’’صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے12 واقعات ‘‘

حکایت(01): ’’روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں ‘‘

ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے حضرت بلال رَضِیَ اللہُ عَنْہ سےفرمایا:اے بلال! آؤ ناشتہ کریں۔ تو حضرت بلال رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی:میں روزے سے ہوں۔یہ سن کر اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا:ہم اپنا رزق(sustenance)کھارہے ہیں اور بلال کا رزق جنّت میں بڑھ رہا ہے۔پھر فرمایا :اے بلال! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جتنی دیر تک روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتاہے تواس کی ہڈیا ں (bones) تسبیح کرتی ہیں اور فرشتے اس کے لئے استغفار(یعنی مغفرت اور بخشش کی دعا) کرتے رہتے ہیں ۔(ابن ماجہ،۲/۳۴۸،حدیث:۱۷۴۹) اس حدیث ِ مُبارک سے یہ سیکھنے کو ملاکہ روزہ رکھنا کتنی اچھی بات ہے کہ اس سے ہمیں کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں جن میں سےدو یہ ہیں :(1)ہڈیاں تسبیح کرتی (bones glorify Allah) (2)فرشتے ، اللہ پاک سے روزہ رکھنےوالے کی بخشش(forgiveness) کی دعا کرتے ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ روزے کو اُس کے آداب کے مطابق پورا کریں یعنی روزے کے مسائل اور آداب سیکھیں اور ان پر عمل بھی کریں۔ نہ صرف رمضان المبارک کے روزے رکھیں بلکہ نفل روزے رکھنے کی بھی کوشش کریں۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی،حضرتِ بلالرَضِیَ اللہُ عَنْہ پہلے ایک غلام (slave)تھے( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”بلال“ہے۔(حلیۃ الاولیاء،بلال بن رباح، ۱/۲۰۰،ملخصاً ) مؤذنِ رسول اورسَیّدُالْمُؤذِّنِیْن(یعنی اذان دینے والوں کے سردار)کے القاب(titles) سےمشہور ہیں ۔ (معجم کبیر،۵/۲۰۹، حدیث :۵۱۱۹) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا انتقال 20سنِ ہجری میں ہوا۔(ابن عساکر،رقم:۹۷۴،بلال بن رباح،۱۰/۴۴۵)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:انبیاء اور شہیدوں کےبعدسب سے پہلےبلالِ حبشی کوجنّتی لباس پہنایا جائےگا۔ (ابن عساکر،رقم: ۹۷۴،بلال بن رباح، ۱۰/۴۵۹،حدیث:۲۶۵۵، ملتقطاً)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت(02): ’’ ایک حدیث کے لئےلمباسفر ‘‘

احضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے مدینہ منورہ سے مصر کے شہر کا سفرصرف اس لیے کیا کہ ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ایک حدیث سنیں۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سفر کرکے وہاں پہنچے اور انہوں نے آپ کا اِستقبال ( welcome) کیا تو فرمانے لگے: میں ایک حدیث سننےآیا ہوں کہ جسے بیان کرنے والےاب آپ ہی باقی ہیں۔ حضرت عقبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حدیث سنائی کہ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جس کسی نے مومن کی ایک برائی چُھپائی، قیامت کے دن اللہ پاک اس کی پردہ پوشی کرے گا(یعنی اس کی بُرائی چھپائے گا)۔ حضرت ابوایوب اَنصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ یہ حدیث سنتے ہی اپنے اُونٹ کی طرف بڑھے اور ایک لمحہ(a moment) رُکےبغیر مدینے واپس چلے گئے۔(مسند احمد،۶/۱۳۷، حدیث:۱۷۳۶۹) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمارے صحابہ ِ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نے دین کی خاطر بہت کوششیں کیں، صرف ایک حدیث سننے کے لیے اتنا بڑا سفر، یہ ان ہی کا کام تھا۔ہماری ایک تعداد(larg quantity) نماز ہی نہیں پڑھتی اور جو نماز پڑھتے ہیں ،ان کی بھی ایک تعداد نماز کےمسائل صحیح طرح نہیں جانتی ۔ہمیں علمِ دین حاصل کرنا چاہیے، نماز کے مسائل کے ساتھ ساتھ فرض علوم بھی حاصل کرنےچاہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی،حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”خالد بن زید“ہے۔(طبقات ابن سعد، ۳/۳۶۸،۳۶۹)51ہجری میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا انتقال ہوا اور ترکی میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کامزارشریف ہے ۔(کراماتِ صحابہ،۱۸۲مأخوذاً)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
ایک مرتبہ حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے رات بھرہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےگھرکا پہرہ دیا ( یعنی watch)کیا ، صبح ہوئی توآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےیوں دعا دی: اے اللہ! تو ابو ایوب کی ایسے ہی حفاظت فرما (keep safe) کہ جس طرح(انہوں نے) میری حفاظت کرتے ہوئے رات گزاری۔(سیرت ابن ہشام، ص۴۴۲)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت(03): ’’ تھوڑا سا دودھ اور ستّر صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ‘‘

احضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے مدینہ منورہ سے مصر کے شہر کا سفرصرف اس لیے کیا کہحضرت ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں ، اُس اللہ پاک کی قسم جس کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں ہو سکتی ، میں بھوک کی وجہ سے اپنا پَیٹ زمین پر رکھتا اورپیٹ پر پتّھر باندھ لیتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا، جس سے لوگ باہَر جاتے تھے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میرے پا س سے گزرے تو مجھے دیکھ کر مُسکَرائے اور فرمایا: اے اَبوہُریرہ ! میرے ساتھ آجاؤ۔ میں پیچھے پیچھے چلنے لگا، جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اپنے برکت والے گھر پہنچے تو میں اجازت لیکراندر آگیا۔سر کار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایک پِیالے(cup) میں دودھ دیکھا تو فرمایا:یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ بتا گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے تحفے(gift)میں آیا ہے۔ فرمایا:ابو ہُریرہ! جا کر اَہْلِ صُفّہ کو بُلا لاؤ(اللہ پاک کے حکم سے مکّے پاک سے مدینے پاک اپنا سب مال ، گھر وغیرہ چھوڑ کر آنے والے مہاجرین میں سے وہ غریب لوگ کہ جن کے پاس گھر نہ ہوتاوہ مدینے پاک کی مسجدنبوی میں ایک چھت کی طرح جگہ میں رہتے تھے، یہ لوگ اہلِ صُفّہ تھے(فتاوی رضویہ،ج۸،ص۶۴، مُلخصاً) ۔اہلِ صُفّہ قرآن کریم کوسیکھنے اورسمجھنے میں مصروف(busy) رہتے اوروہ اس بات کو پسند کرتے کہ انہیں دینِ اسلام کی کوئی نئی بات (یا کوئی دین کا نیا حکم )پتا چل جائے یا پہلے سے جو معلوم ہے، اُسے دُہرا تے ( repeat کرتے)رہیں (اللہ والوں کی باتیں ج۱،ص۵۹۸ مُلخصاً))۔ حضرت ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ میرے دل میں خیال آیا، اَہْلِ صُفّہ (جو ستّر(70) صحابہ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) تھے(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،ج۲،ص۳۶))کا اِس دُودھ سے کیا بنے گا، اگرمیں اس دودھ کو پی لیتا تو مجھے کچھ طاقت مل جاتی لیکن میں اَصحابِ صُفّہ کو لے آیا ، انھوں نے اجازت لی اور گھر میں آگئے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:ابو ہُریرہ ! پیالہ پکڑو اور ان کو دودھ پِلاؤ۔ میں نے انہیں پلانا شروع کیا، لوگ آتے رہے اور پیتے رہے یہاں تک کہ سب نے پیٹ بھر کر پی لیا اب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پِیالہ اپنے ہاتھ میں لے کر مُسکرا کر فرمایا:ابوہُریرہ!اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ مزیدفرمایا:بیٹھو اور پیو ، میں بیٹھ گیا اوردودھ پینے لگا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بار بار فرماتے رہے:پیو! یہاں تک کہ میں نے عرض کی، نہیں، قسم اُس ذات(یعنی اللہ پاک) کی جس نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو حق (اور سچ ) کے ساتھ بھیجا،اب مزید نہیں پی سکتا۔ فرمایا،''مجھے دِکھاؤ۔''میں نے پیالہ (cup)حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دے دیا ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اللہ پاک کی حمد(یعنی تعریف) بیان کی، بِسْمِ اللہ پڑھی اور باقی دودھ پی لیا۔ (صحیح بخاری ج ۷ ص ۲۳۰ رقم الحدیث ۶۴۵۲، مُلخصاً) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بہت بڑی ہے اور یہ بھی پتا چلا کہ صبر کرنے والوں کو کبھی دنیا ہی میں بہترین انعام (reward)مل جاتا ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی،حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”عَبْدُ الرَّحْمٰن “ہے جبکہ بعض علما نے”عبداللہ “فرمایا ہے۔ (الاصابۃ،۷/۳۴۸، عمدۃ القاری،۱/۱۹۴،تحت الحدیث:۹،ملخصاً)آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا معمول(routine) تھا کہ روزانہ12 ہزارمرتبہ بار اللہ پاک سے توبہ واِسْتِغْفَار کرتے۔(معرفۃ الصحابہ، ۳/۳۱۹، رقم:۴۷۸۰)آپ کی وفات 57، 58 یا 59ہجری میں ہوئی۔(معرفۃ الصحابہ، ۳/۳۱۵) انتقال کے وقت آپ کی عمر 78 سال تھی۔(تاریخِ مدینہ دمشق، ۶۷/۳۹۰) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّتُ البقیع(جو کہ مدینے میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن(buried) کیا گیا۔
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے اپنے حافظے ( memory) کی کمزوری کی عرض کی کہ میں آپ کی بہت سی باتیں سنتا اور بھول جاتا ہوں۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ( it spread)۔ انہوں نے پھیلادی (he spread it )، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنا مبارک ہاتھ اس چادر پر ڈالا پھر فرمایا کہ اب اس کو سمیٹ لو(fold it up) ۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اس کے بعد سے پھر میں کوئی بات نہیں بھولا ۔ (بخاری،۱/۶۲،حدیث:۱۱۹) اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا حافظہ اتنا مضبوط(strong) ہوگیا کہ پھر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے جو کچھ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے سنا ، زندگی بھر نہ بھولے۔ آٹھ سو(800) صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اور تابعین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْحدیث میں آپ کے شاگرد ہیں ۔ آپ نے پانچ ہزار تین سو چوہتر(5364) حدیثیں بیان فرمائیں ، جن میں سے چار سو چھیالیس(446) حدیثیں، حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف “میں موجود ہیں۔ (اکمال ،قسطلانی، ج ۱ ،ص ۱۲ ۲،عینی ،ج۱ ،ص ۱۲۶)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت(04): ’’ بری موت سے بچانے والا کام ‘‘

جب حضرت حارِثَہ بن نُعْمَان رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی نظر چلی گئی(یعنی آپ نابینا(blind)ہوگئے) تو آپ نے اپنے کمرے کے دروازے سے اپنی نمازکی جگہ تک ایک رسی باندھ رکھی تھی اوراپنے پاس کھجوروں (dates)سے بھری ایک ٹوکری (basket)رکھ لیتے تھے۔جب کوئی مانگنےوالاآتا اورسلام کرتاتوآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ٹوکری سے کچھ کھجوریں لیتے پھررسی (rope)کےذریعےمانگنےوالےکےپاس آتے اوراسے کھجوریں عطا فرماتے۔ آپ کے گھروالے عرض کرتے کہ” یہ کام ہم کردیا کریں گے“۔لیکن آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے کہ میں نے نبی ٔ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سےسنا ہےکہ’’مسکین کوکوئی چیز دینا (یعنی صدقہ کرنا)بُری موت سے بچاتا ہے۔‘‘ ( معجم الکبیر،الحدیث:۳۲۲۸،ج۳،ص۲۲۸،اللہ والوں کی باتیں،۱/۶۲۴) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہصدقہ دینا بہت اچھی بات ہے اور ہمارے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اپنے ہاتھوں سے صدقہ دینے کی کوشش کیا کرتے تھے (البتہ چھوٹے بچے صدقے میں اپنی (personal) رقم نہیں دے سکتے) ۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی،حضرت حارِثَہ بن نُعْمَان اَنصارِی رَضِیَ اللہُ عَنْہ جنگ بدر میں جانے والے صحابی ہیں(منتظم، ۴/۱۳۰) لھذا صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں بھی آپ کا بہت بڑا مقام (rank) ہے ۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ان 80صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں بھی ہیں کہ جو جنگِ حُنَین (Battle of Hunayn)میں استقامت(steadfastness) سےشامل رہے۔(اللہ والوں کی باتیں،۱/۶۲۳)حضرت امیر معاویہ ر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے زمانے میں آپ کا انتقال ہوا ۔(الاستیعاب،۱/۳۰۶)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ‏میں سویا تومیں نے اپنے آپ کو جنّت میں پایا۔ میں نے ایک قاری کی آوازسنی توپوچھا :یہ کون ہے؟۔فرشتوں نے کہا: یہ حارِثَہ بن نُعْمَان ہیں۔پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: یہ بھلائی واحسان ہی کاصلہ(یعنی نتیجہ(result) ہے کہ جو وہ یہاں ہیں) ہے،یہ بھلائی واحسان ہی کاصلہ ہے ۔اس حدیث کو بیان کرنے والے، کہتے ہیں کہ :حضر ت حارِثَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سب لوگوں سے زیادہ اپنی والدہ کے ساتھ بھلائی اور اچھے اخلاق(good manners) سے پیش آتے تھے۔(مسند احمد ، حدیث:۲۵۳۹۲، ۹/۵۱۸)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

حکایت(05): ’’حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرتے‘‘

نے اپنے کمرے کے دروازے سے اپنی نمازکی جگہ تک ایک رسی باندھ رکھی تھی اوراپنے پاس کھجوروں (dates)سے بھری ایک ٹوکری (basket)رکھ لیتے تھے۔جب کوئی مانگنےوالاآتا اورسلام کرتاتوآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ٹوکری سے کچھ کھجوریں لیتے پھررسی (rope)کےذریعےمانگنےوالےکےپاس آتے اوراسے کھجوریں عطا فرماتے۔ آپ کے گھروالے عرض کرتے کہ” یہ کام ہم کردیا کریں گے“۔لیکن آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے کہ میں نے نبی ٔ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سےسنا ہےکہ’’مسکین کوکوئی چیز دینا (یعنی صدقہ کرنا)بُری موت سے بچاتا ہے۔‘‘ ( معجم الکبیر،الحدیث:۳۲۲۸،ج۳،ص۲۲۸،اللہ والوں کی باتیں،۱/۶۲۴) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہصدقہ دینا بہت اچھی بات ہے اور ہمارے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اپنے ہاتھوں سے صدقہ دینے کی کوشش کیا کرتے ت
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی،حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قبیلہ انصار کے خاندان خزرج کے تھےاور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے خاص شاعر ہونے کی وجہ سے تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں مشہور (famous)تھے۔ آپ کی کنیت ’’ ابو الولید ‘‘ نام ’’حسان ‘‘اور والد کا نام ’’ثابت‘‘ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان میں بہت سے قصیدے لکھے(یعنی نعتیں لکھیں)۔ مکّے کے غیر مسلم جب نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کے خلاف(against) باتیں کرتے تو حضرت حسان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نعتوں کےذریعے اُن کا جواب دیتے۔ ( کرامات صحابہ ،ص ۳۱۸مُلخصًا)حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: اِنْ شَاءَﷲ!قیامت تک ہونے والے سارے نعت خواں، حضرت حسان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے جھنڈے کے نیچے ہونگے ۔(مراٰۃ المناجیح ،۱/۱۷۹)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَافرماتی ہیں: حَسّان بن ثابِت کو برا نہ کہو کیونکہ انہوں نے اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مدد کی ہے۔( تاریخ ابن عساکر،۱۲/ ۳۹۹، الرقم:۱۲۶۳، بتغیر قلیل)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی