’’ دس جنّتی صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اورپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے12 واقعات‘‘

عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکہتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:

(۱)ابوبکر جنّتی ہیں ،(۲) عمر جنّتی ہیں ،(۳) عثمان جنّتی ہیں ،(۴) علی جنّتی ہیں ،(۵) طلحہ جنّتی ہیں ،(۶) زبیر جنّتی ہیں ، (۷)عبدالرحمن بن عوف جنّتی ہیں ،(۸) سعد بن ابی وقاص جنّتی ہیں ،(۹) سعید بن زید جنّتی ہیں ،(۱۰) ابو عبیدہ بن الجراح جنّتی ہیں ۔ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)(ترمذی،کتاب المناقب، ۲/۲۱۶، حدیث: ۳۷۶۸)

حکایت(01): ’’ بڑےبن کر بھی نیکی نہ چھوڑو‘‘

خلیفہ(حاکم۔caliph) بننےسےپہلےحضرت ابُوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے پاس چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنی بکریاں لے کر آتیں، آپ ان کو خوش کرنے کے لیےبکریوں کا دودھ نکال دیا کرتے تھے۔جب آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو خلیفہ بنایاگیاتومحلے کی ایک بچی آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی:اب تو آپ خلیفہ بن گئے ہیں ،آپ ہمیں دودھ نکال کر نہیں دیں گے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا:کیوں نہیں!اب بھی میں تمہیں دودھ نکال کر دیا کروں گااورمجھے اللہ پاک کے کرم سے یقین (believe)ہے کہ تمہارے ساتھ اسی طرح رہوں گا جیسا پہلے تھا۔پھر خلیفہ بننے کے بعدبھی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ان بچیوں کودودھ نکال دیا کرتے تھے۔ (تھذیب الاسماء واللغات ، ۲/ ۴۸۰) اس واقعے سے سیکھنے کو چند باتیں ملیں، پہلی(1st ) یہ کہ جب ہم کوئی نیکی کرنا شروع کریں تو اُسےکسی بھی وجہ سے کرنانہ چھوڑیں۔دوسری(2nd ) بات یہ کہ ہماری باتیں اور کام ایسے ہوں جو مسلمانوں کا دل کاخوش کریں،ایسے نہ ہوں جس سے اُن کے دل دُکھیں۔ تَعَارُف (Introduction): مسلمانوں کےپہلے(1st )خلیفہ(حاکم۔caliph) اورجنّتی صحابی،امیر المومنین حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کانام”عبد اللہ “،کُنْیَت(kunyah)”ابوبکر“اورلقب(title)”صدیق“ہے۔آپ کے والد کا نام” عثمان“ اوروالدہ ماجدہ کا نام ”سلمیٰ“ ہے۔(معجم کبیر۱۱۴/۴ )آپ،آپ کے والد، والدہ، بیٹے، بیٹی سب صحابی اور صحابیہ تھے (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)بلکہ آپ کی شہزادی بی بی عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا تو اُمُّ المؤمنین(یعنی ہماری والدہ) ہیں کیونکہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح فرمایا(یعنی شادی کی تھی)۔ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے انتقال کےبعد حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بنے ۔ 22 جمادی الاخری، 13 سنِ ہجری کو انتقال ہوا۔ حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے آپ کی نماز ِ جنازہ پڑھائی۔(طبقاتِ کبریٰ، ۳/۱۵۴،الریاض النضرۃ،۱/۲۵۸) حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی قبر شریف کے ساتھ دفن کیے گئے۔ جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:جس شخص کی صحبت(یعنی ساتھ ہونے) اور(اُن کے) مال نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ فائدہ پہنچایاوہ اُبوبَکربِن اِبی قَحَافَہہےاوراگرمیں دنیا میں کسی کو خلیل(یعنی دوست) بناتا تو اُبوبَکَر کو بناتا لیکن اسلام کی محبت قائم (ہو چکی)ہے۔(بخاری، ، حدیث: ۳۹۰۴، ۲/۵۹۱) ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت (02): ’’چھوٹے چھوٹے ہی رہیں، مگر کام بڑے بڑے کریں‘‘

ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے خود ہی لوگوں سے ایک آیتِ مبارکہ کی تفسیر پوچھی(یعنی قرآن کی ایک آیت کا مطلب پوچھا)،جب کسی نے کوئی جواب نہ دیا توکم عمرصحابی حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کیا : اس بارے میں میرے ذہن میں کچھ ہے۔تو فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اُنہیں محبت دیتے ہوئے فرمایا: اے میرے بھتیجے(یعنی میرے بھائی کے بیٹے)! اگر تمہیں معلوم ہے تو ضرور بتاؤ اورخودکو چھوٹا نہ سمجھو۔ ( بخاری، کتاب تفسیر القرآن، ۳/۱۸۵،حدیث:۴۵۳۸) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہاگرکوئی بڑا سوال کرے اورآپ چھوٹے ہوں لیکن آپ کوجواب معلوم ہو تو”خود کو چھوٹا سمجھ کر“جواب دینے سےمت رُکیے، اگرآپ کا جواب غلط ہوا تو آپ کو صحیح جواب معلوم ہوجائے گا،تب بھی فائدہ آپ ہی کا ہے ۔ تَعَارُف (Introduction): مسلمانوں کے دوسرے(2nd) خلیفہ(حاکم۔caliph) اور جنّتی صحابی، امیر المومنین حضرت فاروق ِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”عُمَر “،اورلقب (title)”فاروقِ اَعْظَم“ہے۔ (الاصابۃ،۴/۱۴۵،اسد الغابۃ،۳/۳۱۶)حضرت اَبُوبَکرصِدِّیْق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےانتقال کےبعدآپ مسلمانوں کے دوسرےخلیفہ بنے ۔ آپ نے بڑے بڑے کام کیے جو کہ بہت سی کتابوں میں لکھے گئے ہیں، چھبیس(26) ذُو الْحِجۃ الحرام کی صبح ایک آگ کی عبادت کرنے والے شخص نے آپ پر فجر کی نماز کے دوران حملہ (attack)کرکے بہت زخمی کردیا، چند دن بعد آپ شہید ہوگئے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ پہلی(1st) محرَّم الحرام 24 سنِ ہجری خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی قبر شریف کے قریب صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی قبر شریف کے ساتھ دفن کیے گئے۔ )طبقات ابن سعد، ۳/۲۶۶ ۔ ۲۸۱،۲۸۲- تاریخ ابن عساکر، ۴۴/۴۲۲، ۴۶۴) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: عمر جنّتی ہیں۔(صحیح ابن حبان، ،جزء:۹، ۶/۱۸، حدیث:۶۸۴۵) حدیث شریف کی اہم(Important) کتاب’’ بخاری شریف ‘‘میں ہے : خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب روضۂ منوَّرہ (جہاں پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ،حضرت ابُو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اورحضرت عُمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے مزارات ہیں،وہاں)کی دیوار گری تو لوگ اُس کو بنانے لگے ، ( دیوار کھودتے وقت ) ایک پاؤں ظاہر ہوا تو حضرت عروہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے کہا : یہ حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا پیر مبارک ہے ۔ (بُخاری شریف ج۱ ص۴۶۹حدیث ۱۳۹۰ مُلتقتاً) سُبْحَانَ اللہ! ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی کیا شان ہے کہ انتقال کے بعد قبر شریف میں بھی جسم صحیح ہے( کوئی فرق نہیں آیا)۔ ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت(03): ’’اپناکام اپنے ہاتھ سے کریں ‘‘ ‘‘

حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ ایک مرتبہ ا پنے باغ میں سے لکڑیاں اُٹھا کر لارہے تھے حالانکہ کئی غلام بھی موجود تھے( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔ کسی نے عرض کی: آپ نے یہ لکڑیاں اُٹھائی ہوئی ہیں اپنے غلام سے کیوں نہیں اُٹھوائیں؟ فرمایا:( غلام سے)اُٹھواتو سکتا تھا لیکن میں اپنے آپ کو آزما(check کر)رہاہوں کہ میں ( اللہ پاک کو خوش کرنےکے لیے ) اس کام کرنے کو پسند کرتا ہوں یا نہیں!(کرامات عثمان غنی،ص۱۰ مُلخصاً) اس واقعے سےسیکھنے کو ملا کہ ہمیں بھی اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی عادت بنالینی چاہئے ، ہماری یہ عادت گھر کے سب لوگوں کی خوشی کرنے والی ہو گی ۔ان شاء اللہ ! تَعَارُف (Introduction): مسلمانوں کے تیسرے (3rd )خلیفہ(حاکم۔caliph) اور جنّتی صحابی، امیُر المو منین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”عثمان “، اورلقب(title) ” ذو النورین(دو نور والا)“ہے۔ حضرت فاروق ِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےانتقال کےبعدآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ پہلی(1st ) محرَّم الحرام 24 سنِ ہجری کو خلیفہ بنے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے دور میں اَفریقہ، ملکِ روم کا بڑا عَلاقہ اور کئی بڑے شہر اسلامی ملک بن گئے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی خلافت(caliphate) بارہ (12) سال رہی۔18 ذُوالحجۃ الحرام 35 سنِ ہجری میں جمعہکے دن روزے کی حالت میں تقریباً 82 سال کی عمرمیں شہیدہوئے ۔(الریاض النضرۃ ،۲/۶۷)آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔(البدایۃ والنھایۃ،۷/۱۹۰) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:عثمان جنّتی ہیں، ان کارفیق(یعنی ساتھی) میں خود ہوں۔(الریاض النضرۃ ،۱/۳۵) ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت (04): ’’نیکی کے کام میں دوسروں کی مدد کریں‘‘

ایک دن حضرتِ علی المرتضیٰ، رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےاپنے بڑے بیٹے حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرمایا: اے بیٹے!کیاتم میرے سامنے بیان نہیں کرسکتے جِسے میں سنوں؟انہوں نےعرض کی:مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں آپ کو دیکھتے ہوئےبیان کروں ۔ شیرخدا،حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے یہ سنا تو امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی ہمت (courage)بڑھانے کے لیے ایسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں سے وہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو نہ دیکھ سکیں۔ پھر امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ لوگوں میں بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ آپ کی آواز سُن رہے تھے۔ امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے بہت اچھابیان کیا۔ (البدایۃ والنھایۃ، ۵ / ۵۲۴ ) اس سچے واقعے سے یہ درس (lesson)ملا کہ اگر کسی بڑے کے سامنے بھی نیکی کی دعوت یا درس وبیان کرنا پڑے تو اللہ پاک کی رضا کے لیے ہمیں ایسا کرنا چاہیے اور اس وقت بڑوں کو بھی چھوٹوں پر شفقت کرنی چاہیے۔ تَعَارُف (Introduction): مسلمانوں کےچوتھے(4th )خلیفہ(حاکم۔caliph) ، جنّتی صحابی،اہلِ بیتِ مُصطفیٰ،قادریوں کے پیشوا،امیرُ المومنین حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”علی “اورلقب(title) ”اَسَدُ اللہ (شیرِ خدا)“ ہے۔حضرتِ عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےانتقال کےبعدآپ مسلمانوں کےچوتھے(4th )خلیفہ بنے ۔ 40 سنِ ہجری میں 17 یا 19 رمضان کو فجر کی نماز میں کسی نے حملہ کیا تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ بہت زخمی(very injured) ہوئےاور 21 رمضانُ المبارک اتوار کی رات اپنی زندگی کے 63 سال گزار کرشہیدہوئے ۔ نمازِ جنازہ بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن مجتبی ٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے پڑھائی، مشہور یہی ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی قبرِ مبارک نجفِ اشرف (عراق)میں ہے۔ (طبقات ابن سعد، ۳/۲۷) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: فرامینِ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (1) ’’انَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ (المستدرک، ۴/۹۶، حدیث:۴۶۹۳) (2)بے شک اللہ پاک نے مجھے چار(4) لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے(پھر جو نام بیان فرمائے ان میں سے ایک نام حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا بھی تھا)۔ (ترمذی،۵/۴۰۰،حدیث:۳۷۳۹) ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت (05):’’نمازتو ایسے پڑھنی چاہیے! ‘‘

حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَابہت توجہ کے ساتھ(یعنی اچھے انداز سے) نماز پڑھتے تھے۔ایک مرتبہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور قریب ہی آپ کا بچّہ تھا، چھت سے ایک سانپ اُس کے قریب گر پڑا۔ لوگوں نے ”سانپ سانپ“کہہ کر شور مچایا اور اس سانپ کو ماردیا۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے۔ (سیر اعلام النبلاء ، ۴/۴۶۴) یعنی نماز اس طرح پڑھتے تھے کہ لوگوں کےشور وغیرہ کا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ یہ سچا واقعہ ہمیں درس دیتا ہے کہ ہمیں نماز پوری توجّہ کے ساتھ ادا کرنے کی عادت بنانی چاہیے ۔یہی انداز ہمیں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی زندگی سے ملتا ہے ۔ یہ دینی مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ رسول ُاﷲ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایاکہ :نماز میں دو(2) کالی چیزوں سانپ (snake)اور بچھو (scorpian) کو قتل کردو (احمد،ابوداؤد)عُلماء فرماتے ہیں: اگر نمازی ، نماز میں سانپ یا بچھو دیکھے تو اسے مار سکتا ہے۔(اگر اس طرح مارا کہ نماز ٹوٹ گئی تو نماز) دوبارہ پڑھنی ہوگی مگر یہ شخص نماز توڑ نے کی وجہ سے گنہگار نہ ہوگا۔(مُلخصاً مراۃ، جلد۲، ص۲۲۹) تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی،حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پھوپھی (یعنی والد صاحب کی بہن)حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا کے بیٹےاور حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے داماد(یعنی حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی ، حضرت عبد اللہ بن زبیرکی بیوی) ہیں۔ (کرامات صحابہ، ص۱۲۰) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے والددنیا میں جنّت کی بشارت پانے والے صحابی حضرت زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور والدہ”حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ہیں ۔آپ بہت بہادر اور نماز و روزہ سے محبت کرنے والے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن زُبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہسترہ(17 ) جُمادی الاولیٰ 73سنِ ہجری کوشہید ہوئے۔(تہذیب الاسماء،۱/۳۷۴،طبقات الکبریٰ،۸/۲۰۱) ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت (06):’ ’’اللہ کا کرم ہوگیا‘‘

حضرت ِ عبدُالرّحٰمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہ بہت امیر (rich)صحابی تھے۔ہجرت (یعنی مکّہ شریف سے مدینہ پاک جانے)کا حکم ملنے کے بعد جب حضرت ِ عبدُالرّحٰمن رَضِیَ اللہُ عَنْہ مکّہ پاک میں اپنا تقریباًسب مال چھوڑ کر خالی ہاتھ مدینہ شریف میں پہنچےتو پیارے نبیصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے دوسرے مہاجرین (مکّے شریف سے مدینہ پاک آنے والے صحابہ) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی طرح ان کا بھی ایک انصاری (مدینے پاک میں رہنے والے)صحابی حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ساتھ بھائی چارے (brotherhood)کا تعلق بنا دیا(یعنی اب یہ دونوں ساتھ رہیں گے)۔ حضرت سعد بن ربیع انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ مال دار(wealthy)تھے،آپ نے اپنے مہاجر بھائی حضرت عبدُالرّحٰمن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےلیےاپنا آدھا مال دے دیا۔حضرت عبدُالرّحٰمن رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنے بھائی کی اس پیشکش (offer)سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اورفرمایا: اللہ آپ کو برکت دے، میں آپ کے مال سے کچھ نہ لوں گا، بس آپ مجھے بازار کا راستہ بتا دیں۔ یعنی میں خود اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کمانا چاہتا ہوں۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےآپ کو بازار کا راستہ بتایا،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے گھی اورپنیر (cheese)کا کاروبار شروع کر دیا تو اللہ پاک نے آپ کے مال میں برکت پیدافرما دی۔(بخاری، حدیث:۲۰۴۸، ج۲/۴ ملتقطاً) اور آپ پھر امیر (rich)ہوگئے۔ اس حدیثِ پاک سےیہ سیکھنے کوملا کہ ہمیں ہر حال میں اللہ پاک پر یقین(sure) رکھنا چاہیے جیسا کہ حضرت عبدُالرّحٰمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے کیا۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی،حضرت عبدُالرّحٰمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی والدہ کانام” حضرت شفا بنتِ عَوف رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا “ ہے۔ حضرتِ عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہ ،عمر میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے تقریباً دس (10)سال چھوٹے تھے۔(طبقات ابن سعد،۳/۹۲) آپ کا انتقال 31یا32 سنِ ہجری میں ہوا، انتقال کے وقت آپ کی عمر72 یا 75 سال تھی۔(معجم کبیر، حدیث:۲۶۲ ، ج۱، ص۱۲۸) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اُن دس (10)صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک ہیں کہ جنہیں ایک ساتھ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جنّت کی خوشخبری سنائی۔ جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےخودحضرت عبدُالرّحٰمنرَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرمایا: اے عبدُالرّحٰمن بن عوف!تم دنیاوآخرت میں میرے دوست ہو۔( مسلم بشرح النووی،جزء:۳،۲/۱۷۲) ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت (07): ’’سات لاکھ میں سے ایک ہزار بچ گیا‘‘

ایک بار حضرت طلحہ بن عبیدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ایک زمین سات لاکھ درہم(چاندی کے سکّے ۔ silver coins) میں بیچ (sellکر)دی۔ (الزہد للامام احمد بن حنبل، الحدیث:۷۸۳، ص۱۶۸) تو پریشان اور بے چین ہو گئے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی زوجہ نے عرض کی: آج آپ کو کیا ہوا ہے؟فرمایا کہ مجھے یہ پریشانی ہے کہ جس بندے کی راتیں اللہ پاک کی عبادت کرتے ہوئے گزرتی ہوں ، اُس کےگھر میں اتنا مال موجود ہو تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں کیسے حاضر ہو گا؟ تو آپ کی زوجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے بڑے اَدَب سے عرض کی: اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ آپ اپنے غریب دوستوں کو کیوں بھول رہے ہیں ؟ صبح ہوتے ہی انہیں بلا کر یہ سارا مال ان میں بانٹ (distribute کر) دیں اور ابھی اللہ پاک کی عبادت میں رات گزاریں۔ نیک بیوی کی یہ بات سن کر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہدل خوش ہو گیا اور آپ نے فرمایا: آپ واقعی نیک باپ کی نیک بیٹی ہیں۔ یاد رہے! کہ یہ نیک باپ کی نیک بیٹی امیر المؤمنین حضرتِ ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی پیاری شہزادی اُم کلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا تھیں۔ صبح ہوتے ہی حضرت ِطلحہ بن عبیدُ اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے سارا مال باٹنا (distribute کرنا) شروع کر دیا اور اس میں سے کچھ حصّہ امیر المؤمنین حضرت ِعلی المرتضیٰرَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بھی بھیجا۔ پھر آپ کی زوجہ حاضر ہوئیں اور عرض کی: کیا اس مال میں گھر والوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟تو فرمایا: آپ کہاں رہ گئی تھیں ، چلیں جو باقی بچ گیا ہے وہ سب آپ لے لیں ۔فرماتی ہیں کہ جب بقیہ مال(rest of the money) کا حساب کیا تو (سات لاکھ میں سے)صرف ایک ہزار(1000) درہم (سکّے ۔ coins) ہی رہ گئے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء، الرقم ۷ طلحہ بن عبید اللہ، ج۳، ص۱۹۔ مفہوماً) اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ حضرت ِ طلحہرَضِیَ اللہُ عَنْہ اپنی ضرورت کے لئے بھی کچھ بچا کر نہ رکھتے بلکہ غریبوں کو دے دیتے۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی،حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہاُن دس (10)صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک(1) ہیں کہ جنہیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےایک ساتھ جنّت کی خوشخبری(good news) سنائی۔ایک مرتبہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا: اے طلحہ! یہ جبرائیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں قیامت کی پریشانیوں میں آپ(یعنی حضرت طلحہ) کے ساتھ ہوں گا اور آپ (یعنی حضرت طلحہ) کو ان(قیامت کی پریشانیوں ) سے بچاؤں گا۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، الباب الخامس ، ج۲، الجزء الرابع، ص۲۵۴) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: آپکو شہادت(یعنی جنگ میں قتل ہونے کی وجہ سے انتقال کرنے)کے بعد بصرہ کے قریب دفن(buried) کردیا گیا ۔ کسی وجہ سے، حضرت عبدُاللہ بن عباسرَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے مسئلہ پوچھ کر اور اجازت لے کر حضرت طلحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے مبارک جسم کو پرانی قبر سے نکال کر نئی قبر میں دفن کرنے کے لیے نکالا گیا۔ کافی وقت گزر جانے کے بعد بھی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ آپ کا جسم شریف بالکل صحیح،سلامت تھا۔(اسد الغابۃ طلحۃ بن عبیداللہ ،ج۳،ص۸۷ ملخصاً،داراحیاء التراث العربی بیروت) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نیک بندوں کے جسم قبروں میں بھی صحیح رہتے ہیں۔

حکایت (08):’’ماں کی سو(100) جانیں‘‘

حضرت سعد بن ابی وقاصرَضِیَ اللہُ عَنْہ اپنی ماں کے بڑے فرمانبردار(باتیں ماننے والے obedient) تھے۔ہرحکم مانتے اور کبھی اپنی ماں کی نافرمانی(disobedience) نہ فرماتے تھے ۔ آپ کی ماں غیر مسلم تھی اور اپنے دین پر سختی سے عمل کرتی تھی۔ جب آپ مسلمان ہوئے تو آپ کی غیر مسلم ماں بہت پریشان ہوئی اور کہنے لگی: اے میرے بیٹے! یہ تو نے کیا کیا؟ تو نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دیا؟تو نے آج تک کبھی میری نافرمانی نہیں کی! اب تو میری یہ بات بھی مان اور اسلام چھوڑ دے، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو ميں نہ توکھاؤں گی اور نہ پیوں گی، بھوکی پیاسی (hungry and thirsty)مر جاؤں گی ۔ میری موت تیری وجہ سے ہوگی اور لوگ تجھے ماں کا قاتل (killer)کہئیں گے۔يہ کہہ کر واقعی(really) اس نے کھانا پينا چھوڑ ديا، دھوپ ميں بیٹھ گئی، اور کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئی۔ سُبْحَانَ اللہ! قربان جائیےحضرت سعد بن ابی وقاصرَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اللہ پاک اور نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے محبّت پر، ماں کی یہ حالت (condition)دیکھ کر بھی آپ ایمان(faith) پر ہی رہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عشق ومحبت بھرےانداز میں گویا یوں فرمايا: اے میری ماں! اگر کوئی دنیاوی بات ہوتی تو میں ہر گز تیری نافرمانی(disobedience) نہ کرتا مگر یہ معاملہ(case) اللہ پاک کے دین اور نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبّت کا ہے، تیری ایک جان توکیااگرسو(100)جانيں بھی ہوں اور ايک(1) ايک کر کے سب قربان کرنا پڑیں تو سب کوقربان کردوں مگردینِ اسلام اور اپنے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ )تفسیر البغوی، العنکبوت، تحت الایۃ:۸، ج۳، ص۳۹۶ ماخوذا) اب تمھاری مرضی ہے کہ کھانا کھاؤیا نہیں،جب ماں نے یہ بات سنی تواُس نے کھاناکھالیا۔(ابن عساکر، حرف السین، ذکر من اسمہ سعد، ۲۰ / ۳۳۱ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ والدین کی بہت اہمیّت(importance) ہے، دنیاوی کام (جو شریعت نے منع نہیں کیے) میں اُن کی بات فوراً مانی جائے اگرچہ غیر مسلم ہوں( مثلاًکھانا مانگیں تو دیں، دوائی منگوائیں تو لا کر دیں)۔اگر والدین کسی دینی لازم کام(جیسے:فرض، واجب یا سنّت مؤکدّہ) کو کرنے سے روکتے ہوں تب بھی وہ کام کریں گے (اور اب والدین کی بات نہیں مانیں گے) یا کسی گناہ(مثلاً فلم دیکھنے، گانوں کے پروگرام میں جانے) کا حکم دیں تو اُن کی بات نہیں مانیں گےلیکن اُن کے ساتھ کسی طرح کی بد تمیزی(rudeness) بھی نہیں کریں گے ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک کی نافرمانی کے کاموں میں کسی کی اطاعت جائزنہیں ، اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔ (صحیح مسلم ، ج۳،ص ۱۴۹۶ ، حدیث۱۸۴۰) تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی، حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہاُن دس(10) صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک(1) ہیں کہ جنہیں خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےایک ساتھ جنّت کی خوشخبری(good news) سنائی۔ جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: حضرت سالم بن عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں: مجھے میرے والد صاحب نے بتایا کہ ایک دن ہم پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:اس دروازے سے ابھی ایک جنّتی شخص آئےگا۔تو ہم نے دیکھاکہ اس دروازے سےحضرت ِسعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہاندر آئے۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل من قسم الافعال، الحدیث: ۳۷۱۰۸، ج۱۳، ص۱۸۰)

حکایت (09):’’دین سے محبّت‘‘

مکّے شریف کے غیر مسلم اس بات سےبڑےپریشان تھے کہ اسلام بہت تیزی سے پھیل رہاہے اور لوگ مسلمان ہوتے جا رہے ہیں۔ان کے ایک سردار (chief)نے کہا کہ اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ جو شخص اسلام کی طرف بلاتا ہے اسے ختم کردیا جائے۔یہ سن کر تمام لوگ کہنے لگے کہ اسلام کو پھیلانے والے(حضرت ) مُحَمَّدبن عبداللہ(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) ہیں، لیکن انہیں شہید کرناآسان نہیں۔ فوراً ایک بہادر (brave man)آدمی کھڑےہوئےاورکہا: ’’یہ کام میں کروں گا‘‘۔ تمام لوگ حیران(surprise) ہوئے لیکن سب کویقین (believe)تھاکہ یہ شخص ایساکرسکتے ہیں ، کیونکہ وہ اپنی طاقت اوربہادری میں بہت مشہور (famous)تھے۔ پھروہ بہادر شخص(brave man) تلوار(sword)لے کر اس بُری نیّت سے اپنے گھر سے نکلے۔ ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک شخص سامنےسے آگیا، اس نے پوچھا: خیریت ہے! تلوارلیے کہاں جارہے ہیں؟۔ بہادرشخص نے کہا: میں(حضرت ) مُحَمَّدبن عبد اللہ(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )کو (مَعَاذَ اللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ) شہید کرنےجارہا ہوں۔ اس آدمی نے کہا: پہلے اپنے گھر کو تو دیکھ لیں، تمہاری بہن اور اُسکاشوہر(یعنی بہنوئی) دونوں مسلمان ہو چکے ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ بہادر غصّے سے اُن کے گھر پہنچ گئے، جہاں وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہےتھے۔ بہن نے دروازہ کھولاتواُنہوں نے اپنی بہن اوربہنوئی دونوں پرغصّہ کرتے ہوئے پوچھا:کیا تم دونوں اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر نئے دین میں چلے گئے ہو؟اورغصّے میں بہن وبہنوئی دونوں کومارنا شروع کردیااور بہت مارا۔ پھروہاں موجود قرآنی آیتوں کو دیکھ کرکہنے لگے:یہ کیا ہے؟بہن نے کہا:یہ اللہ پاک کاکلام’’قرآن مجید‘‘ہے،آپ ناپاک ہیں اِسے ہاتھ نہیں لگاسکتے،ہاں غسل کرلیں پھراسے پکڑ سکتے ہیں ۔ اُنہوں نے غسل کیا اور پھر پڑھنے لگےتو یہ آیت سامنےآگئی،ترجمہ (Translation) :بیشک میں ہی اللہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پ۶ ۱، سورۃ طہ، آیت۱۴) (ترجمہ کنز العرفان)یہ پڑھ کراُن کی سوچ بدل گئی اور وہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس جا کر مسلمان ہوگئے۔(تاریخ الخلفاء،ص۱۱۱، سیرت سید الانبیاء، ص ۱۰۳ مفھوما) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک اور نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبّت کی بہت برکتیں ہیں اور اسی محبّت کی وجہ سے انسان، ہر حالت (condition) میں اسلام ہی پر رہتا ہے بلکہ اس کی برکت سے دوسروں کو بھی فائدہ ملتا ہے جیساکہ اس واقعے سے پتا چلا کہ جو اپنی بہن کو دین سے دور کرنے آئے تھے وہ خود مسلمان ہوگئے۔ تَعَارُف (Introduction): مسلمان ہونے والا بہادر شخص امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ عَنْہ،قرآنِ پاک کو پکڑنے سے روکنے والی آپ کی بہن اُمّ جمیل حضرت فاطمہ بنت خطاب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اوردین اسلام کی محبّت میں مار کھانے والےجنّتی صحابی حضرت سعید بن زیدرَضِیَ اللہُ عَنْہ تھے۔ جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: جنّتی صحابی،حضرت سعید بن زیدرَضِیَ اللہُ عَنْہ اُن دس (10)صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک(1) ہیں کہ جنہیں ایک ساتھ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جنّت کی خوشخبری(good news) سنائی۔ایک روایت میں اس طرح ہےکہسعید بن زید جنّتی ہیں اور جنّت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے رفیق(یعنی ساتھی) ہونگے۔(الریاض النضرۃ ، ج۱،ص۳۵) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جب اپنا نبی ہونا لوگوں کو بتایا تو یہ شروع ہی میں اسلام لے آئے تھے۔(الاصابۃ ،حرف السین المھملۃ ملخصاً)

حکایت(10):’’بہت بڑی مچھلی‘‘

حضرتِ جابِر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَافرماتے ہیں، ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ہم (تین سو لوگوں)کوقبیلہ(tribe)قُریش کی طرف بھیجا اور حضرتِ ابو عُبَیدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ہماراسِپہ سالار(یعنی نگران) بنایا اور ہمیں کَھجوروں کی ایک بوری بھی دی۔ حضرتِ ابوعُبَیدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہہمیں (روزانہ)ایک ایک کَھجور دیتے ، ہم اس کو چُوستے جس طرح بچّہ چُوستا ہے اور اُوپر سے پانی پی لیتے ۔ تو اُس دن اور رات تک کے لیے ،یہی کھانا ہوتا۔ ہم دَرَخْتوں سےپتّے گراتے اور انھیں پانی میں ڈال کرکھا لیتے ۔ مزیدفرماتے ہیں کہ جب ہم سَمُندر(sea) کے قریب سے گزرے تو ہمیں ایک بہت ہی بڑی مچھلی نظر آئی ۔ وہ اتنی بڑی مچھلی تھی کہ ہم تین سو(300) لوگ ایک مہینے تک اُسے کھاتے رہے یہاں تک کہ ہم صحت مند(healthy) ہوگئے۔ مزید کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ہم اُس کی آنکھ کے گڑھے (یعنی سوراخ)سے مٹکے بھر بھر کر چَربی (fat)نکالتے اور ہم اُس (مچھلی)سے گائےجتنے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹتے۔ (اس مچھلی کی آنکھ کا سوراخ اتنا بڑا تھا کہ) تیرہ (13)آدمی اس کی آنکھ کے گڑھے میں بیٹھ گئے۔ ایک مہینے بعد ہم نے اس کے خشک گوشت (dried meat)کے ٹکڑے سفر میں ساتھ رکھ لئے۔ جب ہم مدینہ منوّرہ پہنچے تو سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضِر ہوئے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اس مچھلی کے بارے میں بتایا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ رزْق تھا جو اللہ پاک نے تمہارے لیے پَیداکیا۔ کیاتمہارے پاس اُس گوشت میں سے کچھ ہے؟ (اگر ہو تو)ہمیں بھی کھلاؤ۔ ہم نے حضُورِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کواس (مچھلی ) کا گوشْت بھیجا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُس میں سے کھایا۔ (صحیح مسلم ج۲ ص ۱۴۷ رقم الحدیث۱۹۳۵، مُلخصاً) حدیثِ پاک میں موجود واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ اللہ پاک کی راہ میں جو بھی سفر کرتا ہے، اللہ پاک کی اس پر خوب رَحْمتیں ہوتی ہیں، مصیبتوں میں آسانیاں ہو جاتی ہیں ۔ ہر مسلمان کو صَحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی کوششوں(efforts) سے سبق(lesson) حاصل کرتے ہوئے، دین کے کام کے لیے کوششیں کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہُ عَنْہ اُن دس(10) صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک(1) ہیں کہ جنہیں خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےایک ساتھ جنّت کی خوشخبری (good news) سنائی۔آپ شروع ہی میں اسلام لے آئے تھے۔( الریاض النضرہ، ج۲، ص۳۴۶) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: ہر اُمّت میں ایک امین (یعنی امانت والا) ہوتا ہے اور اس اُمّت کے امین(یعنی امانت والے) ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔( صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،الحدیث:۳۷۴۴،ج۲،ص۵۴۵)علماء فرماتے ہیں :مطلب یہ ہے کہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا امین (یعنی امانت والا) ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ زید جیسا عالم ہونے کا حق ہے ویسا عالم ہے۔ سارے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ امانت والے ہیں مگر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہُ عَنْہ اوّل نمبر امانت دار۔(مراٰۃ المناجیح، ج۸،ص۴۴۷)

حکایت(11):’’اچانک کچھ لوگ آگئے‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی دنیا میں آمد سے پہلے کی بات ہے۔ یہودیوں(jews) نےاپنی کتاب میں آخری نبی( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کی بہت سی نشانیاں (signs)پڑھی تھیں اور ان نشانیوں کی وجہ سےوہ جانتے تھے کہ اب اللہ پاک کے آخری نبی( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) دنیا میں آنے والے ہیں اورجب وہ دنیا میں آئیں گے تو دین اسلام پھیل جائے گا اورہماری کوئی عزت اورطاقت نہیں رہے گی اس لیے وہ چاہتے تھے کہ ہم اُس خاندان کو ہی ختم کر دیں کہ جس میں سے یہ آئیں گے کیونکہ آخری نبی( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کے خاندان وغیرہ کی نشانیاں بھی وہ اپنی کتاب میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ جب انہوں نے حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو دیکھا تو سمجھ گئےکہ آخری نبی جو دنیا میں آنے والے ہیں یہ ان کے والد ہیں ۔ اب ان یہودیوں نےحضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو شہید کرنے کی کوششیں شروع کر دیں مگر کامیاب نہ ہوئے ۔ ایک دن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والد صاحب حضرت عبداللہرَضِیَ اللہُ عَنْہشکار (hunting)کے لئے جنگل میں تشریف لے گئے تو یہودیوں کی ایک بہت بڑی جماعت تلواریں لے کر اس نیّت سےجنگل میں گئی کہ حضرت عبدُاللہرَضِیَ اللہُ عَنْہ کو شہیدکر دےمگر اللہ پاک نے اس مرتبہ بھی اپنے کرم سےآپ کو بچا لیا۔ اچانک(suddenly) کچھ ایسےلوگ گھوڑوں پر آگئے جو عرب کے لوگ نہیں تھے،ان لوگوں نے آ کر یہودیوں کو بھگادیا اورحضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ صحیح سلامت(safely) اپنے گھر چلے گئے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی والدہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے والد(یعنی ہمارے مدنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نانا جان) حضرت وَہب بن مُناف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی اُس دن جنگل میں تھے اور انہوں نے ا پنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا،اس لئے ان کوحضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے بہت محبت ہو گئی اور پکا ارادہ کرلیا (firm intention کر لی) کہ میں اپنی پیاری بیٹی (حضرت) آمنہ(رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ) کی شادی (حضرت )عبدُ اللہ(رَضِیَ اللہُ عَنْہ) ہی سےکروں گا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دادا جان حضرت عبدالمطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو اُن کے بیٹے کے لیےشادی کا پیغام (proposal)بھیجا۔ حضرت عبدالمطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو اپنے پیارے بیٹے حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے لئے جس طرح کی دلہن چاہیےتھی، وہ سب باتیں حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا میں تھیں لھذا چوبیس (24) سال کی عمر میں حضرت عبدُاللہرَضِیَ اللہُ عَنْہ کا حضرت بی بی آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سےنکاح ہو گیا۔ ( مدارج النبوت،قسم دوم، باب اول،۱۲-۱۴ ملتقطا) اس سچے واقعے سے پتہ چلا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےوالد حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی غیر مسلموں سے حفاظت فرمائی ،یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک جس کی حفاظت فرمائے اسے کوئی بھی نقصان نہیں دے سکتا ۔ تَعَارُف (Introduction): حضرتِ عبدُاللہ بِن عبدُ المطّلب رَضِیَ اللہُ عَنْہ ،نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والد صاحب ہیں،آپ کا نام عبدُاللہ،کُنْیَت(kunyah) اَبُو محمد،اَبُو اَحمد اور اَبُوقُثَم(یعنی خیر و بَرکت والے)ہیں۔( شرح زرقانی علی المواھب اللدنیة، ۱/۱۳۵) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دادا جان حضرت عبد المطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو اپنے سب بیٹوں میں سب سے زیادہ پیارے حضرت عبدُاللہرَضِیَ اللہُ عَنْہ تھے۔ حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی پیشانی(forehead) میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا نور چمک رہا تھا، اس لئےآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ خوبصورت اور اچھے اخلاق والے تھے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابھی دنیا میں تشریف نہیں لائے (یعنی پیدا (born)نہیں ہوئے)تھے کہ والد صاحب حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ تجارت (trade)کے لئے ملکِ شام گئے۔وہاں سے واپسی پر مدینۂ پاک میں اپنے رشتہ داروں کے پاس گئے۔ وہاں جا کر آپ بیمار رہے اور ایک مہینے(one month) بیمار رہ کر پچیس(25) سال کی عمر میں وفات پا گئے اور وہیں”دارِ نابِغَہ“(مدینہ پاک)میں دفن ہوئے ۔ ( مدارج النبوت،قسم دوم، باب اول،۱۲-۱۴ ملتقطا) پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والد رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شان: روایت ہے کہ حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی وفات پر فرشتوں کو غم ہوا اور انہوں نے اللہ پاک سے عرض کی کہ یا اللہ!تیرے نبی یتیم(orphan) ہو گئے ۔ اللہ پاک نے فرمایا: میں اس کی مدد اور حفاظت(safe) کرنے والا ہوں ۔ (زرقانی علی المواہب ج ۱ ،ص۱۰۱ ، مدارج جلد۲،ص ۱۴مُلتقتاً)

حکایت(12):’’ حضرت بی بی آمنہرَضِیَ اللہُ عَنْہَا‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری امّی جان حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ایک مرتبہ اپنے رشتہ داروں کے گھر مدینہ پاک گئیں،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بھی ساتھ تھے ۔ مدینے پاک سے واپسی پر مقام ابواء میں بیمار ہوگئیں۔اس بیماری میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (جن کی عُمر شریف پانچ(5) سال تھی) اپنی والدہ صاحبہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا سر دباتے تھے اور روتے جاتے تھے۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آنسو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے چہرے (face)پرگرے تو آنکھ کھولی اور اپنے دوپٹے سے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آنسو صاف کر کہ بولیں دنیا مرے گی مگر میں کبھی نہیں مروں گی کیونکہ میں تو تم جیسا بیٹا چھوڑ رہی ہوں جس کی وجہ سے مشرق (east)اور مغرب (west)میں(یعنی ہر جگہ ) میرا ذکر ہوگا(I will mentioned)۔(مراۃ، ج۲،ص، ۹۸۵،مُلخصاً)اس کے بعدفرمایا :ہرنئی چیز کو پرانا ہوناہے ، کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن ختم ہوجائے گا اور ہر زندے کو مرنا ہے ۔ میں کیسی بڑی بھلائی (برکت والے کو)چھوڑ کر جارہی ہوں اورکیسا پاک (بیٹا)مجھ سے پیدا ہوا، صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ (لمواہب اللدنیۃ المقصد الاول ذکر وفاۃ آمنۃ رضی اللہ عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۰۔۱۶۹، مُلتقطاً)یہ کہا اورانتقال ہوگیا۔ اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی وجہ سے آپ کی والدہ کی بہت بڑی شان ہے۔ اور پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے صدقے،حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام قیامت تک رہے گا۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے والد وَہْب بن عبدِمَنَاف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی بیٹی (حضرت)آمنہ (رَضِیَ اللہُ عَنْہَا) کی شادی(حضرت) عبدُاللہ ( رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) سے کروادی اور یوں پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا نور، آپ کے پاس آگیا ۔(مدارج النبوۃ، ۲/۱۲ ۔۱۳ماخوذاً) اعلیٰ حضرت کچھ اس طرح فرماتے ہیں: عرب میں بلکہ پوری دنیا میں کتنی تاج(crown) والی ملکائیں(queens) آئیں مگر اُن کا نام بھی باقی نہ رہا۔ مگر میرے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی والدہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان یہ ہے کہ ہر طرف محفلوں میں آپ کا ذکر ہے ، زمین و آسمان میں آپ کا ذکر ہے اور یہ ذکر ہمیشہ رہے گا۔(فتاوی رضویہ جلد۳۰، ص ۳۰۳ماخوذاً) پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی والدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: صلح حدیبیہ (یعنی ایک مرتبہ غیر مسلموں سےکچھ باتوں کا مُعاہدہ(agreement) کرنے کے بعد)،حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ایک ہزار (1000) صحابہ کرامرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے ساتھ اپنی والدہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے مزار شریف پر تشریف لے گئے۔(مرقاۃ، مُلخصاً)وہاں جا کرآپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی آنکھوں میں آنسو(tears) آ گئےکہ آج وہ زندہ ہوتیں اور ہم سب کو دیکھتیں توانہیں خوشی ہوتی ۔ یہ دیکھ کر صحابہ کرام(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) بھی رونے لگے۔(مراۃ، ج۲،ص، ۹۸۵، مُلخصاً)