حکایت(01):واہ کیا بات ہے عاشقِ قراٰن کی
حضرتِ ثابِت بُنانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روزانہ ایک بار مکمل قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہمیشہ دن کوروزہ رکھتے اورساری رات عبادت فرماتے ، جس مسجِد سے گزر تے اس میں دو (2)رَکعت نفل نماز ضَرور پڑھتے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےاپنی مسجِد کے ہرسُتُون(column) کے پاس مکمل قرآن پاک کی تلاوت فرمائی اور اللہ پاک سے رو رو کر دعا بھی کی تھی ۔ نَماز اور قرآنِ پاک کی تلاوت کے ساتھ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بہت زیادہ مَحَبَّتتھی، اللہ پاک نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پر ایسا کرم کیا کہ حیرت ہوتی ہے چُنانچِہ انتقال کے بعد، جب ان کو قبر میں دفن کر رہے تھے تو قبر کی ایک اینٹ(brick) اندر کی طرف گر گئی،جب اُس اینٹ کوا ُٹھانے کے لیے لوگ جھکےتو یہ دیکھ کر حیران رَہ گئے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہقَبْر میں کھڑے ہو کرنَماز پڑھ رہے ہیں ! آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے گھر والوں سے جب معلوم کیا گیا تو آپ کی بیٹی نے بتایا : والد صاحب روزانہ دُعا کیا کرتے تھے: یا اللّٰہ! اگرتُو کسی کو وفات کے بعد قَبْر میں نَماز پڑھنے کی اجازت دے تو مجھے بھی دینا۔ کہا جاتا ہے: جب بھی لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزار مُبارک کے قریب سے گزرتے تو قَبْر شریف سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز آرہی ہوتی۔(حِلیۃُ الاولیا ء ج۲ ص۳۶۲۔۳۶۶ مُلتَقطاً دار الکتب العلمیۃ) اس سچے واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے والوں کا بہت بڑا مقام ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ پانچوں نمازیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ نفل نماز بھی پڑھیں اور خوب خوب قرآن ِ پاک کی تلاوت کریں۔ یہ باتیں بھی یاد رکھیں کہ ہمیں قرآن پاک صحیح پڑھنا، سیکھنا ہوگا، اسی طرح نماز کے شرعی (یعنی دینی) مسائل سیکھنا بھی ضروری ہیں ۔سمجھدار بچوں(sensible children) اور مردوں کو مسجد میں امام صاحب کے پیچھے، جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔
حکایت (02): ’’حضرت داود عَلَیْہِ السَّلَام کی آواز ‘‘
حضرت ِداتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :اللہ پاک نے حضرت داود عَلَیْہِ السَّلَام کوبہت خوبصورت آواز دی تھی کہ جب آپ (زبور شریف پڑھتے) اور اللہ پاک کا ذکرکرتے تھےتو آپ کی آواز سن کرچلتا ہوا پانی رُک جاتا تھا،جانور آپ کی مبارک آواز سن کر اپنےگھروں سےباہَر نکل آتے(اور آپ کےساتھ اللہ پاک کا ذکرکرتے)تھے،اُڑتے پرندے گرجاتے تھےاور کبھی ایک ایک مہینےتک بےہوش پڑے رہتے اور کھانا پینا بھول جاتے تھے،دودھ پینے والے بچے دودھ مانگنا چھوڑ دیتے اورکئی لوگ فوت ہوجاتے یہاں تک کہ ایک بار آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی خوبصورت آواز سن کر، اللہ پاک کی محبّت میں بَہُت سارے لوگوں کا انتقال ہو گیا۔ شیطان یہ سب کچھ دیکھ کر پریشان ہورہا تھا اوراُسے بہت تکلیف ہو رہی تھی ۔اب شیطان نےلوگوں کو حضرت داود عَلَیْہِ السَّلَام کے پیارے کلام سے دور کرنے کے لیے بانسری(flute) وغیرہ بنائی اورحضرتِ داود عَلَیْہِ السَّلَام کے رحمتوں بھرے اجتماع کے سامنے اپنا گناہوں بھرا میلا لگا لیا یعنی موسیقی( گانے باجے) کا سلسلہ شروع کیا۔اب حضرتِ داود عَلَیْہِ السَّلَام کو سننے والے لوگ دو جگہ تقسیم(divide)ہوگئے، نیک اور خوش نصیب(lucky) لوگ حضرتِ داود عَلَیْہِ السَّلَام ہی کو سنتےتھےجبکہ بُرے اور بدنصیب(unlucky) لوگ گانے باجے سن کرا پنی آخرت خراب کرنے لگے۔( ماخوذ از کشف المحجوب ص۴۵۷ ) حضرت داود عَلَیْہِ السَّلَام کی خوبصورت آواز اورذکرکےبارے میں قرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایا(ترجمہ ۔Translation) : اور داؤد کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو تابع بنا(یعنی ساتھ کر)دیا کہ وہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے ( پارہ ۱۷،سورۃ الانبیاء، آيت:۷۹)( ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں: پہاڑ اور پرندے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ اس طرح ذکر کرتے تھے کہ سننے والے ان کی آواز سنتے تھے ۔ورنہ درخت ا ور پتھر وغیرہ تواللہ پاک کی تسبیح کرتے ہی رہتے ہیں ۔ (نورالعرفان ص ۵۲۳ مُلخصاً) اس قرآنی واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک کا کلام سُننا بہت اچھا کام ہے اور اگر اللہ پاک کے کلام کو اچھے انداز میں پڑھا جائے تو اس سے سننے والوں کے دلوں کو سکون (calm)ملتا ہے ۔اوریہ بھی معلوم ہوا کہ گانے سُننا، باجے بجانا شیطانی کام ہیں اور ان کے ذریعے شیطان لوگوں کو اللہ پاک کے ذکر سے دور کرتا ہے اورگناہ کرواتاہے ۔ یہ بات یاد رہے قرآن پاک سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں وہ صرف انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو زبانی یاد ہوتی تھیں،لیکن یہ اللہ پاک کا کرم ہے کہ مسلمانوں کا بچّہ بچّہ قرآنِ کریم زبانی یاد کرلیتا ہے۔
حکایت(03): ’’دن رات کسے گزارتے تھے؟ ‘‘
حضرت ِمِسْعَر رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی مسجِد میں حاضِر ہوا، دیکھا کہ فجر کی نماز پڑھنےکے بعد آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ لوگوں کو سارا دِن علمِ دین پڑھاتے رہتے، پورے دن میں صِرف نَمازوں کا وَقفہ (gape)ہوا۔ عشاء کی نماز کے بعدآپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے گھر چلے گئے مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد سادہ لباس پہن کر،عِطْر لگا کر، پھر مسجِد آگئے اور ایک کونے (corner)میں نفل نمازپڑھنا شروع کر دی یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوگیا،آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ پھر اپنے گھر چلےگئے اور لباس بدل(change) کر واپَس آئے اور فجر کی نمازجماعت کے ساتھ پڑھی اور کل (yesterday)کی طرح عِشاء تک علم دین پڑھاتے رہے۔ میں نے سوچا آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بَہُت تھک گئے(tired) ہونگے، آج رات تو ضَرور سوئیں گے، مگر دوسری رات(second night) بھی نفل نماز پڑھتے رہے۔ پھر تیسرا دن اور رات بھی اِسی طرح گزرا۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ زندگی بھر ان کے پاس رہ کر علم حاصل کرونگا۔ بس!میں وہی رُک گیا۔ میں نے امامِ اعظم رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دن میں کبھی روزے کے بغیر نہیں دیکھا اور رات کو کبھی عبادت ا ور نفل نماز چھوڑتےنہیں دیکھا ۔ ہاں! ظہر سے پہلےآپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ دیر آرام فرما لیا کرتے تھے۔ (اَ لْمَناقِب لِلْمُوَفَّق ج ۱ ص۲۳۰تا۲۳۱ کوئٹہ، مُلخصاً) اس طرح ظہر سے پہلے سونے کو”قیلولہ “کہتے ہیں ، دوسرے مکروہ وقت(یعنی ضحوہ کُبریٰ جونمازکلینڈراور اپلییکیشن (prayer time dawateislami mobile application ) سے دیکھا جاسکتا ہے) سے لے کر ظہر تک ”قیلولہ “ کرنے کا وقت ہے(فتاوی رضویہ ج۷، ص ۸۷، ماخوذاً) ۔قیلولہ مُستحب اور ثواب کا کام ہے،یہ سونااُن لوگوں کے لیے ہے کہ جو رات کو عبادت کرتے یا علمِ دین حاصل کرتے ہیں۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶، ص۴۳۴،۴۳۵،مُلخصاً) شروع میں آپ ساری رات عبادت نہیں کرتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے یہ کہہ دیا کہ’’ ابو حنیفہ (رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ )ساری رات نہیں سوتے(یعنی عبادت کرتے ہیں)۔ ‘‘ اب آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اُس کی بات سچی کرنے کے لیے ساری رات عبادت شُروع کردی۔(اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان ص۵۰ مُلخصاً) آپ نےتیس(30) سال تک روزے رکھے، تیس (30)سال تک ایک رَکعَت میں قرآنِ پاک خَتْم کرتے رہے، چالیس (بلکہ 45)سال تک عِشا ءکے وُضُو سے فجر کی نَماز پڑھی ، ایک رَکْعَت میں پورا قرآن کریم خَتْم کرلیتے تھے، جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پر آپ نے سات ہزاربار قرآنِ پاک خَتْم کئے تھے۔(اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان ص۵۰ ) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ علم کے ساتھ عمل کا بہت بڑا مقام ہے۔ فرض کےساتھ ساتھ نفل نماز بھی پڑھنی چاہیے(لیکن یہ یاد رہے کہ قرآنِ پاک ایک رات میں مکمل کرنا یہ اللہ پاک کے ولیوں کا کام ہے، ہم پڑھنے کی کوشش کریں گے تو جلد کریں گے اور غلطیاں کریں گے، اس لیے ہمیں تین راتوں سے پہلے مکمل قرآنِ پاک ختم نہیں کرنا چاہیے(فتاوی رضویہ ج۷،ص۴۷۲ مع بہارِ شریعت ج۱،ص ۵۵۱، مسئلہ ۴۸ماخوذاً)) نیز یہ بھی پتا چلا کہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی بہت اہمیّت(importance) ہے ۔ یاد رہے کہ نماز ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری آنکھوں کی ٹھنڈک اور جنّت میں لے جانے والی ہے لھذا ہم نماز پڑھیں اور ایسی پڑھنی ہے کہ جیسا پڑھنے کا حکم ہے تو ہم نماز کے مسائل بھی سیکھیں اور بچّے، مرد وغیرہ کسی سُنی عالم کو اور بچّیاں ، خواتین وغیرہ کسی سُنی عالمہ کو اپنی نماز چیک بھی کروائیں،اسی طرح کسی سنی قاری کے ذریعے مرد اور بچّےجبکہ قاریّہ کے ذریعے خواتین اور بچّیاں درست قرآنِ پاک پڑھنا سیکھ لیں۔
حکایت (04):’’’قرآن پاک کی تلاوت اورغیر مسلم کا قبولِ اسلام‘‘
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہ (مدینے پاک کی )مسجد ِنبوی شریف میں کھڑے تھے تومُلکِ روم کا رہنے والا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا:میں گواہی دیتا ہوں(I testify) کہ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کے رسول ہیں۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُ نےاس سے فرمایا: تم مسلمان کیوں ہوئے؟اس نےعرض کی : میں نے تورات، انجیل، زبور اور دیگر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی کتابوں کو پڑھاہے۔میں نے ایک قیدی(prisoner) کو قرآن پاک کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا جو پچھلی(previous) تمام کتابوں میں دئیے گئےحکموں کو جمع کرنے والی ہے،اس آیت سے مجھے پتا چل گیا کہ قرآنِ پاک واقعی اللہ پاک کی کتاب ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نےا س سے پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے؟تو اس نے یہ آیت تلاوت کی، ترجمہ (Translation) : اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں(ترجمہ کنز العرفان) (پ۱۸، النور ،آیت:۵۲) ( تفسیرقرطبی، النور، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۲۲۷، الجزء الثانی عشر) اس حکایت(سچے واقعے) سے قرآنِ پاک کی شان معلوم ہوئی کہ ایک ایسا غیرمسلم کہ جسے کئی کتابوں کا علم بھی تھا، جب اس نے قرآنِ پاک کی آیت سنی تو اُس نے اسلام قبول(accept) کرلیا۔یاد رہے! کہ جو اللہ پاک نے اپنے نبیوں پرنازل فرمایا ہےبے شک وہ سب حق اور سچ ہےاور اللہ پاک کی طرف سےہے۔(خزائن العرفان، پ۳، بقرہ،تحت الآیۃ:۲۸۵ ماخوذاً) البتہ قرآنِ پاک سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں(یعنی اللہ پاک کی طرف سے آئیں جیسےتورات،زبور ،انجیل) ،ان کتابوں کی حفاظت(یعنی جس طرح آئی ہیں، اُسی طرح باقی ررکھنے) کی ذمہ داری(responsibility)،اُنہی اُمتّوں (nations)کو دی گئی تھی،جن کےلیے وہ کتابیں آئیں تھیں لیکن وہ ان کی حفاظت (اسی طرح باقی رکھنے میں نا کام(fail) رہے۔ان اُمتّوں میں سے بُرے لوگوں نے ان کتابوں میں تبدیلی(changes) کر دی تاکہ جو غلط کام کرنا چاہیں کر لیں اور قرآن کریم کی حفاظت(یعنی باقی رکھنے) کی ذمہداری(responsibility)، اللہ پاک نے خود لے لی، اسی وجہ سے قرآن میں کسی حرف یا نقطے کی کمی کرنا یا بڑھا دینا ممکن(possible) نہیں بلکہ قرآن کریم جیسی کتاب،اس کی سورت جیسی کوئی ایک سورت،یا اس کی آیت جیسی کوئی ایک آیت بھی بنالینا کسی کے لیےبھی ممکن نہیں۔
حکایت (05):’’قرآنِ مجید کی پہلی آیات ‘‘
ایک دن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مکّہ پاک کے ایک غار (cave) جس کا نام’’حراء‘‘ تھا کے اندر عبادت فرما رہے تھے کہ اچانک(suddenly) غار میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےپاس ایک فرشتہ حاضر ہوا۔(یہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام تھے جو ہمیشہ اللہ پاک کا پیغام ، رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام تک لے کر حاضر ہوتے تھے) کہنے لگے : پڑھیے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا : میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔فرشتےنے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو پکڑا اور آپ سے گرم جوشی کے ساتھ گلے ملے (یعنی زور سے سینے(chest) سے سینہ ملایا)پھر چھوڑ کر کہا کہ: پڑھیے تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے پھر فرمایا کہ :میں پڑھنے والا نہیں ہوں ۔ فرشتےنے دوسری مرتبہ(second time) ایسا ہی کیا اور چھوڑ کر کہا کہ ’’پڑھیے‘‘ آپ نے پھر وہی فرمایا کہ:میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ تیسری مرتبہ(third time) پھر فرشتہ نے آپ کو بہت زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا (ترجمہ (Translation):اپنے ربّ کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔انسان کو خون کے لوتھڑے (یعنی ٹکڑےblood clot)سے بنایا۔پڑھواور تمہارا ربّ ہی سب سے بڑا کریم ہے۔جس نے قلم سے لکھناسکھایا۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔(پ۳۰،العلق:۱۔۵) (ترجمہ کنز العرفان) یہی سب سے پہلی وحی تھی جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر نازل ہوئی۔ ان آیتوں کو یاد کرکے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنے گھر تشریف لائے۔اس واقعے (incident)سے آپ کی ایک کیفیت(condition) بن گئ تھی۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے گھر والوں سے فرمایا :کہ مجھے چادر پہنا دو۔جب کچھ سکون ہوا تو آپ نے حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا سے غار میں ہونے والا واقعہ بیان کیااورکچھ بات کہی ۔وہ بات سن کر حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نے کہا کہ نہیں،ہر گز نہیں۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔اللہ کی قسم! اللہ پاک کبھی بھی آپ کو رسوا (disgraced)نہیں کریگا۔ آپ تورشتہ داروں کےساتھ بہترین سلوک کرتے ہیں۔ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھاتے(یعنی دوسروں کے کام بھی کرتے) ہیں۔ خود کما کما کر غریبوں اور ضرورت مندوں کو دیتے ہیں۔ مسافروں کی مہمان نوازی کرتے (یعنی انہیں کھانے پینے کو دیتے)ہیں اور حق و انصاف کی وجہ سے سب کی مصیبتوں اور مشکلوں میں کام آتے ہیں۔ اس کےبعدحضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ،آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اپنے چچا زاد بھائی(cousin)’’وَرقَہ بن نَوفَل‘‘کے پاس لے گئیں۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے غارِ حراء کا پورا واقعہ بتایا ۔یہ سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس بھیجا تھا۔ پھر ورقہ بن نوفل کہنے لگے: کاش! میں اُس وقت جوان ہوتاجب آپ کی قوم آپ کو(آپ کے شہر سے)نکال دے گی۔ )پ۲۹،المدثر:۱۔۵وصحیح البخاری،کتاب بدء الوحی، باب ۳،الحدیث:۳،۴،ج۱،ص۷( اس سچے واقعے سے یہ پتا چلا کہ سب سے پہلے قرآنِ پاک کی آیتیں غارِ حرا میں اتاری گئیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک کو ماننے والے اعلان ِنبوت (یعنی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا اپنے ’’ نبی ‘‘ ہونے کا اعلان (announcement) کرنے)سےپہلے بھی اس بات کی خواہش(desire) رکھتے تھے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جب اپنے ’’ نبی ‘‘ ہونے کا اعلان فرمائیں تو ہم بھی اس وقت زندہ ہوں اور آپ پر ایمان لائیں ۔
حکایت (06):’’قرآن پا ک کا کوئی مثل نہیں‘‘
ایک دن وَلید بن مُغِیرَہ نے قبیلہ(tribe) قریش کے لوگوں سے کہا کہ حج کے دن آنے والے ہیں جب عرب کے مختلف قبیلوں(different tribes) کے لوگ آئیں گے تو وہ اپنے آپ کو ’’ نبی ‘‘ کہنے والےشخص (یعنی حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) کے بارے میں پوچھیں گےتم سب لوگ ان کے بارے میں ایک ہی بات کہنا کہیں ایسا نہ ہو تم ان کے بارےمیں الگ الگ باتیں کہو اورلوگ سمجھ جائیں کہ ہم جھوٹ بول کر لوگوں کو ان سے دور رکھنا چاہتے ہیں ۔اس پر قریش کے لوگوں نے مختلف (different) باتیں کیں کہ ہم لوگوں کو کہیں گے کہ وہ (یعنی ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَعَاذَاللہ (یعنی اللہ پاک کی پناہ)) کاہن (یعنی جنّوں وغیرہ سے خبریں معلوم کرنے والا )ہے،بعض نے کہا ہم کہیں گے کہ وہ دیوانہ ہے(مَعَاذَاللہ یعنی اللہ پاک کی پناہ)،بعض نے شاعر(poet) اوربعض نے کہا کہ ہم لوگوں کو کہیں گے کہ وہ جادوگر (magician,)ہے۔ ولیدسب کی باتیں سنتا رہا اور آخر میں ولید نے کہا: ’’ اللّٰہ کی قسم! ان کی باتوں میں بہت مٹھاس ہے۔ جو تم نے کہا ہے،ان میں سے جو بات ہم کہیں گے تو لوگ ضرور پہچان لی جائےگی کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لوگوں کو کہنا کہ وہ ایسا کلام (کتاب وغیرہ) لایا ہے جوجادو (magic)ہے۔ اس کلام سے وہ باپ بیٹے میں،بھائی بھائی میں، میاں بیوی میں ، رشتہ داروں میں دوری ڈال دیتا ہے‘‘ ۔ ایک دن نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مسجدمیں اکیلے (alone)بیٹھے ہوئے تھے۔قریش نےاپنےسردار (chief)عُتْبَہ کو آپ کے پاس بھیجااور اس نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےبہت سی باتیں کیں تو جواب میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے سورۂ حم السجدہ کی شروع کی آیتیں تلاوت فرما ئیں۔عتبہ نے قریش سے جاکر کہا: ’’ اللّٰہ کی قسم ! میں نے ابھی (حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے جو) کلام سناہے ، اس جیسا کلام کبھی نہیں سنا اللّٰہ کی قسم ! وہ شعر (poem)نہیں،نہ جادو ہے، نہ کہانت(یعنی جنّوں کی بتائی ہوئی باتیں)۔ اے قریش کے لوگو ! میری بات مانو: یہ شخص جو کرتا ہے اسے کرنے دو۔اور اس سے الگ ہوجاؤ‘‘۔ قریش یہ سن کر کہنے لگے کہ اس نے تو اپنی زبان سے تجھ پر بھی جادو کردیا۔ عتبہ نے جواب دیا کہ :میرا یہی مشورہ ہے، باقی تمہاری مرضی۔ (سیرتِ مُصطفیٰ ص۳۸۷، مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے معلوم ہوا کہ عربی زبان پر مہارت رکھنے والے(expert) لوگ قرآن پاک سن کر سمجھ جاتے تھے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ یہ اللہ پاک کا کلام ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہمکّے کے غیر مسلم، دوسروں کو اسلام سے دور رکھنے کےلیے انہیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے دور رکھتے تھے ۔کیونکہ جو لوگ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےقرآن پاک سُن لیتے تو وہ سمجھ جاتے تھے کہ یہ کلام کسی بندے کا نہیں بلکہ اللہ پاک کا کلام ہے اوروہ مسلمان ہو جاتے تھے۔
حکایت (07): ’’رونے والا ستون(pillar) ‘‘
(مدینے پاک کی) مسجد نبوی میں پہلے منبر (muslim pulpit یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں،وہ)نہیں تھا، کھجورکے درخت(palm trees) کا ایک ستون(pillar )تھا ،اُس پر ٹیک لگاکر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خطبہ دیا کرتے (یعنی بیان کرتے) تھے ۔جب ایک صحابیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے ایک منبر (muslim pulpit)بنا کر مسجد میں رکھ دیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کر دیا ،اس پر ستون (pillar )سے بچوں کی طرح رونے کی آواز آنے لگی ، ستون اتنی زور زور سے رونے لگا کہ ایسا لگتا تھا وہ پھٹ جائے گا اور اس رونے کی آواز کو مسجد کے نمازیوں نے اپنے کانوں سے سنا۔ ستون کے رونے کی یہ آوازسن کر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ منبر سے نیچے آگئے اور ستون پر محبّت سےاپنا پیاراہاتھ رکھ دیا اور اس کو اپنے سینے سے لگا لیا تو اُس ستون نے اِس طرح آہستہ آہستہ رونا کم کیا جس طرح رونے والے بچوں کو چپ کرایا جاتا ہے ۔پھر وہ خاموش ہو گیا اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ ستون اس وجہ سے رو رہا تھا کہ یہ پہلے اللہ پاک کا ذکر سنتا تھا اور اب (نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری آواز میں اللہ پاک کا ذکر) نہ سنا تو رونے لگا۔ (بخاری،ج۲،ص۴۹۶،حدیث:۳۵۸۴، سیرت مصطفیٰ،ص۷۷۸مُلخصاً) پھر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُس سے فرمایا! اگر تم چاہو تو تمھیں پھر اُسی باغ میں لگا دیا جائے جہاں تم تھے اور تم پہلے کی طرح پھل دو اور اگر تم چاہو تو میں تمھیں جنّت کا ایک درخت بنا دوں تا کہ جنّت میں اللہ پاک کے نیک بندے تمہارا پھل کھاتے رہیں۔ یہ سن کر ستون نے اتنی زور سے جواب دیا کہ سب لوگوں نے بھی سن لیا، کہا یا رسول اﷲ!( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) میں چاہتا ہوں کہ میں جنّت کا ایک درخت بنا دیا جاؤں تا کہ اللہ پاک کے نیک بندے میرا پھل کھاتے رہیں۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں نے تیری بات مان لی(یعنی تمھیں جنّت کا درخت بنا دیا)۔ پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ ! دیکھو اِس ستون نے ختم ہونے والی دنیا کو چھوڑ کر باقی رہنے والی زندگی (یعنی جنّت)کو لے لیا۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، ج۱، ص ۳۰۴،۳۰۵، سیرت مصطفیٰ،ص۷۷۹ تا۷۸۰مُلخصاً( اس حدیث ِ پاک سے یہ معلوم ہوا کہ بے جان چیزیں (non-living objects) بھی پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے محبت کرتی ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے دور ہونا پسند نہیں کرتیں۔ آج بھی عاشقانِ رسول مدینے پاک سے نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی وجہ سے محبت کرتے اور چاہتے ہیں کہ بار بار مدینہ پاک حاضرہوں اور مدینے پاک سے واپسی پر رو رہے ہوتے ہیں۔
حکایت (08):’’اونٹ رونے لگا ‘‘
ایک بار حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک آدمی کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ(camel)کھڑا ہوا زور زور سے آواز نکالنے لگااور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو گئے ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے قریب جا کر اس کے سرپر اپنامحبّت بھر ا ہاتھ پھیرا تو وہ بالکل خاموش ہوگیا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے لوگوں سے پوچھا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ لوگوں نے ایک آدمی کا نام بتایا،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فوراً اُسے بلوایا اور فرمایا کہ تم ان جانوروں پر رحم کیا کرو ۔تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ کام لے کر اس کو تکلیف دیتے ہو۔(شرح الزرقانی علی المواھب ، ج ۶،ص ۵۴۳ مُلخصاً)یعنی اُس آدمی کو سمجھا دیا کہ اِسے کھانے کو پورا دے اور کام کم لے۔ اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں معلوم ہوا کہجانور بھی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو جانتے ہیں، بلکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہماری سنتے ہیں اور ہمارے مسئلے حل کردیتے ہیں۔ واللہ!وہ سن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے اِتنا بھی تو ہو کوئی جو’’آہ!‘‘کرے دل سے
حکایت (09):’’’نُور کا کِھلونا(Toy) ‘‘
حضرتعبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہ (جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چچا اور جنّتی صحابی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کی:’’ یارَسُولَ اللہ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )! مجھے توآپ کے نبی ہونے کی نشانیوں (signs)نے اسلام کی طرف بُلایا، میں نے دیکھا کہ (بچپن(childhood) میں )آپ جُھولے میں چاند سے باتیں کرتے اوراپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ (hint)فرماتے تو جس طرف آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اشارہ فرماتے چاند اس طرف جُھک جاتا۔ حُضُور پُر نُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں چاندسے باتیں کرتاتھااور چاندمجھ سے باتیں کرتاتھا او ر وہ مجھے رونے سے روکتاتھااورجب چاند اللہ پاک کے عرش ( )کے نیچے سجدہ کرتا، اس وقت میں اُس کی تَسْبِیْح کرنے( یعنی اللہ کریم کی پاکی بیان کرنے) کی آواز سنا کرتاتھا۔(الخصائص الکبرٰی ج ۱،ص ۹۱مُلخصاً) چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں (مہد یعنی جھولا) کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمارے آقا مکی مدنی مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کواللہ پاک نے کیسی طاقت عطا فرمائی تھی کہ آپ بچپن میں اِشارے سے چاند کو جس طرف چاہتے لے جاتے تھے ۔جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا اور آپ کی عمر تقریباًاڑتالیس(48) سال ہوگئی تو مکّے کے کافروں نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے چاند کو دوٹکڑے کر کے دکھانے کا کہا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اِشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر کے دِکھا دیا۔ (مدارج النبوۃ ،ج۱،ص۱۸۱مُلخصاً)(نُور کا کھلونا ص ۶ تا ۷مُلخصاً)
حکایت(10): ’’’سورج واپس آگیا ‘‘
ایک مرتبہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کہیں دور سے آ رہے تھے، راستے میں عصر کا وقت ہو گیا، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے عصر کی نماز پڑھی ، اس کے بعد حضرت على رَضِیَ اللہ عَنْہُ کےگھٹنے(knee) پر اپناپیاراسررکھ کر لیٹ گئے اور نیند آگئی۔ حضرت علیرَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی ،اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ عصر کی نماز کا وقت ختم ہورہا ہے، مگر ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر میں اپنا پاؤں ہٹاتا ہوں تو کہیں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری نیند خراب(disturb) نہ ہوجائے، اس لیے آپ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے سر کونہ ہٹایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا(اور نماز کا وقت ختم ہو گیا) جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری آنکھ کُھلی تو حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اپنی نماز نہ پڑھنے کی بات بتائی۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی تو سورج واپس آگیا اورحضرت علیرَضِیَ اللہ عَنْہُ نے نماز عصر ادا کی پھر سورج ڈوب ( sun set ہو) گیا۔(معجم كبير،۲۴/۱۴۵،حدیث:۳۸۲،الشفا،۱/۲۸۴) اس حدیث شریف سےپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بھی معلوم ہوئی کہاللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ایسی طاقت دی ہے کہ چاہیں توسورج کو واپس بُلا لیں۔
حکایت(11): ’’سانپ کا زہر ختم ہو گیا ‘‘
جب مکّے شریف سے مدینے پاک جانے کا حکم ہوا تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اورحضرت ِابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہُ دونوں، ایک ساتھ جانے لگے۔ راستے میں جب ایک غار (cave)کےقریب پہنچے تو پہلے صدیق اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہُ اندر گئے اور صفائی کی، غار کے تمام سوراخوں(holes) کو بند کیا، ایک سوراخ کو بند کرنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو آپ نے اپنے پاؤں کا انگوٹھا رکھ کر اس کو بند کیا، پھر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بلایا اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آئے اور حضرتِ ابو بکررَضِیَ اللہ عَنْہُ کے گھٹنے(knee) سے اوپر سر رکھ کر سوگئے۔ کچھ دیر بعد ایک سانپ، اُس سوراخ(hole) پر آیا جہاں صدیق اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے پاؤں کا انگوٹھا تھا اور اُس نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو کاٹ لیا، آپ کوبہت تکلیف ہوئی مگر ذہن میں یہ بات آئی کہ کہیں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری نیند خراب(disturb) نہ ہوجائے، اس لیے آپ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےپیارے سر کونہ ہٹایا۔ جب بہت تکلیف ہوئی تو آنکھوں سے آنسو نکل آئے، جب وہ آنسو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے پیارےچہرے پر گرے تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جاگ گئے پھر ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے ساری بات بتا دی ، حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُن کے پاؤں پر اپنا لُعاب (یعنی تھوک شریف) لگادیا جس کی برکت سے انہیں فوراً آرام آ گیا۔(مدارج النبوت،ج۲،ص۵۸،تفسیر خازن،ج۲،ص۲۴۰،بہار شریعت،ج۱،ص۷۵،حصہ۱) اس حدیثِ پاک سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت فرماتے تھے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے خوب محبت کریں اورآپ کی سنّتوں پر چلیں۔
حکایت(12): ’’لکڑی تلوار بن گئی ‘‘
حضرت عَبْدُاللہرَضِیَ اللہ عَنْہُ کی تلوار(sword) ایک جنگ میں ٹوٹ گئی تھی تو ان کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایک کھجور کی شاخ(branch) دے کر فرمایا کہ ” تم اس سے لڑو“وہ لکڑی حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے ہاتھ میں آتے ہی ایک بہترین تلوار(sword) بن گئی۔ (مدارج النبوت ، قسم سوم ،باب چھارم ،ج۲، ص ۱۲۳ملخصاً) اس حدیثِ مُبارک سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ جو چاہیں، جیسا چاہیں کر سکتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنےقصیدے(یعنی اپنی لکھی ہوئی نعت)میں پیارے آقا ، مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کرتے ہیں:’’اے تمام مخلوق(creatures) میں سب سے بڑے بزرگ، اللہ پاک نے اپنی نعمت کے خزانے(treasures) میں سے جو آپ کودیا ہے ،اس میں سے آپ مجھے بھی دیجئے اور اللہ پاک نے آپ کو خوش کیا ہے، آپ مجھے بھی خوش فرمادیجئے۔میں آپ کی سخاوت (یعنی غریبوں کو دینے) اور عطا کی اُمید (hope)رکھتا ہوں(یعنی آپ مجھے دین و دنیا کی نعمتیں دیں ) آپ کے سواابوحنیفہ (نعمان)کا مخلوق (creatures) میں کوئی نہیں۔( اخبار ابی حنیفہہ و اصحابہ ص ۸۹، مطبوعہ کراچی) اورامام شرف الدین رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنےقصیدے(یعنی اپنی لکھی ہوئی نعت)میں پیارے آقا ، مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کرتے ہیں:’’اے تمام مخلوق سے بہتر میرا (ساری دنیا یعنی مخلوق میں) آپ کے علاوہ کوئی نہیں کہ مصیبت کے وقت، جن کی پناہ (shelter)لوں ‘‘(شرح الخرپوتی علی البردۃ ص ۲۱۸، مطبوعہ کراچی)