’’ دین کے مسائل ‘‘(part 03 A)

’’قسم ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

تین شخص ایسے ہیں جن سےاللہ کریم نہ کلام(یعنی اپنی شان کے مطابق گفتگو یا بات) فرمائے گا،نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے سخت عذاب ہے۔حضرت ابو ذرغِفاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے یہ بات تین(3) بار فرمائی تو میں نے عرض کی:وہ تو تباہ وبرباد ہو گئے(ruined)،وہ کون لوگ ہیں؟فرمایا:(۱)تکبُّر(arrogance)سے اپنا تہبند لٹکانے والا اور (۲) اِحسان جتلانے والا(one who boast of favour) اور(۳)جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنے والا۔ (صَحیح مُسلِم ص۶۷حدیث۱۷۱(۱۰۶))

واقعہ(incident): کیا تُو نے چوری نہ کی؟

حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو اُس سے فرمایا : کیا تو نے چوری نہیں کی؟ وہ بولا: ہرگز نہیں کی ، اُس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود(یعنی ایسا کہ جس کی عبادت کی جائے) نہیں۔ تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:میںاللہ کریم پر ایمان لایا اور میں نے اپنے آپ کو جُھٹلایا ( مُسلِم ص ۱۲۸۸ حدیث ،۲۳۶۸ ، مُلخصاً) ۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں : یعنی اِس قَسَم کی وجہ سے تجھے سچّا سمجھتا ہوں کہ مومِن بندہ اللہ کریم کی جھوٹی قسم نہیں کھاسکتا (مِراٰۃ ج ۶ ص ۶۲۳ ) ۔ شاید تونے اپنے حق کی وجہ سے وہ چیز لی ہو(کہ کسی کی طرف تیرے پیسے آتے ہوں اور وہ نہیں دے رہا ہو اور تو نے اپنے پیسے اُس کے مال سے لے لیے ہوں تو یہ چوری نہیں بلکہ اپنا حق لینا ہے)۔ (شرح مسلم للنووی ج۸ص۱۲۲)

قَسم کے کچھ مسائل:

{1}قسم وہ بات ہے کہ جس کے ساتھ قسم کھانے والا کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا پکّا اِرادہ(firm intention) کرتاہے(دُرِّمُختار ج۵ ص۴۸۸) ۔ مَثَلاً کسی نے یوں کہا : اللہ کریم کی قسم ! میں کل تمہارا سارا قَرض (debts)واپس کردوں گا ۔
{2} قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو سکے قسم کم سے کم کھانی چاہیے ۔ بات بات پر قسم کھانی نہیں چاہیے ۔ کچھ لوگ بات بات پرقسم کھاتے ہیں اور اس بات کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچّی ہے یا جھوٹی! یہ بَہت بُری بات ہے۔
{3} گزرے ہوئے (past time)یاموجودہ وقت(present time) میں ہونے والے کسی کام پر اپنی معلومات (information) کے مطابق صحیح قسم کھائی لیکن حقیقت (reality)میں وہ بات صحیح نہیں تھی بلکہ جو بولا حقیقت(reality)اس سے اُلَٹ تھی ، مَثَلاً کسی نے قسم کھائی : ’’ اللہ کریم کی قسم ! زَیدگھر پر نہیں ہے‘‘۔ اور قسم کھانے والےکی معلومات (information) میں یِہی تھا کہ زید گھر پر نہیں ہے اور اِس نے اپنے علم کے مطابق سچّی قسم کھائی تھی مگر حقیقت میں زید گھر پر تھا تو یہ قسم مُعاف ہے اور اس پر کفّارہ (مثلاً (دس) مَساکین کو دونوں وَقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا)نہیں ہے(قسم کے کفّارے کے بہت سے مسائل ہیں، وہ آگے آرہے ہیں)۔
{4} جان بوجھ کر(deliberately) جھوٹی قسم کھانا مَثَلاً کسی نے قسم کھائی : ’’ اللہ کریم کی قسم ! زیدگھر پر ہے‘‘ اوروہ جانتا ہے کہ زَید گھر میں نہیں ہے تو قسم کھانے والا سخت گنہگار ہوا ، اس پر توبہ کرنا فرض ہے مگر کفّارہ لازِم نہیں۔فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جُھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے ۔(بُخاری ج۴ص۲۹۵حدیث۶۶۷۵،مُلتقطاً)
{5} آنے والے وقت (future)کے لیے قسم کھائی مَثَلاً یوں کہا: ’’ اللہ کریم کی قسم ! میں کل تمہارے گھر ضَرور آؤں گا‘‘۔ مگر دوسرے دن نہ آیا تو قسم ٹوٹ گئی ، اسے کفّارہ دینا پڑے گا اور بعض صورَتوں میں گنہگار بھی ہوگا۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص۵۲)

قَسَم کی قسمیں(types):

{1} قسم کی پہلی قِسم (type) :وہ ہے کہ اُن کا پورا کرنا ضَروری ہے، مَثَلاً کسی ایسے کام کے کرنے کی قسم کھائی جس کابِغیر قسم (بھی) مکمل کرنا ضَروری تھا(مثلاً فرض پورا کرنے کی قسم کھائی) یا گناہ سے بچنے کی قسم کھائی (کہ گنا ہ سے بچنے کی قسم نہ بھی کھائیں تب بھی گناہ سے بچنا ضَروری ہی ہے) تو اس صورت میں قسم سچّی کرنا ضَروری ہے۔مَثَلاً (کہا) خدا کی قسم ظُہرپڑھوں گا یا چوری نہیں کروں گا کیونکہ قسم کھائی ہو یا نہ کھائی ہو، ظہر کی نمازپڑھنی ہی ہے اور چوری سے بچنا لازم ہے۔

{2} قسم کی دوسری قِسم(type) : وہ کہ اُس کا توڑنا ضَروری ہے مَثَلاًگناہ کرنے یا فرض و واجِب پورا نہ کرنے کی قسم کھائی، جیسے قسم کھائی کہ نَماز نہ پڑھوں گا یا چوری کروں گا یا ماں باپ سے بات چیت نہیں کروں گا تو قسم توڑ دے یعنی نماز پڑھے ، چوری نہ کرے ، ماں باپ سے بات چیت کرے ۔

{3} قسم کی تیسری قِسم (type):وہ کہ اُس کا توڑنا مُستَحب ہے مَثَلاً ایسے کام کی قسم کھائی کہ اُس کام کو نہ کرنے میں بہتری ہے تو ایسی قسم کو توڑ کروہ کرے جو بہتر ہے اور اس قسم کا کفّارہ دے دے۔ فرمانِ نبّیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏جو کسی پر قسم کھالے پھر اس سے بہتر کچھ دیکھے،تو اپنی قسم کا کفارہ دے، اور وہ کام کرے(صحیح مسلم،کتاب الأیمان، الحدیث: ۱۱۔(۱۶۵۰)، ص ۸۹۷) ۔یاد رہے! کہ کس کام میں بہتری ہے اور قسم توڑی جاسکتی ہے، اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے لھذا ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘سے رہنمائی (guidance)لے لیں۔

{4} چوتھی قِسم (type): وہ کہ مُباح(مثلاً جائز کام) کی قسم کھائی یعنی (جس کا) کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہے توایسی قسم کو باقی رکھنا (یعنی پورا کرنا)افضل ہے۔ (المبسوط للسرخسی ج۴ ص ۱۳۳ ، مُلخصاً)

قَسم کے مزیدمسائل:

{1} غَلَطی سے قسم کھا لی مَثَلاً کہنا چاہتا تھا کہ: ’’ اللہ کریم کی قسم !پانی پیوں گا ‘‘اور زَبان سے نکل گیا کہ: ’’ اللہ کریم کی قسم ! پانی نہیں پیوں گا ‘‘ تویہ بھی قسم ہے اگر توڑے گا تو کفَّارہ دینا ہوگا۔ (بہارِ شریعت ج۲ص۳۰۰ ، مُلخصا)

{2} قسم خود توڑے یا دوسرے کے مجبور کرنے سے توڑے، جان بوجھ کر(deliberately) توڑے یا بھول سے توڑے ہر صورت میں کَفّارہ دینا ہوگا۔ (تَبیِینُ الحقائق ج۳ ص ۴۲۳ ، مُلخصاً)

{3}قسم میں اِنْ شَآءَاللہ! (یعنی اللہ کریم نے چاہا تو)کہا تو اُس کا پورا کرنا واجِب نہیں، جب کہ اِنْ شَآءَاللہ! کا لفظ اِس بات سے ملا ہوا ہو اوراگر فاصِلہ(gap) ہوگیا مَثَلاً قسم کھا کر چُپ ہوگیا یا درمیان میں کچھ اور بات کی پھر اِنْ شَآءَاللہ! کہا تو قَسَم کا پورا کرنا لازم ہے۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج ۵ ص ۵۴۸ ، مُلخصاً)

{4} کسی سے طَلَاق کی قسم لینا منافِق کا طریقہ ہے مَثَلاً کسی سے کہنا: ’’ قسم کھاؤکہ فُلاں کام میں نے کیا ہوتو میری بیوی کو طَلَاق‘‘۔ حدیثِ پاک میں ہے : مُؤمِن طَلَاق کی قسم نہیں کھاتا اور طلاق کی قسم نہیں لیتا مگر مُنافِق۔ (اِبنِ عَساکِر ج ۵۷ ص۳۹۳)

{5} جو شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرے مَثَلاً کہے کہ: ’’ فُلاں چیز مجھ پر حرام ہے‘‘ تویہ کہنے سے وہ چیزحرام نہیں ہوگی کہ اللہ کریم نے جس چیز کو حلال کیا اُسے کون حرام کرسکے ؟مگر (جس چیز کو اپنے اُوپر حرام کیا) اُس کے استِعمال کرنے سے کفّارہ لازِم ہو جائےگا یعنی یہ بھی قسم ہے۔ (تَبیِینُ الحقائق ج ۳ص ۴۳۶، مُلخصاً)

{6} یہ کہنا: ’’تجھ سے بات کرنا حرام ہے‘‘ یہ بھی قسم ہے، بات کرے گا تو کفّارہ لازِم ہوگا۔ (فتاوٰی عالمگیریج ۲ ص ۵۸، مُلخصاً)

{7} یہ کہا: ’’ اگر یہ کام کروں تو یہودی ہوں ‘‘ یا یہ کہا : ’’ اگر یہ کام کیا ہو تو یہودی ہوں یا نصرانی ہوں یا کافر ہوں یا کافروں کا شریک‘‘ یا یہ کہا : ’’مرتے وقت ایمان نصیب نہ ہو ‘‘ یا یہ کہا : ’’ بے ایمان مروں ‘‘ یا یہ کہا : ’’ کافر ہوکر مروں‘‘۔ تو یہ الفاظ بَہُت سخت ہیں کہ اگر جھوٹی قسم کھائی یا قسم توڑ دی تو کچھ صورتوں(cases) میں کافرہوجائے گا۔ حدیثِ پاک میں ہے: ’’ وہ وَیسا ہی ہے جیسا اُس نے کہا‘‘ ۔یعنی ’’یہودی ‘‘ہونے کی قسم کھائی تو ’’یہودی‘‘ ہوگیا۔

{8} اسی طرح اگر کہا: ’’ خدا جانتاہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا ۔ ‘‘ اور یہ بات اُس نے جھوٹ کہی ہے تو اکثر عُلَمائے کِرام کے نزدیک کافرہے۔ (بہارِ شریعت ج۲ص۳۰۱ ، مُلخصاً) ( تفصیل کے لیے(for detail) رسالہ'' قسم کے بارے میں مدنی پھول " پڑھ لیں۔)

’’ قسم کے الفاظ ‘‘

حضرت عَدی بن حاتم طائی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ:

میرے پاس ایک شخص سو(100 ) دِرہَم مانگنے آیا، میں نے ناراض ہوتے ہوئے کہا : تم مجھ سے صِرف سو(100 )دِرہَم مانگ رہے ہو حالانکہ میں حاتِم(طائی) کا بیٹا ہوں ، اللہ کریم کی قسم! میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا، پھر کہا: اگر میں نے اللہ کریم کے رَسُوْلصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمسے نہ سنا ہوتا(تو میں تمہیں کچھ نہ دیتا)کہ: جس شخص نے کسی کام کی قسم کھائی پھر اُس نے اِس سے بہتر چیز کا خیال کیا تو وہ اُس بہتر کام کو کرے ۔لھذا تمہیں 400 دِرہم دوں گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، ص۸۹۹، حدیث:۱۶۵۱)

عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں:اگرکسی نے کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائی لیکن پھر قسم پوری نہ کرنے میں بہتری محسوس کی تو بہتر ہے کہ وہ قسم تو ڑدے اور اس قسم کا کفّارہ ادا (pay) کرے۔ (شرح مسلم ، کتاب الایمان،ج۶، ص۱۰۸،الجزء الحادی عشر) یعنی اس صورت(case) میں قسم توڑنے کا عمل بہتر تو ہے مگر قسم کا کفارہ دینا واجب ہوگا۔

واقعہ(incident): قسم نہیں ٹوٹی

ایک شخص نے قسم کھائی کہ انڈا نہ کھاؤں گا اور پھر یہ قسم کھائی کہ جو چیز اُس آدمی کی جیب میں ہے وہ ضَرور کھاؤں گا۔ اب دیکھا تواُس کی جیب میں انڈا ہی تھا۔اب یہ پریشان ہوا کہ یہ انڈا کھاتا ہوں تو پہلی قسم ٹوٹ جائے گی اور نہیں کھاتا تو دوسری قسم ٹوٹ جائے گی۔یہ مسئلہ امام اعظم حضرت نعمان بن ثابت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے سامنے آیا، آپ بہت ہی بڑے عالم تھے۔
یاد رہے!بعض عُلَمائے کِرام بہت بڑے درجے(rank) کے ہوتے ہیں، انہیں مُجْتَہِد کہتے ہیں۔ یہ عُلَمائے کِرام قرآن و حدیث کو سمجھ کر اُس میں سے دین کے مسائل نکال کر بتاتے ہیں۔ عُلَمائے کِرام ان مسائل کو سمجھ کر عام لوگوں کو سمجھاتے ہیں پھر عام لوگ دین کے مسائل پر عمل کرتے ہیں۔آج کے دور میں چار(4)بڑے عُلَمائے کِرام کی پیروی (follow)اور تقلید کی جاتی ہے:(1) امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (2)امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (3)امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (4)امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: جو ان میں سے کسی کی پیروی (follow)کرے اور زندگی بھر پیروی کرتا رہے ،کبھی کسی مسئلے میں ان کے خلاف (against) نہ چلے تووہ ضرور صراطِ مستقیم اور(اسلام کے) سیدھے راستے پر ہے ( فتاویٰ رضویہ، ۲۷ / ۶۴۴) ۔امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بتائے ہوئے دینی مسائل پر عمل کرنے والوں کو” حنفی ‘‘ کہتے ہیں۔پاک و ہند وغیرہ میں امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی تقلید اور پیروی (follow) کرنے والے زیادہ ہیں۔
امام اعظم حضرت نعمان بن ثابت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفرمایا: اُس انڈے کو کسی مُرغی کے نیچے رکھ دو اور جب چُوزہ (chick)نکل آئے تو اُسے ذبح (slaughter)کر کے بُھون کر(roast) کھالویا سالن بنالو اور سالن گوشت کے ساتھ کھالو (تو اس صورت میں پہلی قسم نہیں ٹوٹے گی اور دوسری قَسَم بھی پوری ہو جا ئے گی)۔ (الخیرات الحسان ص۱۸۵ بالتغیر)

سرکارِمد ینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ ٖ وَسَلَّمَ کی قَسَم کے الفاظ

نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ ٖ وَسَلَّمَ اکثر ’’ وَمُقَلِّبِ القُلُوب ‘‘ (یعنی قسم ہے دلوں کے بدلنے والے کی) یا ’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدہٖ ‘‘(یعنی قسم اُس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے(کہ وہ جب چاہے، جو چاہے کر سکتا ہے)) کے الفاظ سے قسم ارشاد فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کہتے ہیں کہ رسولِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زیادہ تر جو قسم ارشاد فرماتے تھے وہ یہ تھی: وَمُقَلِّبِ القُلُوب ‘‘ ۔
( بُخاری ج۴ ص۲۷۸ حدیث۶۶۱۷)

قَسم کے الفاظ کے کچھ مسائل

{1} اللہ کریم کے جتنے نام ہیں اُن میں سے جس نام کے ساتھ قسم کھائے گا، قسم ہوجائے گی چاہے اُن ناموں کے ساتھ قسم نہ بھی کھائی جاتی ہو( پھر بھی قسم ہو جائے گی)۔مَثَلاً اللہ کریم کی قسم، خدا کی قسم، رحمن کی قسم، رحیم کی قسم، پَروَردگار کی قسم۔
{2} اللہ کریم کی جس صِفَت کی قسم کھائی جاتی ہو، اگر اُس صفت کے ساتھ قسم کھائی، تو یہ قسم بھی ہو جائے گی۔مَثَلاًخدا کی عزّت وجلال کی قسم، اُس کی کِبریائی (یعنی عَظَمت، بڑائی، شان) کی قسم، اُس کی بُزُرگی یا بڑائی (یعنی شان)کی قسم ، اُس کی عَظَمت (یعنی بزرگی)کی قسم، اُس کی قدرت و قوَّت (یعنی طاقت)کی قسم، قرآن کی قسم، کلامُ اللہ کی قسم۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص۵۲)
{3} ان الفاظ سے بھی قسم ہوجاتی ہے : حَلف کرتا ہوں قسم کھاتا ہوں میں شہادت (گواہی۔ testimony ) دیتا ہوں خداکو گواہ کرکے کہتا ہوں مجھ پر قسم ہےلَآاِلٰہَ اِلَّا اللہ میں یہ کام نہ کروں گا۔
{4} اگر یہ کام کروں تو کافِروں سے بدتر ہوجاؤں (کہا) تو (یہ) قسم ہے اور اگر کہا کہ یہ کام کروں تو کافر کو مجھ پر فضیلت(یعنی بڑا مقام) ہو تو قسم نہیں ۔
{5} قرآنِ کریم کی قسم کھانا ، قَسَم ہے،مگر صِرف قرآنِ کریم اُٹھا کر یا بیچ میں رکھ کر یا اُس پر ہاتھ رکھ کر کوئی بات کرنا ،قسم نہیں ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد۱۳ص۵۷۴ ، ماخوذاً)
{6} اگر وَاللہ ، بِاللّٰہ ، تَاللّٰہ کہا تو تین قسمیں ہوئیں بخدا قسم سے بَحلفِ شَرعی کہتا ہوں اللّٰہ کو سَمِیع بَصِیر جا ن کر کہتا ہوں BY ALLAH! اللّٰہ کو حاضِر ناظر جان کر کہتا ہوں ،یہ سب قسم کے الفاظ ہیں ۔
’’ اللّٰہ کو حاضِر ناظر جان کر کہتا ہوں ‘‘ اِس طرح کہنے سے قسم تو ہو جائے گی مگر اللّٰہ کریم کو حاضِر ناظر کہنا منع ہے۔یاد رہے کہ اللہ کریم کے نام توقیفی ہیں(یعنی ہم اپنی طرف سے اللہ کریم کا کوئی نام نہیں رکھ سکتے جو دینِ اسلام نے ہمیں نام بتائے ہیں ، اللہ

سمجھنے کے لیے ایک مثال یہ ہے کہ سورج اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر ہے لیکن اپنی روشنی کے ساتھ زمین میں ہر جگہ موجود ہے ۔ تو یہ شان پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی تو ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ظاہری جسم کے ساتھ مدینے شریف میں موجود ہوں اور اللہ کریم کی عطاسےساری کائنات (universe)کو دیکھ رہے ہوں مگر اللّٰہ کریم کی شان اس سے بہت بہت بہت بڑی ہے وہ جسم ، جگہ، آنے ، جانے سے پاک ، پاک اور پاک ہے وہ سننے والا’’ سَمِیع‘‘ اور دیکھنے والا’’ بَصِیر‘‘ ہے۔ جیسا کہ فتاوی فیض الرسول میں کچھ اس طرح ہے: اگر کوئی اللّٰہ کریم کے لیے حاضر و ناظر سے’’ شَھِیْد‘‘ (یعنی گواہ ) اور بَصِیر‘‘ (یعنی دیکھنے والا) کا نظریہ (عقیدہ۔ beliefs) رکھے تو یہ عقیدہ رکھنا صحیح ہے مگر اس عقیدے کے لیے لفظ ’’حاضر و ناظر‘‘ کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، لیکن اگر کسی نے اللّٰہ کریم کو’’حاضر و ناظر‘‘ کہا تب بھی کُفر نہ کہیں گے۔(فتاوی فیض الرسول، ج۱، ص۳، مطبوعہ لاہور، مُلخصاً)

قَسَم میں نیّت (intention)وغیرہ کا لحاظ(matter) نہیں :

{1} قسم میں الفاظ کا لحاظ(یا اعتبار) ہوگا ، اِس بات کا لحاظ نہیں ہوگا کہ یہ قسم کیوں کھائی گئی؟ یعنی ان لفظوں کے جو معنٰے بنتے ہیں ، قسم سے وہ ہی معنیٰ لیے جائیں گے۔ قسم کھانے والے کی نیّت اور مقصد(aim) کا اعتِبار یا لحاظ (consideration) نہ ہوگا مَثَلاً قسم کھائی کہ ’’ فُلاں کے لیے ایک پیسے کی کوئی چیز نہیں خریدوں گا ‘‘ اور ایک رُوپے کی خریدی تو قسم نہیں ٹوٹی حالانکہ قسم کامقصد(aim) یہ تھا کہ نہ پیسے کی خریدوں گا نہ رُوپے کی لیکن قسم میں جو ’’لفظ ‘‘بولے وہ ’’پیسے ‘‘کے تھے، ’’روپے‘‘ کے نہیں تھے لھذا قسم نہیں ٹوٹی، یا قسم کھائی کہ ’’ دروازے سے باہَرنہ جاؤں گا ‘‘ اور دیوار کُود کریا سیڑھی لگا کر باہَر چلاگیا تو قسم نہیں ٹوٹی اگرچِہ اِس قسم کا مطلب یہی تھا کہ گھرسے باہَر نہ جاؤں گا۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۵ ص۵۵۰)
{2} اس اصول (principle) کا قسم میں ہرجگہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ قسم کے تمام الفاظ سے وہ معنٰے لیے جائیں گے جن میں اہلِ عُرف (یعنی اس بات سے تعلق رکھنے والے لوگ)استعمال کرتے ہوں مَثَلاً کسی نے قسم کھائی کہ کسی مکان میں نہیں جائیگا اور مسجد میں یا کعبۂ معظمہ میں گیا تو قسم نہیں ٹوٹی اگرچہ یہ بھی مکان ہیں ، یوں ہی حمّام (bathroom)میں جانے سے بھی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص ۶۸)

ایسے الفاظ جن سے قَسَم نہیں ہوتی:

{1} غیرِخدا کی قسم، ’’ قسم ‘‘ نہیں مَثَلاً تمہاری قسم اپنی قسم تمہاری جان کی قسم اپنی جان کی قسم تمہارے سرکی قسم اپنے سرکی قسم آنکھوں کی قسم جوانی کی قسم ماں باپ کی قسم اولادکی قسم مذہب کی قسم دین کی قسم علم کی قسم کعبے کی قسم عرشِ اِلٰہی کی قسم رَسُولُ اللہ کی قسم۔
{2} خدا ورسول کی قسم یہ کام نہ کروں گا یہ قسم نہیں ۔
{3} غیرِ خدا کی قسم مکروہ ہے اور یہ شَرعاً قسم بھی نہیں یعنی اس کے توڑنے سے کفّارہ (مثلاً (دس) مَساکین کو دونوں وَقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا) لازِم نہیں ۔
{4} حُضُور (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) کی قسم کھا کر(اُس قسم کے) خِلَا ف کرنے سے کفَّارہ لازم نہیں آئے گا ۔ (فتاوٰی عالمگیری ،ج ۲ص۵۱، ماخوذاً)یاد رہے کہ قسم کا کفّارہ اللّٰہ کریم کے نام کی بے حُرمتی( عزّت کم کرنے)کی وجہ سے ہے لھذا سخت ضرورت کے بغیر قسم نہیں کھانی چاہیے ، اسی طرح نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نام کی قسم بھی نہیں کھانی چاہیئے۔
{5} یہ الفاظ قسم نہیں لیکن ان کے ساتھ جو بات بولنےمیں جھوٹا ہو تو گنہگار ہوگا : اگر ایسا کروں تومجھ پر اللہ کریم کا غَضَب ہو اُس کی لعنت ہو اُس کا عذاب(punishment) ہو خُدا کا قہرٹوٹے مجھ پر آسمان پھٹ پڑے مجھے زمین نگل جائے مجھ پر خدا کی مارہو خدا کی پِھٹکارہو رسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شَفاعت نہ ملے مجھے خدا کا دیدار نہ نصیب ہو مرتے وقت کلمہ نہ نصیب ہو۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص۵۴)
{6} دوسرے کے قسم دِلانے سے (عام طور پر)قسم نہیں ہوتی مَثَلاً کہا : تمہیں خدا کی قسم یہ کام کردو۔ تو اِس کہنے سے (جس سے کہا) اُس پر قسم نہ ہوئی یعنی نہ کرنے سے کفّارہ لازِم نہیں ایک شخص کسی کے پاس گیا اُس نے اٹھنا چاہا اُس نے کہا : خداکی قسم نہ اُٹھنا اور (جس سے کہا) وہ کھڑا ہوگیا تواُس قسم کھانے والے پر کفّارہ نہیں ۔ (تفصیل کے لیے(for detail) امیرِ اہلسنّت (دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ)کا رسالہ'' قسم کے بارے میں مدنی پھول " پڑھ لیں)
{7} کچھ صورتوں (cases)میں دوسرے کے قسم دلانے سے قسم ہو بھی جاتی ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:ایک شخص نے دوسرے سے کہا: ”اللہ کی قسم تم یہ کروگے‘‘، ”اللہ کی قسم تم یہ کروگے‘‘۔ دوسرے نے کہا: ”ہاں‘‘ اب اگر(پہلے شخص یعنی) قسم کھلانے والے نے قسم کھانے کا ارادہ کیا(کہ میں اللہ کریم کی قسم کھاتا ہوں کہ تم یہ کروگے ) اور(دوسرے شخص یعنی ) ”ہاں‘‘کہنے والے نے بھی قسم کھانے کا ارادہ کیا (یعنی ”ہاں‘‘کہتے ہوئے قسم کھانے کی نیّت (intention)تھی کہ اللہ کریم کی قسم میں یہ کام کرونگا ) تو دونوں کی قسم ہوگئی اگر (پہلے شخص یعنی) قسم کھلانے والے نے قسم کھلانے کی نیّت کی (کہ تو قسم کھا کہ تو یہ کام کرے گا) اور (دوسرے شخص یعنی ) ”ہاں‘‘کہنے والے نے قسم کھانے کا ارادہ کیا تو جواب دینے (یعنی”ہاں‘‘کہنے )والے کی قسم ہوگئی اگر پہلے شخص نے قسم کھلانے کی نیّت کی اور دوسرے نے ”ہاں‘‘ میں قسم کی نیّت نہ کی بلکہ وعدے وغیرہ کا ارادہ ہو تو جس چیز کی نیت کی ، اسی چیز کا حکم ہوگا اور (اس صورت۔case) میں دونوں کی قسم نہیں ہوگی۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الایمان، ج۲،ص۶۰)

’’ قَسم کا کفّارہ ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

اگر کوئی شخص اپنے اَہل(یعنی گھر والوں) کے تعلّق سے، تکلیف اور نقصان پہنچانے کے لئے قسم کھائے تو(سُن لے) اللہ کریم کی قسم اُس (یعنی گھر والوں) کو نقصان دے کرقَسم کو پورا کرنا، اللہ کریم کے نزدیک (قسم کو پورا نہ کرنے سے)زیادہ گناہ ہے، اِس (قسم کھانے والے کو چاہیے) قسم کے بدلے کفّارہ دے دے کہ جو اللہ کریم نے اس پر (قسم توڑنے کی وجہ سے) لازم فرمایا ہے۔ (بُخاری ج۴ص ۲۸۱ حدیث۶۶۲۵ مُلخصاً)

عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں:یعنی جو شخص اپنے گھر والوں میں سے کسی کا حق ضائع (waste)کرنے پر قسم کھالے مَثَلًا یہ کہ میں اپنی ماں کی خدمت(service) نہ کروں گا یا ماں باپ سے بات نہ کروں گا،ایسی قسموں کا پورا کرنا گناہ ہے۔اس پر واجِب ہے کہ ایسی قسمیں توڑے اور والدین یا گھر والوں کے حُقُوق (rights) پورے کرے۔ یاد رہے !یہاں یہ مطلب نہیں کہ یہ قسم پوری نہ کرنا بھی گناہ مگر پوری کرنا زیادہ گُناہ ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسی قسم پوری کرنا بَہُت بڑا گناہ ہے،پوری نہ کرنا ثواب ہے(اس لیے کہ وہ ایک گناہ سے بچ گیا)، لیکن یہ مسئلہ بھی ہوگیا کہ قسم توڑنا اللہ کریم کے نام کے ادب کے خلاف ہے(کہ اللہ کریم کا نام لے کر کہا کہ یہ کام کرے گا اور نہیں کیا) لھذااس پر کفَّارہ واجِب ہوتا ہے ۔(مراٰۃ المناجیح ج۵ص۱۹۸ماخوذاً)

واقعہ(incident): جھوٹی قسم سے توبہ

ایک دن پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے تبوک (کے مقام )میں خطبہ(یعنی بیان وغیرہ) فرمایا اوراس میں منافقین کی بری حالت کے بارے میں بتایا: یہ سن کر جُلَّاسْ (جو ابھی دل سے مسلمان نہ ہوئے تھے) کہنے لگے : اگر مُحَمَّد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) سچے ہیں تو ہم لوگ گد ھوں سے بھی برے ہیں(یاد رہے! مُنافق وہ کافر جو زبان سے کہے کہ میں مسلمان ہوں اور دل میں یہ ہوکہ میں مسلمان نہیں ہوں، ایسا شخص عقیدے(beliefs) کا منافق ہوتا ہے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی ظاہری زندگی میں موجود منافقین کی تفصیل(detail) بتا دی کہ کون کون منافق ہے لیکن اب ہم کسی کے بارے میں یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ یہ عقیدے کا مُنافق ہے۔ جو شخص عقیدے کا مُنافق ہوگا، وہ جہنّم کے سب سے نچلے (lowest ) حصّے میں ہو گا)۔
جب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مدینے واپس تشریف لائے تو حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو جُلَّاسْ کی بات بتائی۔ جُلَّاسْکہنے لگےکہ میں نے ایسا نہیں بولااور یہ بھی کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ ! عامر (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ)نے جھوٹ بولا ہے۔ پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دونوں کو حکم فرمایا کہ منبر کے پاس قسم کھائیں( منبریعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں) ۔
جُلَّاسْنے عصر کے بعد منبر کے پاس کھڑے ہو کر اللّٰہ کریم کی قسم کھائی کہ یہ بات میں نے نہیں کہی اور عامر نے جھوٹ بولا ہے پھر حضرت عامر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ بے شک جُلَّاسْنے یہ بات کہی ہےاور میں نے جھوٹ نہیں بولا ۔(اس کے بعد)حضرت عامر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ہاتھ اٹھا کر اللّٰہ کریم سے دعا کی: یا اللّٰہ ! اپنے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر سچے آدمی(کے سچّا ہونے) کی تصدیق(closing argument) (یعنی قرآنی آیت) نازل فرما ۔ ان دونوں کےالگ ہونے سے پہلے ہی حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام قرآنِ پاک کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے،ترجمہ (Translation) : منافقین اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہ کہا حالانکہ انہوں نے یقیناً کفریہ کلمہ کہا اور وہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے ۔(پ۰ ۱، سورۃ التوبۃ، آیت ۷۴) (ترجمہ کنز العرفان) (آیت مزید جاری ہے جس میں یہ بھی ہے:)اگر وہ توبہ کریں تو ان کے لئے بہتر ہوگا ۔(پ۰ ۱، سورۃ التوبۃ، آیت ۷۴)
یہ سن کر جُلَّاسْکھڑے ہوگئے اور عرض کی: یَا رَسُوْلَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، سنئے، اللہ کریم نے مجھے توبہ کا موقع(opportunity) دیا، حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے جو کچھ کہا سچ کہا اور میں نے وہ بات کہی تھی اور اب میں توبہ کرتا ہوں۔ پیارے آقا رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان کی توبہ قبول(accept) فرمائی اور حضرت جُلَّاسْ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ توبہ پر قائم رہے(یعنی پھر زندگی بھر ایسی کوئی بات نہ ہوئی)۔ (بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۳)

قَسم کے کَفّارے کے کچھ مسائل :

{1} کَفّارہ صِرف اُس قسم پر ہے کہ جس میں آئندہ (next time) کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کے لئے قسم کھائی گئی ہو، گزَشتہ(previous) یاموجودہ(present time) کی قسم پر کَفّارہ نہیں ۔ مَثَلاً کہا: ”اللہ کریم کی قسم! میں نے کل ایک بھی گلاس ٹھنڈا پانی نہیں پِیا‘‘۔اگر پیا تھا اور یاد ہونے کے باوُجُود ، جان بوجھ کر (deliberately) جھوٹی قسم کھائی تھی تو گنہگار ہوا توبہ کرے مگر کفّارہ (مثلاً (دس) مَساکین کو دونوں وَقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا) نہیں۔ نوٹ: قسم کا کفارہ قسم توڑنے کے بعد ہی واجب ہوتا ہے۔ قسم توڑنے یا ٹوٹنے سے پہلے قسم کا کفارہ نہیں دیا جا سکتا ۔ جہاں یہ کہا گیا ہے کہ قسم کا کفّارہ دے مثلا ماں باپ سے بات نہ کرنے کی قسم کھائی تو حکم ہے کہ کفاّرہ دے اور ماں باپ سے بات کرے ، وہاں بھی یہ ضروری ہے کہ پہلے ماں باپ سے بات کرے پھر قسم توڑے پھر کفارہ دے۔
{2} قسم کے لیے چند شَرطیں(preconditions) ہیں ، کہ اگر یہ نہ ہوں تو کفّارہ نہیں : قسم کھانےوالا (۱) مسلمان (۲) عاقِل(یعنی پاگل نہ ہو) (۳) بالِغ (wise, grownup)ہو ۔
(۴) قسم اور جس چیز کی قسم کھائی دونوں کو ایک ساتھ کہا ہو یعنی درمیان میں فاصِلہ (gap)ہوگا تو قسم نہ ہوگی مَثَلاً ایک آدمی نے دوسرے کو کہا کہ: بولو،”اللہ کریم کی قسم! ‘‘تو دوسرےنے کہا: ” اللہ کریم کی قسم ! ‘‘۔ اب پہلے نے کہا : بولو ،” میں کل دکان پر آؤں گا‘‘، اب دوسرے نے کہا: ”میں کل دکان پر آؤں گا ‘‘،تو یہ قسم نہ ہوئی۔
(۵) جس چیزکی قسم کھائی عَقلاً ممکن ہو یعنی ہوسکتی ہو(جیسے: یہ قسم کھائی کہ میں بغیر سامان اور رسی( rope) کے ہزار(1000) فٹ کے پہاڑ پر چڑھ کر دکھاؤں گا۔ اب یہ بات بہت ہی مشکل ہے، مگر ہو سکتی ہے اس لیے یہ قسم درست ہے)، چاہے(عَقلاً ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ) مُحالِ عادی ہو (مثلاً کسی نے قسم کھائی کہ میں ہوا میں اُڑ کر گھر جاؤں گا تو ظاہر ہےعام لوگ ایسا نہیں کر سکتے مگر اللہ کریم کے نیک بندے اولیاء کرام(اللہ کریم کی دی ہوئی طاقت سے) ایسا کر سکتے ہیں لھذا یہ قسم بھی درست ہے۔(فتاوٰی عالمگیری ج ۲ ص ۵۱، مُلخصاً)
نوٹ:نیک بندوں کے ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ عام انسان اس طرح کے کام نہیں کر سکتے،جیسا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے کچھ اس طرح فرمایا کہ : مجھے تخت جلدی چاہیے۔یہ سن کر اللہ کریم کے ولی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کےوزیر آصف بن بَرخِیا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےعرض کیا(ترجمہ۔Translation) : میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے (in the blink of an eye) سے پہلے لے آؤں گا پھرجب سُلَیْمَان (عَلَیْہِ السَّلَام)نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا: یہ میرے ربّ کے فضل سے ہے(جو اُس نے مجھ پر کیا) تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری ؟۔ (پ۱۹، سورۃ النحل، آیت۴۰) (ترجمہ کنز العرفان))عجائب القرآن،۱۸۷،۱۸۸))
{3} قسم کا کَفّارہ: (۱)غلام آزاد کرنا (یعنی پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوتا تھا، اس غلام کو آزاد کرنا بہت بڑی نیکی کا کام ہے ، یہاں اسی غلام کو آزاد کرنے کا حکم ہے مگر آج کل غلام نہیں ہوتے )یا (۲)دس (10)مسکینوں کو کھانا کھلانا یا (۳)اُن کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار (option)ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔ (تَبیِینُ الحَقائق ج ۳ص ۴۳۰)
{4} قسم توڑنے سے پہلے کَفّارہ نہیں دیا جاسکتا ، اور (اگر دے بھی) دیا تو ادا (pay) نہ ہوا یعنی اگر کفّارہ دینے کے بعد قسم توڑی تو اب پھر سے کفّارہ دے کہ جو پہلے دیا ہے وہ کفّارہ نہیں ۔یاد رہے! فقیر کو جو پیسے وغیرہ دے دیے ، وہ واپَس نہیں لے سکتا۔(فتاوٰی عالمگیری ج ۲ ص ۶۴ )
{5} کَفَّارہ ادا ہونے کے لیے نیّت(intention) شَرط (precondition)ہے ۔ بِغیر نیّت ادا (pay)نہ ہوگا۔ ہاں! اگر مسکین کو دیتے ہوئے کفّارے کی نیّت نہ تھی لیکن وہ چیز ابھی مِسکین کے پاس موجود ہے اور اب(بھی کفاّرہ ادا کرنے کی) نیَّت کرلی تو کفّارہ ادا ہوگیا جیسا کہ زکوٰۃ میں فقیر کو دینے کے بعد نیّت کرنے میں یِہی شَرط ہے کہ جب تک وہ چیز فقیر کے پاس باقی ہو تو زکوۃ دینے کی نیّت کر سکتا ہے اور اگر فقیر نے رقم خرچ کر دی تو اب زکوۃ دینے کی نیّت نہیں کر سکتا ۔ (حاشیۃُ الطّحطاوی علی الدّرالمختارج۲ص ۱۹۸، مُلخصاً)

کَفّارے میں مسکین کو رقم وغیرہ دینے کے مسائل:

{1} کفّارہ ایسے مسکینوں کو دے سکتےہیں کہ جنہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں یعنی اپنے ماں، باپ، (دادا، دادی) اولاد (بیٹا ،بیٹی، پوتا، پوتی)، سیّد صاحبان وغیرہ میں سے اگر کوئی مسکین بھی ہو ، تب بھی اُنہیں کَفّارہ نہیں دے سکتا ۔ (دُرِّمُختارج۵، ص۵۲۷) ہاں! سیّد صاحبان کی ضرورتوں کو صاف مال سے پورا کرنا، حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے محبّت کی نشانی ہے ۔ یاد رہے کہ زکوٰۃ مال کا میل ہے اور ان حضرات کی یہ شان نہیں کہ ایسا میل انہیں دیا جائے۔
{2}قَسَم کے کفّارے کی قیمت( مثلاً پیسے وغیرہ) مسجِد میں خرچ نہیں کرسکتے، اسی طرح نہ مُردے (dead)کے کفن میں لگا سکتا ہے یعنی جہاں جہاں زکوٰۃ نہیں خَرچ کر سکتے، وہاں کَفّارے کی قیمت بھی نہیں دی جا سکتی۔
(عالمگیری ج ۲ ص ۶۲)
{3} اگر کفّارے میں مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو تو دس(10) مَساکین کو دونوں وَقت پیٹ بھر کر کھلانا ہوگااور جن مَساکین کو صبح کے وَقت کھلایا اُنھیں کو شام کے وَقت بھی کِھلا نا ہوگا، دوسرے دس مساکین کو کِھلانے سے (کفّارہ) ادا (pay)نہ ہوگا۔
{4} مسکینوں کو کھانا کھلانے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دَسوں کو ایک ہی دن (دونوں وَقت کا کھانا) کھلادے یا ہرروزایک(1) ایک کو (دو وقت) یا ایک ہی کو دس(10) دن تک دونوں وَقت کھلائے۔
{5}مَساکین جن کو کھلایا ان میں کوئی بچّہ نہ ہو۔
{6} کھانا کھلانے میں اِباحَت (یعنی کھانا کھانے کی صرف اجازت دینا ) یا مالِک بنا دینا(چاہیں تو یہیں کھائیں یا چاہیں تو لے جائیں، بیچ دیں ) دونوں صورَتیں(cases) ہوسکتی ہیں۔
{7} مسکینوں کو کھانا کھلانے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھلانے کی جگہ ہرمِسکین کو4کلو میں سے 160گرام کم (یعنی3,840 گرام) جَو(Barley) یا2کلو میں سے 80گرام کم (یعنی1,920 گرام) گیہوں (wheat)یا گندم کا آٹا ، ان تینوں میں سے کسی ایک چیز کی قیمت(price) کا مالک کردے۔
{8}کسی ایک ہی مسکین کو ک

کفَّارے میں روزے رکھنے کے مسائل:

{1} اگر غلام آزاد کرنے یا10مِسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادِر نہ ہو(یعنی خود فقیر ہے اور اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ کفّارہ دے دے) تو لگا تار(continually) تین(3) روزے رکھے۔
{2} عاجِز (یعنی پیسے دینے کی طاقت نہ) ہونا، اُس وَقت ہو جب کفّارہ دینا چاہتا ہے مَثَلاً جس وَقت قسم توڑی تھی اُس وَقت مالدار تھا مگر کفّارہ دینے کے وَقت (مالی اِعتِبار سے۔financially) مُحتاج ہے(یعنی پیسے وغیرہ نہیں دے سکتا ) تو روزے سے کَفَّارہ ادا (pay) کرسکتا ہے اور اگر (قسم) توڑتے وَقت پیسے نہ تھے لیکن کفّارہ دیتے وقت مالدار ہو گیا تو روزے سے (کَفَّارہ) نہیں دےسکتا ( یعنی پیسے وغیرہ ہی دینے ہونگے، جیسا کہ اوپر بتایا گیا)۔ (الجوھرۃ النیرہ ص ۲۵۳وغیرہا)
{3} ان روزوں میں رات سے نیّت شَرط (precondition)ہے اور یہ بھی ضَرور ی ہے کہ کفّارے کی نیّت سے ہوں،صرف روزے کی نیّت کافی (enough)نہیں ۔ ( مبسوط ج۴ ص ۱۶۶)
{4} روزوں سے کَفّارہ ادا (pay)ہونے کے لیے یہ بھی شَرط(precondition) ہے کہ ختم تک (یعنی تینوں روزے مکمَّل ہونے تک ) مال پر قدرت نہ ہو مَثَلاً اگر دو(2)رَوزے رکھنے کے بعد اِتنا مال مل گیا کہ کَفّارہ دے سکتا ہے تو اب روزوں سے (کَفّارہ ادا) نہیں ہو گابلکہ اگرتیسرا (3rd )روزہ بھی رکھ لیا لیکن سورج ڈوبنے(یعنی روزے کا وقت ختم ہونے) سے پہلے مال پر قادِر ہوگیا (مثلاً پیسے آگئے)تو ان روزوں سے کفّارہ پورا نہیں ہوا۔ اگر مال ہاتھ میں نہ آیا مگر مالک بن گیا تب بھی کفّارہ ادا نہیں ہوا،جیسے: کوئی قریبی رشتہ دار(close relative) انتقال کر گیا اور یہ(تیسرا روزہ مکمل ہونے سے پہلے) اُ س کی وراثت(یعنی مال ، سامان، وغیرہ) کا مالک یا حصّہ دار (partner) بن گیا ( تو کفّارہ پورا نہ ہوا)۔ (دُرِّمُختارج۵ص۵۲۶،مُلخصاً)
{5} ایک ساتھ (اگر) تین (3)روزے نہ رکھے یعنی درمِیان میں فاصِلہ(gap) کردیا تو کفّارہ ادا (pay)نہ ہوا، چاہے کسی مجبوری (مثلاً بیماری)کی وجہ سے کوئی روزہ چھوڑا ہو، یہاں تک کہ عور

’’ عید کی قربانی ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

انسان بَقرعید کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتا جو اللہ کریم کو خون بہانے سے زیادہ پیاری ہو، یہ قُربانی قِیامت میں اپنے سینگوں(horns) بالوں اور کُھروں(hooves) کے ساتھ آ ئے گی ۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کریم کے ہاں قَبول(accept) ہوجاتا ہے۔ لہٰذا خوش دِلی(with a happy heart) سے قُربانی کرو۔(تِرمِذی ج۳ص۱۶۲حدیث ۱۴۹۸)
عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: قربانی، اپنے کرنے والے کے نیکیوں کے پلّے (scale)میں رکھی جائے گی جس سے نیکیوں کا پلڑا(tip of the scale) بھاری ہو گا (اشعۃُ اللّمعات ج۱ص۶۵۴) اور یہ قربانی اس کے لئے سُواری (ride) بنے گی جس کے ساتھ یہ شخص آسانی سے پُل صراط سے گزرے گا اور اُس(جانور) کا ہرعُضو(یعنی جسم کا حصّہ) مالِک( یعنی قُربانی کرنے والے) کے ہر عُضْو (یعنی جسم کے حصّے کیلئے جہنَّم سے آزادی)کافِدیہ (رہائی کا بدل۔ reason for salvation)بنے گا(یعنی قربانی کی برکت (blessing) سے قربانی کرنے والے کو دوزخ سے آزادی ملے گی) ۔( مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۳ص۵۷۴تحتَ الحدیث ۱۴۷۰،مراٰۃ ج۲ ص ۳۷۵)

واقعہ(incident): بکری چُھری کی طرف دیکھ رہی تھی

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک آدمی کے پاس سے گزرے، وہ بکری کی گردن پر پاؤں رکھ کر چُھری تیز کر رہا تھااور بکری اس کی طرف دیکھ رہی تھی، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا:کیا تم پہلے ایسا نہیں کر سکتے تھے؟ کیا تم اسے کئی موتیں مارنا چاہتے ہو؟ اسے لٹانے سے پہلے اپنی چُھری تیز کیوں نہ کر لی؟ (اَلْمُستَدرَک لِلحاکم ج۵ ص۳۲۷ حدیث ۷۶۳۷،اَلسّنَنُ الکُبری لِلْبَیْہَقِی ج۹ ص۷۱ ۴ حدیث۹۱۴۱، مُلْتَقَطًا مِنَ الْحَدِیْثَین)

قربانی کسے کہتے ہیں؟:

مَخصُوص جانور (specific animals)کو مَخصُوص وقت (specific time)میں اللہ کریم کا حکم پورا کرنے کے لیے ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔ )در مختار، کتاب الاضحیة،ص ٦٤٥، بالتغیر)

قربانی کی قسمیں(types):

{1}قربانی کئی قسم کی ہے:(۱)ایک وہ قربانی کہ غنی(یعنی جو شرعاً مالدار ہو) اور(شرعی) فقیر دونوں پر واجب ہو (۲) دوسری وہ قربانی کہفقیر پر واجب ہو لیکن غنی پر واجب نہ ہو (۳) تیسری وہ قربانی کہغنی پر واجب ہو فقیر پر واجب نہ ہو۔
(۱) وہ قربانی کہ غنی اور فقیر دونوں پر واجب ہو: اُس کی صورت یہ ہے کہ قربانی کی منّت مانی ہو (یعنی اپنے اوپر کوئی ایسی چیز لازم کر لینا کہ شرعاً اس کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، اس کے لیے چند شرطیں (preconditions) ہیں)مثلاً یہ کہا کہ اﷲکریم کے لیے مجھ پر بکری یا گائے کی قربانی کرنا ہے یا یہ کہا کہ (مجھ پر ) اس بکری یا اس گائے کو قربانی کرنا ہے۔
(۲) وہ قربانی کہ فقیر پر واجب ہو غنی پر نہ ہو: اس کی صورت یہ ہے کہ(شرعی) فقیر نے قربانی کے لیے جانور خریدا تواُس فقیرپر اِسہی جانور کی قربانی واجب ہے اور غنی(یعنی اتنے مال والا جو شرعاً مالدار ہو) اگر خریدتا تو اس خریدنے سے (اُسی جانور کی)قربانی اُس پر واجب نہ ہوتی۔
(a)غنی نےقربانی کی نیّت سےجو جانورخریدا اگروہ اسے بیچتا ہے اور اس کی قیمت میں سے کچھ رقم کم کرکے بقیہ کا دوسرا جانور خرید ے،تو بیچنا ناجائز ہےاوریہ گناہگار ہوا ، اس پر توبہ لازم ہے اور بچی ہوئی رقم صدقہ کر دے اور (b)اگراسے بیچ کر اس کی مثل(یعنی اسی طرح کا) دوسرا جانور لانا چاہتا ہے ، تو بھی بیچنا مکروہ تحریمی وگناہ ہے، ہاں! اگر اس سے بہتر جانور لاناچاہتا ہے، تو بیچناجائز ہے۔(دارالافتاء اہلسنّت، غیر مطبوعہ)
(۳) وہ قربانی کہ غنی پر واجب ہو فقیر پرواجب نہ ہو: اس کی صورت یہ ہے کہ قربانی واجب ہونا نہ خریدنے سے ہو ،نہ منّت ماننے سے ہو بلکہاللہ کریم نے جو اسے زندہ رکھا ہے اس کے شکریہ میں اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی سنّت کو باقی رکھنے کے لیے (دیگر شرطوں (preconditions)کے ساتھ، بڑی عید میں )جو قربانی واجب ہے وہ صرف غنی (یعنی اتنے مال والا جو شرعاً مالدار ہو) پر واجب ہے،(شرعی)فقیر پر واجب نہیں ہے۔
{2}عید کی قربانی واجب ہونے کے شرطیں(preconditions) یہ ہیں:(۱) اسلا م: یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں(یعنی مالدار شخص اگر مسلمان ہوا تو اُسے پچھلی قربانیاں کرنے کا نہیں کہیں گے)(۲) اقا مت: یعنی مقیم ہونا، مسافر پر یہ قربانی واجب نہیں( ۳ ) حر یت :یعنی آزاد ہو ، غلام نہ ہو (اب سب لوگ آزاد ہیں، پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوتا تھا، آج کل غلام نہیں ہوتے ) (۴)تونگری: یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے ، وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔
{3}قربانی ہر اُس بالغ (wise, grownup)مقیم (یعنی جو مسافر نہ ہو)مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو مالکِ نصاب ہو)فتاوی ھندیہ، کتاب الاضحیة، باب فى تفسيرهاو ركنها..الخ، ٥/ ٣٦١ ملتقطًا) یعنی جس شخص کے پاس ساڑھے سات(7.5) تولے (87.48grams)سونا یاساڑھے باون (52.5) تولے (612.36grams) چاندی یا اُتنی مالیت(value) کی رقم یا سونا اور پیسے وغیرہ ملا کر 87.48grams چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کا مال ہو چاہے تجارت کا مال (trade goods) ہو یا اتنی مالیت (value) کا سامان،حاجتِ اصلیہ کے علاوہ (other) ہو۔ حاجتِ اَصْلیہسے مُراد وہ چیزیں ہیں جن کی عُمُوماً انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزراوقات میں شدید تنگی ودُشواری (tightness and difficulty)ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر، پہننے کے کپڑے، سواری(ride)، علمِ دین کی کتابیں اور کام کاج یعنی پیشے(profession) میں کام آنے والا سامان یعنی اوزار(tools) وغیرہ اور اُس پر اللہ کریم کا قرض (مثلاً زکوۃ) یا بندوں کا اِتنا قَرضہ نہ ہو جسے دینے کے بعد ، اوپر بتایا ہوا نصاب باقی نہ رہے ۔(ابلق گھوڑے سوار، ص۶ بتصرف، مکتبۃ المدینہ کراچی)

قربانی کا وقت اور سبب(reason):

{1} قربانی واجب ہونے کا سبب وقت ہے جب وہ وقت آیا اور قربانی واجب ہونے کی شرطیں (preconditions) بھی پائی گئیں تو قربانی واجب ہوگئی۔
{2} قربانی کا وقت ذی الحجہ کے مہینے میں دس (10)تاریخ کو فجر کا وقت شروع ہونے سے بارہ (12) تاریخ کو سورج ڈوبنے(sunset) تک یعنی تین(3) دن اور دو(2)راتیں ہیں ، ان دنوں کو ایام نَحَر(یعنی قربانی کے دن) کہتے ہیں۔
{3} قربانی واجب ہونے کی شرطوں (preconditions)کا پورے سال میں پایا جانا ضروری نہیں بلکہ قربانی کے لیے جو وقت طے(fixed) ہے (یعنی ذی الحجہ کے تین(3) دن اور دو(2)راتوں) کے کسی حصّےمیں شرطوں (preconditions) کے پائے جانے سے قربانی واجب ہو جائے گی مثلاً ایک شخص قربانی کا وقت (یعنی ذی الحجہ کی دس (10)تاریخ ،فجر ) شروع ہوتے ہوئے کافر تھا پھر (مثلاً ذی الحجہ کی گیارہ (11)تاریخ کو) مسلمان ہوگیا اور ابھی قربانی کاوقت باقی ہے لھذااُس پر قربانی واجب ہو گئی جبکہ قربانی کی دوسری شرطیں (preconditions) بھی پائی جائیں اسی طرح قربانی کا وقت شروع ہوتے ہوئےمسافر تھا اور قربانی کے وقت میں مقیم ہوگیا (یعنی مسافر نہ رہا) تواس پر بھی (سب شرطوں کے ساتھ) قربانی واجب ہوگئی یا فقیر تھا اوروقت کے اندر مالدار ہوگیا تواس پر بھی(سب شرطوں کے ساتھ) قربانی واجب ہے۔

قربانی کے کچھ مسائل:

{1} جس شخص پر قربانی واجب ہو مگر اس کے پاس جانور خریدنے کے پیسے نہ ہوں تو اسے چاہیےکہ قرض (loan)لے کر یا کوئی چیز بیچ کر (by selling) بھی قربانی کرے۔ (فتاوی امجدیہ، ٣/٣١٥ ملخصاً، دائرۃ المعارف الامجدیہ)
{2} نابالغ کی طرف سے قربانی واجِب تو نہیں مگر(اس کی طرف سے، والد یا سرپرست(guardian) کا اپنی طرف سے) کر دینا بہتر ہے (اور اس سے پوچھنے کی بھی ضَروری نہیں چاہے وہ نابالغ سمجھدار(sensible) ہو)۔بالغ (wise, grownup) اولاد یا بیوی کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو اُن سے اجازت لے لے۔ اگر ان سے اجازت لئے بِغیر کردی تو ان کی طرف سے واجِب ادا نہیں ہوگا(عالمگیری ج۵ص۲۹۳،بہارِ شریعت ج۳، ص۴۲۸ ) ۔ یاد رہے!اجازت دو(2) طرح سے ہوتی ہے: (۱) صَراحَۃً(واضح طور پر۔clearly) :مَثَلاً جس کی طرف سے قربانی کرنی ہے، اُس نے کہہ دیاکہ میری طرف سے قربانی کردو (۲) دَلالۃً (یعنی معلوم ہے۔understood) :مَثَلاً والد صاحب یا شوہر اپنی بیوی یا بالغ بَچّوں کی طرف سے (ہر سال )قربانی خود کرتے ہیں اوراُن لوگوں کو اس کا عِلْم ہے اوروہ راضی (agreed) بھی ہیں۔(ابلق گھوڑ سوار ص۹، مُلخصاً)
{3} قربانی کے وَقْت میں قربانی کرنا ہی لازِم ہے کوئی دوسری چیز یہ واجب پورا نہیں کرسکتی مَثَلاً قربانی کرنے کی جگہ بکرا یااُس کی قیمت(price) صَدَقہ(یعنی خیرات) کردی جائے تو قربانی کا واجب پورا نہیں ہوگا۔

قُربانی کا جانور:

{4}(۱) قربانی کا رکن(شرط۔ precondition) اِن مخصوص جانوروں(specific animals) میں سے کسی کو قربانی کی نیّت سے ذبح کرنا ہے۔
(۲) وہ جانور کے جن کی قربانی کی جاسکتی ہے اور ان کی عمر: ’’اونٹ ‘‘: پانچ(5) سال کا ، ’’گائے‘‘: دو(2)سال کی ، ’’بکرا‘‘ :ایک(1)
سال کا (اس میں بکری(she goat) ،دُنبہ ،دُنبی (ram)اوربھیڑ(sheep)(نرو مادہ۔male and female) دونوں شامل ہیں ) ۔ اس سے کم عمر والے (age younger ) جانور کی قربانی کی تو واجب پورا نہیں ہوگا ، زیادہ عمر(older age) ہوتو جائز بلکہ افضل (اور زیادہ ثواب کا کام )ہے۔

(۳) ہاں! دُنبہ (ram)یا بَھیڑ (sheep)کا چھ(6) مہینے کا بچّہ اگر اتنا بڑا ہوکہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتو اس کی قربانی جائز ہے (دُرِّمُختارج۹ص۵۳۳) ۔ یادرکھئے!ہر چھ(6) ماہ کے دُنبے کی قربانی جائز نہیں ، اس کا اِتنا فَربَہ(یعنی موٹا) اور قد والا(tall)ہونا ضَروری ہے کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے اگر 6ماہ بلکہ سا ل میں ایک دن بھی کم عمر (age younger ) دُنبے یا بَھیڑ (sheep)کے ایسے بچّے کی قربانی کی جو دُور سے دیکھنے میں ایک سال کا نہیں لگتا تھاتو قربانی کا واجب پورا نہیں ہوا۔

(۴)قربانی کی نیّت سے( اوپر جو جانور بتائے گئے، ان کے علاوہ۔other) کسی دوسرے جانور مثلاً مرغ کو ذبح کرنا ،ناجائز ہے(بہارِ شریعت ح۱۵،ص۳۳۳، مسئلہ۶،مُلخصاً) یعنی مرغی تو حلال ہے، گوشت کھایا جائے گا مگر قربانی میں جس جانور کو ذبح کرنے کا حکم تھا، اُس کی جگہ دوسرےحلال جانور کوقربانی کے طور پر ذبح کرنا، یہ تبدیلی (changes) حرام ہے اور قربانی کا واجب بھی پورا نہیں ہوا۔

{5}(۱)قربانی کا جانور عَیب(جیسے جسمانی خرابی) کے بغیرہونا ضَروری ہے اگرتھوڑا سا بھی عیب ( مَثَلاً کان میں سُوراخ) ہوتو قربانی مکروہ ہوگی اورزیادہ عیب ہوتو قربانی نہیں ہوگی ۔ (بہارِ شریعت ج۳ص۳۴۰ ،مسئلہ۵مُلخصاً)

(۲)زیادہ عیب والے جانور:
جَلّالہ جو جانور صِرف غلیظ (یعنی ناپاک چیزیں)کھاتا ہو یاایسا پاگل جانور جو چَرتا( یعنی کھاتا)نہ ہو یا اتنا کمزور کہ ہڈّیوں میں مَغْز نہ رہا ( یعنی وہ کمزور ہونے کی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکتا ہو) یا ایسا لنگڑا جو خود اپنے پاؤں سے قُربان گاہ (یعنی جہاں ذبح کیا جاتا ہے)تک نہ جاسکے یااندھا یا ایسا کانا (یعنی ایک آنکھ سے دیکھنے والا)جس کا کاناپن ظاہِر ہو (مثلاً چارا (جیسے گھاس، سبزی وغیرہ )جب دور رکھتے ہیں تو نہیں کھاتا اور جب بالکل قریب لے جاتے ہیں تو کھاتا ہے، اسی طرح ایک آنکھ کی طرف رکھتے ہیں تو نہیں کھاتا لیکن دوسری آنکھ کی طرف رکھتے ہیں تو کھا لیتا ہے)یاایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو (یعنی جو بیماری کی وجہ سے چارا نہ کھائے) یا جس کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہودانت جھڑ (یعنی گر)گئے ہوں یا ناک کٹی ہویا جس کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو یا کان یا دُم یا چکّی(fat-tailed sheep)ایک تہائی (1/3، 33%) سے زیادہ کٹی ہو یا تھن(udders) کٹے ہوئے ہوں یا خشک ہوگئے ہوں (یعنی دودھ نہ آتا ہو) ، ان سب کی قربانی کرنا جائز نہیں۔نوٹ:بکری میں ایک(1) تھن(udders) کے خشک ہونے اورگائے، بھینس میں دو (2)تھنوں کے خشک ہونے کی وجہ سے قربانی کا واجب پورا نہیں ہوتا ۔(بہارِ شریعت ج۳ص۳۴۰،۳۴۱ ، مُلخصاً)

(۳)جس کے پیدائشی(congenital) سینگ(horn) نہ ہوں،اُس کی قربانی جائز ہے ۔اور اگر سینگ تھے مگرٹوٹ گئے ،اگر جڑ سے ٹوٹے ہیں تو قربانی نہ ہوگی اور صرف اوپر سے ٹوٹے ہیں جڑ سے نہیں تو قربانی ہوجائے گی (عالمگیری ج۵ص ۲۹۷) ۔اگر کسی جانور کا سینگ جڑ سمیت ٹوٹ جائے اور زخم بھرجائے ، تو اب اس کی قربانی ہوسکتی ہے ، کیونکہ جس عیب کی وجہ سے قربانی نہیں ہورہی تھی ، وہ عیب اب ختم ہوچکا ہے ، لہٰذا اس کی قربانی ہوجائے گی ۔(دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:Aqs 1641 )

الحاصل: جب قربانی کا جانور خریدنے کے لیے جائیں تو تین(3) چیزیں دیکھیں:
(1) قربانی کا جانور اور اس کی عمر(age) (2)اس میں کسی قسم کا عیب(جسمانی خرابی)وغیرہ نہ ہو(3)خاص طور پر (especially) یہ دیکھ لیں کہ اوپر جو عیب بتائے ہیں، وہ نہ ہوں۔
{6} اسی طرح وحشی (یعنی جنگلی) جانور جیسے نِیل گائے، جنگلی بکرا ، ہرن وغیرہ یا خُنثٰی جانور(یعنی جس میں نر و مادہ۔ male and female دونوں علامتیں ہوں ) کی بھی قربانی نہیں ہوتی۔(دُرِّمُختارج۹ص۵۳۵۔۵۳۷)
{7} بعض لوگ پورے گھر کی طرف سے صِرْف ایک بکرا قُربان کرتے ہیں حالانکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی گھر میں کئی لوگوں پر قربانی واجِب ہوتی ہے، اب ان سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کرنا لازم ہے اگر ایک ہی بکرا سب کی طرف سے کیا گیا توکسی ایک کا بھی واجِب پورانہیں ہوگا کہ بکرے میں ایک سے زیادہ حصّے نہیں ہوسکتے۔ہاں! کسی ایک کوطے (fixed) کرلیا (مثلاً والد صاحب کی طرف سے قربانی کی)تو اسی ایک کی طرف سے بکرا قربان ہو جائے گا(مگر باقی سب کو بھی قربانی کرنی ہوگی) اور وقت گزر گیا تو ایک بکرے کی رقم یا ایک بکراصدقہ کرنا ہوگا۔ (دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:web 99 ،مُلخصاً)
{8} گائے ( بھینس)اوراُونٹ میں سات(7) قربانیاں ہوسکتی ہیں۔(عالمگیری ج۵ص۳۰۴)
{9} قربانی کرتے ہوئے جانور اُچھلا کودا(مثلاً بھاگنے کی کوشش کی) جس کی وجہ سے عیب(یعنی کوئی خرابی ) پیدا ہوگیا (مثلاً ٹانگ ٹوٹ گئی) تو اس عیب(یعنی خرابی ) کے ساتھ قربانی ہو جائے گی اسی طرح اُچھلنے کودنے سے عیب پیدا ہوا پھر وہ جانور بھاگ گیا لیکن فورا ًپکڑکر ذَبْح کر دیا گیا تو اب بھی قربانی ہو جائے گی۔
{10} قربانی کے دن گزر گئے اور جس پر قربانی واجب تھی،اُس نے قربانی نہیں کی اور جانور یا اُس کی قیمت کو صدقہ بھی نہیں کیا یہاں تک کہ دوسری بقر عید آگئی اب یہ چاہتا ہے کہ پچھلے سال والی قربانی کی قضا اس سال کر لے تو یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اب بھی یہی حکم ہے کہ جانور یا اُس کی قیمت صدقہ کرے۔
{11} بڑے جانور میں زیادہ سے زیادہ سات(7) لوگ شریک (participants)ہو سکتے ہیں(یعنی بڑا جانور کسی ایک کی طرف سے بھی قربان کیا جاسکتا ہے،5،4،3،2،1، 6اور زیادہ سے زیادہ7 لوگوں کی طرف سے کیا جاسکتا ہے)۔
بڑے جانور کےشرکا (participants) میں سے ایک کی نیّت تو اس سال کی قربانی کرنے کی ہے اور باقیوں (rest) کی نیّت پچھلے سال کی قربانی کی ہو (اور جانور کی قربانی کر دی )تو جس(ایک آدمی ) کی اس سال کی نیّت تھی اُس کی قربانی تو صحیح ہے اور باقیوں(rest) کی نیّت باطل(یعنی قربانی نہیں ہوئی) کیونکہ پچھلے سال کی قربانی اس سال نہیں ہوسکتی تھی ۔ان لوگوں کی یہ قربانی نفل(اور جائز) ہوئی(مگر واجب پورا نہیں ہوا) اور ان لوگوں پر لازم ہے کہ(قربانی کے ) گوشت کو صدقہ کر دیں بلکہ ان کا ساتھی جس کی قربانی صحیح ہوئی ہے بھی (اپنے حصّے والے گوشت کو صدقہ کرے)۔ (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۵، ص۳۴۳،مسئلہ۱۵،۳۳مُلخصاً) نتیجہ یہ ہے کہ جس نے اس سال کی قربانی کی نیّت کی تھی، اُس کا واجب تو پورا ہوگیا مگر اُس کے حصّے والے گوشت کو بھی صدقہ کریں گے اور یوں پورے بڑے جانور کا گوشت صدقہ ہوگا۔

قربانی کے جانور سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے:

{12}ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال، اپنے کسی کام کے لیے کاٹ لینا یا اُس کا دودھ لینا مکروہ ہے قربانی کے جانور پر سوار (ride) ہونایا اُس پر کوئی سامان رکھنا یا اُس کو اُجرت (کرائے۔wages)پر دینا یعنی کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنا منع ہے اگر اُس کی اون (wool)کاٹ لی یا دودھ لے لیا تو ان چیزوں کو صدقہ کر دے اور اُجرت (کرائے۔wages)پر جانور کو دیا ہے تو اس سے ملنے والی رقم(amount) کو صدقہ کرے اور اگر خود سوار(ride) ہوا یا اُس پر کوئی چیز رکھی اوراس کی وجہ سے جانور (کی قیمت۔amount)میں جو کچھ کمی آئی (مثلاً اُس جانور کی مارکیٹ ویلیو(market value) کم ہوئی )تواُتنی رقم (جو ویلیو (value)کم ہوئی)صدقہ کرے۔

{13}جانور دودھ والا ہے تو اُس کے تھن (udders)پر ٹھنڈا پانی مارےتا کہ دودھ باہر نہ آئے۔اگر اس سے کام نہ چلے توجانور کادودھ نکال کر صدقہ کردے۔

{14}جانور ذبح ہوگیا تو اب اُس کے بال اپنے کام کے لیے کاٹ سکتا ہے اور اگر اُس کے تھن(udders) میں دودھ ہے تو اب وہ لے سکتا ہے ۔

{15}قربانی کے لیے جانور خریدا تھا قربانی کرنے سے پہلے اُس کے بچّہ پیدا ہوا تو بچےّ کو بھی ذبح کرلے اور اگر بچّہ کوبیچ ڈالا تو اُس سے ملنے والی رقم کو صدقہ کر دے اور اگر ذبح نہ کیا اور نہ ہی بیچا اورقربانی کے دن یعنی دس، گیارہ،بارہ ذی الحجہ گزر گئے تو اُس کو زندہ صدقہ کر دے اور اگرکچھ نہ کیا اور بچّہ اُس کے یہاں رہا اور قربانی کا وقت آگیا یہ چاہتا ہے کہ اس سال کی قربانی میں اسی کو ذبح کرے تویہ بھی نہیں کرسکتا اور اگر اس کی قربانی کر دی تو دوسری قربانی پھر کرے کہ وہ قربانی نہیں ہوئی اور وہ بچّہ ذبح کیا ہوا صدقہ کر دے بلکہ ذبح سے جوکچھ اُس کی قیمت میں کمی ہوئی اسے بھی صدقہ کرے(یعنی زندہ کی قیمت زیادہ ہوتی اور ذبح کے بعد گوشت اور کھال وغیرہ کی قیمت کم ہوتی ہے تو قیمت میں جو کمی(decrease) آئی ہے، اُتنی رقم(amount) بھی صدقہ کرے)۔

{16}قربانی کی اور اُس کے پیٹ میں زندہ بچّہ ہے تواسے بھی ذبح کر دے اورذبح کے بعد اس کے گوشت وغیرہ کو استعمال کر سکتا ہے اور اگر بچّہ مرا ہوا تھا تو اسے پھینک دے کہ مردار (یعنی حرام)ہے۔
(بہار شریعت ج۳، ح ۱۵ ،مسئلہ۳۳،۳۴،۴۵،۳۶، ص۳۴۸، ۳۴۷)

’’حلال جانور ذبح کرنا ‘‘

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کہتے ہیں کہ:

وحی نازل ہونے سے پہلے(یعنی جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان نہیں فرمایا تھا) ایک مرتبہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی (ایک جگہ)''بَلْدَح'' میں زَیْد بِن عَمْرْو بِن نُفَیْل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سامنے دسترخوان (table cloth)پر کھانا پیش کیا ۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے کھانا کھانے سےمنع فرمایا تو زَیْد کہنے لگے کہ :میں بتوں کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا۔ میں صرف وہی ذبیحہ کھاتا ہوں جو اللہ کریم کے نام پر ذبح کیا گیاہو۔
( صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار ، الحدیث:۳۸۲۶،ج۲، ص۵۶۷، مُلخصا) ,
عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: اگر ذبح کے وقت اللّٰہ کریم کے علاوہ کسی دوسرے کا نام لیا تو وہ جانور حرام ہوجائے گا۔ لوگ عام طور پر جانور خریدتے یا پالتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ یہ گیارہویں شریف کا بکرا ہے یا فلاں بزرگ کا بکرا ہے لیکن ذبح کرتے وقت جانور پر اللّٰہ کریم کا نام ہی لیا جاتا ہے لھذا اس جانور کا گوشت کھانا ،جائز ہے جیسے قربانی کے دنوں میں کہا جاتا ہے کہ یہ قربانی کا بکر اہے، میرے داد جان کا بکرا ہے اور قربانی کرتے ہوئے، اللّٰہ کریم ہی کا نام لے کر ذبح کر دیا جاتا ہے(تو اس کا گوشت کھانا ،جائز ہے بلکہ سب ہی کھاتے ہیں) اسی طرح کسی بزرگ کا نام جانور پر لینا جائز ہے جبکہ ذبح کرتے (یعنی جانور پر چھری چلاتے ) وقت اللّٰہ کریم کانام لیکر ذبح کرے۔ یاد رہے کہ ثواب پہنچانے سے ہماری نیکیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ اور بڑھ جاتی ہیں ۔ (بہار شریعت،ج ،۲۶۴،۱ تا ۲۷۷ ماخوذ۱ً)

واقعہ(incident): جنگل میں دعوت ہوگئی

ایک صاحب کہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ ہم چند لوگ کسی کام سے سمند رکے قریب ایک جگہ گئے،راستے میں ایک پہاڑ آیا توہم وہاں کچھ دیر رُک گئے پھر آگے گئے تو ایک جنگل آگیا اور شام ہوگئی ۔سردیوں کا موسم تھا اور ہمارے ساتھ حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی تھے، ہم نے عرض کی : حضور !اگر مناسب سمجھیں تو آج رات ہم یہی رُک جاتے ہیں کہ اس جنگل میں خشک لکڑیاں(dry woods) بہت ہیں، ہم لکڑیاں جمع کر کے انہیں جلائیں گے تو آگ کی گرمی ،ہمیں سردی سے اور اس کی روشنی ہمیں درندوں(beasts) وغیرہ سے بچائے گی۔

آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔ جب ہم نے آگ لگائی اور کھانے کے لیے روٹیاں نکالیں تو ایک نے کہا کہ: کاش! ہمارے پاس گو شت ہوتا تو ہم اسی آگ پر بھون ( fry کر )لیتے ۔ حضرت ابراہیم ابن ادہمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہ بات سن لی اورفرمانے لگے : بے شک ! اللہ کریم اس بات پر قادر (یعنی طاقت رکھتا) ہے کہ تمہیں اس جنگل میں تا زہ گو شت(fresh meat) کھلائے ۔ آپ نے یہ فرمایا، اُسی وقت ایک شیرہرنی کے پیچھے بھاگتا ہوا آگیا اور ہر نی ہماری طر ف بھاگتی ہوئی آرہی تھی پھر شیر نے ہرنی پر چھلانگ لگا کر ہرنی کو زخمی(injured) کر دیا۔ حضرت ابراہیم ابن ادہمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اُٹھے تو شیر پیچھے ہٹ گیا، آپ نے فوراً ہرنی کو ذبح کر دیا پھر فرمانے لگے کہ: یہ رزق (یعنی کھانا)اللہ کریم نے ہمارے لئے بھیجا ہے۔ اب ہم آگ پر گوشت بھون بھون کر کھاتے رہے اور شیر دور بیٹھا ہمیں دیکھ رہا تھا اور جلتی ہوئی آگ کی وجہ سے ہمارے قریب نہ آتا تھا۔ (عیون الحکایات ج۱، ص۳۱۰،مُلخصاً)

ذبح(slaughter):

{1} حلال جانور(عید کے دنوں میں قربان ہونے والے یا ان کے علاوہ۔except them) دو(2) طرح کے ہیں (ا) جنہیں بغیر ذبح کے کھانا حلا ل ہو،یہ دو(2) ہیں (a)مچھلی اور(b) ٹڈی (grasshopper) اور دوسرے وہ حلال جانور (۲) جنہیں شرعی طریقے سے ذبح کیے بغیر کھاناحلال نہیں (ان جانوروں کی تفصیل آگے آرہی ہے) ۔

{2}شرعی طریقے سے ذبح کی دو(۲) صورتیں(cases) ہیں:(1)اختیاری(2)اضطراری۔

(1) اختیار ی:اس کی بھی دو(۲) قسمیں ہیں:(a)ذبح(b)نحر (1a)ذبح: گلے میں چند رگیں(یعنی نالیاں) ہیں ان کے کاٹنے کو” ذَبح “کہتے ہیں ۔” ذبح “ کی جگہ حلق (throat) اور لَبَّہ (larynx)کے درمیان ہے، لَبَّہ سینے(chest) کے اوپر والےحصّے کو کہتے ہیں۔

(1b)نحر: حلق کے آخری حصّےمیں نیزہ(spear) وغیرہ گھونپ(یعنی مار)کر(stab) رگیں(یعنی خون کی نالیاں) کاٹ دینے کو نحر کہتے ہیں۔ نوٹ: (الف)عوام میں یہ مشہور ہے کہ اونٹ کو تین(3) جگہ ذبح کیا جاتا ہے، یہ غلط ہے اور ایسا کرنا مکروہ اور بغیر وجہ کے جانور کو تکلیف دینا ہے۔

(ب) اونٹ کو نحر کرنا اور گائے بکری وغیرہ کو ذبح کرنا سنّت ہے۔ اگر اس کا اُلٹ کیا(did the opposite) یعنی اونٹ کو ذبح کیا اور گائے وغیرہ کو نحر کیا تو اس صورت(case) میں بھی جانور تو حلال ہو جائے گا مگر ایسا کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ سنّت کے خلاف ہے۔

(2)اضطراری :یہ ہے کہ جانور کے بدن میں کسی جگہ نیزہ (spear) وغیرہ بھونک کر(stab) خون نکال دیا جائے اس طرح کی کچھ صورتوں(cases) میں جانور حلال ہوجاتا ہے (ان کے مسائل آگے آرہے ہیں )۔

ذبح کا طریقہ اور کچھ مسائل:

{1} بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے جبکہ اچّھی طرح ذَبْح کرنا جانتا ہواوراگراچّھی طرح نہ جانتا ہوتو دوسرے کوذَبْح کرنے کا حکم دے مگر اِس صورت(case) میں بھی بہتر یہ ہے کہ قربانی کے وقت وہاں موجود ہو۔( عالمگیری ج۵ص۳۰۰) مُستحب(اور ثواب کا کام) یہ ہے کہ جانور کو لٹانے سے پہلے چھری تیز کر یں ، لٹانے کے بعد چھری تیز کرنا مکروہ ہے۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۵،ص ۳۱۴،مسئلہ۱۳)

{3}قربانی سے پہلے یہ دعا پڑھے : اِنِّیْ وَجَّہۡتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ ﴿﴾ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ ۱﴾ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰ لِکَ اُمِرْتُ وَاَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴿﴾ (بہارِ شریعت ج۳ص۳۵۲،مُلخصاً (

{4} پاک و ہند(Pakistan and India) میں قِبلہ مغرِب (west) میں ہے، اس لئے جانور کا سر ، جُنُوب (south) کی طرف ہونا چاہئے تا کہ جانوراُلٹی کروٹ(left side) لیٹا ہو،اور اس کی پیٹھ(back) مشرِق(east) کی طرف ہو تا کہ اس کا مُنہ قبلے کی طرف ہو جائے، اور ذَبْح کرنے والا اپنا سیدھا پاؤں جانور کی گردن کے(قریب) سیدھے حصّے پر رکھے۔( فتاوٰی رضویہ ج ۲۰ص ۲۱۶،۲۱۷،مُلخصاً)

{5}اب یہ دعا پڑھے : اَ للّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَر پھر تیز چُھری سے جلد ذَبْح کردے ۔ قربانی اپنی طرف سے ہو توذَبح کے بعد یہ دعا پڑھے:اللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَ السَّلَا مُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم اگردوسرے کی طرف سے قربانی کرے تو مِنِّیکے بجائے مِنْکہہ کر اُس کا نام لے(مثلاً، اگر کسی دوست کی طرف سے کی اور اُس کا نام”محمد عماد“ ہے تو اب اس طرح کہیں : اللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمّد عِمَاد کَمَا تَقَبَّلْتَ۔۔۔۔۔) (بہارِ شریعت ج۳ص۳۵۲،مُلخصاً (

{6} اس طرح ذبح کرنا کہ سر کٹ کر الگ ہو جائے بلکہ چھری حرام مغز(یعنی گلے کے آخری حصّے) تک پہنچ جائے (یہ دونوں کام) مکروہ ہیں مگر جو جانور اس طرح ذبح ہوا،اُس(کے گوشت وغیرہ) کو کھایا جائے گا یعنی اس طرح ذبح کرنا مکروہ ہےنہ کہ اس جانور کا گوشت کھانا مکروہ ہے(اور قربانی بھی ہوجائے گی)۔

{7} ہر وہ کام جس سے جانور کو بلا فائدہ تکلیف پہنچے، مکروہ ہے مثلاً جانور میں ابھی سانسیں(breaths) باقی ہیں ، جانور کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے اُس کی کھال اُتارنا یا جانور ٹھنڈا ہونے سے پہلے اُس کے سر کو کھینچنا کہ رگیں(veins) وغیرہ نظر آئیں یا گردن کی ہڈی کو توڑنا مکروہ تحریمی و گناہ ہے۔

{8}جانور کو گردن کی طرف سے ذبح کرنا مکروہ ہے بلکہ اس کی بعض صورتوں (cases)میں جانور حرام ہو جائے گا۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۵،ص ۳۱۵،مسئلہ ،۱۵،۱۶)

ذبح کے کچھ مسائل :

{1} ذبح میںجو رگیں (یعنی گلے کے اندر موجود نالیاں) کاٹی جاتی ہیں وہ چار(4) ہیں۔(۱)حلقوم (respiratory tract): یہ وہ ہے جس میں سانس کے لیے ہوا آتی جاتی ہے،(۲) مِری(oesophagus): اس سے کھانا پانی جسم میں جاتا ہے۔ ان دونوں رگوں (یعنی نالیوں)کے ساتھ ساتھ اور دو(2) رگیں (veins) ہیں جن سے خون آتا جاتا ہے ، ان کو (۳،۴)ود جین(blood veins) کہتے ہیں۔

{2} ذبح کی چار(4) رگوں(یعنی گلے کے اندر موجود نالیوں) میں سے تین کا کٹ جانا کافی ہے یعنی اس صورت (case)میں بھی جانور حلال ہو جائے گااسی طرح اگر چاروں میں سے ہر ایک کا اکثر حصّہ(major part) کٹ جائے جب بھی حلال ہو جائے گا اور اگر آدھی آدھی ہر رگ کٹ گئی اور آدھی باقی ہے تو حلال نہیں۔

{3} پورے گلے(throat) میں جہاں (یعنی اوپر یانیچےیا درمیان ) سے ذبح کیا جائے ،جانور حلال ہوگا۔

{4} گلے کی ابھری ہوئی ہڈی سے ذبح نہ کیا جائے، کچھ عُلَمائے کِرام کہتے ہیں کہ اس طرح ذبح کرنے سے جانور حلال نہیں ہوگا۔ہاں! کسی نے اس طرح ذبح کیا اور(اوپر جن چار(4)رگوں کا بتایا گیا، ان میں سے) تین (3) رگیں کٹ گئیں تو جانور حلال ہے مگر اس جگہ سے ذبح نہ کیا جائے۔

{5} ذبح سے جانور حلال ہونے کے لیے کچھ شرطیں(preconditions) ہیں:

(۱)ذبح کرنے والا عاقل (یعنی پاگل وغیرہ نہ)ہو اتنا چھوٹا بچّہ جو بے عقل ہو اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال نہیں اگر چھوٹا بچّہ ذبح کو سمجھتا ہو اور صحیح طرح قربانی کر سکتا ہو تو اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے۔

(۲) ذبح کرنے والا مسلم ہو یا کتابی۔ (یعنی آسمانی کتاب پر ایمان رکھنے والا) مشرک اور مرتد کا ذبح کیا ہو جانور حرام ہے۔

(۳)اﷲکریم کے نام کے ساتھ ذبح کرنا اﷲ کریم کا نام لے یا نام کے ساتھ صفت بھی ذکر کرے دونوں صورتوں میں جانور حلال ہو جاتا ہے مثلاً صرف اَﷲ یا اَﷲ ُاَکْبَر، اَﷲ ُاَعْظَم، اَﷲ ُاَجَلُّ، اَﷲ ُالرَّحْمٰن، اَﷲ ُالرَّحِیْم،یا سُبْحَانَ اللہ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہیا لآاِلٰہَ اِلَّااﷲ ُپڑھنے سے بھی جانور حلال ہو جائے گا اﷲ کریم کے ناموں میں سے کوئی نام بھی لے تو جانور حلال ہوجائے گا ۔ یہی ضروری نہیں کہ” اَﷲ “ہی زبان سے کہے،جیسے: اَلرَّحْمٰن یا اَلرَّحِیْم کہا تب بھی جانور حلال ہو جائے گا اﷲ کریم کا نام عربی کے علاوہ(other) کسی دوسری زبان میں لیا تب بھی جانور حلال ہوجائے گا(۴)ذبح کے وقت اﷲکریم کے علاوہ (other)کسی کا نام نہ لے۔

ذبح کرنے میں جان بوجھ کر(deliberately) بِسْمَ ﷲ نہ کہی تو جانور حرام ہے اور اگر بھول کر ایسا ہوا جیسا کہ کبھی شکار (hunting)کے وقت ذبح کرنے میں جلدی ہوتی ہے اور جلدی میں شکاری (hunter) بِسْمَ ﷲ کہنا بھول جاتا ہے تو اس صورت(case) میں جانور حلال ہے(ان مسائل کی تفصیل آگے آرہی ہے) ۔

{6} بِسْمَ ﷲکے آخر میں موجود”ہ“کو پڑھنا چاہیے۔ اگر ”ہ“نہ پڑھی جیسا کہ بہت سے لوگ صحیح نہیں پڑھتے لیکن(غلط انداز میں بِسْمَ ﷲپڑھنے سے بھی) پڑھنے والے کا ارادہ (اور نیّت۔intention) اﷲکریم کا ذکر کرنے ہی کا ہوتی ہے لھذا (اس غلط انداز کے ساتھ پڑھنے سےبھی)جانور حلال ہی ہے(لیکن اس طرح غلط پڑھنا نہیں چاہیے) اگر بِسْمَ ﷲکی ”ہ“کو جان بوجھ کر(deliberately) چھوڑا یعنی ایک شخص صحیح پڑھ سکتا ہے مگر پھر بھی ( صرف ” اَللّٰ “ ) ” ہ “ چھوڑنے کی نیّت کے ساتھ پڑھےتو اب جانور حرام ہو جائےگا۔

{7} مُستَحب (اور ثواب کا کام)یہ ہے کہ ذبح کے وقت بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرکہے یعنی بِسْمِ اللہِ اور اَللہُ اَکْبَر کے درمیان” واؤ “ نہ لائے اور اگر بِسْمِ اللہِ وَاللّٰہْ اَکْبَر” وا ؤ “ کے ساتھ کہا تب بھی جانور حلال ہو جائےگا مگر کچھ عُلَمائے کِرام ذبح کے وقت اس طرح (بِسْمِ اللہِ وَاللّٰہْ اَکْبَر)کہنے کو مکروہ کہتے ہیں۔

(۵)خود ذبح کرنے والا اﷲکریم کا نام اپنی زبان سے کہے اگر یہ خود خاموش رہا دوسروں نے نام لیا اور ذبح کرنے والے کو یاد بھی تھا، بھولا نہ تھا (پھر بھی بِسْمِ اللہ نہ پڑھی)تو جانور حرام ہے۔

(۶) اﷲکریم کا نام ذبح کے لیے لیا ہو اور اگر کسی دوسرے کام کے لیے بِسْمِ ﷲپڑھی اور ساتھ ہی ذبح کر دیا مثلاًچھینک آئی اور اس پر اَلْحَمْدُلِلّٰہ!کہا اور جانور ذبح کر دیا یعنی اﷲکریم کا نام ذبح کے لیے نہ تھا بلکہ چھینک کی وجہ سے لیا تھا تو(اب یہ )جانور حلال نہیں ہوگا۔

{8} بکری ذبح کے لیے لٹائی تھی بِسْمِ اللہ کہہ کر ذبح کرنا چاہتا تھا کہ وہ اُٹھ کر بھاگ گئی پھر اُسے پکڑ کے لایا اور لٹایا تو اب دوبارہ(again) بِسْمِ اللہ پڑھے ، پہلے جو پڑھی تھی اُس سے اب ذبح نہیں کر سکتا بکریوں کا ریوڑ (herd of goats)دیکھا اور ِبِسْمِ اللہ پڑھ کر اُن میں سے ایک بکری پکڑ لایا اور ذبح کر دی مگر قصداً(یعنی جان بوجھ کر۔deliberately) بِسْمِ اللہ نہ کہی یہ سوچا کہ بِسْمِ اللہ پہلے پڑھ چکا ہوں تو بکری حرام ہوگئی۔

{9} دوسرے سے ذَبْح کروایا اورخود اپنا ہاتھ بھی چُھری پر رکھ دیا کہ دونوں نے مل کرذَبْح کیا تو دونوں پر بِسْمِ اللہکہنا واجِب ہے ۔ایک نے بھی جان بوجھ کر (deliberately)بِسْمِ اللہ نہ پڑھی یایہ سوچ کر چھوڑ دی کہ دوسرے نے کہہ لی مجھے کہنے کی کیا ضَرورت !، دونوں صُورَتوں (cases)میں جانو ر حلال نہ ہوا۔ (دُرِّمُختار ج ۹ ص ۵۵۱)

(۷)جس وقت جانور کو ذبح کیا جائے، وہ اُس وقت زندہ ہو، چاہےیعنی کم از کم اُس کی تھوڑی سانسیں ہی باقی رہ گئی ہوں ذبح کے بعد خون نکلنا یا جانور میں حرکت (movement)ہونا، اسی لیے ضروری ہے کہ اِس سے اُس کا زندہ ہونا معلوم ہوتا ہے۔ (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۵،ص ۳۰۸،مسئلہ۱،۲،۳،۴،۵،۷،۸،۱۰،۲۴،۲۶،۲۷،۳۳)

اہم دینی مسائل:

{1} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏ جو غَیْرُاللہکے نام کے ساتھ ذبح کرےاس پراللہ کریم نےلعنت فرمائی ہے ( مستدرک حاكم،کتاب الحدود ،۵/ ۵۰۹،حدیث:۸۰۵۲) ۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: جس کو اللہ کریم کے علاوہ(except) کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو(تو اُس پر لعنت فرمائی گئی ہے یعنی وہ اللہ کریم کی رحمت سے دور ہے ) (صراط الجنان، ج۳،ص۲۲۹) ۔کسی بزرگ کے نام کا جانور ذبح کرنے میں شرعاً کوئی حرج (یا گناہ)نہیں جبکہ ذبح کرتے (یعنی جانور پر چھری چلاتے ) وقت اللّٰہ کریم کانام لیکر ذبح کرے کیونکہ اگر ذبح کے وقت اللّٰہ کریم کے علاوہ(other) کسی دوسرے کا نام لیا تو وہ جانور حرام ہوجائے گا لیکن کوئی مسلمان اس طرح نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں لوگ عموماً جانور خریدتے یا پالتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ یہ گیارہویں شریف کا بکرا ہے یا فلاں بزرگ کا بکرا ہے یا گائے ہے لیکن ذبح کرتے وقت جانور پر اللّٰہ کریم کا نام ہی لیا جاتا ہے لھذا اس جانور کا گوشت کھانا ،جائز ہے جیسے قربانی کے دنوں میں کہا جاتا ہے کہ یہ قربانی کا بکر اہے، میرے داد جان کا بکرا ہے اور قربانی کرتے ہوئے اللّٰہ کریم کا نام لے کر ذبح کر دیا جاتا ہے۔

{2} جانور سے کام لینے میں یہ لحاظ ضروری ہے کہ اس کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے یعنی اتنا کام نہ لیا جائے کہ وہ مصیبت میں پڑجائے ،جتنا وزن(weight) اٹھا سکتا ہے ، اُتنا ہی وزن(weight)ڈالاجائے یا جتنی دور تک جاسکتا ہو وہیں تک لےجائے یا جتنی دیر تک کام کر سکتا ہو، اتنا وقت کام لیا جائے۔ کچھ لوگ اتنا بوجھ (burden) ڈال دیتے ہیں کہ گھوڑا مصیبت میں آجاتا ہے، یہ ناجائز ہے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ بلاوجہ (without reason) جانور کو نہ مارے اور سر یا چہرہ پر کسی حالت (condition)میں ہر گز نہ مارے کہ یہ بالا جماع (یعنی عُلَمائے کِرام کے اتفاق سے۔with the consensus of scholars) ناجائز ہے۔ جانور پر ظلم کرنا ذمّی کافر پر ظلم کرنے سے زیادہ برا ہے(ذمّی : ان غیرمسلموں کو کہتے ہیں کہ جنہیں مسلمان بادشاہ نے اسلام قبول(accept) کرنے کی دعوت دی مگر وہ لوگ مسلمان نہ ہوئے تو بادشاہ نے ان پرجزیہ (Tax) لازم کردیا پھر وہ جزیہ (Tax) دینے لگے۔(بہار شریعت،حصہ ۹،ص ۱۳۴، مُلخصاً)لیکن آج کل ذمّی کافر نہیں ہوتے) اور ذمّی کافر پر ظلم کرنا مسلمان پر ظلم کرنے سے بھی برا ہے کیونکہ بظاہر جانور کا کوئی مددگار(helper) نہیں ، اسے ظلم سے کون بچائے؟ (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶،ص ۶۶۰،مسئلہ، ۴۷، مُلخصاً)

یاد رہے! یہاں جو جانوروں سے کام لینے کا کہا گیا ہے، اس سے مراد وہ جانور ہیں جو قربانی کے لیے نہ لیے گئے ہوں،جس جانور کو عید میں قربان کرنے کی نیّت(intention) سے لیا ہو اُس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھا سکتے(اس کے مسائل پچھلے topicمیں گزرے)۔

{3} بیل پر سواری (ride)کرنا اور اس پر بوجھ لادنا(carrying load) اور گدھے سے ہل جوتنا (ploughing) جائز ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ بیل سے صرف ہل(plough) میں کام لے اور اس سے بوجھ (load)نہ اُٹھوایا جائے ، اسی طرح یہ بھی لازم نہیں کہ گدھے پر صرف بوجھ ڈالا جائے اور ہل (plough) میں کام نہ لیا جائے۔ (بہار شریعت ح۱۶،ص۶۶۰، مسئلہ۴۶،مُلخصاً)

حلال اور حرام جانور کےکچھ مسائل:

{1} کیلے (نوکیلے دانتوں )والاجانور جو کیلے سے شکار بھی کرتا ہو حرام ہے جیسے شیر(lion)، گیدڑ(jackal)، لومڑی(fox)، بِجُّو(badger)، کتا (dog)وغیرہا کہ ان سب میں کیلے(sharp teeth) ہوتے ہیں اور شکار بھی کرتے ہیں اونٹ کے کیلا ہوتا ہے مگر وہ شکار نہیں کرتا اس لیےوہ حرام نہیں۔

{2} پنجےوالا پرندہ(bird with claws) جو پنجے (claws)سے شکار بھی کرتا ہو حرام ہے جیسے شکرا (falcon)، باز(hawk)، بَہری(wild bird)، چیل(eagle)۔

{3} حشراتُ الارض(مثلاً کیڑے وغیرہ) حرام ہیں جیسے چوہا(mouse)، چھپکلی(lizard)، گرگٹ (chameleon)، گھونس(bandicoot)، سانپ(snake)، بچھو(scorpion)، بر(بِھڑ۔ hornet/wasp)، مچھر(mosquito)، پسو(flea)، کٹھمل(bed bug)، مکھی(house fly)، کلی(plantix)، مینڈک(frog) وغیرہا۔

{4} گھریلو گدھا(donkey) اور خچر ( mule)حرام ہے اور جنگلی گدھا(zebra) جسے گورخر کہتے ہیں حلال ہے گھوڑا(horse) کھایا نہیں جائے گا

{5} کچھوا (tortoise)خشکی کا ہو یا پانی کا حرام ہے۔ غراب ابقع یعنی کوا(crow) جو مردار(مثلاً مرے ہوئے جانور) کھاتا ہے ،حرام ہے۔ اور مہو کا(greater) بھی کوے سے ملتا جلتا ایک پرندہ ہوتا ہے، یہ حلال ہے۔

{6} پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے ۔جو مچھلی پانی میں مر کر تیر گئی یعنی جو بغیر مارےخود مر کر پانی کی سطح(water surface) پر الٹی ہو گئی وہ حرام ہےاگر مچھلی کو مارا اور وہ مر کر اُلٹی تیرنے لگی تو اب یہ حرام نہیں۔

{7} پانی کی گرمی یا سردی سے مچھلی مرگئی یا مچھلی کو ڈورے میں باندھ کر پانی میں ڈال دیا اور مرگئی یا جال میں پھنس کر مرگئی یا پانی میں کوئی ایسی چیز ڈال دی جس سے مچھلیاں مرگئیں اور یہ معلوم ہے کہ اُس چیز کے ڈالنے سے مریں یا گھڑے(pots) میں مچھلی پکڑ کر ڈال دی اور اُس میں پانی کم تھا ، جس کی وجہ سے مر گئی یا جگہ کم تھی ، جس کی وجہ سے مرگئی ان سب صورتوں (cases)میں وہ مری ہوئی مچھلی حلال ہے۔

{8} جھینگے(shrimp) میں عُلَمائے کِرام کا اختلاف ہے (یعنی ایک بات پر اتفاق نہیں۔not agree on one thing) کہ یہ مچھلی ہے یا نہیں لہٰذا اسے کھانے سے بچنا چاہیے۔

{9} چھوٹی مچھلیوں کا پیٹ کاٹے بغیر بھون (fryکر)لی گئیں تب بھی ان کا کھانا حلال ہے

{10} بعض گائیں، بکریاں غلیظ(یعنی ناپاک چیزیں) کھانے لگتی ہیں ان کو جَلّالہ کہتے ہیں اس کے بدن اور گوشت وغیرہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کو کئی دن تک باندھ رکھیں کہ نجاست(یعنی ناپاکی) نہ کھانے پائے جب بدبو ختم ہو جائے تو اب ذبح کر کے کھائیں اسی طرح جو مرغی غلیظ (یعنی ناپاک چیزیں)کھانے کی عادی ہو اُسے کچھ دن بند رکھیں جب (ناپاک چیزوں کا)اثر(effect) جاتا رہے ذبح کر کے کھائیں جو مرغیاں آزاد ہوتی ہیں ان کو بندکرنا ضروری نہیں جبکہ ناپاک چیزیں کھانے کی عادت نہ ہو اور ان میں بدبو بھی نہ ہو ، لیکن بہتر یہی ہے کہ ان کو بھی بند رکھ کر ذبح کریں۔

{11} بکرا جو خصّی(castrated) نہیں ہوتا وہ اکثر پیشاب پینے کا عادی ہوتا ہے اور اُس میں ایسی سخت بدبو پیدا ہو جاتی ہے کہ جس راستہ سے گزرتا ہے وہ راستہ بھی کچھ دیر کے لیے بدبودار ہو جاتا ہے اس کا حکم بھی وہی ہے جو جَلّالہ کا ہے کہ اگر اس کے گوشت سے بدبو دور ہوگئی تو کھا سکتے ہیں اگر بد بو باقی ہے تو اس کا کھانا مکروہ ہے۔ یاد رہے!مستحب(اور ثواب کا کام) ہے کہ قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ،خوبصورت اور بڑا ہو بکری کی قسم (type) میں سے قربانی کرنی ہو تو بہتر یہ ہے کہ سینگ(horn) والا مینڈھا(ram) چت کبرا (کالا سفید رنگ۔black and white colour) اور خصّی (castrated) ہو۔
(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۵،ص ۳۲۴،مسئلہ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۱۰،۱۱،۱۲ )

{12}مارخور(markhor) بکرے سے بڑا، بڑے بڑے سینگ(horn) والا، گھاس کھانے والا ،ایک جنگلی جانور اور چوپایہ (four footed)ہے۔ یہ حلال ہے، اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ چوپائے کے حرام ہونے کے لیے دو (۲)باتیں ضروری ہیں:(۱) وہ جانور ذی ناب ہو (یعنی اُس کے دو دانت باہر نکلے ہوئے ہوں) ، مثلاً کُتّا(۲)وہ جانور اپنے ان دو دانتوں سے(دوسرے جانوروں کا) شکار بھی کرتا ہو۔مثلاً اُونٹ کہ اُس کے دو دانت تو ہوتے ہیں مگر وہ ان سے شکار نہ کرنے کی وجہ سے حلا ل ہے۔ رہا مارخور تو اُس میں یہ دونوں باتیں ہی نہیں پائی جاتیں(یعنی اس کے ایسے دو دانت ہی نہیں ہیں کہ جو منہ سے باہر نکلے ہوئے ہوں، تو ان دانتوں سے شکار کرنے والی بات ہو ہی نہیں سکتی) لھذا مارخور کھانا بالکل حلال ہے۔ ( محرم الحرام 1441،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً) ہاں! اس کی قربانی نہیں ہوسکتی کہ قربانی جنگلی حلال جانور(مثلاً ہرن) کی نہیں ہوتی۔

{13}(۱)مچھلی کے پیٹ سے نکلنے والی مچھلی میں اگر معمول(ruten) کے مطابق سختی موجود ہو اور اس میں کوئی تبدیلی یعنی بدبو وغیرہ پیدا نہ ہوئی ہو، تو ایسی مچھلی کو کھانا ، جائز ہے۔اور(۲) اگر اس میں تبدیلی اور بدبو پیدا ہو گئی ہے، تو ایسی مچھلی کو نہیں کھا سکتے۔ ( دسمبر2021،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

شکار کرنے کے کچھ دینی مسائل:

{1} شکار اُس جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو آدمیوں سے بھاگتا ہو اور حیلے(trick) کے بغیرنہ پکڑا جا سکتا ہو اور کبھی اس جانور کے پکڑنے کو بھی شکار کہتے ہیں۔ حرام و حلال دونوں قسم کے جانور کو شکار کہتے ہیں۔

{2} شکار کرنا ، جائز ہے جبکہ اس کی کوئی صحیح وجہ بھی ہو مثلاً کھانے یا بیچنے یا دوست وغیرہ کو گوشت تحفے(gift) میں دینے یا جانور کی کھال کام میں لانے کے لیے ہو(چاہے جانور کا گوشت حرام ہو) اسی طرح جانور سے کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا ڈر ہو تو اسے قتل کر سکتے ہیں۔

{3} شوق اور تفریح (entertainment)کے لیے شکار ایک قسم کا کھیل سمجھا جاتاہے، اس لیے اسےشکار کھیلنا کہتے ہیں۔ ایسا شکاربندوق سے ہو یا جال (net)سے مچھلی پکڑنے کا، چاہے کبھی کبھی ہو یاروزانہ ہر صورت (case) میں حرام ہے۔

{4} آج کل شکار کرنے والے ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جن چیزوں کی انہیں ذاتی طورپر(personally) ضرورت ہوتی ہے، وہ سامان بھی لینے کے لیے بازار(market) نہیں جاتے(بلکہ نوکر (servent) وغیرہ سے منگوالیتے ہیں)اور دس قدم دھوپ میں چل کر مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہونا مصیبت سمجھتے ہیں ۔ لیکن یہی لوگ اپنا گھر اور آرام چھوڑ کر، گرمی کی دوپہر میں ، گرم ہواؤں میں، گرم مٹی پر چل کر، وہاں رُک کر، دو (2)دو دن گزار کر ،بھوکے رہ کر، شکار کرتے ہیں۔ کیا یہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گئے تھے؟ نہیں بلکہ شکار کھیلنے کے لیے گئے تھے اور یہ انداز(style)حرام ہے۔اس کی ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ ان شکاریوں (hunters) سے اگر کہا جائے(مثلا )مچھلی بازار میں ملےگی وہاں سے لے لیجئے تو ہر گز یہ بات نہیں مانیں گے، یا انہیں یہ کہا جائے کہ ہم آپ کو اپنےپاس سے لا کر دے دیتے ہیں، تب بھی کبھی نہیں مانیں گے بلکہ شکار کھیلنے کے بعدخود اس (شکار)کو کھانے کی بھی سوچ نہیں رکھتے ، تو معلوم ہوا کہ یقینا یہ شکار تفریح (entertainment) کے لیے تھا ا ور ایسا شکار کھیلناحرام ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۰،ص۳۴۱، ماخوذاً)

{5} حرم (یعنی مکہّ پاک کا کچھ حصّہ اور اس کے علاوہ(other) کچھ علاقے)یا احرام ( یعنی حج یا عمرے کی نیّت (intention)کر کے لَبَّیْکَ ط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔۔۔۔ پڑھنا،اسی طرح بغیر سِلی چادروں کو بھی لوگ اِحرام کہتے ہیں (رفیق الحرمین ص۴۹،مُلخصاً))میں خشکی کےجانور (terrestrial animal) کا شکار کرنا حرام ہے۔

{6} شکار کو پیشہ(occupation) بنا لینا جائز ہے ۔

{7} جنگلی جانور کو جو شخص پکڑے، وہ اُس کا مالک ہو جاتا ہے، یہ پکڑنا (۱)حقیقۃً (really)ہو یا (۲)حکماً(یعنی کوئی ایسا کام ہو جائے جس پر یہ حکم دے دیا جائے کہ یہ شخص مالک ہوگیا)، حکماً کی صورت(case) یہ ہے کہ جو چیز شکار پکڑ نےکے لیے نہ ہو، اُس میں جانور پھنس گیا تو مالک(owner) کا ہو گیا مثلاً کسی نےخیمہ(tent) لگایااور اس میں جنگلی جانور آ کر بند ہو گیا تو اب وہ جانور (tent کے) مالک کا ہو گیا یا مکان کا دروازہ کھلا ہوا تھا، جنگلی جانور(مثلاً ایسا ہرن(deer) جو کسی کی ملک (ownership) میں نہیں تھا) آگیا اور دروازہ بند کر لیا(تو ہرن گھر والے کا ہوگیا)۔ (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۷،ص ۶۷۹،مسائل فقیہہ،مسئلہ۱،۲،۳،۴ ،مُلخصاً)

{8} کچھ لوگ مچھلیوں کے شکار میں زندہ مچھلی یازندہ مینڈ ک کانٹے میں پرو (یعنی سِی)دیتے ہیں اور اُس سے بڑی مچھلی کا شکار(hunting) کرتے ہیں ایسا کرنا منع ہے کہ یہ چھوٹے جانوروں کو تکلیف دینا ہے ،اسی طرح زندہ گھینسا(یعنی پتلا لمبا زمینی کیڑا)کانٹے میں پرو(یعنی سِی) کر شکار کرتے ہیں یہ بھی منع ہے۔

{9}شکار سے جانور حلال ہونے کے لیے پندرہ(15)شرطیں (preconditions) ہیں۔ پانچ(5) شکار کرنے والے(آدمی) میں، پانچ (5) کتّے میں اور پانچ (5) شکار میں (یعنی اُس جانور میں جس کا شکار کیا جائے):

(۱)شکار کرنے والے(آدمی) کی پانچ(5) شرطیں (preconditions):

(1) شکاری ان میں سے ہو جن کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہوتا ہے (مثلاً مسلمان ہو)
(2) اُس نے کتّے وغیرہ کو شکار پر چھوڑا ہو
(3) چھوڑنے میں ایسا شخص ساتھ نہ ہو جس کا شکار حرام ہو (یعنی ایسا نہ ہو کہ مسلمان کے ساتھ جھوٹے خدا کی عبادت کرنے والا یا سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد کسی اور کو نیا نبی ماننے والا (یا اس کی طرح کا) شخص ہو)
(4) بِسْمِﷲ قصداً ( جان بوجھ کر۔deliberately) نہ چھوڑی ہو (یعنی شکار کے لیے جانور بھیجتے ہوئے بِسْمِﷲ کہنا ضروری ہے، اگر بھول سے نہ کہی تب بھی شکار کیا ہوا جانور حلال ہے لیکن اگر بِسْمِﷲ جان بوجھ کر نہ کہی اور شکار کے لیے جانور بھیج دیا تو اب شکار کیا ہوا جانور حلال نہیں ہوگا)
(5) جانورچھوڑنے اور شکار پکڑنے کے بیچ میں کسی دوسرے کام میں مصروف (busy) نہ ہوا ہو۔
(۲) مسلم یا کتابی (یعنی عیسائی(christian) اور یہودی(jews) نےبِسْمِﷲ پڑھ کر شکاری جانور کو شکار پر چھوڑا تب بھی مرا ہوا شکار حلال ہو گا اگر مجوسی(یعنی آگ کی عبادت کرنے والے) یا بت کی عبادت کرنے والے یا مرتد نے چھوڑا تو حلال نہیں۔
(۳) شکار پر چھوڑتے وقت قصداً ( جان بوجھ کر۔deliberately) بِسْمِﷲ نہیں پڑھی بلکہ جب کتّے نے جانور پکڑا اس وقت بِسْمِﷲ پڑھی جانور حلال نہ ہوا کہ بِسْمِﷲ پڑھنا اُس وقت ضروری تھا اب پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
(۴) مسلم نے کتّے کو بِسْمِﷲ پڑھ کر چھوڑا اُس نے شکار کو جھنجھوڑا یعنی اچھی طرح زخمی کیا اُس کے بعد پھر حملہ کیا اور مار ڈالا یہ شکار حلال ہے اسی طرح اگر دو (2) کتّے (بِسْمِﷲ پڑھ کر) چھوڑے ایک نے اُسے جھنجھوڑا (یعنی اچھی طرح زخمی کیا) اور دوسرے کتّے نے مار ڈالا یہ شکار بھی حلال ہے، یونہی اگر دو شخصوں نے بِسْمِﷲ کہہ کر دو کتّے چھوڑے ایک کے کتّے نے جھنجھوڑ ڈالا اور دوسرے کے کتّے نے مار ڈالا یہ جانور حلال ہے کھایا جائے گا ۔

(۵)شکار کرنے والے کُتّے کی پانچ(5) شرطیں (preconditions):

(6) کتّا معلَّم (یعنی جسے شکار کرنا سکھایا ہوا) ہو
(7) جس طرف چھوڑا ہو، اُسی طرف جائے
(8) شکار پکڑنے میں ایسا کتّا شامل نہ ہوا ہو جس کا شکار حرام ہے (یعنی مُعلم کُتے کے ساتھ، غیر مُعلم کُتا شامل نہ ہوا ہو)
(9) شکار کو زخمی کر کے قتل کرے
(10) اُس میں سے کچھ نہ کھائے۔

(۶)جس جانور کاشکار کیا جائے، اُس کی پانچ(5) شرطیں (preconditions):

(11) شکار حشراتُ الأرض (مثلاً چوہے وغیرہ) میں سے نہ ہو (بلکہ زمین کا حلال جانور ہو)
(12) پانی کا جانور ہو تو مچھلی ہی ہو (کیونکہ پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی ہی حلال ہے)
(13) (جس جانور کو شکار کیا جا رہا ہے، وہ) بازوؤں یا پاؤں سے اپنے آپ کو شکار (کرنے والے جانور) سے بچائے
(14) کیلے (یعنی گوشت کھانے والا جانور جو اپنے دونوں بڑے دانتوں سے کاٹتا یا شکار پکڑتا ہو) یا پنجہ والا جانور (clawed animal) نہ ہو
(15) شکاری کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی مر جائے یعنی ذبح کرنے کا موقع (chance) ہی نہ ملا تب بھی حلال ہے۔
(7) سور کے علاوہ (except) ہر درندے (یعنی چیر پھاڑنے والے ۔ripping) جانور کے ذریعے (through) شکار کیا جا سکتا ہے جبکہ وہ (شکار کرنے کی) تعلیم (تربیت۔training) لے سکتا ہو اور اُسے شکار کرنا سکھا یا گیا ہو۔
(8) کتّا، باز (hawk)، شکرا (falcon) شکار کرنے کی تعلیم (تربیت۔training) لے سکتا ہے لیکن شیر (lion)، ریچھ (bear) تعلیم نہیں لے سکتے البتہ انہوں نے شکار کیا اور شکاری (hunter) تک زندہ لے آیا پھر شکاری نے پکڑ کر ذبح کر لیا تو جانور حلال ہے۔
(9) جس جانور کو تیر (arrow) سے مارا اگر زندہ مل گیا تو ذبح کیے بغیر حلال نہیں، یہی حکم کتّے کے شکار کا بھی ہے۔
(10) بِسْمِﷲ پڑھ کر تیر (arrow) چھوڑا ایک شکار کو لگتا ہوا دوسرے کو لگا تو دونوں حلال ہیں اور اگر ہوانے تیر کا رُخ (angle) بدل کر سیدھی یا اُلٹی طرف موڑ دیا اور اب دوسرے جانور کو لگا تو اس صورت (case) میں دوسرا جانور نہیں کھایا جائے گا۔
(11) شکار اگر زمین کے بجائے کسی اور چیز پر گر کر مرا، تو اگر وہ چیز ہموار (smooth) تھی مثلاً چھت (roof) یا پہاڑ پر گر کر مر گیا تو حلال ہے کہ ان جگہوں پر گرنا، زمین پر گرنا ہی ہے اور اگر وہ چیز ہموار (smooth) نہ تھی مثلاً نیزے (spear) یا اینٹ کے کنارے (brick edge) یا لاٹھی کی نوک (tip of the stick) پر گراتو حرام ہے۔
(12) غلیل (slingshot۔جس میں پتھر وغیرہ رکھ کر پھینکتے ہیں) سے شکار کیا اور جانور مر گیا تو نہیں کھایا جائے گا، چاہے جانور زخمی ہو گیا ہو کہ غلیل (slingshot) سے چوٹ لگتی ہے، تیر کی طرح نوک نہیں لگتی (اور جب صرف چوٹ لگی ہو تو ذبح کرنا ضروری ہے)۔
(13) بندوق (gun) سے شکار کیا اور مر گیا تو یہ بھی حرام ہے کہ گولی (bullet) بھی آلہ جارحہ نہیں (یعنی دھاردار آلے (sharp instrument) کی طرح کاٹ کر زخمی نہیں کرتی) بلکہ گولی اپنی طاقت یا زہر کی وجہ سے مار دیتی ہے۔
(14) دھار دار (sharp sharp-edged) پتھر سے مارا اور جانور مر گیا اور پتھر بھاری (heavy) ہے تو کھایا نہیں جائے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ پتھر کے وزن (weight) سے مرا ہو اور اگر وہ ہلکا (light) ہے تو کھایا جائے گا کہ اب وہ دھار (sharp edge) ہی کی وجہ سے مرا ہے۔
(15) لاٹھی (stick) یا لکڑی سے شکار کو مار ڈالا تو کھایا نہ جائے کہ یہ آلہ جارحہ (sharp instrument) نہیں بلکہ اس کی چوٹ سے مرا ہے۔ یاد رہے کہ جانور کا مرنا اگر جراحت (یعنی کٹے ہوئے زخم کی وجہ سے) یقیناً معلوم ہو تو حلال ہے اور اگر بوجھ (weight) کی وجہ سے یا کسی چیز سے دبنے (press) کی وجہ سے ہو تو حرام ہے اور اگر شک ہے کہ جراحت (یعنی کٹے ہوئے زخم کی وجہ سے) سے ہے یا نہیں تو احتیاطاً (caution) یہاں بھی جانور کے حلال نہ ہونے کا حکم دیا جائے گا۔
(16) چھری یا تلوار سے مارا اگر اس کی دھار (sharp edge) سے زخمی ہو کر مر گیا تو حلال ہے اور اگر دھار کی اُلٹی طرف (back side) لگی یا تلوار کا قبضہ (جہاں سے تلوار پکڑتے ہیں) یا چھری کا دستہ (جہاں سے چھری پکڑتے ہیں) لگا تو حرام ہے۔ (بہارِ شریعت ج۳، ح۱۷، ص ۶۸۳، مسئلہ ۱، ۷، ۸، ۹، ۲۲، ۲۹، ۳۰، ۳۷، ۳۸، ۳۹، ۴۰، ۴۲، ۵۵)

حرام جانور کی کھال:

{1}مُردار یعنی وہ جانور جس میں بہتا ہوا (اتنا زیادہ)خون ہو( جو اپنی جگہ سے آگے بہہ (flowکر) سکے)، اگر مسلمان، عقل والا(جوپاگل وغیرہ نہ ہو) شرعی طریقے سے ذبح (slaughter) کرنے کے لیےاللہ کریم کے نام کے ساتھ،زندہ جانور کو، دھاردار(sharp-edged)چیز سے اس طرح کاٹے کہ اس کے گلے کی مخصوص(specific) چار رگوں (یعنی گلے کے اندر کی نالیوں )میں سے تین(3) نالیاں کٹ جانے (بہارِ شریعت ج۳،ص۳۱۳،۳۱۴ ماخوذاً) ) کے بغیر مر جائے تو(مردار اور) حرام ہے، اس کا گوشت اور کھال سب ناپاک ہوگئیں(بہار شریعت ج۱، مسئلہ۱۲، ص۳۹۰، ۳۹۱) یعنی جو جانور بیماری کی وجہ سے، یا اوپر سے گر نے ،یا زہر کھا نے، یا کسی جانور کے مارنے ،یاجان بوجھ کر(deliberately) بغیر بِسْمِ اللہ! پڑھے ذبح کرنے،یا مشین سے ذبح کرنے، یا بندوق (gun)سے گولی(bullet) مارنے سے مر گیا یعنی شرعی طریقے کے علاوہ(other) کسی بھی صورت (condition)سے مرا، تو اُس جانور کا گوشت کھانا حرام اور وہ جانور مُردار ہے۔

{2} اگر حرام جانورشرعی طریقے سے ذبح (slaughter) کر لیا گیا تو اس کا گوشت پاک ہو گیا(قانون شریعت ص۱۲۲، مُلخصاً) مگر اس گوشت کا کھانا، اب بھی حرام ہی ہے۔ یاد رہے! اس طریقے سے خنزیر کا گوشت اور کھال پاک نہیں ہوتے کہ وہ ہر حالت(condition) میں پورے کا پورا، ناپاک ہی ہے۔(بہار شریعت ج۱، مسئلہ۱۲، ص۳۹۰، ۳۹۱، مُلخصاً)

{3}مردار جانور کی کھال، سکھانے سے پاک ہوجاتی ہے چاہے اس کو نمک یا کسی دوا سے پکا لیا ہو یا صرف دھوپ یا ہوا یا دُھول میں خشک (dry) کرلیا ہو اور اس کی تمام بدبو جاتی رہی ہو تو وہ کھال پاک ہوجائے گی اور اس پر نماز پڑھنا بھی صحیح ہے۔ (عالمگیر ی وغیرہ،قانونِ شریعت ص ۱۲۲،مُلخصاً)لیکن حرام جانور کی کھال پر نماز نہ پڑھی جائے۔

’’ قربانی کروانااور حلال جانور کا گوشت ‘‘

حضرتِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے دیکھا:

ایک شخص بکری کو ذَبْح کرنے کے لئے اسے ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹ (drag کر)رہا ہے، تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا : تیرے لئے خرابی ہو، اسے موت کی طرف اچّھے انداز میں لے کر جا۔ (مُصَنَّف عَبْد الرَّزّاق ج۴ص ۳۷۶حدیث ۸۶۳۶)

واقعہ(incident): عجیب و غریب (strange)بکری

حضرت ابو جعفررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک بار میں نے ذَبْح کیلئے بکری لِٹائی اِتنے میں مشہور بُزُرگ حضرت ایّوب سَخْتِیانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہآگئے ، میں نے چُھری زمین پر ڈال دی اور اُن سے بات کرنے لگا، اتنے میں بکری نے دیوارکی جَڑ میں اپنے پیروں سے ایک گڑھا کھودا (dig a hole) اور پاؤں سے چُھری اُس میں ڈال کر اُس پر مِٹّی ڈال دی! حضرتِ ایّوب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرمانے لگے:دیکھو!بکری نے یہ کیا کیا؟ یہ دیکھ کر میں نے سوچ لیا کہ اب کبھی بھی کسی جانور کو اپنے ہاتھ سے ذَبْح نہیں کروں گا ( حیاۃُ الحیوان ج۲ ص۶۱) ۔ اِس واقعے سے مَعَاذَ اللہ! (یعنی اللہ کریم کی پناہ) کوئی یہ نہ سمجھے کہ ذَبْح کرناکوئی غَلط کام ہے ۔ایسی چیزیں اللہ کریم سے محبّت کی وجہ سے بُزُرگوں کے سامنے آجاتی ہیں جن سے اُن کے دل رحم (mercy)سے بھر جاتے ہیں۔ ورنہ شرعی مسئلہ یہی ہے کہ اپنے ہاتھ سے ذَبْح کرنا سنّت ہے۔(ابلق گھوڑ سوار ص۱۹،۲۰ بالتغیر)

قصاب(یعنی قصائی۔butcher) سے قربانی کروانے کے مدنی پھول :

{1}جانور کاٹنے اور کٹوانے والے کو چاہئے کہ آپَس میں اُجرت (wages)طے کر لیں کیوں کہ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں دَلالۃً(understood)یعنی معلوم ہو(کہ اُجرت (wages)دینی ہے )، یا صَراَحَۃً(یعنی واضح طور پر۔clearly)اُجرت کی بات ہوئی ہو وہاں اُجرت طے کرنا(fixing wages) واجِب اور لازم ہے۔ایسی جگہ پر طے(fixed) کرنے کے بجائے اِس طرح کہہ دینا: کام پر آ جاؤ دیکھ لیں گےیا جو مناسِب ہو گا دے دیں گےیا خوش کر دیں گے یا خرچی ملے گی وغیرہ الفاظ بالکل ناکافی (insufficient)ہیں یعنی بِغیر طے (fixed) کئے اُجرت لینا دینا گناہ ہے، طے کرلیا تو اُس سے زیادہ مانگ نہیں سکتے(البتہ کام کرنے والے نے زیادہ رقم نہ مانگی لیکن کام لینے والے نےاپنی خوشی طے شدہ (decided)سے زیادہ رقم دے دی تو یہ رقم کا م کرنے والے کے لیے لیناجائز ہے اور زیادہ رقم دینے والے نے اچھی نیّت سے دی ہو تو ثواب بھی ملے گا) ۔
{2} ماہرگوشْتْ فروش(skilled meat seller) سے ذبح(slaughter) کا کام لیا جائے۔ ایسے ناتجرِبہ کار (inexperienced) کیلئے یہ کام کر کے اُجرت (wages)لینا جائز نہیں جس کی وجہ سے کسی کے جانور کے گوشْتْ اور کھال وغیرہ کوعُرف و عادت(یعنی معمولgeneral routine ) سے ہٹ کر نقصان پہنچتا ہو۔
{3}قصّاب(یعنی قصائی۔butcher) کو پہلے سے کہہ دیں کہ گوشْتْ بناتے وَقت جسم کے وہ حصّے جن کو کھانا حرام یا منع ہے، اُسے پھینک دے۔ جسے گوشْتْ کھانا ہو اُس پر ذبح کیے ہوئے جانورکی حرام چیزوں کی پہچان (recognition)فرض اور جن حصّوں کو کھانا مکروہِ تحریمی ہے،ان کی پہچان واجِب ہے تاکہ گناہوں بھری چیزیں کھانے سے بچا جا سکے(گوشْتْ میں سے کیا کیا چیز نہیں کھائی جا سکتی ، اس کی تفصیل آگے آرہی ہے) ۔
{4}اگر سری پائے (head and feet)وغیرہ بھی بنوانے ہوں تواِجارہ (dealing)کرتے وَقْت قصّاب(butcher) سے بات کر لی جائے کہ وہ سِری پائے بھی بنا کر دے گا۔
{5} قصائی( butcher) کو ایسے وقت بلائیں کہ نمازوں کا وقت نکلنے کا خوف نہ ہو بلکہ(واجب ہونے پر) جماعت بھی نہ جائے۔
{6}قربانی سے پہلےجانور کے گلے کی رسی ، نَتھ(ناک کی رسی)، چمڑے کا پٹّا(strap)، گُھنگُرو(tinklebell) ، ہار وغیرہ سب کو کھلوا کر نکالیں(چُھری سے نہ کاٹیں) تاکہ ذبح کے وقت نکلنے والے خون سے یہ ناپاک نہ ہوں۔ یاد رہے! بِغیر نکالے ذَبح کرنے کی صورت میں یہ چیزیں ناپاک ہو جاتی ہیں اورمسئلہ یہ ہے کہ شریعت کی اجازت کے بغیرکسی پاک چیز کو جان بوجھ کر(deliberately) ناپاک کرنا حرام ہے۔بِالفرض یہ چیزیں ناپاک ہو بھی گئیں تب بھی ان کو پھینکنے کی اجازت نہیں ، پاک کر کے خود استِعمال میں لائیں یا کسی مسلمان کو دیدیں۔ یہ مسئلہ بھی ذہن میں رہے کہ مال ضائع (waste)کرنا حرام ہے۔
{7}چُھری پھیرنے سے پہلے جانور کے گلے کی کھال نرم کرنے کیلئے اگر پاک پانی کے برتن میں ناپاک خون والا ہاتھ ڈال کر چُلّو بھرا (یعنی پانی لیا)تو چُلّو اور اُس برتن کا سب پانی ناپاک ہو گیا۔ اب یہ پانی گلے پر نہ ڈالا جائے ۔ اِس کا طریقہ یہ ہے کہ جن کاجانور ہے وہ پاک صاف پانی کا گلاس بھر کر اپنے ہاتھ سے جانور کے گلے پر ڈالیں مگریہ احتیاط (caution) کی جائے کہ گلاس سے پانی ڈالتے ہوئے کوئی اپنا خون والا ہاتھ نہ ڈالے اور نہ ہی پانی والے گلے پر خون والا ہاتھ رکھے( یہ بات صر ف قربانی کیلئے ہی نہیں ،جب بھی ذَبْح کریں اِس بات کا خیال رکھا جائے)۔
{8}بعض قصّاب(butcher) جانور کوجلدی ’’ٹھنڈا ‘‘ کرنے کیلئے ذَبْح کے بعد تڑپتے ہوئے (یعنی روح پوری طرح نکلنے سے پہلے ہی) بڑےجانور کی گردن سے زندہ کھال کاٹ کر چُھری مارکر دل کی رگیں(veins) کاٹ دیتے ہیں ، اِسی طرح بکرے کوذَبْح کرنے کے فوراً بعد بے چارے کی گردن چٹخا(یعنی ہاتھ سے گردن کی ہڈی توڑ ) دیتے ہیں ، بے زَبا نو ں پر اِس طرح کے ظلم نہ کئے جائیں اور جسے روکنے کی طاقت ہو(مثلاً جانور ذبح کروانے والا)،اُس کے لئے ضروری ہے کہ جانور کوبِلا وجہ تکلیف دینےوالے کو روکیں ۔ اگر قدرت (اور طاقت ہو پھر بھی)نہیں روکے گا تو خود بھی گنہگار ہو گا۔ ,
{9} قصائی(butcher) جب گوشت بنائے تو یہ دیکھیں کہ وہ جلد بازی(hasting) یا لا پرواہی (carelessness) کی وجہ سے کھال میں(عام طور پر جو تھوڑا بہت لگا رہ جاتا ہے، ا س سے زیادہ) گوشْتْ نہ لگا رہنے دے ،اِسی طرح چھیچھڑے(یعنی گوشت کا خراب حصّہ ) اُتارنے میں بھی احتیاط(caution) سے کام لے کہ اِس میں کوئی بوٹی یا چربی(fat) خراب گوشت میں نہ چلی جائے۔
{10}بَقَرہ عید میں عام طور پر بڑے جانور کابھیجا(brain)اور زَبان وغیرہ نکال کر سِری(head)کا بقیّہ حصّہ اور پائے (feet)کے کُھر(hoof) پھینک دیئے جاتے ہیں ، اِسی طرح بکرے کے سِری پائے(head and feet) میں سے جو حصّے کھائے جانے والے ہوتے ہیں، اُن کے بھی کچھ حصّے پھینک دیے جاتے ہیں، کھانے والے گوشت وغیرہ کو نکلوایا جائے، اگر خود کھانا نہیں چاہتے تو کسی غریب مسلمان کو بُلا کر احترام (respect)کے ساتھ دیجئے کہ اِس طرح کے کئی لوگ، ان دنوں میں گوشْتْ اور چربی وغیرہ کی تلاش میں پھر رہے ہوتے ہیں۔
{11}دُنبے کی چکّی کی کھال اُدھیڑتے وقت یہ دیکھ لیں کہ چربی کھال میں باقی نہ رہے ۔
{12}گوشت کا ہروہ حصّہ جو عام دنوں میں استِعمال میں لیا جاتا ہے ، اگر خود کھانا نہیں چاہتے تو کسی ضَرورت مند مسلمان کو دے دیں۔ یہ مسئلہ یاد رہے کہ غیر مسلم کوکھال توکیا ایک بوٹی بھی قربانی کے گوشْتْ میں سے دینا جائز نہیں(قربانی کے گوشت پر مسلمانوں کا حق ہے لھذا مسلمانوں ہی کو دیا جائے گا)۔
{13}عام دنوں میں پونچھ(یعنی دُم۔tail) کا گوشْتْ دوسرے گوشْتْ کے ساتھ وَزْن میں بیچا جاتا ہے جبکہ قربانی کے جانور کی پونچھ(یعنی دُم۔tail) عُموماً کھال میں ہی جانے دیتے ہیں جس سے اِس کا گوشْتْ ضائِع (waste) ہو جاتا ہے اور اِس طرح کرنے سے کھال کی قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔
{14}جن ملکوں میں کھال کام میں لے لی جاتی ہے(مَثَلاً پاک و ہند میں ) وہاں معمول(general routine) سے ہٹ کر بلاوجہ ایسی جگہ’’ کَٹ ‘‘ لگادینا جائز نہیں جس سے کھال کی قیمت میں کمی آجائے ۔ یا درہے! سِری پائے (head and feet) مکمَّل چمڑے (یعنی یہاں کی کھال ) کے ساتھ باقی کھال سے الگ کر لینے کی وجہ سے بھی کھال کی قیمت میں کمی آتی ہے (اگر کسی دینی ادارے کو ایسی کھالیں دی جائیں گی تو اُس دینی ادارے کو ایک طرح کا نقصان ہوگا)۔
{15}گوشْتْ کے جس حصّے پر گوبر (dung)یا ذَبْح کے وَقْت نکلنے والا خون لگ جائے، اُس کو الگ کرواتے رہیں اور آخر میں سب پاک کرلیں ۔ پکانے میں اگر ایک بھی ناپاک بوٹی ڈال دی تو وہ پوری دیگ کا قورمہ یا بریانی ناپاک کر دے گی اور اس کاکھانا بھی حرام ہو جائے گا۔ (ابلق گھوڑے سوار ص ۱۵، ۱۶، ۲۹ تا۳۷ بالتغیر)
{16}قصاب کو(اسی جانور کی کھال) اجرت (wages)میں نہ دے کیونکہ یہ بیع کی طرح ہے ( درمختار کتاب الاضحیۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۴) ۔اگر(قصاب نے) اجرت(میں کھال لے) لی تو صدقہ کردے۔ (درمختار کتاب الاضحیۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۴)
الحاصل: قربانی کا جانور ذبح کروانے کے لیے، قصّاب سے اجرت(wages) اور کام طے(fixed) کرتے ہوئے، ان سولہ(16)باتوں کے مطابق طے کروائیں

قربانی کے جانور میں سے کیا کیا چیزیں نہیں کھا سکتے:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :حلال جانور کے سب اجزا(یعنی جسم کے حصّے) حلال ہیں مگر بعض ( ایسے ہیں )کہ(اُن میں سے کچھ) حرام(ہیں) یا ممنوع (ہیں)یا مکروہ ہیں

{1}رگوں(veins) کا خون
{2}پِتّا (gall bladder)
{3}پُھکنا (یعنی مَثانہ۔urinary bladder)
{4،5} علاماتِ مادہ ونَر (signs of gender)
{6} بَیضے (یعنی کپورے۔testicles)
{7}غُدود(gland)
{8}حرام مَغز (medulla)
{9}گردن کے دوپٹھے(muscles) کہ کندھوں(shoulders) تک کھنچے ہوتے ہیں
{10}جگر (یعنی کلیجی۔liver) کا خون
{11}تِلی(spleen) کا خون
{12} گوشْتْ کا خون کہ ذَبْح کے بعد گوشْتْ میں سے نکلتا ہے
{13}دل کا خون
{14}پِت (bile)یعنی وہ زَرد پانی(bile) کہ پِتّے میں ہوتاہے
{15}ناک کی رَطُوبت (nasal discharge)کہ بَھیڑ (sheep)میں بہت ہوتی ہے
{16} پاخانے کا مقام (anus)
{17}اَوجھڑی(gut)
{18}آنتیں (intestines)
{19}نُطْفہ(مَنِی۔seminal fluid)
{20}وہ نُطْفہ کہ خون ہوگیا
{21} وہ (نُطْفہ) کہ گوشْتْ کا لوتھڑا(coagulum of blood) ہوگیا
{22}وہ (نُطْفہ) کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا یا ذَبْح سے پہلے ہی مرگیا۔ (فتاوٰی رضویہ ،ج۲۰ ص ۲۴۰ ، ۲۴۱، مُلخصاً)

خون:

ذَبْح کے وَقْت جو خون نکلتا ہے اُس کو ’’ دَمِ مَسْفُوح ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ناپاک ہوتا ہے اس کا کھانا حرام ہے۔ ذَبْح کے بعدجو خون گوشْتْ میں رَہ جاتا ہے مَثَلاً گردن کے کٹے ہوئے حصّے پر، دل کے اندر، کلیجی(liver) اور تلّی (spleen) میں یہ اگرچِہ ناپاک نہیں مگر اس خون کا بھی کھانا منع ہے، لہٰذا پکانے سے پہلے صَفائی کرلیں ۔

گوشْتْ میں کئی جگہ چھوٹی چھوٹی رگوں (veins)میں خون ہوتا ہے ان کا خیال رکھنا بہت مشکِل ہے،پکنے کے بعد وہ رگیں کالی ڈَوری کی طرح ہوجاتی ہیں۔ خاص کر بھیجے(brain)، سری پائے (head and feet) اورمُرغی کی ران(chicken leg) اورپَر (wings)کے گوشْتْ وغیرہ میں باریک کالی ڈوریاں black veins ) دیکھی جاتی ہیں کھاتے وَقْت ان کو نکال دیا کریں مُرغی کا دل پکانے سے پہلے ، لمبائی (length)میں چار (4) کٹ(cut) لگا کراس کا خون اچھّی طرح صاف کرلیں

حرام مغْزْ(spinal cord):

یہ سفید ڈورے(white veins ) کی طرح ہوتا ہے جو بھیجے، دماغ ، مغز (brain) سے شروع ہوکر گردن کے اندر سے گزرتا ہوا پوری ریڑھ کی ہڈی (spine)میں آخِر تک جاتا ہے۔ماہِر قصّاب(expert butcher) گردن اور رِیڑھ کی ہڈّی کے بیچ سے دوٹکڑے کرکے حرام مَغْزنکال کر پھینک دیتے ہیں۔ مگر کئی مرتبہ بے احتیاطی(carelessness) کی وجہ سے تھوڑا بَہُت رہ جاتا ہے اور سالن یا بریانی وغیرہ میں پک بھی جاتا ہے لھذا گردن، چانپ(ribs) اور کمر کا گوشْتْ دھوتے وَقْت حرام مغْز ڈھونڈ کرکے نکا ل دیا کریں۔ یہ مُرغی اور دیگر پرندوں کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی میں بھی ہوتا ہے،(ان چھوٹے جانوروں میں)پکانے سےپہلےاس کو نکالنا بَہُت مشکِل ہے لہٰذا کھاتے وَقْت نکا ل دیناچاہئے

پٹھے(muscles):

گردن کی مضبوطی(strength) کیلئے اِس کی دونوں طرف پیلے رنگ کے دو لمبے لمبے پٹّھے(muscles) کندھوں (shoulders)تک جاتے ہیں۔ان پٹّھوں(muscles) کا کھانا منع ہے۔گائے اور بکری کے تو آسانی سے نظر آجاتے ہیں مگر مُرغی اور پرندوں کی گردن کے پٹّھے آسانی سے نظر نہیں آتے ، کھاتے وَقْت ڈھونڈ کر یا کسی جاننے والے سے پوچھ کر نکا ل لیں۔

غُدُود(gland):

گردن پر ، حَلْق (throat)میں اور بعض جگہ چربی(fat) وغیرہ میں چھوٹی بڑی کہیں لال اور کہیں مَٹیالے (muddy)رنگ کی گول گول گانٹھیں (knots)ہوتی ہیں ان کو عَرَبی میں غُدَّہ اور اُردو میں غُدُود کہتے ہیں۔ یہ بھی مت کھائیے، پکانے سے پہلے ڈھونڈ کر نکال لیں ۔ اگر پکے ہوئے گوشْتْ میں بھی نظر آ جائے تو اب نکا ل لیں ۔

کپُورا(testicle):

کپُورے کو خُصیَہ، فَوطہ یا بَیْضَہ(testical)بھی کہتے ہیں ان کا کھانا مکروہ تحریمی ، ناجائز و گناہہے۔ یہ بیل(ox)، بکرے(goats) وغیرہ (نَر یعنی مُذَکَّر۔male) میں تو سامنے ہوتے ہیں۔مُرغے (نَر۔male)کا پیٹ کھو ل کر آنتیں(intestines) ہٹائیں گے تو پیٹھ(back) کی اندر انڈے کی طرح سفید دوچھوٹے چھوٹے بیج(seeds) کی طرح نظر آئیں گے یہی کپُورے ہیں۔ ان کو نکا ل لیں۔

اَوجھڑی(gut):

اَوجھڑی کے اندر غَلاظت (نجاست، ناپاکی)بھری ہوتی ہے اِس کا کھانا مکروہِ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے (ابلق گھوڑے سوارص۳۷ تا۴۱، مُلخصاً) ۔اوجھڑی(gut) آنتیں(intestines) جن کاکھانا مکروہ ہے(انہیں) تقسیم نہ کیا جائے بلکہ دفن کردیا جائے اور اگر بھنگی اٹھالے منع کی حاجت نہیں ، لیکن بھنگی وغیرہ کسی کافر کو قربانی یا اور کوئی صدقہ دینا جائز نہیں۔ (فتاوٰی رضویہ ،ج۱۴، ص۷۰۹، مُلخصاً)

’’زکوٰۃ ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

خشکی و تری(یعنی دنیا بھر) میں جو مال تَلَف(ضائع۔waste) ہوتا ہے، وہ زکوۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔ (الترغیب و الترہیب، کتاب الصدقات، الحدیث:۱۶، ج۱، ص۳۰۸)

واقعہ(incident): خدا کی قسم! میں اس سے جہاد کروں گا

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہاللہ کریم کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ خلیفہ (حاکم۔caliph) بنے، اس وقت کچھ لوگ(زکوۃ فرض ہونے کا انکار(denial) کرنے کی وجہ سے) کافر ہوگئے، مسلمانوں کے پہلےخلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اُن پر جہاد کا حکم دیا تو مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی :آپ اُن سے قِتال (یعنی جہاد) کیوں کرتے ہیں حالانکہ (although) اللہ کریم کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے تویہ فرمایا ہے: مجھے حکم ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہیں اور جس نے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہہ لیا، اُس نے اپنی جان اور مال بچا لیا، مگراسلام کے حق (یعنی کسی غلطی کی اسلامی سزا) میں(اُن کا قتل کیا جائے گا) اور اس کا حساب اللہ کریم کے ذمہ ہے (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا؟) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں اس سے جہاد کروں گا، جو نمازا ور زکوۃ میں فرق کرے (یعنی نماز کو فرض مانے اور زکوۃ کے فرض ہونے سے انکار(denial) کرے)، زکوۃ مال کا(شرعی ) حق ہے، اللہ کی قسم! بکری کا بچّہ جو اللہ کریم کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر کیا کرتے تھے، اگر مجھے دینے سے منع کریں گے تو اس (منع کرنے) پر اُن سے جہاد کروں گا، فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم !میں نے دیکھا کہ اﷲ کریم نے (حضرت)صدیق(اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) کا سینہ کھول دیا ہے، اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے(جو مسلمانوں کے پہلےخلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا)۔
(''صحیح البخاري''، کتاب الاعتصام، الحدیث: ۷۲۸۴، ج۴ ص۵۰۰، مُلخصاً)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کلمہ پڑھ لینا مسلمان ہونے کیلئے کافی(enough) نہیں، جب تک تمام ضروریات دین کو نہ مان لے(’’ضروریاتِ دین‘‘ ،دین کے اُن مسائل کو کہتے ہیں کہ جن کو ہر خاص و عام (special and common people) ا یسے مسلمان جا نتے ہوں جو عُلَمائے کِرام کے پاس آتے جاتےہوں اور دین سیکھنے کا شوق رکھتے ہوں۔ جیسے: اللہ کریم کا ایک ہونا انسانوں کی رہنمائی (guidance)کے لیے نبیوں(عَلَیْہِمُ السَّلَام )کا آنا پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا آخِری نبی ہونا جنّت و دوزخ کا ہونا قیامت کا آنا وغیرہ) ۔

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ پہلے یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ زکوۃ دینے سے منع کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے گناہ گار ہو رہے ہیں تو ان کو اتنی بڑی(یعنی قتل کی ) سزا نہیں دینی چاہیے لیکن مسلمانوں کے پہلےخلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی برکت (blessing) سے آپ نے یہ بات سمجھ لی کہ اصل میں یہ لوگ زکوۃ کے فرض ہونے کا انکار(denial) کر رہے ہیں اور اسلامی اصولوں (principles)کے مطابق ان کی یہی سزا ہے کیونکہ زکوٰۃ کوفرض نہ ماننے سے بندہ مسلمان نہیں رہتا بلکہ کافر ہو جاتا ہے۔(بہار شریعت ج۱، ح۵، ص۸۷۰،ماخوذاً)

وسوسہ: کیا ایک غلط بات کرنے یا اسلام کے ایک ضروری عقیدے(یعنی ضروریّاتِ دین میں سے ایک بات) کو نہ ماننے یا انکار(denial) کرنے سے بھی کوئی اسلام سے نکل جاتا ہے جبکہ وہ سو(100)کام مسلمانوں والے کرتا ہے!

جواب: غیر مسلم سو (100)بلکہ ہزاروں باتیں اسلام کے خلاف (against) کرنے کے بعد جب سچے دل سے ایک جملہ(یعنی کلمہ شریف ) کہتا ہے تو مسلمان ہو جاتا ہے،کوئی (نکاح کی شرطوں(preconditions) کو پورا کرنے کے ساتھ) ایک جملہ کہتا ہے تو عورت اس کی بیوی(wife) بن جاتی ہے، کوئی ایک جملہ(طلاق کا) کہتا ہے تو نکاح ختم ہوجاتا ہے۔یاد رہے کہہر قوم(nation) کے اصول(principles) ہوتے ہیں اور ہر قوم اپنے رہنما(leader) کے خلاف (against) باتیں کرنے والوں سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے تو کیا اسلام کا کوئی اصول نہیں؟ کیا اسلام کی کوئی اہمیّت (importance)نہیں؟۔ ”اسلام“ ایک صاف ستھرا سمندر(neat and clean sea) ہے، جو کفر سے توبہ کر کےآتا ہے تو ” اسلام“ اُسے پاک کر دیتا ہے اور جو کفر کی گندی مٹی ، اپنے اوپر لگا لیتا ہے، تو ” اسلام“ اُسے باہر کر دیتا ہے۔

زکوٰۃ کے کچھ مسائل:

{1}زکوٰۃ دینا فرض ہےمگر اس کی کچھ شرطیں(preconditions) ہیں: (۱)مسلمان (۲)عاقِل(یعنی پاگل نہ ہونا) (۳)بالغ (wise, grownup) (۴)آزاد (اب سب آزاد ہیں، غلام نہ رہے) ۔

(۵)نِصَاب(یعنی ساڑھے باوَن(52.5) تولے(یا612.36grams ) چاندی یا اُتنی مالیت(value) کی رقم یا اتنی مالیت (value)کے تجارتی مال (trade goods) یا سونے اور پیسے وغیرہ ملا کر 87.48grams چاندی کی رقم) کامالک ہونا)۔
(۶)نصاب پر قبضہ ہونا (یعنی جو مال گم گیا یا دریا میں گِر گیا یا جنگل میں دفن کر دیا تھا اوریہ یاد نہ رہا کہ کہاں دفن کیا تھا پھر یہ مال مل گئے، تو جب تک نہ ملے تھے، اُس وقت کی زکوۃ واجب نہیں)۔
(۷)نصاب کا قرض سے فارغ ہونا(یعنی نہ تو لوگوں کا قرضہ (loan) ہو نہ اللہ کریم کی طرف سےمال دینا ہو مثلاً پچھلے سالوں کی زکوۃ باقی ہواور اگر وہ زکوۃ نکالتے ہیں تو اس سال نصاب جتنا مال نہیں رہتا ، ایسی صورت (case) میں اس سال کی زکوۃ لازم نہ ہوگی)۔
(۸)نصاب حاجتِ اصلیہ (یعنی وہ چیزیں جو زندگی کے لیےضروری ہوں، جیسے رہنے کا گھر، پہننے کے کپڑے وغیرہ) کے علاوہ(other) ہونا
(۹)مال نامِی ہونا(جیسے روپیہ، پیسہ، سونا، چاندی، تجارت کا مال(trade goods)،سائمہ جانور(اسکی تفصیل اگلے topicمیں ))
(۱۰)سال گزرنا۔(بہارشریعت ج،ح۵،ص۸۷۵ تا۸۸۴،ملخصاً)

Here's the text with the `
` tags added after each listing number: {2}سال پورا ہونے پر زکوٰۃ فوراً ادا (pay)کرنا واجِب ہے، شرعی اجازت کے بغیر زکوٰۃ دینے میں دیرکرنا گُنَاہ ہے (فتاوی رضویہ، ۱۰/۷۶ ملخصاً) ۔یاد رہے!زکوٰۃ کا تعلق(relation) رمضان شریف یا رجب شریف وغیرہ کسی مہینے سے نہیں بلکہ سال پورا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت آپ صاحبِ نصاب ہوئے، اس قمری( یعنی چاند کی یا اسلامی) تاریخ، گھنٹے اور منٹ کو یاد کرلیں پھر اگلے سال (next year) اسی قمری(یعنی چاند کی یا اسلامی) تاریخ، گھنٹے اور منٹ پر زکوٰۃ فرض ہوگی مثلاً کوئی شخص 10 ربیع الاوّل ، صبح 10 بج کر 5 منٹ پر صاحبِ نصاب ہوا،تو اب اگلے سال(next year) 10 ربیع الاوّل ، صبح 10 بج کر 5 منٹ پر جو مال کم از کم نصاب یا اس سے زیادہ (اوپر بتائی ہوئی شرطوں (preconditions) کے مطابق) موجود ہوگا، اُس پر زکوۃ فرض ہے، اب زکوۃ ادا کرنے میں بلا اجازت شرعی دیر کی تو گنہگار ہو گا۔ ہاں! اس سے پہلے ادا (pay)کرنا چاہیں تو( کچھ شرطوں(preconditions) کے ساتھ )پہلے بھی ادا کر سکتے ہیں۔(مختصر فتاویٰ اہلسنت، ص۸۹ملخصاً، مکتبۃ المدینہ کراچی، مُلخصاً)
{3}زکوۃ کی جو تاریخ ہو،اس میں اپنے پاس موجود مالِ نامی کا حساب لگانا ہوتا ہے یعنی calculate کریں گےکہ کتنا پیسا (cash)،بونڈ(bond)، سونا، چاندی، تجارت کا مال(trade goods) ہےاور اس کی بازاری قیمت(market value) کیا ہے؟ پھر فوراً زکوۃ دینی ہوتی ہے، شرعی اجازت کے بغیر دیر کریں گے تو گناہ گار ہونگے۔نوٹ: جو پیسے قرض(loan) میں لیے ہوں یا مال ادھار میں لیا ہوتو اُس کی قیمت(amount) جو دوکاندار کو دینی ہے، اسی طرح اگر پچھلے سالوں کی زکوۃ نہ دی ہو تو اُس کی رقم(amount) وغیرہ،زکوۃ کے لیےاس تاریخ کو بننے والی کُل رقم(total amount)سے منہا(minus) کریں گے(البتہ جو پچھلے سالوں کی زکوۃ اب تک نہیں دی تھی، اُس گناہ سے توبہ بھی کرنی ہوگی اور آئندہ(next time) وقت پر زکوۃ دینی ہوگی)۔مشورہ یہ ہے کہ:اگر کسی کو قرض دیا ہو تو اُس رقم کو ابھی زکوۃ کے لیے شامل(add) کر لیں ورنہ جب یہ بعد میں آتی رہے گی تو اپنی شرطوں (preconditions) کے ساتھ اُس کی بھی زکوۃ دینی پڑے گی۔
{4} ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تاریخ آنے سے پہلے والے رمضان میں ایک اندازے کے مطابق زکوۃ دے دی جائے ، لیکن اُس تاریخ کو حساب پھر بھی کرنا ہوگا اور زکوۃ دینے میں جو کمی رہ گئی ہو اُسےفوراً دینا ہوگا۔
ایڈوانس (advance) زکوۃ دینے کی تین شرطیں (preconditions) ہیں:(۱)جس مال پر جس سال کی زکوۃ دے رہا ہے اُس مال پر وہ سال شروع ہو چکا ہو(۲)جس مال کی زکوۃ دی ہے، وہ نصاب(مثلاً 612.36grams چاندی کی رقم ) سال کے آخر میں مکمل طور پر پایا جائے(۳)زکوۃ ادا کرنے اور سال پورا ہونے کے درمیان ، وہ مال مکمل طور پر ختم نہ ہوا ہو۔(فتاوی اہلسنّت، کتاب الزکوۃ، ص۱۶۴،۱۶۵،مُلخصاً)
یہ مسئلہ بھی یاد رہے! پیشگی (advance)زکوٰۃ دینے کے بعد زکوٰۃ کی تاریخ کو مکمل نصاب(مثلاً مال، سونا وغیرہ پورا کا پورا ) ختم ہوگیاپھر اُس کے بعد دوبارہ مال آگیا اور (اپنی شرطوں کے ساتھ، سال گزرنے پر ) زکوٰۃ فرض ہوئی تو پہلے دی ہوئی پیشگی (advance)زکوٰۃ، اس مرتبہ کی زکوٰۃ کے لیے شمار(count) نہیں ہوگی بلکہ اب جو زکوٰۃ بنی ہے، وہ پوری دینی ہوگی۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۵،ص۸۹۱ مسئلہ۷۸، ماخوذاً)
{5}زکوٰۃ میں قمری ( یعنی اسلامی) مہینے(مثلاً رجب، شعبان، رمضان) دیکھے جائیں گے، اس میں انگریزی مہینوں سے حساب (calculation)کرنا حرام ہے( فتاوی رضویہ، جلد ۱۰،ص ۱۵۷ماخوذًا) ۔یاد رہے ک ہ جو شخص تجارت (trade) کر رہا ہو یا وہ کسی طرح بھی نصاب (مثلاً 612.36grams چاندی کی رقم ) کا مالکہے اور بیچ میں کوئی اور کاروبار(business) شروع کر دیا ،یا سونا خرید لیا ،یا کوئی چیز تحفے(gift) میں مل گئ، یا میراث سے(یعنی کسی کے انتقال کے بعد) مال ملا ہو، چاہےسال پورا ہونے سے ایک ہی منٹ پہلے(دوسرا مال) ملا ہو تو اب اُس شخص کو سب کا حساب(calculation) الگ الگ نہیں رکھنا بلکہ جو اُس شخص کی تاریخ ہے، وہ اُس کے ایک قسم کے سب مال کی تاریخ ہو گی(ایک قسم کے مال کا مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کی تجارت کا مال (merchandise)، سونا، چاندی، بونڈ، بینک بیلنس، کمیٹی میں جمع شدہ مال، ڈالر وغیرہ ۔ ہاں! جو جانور جنگل وغیرہ سے کھاتے ہیں، ان خاص قسم(special type) کے جانوروں کی زکوۃ کا الگ سال ہوگا(ان کے مسائل آگے آ رہے ہیں)۔ (بہارِ شریعت ح۵،ص۸۸۴، مسئلہ ۲۴،مَاخوذاً)

زکوۃ میں مالک بنا نا ضروری ہے:

{1}زکوۃ میں مال کا مالک کرنا ضروری ہے،مباح کر دینے سے زکوۃ ادا نہ ہوگی مثلاً فقیر کو زکوۃ کی نیّت (intention) سے کھانا کھلا دیا تو زکوۃ ادا (pay)نہ ہوئی کہ مالک کر دینا نہیں پایا گیا۔ ہاں! اگر کھانا دے دیا کہ چاہے کھائے یالے جائے تو زکوۃ ہوگئی۔ اسی طرح زکوۃ کی نیّت سے فقیر کو کپڑا دے دیا یا پہنا دیا تب بھی زکوۃ ہوگئی۔
{2}فقیر کو زکوۃ کی نیّت سے مکان رہنے کو دیا تو زکوۃ نہ ہوئی کہ اسے کسی چیز کامالک نہیں بنایا بلکہ گھر سے فائدہ اُٹھانے کو دیا ہے البتہ مکان فقیر کی ملکیت (ownership) میں دے دیا تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔
{3} مالک کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کو دے جو قبضہ(possession) کرنا جانتا ہو، یعنی ایسے بچّے کو دیا جوپھینک دے یا ایسے آدمی کو دیا جو دھوکہ (deception)کھائے، اس مال کو اپنی ملکیت نہ سمجھے تو زکوۃ نہ ہوگی، مثلاً بہت چھوٹا بچّہ یا پاگل کو دینے سے زکوۃ نہ ہوگی اگر بچّے میں اتنی عقل نہ ہو کہ قبضہ کر سکے تو اس کا باپ جو شرعی فقیر ہو، اُس (بچّے) کی طرف سے زکوۃ کے مال یا رقم پر قبضہ (possession) کرلے تو زکوۃ دینے والےکی زکوۃ ہوگئی۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۵،ص۸۷۴ ،۸۷۵مسئلہ ۲،۳،۴ )
{4} اگر زکوۃ کی رقم یا مال اتنا ہے کہ نصاب(یعنی ساڑھے باوَن(52.5) تولے( یا612.36grams ) چاندی یا اُتنی مالیت(value) کی رقم) کونہیں پہنچتا تو ایک ہی شخص کو دے دینا افضل ہے اوراگر نصاب کو پہنچتاہے تو ایک ہی شخص کو دے دینا مکروہ ہے،لیکن زکو ۃ پھر بھی ہو جائے گی(بہارشریعت ،حصہ ۵،ص۵۹، مُلخصاً) ۔ہاں! بعض صورتیں(cases) ایسی بھی ہیں جس میں ایک شخص کو نصاب (مثلاً 612.36grams چاندی کی رقم )یا زیادہ رقم، زکوۃ میں دے سکتے ہیں۔ عُلَمائے کِرام کچھ اس طرح فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ اُس پر بہت قرض(borrow) ہے، اُسے نصاب یا زیادہ رقم زکوۃ میں دیتے ہیں تب بھی قرض واپس کرنے کے بعد اُس کے پاس نصاب جتنی رقم باقی نہیں رہتی تو اُسے نصاب یا زیادہ رقم زکوۃ میں دینا مکروہ نہیں اسی طرح کسی کے کئی ضرورت مند(needy) بچّے ہیں ، اُسے زکوۃ میں زیادہ رقم ملے اور وہ اپنے سب بَچّوں میں تقسیم کرے پھر جو رقم اس شخص کے پاس بچے وہ نصاب جتنی نہ ہو تو ایسے شخص کو بھی زیادہ رقم زکوۃ میں دینا مکروہ نہیں۔
(فتح القدیر ، کتاب الزکاۃ ، باب من یجوز الخ ، ج۲، ص۲۱۷، ماخوذاً)

مالِ زکوۃ کن لوگوں کو دیا جاسکتا ہے؟:

{1}اﷲ کریم کے لیے اپنے مال میں سے (اوپر بتائی ہوئی شرطوں(preconditions) کے ساتھ) ایک حصّہ شریعت کی طرف سے لازم ہے، اُسے زکوٰۃ کہتے ہیں ۔ اس مال کا مسلمان فقیر کو مالک کر دینا بھی لازم ہے اور وہ فقیر نہ ہاشمی ہو، نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام(اب غلام نہیں ہوتے) اور اس مال سے اپنا کسی قسم کا نفع نہ رکھے (بہارِ شریعت ج۱،ح۵،ص۸۷۴ ) ۔بنی ہاشم ان پانچ لوگوں کی اولاد کو کہتے ہیں (۱) حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ،(۲) حضرت جعفر رَضِیَ اللہُ عَنْہ ،(۳)حضرت عقیل رَضِیَ اللہُ عَنْہ ،(۴) حضرت عباس بن عبد المطلب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا ا ور(۵) حارث بن عبدالمطلب (کی اولاد) ۔( بہارِ شریعت جلد۱، ص۹۳۱، مُلخصاً)

{2}ان لوگوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے:

(۱)فقیر (۲)مسکین (۳)عامل (۴) رِقاب (۵)غارِم (۶)فی سبیل اللہ (۷)اِبْنُ السَّبِیْل یعنی مسافر
(الفتاوی الھندیہ ،کتاب الزکوۃ ،ج۱،ص۱۸۷)

(۱)فقیر:
وہ جو مالک ِنصاب نہ ہو ۔مالک ِ نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات(7.5) تولے(87.48grams)سونا، یاساڑھے باون (52.5) تولے چاندی(یعنی612.36grams) چاندی، یا اتنی مالیت(value) کی رقم، یا سونا اور پیسے وغیرہ ملا کر87.48grams چاندی کی رقم ، یا اتنی مالیت میں تجارت کا مال(trade goods) نہ ہو ،یا اتنی مالیت (value) کا ضروریاتِ زندگی سے زیادہ سامان نہ ہویا اتنا مال تو ہو لیکن اس پر اللہ کریم کا قرض (مثلاً زکوۃ)یا بندوں کا اتنا قرض (loan) ہو جسے دینے کے بعد(اوپر بتایا ہوا) نصاب باقی نہ رہے ۔

(۲)مسکین:
وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں تک کہ کھانے اور بدن چھپانے کے لئے بھی نہ ہو اور ان چیزوں کے لیے بھی لوگوں سے مانگنے کی حالت (condition)ہو

(۳)عامل:
وہ ہے جسے بادشاہ اسلام نے زکو ۃ اور عشر(یعنی زمین کی زکوۃ) لینے کاکام دیا ہو (الفتاوی الھندیہ ،کتاب الزکوۃ ،ج۱،ص۱۸۷،مُلخصاً) ۔ عامل اگر مالدار (rich)بھی ہو تب بھی اپنے کام کی اجرت (wages)میں زکوۃ لے سکتا ہے لیکن ہاشمی ہو تو اس کو زکوۃ کے مال میں سے دینا بھی ناجائز اور اسے لینا بھی ناجائز ہے(بہارشریعت ،حصہ ۵، ص۵۷)۔آج کل شرعی عامل موجود نہیں ہیں ۔

(۴)رِقاب:
سے مراد ایک خاص قسم(special type) کا غلام آزاد کرنا ہے۔ پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے ۔

(۵)غارِم:
سے مراد مقروض(borrower) ہے یعنی اس پر اتنا قرض (loan) ہو کہ اس قرض کو نکالنے کے بعد زکوٰۃ کا نصاب (جتنا مال)باقی نہ رہے ۔اسی طرح اس نے دوسروں کو قرض دیا اور وہ اتنا ہے کہ مِل جائے تو اس کا مال نصاب تک پہنچ جائے مگر وہ لوگ قرض (loan) واپس نہیں کر رہے اور یہ لینے پر قدرت (یعنی طاقت)نہیں رکھتا تو یہ بھی زکوۃ لے سکتا ہے ۔ (الدر المختار مع ردالمحتار،کتاب الزکوۃ ،ج۳، ص، ۳۳۹ ، مُلخصاً)

(۶)فی سبیل اللہ:
یعنی اللہ کریم کے راستے میں خرچ کرنا،اس کی کچھ صورتیں ہیں:

(۱)کو ئی شخص ضرورت مند(needy)ہے اور جہاد میں جانا چاہتا ہے، اس کے پاس سواری(ride) اور سامان نہیں ہيں تو اسے مالِ زکوۃ دے سکتے ہیں کہ یہاللہ کریم کے راستے میں دینا ہے چاہے وہ جانے والا پیسے کمانے کی طاقت رکھتا ہو ۔

(۲)طالب ِعلم ،علمِ دین پڑھتا ہے یا پڑھنا چاہتا ہے اس کو بھی زکوٰۃ دے سکتے ہیں کہ یہ اللہ کریم کے راستےمیں خرچ کرنا ہے بلکہ طالب ِعلم سوال کر کے بھی مال زکوۃ لے سکتا ہے چاہے وہ پیسے کمانے کی طاقت رکھتا ہو ( الدرالمختار،کتاب الزکوۃ،ج۳،ص۳۳۵ ، مُلخصاً) یعنی وہ طالب علم جس نے اپنے کو علم دین حاصل کرنے کے لیے مکمل طور پر مصروف (busy)کردیا ہو اور لوگ ان کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتے ہوں یعنی جب تک اُن سے مانگا نہ جائے، دیتے نہ ہوں تو اب لوگوں سے زکوۃ وغیرہ کا سوال کر سکتا ہے(مراۃ ج۳، ص۶۳سوفٹ ائیر،مُلخصاً) جبکہ اس کے پاس(ضرورت سے زیادہ) نصاب(مثلاً 612.36grams چاندی کی رقم ) جتنا مال یا رقم یا سونا چاندی نہ ہو۔
( ردالمحتار باب المصرف مصطفی البابی مصر ۲ /۶۵، ماخوذاً)

(۷)اِبْنُ السَّبِیْل:
یعنی وہ مسافر (یہاں مسافر سے مراد شرعی مسافر ہے( جس کے پاس سفر کی حالت (condition) میں مال نہ رہا،یہ زکوۃ لے سکتا ہے چاہے اس کے گھر میں مال موجو دہو مگر اتنا ہی لے گا جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے ،زیادہ کی اجازت نہیں ۔(الفتاوی الھندیہ ،کتاب الزکوۃ،ج۱،ص۱۸۸، مُلخصاً)مگر بہتر یہ ہے کہ قرض ملے تو قرض لے کر کام چلائے۔(بہارِ شریعت ، ج۱،ح۵،ص۹۲۶)

{3}کیا ہر ایک سوال کر(مثلاً بھیک مانگ۔begging) سکتا ہے؟:
آج کل ایسےصحت مند(healthy) لوگ جو کما کر (by earning)دوسروں کو کھلا سکتے ہیں ، بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں بلکہ انہوں نے بھیک مانگنے کو پیشہ(profession) بنا لیا ہے۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ مزدوری تو مزدوری، چھوٹاموٹا کاروبار بھی کر سکتے ہیں مگر نہیں کرتے، بھیک مانگتے ہیں ، گھر میں ہزاروں( بلکہ لاکھوں) روپے ہیں ،سود کا لین دین (give and take)کرتے ہیں ،زراعت (agriculture)وغیرہ بھی کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے۔ اُن سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ (profession) ہے ، ایسوں کا سوال کرنا(یعنی بھیک مانگنا)حرام ہے اور جسے اُن کی حالت (condition) معلوم ہو، اُسے جائز نہیں کہ ان کو دے۔(بہارشریعت ،حصہ ۵،ص۹۴۰،۹۴۱، مُلخصاً)

’’سونے، چاندی، جانور وغیرہ کی زکوۃ ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جو مالدار زکوۃ ادا نہیں کرے گااُس کے مال کو جہنّم کی آگ میں گرم کر کے اُس کے پہلو(sides) اور پیشانی(forehead) کو داغا(یعنی مال کو آگ میں گرم کر کے جسم پر لگایا) جائے گا۔ اور جو اونٹ والا اونٹوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرے گااس کو چٹیل میدان(یعنی ایسا ground جہاں سایہ(shadow) نہ ہو) میں لٹایا جائے گا اور بہت موٹےجسم میں اُس کے اونٹ آ کر اُسے روندیں(trample کریں) گے۔ اور جو بکریوں والا بکریوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا اُس کو بھی چٹیل میدان میں لٹایا جائے گا اور بہت موٹے جسم میں اُس کی بکریاں آکر اُسے اپنے کُھروں (hooves) سے روندیں(trample کریں) گی اور سینگوں (horns)سے ماریں گی۔ (مسلم ، کتاب الزکاة، ص ۳۸۳، حدیث:۲۲۹۲ملخصاً)

واقعہ(incident): زکوۃ نہ دینے والا

ایمان کی حالت (condition) میں صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہمْ کی زیارت کر کے ایمان ہی پر دنیا سے جانے والے ،تابعین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ میں سے کچھ حضرات، ایک تابعی بزرگ،حضرتِ ابی سنان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: ہمارا ایک پڑوسی فوت ہوگیا ہے، چلو اس کے بھائی کے پاس چلیں ،جب وہاں پہنچے تو اُس کا بھائی بہت رو رہا تھا، اُس سے کہا گیا: صبر کرو!۔ وہ کہنے لگا کہ میں اپنے بھائی کے عذاب (punishment) پر روتا ہوں۔ جب سب لوگ میرے بھائی کو دفن(buried) کر کے چلے گئے تو میں وہیں بیٹھا رہا، میں نے اس کی قبر سے آواز سنی وہ کہہ رہا تھا آہ! سب مجھے اکیلا(alone) چھوڑ گئے اور مجھ پر عذاب (punishment) ہے ، میری نمازیں اور روزے کہاں گئے؟میں رُک نہ سکا اور میں نے اس کی قبر کھولناشروع کردی ۔ جب قبر کھلی ، تومیں نے دیکھا اس کی قبر میں آگ ہی آگ ہے اور اس کی گردن میں آگ کا طوق تھا(یعنی لوہے کی ایسی بھاری چین ، زنجیر (iron collar) تھی جو مجرموں (criminals) کے گلے میں ڈالتے ہیں)، میں نے بھائی کی محبت میں اسے اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، جیسے ہی میری اُنگلیں اُس طوق کو لگیں تو میرا یہ ہاتھ جل گیا۔

ہم نے یہ سن کر پوچھا: تیرا بھائی کیا کرتا تھا کہ جس کی یہ سزا ہو؟ اس نے کہا: وہ اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا تھا۔ (مکاشفۃ القلوب ص۱۴۵، مُلخصاً)

سونے چاندی میں زکوٰۃ:

{1} سونے کانصاب بیس ۲۰ مثقال یعنی ساڑھے سات(7.5) تولے (یا87.48grams ) ہے اور چاندی کا نصاب دو سو ۲۰۰ درہم یعنی ساڑھے باون (52.5) تولے (یعنی612.36grams) ہے۔ (اگر صرف سونا ہے اور اس کے ساتھ چاندی یا ایک روپیہ بھی نہیں اور تجارت وغیرہ کا مال بھی نہیں تو)سونے کی زکوۃ میں وزن دیکھا جائے گا،قیمت (price) نہیں،اس صورت میں ساڑھے سات(7.5) تولے (87.48grams)سے کم سونے پر زکوۃ نہیں چاہے کم سونے کی قیمت ساڑھے باون (52.5) تولے (یعنی612.36grams) چاندی سے بہت زیادہ ہواسی طرح (اگر صرف چاندی ہے اور اس کے ساتھ سونا یا ایک روپیہ بھی نہیں تو) چاندی کی زکوۃ میں بھی وزن دیکھا جائے گا،قیمت (price) نہیں۔نوٹ: یہاں ایک روپے سے مراد صرف پیسے ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی رقم مثلاً پرائز بانڈ، ڈالر وغیرہ، اسی طرح ہر وہ مال جس پر زکوۃ ہوتی ہے، وہ بھی نہ ہو تو صرف سونے اور صرف چاندی کی زکوۃ میں وزن دیکھا جائے گا۔یاد رہے: سونے کے ساتھ چاندی ہو اور کچھ بھی نہ ہو تب بھی زکوۃ قیمت(price) کے مطابق دی جائے گی۔

{2} سونے کی زکوۃ میں سونے اور چاندی کی زکوۃ میں چاندی کی کوئی چیز دی تو اس میں بھی قیمت کا اعتبار (price count) نہ ہوگا، بلکہ وزن دیکھا جائے گا(مثلاً800 گرام چاندی کی زکوٰۃ جب چاندی میں دی جائے گی تو= 40/800 20گرام ہوگی کیونکہ زکوٰۃ ، مال کا چالیسویں حصّہ(40th part۔2.5%) ہوتی ہے)۔یاد رہے! اگر سونے کی زکوۃ چاندی سے یا چاندی کی زکوۃ سونے سے دی تو قیمت(price) دیکھی جائے گی ۔

{3} سونا چاندی کسی بھی صورت میں ہوں، اُن پر زکوۃ لازم ہے چاہے ویسے ہی گھر میں رکھے ہوں یا سِکّوں (coins) میں ہوں، چاہے ایسی صورت(case) میں ہوں کہ اُن کا استعمال(usage) جائز ہوجیسے: عورت کے لیے زیور، مرد کے لیے چاندی کی ایک نگ کی (مثلاً ایک پتھر لگی ہوئی) ایک انگوٹھی ساڑھے چار ماشے (4 گرام 374ملی گرام) سے کم کی یا سونے چاندی کے بغیر زنجیر (without chain)کے بٹن یا استعمال ناجائز ہو جیسے سونے یاچاندی کے استعمالی برتن، وقت دیکھنے کے لیے سونے کی گھڑی، سُرمہ دانی(kohl pot )، سلائی (kohl applicator) کہ ان کا استعمال مرد و عورت سب کے لیے حرام ہے یا مرد کے لیےسونے چاندی کا چھلّا(ring) یا زیور(ornament) یا سونے کی انگوٹھی(gold ring) یا ساڑھے چار ماشے (4 گرام 374ملی گرام) سے زیادہ چاندی کی انگوٹھی یا ایک سے زیادہ انگوٹھیاں یا کئی نگ کی (مثلاً ایک سے زیادہ پتھروں والی) ایک انگوٹھی، جو کچھ ہو(دوسری شرطوں (preconditions)کے ساتھ) زکوۃ سب پر فرض ہے۔

{4}سونے چاندی کے علاوہ(other) تجارت(trade) کی کوئی چیز ہو، جس کی قیمت سونے چاندی کی نصاب کو پہنچے( یعنی 87.48gramsسونا یا 612.36grams چاندی کی قیمت(price)ہو) تو اس پر بھی زکوۃ واجب ہے یعنی قیمت(price) کا چالیسواں ۴۰ حصہ(40th part ،2.5%)۔

{5}اگرتجارت کے سامان(trade goods) کی قیمت تو نصاب کو نہیں پہنچتی مگر اس کےعلاوہ (other) سونا یاچاندی (یا پیسہ، یابونڈ، یا بینک میں رقم)بھی ہے تو اُن کی قیمت سونے چاندی کے ساتھ ملا کر جمع (total)کریں، اگر مجموعہ (total)نصاب(مثلاً612.36grams چاندی کی قیمت) کو پہنچا تو زکوۃ فرض ہے ۔
(بہارشریعت،ج۱،ح۵، ص۹۰۲، ۹۰۳ملخصاً)

{6}آرٹیفیشل جیولری(artificial Jewelry) اگر تجارت (یعنی بیچنے)کے لیے رکھی تو اس پر دیگر (other) شرطوں (preconditions) کے ساتھ زکوۃ فرض ہوگی۔ اگر یہ تجارت کے لیے نہ ہوں بلکہ استعمال کرنے کے لیے ہو تو ان پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔ (زینت کے شرعی احکام ص ۱۸۶، مُلخصاً)

کس جانور کی زکوۃ ہوتی ہے؟:

{1}سائمہ وہ جانورہے جو سال کا اکثر حصّہ(most of the time) چر(یعنی جنگل وغیرہ سے، گھر کے باہر سے مفت ملنےوالی گھاس یا سبزہ وغیرہ کھا) کر گذر کرتا ہو (تواُس پر کھلانے کا خرچا نہیں ہوتا)اوراس طرح کھلانے سے جانور کو موٹا کرنے یا اس سے دودھ اور بچّہ وغیرہ لینے کا فائدہ حاصل کیا جاتا ہو، تو اس پر دوسری شرطوں (preconditions) کے ساتھ زکوۃ لازم ہو گی۔

{2}اگر گھر میں گھاس لا کر کھلاتے ہوں یا وہ جانور گوشت کھانے کے لیے ہویا اس جانور سے سامان اُٹھواتے ہیں یا ہل(plough) چلواتے ہیں یا کسی اور کام میں لاتے ہیں یا سواری (ride) کے کام میں لایا جاتا ہے تو چاہے چر(یعنی جنگل وغیرہ سے، گھر کے باہر سے کھا) کر گذر کرتا ہو، وہ سائمہ نہیں اور اس کی زکوۃ فرض نہیںاگر تجارت کا جانور چرائی پر ہے تو یہ بھی سائمہ نہیں، لیکن اس کی زکوۃ (دوسری شرطوں (preconditions) کے ساتھ)، ان جانوروں کی قیمت (price) کے مطابق دی جائے گی ۔ (بہارشریعت،ج۱، ص۸۹۲،۵ملخصاً) یاد رہے: تجارت کے جانور میں تعداد(number) نہیں بلکہ قیمت(price) دیکھی جائے گی، چاہے ایک ہی جانور ہے اور دیگر شرطوں(preconditions) کے ساتھ) اس کی قیمت پر زکوۃ فرض ہوگی۔

اونٹ میں زکوۃ:

{1} پانچ (5)اونٹ سے کم میں زکوۃ واجب نہیں اور جب پانچ(5) یا پانچ(5) سے زیادہ ہوں، مگر پچیس(25) سے کم ہوں تو ہر پانچ(5) میں ایک(1) بکری واجب ہے یعنی پانچ (5)ہوں تو ایک(1) بکری، دس(10) ہوں تو دو(2) ،پندرہ(15) ہیں تو تین(3)،اسی طرح آگے تک۔
{2} زکوۃ میں جو بکری دی جائے وہ ایک (1)سال سے کم عمر کی نہ ہو بکری دیں یا بکرا اس کا اختیار (option) ہے۔
{3} دو نصابوں کے درمیان میں جو اونٹ ہوں وہ معاف ہے یعنی اُن پر کچھ زکوۃ نہیں، مثلاً سات (7)یاآٹھ(8) اونٹ ہوں، جب بھی وہی ایک(1) بکرا یابکری دی جائے گی ا سی طرح بارہ (12)یا تیرہ(13) اُونٹ ہوں تو دو (2)بکرے یا دو (2)بکریاں۔
{4}(۱) پچیس(25) اونٹ ہوں تو ایک(۱) اونٹنی جو ایک(1) سال سے اوپر کی ہو یعنی دوسرے سال(2nd year) میں چلی گئی ہو۔ پینتیس (35) تک یہی حکم ہے(یعنی 35 کی تعداد تک ایک اونٹنی جو ایک(1) سال سے اوپر کی ہو یعنی دوسرے سال(2nd year) میں چلی گئی ہو، دینی ہو گی ، مزید کچھ دینا لازم نہیں ہوگا)۔

اونٹ میں زکوۃ:

(۲) چھتیس (36) سے پینتالیس (45) تک اونٹ ہوں تو ایک(۱) اونٹنی جودو (2)سال سے اوپر کی ہو چکی ہو یعنی تیسرے سال(3rd year) میں چلی گئی ہو۔
(۳) چھیالیس(46) سے ساٹھ (60) اونٹ ہوں تو ایک(۱) اونٹنی جو تین(3) سال سے اوپر کی ہو یعنی چوتھے سال(4th year) میں چلی گئی ہو۔
(۴)اکسٹھ (61) سے پچھتر(75) اونٹ ہوں تو ایک(۱) اونٹنی جو چار(4) سال سے اوپر کی ہو یعنی پانچویں سال(5th year) میں چلی گئی ہو۔
(۵) چھہتر(76) سے نوے (90) تک اونٹ ہوں تو دو(۲) اونٹنیاں جودو (2)سال سے اوپر کی ہوں یعنی تیسرے سال(3rd year) میں چلی گئی ہوں۔
(۶)اکانوے(91) سے ایک سو بیس(120) اونٹ ہوں تو دو(۲) اونٹنیاں جو تین(3) سال سے اوپر کی ہوں یعنی چوتھے سال(4th year) میں چلی گئی ہوں۔
(۷) اس کے بعد ایک سو پینتالیس(145) تک اونٹ ہوں تو دو(۲) اونٹنی جو تین(3) سال سے اوپر کی ہو یعنی چوتھے سال(4th year) میں چلی گئی ہو اور اس کے ساتھ ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری، مثلاً ایک سو پچیس (125) اونٹوں میں دو(۲) تین(3) سال سے اوپر کی اونٹنیاں اور ایک بکری، اسی طرح ایک سو تیس(130) اونٹوں میں دو (۲)تین(3) سال سے اوپر کی اونٹنیاں اور دو بکریاں۔

گائے میں زکوۃ:

{1} تیس (30)سے کم گائیں ہوں تو زکوۃ واجب نہیں، جب تیس (30) پوری ہوں تو ان کی زکوۃ ایک سال کا بچھڑا(calf۔چھوٹا بیل) یا ایک سال کی گائے ہے اور چالیس (40) گائے ہوں تو دو سال کا ایک بیل یا دو سال کی گائے، انسٹھ (59) تک یہی حکم ہے (یعنی دو سال کا ایک بیل یا دو سال کی گائے) ساٹھ(60) گائےمیں ایک سال کے دو(2) بیل یا ایک سال کی دو (2)گائے۔

{2}پہلے تیس (30) کے بعد مزید تیس(30) یعنی ساٹھ(60) ہونے پر تیس (30) گائے والی زکوۃ کو دُگنا (double) کریں گے (یعنی60 گائے پر ایک سال کے دو(2) بیل یا دو(2) گائے ) اب مزید دس(10) کے اضافے یعنی ((=40+30 70 پر 30 اور 40 (دونوں) کی زکاتیں(یعنی ایک سال کا ایک بیل یا گائے اور دو سال کا ایک بیل )دیا جائے گا اب مزید دس کے اضافے (یعنی (=40+40 80 پر چالیس (40) گائے والی زکوۃ کو دُگنا (double) کریں گے(یعنی80 گائے پر دو سال کے دو(۲) بیل )۔

{3} اب اسی طرح یہ سلسلہ آگے رہے گا : 90 پر 30 گائے کی زکوۃ 3 مرتبہ (یعنی90 گائے پر ایک سال کے تین(3) بیل یا تین گائے ) 120 پر 30 گائے کی زکوۃ(یعنی ایک سال کا بیل یا ایک سال کی گائے) 4 مرتبہ(یعنی120 گائے پر ایک سال کے چار(4) بیل یا چار گائے )۔(بہارشریعت،ج۱،ح۵، ص۸۹۶،۸۹۷ماخوذاً)

مُختلف جانوروں میں زکوۃ:

اگر اُس کے پاس اونٹ، گائیں، بکریاں سب ہیں مگر نصاب سے سب کم ہیں (مثلاً4 اونٹ،29 گائے،39 بکریاں)یا کچھ جانوروں کا نصاب پورا ہے اور کچھ کا نہیں (مثلاً5 اونٹ،29 گائے،39 بکریاں) تو جن کانصاب پورا ہے، اُن میں (دوسری شرطوں (preconditions) کے ساتھ ) زکوۃ لازم ہوگی اور جو نصاب مکمل نہیں ہیں، اُنہیں آپس میں ملایا نہیں جائے گا اور زکوۃ بھی واجب نہ ہوگی۔ (بہارشریعت،ج۱، ص۸۹۸،۵ملخصاً)

زمین سے ملنے والے خزانے کی زکوۃ:

{1}دفینہ (یعنی دفن کیا ہوا مال) ملا، اگر اُس میں اسلامی نشائی پائی جائے چاہے وہ نقد(cash) ہو یا ہتھیار (weapon)یا گھر کے کام کا سامان (housekeeping) وغیرہ، وہ زمین وغیرہ پرپڑے ہوئے مال کے حکم میں ہے یعنی مسجدوں، بازاروں میں اس کا اعلان اتنے دنوں تک کرے کہ مضبوط خیال(strong assumption) ہو جائے کہ اب اس کا تلاش کرنے والا(یعنی مالک۔owner) نہ ملے گا پھرمساکین کو دے دے اور خود فقیر ہو تو اب خود بھی استعمال کر سکتا ہے ۔

{2} دفینے (یعنی دفن کیے ہوئے مال میں) اگر کفر کی نشانی پائی جائے، مثلاً بُت کی تصویر ہو یا کافر بادشاہ کا نام اس پر لکھا ہو، اُس میں سے خمس(20%) لیا جائے گا(یعنی شرعی اصولوں کے مطابق حکومت کو دیا جائے گا)، باقی سب مال، اسی کا ہوگا کہ جسے وہ مال ملا، چاہے وہ اپنی زمین میں پائے یا دوسرے کی زمین میں یا مباح زمین میں(یعنی ایسی زمین جوسب کے لیے ہو مثلاً خالی میدان ، صحراء(desert) ، پہاڑ ، جنگل وغیرہ جو کسی خاص آدمی کی زمین نہ ہو) ۔ (بہارشریعت،ج۱،ح۵، ص ۹۱۳ملخصاً) پیشے(Professions) اور زکوۃ کے کچھ مسائل: {1}پیشہ وروں(professionals) کے پاس کام کرنے کا جو سامان، آلات(tools and equipment) ہوتے ہیں، وہ تین طرح کے ہوتے ہیں (۱) جسے باقی رکھ کر فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے(جیسے: ہتھوڑی، پلاس وغیرہ)

(۲) جسے ختم کر کے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے مگر اس کا اثر(effect) نظر نہیں آتا(جیسے پُرانا رنگ اُتارنے یا دیوار کی نمی(humidity) ختم کرنےکے لیے کمیکل(chemical) کا استعمال کرنا)(۳) جسے ختم کر کے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے مگر اس کا اثر نظر آتا ہے (جیسے پینٹ، پالش وغیرہ)۔ ان میں سے پہلی دو قسموں پر زکوۃ نہیں ہوتی جبکہ تیسری قسم کے سامان پر (دیگر شرطوں(preconditions) کے ساتھ) زکوٰۃ فرض ہوگی۔

وضاحت(explanation):

جس چیز کا اثر(effect) کام میں باقی رہتا ہے، اس سامان میں زکوۃ فرض ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کام کے بدلے ملنے والی اجرت(wages) یا پیسوں کا کچھ حصّہ اُس چیز کے استعمال کرنے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ یہ سامان ، تجارت کا مال بن گیا کیونکہ وہ ایک طرح سے اس سامان کو بیچ بھی رہا ہے اور کام بھی کر رہا ہے اور جو مال، تجارت(یعنی بیچنے ) کے لیے ہو اُس میں دیگر شرطوں (preconditions) کے ساتھ زکوۃ فرض ہوتی ہے۔البتہ جس چیز میں استعمال ہونے والے سامان کا اثر باقی نہیں رہتا اُس میں اجرت(wages) یا پیسے صرف محنت اور کام کی وجہ سے دیے جاتے ہیں، سامان کی وجہ سے نہیں لھذا اب ایسا سامان، مالِ تجارت نہیں اور اس پر زکوۃ بھی نہیں۔ (زینت کے شرعی احکام ص۱۸۹،۱۸۸، مُلخصاً)

{2}بیوٹی پارلر(beauty parlor)میں استعمال ہونے والا سامان بھی تین طرح کا ہوتا ہے(۱)جنہیں باقی رکھ کر فائدہ اُٹھانا ، ممکن ہے مثلاً میک اپ(make up) میں استعمال ہونے والے مختلف برش(brushes)، بالوں کو ڈائی کرنے والی مشین(hair dyeing machines) وغیرہ(۲) جسے ختم کر کے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے مگر اس کا اثر(effect) نظر نہیں آتا ۔ جیسے: مساج (massage)، اور فِشل(facial) میں استعمال ہونے والی کریمز (creams ) کہ انہیں چہرے یا بدن کی صفائی کے لیے لگایا جاتا ہے اور کچھ دیر بعد اتار دیا جاتا ہے(۳) جسے ختم کر کے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے مگر اس کا اثر نظر آتا ہے،جیسے بیس پاوڈر (base powder)،کاجل، آئی لینس (eye lens)، نیل پالش(nail polish)،مہندی، مصنوعی پلکیں(artificial eyelashes)،مصنوعی ناخن(artificial nails) ۔ ان میں سے پہلی دو قسموں پر زکوۃ نہیں ہوتی جبکہ تیسری قسم کے سامان پر (دیگر شرطوں (preconditions) کے ساتھ) زکوۃ فرض ہوگی۔(زینت کے شرعی احکام ص۱۸۸،۱۸۹، مُلخصاً)

{3}(۱)کچھ لوگ اس نیّت سے مرغیاں خریدتے ہیں، کہ ان کو پال کر، بڑا کرکے بیچ دیں گے تو مرغیوں تجارت (trade) کا سامان ہیں (۲) اگر مرغیاں اتنی ہیں کہ ان کی رقم(amount) ، نصاب ( یعنی 87.48grams سونا یا 612.36grams چاندی کی قیمت۔price ) کو پہنچ جاتی ہے، یا (۳)دیگر(other) اموالِ زکوٰۃ (مثلاًسونا، چاندی، تجارت(trade)کا سامان، پرائز بانڈز (price bound) اور کسی بھی ملک کی کرنسی۔currency) کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جاتی ہے، اور زکوۃ لازم ہونے کی دیگر شرطوں(other preconditions) بھی پائی جاتی ہیں، تو اب ان پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔ (الدرالمختار متن ردالمحتار، 3/234، بہارِ شریعت، 1/892)

{4} کچھ لوگ اس نیّت سے مرغیاں خریدتے ہیں کہ ان کو پال کر، ان کے انڈے بیچیں گے یعنی مرغیاں بیچنے کے لیے نہیں لی ہیں ۔ اس صورت(case)میں مرغیوں پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی اور ان سے حاصل ہونے والے انڈوں پر بھی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ تجارت (trade) کا سامان ہی نہیں ہیں۔ مرغیوں کو بیچنے کے لیے نہیں لیا، اس لیے مرغیاں تجارت (trade) کا سامان نہیں اور انڈوں کو خریدا ہی نہیں، اس لئے وہ بھی تجارت کا مال نہیں بنیں گے کیونکہ زکوۃ اُس مال پر لازم ہوتی ہے کہ جسے تجارت کےلئے خریدا گیا ہو۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ان انڈے کو بیچنے کی صورت میں جو رقم (amount) ملےگی، وہ رقم ضرور مالِ زکوٰۃ میں آئےگی(یعنی دوسری شرطیں پوری ہونے کے ساتھ، ان پر زکوۃ دی جائے گی)۔ ( اپریل2021،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

وضاحت(explanation):

جس چیز کا اثر(effect) کام میں باقی رہتا ہے، اس سامان میں زکوۃ فرض ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کام کے بدلے ملنے والی اجرت(wages) یا پیسوں کا کچھ حصّہ اُس چیز کے استعمال کرنے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ یہ سامان ، تجارت کا مال بن گیا کیونکہ وہ ایک طرح سے اس سامان کو بیچ بھی رہا ہے اور کام بھی کر رہا ہے اور جو مال، تجارت(یعنی بیچنے ) کے لیے ہو اُس میں دیگر شرطوں (preconditions) کے ساتھ زکوۃ فرض ہوتی ہے۔البتہ جس چیز میں استعمال ہونے والے سامان کا اثر باقی نہیں رہتا اُس میں اجرت(wages) یا پیسے صرف محنت اور کام کی وجہ سے دیے جاتے ہیں، سامان کی وجہ سے نہیں لھذا اب ایسا سامان، مالِ تجارت نہیں اور اس پر زکوۃ بھی نہیں۔ (زینت کے شرعی احکام ص۱۸۹،۱۸۸، مُلخصاً)

{2}بیوٹی پارلر(beauty parlor)میں استعمال ہونے والا سامان بھی تین طرح کا ہوتا ہے(۱)جنہیں باقی رکھ کر فائدہ اُٹھانا ، ممکن ہے مثلاً میک اپ(make up) میں استعمال ہونے والے مختلف برش(brushes)، بالوں کو ڈائی کرنے والی مشین(hair dyeing machines) وغیرہ(۲) جسے ختم کر کے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے مگر اس کا اثر(effect) نظر نہیں آتا ۔ جیسے: مساج (massage)، اور فِشل(facial) میں استعمال ہونے والی کریمز (creams ) کہ انہیں چہرے یا بدن کی صفائی کے لیے لگایا جاتا ہے اور کچھ دیر بعد اتار دیا جاتا ہے(۳) جسے ختم کر کے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے مگر اس کا اثر نظر آتا ہے،جیسے بیس پاوڈر (base powder)،کاجل، آئی لینس (eye lens)، نیل پالش(nail polish)،مہندی، مصنوعی پلکیں(artificial eyelashes)،مصنوعی ناخن(artificial nails) ۔ ان میں سے پہلی دو قسموں پر زکوۃ نہیں ہوتی جبکہ تیسری قسم کے سامان پر (دیگر شرطوں (preconditions) کے ساتھ) زکوۃ فرض ہوگی۔(زینت کے شرعی احکام ص۱۸۸،۱۸۹، مُلخصاً)

{3}(۱)کچھ لوگ اس نیّت سے مرغیاں خریدتے ہیں، کہ ان کو پال کر، بڑا کرکے بیچ دیں گے تو مرغیوں تجارت (trade) کا سامان ہیں (۲) اگر مرغیاں اتنی ہیں کہ ان کی رقم(amount) ، نصاب ( یعنی 87.48grams سونا یا 612.36grams چاندی کی قیمت۔price ) کو پہنچ جاتی ہے، یا

(۳)دیگر(other) اموالِ زکوٰۃ (مثلاًسونا، چاندی، تجارت(trade)کا سامان، پرائز بانڈز (price bound) اور کسی بھی ملک کی کرنسی۔currency) کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جاتی ہے، اور زکوۃ لازم ہونے کی دیگر شرطوں(other preconditions) بھی پائی جاتی ہیں، تو اب ان پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔ (الدرالمختار متن ردالمحتار، 3/234، بہارِ شریعت، 1/892)

{4} کچھ لوگ اس نیّت سے مرغیاں خریدتے ہیں کہ ان کو پال کر، ان کے انڈے بیچیں گے یعنی مرغیاں بیچنے کے لیے نہیں لی ہیں ۔ اس صورت(case)میں مرغیوں پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی اور ان سے حاصل ہونے والے انڈوں پر بھی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ تجارت (trade) کا سامان ہی نہیں ہیں۔ مرغیوں کو بیچنے کے لیے نہیں لیا، اس لیے مرغیاں تجارت (trade) کا سامان نہیں اور انڈوں کو خریدا ہی نہیں، اس لئے وہ بھی تجارت کا مال نہیں بنیں گے کیونکہ زکوۃ اُس مال پر لازم ہوتی ہے کہ جسے تجارت کےلئے خریدا گیا ہو۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ان انڈے کو بیچنے کی صورت میں جو رقم (amount) ملےگی، وہ رقم ضرور مالِ زکوٰۃ میں آئےگی(یعنی دوسری شرطیں پوری ہونے کے ساتھ، ان پر زکوۃ دی جائے گی)۔ ( اپریل2021،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

صدقہ:

کسی شخص نے یہ کہا کہ میرامال صدقہ (یعنی خیرات)ہے، یا جو کچھ میری مِلک (ownership) میں ہے صدقہ ہے تو جو مال ایسا اس کے پاس ہے کہ جس پرزکوۃ لازم ہو سکتی ہے یعنی سونا ،چاندی ،سائمہ(یعنی مخصوص جانور(specific animal) کہ جس پر زکوۃ لازم ہو سکتی ہے) اور تجارت کا مال(merchandise)یہ سب مسکینوں پر صدقہ کردےاور اگر آدمی کے پاس اموال زکوۃ (یعنی جس جس پرزکوۃ لازم ہو سکتی ہے)کے علاوہ (other) کوئی دوسرا مال ہی نہ ہوتو اب جتنا بھی مال موجود ہے، اس میں سے اتنا مال روک کے کہ جس کے ساتھ زندگی گزار سکے اورباقی صدقہ کر دے پھر جب کچھ مال ہاتھ میں آجائے تو جتنا روک لیا تھا، اُتنا مال اب صدقہ کر دے۔(بہار شریعت ح۱۲،ص۹۲۵ ،مسئلہ۲۷،مُلخصاً)

’’وَدِیعَت اور اَمانَت‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

میرے لیے چھ (6)چیزوں کے ضامن ہوجاؤ (یعنی مجھے چھ (6)چیزوں کیguarantee دے دو) میں تمہارے لیے جنَّت کا ذمّے دار(responsible) ہوتا ہوں (۱)جب بات کرو سچ بولو اور (۲)جب وعدہ کرو اسے پورا کرو اور(۳) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے اُسے ادا کرو اور (۴)اپنی شرمگاہوں (private parts) کی حفاظت(safety) کرواور (۵)اپنی نظریں(eyes) نیچی رکھو اور (۶)اپنے ہاتھوں کو روکو(یعنی ہاتھ سے کسی کو شریعت کی اجازت کے بغیر تکلیف نہ دو)۔ (مُسندِ اِمام احمد ج۸ ص۴۱۲ حدیث ۲۲۸۲۱)

واقعہ(incident): سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مد د فرمادی

حضرت ابوحَسَّان زِیَادِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ : مجھ پر بہت سے لوگوں کا قرض(loan)تھا اور میں بالکل غریب ہوگیا تھا۔ ایک دن خُرَاسَان کا رہنے والا شخص آ کر کہنے لگا: میں حج کے لیے جا رہا ہوں، میرے پاس دس ہزار درہم (یعنی چاندی کے سکّے۔ silver coin) ہیں، آپ یہِ امانت اپنے پاس رکھ لیں میں حج سے واپسی پر لے لوں گا۔

میں نے وہ رقم (amount) لے لی اور وہ چلا گیا۔میں نے سوچا کہ میں ابھی بہت پریشان ہوں،اسے استعمال کر لیتا ہوں ،جب حاجی واپس آئیں گے اُس وقت تک کوئی انتظام(arrangement) ہو جائے گا۔میں نے اُسی دن سب کے قرضے(loans) واپس کیے لیکن اگلے دن(next day) وہ خُرَاسَانیِ حاجی دروازے پر آگئے اور کہنے لگے کہ :یہاں سے جانے کے بعدمجھے اپنے بیٹے کی وفات(death) کی خبرملی ہے ۔ اب میں اپنے شہر جانا چاہتا ہوں، میری رقم مجھے واپس کر دیں۔ میں نے کہا: وہ رقم میرے پاس نہیں، آپ کل آکر لے لیں۔

سوچتے سوچتے رات ہوگئی مگر نیند نہیں آرہی تھی، فجر کا وقت شروع ہوتے ہی کچھ لوگ آگئے میں اپنا جانور لے کر دوسرے راستے سے نکل گیا اور جہاں جانور جاتا رہا میں نے جانے دیا، وہ خلیفہ مامون کے محل کی طرف آگیا تو کسی نے مجھے دیکھا اور کہنے لگا:کیا تم ابوحَسَّان زِیَادِی ہو؟میں نے کہا: جی ہاں! تو اُس نے کہا کہ امیر (ruler)نے تمھیں بلایا ہے۔ امیر کے پاس پہنچے تو امیر نے کہا:سچ سچ بتاؤ! کیا تم کسی بہت بڑی مصیبت میں ہو؟ میں نے امیر سے ساری بات کہہ دی۔

میری بات سُن کر خلیفہ (caliph) روتے ہوئے کہنے لگا: آج رات تیری وجہ سے مجھے کئی مرتبہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکا دیدار ہوا(یعنی خواب میں دیکھا) فرما رہے تھے: ابوحَسَّان زِیَادِی کی مدد کرو۔ پھر خلیفہ (caliph) نے کہا یہ لو دس ہزار درہم اس خُرَاسَانیِ کو دے دینا۔ اور یہ مزید دس ہزار درہم اپنے خرچ کے لیے اور یہ بھی جب ختم ہوجائیں تو مجھے ضرور بتا دینا۔ (عیون الحکایات ج۲،ص۲۷۲ تا ۲۷۵، بالتغیر)

واقعہ(incident): سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مد د فرمادی

ودیعت کے مسائل:

{1} کسی شخص کو اپنا مال حفاظت (safety)کرنے کے لیے دینےکو”اِیدَاع“ کہتے ہیں اور اُس مال کو” وَدِیعَت“ کہتے ہیں (جس کو عام طور پر امَانَت کہہ دیتے ہیں)۔ جس کی چیز ہے اُسے ”مُودِع“ اور جس کی حفاظت میں دی گئی اُسے ”مُودَع“ کہتے ہیں۔

{2}کسی شخص کی کوئی چیز کسی بھی طرح کسی دوسرے شخص کے پاس آجائے یہ ”امَانَت “کہلاتی ہے (ماخوذاً التعریفات) مثلاً کسی کا جانور بھاگ کر آپ کے گھر آگیا تو یہ بھی امانت ہے۔”امَانَت“ کوتاہی(negligence) کے بغیر ضائع(waste) ہو جانے پراُس کی رقم وغیرہ نہیں دینی ہوتی۔ مگر ” وَدِیعَت“ کا لفظ اُس خاص (specific) مال کے لیے بولاجاتا ہے کہ جو حفاظت (safety)کے لیے دیا گیا ہو۔

{3} ”اِیدَاع “کی دو (2)صورتیں ہیں :(۱)کبھی واضح طور پر(clearly)کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ چیز تمھاری حفاظت(safety) میں دی اور (۱) ”اِیدَاع “کبھی دلالۃً(یعنی معلوم ۔understood) بھی ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کی کوئی چیز گرگئی اور مالک موجود نہیں ، ایسی چیز کسی نے حفاظت(safety) کے لیےلے لی تو یہ بھی ”اِیدَاع“ ہے۔

{4}کسی کی کوئی چیز گرگئی اور مالک موجود نہیں (مثلاً دو دوست جار ہے تھے ایک کا موبائل گر گیا اور وہ چلا گیا) ، ایسی چیز کسی نے حفاظت(safety) کے لیےلے(مثلاً زمین سے اُٹھا) لی تو اگر لینے کے بعد اُس نے چھوڑدی(مثلاً واپس زمین پر رکھ دی تو اب وہ شخص) ضامن ہے (یعنی اُس چیز کے گم ہو جانے پر بدل (exchange) دے گا)۔ہاں!اگر مالک کی موجودگی میں(اُس شخص نے وہ چیز ) لی ہے(اور واپس رکھ دی پھر وہ چیز گم گئی تو اب وہ آدمی) ضامن نہیں(یعنی اُس چیز کا بدل (exchange) نہیں دے گا)۔

{5}” وَدِیعَت“ کے لیے ایجاب وقبول ضروری ہیں(یعنی ایک حفاظت کے لیے دےاور دوسرا اُس بات پر راضی(agree )ہو جائے) چاہے یہ دونوں چیزیں واضح طور پر(clearly) ہوں یا دلالۃً(یعنی معلوم ۔understood) ۔ واضح طور پر(clearly) : مثلاًیہ کہے کہ میں یہ چیز تمھارے پاس ودیعت ، یا امانت، یاحفاظت کے لیے رکھتا ہوںاسی طرح سامنے والاکہے میں نے قبول (accept) کیا ۔ دلالۃً (یعنی معلوم ۔understood) : مثلاً ایک شخص نے دوسرے سے کہا مجھے ہزار روپے دے دو، یہ کپڑا مجھے دے دو اُس نے کہا میں تم کو دیتا ہوں (جب کہ تحفہ دینے کی نیّت (intention)سے نہ بولا ہو)اسی طرح ایک شخص نے کسی کے پاس کوئی چیز رکھ دی اور کچھ نہ کہا ،یاکہہ دیا کہ تمھارے پاس یہ چیز”امَانَت“ رکھتا ہوں اور دوسرا شخص خاموش رہا مثلاً حمام (bathroom) میں جانے والے نے کپڑے غسل خانے کے مالک (owner) کےپاس رکھے اوراندر نہانے کے لیے چلا گیا ۔

{6}” وَدِیعَت“ کا حکم یہ ہے کہ وہ چیز ” مُودَع “ (یعنی جس کی حفاظت میں چیز ہو)کے پاس”امَانَت“ ہوتی ہے اُس کی حفاظت ” مُودَع “ پر واجب ہوتی ہے اور مالک کے مانگنے پر اُس چیز کو واپس کرنا واجب ہوتا ہے۔

{7}کوئی شخص” وَدِیعَت“ دے تو اس کا قبول (accept)کرنا مُستحب(اور ثواب کا کام) ہے۔ ” وَدِیعَت“ ہلاک یعنی ضائع (waste) ہوجائے تو اُس کے بدلے میں کچھ نہیں دینا ہوتا۔

{8} ” وَدِیعَت“ کو نہ دوسرے کے پاس”امانت“ رکھ سکتا ہے، نہ ”عاریت “ (یعنی ادھار میں) دے سکتا ہے۔ اسی طرح اجارے(wages) پر بھی نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس کو ”رہن “ (یعنی گروی۔ mortgage) رکھ سکتا ہے۔ اس طرح کا کوئی کام کیا(اور وہ چیز ضائع۔ waste ہو گئی تو) تاوان(یعنی رقم وغیرہ) دینا ہوگا۔

{9} ” وَدِیعَت“ میں ” مُودَع “ (یعنی جس کی حفاظت میں چیز ہو) کی طرف سے یہ شرط(condition) رکھنا درست (یعنی صحیح ) ہے کہ اس چیز کی حفاظت (safety) میں جو جو خرچے ہونگے وہ سب ” مُودِع “ (یعنی جس نے چیز دی ہو) کو دینے ہونگے ۔(بہار شریعت ح۱۷،ص۷۰۸،مسئلہ۲،مُلخصاً)

{10} ایک ہی شخص نے گیہوں(wheat) اور جَو (barley)دونوں کو ” وَدِیعَت“ رکھا جب بھی دونوں کو مِلا دینا جائز نہیں، مِلادے گا تو تاوان لازم ہوگا(یعنی جو نقصان ہوا اُس کی رقم(amount) مالک(owner) کو دینی ہوگی)۔

{11} ” وَدِیعَت“ پر تعدّی کی کہ اُس میں بیجا تصرُّف(یعنی ایسا کام) کیا (کہ جس کی اجازت نہیں تھی)مثلاًکپڑا ” وَدِیعَت“ میں ملاتھا اُسے پہن لیا ، یاگھوڑا ملا تھا اُس پر سوار(ride) ہوگیا تواس طرح استعمال کرنے سے چیز میں جو نقصان یا کمی ہوئی ، اُس کی رقم مالک کو دینی ہوگییا اُس چیز کو کسی دوسرے کے پاس ” وَدِیعَت“ رکھ دیا پھر وہ چیز ضائع (waste) یا خراب ہوگئی تو ” وَدِیعَت“ لینے والے پر لازم ہے کہ مالک کو اُس کا بدل (exchange) دے جس شخص نے ایسا کیا پھر وہ اپنی غلطی سے رُک گیا یعنی اُس چیز کو واپس لے لیا اور یہ نیّت (intention)ہے کہ اب اس کو استعمال نہ کرے گا اور کسی کو بھی نہیں دے گا پھر وہ چیز پڑی پڑی ضائع(waste) ہوگئ تو اب اُس چیز کی رقم مالک کو دینے کا حکم نہیں ہے(یعنی وہ نقصان مالک ہی کا ہوگا،

” وَدِیعَت“ لینے والے کا نہیں) اگر اب بھی نیّت یہ ہو کہ پھر ایسا کریگا مثلاًرات میں کپڑا اُتار دیا اور یہ نیّت ہے کہ کل دوبارہ (again) پہنے گا پھر اُس چیز کا نقصان ہوگیا تو اب ” وَدِیعَت“ لینے والا، مالک کو اس نقصان کی رقم دے گا۔ مثلاًرات ہی میں وہ کپڑا چوری ہوگیا توا ب مالک کو رقم دینی ہوگی ۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۴،ص ۳۱، مسئلہ۱،۲،۷،۸،۴۸،۵۳،ماخوذاً) {12}اگر کسی نے امانت لیتے ہوئے اس بات کی اجازت لے لی کہ ضرورت کے وقت اس میں سے خرچ کرے گا اور جب امانت واپس کرے گا تو مکمل رقم واپس کردےگا، تو اس صورت(case) میں جتنی رقم امانت میں سے لے کر استعمال کرے گا، وہ رقم امانت نہ رہے گی بلکہ قرض(loan) ہو جائے گی۔(فتاوی رضویہ ج۱۹،ص۱۶۲، مَاخوذاً)

’’عارضی طور(temporary) پر کچھ لینا‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

ہاتھ پر وہ چیز واجب ہے جو اس نے لی یہاں تک کہ اسے ادا کردے۔ (سنن ابن ماجہ، ج۲،ص۸۰۲) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: کوئی شخص کسی کا مال عاریت،امانت،ودیعت، غصب (مثلاً کسی سے چھین کر مال لے لےیا)کسی بھی طرح دوسرے کا مال لے لے، اُس (مال لینے والے)پر اِس مال کو واپس کرنا واجب ہے۔ جب تک (لیا ہوا مال)واپس نہیں کرے گا، اُس مال کا ذمہ دار (responsible) رہے گا۔اگر مال ضائع (waste) ہوجائے تو غاصب (مثلاً کسی سے چھین کر مال لینے والے)پر تاوان(یعنی اُس مال یا سامان کی رقم (amount) دینا) لازم ہے۔ہاں! امانت وغیرہ میں تاوان نہیں (جبکہ چیز پڑے پڑے خود ہی(by itself) خراب ہوگئی)اور ضائع کردینے کی صورت (case)میں سب لوگوں(عاریت لینے والے، امانت لینے والے، ودیعت لینے والے، غصب کر لینے والے) پر تاوان(یعنی مالک کو اس کے بدلے (exchange) رقم دینا) لازم ہے۔ چیز(سامان وغیرہ) واپس کرنا، سب پر لازم ہے ، چاہےمالک مانگے یا نہ مانگے۔”عاریت “ میں طے شدہ مدت (fixed time) پوری ہوجانے پر بغیر مانگے واپس کرنا لازم ہے مگر ”امانت“ بغیر مانگے واپس دینا لازم نہیں مانگنے پر لازم ہے۔(مرقات مع مراۃ ج۴،ص ۵۴۸، سوفٹ ائیر،مُلخصاً)

واقعہ(incident): عاریۃً (یعنی استعمال کے لیے) لی ہوئی سوئی

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَـــیْہکو کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھاگیا :مَا فَعَلَ للّٰہ بِکَیعنی اللّٰہ کریم نے آپ کے ساتھ کیامعاملہ فرمایا ؟کہنے لگے: مجھے(خیر اور) بھلائی ہی ملی مگر (فی الوقت)ایک سوئی (needle)کی وجہ سے مجھے جنّت میں جانے سے روک دیا گیا ہے، جو میں نے عاریۃً (یعنی استعمال کے لیے)لی تھی اور اسے دوبارہ واپس نہیں کر سکاتھا۔(الزواجرعن اقتراف الکبائر، کتاب البیع، ج۱، ص۵۰۴، مُلخصاً)

عاریت کے دینی مسائل:

{1}”عاریت “ کا مطلب ہے کہ کسی چیز(سامان وغیرہ) کے مالک کی اجازت سے، اس چیزسے فائدہ (benefit) اُٹھانا مگر اس فائدے کے بدلے(exchange) میں کچھ(مثلاً کرایہ وغیرہ ) نہ دینا۔جیسے: کسی کا برتن کچھ دن کے لیے مانگ لینا،پھر کام میں لے کر واپس کردینا۔”عاریت “ میں سامان وغیرہ لیناجائز ہے۔ (مراۃ ج ۴،ص۵۳۷سوفٹ ائیر،ماخوذاً)

{2} جس کی چیز ہے یعنی مالک(owner) کو”مُعِیْر “ کہتے ہیں اور ”عاریت “ میں چیز یا سامان لینے والے کو ”مُسْتَعِیْر “ کہتےہیں اورجو چیز یا سامان”عاریت “ میں لیا گیا،اُسے”مُسْتَعَار “ کہتے ہیں۔

{3} ”عاریت “ کے لیے ایجاب وقبول ہونا ضروری ہے(یعنی ایک شخص استعمال کے لیے دوسرے کی چیز لےاور دوسرا اُس بات پر راضی(agree )ہو جائے) چاہے ایجاب اور قبول واضح طور پر(clearly) ہو یا دلالۃً(یعنی معلوم ۔understood) ہو اگر کوئی ایسا کام کیاجس سے معلوم ہوتا ہے کہ مالک راضی (agree ) ہے تو یہ کام بھی کافی(enough) ہے مثلاً ایک شخص نے دوسرے سے کوئی چیز مانگی ، پہلےنے لاکر دوسرے کودیدی اور کچھ نہیں کہا تب بھی یہ چیز ”عاریت “ ہوگئی اور اگر (کوئی چیز سامنے رکھی ہے) ایک شخص نے مالک سے کہا کہ: میں یہ لے لوں اور مالک خاموش رہا کچھ نہیں بولا تو اب یہ چیز ”عاریت“ نہیںاسی طرح بغیر مانگے کسی نے کہہ دیا یہ میرا گھوڑا ہے اس پر سواری(ride) کرلو تو یہ ”عاریت“ نہیں یعنی سواری کا خرچا مالک کو دینا ہوگا۔

{4} ”عاریت“ کا حکم یہ ہے کہ وہ چیز ”مُسْتَعِیْر “ (یعنی چیز لینے والے) کے پاس ”امانت“ ہوتی ہے اگر ”مُسْتَعِیْر “ نے تعدّی نہیں کی(یعنی ایسا کوئی کام نہ کیاجس کی اجازت نہیں تھی) اور وہ چیز ضائع(waste) ہوگئی توضمان(تاوان یعنی مالک کواُس چیز کی رقم (amount)دینا)واجب نہیں۔

{5} ”عاریت“ کی کچھ شرطیں(preconditions) ہیں :

(۱) ”مُسْتَعَار “ (یعنی جو چیز”عاریت“ میں دی گئی ہو،اُس) سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہو۔

(۲) عوض (یعنی جو چیز دی ہے، اُس کے بدلے(exchange) میں کوئی چیز(مثلاً پیسے وغیرہ لینے کا)طے (fixed) ) نہ ہو، کیونکہ اگر بدلے(exchange) میں کسی چیز کی شرط(precondition) رکھ دی تو اب یہ

”عاریت“ نہیں ، اجارہ(wages) ہو جائے گا(یعنی اب ”عاریت“ کے مسائل نہیں دیکھے جائیں گے بلکہ اجارے(wages)کے دینی مسائل پر عمل کیا جائے گا )۔

(۳) ”مُسْتَعَار “ (یعنی جو چیز”عاریت“ میں دی گئی ہو،اُس) میں جہالت(unknown) نہ ہو کیونکہ

مُسْتَعَار “ معلوم ہی نہ ہو تو”عاریت“ ہوتی ہی نہیں۔مثلاً ایک شخص سے سواری (ride)کے لیے گھوڑا مانگااُس نے کہا اصطبل(گھوڑاباندھنے کی جگہ)میں دو گھوڑے ہیں، اُن میں سے ایک لے لو۔ ”مُسْتَعِیْر “ (یعنی چیز لینے والا) ایک گھوڑا لیکر چلاگیا اگر وہ گھوڑا مر گیا تو اُس کی رقم دینی ہوگی( کیونکہ یہ شخص گھوڑا اپنی پسند سے لے کر گیا ہے، مالک نے وہ خاص(specific) گھوڑا اُسے نہیں دیا ہے) اور اگرمالک نے یہ کہاان دونوں میں سے جو تم لینا چاہو لے لو اور اُس نے ایک لے لیا پھر وہ گھوڑا مر گیا تو اب مالک کو اس کی رقم نہیں دی جائے گی(کیونکہ اب یہ”عاریت“ ہوگئی اور ”عاریت“ اگر تَعَدّی(غلط استعمال) کے بغیر ضائع(waste) ہو جائے تو اُس کا تاوان (یعنی مالک کو اس چیز کی قیمت دینا لازم)نہیں ہوتا)۔

{6} ”عاریت“ کو نہ”اُجرت“ (wages)پر دے سکتا ہے اور نہ ”رہن“ (mortgage) رکھ سکتاہے مثلاًمکان یا گھوڑا ”عاریت“ پر لیا اور اس کو آگے کرایہ پر دے دیا یا روپیہ قرض (loan)لیا اور ”عاریت“ کو”رہن“ رکھ دیا یہ سب نا جائز ہے۔ ہاں! ”عاریت“ کو ”عاریت“ پر دے سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیز ایسی ہو جس کو استعمال کرنے والے بدل جائیں تب بھی اُس چیز میں نقصان پیدا نہ ہو۔ جیسے: مکان میں رہنا، جانورپر سامان رکھنا وغیرہ۔ اسی طرح ”عاریت“ کو ”ودیعت“ (مثلاً امانت)رکھ سکتا ہے ۔

{7} ”مُسْتَعِیْر “(یعنی چیز لینے والے)نے ”عاریت“ کو کرائے(rent)پر دیدیا یا”رہن“ رکھ دیا اور چیز ضائع (waste)ہوگئی تو مالک اُس ”مُسْتَعِیْر “ سے تاوان (یعنی اُس چیز کی رقم)لےسکتا ہے۔”مُسْتَعِیْر “(یعنی چیز لینے والے) کو اُس کا جو بھی کرایہ ملا ہے، اُسے صدقہ کردے۔

{8} ”عاریت“ دینے والا جب چاہے اپنی چیز واپس لے سکتا ہے جب یہ واپس مانگے گا ”عاریت“ ختم ہوجائے گی۔

{9} ”عاریت“ کے لیے ایک وقت طے(time fixed) کرلیا تھا مثلاً ایک مہینےکے لیے یہ چیز دی پھر مالک نے اُس وقت سے پہلے ہی ،وہ چیز واپس مانگ لی تو ”عاریت“ ختم ہوگئی۔یاد رہے! مالک کو ایسا کرنا مکروہ ہے جو وقت دیا ہے، اُسے پورا کرنا چاہیے مگر واپس مانگ لی تو ”عاریت“ ختم ہوگئی۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۴،ص ۵۴ اور مسئلہ۱،۲،۱۰ ،۱۱،۱۲ ،۲۱، مُلخصاً)

’’لقطہ(گری پڑی چیز) ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

مسلمان کی گم شدہ (lost)چیز آگ کا شعلہ (flame of fire)ہے۔ (سنن الدارمي،کتاب البیوع، الحدیث:۲۶۰۱، ج۲، ص ۳۴۴) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں :یعنی اس کا اٹھا لینا عذاب (punishment) کا سبب (reason)ہے، جب کہ اس لیے اُٹھایا کہ خود مالک بن جائے۔(بہار شریعت ح۱۰، ص۴۷۱، حدیث۲ ، مُلخصاً)

واقعہ(incident): دریا سے لکڑی اُٹھائی تو ہزار دینار(سونے کے سکّے gold coins) نکلے

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار (یعنی سونے کے سکّے۔gold coins) قرض (loan)مانگے ۔اس نے کہا : تم کسی گواہ(witness) کو لے کر آؤ تاکہ وہ اس قرض پر گواہ بنے ۔قرض مانگنے والے (borrower) نے کہا کہ اللّٰہ کریم کاگواہ (witness) ہونا کافی (enough)ہے ۔دوسرے شخص نے کہا : پھر تم کسی کفیل(guarantor) کو لے کر آؤ، اس نے جواب دیا : اللّٰہ کریم کا کفیل ہونا بہت ہے۔اس پر دوسرے شخص نے کہا کہ تم سچ کہتے ہو، پھر اس نے ایک وقت کے وعدے پر اسے ہزار دینار قرض (loan) دیدئیے ۔قرض لینے والا (borrower)اپنے کام کے لیے دریائی سفر(river journey) پر گیا اور اپنا کام مکمل کیا۔اس کے بعد اس نے کشتی ڈھونڈی تاکہ وعدے کے مطابق وقت پر قرض واپس کرسکے لیکن کوئی کشتی نہ ملی،اب اس نے ایک لکڑی کو سوراخ کیا اور اس کے اندر ایک ہزار دینار(یعنی سونے کے سکّے) اور قرض دینے والےکے نام ایک پرچہ لکھ کر رکھ دیا اور پھر کسی چیز سے لکڑی کا سوراخ بند کردیا۔اب وہ قرض لینے والا (borrower)اس لکڑی کو لے کر دریا(river) پر آیا اور یہ دعا کی : اے اللّٰہ!تجھے خوب علم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض (loan) لئے تھے ۔اس نے مجھ سے کفیل (guarantor) مانگا کیا تو میں نے کہا : اللّٰہ کا کفیل ہونا کافی (enough)ہے ، وہ تیری کفالت (guarantee) پر راضی(agree ) ہوگیا اور اس نے مجھ سے گواہ(witness) مانگا تو میں نے کہا : اللّٰہ کا گواہ ہونا کافی ہے تو وہ تیری گواہی(witness) پر راضی ہوگیا ۔میں نے کشتی ڈھونڈنے کی مکمل کوشش کی تاکہ میں اس کی طرف اس کی رقم بھیج دوں لیکن میں اس پر قادر نہیں ہوا(یعنی کشتی نہ پا سکا) اور اب میں یہ رقم والی لکڑی تیری اَمان(حفاظت۔safety) میں دیتا ہوں ۔پھر اس شخص نے وہ لکڑی دریا (river)میں ڈال دی ۔وہ شخص وہاں سے واپس آگیا اور کشتی ڈھونڈتارہا تاکہ اپنے شہر کی طرف واپس جاسکے ۔دوسری طرف قرض دینے والا(lender) بھی دریا کے پاس آیا کہ شاید کوئی کشتی نظر آئے جو اس کا مال لیکر آرہی ہو ۔اتنے میں اسے دریا کے کنارے وہ لکڑی نظر آئی جس میں ایک ہزار دینار(gold coins) موجود تھے ۔اس نے آگ میں جلانے کیلئے وہ لکڑی اٹھالی ، جب اسے چیرا(split) تو اس میں ایک ہزار دینار اور پیغام والا پرچہ (letter)ملا۔کچھ دن بعد قرض لینے والا(borrower) دریا کی دوسری طرف سے آگیا اور ایک ہزار دینار لاکر کہنے لگا : اللّٰہ کی قسم ! میں مسلسل کشتی ڈھونڈتا رہا تاکہ تمہاری رقم وقت پر پہنچاؤں لیکن اس سے پہلے مجھے کشتی نہیں ملی۔قرض دینے والے(lender)نے اس سے پوچھا : کیا تم نے میری طرف کوئی چیز بھیجی تھی؟ قرض لینے والے (borrower) نے جواب دیا : میں جس کشتی پر آیا ہوں اس سے پہلے مجھے کوئی کشتی نہیں ملی جس پر میں تمہارے پاس آتا۔ قرض دینے والے(lender) نے کہا : بے شک اللّٰہ کریم نے تمہاری وہ رقم مجھے پہنچادی ہے جو تم نے لکڑی میں رکھ کر میرے پاس بھیجی تھی ، چنانچہ وہ (قرض لینے والا)شخص ایک ہزار دینار لے کر خوشی سے واپس چلا گیا۔(بخاری، کتاب الکفالۃ، ۲/ ۷۳، حدیث:۲۲۹۱،مُلخصاً)

لقطے(زمین وغیرہ پر پڑے ہوئے مال)کے دینی مسائل:

{1} پڑا ہو امال کہیں ملا اور یہ خیال ہو کہ ميں اس کے مالک کو ڈھونڈ کر دیدوں گا تو اُٹھا لینا مستحب(اور ثواب کا کام) ہے اور اگر یہ خوف(یعنی ڈر) ہوکہ شاید ميں خود ہی رکھ لوں اور مالک کو نہ ڈھونڈ سکوں تو چھوڑ دینا بہتر ہے اور اگر مضبوط خیال (strong assumption)ہو کہ مالک کو نہ دونگا تو اُٹھا نا، نا جائز ہے اور اپنےلیے ہی اُٹھانا ، یہ حرام ہے اور اس صورت(case) ميں غصب (مثلاً کسی کا مال چھینے) کی طرح ہے اور اگر مضبوط خیال ہو کہ ميں نہ اُٹھا ؤں گا تو یہ چیز ضائع (waste) ہو جائے گی تو اُٹھا لینا ضروری ہے لیکن پھر بھی اگر نہ اٹھائے اور ضائع(waste) ہو جائے تو اس پر تاوان(یعنی مالک کو اس چیز کا بدل(exchange) دینا لازم) نہیں۔

{2}”لقطہ“(یعنی زمین وغیرہ پر پڑے ہوئے مال)کو اپنے استعمال ميں لانے کے ليے اُٹھا یا پھر شرمندہ (ashamed) ہوا کہ مجھے ایسا کرنا نہیں چاہیے تھا اور جہاں سے لایا وہیں رکھ آیا تو اب اس کی ذمہ داری (responsibility)اس طرح پوری نہیں ہوگی یعنی اُس شخص کے اِس طرح رکھنے کے بعداگر وہ ضائع (waste)ہوگیا تو تاوان دینا پڑے (یعنی اب گم جانے پر مالک کو اس چیز کی رقم دے)گا بلکہ اب اس پر یہ بھی لازم ہے کہ (رقم دینے کے لیے)مالک کو ڈھونڈےاور اُس کو رقم بھی دے ۔ہاں!اگر ( وہ چیز اپنےلیے نہیں اُٹھائی تھی بلکہ) مالک کو دینے کے ليے لی تھی پھر (مالک نہ ملا تو)جہاں سے وہ چیز لی تھی وہیں واپس رکھ آیا (اور وہ چیز گم گئی)تو تاوان نہیں۔

{3}”ملتقط“(یعنی جس نے گری ہوئی چیز اُٹھائی) پرلازم ہے کہ وہ اُس چیز کی تشہیر (advertisement) کرے یعنی بازاروں اور عام راستوں، مسجدوں ميں اتنے دنوں تک اعلان کرے کہ مضبوط خیال (strong assumption) ہو جائے کہ مالک اب اس چیز کو نہیں ڈھونڈےگا۔ یہ وقت پوراہونے کے بعد اُسے اختیار (option) ہے کہ”لقطہ“(یعنی اُس ملی ہوئی چیز) کی حفاظت(safety) کرے یا کسی مسکین کو صدقے میں دے دے مسکین کو دینے کے بعد اگر مالک آگیا تو مالک کو اختیار (option) ہے کہ صدقہ کو جائز (ok) کردے، اگر جائز(ok) کر دیا ثواب پائے گا اور اگر مالک نےجائز نہ کیا تو اُس کی دو صورتیں(cases) ہیں: (۱) اگر وہ چیزموجود ہے تو وہ مالک اپنی چیز (مسکین سے واپس)لے لے اور(۲) اگر وہ چیزضائع(waste) ہوگئی ہے تو تاوان(یعنی اُس کی رقم) لے لے۔ اس صورت (case) میں یہ اختیار(option) ہے کہ تاوان ”ملتقط“(یعنی جس نے گری ہوئی چیز اُٹھائی سے) لے یا مسکین سے، جس سے بھی لے گا وہ دوسرے سے مانگ نہیں سکتا۔

{4} گری ہوئی چیز اُٹھانے والااگر شرعی فقیر ہو اور اِس شخص نے اُس چیز کا اعلان، اُس وقت تک کیا کہ جتنا اعلان کرنے کا اُسے حکم تھا، تو اُس کے بعد وہ( چیز، یہ شرعی فقیر) خود اپنے استعمال ميں بھی لا سکتا ہے اور گری ہوئی چیز اُٹھانے والا مالدار ہو تو اپنے رشتہ دار(relative) فقیر کو دے سکتا ہے مثلاًاپنے باپ، ماں، شوہر، زوجہ، بالغ (wise, grownup)اولاد (میں جو شرعی فقیر ہے، اُن)کو دے سکتا ہے۔

{5} جو چیزیں جلد خراب ہوجانے والی ہیں جیسے تر(fresh) پھل اورکھانا وغیرہ تو ان کا اعلان صرف اتنے وقت تک کرنا لازم ہے کہ خراب نہ ہوں اور خراب ہونے کا خوف(یعنی ڈر) ہو تو مسکین کو دیدے۔

{6} نکاح ميں چھوہارے(dry dates) لوٹائے(بانٹے یا پھینکے) جاتے ہیں ایک کے دامن (یعنی کرتے کے نیچے والےحصّے)ميں گرے تھے اور دوسرے نے اُٹھا ليے اس کی دوصورتیں ہیں (۱)جس کے دامن ميں گرے تھے اگر اُس نے اسی لیے دامن پھیلایا تھا کہ چھوہارے(dry dates) ملیں تو دوسرے کو لینا جائز نہیں (۲) اگر اس نے دامن نہیں پھیلایا تھا، بیٹھا ہوا(مثلاً باتیں کر رہا )تھا اور اس کے دامن میں چھوہارے گرے اور دوسرے نے اُٹھا لیے تو دوسرے کو یہ لیناجائز ہے۔

{7} شادیوں ميں روپے پیسے لٹانے کے لیے جس کو ديے وہ خود لٹائے(مثلاً پھینکے) دوسرے کو لٹانے(پھینکنے) کے لیے نہیں دے سکتا اوریہ جائز نہیں کہ جو پیسے لٹانے کے لیے ملےاِس میں سے کچھ بچا کر اپنے ليے رکھ لے یا گرےہوئے پیسے خود اُٹھا لے۔ اوراگر شکر(sugar) یاچھوہارے(dry dates) لٹانے کو ديے تو بچا کر کچھ رکھ سکتا ہے اور دوسرے کو بھی لٹانے(پھینکنے) کے ليے بھی دے سکتا ہے اور دوسرے نے لٹائے (پھینکے) تو اب وہ بھی لوٹ سکتا(یعنی لے سکتا) ہے۔

{8} مجمعوں (gatherings)یا مسجدوں ميں جوتے بدل (change ہو)جاتے ہیں ان کو(یعنی دوسرے کے جوتوں کو)استعمال کرنا جائز نہیں۔ ہاں! اگر یہ شخص کسی شرعی فقیر کو صدقہ کردے چاہے وہ فقیر اس کی اپنی اولاد ہی ہوپھر وہ (شرعی فقیر) اِس (جوتے والے) کو تحفے میں دے دے تو اب یہ شخص(ان جوتوں کو) استعمال کر سکتا ہے اگرایسا ہوا کہ کسی شخص کا اچھا جوتا کوئی اُٹھا کر لے گیا اور اپنا خراب جوتاچھوڑ گیاکہ دیکھنے سے معلوم ہو رہا ہے اُس نےجان بوجھ کر(deliberately) ایسا کیا ہے، غلطی سے نہیں ہوا ہے تو جس کا جوتا بدلی (exchange) ہوا ہے،جب یہ خراب جوتا اُٹھالے گایا اسے پہن لے گا تو یہ پرانا جوتا اُس اچھے جوتےکا عوض (بدل۔substitute)ہے(یعنی اب یہ شخص خراب جوتے کا مالک بن گیا)۔
( بہارِ شریعت ج۲،ح۱۰،ص۴۷۱،حدیث۲،مسئلہ ۱،۲،۷،۱۱،۱۶،۲۹،۳۰،۴۰، مُلخصاً)

’’تحفہ(gift) ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی ۔( ''الأدب المفرد''،للبخاري، الحدیث:۶۰۷،ص۱۶۸)

واقعہ(incident): سب گھوڑے تحفے میں دے دیے

حضرت امام شافعی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں نے(مدینے شریف میں) حضرت امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ کے دروازے پر کسی علاقے کے بہترین (best)گھوڑے بندھے ہوئے دیکھے کہ ان سے زیادہ بہترین گھوڑے میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔میں نے عرض کی:یہ کتنے بہترین گھوڑے ہیں! تو امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے فرمایا: میں یہ سب آپ کو تحفے میں دیتا ہوں ۔میں نے عرض کی :ایک گھوڑا آپ اپنے لئے رکھ لیں ۔تو فرمایا:مجھے اللہ کریم سے حیا آتی ہے کہ اُس مبارک زمین(یعنی مدینے شریف) پر اپنے گھوڑے چلاؤں کہ جس (شہر) میں اللہ کریم کے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ (اپنے مزار شریف میں)تشریف فرما ہیں ۔(احیاء العلوم ،۱ / ۱۱۴ ملخصاً)

تحفہ دینےکے دینی مسائل:

{1}”ہبہ(یعنی تحفہ)“یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے آدمی کو کسی چیز کا اس طرح مالک (owner) بنا دے کہ دوسرے شخص سے(اس چیز کے بدلے (exchange)میں( کچھ مال (wealth)یا سامان لینے کا طے (fixed) نہ کیا ہو۔ تحفہ دینے والے کو” واہب (gift-giver)“ کہتے ہیں،جس کو تحفہ دیا گیا اُسے”مو ہوب لہ (gift-taker)“ اور ”ہبہ(gift) “ اُس چیز کو بھی کہتے ہیں کہ جو تحفے میں دی گئی۔

{2} ”ہبہ(یعنی تحفہ)“دینے میں، تحفہ دینے والےکے لیے کبھی دنیا اور(شریعت کے اصولوں کے مطابق اچھی نیّت سے دینے میں) آخرت کا فائدہ ہے۔ دنیا میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جسے تحفہ دیا جائے تو وہ بھی اسے تحفہ دے دیتا ہے، محبّت کرنے لگتا ہے، اچھے انداز سے اُسے یاد کرتا(یاد رہے!تحفہ اسی نیّت (intention)سے دیا کہ دنیا کے یہ فائدے ملیں گے تو ثواب نہیں ملے گابلکہ ریا کی صورت پائی گئی تو گناہ بھی ہو گا)۔آخرت کے فائدوں میں ثواب کے ساتھ ساتھ،دین کے حکموں پر عمل کرنے میں مدد ملتی ہے، جیسا کہ امام ابو منصورما تریدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: مسلمان پر اپنی اولاد کو جُودواحسان (یعنی سخاوت (generosity) اور بھلائی (goodness)) کی تعلیم دینا اُسی طرح واجب ہے جس طرح توحید(یعنی اللہ کریم کو ایک ماننے)ا ورایمان کی تعلیم دینا واجب ہے کیونکہ جود(generosity)اور احسان(favour) سے دُنیا کی محبت دور ہوتی ہے اور دُنیا کی محبت ہی ہر گناہ کی جڑ (root)ہے تحفہ قبول (accept)کرنا سنّت ہے اور تحفہ دینے سے آپس میں محبت زیادہ ہوتی ہے۔(''الدرالمختار''،کتاب الھبۃ،ج۸،ص۵۶۸)

{3}”ہبہ(یعنی تحفہ)“ صحیح ہونے کی کچھ شرطیں(preconditions) ہیں :

(۱) ”واہب یعنی تحفہ دینے والے(gift-giver)“ کاعاقل(یعنی پاگل وغیرہ نہ) ہونا( ۲)بالغ (wise, grownup)ہونا کہ نابالغ کا تحفہ دینا صحیح نہیں (۳) مالک(owner) ہونا (یعنی جس چیز کا ابھی مالک نہیں (کہ وہ چیز بعد میں اس کے پاس آئے گی، اُسے ابھی تحفے میں نہیں دے سکتا ) ( ۴)جو چیز تحفے میں دی جائے وہ موجود بھی ہو اور( ۵) قبضے (possession)میں بھی ہو( ۶)مُشاع (یعنی وہ چیز جو ایک سے زیادہ لوگوں میں مشترک (common) ) نہ ہو ( ۷) مُتَمَیَّز(یعنی الگ اور نمایاں ) ہو (۸)(کسی اور کے کام میں)مشغول(یعنی استعمال میں) نہ ہو۔

{4} وہ چیز جو موجودنہیں، وہ تحفے میں نہیں دی جاسکتی، مثلاًکہا ان گیہوں(یعنی گندم۔wheat)کا آٹا تحفے میں دیا یا اس دودھ کا گھی تحفے میں دیا، تو یہ چیز اُس کی نہیں ہوئی کہ جسے تحفے میں دینے کا کہا گیا۔ اس کے بعد واقعی (really) گندم کا آٹا بنا لیا یا دودھ سے (ملائی پھر)گھی بنایا تو اب بھی وہ شخص ان چیزوں کا مالک (owner) نہیں ہوگا جس کے لیے یہ کہا گیا تھا کہ یہ چیزیں آپ کو تحفے میں دیں۔ہاں!جب یہ چیزیں بن گئیں تو اب ان چیزوں کو نئے سرے سے(یعنی اب) تحفے میں دے سکتا ہے۔

{5}”ہبہ(یعنی تحفہ)“ کے ارکان:(ا،۲) ایجاب وقبول ہیں(یعنی ایک شخص دوسرے کو تحفے میں دےاور دوسرا آدمی اِس بات پر راضی(agree )ہو جائے) ”ہبہ(یعنی تحفے)“ کا حکم یہ ہے کہ تحفے میں دینے سے وہ چیز ”موہوب لہ(یعنی جس کو تحفہ دیا گیا(gift-taker)، اُس )“ کی مِلک ہوجاتی ہے ایسا نہیں ہے کہ جسے تحفے میں دیا گیا، وہ کہے کہ: میں تین دن سوچوں گا(I will think about it for three days) پھر بتاؤں گا کہ میں نے اس چیز کو تحفے میں لے لیا! جسے تحفے میں دیا گیا،اُس نے تحفہ دینے والے کے الگ ہونے سے پہلے، اگر ہبہ کو صحیح(ok) کر دیا تو وہ چیز اُس کی ہوگئی ورنہ یہ تحفہ دینے والے ہی کی چیز ہے جس نے تحفہ دینے کا ارادہ (intention) کیا، اُس نے چیز دے دی اور کہہ دیا کہ میں تین دن تک سوچ کر بتاؤں گا کہ : میں تمھیں یہ چیز دوں گا بھی یا نہیں، تو وہ چیزابھی تحفہ ہوگئی کیونکہ تحفہ ایک ایسا عقد(contract) ہے کہ جس میں اس طرح کی شرطیں(preconditions) نہیں رکھی جاسکتیں۔

{6} ”ہبہ(یعنی تحفے)“ کا قبول(accept) کرنا کبھی الفاظ سے ہوتا ہے اور کبھی فعل سے (یعنی کوئی ایسا کام کرنا جس سے معلوم ہو کہ تحفہ لے لیا) مثلاً ایک نے کہا میں نے یہ چیز تمھیں تحفے میں دی ، دوسرے نے کہا کہ : میں نے لے لی یا دوسرےنے کچھ کہے بغیر وہ چیز لے لی تو یہ ہبہ قبول(accept) ہوگیا۔

{7}”ہبہ(یعنی تحفہ)“ کے بہت سے الفاظ ہیں: میں نے تجھے ہبہ کیایہ چیز تمھیں کھانے کو دی یہ چیز میں نے فلاں کے لیے یا ،تیرے لیے کردی میں نے یہ چیز تیرے نام کردیمیں نے اس چیزکا تجھے مالک کردیا زندگی بھر کے لیے یہ چیز دیدی (میں نے تجھے)اس گھوڑے پر سوار کردیایہ کپڑا پہننے کو دیا میرا یہ مکان تمھارے لیے عمر بھر رہنے کوہے یہ درخت میں نے اپنے بیٹے کے نام لگایا ہےاگر قرینہ ہو(یعنی ایسی بات کہ جس سے تحفہ دینے کا پتا چل جائے)تو وہ بھی ہبہ (یعنی تحفہ دینا)ہے ورنہ وہ تحفہ نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کا مالک (owner)بنانا کاروباروغیرہ میں بھی ہوتا ہے۔

{8}”ہبہ(یعنی تحفے)“ کا اصول(principle) یہ ہے کہ اگر لفظ ایسا بولا جس سے مالک(owner) بنانا سمجھا جاتا ہو تو ہبہ(یعنی تحفہ) ہے اور اگر لفظ ایسا بولا جس سے کسی چیز سے صرف فائدہ اُٹھانا سمجھا جاتا ہے تو

عاریت(ادھار)“ ہے اور اگر لفظ ایسا بولا کہ جس سے دونوں باتیں ہو سکتی ہیں تو نیّت (intention) دیکھی جائے گی۔ (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۴،ص ۶۵،حدیث۲ ،مسئلہ۱،۲،۳،۶،۷،۱۰،۲۶،۵۱)

’’تحفہ واپس لینا ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

اپنا تحفہ واپس لینے والا اُس کتّے (dog)کی طرح ہے کہ جو اپنی قے (vomit)چاٹتا ہے۔
( مسلم،کتاب الھبات، ص ، ۸۷۷،حدیث: ۱۶۲۲)

واقعہ(incident): تحفہ واپس لے لیا

حضرت بشیر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک غلام دیا(پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )، تو ان کی زوجہ(wife) حضرت عَمَرة رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے فرمایا کہ میں اس پر راضی(agree) نہیں جب تک کہ آپ اس بات پر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو گواہ (witness) بنالیں۔جب وہ اس بات کے لئے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس آئے تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پوچھا: کیا تم نے اپنے سارے بَچّوں کو اسی طرح دیا ہے؟ عرض کی: نہیں۔ توفرمایا: اﷲ کریم سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف(justice) کرو۔ایک جگہ یہ الفاظ ہیں کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:میں ظلم (cruelty)پر گواہ نہیں ہوتا۔اس پر حضرت بشیر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنا تحفہ واپس لے لیا(یا تحفہ دینے کی نیّت(intention) ختم کردی) ۔(مشکوٰۃ،کتاب البیوع،باب: ۱۷،۱/۵۵۶،حدیث:۳۰۱۹)

اس حدیث کی وجہ سے عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ باپ اپنی زندگی میں بیٹا بیٹی یعنی ساری اولاد میں برابری کرے، بیٹے کے لیے دوگنا (double)حصّہ (والد کی ) وفات کے بعدہے(اگر زندگی میں بھی بیٹے کو بیٹی سےدوگنا (double)حصّہ دیا تو دے سکتا ہے(مراۃ ج ۴،ص۶۱۵، سوفٹ ائیر،مُلخصاً))، یہاں تک کہ پیار محبّت بلکہ(چھوٹے بَچّوں کو) چومنے (kiss)میں بھی برابری کرے۔یاد رہے کہ نیک اور پرہیزگار بیٹے کو فاسق بیٹے سے زیادہ دینا یا غریب معذور(disabled)اولاد کو دوسری امیر اولاد سے کچھ زیادہ دینا بالکل جائزہے۔( مراٰۃ المناجیح، ۴/۳۵۴، مُلخصاً)

تحفہ واپس کرنے کے دینی مسائل:

{1} کسی کو چیز دے کر واپس لینا بہت بُری بات ہے( بعض صورتوں(cases) میں چیز واپس لے لے تو تحفہ واپس ہو جائے گا یعنی تحفہ دینے والا دوبارہ (again) اس چیز کا مالک ہو جائے گا مگر واپسی کی ہر صورت میں گناہگار ہوگا(فتاوی رضویہ ج۱۹،ص۱۹۹،ماخوذاً))لہٰذا مسلمان کو اس سے بچنا ہی چاہیے مگر شرعی اور دینی مسئلہ یہی ہے کہ”ہبہ(یعنی تحفہ)“ واپس لینے کی صورتیں(cases) بنتی ہیں،تحفہ دے کر واپس لینے کو” رُجُوع“ کہتے ہیں ” رُجُوع“ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ” رُجُوع“ کے الفاظ بولے جائیں مثلاً(میں نے)رجوع کیا ، واپس لیا، ہبہ کو توڑدیا، باطل کردیا(وغیرہ)۔

{2}” رُجُوع(یعنی دیا ہوا تحفہ واپس لینے)“میں اگر الفاظ نہیں بولے بلکہ اُس چیز کو بیچ دیا یا اپنے سامان میں ملا دیایا کپڑا تھا، اُسے رنگ دیا تو یہ” رُجُوع“ نہیں بلکہ یہ بیکار اور فضول کام ہے۔

{3} اگر ”مَو ہُوب لَہٗ (یعنی جسے تحفہ دیا جائے)“کو ابھی تک” تحفے“ والی چیز دی ہی نہ تھی تو اب تک ”ہبہ “ مکمل ہی نہیں ہوا لھذا”واہب(یعنی تحفہ دینے والا۔gift-giver)“ چاہے تو” رُجُوع“ کرلے(یعنی ”ہبہ “کو ختم کر کے اپنی چیز واپس لے لے) بلکہ اس صورت(case) میں واپس لینا،” رُجُوع“ ہی نہیں کیونکہ ” رُجُوع“ تو اس وقت کہتے کہ جب چیز دے دی گئی تھی،یہاں تو چیز دینے سے پہلے واپس لے لی یعنی اصل میں یہ تحفہ دینے کا ارادہ (intention) کیا تھا اور بعد میں وہ ارادہ ختم ہو گیا۔

{4}” واہب(یعنی تحفہ دینے والے۔ gift-giver) “کو ” مَو ہُوب لَہٗ (یعنی جسے تحفہ دیا جائے)“ سے ”ہبہ(یعنی تحفے)“ کو خریدنا نہیں چاہیے کہ یہ بھی” رُجُوع(یعنی دیا ہوا تحفہ واپس لینے)کی طرح ہے کیونکہ ” مَو ہُوب لَہٗ “ یہ سوچے گاکہ یہ چیز” واہب(gift-giver) “ہی کی دی ہوئی ہے تو وہ پوری قیمت لینے سے شرمائے گا (feel hasitated)۔ہاں! اگر باپ نے بیٹے کو کوئی چیز دی ہے پھر بیٹے سے خریدنا چاہتا ہے تو خریدسکتا ہے کہ باپ اپنے بیٹے سے شفقت اور محبّت کی وجہ سے پوری رقم(amount) میں خریدے گا۔

{5} صدقہ دیکر واپس لینا جائز نہیں لہٰذا جس کو صدقہ دیا تھا اُس نے” عَارِیَت(ادھار) “ یا ”وَدِیْعَت(مثلاً امانت) “ سمجھ کر کچھ دنوں کے بعد واپس دیا تو (دینے والے کا)اس (چیز)کو(واپس)لینا بھی جائز نہیں اور لے لیا ہوتو (جسے دیا تھا، اُسے)واپس کردے۔

{6}سات(7) صورتیں(cases) ایسی ہیں کہ اُن میں ”ہبہ “ واپس نہیں لیا جاسکتا :(۱)زیادت متصلہ (یعنی ایسا اضافہ جو اُس تحفے ہی میں کر دیا جائے اور ختم نہ کیا جاسکے) (۲)موت یعنی (تحفہ دینے والے یا تحفہ لینے والے) دونوں میں سے کسی کا انتقال کرجانا(۳) تحفے کے بدلے کوئی چیز لے لینا(۴) تحفے کا تحفہ لینے والے کی ملک (property) سے نکل جائے(۵) زوجیت(یعنی تحفہ میاں یا بیوی کو دیا ہو)(۶)قرابت(یعنی کچھ قریبی رشتہ داری)(۷) ہلاک(یعنی تحفہ ضائع(waste) یا استعمال ہو جائے)۔ نوٹ:اوپر بتائی ہوئی سات (7)صورتیں(cases) میں اگر تحفہ لینے والے اور تحفہ دینے والے دونوں تحفے کی واپسی پر راضی (agree) ہو جائیں توتحفہ واپس لیا جاسکتا ہے۔

{7} خالی زمین تحفے میں دی اور تحفہ لینے والے نے اس میں گھر بنالیا یا اس میں درخت لگا لیا تو اب یہ ایسا اضافہ (additions) ہے کہ تحفہ دینے والا، اپنا دیا ہوا تحفہ واپس نہیں لے سکتابنا ہوا گھر تحفے میں دیا اور تحفہ لینے والے نے اُس میں نئی تعمیر (new construction) کروادی تو اب بھی تحفہ واپس نہیں لے سکتا، اسی طرح پانی نکالنے کاچرخا لگا دیا (یعنی کنویں سے پانی کھینچنے کی ہاتھ مشین وغیرہ لگائی)تب بھی تحفہ واپس نہیں لے سکتا ۔

{8} جو چیز تحفے میں دی تھی ، وہ بدل گئی تو اب بھی اُس تحفے کو واپس نہیں لے سکتامثلاًگیہوں(wheat) کو پسوا (grind کروا)کر آٹا بنا لیا یا آٹا تھا اس کی روٹی پکالی یادودھ تھا اُ سکوپنیر(cheese) یا گھی بنالیا تو اب یہ واپس نہیں ہوسکتا۔

{9} تحفے میں شہتیر(ایسی لکڑیاں جو عام طور پر چھت میں استعمال ہوتی ہیں )دی تھیں، تحفہ لینے والےنے چیر پھاڑ کر(rip) لکڑی کاایندھن (fuel۔کہ جو فوراً آگ پکڑ لے) بنالیا یا تحفے میں کچی اینٹیں (raw bricks) دی تھیں، انہیں توڑ کر مٹی بنا لیا تو اب بھی تحفہ دینے والے کو اختیار(authority) ہے کہ تحفہ واپس لےسکتا ہے اور اسی مٹی کی پھر اینٹیں بنالیں تو اب تحفہ واپس نہیں لے سکتا۔

{10} ایک نے تحفہ دے دیا، دوسرے نے لے لیا پھردونوں میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو اب تحفہ واپس نہیں ہوسکتا کیونکہ تحفہ لینے والے کا انتقال ہواتو اب وہ وارثوں (مخصوص قریبی رشتہ داروں ۔specific close relatives) کا مال (wealth)ہے اور اگر تحفہ دینے والے کا انتقال ہوا تو اس کے وارثوں کا اس چیز سے کوئی تعلق (relationship) ہی نہیں۔

{11}جسے تحفہ ملا، اُ س نے تحفہ دینے والے کو کچھ دیا اور یہ معلوم ہو کہ تحفے کے بدلے میں دیا(مثلاً تحفہ لینے والے نے، تحفہ دینے والے کو اپنی طرف سے کوئی اور تحفہ دیا اور کہا کہ: آپ نے تحفہ دیا تھا، یہ میری طرف سے بھی لے لیں ) تو اب پہلا تحفہ دینے والا، اپنا تحفہ واپس نہیں لے سکتا۔ہاں!اگر تحفے کے فوراً بعد تحفہ(gift) دیا مگر لفظوں میں اس طرح کی کوئی بات نہ کہی کہ:اپنےتحفے کے بدلے میں یہ تحفہ لے لیں تو اب پہلا تحفہ دینے والا، اپنا تحفہ واپس لے سکتا۔

{12}قرابت رشتہ کہ جنہیں دیا ہوا تحفہ واپس نہیں لے سکتے، اُن سے مراد ذی رحم مَحرم ہیں(( ذی رحم یعنی وہ لوگ جن کا رشتہ والدىن کے ذرىعے ہو( تفسىر نعىمى ،ج۱،ص۴۴۷،ملخصاً))اور محرمیعنی ایسےقریبی رشتے دار کہ اگر ان میں سے کسی کو بھی مرد اور دوسرے کو عورت فرض کیا جائے تو نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو (ہاتھوں ہاتھ پھوپھی سے صلح کر لی ،ص۱۷)) مثلاً باپ ،دادا، ما ں، دادی ، پڑ دادا(great grandfather)، پڑدادی (great grandmother)یعنی آدمی اپنے اوپر کے جن رشتہ دار وں کی اولاد ہو اسی طرح نیچے کے جو رشتہ دار، اس کی اولاد سے ہوں مثلاً بیٹا،بیٹی ،پوتا،پوتی، نواسہ(grandson)، نواسی (granddaughter)وغیرہ ،مزیدوالد کی اولاد(بھائی، بہن) اور دادا کی اولاد(چچا، پھوپھی) بھی ذی رحم محرم ہیں۔

{13} تحفےمیں جو چیز دی گئی تھی، وہ ہلاک (یعنی ضائع(waste) یا استعمال )ہوگئی، تو اب وہ واپس نہیں لی جاسکتی کہ جب وہ چیز ہی باقی نہیں رہی تو واپس کیا لیں گے؟

{14}روپیہ تحفے میں دیا پھر تحفہ دینے والے نے وہی روپیہ قرض (loan)لے لیا تواب اس روپےکو کسی طرح بھی واپس نہیں لےسکتا اور اگر تحفہ لینے والے نے وہ روپیہ صدقہ کر نے کے لیے فقیر کی طرف بڑھایا مگر فقیر نے ابھی لیا نہیں تھا، تو اب بھی تحفہ دینے والا، وہ روپیہ واپس لے سکتا ہے۔
(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۴،ص ۸۳، اورمسئلہ ۱،۵،۷،۸،۹،۱۱،۲۳،۲۵،۴۰،۴۴ ۔اورص۹۴ کے نمبر۶ اور ۷)(ص۹۷،مسئلہ۵۸)

’’تحفہ یا رشوت ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

اَلرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ فِی النَّارِ یعنی رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنَّمی ہیں۔
(اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج۱ ص۵۵۰ حدیث۲۰۲۶)

واقعہ(incident): سبزی یا روٹی و نمک

خلیفہ راشد( یعنی خلافت(caliphate) کی سب شرطیں(preconditions) رکھنے والے ایسے خلیفہ(caliph) جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں (responsibilities) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعلیمات (teachings)کے مطابق پوری کیں)، مسلمانوں کے سچے حاکم (ruler) ،حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سبزی سے سحری اور افطاری کرتے اور اکثر اوقات (most of the time) روٹی کو نمک سے ملا کر کھانا کھا لیتے۔ ایک مرتبہ کسی نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ایک پلیٹ میں سیب اور مختلف پھل ،تحفے میں دیے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس میں سے کچھ نہ کھا یا اور وہ پلیٹ واپس کردی تو کسی نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے عرض کی : کیا پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تحفہ نہیں لیتے تھے؟ تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: کیوں نہیں!لیکن حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرف بھیجا ہوا ہدیہ، تحفہ ہی تھا لیکن ہمارے لیےاور ہمارے بعد والوں کے لئے رشوت ہے۔(حلیۃ الاولیاء،عمر بن عبد العزیز، الحدیث۷۲۷۷، ج۵، ص۳۲۷)

تحفہ یا رشوت، کچھ دینی مسائل:

{1} حُکومَتی افسران(government officers)،اسی طرح مختلف قسم کے عُہدے داران(officials) کو ملنے والے تحفوں یا ان کی ہونے والی دعوتوں میں رشوت کی صورتیں بھی پائی جاتی ہیں۔

{2}دعوتوں کی دو(2) قسمیں:(۱)خصوصی دعوت(۲)عمومی دعوت (۱)خُصوصی دعوت : یعنی وہ دعوت جوکسی خاص فرد(special person) کیلئے رکھی جائے کہ اگر وہ آنے سے منع کر دے تو وہ دعوت ہی نہ ہو(جیسے شادی کے بعد دولھا، دولہن کی مختلف گھروں میں رکھی جانے والی دعوت)۔
(۲)عُمومی دعوت : یعنی وہ دعوت جو کسی خاص فرد(special person) کیلئے نہ ہو کہ فُلاں نہ آتا ہو تو وہ دعوت ہی نہ رکّھی جا تی(جیسے شادی میں سب لوگوں کو بلانا،یا کچھ گھروں میں ہونے والی ماہانہ گیارہویں شریف) ۔

{3} یہ بات ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ حُکومَتی افسران(government officers)،جج صاحِبان (judges) یہاں تک کہ پولیس وغیرہ کو لوگ تُحفے کیوں دیتے ہیں؟ اور ان کی خصوصی دعوتیں کیوں کرتے ہیں ؟یا تو ''کام'' نکلوانا ہوتا ہے یا یہ ذِہن ہوتا ہے کہ آئِندہ (next time)کسی کام میں آسانی رہے گی ۔ ان دونوں باتوں کی وجہ سے ایسے لوگوں کو تُحفہ دینا اور ان کی خُصُوصی دعوت کرنا رِشوت کے حکم میں ہے اور رِشوت دینے اور لینے والا جہنَّم کا مُستَحِق (حقدار۔ deserving) ہے ایسے تحفوں پر عیدی، مٹھائی، چائے پانی یا خوشی سے پیش کر رہا ہوں،مَحَبَّت میں دے رہا ہوں وغیرہ خوبصورت جملے کہنا، رِشوت کے گناہ سے نہیں بچا سکتے ۔

{4}جسے مسلمانوں پر عُہدہ (position)دے دیا گیا ہوجیسے قاضی(Judge) یا والی (governor)تواب اسے تُحفے لینے سے بچنا ضَروری ہے خُصُوصاً اُسے جسے پہلے تُحفے نہ ملتے تھے کیونکہ اس کے لیے اب یہ تُحفے رِشوت و ناپاکی کی قِسْم سے ہے ۔(اَلْبِنَایَۃ شَرحُ الْھِدَایَۃ ج۸ ص ۲۴۴ )

{5} اگر کسی دینے والے نے واقِعی اخلاص(اور محبّت) کے ساتھ تحفہ دیا ہو (اور اس کے ذہن میں اس قسم کی کوئی بات ہی نہیں کہ مجھے اس عُہدے دار(official) سے اپنا کوئی کام کروانا ہے یا کل وہ کوئی کام کر سکے گا) یعنی رشوت کی کوئی صورت نہ بنتی ہوتب بھی ایسوں کا اپنے ماتَحتوں(subordinates ۔مثلاً اس کے نیچے کام کرنے والوں) سے تُحفہ لینا یا خُصُوصی دعوت (کہ جو بغیر اُس خاص شخص کے نہ ہو) میں جانا” مَظِنَّہ تُہمت“ یعنی ایسا کام کرنا ہے جس کی وجہ سے کام کرنے (مثلاً تحفہ لینے یا خاص دعوت کھانے) والے پر (رشوت وغیرہ کا) الزام لگتا ہولھذا اچھی نیّت سے ملنے والے تحفے یا خصوصی دعوت سے سے بچنا واجِب اور لازم ہے، اس طرح کا تحفہ لینا، دینا بھی ناجائز ہے۔ پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جو اللہ کریم اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ تہمت(slander) کی جگہ کھڑا نہ ہو ۔( کشف الخفاء ۲ص۲۲۷حدیث۲۴۹۹)

{6} ہاں! اگر عُہدہ (position)ملنے سے پہلے بھی کچھ لوگوں سے (دوستی وغیرہ کی وجہ سے) تحفہ لینے دینے اور آپس میں خُصُوصی دعوت کا سلسلہ تھا تو عُہدہ ملنے کے بعداب بھی یہ سلسلہ باقی رکھ سکتے ہیںاس صورت (case) میں بھی یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر عُہدہ ملنے کے بعد تحفے زیادہ کر دیے تو تحفے جتنے زیادہ کیے، وہ زیادہ تحفے لیناجائز نہیں ہے اسی طرح پہلے خصوصی دعوتیں کم تھیں اور اب جلدی جلدی ہونے لگیں تب بھی (زیادہ دعوتیں) ناجائز ہے اگر تحفے اس لیے زیادہ ہوگئے کہ تحفہ دینے والا پہلے سے زیادہ امیرہو گیا ہے اور امیر ہونے کی وجہ سے، اُس نے تحفے زیادہ کر دیے(اور اُسے کسی قسم کا کوئی کام نہیں )تو اب زیادہ تحفے بھی لے سکتا ہے۔

{7} اگر تحفہ دینے والا ”ذَوِی الْاَر حام “ یعنی خونی رِشتے والوں میں سے ہے تو (تحفے وغیرہ )دینے لینے میں حرج نہیں (والِدَین ، بھائی ، بہن، نانا، نانی، دادا، دادی، بیٹا، بیٹی، چچا،ماموں، خالہ، پھوپھی، وغيرہ مَحرم رشتے دار ہیں) مَثَلاً بیٹا یا بھتیجاجج ہے اس کو والِد یا چچا نے تُحفہ دیا یا خُصُوصی دعوت دی تو قَبول کرنا ، جائز ہے(جبکہ اس سے کسی قسم کا کوئی کام نہ ہو) اگر والد کا مقدّمہ(trial) جج بیٹے (judge son)کے پاس آیا ہوا ہے تو اب ” مَظِنَّہ تُہمت“ (یعنی رشوت وغیرہ کا الزام لگنے)کی وجہ سے(یہ خصوصی دعوت بھی) جائز نہیں ہے۔

{8} تحفوں کو لینے دینے کے یہ مسائل صرف حُکُومَتی عُہدے داروں (government officers) ہی کے لئےنہیں بلکہ ہراُس شخْص کے لئے بھی ہے جواپنے عُہدے(position) یا دبدبے(رعب۔ awe ) کی وجہ سے لوگوں کو فائدہ یا نُقْصان دینے کی طاقت رکھتاہوچاہے کوئی مذہبی تنظیم یا ادارہ وغیرہ ہو، اُس میں بھی اس طرح کے مسائل رہیں گے جیسا کہ حضرتِ علامہ شامی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :عُہدہ داروں(official) میں ہر وہ شخْص شامِل ہے جو کسی ایسے کام کاذمہ دار(responsible) ہو جو مُسلمانوں سے تَعَلُّق رکھتا ہو۔ (رَدُّالْمُحْتَار ج۸ ص ۵۰، مُلخصاً)

{9} اگر ماتَحت (subordinate ۔مثلاً اس کے نیچے کام کرنے والے)نے عُہدیدار (official)کو خُصُوصی دعوت دی اور گیارہویں شریف کی نیّت (intention)کر لی تو اب بھی نا جائز ہے کیوں کہ یہ طے (fixed)ہے کہ عُہدیدار آئے گا تو ہی گیارہویں شریف کی نیاز ہے ورنہ نہیں(اور یہی وہ دعوت ہے کہ جس کی اجازت نہیں) ۔ ہاں! اگر نیاز رکھی (مثلاً گیارہویں شریف کی ماہانہ محفل یا لنگر کیا) اور اُس میں عُہدیدار (official) کو بھی دعوت دی ہے اور یہ معلوم ہے کہ اب کوئی آئے یا نہ آئے نیاز تو ہونی ہے تو یہ”عُمومی دعوت “ ہےاور اس دعوت میں سب کو بلا سکتے ہیں ا گر ”عُمومی دعوت “ میں عُہدیدار(official) کو دوسروں سے اچھا کھانا دیا تو اس طرح کرنا بھی جائز نہیں مَثَلاً عام مہمانوں کو تندوری روٹی اور گائے کا سالن دیا جائے مگر عُہدیدار (official)کو شِیر مال اور بکرے کا قورمہ (یعنی مہنگا اور اچھا کھانا) دیا گیا تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

{10}استاد اپنے شاگِردوں سے شرعی اجازت کے بغیر تحفہ نہیں لے سکتا، انہیں شاگردوں سے تحفے لینے میں بہت اِحتِیاط(caution) کی ضَرُورت ہے(be very careful) کیونکہ استاد صاحب بھی بعض مُسلمانوں(مَثَلاً طَلَباء)کے کاموں پر مُقرّر(fixed)ہوتے ہیں ہاں! تعلیم پوری ہونےکے بعد اگر شاگِرد تحفہ دے تو لے سکتے ہیں، اسی طرح اب شاگرد کی طرف سے ہونے والی خُصُوصی د عوت میں بھی جا سکتے ہیں وہ عُلَمائے کِرام اور پیر صاحبان کہ لوگ جن کےعلم اور دینی مقام کی وجہ سے انہیں تحفے وغیرہ دیتے ہیں تو اُن کا لینا بالکل جائز ہے کیونکہ ان تحفوں اور خصوصی دعوتوں کی وجہ سےان حضرات پر رشوت کے الزام (blame) کا خیال بھی نہیں ہوتا۔

{11} عُہدیدار (official)اپنے ماتَحت (subordinate ۔مثلاً اس کے نیچے کام کرنے والے)سے نہ قرض (loan) لے سکتا ہے، نہ عُرف وعادت(یعنی معمول۔general routine ) سے ہٹ کر کوئی چیز خرید(buy) یا بیچ (sellکر) سکتا ہے، نہ ہی عارِضی طور پر(temporarily) استِعمال کیلئے چیزیں لے سکتا ہے ماتحت خود کہے تب بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ حضرتِ عَلَّامہ شامِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: عُہدہ دار(official) کو جس جس کا تحفہ لیناحرام ہے، اُس سے قَرْض(loan) اور کوئی چیز عَارِیۃً (یعنی کچھ وقت کیلئے ، استعمال کرنے کو ) لینابھی حرام ہے۔ (ردُّ المحتار علی الدُّرُّالمختارج۸ص۴۸)

{12} عہدیدار کو اگر کسی ماتحت (subordinate ۔مثلاً اس کے نیچے کام کرنے والے)نے مدینے شریف کی کھجوریں یا آبِ زم زم شریف دیا تو لے سکتا ہےکہ اِس میں رشوت کا الزام (blame) نہیں لگتااسی طرح وہ دینی کتابیں جوعام طور پر تقسیم کی جاتی ہیں نعلِ پاک کے کارڈزبہت ہی کم قیمت(very low price) تسبیح یا سستا قلم (cheap pen)وغیرہ لے سکتا ہے کہ یہ اِس طرح کے تحفے نہیں ہیں جنہیں لینے سے رشوت کا الزام لگتا ہو نیز حج یا سفرِ مدینہ یا شادی یا بچّہ کی ولادت کے بعد تحفے وغیرہ دیے جاتے ہیں، ایسے تحفے عہدیدار (official)بھی اپنے ماتحتوں (subordinates )سے لے سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ ان سب صورتوں (cases)میں اگر عُرف (یعنی معمول۔general routine )سے زیادہ کا تحفہ دیا تو نہیں لے سکتا مَثَلاً 100روپے دینے کا عُرف ہے اور 500 یا 1200روپے کا تحفہ دے دیا یا زیادہ نوٹوں کاہار(garland of money) پہنایا تو اب یہ ایسی صورت ہے جس میں رشوت کا الزام لگ سکتا ہے، لھذا ایسے تحفے وغیرہ لینا جائز نہیں۔

{13} افسر سے اُس کا ماتَحت (subordinate)تُحفہ قَبول کرسکتا ہے۔(آداب طعام، ص۵۴۱ تا ۵۵۴بالتغیر)

{14}عاشِق ومَعشُوق (lover and beloved)آپَس ميں ايک دوسرے کوجو تحفے(gifts) ديتے ہيں وہ رشوت ہے، ان کا واپَس کرنا واجِب اور لازم ہے بلکہ جسے وہ تحفہ ملا، وہ شخص تحفے کا مالک بھی نہیں ہوگا۔ ( اَلْبَحْرُ الرَّائِق ج۶ ص ۴۴۱ ، مُلخصاً)

{15} شہوت(یعنی جنسی خواہش۔sexual desire)کی وجہ سے اَمْرَد(مثلاً دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکے کہ جن کی داڑھی نہ آئ ہو) کو تحفہ دینا یا اُس کی دعوت کرنا بھی حرام اور جہنَّم میں لیجانے والا کام ہے۔(پردے کے بارے میں سوال و جواب ص۳۳۰) حدیثِ پاک میں ہے کہ :تحفہ حکیم( یعنی عقلمند ۔wise) کواندھا کر دیتا ہے۔ (الْفِرْدَوْس بمأثورالْخَطّاب ج۴ص۳۳۵حدیث۶۹۶۹)ایسے لڑکوں کو اکیلےمیں (alone) اپنے پاس بُلانا بھی نہیں چاہیے۔

{16} رشوت کے مال کا حکم بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: جو مال رشوت یا تَغَنّی(یعنی گانے یا اشعار پڑھ کر) یا چوری سے حاصل کیا اس پر فرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن سب کو واپس کر ے ،اُن کا انتقال ہوگیا ہو تو ان کے وارِثین (یعنی وہ لوگ کہ جو مرنے والے کے بعد، اُس کے مال کے مالک(owner)بن جاتے ہیں) کو دے ، وارثین کا پتا نہ چلے تو فقیروں پر خیرات کرے ، خرید و فروخت (buying and selling) کسی کام میں اس مال کا لگانا یقیناًحرام ہے جو طریقہ ابھی بتایا گیا، اس کے علاوہ(other) کوئی اور صورت نہیں کہ جس سے اس حرام مال سے بندے کی جان چھوٹ جائے سود اور اس طرح کے حرام پیسوں کا حکم بھی یِہی ہے مگر صرف اس بات کا فرق ہے کہ سود جس سے لیا ، اُسی کوواپَس کرنا فرض نہیں بلکہ سود لینے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو جس سے لیا ہے،اسے واپَس کردے یا چاہے تو کسی (شرعی فقیر) کو خیرات کر دے (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۵۵۱، مُلخصاً) ۔ اعلیٰ حضرت ،اِمامِ اَہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک اور جگہ مزید کچھ یوں فرماتے ہیں: اگرناچنے گانے والی کو پیسے اس لیے دیے تاکہ محبَّت بڑھے اور وہ پیسہ دینے والے کے قریب(کرنے کے لیے) ہو تو بیشک یہ پیسے رشوت ہیں (یعنی دینے والا اور لینے والی دونوں گناہ گار ہیں )۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۵۰۹، مُلخصاً)

{17}بھیڑ بکریوں(sheep and goats) کے چرواہے (shepherd)کو اس لیے کچھ دے دینا کہ وہ جانوروں کو رات میں اس کے کھیت (field)میں رکھے گا تاکہ جانوروں(کے اضافی(extra) پودے وغیرہ کھانے) کی وجہ سےکھیت اچھا ہوجائے، یہ ناجائز و رشوت ہے چاہے یہ جانور چرواہے ہی کے ہوں(تب بھی ناجائز ہے) اور اگر یہ طے (fixed)کیا کہ اُجرت (wages) میں کچھ نہیں دیا جائے گا پھر بھی ناجائز ہی ہے کیونکہ اس پر عرفاً(یعنی عام طور پر) پیسے دیےہی جاتے ہیں، تو اب چاہے یہ طے کر لیا ہے کہ کچھ نہیں دیا جائے گا تب بھی ناجائز ہونے ہی کا حکم ہے اگراس کام کی ضرورت ہے تو کھیت(field) کا مالک(owner)ایسا کرے کہ جانوروں کے مالک سے اُس کے جانوروں کو عاریت میں لے لے ( یعنی مالک کی اجازت سے، اسکی چیز سے فائدہ (benefit) اُٹھانے کے لیے لےمگر اس فائدے کے بدلے (exchange) میں کچھ(مثلاً کرایہ وغیرہ ) نہ دے) اور اُن جانوروں کو رات، کھیت میں رکھے ۔ اب اگر کھیت والا (farmer) چاہے تو احسان (favor)کے طور پر مالک کو کچھ پیسے وغیرہ دے دے(مگر یہ رقم دینا، پہلے سے طے نہ ہو) تو یہ ناجائز نہیں اور اگر عاریت(یعنی اُدھار) پر لیا لیکن چرواہا (shepherd) اب بھی (پیسے وغیرہ)مانگتا ہے اور جب تک اسے کچھ نہ دیا جائے توراضی(agreed) نہیں ہوتا، تو یہ بھی نا جائز اور رشوت ہے۔

{18} اگرجان، مال ،عزّت کے نقصان (مثلاً کمی وغیرہ) کا خوف (یعنی ڈر)ہو تو ان (یعنی جان یا مال یاعزّت )کے بچانے کے لیے رشوت دینا یا کسی کی طرف اپنا (ثابت شدہ)حق (proven right)ہے(مثلاً افسر کی ذمہ داری (responsibility)بنتی ہے کہ وہ دستخظ (signature) کرے) مگررشوت کے بغیر(اپنا حق) نہیں ملتا تو اپنے جائز کام، جائز حق کے لیے،اس صورت (case) میں رشوت دینا جائز ہے یعنی دینے والا گنہگار نہیں مگر لینے والا ضرور گنہگار ہے اس کو لینا جائز نہیں (مگر یہ بات اچھی طرح غور کر لے لی جائے کہ صرف لائن کے دھکّوں سے بچنے یا اپنی جان چھڑانے یا کسی قسم کا پروسس (some kind of process)پورا نہ کرنے کے لیے رشوت دینے کی اجازت نہیں، جب بھی اس طرح کی کوئی صورت(case) ہو تو’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘سے رہنمائی(guidance) لے لیں)۔

اسی طرح جن لوگوں سے زبان درازی (speaking ill)کا خوف ہو جیسے کچھ لوگ سب کے سامنے گالیاں دیتے اور ذلیل (humiliate)کرتے ہیں ، ایسوں کو اس لیے کچھ دے دینا تاکہ ایسی حرکتیں(act) نہ کریں یا کچھ

شاعر ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں اگر(پیسے وغیرہ ) نہ دیے جائیں، تو اُلٹے سیدھے شعر لکھتے ،پڑھتے ہیں تو اپنی عزّت بچانے کے لیے ایسے(حرام کھانے والوں ) کو ( پیسے وغیرہ) دینا جائز ہے(لیکن ان کا لینا گناہ ہی ہے)۔ (بہار شریعت ح ۱۶،ص۶۵۷،مسئلہ۲۸،۲۹، مُلخصاً)

’’کسی کے مال پر ناجائز قبضہ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ بھی ناحق(یعنی شرعی اجازت کے بغیر) لے لیا قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسا(sunk in) دیا جائے گا۔ (''صحیح البخاري''،کتاب بدء الخلق،الحدیث:۳۱۹۶،ج۲،ص۳۷۶)

واقعہ(incident): ٹیڑھی لاٹھی (crooked stick)والا چور

حدیث شریف میں ہے کہ :میں نے جہنّم میں ایک شخص کو دیکھا جو اپنی ٹیڑھی لاٹھی(crooked stick) کے ساتھ حاجیوں کی چیزیں چوری کرتا تھا ، جب لوگ اُسے چوری کرتے ہوئے دیکھ لیتے تو کہتا : میں چور نہیں ہوں ، یہ سامان میری لاٹھی میں پھنس گیا تھا۔ وہ(آدمی) آگ میں اپنی ٹیڑھی لاٹھی پر ٹیک لگائے یہ کہہ رہا تھا : میں ٹیڑھی لاٹھی والا چور ہوں۔( جمع الجوامع ، قسم الأقوال ، تتمة حرف الھمزة...إلخ ، ۳ / ۲۷ ، حدیث : ۷۰۷۶)

غصب “کے دینی مسائل:

{1} کسی کےمال” مُتَقَوِّم “ (وہ مال جسے جمع کیا جاسکے اور شرعاً اُس سے فائدہ اُٹھایا جاسکے(بہار شریعت ح۷، ص۳۸، مُلخصاً) ) ”مُحْتَرَم “ (یعنی حَربی کافر کا مال نہ ہو(بہار شریعت ح۱۵،ص۲۰۹، مُلخصاً) )”مَنْقُوْل “ (یعنی جس مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاسکے(بہار شریعت ح۱۵،ص۲۰۹، مُلخصاً)) پرناجائز قبضہ کرنا”غصب “ہے جبکہ یہ قبضہ چھپ کر نہ ہو ۔اس ناجائز قبضہ کرنے والے کو”غاصب (غصب کرنے والا)“ اور مالک کو”مغصوب منہ (یعنی جس کی چیز غصب ہوئی)“ اور چیز کو ”مغصوب(غصب کی ہوئی) “ کہتے ہیں۔

{2} ”غصب “،”غیر مَنْقُوْل “ (یعنی جیسے زمین ، پلاٹ وغیرہ) میں بھی ناجائز ہے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏ جو شخص ظلمًا بالشت بھر (یعنی ہاتھ کی کھلی ہوئی اُنگلیوں جتنی) زمین لے لے، اللہ کریم اس پر یہ بات لازم کرے گا کہ اسے سات زمینوں کی تہ (bottom of the earth)تک کھودے پھر قیامت کے دن تک اس کا طوق (یعنی ہار)پہنائے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ(judgment) کردیا جائے (مسند احمد،6 / 180، حدیث:17582) ۔ حضرت علامہ احمد بن محمد قُسْطَلَانِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک قول ہے (یعنی کچھ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں) کہ اُس شخص کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو غصب کی ہوئی زمین اُس کی گردن میں ہار(necklace) کی طرح ہوجائے گی۔(ارشاد الساری، 5 / 513، تحت الحدیث: 2452)

{3} بعض ایسی صورتیں (cases)بھی ہیں کہ وہ ”غصب “ نہیں ہیں مگر ان میں بھی ”غصب “ کا حکم لگتا ہے جیسے ضمان(یعنی چیز ضائع(waste) یا خراب ہونے پر اُس کی رقم(amount) وغیرہ دینے) کا حکم دیا جاتا ہے اس وجہ سے ان کو بھی” غصب “ کہہ دیتے ہیں ، مثلاً ”مُودَع ( یعنی جس کی حفاظت میں چیزدی گئی) “نے ” وَدِیعَت(مثلاً امانت) “ کو ہلاک (waste) کر دیا تو تاوان (یعنی اُس چیز کی رقم وغیرہ دینا)لازم ہے پڑا مال(”لقطہ“) اٹھایا اور اس پر گواہ(witness) نہیں بنایا کسی اور کی زمین میں کنواں (well) کھودا اور اس میں کسی کی چیز گر کر ہلاک ہوگئی ، اس کے علاوہ(other) بہت سی ایسی صورتیں (cases)ہیں جن میں تاوان (یعنی رقم وغیرہ دینے) کا حکم ہے، یہ سب صورتیں (cases) ”غصب “ نہیں ہیں مگر ان سب صورتوں میں تعدّی کی وجہ سے(یعنی اپنی طرف سے جان بوجھ کر(deliberately) کوئی ایسا کام کیا جس سے اُس چیز میں نقصان ہو گیا تو)ضمان(یعنی رقم وغیرہ دینا) لازم آتا ہے۔

{4}چیزیں دو طرح کی ہوتی ہیں (1) مثلی اور(2) قیمی ۔(۱) مثلی:وہ چیزیں کہ جس کی مثل (ملتا، جُلتا)بازار (market) سے مل سکے اور ان کی قیمت(price) میں فرق(difference) نہ ہو اور اگر فرق ہو تو معمولی سا فرق ہو۔ جیسے گندم(wheat) کے لیے گندم یا چینی کے لیے چینی ، ایک مثلی چیز ہے کہ مارکیٹ سے اس طرح کی چیز مل جاتی ہے، اسی طرح انڈے (eggs)بھی مثلی ہیں چاہے انڈوں کے سائز(size) میں فرق ہو لیکن یہ فرق زیادہ نہیں ہوتا او ر اس فرق کی وجہ سے قیمت میں بھی فرق نہیں آتا۔(۲)قیمی: وہ چیز جن کی مثل(یعنی اُسی طرح کی اوراُسی قیمت کی چیز) بازار (market) میں نہ ہو، یا اُس طرح کی چیز تو ہو مگر قیمتوں میں بہت فرق ہو، جیسے: بکری قیمی ہے کیونکہ مارکیٹ سے بہت سی بکریاں مل سکتی ہیں لیکن ان میں بہت فرق ہوتا ہے مثلاً رنگ، قد(height)، خوبصورتی، وزن (weight) ، عمر وغیرہ لھذا ان کی قیمتوں (prices) میں بھی بہت فرق ہوتا ہے، اسی طرح زمین اور گھر بھی قیمی ہیں کہ ان میں بھی بہت فرق پائے جاتے ہیں اور قیمتوں میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔(مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام، ص۱۹، مُلخصاً)

”مغصوب(غصب کی ہوئی چیز) “ہلاک(expire) ہوگئی تو اس کی دو(2) صورتیں ہیں:(۱) اگر وہ چیز” قیمی “ ہے تو قیمت تاوان(یعنی اس چیز کی رقم مالک کو) دے۔ (۲) اگر وہ چیز” مثلی “ ہے تو اس کی مثل(چیز) تاوان میں (واپس) دے ” مثلی “ کی طرح چیز اس وقت بازار میں نہیں مل رہی( چاہے گھروں میں ہو) تو اس صورت (case) میں بھی قیمت تاوان میں(یعنی اس چیز کی رقم مالک کو) دے سکتا ہے۔

{5}کسی چیز میں نقصان کی چار (۴)صورتیں ہیں: (۱ ) پہلی صورت: چیز کے دام (price)کا کم ہو جانا، تو اگر ”مغصوب(یعنی غصب کی ہوئی) “ چیز واپس کر دی تو اب (قیمت کی کمی کا)ضمان (یعنی کمی کی رقم دینا) واجب نہیں۔ جیسے رمضان سے پہلے کسی دکاندار کا سوٹ لے کر بھا گا پھر عید کے بعد واپس کیا اور اُس سوٹ کی قیمت کم ہوگئی (مثلاً رمضان شریف میں ہزرا(1,000) روپے تھی اور اب سات سو(700) روپے ہوگئی)تب بھی کپڑا دے دینا کافی(enough) ہے ، قیمت میں جو کمی ہوئی (مثلاً تین سو روپے)وہ رقم (amount) مزید(more)نہیں دینی ہوگی ۔ہاں! واپس کرنے والے پر لازم ہے کہ اپنے گناہ سے توبہ کرے اور اُس دکاندار سےمُعافی مانگے۔

(۲ ) دوسری صورت: اس کے اجزا (parts) کا کم ہو جانا مثلاًگائے کی آنکھ پھوٹ جانا(damage of the eye)، تو ضمان (یعنی کمی کی رقم دینا) واجب ہے۔

(۳ ) تیسری صورت: پسندیدہ وصف (یعنی خوبی ۔ quality) کا ختم ہو جانا مثلاً سونے چاندی کے زیور (ornament) تھے ٹوٹ کر سونا چاندی رہ گئے، تو اگر ”مغصوب(یعنی غصب کی ہوئی) “چیز باقی نہ رہی تو ضمان(یعنی اُس چیز کی قیمت) واجب ہےاور اگر وہ چیز باقی ہے تو اب وہ بقیہ چیز ضمان(یعنی قیمت کی کمی کے مطابق رقم) کے ساتھ نہیں لے سکتا یا تو صرف وہ بقیہ چیز لے گا یا اُس کی مثل (یعنی اُسی طرح کی چیز) لے گا۔ مثلاً گیہوں(wheat) غصب کیے تھے وہ خراب ہوگئے یا چاندی کا برتن یا زیور غصب کیے تھے اور ٹوٹ گئے تو اب مالک کو اختیار (authority) ہے کہ وہی خراب (گیہوں یا ٹوٹے ہوئے برتن)لے لے یا اس کا مثل (مثلاً اتنے ہی دوسرے گیہوں یا ویسے ہی سونے چاندی کے برتن)لے لے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ چیز (مثلاًخراب گیہوں یا ٹوٹے ہوئے برتن)بھی لے لے اور جتنا نقصان ہوا، اُس کے پیسے بھی لے لے۔

(۴) چوتھی صورت :جس خوبی(quality)کی وجہ سے، کسی چیز کو پسند کیا جاتا ہے ، وہ بات ختم ہوگئی مثلاً شکاری کُتّا تھا،وہ ”غاصب (یعنی غصب کرنے والے)“ کے پاس جاکر شکار کرنا بھول گیا۔ تواگر معمولی نقصان ہے تو نقصان کا ضمان(یعنی جو کمی آئی ہے، اُس کی رقم) لے سکتا ہے اور زیادہ نقصان ہے تو مالک کو اختیار (authority) ہے کہ(۱) وہ چیز لے لے اور جو کچھ نقصان ہوا ہے وہ بھی لے لے ، اور یہ بھی اختیار (authority) ہے کہ(۲) چیز ہی کو نہ لے بلکہ اس کی پوری قیمت(price) لے لے۔

{6} ”مغصوب(یعنی غصب کی ہوئی ) “ چیز موجود ہے مگر اُس کے لینے میں”غاصب (یعنی غصب کرنے والے)“ کا نقصان ہوگا مثلاً شہتیر(girder۔ اس بیم کو کہتے ہیں جو عمارت (building) کو سہارا (support) دیتا ہے)غصب کر کے اپنے مکان میں لگا لی ، اب اسے نکالنے کے لیے غاصب کا مکان توڑنا ہوگا تواس صورت (case) میں

”غاصب “ (یعنی غصب کرنے والے)سے اُس کی قیمت(price) لے لی جائے گی یا اینٹیں (bricks) غصب کر کے عمارت (building) بنالی تو اب بھی مالک کو قیمت دی جائےگی(اینٹیں نہیں نکالی جائیں گی)۔

{7} سونا یا چاندی غصب کر کےبرتن بنا لیے تو ان چیزوں کا مالک(owner) بھی وہ پہلا شخص ہی ہے جس کا سونا یا چاندی تھا ۔ جس نے کام کر کے اس کے برتن وغیرہ بنائے،اُسے برتن بنانے کے پیسے بھی نہیں دیے جائیں گے۔

{8}”مغصوب(یعنی غصب کی ہوئی) “چیز میں جو زیادت مُنفَصِلہ پیدا ہوئی (یعنی الگ سے اضافہ(increase) ہوا) مثلاً جانور غصب کیا پھر اس نے دودھ دیا ، اسی طرح درخت غصب کیا پھر اس میں پھل آگئے، یہ اضافے غاصب کے پاس امانت کے حکم میں ہیں ،اگر غاصب نے اس میں تعدِّی کی یعنی وہ چیز استعمال کر لی یا ضائع (waste) کر دی یا مالک نے مانگی اور غاصب نے نہیں دی تو ان صورتوں (cases) میں ضمان (یعنی نقصان کی رقم دینا)واجب ہوگا ورنہ ان کا ضمان واجب نہیں(یعنی غاصب کی اس طرح کی کسی غلطی کے بغیر، اگر وہ اضافے والی چیز(addition item) ضائع (waste) ہوگئی تو اس کی رقم غاصب نہیں دے گا)۔

{9} ”غاصب (یعنی غصب کرنے والا)“ کے واپس کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس طرح واپس کرے کہ مالک کو علم ہو جائے۔اگر مالک کو پتا نہ چلا اور چیز واپس کر دی تب بھی صحیح ہے، مثلاًاس کی تھیلی میں سے روپے نکال کرلے گیا تھا پھر واپس لا کراس (تھیلی)میں رکھ آیا اور مالک کو پتا نہ چلا یہ واپسی بھی صحیح ہے اسی طرح اگر کسی دوسرے نام سے مالک کو وہ رقم واپس دے دی تب بھی صحیح ہے۔ مثلاً مالک کو تحفے میں دے دی یا

” ودیعت“ کے نام سے اسے دے آیا بلکہ اگر وہ چیز کھانے کی تھی مالک کو کھلا دی اس صورت (case) میں بھی واپس کرنا صحیح ہے۔

{10} ”غاصب (یعنی غصب کرنے والے)“ نے”مغصوب(یعنی غصب کی ہوئی چیز) “ میں تغییر(یعنیکسی قسم کی تبدیلی)کر دی پھر مالک کو واپس کردی تو اب اُس”غصب “ سے بری (یعنی فارغ)نہیں ہوگا مثلاًکپڑے کو کاٹ کر اور سی کر مالک کو دیا یا

گیہوں(گندم۔wheat)کو پسوا کر(by grinding) اس کی روٹی بنا کرمالک کو کھلا دی یا شکر(sugar) کا شربت بنا کر پلا دیا(یعنی اس کے بعد بھی کپڑا، گندم(wheat) اور شکر (sugar) (جو غصب کی (مثلاً چھینی) تھی ، وہ)دینی ہوگی)۔

{11} ”مغصوب(یعنی غصب کی ہوئی) “چیزکو اُجرت(wages) پر دیا اور اس سے کرایہ بھی ملا اب اگر

غاصب (یعنی غصب کرنے والا)“ غنی(یعنی ایسا مالدار کہ شرعی فقیر نہ )ہو تو جتنی آمدنی(income) ہوئی ، وہ سب صدقہ(یعنی خیرات) کر دے اگر”غاصب“ شرعی فقیر ہے تو پھر اس کی کچھ صورتیں ہیں:(۱) اس اُجرت (wages) پر دینے کی وجہ سے کوئی نقصان پیدا ہوگیا تواُس نقصان کی وجہ سے اُس چیز کی قیمت(price) میں جو کمی ہوگی،اُس کمی کی رقم(amount) ،حاصل ہونے والے کرائے(received rent) سےدی جائے گی اور اس کے بعد بھی اگر کرائے میں ملنے والی رقم بچ گئی تو اب اس بقیہ رقم(remaining amount) کو صدقہ(یعنی خیرات) کر یں گے اگر ”مغصوب(یعنی غصب کی ہوئی) “چیز ہلاک(waste) ہوگئی تب بھی اسی طرح ، ملنے والے کرائے سے اُس چیز کی رقم دی جائے گی پھر بھی کرائے کی رقم بچ گئی تو اُسے صدقہ(یعنی خیرات) کر یں گے۔

{12} ”مغصوب(یعنی غصب کی ہوئی) “ چیزیا ”ودِیعت“ ( جیسے:امانت)اگر مُعَیّن(fixed) چیز ہو اُسے بیچ کر نفع (profit)حاصل کیا تو اس نفع کو صدقہ (یعنی خیرات)کر دینا واجب ہے مثلاًایک چیز کی قیمت سو(100) روپے تھی اور غاصب نے اسے سوا سو(125 روپے )میں بیچا سو (100)روپے مالک (owner) کو تاوان میں دینے ہوں گے اور پچیس(25) روپے صدقہ کر نےہوں گے۔

{13}کسی نے دوسرے کی چیز ضائع (waste)کر دی مالک نے کہہ دیا میں اس چیز کے ہلاک(waste) ہونے پر راضی(agree) ہوں تب بھیغاصب اُس چیز کی رقم (amount)دینے کے ضمان سے فارغ نہیں ہوگا یعنی مالک چاہے تو اپنے راضی (agree) ہونے والے جملے کے بعد بھیغاصب سےکہہ سکتا ہے کہ مجھے اس چیز کی رقم دو۔

{14} غاصب کے پاس سے کوئی دوسرا شخص غصب کرکے لے گیا، تو اب مالک کو اختیار (authority)ہے کہ اُس چیز میں ہونے والے نقصان کی رقم پہلے غصب کرنے والے سے لے یا دوسری مرتبہ غصب کرنے والے سے لے۔

مالک کو اختیار (authority)ہے کہ کچھ حصّہ ضمان(یعنی نقصان) کا غاصب سے لے اور باقی دوسری مرتبہ غصب کرنے والے سے اور جب ایک سے ضمان(یعنی نقصان کی رقم وغیرہ) لے لی تو اب دوسرے سے نہیں لے سکتا۔

{15}اگر غاصب نے مغصوب کو کسی کے پاس ” وَدِیعَت(مثلاً امانت)“ رکھا تو مالک(owner) اس”مُودَع (یعنی جس کی حفاظت میں چیزدی گئی)“سے(نقصان وغیرہ کی رقم میں) تاوان لے سکتا ہے (دو میں سے جس) ایک سے ضمان (یعنی نقصان کی قیمت)لے گا تو دوسرا بری ہو جائے گا (یعنی دوسرا، اب نقصان کی قیمت نہیں دے گا) ۔

{16} غاصب(یعنی غصب کرنے والے)نے مغصوب چیز کو غائب کر دیا پتا نہیں چلتا کہ کہاں ہے؟ تو مالک کو اختیار (authority) ہے کہ صبر کرے اورچیز ملنے کا انتظار کرے اور چاہے تو غاصب سے ضمان لے اگر غاصب سے ضمان لے لیا تو چیز غاصب کی ہوگئی(یعنی بعد میں مل گئی تو اب غاصب ہی اُس کا مالک ہے)۔

{17} غاصب(یعنی غصب کرنے والے) سے مالک نے کہا کہ میرا مکان خالی کردو، ورنہ اتنے روپے مہینا اس کا کرایہ دینا ہوگا تو اب اگر غاصب(یعنی غصب کرنے والے) نے خالی نہ کیا تو اس سے کرایہ لیا جاسکتا ہے کیونکہ اُس کا کرائے کی بات سُن کر خاموش رہنا، کرایہ دینے کو قبول(accept) کرلیناہے اگر غاصب(یعنی غصب کرنے والے) نے اُس وقت یہ کہا کہ یہ مکان تمھارا نہیں ہے ،یا یہ کہا کہ مکان تمھارا ہے مگر کرایہ نہیں دونگا تو کرایہ لازم نہیں ہوگا (بہار شریعت ح۱۴،ص۱۷۸،۱۷۹،مسئلہ۱۲،مُلخصاً) ۔یاد رہے کہ کسی کی چیز شرعی اجازت کے بغیر، اس طرح لینے والا گناہ گار اور جہنّم کا حقدار (deserving)ہے، توبہ کے ساتھ ساتھ اُس چیز کے مالک سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔

غصب “کے دینی مسائل:

(1) مال ودَولت کی مَحَبَّت (2) خاندانی دشمنیاں (3) حسد (4) تکبُّر۔ وغیرہ(فرض علوم سیکھیئے ص ۷۱۶)

غصب سے بچنے کے کچھ طریقے:‏

{1}اس بات پر غور کیجئے کہ کسی کا مال ناحق لینے پر قیامت میں کتنا نقصان ہوگا، جیسا کہ امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ، اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: جو دنیا میں کسی کے تقریباً تین پیسے دَین( یعنی قرض۔loan)دبا لے گا ، قیامت کے دن اس (قرض)کے بدلے سات سو( 700) باجماعَت نمازیں دینی پڑ جائیں گی۔(فتاوی رضویہ،ج۲۵،ص۶۹،مُلخصاً)

{2}کسی کی چیز ناجائز طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کے نقصان پر ہی غور کرلے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏ جس نے کسی ایسی چیز کا دعویٰ (claim)کیا جو اس کی نہیں تھی تو وہ اپنا ٹھکانہ(یعنی اپنی جگہ) جہنّم میں بنا لے۔( صحیح مسلم،کتاب الایمان، الحدیث:۱۱۲،ص۶۹۱)
نوٹ:
غصب کی تفصیل(detail) جاننے کے لئے”احیاء العلوم جلد۳“ کو پڑھ لیجئے۔

’’دوسرے کی چیزوں کے حقوق (rights) ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

مسلمان کی سب چیزیں (دوسرے) مسلمان پرحرام ہیں، اس کا مال،اس کی عزت اور اس کا خُون۔
(ابوداؤد،ج۴،ص۳۵۴، حدیث:۴۸۸۲)

واقعہ(incident): تین(3) روپے میں سے ایک(1) روپیہ بچ گیا

علی بن عاصم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں میں نے امام اعظم،نعمان بن ثابت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے کچھ اس طرح کا سؤال کیا کہ ایک شخص کا ایک(1) سو روپے کا نوٹ اور دوسرے آدمی کے سو روپے کےدو(2) نوٹ مل گئے(یعنی اب سو روپے کےتین(3) نوٹ ہوگئے پھر تین نوٹوں میں سے) دو (2)نوٹ گر گئے اور اب ایک (1) نوٹ باقی رہ گیا اور یہ معلوم نہیں کہ بچنے والا ایک نوٹ کس کا ہے، تو اب کیا کریں ؟ امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کچھ اس طرح فرمایا: ایک(1) نوٹ جو باقی ہے اُس میں سے ایک تہائی(1/3)ایک نوٹ والے کی ہے(یعنی 33 روپے) اور دو تہائیاں (2/3) دو(2) نوٹ والے کی(یعنی66 روپے)۔

علی بن عاصم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزید کہتے ہیں اس کے بعد میں ابن شبرمہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ملا اور ان سے بھی یہی سؤال کیا ، تواُنہوں نے جواب دینے کے بجائے ، مجھ سے پوچھا: کیا تم نے یہ سوال کسی سے کیا ہے؟ تو میں نے کہا: ہاں!(حضرت) ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے اور انہوں نے یہ جواب دیا ہے۔ابن شبرمہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کچھ اس طرح کہا : دو (2)نوٹ جو گم ہوگئے اُن میں ایک(1) تو یقینا اُس کا ہے جس کے دو (2) نوٹ تھے اور ایک(1) میں شک (doubt) ہے کہ وہ کس کا تھا؟ یعنی بچا ہوا ایک(1) نوٹ اُ س آدمی کا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کا ایک (1) نوٹ تھا اور اُس کا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کے دو (2) نوٹ ہوں۔تو جب بچا ہوا ایک (1) نوٹ دونوں کا ہو سکتا ہے تو دونوں کو آدھا آدھا بانٹ لینا چاہیے۔

علی بن عاصم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ: اس کے بعد میری ملاقات دوبارہ(again) امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ہوئی تو میں نے انہیں دوسرا جواب بتایا تو لاکھوں مسلمانوں کے امام، حضرت نعمان بن ثابت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنےفرمایا کہ : جب تینوں نوٹ مل گئے اور دونوں آدمیوں کے نوٹوں میں فرق نہ رہا(کہ کون سا نوٹ کس کا ہے؟) تو اب وہ دونوں آدمی ، تینوں نوٹوں میں شریک (partner)ہوگئے یعنی ہر نوٹ میں ایک تہائی (1/3یعنی 33 روپے)، ایک نوٹ والے کا اور دوتہائی (2/3یعنی 66 روپے) دو نوٹ والے کے ہوگئے۔ تو اب جب ایک نوٹ باقی رہا تو اس میں ایک تہائی(1/3) ایک نوٹ والے کی اور دو تہائیاں(2/3)، دو نوٹ والے کی۔(''الجوھرۃ النیرۃ''،کتاب الغصب،الجزء الأول، ص ۴۴۶، بالتغیر)

دوسروں کی چیزوں کے حقوق(rights) کے دینی مسائل:

{1} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏جو بھی آدمی اس نیّت (intention)سے قرض(loan) ليتا ہے کہ اس (قرض) کو واپس نہ کرے گا تو وہ اللہ کریم سےچوربن کر ملے گا۔ (سنن ابن ماجہ،،الحدیث: ۲۴۱۰،ص۲۶۲۱)

{2} فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:قرض واپس کرنے میں مالدار کا ٹال مٹول (یعنی بہانے)کرنا ظلم ہے ۔ ( صحیح مسلم ،کتاب المساقاۃ ، الحدیث ۴۴۰۲ ، ص ۹۵۰)

{3}اگر کسی شخص نے کسی دوسرے آدمی کی چٹائی کی بناوٹ (یعنی سلائی)کھول ڈالی یا دروازہ کی چوکھٹ(یعنی دروازے کا وہ حصّہ جو نیچے کی طرف زمین سے ملا ہواہوتا ہے یا لکڑی کا وہ ٹکڑا کہ جوزمین سے جڑا ہو تا ہے، پہلے دروازے اسی طرح ہوتے تھے اب شہروں میں اس طرح کے دروازے کم ہوتے ہیں) الگ کر دی یا اسی طرح کسی اور چیزکی ترکیب (یعنی اُس چیز کے ملے ہوئے حصّوں) اور بناوٹ(یعنی بنی ہوئی صورت کو) خراب کر دیا، تو اُس کی دو(۲) صورتیں ہیں:(۱)اگر اس کو پہلی حالت پر لایا جاسکتا ہے تو اُس خراب کرنے والے کو حکم دیا جائے گا کہ اسے پہلے کی طرح ٹھیک کر دے اور(۲) ٹھیک نہ کیا جاسکتا ہو تو اُس سے قیمت(price) لے لے اور یہ ٹوٹی ہوئی چیز بھی اسی (خراب کرنے والے) کو دے دی جائے۔

{4}(۱) دیوار گرا دی اور ویسی ہی بنا دی تو رقم وغیرہ دینے کا ضمان ختم ہوگیا (یعنی اب وہ دیوار توڑنے کے پیسے نہیں دے گا)اور (۲)اگرلکڑی کی دیوار تھی اُسی لکڑی کی دیوار دوبارہ بنا دی تب بھی رقم وغیرہ دینے کا ضمان ختم ہوگیا (۳)لیکن اگر دوسری(قسم۔type کی ) لکڑی کی دیواربنا دی تو اب بھی دروازے کی رقم،اُس کے مالک کو دینا ہوگی(۴) ہاں! اگر یہ لکڑی ، پہلی لکڑی سے بہتر ہے تو اب دروازے کی رقم وغیرہ دینے کا ضمان ختم ہوگیا ۔

{5} دوسرے کا گوشت بغیر مالک (owner)کے حکم کے پکا دیا تو اس گوشت کی رقم مالک کو دینا ہو گی اور اگر مالک نے گوشت کو دیگچی(cauldron) میں رکھ کر چولہے پر رکھ دیا تھا اور چولہے کے نیچے لکڑیاں بھی رکھ دی تھیں، اب دوسرے شخص نے مالک کی اجازت کے بغیر لکڑیوں میں آگ دیدی اور گوشت پک گیا تو اب آگ جلانے والے پر رقم وغیرہ کے ذریعے تاوان لازم نہیں۔

{6} ایک شخص نے دیوار گرانے کے لیے مزدور(laborer) جمع کیے تھے(لیکن ان مزدوروں نے کام شروع نہیں کیا، دوسرے شخص نے)،وہ دیوار بغیر اجازت گرا دی تو رقم وغیرہ کے ساتھ تاوان دینا لازم نہیں کہ یہاں اجازت ہونا دلالۃً(یعنی معلوم ۔understood) ہے۔ ان مسائل میں اصول یہ ہے کہ: (۱) جو کام ایسا ہو کہ اُس کام کے لیے کسی دوسرے کی مدد سے فرق نہیں ہوتا تو اُس میں دلالت(یعنی

ہونا) ہی کافی (enough)ہے اور(۲) اگر ہر شخص وہ کام برابر نہ کرسکتا ہو تو ہر شخص کے لیے اجازت نہیں ہے مثلاًبکری ذبح کر کے کھال کھینچنے کے لیے لٹکا دی تھی، کوئی شخص آیا اور اُس نے بغیر اجازت کھال کھینچی(اور نقصان ہو گیا )تو اب( اُس نقصان کی ) قیمت(price) کاضمان دے گا۔

{7} قصاب (butcher۔گوشت بیچنے والے)نے بکری خریدی تھی اور بغیر اجازت کسی نے ذبح کردی تو ضمان دینا ہوگا (یعنی زندہ بکری اور گوشت کی قیمت میں جو فرق ہے، وہ رقم دینی ہوگی) اور اگر قصّاب (گوشت فروش)نے بکری کو گرا کر اس کے ہاتھ پاؤں ذبح کرنے کے لیے باندھے ہوئےتھے اور کسی دوسرے (مسلمان) نے آکر بغیر اجازت کے(بِسْمِ اللہِ !پڑھ کر) ذبح کر دی تو اب کسی طرح کا کوئی تاوان(یعنی رقم وغیرہ) نہیں (دینی ہوگی)۔

{8} دوسرے کے مال کو بغیر اجازت خرچ کرنا ، کچھ جگہ پر جائز ہے:(۱) مریض والد(patient) کے مال (یعنی پیسوں وغیرہ) کو بیٹا ، والد کی ضرورت(مثلاً کھانے وغیرہ) میں(اسی طرح مریض بیٹے کے مال کو ،اُسکی ضرورت پوری کرنے کے لیے والد کو) بغیر(اس مریض کی) اجازت کے استعمال کرنا درست ہے(۲) سفر میں کوئی شخص بیمار ہوگیا یا وہ بیہوش (unconscious) ہوگیا اُس کے ساتھ والے اُس کی ضرورت(مثلاً کھانے وغیرہ)میں اُس کا مال استعمال کرسکتے ہیں(۳)سفر میں کوئی شخص انتقال کرگیا تواُس کے سامان کو بیچ کر کفن، دفن میں استعمال کرسکتے ہیں اور باقی مال(rest of the wealth) ورثاء(مخصوص قریبی رشتہ دار وں۔specific close relatives) کو دے دیں۔

{9} (۱)جانور بھاگ گیا اور اُس نے کسی دوسرے شخص کےکھیت(field) سے کھالیا تو مالک(owner) پر اس کھانے کا تاوان(یعنی رقم وغیرہ دینا) واجب نہیں،اسی طرح (۲) بلی نے کسی کا کبوتر (pigeon)کھالیا تو تاوان نہیں۔

{10}(۱)بولنے والے کبوتر (pigeon)یا فاختہ(dove) کو تلف کیا (مثلاً ذبح کر دیا یا پنجرے (cages)میں ڈال دیا اور یہ مر گئے)تو تاوان میں وہ قیمت لی جائے گی جو بولنے والے (کبوتر یا فاختہ) کی ہے اسی طرح(۲) کچھ کبوتر خوبصورت ہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے اُن کی قیمت زیادہ ہوتی ہے تو(نقصان کی صورت(case) میں) تاوان (یعنی رقم (amount)) میں یہی قیمت(price) لی جائے گی (جو خوبصورت کبوتر کی ہے)اور(۳) اُڑنے والے کبوتروں میں وہ قیمت لگائی جائے گی جو نہ اُڑنے والے کی ہے۔

{11} (۱) سینگ والا مینڈھا(ram with horns) جو لڑایا جاتا ہے یا اصل مرغ (fighting rooster) جس کو لڑاتے ہیں ان میں وہ قیمت لگائی جائے گی جو نہ لڑنے والوں کی ہے کیونکہ ان کا لڑانا حرام ہےاسی طرح (۲) تیتر (partridge)، بٹیر(common quail) وغیرہ لڑاتے ہیں اور اس کی وجہ سے انھیں بہت مہنگا خریدتے اور بیچتے ہیں ، کسی نے ان کو مار دیا تو وہی قیمت لی جائے گی جو گوشت کھانے کے تیتر اور بٹیر کی ہو۔

{12} ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ : میرے اس کپڑے کو پھاڑ کر پانی میں ڈال آؤ، دوسرے نے ایسا ہی کیا تو اُس پر تاوان نہیں مگر گنہگار ہے۔

{13} ایک شخص کے کُرتے کا دامن(یعنی قمیض کا وہ حصّہ جو گود کی جگہ پر ہوتا ہے) دوسرے شخص کے نیچے دبا ہوا تھا اور جس نے قمیض پہنی ہوئی تھی، اُسے معلوم نہ تھا وہ اُٹھ گیا جس کی وجہ سے اُس کا دامن پھٹ گیا تب بھی آدھا تاوان اس شخص پر واجب ہے جس نے قمیض کو دبایا ہوا تھا۔

{14} ایک کا جانور دوسرے کے گھر میں آگیا تو اُسے گھر سے نکالنا ،جانور کے مالک(owner of the animal) کا کام ہے۔

{15} ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا اُس کے سر سے ٹوپی گر گئی اُس کو کسی نے وہاں سے ہٹا دیا اور دوسری جگہ سے چور لے گیا اگر ایسی جگہ ہٹا کر رکھا تھا کہ نمازی لینا چاہے تو ہاتھ بڑھا کر لے سکتا ہے تو ہٹانے والے پر تاوان (یعنی اُس کی رقم دینا واجب)نہیں اور اگر ٹوپی دو ررکھی تھی تو تاوان (میں رقم وغیرہ دینا لازم)ہے۔
(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۵،ص ۲۲۱ ا،
مسئلہ۲،۳،۵،۶،۷،۸،۹،۱۴،۱۹،۲۷،۳۱،۳۲،۳۳،۳۶،۴۱،۴۷،۵۰،۵۳)

{16} زمین کو کرائے پر لیا تاکہ اس میں کھیت(field) لگائے پھر ایسی چیز لگائی کہ اُسے کاٹنے کے بعد جو جڑیں(roots) رہ جاتی ہیں، اُنہیں ختم کرنے کے لیے آگ لگا دیتے ہیں۔اب جڑیں (roots) کاٹنے کے لیے آگ لگائی اور اس سے دوسرے لوگوں کا نقصان ہوا مثلاً آگ اُڑ کر کسی کے کھیت (field)میں گئی اور وہ کھیت جل گیا تو اب یہ دیکھا جائے گا کہ آگ لگاتے ہوئے ہوا چلا رہی تھی یا نہیں ؟(۱)اگر اُس وقت ہوا چل رہی تھی تو آگ لانے والے پر تاوان ہے(یعنی جو نقصان ہوا، اُس کی قیمت (amount)دینا ہوگی) اور(۲) اگر ہوا نہیں چل رہی تھی تو تاوان(یعنی نقصان کی قیمت) نہیں(دینی ہوگی)(۳) عاریت پر (یعنی استعمال کرنے کے لیے) زمین لی تب بھی یہی حکم ہے کہ آگ لگانے پر نقصان ہوا تو ہوا چلنے پر تاوان(یعنی نقصان بھرنا) ہوگا اور ہوا نہیں چل رہی تھی تو تاوان(یعنی اس کی رقم دینا) بھی(لازم) نہیں۔

{17} شبِ برا ت میں یا کسی تقریب (event)پر کچھ لوگ آتش بازی(fireworks) کرتے ہیں، یہ کام فضول خرچی اور حرام ہے، اس سے کبھی دوسری چیزوں کو آگ بھی لگ جاتی ہے یاکسی کے کپڑے جل جاتے ہیں بلکہ کبھی کسی کا انتقال بھی ہوجاتا ہے۔اگر آتشبازی اُڑنے والی ہے اور اُڑانے (یعنی آتش بازی چلانے) والے نے ہوا چلتے ہوئے اُڑائی تو تاوان ہے(یعنی جو نقصان ہوا، اُس کی قیمت (amount)دینا ہوگی)۔

{18} راستہ میں آگ کا انگارا(ember of fire) پھینک دیا یا ایسی جگہ ڈالا کہ وہاں ڈالنے کا اس کو حق (یعنی اجازت )نہ (تھی مثلاً کسی کے گھر کے آگے ڈالا)تھا اور نقصان ہوا تو تاوان ہے(یعنی نقصان کی قیمت دینی ہوگی)۔ (بہار شریعت ح۱۴،ص۱۷۷،مسئلہ۳،۴،۶،مُلخصاً)

{19} (۱)دو منزلہ مکان (two storey house) دو شخصوں کا ہو، نیچے کی منزل(floor) ایک کی ہے اور اوپر والی منزل دوسرے (2nd )کی ہو۔ ہر ایک کو ایسے کام سے روکا جائے گا کہ جس میں دوسرے کا نقصان ہو مثلاً نیچے والا دیوار میں (بڑے بڑے )سوراخ کر کہ کچھ لگانا چاہتا ہےیا اوپر والا چھت پر نئی تعمیرات (new constructions)کرنا چاہتا ہے ۔ تو اس طرح کے سب کام ، دوسرے کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا۔ہاں!

(۲) اگر ایسا کوئی کام کیا کہ جس سے دوسرے کا کوئی نقصان نہیں، تو یہ کام بغیر اجازت کے بھی کیے جاسکتے ہیں ۔ مثلاً چھوٹی کیل گاڑنا کہ اس سے دیوار میں کمزوری پیدا نہیں ہوتی(۳)کوئی ایسا کام ہے کہ جس میں شک (doubt) ہے کہ نقصان پہنچے گا یا نہیں تو ایسے کام بھی بغیر اجازت کےنہیں کر سکتا۔

{20} اوپر کی عمارت(floor) گر چکی ہے صرف نیچے کی منزل(floor) باقی ہے اس کے مالک نے اپنی عمارت

جان بوجھ کر(deliberately) گرا دی تا کہ اوپر والا پہلے میری منزل بنائے پھر اپنی تو اب نیچے والے کو مجبور(force) کیا جائے گا کہ وہ اپنی منزل بنائے تاکہ اوپر کی منزل بنائی جاسکے۔ {21} کوئی شخص اپنے مکان میں تنور (بہت بڑا چولھا)گاڑنا (یعنی لگانا)چاہتا ہے جس میں ہر وقت روٹی پکے گی جس طرح دوکانوں میں ہوتاہے ، اس طرح کے کاموں سے ایسے شخص کو منع کیا جائے گا کہ جس سے لوگوں کو تکلیف ہو جیساکہ تنور کی وجہ سے ہر وقت دھواں آئے گا جو پریشان کریگا ۔
(بہار شریعت ح۱۲،ص ۹۱۸تا۹۲۱،مسئلہ۱،۲،۹،۱۴،مَاخوذاً)

راستہ گھیر کر لوگوں کے حقوق(rights)کا خیال نہ رکھنا :

بعض حضرات، لوگوں کے چلنے کا راستہ شرعی اجازت کے بغیر گھیریا روک لیتے ہیں جن میں کئی صورتیں(cases) لوگوں کیلئے سخت تکلیف کا سبب بنتی ہیں،مَثَلًا(۱)بَقَر عید کے دنوں میں قربانی کے جانور بیچنے یا کرائے پر رکھنے یا ذَبح کرنے کیلئے بِلاضرورت پوری پوری گلیاں بند کر لینا(۲)راستے میں تکلیف کی حد تک کچرا (garbage)وغیرہ ڈالنا،تعمیرات(constructions) کیلئے غیر ضَروری طور پر (unnecessarily) بَجری (sand)اور سَریوں (iron rod)کا ڈھیر لگانا اور اسی طرح تعمیرات کے بعد مہینوں تک بچا ہوا سامان پڑا رہنے دینا(۳)شادی و غیرہ کی تقریبوں(events)،نیازوں کے وقتوں پر گلیوں میں دیگیں اس طرح پکانا کہ جس سے زمین پر گڑھے پڑ جا نا پھر ان میں کیچڑ اورگندے پانی کاجمع ہوناجس سے مچّھر وں کا پیدا ہونا اور بیماریاں پھیلنا(۴)عام راستوں میں کُھدائی(digging) کروانا مگر ضَرورت پوری ہوجانے کے بعد بھی صحیح نہ کروانا (۵) راستوں وغیرہ میں ناجائز قبضے سے جگہ گھیر کرلوگوں کا راستہ تنگ کرنا، وغیرہ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏

جس نے ایک بالشت زمین(spanful land) ظلم کے طور پر لے لی قِیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اتنا حصّہ طوق(یعنی ہار) بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (صَحیح بُخاری ج ۲ص۳۷۷حدیث۳۱۹۸)(نیکی کی دعوت ص۱۶۷ تا ۱۶۷،مُلخصاً)

بندوں کے حقوق(rights) پورا نہ کرنےکی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏

(1)علم کی کمی(2)مسلمانوں کے احترام(اور عزّت) کی کمی(3) حرص (لالچ) (4)خود پسندی (صرف اپنے آپ ہی کو اچھا سمجھنا)۔وغیرہ

بندوں کے حقوق(rights) پورا نہ کرنےسے بچنے کے کچھ طریقے:‏

{1} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏ جس نے ( شَرعی اجازت کے بغیر) کسی مسلمان کو تکلیف دی اُس نے مجھے ایذاء (یعنی تکلیف)دی اور جس نے مجھے ایذاء دی اُس نے اللہ کریم کو ایذاء دی۔( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط،ج۲، ص۳۸۷ ،حدیث: ۳۶۰۷)

{2}حضرت ابوطالب محمد بن علی مکّی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: زیادہ تر (اپنے نہیں بلکہ) دوسروں کے گناہ ہی دوزخ میں جانے کا سبب ہوں گے جو ( دوسروں کے حقوق(rights) ضائع(waste) کرنے کے سبب) انسان پر ڈالدئیے جائیں گے۔بہت سے لوگ(اپنی نیکیوں کی وجہ سےنہیں بلکہ) دوسروں کی نیکیاں لے کر( جو اُن کے حقوق، ضائع کرنے پر دوسروں سے لے کر انہیں دی جائیں گی)جنَّت میں جائیں گے۔ (قُوتُ القُلُوب، ج۲، ص ۲۹۲)

{3}حضرت احمد بن حَرْب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: کئی لوگ نیکیوں کی دولت لئے کر دنیا سے (قیامت ) میں مالدار آئیں گے لیکن بندوں کی حقوق ، ضائع کرنے کی وجہ سے،قیامت کے دن اپنی ساری نیکیاں دوسروں کو دے کر غریب ہوجائیں گے۔(تَنبِیْہُ المُغْتَرِّین، ص۵۳، دار المعرفۃ بیروت)اس طرح کے اقوال پر غور کیجیئے۔

اخلاقِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور محبّت بھرا انداز(Loving manner):

(۱) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَہر وقت اپنی زبان کی حفاظت فرماتے اور صرف کام ہی کی بات کرتی
(۲)آنے والوں کو مَحبت دیتے، ایسی کوئی بات یا کام نہ کرتے جس سے نفرت پیدا ہو (arouses hatred)
(۳)قوم کے عزّت دار لوگوں کا خیال فرماتے اور اُن کو قوم کا سردار بنا دیتے
(۴) لوگوں کو اللہ کریم کے خوف کی تعلیم دیتے
(۵)صَحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی خیر خیریت معلوم فرماتے
(۶)لوگوں کی اچھی باتوں کی اچھائی بتاتے اور بری چیز کی برائی بتانے کے ساتھ اُس پر عمل سے روکتے
(۷)ہر معاملے میں میانہ روی (یعنی درمیانے انداز۔moderation) سے کام لیتے
(۸)جہاں لوگوں کی اِصلاح(reformation) کرنا ہوتی وہاں اِصلاح کرنے سے نہ رُکتے
(۹) آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اٹھتے بیٹھتے (یعنی ہر وقت ) اللہ کریم کا ذکر کرتے رہتے
(۱۰) جب کہیں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ مل جاتی وَہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کا فرماتے
(۱۱)اپنے پاس بیٹھنے والے کے حقوق(rights) کا خیال رکھتے
(۱۲)آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس آنے والے ہر شخص کو ایسا لگتا کہ میرے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَسب سے زِیادہ ، مجھ سے محبّت فرماتے ہیں
(۱۳) کوئی گفتگو(یعنی بات چیت) کے لیے آتا تو اُس کے ساتھ اُس وَقت تک تشریف فرما رہتے جب تک وہ خود نہ چلا جائے
(۱۴)جب تک ہاتھ ملانے والا ہاتھ ملا کر اپنا ہاتھ پیچھے نہ کر لیتا، ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُس وقت تک اپنا ہاتھ پیچھے نہ فرماتے
(۱۵) مانگنے والے کو عطا فرماتے
(۱۶)پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سخاوت (generosity) و خوش خُلقی(good mood) ہر کسی کے لیے تھی
(۱۷)آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مجلس علم ، بردباری(forbearance) ، شرم وحیا،صبر(patience) اور اَمانت کی مجلس تھی(یعنی جہاں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہوتے وہاں یہ انداز (style) ہوتا)
(۱۸) آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مجلس میں نہ شور ہوتا ن ہ کسی کو بے عزت (humiliate) کیا جاتا
(۱۹) آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مجلس میں اگر کسی سے کوئی بھول ہو جاتی تو اُس کی غلطی(بلاضرورت) دوسروں کو نہ بتائی جاتی
(۲۰)جب کسی کی طرف توجّہ (attention) فرماتے تو مکمل توجّہ فرماتے
(۲۱) آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کسی کے چہرے کو گھور کر نہ دیکھتے(یعنی نظریں نہ گاڑتے تھے)
(۲۲)آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بہت زیادہ شرم و حیاء رکھنے والے تھے یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی حیاء شریف کنواری لڑکی (virgin girl) سے بھی زیادہ تھی
(۲۳) سلام کرنے میں پہل فرماتے (اور آج بھی مدینے شریف میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مزار شریف پر حاضر ہونے والا، جب سلام کرتا تو اُس سے پہلے ہی اُمت سے محبّت فرمانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سلام کر چکے ہوتے ہیں(جذب القلوب، ص۲۳۰ مُلخصاً ، از شیخ عبد الحق عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ))
(۲۴) بَچّوں کو بھی سلام کرتے
(۲۵)جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو پکارتا، جواب میں ’’لَبَّیک! ‘‘ (یعنی میں حاضر ہوں ) فرماتے (سرور قلوب ص۱۶۸)
(۲۶)اہل مجلس(یعنی جو موجود ہوتا اُس) کی طرف پاؤں نہ پھیلاتے
(۲۷)اکثر (often)قبلہ رُخ(towards Qibla) بیٹھتے
(۲۸)اپنی ذات کیلئے کسی (یعنی آپ کے ساتھ بُرا سلوک(bad behavior) کرنے والوں ) سے کبھی بھی بدلہ نہ لیتے
(۲۹) برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے معاف فرما دیا کرتے
(۳۰)اللہ کریم کی راہ میں جہاد(یعنی جنگ) کے علاوہ (other) کبھی کسی کو اپنے مبارَک ہاتھ سے نہ مارا، نہ کسی غلام کو نہ ہی کسی عورت(یعنی بیوی وغیرہ) کو مارا
(۳۱)گفتگو (یعنی بات چیت)میں نرمی ہوتی
(۳۲)آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بات کرتے تو (اتنی ٹھہر ٹھہر کر فرماتے کہ) لفظوں کو گننے والا گن(count کر) سکتا تھا
(۳۳)طبیعت(یعنی مزاج شریف یا عادتِ مُبارکہ) میں نرمی تھی اور ہشاش بشاش(بہت خوش) رہتے
(۳۴) نہ چلاتے
(۳۵)نہ سخت گفتگو فرماتے
(۳۶)نہ کسی کو عیب لگاتے
(۳۷)نہ بخل (یعنی کنجوسی بھی نہ) فرماتے
(۳۸)اپ
نے آپ کو خاص طور پر(especially) تین چیزوں سے بچاتے یعنی جھگڑے، تکبر (arrogance) اور بے کار باتوں سے
(۳۹)کسی کا عیب(مثلاً بُرائی) نہ ڈھونڈتے
(۴۰)صرف وہی بات کرتے جو(آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لیے) ثواب ہو
(۴۱)مسافریا انجان(unknown) آدَمی کے سخت انداز سے ہونے والے سوالات پر بھی صبر فرماتے
(۴۲)کسی کی بات کو نہ کاٹتے، ہاں! اگر وہ بہت لمبی بات کرے تو اُس کو منع فرماتے یا وَہاں سے اُٹھ جاتے
(۴۳) سادَگی(simplicity) ایسی تھی کہ بیٹھنے کیلئے کوئی خاص جگہ بھی نہ رکھی تھی
(۴۴)کبھی چٹائی پر توکبھی زمین ہی پر آرام فرما لیتے
(۴۵)کبھی قہقہہ نہ لگاتے (یعنی اتنی آواز سے نہ ہنستے کہ دوسرے لوگ سُن لیں )
(۴۶)صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ فرماتے ہیں : آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے (یعنی جب مُسکرایا جاسکتا ہو) حضرت عبدُ اللہ بن حارث رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نےاللہ کریم کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ (احترامِ مسلم ص۲۷ تا ۳۰، مُلخصاً)

(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)