’’ خاندانِ مُصطفیٰ اور بزرگ خواتین کے12 واقعات‘‘

حکایت (01): ’’چار پرندے‘‘

سَمُندر(sea) کے ساتھ ایک آدمی مرا ہوا (dead)تھا، سَمُندر کا پانی کبھی اُس آدمی کے اوپر آتا اور کبھی پیچھے چلا جاتا۔جب پانی اُس مرے ہوئے آدمی پر آتا تو مچھلیاں اُس کو کھا تیں اور جب پانی پیچھے چلا جاتا تو جانور اُسے کھاتے، جب جانور کھا لیتے تو (پھر)پرندے (birds) اُسے کھاتے ۔ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ دیکھ کر اللہ پاک سے عرض کی:اے اللہ! مجھے یقین (believe) ہے کہ تو مُردوں (dead) کو زندہ فرمائے گا اور مُردوں کے جسم کے حصّوں(body parts) کوسب جگہ سے جمع کر لے گا (collect from everywhere)لیکن میں اِسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ پاک نے حکم دیا کہ چار پرندے پالو(raise four birds)! پھر ذَبْح کرکے (یعنی اُن کا گلا کاٹ کر)اُن کے سَر الگ کرلو اور سب کے گوشت ، ایک دوسرے میں ملا لو !اور وہ گوشت (meat)تھوڑا تھوڑاکئی پہاڑوں (mountains ) پر رکھ دو ! اِس کے بعدآپ خود کسی اور پہاڑ پر، اُن پرندوں کے سَر لے کرکھڑے ہو ں اور اُن پرندوں کو بلائیں ! تو وہ پرندے زندہ ہو کر آپ کےپاس آجائیں گے۔ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک ”مرغ(rooster ) “ ایک ”کبوتر(pigeon )‘‘ ایک ’’گِدھ(vulture ) ‘‘ اور ایک” مور(peacock ) “لے لیا انہیں پالا،ذبح کیا،گوشت ملایا اور پہاڑوں پر رکھ کر یوں آواز دی: ’’ اے مرغ! ‘‘ ، ” اے کبوتر! “ ، ” اے گِدھ ! “،’’ اے مور!‘‘ ۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی آواز سنتے ہی چاروں پرندوں کا گوشت جمع ہونا شروع ہوگیا ، ہڈّیاں (bons)ایک دوسرے سے ملنے لگیں اور تھوڑی دیر میں چار(4) پرندے بن گئے پھر وہ چاروں اُڑتے ہوئے اپنے اپنے سَروں کے ساتھ مِل گئے ۔ (ماخوذ از عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص ۵۶-۵۷) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ باتیں پتا چلیں کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَامجو چاہتے ہیں (desires کرتے ہیں)، اللہ پاک وہ بات پوری کر دیتا ہےاورنبیوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کے چاہنے سے مردے زندہ ہوجاتے ہیں۔جس طرح اللہ پاک نے ان پرندوں کو زندہ کیا ہے، اسی طرح قیامت کے دن اللہ پاک سب لوگوں کو زندہ فرمائے گا، چاہےان کے جسم ختم ہوگئے ہوں۔
تَعَارُف(Introduction):
حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کے بعد سب سے بڑا مرتبہ(rank) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا ہے(بہار شریعت ج۱،ص۵۲)۔ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے بعد سارے نبی آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد ہی میں آئے(مراۃ، ج۸،ص۱۱۹)۔ یعنی حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو یہ سعادت بھی ملی کہ آپ اور حضرت اسماعیلعَلَیْہِ السَّلَام کی اولادوں سے پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ تشریف لائے(مراۃ، ج۷،ص۵۳۶)۔

حکایت (02): ’’ہاتھی والوں کے ساتھ کیا ہوا ؟ ‘‘

تقریباً 1500 سال (fifteen hundred years)پہلے مُلکِ یَمَن اور حَبْشہ پر ’’اَبْرَہَہ‘‘ نامی آدمی کی بادشاہَت(kingship) تھی، وہ دیکھا کرتا تھا کہ لوگ حج کے لئے مکّے شریف جاتے اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے (یعنی ثواب کی نیّت سے اس کے چکر لگاتے) ہیں، اُس نے سوچا کہ کیوں نہ میں یَمَن کے شہر صَنْعاء میں عبادت کے لیے ایک جگہ بناؤں، تاکہ لوگ خانہ کعبہ کی جگہ یہاں آئیں، تو اُس نے عِبادت کے لیے ایک جگہ بنادی۔ عَرَب کے لوگوں کو یہ بات بَہُت بُری لگی اور ایک شخص نے وہاں جا کر اُس جگہ کو گندہ کر دیا۔ اَبْرَہَہ کو جب پتا چلا تو اُس نے غُصّے میں آکر خانہ کعبہ کو گرانے (توڑنے)کی قسم کھالی (مَعَاذَاللہ!یعنی اللہ پاک کی پناہ)۔اب اپنا لشکر trops) یعنی بہت سارے لوگوں کو)لے کر مکّے شریف کی طرف چلا، لشکر میں بَہُت سارے ہاتھی(elephants) تھےاور اُن کا سردار ایک ’’مَحْمود‘‘ نام کا ہاتھی تھا جس کا جسم بڑا مضبوط (strong) تھا۔ اِنہی ہاتھیوں کی وجہ سے اُس لشکر کو قراٰنِ کریم میں اَصْحٰبُ الْفِیْل یعنی ’’ہاتھی والے‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اَبْرَہَہ مکّہ شریف کے قریب پہنچتے ہی ایک جگہ رُک گیا اور مکّہ والوں کے جانوروں کوپکڑ لیا، جن میں مَدَنی آقا، محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دادا جان حضرت عبدُ الْمُطَّلِب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے 200 اونٹ بھی تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مکّے والوں کو پہاڑوں میں چھپنے کا حکم دیا اور اللہ پاک سے خانۂ کعبہ کی حِفاظت(security) کی دُعا کرنے کے بعد خود بھی ایک پہاڑ پر چلے گئے۔ صُبْح ہوئی تو اَبْرَہَہ حملہ کرنے کے لیے سب کو لے کرآیا، جب مَحْمود نامی ہاتھی کو اٹھایا گیا تو لشکر والے جس طرف لے جاتے، اُس طرف چلتا مگر خانۂ کعبہ کی طرف منہ کرتے تو وہ بیٹھ جاتا۔تھوڑی دیر تک یہی ہوتا رہا کہ ایک دم بہت سارے ’’اَبابیل‘‘ (کالےرنگ کے پرندے (black birds)جن کا سینہ(chest) سفید (wight) ہوتا ہے) آگئے، ہر اَبابیل کے پاس تین(3) چھوٹے پتّھر (small stones)تھے، دو(2) پنجوں(یعنی ہاتھوں) میں اور ایک منہ میں اور ہر پتھرپر مرنے والے کا نام بھی لکھا ہُوا تھا، ابابیل نے پتھر پھینکنا شروع کردئیے، پتھر جس ہاتھی والے پر گِرتا اُس کی لوہے کی ٹوپی کو توڑ کر سَر میں جاتا اور جسم سے ہوتا ہوا ہاتھی تک پہنچتا اور ہاتھی کے جسم میں سوراخ کرتا ہوا زمین پر گِر جاتا، یوںوہ سب لوگ مر گئے۔جس سال یہ عذاب آیا (punishmentہوئی) اُسی سال رَحْمت والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دنیا میں تشریف لائے یعنی آپ کی پیدائش (birth)ہو گئی۔(ماخوذ از صراط الجنان،ج ۱۰، ص۸۲۷، عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص۲۲۴) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک کی نافرمانی(disobedience) میں دنیا و آخرت کی خرابی ہے ۔ خانۂ کعبہ کی تعظیم (espect r ) کرنا لازم ہے کہ اس کی بے ادبی کرنے والوں کا انجام(result) بہت برا ہوتا ہے جیسا کہ ہاتھی والےلشکر کا ہوا ۔ ہمیں ہر مسجد کا ادب کرنا چاہیے۔
تَعَارُف(Introduction):
حضرت عبدالمطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےداداتھے ان کا اصلی نام’’ شیبہ‘‘ہے۔ اللہ پاک پر ایمان(believe)رکھتے تھے۔یہ بڑے ہی نیک تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ’’غارِحرا ‘‘ میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک اللہ پاک کی عبادت کرتے۔ رمضان شریف کےمہینے میں اکثر غارِ حرا میں رہتے تھے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی برکت سےآپ کے بدن سے خوشبو آتی تھی۔ عرب کے لوگ خصوصاً قریش ، آپ سے بہت محبت کرتے تھے ۔ مکّے والوں پر جب کوئی مصیبت آتی یا بارش(rain) رُک جاتی تو لوگ حضرت عبدالمطلب کوساتھ لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں ان کو وسیلہ بنا کر(یعنی ان کے صدقے سے) دعا مانگتے تھے تو دعا قبول(accept) ہو جاتی تھی۔ اُ س وقت لوگ لڑکیوں کو زندہ ہی دفن(buried) کر دیتے تھےیہ لوگوں کو بڑی سختی کے ساتھ روکتے تھے اور چور کا ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے۔ اپنے دسترخوان(tablecloth) سے پرندوں کو بھی کھلایا کرتے تھے اس لئے ان کا لقب ’’مُطْعِمُ الطَّیْر‘‘(یعنی پرندوں کو کھلانے والا) ہے۔شراب اور دیگر بُرائیوں کے قریب بھی نہ جاتے تھے۔ مسجدُ الحرام( جس میں کعبہ شریف ہے) کے انتظام(management) وغیرہ دیکھتےاور لوگوں کو آب زم زم پلاتے تھے۔ ایک سو بیس(120) سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ (زرقانی علی المواہب ج۱، ص ۷۲ماخوذاً)

حکایت (03): ’’مشکل وقت میں حاجیوں کی مدد‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے کی بات ہے کہ اُس وقت لوگ بہت مشکل میں تھے، آج کل کی طرح بڑی بڑی فیکٹریاں(factories)،اونچی اونچی بلڈنگز(buildings)، بڑی بڑی گاڑیاں،ٹرینیں،ہوائی جہاز اوردیگر آسانیاں نہیں تھیں۔ جہاں یہ چیزیں ہوتی ہیں، وہاں ان کو بنانے والے، ان کو چلانے والے بھی ہزاروں مزدور (laborer)ہوتے ہیں اور اس طرح لوگوں کے کاروبار اور ملازمت (employment) کا سلسلہ بنتا ہے۔اُس وقت لوگوں کا کاروبار صرف سونا چاندی ، کھیتی باڑی(cultivation) اوردودھ دینے والےجانوروں کےذریعے ہوتا تھا مگر جن دنوں بارش(rain) نہیں ہوتی تھی،فصلیں(crops)تباہ ہوجاتی تھیں،جانوروں کو چارہ(fodder)نہیں ملتا تھاتو جانور دودھ نہیں دیتے تھے اورپانی اورخوراک(food)کی کمی کی وجہ سے جانور بھی مرجاتے تھے توانسانوں کے لیے روٹی کھانا بھی مشکل ہوجاتا تھا۔نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پردادا یعنی آپ کےدادا حضرت عبدالمطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے والد حضرت ہاشم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکےوقت میں بھی ایسا ہوا کہ ایک سال بارشیں(rains) نہ ہوئیں ،جس کی وجہ سے کھیتی باڑی (cultivation)ختم ہوگئی ،لوگ بڑی مشکل میں آگئے، کھانے پینے کےلیے بھی بہت مشکل میں آگئے تھے۔ ایسےمشکل وقت میں حضرتہاشمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اللہ پاک کی عبادت کرنے والوں اورحج کے لیے مکّہ پاک آنے والوں کےلیے ملک شام سےخشک روٹیاں خرید کرلائے،اُن کاچورا (sawdust)کرکے ،اونٹ کے گوشت اور سالن کے ساتھ ملا کر لوگوں کو کھانا کھلایا ۔اسی لیے آپ کا نام ’’ہاشم ‘‘ یعنی روٹیوں کا چوراکرنے(یعنی پیسنے) والا پڑ گیا ۔ ( مدارج النبوۃ ج۲، ص۸) آپ کی اولاد کو '' ہاشمی'' کہتے ہیں۔ اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ایسی برادری (community) میں پیدا فرمایا کہ آپ کے دادا(grandfather) ،پردادا (great-grandfather)سب نیک ، غریبوں کی مدد کرنے والے، لوگوں کی پریشانیاں دور کرنے والےتھے ۔اس حکایت سے ہمیں یہ درس(lesson) بھی ملتا ہے کہ اگر ہمارے گھروالوں ،رشتہ داروں اوردوسرے مسلمانوں میں کوئی پریشانی ہو تو ان کی مدد کرنی چاہیے ۔
تَعَارُف (Introduction):
حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پردادا، حضرت ہاشم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بڑی شان والے اور بہت خوبصورت تھے۔ ان کا اصلی نام ’’عمرو‘‘ تھا ۔بہت بہادر ، سخی اورمہمان نواز(hospitable)تھے۔ عبد مناف کے بعد خانہ کعبہ کی دیکھ بھال اور خدمت کی ذمہ داری(responsibility) آپ کے پاس آئی۔ (سیرت مصطفی ،ص۵۲،۵۳مفصّلا)

حکایت (04): ’’حضرت زینب کی ہجرت‘‘

حضرت زَینَب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِہِ وَسَلَّم کی بیٹی تھیں۔آپ کی شادی ،خالہ زاد بھائی(cousin) ابُو الْعَاص سے ہوئی۔جب پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا تو حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی تمام اولاد آپ پر ایمان لائیں مگر ابُوالْعَاص اُس وقت مسلمان نہ ہوئے۔پیار ے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جب لوگوں کو اسلام کی طرف بُلانا شروع کیا تو قبیلہ (tribe)قریش کے لوگوں نےآپس میں کہا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کی بیٹیوں سے رشتے ختم کرو اور ان کو تکلیف دو۔ ابُو الْعَاص نےقریش کے کہنے پر حضرت زَینَب کو طلاق نہ دی ( ایک وقت کے بعد جب وہ اسلام لے آئے تو پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے حضرت زَینَب کو ان کے پاس بھیج دیا)۔حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےحکم سے حضرت زَینَب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا اونٹ پر بیٹھ کر مکّے شریف سے مدینہ پاک جانےکےلیے، شہر سے باہر نکلیں تو کچھ غیر مسلم آپ کے پیچھے آگئے اور کچھ دور جا کر راستہ روک لیا۔ایک شخص نےحضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کو ڈرا یا تو وہ اونٹ سے گر گئیں۔ اسی تکلیف کےساتھ آپ کا سفر جاری رہا اور آپ مدینہ پاک پہنچ گئیں ۔پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اس بات سے بہت تکلیف ہوئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا کہ: یہ (حضرت زینب)میری بیٹیوں میں بہت فضیلت والی ہے کہ انہوں نے میری طرف ہجرت کرنے(یعنی نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے حکم پر مکّے پاک سے مدینہ شریف آنے) میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔(شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ،ج۴،ص ۳۱۸۔۳۲۲مُلخصاً) اس حکایت سے یہ سیکھنے کو ملا کہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنی بیٹیوں سے بہت محبت اورپیار فرماتے تھے اوران کی تکالیف وپریشانیوں پر آپ کو بھی تکلیف ہوتی ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان مردوں کے علاوہ خواتین نے خصوصاً پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی آل اور اولاد نےبھی دینِ اسلام کے لیےبہت تکلیفیں اُٹھائیں اورقربانیاں دیں ۔
تَعَارُف (Introduction):
پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِہِ وَسَلَّم کی بیٹیوں میں سب سے بڑی حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا تھیں ۔حضرت ز ینب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نے 8 سنِ ہجری میں انتقال فرمایا۔ اُمّ اِیمن اور اُمّ سَلَمہ نے انہیں غسل دیا اور پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے دو (2)بچے تھے، ایک لڑکا جن کا نام ’’علی‘‘اور ایک لڑکی’’ اُ مَامہ ‘‘تھی۔ (شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ،ج۴،ص ۳۱۸۔۳۲۲مُلخصاً)
جنّتی شہزادیرَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کی بیٹی حضرت امامہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا سےبھی بہت محبت فرماتے تھے۔جب پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نماز پڑھتےتو حضرت امامہ آپ کے کندھے(shoulder) پر آجاتیں تھیں ، جب پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم رکوع میں جاتے تو اتار دیتے لیکن جب سجدے میں جاتے تو وہ دوبارہ آپ کے کندھے پر آجاتیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن کسی نے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو تحفے میں ایک سونے کا ہار(a gold necklace) دیا۔ ازواجِ مطہرات(یعنی اُمھات المؤمنین) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنَّ سب ایک گھر میں جمع تھیں (حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کی بیٹی حضرت) اُمامہ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا)گھرکے ایک کونے میں مِٹی(soil) سے کھیل رہی تھیں حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ہم سب سے پوچھا کہ یہ ہار(necklace) کیسا ہے؟ ہم نےعرض کیا کہ اس سےزیادہ خوبصورت ہار ہم نے آج تک نہیں دیکھا ۔ پھر پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا کہ مجھے جس سے سب سے زیادہ محبت ہے، میں اُسے یہ ہار دوں گا۔ ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنَّ سمجھیں کہ یہ ہار حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہاکو ملے گامگر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے(حضرت) اُ مَامہ(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا) کو بلایا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے وہ ہار ان کے گلے میں ڈال دیا۔(شرح العلامۃ الزرقانی،ج۴،ص۳۱۸۔۳۲۱ مُلخصاً)

حکایت (05): ’’ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی دعا‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بیٹی، حضرت اُمّ کلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ’’عُتَیبہ‘‘ کے نکاح میں تھیں عُتَیبہ ابولہب کا بیٹا تھااور عُتَیبہ کا باپ )یعنی ابولہب (اسلام اور پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سخت دشمن (enemy) تھا ،اس نے اپنے بیٹے عُتَیبہ کو کہا کہ تم محمد ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )کی بیٹی کو طلاق دے دو۔ حضرت اُمّ کلثوم ابھی عُتَیبہ کے گھر نہ گئیں تھیں ،عُتَبیہ نے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شہزادی کو طلاق دے دی اور بہت غلط باتیں کیں۔ عُتیبہ کی بے ادبی سے ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بہت تکلیف ہوئ اوربہت زیادہ غم (grief) کی وجہ سےآپ کی مبارک زبان سے یہ الفاظ نکل گئے کہ:یا اﷲ! اپنےکتوں میں سے کسی کتے (dog)کو اس پر مُسَلَّط فرما دے( یعنی ایسا جانور اس کی طرف بھیج دے جو اسے سزا دے)۔اس دُعا کے بعد ابولہب اورعُتَیبہ دونوں تجارت کےلیے ایک قافلہ کے ساتھ ملکِ شام گئے اورراستے میں ایک راہب(یعنی عبادت گزار) کے پاس رات رُکے ،راہب نے ان کو بتایا کہ یہاں خطرناک جانور بہت ہیں،احتیاط (caution)سے سوئیں۔یہ سن کر ابولہب نے سب سے کہا کہ اے لوگو!محمد (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) نے میرے بیٹے کے خلاف بد دعا کی ہے۔ لہٰذا تم لوگ تجارت کا تمام سامان جمع کرکے اس کے اوپر میرے بیٹے کا بستر لگادو اور سب لوگ اس کے ارد گرد (around) چاروں طرف سو جاؤ تاکہ میرا بیٹا درندوں (یعنی جانوروں)کے حملے سے بچا رہے۔ سب نے اُس کی حفاظت (safety)کی پوری کوشش کی لیکن رات میں ایک شیر آیا اور سب کو سونگھتے(smell کرتے) ہوئے عُتَیبہ کے بستر پرپہنچا اور اس کےسر کو چبا ڈالا(chew کر گیا)۔ لوگوں نے شیر کو تلاش کیا مگر کچھ بھی پتا نہیں چل سکا کہ یہ شیر کہاں سے آیا تھا؟ اور کہاں چلا گیا؟ اس حکایت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اورآپ کی اولاد کو تکالیف دینے والے کی دنیا وآخرت خراب ہو جاتی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ جن بُرے کاموں کے خلاف پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےدعا فرمائی ایسے کاموں سے بچنا چاہیے۔حدیثِ پاک میں ہے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مسجد میں داخل ہو کر منبر شریف پر چڑھتے ہوئے( منبریعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں) فرمایا:’’آمین !آمین! آمین! ‘‘پھر جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تشریف لےجانے لگےتوعرض کی گئی:یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! ہم نے آپ کو ایسا کام کرتے دیکھا جو آپ نے پہلےکبھی نہيں کيا توپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! جس نے اپنے والدین کو پایا، پھر انہوں نے اسے جنّت میں داخل نہ کرایا (یعنی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان سے دعائیں لے کر جنّتی نہ ہوا )تو اللہ پاک اسے اپنی رحمت سے دور اور مزيد دور فرمائے ۔ میں نے’’ آمین ‘‘کہا، دوسرے زینے(stair)پر پہنچا تو جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا مانگی :جس نے رمضان کا مہیناپایا اور اس کی مغفرت نہ کی گئی تو اللہ پاک اسے اپنی رحمت سے دور فرمائے، مزيد دور(اور محروم) فرمائے۔ تو میں نے’’ آمین ‘‘کہا، تیسرے زینے(stair)پر پہنچا تو جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا مانگی :جس کے سامنے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ذکر ہو اور وہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر درودِ پاک نہ پڑھےتو اللہ پاک اسے اپنی رحمت سے دور فرمائے،مزيد دور فرمائے۔ تو میں نے کہا’’ آمین ‘‘۔‘‘(مجمع الزوائد ، کتاب الادعیۃ، الحدیث:۱۷۳۱۴،ج۱۰،ص۲۵۷)
تَعَارُف (Introduction):
حضرت اُمّ کُلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اوراُمّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شہزادی (یعنی بیٹی) ہیں۔حضرت ِعثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی پہلی(1st ) شادی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے ہوئی تھی لیکن کچھ وقت کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال ہوگیا تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرت اُمّ کُلثوم سے حضرت ِعثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نکاح کردیا ۔حضرت اُمّ کُلثوم کی کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔9 سنِ ہجری شعبان کے مہینے میں حضرت اُمّ کُلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے وفات پائی اورحضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا ۔ (زرقانی جلد۳ ص۱۹۷تا ۲۰۰)(سیرت مصطفے۶۹۵تا ۶۹۷)

حکایت (06): ’’غزوہ بدر میں نہ جاسکے‘‘

شروع شروع میں غیر مسلم، مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے اوروہ اسلام اورمسلمانوں کو دنیا سے بالکل ختم کرنا چاہتے تھے اسی لیے وہ مسلمانوں سے بار بار جنگ بھی کرتے تھے ایک مرتبہ بدر کےمقام پر غیرمسلم، مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے آگئے تو پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےمسلمانوں کو ان سے مقابلہ(جنگ۔war) کرنے کا حکم فرمایا۔اس وقت پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شہزادی (یعنی بیٹی) حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بہت بیمارتھیں ۔ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےحضرت عثمانرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (جو کہ ان کے شوہر تھے) کو ان کےعلاج وغیرہ کے لئے مدینے شریف میں رہنے کا حکم دے دیا اور جنگِ بدر میں جانے سے روک دیا۔ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کہتے ہیں کہ جس دن ہم جنگِ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی اور جنگ جیتنے کی خوشخبری(good news) لے کر مدینہ پاک پہنچے اسی دن حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نے بیس(20) سال کی عمر میں انتقال کیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جنگِ بدر کی وجہ سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے ۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے اللہ پاک کے رسول کے حکم پر عمل کیا اور اپنی زوجہ(wife) حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کے علاج کی وجہ سے جنگ بدر نہ گئےمگرحضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ان کو جنگِ بدر میں جانے والوں میں رکھا اور مجاہدین (یعنی جنگ جیت کر آنے والوں )کے برابر مال میں سے حصّہ بھی دیا۔ (سیرت مصطفے ۶۹۵،۶۹۴مُلخصاً) اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی مبارک اولاد کی بہت اہمیت ہے کہ ہمارے آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے حکم پر ان کے علاج کی وجہ سے جنگ میں نہ جانے والے بھی جنگ میں جانے والے بن گئے۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی صاحبزادی ہیں اور آپ کی والدہ اُمّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ہیں ۔جس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا تھا،اُس سے سات(7) سال پہلے حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مکّے پاک میں پیدا ہوئیں اور اُس وقت حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی عمر شریف تینتیس( 33)سال تھی ۔آپ کا پہلانکاح ابولہب کے بیٹے عُتبَہ سے ہوا تھا (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے )، عتبہ نے اپنے باپ ابولہب کےکہنےپر رخصتی (یعنی اُن کے گھر جانے )سےپہلے ہی آپ کو طلاق دے دی تھی پھر پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےحضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کا نکاح حضرت ِ عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے کیا۔
جنّتی شہزادیرَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نے اپنے شوہر حضرتِ عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے ساتھ مکّہ مکرمہ سے پہلےحبشہ پھر مدینہ منورہ طرف ہجرت کی (یعنی رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے حکم پر پہلے مکّہ شہر سے حبشہ چلے گے پھر جب حکم ہوا تومدینہ پاک چلے گئے)۔اسی لیے آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کو ذَاتُ الْہِجرَتَیْن یعنی دو(2)ہجرتیں کرنے والی کہا جاتا ہے۔ حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا ۔ حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کے ہاں ایک بیٹے بھی پیدا ہوئے تھے، جن کا نام ''عبداﷲ'' تھا مگر وہ بھی آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کی وفات کے بعد ۴ سنِ ہجری میں وفات پا گئے ۔(شرح العلامۃ الزرقانی،ج۴،ص۳۲۲۔۳۲۳)

حکایت (07): ’’آسمان سے پانی کا ڈول آگیا‘‘

پیارے آقا مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب مکّے شریف سے مدینہ شریف تشریف لے گئے توحضرت اُمِّ اَیمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا (جو کہ دودھ کے رشتے سے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی والدہ ہیں ) سخت گرمی میں مکّے شریف سے مدینہ شریف جانے کے لیےپیدل ہی نکل گئیں اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا روزہ بھی تھا۔راستے میں اتنی سخت پیاس لگی کہ ایسا لگتا تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال ہو جائے گا۔ جب سُورج غروب ہوگیا اور افطار کا وقت ہو گیا تو آسمان سے ایک ڈول(یعنی پانی کا برتن) ، سفید رسّی سے بندھا ہوا اُترا اور اتنا نیچے آگیا کہ حضرت اُمِّ اَیمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اسے پکڑ لیا اور اُس میں سے پیا یہاں تک کہ آپ کی پیاس ختم ہوگئی ۔ اس کے بعد ساری زندگی آپ کو پیاس نہ لگی، یہاں تک کہ سخت گرمی کے دن دھوپ میں آپ باہر نکل جاتیں تاکہ آپ کو پیاس لگے لیکن پھر بھی پیاس نہ لگتی تھی۔(دلائل النبوۃ،۱/۱۲۵مُلخصاً) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک کی رضا اور خوشی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے والوں کی اللہ پاک مدد فرماتا ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو دودھ پلانے والی والدہ،حضرت اُمِّ اَیمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا وہ خوش نصیب (lucky) خاتون ہیں کہ جنہوں نے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بچپن (childhood)میں بہت زیادہ خدمت(service) کی ہے یعنی ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی برکتیں حاصل کیں۔ یہی آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو کھانا کھلایا کرتی تھیں ، کپڑے پہنایا کرتی تھیں، کپڑے دھویا کرتی تھیں۔ (کراماتِ صحابہ، ص۳۳۵) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نفل روزے رکھنے والی، بہت عبادت کرنے والی اور اللہ پاک کے خوف سے رونے والی خاتون تھیں۔(حلیۃ الاولیاء،۲/۸۰) جب حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنا نبی ہونا لوگوں کو بتایا تو شروع ہی میں آپ مسلمان ہوگئی تھیں۔(اسد الغابۃ،۷/۳۲۵) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے:اُمُّ اَیْمَن اُمِّی بَعْدَ اُمِّی یعنی میری والدہ کے بعد اُمِّ اَیمن میری ماں ہیں۔(المواہب اللدنیۃ،۱/۴۲۸ ملخصاً)
دودھ کےرشتے کی والدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ایک مرتبہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جو کسی جنّتی خاتون سے نکاح کرنا چاہتا ہے وہ اُمِّ اَیمن سے نکاح کرلے۔ حضرتِ زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ان سے نکاح کر لیا۔(الاصابہ،۸/۳۵۹)

حکایت (08): ’’حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی بہادری(bravery) ‘‘

جنگ خندق(یعنی ایک لڑائی) میں ایسا بھی ہوا کہ جب یہودیوں نے یہ دیکھا کہ ساری مسلمان فوج خندق (یعنی گڑھے وغیرہ)کی طرف جنگ میں مصروف(busy) ہےتو جس قلعہ(fort) میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے موجود تھے، تو کچھ یہودی وہاں پہنچے اور حملہ (attack)کر دیااور ایک یہودی دروازہ تک پہنچ گیا،حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نےاس کو دیکھ لیا اور حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہسےکہا کہ تم اس کو مارو، ورنہ یہ جا کر دشمنوں کو بتا دے گا (کہ یہاں کوئی مرد نہیں)پھر خود حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے خیمہ (tent)کی ایک چوب(یعنی خیمہ لگانے کی لکڑی ) نکال کر اس کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیاپھرخود ہی اس کا سر قلعہ(fort) کے باہر پھینک دیایہ دیکھ کر حملہ کرنے والوں کویقین ہو گیا کہ قلعہ کے اندر بھی کچھ فوج موجود ہے اس ڈر سےانہوں نے پھر اس طرف حملہ نہیں کیا۔نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دور سے دیکھ رہے تھےاور حضرت صفیہ کے بیٹےحضرت زبیررَضِیَ اللہُ عَنْہساتھ تھے ،اُن سے فرمایا کہ اپنی والدہ کی بہادری (bravery)کو تو دیکھو۔(زرقانی ج۲ ص۱۱۱ مع سیرت مصطفی ، ۳۴۱ مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام ہمیں اتنی آسانی سے نہیں ملا بلکہ شروع میں اسلام کے دشمن مسلمانوں کو ہر طرح ختم کرنے کی کوششیں کرتے تھے اورمسلمان بہادری سے ان کا مقابلہ(competition) کرتے تھے۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پھوپھی(یعنی والد کی بہن) ہیں ۔آپ بہت ہی بہادر تھیں۔ 20سن ِہجری میں تہتر( 73)سال کی عمر میں مدینہ پاک میں وفات پائی ،اور دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن(buried) ہوئیں۔آپ زبیر بن العوام رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی والدہ ہیں اورآپ کے بیٹے حضرت زبیر بن عوام ” عشرہ مبشرہ“یعنی ان دس(10) خوش نصیب (lucky) صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ہیں جن کو حضوراکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےجنّتی ہونے کی خوشخبری(good news) سنائی۔(زرقانی جلد ۳ ص۲۸۷تاص ۲۸۸مع سیرت مصطفی ۷۰۱ مُلخصاً)
حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شہادت کے بعد جب جنّتی صحابیہ،پھوپھی مُصطفیٰ، حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اپنے بھائی کے پاس آنے لگیں تو خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انکے بیٹے حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو حکم دیا کہ اپنی والدہ کو روکیں۔حضرت بی بی صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کی کہ مجھے اپنے بھائی کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے(کہ انہیں بہت بری طرح شہید(یعنی جنگ میں قتل(murder)) کر دیا گیا ہے) لیکن میں اس کو اللہ پاک کی راہ میں کوئی بڑی بات نہیں سمجھتی، توحضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جانے کی اجازت دے دی ۔ جب آپ ، حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے مُبارک جسم کے پاس گئیں اور دیکھا کہ پیارے بھائی کے کان، ناک، آنکھ سب کٹے ہوئے ہیں اور طرح طرح کے زخم ہیں تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (ترجمہ: ہم الل ہہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں)کے علاوہ کچھ بھی نہ کہاپھر ان کی مغفرت کی دعا مانگتی ہوئی چلی آئیں۔(طبری ص۱۴۲۱مُلخصاً)

حکایت (09): ’’میں ہاتھ نہیں چھوڑوں گا‘‘

جب مکّہ شریف سے غیر مسلموں کی حکومت ختم ہو گئی اور مسلمان یہاں آگئے پھر مسلمان (دوسرے شہر) طائف کی طرف گئے۔ اس وقت پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دودھ پلانے والی حضرت بی بی حلیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا اپنے شوہر حارث سعدی اور بیٹے کو لے کر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہو رہی تھیں۔ راستے میں غیر مسلم ملے اور طرح طرح کی باتیں کرنے لگے، کسی نے کہا:اے حارِث!تمھیں اپنے( دودھ کے رشتے کے) بیٹے (یعنیمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم )کی باتیں پتا ہیں ،وہ کیاکہتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں: اللہ پاک پر ایمان لے آؤ (یعنی مسلمان ہو جاؤ)،مرنے کے بعد سب لوگ دوبارہ زندہ ہوں گے اور اللہ پاک نے دو (2)گھر بنائے ہیں ، ایک جنَّت ا ور دوسرا دوزخ ۔یہ باتیں سن کر یہ سب مدنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوگئے۔ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےان کے لئے اپنی چادر مبارک کو زمین پر بچھا کر ان کو اس پر بٹھایا۔ حارث سعدی کہنے لگے:اے میرے بیٹے!آپ کی قوم آپ کے بارے میں شکایت(complain) کرتی ہے۔فرمایا:جی! میں ایسی باتیں کرتا ہوں اور اے میرے والد ! جب وہ دِن آئے گا تو میں آپ کاہاتھ پکڑ کر بتا دوں گا کہ دیکھیں یہ وہ(یعنی قیامت کا) دن ہے یا نہیں ؟جس کے بارے میں، میں بتاتا تھا۔ پھریہ سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےان سب کو تحفے بھی دیے۔ حضرت حارِث سَعَدی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِیمان لانے کے بعد اِس بات کو یاد کر کے کہا کرتے: اگر میرے بیٹے میرا ہاتھ پکڑیں گے تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ نہ چھوڑیں گے جب تک مجھے جنَّت میں نہ لے جائیں۔(‬ الروض الأنف،أبوہ من الرضاعة، ۱/۲۸۳،الاستیعاب ،حلیمۃ السعدیۃ،۴/۳۷۴،‬‬‬‬‬‬‬‬فتاویٰ رضویہ ۳۰/۲۹۳مُلخصاً)‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬ اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی یہ سوچ تھی کہ قیامت کے دن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جنّت میں لے کر جانے والے ہیں
تَعَارُف (Introduction):
پہلے عرب میں یہ ہوتا تھا کہ گاؤں کی عورتیں بچوں کو شہروں سے لے کر چلی جاتی اور بچوں کو پالتی تھیں، جس سے انہیں پیسے وغیرہ ملتے اور بچے کی صحت (health)گاؤں میں رہنے کی وجہ سے اچھی ہو جاتی تھی۔ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دودھ پلانے والی والدہ، حضرت حلیمہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا جب مکّے پاک حاضر ہوئیں تو رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کواپنے ساتھ اپنے قبیلے(tribes) میں لے گئیں ۔اب آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بچپن(childhood) کے کچھ سال گزرے۔ (مدارج النبوۃ، ۲ / ۱۸ملخصاً) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا،آپ کے شوہر اور سب بچےمسلمان ہوگئے تھے، یعنی یہ گھر صحابہ اور صحابیات کا تھا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ۔ (طبقات ابن سعد، ۱ / ۸۹) حضرت حلیمہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کی بیٹی حضرت شیما رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو گود میں کِھلاتیں، سینے پر لِٹاکر دُعائیہ نظمیں(prayer poems) سُنا کرسُلا یا کرتی تھیں ، اِس لئے انہیں بھی حضور کی والدہ کہا جاتا ہے۔(‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬ فتاویٰ رضویہ ، ۳۰/۲۹۴مُلخصاً) حضرت حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔(جنّتی زیور،ص۵۱۲) حضرت علامہ عَبدُالمصطفےاعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ فرماتےہیں: جنتُ البقیع کی کسی قبر پر میں نے کوئی گھاس اور سبزہ (greenery)نہیں دیکھا لیکن حضرت بی بی حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کی قبر شریف پر سبزہ تھا۔ اس وقت میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ انہوں نے ہمارے اور اپنے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ كو دودھ پلایا تو اللہ پاک نے اپنی رحمت کےپانی سے ان کی قبر کو ہری گھاس سے بھر دیا۔(جنّتی زیور،ص ۵۱۳مُلخصاً)
دودھ کے رشتے کی والدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں نے خواب میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا تو اُن سےحضرت حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یعنی اللہ اُن سے راضی ہوا۔(سبل الھدی والرشاد،۱/۳۸۴)

حکایت (10):’’حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آنے کی خوشی منانے سے غیر مسلم کو بھی فائدہ ہوا‘‘

جب ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دنیا میں تشریف لائے(یعنی پیدا ہوئے) تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چچا ابو لہب کی کنیز”حضرت ثُوَیْبَہ“ خوشی میں دوڑتی ہوئی گئیں ( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو مردملا وہ غلام اور جو عور ت ملی تو وہ کنیز ہوتی۔ آج کل غلام اورکنیز نہیں ہوتے )۔ ” حضرت ثُوَیْبَہ“ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہانے”ابو لہب“ کو بھتیجا(یعنی بھائی کا بیٹا) پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو”ابو لہب“ (جو کہ مرتے وقت تک سخت کافر رہا) نے خوشی میں ” حضرت ثُوَیْبَہ“کو آزاد کر دیا(یعنی اب آپ کنیزنہ رہیں بلکہ اور عورتوں کی طرح آزاد ہوگئیں)۔ انہیں آزاد کرنےکا فائدہ ابو لہب کو یہ ملاکہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھااور حال پوچھا،تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ تم لوگوں کے پاس سے جانے کے بعد مجھے کچھ(کھانے پینے) کو نہیں ملا مگر اس انگلی سے کہ جس سے میں نے ” ثُوَیْبَہ“ کو آزاد کیا تھا(بخاری،کتاب النکاح،حدیث: ۵۱۰۱ ،۳/۴۳۲مُلخصاً) یعنی اس اُنگلی سے مجھے تھوڑا سا پانی دیا جاتا ہے۔(عمدۃ القاری ج۱۴ص۴۴تحت الحدیث۱۰۱ ۵) حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف “ وغیرہ میں موجود سچےواقعے میں میلاد شریف والوں کیلئے خوشخبری(good news) ہے کہ ابولَہَب جو کہ غیر مسلم تھا جب وہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آنے کی خوشی منانے پر مرنے کے بعد بھی فائدہ پائےتو اس مسلمان کو کتنی برکتیں(blessings) ملیں گی کہ جو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبَّت میں جشنِ ولادت کی خوشی منائے اور مال خرچ کرے۔لیکن یہ ضَروری ہے کہ محفلِ میلاد شریف شریعت کے مطابق ہو، کسی طرح کے گناہ کا کام نہ ہو۔ (مدارِجُ النُّبُوَّت ج۲ص ۱۹ ماخوذاً)
تَعَارُف (Introduction):
پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی وِلادَت(یعنی پیدا(born) ہونے) کےبعدسب سے پہلےآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی والِدہ صاحبہ حضرت بی بی آمنہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہانےآپ کودُودھ پلایاپھرحضرت ثُوَیْبَہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نے۔(منتظم ،۳ /۳۰۷، مدارج النبوت ،۲/ ۱۹) پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو دودھ پلانے والی والدہ ،حضرت ثویبہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کا انتقال 7 سنِ ہجری میں ہوا ۔(منتظم ،۳/۳۰۷) حضرت ثویبہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا مسلمان ہو کر صحابیہ بنیں۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (فتاوی رضویہ جلد۳۰، ص ۲۹۳ماخوذاً)
دودھ رشتے کی والدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور حضرت بی بی خدیجۃُ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ، حضرت ثویبہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کابہت خیال رکھا کرتےاور مدینۂ منوّرہ سے ان کے لیے کپڑے وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔(سبل الہدی والرشاد،۱/۳۷۷)

حکایت (11): ’’حضرت مریم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا‘‘

حضرت عِمران بن ماثان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بنی اِسرائیل کے سرداروں، بادشاہوں اور عُلَما کے خاندان(family) سے تھے۔ حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَامان کی بیوی کی بہن کے شوہر تھے۔ حضرت عِمران رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی کوئی اولاد نہ تھی اور عمر زیادہ ہوگئی تھی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بیوی(wife)حضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا ایک مرتبہ ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھیں کہ ایک پَرندے پر نظر پڑی جو اپنے بچوں کو دانہ کھِلا رہا تھا۔ اس سے آپ کے دل میں اولاد کا شوق اور زیادہ ہوگیا۔ پہلے ایمان والے(یعنی مسلمان) ،اپنی اولاد کو اللہ پاک کے برکت والے گھر بیت ُالْمُقدس کی خدمت (یعنی وہاں کے کام، صفائی وغیرہ)کے لیے دے دیتے تھے(’’ بَیْتُ الْمَقْدِس‘‘ایک مُلک فلسطین میں موجود ’’ مسجدِ اقصیٰ ‘‘کا نام ہے، جس طرف منہ کر کے پہلے نماز پڑھی جاتی تھی مگر اب قیامت تک کعبہ شریف کی طرف ہی نماز پڑھی جائے گی) کہ وہ بچے اپنی زندگی اس برکت والی مسجد کی خدمت (service)میں گزار دیتے، اس طرح بچے وقف کیے جاتے اور نذر مانی جاتی یعنی اللہ پاک کے لیے اپنے اوپر لازم کر لیا جاتا کہ ہماری اولاد اس مسجد کے لیے ہے۔اسی طرح حضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا نے اللہ پاک سے عرض کی:اے اللہ ! میں تیرے لیے نَذْر مانتی ہوں کہ اگر تُو نے مجھے اولاد دی تَو میں اُسے ’’ بیت ُالمقدس ‘‘کے لیے وَقْف کر دوں گی تاکہ وہ اس کی خدمت کرے۔(تفسير الخازن،پ٣، آلِ عمران، تحت الآية: ٣٥، ١ / ٢٤٠، ملتقطًا) پھر جب اُن کے گھر بچّی کی پیدائش(birth) ہوئی تو بہت پریشان ہوئیں۔اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : اور وہ لڑکا (جس کی خواہش (desire)تھی) اس لڑکی جیسا نہیں (جو اسے دی گئی) اور (اس نے کہا کہ) میں نے اس بچی کا نام مریم رکھا اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر (یعنی نقصان پہچانے)سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (پ٣، آلِ عمران:٣٥مُلخصاً) (ترجمہ کنز العرفان مع صراط الجنان) ابحضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا اپنی نَذْر(منّت) پوری کرنے کے لیے انہیں ’’ بیت ُالمقدس ‘‘لے کر آئیں۔ وہاں موجود علماء کرام سب چاہتے تھے کہ اس بچّی کو میں پالوں(raising this baby)۔ حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَامان سب کے امیر اور اس بچی کے خالو (uncle)تھے، اُن کا کوئی بچہ بھی نہ تھا،وہ چاہتے تھے کہ یہ بچی مجھے دی جائے۔ یہ طے (settled)ہوا کہ سب اُردن شہر کی نہر(canal) جائیں گے اور سب ایک ایک قلم(pen) نہر میں ڈالیں گے تو جس کا قلم نہیں ڈوبے (drowned نہ ہو)گا تو وہ اِ س بچّی کو پالے گا۔ سب نے قلم ڈالا، حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَام کے علاوہ سب کے قلم ڈوب گئے۔ اب آپ بڑی محبّت سے بچّی کو لے گئے۔ حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت مریمرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا کو ایک کمرے میں رکھا ،جہاں اُ ن کے علاوہ اور کوئی نہ جاتا تھا۔ کھانے پینے کی چیزیں آپ عَلَیْہِ السَّلَام خود لے کر جاتے تھے لیکن آپ وہاں بے موسم (یعنی گرمی کے موسم میں سردی کے اور سردی کے موسم میں گرمی )کے پھل دیکھتے تو ایک مرتبہ اُن سے پوچھا، ترجمہ (Translation) : اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ اللہ کی طرف سے ہے، بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔ (پ٣، آل عمران:٣٧) (ترجمہ کنز العرفان) حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَام سمجھ گئے کہ یہ جگہ برکت والی ہے پھر( ترجمہ۔ Translation:) وہیں(حضرت) زکریا (عَلَیْہِ السَّلَام)نے اپنے ربّ سے دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے ربّ! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعاسننے والا ہے۔(پ٣، آل عمران:٣۸) (ترجمہ کنز العرفان) اس دعا کے بعد اللہ پاک نے حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَام کو حضرت یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام جیسا بیٹا دیا۔(فیضان مریم ص۳ تا ۱۴ مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک اپنے نیک بندوں اور نیک بندیوں پر خاص رحمت فرماتا ہے۔ان کی دعائیں قبول(accept) ہوتی ہیں بلکہ ان کے قریب رہ کر دعا کی جائے تو وہ بھی قبول ہوتی ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت مریمرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ ہیں۔(پ۲۱، سورۃ الاحزاب،آیت۳۶۳مُلخصاً)اور جنّت میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نکاح میں ہوں گی۔ (معجم كبير،ج ۲۲،ص۴۵۱، حديث:۱۱۰۰ مُلخصاً) مریم کا معنی ہے عبادت کرنے والی خاتون۔(بغوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱ / ۲۲۷مُلخصاً) ۔ قرآنِ پاک میں آپ کے نام کے علاوہ مُختلف طرح آپ کا ذکر ہے:(۱) مُحَرَّرَہ (آزاد) ،(۲ )مُصْطَفَاۃ (چنی ہوئی۔ selected)، (۳ ) مُطَهَّرَہ (پاکیزہ) ، (۴) قَانِتَہ (فرمانبردار) ،(۵ ) سَاجِدَہ (سجدہ کرنے والی)،( ۶ )رَاکِعَہ (رُکوع کرنے والی)، (۷) مُحْصِنَہ (پارسائی کی حِفَاظت کرنے والی) ،(۸)اٰیَة (نِشانی)،(۹ ) اُمّ (ماں) ،( ۱۰ )صِدِّیْقَہ(بہت سچی)، (۱۱)وَالِدَہ (ماں) ،(۱۲)بِنْتِ عِمْرَان (عمران کی بیٹی) ۔(فیضان مریم ص۶۳ تا ۶۲ بالتغیر)
اللہ پاک کی ولیّہ رَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا کی شان:
حدیث ِ پاک میں ہے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےجنّتی عورتوں کی سردار خواتین کے نام بتائے، اُس میں ایک نام حضرت مریم رَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا کا بھی تھا۔(كنز العمال، کتاب الفضائل، ١٢/٦٥، الحديث:٣٤٤٠١مُلخصاً)

حکایت (12): ’’ایمان سب سے اہم ہے‘‘

فِرْعَون کےستّر ہزار(70،000) جادوگروں نے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے مقابَلہ (competition) کیا۔ تمام جادوگر 300اونٹوں پر مختلف رَسِّیاں (ropes)اور لکڑیاں لے کرآئے،جبکہ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے ہاتھ میں ایک عصا(یعنی لاٹھی۔stick) تھی ، جادوگروں نےاپنی رَسِّیاں اور لکڑیاں زمین پر ڈالیں تو پورا میدان بڑے بڑے سانپوں (snakes)سے بھرا ہوا نظر آنے لگا ، دوسری طرف حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے ہاتھ میں موجود لاٹھی زمین پر ڈالی تو وہ ایک اَژْدَھَا (بہت بڑا سانپ)بن گئی اور میدان میں نظر آنے والے تمام سانپوں کواُس نے کھا لیا،پھر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اُسے ہاتھ میں لیا تو وہ پہلے کی طرح لاٹھی بن گیا۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا تو وہ سب حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لے آئے۔(صراط الجنان، ج۳، ص۴۰۳ملخصاً) حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَانے جب یہ دیکھا تو وہ بھی فوراً ایمان لے آئیں(یعنی مسلمان ہوگئیں)۔ جب فرعون کو پتاچلا تو اس ظالم نے ان پر بہت ظلم کیا اور حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَاکے ہاتھوں پیروں میں لوہے کی بہت بڑی بڑی کیلیں(nails) ٹھونک دیں کہ آپ ہل بھی نہ سکتی تھیں پھر آپ کو دھوپ میں ڈال دیا اور بھاری پتھر(heavy stone) سینے پر رکھنے کا حکم دیا جب پتھر لایا گیا تو حضرت آسیہ نے اللہ پاک سے عرض کی: یاربّ! میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنا دے ۔ فوراًانہیں جنّت میں سفید موتیوں (white pearls)سے بنا ہوا گھر دکھا دیا گیا پھر اللہ پاک نے ان کی روح، ان کے جسم سے نکال لی (یعنی آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا کا انتقال ہو گیا)۔ جب ان کے جسم پر پتھر رکھا گیا تو ان کے جسم میں روح نہیں تھی تو انہیں کچھ بھی درد محسوس نہ ہوا ۔ (عمدۃ القاری،کتاب احادیث الانبیاء۱/۱۴۴) اس واقعے اور حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ایمان سب سے قیمتی(precious) دولت ہے۔اور ایمان کی حفاظت جان کی حفاظت سے زیادہ اہم ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
اللہ پاک کی ولیّہ،حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا مصر میں رہتی تھیں اور ایک نیک عورت تھیں۔ مال ودولت کی ان کے پاس کوئی کمی نہ تھی، اللہ پاک کے کرم سے یہ غرور(یعنی تکبُّر arrogance) سے بہت دور تھیں ۔ان کے پاس ہر وَقْت نوکر(servent) ہوتے اور یہ غریبوں سے بہت محبت کیا کرتیں اور بہت زیادہ صدقہ کیا کرتی تھیں۔ اسی لیے لوگ انہیں اُمُّ الْمَسَاکِیْن (مسکینوں کی ماں ) بھی کہا کرتے۔ (مستدرك حاكم، حديث:٤١٥٠، ٣/٤٥٧) جب فرعون کو ان کے ایمان لانے کی خبر ہوئی تو پہلےاُس نےحضرت آسیہ کی ماں کو بُلایا اور کہا: میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر اس نے موسیٰ (عَلَیْہِ السَّلَام) کے خُدا کا انکار نہ کیا تو میں ضرور اسے قتل کردوں گا۔ ماں نے اکیلے میں جا کر حضرتِ آسیہ کو فرعون کی بات ماننے کا کہا تو آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا نے جواب دیا: ِ کیا میں اللہ پاک کا انکار کروں...!! خدا کی قسم ! میں ہرگز ایسانہیں کرونگی۔“(الكامل فى التاريخ، ١/١٤١)
اللہ کی ولیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْھَا کی شان:
ایک مرتبہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےحضرتِ فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے فرمایا: خوش ہوجاؤ تم جنّتی عورتوں کی سردار ہو!۔انہوں نے پوچھا: حضرتِ آسیہ اور مریم کہاں ہونگی؟ آپ نے فرمایا: آسیہ اپنے زمانے کی عورتوں کی اور تم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہو۔ (مشکل الاثار للطحاوی ،۱/۳۶، الحدیث ۱۰۱)حضرت عبداﷲ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے حدیثِ پاک بیان کی کہ جس میں اہل جنّت کی افضل عورتوں کا بتایا گیا تھا اُن میں حضرت مریم و حضرت آسیہ بھی تھیں ۔(زرقانی جلد۳ ص۲۲۳ تا۲۲۴) جنّت میں حضرت مریم اور حضرت ِ آسیہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نکاح میں ہوں گی۔ (مراۃم جلد۷،ص ۴۲۰،شرح ۲۷،مُلخّصاً)