’’مسلمان خلیفہ اور پیر صاحبان کی12 حکایت ‘‘

حکایت(01): ’’زمین سے پانی نکل آیا‘‘

مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے کہا کہ میرے والد صاحب پرآپ کاکچھ قرض (loan)باقی ہے ۔ آپ نے فرمایامیں نے معاف کردیا ۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اس قرض کو معاف کروانا نہیں چاہتا لیکن میرے پاس ابھی آپ کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں، ہاں میرے پا س زمینیں (lands)ہیں ۔ آپ میری وہ زمین اپنے قرض میں لے لیں مگر اس زمین میں کنواں (well) نہیں ہے اور پانی حاصل کرنے کے لیے کوئی دوسری چیز بھی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایاکہ ٹھیک ہے میں نے آپ کی وہ زمین لے لی۔پھر آپ اس زمین میں تشریف لے گئے اوروہاں پہنچ کر اپنے غلام کو جائے نماز(وہ کپڑا جو نماز پڑھنے کے لیے بچھایا جاتا ہے)بچھانے کا حکم دیا ( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )اورآپ نے اس جگہ دو(2)رکعت نماز پڑھی اوربڑی دیر تک سجدہ کیا پھر جائے نماز اٹھاکر آپ نے غلام سے فرمایا کہ اس جگہ زمین کھودو۔ غلام نے زمین کھودی تو فوراً وہاں سے پانی نکلنے لگا اور اتنا زیادہ تھا کہ اس زمین کے ساتھ ساتھ دوسری زمینوں کی ضرورت(need) کو بھی پورا کرنے والا تھا۔(اسد الغابہ ،ج۳،ص۱۳۵مُلخصاً) اس سچےواقعے سے یہ سیکھنے کو ملا کہ جب پریشانی(problem) آئے تو نماز پڑھ کر اللہ پاک سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اے ایمان والو! صبر اور نمازسے مدد مانگو، بیشک اللہ صابروں(یعنی صبر کرنے والوں) کے ساتھ ہے۔ (پ ۱، سورۃ البقرۃ، آیت ۴۵) (ترجمہ کنز العرفان
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا جب خلیفہ (caliph)بنے، تو آپ نے کعبہ شریف کی تعمیر (construction)، اُس نقشے کے مطابق(according to that map) کروائی جو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پسند فرمایا تھا یعنی حطیم(وہ جگہ جو کعبہ شریف کے ساتھ آدھے گول دائرے کی شکل میں ہے) کی زمین کو کعبہ شریف کی عمارت(building) میں لے لیا۔ اور دروازہ زمین کے برابر نیچے کر دیا اور مزید دو (2) دروازے بنا دیے۔ (حاشیہ بخاری ،ج۱، ص۲۱۵ ،باب فضل مکہ مُلخصاً) امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شہادت کے بعد، یزیدنے مزیدبہت سے شیطانی کام کیے۔ اس نے مدینہ پاک میں قتل کیے اور اب یہ بد نصیب(unlucky) شخص، جنّتی صحابی حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو شہید(یعنی قتل(murder)) کرنے کے لئے مکّے شریف گیا۔مسجدُ الحرام ( جس مسجد میں کعبہ شریف بھی ہے) کے باہر سے خاص قسم کے ہتھیار(weapons) سے پتھر پھینکے جس کی وجہ سے کعبہ شریف میں آگ لگ گئی۔
(تاریخ الخلفاء، ص۱۶۷ مفہوماً، الکامل فی التاریخ،ج۳،ص۴۶۴مُلخصاً)

حکایت(02): ’’سیبوں کی ٹوکریاں ‘‘

ایک مرتبہ مسلمانوں کے خلیفہ(caliph) حضرت عمربن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکوسیب کھانے کی خواہِش (desire)ہوئی مگر پیسے وغیرہ نہ تھے جس سے وہ سیب خرید سکیں ۔ پھر آپ ایک گاؤں(village) کی طرف کسی کام سے چلے گئے ۔ گاؤں کے راستے میں کچھ لڑکے ملے جنھوں نے (تحفہ دینے کیلئے) ٹوکریاں اُٹھائی ہوئی تھیں اور اُن میں سَیب تھے۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ایک ٹوکری سے سیب اٹھاکر سُونگھا اور پھر واپَس کردیا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ نے تحفے(gift) کے سیب کیوں نہیں لیے، تو فرمایا: مجھے اِس کی ضرورت نہیں ہے ۔عرض کی گئی: کیارسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ابوبکرصِدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہُ اور عمرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُتُحفہ (gift) نہیں لیا کرتے تھے ؟(یعنی وہ حضرات تو تحفہ لے لیتے تھے) توفرمایا : اُن کے لئے ایسی چیزیں تحفہ ہی تھیں مگران کے بعد والوں کےلئے رِشوت ہے (کہ اب لوگ اپنے کام نکلوانے کے لیے حکمرانوں (rulers)، خلیفہ(caliphs) اور بڑوں کو مال یا رقم وغیرہ دیتے ہیں)۔(عمدۃ ُالقاری ج ۹ص ۴۱۸ مُلخصاً) اس واقعے سے معلوم ہوا کہ ہر کسی کا تحفہ(gift) نہیں لینا چاہیے کہ کچھ تحفےرشوت(bribery) بھی ہوتے ہیں۔حضرت عمربن عبدُالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے تُحفے کے سیب نہ لیے کیوں کہ آپ جانتے تھے کہ یہ تُحفہ مجھے خلیفہ ہونے کی وجہ سے دیا جارہا ہے اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو کوئی مجھے تحفہ کیوں دیتا؟ اور یہ بات تو ہر عقلمند آدَمی (wise man)سمجھ سکتا ہے کہ حُکومَتی افسران(government officers) بلکہ پولیس والوں کو لوگ کیوں تُحفہ دیتے ہیں؟یاد رہے!اس طرح تحفہ دینا رِشوت کے حکم میں ہے اوراس طرح رِشوت لینا دینا جہنَّم میں لے جانے والاکام ہے ۔(آدابِ طعام ص۵۴۱ تا۵۴۴ مُخلصاً)

حکایت(03): ’’حضرتامام مہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ خلیفہ(caliph) ہونگے‘‘

جب قیامت قریب آئے گی ، اُس وقت عیسائی(christian)طاقت میں ہونگے ۔ عیسائیوں کا ایک گروہ (group)مُلک روم پر حملہ کر دے (یعنی جنگ کرے)گا اور کسی جگہ پر قبضہ بھی کر لے گا (یعنی اپنی حکومت (government) بنا لے گا)پھرمسلمان، عیسائیوں کے دوسرے گروہ (other group)کے ساتھ (جو پہلے گروہ کا دشمن ہوگا) مل کر پہلے گروہ سے لڑائی کریں گے، لڑائی بہت زبردست ہوگی اور مسلمان جیت جائیں گے۔ جو عیسائی مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کر رہے ہونگے، ا ن میں سے ایک شخص صلیب(cross) کو اٹھا کر کہے گا کہ صلیب غالب آ گئی ہے(یعنی یہ جنگ ہم نے صلیب کی وجہ سے جیتی)پھراسلامی لشکر میں سے ایک شخص غصّے میں آکر صلیب توڑ دے گا(اور کہے گا کہ ہم کلمہ طیبہ(یعنی لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )) کی برکت سے جنگ جیتے ہیں ) پھر روم کے عیسائی مسلمانو ں کے ساتھ کیا ہوا وعدہ (promise)توڑ کر جنگ کے لیے آ جائیں گے۔( سنن ابی داود، الحدیث :۴۲۹۲-۴۲۹۳،ج۴، ص۱۴۸-۱۴۹ مع مراۃ ۷،ص ۲۷۳مُلخصاً ) اس دوسری جنگ میں عیسائیوں کے دونوں گروہ (group)مل جائیں گے اور مسلمانوں کے بادشاہ شہید (یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)) ہو جائیں گے پھر شام میں عیسائی حکومت آجائے گی۔ باقی مسلمان مدینہ پاک چلے جائیں گے اور عیسائی مدینہ پاک کے قریب تک حکومت کریں گے۔ اس وقت مسلمانوں کو امام مہد ی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی ضرورت ہو گی۔(سیرتِ رسول عربی ص۵۲۱) دنیا بھر کےاولیاء کرام حرمین شریفین(یعنی مکّہ پاک اور مدینہ شریف) آ جائیں گے اور ساری دنیا میں کفر(disbelief) پھیل جائے گا ۔ رمضان شریف کا مہینا ہوگا،اولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کعبۃ اللہ کاطواف(یعنی اللہ پاک کا ذکر کرتے ہوئے،کعبۃ اللہ کے چکر لگا رہے) ہوں گے اور حضرت امام مَہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی وہاں ہوں گے، اولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ اُنھیں پہچانیں گے(کہ یہ امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں)، اُن سے عرض کریں گے کہ آپ ہم سب سے بیعت (یعنی خاص وعدہ۔ special promise)لیں ، وہ منع کریں گے تو ایک آواز آئے گی:یہ اللہ پاک کے خلیفہ مہدی (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ)ہیں، ان کی بات سُنو اور ان کا حکم مانو۔ تمام لوگ اُن کے ہاتھ پر بیعت(خاص وعدہ) کریں گے۔پھر یہ وہاں سے سب کو اپنے ساتھ لے کر ملکِ شام کی طرف چلے جائیں گے۔(بہارِ شریعت ج۱، ح۱،ص۱۲۴، مُلخصاً) مستقبل(future) میں ہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہقیامت کے قریب حالات (conditions)بہت خراب ہونگے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ان فتنوں (یعنی دین سے دور کرنے والی حالتوں(conditions))کے آنے سے پہلے ہی جلد ی جلدی نیک اعمال کرلوجو فتنے اندھیری رات (dark night)کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے۔ ان فتنوںمیں آدمی صبح کو مومن اور شام تک کافر ہوجائے گا اور شام کو مومن رہے گا اور صبح تک کافرہوجائے گا،دنیا کی حقیر (اور گھٹیا)چیزوں کے بدلے اپنا دین بیچ ڈالے گا۔(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفتن ، الحدیث:۵۳۸۳، ج۲، ص۲۷۹)
تَعَارُف (Introduction):
حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کا نام”مُحَمّد“ ، والدکا نا م ”عبدُاللّٰہ “ اوروالدہ کا نام” آمنہ “ہو گا۔ آپ حضرت فاطمۃ الزہر اء رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی اولاد سے (یعنی ”سیّد“)ہوں گے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی عمر مبارک اس وقت چالیس(40) سال ہو گی۔(سیرتِ رسول عربی ص۵۲۱) امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑے عالم اور مُجتَہِدبھی ہونگے یعنی چار امام((1) امامِ اعظم (2) امام شافعی(3)امام مالک(4)امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کی طرح مُجتَہِد ہونگے۔ مُجتَہِد ایسے عالم ہوتے ہیں جوقرآن و حدیث کو سمجھ کر اُس میں سے دین کے مسائل نکال کر بتاتے ہیں۔ علماء کرام ان مسائل کو سمجھ کر عام لوگوں کو سمجھاتے ہیں پھر عام لوگ دین کے مسائل پر عمل کرتے ہیں۔ امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بتانے سےدین کے مسئلوں پر عمل کریں گے اور دین کے حکم بتائیں گے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص۲۵۸ ماخوذاً) غوثِ اعظم، اولیاء کرام کے سردار کو کہتے ہیں۔ امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے آنے سے پہلے تک یہ درجہ (rank)ہمارے غوثِ پاک شیخ عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس رہے گا پھر امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دے دیا جائے گا۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص۱۷۸ ماخوذاً)

حکایت(04): ’’حضرتامام مہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ ا ور خطر ناک جنگیں‘‘

حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ جب مکّہ پاک میں اولیاء کرام سے بیعت (یعنی خاص وعدہ۔ special promise)لے لیں گے ، اس وقت ایک شخص ”دمشق“ میں حکومت کر رہا ہو گااور وہ ظالم یزید کے راستے پر چلتے ہوئے اہل بیت کو بری طرح شہید(یعنی (murder)) کر رہا ہو گا، شام اورمصر میں اس کا حکم چلے گا۔اب یہ ایک لشکر(troop) امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے جنگ کرنے کے لئے بھیجے گا جو ناکام (failed) ہوجائے گا ۔اس کے بعد وہ شخص خود لشکر کے ساتھ جنگ کے لئے آئے گا اور مکّے پاک ا ورمدینہ شریف کے درمیان ، ایک جگہ لشکر کے ساتھ ہی زمین میں دھنس (sunk into the ground ہو)جائے گا، صرف ایک شخص زندہ بچے گا جو امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس آکر اس بات کی خبر دے گا (will inform) ، حضرت امام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی اس کرامت کی خبر دور دور تک پہنچ جائے گی(کرامت یعنی اللہ کے ولی کا کوئی ایسا کام کہ جن کو عام انسان نہیں کر سکتا کیونکہ وہ کام عادۃً (as per practice)نہیں ہوتے۔جیسے:مردہ زندہ کردینا، پیدائشی اندھے کو آنکھیں دے دینا،سینکڑوں بلکہ ہزاروں میل (miles)کا فاصلہ چند لمحوں (moments)میں طےکرلیناوغیرہ( ))۔ اس کے بعد شام اور عراق کے مسلمان بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے بیعت کرلیں گے۔ (سنن ابی داو،ح۴۲۸۶،ج۴،ص ۱۴۷مع اشعۃ اللمعات،کتاب الفتن، ج۴،ص۳۳۸ مُلخصاً) اب روم کے عیسائی ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف (against) جنگ کے لیے آجائیں گے۔اس مرتبہ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ آئیں گے۔ان کے لشکر میں اَسّی(80) جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈےکے ساتھ بارہ ہزار (twelve thousand) کا لشکر ہو گا۔امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مکّہ پاک سے مدینہ شریف ، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہونگے پھر ملک شام چلے جائیں گے۔ امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے لشکر میں تہائی حصّہ(33% یعنی 1/3) بد نصیب(unlucky) لوگ ہو نگے، جو جنگ سے بھاگ جائیں گے اور یہ سب لوگ کافر ہو کر مریں گے، ایک تہائی (33% یعنی 1/3) شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)) ہو جائیں گے اور باقی تہائی (33% یعنی 1/3) جنگ جیت جائیں گے۔ اس کے بعد بھی عیسائیوں سے جنگ جاری رہے گی ،دوسرے دن امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پھر جنگ کے لئے نکلیں گے۔مسلمانوں کا ایک گروہ (group)وعدہ کرے گا کہ بغیر جنگ جیتے نہیں آئیں گے یا شہید ہو جائیں گے۔یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ دوسرے دن (next day)پھر ایک گروہ یہی وعدہ کر کے جنگ کے لیے جائے گااور وہ سب بھی شہید ہو جائیں گے۔اسی طرح تیسرے(3rd ) دن بھی ہوگا۔ چوتھے(4th ) دن بقیہ سب مسلمان جنگ کریں گے اور مکمل طور پر کافروں سے جیت جائیں گےمگر اس سے کسی کو خوشی نہ ہو گی کیونکہ اس لڑائی میں بہت سے خاندان ایسے ہوں گے جن میں ایک فیصد (1%یعنی سو میں سے ایک ہی زندہ) بچاہوگا۔ (سیرت رسول عربی ص۵۲۲ تا ۵۲۰ مُلخصاً) پھر مسلمان اچانک (suddenly)سنیں گے کہ ان کے بچوں کے پاس دَجّال (بہت بڑا شیطان)پہنچ گیا ہے تولوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ مال ہو گا وہ اسے چھوڑ کراپنے بچوں کو دَجّال سے بچانے کی سوچیں گے اور دس(10) مسلمانوں کو دَجّال کی خبر لینے کے لیے بھیجیں گےکہ دیکھیں دَجّال آیا ہے یا نہیں ۔ (مسلم،ص۱۱۸۶،حدیث:۷۲۸۱ملخصا مع مراٰۃ المناجیح ،۷/۲۳۶تا۲۴۰ مُلخصاً) حدیث وغیرہ میں قیامت کے قریب ہونے والی جنگ کے واقعےسے یہ پتا چلا کہ قیامت ضرور قائم ہو گی اور قیامت سے پہلے بہت سے امتحان ہونگے۔ ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ فرمایا:‏ تم سب لوگ دَجّال کے فتنے (آزمائش، امتحان)سے اﷲپاک کی پناہ مانگو تو سب لوگوں نے کہا کہ ہم دجال کے فتنوں سے اﷲپاک کی پناہ مانگتے ہیں۔ (صحیح مسلم،کتاب الجنۃ،الحدیث:۲۸۲۷،ص۱۵۳۴)
تَعَارُف (Introduction):
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏زمین ظلم و سرکشی (یعنی اللہ پاک کی نافرمانی۔disobedience) سے بھر جائے گی،پھر میرےگھروالوں اورمیری اولادمیں سے ایک شخص(یعنی امام مہدی) آئےگا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا(پہلے)جس طرح وہ (زمین)ظلم وسرکشی سےبھری ہوئی تھی۔‘‘(مسند احمد،۴/ ۷۳،حدیث:۱۱۳۱۳)

حکایت(05): ’’ کوئی صدقہ نہ لے گا ‘‘

قیامت کے قریب ایک شخص اپنے امام کے پاس آکر کہے گا کہ مجھے کچھ دیجئےتو اُس وقت کے امام مُٹھی بھر بھر کر اُس کے کپڑے میں جو چاہیں گے ڈالنا شروع کر دیں گے یہاں تک کہ کپڑے میں اتنا مال ڈال دینگے جتنا وہ شخص اُٹھا سکے۔ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بارے میں اس طرح کا واقعہ بیان فرمایا (ترمذی،۴/۹۹,حديث:۲۲۳۹ ماخوذاً) ۔جب دجاّل آئے گا تو اس وقت امام مہدیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، مسلمانوں کے امام بن چکےہونگےاور دجاّل کی موت کے بعد جب زمین اپنے خزانے(treasures) نکال دے گی ،اُس وقت یہ واقعہ ہوگا۔ حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے طریقے پر(on the way) ہونگےیہ سخاوت (اور اس طرح دینے ) کا انداز بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا طریقہ ہے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ ہمارے نبی بلکہ نبیوں کے نبی، آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو اتنامال دیا کہ سامان سے بھری ہوئی گٹھڑی(bag) ان سے اٹھائی نہ جا سکی۔(مراٰۃ المناجیح،۷/۲۶۷ ماخوذاً) امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے وقت میں اتنا مال ہو گا کہ آسانی سے کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملے گا۔(مراٰۃ المناجیح، ۳/۷۲ملخصا) جیسا کہ حضرت حارثہ بن وہبرَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ کوئی شخص اپنا صدقہ لے کر نکلے گا تو کوئی لینے والا نہ ملے گا ،آدمی کہے گا کہ اگر تم کل لاتے تو میں لے لیتا آج مجھے اس کی ضرورت نہیں۔(بخاری، ۱/۴۷۶، حدیث:۱۴۱۱، مسلم،حدیث:۲۳۳۷،ص۳۹۲)
قیامت سے پہلے ہونے والے ان حالات (conditions)سے پتا چلاکہ
و دنیا کا نظام (system)چلانے والوں کی بہت برکتیں ہیں،حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے وقت میں بہت برکت ہوگی۔

حکایت(06): ’’سا نپ نُما جِنّ‘‘

ولیوں کے سردار،شَہنشاہِ بغداد، سرکارغو ثُ الاعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے مدرَسے کے اندر اجتماع میں بیان فرمارہے تھے کہ چھت پر سے ایک سانپ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پرگرا۔ لوگ گھبرا گئے (panickedہوگئے)، سب ڈر گئےمگر سرکا رِ بغداد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی جگہ سے نہ ہلے۔سانپ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے کپڑوں میں گھس گیااور تمام جسمِ سے لپٹتاہو اگِرِیبان شریف(collar) سے باہَر نکلا اور گر دن مبارَک پرلپٹ گیا۔ مگر قربان جایئے! میرے مرشد شَہَنشاہِ بغداد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پرکہ ذرّہ برابر نہ گھبرائے نہ ہی بیان بند کیا۔ اب سانپ زمین پر آگیا اوردُم پر کھڑا ہوگیا اور کچھ کہہ کر چلاگیا ۔ لوگ جمع ہوگئے اور عرض کرنے لگے: حضور ! سانپ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے کیا بات کی ؟ فرمایا: سانپ نے کہا: میں نے اللہ پاک کے بَہُت سارے ولیوں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کو تنگ کیا ہے مگر آپ جیسا کسی کو نہیں پایا۔(مُلَخَّص ازبَہجۃُ الاسرارلِلشَّطنوفی ص۱۶۸)
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
تَعَارُف (Introduction):
غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام ''عبدالقادر''آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی کُنْیَت(kunyah) ''ابومحمد''اورالقابات ''محی الدین ''، ''غوثُ الاعظم''وغیرہ ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ۴۷۰ھ میں بغدادشریف کے قریب جیلان میں پیدا ہوئے اور۵۶۱ھ میں بغدادشریف میں انتقال فرمایا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مزار شریف مُلک عراق کے مشہورشہربغدادشریف میں ہے۔(بہجۃالاسرارومعدن الانوار، ص۱۷۱،ابو صالح سیدی عبدالقادرالجیلی، ج۱،ص۱۷۸)آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ والد صاحب کی طرف سے حسنی(یعنی امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد) ہیں اور والدہ صاحبہ کی طرف سے حسینی (یعنی امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد اور)سیّد ہیں۔(بہجۃالاسرار،معدن الانوار،ذکرنسبہ،ص۱۷۱) آپٍ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ابتدائی تعلیم(early education) جیلان میں حاصل کی، پھر مزید تعلیم کے لئے 488سنِ ہجری میں بغداد تشریف لائے اور علم ِ دین حاصل کیا اور بہت ہی بڑے عالم بنے ۔(نزہۃ الخاطر الفاتر، ۲۰بتغیر) ایک مرتبہ ایک سوال آیا کہ ایک شخص نے تین (3)طلاقوں کی قسم اس طرح کھائی ہے کہ وہ اللہ پاک کی ایسی عبادت کرے گا کہ جس وقت وہ شخص اُس عبادت کو کرے گا تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کررہا ہو، اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین(3) طلاقیں ہوجائیں۔ علماء کرام نے یہ مسئلہ غوثِ پاک سیّد عبدُ القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی طرف بھیجا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفوراً اس کا جواب فرمایا کہ وہ شخص مکۂ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور اکیلے طواف کرکے اپنی قسم کو پورا کرے۔(بہجۃ الاسرار، ص:۲۲۶) ان دونوں حکایات سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ کے ولی ، اللہ پاک پر بھروسہ(trust) رکھنے والے ہوتے ہیں اور اللہ کے ولی بہت بڑے عالم بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں اگر نیک بننا ہے تو عبادت کے ساتھ ساتھ علم بھی حاصل کرنا ہوگا۔
سلسلہ قادریہ کی شان:
سرکارِ بغداد غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں اپنے مرید بلکہ ان کے مریدوں کا سات پشت(یعنی اولاد پھر اُس کی اولاد) تک ہر ایک معاملے کا ذمہ دار ہوں اور اگر میرے مرید کا ستر(کپڑا وغیرہ)مشرق میں کھل جائے اور میں مغرب میں ہوں تو میں اس کو چھپانے والا ہوں۔ (بہجۃ الاسرار، ص۱۹۱)

حکایت(07): ’’ بارش برسنے لگی‘‘

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں ایک نُجُومی(astrologer) حاضر ہوا ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اُس سے فرمایا: آپ کے حساب سے بارِش کب ہوگی؟ اس نے کہا : اس مہینے میں پانی نہیں، بارش نہیں ہوگی۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اللہ پاک ہر بات پر قادِر ہے وہ چاہے تو آج ہی بارِش ہو جائے۔ آپ سِتاروں کو دیکھ رہے ہیں اور میں ستاروں کے بنانے والے ، اللہ پاک کی قدرت اور طاقت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ دیوار پر گھڑی (clock)لگی ہوئی تھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اُس سے فرمایا :کتنے بجے ہیں ؟ عَرض کی: سوا گیارہ(11:15am)۔ فرمایا:بارہ بجنے میں کتنی دیر ہے؟ عرض کی: پون گھنٹہ(45 minutes)۔ فرمایا:ابھی بارہ(12) بج سکتے ہیں یا نہیں ؟ عَرض کی: نہیں ، یہ سُن کر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہاُٹھے اور گھڑی کی سُوئی گھمادی، فوراً ٹن ٹن بارہ(12) بجنے لگے۔ نُجُومی سے فرمایا : آپ تو کہتے تھے کہ ابھی بارہ (12) بج ہی نہیں سکتے۔ تو اب کیسے بج گئے؟ عَرض کی: آپ نے سُوئی گھمادی۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : اللہ پاک قادِرہے کہ جس سِتارے کو جس وَقت چاہے جہاں چاہے پہنچادے۔ میرا ربّ چاہے تو آج اور ابھی بارِش ہونے لگے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اِتنا کہا ہی تھا کہ ہر طرف بادل(cloud) آگئےاور بارِش شروع ہوگئی ۔ (انوارِ رضا ، ص ۳۷۵ ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ عالم صاحب ، اللہ پاک کی قدرت پر زیادہ یقین (sure) رکھنے والے ہوتے ہیں۔علمِ دین کی بہت برکتیں ہیں، ہمیں علمِ دین حاصل کرنا چاہیے۔ )
تَعَارُف (Introduction):
اعلیٰ حضرت، رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت ہی بڑے عالم تھے یہاں تک کےعرب شریف اور دیگر ملکوں کے بڑے بڑے عالموں نے آپ کو مُجَدِّد کہا(یعنی آپ اتنے بڑے عالم تھے کہ سو(100) سال میں ایسا عالم ہوتا)۔آپ ایسے عاشقِ رسول تھے کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کے خلاف کوئی بات نہ کر سکتا تھا۔کچھ لوگوں نے مسلمانوں کے دلوں میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کم کرنے کی کوشش کی تو آپ نے مسلمانوں کو ان سے بچایا اور عشق رسول کو خوب عام کیا۔ آپ پچاس(50)قسم کے علم کے عالم تھے۔ آپ نے قرآنِ پاک کا ترجمہ بھی کیا جس کا نام: ترجمۂ کنزالایمان ہے جو عاشقانِ رسول کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔آپ نے تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں۔آپ چوّن(54) سال تک مسلمانوں کو دینی مسائل کے فتوے لکھ لکھ کر دیتے رہے۔ اعلیٰ حضرت، رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے جو فتوے ملے، انہیں جمع کیا گیا، عربی وغیرہ کا ترجمہ کیا گیا تو یہ تیس (30)جلدوں(volumes) کا فتاویٰ رضویہ بن گیا، جس کے صفحات(pages) تقریباً 21656 ہیں۔ اعلیٰ حضرت، رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ سلسلہ قادریہ کا بہت بڑے پیر صاحب بھی ہیں۔۔
سلسلہ قادریہ کی شان:
حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: بے شک میرا ہاتھ میرے مرید پر ایسا ہے جیسے آسمان زمین پرہے۔ (بہجۃ الاسرار، ص۱۹۳)

حکایت(08): ’’ ٹرین رُکی رہی! ‘‘

سیِّدایوب علی شاہ صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک بار پِیلی بِھیت(ہند۔(_country_)) سے بریلی شریف (اپنے گھر) ٹرین سے جارہے تھے۔ راستے میں نواب گنج کا اسٹیشن (station) آیا،جہاں گاڑی صرف دو(2) مِنَٹ کے لیے رُکتی ہے اور مغرِب کا وَقت ہوچکا تھا، جیسے ہی گاڑی رُکی آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے گاڑی کے اندر ہی اقامت (یعنی وہ پیارے کلمات کہ جو جماعت سے نماز پڑھنے سے پہلے کہتے ہیں) کہی اور نماز کی نیّت باندھ لی(کیونکہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ چلتی ٹرین میں نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ زمین پر یا ٹرین کے رُک جانے پر پڑھتے تھے )، غالباً پانچ آدمی آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے موجود تھے مگر ابھی انہوں نے نماز شروع نہیں کی تھی کہ میری نظر غیر مسلم گارڈ پر پڑی جو پلیٹ فارم پر کھڑا سبز جھنڈی (green flag)ہلا رہا تھا (یعنی ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا کہہ رہا تھا)۔ اب میں نے کھڑکی سے دیکھا تو گاڑی چلنے کے لیے تیار تھی مگر گاڑی رُکی رہی ، چل نہ سکی اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے آرام سے مغرب کے تین فَرض مکمل پڑھ لیے اور جس وقت سلام پھیرا، اُسی وقت گاڑی چل پڑی ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پیچھے نماز پڑھنے والے فوراً سُبحٰنَ اللہ! سُبحٰنَ اللہ! سُبحٰنَ اللہ! کہنے لگے ۔ سیِّدایوب علی شاہ صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےیہاں ایک بات بہت پیاری کہی کہ: اگر جماعت پلیٹ فارم (platform)پر کھڑی ہوتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ گارڈ (guard)نے ایک بُزُرگ کو دیکھ کر گاڑی روک لی ہوگی مگرایسا نہ تھا کیونکہ نَماز گاڑی کے اندر پڑھی جا رہی تھی ۔اِس تھوڑے وَقت میں گارڈ کو کیا خبر ہو سکتی تھی کہ اللہ پاک ایک کا نیک بندہ گاڑی میں نماز پڑھ رہا ہے ۔ (ایضا ًج ۳ ص ۱۸،۱۹۰) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نیک بندوں کی بھی خوب شان ہے کہ آپ نے تو نماز پڑھ ہی لی، جو آپ کے پیچھے پڑھ رہے تھے، وہ بھی نماز پڑھنے میں کامیاب ہوگئے۔

حکایت(09): ’’ مزدور شہزادہ ‘‘

بریلی شر یف کے کسی مَحَلّے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بلایا گیا تھا۔ محبّت کرنے والوں نے اپنے یہاں لانے کے لیے پالکی ( یعنی ایسی ڈولی کہ جسے چار (4)آدمی اپنے کندھوں (shoulders)پر اُٹھاتے ہیں) بھیجی۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پالکی میں بیٹھ گئے اور چار(4)مزدور(laborers) نے اُسے اپنے کندھوں پر اُٹھا یا اور چل پڑے۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پالکی میں سے آواز دی:’’پالکی روک دیجئے‘‘ پالکی رُک گئی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فوراً باہَر آگئےاور پریشانی میں مزدوروں سے فرمایا: سچ سچ بتایئے آپ میں سیِّدزادہ (یعنی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شہزادی، حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی اولاد میں سے) کون ہے؟ کیونکہ مجھےسرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے، ایک مَزدُور(laborer) نے کہا: حُضور ! میں سیِّدہوں۔ ابھی اس کی بات مُکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ اہلسنّت کے امام ، سلسلہ قادریہ کےبزرگ احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنا عِمامہ شریف اُن سیِّد صاحب کے قدموں میں رکھ دیا۔ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹَپ آنسو گررہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کرفرمارہے ہیں :بی بی فاطمہ(رَضِیَ اللہُ عَنْہَا )کے شہزادے! مجھے مُعاف کردیجئے، مجھ سے غلطی ہوگئی ! جن کی نَعلِ پاک (یعنی مُبارک چپل)میرے سر کے لیے عزّت کا تاج ہے، اُن پیارے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نواسے(grandson)کے کاندھے (shoulders) پر میں بیٹھ گیا، اگرقِیامت کے دن شفاعت فرمانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پوچھ لیا کہ احمد رضا! کیا میرے بچّے کا کندھا اِس لیے تھا کہ تو اس پر بیٹھ جائے ؟تو میں کیا جواب دوں گا! سیّد صاحب نے کئی بار زَبان سے مُعاف کردینے کا کہا مگر پھر بھی امام اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: پیارے شہزادے! میری غلطی کی مُعافی یہ ہے کہ اب آپ پالکی میں بیٹھیں گے اور میں پالکی کو کاندھوں پر اُٹھاؤنگا۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے محبّت کرنے والے اس بات کو سن کر رونے لگے لیکن واقعی ایسا ہوا کہ مزدور شہزادے کو پالکی میں بیٹھنا ہی پڑا اور دنیا نے دیکھا کہ امام اہلسنّت نے انہیں اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا ۔ (انوارِ رضا ص ۴۱۵، مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے امام، صرف ہمارےامام ہی نہیں بلکہ عاشقوں کے بھی امام ہیں اور سیّدوں کی تعظیم (respect) سکھانے والے ہیں اور یہ بھی کیا خوب شان ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی خوشبو محسوس کرکے سیّد کو پہچان لیا۔

حکایت(10): ’’ اچھا! لاؤ‘‘

مولانا ضیاءُ الدِّین قادری مدنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جنہیں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خلافت(یعنی اس بات کی اجازت ) دی تھی(کہ آپ لوگوں کو مرید کر سکتے ہیں) کی عمر 100 سال سے زیادہ تھی ۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 77 سال سےمدینے پاک میں رہے، آپ کے گھر میں روزانہ محفلِ میلاد ہوتی تھی ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی نظر کمزور ہوگئی توڈاکٹرزنے علاج کےلئے (مدینے پاک سے باہر)جدّہ شریف چلنےکاکہا تو فرمایا: آنکھوں کے علاج کےلئے مدینہ پاک نہیں چھوڑ سکتا۔(سیدی ضیاء الدین احمدالقادری، ۱/۵۲۳مختصراً) ۔جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ نہ کھاتے تھے مگر جب یہ عرض کیا جاتا:دودھ اور شہد نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت پسند تھا۔توفرماتے: اچھا! لاؤ۔پھرچند گھونٹ پی لیتے۔(انوارِ قطبِ مدینہ ،ص۲۷۵) اس حکایت سے یہ سیکھنے کوملا کہ پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جن چیزوں کوپسند کیا، وہ ہمیں معلوم ہونی چاہیے اور ایسی کھانے کی چیزیں ہمیں شوق سے کھانی چاہئیں ۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت مولانا ضیاءُ الدِّین رضوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رات جاگ کر عبادت کیا کرتےاور تہجُّد کی نماز پڑھنے کی عادت تھی ۔ اس کے علاوہ نفل نمازیں (سورج نکلنے کے تقریباً بیس (20)منٹ بعد پڑھے جانے والی نفل نمازیں) اِشراق،چاشت اور(مغرب کے فرض کے بعد چھ(6) رکعت نماز) اوّابین کی نمازیں پڑھنے کے بھی عادی تھے۔ ہر اسلامی مہینے کی15،14،13تاریخ کےروزے رکھا کرتے (لیکن بڑی عید سے چار(4)دن (10,11,12,13ذوالحجۃ)روزہ نہیں رکھتے تھے کہ ان دنوں میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں)یہاں تک آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بوڑھے اور کمزور ہوگئے مگر پھر بھی آپ یہ نفل روزے رکھا کرتے تھے۔(سیدی ضیاءالدین احمد القادری،۱ / ۴۸۶،بتغیر) آپ کا لقب(title)قُطبِ مَدِیْنہ (مدینے کے قطب) تھا۔مسلمان اُس ولی کو”قطب“ کہتے ہیں کہ جس کے پاس کسی جگہ کے مسلمانوں کے روحانی کام ہوں۔(نام رکھنے کے احکام ص۱۶۹ مُلخصاً)آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال جمعہ کے دن4ذوالحجۃ 1401 ہجری ، 2اکتوبر 1981ء کو ہوا۔آپ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔ (سیّدی قطبِ مدینہ ،ص ۱۷ملخصاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ذریعے امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہسلسلہ قادریہ میں داخل ہوئے یعنی حضرت مولانا ضیاءُ الدِّین مدنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے پیر صاحب ہیں۔
سلسلہ قادریہ کی شان:
غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : کوئی میرے وسیلے سے اللہ پاک سے دُعاکرے گا تو اللہ پاک اُس کی دُعاکو پورا فرمادے گا۔ ( بہجۃ الاسرار ، ص۱۹۷ مُلخصاً)

حکایت(11): ’’میں مرید کیوں بنا؟‘‘

باب المدینہ( کراچی) کے مقیم ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میری لیاقت نیشنل ہسپتال( کراچی) میں ڈیوٹی ہے ۔ایک بارکوئی عالم صاحب تشریف لائے اورمیں نے ان کو بتایا کہ میں’’ قادری عطاری‘‘ ہوں تو انہوں نے پوچھاکہ کیا آپ ’’الیاس قادری صاحب‘‘ کے مرید ہیں۔ میں نے عرض کی:جی ہاں اور مزید بتایا کہ میں مرید اس طرح ہوا کہ ایک دن امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کسی مریض کی عیادت (ملاقات وغیرہ)کیلئے ہسپتال تشریف لائے۔ مجھے شخصیات(یعنی مشہور لوگوں) سے آٹو گراف (autograph)لینے کا بہت شوق تھا جس کے لئے میں نے ہسپتال کاایک رجسٹر ،اسی کام کے لیے رکھا ہوا تھا۔ میں نے واپسی کے وقت وہ رجسٹر کھول کر امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے سامنے کر دیا کہ آٹو گراف دے دیں۔ آپ نے رجسٹر بند کرنے کے بعد اپنی جیب سے پیڈ نکالا اور اس پر جوکچھ تَحریر فرمایااسکا مفہوم یہ ہے کہ یہ رجسٹرہسپتال کے کاموں کیلئے ہے، آپ کو آٹوگراف لینے کے لئے نہیں دیا گیا۔ ساتھ میں کچھ دعائیں تَحریر فرما کر پرچی بھی مجھے دےدی ۔مجھے بہت اچھا لگا اور میں فوراً آپ کے ذریعے’’ قادری‘‘ سلسلے میں مرید ہو کر’’عطاری ‘‘بن گیا۔(حقوق العباد کی احتیاطیں، ص۱۸مُخلصاً) اس حکایت سے پتا چلا کہ ادارہ سرکاری(governmentکا) ہو یا نِجی(private)، اُس کی چیزیں جن کاموں کے لیے ہوں، انہیں کاموں میں استعمال کرنی چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
1981 ؁ء میں دعوتِ اسلامی کے نام سے ایک تحریک بنی ، آج اس کا پیغام دنیا کے تقریباً تمام ممالک تک پہنچ چکا ہے اور کئی شعبہ جات کے ساتھ مُختلف(different) ممالک میں دین کی خدمت کا سلسلہ جاری ہے۔ یقیناً اس مختصر سے وقت (short time)میں ترقیوں میں ایک شخصیت کی کوششیں پہلے دن سے جاری رہیں، جنہیں آج دنیا شیخِ طریقت ،امیرِ اہلسنت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار ؔقادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے نام سے پہچانتی ہے۔آپ نے نہ صرف خود سُنتوں پر عمل کیا بلکہ علاقہ علاقہ،شہر شہر جا جاکر درس وبیان اور انفرادی کوشش کے ذریعے سُنّتوں کو عام کیا۔ اَلْحَمْدُللّٰہ! آپ کی کتابوں وغیرہ کی تعداد سو(100)سے زیادہ ہے ،ان میں سے مختلف(different) کتابوں کا 36 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔آپ کی جانب سے مدنی مذاکروں کا سلسلہ ہوتا ہے جس میں آپ علم وحکمت سے بھرپور جوابات دیتے ہیں ، ان سلسلوں کی تعداد مجموعی طور پر(overall) ہزاروں تک پہنچ چکی ہے، جس میں سے کچھ کے تحریری رسائل(written booklets) بھی آچکے ہیں ۔امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سلسلۂ عالیہ قادریہ میں مرید بھی کرواتے ہیں ۔امیرِ اہلسنّت نے اپنا آئیڈیل اعلیٰ حضرت،مجددِدین وملت امام احمدرضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بنایا ہے، اور اپنی زندگی کا سب سے پہلا رسالہ بھی ’’ تذکرۂ احمدرضا ‘‘ لکھا۔
سلسلہ قادریہ کی شان:
سرکارِ بغداد غوثِ پاک شیخ عبدُ القادررَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اللہ پاک نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مریدوں اورمیرے دوستوں کو جنّت میں داخِل کرے گا ۔ میں نے (قبر میں سوال کرنے والے دونوں فرشتوں)مُنکَر نکِیرسے اس بات کا وعدہ لیا ہے کہ وہ قَبر میں میرے مریدوں کو نہیں ڈرائیں گے ۔ (بہجۃُ الاسرار ص۱۹۳،ُملَخَّصا)

حکایت(12): ’’پیشانی(forehead) چمک رہی تھی ‘‘

25رجب المرجب 1430ھ بمطابق 2009-07-18 ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات بابُ المدینہ کراچی میں کئی گھنٹے تک بارش کا سلسلہ ہوا جس کی وجہ سے تقریباً 3سال 7مہینے 10دن پہلے انتقال کرنے والے مفتی ٔدعوت اسلامی الحاج الحافظ محمد فاروق عطاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی قبر کھل گئی۔ جو اسلامی بھائی صحرائے مدینہ میں موجود تھےانہوں نے قسم کھا کر کچھ یوں بتایا کہ ہم نے دیکھا کہ مفتیٔ دعوتِ اسلامی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی مبارک لاش اور کفن اِس طرح صحیح تھے کہ جیسےابھی ابھی انتقال ہوا ہو۔چہرے کی ایک طرف سے کفن ہٹا ہوا تھا، عمامہ شریف ، کان کے قریب زلفوں کا کچھ حصہ اور چمکتی ہوئی پیشانی (forehead) بھی نظر آ رہی تھی ۔ اس واقعے کے تقریباً دس (10)دن بعد شرعی رہنمائی لینے کے ساتھ مفتیان کرام ، علمائے کرام، اور ہزاروں اسلامی بھائیوں کی موجود گی میں جانشینِ امیرِ اہلسنّت ابو اُسید حاجی عبیدرضا ابن عطارؔمدنی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہقبر میں ہونے والا سوراخ دیکھنے کے لیے قبر میں اُترےتاکہ یہ اندازہ لگائیں کہ جسم کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے یا نہیں ۔ اُنہوں نے اندر کا جائزہ لیا view) کیا)اور اندر ہی سے دعوتِ اسلامی کے’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ کے مفتی صاحب کو صورتِ حال (condition)بیان کی انہوں نے بدن باہرنہ نکالنے کا حکم فرمایا، جانشینِ امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کومُووی کیمرہ دیاگیا، پرانی قبر کے اندرونی ماحول اور اوپر سے مٹی وغیرہ گرنے کے باوجود اَلْحَمْدُلِلّٰہ! اُنہوں نے عمامہ شریف، پیشانی مبارک اور زلفوں کے بعض حصّے کی مووی بنالی، جو کہ ’’صحرائے مدینہ‘‘میں لگائی گئی مختلف اسکرینوں پر ہزاروں اسلامی بھائیوں نے دیکھی(اور آج بھی www.dawateislami.netسے دیکھی جاسکتی ہے)۔ (فیضان سنت،باب غیبت کی تباہ کاریاں ،جلد۲،ص ۴۶۶ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ نیک لوگوں، نیک نسبتوں اور نیک ماحول کی بہت زیادہ برکتیں ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر تحریک ،دعوتِ اسلامی کی'' مرکزی مجلسِ شوریٰ ''کے رُکن،شیخ طریقت، عالم شریعت، پابندِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار ؔقادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے مرید، مُفْتِئ دعوتِ اِسلامی الحاج اَلحافِظ اَلقاری حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد فاروق عطارِی مدنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بارے میں خود ان کے پیر ومرشد یعنی امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں کہ میراحُسنِ ظن(یعنی ان کے بارے میں اچھا گمان) ہے کہ وہ دعوتِ اسلامی کے مخلِص مبلِّغ اور اللہ پاک سے ڈرنے والے بُزُرگ تھے اورگویا اِس حدیث ِ پاک میں جس طرح زندگی گزارنے کا فرمایا گیا ہے، اُن کی زندگی ایسی ہی تھی ، حدیث میں ہے : کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌیعنی دنیا میں اس طرح رہو کہ گویا تم مسافر ہو ۔ (صَحیح بُخاری ج ۴ ص ۲۲۳ حدیث ۶۴۱۶) ۱۸محرم الحرام۱۴۲۷ھ بمطابق 17-2-2006 بروز جُمعَہ نَمازِ جمعہ پڑھنے کے بعد جب اپنے گھر(گلشنِ اقبال، بابُ المدینہ کراچی ) آئے تو اچانک(suddenly) دل کی حرکت بند ہونے کی وجہ سے تقریباً 30 سال کی عمر میں جوانی میں ہی انتِقال فرماگئے تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو صحرائے مدینہ ، باب المدینہ کراچی میں دفن (buried)کیا گیا ۔ (فیضان سنت،باب غیبت کی تباہ کاریاں ،جلد۲،ص ۴۶۶ مُلخصاً)