حکایت(01): ’’قبر والوں سے گفتگو‘‘
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرما تے ہیں :ہم حضرتِ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ساتھ قبرِستان سے گزرے،آپ نے فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ وَرَحْمَۃُ اللہ یعنی اے قبر والو!تم پر سلامَتی اور اللہ پاک کی رَحمت ہو۔ پھر فرمایا: اے قَبْر والو!تم اپنے بارے میں بتاؤ گے یا ہم بتائیں ؟ وہ بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہم نے قَبْر سے ’’وَ عَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ‘‘ کی آواز سنی اور کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا: اے امیرُالْمُؤمِنِین!آپ ہی بتائیں کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوا؟ حضرتِ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا :سُن لو! تمہارے مال تقسیم (distributed)ہو گئے، تمہاری بیویوں نے دوسر ی شادیاں کر لیں ، تمہاری اَولاد یتیموں میں ہے ، جس مکان کو تم نے بہت مضبوط(durable) بنایا تھا ، اب اُس میں تمہارے دشمن رہتے ہیں۔ اب تم اپنا حال سناؤ۔ یہ سن کر ایک قَبْر سے آواز آنے لگی: اے امیرُالْمُؤمِنِین!ہمارے کفن پَھٹ گئے ، ہمارے بال گرگئے، ہماری کھالیں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں ہماری آنکھیں باہرآ گئیں اور ہما ر ے جسم سے پِیپ(pus) نکل رہی ہے اور ہم نے جو کچھ آگے بھیجا(یعنی جیسے عمل کئے) اُسی کو پایا ، جو کچھ پیچھے چھو ڑا اُس میں نقصان ہوا۔
(شَرْحُ الصُّدُورص۲۰۹،ابن عَساکِر۲۷/۳۹۵ )
اس سچی حکایت سے پتاچلا کہ جب بھی قبرستان جائیں تو وہاں دفن کیے گئے مسلمانوں کو سلام کریں، وہ ہمارا سلام سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ ان کا جواب اللہ پاک کے نیک بندے بھی سن لیتے ہیں اور ان سے بات بھی کرلیتے ہیں۔یہ بھی پتا چلا کہ جوبندہ نیک کام کر کے فوت ہوتا ہے،اُسے اُس کا فائدہ قبر میں بھی ملتا ہے۔ دنیا اچھی کرنے کے لیے جو مال جمع کیا ہوگا، قبر او ر قیامت میں اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
تَعَارُف (Introduction):
مسلمانوں کےچوتھےخلیفہ،جنّتی صحابی،اہلِ بیتِ مُصطفیٰ،قادریوں کے پیشوا،امیرُ المومنین حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہ عَنْہ مکّہ شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والِدۂ ماجدہ حضرت فاطِمہ بنتِ اَسَد رَضِیَ اللہُ عَنْہَانے آپ کا نام ’’حیدر‘‘رکھا،والِد نے آپ کا نام’’علی‘‘ رکھا۔ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے آپ کو ’’ اَسَدُ اللہ ‘‘ کا لقب(title) دیا، اس کے علاوہ’’شیرِ خدا ‘‘اور ’’مولیٰ مشکل کُشا‘‘بھی آپ کے مشہور لقب ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ مکّی مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے چچا زاد بھائی ہیں۔
(مراٰ ۃ المناجیح ج ۸ ص۴۱۲ وغیرہ ملخصا)
اہلِ بیت نبی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
آپ کی کُنْیَت(kunyah)ابوالحسن اور ابو تراب ہے، تیرہ(13) رجب المرجب جمعہ کے دن مکّے شریف میں پیدا ہوئے،دس(10)سال کی عمر میں ہی مسلمان ہوگئے تھے،پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس رہے،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہ عَنْہا سے آپ کا نکاح ہوااور حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنْہ کی جو اولاد حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہ عَنْہا سے ہوئی ، انہیں سیّد کہا جاتا ہے ۔
اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ، حضرت حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ ، حضرت حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بلایا اور فرمایا: یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ حضرت امِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: یَارسولَ اللہ! میں بھی اہلِ بیت سے ہوں؟ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: کیوں نہیں!اِنْ شَآءَ اللہ۔(شرح السنہ للبغوی،ج ۷،ص۲۰۴، حدیث:۳۸۰۵)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی
حکایت(02): ’’ تسبیح فاطمہ‘‘
ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا خود روٹیاں پکاتیں ،گھر میں جھاڑو دیتیں۔ چکی(grinder) میں دانے ڈال کر،پیس (grind)کر آٹا بناتی تھیں جس سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے ہاتھوں میں چھالے(دانے۔blisters) پڑگئے تھے۔ایک مرتبہ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور کام کاج میں مدد کے لئے خادم(نوکر) مانگا۔نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:تمہیں ہمارے پاس سےخادم تو نہیں ملے گا،لیکن کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو خادم سے بہتر ہے؟تم جب بستر پر جاؤتو تینتیس(33)بار سُبْحٰنَ اللہ، تینتیس(33)بار اَلْحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور چونتییس (34)بار اَللہ اَکْبَر پڑھ لیا کرو۔
(مسلم،ص۱۰۴۸،حدیث:۲۷۲۸،شان خاتون جنت،ص۳۳)
اس حدیثِ پاک سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمیں ہرنماز کے بعداور رات سونے سے پہلے ” تینتیس(33)بار سُبْحٰنَ اللہ، تینتیس(33)بار اَلْحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور چونتیس (34)بار اَللہ اَکْبَر “پڑھنے کی عادت بنانی ہے ، ان شاء اللہ! اس سے فائدہ حاصل ہوگا۔ ان سب کلمات(words) کوتسبیحِ فاطمہ کہتےہیں۔ اس سچی حکایت سے یہ بھی پتا چلا کہ ہمیں اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرنے چاہیئے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی،اہلِ بیتِ مُصطفیٰ،ابنِ علُّی الُّمرتضیٰ، امام حسن مُجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پندرہ (15) رَمضانُ المُبارک3 سنِ ہجری کی رات مدینۂ پاک میں پیداہوئے۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا نام خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ”حسن“رکھا۔(سوانحِ کربلا،ص۹۲)آپ کے والد امیر المومنین حضرتِ علی المرتضی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور والدہ حضرت بی بی فاطمہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ہیں ۔آپ کی کُنْیَت(kunyah) ”ابو محمد“ ہے۔ آپ کو”رَیْحَانَۃُالرَّسُوْل“(یعنی رسول پاک کے پھول)بھی کہتے ہیں۔ (امام حسن کی ۳۰حکایات،ص۳)امام حسنرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے پانچ (5)ربیع الاول ، پچاس(50)ھ میں سینتالیس(47)سال کی عمر (age)میں مدینہ منوّرہ میں وفات پائی۔ (صفۃ الصفوۃ ،۱/۳۸۶،تقریب الھذیب لابن حجر عسقلانی ص۲۴۰ )
اہلِ بیت نبی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حضرتِ اَنَس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کہتے ہیں کہ (امام )حسن (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) سے زیادہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سے ملتا جلتا کوئی بھی شخص نہ تھا۔(بُخاری ج۲ص۵۴۷حدیث ۳۷۵۲)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی
حکایت(03): ’’ضرورت پوری کردی‘‘
حضرتامام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاسں ایک ضرورت مند(needy man) نے درخواست (application) پیش کی۔ آپرَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے بغیر پڑھے فرمایا: تمہاری ضرورت پوری کی جائے گی۔کسی نےعرض کی :اے نواسۂ رسو ل(Holy Prophet’s grandson)!آپ نے اس کی درخواست (application) پڑھے بغیر ہی کام کرنے کا فرما دیا۔تو فرمایا: جب تک میں اس کی درخواست پڑھتا وہ میرے سامنےشرمندہ(embarras) کھڑا رہتا پھر اگر اللہ پاک مجھ سے پوچھتا کہ تو نے ایک بات کرنے والے کو اتنی دیر کھڑا رکھ کر کیوں ذلیل(disgraced) کیا ؟ تو میں کیا جواب دیتا؟ (احیاء العلوم،۳/۳۰۴)
اس سچے واقعے سےہمیں یہ درس(lesson) ملتا ہے کہ ہمیں حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی مبارک عادت کو اپناتے ہوئےمسلمان کی عزّت (respect)کرنی چاہیے ۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ، بنتِ مُصطفیٰ،خاتونانِ جنّت کی سیّدہ، فاطمۃُ الزّہرۃ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام ’’فاطِمہ‘‘ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی ہیں۔آپ کی والدہ اُمُّ المومنین حضرت خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ہیں ۔ ’’زَہرا‘‘اور’’بَتُول‘‘ آپ کے لقب(title)ہیں ۔پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےدنیاسےتشریف لےجانے کےتقریباً پانچ(5) یا چھ(6) ماہ بعد تین(3) رمضانُ المبارک، گیارہ(11) سنِ ہجری میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال ہوا۔ حضرتِ ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نمازِ جنازہ پڑھائی (کَنْزُ الْعُمَّال، کتاب الموت، باب فی اشیاء قبل الدفن، ج۸، ص۳۰۳، الحدیث:۴۲۸۵۶)اورآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔
اہلِ بیت نبی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: ( میری بیٹی) کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کیونکہ اللہ پاک نے اِس کو اور اس سے محبّت کرنے والوں کو دوزخ سے آزاد کیا ہے۔ (کَنْزُ الْعُمَّال،کتا ب الفضائل، ج۱۲، ص۵۰، الحدیث:۳۴۲۲۲)اِس لئے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام ’’فاطِمہ‘‘ ہوا کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا دُنْیا میں رہتے ہوئے بھی دُنْیا (کی چیزوں)سے الگ تھیں۔(مِراٰۃُ الْمَنَاجِیْح،، ج۸، ص۴۵۲، نعیمی کتب خانہ گجرات)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی
حکایت(04): ’’کنویں کا پانی بڑھ گیا‘‘
حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جب مدینہ پاک سے مکّہ پاک کی طرف گئےتو راستے میں کسی نے ان سے عرض کی: میرے کُنویں(well) میں پانی بَہُت ہی کم ہے، برائے مہربانی (please)!برکت(blessings) کی دعا کردیجئے۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اُس کُنویں کاپانی منگوایا۔ جب پانی کا ڈول (کنویں سے پانی نکالنے کابرتن۔bucket)لایا گیا تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے منہ لگا کر اس میں سے پانی پیا اور کُلی (rinsing) کی پھر ڈول کو واپس کنویں میں ڈال دیاتوکنویں کاپانی کافی زیادہ ہو گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ (tasty)بھی ہو گیا۔ (طبقات کبری،۵/۱۱۰)
اس سچی حکایت سے معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نواسے(Grandson) اپنے نانا جان (Grandfather)کی امت پربہت مہربان تھے ،ا ن کےمسائل حل کر دیتے تھےہمیں بھی دوسروں کی نیک کاموں میں مدد کرنی چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی،اہلِ بیتِ مُصطفیٰ، شیخِ سلسلہ قادریہ، امام حسین ابن مُرتَضٰیرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی پیدائش پانچ(5)شَعْبان، چار(4) سنِہجری کوہوئی ۔ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ”حُسین“نام رکھااورآپ کو بھی جنَّتی جَوانوں کا سَرداراوراپنا بیٹا فرمایا۔ آپ کی کُنْیت(kunyah) ابُوعبدُ اللہ ہے۔ آپ کو”رَیْحَانَۃُالرَّسُوْل“(یعنی رسول پاک کے پھول)بھی کہتے ہیں۔ (اسد الغابۃ، باب الحاء والسین،۲/۲۵،۲۶ملتقطاً ) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے دس(10)محرم الحرام سن 61 سنِ ہجری جمعہ کے دن شہادت پائى،اس وقت آپ کى عمر چھپن(56) سال، پانچ(5) ماہ اورپانچ(5) دن تھى۔(طبقات ابن سعد، ۶/۴۴۱، البداية والنہاية،۸ / ۱۹۷)
اہلِ بیت نبی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
یزیدی فوج امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو شہید کرنے کے بعد،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُکےبرکت والے سرِ کو لے کر آئے تو اُس وقت آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ہونٹ ہل رہے تھے اور زَبان شریف سے قرآنِ پاک کی اس آیت کی آواز آرہی تھی، ترجمہ (Translation) : اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے ۔( پارہ۱۳،سورۃ ابراہیم،آیت۴۲ ) (ترجَمۂ کنزالایمان) (کراماتِ صحابہ ص۲۴۶ ) یعنی شہید ہونے کے بعد بھی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قرآنِ پاک کی تلاوت فرما رہے تھے۔
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی
حکایت(05): ’’چھپ کرلوگوں کی مدد‘‘
امام زین العابدین حضرتِ علی بن حسین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ جو کہ سیّد صاحب اور سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ ہیں ، آپ چھپ کرلوگوں کی مدد فرماتے ۔جب آپ کا انتقال ہوا تو پتا چلا کہ آپ مدینے شریف میں 100 گھروں کی مدد کیا کرتے تھےاوررات کے اندھیرے میں ضرورت کا سامان غریبوں کے گھر پہنچا دیا کرتے تھے ۔ (حلیہ الاولیاء،۳/۱۶۰، رقم:۳۵۴۵)
اس سچے واقعے سے یہ سیکھنے کوملا ک ہہمارا ہر کام اللہ پاک کی رضا اور خوشی کے لیے ہونا چاہیے۔ کوئی بھی عمل لوگوں کی واہ واہ کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
آپ کا نام علی بن حسین بن علی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ ہے (یعنی آپ امام حسین رَضی اللہُ عَلَیْہ کے بیٹے اور حضرت علی رَضی اللہُ عَلَیْہ کے پوتے ہیں اور آپ کا نام بھی علی ) ، آپ کی ولادت 38 سنِ ہجری مدینہ پاک میں ہوئی، آپ کی کُنْیَت (kunyah) ا بو محمد، ابو الحسن اور ابو بکر ہے، آپ کا ایک لقب (title)سجّاد(بہت سجدے کرنے والا) ہے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت زیادہ عبادت کرتے تھے کہ آپ کا ایک لقب”زین العابدین“یعنی عبادت گزاروں کی خوبصورتی کا سبب ہو گیااور آپ کایہ لقب نام سے بھی زیادہ مشہور ہوا۔آپ سلسلہ قادریہ کے بزرگ اور آلِ رسول یعنی سیّد بھی ہیں۔ آپ کا وصال 94 سنِ ہجری میں ہوا۔آپ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔ (سیر اعلام النبلاء،۴/۳۸۶۔۴۰۰ مُلخصاً)
آلِ رسول کی شان:
کسی نے حضرت سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا: کیا آپ نے اُس آدمی سے زیادہ نیک شخص دیکھا ہے؟ آپ نے پوچھا: کیا تم نےآلِ رسول (امام زین العابدین) حضرت سیِّدعلی بن حسین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمَا کو دیکھا ہے؟ اس نے عرض کی: نہیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے ان سےبڑا نیک اورپرہیزگار نہیں دیکھا۔
(حلیہ الاولیاء،۳/۱۶۵، رقم:۳۵۶۷)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی
حکایت(06): ’’ ظالم بادشاہ ڈر گیا‘‘
ایک مرتبہ ظالم بادشاہ نے نیک پرہیز گار بزرگ امام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (جو کہ سیّد صاحب اور سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ ہیں )کو شہید کرنے کی نیّت سے بُلایا، جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بادشاہ کے قریب پہنچے توبادشاہ ان سے معافی مانگنے لگا اور کافی سارے تحفے (gifts)دے کر عزّت کے ساتھ واپس بھیج دیا، لوگوں نے بادشاہ سے پوچھا کہ آپ نے تو انہیں قتل کرنے کے لیے بلایا تھا مگر ہم نے تو کچھ اور ہی دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ بادشاہ نے کہا: جب امام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ میرے قریب آئے تو میں نے دیکھا ان کے سیّدھی طرف (the right side)اور اُلٹی طرف (the left side)دو شیر ہیں جو بہت غصّے میں تھےاور مجھ سے کہہ رہے ہیں: اگر تم نے حضرت امام محمد باقر کے ساتھ کچھ کیا تو ہم تمہیں مار ڈالیں گے۔(کشف المحجوب، ص۸۰)
اس حکایت سے پتا چلا کہ اللہ پاک اپنے ولیوں کی مدد فرماتا ہے اوراللہ پاک کے نیک بندے کسی سے نہیں ڈرتے تھے جبھی تو امام باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکسی ڈر اور خوف کے بغیر بادشاہ کے پاس چلے گئے کیونکہ آپ کو اللہ کی رحمت پر یقین(believe) تھا۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت سیّدامام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 56 سنِ ہجری کو پیدا ہوئے، آپ کی کُنْیَت(kunyah) ابو جعفر ، نام محمد اور لقب (title)باقر (بہت علم والا)، شاکر(شکر کرنے والا) ہے، آپ امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بیٹے اور امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے نواسے(grandson)،آلِ رسول (سیّد صاحب)اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ ہیں۔114 سنِ ہجری کو مدینہ پاک میں انتقال فرمایا۔(سیر اعلام النبلاء، ۴/۴۰۱۔۴۰۹ ملتقطا) آپ بہت بڑے عالم اور سنّتوں پر بہت عمل کیا کرتے تھے ۔
آلِ رسول کی شان:
حضرتعبد اللہ بن عطاء رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں نے آلِ رسول سیِّدمحمدبن علی باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے علاوہ عُلَما میں سے ایسا کوئی نہیں دیکھا جس کے پاس عُلَما کا علم بھی کم پڑ جائے( یعنی علما کو بھی اپنا علم کم لگنے لگتا مزید کہتے ہیں کہ) میں نے بڑے بڑے علماءکو ان کی خدمت میں اس طرح بیٹھے دیکھا ، جیسا کہ طالِب علم ، اپنے استاد کے پاس ہوتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء۔ ۳/۲۱۷، رقم:۳۷۵۷ مُلخصاً)
حکایت(07): ’’ آلِ رسول (سیّد صاحب )نے نصیحت نہ کی‘‘
ایک مرتبہ حضرت داؤدطائی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے سلسلہ قادریہ کے شیخ امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے عرض کی: آپ اہلِ بیت میں سے(یعنی سیّد صاحب) ہیں،اس لئے مجھے کوئی نصیحت (advice)فرمائیں۔ لیکن وہ خاموش رہے ۔ جب آپ نے دوبارہ عرض کی کہ اہلِ بیت ہونے کی وجہ سے اللہ پاک نے آپ کو فضیلت(excellence) دی ہے ، تو نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔یہ سن کر امام جعفررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:مجھے تو خود یہ ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے نانا جانصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرا ہاتھ پکڑ کر یہ نہ پوچھ لیں کہ تو نے خود میری پیروی (obeying)کیوں نہیں کی ؟ کیونکہ نجات( یعنی آخرت میں کامیاب ہونے) کا تعلق نسب (یعنی خاندان)سے نہیں بلکہ نیک اعمال پر ہے ۔ یہ سن کر حضرت داؤو طائی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو رونا آگیا کہ وہ بزرگ جو پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خاندان سے ہیں ، جب یہ اللہ پاک کا اتنا خوف رکھتے ہیں، تو مجھے کتنا زیادہ رکھنا چاہیے ؟ (تذکرۃ الاولیاء عربی، ص۴۲ )
اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں پہلی بات تو یہ پتا چلی کہ جب کسی بزرگ یا عالم دین سے ملاقات ہو تو ان سے علم کا سوال کیا جائے، دوسری بات یہ پتاچلی کہ بزرگوں سےنسبت اور تعلق(relationship) ہونے کے باوجود نیک کام کرنے چاہئیں بلکہ زیادہ کرنے چا ہئیں۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت امام جعفرصادِقرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ17ربیع الاول83 سنِ ہجری پیر شریف کے دن مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کی کُنْیَت(kunyah)ابوعبدُاللہ اور ابواسماعیل جبکہ لقب (title)صادق،فاضل اور طاہر ہے۔آپ حضرت امام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بڑے بیٹےہیں،آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی والدہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی پوتی تھیں۔آپ آلِ رسول(یعنی سیّد) اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ ہیں۔ امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 68برس کی عمر میں 15رَجَبُ الْمُرَجَّب 148 ہجری کو وفات پائی۔ آپ کا مزار، مدینے شریف کے مشہورقبرِ ستان جنّتُ البقیع میں والدِ محترم حضرت امام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےقریب ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء، ۶/۲۶۹،شواہدُ النّبوہ ،ص۲۴۵) اہل ِ بیت سے محبت کرنے والے پندرہ(15) رجب کو، ان کی نیاز میں، ایصال ثواب (یعنی انہیں ثواب پہنچانے) کے لیے کھیر پوری کھلاتے ہیں۔
آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی شان:
ایک بزرگرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں:میں جب بھی حضرت امام جعفرصادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دیکھتا ہوں تو جان لیتا ہوں کہ یہ انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔(حلیہ الاولیاء،۳/۲۲۵، رقم:۳۷۸۲)
حکایت(08): ’’ وسیلے کی برکت‘‘
حضرت حسن بن ابراہیم حنبلیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہبہت بڑے بزرگ اور عالم تھے، آپ فرماتے ہیں: جب مجھے کوئی مشکل پیش آتی ہے،میں حضرت امام موسی کاظم بن جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِما (جو کہ سیّد صاحب اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ ہیں)کےمزار پر حاضر ہو کر ان کے وسیلے ( ) سے دعا مانگتا ہوں تو اللہ پاک میری دعا قبول فرماتا ہے اور میرا کام آسان فرمادیتاہے ۔(تاریخ بغداد،۱/۱۳۳)
اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہاللہکے ولیوں کے مزاروں پر حاضر ہو کر ان کے وسیلے سے دعا کرنا بہت اچھا کام ہے۔ یہ طریقہ ہمارے بزرگوں کا ہے اور اس میں دعا قبول ہونے کی زیادہ امید ہے، ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ کوئی عالم بھی ہو تو وہ بھی مزارات پر حاضر ہو کر فیض حاصل کرے۔
تَعَارُف (Introduction):
آلِ رسول(یعنی سیّد)،سلسلہ قادریہ کے بزرگ،حضرت سیّدموسیٰ کاظمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ128 سنِ ہجری کو پیدا ہوئے، نام موسیٰ،کُنْیَت(kunyah) ابو الحسن اور القابات(titles) صابر، صالح اور مشہور لقب(title) کاظم ہے، آپ حضرت امام جعفر صادق کے بیٹے ہیں، بہت زیادہ عبادت کرنے والے سخی (یعنی غریبوں پر مال خرچ کرنے والے)تھے، غصے پر قابو(control) پالیتے تھے جس کی وجہ سے آپ کو کاظم (یعنی غصہ پی جانے والا) لقب(title) ملا۔ 183 ہجری میں 55 سال کی عمر میں انتقال فرمایا (تاریخ بغداد، ۱/۱۳۳-۱۳۷ ملتقطا)
آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی شان:
امام شافعیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : تجربہ(experience)ہے کہ آلِ رسول(یعنی سیّد) ،حضرت موسی کاظمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی قبر شریف پر دعا قبول ہوتی ہے۔(اشعۃ اللمعات، ۱/ ۷۶۲ مُلخصاً)آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہساری رات عبادت میں اوردن روزے میں گزارتے تھے،کوئی آپ پر زیادتی(ظلم وغیرہ) کرتا تو آپ اسے معاف فرما دیتے،عراق والوں میں مشہور تھا کہ اللہ پاک سے دعا کر کے اپنے مسائل حل کروانے کے لیے آپ کا مزار شریف ایک دروازے کی طرح ہیں۔(نور الابصار، ص۱۶۴، مُلخصاً)
حکایت(09): ’’غریب کا مذاق مت اُڑاؤ‘‘
کچھ لوگ قبیلہ(tribe)بنو ہاشم کے نوجوان سیّد صاحب ،سلسلہ قادریہ کے بزرگ، حضرت امام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس بیٹھے تھے، وہاں قریب سے جعفر بن عمر گزرے جو کہ غریبی کی حالت (poverty)میں تھے۔اُن لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف مذاق والے انداز میں دیکھا تو امام علی رضارَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: تم لوگ جلد ہی ان کو اچھی حالت (condition) میں، بہت مالدار اور کافی ملازموں کے ساتھ دیکھو گے۔وہ لوگ کہتے ہیں کہ ابھی ایک مہینا بھی نہیں گزرا تھا کہ ان کو مدینہ پاک کا حاکم(ruler) بنا دیا گیا، ان کی حالت اچھی ہو گئی، پھر وہ ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم ان کے احترام (respect)میں کھڑے ہو جاتے اور ان کے لئے دعائیں کرتے،ان کےآگے پیچھے بہت سے خادم(servent) ہوتے تھے۔(نور الابصار، ص:۱۷۶)
اس حکایت سے یہ درسlesson) )ملتا ہےکہ کسی کی غریبی والی حالت (condition) دیکھ کر اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے نہ اسے چھوٹا سمجھنا چاہیے کیا معلوم اللہ پاک اُس کو بہت بڑا مقام دے دے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے ولیوں کو اللہ پاک کے بتانے سے آنے والے حالات وغیرہ کی خبر ہوتی ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام علی،کُنْیَت(kunyah)ابوالحسن اور لقب (title)رضا ہے، امام علی رضا کے نام سے مشہور ہیں،حضرت امام موسی کاظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بیٹے ،آلِ رسول(یعنی سیّد) اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ ہیں ، 148 سنِ ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 203 سنِ ہجری میں 55 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔(نور الابصار، ص:۱۶۸۔۱۷۷ ملتقطا) سیّدعلی رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکم سوتے، زیادہ عبادت کرتے، بہت روزے رکھتے اور ہر مہینے میں تین(3) روزے تو کبھی بھی نہ چھوڑتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے: ہر مہینے تین(3) روزے رکھنا زندگی بھرروزےرکھنے کی طرح ہے۔ آپ نیک کاموں کا حکم دیتے بہت زیادہ صدقہ وخیرات کرتےاور زیادہ تر رات میں صدقہ کیا کرتے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بہت سی کرامات( )، لوگ بیان کرتے ہیں۔(نور الابصار، ص:۱۷۰مُلخصاً)
آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اہل بیت کی محبت لازم پکڑو کہ جو اللہ سے ہماری دوستی کے ساتھ ملے گا وہ ہماری شفاعت سے جنّت میں جائے گا، قسم اس کی جس کے ہاتھ(یعنی قدرت میں،اختیار میں،قابو میں) میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل فائدہ نہ دے گا جب تک ہمارا حق نہ پہچانے۔
(معجم اوسط، ج۱، ص۶۰۶ ، حدیث: ۲۲۳۰مُلتقطاً)
حکایت(10): ’’ سپاہی بھاگ نہ سکے‘‘
حضرت شیخ عبد الرزاق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے باہر نکلا، راستے میں دیکھا کہ خلیفہ(caliph) کے سپاہی(soldiers)جانوروں پر شراب رکھ کر لے جا رہے ہیں،والد صاحب شیخ عبد القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے سپاہیوں کو آواز دی کہ رُک جاؤ مگر وہ ڈر کے مارے نہ رُکے اور چلتے رہے۔ والد صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جانوروں سے فرمایا: خدا کے حکم سے رک جاؤ۔ جانور فورًا رک گئے،سپاہیوں نے بہت کوشش کی مگر جانور آگے نہیں چلے، سپاہیوں کو فورًا آنت کا درد (appendix) ہو گیا، جس کی وجہ سے وہ تڑپنے لگے اور عرض کرنے لگے کہ معاف فرما دیجئے آئندہ (next time)ایسا نہیں کریں گے۔اب والد صاحب نے دعا کی تو ان کا مرض ٹھیک ہو گیا اور جانوروں پر جو شراب تھی وہ سرکے(vinegar) میں بدل گئی۔ جب یہ خبر خلیفہ(caliph) کو پہنچی تو اس نے ہمیشہ کے لیے شراب سے توبہ کر لی۔(تاریخ مشائخ قادریہ، ص:۱۸۲)
اس حکایت سے ہمیں پہلی بات جو سیکھنے کو ملی وہ یہ کہ جب اللہ والے کسی کام کا فرمائیں تو وہ کر لینا چاہیے ورنہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ اللہ کے ولی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا حکم جانور بھی مانتے ہیں۔ اللہ پاک کے ولی کی دعا میں برکت ہو تی ہے، جیسا کہ سپاہیوں(soldiers) کا درد غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی دعا سے ختم ہو گیا ، آپ کی نظر سے شراب سرکے (vinegar)میں بدل گئی اور اس کرامت کی برکت سے بادشاہ نے شراب پینے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔یاد رہے کہ شراب پینا حرام، بہت بڑا گناہ اور آدمی کی دنیا اور آخرت خراب کرنے والا کام ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
ابھی آپ نے جو کرامت پڑھی یہ سلسلہ قادریہ کے بزرگ،سیّد صاحب ، حضرت سیّد عبد الرزاقرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے والد حضور غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ہے۔شیخ عبدالرزاق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے والد سے تعلیم وتربیت حاصل کی، حافظِ قرآن اور حافظ ِحدیث تھے، عراق کے مفتی بھی تھے۔ عاجزی اور عبادت میں بہت مشہور تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ولادت 528 سنِ ہجری اور انتقال 623 سنِ ہجری میں ہوا۔ آپ کا مزار شریف بغداد میں ہے۔(تاریخ الحفاظ للذہبی، ۴/۲۰۴ ملتقطا)
آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو شخص چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں وہ اپنی کوئی خدمت(service) پیش کرے جس کی وجہ سے قیامت کے دن میں اس کی شفاعت (یعنی اللہ پاک سے سفارش )کروں تو اسے میرے اہل بیت (یعنی گھر والوں اور اولاد وغیرہ)کی خدمت اور انہیں خوش کرنا چاہیے۔
(برکات آل رسول (مترجم)ص:۲۴۵)
حکایت(11): ’’ سفید دھبے والا مریض ‘‘
ایک مرتبہ ایک مریض جس کے جسم پر سفید دھبے (white spots) تھے ، اعلیٰ حضرت کے دادپیرصاحب(یعنی پیر صاحب کے بھی پیر صاحب)، سلسلہ قادریہ کے بزرگ ، آلِ رسول،سیّد اچھے میاں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ملاقات کرنے کے لیے حاضر ہوا۔اُ س وقت کئی لوگ ملاقات کرتےرہے،مگر یہ صاحب دور کھڑے رہے کہ مجھے بیماری ہے، میں حضرت کے قریب کیسے جاؤں۔ پیر صاحب نے فرمایا: بھائی! آگے آؤ۔ وہ آگے بڑھےاور عرض کی: حضور میں آپ سے کس طرح مُلاقات کر سکتا ہوں۔ پیر صاحب نے فرمایا: آگے توآؤ۔ وہ پاس جا کر بیٹھ گئے۔ پیر صاحب نے ان کے سفید داغ پر انگلی رکھی اور فرمایا: یہاں تو کچھ نہیں ہے۔ جب اُ س نے اپنے جسم(body) کو دیکھا تووہ سفید دھبہ(white spot) ختم ہوگیا تھا۔ اس طرح پیر صاحب نے ہر دھبے کو ختم کردیا، اُن کاجسم بالکل صحیح ہو گیا اور بیماری ختم ہوگئی۔ (احوال وآثار شاہ آل احمد اچھے میاں، ص:۲۵۳)
اس حکایت سے معلوم ہوا کہاللہوالوں کے پاس جانے کی بہت برکتیں ہیں،ان کی محفل میں آنے والا فائدے میں رہتا ہے،ان کی دعا سے جہاں بندہ نیکی کے راستے پر آجاتا ہے وہاں اِس کی جسمانی بیماریاں بھی دور ہو سکتی ہیں ۔
تَعَارُف (Introduction):
آپ کا نام آل احمد، لقب(title)شمس الدین اور کُنْیَت(kunyah)ابو الفضل ہے،سیّد اچھے میاں کے نام سے مشہور ہیں۔ 28 رمضان المبارک 1160 سنِ ہجری کو ہند میں پیدا ہوئے، آپ سلسلہ قادریہ کے بزرگ، اعلی حضرت کے پیر صاحب سیّد شاہ آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بھی پیر صاحب اور آلِ رسول یعنی سیّد ہیں اور آپ کےوالد صاحب کا نام شاہ حمزہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہے، آپ نے اپنے والد صاحب سے بھی علمِ دین حاصل کیا۔ (احوال وآثار شاہ آل احمد اچھے میاں، ص:۲۶)
سلسلہ قادریہ کی شان:
غوثِ پاک شیخ عبدُ القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: مجھے اپنے پالنے والے (یعنی اللہ پاک )کی عزّت کی قسم !میں اُس وَقت تک اپنے ربّ کی بارگاہ سے نہ ہٹوں گا جب تک اپنے ایک ایک مُرید کو جنّت میں داخل نہ کروالوں ۔ (تفریحُ الخاطرفی مناقب الشیخ عبدالقادر ص۴۳) اللہ پاک ہمیں نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچتے ہوئے غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے محبّت کرنے والوں میں رکھے۔اٰمین
حکایت(12): ’’چار پرچے‘‘
اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پیر ومرشد، سلسلہ قادریہ کے بزرگ ،حضرت سیّد شاہ آل رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد چار(4) مریدین آپ کے آستانے پر(یعنی جہاں آپ ہوا کرتے تھے وہاں) حاضر ہوئے،سجادہ نشین(یعنی آپ کے بعد وہاں پر جو پیر صاحب بنے، حضرت) میر صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے عرض کی کہ پیر صاحب سیّد شاہ آل رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا کچھ تبرک (holy relic) ہمیں دیں ،حضرت نے فرمایا: جو کچھ تھا وہ تقسیم(distribute) کر دیا اب تو کچھ بھی نہیں بچا یہ صندوقچہ (چھوٹا سا بکس)ہے اس میں دیکھ لیں کچھ ملتا ہے تو آپ کی قسمت۔اُن میں سے ایک مرید نے کھول کر تلاش کیا تو اس میں سے چار (4) پرچے نکلے، جب میر صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دکھائے تو انہوں نے قسم کھا کر فرمایا: میں نے بار بار اسے کھولا مگر اسے خالی پایا یہ آپ حضرات کو مرشد کا خاص تحفہ(special gift) ہے، مبارک ہو۔اس مرید نے اپنے تینوں دوستوں کو ایک ایک پرچہ دے دیا، جب ہر ایک نے کھولا تو اس پرچے کے اندر ہر ایک کے لیے مختصر (short)دعائیں لکھی ہوئی تھیں۔ (تذکرہ نوری، ص۱۱۰ ملخصاً)
اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ بزرگوں کی کوئی چیز خصوصا(specially) کوئی ذاتی تحریر مل جائے تو برکت کے لیے اپنے پاس رکھ لینی چاہیے اور یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ اللہ والے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنے مُریدوں کا خیال رکھتے ہیں جبھی تو ہر شخص کے ہاتھ میں جو پرچہ آیا اس پر اس کے لیے دعا لکھی ہوئی تھی، لہذا ہمیں بھی اللہ والوں کا بہت ادب(respect) کرنا چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت سیّد شاہ آل رسولرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑےعالم، ولی کامل، اعلی حضرت کے پیر ومُرشد،سیّد صاحب اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ تھے، آپ کی ولادت(birth) رجب کے مہینے میں 1209 سنِ ہجری ہندمیں ہوئی، آپ کے والدحضرت شاہ آل برکات رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں، آپ نے ابتدائی تعلم(early education) اپنے والد صاحب سے حاصل کی، آپ کے چچا حضرت آل احمد اچھے میاں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے آپ کو خلافت (یعنی مرید بنانے کی)اجازت بھی دی ۔ انتقال کےوقت ، آپ نے وصیت (will)کی تھی کہ ”اللہاور اس کے رسول کی اطاعت کرو“ ۔18 ذوالحجہ 1296 سنِ ہجری کو آپ کا انتقال ہوا۔ (تذکرہ نوری، ص۱۰۵ ملتقطاً)
سلسلہ قادریہ کی شان:
شیخ ابو سعود عبداللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ : ہمارے شیخ سیّدعبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے مریدوں کے لیے قیامت تک اس بات کے ضامن(guarantor) ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی توبہ کئے بغیر نہیں مرے گا۔ (بہجۃ الاسرار، ص۱۹۱)