حکایت(01): ’’ بیٹا تم جن تو نہیں ہو ‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جب چھوٹے تھے تو گھر پر ایک قاری صاحِب قرآنِ پاک پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک دن قاری صاحِب کسی آیتِ میں بار بار ایک لفظ کو ’’زَبَر‘‘ کے ساتھ پڑھا رہے تھے مگر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ’’زیر‘‘ پڑھتے رہے۔جب دادا جان مُفتی مولانا رضاعلی خان صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہ دیکھا تو شہزادے(یعنی اعلیٰ حضرت) کو اپنے پاس بُلایا اور دوسرا (second)قرآنِ پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں’’زیر‘‘ ہی تھا یعنی پہلے (first)قرآنِ پاک میں لکھنے والے نے غلط لکھ دیا تھا(اس وقت قرآنِ پاک ہاتھ سے بھی لکھے جاتے تھے اور اب تقریباً پرنٹ (print)ہوتے ہیں)۔اب دادا جان نے پوچھا کہ بیٹے جس طرح قاری صاحب پڑھاتے تھے تم اُسی طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے؟ عرض کی: میں اُس طرح پڑھنا چاہتا تھا مگر زَبان سے’’ زیر‘‘ ( یعنی صحیح) ہی نکلتا تھا۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خود فرماتے تھے کہ میں نے جن استاد صاحب سے شروع میں پڑھا، جب وہ مجھے سبق پڑھا دیا کرتے تو میں ایک دو مرتبہ سبق دیکھ کر کتاب بند کر دیتا پھر جب وہ سبق سنتے تو بالکل صحیح ہوتا، کوئی لفظ بھی آگے پیچھے نہ ہوتا ۔ایک دن استاد صاحب مجھ سے فرمانے لگے کہ احمدرضا ! یہ بتاؤ کہ تم آدَمی ہو یا جِنّ؟ کہ مجھ کو پڑھا نے میں دیر لگتی ہے مگر تم کو یاد کرنے میں دیر نہیں لگتی! (حیاتِ اعلٰی حضرت ج ۱ ص ۶۸) معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بچپن(childhood)ہی سے بہت ذہین(intelligent) تھے
حکایت(02): ’’7,6,4اور 8 سال کے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے تقریباً ساڑھے چار(4 1/2) سال کی عمر میں مکمل قرآنِ پاک پڑھ لیا تھا۔ جب چھ (6)سال کے ہوئے تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیدائش (birth)کے مہینے،ربیع الاول میں منبر(یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں) پر بیٹھ کرپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کو بیان کیا(حیات اعلی حضرت، ۲/۷، مُلخصاً)۔جب بھی آپ میلاد شریف کی محفل میں آتے اُس وقت سے لے کر آخر تک دو زانو(جس طرح نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھتے ہیں، اسی طرح) بیٹھتے بلکہ بیان کرتے ہوئے، منبر شریف پر بھی اسی طرح بیٹھتے لیکن آخر میں کھڑے ہو کر صلوٰۃ وسلام پڑھتے۔(حیاتِ اعلٰی حضرت ج۱ ص۹۸، مُلخصاً) نماز سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بہت محبّت تھی کہ امام صاحب کے پیچھے، مسجد میں نماز پڑھتے بلکہ نماز شروع ہونے سے پہلے ہی مسجد پہنچ جاتے اور امام صاحب جب نماز شروع کرتے ، اسی وقت آپ بھی نماز شروع کرتے (یعنی آپ کی پہلی تکبیر بھی نہیں نکلتی تھی)۔سات(7) سال کے ہوئے تو رَمَضانُ المبارَک میں روزے رکھنے شُروع کر دیئے۔( دیباچہ فتاوٰی رضویہ ج۳۰ ص ۱۶) تذکرہ امام احمد رضا،ص۴( جب اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عمر(age) آٹھ سال ہوئی، اُس وقت آپ نے عربی گرامر کی کتاب” ہدایۃُ النحو“ پر عربی زبان میں کتاب لکھ دی ۔(حیات اعلی حضرت، ۲/۷، مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بچپن(childhood) میں بھی عام بچوں کی طرح نہیں تھے بلکہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں بھی اتنی عربی جانتے تھے کہ عربی زبان میں کتاب لکھ لی ۔
حکایت(03): ’’ بچوں کا روزہ ایسا ہی ہوتا ہے ‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہچھوٹے سے تھے کہ رمضان کا پیارامہینا آیا تو اس میں اعلیٰ حضرت کا پہلا روزہ رکھنے کا پروگرام(program) رکھا گیا ، گھر میں افطاری کے لیے خوب سامان تیار کیا گیا،ایک کمرے میں فیرینی (دودھ سے پکے ہوئے چاول کی میٹھی ڈش (dish)(کے پیالے جمانے کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ دوپہر ہوئی تو سخت گرمی تھی، اعلی حضرت کے والد صاحب آپ کو کمرے میں لے گئےاور دروازہ بندکرکے ایک پیالہ اٹھا کر دیتے ہوئےکہا: اِسے کھا لو۔اعلٰی حضرت جو اس وقت بچّے تھے عرض کرنے لگے کہ :میرا توروزہ ہے، میں کیسے کھاؤں؟ والد صاحب نے فرمایا کہ: بچّوں کا روزہ ایسا ہی ہوتا ہے ،لو کھالو ،میں نے دروازہ بند کردیا ہے ،کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے ( یاد رہے! کہ بچّہ روزہ رکھے اور کھانا مانگے تو کھانا وغیرہ دینا ہوگا)۔ اعلٰی حضرت نے عرض کیا کہ: جس کے حکم سے روزہ رکھا ہے ،وہ (یعنی اللہ پاک )تو دیکھ رہا ہے۔یہ سنتے ہی اعلی حضرت کے والدصاحب کی آنکھوں سے (خوشی) کے آنسو نکل آئے اور کمرہ کھول کر آپ کو باہرلے آئے ۔(حیات اعلیٰ حضرت ،ص ۸۷،مکتبہ نبویہ لاہور) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے دل میں بچپن(childhood) ہی سے اللہ پاک کا خوف تھا ۔
حکایت(04): ’’ پہلا فتویٰ دے دیا ‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے والد صاحب مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے دینی تعلیم (religious education) حاصل کی یعنی آپ نے اپنے والد صاحب سے اتنا پڑھا کہ آپ تیرہ (13)سال دس (10)مہینے اورچار(4) دن کی عُمر (age)میں ، عالم بن گئے۔اسی دن ایک دینی مسئلہ معلوم کرنے کے لیے سوال آیا اور سوال بہت مشکل تھا۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے دین اور شریعت کے اصولوں کے مطابق(according to the principles of sharia) اس مشکل سوال کا بالکل صحیح جواب لکھ کر والد صاحب کو دے دیا۔ والد صاحب مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اُس جواب کو چیک(check) کیا تو بہت خوش ہوئے اور آپ کو لکھ کر دین کے مسائل کے جواب اور فتویٰ دینے کی اجازت بھی دے دی یعنی اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ تیرہ (13)سال دس (10)مہینے اورچار(4) دن کی عُمر(age) میں عالم بنتے ہی مُفتی بھی بن گئے اور اپنی باقی پوری زندگی دین کے مسائل کے جواب دیتے رہے۔(حیاتِ اعلٰی حضرت ج ۱ ص ۲۷۹، ماخوذاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے سب جوابات جمع نہ ہوسکے، جتنے جمع ہوئے جب ان کی عربی وغیرہ کا ترجمہ کیا گیا تو وہ بائیس ہزار(22,000) سے بھی زیادہ صفحات بن گئے، دنیا کے مختلف ممالک (different countries) کے علماء نے آپ کو مُجَدِّد کہا یعنی آپ کو اتنا بڑا عالم کہا کہ سو(100)سال میں اتنےبڑےعالم پیدا ہوتے ہیں ۔ اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت چھوٹی عمر میں بہترین(best) مُفتی بن گئے تھے
حکایت(05): ’’ صرف ایک مہینے میں قرآنِ پاک یاد کرلیا‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑت عالم تھے کہ لوگ آپ کو خط(letters) بھی لکھا کرتے اور دینی مسائل معلوم کرتے تھے۔اس وقت امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے قرآنِ پاک حفظ(یعنی یاد) نہیں کیا تھا مگر لوگ آپ سے بہت محبّت کرتے اور آپ کے بارے میں لوگوں کے خیالات بہت اچھے تھے، کچھ لوگ آپ کو حافظ سمجھتے تھے اور آپ کو حافظ بھی لکھ دیتے تھے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کئی خطوط(letters) میں اپنے نام سے پہلے” حافظ“لکھا دیکھا تو ذہن بنا کہ مسلمانوں کی اس بات کو سچا کر دیا جائے لھذا آپ نے نیّت کر لی کہ میں قرآنِ پاک کو یاد کر لونگا۔ سیِّد ایّوب علی صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دین کے کاموں میں بہت مصروف (busy) رہا کرتے تھے لھذا آپ کے پاس قرآنِ پاک حفظ کرنے کا زیادہ وقت نہ تھا، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ عشاء کا وضو کر کے مسجد تشریف لائے اور عشاء کی جماعت شروع ہونے سے پہلے ایک پارہ اس طرح پڑھ لیا کہ وہ پارہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو یاد ہوگیا اور اس طرح آپ نے تیس (30) دن میں تیسوں پارے یاد کر لیے۔ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خود کچھ اس طرح فرماتے ہیں کہ : میں نے قرآنِ پاک حفظ(یعنی یاد) اس لیے کیا کہ جو مسلمان مجھے ” حافظ“ کہتے ہیں،اُن کا کہنا غلط نہ ہو جائے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،ص٢٠٨، مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت ذہین(intelligent) تھے کہ روزانہ(daily) چند منٹ میں ایک پارہ یاد کر لیتے اور ایک مہینے میں مکمل(complete) قرآنِ پاک یاد کرلیا۔
حکایت(06): ’’ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اورجماعت کے ساتھ نمازیں ‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےپاؤں میں کچھ مسئلہ ہو گیا، تو خاص ڈاکٹر surgeon) نے اُس انگوٹھے کا آپریشن کیا، پٹّیbandage) باندھنے کے بعد عرض کی : حضور! آپ بالکل نہ چلیں تو یہ دس بارہ(10-12) دن میں ٹھیک ہو جائے گا،ورنہ زیادہ وقت لگے گا۔ یہ کہہ کر ڈاکٹرچلے گئے۔ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مسجد میں جا کر ہی جماعت سے فرض نماز پڑھتے تھے۔ جب ظہر کا وقت آیا تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے وُضو کیا، کھڑے نہیں ہوسکتے تھے اس لئے زمین پر بیٹھے بیٹھے،آہستہ آہستہ آگے ہوتے رہے اورباہر دروازے تک آگئے، لوگ سمجھ گئےاور انہوں نے کُرسی پر بٹھا کر آپ کومسجِدمیں پہنچا دیا اور اُسی وقت رشتہ داروںوغیرہ نے یہ سوچا کہ ہر اذان کے بعد چار(4) آدمی کرسی لے کر آجائیں گے اور پلنگ سے ہی کرسی پر بٹھا کر مسجد لے جائیں گے۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک مہینا چلتا رہا۔ جب چوٹ اچّھی ہوگئی تو امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خودمسجد جانا شروع کر دیا۔ (فیضانِ اعلیٰ حضرت ص۱۳۶) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جماعت سے نماز پڑھنے سے بہت محبّت رکھتے تھے۔
حکایت(07): ’’ کشتی نہ ڈوبی ‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عمر جب تئیس (23)سال تھی۔ آپ پہلی بار اپنے والدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمَا کے ساتھ حج کرنے کے لیے گئے،اُن دنوں سفر پانی کے جہاز(ship یعنی بڑی بڑی کشتیوں (boats))پر ہوتے تھے۔جب اس برکت والے سفر سے واپسی ہوئی تو تین(3) دن بہت سخت طوفان(storm) رہا، بہت تیز تیز ہوائیں چلتی تھیں، لوگوں کو زندہ بچنے کی اُمید(hope) نہ رہی ۔ وہ سمجھنے لگے کہ اب یہ پانی کا جہاز ڈوب(sink) جائے گا۔
امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی والدہ صاحبہ بھی بہت پریشان تھیں۔ یہ دیکھ کر اعلیٰ حضرت کی زبان سے فوراً اس طرح کا جملہ نکلا:اللہ پاک کی قسم! یہ پانی کا جہاز(ship) نہیں ڈوبے گا۔یہ قسم آپ نے حدیث شریف پر یقین کی وجہ سے کھائی کہ آپ نے کشتی میں چڑھتے ہوئے وہ دعا پڑھی تھی کہ جس کےپڑھنے والے کے بارے میں ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ ڈوبنے سے بچا رہے گا۔ (معجم الاوسط، ۴ / ۳۲۹، الحدیث: ۶۱۳۶) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ یہ دعا پڑھ چکے تھے اور آپ کو حدیث پر مکمل یقین تھا اس لیے زبا ن سے قسم کے الفاظ نکل گئے۔( ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص ۱۸۱۔۱۸۲ ماخوذاً)
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
میری اُمّت میں سے جو شخص کشتی میں سوار ہو کر (یعنی چڑھتے ہوئے) یہ پڑھ لے تو وہ ڈوبنے سے بچا رہے گا:بِسْمِ اللّٰهِ الْمَلِکِ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ﳓ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۶۷)بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَاؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔(معجم الاوسط، ۴ / ۳۲۹، الحدیث: ۶۱۳۶)
حکایت(08): ’’ غریب بچے کی دعوت قبول کر لی ‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس ایک غریب لڑکا آیا اور کہنے لگا کہ میری بوا( یعنی والدہ) نے تمہاری دعوت کی ہے اور کل صبح کو بلایا ہے ۔ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پیار سے پوچھا: اچھا! کیا کھلاؤ گے۔اس لڑکے کے پاس دال اور دو(2) چار(4)مرچیں تھیں،کہنے لگا:دیکھئے یہ دال لایا ہوں۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے محبّت سے ، اُس کے سر پرہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا: اچھا، میں اور یہ ( یعنی حاجی کفایت اللہ صاحب ) کل دس(10) بجے دن آئیں گے(اِنْ شَاءَاللہ!) پھر حاجی صاحب سے فرمایا کہ وہ مکان کا پتہ (address)لے لیں ۔ آگلے دن (next day) جب اُس گھرپر پہنچے تو وہ لڑکا پہلے سےدروازے پر کھڑا تھا، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دیکھتے ہی یہ کہتے ہوئے بھاگا، مولانا صاحب آگئے، اور مکان کے اندرچلاگیا۔ دروازے کے ساتھ کچھ جگہ تھی ،اُس نے وہاں لاکر ایک پرانی سی چٹائی بچھا دی پھر باجرے(millet) کی بنی ہوئی موٹی موٹی روٹیاں اور مٹی کے برتن میں وہی دال ، جس میں مرچوں کے ٹکڑے بھی تھے، لاکر رکھ دی اور کہنے لگا:لوکھاؤ، امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: بہت اچھا، کھاتا ہوں، ہاتھ دھونے کے لیے پانی لے آئیں اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی، وہ لڑکاپانی لینے چلا گیا اور دوسری طرف حاجی کفایت اللہ صاحب سوچنے لگے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس طرح کی دال ، روٹی نہیں کھاتے بلکہ کھانے پینے کی چیزوں کا بہت خیال رکھتے ہیں مگر امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے غریبوں کا دل خوش کرنے کے لیے مکمل کھانا کھایا کہ حاجی کفایت اللہ کہتے ہیں کہ میں جب تک کھاتا رہا، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی کھاتے رہے، آخر میں میری پریشانی دیکھ کر فرمانے لگے کہ اگر ایسی دعوت روز (daily)ہو تو میں روز آؤں۔ (حیات اعلی حضرت، ۱/۱۲۱-۱۲۳، مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ غریبوں سے بہت محبّت کرتے تھے۔
حکایت(09): ’’ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے انداز(styles) ‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سوتے وَقت ہاتھ کے اَنگوٹھے کو شہادت کی (یعنی سیدھے ہاتھ کی پہلی ) اُنگلی پر رکھ لیتے تاکہ اُنگلیوں سے لفظ ’’اللہ‘‘بن جائے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پَیر پھیلا کر (چوڑے کر کے) کبھی نہ سوتے بلکہ سیدھی کروٹ لیٹ کر دونوں ہاتھوں کو ملا کر سر کے نیچے رکھ لیتے اور پاؤں مبارَک سمیٹ لیتے ، اِس طرح جسم سے (یعنی سر سے ”میم“، دونوں ہاتھ سر کے نیچے ہونے کی وجہ سے”ح“، جسم سے” دوسرا میم“ اور پاؤں پیٹ کی طرف کرنے سے”دال“ اور اس طرح پورا ) لفظ ’’محمد‘‘ بن جاتا۔(حیاتِ اعلٰی حضرت ج۱ص۹۹ مُلخصاً وغیرہ) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سیّدوں سے بہت محبّت کیا کرتے۔ایک مرتبہ گھر کا کام کرنے کے لیے کسی بچے کی ضرورت پڑی تو ایک بچے کو ملازم(employee) رکھ لیا، بعد میں پتا چلا کہ یہ بچّے تو سیّد صاحب ہیں، اب امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے گھر والوں کو فرما دیا کہ شہزادے سے کوئی بھی کام نہیں لے گا بلکہ کھانا وغیرہ اور جو چیز چاہیے وہ انہیں دی جائیں گی اورجس تنخواہ (salary)کا وعدہ ہے، وہ تحفے (gift) میں دی جائے گی۔گھر والوں نے ایسا ہی کیا لیکن کچھ وقت کے بعد شہزادے خود ہی یہاں سے چلے گئے۔(حیات اعلی حضرت، ج۱، ص ۱۷۹) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سیّد بچوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔
حکایت(10): ’’ بارش میں طواف ‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جب حج کے لیے مکّے پاک گئے تھے، وہاں بیمار ہوگئے یہاں تک کے اگلے مہینے (next month) محرم شریف میں طبیعت(health) صحیح ہوئی۔ طبیعت صحیح ہونے کے بعد اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نہانے کے لیے غسل خانے(bathroom) گئے۔ابھی نہا کر باہر ہی آئے تھے کہ دیکھا ہر طرف(everywhere) بادل(clouds) ہیں۔ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ مجھے حدیث یاد آئی کہ’’ جو بارش میں طواف کرے وہ اللہ پاک کی رحمت میں تَیرتا (floating کرتا)ہے ‘‘۔فوراً حجر اسود شریف(یعنی کعبہ شریف میں موجود کالے رنگ کے پتھر ) کو چوما اور بارِش ہی میں(عبات کی نیّت سے کعبۃ ُ اللہ شریف کے) سات پھیرے (یعنی چکر لگا کر)طواف کیا، لیکن بخار(fever) پھر واپَس آگیا ۔ مولاناسیِّداسمٰعیل نے کچھ اس طرح فرمایا:آپ کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا، تو میں نے کہا: مجھے اللہ پاک کی رحمت سے بہت اُمّید(hope) ہے ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ! اس طواف میں بہت مزہ آیا ۔ بارِش کی وجہ سے لوگ بھی کم تھے ۔ (ملفوظاتِ اعلٰی حضرت،حصّہ دوم ص۲۰۹،مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اللہ پاک کی رحمت پر بہت یقین(believe) رکھتے تھے۔
حکایت(11): ’’ جاگتی آنکھوں سے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا دیدار کرلیا‘‘
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جب دوسری مرتبہ حج کے لیےگئے اور حج کے بعد مدینہ پاک میں حاضر ہوئے تو دل میں خواہش(desire) تھی کہ جس مدینے میں ہوں، اُس مدینے کے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔ یہ خواہش(desire) لے کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے روضے(یعنی مزار شریف ) کے سامنے درود اور سلام پڑھتے رہے مگر ابھی وہ وقت نہ آیا کہ جس میں دیدار ہو،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت پیاری پیاری نعتیں لکھنے والے بہترین عالم بھی تھے لھذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے نعت کا ایک شعر بھی کہا جس میں یہ اُمّید(hope) تھی کہ زیارت ہونے والی ہے مگر اس رات زیارت نہ ہوئی۔ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دوسری رات اپنے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوئے اور اب دیدار کی خواہش اور بڑھ گئی۔ اب آپ نےایک اور محبّت بھراشعر کہا ، بس کرم ہوگیا اورخاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنے عاشق کو اپنی زیارت اس طرح کروائی کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جاگتے ہوئے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی زیارت کر لی۔(حیات اعلیٰ حضرت ص۹۲، مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سچّے پکّے عاشقِ رسول تھے ۔
حکایت(12): ’’ سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کساحمد رضا کا انتظار فرمارہے تھے؟ ‘‘
25صفر المظفر1340ھ کو بیتُ المقدَّس(مُلک فلسطین میں موجود ’’ مسجدِ اقصیٰ ‘‘جس کی طرف منہ کر کے پہلے نماز پڑھی جاتی تھی مگر اب قیامت تک کعبہ شریف کی طرف ہی نماز پڑھی جائے گیا، اسے’’ بَیْتُ الْمَقْدِس‘‘ بھی کہتے ہیں) میں ملک شام کے رہنے والے بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خواب میں اپنے آپ کو خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس حاضر پایا، صَحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ بھی موجود تھے مگر سب خاموش تھےاور ایسا لگتا تھا کہ کسی کا اِنتِظار(wait) کیا جارہاہے۔ملک شام کے رہنے والے بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےعَرض کیا: یارسول اللہ! (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) کس کا اِنتِظار(wait) کیا جا رہا ہے؟ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: ہمیں احمد رضا کا اِنتظار ہے۔ شامی بُزُرگ نے عَرض کی: حضُور ! احمد رضا کون ہیں؟ فرمایا: (_country_) ((_country_))میں بریلی والا۔ جب وہ بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جاگے تو بس اب انہیں مولانا اَحمد رَضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس جانا تھا، انہوں نے سفر کی تیاری کی اور (_country_) ((_country_))چل پڑے، جب وہ بریلی شریف آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا اسی دن (یعنی 25 صفرالمظفر1340ھ) کو انتقال ہوچکا تھا کہ جس دن اُنہوں نے خواب میں خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو یہ کہتے سنا تھا کہ ’’ہمیں احمد رضا کا انتِظار ہے۔‘‘ (سوانحِ امام احمد رضا ص۳۹۱) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنے حقیقی اور سچے غلام، احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے بہت محبّت فرماتے ہیں۔