں کو چھپانے کا حکم ہے انہیں چھپانا نماز کی شرط(یعنی لازم اور ضروری )ہے، چاہے سب سے چھپ کر نماز پڑھ رہی ہو۔ جسم کی جن جگہوں کا چھپانا ضروری ہے ، ان میں سے کسی حصّےکا چوتھائی(1/4 یعنی25%) حصّہ کھلا ہو یا کپڑا باریک(یعنی پتلا) ہونے کی وجہ سے جسم کا رنگ نظر آ رہا ہو تو ایسی حالت میں نماز شروع ہی نہیں ہوگی۔یاد رہے! اگراس طرح ہزار (فرض) نماز یں پڑھیں تو ان کو دوبارہ پڑھنا ” فرض“ (اور” وتر “کو دوبارہ پڑھنا” واجب “) ہے۔ (زینت کے شرعی احکام ص۳۶، مُلخصاً) کوئی عورت نماز کے علاوہ (other)بھی اس طرح کے لباس میں غیر محرم ( کہجن سے نکاح ہو سکتا ہے مثلاً چچا زاد،پھوپھی زاد،خالہ زاد،ماموں زاد اسی طرح پھوپھا، بہنوئی، خالو (جب ان کا نکاح پھوپھی، بہن ، خالہ سے مکمل طور پر ختم ہو جائے تو ان سے نکاح ہو سکتا ہے) وغیرہ) بلکہ محرم ( کہجن سے کبھی بھی نکاح نہیں ہو سکتا مثلاً چچا ،ماموں ، سگا بھائی وغیرہ) کے سامنے نہیں آسکتیں۔

{3}سفید رنگ کا دوپٹہ اس طرح دوہرا(double) کر کے اوڑھنا کہ جس سے بال مکمل چھپ جا ئیں اور بالوں کا رنگ بھی نظر نہیں آتا ہو تو ایسا دوپٹہ پہننے سے نماز ہو جاتی ہے (زینت کے شرعی احکام ص ۱۷۷، ماخوذاً) ۔البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ گلا(neck) اور کان وغیرہ اس طرح چھپ جائیں کہ یہ بھی نظر نہ آئیں۔

{4} ایسا لباس جو غیر مسلم عورتیں پہنتی ہوں مگر وہ ان کی مذہبی یا دینی نشانی نہ ہو بلکہ عام مسلمان عورتیں بھی ویسا لباس پہنتی ہوں اور ان کا سارا جسم صحیح طریقے سے چھپ جاتا ہو، جیسا کہ عورتوں کا لہنگا پہننا(یاد رہے! پاکستان میں ایسے لہنگے ہوتے ہیں کہ ان سے سارا جسم صحیح طرح چھپ جاتا ہے، یہ پہننا) جائز ہے اور اس طرح کا لہنگا پہن کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ (زینت کے شرعی احکام ص۲۸ مُلخصاً)

{5} ساڑھی اگر اس طرح پہنی جائے کہ بے پردگی نہ ہو تو جائز ہے اور اگر بے پردگی ہو تو جائز نہیں ۔ اوپر سے جسم چھپا ہے اور اندر سے کھلا ہے تب بھی جائز ہے جیسا کہ تہبند پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے۔(فتاوی فیض رسول ج۲،ص۶۰۱، شبیر برادرز،لاہور مُلخصاً)

{6} نماز شروع کرتے ہوئے یعنی تکبیر تحریمہ(یعنی نماز میں پہلی بار ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ جو کہی جاتی ہے) ختم کرنے سے پہلےاتنا سَتر(چھپایا جانے والا جسم) کھلا ہوا ہو (کہ جس کے کھلے رہنے سے نماز نہیں ہوتی)تو نماز شروع ہی نہ ہوگی(بہارِ شریعت ح۳،ص۵۰۰،مسئلہ ۱۲۶،ماخوذاً)۔اسی طرح جسم کے جن حصّوں کا چھپانا فرض ہے، اگر نماز پڑھنےکے دوران (درمیان میں)اس حصّے کی چوتھائی(1/4 یعنی25%) ، ایک رُکن کی مقدار یعنی تین مرتبہ”سُبْحَانَ اللہ“ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنا وقت کھل جائے توبھی نماز نہیں ہوگی(بہارِ شریعت ح۳، ص۴۸۲، مسئلہ ۲۶،ماخوذاً)۔یاد رہے ! عورت کے بال جو سر پر ہیں ،وہ جسم کا الگ حصّہ ہے اور جولٹک رہے ہیں، وہ الگ حصّہ ہے۔(بہارِ شریعت ح۳، ص۴۸۳، مسئلہ ۳۳،ماخوذاً)

{7} اگر کسی اسلامی بہن کے بال لمبے ہوں اور نماز پڑھتے ہوئے دوپٹے سے باہر آجائیں اور باہر آنے والے بال، تمام لٹکے ہوئے بالوں کے چوتھائ(1/4 یعنی25%) ہوں یا اس سے زیادہ ہوں اورکم از کم تین مرتبہ

”سُبْحَانَ اللہ “ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنا وقت کھلے رہیں تو نماز ٹوٹ جائے گی اور اس کی قضا کرنا لازم ہوگی(زینت کے شرعی احکام ص ۱۷۸، ماخوذاً) ۔توجّہ فرمائیں ! (pay attention) اگر نماز کے شروع میں اتنے بال نظر آ رہے تھے تو نماز شروع ہی نہیں ہوگی(یعنی فرض ، واجب اور (اسی نماز کے وقت کے اندر اندر) سنّت مؤکدّہ دوبارہ پڑھنی ہوگی۔نوٹ:اگر اس نماز کا وقت نکل گیا تو اب فرض و واجب قضا پڑھنے ہونگے)۔

{8} عورت کا اپنے بالوں کو جمع کر کے اُس پر گرہ لگانا یا کیچر(catcher)لگانا، بالوں کو چھپانے کے لیے اچھا ہے اور اس حالت میں عورتیں نماز بھی پڑھ سکتی ہیں۔(زینت کے شرعی احکام ص ۱۸۱، ماخوذاً)

{9} اس طرح کا لباس جس میں عورت کے بازو(arm) یا پنڈلیاں(calves) کھلے رہتے ہوں( جیسے: اسکرٹ (skirt) وغیرہ) پہن کر(جسم کو کسی چادر وغیرہ سے چھپائے بغیر) نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی ۔(زینت کے شرعی احکام ص ۱۸۲، ماخوذاً)

{10}عورت کے ٹخنے(ankles) سَتر عورت میں شامل (یعنی عورت جسم کے جن حصّوں کو چھپائے گی، اُن میں سے)ہے اور سَتر عورت نماز کی شرط(precondition)ہے، لھذا نماز میں ان کا چھپانا لازم اور ضروری ہے۔(زینت کے شرعی احکام ص۴۶ مُلخصاً)

{11} عورت آرٹیفیشل جیولری(artificial jewelry) پہن کر نماز پڑھے تو نماز ہو جائے گی ۔(زینت کے شرعی احکام ص ۱۸۳، ماخوذاً)

ایسا کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے:

{1} بات چیت کرنا {2} سلام کرنا {3} سلام کا جواب دینا{4} چھینک کا جواب دیتے ہوئے یَرْحَمُکَ اللہ کہنا ، بری خبر سن کرجواب میں اِنّا لِلّٰہِ و اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہنا ، اللہ کریم کا نام سن کر اُس کے جواب(reply)میں عزَّوَجَلّ کہنا یا پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا نام مبارک سن کر جواب(reply)میں درود شریف پڑھنا {5}درد یا مصیبت کی وجہ سے یہ الفاظ ’’آہ‘‘ یا ’’اُوہ‘‘ یا ’’اُف‘‘یا’’تُف‘‘ وغیرہ منہ سے جان بوجھ کر (deliberately) نکالنا جب کہ آواز کو روکنا بھی ممکن تھا {6} پھونک مارنا یا کھنکارنا جس سے دو(2) حرف پیدا ہوں {7} قرآنِ کریم میں دیکھ کر تلاوت کرنا {8}نَماز میں کھانا یا پینا {9}اتنی آواز سے ہنسنا کہ آواز خود سن سکے۔(ماخوذ از ہمارا اسلام، ص۲۱۵ تا ۲۱۶) {10}ایک رکن(مثلاً قیام یا رکوع یا قومے یا سجدے یا جلسے ) میں تین (3)بار کھجانے(itching) سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ ( نماز کا طریقہ ص۵۳، مُلخصاً) {11} عَمَلِ کثیر یعنی نَماز میں کوئی ایسا کام کرنا کہ دیکھنے والا سمجھے یہ نَماز نہیں پڑھ رہا ( نماز کا طریقہ ص۵۰، مُلخصاً)عام طور پر اس طرح کے کام سے نماز ٹوٹ جاتی ہے لیکن دو (2)صورتیں(cases) ہیں کہ جن میں عملِ کثیر سے نماز نہیں ٹوٹتی (۱) جب عملِ کثیر اصلاح ِ نماز کے لیے ہو جیسے: نماز میں وضو ٹوٹ جائے اور وہ شخص وضو کرنے کے لیے چلا جائے اور بعد میں(کچھ خاص قسم کے دینی مسائل پر عمل کرتا ہوا) وہی نماز (جہاں سے چھوڑی تھی) اس سے آگے پڑھ کر مکمل کر لے(یاد رہے! کہ یہ مسائل ماہر (expert) عُلَمائے کِرام صحیح طرح جانتے ہیں،عام طور پر ہمارے لیےان مسائل کو سمجھ کر، صحیح طرح عمل کرنا بہت مشکل ہے اور ویسے بھی جب وضو ٹوٹ جائے تو دوسری مرتبہ شروع سے مکمل نماز پڑھنا،افضل اور ثواب کا کام ہے (بہار شریعت ج۱،ح۳،ص۵۹۵ مُلخصاً) ) (۲) جب عملِ کثیر نماز کے اعمال سے ہوجیسے: کسی نے ایک رکعت میں کئی رکوع کر لیے (ردالمحتار ج۱، ص۶۲۴، مُلخصا مطبوعہ بیروت، ماخوذاً) مسئلہ یہ ہے کہ رکوع نماز ہی کا ایک رُکن ہے(یعنی نماز میں رُکوع کیا جاتا ہے بلکہ رکوع کرنا لازم ہے) لیکن نماز کی ہر رکعت میں واجب ہے کہ رکوع ایک ہی مرتبہ ہو(بہار شریعت ج۱،ح۳،ص۵۱۹ ، پوائنٹ ۴۱)اور جان بوجھ کر(deliberately) واجب چھوڑنے سے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے(ح۴،ص۷۰۸ ،مسئلہ۳، ماخوذاً)لھذا ایک رکعت میں جان بوجھ کر کئی رکوع کرنے والے کی نماز مکروہ تحریمی تو ہو جائے گی(اور جان بوجھ کر ایسا کرنے کی وجہ سے گناہ گار بھی ہوگا) مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نماز ٹوٹ گئی۔

مستحب پر عمل کرنا ثواب ہے:

{1} مرد کے لیے تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کپڑے سے باہر نکالنا

{2} عورت کے لیے کپڑے کے اندر سے اُٹھانا مُستحب(اور ثواب کا کام)ہے۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۳۸،مسئلہ۹،۱۰)

{3} مسجد میں امام صاحب پہلے سے موجود ہوں تواقامت میں حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا مُستحب ہے )مل کرجماعت سے نماز پڑھنے سے پہلے، اذان کی طرح کے الفاظ پڑھے جاتے ہیں،اِسے اقامت کہتے ہیں (۔(نماز کا طریقہ ص ۴۶مُلخصاً) یاد رہے!عورتیں نماز گھر ہی میں اکیلے پڑھیں گی۔

ایسا کرنے سے نماز میں کمی آتی ہے، شرعی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے نمازی گناہ گار ہوتا ہے:

{1}نماز میں کپڑا لٹکانا(مثلا : کندھے (shoulder) پر ایسے چادر ڈالنا کہ دونوں کنارے(edge) لٹک رہے ہوں۔ اگر ایک کنارا دوسرے کندھے پر ڈال دیاتو ٹھیک ہے)

{2} مرد کی کسی بھی آستین (sleeve)کا مُڑ کر آدھی کلائی(wrist) سے اوپر ہونا(اگر عورت کی آدھی(half) بلکہ چوتھائی(25%) آستین بھی کُھلی ہوئی ہو تو عورت کی نماز ہی نہیں ہوگی ۔عورت کے جسم کے جن حصّوں کو چھپانے کا حکم ہے، ان میں سے ہر حصّے کے لیے یہ حکم ہے)

{3} مرد کا صرف پاجامہ پہن کر نماز پڑھنا

{4} پیشاب یاپاخانہ یاریح (breaking) دور کرنےکی ضرورت ہے، باربار توجُّہ (attention) اس طرف جارہی ہے پھر بھی نماز پڑھنا

{5} جاندار(مثلاً جانور یا انسان) کی تصویر والے لباس میں نَماز پڑھنا

{6} کسی شخص کے منہ کے سامنے نَماز پڑھنا

{7} سجدے میں جاتے ہوئے کپڑے اوپر کرنا مکروہ اور گناہ ہے۔ ہاں!ا گر کپڑا بدن سے چپک جائے تو ایک ہاتھ سے چھڑانے میں حَرَج نہیں

{8} کپڑا سمیٹنایعنی کپڑوں کو فولڈ(fold) کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ ( نَماز کا طریقہ ، ص ۵۵ تا ۵۸ مُلتقظاً) پہلی بات: مرد کو اپنے تمام کپڑے(مثلاً شلوار، پینٹ، جُبّہ،لمبا عربی کُرتا) اس طرح سلوانے چاہئیں کہ سب ٹخنوں(ankles) سے اوپر رہیں کہ مرد کے لباس کا ٹخنوں سے اوپر ہونا سنّت ہے۔ اب اگر شلوار یا پینٹ لمبی ہوتو اُسے موڑنے کی اجازت نہیں،جتنا ہو سکے کھینچ کر اوپر کرلیں۔اگر لباس پھر بھی ٹخنوں سے اوپر نہیں ہو ا تو اُسے اسی طرح ٹخنوں سے نیچے رہنے دیں کیونکہ کپڑے نیچے سے فولڈ کر کے یا اوپر سے شلوار موڑ کر نماز پڑھنا ناجائز و گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے اور تکبُّر (arrogance) کے بغیر کپڑوں کو ٹخنے سے نیچے رکھنا گناہ نہیں

{9} نَماز میں ناک اور منہ چھپانا بھی مکروہ تحریمی ہے (نماز کا طریقہ ص۷۰ ماخوذاً) ۔عورتوں کے لیے بھی یہ مکروہ تحریمی ہے لیکن ایسی جگہ پر ہوں کہ جہاں غیر محارم ہوں اور اکیلے میں کسی مناسب جگہ چہرہ کھول کر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو عورت کا منہ چھپا کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ جیسا کہ فتاوی اہلسنّت میں ہے: عورتوں کوبلاوجہ باہر گھومنے پھرنے نہیں جاناچاہیئے اوراگرکبھی مجبوری وغیرہ میں جاناپڑے تو پردے کے ساتھ اس طرح جائیں کہ گھر واپس آ کر نماز پڑھ سکیں ۔ بالفرض اگر نماز کا وقت راستے میں ہوگیا (اور گھر واپس آنے تک نماز قضاء ہو جانے یا مکروہ وقت آنےکا ڈر ہے) تو اب کسی ایسی جگہ پر (منہ کھول کر) نماز پڑھ لیں کہ جہاں کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑےاور اگرایسی کوئی جگہ نہ ملے تو ضرورتا چہرہ چھپا کر بھی نماز پڑھ سکتی ہیں۔(دارالافتاء اہلسنّت، غیر مطبوعہ wat-522 مُلخصاً)

{10}مرد کو صرف چاندی کی ایک انگوٹھی () ایک نگ والی (مثلاً ایک پتھر لگی ہوئی) () جس کا وزن ساڑھے چار ماشے سے کم ہو، پہننا جائز ہے()اس کے علاوہ (other)کوئی انگوٹھی جائز نہیں، لہٰذا چاندی کے علاوہ(other) لوہے، تانبے، پیتل یا سونے وغیرہ کی انگوٹھی مَرد کے ليے پہننا ناجائز و گناہ ہے اور اسے پہن کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی اور اُس نماز کو دوبارہ پڑھناواجب ہے۔ایسا شخص جس نے ایسی ناجائز انگوٹھی پہن کر نماز پڑھی ،وہ اُسے اُتار کر ان نمازوں کو دوبارہ پڑھے اور توبہ بھی کرے۔نیز آئندہ(next time) بھی کبھی ایسی انگوٹھی نہ پہنے۔ ( رجب المرجب 1441،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً) نوٹ:کئی مکروہ تحریمی ایسےہیں کہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم ہے۔ نماز میں اگر کوئی مکروہ تحریمی کام ہو جائے تو ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘سے مسئلہ پوچھ لیں۔

مکروہ تنزیہی (ناپسندیدہ کاموں)سے بچیں:

{1} دوسرے کپڑے ہونے کے باوجود کام کاج کے کپڑوں میں نماز پڑھنا {2} اُلٹا کپڑا پہننا یا اوڑھنا {3} سستی سے ننگے سر نماز پڑھنا {4}ایسی چیز کے سامنے نماز پڑھنا جس سے توجُّہ (attention)بٹے مثلاً سینری (scenery)، شیشہ وغیرہ {5}صحرا(desert)میں سُترے( ڈیڑھ فٹ یا18 انچ اُونچی اور انگلی برابر موٹی کوئی چیز سُترہ بن سکتی ہے۔ اس کی تفصیل 29 Topic number : میں دیکھیں)کے بغیر نماز پڑھنا جبکہ ذہن میں ہو کہ لوگ یہاں سے گزریں گے{6}جلتی آگ کے سامنے نماز پڑھنا(شمع(candle) یا چراغ (lamp) کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے){7}نماز کے لیے دوڑنا(یاد رہے کہ مسجد اس طرح دوڑ کر آنا گناہ ہے کہ وضو والے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں){8} اونٹ گھوڑے وغیرہ مویشیوں(livestock) کے باندھنے کی جگہ پر نماز پڑھنا{9} عام راستے میں نماز پڑھنا{10} بغیر مجبوری دیوار وغیرہ پر ٹیک لگانا{11} کُرتے وغیرہ کے بٹن کُھلے ہونا جس سے سینہ (chest)کُھلا رہے(یاد رہے کہ صرف تہند پہن(یا صرف پاجامہ/ شلوار پہن) کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی اور گناہ ہے){12}مرد کا نماز میں پائنچے(bottom of trousers)کا ٹخنوں(ankles) سے نیچے رکھنا مکروہ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔unwanted)ہے۔(نماز کا طریقہ ص ۶۵تا۶۸ مُلتقظاً)

’’ قیام اور قراءت ‘‘

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک روایت نقل کرتے ہیں :

مومن بندہ جب نماز پڑھتا ہے تو اُس سے فرشتوں کی دس(10) صفیں(rows) حیران ہوتی ہیں جن میں ہر ایک صف دس ہزار(10,000 فرشتوں) کی ہوتی ہے۔ اور اللہ کریم اُس بندے پر اُن ایک لاکھ فرشتوں کے سامنے فخر(یعنی تعریف) کرتا ہے۔ (اِحْیَاءُ العلوم ج۱ص۲۳۱)

اس کے بعد امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فر ماتے ہیں : وجہ یہ ہے کہ بندے کی نماز میں قیام ، رکوع، سجدہ، قَعدہ وغیرہ سب ہے جبکہ اللہ کریم نے ان چار ارکان (یعنی فرضوں)کو 40ہزار فرشتوں میں تقسیم (distribute) کیا ہے۔ قیام کرنے (یعنی کھڑے رہنے)والے فرشتے قیامت تک رُکوع نہیں کریں گے۔ سجدہ کرنے والے تاقیامت اس سے سر نہیں اٹھائیں گے۔ اسی طرح رُکوع اور قَعدہ کرنے والوں کا حال ہے کیونکہ اللہ کریم نے فرشتوں کو جو قرب (یعنی اپنی قُربت اورنزدیکی کا ) رُتبہ(rank) عطا فرمایا ہے(اس کے مطابق) ان پر ہمیشہ ایک ہی حالت (condition)پر رہنا لازِم ہے اس میں کمی یا زیادتی(deficiency or excess) نہیں ہوسکتی۔(اِحْیَاءُ العلوم ج۱ص۲۳۱، مُلخصاً)

واقعہ(incident): نماز میں لمبا قیام کرنے والے بزرگ

حضرت ابن ہارون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے اِنتقال کی چار(4) راتیں گزر گئیں پھر حضرت حوثرہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے انہیں خواب میں دیکھا تو پوچھا : مَافَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ کریم نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرمانے لگے کہ میرے رحیم وکریم مالک نے میری نیکیاں قبول(accept) فرمالیں اور میرے گناہ معاف فرمادیئے اورمجھے بہت سارے خادم (servants) بھی دیے۔ میں نے پوچھا: پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ فرمایا: کَرِیْم(یعنی کرم فرمانے والا) کرم ہی کرتا ہے، میرا ربّ بہت کرم فرمانے والا ہے، اس نے مجھے جنّت میں بھیج دیا ۔میں نے پوچھا: آپ (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) کو یہ مقام(درجہ، انعام) کِن نیکیوں کی وجہ سے ملا؟فرمایا: ان پانچ(5) نیکیوں کی وجہ سے:(۱)اجتماعِ ذکر(جس جائز محفل میں اللہ کریم کا ذکر ہوتا ہو)میں شرکت (۲) سچی بات کرنا (۳) حدیث بیان کرنے میں امانت سے کام لینا(یعنی حدیث بالکل صحیح بتانا، کوئی غلط بات حدیث سے نہ ملانا)(۴)نمازمیں لمباقیام کرنا(۵) تنگی اور غربت میں بھی اللہ کریم کا شکر ادا کرنا اور صبرکرنا۔ (عیون الحکایات ج۱،ص۳۰۲، مُلخصاً)

قیام اور قراءت :

{1}” اَللہ ُ “کہتے ہوئےہاتھ چھوڑنا اور” اَکْبَر “کی راء کے ختم پرہاتھ ناف(یعنی پیٹ کے سوراخ ) کے نیچے زور سے باندھنا :

(۱)تکبیر کے فوراً بعد ہاتھ باندھ لینا سنّت ہے۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۲۲،مسئلہ۷۲)

(۲)ناف کے نیچے زور سے ہاتھ باندھنے سے نفس قابو(control) میں آتاہے(یعنی انسان برائیوں وغیرہ سے بچ جاتا ہے)(فتاویٰ امجدیہ ج ۱ص۰ ۸، مُلخصاً) ۔اسی طرح انسان وسوسوں سے بھی بچ جاتا ہے۔ (نیکی کی دعوت ص ۵۰۸، مُلخصاً)

{2}الٹے ہاتھ کی کلائی(wrist) پر سیدھے ہاتھ کی تین (3)انگلیاں اورچھوٹی انگلی اورانگوٹھا اغل بغل رکھنا:

(۱)قیا م میں ہاتھ باندھنا سنّت ہے ۔ (بہار شریعت ،جلد۱،حصہ ۳،ص ۵۲۲ ،مسئلہ ۷۴، مُلخصاً)

{3}تراوح کرنا :

(۱)تراوح یعنی کبھی سیدھے پاؤں پر اورکبھی اُلٹے پاؤں پر زوردیناسنّت اور دائیں بائیں جھومنا (یعنی جسم ہلانا) مکروہِ تنزیہی(اور ناپسندیدہ۔unwanted)ہے ( بہار شریعت ح۳، ص ۶۳۴،مسئلہ۶۱، مُلخصاً) ۔

(۲)یاد رہے کہ یہ زور اس طرح نہیں دینا کہ دیکھنے میں نظر آئے،بس پاؤں جما دیا جائے، جماعت سے نماز پڑھتے ہوئے اس بات کا بہت خیال رکھا جائے، تراوح کی وجہ سے ساتھ نماز پڑھنے والے نمازی کو ہر گز، ہرگز، ہرگز کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔اور ایسا انداز(style) بھی نہ ہو کہ دیکھنے والے کو عجیب (strange)لگے۔

{4}نماز میں کھڑے ہونے(قیام کرنے) کی صورَتیں:

(۱)پانچوں فرض نمازوں (یعنی فجر کی2، ظہر4،عصر4،مغرب3 اور عشاء کی4 رکعتوں میں)، تمام واجب نمازوں ( مَثَلاً وِتر کی نماز ،نماز عید) اور سنّت ِ فجر کی ہر رکعت میں قیام (یعنی کھڑا ہونا) فرض ہے ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۱۶،مسئلہ۱۶) یعنی بالکل سیدھا کھڑا ہونا یا کم از کم ایسے کھڑا ہونا کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں (knees) تک نہ پہنچیں۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۰۹،مُلخصاً)۔

(۲)ان نمازوں کو اگر شریعت کی اجازت کے بغیر بیٹھ کر پڑھیں گے تو یہ نمازیں ادا نہ ہوں گی۔ سنّت مؤکدّہ بھی کھڑے ہو کر پڑھیں۔

(۳) مریض ایسا ہے کہ کھڑا تو ہوسکتا ہے مگر سجدہ نہیں کر سکتا ہے، مَثَلاً حلق وغیرہ میں پھوڑا (boil)ہے کہ سجدہ کرنے سے بہے گا تو اب ان نمازوں (یعنی فرض، واجب ا ور فجر کی سنّتوں)میں کھڑے ہو کر قیام کرنا فرض نہیں ہے۔( بہار شریعت ح۳، ص ۷۲۱،مسئلہ۸ مُلخصاً)

{5}ثنا،تعوذ تسمیہ(اَعُوْذُ بِاللّٰہ ، بِسْمِ اللہ ، سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ) ،قراء ت آمین وغیرہ:

(۱)پہلی رکعت میں ثنا (سُبْحٰنَکَ اللّٰہْمَّ(مکمل))اور تعوذ(اَعُوْذُ بِاللّٰہ یعنی دونوں کا) پڑھناسنّت ہے ( بہار شریعت ح۳، ص ۵۲۳،مسئلہ، ۷۸،مُلخصاً) بلکہ (پہلی رکعت کے شروع میں) اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھناسنّت مؤکدّہ ہے ۔(الھدایۃ مع شرح البنایۃ،ج۲،ص۲۱۶،مطبوعہ کوئٹہ،مُلخصاً)

(۲)سُبْحٰنَکَ اللّٰہْمَّ پڑھنا سنّت (مؤکّدہ)ہے بغیر اس کے نماز ہوجاتی ہے مگر بلاضرورت سنّت چھوڑنے کی اجازت نہیں اورعادت ڈالنے سے گناہ گار ہوگا (فتاویٰ رضویہ شریف جلد۶، ص ۱۸۲، مُلخصاً) ۔شرعی اجازت کے بغیر سنّت مؤکّدہ کے ایک آدھ بار (یعنی چند بار) چھوڑنا گناہ نہیں مگر پھر بھی (شریعت کی نظر میں) ایسا ہے کہ اس شخص کو ڈانٹا جائے(یعنی گویا کہ شریعت اس سے ناراض ہے) اور اگر باربار سنّت مؤکدّہ شرعی اجازت کے بغیر چھوڑے تو اب گناہ گارہے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد ۱، ص ۵۹۶، مُلخصاً)

(۳)ہر رکعت کے شروع میں تسمیہ(یعنی ” بِسْمِ اللہ “) اورسورۃ فاتحہ کے بعد ” اٰمِین “کہنا( دونوں) سنّت ہیں ( نماز کا طریقہ ص۳۶، مُلخصاً)۔ان سب کا آہستہ آواز سے پڑھنا بھی سنّت ہے( بہار شریعت ح۳، ص ۵۲۳،مسئلہ، ۷۴(۱۷)، مُلخصاً)۔ نماز میں ” اٰمِین “بلند آواز سے کہنا مکروہ اور خلافِ سنّت ہے۔ ( فتاوی رضویہ ج۶،ص۱۸۳)

(۴)ایک آیت پڑھنا فرض (کی پہلی ) دو(1st n 2nd )رکعتوں میں اوروترا ور نفل کی ہر رکعت میں فرض ہے (بہار شریعت ،جلد۱،حصہ۳ ،ص ۵۱۲،مسئلہ۲۷) یعنی ہرفرض نماز کی تیسری(3rd ) اور چوتھی(4th ) رکعت کے علاوہ (except) ، ہر نماز کی ہر رکعت میں کم از کم ایک(1) آیت پڑھنا ایسا لازم ہے کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی۔

(۵)وہ آیت (پڑھنا فرض ہے)کہ چھ(6) حرف سے کم نہ ہو اور بہت (سے عُلَمائے کِرام نے)اْس کے ساتھ یہ بھی شرط (precondition)لگائی کہ صرف ایک(1) کلمہ کی نہ ہو(فتاویٰ رضویہ جلد۶، صفحہ۳۴۵)یعنی کم از کم چھ(6) حروف دو (2)کلموں میں ہوں جیسے: مَلِکِ النَّاسِ(پ۳۰، سورۃُ الناس، آیت۲)اور اگر ایک کلمےمیں چھ(6) حروف ہوں تو مختصر نماز میں بھی صرف یہ ایک آیت نہ پڑھی جائے جیسے: مُدْہَآمَّتَانِ(پ۲۷، سورۃُ الرحمٰن، آیت۶۴)۔

(۶) چھوٹی آیت جس میں دو(2) یا دو سے زیادہ کلمات ہوں پڑھ لینے سے فرض ادا ہو جائے گا اور اگر ایک ہی حرف کی آیت ہو جیسے :صٓ، نٓ، قٓ ، تو اس کے پڑھنے سے فرض ادا نہ ہوگا، اگرچہ ان میں سے کسی ایک آیت کو بار بار پڑھتا رہے۔ (بہار شریعت جلد۱،حصہ۳ ،ص ۵۱۲،مسئلہ ۲۹، مُلخصاً)

{6}فرض کی تیسری چوتھی(3rd n 4th )رکعت کے علاوہ (except) باقی ہر نماز کی ہر رکعت میں مکمل اَلْحَمْدُلِلّٰہ شریف پڑھناواجب ہے (اس کے ایک حرف کو چھوڑنے سے بھی واجب چھوٹ جائے گا) () اسی طرح سورت ملانا یا قرآن کریم کی ایک آیت جو چھوٹی تین(3) آیتوں کے برابر ہو یا تین (3)چھوٹی آیتوں کا پڑھنا واجب ہے۔( نماز کا طریقہ ص۳۲، مُلخصاً) ()تین(3) یا چار(4) رکعت والی فرض نَماز (مغرب و عشاء ،ظہر اور عصر،)کی تیسری (3rd ) اور چوتھی (4th )رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورت پڑھنا واجب نہیں(لیکن اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے مُستحب ہے کہ وہ فرض کی تیسری چوتھی(3rd n 4th )رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت ملائے مگر امام صاحب کے لیے ان رکعتوں میں سورت ملانا مکروہ ہے(فتاوی رضویہ ج۸،ص۱۹۳، ماخوذاً) کیونکہ اس طرح کی لمبی قرائت سے نمازی پریشان ہونگے )۔

{7}تین (3)چھوٹی آیتوں کے کم سے کم حروف کی تعداد پچیس (25) حرف بنتی ہے(جدّ الممتار، ج۳،ص۱۵۳، مُلخصاً)۔فتاویٰ رضویّہ (جلد ۶،صفحہ۳۴۹ )میں ہے:ردالمحتار(شامی) میں کم از کم تیس(30) حرف بتائے ہیں۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں کہ: بہتر یہ ہے کہ تیس(30) حرف پڑھے جائیں۔(فتاوی رضویہ ج۶،ص،۳۴۸،مُلخصاً)

{8} سورۃُ الفاتحہ کاایک(1) ایک حَرف اس طرح پڑھنا واجب ہے کہ سُننے میں کوئی رُکاوٹ نہ ہو تو اپنے کانوں سے سُن لے۔ ( نماز کا طریقہ ص ۵۴مُلخصاً)

{9}حضر میں (یعنی بندہ سفر میں نہ ہو) جب کہ نماز کا وقت ختم ہونے والا نہ ہو توسنّت یہ ہے کہ فجروظہر میں طوالِ مُفَصَّل پڑھے ،عصر و عشامیں اَوساطِ مُفَصَّل اورمغرب میں قِصارِ مُفَصَّل ۔ان سب سورتوں میں امام اور اکیلے نماز پڑھنے والے( دونوں) کا حکم ایک ہی ہے (بہارِ شریعت، جلد۱ ،حصہ ۳، ص۵۴۶، مسئلہ ۱۸، مُلخصاً) ۔اگر وقت کم ہے (یعنی نماز کاوقت ختم ہونے والا ہو یا مکروہ وقت آنے والا ہو)یا جماعت میں کوئی مریض یا بوڑھا یا کوئی اپنی ضرورت کی وجہ سے بہت جلدی میں ہے(یعنی لمبی قراءت کی وجہ سے کسی نماز ی کو پریشانی ہو) یا جس پر اتنی دیر نماز میں رُکنا تکلیف اور حرج کا سبب ہے تو ان لوگوں کا خیال رکھنا(اور نماز مختصر پڑھانا) لازم ہے چاہے فجر کی نماز میںاِنَّاۤ اَعْطَیۡنٰکَ الْکَوْثَرَ ؕ﴿۱﴾ا ور قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾کے ساتھ (نماز)پڑھا دے کہ یہی سنّت ہے اور جب یہ (یعنی اوپر بیان کی ہوئی ) باتیں نہ ہوں تواب مُفَصَّلات کو چھوڑ دینا(یعنی فجروظہر میں طوَالِ مُفَصَّل ،عصر و عشامیں اَوساطِ مُفَصَّل اورمغرب میں قِصارِ مُفَصَّل نہ پڑھنا) اسی طرح فجر یاعشاء میں(طوال کی جگہ )قصار مفصّل پڑھنا ضرور خلاف سنّت اور مکروہ(تنزیہی ) ہے مگر نماز ہوجائے گی۔(فتاوی رضویہ ج۶،ص۳۳۱، مُلخصاً)

نوٹ: سورۂ حجرات سے آخرتک قرآن مجید کی سورتوں کو مفصّل کہتے ہیں ( چھبیسویں (26th)پارے میں سورۂ حجرات سے آخر (سورۂ ناس)تک چھیاسٹ (66)سورتیں بنتی ہیں )۔

{10} مفصّلات تین ہیں

(۱)طوَال ِمُفَصَّل(۲)اَوساطِ مُفَصَّل (۳)قِصار مُفَصَّل ۔

(۱)طوالِ مُفَصَّل :

: سورۂ حجرات سے سورۂ بروج سے پہلے(سور ۂ انشقاق)تک۔ سورۂ الحجرات چھبیسویں (26th )پارے کی چوتھی(4th ) سورت ہے اورسورۂ البروج تیسویں (30th ) پارے کی آٹھویں (8th )سورت ہے۔ لھذا چھبیسویں(26th ) پارے کی چوتھی(4th ) سورت سے آخر تک، ستائیسواں (27th )، اٹھائیسواں (28th )،اُنتیسواں (29th ) یعنی تین پارے(مکمل) اور تیسویں(30th ) پارے کی سات (7)سورتیں ،کل چھتیس(36 ) سورتیں طوال مُفَصَّل ہیں۔ نوٹ:طوالِ مفصّل میں سے سور ۂ حجرات پارہ 26،سور ۂ رحمن پارہ27،سور ۂ جمعہ پارہ28،سور ۂ منافقون پارہ 28،سور ۂ ملک پارہ 29،سورۂ مزمل پارہ29، سور ۂ مدثر پارہ29،سور ۂ قیٰمۃ پارہ29،تیسویں( 30th ) پارے کی پہلی سات(7) سورتیں یاد کرنا آسان ہے۔

(۲) اَوساطِ مُفَصَّل :سور ۂ بروج سے سور ۂ بیّنہ( لَمْ یَکُن)تک ۔یہ 13سورتیں ہیں(سب تیسویں (30th ) پارے میں ہیں )۔ نوٹ:سور ۂ ضُحٰی،سور ۂ اَلَمْ نَشْرَح، سور ۂ تین،سور ۂ قدریاد کرنا آسان ہے۔

(۳)قِصار مُفَصَّل: سور ۂ بیّنہ( لَمْ یَکُن)سے تیسویں (30th ) پارے کے آخر تک 17سورتیں ہیں ۔

(۳)قِصار مُفَصَّل:

سور ۂ بیّنہ( لَمْ یَکُن)سے تیسویں (30th ) پارے کے آخر تک 17سورتیں ہیں

خلاصہ(conclusion):

(۱)پارہ 30 کی پہلی7سورتیں طوالِ مُفَصَّل پھر13 اَوساطِ مُفَصَّل اورآخر17 قِصار مُفَصَّل ہیں۔

(۲)پارہ 30 کی پہلی7سورتیں طوالِ مُفَصَّل کے ساتھ ساتھ پارہ نمبر: 27، 28، 29( مکمل) بھی طوالِ مُفَصَّل میں سےہے۔

(۳)اسی طرح چھبیسواں (26th )پارہ کی ابتدائی تین سو رتوں (سور ۂ احقاف، سور ۂ مُحَمّد، سور ۂ الفتح) کے علاوہ(except) سب سورتیں طوالِ مُفَصَّل ہیں۔

(۴) یاد رہے کہ چھبیسویں پارے کی پہلی تین صورتیں (یعنی سور ۂ احقاف، سور ۂ مُحَمّد، سور ۂ الفتح) میں سے کوئی سورت ،مُفَصَّلات میں سے نہیں ہے۔

(۵) اسی طرح پارہ ایک سے پارہ پچیس(25) میں کوئی سورت بھی مُفَصَّلات میں سے نہیں ہے۔

کچھ اور مسائل:

{1}نماز میں دیکھ کر قرآن پڑھنا مفسد (یعنی نماز توڑ نے والا عمل )ہے۔اگر قرآنِ پاک یاد ہونے پر پڑھ رہے ہو مگر ساتھ ہی (مثلاً دیوار پر لکھی ہوئی)اُسی آیت پر نظر پڑ رہی ہو تو نماز ہو جائے گی ۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۱۰۹، مسئلہ ۳۶،مُلخصاً)

{2}نماز میں بلاعذر(شرعی اجازت کے بغیر) دیوار وغیر ہ پر ٹیک لگانا مکروہِ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔ unwanted) ہے ۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۶۳۴،مسئلہ ۵۶،مُلخصاً)

{3}قراء ت کےفوراً بعد رکوع کرنا واجب ہے۔( بہار شریعت ح۳، ص ۵۱۸، (۱۷)،مُلخصاً)

{4}قراء ت رکوع میں پہنچ کرختم کرنا مکروہِ تحریمی اور گناہ ہے ۔ (بہارِ شریعت ، ح۳، ص۶۲۹، مُلخصاً)

نماز میں قرآن اور تسبیحات پڑھنے کے مسائل :

{1}آہستہ آواز میں قراءت کرنےمیں بھی یہ ضروری ہے کہ کوئی رکاوٹ مثلا شور نہ ہوتو خودسن سکے۔ اگر اتنی آواز بھی نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی

{2} ثنا ، اَعُوْذُ ، بِسْمِ اللہ ، قراءت ، رکوع ا ور سجدے کی تسبیحات اور اَلتَّحِیَّات وغیرہ میں بھی کم از کم اتنی آواز ہونا ضروری ہے کہ کوئی رکاوٹ مثلا شور نہ ہوتو(یہ سب بھی) خود سن سکے(نماز کا طریقہ ص ۲۵ ماخوذاً)

{3} یہ بات یاد رہے کہ خود سننا ضروری ہے مگر آہستہ قراء ت والی نمازوں میں قراء ت اورتسبیحات وغیرہ کی آوازبھی دوسروں تک نہ پہنچے

{4}بلکہ قریب نمازی نماز پڑھ رہے ہوں تو انہیں بھی تکلیف نہ ہو اور جماعت میں تو اور بھی احتیاط (caution)کرنی چاہیے کیونکہ نمازی قریب قریب ہوتے ہیں

{5}قرآنِ کریم یا اذکارِ نَماز(یعنی جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے) اس میں ایسی غلطی کرنا جس سے معنی بگڑ جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ مثلاً: ’’سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم‘‘ میں ’’عَظِیْم‘‘ کو ’’عَزِیْم‘‘ کہنا(نماز کا طریقہ ص ۲۷، مُلخصاً)

{6} اسی طرح نماز میں ایسا لفظ پڑھنا کہ جس کا کوئی معنیٰ نہ ہو نماز توڑ دیتا ہے۔(نماز کا طریقہ ص۵۴، مُلخصاً)

اسلامی بہنوں کا فرق :

(1)الٹے ہاتھ کی ہتھیلی(palm) سینے پر چھاتی کے نیچے رکھنا(2)الٹے ہاتھ کی ہتھیلی کی پْشت(back) پر ، سیدھی ہتھیلی رکھنا: قیام میں اُلٹے ہاتھ کی ہتھیلی سینے پر چھاتی(breast) کے نیچے رکھ کر اس کی پشت پرسیدھی ہتھیلی رکھنا سنّت ہے ۔(بہارِ شریعت ، ح۳، ص۵۲۲، مسئلہ ۷۲، (۱۲)،مُلخصاً)

واجب پر عمل کرنا ضروری ہے:

{1} فرض کی تیسری (3rd )اور چوتھی (4th )رکعت کے علاوہ (except) ہر رکعت میں پوری سورۂ فاتحہ (ایک ہی مرتبہ) پڑھنا، واجب ہے {2} سور ۂ فاتحہ کے بعدایک (1 )چھوٹی سورت یا ایک (1) بڑی آیت یا تین (3) چھوٹی آیتیں کہ جو ایک بڑی آیت کے برابر ہوں،پڑھنا واجب ہے اور () یہ بھی واجب ہے کہ سورۂ فاتحہ کو سورت سے پہلے پڑھا جائے {3} سورۂ فاتحہ اور سورت کے درمیان’’اٰمین‘‘ اور ’’بِسْمِ اللہ‘‘ کے علاوہ (except) کچھ نہ پڑھنا، واجب ہے (’’آمین‘‘ اور ’’بِسْمِ اللہ‘‘ کا پڑھنا واجب نہیں) {4}ہر فرض اور واجب کو اُسی کی جگہ ادا کرنا، واجب ہے{5} دو(2) فرض/دو(2) واجب/فرض و واجب کے درمیان تین(3 ) بار ’’سُبْحٰنَ اللہ‘‘کہنےکے برابر وقفہ(gap) نہ ہونا، واجب ہے{6} امام صاحب جب قراءت کر رہے ہوں چاہے بلند آواز سے ہو یا آہستہ، مقتدی(یعنی پیچھے نماز پڑھنے والے) کا چپ رہنا، واجب ہے(اسلامی بہن اکیلے ہی نماز پڑھیں گی) ۔(بہارِ شریعت ، ح۳، ص۵۱۷ تا ۵۱۹، مُلخصاً)

مستحب پر عمل کرنا ثواب ہے:

{1} قیام میں سجدہ کی جگہ نظر رکھنا{2}جہاں تک ممکن ہو کھانسی روکنا{3}جماہی (yawn) آئے تو منہ بند کئے رَہیں اور نہ رُکے تو ہونٹ دانت کے نیچے دبا لیں۔ اگر اِس طرح بھی نہ رُکے تو قِیام میں سیدھے ہاتھ کی پشت (back side) یا آستین (shirt sleeve)اور قیام کے علاوہ (except) اُلٹے ہاتھ کی پشت (back side) یا آستین (shirt sleeve) منہ پر رکھ لیجئے۔ جماہی روکنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ دل میں خیال کیجئے کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَامکو جماہی نہیں آتی تھی۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۳۸ مُلخصاً)

ایسا کرنے سے نماز میں کمی آتی ہے، شرعی اجازت کے بغیر کرنے سے نمازی گناہ گار ہوتا ہے:

{1} کمر پر ہاتھ رکھنا{2} تشبیک یعنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا{3} ادھر ادھر منہ پھیر کر دیکھنا (to see by turn away face) چاہےتھوڑا منہ پھرے یا زیادہ{4} داڑھی یابد ن یا لباس کے ساتھ کھیلنا {5} آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا {6} انگلیاں چٹخانا(یعنی انگلیاں دبا کر آوازیں نکالنا) {7} جان بوجھ کر (deliberately)جماہی(yawn) لینا{8} بغیرضرورت بلغم (نزلے والا تھوک) وغیرہ نکالنا {9} اُلٹا قرآن پڑھنا مکروہ تحریمی ہے(مثلا: پہلے سورۃُ النّاس پھر سورۃُ الفلق پڑھنا۔ یہ نماز کا مکروہِ تَحریمی نہیں بلکہ قراءت کا مکروہِ تحریمی ہے، جان بوجھ کر جس نے ایسا کیا گناہ گار ہوا مگر نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں)۔ (بہارِ شریعت ج۱،ص۶۲۴ تا۶۳۰ مُلخصاً)

نوٹ:کئی مکروہ تحریمی ایسےہیں کہ ان کی وجہ سے نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم ہے۔ نماز میں اگر کوئی مکروہ تحریمی کام ہو جائے تو ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘ سے مسئلہ پوچھ لیں۔

مکروہ تنزیہی(ناپسندیدہ کاموں) سے بچیں:

{1} نماز میں ثنا(یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰہْمَّ) اوراٰمین وغیرہ زور سے پڑھنا (امام صاحب کے پیچھے بھی آہستہ ہی پڑھیں گے) {2} نماز میں ہاتھ یا سر کے اشارے سے سلام کا جواب دینا(اگر آواز سے سلام کا جواب دیا تو نماز ٹوٹ جائے گی){3} سیدھی یا اُلٹی طرف جھومنا(یعنی ہلنا) {4} انگڑائی لینا( جس طرح نیند پوری کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو لمبا کرتے ہیں) {5}جان بوجھ کر(deliberately) بغیر کسی وجہ کے(without any reason) کھانسنا کھنکارنا {6}بغیر کسی وجہ کے ہاتھ سےمکّھی، مچھر اڑانا {7}ہر وہ کام جس سے دیکھنے والے کے بارے میں مضبوط خیال (strong assumption) نہ ہو کہ یہ نماز نہیں پڑھ رہا(اَسے عملِ قلیل کہتے ہیں)،اگر کسی فائدے کے لیے نمازی نے کیا(مثلاً قیام میں خارش (itching)ختم کرنے کے لیے ایک مرتبہ کھجانا) تو یہ جائز ہے۔ اور اگر کسی فائدے کے لیے نہ ہو(مثلاً بلاوجہ ایک مرتبہ کھجانا) تو یہ مکروہِ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔unwanted)ہے۔(نماز کا طریقہ ص ۶۷،۶۸ مُلخصاً)

’’ رُکوع ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جب امام سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے توتم اَ للّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہا کرو کیونکہ جس کاقول فرشتوں کے قول کی طرح ہو گا اس کے پچھلے گنا ہ معاف کردئیے جائیں گے۔(صحیح بخاری ،کتا ب الاذان ، رقم۷۹۶،ج ۱، ص ۲۷۹)

واقعہ(incident): کیا پیشانی (forehead)کی جگہ ٹھوڑی(chin) زمین پر لگاؤ گے؟

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک مرتبہ نماز کے بعد دِہلی (India) کی ایک مسجدمیں تسبیح پڑھ رہے تھے ۔ ایک صاحب آئے اور آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگے۔ جب تک قیام میں (یعنی کھڑے)رہے مسجد کی دیوار کو دیکھتے رہے ،رُکوع میں بھی سر اوپر اٹھاکر سامنے دیوار ہی کی طرف نظر رکھی ۔جب اس آدمی نے نماز پڑھ لی تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی تسبیح مکمل پڑھ چکے تھے۔ آپ نے انہیں اپنے پاس بلا یا اور شرعی مسئلہ سمجھانے لگے کہ: نماز میں نظر کہاں رکھنی چاہئے۔ پھر فرمایا: رُکوع میں نگاہ پاؤں پرہونی چاہئے۔ یہ سنتے ہی وہ صاحب غُصّےسے کہنے لگے: واہ صاحب! بڑے مولانا بنتے ہو، نماز میں قبلے کی طرف منہ ہونا ضَروری ہے اور تم میرا منہ قبلے سے ہٹانا چاہتے ہو!۔ یہ سن کراعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سمجھ گئے کہ یہ آدمی کتنا کم عقل ہے، اب اس کی عقل کے مطابق جواب دیتے ہوئے فرمایا: پھر تو سجدے میں بھی پیشانی(forehead) کے بجائے ٹھوڑی(chin) زمین پر لگائیے! (تاکہ آپ کا منہ سجدے میں بھی قبلے کی طرف ہو جائےاور زمین کی طرف نہ رہے) ۔ یہ جواب سن کر وہ بالکل خاموش ہوگئے اوران کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ قبلہ رُخ (Qibla direction) ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ شروع سے لے کر نماز پوری ہونے تک قبلے کی طرف منہ کیاجائےبلکہ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ نماز شروع کرتے ہوئے سینہ قبلہ رُخ ہواور مکمل نماز میں قبلے سے نہ ہٹے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ج۱ص۳۰۴، بالتغیر) یاد رہے! بلا وجہ سینے کو کعبہ (Qibla direction)سے 45درجے (degree)یا اس سے زیادہ پھیرنا، نماز توڑ دیتا ہے۔ ( بہار شریعت ح۳، ص ۶۱۱،مسئلہ۴۸، مُلخصاً)

(3) رُکوع :

{1}اَللہ ُاَکْبَر کہتے ہوئے رکوع میں جانا۔

کم از کم اتنا جھکنا کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں، یہ فرض ہے اورپورایہ کہ پیٹھ سیدھی بچھ جائے (بہارِ شریعت ، ح۳، ص۵۱۳، مُلخصاً) ۔ تعدیلِ ارکان رکوع میں بھی واجب ہے ( یعنی رکوع میں پہنچنے کے بعد ایک مرتبہ

”سُبْحَانَ اللہ “ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنی دیررُکنا )۔(بہارِ شریعت ، ح۳، ص۵۱۸، واجب ۱۹، ماخوذاً) تعدیلِ ارکان بھول گیا تو سجدہ سہو واجب۔ (نماز کا طریقہ ص ۸۸)

{2} اَللہ ُاَکْبَر رکوع میں پہنچتےہوئے ختم کرنا :

(۱) قیام سے رکوع میں اس طرح جانا کہ” اَللہُ اَکْبَر “کی” الف“ کہتے ہی جانا شروع ہواور ”اَکْبَر“ کی” راء “ پر رکوع میں مکمل پہنچ جائے، (یہ مکمل انداز)سنّت ہے۔

یاد رہے! ہرتکبیر انتقال (یعنی جتنی مرتبہ اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا جاتا ہے، اُس)میں یہ حکم ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ (مثلاً قیام سے رکوع، قومے سے سجدے) کو جا نا شروع کرتے ہی ”اَللہ اَکْبَر“ کی” الف“ کہے اور دوسری جگہ مکمل پہنچتے ہی ”اَکْبَر“ کی” راء “ ختم کرے۔

(۲)یہ راستہ پورا کرنے کے لیے ”اَکْبَر“ کا ” الف“ بڑھانے(یعنی ”آکْبَر“ پڑھنے ) یا ” ب “ بڑھانے(یعنی ”اَکْبَار“ پڑھنے) سےنماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اگر ” راء“ کوبڑھا دیا(یعنی ”اَکْبَرررر“ کر دیا) تویہ غلط ا ور خلافِ سنت ہے۔ یہ راستہ پورا کرنے کیلئے(یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچنے میں” اَللہُ اَکْبَر “کی” الف“ سے شروع کرنے اور ”اَکْبَر“ کی” راء “ پر ختم کرنے میں ) صرف” اَللہُ “ کی دوسری لام کو بڑھائیں گے۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد۶ ص ۱۸۸، مُلخصاً)

(۳) راء کو جزم(ساکن) پڑھے (یعنی ” اَللہُ اَکْ۔بَرْ “ پڑھے،” اَللہُ اَکْبَر ُ“ پیش نہ پڑھے)۔ (بہارِ شریعت جلد ۱،ح۳، ص ۵۲۵)

{3}پیٹھ(back) اچھی طرح بچھی ہونا کہ پانی کا پیالہ ٹھہر جائے (اس کیلئے کہنیاں(elbows) سیدھی رکھنا):

(۱)سنّت یہ ہے کہ رکوع میں پیٹھ(back) اچھی طرح بچھی ہو یہاں تک کہ اگر پانی کا پیالہ پیٹھ پر رکھ دیا جائے توٹھہرجائے۔ (بہارِ شریعت جلد ۱،ح۳، ص ۵۲۶، مسئلہ ۹۳(۳۲))

(۲)اس کے لیے کُہنیاں سیدھی رکھیں۔

{4}گھٹنوں(knee) کو ہاتھ سے پکڑنااور انگلیاں پھیلی ہوئی رکھنا :

(۱)مرد کا گھٹنوں کو ہاتھ سے پکڑنا سنّت(نماز کا طریقہ ص ۳۶)اور نہ پکڑنا مکروہ تنزیہی(اور ناپسندیدہ۔ unwanted) ہے ۔ (نماز کا طریقہ ص ۶۷)

(۲)انگلیاں خوب کھلی رکھناسنّت ہے ۔ (نماز کا طریقہ ص ۳۶)

{5}سراونچا نیچا نہ ہونا:

(۱)رکوع میں سر اونچا نیچا نہ ہو، پیٹھ کی سیدھ میں ہو یہ سنّت ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱،ح۳، ص ۵۲۶، مسئلہ ۹۴)

(۲)اونچا نیچا ہونا مکروہ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔unwanted)ہے۔ (نماز کا طریقہ ص ۶۷)

{6}قدموں پر نظر ہونا:

رکوع میں دونوں قدموں کی پشت(یعنی پاؤں کے اوپر والے حصّے) پر نظررکھنا مستحب اور ثواب کا کام ہے۔ (احکام نماز ص ۶۵)

{7}ٹانگیں سیدھی ہونا۔

(۱)ٹانگیں سیدھی ہونا سنّت ہے ۔ (بہارِشریعت جلد ۱حصہ ۳ ص۵۲۵)

(۲)پیروں کی انگلیاں مت ہلائیں ۔

{8}تین بار سُبْحان َرَبِّیَ الْعَظِیْم کہنا :

(۱)تین(3) بار سُبْحان َرَبِّیَ الْعَظِیْم کہناسنّت ہے (بہارِشریعت جلد ۱،ح ۳ ،ص۵۲۵(۲۴)) ۔بغیر کسی وجہ کے تین(3) سے کم تسبیح پڑھنا مکروہ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔unwanted)ہے۔ (بہارِشریعت جلد ۱ح ۳ ،ص۶۳۰،مسئلہ ۳۵(۴۳))

اسلامی بہنوں کا فرق

۱)رکوع میں تھوڑا جھکنا(۲)گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا(۳)انگلیاں ملی ہوئی رکھنا(۴)پاؤں جھکے رکھنا:

عورتوں کیلئے رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا اورانگلیاں نہ کھولنا سنّت ہے۔ (بہارِشریعت جلد۱ ،ح ۳، ص۵۲۵(۲۸))

واجب پر عمل کرنا ضروری ہے:

(۱) قراءت کے فورا بعد رکوع کرنا، واجب ہے ۔

(۲) ہر رکعت میں ایک (1) ہی مرتبہ رکوع کرنا، واجب ہے۔(نماز کا طریقہ ص ۳۳،۳۴)

مستحب پر عمل کرنا ثواب ہے:

{1} رکوع میں دونوں قدموں پر نظر رکھنا {2} اکیلےنمازپڑھنے والے کا رکوع میں تین(3) بار سے زیادہ( مگرطاق عدد میں)تسبیح (مثلا ًپانچ(5)، سات(7)، نو(9) مرتبہ۔۔۔) کہنا افضل اور زیادہ ثواب کا کام ہے۔(نماز کا طریقہ،ص ۴۵ مُلخصاً)

ایسا کرنے سے نماز میں کمی آتی ہے، شرعی اجازت کے بغیر کرنے سے نمازی گناہ گار ہوتا ہے:

{1} قراءت رکوع میں پہنچ کر ختم کرنا {2} امام صاحب سے پہلے رکوع یا سجدے میں چلے جانا یا امام صاحب سے پہلے سر اٹھا دینا (بَچِّیاں اور اسلامی بہنیں اپنے اپنے گھروں پراکیلے ہی نماز پڑھیں گی){3} قیام کے علاوہ(other) کسی اور مقام پر قرآن پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔( نَماز کا طریقہ ، ص ۶۲)

نوٹ:کئی مکروہ تحریمی ایسے ہیں جن کی وجہ سے نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم ہے۔ نماز میں اگر کوئی مکروہ تحریمی کام ہو جائے تو ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘ سے مسئلہ پوچھ لیں۔

مکروہ تنزیہی (ناپسندیدہ کاموں)سے بچیں:

{1} رکوع میں بغیرضرورت تین (۳)بار سے کم تسبیح کہنا {2} رکوع میں سر کو پیٹھ سے اُونچا نیچا کرنا(اسلامی بہنیں اور بَچِّیاں رکوع میں تھوڑا سا جھکیں ){3} رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ نہ رکھنا مکروہ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔ unwanted )ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ص۵۳۸ تا۵۲۵ )

’’ قومہ ‘‘

حضرت جابررَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ:

ایک مرتبہ جب گرمی بہت زیادہ تھی اور سورج کوگہن لگ گیا(solar eclipse) تو پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےنماز پڑھائی اور بہت لمبا قیام فرمایا یہاں تک کہ لوگ گِرنے لگے، پھر لمبا رکوع کیا، پھر لمبا قومہ کیا۔( مسلم، کتاب الکسوف،ص۴۵۰،حدیث: ،۹۰۴، مُلخصاً)

نوٹ:کبھی سورج اور زمین کے درمیان چاند آ جا تا ہےاور اس کی وجہ سے سورج کی روشنی کبھی مکمل طور پرچھُپ جاتی ہے اور کبھی سورج کی روشنی کم ہو جاتی ہے ،اسے ’’ سورج گرہن (solar eclipse) ‘‘ کہتے ہیں۔

واقعہ(incident): قومہ بھی لمبا فرمایا

حضرت عبداﷲ ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکہتے ہیں کہ اﷲ کریم کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے زمانہ میں سورج کوگہن لگ گیا(solar eclipse) تو پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے سورۂ بقرہ(جس میں چالیس(40) رکوع ہیں) جتنا لمبا قیام فرمایا پھرلمبا رکوع فرمایا پھر اٹھےتو بہت لمبا قومہ فرمایالیکن یہ(قومہ) قیام سے کچھ کم (لمبا)تھا پھر نماز مكمل فرمائی ۔ جب سورج کا گہن صاف ہو گیا تو فرمایاکہ سورج چاند اﷲ کریم کی نشانیوں میں سے دو (2)نشانیاں ہیں نہ توکسی کی موت کی وجہ سے گھٹتے (یعنی کم ہوتے )ہیں نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے۔جب تم یہ(گہن) دیکھو تو اﷲ کریم کا ذکر کرو۔ لوگوں نےعرض کیا یَارَسُول اﷲ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی اس جگہ سے کچھ لینے کی کوشش فرمائی پھر دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹے فرمایا میں نے جنّت دیکھی تو اس سے پھلوں کا گُچھا (bunch of fruits)لینا چاہا اگر لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس سے کھاتے رہتے۔ (صحیح البخاری،ج۲،ص۳۷،بیروت ملتقطاً)

قومہ:

{1}امام ومنفرد(یعنی اکیلے نماز پڑھنے والے)کا سَمِعَ اللہْ کہتے ہوئے کھڑے ہونا۔

{2}حمدہ کی ”ہ“پر سیدھے کھڑے ہونا:

(۱) امام ومنفرد (یعنی اکیلے نماز پڑھنے والے)کے لیے سنّت یہ ہے کہ ”سَمِعَ اللہْ لِمَنْ حَمِدَہ“ اس طرح کہتے ہوئے کھڑے ہوں کہ ”سَمِعَ اللہ “ کی ”سین“ رکوع سے سراٹھانے کے ساتھ کہیں اور”حَمِدَہ “کی” ہ “ سیدھا ہونے کے ساتھ ختم۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد۶ ص ۱۸۸، مُلخصاً)

(۲)”سَمِعَ اللہْ لِمَنْ حَمِدَہ“کی آخری ”ہ “کوساکن پڑھے(یعنی آخر میں ” دَ ہٗ “نہ پڑھے بلکہ ”دَہْ “پڑھے)۔ (بہارِشریعت جلد ۱ ح ۳،ص۵۲۷،مسئلہ ۹۸)

{3}مقتدی کا اس وقت” اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد“ کہنا:

(۱) مقتدی (یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والا ) جب امام صاحب کے ساتھ قومے(یعنی رکوع کے بعد سیدھا کھڑے ہونے ) کے لیے اُٹھے تو ”اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد “کا”الف“ کہنا اورجو صرف ”رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد“ پڑھتا ہوتو امام صاحب کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے ”رَبَّنَا “ کی” را “ کہنااور(دونوں کا) ”حَمْد“ کی دال تک پڑھتے ہوئے سیدھا کھڑےہوجانا۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد ۶ ص۱۸۸ ، مُلخصاً)

(۲) قومہ یعنی رکوع سے سیدھا کھڑاہونا واجب ہے۔ (بہارِشریعت جلد ۱ ح ۳،ص۵۱۸،مسئلہ ۲۰، مُلخصاً)

{4}کھڑے ہوکر منفرد کا اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد کہنا:

(۱) منفرد (یعنی اکیلے نماز پڑھنے والے) کو ”سَمِعَ اللہْ لِمَنْ حَمِدَہ“ کہتے ہوئےرکوع سے اُٹھنا اور جب سیدھا کھڑا ہو جائے تو ”اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد “ (یعنی دونوں)کہنا سنّت ہے ۔ (بہارِشریعت جلد ۱ ح ۳،ص۵۲۷،مسئلہ ۳۸، مُلخصاً)

(۲) چار صورتیں (cases)ہیں:(a)” رَبَّنَالَکَ الْحَمْد “ سے بھی سنّت ادا ہو جاتی ہے(b) مگر” واو “ ہونا بہتر ہے(یعنی ” رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد “) اور(c)”اَللّٰھُمَّ “ ہونا اس سے بہتر(یعنی”اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا َلَکَ الْحَمْد “) اور(d) سب میں بہتر یہ ہے کہ دونوں (یعنی ”اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد “)ہوں۔(بہارِشریعت جلد ۱ حصہ ۳ ، ص ۵۲۷، مسئلہ۹۹)

{5}امام ومقتدی کاتعدیل ارکان کرنا:

(۱) قومہ یعنی رکوع کے بعد بالکل سیدھا کھڑا ہونا، واجب ہے (نماز کا طریقہ ص ۳۳ ) ۔قومہ میں پیٹھ سیدھی ہونے سے پہلے ہی سجدے میں چلے جانا مکروہ تحریمی اور گناہ ہے ۔(بہارِشریعت جلد ۱ ح ۳،ص۶۲۹،مسئلہ۳۰)

(۲) تعدیلِ ارکان قومے میں بھی واجب ہے ( یعنی مکمل کھڑے ہونے کے بعد ایک مرتبہ”سُبْحَانَ اللہ “ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنی دیر رُکنا) (بہارِ شریعت ، ح۳، ص۵۱۸، واجب ۱۹، ماخوذاً) ۔تعدیلِ ارکان بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔ (نماز کا طریقہ ص ۸۸)

(۳) امام ومقتدی(امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے) توجُّہ (attention) فرمائیں ، قومہ میں آنے کے بعد ایک تسبیح( یعنی ایک مرتبہ”سُبْحَانَ اللہ “ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنی دیر) ٹھہریں (مشورہ یہ ہے کہ اس جگہ امام صاحب اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے ایک سانس لیں پھر سجدے میں جائیں )۔منفرد(یعنی اکیلے نماز پڑھنے والا) اگر سنّت کے مطابق قومہ ادا کرے تو اس سے تعدیلِ ارکان کا واجب پوراہو جائے گا۔

{6}ہاتھ لٹکے ہوئے ہونا:

(۱) رکوع سے جب اٹھے توہاتھ لٹکا ناسنّت ہے۔ (بہارِ شریعت ، ح۳، ص۵۲۷، مسئلہ۹۷(۳۴))

(۲) نماز میں کمر پر(دونوں پہلوؤں(both sides) کے درمیان) ہاتھ رکھنا مکروہ تحریمی اور گناہ ہے۔ (نمازکے احکام ص۸۰ )

’’ سجدہ ‘‘

حضرت عطا ء خراسانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :

جو بندہ زمین کے ٹکڑوں (یعنی حصّوں )میں سے کسی بھی ٹکڑے (یعنی حصّے )پر سجدہ کرتا ہے تو وہ زمین کا ٹکڑا قیامت کے دن اس(سجدہ کرنے والے) کے حق میں گواہی (testimony )دے گا اور اس کی موت کے دن اس پر روئے گا۔(البدور السافرۃ ص۲۸۱ رقم ۸۲۸)

واقعہ(incident): حضرت سُلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے گھوڑے سے اُتر کر سجدہ کیا

اللہ کریم کے پیارے نبی حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام بالوں سے بنی ہوئی ایک چٹائی (mat)پر تشریف فرما تھے اور ان کے اصحاب(یعنی اُمّتی) ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ آپ نے ہوا کو حکم دیا تو اُس نے چٹائی کو اوپر اٹھالیا، جنّات وانسان آپ کے سامنے چلنے لگے، پرندوں نے سایہ(shadow) کردیا۔ ایک کسان (farmer) کھیت میں کام کررہا تھا۔ اس نے دل میں کہا: اگر حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام میرے سامنے ہوتے تو میں اُن سے تین(3) باتیں کرتا اللہ کریم نے آپ کی طرف وحی فرمائی(یعنی پیغام بھیجا) کہ کسان کے پاس جائیے۔ آپ گھوڑے پر بیٹھ کر اُس کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اے کسان!میں سلیمان(عَلَیْہِ السَّلَام) ہوں ، تم جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو! کسان عرض کرنے لگا: آپ کو میر ے دل کی بات کیسے پتا چلی؟حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اللہ کریم نے مجھے اس کا علم دیا۔ کسان نے عرض کی: میں نے اس علم پر یقین کیا(یعنی آپ سچّے ہیں)۔(پہلی بات یہ ہے:) خدا کی قسم! جب میں نے آپ کو نعمتوں میں دیکھا تو خود سے کہنے لگا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کو جو فائدہ جس نعمت سے ملا تواس نعمت کا مزہ دوبارہ نہیں ملے گا (کہ وہ ختم ہوگئی)اور مجھے بھی گزری ہوئی پریشانی دوبارہ نہیں ہوگی (یعنی نعمت کا مزہ اور پریشانی کا غم دونوں ختم ہو نے والے ہیں) ۔ پھر اُس نے دوسری بات عرض کی:میں نے خود سے یہ کہا کہ حضرت سلیمانعَلَیْہِ السَّلَامبھی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہیں گے اور مجھے بھی مرجانا ہے(یعنی نعمت کا مزہ اور پریشانی کا غم باقی نہیں رہے گا)۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نےفرمایا: تم نے سچ کہا۔ کسان نے عرض کی : تیسری بات میں نے صرف اپنے آپ کو خوش کرنے کے لئے کہی تھی کہ قیامت کے دن حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا اور مجھ سے اس طرح کے سُوالات نہیں ہوں گے۔یہ سُن کر حضرت سلیمانعَلَیْہِ السَّلَام نے گھوڑے سے اُتر کر سجدہ کیا اور روتے ہوئے اللہ کریم سے عرض کی: اے میرے ربّ! اگر تو جَوَّاد (یعنی سب سے زیادہ کرم فرمانےوالا نہ ہوتا) اور بخل (یعنی کنجوسی)سے پاک نہ ہوتا تو میں ضرور تجھ سے ان نعمتوں کے واپَس لینے کا سُوال کرتا (یعنی عرض کرتا کہ اپنی نعمتیں واپس لے لے )۔ اللہ کریم نے وحی فرمائی(یعنی اپنا پیغام بھیجا): اے سلیمان! (سجدے سے) اپنا سر اٹھالو! کیونکہ میں اپنے بندے سے راضی (یعنی خوش)ہوکر جو نعمت اُسے دیتا ہوں اُس کا حساب نہیں لوں گا۔ (اللّٰہ والوں کی باتیں ج۵ص۲۳۶،مُلخصاً)

{1} اَللہ ُاَکْبَر کہتے ہوئے سجد ے میں جانا:

(۱) سجدے میں جانے کیلئے تکبیر(یعنی اَللہ ُاَکْبَر) کہناسنّت ہے ۔(نماز کا طریقہ ص۳۹ )

(۲) قومے سے سجدے میں جاتے ہوئے”اَللہ اَکْبَر“ کی” الف“ کہنا اور سجدے میں مکمل پہنچتے ہی ”اَکْبَر“ کی ”راء “ ختم کرنا کیونکہ نماز میں ہر اُ س تکبیر(یعنی اَللہ ُاَکْبَر) جسے کہتے ہوئے نمازی ایک رُکن (مثلاً رکوع، قومہ یا سجدے)سے دوسرے رُکن میں چلا جاتا ہے(اُس میں یہ انداز رکھنا) سنّت ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد۶ ص ۱۸۸، مُلخصاً)

(۳) سجدے میں جاتے وقت پاجامہ وغیرہ آگے یا پیچھے سے کپڑا اٹھالینا، کپڑا سمیٹنا ہے جو کہ مکروہ تحریمی، ناجائز اور گناہ ہے۔ (نمازکا طریقہ ص۵۵، مُلخصاً)

{2}سجدے میں جانے کیلئے سیدھی طرف(right side) زور دینا:

(۱) مستحب ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱، ص۶۳۴،مسئلہ۶۲ مُلخصاً)

(۲) یاد رہے کہ یہ زور اس طرح نہیں دینا کہ دیکھنے میں نظر آئے،بس اپنا کچھ وزن سیدھےپاؤں پر ڈالاجائے، جماعت سے نماز پڑھتے ہوئے اس بات کا بہت خیال رکھا جائے کہ پیر پر وزن دینے کی وجہ سے ،ساتھ نماز پڑھنے والے نمازی کو ہر گز ،ہرگز، ہر گز کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔

{3}پہلے دونوں گھٹنے(knees) ایک ساتھ پھر ہاتھ پھردونوں ہاتھوں کے بیچ میں ناک پھر پیشانی رکھنا :

(۱) پہلے گھٹنے زمین پر رکھئے پھر ہاتھ پھردونوں ہاتھوں کے بیچ میں اس طرح سر رکھیں کہ پہلے ناک زمین پر لگےپھر پیشانی، یہ مکمل انداز سنّت ہے(بہارِشریعت جلد ۱،ح ۳،ص۵۲۸،مسئلہ۱۰۱، مُلخصاً) ۔سجدےکو جاتے وقت گھٹنے سے پہلے ہاتھ رکھنا مکروہ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔unwanted)ہے (بہارِشریعت جلد ۱،ح ۳،ص۶۳۳،مسئلہ۵۳، مُلخصاً) ۔اگر کسی وجہ سے دونوں گھٹنے ایک ساتھ زمین پر نہ رکھ سکتا ہو، تو پہلے سیدھا رکھے پھراُلٹا۔ (بہارِشریعت جلد ۱،ح ۳،ص۵۲۹،مسئلہ۱۰۴)

(۲) سجدے میں گھٹنے زمین پر رکھنا واجب ہے (جدّ الممتار، جلد ۳، صفحہ ۱۸۰) ۔ دونوں گھٹنے ایک ساتھ زمین پر رکھے۔ (بہارِشریعت جلد ۱،ح ۳،ص۶۳۳،مسئلہ۱۹)

(۳) سجدے میں زمین پر ہاتھ رکھنا بھی واجب ہے۔(جدّ الممتار، جلد ۳، صفحہ ۱۸۰مُلخصاً)

{4} سجد ے میں پیشانی اور پاؤں کی ایک اُنگلی کا پیٹ اچھی طرح لگانا:

(۱) پیشانی(forehead) کو زمین پر اچھی طرح جمانا (یعنی اچھی طرح لگانا ) لازم اور فرض ہے کہ اس کے بغیر سجدہ ہوگا ہی نہیں ، اسی طرح پاؤں کی کم از کم ایک (1)انگلی کا پیٹ(یعنی اُنگلی کا وہ اُبھرا ہوا حصّہ(part) جو چلنے میں زمین پر لگتا ہے) زمین پر لگنا فرض ہے ۔ (فتاوی رضویہ ج۳،ص۲۵۳،مُلخصاً)

(۲) کسی نرم چیز مثلاً باغ میں گھاس پر یا روئی کے گدے یا قالین(carpet) وغیرہ پر سجدہ کیا تو پیشانی (forehead) کو زمین پراتنا دبانا لازم ہے کہ اب اور طاقت لگائیں تب بھی مزید(more) نہیں دبے گی۔ اگر کم دبائی (press less)کہ اور دب سکتی تھی تو نماز نہیں ہوگی() اسپرنگ والے گدّے(spring mattress) پر پیشانی اچھی طرح (یعنی صحیح طرح)نہیں جمتی ہے، اس لیے اُس پر نماز نہیں ہوتی۔(نماز کا طریقہ ص۳۰، مُلخصا)

(۳) ہر رکعت کے دو( 2 )سجدے فرض ہیں۔(بہارِ شریعت ج۱، ص۵۱۳، مُلخصاً)

(۱) انگلیاں ملی ہوئی قبلہ رخ رکھنا سنّت ہے۔ (نمازکے احکام ص۵۵)

(۱) انگلیاں ملی ہوئی قبلہ رخ رکھنا سنّت ہے۔ (نمازکے احکام ص۵۵)

{6}پنڈلیاں(calves)رانوں(thigh) سے ،رانیں پیٹ(abdomen) سے ،کلائیاں (wrist)زمین سے، بازو(arms) کروٹوں (sides)سے الگ ہوں:

(۱) مرد کے لیے یہ دونوں کام سنّت ہیں کہ (۱)رانیں(thighs) پیٹ سےاور(۲) بازو(arms) کروٹوں (sides of the body)سے الگ ہوں( اگر صف میں ہوں توبازو کو زمین سے اُٹھا کر اپنے جسم سے لگا کر رکھیں ) (نماز کا طریقہ ص۳۹ مُلخصاً) ۔رانوں (thighs) کو پنڈلیوں(calves) سے الگ رکھیں۔ (نمازکا طریقہ ص۱۰)

(۲) مردکا ران کوپیٹ سے چپکا دینا مکروہ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔unwanted)ہے مگر عورت اسےملا ئے گی۔ (بہارِشریعت جلد ۱،ح ۳،ص۶۳۶،مسئلہ ۷۵، مُلخصاً)

(۳) مرد کا سجدے میں کلائیاں(wrists) بچھانا مکروہ تحریمی ہے (بہارِشریعت جلد ۱،حصہ ۳،ص۶۲۶،مسئلہ ۱۲) ۔ لیکن عورت سجدے میں اپنی کلائی بچھائے گی۔(رد المحتار، ۲/۴۹۶)

{7}سجدے (Prostrate)میں پیشانی اورناک کی ہڈ ی(nasal bone) جمانا کہ زمین کی سختی محسوس ہو:

سجدے میں زمین پر پیشانی جمنا(یعنی صحیح طرح لگانا) تو فرض ہے کہ پیشانی صحیح طرح نہ لگی توسجدہ نہ ہوگا اوراگر ناک کی(نوک یعنی ناک کے سوراخ والا نرم حصّہ نہیں بلکہ ناک کا سخت حصّہ یعنی ) ہڈی نہ جمی تو نمازمکروہ تحریمی واجب الاعادہ(یعنی دوبارہ پڑھنا واجب) ہوگی ۔صحیح طرح لگنے اور جمنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ زمین کی سختی محسوس ہو۔(نمازکا طریقہ ص۳۰،مُلخصاً)

{8}سجدے میں نظرناک پر رکھنا:

(۱) سجدے میں نظرناک پر رکھنا مستحب ہے ۔ (نمازکا طریقہ ص۴۵)

{9}پاؤں کی دسوں انگلیوں(ten fingers) کا پیٹ ( یعنی اُنگلی کا وہ اُبھرا ہوا حصّہ جو چلنے میں زمین پر لگتا ہے۔ fingure tips)قبلہ رخ(towards Qiblah) زمین پر لگانا:

(۱)سجدے میں پاؤں کی اکثر(مثلاً ہر پیر کی تین تین )اُنگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا واجب ہے۔ (مُلخصاًفتاویٰ رضویہ شریف جلد ۷ ،ص ۳۷۶)

(۲) سجدے میں پیر کی دسوں انگلیوں کا پیٹ (یعنی اُنگلی کا وہ اُبھرا ہوا حصّہ(part) جو چلنے میں زمین پر لگتا ہے)زمین پر لگنا سنّت ہے اسی طرح دسوں انگلیوں کا قبلہ رخ ہونا بھی سنّت ہے۔ (نمازکا طریقہ ص۳۹)

(۳) سجدے میں اُنگلیاں قبلہ رخ نہ رکھنا مکروہ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔unwanted)ہے ۔ (بہارِشریعت جلد ۱،ح ۳،ص۶۳۵،مسئلہ ۶۴، مُلخصاً)

{10}تین (۳)بارسُبْحٰنَ رَ بِّیَ الْاَعْلٰی کہنا :

(۱)سجدے میں کم ازکم تین بار سُبْحٰنَ رَ بِّیَ الْاَعْلٰی کہنا سنّت ہے (نمازکا طریقہ ص۳۹) ۔ اکیلےنمازپڑھنے والے کا رکوع میں تین (3) بار سے زیادہ(طاق عدد ۔odd number میں)تسبیح کہنا(مثلا ًپانچ(5)، سات(7)، نو (9) بار) افضل اور زیادہ ثواب کا کام ہے۔(نماز کا طریقہ،ص ۴۵ مُلخصاً)

(۲) سجدہ میں بلاضرورت تین (3)بار سے کم تسبیح کہنا مکروہ تنزیہی (ناپسندیدہ)ہے۔(نماز کا طریقہ ص۶۶)

(۳)یاد رہے! تعدیلِ ارکان سجدے میں بھی واجب ہے( یعنی سجدے میں پہنچنے کے بعدایک مرتبہ”سُبْحَانَ اللہ “ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنی دیررُکنا) ۔ (بہارِ شریعت ، ح۳، ص۵۱۸، واجب ۱۹، ماخوذاً)

(۴)تعدیلِ ارکان بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ۔(نماز کا طریقہ ص ۸۸)

(۵)اگر سنّت کے مطابق سجدے کی تسبیح پڑھی جائے تو یہ واجب بھی ادا ہو جائے گا۔

سجدے کے مزید مسائل :

{1}ایسی جگہ سجدہ کیا جو پاؤں رکھنے کی جگہ (مثلاً زمین) سے بارہ(12) انگل(یعنی اُنگلی کی موٹائی نہ کہ لمبائی،9 انچ۔inch (دارالافتاء اہلسنّت، غیر مطبوعہ web-75)) سے زیادہ اونچی ہو تو سجدہ نہ ہوا لھذا وہ نماز بھی نہیں ہوئی ۔ (بہارِ شریعت ،جلد ۱، ص۵۱۵، مُلخصاً)

{2} نماز کے دوران کنکریاں(یعنی چھوٹے چھوٹے پتھر) ہٹانا مکروہ تحریمی ہے۔ہاں !اگر سنّت کے مطابق سجدہ نہ ہو سکتا ہو توایک بار ہٹاسکتا ہے اور اگر واجب پورا نہ ہوتوایک بار سے زیادہ ہٹا سکتاہے۔(نمازکے احکام ص۵۷)

اسلامی بہنوں کا فرق

)سمٹ کرسجدہ کرنا کہ بازو کروٹوں سے(۲)پیٹ رانوں سے (۳)رانیں پنڈلیوں سے(۴)پنڈلیاں زمین سے ملانا: یہ چاروں(all four) کام عورتوں کے لیے سنّت ہیں ۔ (نما ز کا طریقہ، ص۴۴) (۵)دونوں پاؤں سیدھی طرف نکالنا: ()خواتین سجدے اور قعدے دونوں میں پاؤں سیدھی طرف نکال دیں۔(نما ز کا طریقہ، ص۱۴)

واجب پر عمل کرنا ضروری ہے:

{1} ترتیب(sequence) کے مطابق ایک سجدے کے بعد بیٹھناپھر دوسرا سجدہ کرنا واجب ہے، اس کے علاوہ(other) کسی رکن (مثلاً قعدہ یعنی اَلتَّحِیَّات)کو ادا نہ کرنا، واجب ہے {2} ہر رکعت میں دو( 2 )ہی بار سجدہ کرنا، واجب ہے(یاد رہے کہ ہر رکعت کے دوسجدے فرض ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جتنی رکعت نماز ہو(مثلاً دو(2) رکعت) تو اُس سے دُگنے (double) سجدے (مثلاً چار(4)سجدے)اُس نماز میں کرنا فرض ہیں اور ہر رکعت میں دو(2) ہی سجدے کرنا واجب ہے اور دو(2) سے زیادہ سجدے نہ کرنا بھی واجب ہے) ۔(نماز کا طریقہ ص ۳۳ ، ۳۴ ماخوذاً)

مستحب پر عمل کرنا ثواب ہے:

{1} اکیلےنمازپڑھنے والے کا سجدے میں تین بار سے زیادہ(طاق عدد میں)تسبیح کہنا(مثلا ًپانچ(5)، سات(7)، نو(9) مرتبہ۔۔۔ کہنا) افضل اور زیادہ ثواب کا کام ہے {2} سجدہ بلاواسطہ(یعنی جائے نماز وغیرہ کے بغیر)زمین پر کرنا {3} سجدہ میں ناک کی طرف اور قعدے میں (یعنی دو(2) رکعت کے بعد یا نماز ختم کرنے کے لیے آخر میں بیٹھ کر) گود(lap) کی طرف دیکھنا۔(نماز کا طریقہ،ص۴۵ )

ایسا کرنے سے نماز میں کمی آتی ہے، شرعی اجازت کے بغیر کرنے سے نمازی گناہ گار ہوتا ہے:

{1} سجدے میں گھٹنے (knees) اور ہاتھ زمین پر نہ رکھنا۔ (جدالممتار، ۳/۱۸۰ ماخوذاً)

{2} کسی واجب کوجان بوجھ کر (deliberately)چھوڑ دینا(مثلا: قومہ اور جلسہ میں پیٹھ سیدھی ہونے سے پہلے ہی سجدے میں چلے جانا) ۔(بہارِ شریعت ، ح۳، ص۶۲۹، مُلخصاً)

نوٹ:کئی مکروہ تحریمی ایسےہیں کہ ان کی وجہ سےنماز دوبارہ پڑھنے کا حکم ہے۔ نماز میں اگر کوئی مکروہ تحریمی کام ہو جائے تو ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘ سے مسئلہ پوچھ لیں۔

’’ جلسہ ‘‘

حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ:

نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دو(2) سجدوں کے درمیان کہتے(یعنی دعا کرتے) تھے” یاربّ مجھے بخش دے“۔(نسائی ج۲،ص ۲۳۱، بیروت)

واقعہ(incident): دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھو!

ایک شخص (مدینے پاک میں موجود )مسجد نَبَوی میں آئے اور بہت جلد ی جلدی نماز پڑھی، نماز مکمل کرنے کے بعد پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔ تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وَعَلَیْکَ السَّلَام، اِرْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ (یعنی واپس جا پھر نمازپڑھ کہ تو نے نماز نہ پڑھی )۔ انہوں نے دوبارہ ویسے ہی نماز پڑھی، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےپھروہی فرمایا ۔ آخِر میں اُنہوں نے عرض کی: قسم اُس کی جس نے حضور (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) کو حق کے ساتھ بھیجا(یعنی سچا نبی بنایا)، مجھے ایسی ہی نماز پڑھنی آتی ہے،آپ بتا دیں ( کہ میں نماز کس طرح پڑھوں ؟) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےفرمایا: رُکوع اور سجدے اطمینان (یعنی آرام۔calmly) سے کرو اور رکوع سے (جب کھڑے ہو تو)سیدھا کھڑے ہو اور دونوں سجدوں کے درمیان(جب بیٹھو تو) سیدھا بیٹھو ۔ (بخاری ج۱ص۲۶۸ حدیث۷۵۷ ملخّصاً)

جلسہ(یعنی دو سجدوں کے بیچ میں بیٹھنا) :

دو سجدوں کے درمیان بالکل سیدھا بیٹھنا، واجب ہے ۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۱۸ ، مُلخصاً)

{1}تکبیر کہتے ہوئے جلسے میں جانا :

پہلے سجدے کے بعد بیٹھنے کیلئے اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے اس طرح جانا کہ” اَللہُ اَکْبَر “کی” الف“ کہتے ہی سجدے سے سر اُٹھانا اور ”اَکْبَر“ کی” راء “ پر مکمل بیٹھ جانا، (یہ مکمل انداز)سنّت ہے۔ ہرتکبیر انتقال (یعنی جتنی مرتبہ اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا جاتا ہے، اُس)میں یہی سنّت ہے۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد۶ ص ۱۸۸، مُلخصاً)

{2}پہلے پیشانی پھر ناک پھر ہاتھ اٹھانا:

(۱)جب سجدے سے اٹھیں تو پہلے پیشانی پھر ناک پھر ہاتھ پھر گھٹنے (knees)اٹھانا چاروں کام سنّت ہیں ۔ (نمازکا طریقہ، ص۳۹)

{3}جلسے میں سیدھا قدم کھڑاکرکے اُلٹا قدم بچھا کر اس پر بیٹھنا :

(۱)جلسے میں سیدھا قدم کھڑاکرکے اُلٹا قدم بچھا کر اس پر بیٹھنا سنّت ہے اورہاتھوں کا رانوں پر رکھنا بھی سنّت ہے۔(نماز کا طریقہ ص ۳۹، مُلخصاً)

(۲)نماز میں بلاضرورت چارزانو ، چوکڑی مارکر(Sitting cross-legged)بیٹھنا مکروہ تنزیہی (اور ناپسندیدہ)ہے۔ (نما ز کا طریقہ ص۶۶،۶۷)

{4}سیدھے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ ہونا اوردونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا :

(۱) جلسے میں دونوں ہاتھ رانوں پر رکھناسنّت ہے۔(نماز کا طریقہ ص ۳۹)

{5}نظرگود(Lap)میں رکھنا اور اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی کہنا :

(۱)جلسے میں اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی کہنا بھی مستحب ہے۔(نماز کا طریقہ ص ۱۱)

جلسے کے مزید مسائل :

{1} تعدیلِ ارکان جلسے میں بھی واجب ہے( یعنی مکمل بیٹھنے کے بعدایک مرتبہ”سُبْحَانَ اللہ “ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنی دیر رُکنا) (بہارِ شریعت ، ح۳، ص۵۱۸، واجب ۱۹، ماخوذاً) ۔ تعدیلِ ارکان بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔ (نماز کا طریقہ ص ۸۸)

{2}جلسے میں پیٹھ(back) سیدھی ہونے سے پہلے دوسرے سجد ے میں چلے جانا مکروہ تحریمی ہے۔(بہارِ شریعت ،جلد ۱، ح۳، ص۶۲۹)

{2}جلسے میں پیٹھ(back) سیدھی ہونے سے پہلے دوسرے سجد ے میں چلے جانا مکروہ تحریمی ہے۔(بہارِ شریعت ،جلد ۱، ح۳، ص۶۲۹)

اسلامی بہنوں کا فرق:

(۱) دونوں پاؤں سیدھی طرف نکالنا(۲)الٹی سرین پر بیٹھنا(۳)سیدھا ہاتھ سیدھی ران کے بیچ میں اوراُلٹااُلٹی ران کے بیچ میں رکھنا۔(نماز کا طریقہ ص۱۴)

’’ دُوسری رکعت کیلئے اٹھنا ‘‘

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ :

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن سے قراءت شروع کرتے اور خاموش بالکل نہ ہوتے ۔(مسلم شریف،ج۱،ص۴۱۹، بیروت)

واقعہ(incident): دوسری(2nd ) رکعت میں جاتے ہوئے، مُبارک کندھوں پر

حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب’’بخاری شریف‘‘ میں ہے،حضرت ابوقتا دہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ : اللہ کریم کے مَحبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ (اپنی نواسی۔ granddaughter) اُمامہ بنتِ ابوالعاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو اپنے مبارَک کندھے(shoulder) پر اٹھائے ہوئے تھے ۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اُٹھا لیتے ۔ (بُخاری ج۴ص۱۰۰حدیث۵۹۹۶) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ : پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُمّت کی تعلیم(یعنی ہمیں سکھانے) کے لیے ایسا کیا تھا،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ایسا کرنا ،ثواب کا کام تھا (تفہیم البخاری ج اص۸۶۴، مَاخوذاً) ۔ بہارِشریعت جلد1صفحہ 476پر ہے :(۱)اگر گود میں اتنا چھوٹا بچّہ لے کر نماز پڑھی کہ خود اس کی گود میں بچّہ اپنی طاقت سے نہ رُک سکے بلکہ اس نمازی کے روکنے سے گود میں ہو اور اس بچّے کے جسم یا کپڑے پراتنی ناپاکی ہو کہ جس سے نماز نہ ہوسکے، تو نمازنہیں ہو گی کہ یہی آدمی اس بچّے (اور اس ناپاکی) کو اْٹھائے ہوئے ہے اور (۲) اگر وہ بچّہ اپنی طاقت سے رُکا ہوا ہے کہ نماز پڑھنے والے کے پکڑنے کی اُسے ضرورت نہیں تو نماز ہو جائے گی ( بچّے کے جسم یا کپڑے پر اتنی ناپاکی ہو جس سے نماز نہ ہوسکے تب بھی اس صورت(case) میں نمازی کی نماز ہو جائے گی) کہ اب یہ شخص اُس بچّے (اور اُس ناپاکی) کو اُٹھائے ہوئے نہیں ہے پھر بھی (۳) بغیر ضرورت بچّے کو نماز میں اُٹھنا مکروہ ہے چاہے اُس کے جسم یا کپڑوں پر ناپاکی نہ بھی ہو ۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص۴۷۶،مسئلہ۲، مُلخصاً)

دُوسری رکعت کیلئے اٹھنا:

{1} پنجوں (sole) کے ذریعے(through) گھٹنوں(knees) پر ہاتھ رکھ کر،تکبیر کہتے ہوئے کھڑے ہونا:

(۱) پہلی رکعت کے دوسرے(2nd )سجدے کے بعد دوسری رکعت کے قیام میں جانے کیلئے(گھٹنوں (knees) پر ہاتھ رکھتے ہوئے،پنجوں (sole)پر) اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے اس طرح جانا کہ” اَللہُ اَکْبَر “کی ”الف“ کہتے ہی جانا شروع کریں اور ”اَکْبَر“ کی” راء “ پر مکمل کھڑے ہو جائیں، (یہ مکمل انداز)سنّت ہے۔ ہرتکبیر انتقال (یعنی جتنی مرتبہ اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا جاتا ہے، اُس)میں یہی سنّت ہے۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد۶ ص ۱۸۸، مُلخصاً)

دُوسری رکعت کیلئے اٹھنا:

(۲) گھٹنوں (knees) پر ہاتھ رکھ کر پنجوں (sole)کے ذریعے(through) کھڑے ہونا(یہ دونوں کام) سنّت ہیں (کمزوری یا پاؤں میں تکلیف وغیرہ کی وجہ سے زمین پرہاتھ رکھ سکتے ہیں )(نما ز کا طریقہ ص ۴۰)

(۳)اُٹھتے وقت بغیر ضرورت ہاتھ سے پہلے گھٹنے زمین سے ا ُٹھانا مکروہ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔unwanted) ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۳، ص۶۳۳، مسئلہ۵۳ ، مُلخصاً) (۴)اسی طرح اُٹھتے وقت آگے پیچھے پاؤں اُٹھانا مکروہِ تنزیہی ہے۔ (نماز کا طریقہ ص ۶۷)

{2}اُلٹی طرف زور دیتے ہوئے کھڑے ہونا:

(۱)اُلٹی طرف زور دیتے ہوئے کھڑے ہونا مستحب (اور ثواب کا کام)ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص۶۳۴،مسئلہ۶۲، مُلخصاً)

(۲)یاد رہے کہ یہ زور اس طرح نہیں دینا کہ دیکھنے میں نظر آئے،بس اپنا کچھ وزن اُلٹےپاؤں پر ڈالاجائے، جماعت سے نماز پڑھتے ہوئے اس بات کا بہت خیال رکھا جائے کہ پیر پر وزن دینے کی وجہ سے ساتھ نماز پڑھنے والے نمازی کو ہر گز ،ہرگز، ہر گز کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔

{3} قعدہ اخیرہ تک بقیہ نماز مکمل کرنا۔

(۱) مرد کے لیےالٹا پاؤں بچھا کر(۲) دونوں سرین(یعنی بیٹھنے کی جگہ) اُس پر رکھ کر(۳)سیدھا قدم کھڑا کر کے (۴)اس کی انگلیاں قبلہ رخ کرکے(۵)سیدھا ہاتھ سیدھی ران پر اور(۶)الٹا ہاتھ الٹی ران پر رکھ کر (۷) انگلیاں اپنی حالت پر (normal state) رکھتے ہوئے(۸) گھٹنوں کے پاس رکھنا(اور جلسے کی طرح بیٹھنا) ۔ نوٹ: یہ آٹھوں(8) کام سنّت ہیں ۔(نماز کا طریقہ ص ۴۰)

اسلامی بہنوں کا فرق :

(۱) قعدے میں دونوں پاؤں سیدھی طرف نکالنا (۲)الٹی سرین(یعنی اُلٹی طرف کی بیٹھنے کی جگہ) پربیٹھنا (۳) سیدھا ہاتھ سیدھی ران ( کے بیچ میں ) (۴)اوراُلٹا ہاتھ اُلٹی ران (کے بیچ )میں رکھنا(۵)انگلیاں اپنی حالت پر (normal state) رکھنا۔(بہارِ شریعت ح۳،ص۵۳۰،مسئلہ ۱۰۹)

قعدے میں گود(Lap)پر نظررکھنا:

{1} قعدے میں گودپر نظررکھنا مستحب (اور ثواب کا کام)ہے۔ (نما ز کا طریقہ۴۵) {2} نماز میں بلا مجبوری چوکڑی مار کر(یعنی چار زانُو۔sitting cross-legged) بیٹھنا مکروہ تنزیہی(اور ناپسندیدہ۔unwanted) ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص۶۳۲، مسئلہ ۴۸ )

اَلتَّحِیّات پڑھنا اور اس طرح شہادت کااشارہ کرنا :

{1} شہادت میں اشارے کا طریقہ:(۱) ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘اس طرح پڑھنا کہ سیدھے ہاتھ کی چھوٹی (little finger) اور اس سے پہلے والی اُنگلی کو بند کر کے ہاتھ سے ملا لینا(۲) انگوٹھے (thumb) اور بیچ والی اُنگلی (middle finger)سے گول دائرہ بنانا اور سب سے پہلی اُنگلی کو اس پر رکھنا(۳) اب جب ’’لَا‘‘پر پہنچیں (یعنی اَشْھَدُ اَنْ لَّا ) تو شہادت کی انگلی (index finger یعنی ہاتھ کی وہ اُنگلی کہ جو انگوٹھے کے ساتھ ہوتی ہے) کواٹھا نا اور (۴) ’’اِلَّا ‘‘ (یعنی لَا اِلٰـہَ اِلَّا) پرنیچے رکھ دینا اور سب اُنگلیاں سیدھی کرلینا۔

{2}اَلتَّحِیّات میں تَشَہُّد پر اشارہ کرنا سنّت ہے ( نماز کا طریقہ ص۴۰) ۔سب قعدوں میں تَشَہُّد (یعنی اَلتَّحِیّاتُ سے وَرَسُوْلُہٗ تک) مکمل پڑھنا واجب ہے ،اگر ایک (1)حرف بھی چھوڑے گا توواجب چھوٹ جائےگا (نما ز کا طریقہ ص ۳۳، ۳۴مُلخصاً) ۔اَلتَّحِیّاتُ کو”حمد “(یعنی اللہ کریم کی تعریف ) ،درودشریف اور دعا کی نیّت سے پڑھے۔

{3} فرض، وِتْر اور سنّت مؤکّدہ کے قعدۂ اولیٰ میں ’’اَلتَّحِیَّات‘‘ کےبعد کچھ نہ پڑھنا، واجب ہے ۔اگر بے خیا لی میں اَللّٰھُمَّ صِلِّیٰ عَلیٰ مُحَمَّدٍ یا اَللّٰھُمَّ صِلِّیٰ عَلیٰ سَیِّدِنَا کہہ لیاتوسجدہ سہو واجب ہوگیا اوراگر جان بوجھ کر(deliberately) کہاتونماز دوبارہ پڑھناواجب ہے۔(نما ز کا طریقہ ۳۳)

{4}نفل اور سنّتِ غیر مؤکّدہ کے قَعدۂ اولیٰ میں تَشَھُّد کے بعد درود شریف پڑھنا سنّت ہے۔ (نما ز کا طریقہ ۴۱، مُلخصاً)

واجب پر عمل کرنا ضروری ہے:( قَعدۂ اولیٰ)

{1} قَعدۂ اولیٰ کرنا، واجب ہے ( دو (2) سے زیادہ رکعت والی نَماز (جیسے:3/4رکعت والی نماز) میں پہلی دو (2)رکعتوں کے بعد اَلتَّحِیَّات پڑھنے کے لیے بیٹھنے کو ’’ قَعدۂ اولیٰ‘‘ کرناکہتے ہیں۔جبکہ نماز مکمل کرنے کے لیے آخر میں بیٹھنے کو قَعدۂ اخیرہ کہتے ہیں۔دو(2)رکعت والی نماز کا قَعدہ ، قَعدۂ اخیرہ ہی ہے اورزیادہ رکعت والی نماز میں پہلا قَعدہ ، قَعدۂ اولیٰ اور آخری قَعدہ ، قَعدۂ اخیرہ ہے) ۔

{2} دوسری(2nd ) رکعت سے پہلے قَعدہ نہ کرنا بھی واجب ہے ( نماز کا طریقہ ص۳۳،۳۴) ۔اسی طرح چار(4) رکعت والی نَماز میں تیسری(3rd ) رکعت کے بعد قَعدہ نہ کرنا، واجب ہے۔

مکروہ تنزیہی (ناپسندیدہ کاموں)سے بچیں:

اٹھتے وقت بلا مجبوری ہاتھ سے پہلے گھٹنے زمین سے اٹھانا مکروہ تنزیہی(اور ناپسندیدہ۔unwanted) ہے۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۳۸ مُلخصاً)

’’ قعد ۂ اَخیرہ اور سلام ‘‘

حضرت وائل رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کہتے ہیں کہ:

میں نے پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پیچھے نماز پڑھی جب آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم بیٹھے اور تَشَہُّدپڑھا تو آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اُلٹی طرف کا مُبارک پاؤںزمین پر بچھایا اور اس پر بیٹھے۔ ( شرح معانی الاثار للطحاوی ۱۸۴، مُلخصاً)

حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ:

پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نماز میں قَعدہ کرتے (یعنی دو رکعت یا آخری رکعت کے بعد بیٹھتے) تو سیدھا ہاتھ سیدھی ران(thigh) پر اور الٹا ہاتھ الٹی ران پر رکھتےاور (اَشْہَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللہُ پر)شہادت کی انگلی (index finger یعنی ہاتھ کی وہ اُنگلی جو انگوٹھے کے ساتھ ہوتی ہے)سے اشارہ کرتے۔ ( مسلم،کتاب المساجد، ص۲۹۲، حدیث:۵۷۹ ،۵۸۰ ،مُلخصاً)

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی نماز حضرت عائشہرَضِیَ اللہُ عَنْہَافرماتی ہیں:

اللہ کریم کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جب رکوع سےسراٹھاتے توسیدھے کھڑے ہونے سے پہلے رکوع میں نہ جاتےاورجب سجدے سے سراٹھاتے تواس وقت تک دوسراسجدہ نہ کرتے جب تک سیدھے ہوکر بیٹھ نہ جاتےاور(قَعدہ میں) سیدھا پاؤں بچھاتےاوراُلٹا پاؤں کھڑاکرتےاورہردو(2)رکعت کے بعد تَشَہُّد پڑھتے، نیز آپ شیطان کی بیٹھک سےمنع کرتےاوراپنی کہنیاں درندے(beast)یاکتےکی طرح بچھاکربیٹھنےسےبھی منع فرماتےاوراپنی نمازسلام سے ختم فرماتےتھے۔(ابن ماجہ،کتاب اقامة الصلوة،۱/ ۴۸۲،حدیث:۸۹۳)

عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: تَشَہُّد یا سجدوں کے درمیان (جلسے) میں کُتّے کی طرح بیٹھنا، یعنی گھٹنوں(knees) کو سینے (chest)سے ملا کر دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر سرین پر(یعنی بیٹھنے کی جگہ پر)بیٹھنا، مکروہ تحریمی(اور گناہ) ہے۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص۶۲۶،مسئلہ۱۲، مُلخصاً)

قَعدۂ اَخیرہ:

{1}نَماز کی سب رکعتیں پوری کرنے کی بعد اتنی دیر تک بیٹھنا کہ پوری ’’اَلتَّحِیّات‘‘ (وَرَسُوْلُہ تک )پڑھ لی جائے،یہ(یعنی اتنا بیٹھنا) فرض ہے (نماز کا طریقہ ص۳۱)اور ’’اَلتَّحِیّات‘‘ مکمل پڑھنا واجب ہے ،اگر ایک(1) حرف بھی چھوڑے گا توواجب چھوٹ جائےگا ۔(نما ز کا طریقہ ص ۳۳مُلخصاً)

{2}پورا قَعدۂ اخیرہ سوتے میں گزرگیا (مثلاً امام صاحب نے سلام پھیر دیا) پھر جاگا تو اتنی دیر بیٹھنا فرض ہے کہ جس میں مکمل’’اَلتَّحِیّات‘‘ پڑھ لی جائے ( گرمیوں کی تراویح میں اس بات کا بہت خیال رکھا جائے)۔ (بہارشریعت ص ، ۵۱۵، مسئلہ۴۶،مُلخصاً)یاد رہے! اس صورت(case)میں بھی مکمل ’’اَلتَّحِیّات‘‘ پڑھنا واجب ہے۔

{3} تَشَہُّد کے بعددرود پڑھنا سنّت ِمؤکدّہ ہے (فتاویٰ امجدیہ جلد۱، ص ۷۴، مُلخصاً) ۔درودِ ابراہیم پڑھناافضل اور درود کے بعد دعا پڑھنا سنّت ہے۔ ( نماز کا طریقہ ص۴۰)

سلام:

قَعدۂ اخیرہ کے بعد نماز کو ختم کرنے کی نیّت(intention) سے کوئی ایسا کام کرنا جو نماز میں نہیں کر سکتے، فرض ہے(تاکہ نماز مکمل ہو جائے) ()’’سلام‘‘کے ساتھ نماز ختم کرنا، واجب ہے، اگر ’’سلام‘‘کے علاوہ کوئی اور(other) کام نماز ختم کرنے کی نیّت سے کیا تو ایسا کرنے والا گناہ گار ہوگا اور نماز بھی دوبارہ پڑھنا ہو گی۔یاد رہے! اگر کوئی ایسا کام پایا گیا جو نماز میں نہیں کر سکتے اور اُس کے ساتھ نماز ختم کرنے کی نیّت بھی نہ ہو تو وہ نماز باطل ہے(یعنی بالکل بھی نہیں ہوئی کہ اگر ایسا فرض نماز میں ہوگیا تو اُس نماز کو دوبارہ پڑھنا فرض ہے) مثلاً تَیَمُّمْ کر کے نماز پڑھنے والا، نماز پڑھتے ہوئے پانی پر قادر ہوگیا(یعنی پانی مل گیا یا بیمار صحیح ہوگیا) تو اب اُس کی نماز نہیں ہوئی۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص۵۱۶، پوانٹ ۷، ماخوذاً)

{1} پہلے سیدھی طرف چہرہ پھیرنا(turn the face)اورنظر سیدھے کندھے (shoulder)پر رکھنا:

(۱) پہلے سیدھی طرف اتنا منہ پھیرنا سُنّت ہے کہ جس سے سیدھا رُخسار(یعنی گال۔cheek) نظر آجائے (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص۵۳۵،مسئلہ۱۲۶، ۱۲۷، مُلخصاً) ۔پہلےسلام میں سیدھے کندھے کو دیکھنا، مستحب ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص۵۳۸، پوائنٹ ۵، مُلخصاً)

(۲)پھر اکیلے نماز پڑھنے والافرشتوں وغیرہ کی نیّت (intention)کے ساتھ اور ()مقتدی(یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والا) ہرطرف کے سلام میں اُس طرف(that side) والے نمازیوں اور فرشتوں کی نیّت کے ساتھ ()اور جس طرف امام صاحب ہوں اس طرف امام صاحب کی نیّت کے ساتھ ()اگر امام صاحب آگے بالکل سیدھ میں ہوں تو دونوں سلاموں میں امام صاحب کی نیّت کے ساتھ ()اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہ! کے الفاظ کہنا سنّت ہے۔ (نماز کا طریقہ ص ۴۲، ۴۱ ماخوذاً)

(۳)دونوں طرف سلام پھیرتے وقت لفظ اَلسَّلَامُ (دونوں بار) واجب ہے ۔ ( نماز کا طریقہ ص۳۳)

{1} پہلے سیدھی طرف چہرہ پھیرنا(turn the face)اورنظر سیدھے کندھے (shoulder)پر رکھنا:

{2} پھر الٹی طرف چہرہ پھیرنا(turn the face)اورنظر اُلٹے کندھے (shoulder)پر رکھنا:

(۱)پھر اُلٹی طرف اتنا منہ پھیرنا سُنّت ہے جس سے اُلٹا رُخسار(یعنی گال۔cheek) نظر آجائے (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص۵۳۵،مسئلہ۱۲۶، ۱۲۷، مُلخصاً)

(۲)دوسرے سلام میں اُلٹے کندھے کو دیکھنا، مستحب ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱، ح۳، ص۵۳۸ ، پوائنٹ۶، مُلخصاً)

واجب پر عمل کرنا ضروری ہے:

سَجدۂ سہو واجب ہو تو سجدۂ سہو کرنا، واجب ہے (سجدۂ سہو واجب ہوا اور نہ کیا تو نَماز دوبارہ پڑھنی ہوگی) ۔(نماز کا طریقہ ص ۳۴ )

وضاحت(explanation):

سنّتیں یا مستحب کے چھوڑنےسے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا،نماز ہو جاتی ہے مگر ایسی نماز دوبارہ پڑھ لینا مستحب ہے(کہ جس نماز میں سنّتیں یا مستحبات) بھول کر چھوڑے ہوں یاجان بوجھ کر (deliberately) چھوڑے ہوں۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۷۰۹ مُلخصاً)

’’ نماز میں خیال رکھیں ‘‘

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے فرمایا:

جو نماز میں غلطی کرنے والے کو دیکھے اور منع نہ کرے تو وہ اس کے گناہ میں شریک ہے۔(احیاء العلوم ،ج۱،ص۵۹۳)یاد رہے! جب مضبوط خیال ہو کہ(گناہ یا گناہوں بھری غلطی کرنے والے کو) سمجھاؤں گا تو سامنے والا گناہ(یا گناہوں بھری غلطی) چھوڑ دے گا تو اب اُسےسمجھانا واجب اور لازم ہے (یعنی جو اس صورت (case) میں نہیں سمجھائے گا تو گناہ گار ہوگا)۔

واقعہ(incident): نماز میں غلطیاں

حضرت امام ابنِ شہاب زُہْری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ایک مرتبہ ایک ایسے امام صاحب کے پیچھے نمازپڑھی جوغلطیاں کررہےتھے۔آپ نے فرمایا: اگر جماعت کیساتھ نماز پڑھنے کو،اکیلے(alone) نمازپڑھنے پر فضیلت نہ ہوتی(یعنی جماعت سے نماز میں زیادہ ثواب نہ ہوتا) تو میں جماعت سے نماز نہ پڑھتا۔ (اللّٰہ والوں کی باتیں ج۳ ص۵۱۴، مُلخصاً)یہاں غلطیوں سے مُراد بعض (مُستحب(یعنی ثواب کے کام) وغیرہ چھوڑنے کی) چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہوں گی جس کی وجہ سے اُن امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہو گا(بلکہ جماعت واجب ہو تو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا بھی واجب ہوگا) ، ورنہ بڑی غلطیاں مثلاًغلط عقیدے ہونایا نماز پڑھنے میں کوئی ایسی غلطی کرنا جس سے نماز ہی ٹوٹ جائے یا نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا جائے، تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا۔ اگر وہ امام صاحب غلط عقیدے والے یا اس طرح کی بڑی بڑی غلطیاں کرنے والے ہوتے تو امام زُہری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اُس کے پیچھے ہرگز نماز نہ پڑھتے۔(فیضانِ نماز ص۴۷۸،مُلخصاً)

دو باتیں یاد رکھیں(۱)امام صاحب کی غلطیوں کا فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں ہے، کوئی غلطی محسوس ہو تو ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘سے رابطہ فرمائیں(۲)اسلامی بہنوں کو جماعت سے نماز نہیں پڑھنی ہوتی۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏عورت کا اپنے کمرے میں نَماز پڑھنا گھر کے احاطے میں(یعنی کمرے سے باہر) نَماز پڑھنے سے بہتر ہے ،اور اس کا احاطے میں نَماز پڑھنا صحن (مثلاً بالکنی۔balcony)میں نَماز پڑھنے سے افضل ہے،اور صحن میں نَماز پڑھنا گھر سے باہر نَماز پڑھنے سے افضل ہے ۔ (طبرانی اوسط ، رقم ، ۹۱۰۱، ج ۶ ،ص ۳۶۸)

(11) نماز کے طریقے میں ان مقامات کا بہت خیال رکھیں:

نماز پڑھتے ہوئے ان جگہوں پر خاص طور پر توجّہ(attention )رکھیں ورنہ یہ رُکن (مثلاً رکوع، سجدہ وغیرہ) صحیح طرح یا سُنّت و مستحب طریقے کے مطابق پورے نہیں ہونگے:

Sure, here's the text with `
` included after each number: تکبیر تحریمہ:
(۱) سر کا نہ جھکنا
قیام:
(۲) تکبیر (یعنی اَللّٰهُ اَكْبَر) کے ختم پر ہاتھ باندھنا
(۳) تراوُح (یعنی پیروں پر بدل بدل کر وزن ڈالنا) ۔
رُکوع:
(۴) تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں پہنچنا
(۵) پیٹھ (back) اچھی طرح بچھی ہونا۔
(۶) سراونچا نیچا نہ ہونا۔
قومہ:
(۷) تسمیع و تحمید (سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَہ) یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے کا اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہتے ہوئے کھڑے ہونا
(۸) تعدیل ارکان (یعنی مکمل کھڑے ہونے کے بعد ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰه“ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنی دیر رُکنا) ۔
سجدہ:
(۹) تکبیر (یعنی اَللّٰهُ اَكْبَر) سجدے میں پہنچ کر ختم کرنا
(۱۰) زمین کی سختی کا محسوس ہونا ۔
(۱۱) دسوں پاؤں کی انگلیوں کا پیٹ (یعنی اُنگلی کا وہ اُبھرا ہوا حصّہ جو چلنے میں زمین پر لگتا ہے) کا قبلہ رخ ہونا۔
جلسہ:
(۱۲) تکبیر کہتے ہوئے جانا
(۱۳) تعدیل ارکان (یعنی مکمل بیٹھنے کے بعد ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰه“ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنی دیر رُکنا) ۔
قَعدہ میں:
(۱۴) تَشَہُّد کا اشارہ۔
سلام:
(۱۵) نظر کندھوں (shoulders) کی طرف کرنا۔

نماز کی کچھ سنّت مؤکدّہ :

(۱) تکبیرِ تحریمہ(یعنی نماز میں پہلی بار ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنے) کیلئے ہاتھ اُٹھانا ، سنّت مؤکّدہ ہے۔(جدّ الممتار، جلد۳،ص ۱۷۷، مُلخصاً)

(۲) پہلی رکعت میں سُبْحٰنَکَ اللّٰہْمَّ پڑھنا سنّتِ مؤکّدہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد۶، ص ۱۸۲، مَاخوذاً)

(۳) پہلی رکعت کے شروع میں اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھناسنّت مؤکدّہ ہے ۔(الھدایۃ مع شرح البنایۃ،ج۲،ص۲۱۶،مطبوعہ کوئٹہ، ماخوذاً)

(۴)تکبیر قنوت (یعنی وتر کی تیسری (3 rd )رکعت میں دعائے قنوت پڑھنےسے پہلے اَللہُ اَکْبَر)کے لیے ہاتھ اُٹھانا بھی سنّت مؤکّدہ ہے۔(درمختار مع رد المحتار، جلد۲،ص۲۶۲ تا ۲۶۳)

(۵)اسی طرح عید کی چھ(6) زائد(additional) تکبیروں(یعنی اَللہُ اَکْبَر کہنے) کے لیے ہاتھ اُٹھانا بھی سنّت مؤکّدہ ہے۔(درمختار مع رد المحتار، جلد۲،ص۲۶۲ تا ۲۶۳)

(۶) قعدہ اخیرہ(یعنی سلام پھیرنے سے پہلے آخری مرتبہ بیٹھنے) میں تَشَہُّد (یعنی اَلتَّحِیَّات پڑھنے)کے بعددرود پڑھنا سنّت ِمؤکدّہ ہے۔(فتاویٰ امجدیہ جلد۱، ص ۷۴، مُلخصاً)

نماز اور لباس کے مدنی پھول:

{1} نَماز کے دوران کُرتا یاپاجامہ پہننے یاتہبندباندھنے سے نَماز ٹوٹ جاتی ہے۔ (غُنْیَہ ص۴۵۲ وغیرہا)

{2} نَماز کے درمیان میں سَترکُھل گیا تو اسی حالت (condition)میں کوئی رُکن اداکرنے یا ایک رُکن کی مقدار( یعنی تین مرتبہ”سُبْحَانَ اللہ “ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنا) وقت گزر جانے سے بھی نَماز ٹوٹ جاتی ہے۔(دُرِّمُختار ج۲ص۴۶۷)

{3} دوسراکپڑا ہونے کے باوُجُودصِرف پاجامے یاتہبندمیں نَماز پڑھنا مکروہِ تحریمی، ناجائز اور گناہ ہے۔(عالمگیری ج۱ص۱۰۶)

{4}اگر گردن کے نیچے سینے کی ہڈی کے دو ابھرے ہوئے حصے(embossed parts) نظرآرہے ہوں، باقی سینہ نظر نہ آئے تو نماز ہو جائے گی (دارالافتاء اہلسنّت، غیر مطبوعہ ماخوذاً) ۔فتاوی رضویہ میں کچھ اس طرح ہے:اوپر کا بٹن نہ لگانے سے گلے کے پاس کا بالکل تھوڑا سا حصہ کھلا رہتا ہو یا کندھوں (shoulders) پر چاک بہت چھوٹے چھوٹے ہوں تاکہ بٹن نہ لگانا پڑے (اور کرتے میں گلا چلا جائے)تو کُرتا (دوسرے کُرتے سے)تھوڑا نیچے ہوگا (یعنی جسم کا کچھ حصّہ نظر آئے گا)لیکن کندھا چُھپا رہے گا تو نماز ہو جائے گی (فتاوی رضویہ ، ج ۷ ، ص ۳۸۵، ماخوذاً) ۔یاد رہے!نماز میں اگر پورا سینہ ہی کُھلا ہوا ہو تو نماز مکروہ تحریمی ہوگی (بہارِ شریعت ح۳،ص۶۳۰، ماخوذاً)۔ ہاں! اگر قمیض وغیرہ کے چند بٹن کھلے ہوں کہ جس سے سینہ نظر آرہا ہو تو نماز مکروہ تنزیہی(یعنی صرف ناپسندیدہ ہے اور اس طرح نماز پڑھنے والا گناہ گار بھی نہیں )ہے۔ جیسا کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:

کسی کپڑے کو اس طرح خلافِ عادت پہننا جسے پہن کر عزّت دار آدمی مجمع (gathering)یابازار میں نہ جاسکے اور جائےتو اس کا ایسا لباس پہننا ادب(etiquette) کے خلاف سمجھاجائے ، تو ایسا لباس پہننا مکروہ (تنزیہی ) ہے۔ (فتاوی رضویہ ، ج ۷ ، ص ۳۸۵، مُلخصاً)

5} دوسرے کپڑے ہونے کے باوُجُودکام کاج والے کپڑے میں نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی (اور ناپسندیدہ۔ unwanted)ہے۔(شَرْحُ الْوِقایَۃ ج۱ص۱۹۸)

{6}اُلٹا کپڑا پہن کریا اَوڑھ کر(cover with cloth) نَماز مکروہِ تنزیہی ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۷ ص ۳۵۸ تا ۳۶۰)

{7}سُستی سے ننگے سر نَماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے۔(دُرِّمُختار ج۲ص۴۹۱)

{8}آدھی آستین(half sleeve) والاکُرتایا قمیص پہن کرنَماز پڑھنا ،مکروہِ تنزیہی ہے جبکہ اُس کے پاس دوسرے کپڑے موجود ہوں (فتاوٰی اَمجدِیَّہ ج۱ص۱۹۳، مُلخصاً) ۔جوہاف آستین والاکُرتا پہن کردوسرے لوگوں کے سامنے جانا پسند نہیں کرتے،اُن کی نَماز(ہاف آستین میں)مکروہِ تنزیہی ہے اورجولوگ ایسا لباس پہن کرسب کے سامنے جانے میں کوئی بُرائی محسوس نہیں کرتے،اُن کی نَمازمکروہ نہیں۔(وَقارُالْفتاوٰی ج ۲ ص۲۴۶، مُلخصاً)

نماز میں توجّہ(attention) بڑھانے کے کچھ مدنی پھول :

{۱}بھوک ہو تو کھانا کھا لیں {۲}پیشاب وغیرہ {۳}ضَروری بات چیت اور {۴}فون کرنے سننے سے فارغ ہو جائیں {۵}موبائل فون سائلنٹ(silent) کر لیں {۶} بَچّوں سے دور رہیں {۷}شور ہو تو ختم کرانے کی کوشش کریں {۸}جو انتظار میں ہو پہلے اُس سے بات کر لیں {۹}سینری (scenery) یا شیشے (mirror) وغیرہ کے سامنے نماز نہ پڑھیں {۱۰}اگر گرمی زیادہ لگ رہی ہو تو پنکھے وغیرہ کی ترکیب کر لیں {۱۱}سردی لگتی ہو توگرم لباس وغیرہ استعمال کرلیں {۱۲}لباس، عمامہ، چادر وغیرہ میں سے کوئی چیز نماز میں توجُہ (attention) کم کر رہی ہو تو تبدیل (change)کر لیں ، مَثَلًا لباس تنگ ہو یا چُبھ رہا ہو تو بدل لیں {۱۳}پاؤں پر مچھر کاٹتے ہوں تو موزے(socks) پہن لیں {۱۴}عمامہ کے اوپر کی چادر سجدے میں اُترتی رہتی ہو یا گرمی بہت لگتی ہو (اور پنکھا وغیرہ بھی نہ ہو) تو بغیر چادر کے نماز پڑھیں{۱۵}جیب میں موجود چیزوں کے بوجھ(weight) سے پریشانی ہو تو نکال دیں {۱۶}نقش و نگار(carving and design) والی جائے نماز کو استعمال نہ کریں {۱۷}ہر اُس چیز سے بچیں جو نماز میں توجُہ (attention) ختم کرتی ہو{۱۸} وسوسوں کی وجہ سے نماز میں توجُہ (attention) بٹتی ہو تونماز شروع کرنے سے پہلے(لوگوں کی نظر سے بچتے ہوئے) اُلٹے کندھے (shoulder) کی طرف تین(3) بار تھو تھو کریں پھر لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِّی الْعَظِیْم پڑھیں{۱۹} قیام میں سجدے کی جگہ ، رکوع میں پیروں پر ، سجدے میں ناک پر اور قعدے میں گود میں نظر رکھئے اِنْ شَآءَ اللہ! (یعنی اللہ کریم نے چاہا تو) وسوسے کم آئیں گے {۲۰}جو نماز پڑھیں، اُسے اپنی زندگی کی آخری نماز سمجھ کر پڑھیں {۲۱}یہ ذہن بنائے رکھئے کہ اللّٰہ کریم مجھے دیکھ رہا ہے {۲۲}نمازمیں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے علاوہ (other) پڑھی جانے والی سُورتیں بدل بدل کر پڑھیں {۲۳} نماز میں تلاوت ، قرآنِ پاک پڑھنے کے اصولوں کے مطابق پڑھیں {۲۴} تلاوت اور جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے، سب کا ایک(1) ایک حَرف صحیح طرح پڑھیں اور {۲۵}نماز میں جو پڑھا جاتا ہے، اُس کے معنٰی سیکھ کر، اس پر غور کریں {۲۶}نماز کے فرض، شرط، واجب، سنتیں اور مستحب وغیرہ صحیح طرح سیکھ کر،اس پر عمل کریں {۲۷} آرام اور اطمینان (calmly) سے نماز پڑھیں۔( فیضان ِنمازص۴۲۱،۴۲۲، مُلخصاً)

(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)