’’ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے واقعات ’’

حکایت(01):’’سب سے پہلے انسان‘‘

حضرت ابوذَر غِفَاری رَضِیَ اللہ عَنْہ فرماتے ہیں:میں مسجد میں داخل ہوا تو پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم اکیلے(alone)مسجدمیں آپ کےقریب بیٹھ گیاتو پیارےآقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا:ابوذَر!دو(2) رکعت تَحِیَّۃُ الْمَسْجِد(یعنی مسجد میں داخل ہونےکے بعد پڑھی جانے والی نفل نماز )ادا کرلو۔ حضرت ابوذَر غِفَاری رَضِیَ اللہ عَنْہ کہتےہیں:میں وہاں سے اٹھا، نماز پڑھی اور پھر پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس آکر بیٹھ گیا پھرمیں نے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے( چند سوالات کیے ،ان میں یہ سوال بھی تھے،میں نے) عرض کی: انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام میں کتنے رسول ہیں ؟ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا: انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام میں 313 رسول ہیں۔ پھرعرض کی: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم !پہلے نبی کون ہیں ؟ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا: حضرت آدم(عَلَیْہِ السَّلَام)۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ! کیا وہ نبی ٔ مرسَل (یعنی وہ بنی کے ساتھ ساتھ رسول بھی ہیں) ہیں؟ فرمایا:ہاں!اللہ پاک نے انہیں اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا (دست ہاتھ کو کہتے ہیں مگر اللہ پاک ہمارے ہاتھوں کی طرح کے ہاتھ سے پاک ہے یعنی اللہ پاک نے اپنی قدرت اور طاقت سے پیدا فرمایا)اورآپ کےجسم مبارک میں روح ڈالی (یعنی جان ڈالی ) ۔‘‘ )الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،الحدیث:۳۶۲ والمسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث:۲۱۵۵۶ و المعجم الکبیر،الحدیث:۱۶۵۱مُلتقتاً) اس حدیث شریف سے پتا چلا کہ انسانوں میں اللہ پا ک نے سب سے پہلےحضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو مٹی سے بنایا پھر آپ کے مبارک جسم میں روح پھونکی (یعنی آپ کےمبارک جسم میں جان ڈالی) ۔اورآج تک دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوئے اورہوں گے سب حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بعد ہوئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے دنیا میں اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے بہت سارے انبیاء اور رسول بھیجے ۔اوریہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام ہیں ۔

حکایت (02): ’’سمجھدار چیونٹی(ant) ‘‘

ایک مرتبہ اللہ پاک کے نبی حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَامبہت بڑا لشکر trops) یعنی بہت سارے لوگوں کو) لے کرایک جگہ سے گزرے جہاں بہت زیادہ چیونٹیاںants) تھیں،لشکر کو دیکھ کر چیونٹیوں کی ملکہ (queen )نے تمام چیونٹیوں سے کہا: اے چیونٹیو! تم سب اپنے گھروں میں چلی جاؤ کہیں حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کا لشکر تمھارے اوپر چل نہ پڑے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔ ’’سمجھ دار چیونٹی‘‘(ant) کی یہ بات حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے تین (3)میل( miles three)دور سے سن لی اور مسکرا ئے (smiled) پھر اپنے لشکر کو روک دیا تاکہ چیونٹیاں اپنے گھروں میں چلی جائیں۔اللہ پاک نے اس واقعے کو قرآنِ پاک میں اس طرح بیان فرمایا ہے،( ترجمہ۔ Translation : )یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی پر آئے توایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو!اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ، کہیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں ۔ (پ۱۹،النمل:۱۸، ۱۹) (ترجمہ کنز العرفان) اس قرآنی واقعے سےیہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک نے اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو یہ طاقت دی ہے کہ انہوں نے تین میل دور سے چیونٹی کی ہلکی آواز کو بھی سن لیا ۔آپ غور (consider) کیجئے کہ جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی سننے کی طاقت اتنی ہے تو پھر تمام نبیوں کے سرداراور ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سننے اور دیکھنے کی طاقت کیسی ہوگی؟ دوسری بات یہ پتا چلی کہ ایک چیونٹی بھی جانتی ہے کہاللہ پاك کے نبی کسی پر ظلم نہیں کرتے اس لیے اُس نے دوسری چیونٹیوں سے کہا کہ”اپنے گھروں میں چلی جاؤ ،ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کوپتہ بھی نہ چلے اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کا لشکر تمھارے اوپر چل پڑے۔ “ تیسری بات یہ پتا چلی کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام ظلم نہیں کرتے بلکہ جانوروں پر بھی رحم فرماتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی جانوروں(animals) پر رحم کرنا چاہیے۔

حکایت(03): ’’حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سچے نبی ہیں‘‘

حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا مکّہ کی ایک بہت ہی امیرعورت تھیں۔ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کو ضرورت تھی کہ کوئی امانت دار(honest) آدمی مل جائے تو اس کے ساتھ اپنا سامان بیچنے کے لیےملکِ شام بھیجیں۔ابھی نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی عمر شریف تقریباً پچیس(25) سال ہی تھی مگرآپ کی امانت دار(honest) اور سچا ہونا دور دور تک مشہور ہوچکا تھی۔ حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو جب آپ کے بارے میں پتا چلا تو آپ نے تجارت (trade)کے لیےحضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو بھیجنا چاہا اور تجارت کا سامان لے جانے کا پیغام(message) بھیجا۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ان کی بات مان لی اورتجارت کا مال لے کر ملکِ شام چلے گئے۔اس سفر میں حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اپنے غلام’’ مَیْسَرہ‘‘کو بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ساتھ بھیج دیا تا کہ وہ آپ کے ساتھ رہے(پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ملکِ شام کےمشہور شہر’’ بصریٰ‘‘ کے بازار میں پہنچے تو وہاں ایک عبادت کرنے والے شخص’’ نسطورا ‘‘ کے بیٹھنے کی جگہ کے قریب ہی رُکے۔’’ نسطورا‘‘ میسرہ(غلام) کو بہت پہلے سے جانتا تھا۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دیکھتے ہی ’’ نسطورا ‘‘ میسرہ(غلام) کے پاس آیا اور پوچھا : کہ اےمیسرہ! یہ کون ہیں جو اس درخت کے نیچے سورہے ہیں ؟میسرہ نے جواب دیا کہ یہ مکّے کے رہنے والے ہیں اوران کا خاندان ’’ بنو ہاشم ‘‘ہے ،ان کا نام ’’ محمد‘‘اور لقب ’’امین‘‘ہے۔ نسطوراء نے کہا کہ: نبی کے علاوہ اس درخت کے نیچے آج تک کبھی کوئی نہیں آیا۔اس لئے مجھے پکّا یقین (believe)ہے کہ یہیاللہ پاک کے’’ آخری نبی ‘‘ ہیں ۔کیونکہ آخری نبی کی تمام نشانیاں (signs) جومیں نے توریت و انجیل (پرانی کتابوں ) میں پڑھی ہیں وہ سب میں ان میں دیکھ رہا ہوں۔ کاش!میں اس وقت تک زندہ رہتا جب یہ’’ اپنے نبی ہونے کا‘‘ اعلان (announcement) کریں گے تو میں ان کی مدد کرتا اور اپنی تمام زندگی ان کے ساتھ گزار تا۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ خبردار(یعنی یہ بات تم پر لازم ہے کہ)! ایک لمحے (one moment)کےلئےبھی تم ان سے الگ نہ ہونا اور بہت محبّت اور احترام (respect)کے ساتھ ان کے ساتھ رہناکیونکہ اللہ پاک نے ان کو ’’ خاتَمُ النَّبِیِّین ‘‘یعنی’’ آخری نبی‘‘ بنایاہے۔(مدارج النبوت ، قسم دوم ، باب دوم، ج۲،ص۲۷) اس حکایت اورسچے واقعے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ پہلے زمانے کے علماء بھی اپنی کتابوں میں پڑھ چکےتھے کہ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم دنیا میں آئیں گےاور اُن میں کیا کیا نشانیاں(signs) ہونگیں۔اوروہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کےآخری نبی ہیں ان کے بعد کوئی دوسرانیا نبی نہیں آئے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے آخری نبی ،’’ اپنے نبی ہونے کا‘‘ اعلان (announcement) کرنے سے پہلے بلکہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے دنیا میں آنے سے پہلے بھی ’’نبی ‘‘ تھے، جیسا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: میں اس وقت بھی نبی تھا ،جب آدم عَلَیْہِ السَّلَام مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، ج۲،ص ۴۸۴، حدیث: ۳۵۳۵)

حکایت (04):’’موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی لاٹھی(Stick) ‘‘

مُلک مِصْر میں عید کا دن تھا، لوگ خوب تیّار ہو کر ایک بڑے میدان (ground) میں آگئے۔ اس جگہ بادشاہ ’’فِرْعَون‘‘ کےستّر ہزار(70،000)جادوگروں(magicians) کا حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے مقابَلہ(contest) تھا۔یہ تمام جادوگر تین سو(300)اونٹوں(camels) پر مختلف رَسِّیاں (different ropes) وغیرہ لے کر میدان میں آگئےاورحضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ہاتھ میں ’’جنّت کی لاٹھی‘‘ (heavenly staff ) کے ساتھ پہلے سے موجود تھے، جادوگروں نے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا ادب (respect)کرتے ہوئے عرض کیا : پہلے آپ اپنی لاٹھی زمین پر ڈالیں گے یا ہم اپنا سامان ڈالیں؟ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا : پہلے تم لوگ ڈالو! اب جیسے ہی اُنہوں نے اپنی رَسِّیاں اور لکڑیاں زمین پر ڈالیں تو پورا میدان بڑے بڑے سانپوں(big snakes) سے بھرا ہوا نظر آنے لگا ، یہ دیکھ کر لوگ ڈرگئے، اتنے میں حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے ہاتھ میں موجود ’’جنّت کی لاٹھی“ زمین پر ڈالی تو وہ ایک دَم اَژْدَھَا (بہت ہی بڑا سانپserpent.)بن گئی اور میدان میں جو رَسِّیاں اور لکڑیاں ،سانپ نظر آرہے تھے، تو وہ بڑا سانپ سب کو کھا گیا،پھر حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اُس بڑے سانپ کوہاتھ میں لیا تو وہ پہلے کی طرح لاٹھی(stick) بن گئی۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا تو وہ سب آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان (believe)لے آئے۔(صراط الجنان، ج۳، ص ۴۰۳ملخصاً) اس قرآنی حکایت سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کا ادب (respect)بہت ضروری ہے کہ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا ادب کرنے کی وجہ سے وہ جادوگر مسلمان ہوئے۔(قرطبی ،ج۴، ص۱۸۶مُلخصاً) نیزہمیں چاہیے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور اولیا کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ بلکہ ہر دینی چیزمثلا ًقراٰنِ پاک ،آبِ زم زم ، دینی کتابوں،تسبیح ، نیاز کا کھانا، شربت وغیرہ کا ادب(respect ) کریں ۔ ’’جنّت کی لاٹھی‘‘ کیسی تھی؟: {}یہ لاٹھی (stick) جنّتی دَرَخت کی لکڑی سے بنی ہوئی تھی، اسے حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام جنّت سے لائے تھے اور کئی نبیوں سے ہوتی ہوئی حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام تک پہنچی تھی ۔(خازن ،ج۱، ص ۵۷ملخصاً) {}یہ لاٹھی 10گز لمبی تھی{}اِس کی 2شاخیں تھیں جو اندھیرے میں روشنی (light) دیتی تھیں(تفسیرخازن ،ج۱، ص۵۷ ملخصاً) {}جب حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام سوتے تھے تو یہ لاٹھی آپ کا خیال رکھتی (خازن،ج۳،ص ۲۵۹، مُلخصاً) {} ساتھ ساتھ چلا کرتی{}باتیں کرتی {}جانوروں کو دور کر دیتی {}کنویں(well) سے پانی نکالنے کے لئے رَسّی بن جاتی {} زمین پر لگاتے تو دَرَخت بن کر پھل دیتی (نسفی،ص ۶۸۸ ملخصاً)

حکایت (05):’’تینوں رات تک ایک طرح کا خواب‘‘

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے تین (3)رات یہ خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے:بے شک اللہ پاک تمہیں اپنے بیٹے کو ذَبح (یعنی گلے پر چھری (knife)چلانے) کرنے کا حُکم دیتا ہے ۔ (تفسیرِ کبیر ج۹،ص۳۴۶ مُلخصاً) آپ اپنے بیٹے کی قربانی کرنے کے لیے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کو لے کر چلے ۔ شیطان ایک آدمی کی شکل میں آیا کہنے لگا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک نے آپ کو اس طرح بیٹے کی قربانی کا حکم دیا ہے۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اگر اللہ پاک نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے تو پھر میں اس حکم کو پورا کرونگا۔پھرشیطان حضرتِ ا سمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی امّی جان کے پاس آیا اور کہا کہ: ابراہیم (عَلَیْہِ السَّلَام)آپ کے بیٹے کولے کرانہیں ذَبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں اِس بات کا حکم دیا ہے۔یہ سن کر حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے فرمایا:اگر اللہ پاک کا حکم ہے تو اُنہوں نے بہت اچّھا کیا ۔ پھر شیطان حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آیا تو آپ نے بھی یہی جواب دیا کہ اگر اللہ پاک کا حکم ہے توبَہُت اچّھا کررہے ہیں ۔ (مُستَدرَک ج۳ص۴۲۶ رقم۴۰۹۴مُلَخَّصاً) اب شیطان سامنے آگیا اور آگے جانے سے روکنے لگا توحضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے تین(3) جگہ اُسے سات(7) ، سات (چھوٹے چھوٹے) پتھر مارے تو شیطان چلا گیا ( آج بھی حاجی ان تینوں(3) جگہوں پر کنکریاں مارتے ہیں) (تفسیرِ خازن ج۴،ص۲۴ مُلَخّصًا) ۔اب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرتِ اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا(ترجمہ۔Translation): اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟(ترجمہ کنز العرفان) (پ ۲۳، سورۃ الصّفّٰت، آیت۲ ۱۰)بیٹے نے یہ سُن کر جواب دیا(ترجمہ۔ Translation) : اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیاجارہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب(soon) آپ مجھے صبر patience)) کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(ترجمہ کنز العرفان) (پ ۲۳، سورۃ الصّفّٰت، آیت۲ ۱۰) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے جب حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کو ذَبح کرنے کے لئے زمین پر لٹایا تو اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام جنّت سے ایک مینڈھا(یعنی دُنبہsheep) لئے تشریف لائے اور دُور سے اُونچی آوازمیں کہا:اَللّٰہُ اَکْبَر اَللہُ اَکْبَر، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے جب یہ دیکھا اورآواز سنی تو کہا:لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر،پھر حضرتِ اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام نے کہا:اَللہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمد(اس کے بعد سے اِن تینوں پاک حضرات کے ان مبارَک الفاظ کوادا کرنے کی یہ سنّت(یعنی طریقہ) قیامت تک کیلئے جاری ہوگئی: اَللّٰہُ اَکْبَر اَللہُ اَکْبَر، لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر، اَللہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمد)۔ (بِنایَہ شرح ہِدایَہ ج۳ص۳۸۷) اللہ پاک نے فرمایا(ترجمہ۔Translation): اے ابراہیم(عَلَیْہِ السَّلَام)! بیشک ’’آپ‘‘ نے خواب سچ کردکھایاہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔(پ ۲۳، سورۃ الصّفّٰت، آیت۴،۱۰۵ ۱۰) (ترجمہ کنز العرفان،مُلخصاً) جنّت سے آنے والے مینڈھے(یعنی دُنبے) کے سینگ کعبہ شریف میں رکھے رہے یہاں تک کہ یزید کی حکومت آگئی۔ اس کی فوج نےپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے نواسے، امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو شہید کر دیا ۔ اس کے بعداس نےبارہ ہزار یا بیس ہزار سپاہیوں کی فوج(army of soldiers) بھیج کر مدینہ پاک پر حملہ(attack) کرنے بھیجا، انہوں نے سات ہزار(7000) صَحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو شہید کیا، پھر یہمکّےپاک آئے اوربہت سارےشیطانی کام کیے، یہاں تک کہ کعبۃ اللہ شریف کو بھی آگ لگ گئی، جس کی وجہ سے یہ مُبارک سینگ بھی جل گئے۔ (سوانح کربلاص۱۷۸ مُلَخّصًا مع مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۵ ص۵۸۹ حدیث ۱۶۶۳۷ معبیٹا ہو تو ایسا ص۲ تا ۱۵) اس واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) ملا کہ دین کے لیے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ السَّلَام نے بہت قربانیاں (sacrifices)دیں لھذا ہمیں بھی دین پر عمل کرنے کے لیے ، سردی گرمی، خوشی اور غمی میں پانچوں وقت نماز پڑھنی ہے اور اللہ پاک کے دین کی تعلیمات(teachings) پر عمل کرنا ہے۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا نام ابراہیم بن تارخ ہے۔آپ کو اللہ پاک نے اپنا خلیل یعنی دوست بنایا اس لیےآپ کو خلیل اللہ یعنی اللہ کا دوست کہا جاتا ہے۔آپ کے بعد والے تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اورہمارے پیارے نبی محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بھی آپ ہی کی اولاد سے ہیں اس وجہ سے آپ کو ابوُالانبیاء یعنی انبیائے کرام کے والد بھی کہا جاتا ہے آپ مہمان نوازی میں بہت مشہور تھے بغیر مہمان کھانا ہی نہیں کھاتے تھے آپ نے اپنے مکان کے چار(4) دروازے رکھے تھے تاکہ کوئی مہمان ، بغیر کھائے پیے یہاں سے نہ جائے ،آپ کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک کپڑا بیچنے والےتاجر کے پاس سے گزرے تو فرمایا:تم اپنی تجارت کو لازم پکڑ لو کیونکہ تمہارے والد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کپڑے بیچا(sell out )کرتے تھے ۔(سیرت الانبیاء ص ۲۵۶ تا ۲۶۲ملخصا ) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی شان: حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام اپنے خاندان کے بڑوں کو بھی دین کی دعوت دیا کرتے تھے۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے والد تارخ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، اللہ پاک پر ایمان(believe) رکھتے تھے مگر چچا آزر مسلمان نہ تھا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کی عادت کے مُطابق اپنے چچا کو باپ کہہ کر دین کی طرف بُلایا۔یاد رہے! حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام اور تارخ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اوپر سے دادا ہیں اور پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والدین اور سب دادا اور اُمّہات (اوپر تک کی سب والدہ) جنّتی ہیں (تفصیل کے لیے دیکھیں صراط الجنان،ج۶،ص۱۰۲)حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے چچا کو جو دعوت دی ،قرآنِ پاک میں اُسے یوں بیان کیا گیاہے: ترجمہ (Translation) : اے میرے باپ! شیطان کا بندہ نہ بن، بیشک شیطان رحمٰن کا بڑا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ! میں ڈرتا ہوں کہ تجھے رحمٰن کی طرف سے کوئی عذاب پہنچے تو تُو شیطان کا دوست ہوجائے۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ ۱۶، سورۃ مریم ، آیت ۴۴،۴۵)

حکایت (06):’’ سو(100) سال تک سوتے رہے‘‘

ایک مرتبہ اللہ پاک کے نبی حضرتِ عُزَیْر عَلَیْہِ السَّلَام’’ بَیْتُ الْمَقْدِس‘‘کے پاس سے گزر ے(مُلک فلسطین میں موجود ’’ مسجدِ اقصیٰ ‘‘جس کی طرف منہ کر کے پہلے نماز پڑھی جاتی تھی مگر اب قیامت تک کعبہ شریف کی طرف ہی نماز پڑھی جائے گیا، اسے’’ بَیْتُ الْمَقْدِس‘‘ بھی کہتے ہیں)۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس ایک برتن میں کھجور اور ایک پیالے میں انگور کا رَس(grape juice ) تھا نیز آپ ایک دَرَازگوش (donkey) پر تھے ۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام بَیْتُ الْمَقْدس کے سب محلّوں میں گئے لیکن آپ کو کوئی آدمی نظر نہیں آیا،اور سب گھر خالی تھے، یہ دیکھ کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے کہا، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے( ترجمہ۔Translation : ) اللہ اِنہیں اِن کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ (پ۳، البقرۃ،آیت۲۵۹) (ترجمہ کنز العرفان)یہ کہنے کے بعد آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنا جانور کسی جگہ باندھااور سونے کے لیے لیٹ گئے، یہ صُبْح کا وقْت تھا،اِس دوران آپ کی رُوح نکال لی گئی اور آپ ” سو(100) سال تک سوتے رہے‘‘، اس وقت میں آپ کا گدھا تو مرگیامگرآپ عَلَیْہِ السَّلَام کا برکت والا جسم بالکل صحیح رہا لیکن کوئی بھی آپ کو دیکھ نہ سکا پھر اللہ پاک نے 100 سال بعد آپ کو شام کے وقْت زندہ کیا ،اورفرمایا : تم کتنے دن سے یہاں رُکےہوئے ہو؟ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرْض کی:’’ایک دن یا اِس سے کچھ کم وقْت۔‘‘کیونکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ خیال تھا کہ یہ اُسی دن کی شام ہے جس کی صُبْح آپ سونے کے لئے لیٹے تھے۔ اللہ پاک نے فرمایا: تم یہاں سو(100) سال سے سو رہے ہو، اپنے کھانے پینے کی چیزیں دیکھو ! وہ بالکل صحیح ہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو کہ وہ کس حال میں ہے! جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے کھجوریں(dates ) اورانگور کا رَس (grape juice ) دیکھا تووہ بالکل صحیح تھے لیکن گدھا بالکل ختم ہو گیا تھا ، صِرْف ہڈّیاں نظر آرہی تھیں۔ اللہ پاک کے حکم سے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہوکر آواز نکالنے لگا۔ حضرتِ عُزَیْرعَلَیْہِ السَّلَام نے جب یہ دیکھا تو فوراً کہا: میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اللہ پاک جو چاہے، وہ کام کرسکتا ہے۔ (ماخوذ اَز صِراط الجِنان ،ج۱، ص۳۹۱) قرآنِ پاک میں موجود اس واقعے سے سیکھنے کو ملا کہ اللہ پاک جو چاہے، وہ کام کر سکتا ہے۔جس طرح اللہ پاک نے سو(100)سال بعد حضرتِ عُزَیْر عَلَیْہِ السَّلَام کو زندہ فرمایا اور آپ کے گدھے کو بھی زندہ کیا اِسی طرح قِیامت کے دن اللہ پاک سب لوگوں کو زندہ فرمائے گااور اُن سے اُن کے اچھے بُرے کاموں کے بارے میں پوچھے گا دوسری بات یہ پتا چلی کہ نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کی بہت بڑی شان ہے کہ سو(100) سال تک سوتے رہے مگر اللہ پاک کے حکم سے آپ کے جسم اور آپ کے کھانے کو بھی کچھ نہیں ہوا۔

حکایت (07):’’ایک رات میں کیا کیا ہوا؟‘‘

اللہ پاک کی طرف سے نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ملنے والے انعامات(rewards) میں سے ایک خاص انعام(special reward) معراج ہے ۔ایک رات آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جس گھر میں سو رہے تھے وہاں کی چھت کھلی اورحضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلاَم چند فرشتوں کےساتھ آئے اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو مسجد حرام ( یعنی جس مسجد میں کعبہ شریف ہے) میں لےگئے،وہاں آپ کے سینہ مبارک (chest) کو شق کیا (یعنی کاٹا split) گیااور آپ کےمبارک دل کو نکال کر آب ِزمزم شریف سےدھویا گیاپھر ایمان او رحکمت سے بھر کر دل سینےمیں واپس رکھ کرآپ کے سینے(chest) کو پہلے کی طرح کردیاگیا۔پھرآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم براق (یعنی گھوڑے جیسے تیز رفتار(fastest speed) والے جانور )پرسوار ہو کر بیتُ المقدس تشریف لائے ( یعنی دوسرے ملک میں بنی ہوئی” مسجدِ اقصیٰ‘‘ آئے، شروع میں مسلمان اس کی طرف منہ کر کہ نماز پڑھتے تھے۔ مکّہ پاک سے اس مسجد جانے کے لیے تقریباًپندرہ(15) دن کا سفر ہوتا تھا مگر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تھوڑی دیر میں پہنچ گئے) ۔آپ کی سواری ایسی تیز رفتار(fastest speed) تھی کہ جہاں براق کی آخری نظر جاتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا۔بیتُ المقدس پہنچ کر براق کو آپ نے اس جگہ باندھ دیا جس جگہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلاَم اپنی اپنی سواریوں (یعنی جانور وغیرہ)کو باندھا کرتے تھے پھرآپ نےتمام انبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلاَم کو جو وہاں موجود تھے دو(2) رکعت نمازنفل جماعت سے پڑھائی۔ (تفسیر روح البیان جلد ۵ ص ۱۱۲ملخصا) پھرحضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلاَم آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ساتھ لے کر آسمان کی طرف چلے ۔ پہلے(1st ) آسمان میں حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم سے، دوسرے (2nd )آسمان میں حضرت یحییٰ عَلَیْہِ السَّلاَم اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم سےملاقاتیں ہوئیں اور کچھ باتیں بھی ہوئی ۔تیسرے(3rd )آسمان میں حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلاَم ،چوتھے(4th ) آسمان میں حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلاَم اورپانچویں (5th )آسمان میں حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلاَم اورچھٹے(6th ) آسمان میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم ملےاور ساتویں(7th ) آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلاَم سے ملاقات ہوئی۔ملاقات میں ہر نبی عَلَیْہِ السَّلاَم نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ” خوش آمدید!(یعنی welcome) اے نیک نبی “کہہ کر آپ کا استقبال کیا۔ پھر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو جنّت کی سیر کرائی گئی۔اس کے بعد آپ سدرَۃ ُالْمُنتہَیٰ پر پہنچے(یہ آسمانی دنیا کا آخری کوناend) ہے)۔ یہاں پہنچ کر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلاَم یہ کہہ کر رُک گئے کہ اب اس سے آگے میں نہیں جا سکتا۔پھر عرش پر پہنچنے کے لیےآپ نے اکیلے(alone)سفر کیا۔معراج کی رات آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےاپنے سر کی آنکھوں سےاللہ پاک کا دیدار کیا (یعنی اللہ پاک کو دیکھا)اور بغیر کسی واسطہ کے(یعنی فرشتے وغیرہ کے بغیر ) اللہ پاک کا کلام سنا۔ (بہارشریعت ج۱، ص۶۷مُلخصاً) اس سچے واقعے سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمار ےپیارے آقا حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا اللہ پاک کی بارگاہ میں ایسابڑا مقام اور مرتبہ(rank) ہے جیسا کسی مخلوق(creatures) کا نہیں ،ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اللہ پاک نے وہ انعامات(rewards) دیے ہیں کہ جو کسی نبی عَلَیْہِ السَّلاَم تک کو نہیں دیے،جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو رات کے کچھ حصّے میں بیتُ المقدس ساتوں آسمان ،عرش الٰہی ، جنّت کی سیر کرائی اوربہت سی نشانیاں (signs)آپ کو دکھائیں ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہاللہ پاک نے ہمارے پیارےنبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اپنا دیدار (sight) خود بلا کرکرایا جس کے لیے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم اللہ پاک کی بارگاہ میں گزارش (یعنی عرض) کرتے رہے لیکن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کو اللہ پاک کا دیدار نہیں ہوا ۔ زندگی میں اللہ پاک کا جاگتے ہوئے دیدار صرف ہمارے آخری نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ہوااورقیامت تک کسی کو نہیں ہو سکتا۔ہاں! جنّت میں جانے کے بعد سب جنّتیوں کو ہوگا۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلاَم میں ہمارے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا سب سے بڑا مرتبہ (rank)ہے کہ معراج کی رات بیتُ المقد س میں آپ نے انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَم کی امامت فرمائی ۔

حکایت (08): ’’اس رات میں اورکیا ہوا؟‘‘

ایک صحابی حضرت سیدنا ابوایوب انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ مدینہ پاک میں پیارے آقا صَلَّی اس رات اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو بے شمار انعامات(rewards) دیے، جن میں تین(3) خاص انعامات وہ دیئے گئے جن کی عظمتوں (اور اہمیّت (importance))کو اللہ پاک اور رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے علاوہ کوئی اور (صحیح طرح)نہیں جانتا:(۱) سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں (۲) یہ خوشخبری (good news)کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اُمّت کا ہر وہ شخص جس نے شرک( ) نہ کیا ہو بخش دیاجائے گا(یعنی بالاخر جنّت میں چلا جائے گا)۔ (۳) اُمّت پر پچاس(50) وقت کی نماز۔ (اللہ ولوں کی باتیں ج۵، ص۳۴مُلخصاً) جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کی طرف سے دیئے گئےتحفے(gifts) لے کر واپس آئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم نےآپ سے عرض کیا:کہ آپ کی اُمّت پچاس(50) نمازیں نہیں پڑھ سکے گی لہٰذا آپ واپس جائیں اور اللہ پاک سےکم کروائیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کےمشورہ سے چند بار آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کی بارگاہ میں آتے جاتے اورعرض کرتے رہے یہاں تک کہ صرف پانچ(5) وقت کی نمازیں رہ گئیں اور اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے فرمایا: کہ میراقول(یعنی اللہ پاک کا فرمان) بدل نہیں سکتا۔اےمحبوب! آپ کی اُمّت کےلیے یہ پانچ (5)نمازیں بھی پچاس(50) ہوں گی(یعنی نمازیں تو پانچ (5)پڑھیں گے مگر میں پچاس(50) نمازوں کاثواب دونگا)۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کی نشانیاں، دیکھ کر آسمان سےزمین پر تشریف لائےاور بیتُ المقدس سے براق پر بیٹھ کر مکّہ شریف واپس آ گئے۔مکّے شریف پہنچ کر جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے معراج کا واقعہ قریش کے لوگوں کو سنایا تو وہ بہت حیران ہوئے(کہ رات کے کچھ حصّے میں بیتُ المقدس ،آسمانوں اورعرشِ الہی کی سیر کس طرح ہوسکتی ہے اس میں تو کئی سال لگ جائیں گے ) اور بعض لوگوں نے آپ کو جھوٹا کہا اوربعض لوگوں نےامتحان کے طور پر بیتُ المقدس اور راستے کے بارے میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے بہت سے سوالات کیے اور ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ا ن کے تمام سوالات کے جوابات صحیح صحیح بتا دیے (یہاں تک کے اعتراض (یعنی اُلٹے سیدھے سوالات)کرنے والے خاموش ہوگئے )۔ (سیرت مصطفی ،ص ۷۳۴، ۷۳۵ملخصا مع بخاری ومسلم ، شفاء جلد۱ ص ۱۸۵ و تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنی اُمّت سے بہت محبت فرماتے ہیں کہ آپ اُمّتیوں کی آسانی کے لیے بار بار اللہ پاک کے پاس حاضر ہوتے رہےاور پچاس (50)نمازوں کی پانچ(5) نمازیں کروادیں ۔ہمیں بھی چاہیے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ملنے والے اس تحفے(gift) کی قدر کریں (value it) اور روزانہ پانچوں نمازیں ادا کریں۔

حکایت (09):’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام آسمان پر‘‘

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے جب یہودیوں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا تو یہودی یہ بات اپنی کتاب’’ تورات شریف ‘‘میں پہلے سےپڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے آنے پر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کےدین پر عمل کیا جائے گا اور ہمارے دین پر عمل ختم ہو جائےگا، اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے۔ یہودیوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے قتل کا ارادہ کر لیا(planning کر لی) اور ایک شخص کو آپ کے گھر میں آپ کو شہید(یعنی قتل) کرنے کے لئے بھیجا اور کئی یہودی باہر کھڑے رہے۔ اللہ پاک نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف بھیجا۔وہ انہیں لے کر آسمان کی طرف آگئے۔ جس آدمی کو حضرت عیسی ٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس بھیجا تھا ، وہ بہت دیر تک گھر میں حیران،پریشان (surprised) رہا۔جب وہ باہر نہیں نکلا تو باقی یہودی مکان کے اندر آگئے۔ اللہ پاک نے اُس پہلے شخص کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی شکل کا بنا دیا تو یہودیوں نے اپنے ساتھی ہی کو قتل کردیا۔ اس کے بعد جب انہوں نےغور سے دیکھا تو صرف چہرہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی طرح تھا لیکن سارا جسم اُس ساتھی کی طرح کا تھا تو اس کے خاندان والوں نے کہا کہ اگر یہ (حضرت) عیسیٰ ہیں تو ہمارا آدمی کہاں گیا؟ اور اس بات پر خود یہودی ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ (عجائب القرآن ص ۷۶ مُلخصاً) اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا، ترجمہ (Translation) : انہوں نے نہ تواسے(یعنی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو) قتل کیا اور نہ اسے سولی (crucifixion) دی بلکہ ان (یہودیوں ) کے لئے (عیسیٰ سے ) ملتا جلتا (ایک آدمی)بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر(یعنی لڑ) رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ(یعنی شک) میں پڑے ہوئے ہیں ( حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان(guess) کی پیروی(follow) کے ان کواس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ (پ۳،آل عمران:۵۴،۵۵مُلخصاً) اس سچے واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے، وہ اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی حفاظت (protection) کرنے والا ہے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی جو بھی شان ہے، سب اللہ پاک ہی کی طرف سے ہیں وہ ہمارے سردار اور اللہ پاک کےنیک بندے ہیں ۔ ۔

حکایت (10):’’فرعون کے محل(palace) میں‘‘

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کےپیدا ہونےسے پہلےمصر کے مُلک میں فرعون کی حکومت تھی۔ فرعون نے ایک دن خواب دیکھا جس کے بارے میں اُسے بتایا گیا کہ: بنی اسرائیل کی قوم میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمھاری بادشاہت(kingship) ختم کردےگا،لھذا اس نے حکم دیا کہ جو بچہ پیدا ہو،اُسے قتل کر دیا جائے۔جن دنوں فرعون کےحکم سے بنی اسرائیل کےلڑکوں کو قتل کیا جارہاتھا انہی دنوں میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پیدا ہوئے۔ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ (یعنی امّی جان) کے دل میں یہ بات ڈال دی (ترجمہTranslation:) کہ اس بچے کو صندوق(box) میں رکھ کر دریا (river)میں ڈال دے ۔ (پ۲۰،سورۃ القصص،آیت۷) ( ترجمۂ کنزُالعِرفان) جب یہ صندوق (box)فرعون کے سامنے کھولا گیا تو اس میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام تھے،وہاں پرفرعون کی بیوی حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا بھی موجودتھیں (یہ بہت نیک عورت تھیں،انبیائے کرام عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سےتھیں، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لے آئیں تھیں)۔جب فرعون نے صندوق میں ایک بچہ دیکھا تو اس نے سوچا کہ کہیں یہ وہی بچہ نہ ہو جومیری بادشاہت (kingship)ختم کر دےگا۔اب اس نے بچےکو قتل کرنے کا پکا ارادہ (firm intention)کر لیا لیکن حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَانے فرعون کو اس کام سے منع کرتے ہوئے کہا: اس کو قتل نہ کر،یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،ہم اس کو بیٹا بنالیتے ہیں،ممکن (possible) ہے کہ اس سے ہمیں فائدہ ہو ۔یہ سُن کرفرعون نے بچے کو چھوڑدیا ۔ فرعون کے محل (palace) میں بچے کو دودھ پلانے کے لیے کئی عورتیں بلائی گئیں مگر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام دودھ نہ پیتے تھے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی بہن بھی وہاں موجود تھیں انہوں نےیہ دیکھ کر کہا :میں ایک ایسی عورت کو جانتی ہوں کہ یہ بچہ اس سے دودھ پی لے گا،فرعون بچے کے دودھ نہ پینے کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھا اس نے ان کی بات مان لی، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ کو بلایا گیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے دودھ پی لیا،اب فرعون نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ کو دودھ پلانے پر رکھ لیا اور یوںاللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو اُن کی امّی کے پاس دوبارہ(again) بھیج دیا۔ قرآنِ پاک میں بیان کردہحکایت ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ پاک جس کی حفاظت(protects) فرمائے اسے کوئی بھی تکلیف نہیں دے سکتا ۔ یہ بھی پتا چلا کہاللہ پاک اپنے نیک لوگوں کے دلوں میں خاص باتیں ڈال دیتا ہے ۔ اللہ پاک کے نیک بندوں کے دلوں میں جو بات ڈالی جاتی ہے، اِسے "الہام"کہتے ہیں، جیسے اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ کے دل میں بات ڈالی ۔ اللہ پاک اپنے نبیوں(عَلَیْہِمُ السَّلَام) کو جو خاص پیغام بھیجتاہے،اِسے "وَحی "کہتے ہیں۔اور"وحیِ نبوت " صرف انبیاء ِکرام (عَلَیْہِمُ السَّلَام)کو ہوتی ہے، اولیاء ِ کرام(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ)کو بھی نہیں ہوتی۔نبی کا خواب بھی "وحیِ نبوت " ہوتا ہے کہ ان حضرات کی آنکھیں سوتی ہیں،دل نہیں سوتا۔( مراۃ شرح مشکوۃ، جلد۱۔ص ۶۴۵مُلخصاً) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو خواب میں ہی حضرت اسمعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی قربانی کا حکم دیا گیا۔( پ۲۳، سورۃ الصٰفٰت، آیت۱۰۲مُلخصاً)

حکایت (11):’’ہر نبی عَلَیْہِ السَّلاَم کی شان بہت بڑی ہے ‘‘

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے زمانے(time) میں ایک بہت عبادت کرنے والا عالم تھا، اس کا نام بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء تھا۔اس کو اللہ پاک نے ایسا مقام (rank)دیاتھا کہ یہ اپنی جگہ بیٹھ کر ساتوں آسمانوں سے اوپر عرشِ اعظم( ) کو دیکھ لیا کرتا تھا۔اور اس کی دعائیں قبول(accept) ہوتی تھیں۔اس کےشاگر(students) بہت زیادہ تھے۔ بَلْعَمْ کی قوم، اس وقت کے نبی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم پر ایمان نہیں لائی تھی اس لیے، اس قوم نے بَلْعَمْ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَماوران پرایمان لانے والےمومنین کے خلاف (against)بددعا کرنےکےلیےکہا: یہ سن کر بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء ڈرگیااور کہنےلگا: خدا کی پناہ! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم اللہ پاک کے رسول ہیں۔اور ان کے ساتھ ایمان والے اور فرشتے ہیں ، میں ان کےلیےکیسےبددعا کرسکتا ہوں؟ اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں خراب ہوجائیں گی۔لیکن اس کی قوم نے بار بار اسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے لیے بددعا کرنے کا کہا اور اسے بہت زیادہ انعام (rewards)اورتحفوں (gifts)کالالچ بھی دیا ۔یہاں تک کہ بَلْعَمْ لالچ میں آگیااوروہ مال کی لالچ میں اپنی گدھی پر بیٹھ کر بددعا کے لیے چل پڑا ۔راستے میں بار بار اس کی گدھی رُک جاتی اور پیچھے جانا چاہتی تھی مگر یہ اس کو مار مار کر آگے لے جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ گدھی کو اللہ پاک نے بولنے کی طاقت دی اور اس نے کہا کہ افسوس (Alas!)! اے بَلْعَمْ تو کہاں جا رہا ہے؟ دیکھ! میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روک کر مجھے پیچھے کر رہے ہیں۔اے بَلْعَمْ! تیرا برا ہو۔ کیا تو اللہ پاک کےنبی اور ایمان والوں پر بددعا کریگا؟ گدھی کی بات سن کر بھی بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء واپس نہیں ہوا اور ایک اونچے پہاڑ پر چڑھ کر بیٹھ گیااور وہاں سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کی قوم کو دیکھنے لگا اور مال و دولت کےلالچ میں اس نے بددعا شروع کردی۔لیکن اللہ پاک کی شان کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کےلئے بددعا کرنے کی کوشش کرتا تھا مگر اس کی زبان سے اس کی قوم کے لئے ہی بددعا نکلتی تھی(یعنی وہ کہنا چاہتا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کی قوم تباہ ہوجائے مگر جب وہ بولتا تو یہ کہتا کہ میری قوم تباہ ہوجائے)۔ یہ دیکھ کر کئی مرتبہ اس کی قوم نے بولا: کہ اے بَلْعَمْ! تم تو ہمارے لیے بددعا کررہے ہو۔ تو اس نے کہا کہ اے میری قوم! میں کیا کروں میں تو حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلاَم اوران کی قوم کےلیے بددعا کرتا ہوں لیکن میری زبان سے تمہارے لیے بددعا نکلتی ہے۔ پھر اچانک (suddenly)اس پر اللہ پاک کا عذاب آ گیااور اس کی زبان لٹک(یعنی منہ سے باہر نکل ) کر اس کے سینے پر آگئی۔ اس وقت بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء نے اپنی قوم سے رو کر کہا کہ افسوس (Alas!) میری دنیا اور آخرت دونوں خراب ہوگئیں۔ میرا ایمان چلا گیا اور مجھ پر اللہ پاک کاعذاب آگیا(punishmentہوئی) ،اب میری کوئی دعا قبول(accept) نہیں ہوسکتی۔(تفسیر الصاوی، ج۲، ص۷۲۷،پ۹،الاعراف، :۱۷۵۔ مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ کوئی شخص کتنی ہی عبادت کرے اگرچہ اس کی دعائیں بھی قبول(accept) ہوتی ہوں لیکن وہ اللہ پاک کے”نبی ‘‘کے برابرتو کیا ان کے قدموں کی مٹّی کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام تو،تمام مخلوق(creatures) یہاں تک کہ رسول فرشتوں سے بھی افضل (superior) ہیں۔ ولی کتنا ہی بڑے مرتبہ والا ہو، کسی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا ۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَامکےگستاخ پر اللہ پاک کا عذاب آجاتا ہےیاد رہے! نبی کی تعظیم (respect) فرض،لازم اور ضروری ہے۔ کسی نبی کی تھوڑی سی بھی توہین(insult) کرنا کفر ہے کہ تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ، اﷲ پاک کے نزدیک، شان اور عزّت والے ہیں۔ جنّتی

حکایت(12): ’’نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سب کے لیے رحمت‘‘

کہا جاتاہے کہ قریش کےلوگوں نےآپس میں یہ بات کہی کہ اللہ پاک نےہم لوگوں میں سب سے زیادہ عزت(respect) محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کو دی ہے اور ان لوگوں نے اللہ پاک سےدعا کی: اے اللہ !اگرمحمد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) تیرے نزدیک سچے ہیں (in the right)تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش بھیج دے یا ہم پر سخت عذاب(punishment) فرما۔جب رات ہوئی تو انہیں اپنی اس دعا پرافسوس (felt sorry)کرنے لگے اور اللہ پاک سے دعا کی :کہ اے اللہ پاک ہمیں معاف فرما دے۔تو اللہ پاک نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی، ترجمہ (Translation) : اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب!تم ان میں تشریف فرما ہواور اللہانہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش(یعنی معافی) مانگ رہے ہیں۔(پ۹، سورۃالانفال،آیت۳۳) (ترجمہ کنز العرفان) (تفسیر ابن کثیر ،۴ /۴۹) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمارے پیارےنبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم رَحْمَۃُ الِّلْعٰلَمِیْن ہیں یعنی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم فرشتوں ،انسانوں ،جنّات ،جانوروں اورتمام مخلوقات (creatures) کے لیے رحمت ہیں کیونکہ جب لوگوں نےعذاب مانگا تو انہیں جواب دیا گیا کہ جب تک تمھارے نبی محمدٌ رّسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تمہارے درمیان موجود ہیں اللہ پاک عام (یعنی سب پر)عذاب نازل نہیں فرمائے گا۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جب کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً اللہ پاک سے معافی مانگنی چاہیے۔تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہاللہ پاک کے غضب سے بچنے کےلیےہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا (مثلاً اَسْتَغْفِرُاللہ!کہتے رہنا)چاہیے۔