01)’’اللہ پاک میرے ساتھ ہے، اللہ پاک مجھے دیکھ رہا ہے ‘‘
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں ، میں تین(3) سال کا تھا کہ رات کے وَقت اُٹھا تو دیکھا کہ ماموں نَماز پڑھ رہے ہیں، ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا،کیاتُو اُس اللہ کو یاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا فرمایا؟ میں نے پوچھا :میں اسے کس طرح یاد کروں ؟ فرمایا، جب رات سونے لگو تو دل میں تین(3) مرتبہ کہو: اللہ پاک میرے ساتھ ہے، اللہ پاک مجھے دیکھتا ہے اللہ پاک میرا گواہ ہے۔ پھر میں اسی طرح دل میں پڑھتا اور ان کو بتاتا تو وہ پڑھنے کی تعداد(number ) بڑھاتے گئے۔ جب ایک(1) سال گزر گیا تو میرے ماموں جان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے مرنے تک ہمیشہ پڑھتے رَہنا اِنْ شَاءَ اللہ! یہ تمہیں دنیا اور آخِرت (یعنی قبر اور قیامت) میں فائدہ دے گا۔پھر میں کئی سال اکیلے میں(in private ) یہ پڑھتا رہا۔پھر ایک دن میرے ماموں جان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے میرا نام لے کر فرمایا، اے سَہْل! اللہ پاک جس شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہو اوراس کا گواہ ہو، کیا وہ اس کی نافرمانی (disobedience) کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا تم اپنے آپ کو گناہ سے بچاؤ ۔
پھر میں اسی طرح دل میں پڑھتا اور ان کو بتاتا تو وہ پڑھنے کی تعداد(number ) بڑھاتے گئے۔ جب ایک(1) سال گزر گیا تو میرے ماموں جان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے مرنے تک ہمیشہ پڑھتے رَہنا اِنْ شَاءَ اللہ! یہ تمہیں دنیا اور آخِرت (یعنی قبر اور قیامت) میں فائدہ دے گا۔پھر میں کئی سال اکیلے میں(in private ) یہ پڑھتا رہا۔پھر ایک دن میرے ماموں جان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے میرا نام لے کر فرمایا، اے سَہْل! اللہ پاک جس شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہو اوراس کا گواہ ہو، کیا وہ اس کی نافرمانی (disobedience) کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا تم اپنے آپ کو گناہ سے بچاؤ ۔ اس واقعے کو بتانے والے یہ بھی لکھتے ہیں: یہ اتنے بڑے بزرگ بن گئے کہ اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت سے پچیس(25)دن میں ایک مرتبہ کھانا کھاتےاور باقی ساری زندگی (rest of his life) نمک (salt) کھائے بغیر زندہ رہے حالانکہ زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ نمک کھانا ضروری ہے۔(فیضان سنت جلد اول ص ۵۶ بتغیر) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمیں پیدا کرنے والا اللہ پاک ہے اور جس نے ہمیں پیدا کیا وہ جانتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں،وہ ہمیں دیکھ رہا ہے، سنتا ہے، جانتا ہے، ہمیں چاہیے کہ اس کا جو بھی حکم ہو اسے مانیں اور جس کام سے اس نے روکا ہے وہ کام ہرگز نہ کریں۔ یہ یاد رکھیں کہ اللہ پاک مجھے دیکھ رہا ہے۔جب یہ بات ہر وقت ذہن میں رہے گی تو ان شاء اللہ! ہمیں گناہوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔
(1) والدین کو چاہیے کہ خود بھی پڑہیں اور اگر صلاحیت ہو تو اپنے بچوں کو پڑھائیں ورنہ کسی سُنی عالم/ سُنی عالمہ کے ذریعے پڑھوائیں (بھلے انہیںfess دینا پڑے لیکن عام قاری صاحبان کے ذریعے نہ پڑھوائیں کہ دینی عقائد سکھانے میں غلطیاں ہونے کا بہت امکان ہے) ۔
02) ’’خوفِ خدا سے رونے والا بچہ‘‘
حضرت عبد اللہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک دن میں بصرہ( شہر) کی گلیوں سے گزر رہاتھاکہ میں نے ایک بچے کو بہت زیادہ روتے ہوئے دیکھا تو پوچھا:بیٹا کیوں رو رہے ہو؟ اس نے کہا: جہنّم (یعنی دوزخ)کے ڈرسے۔میں نے کہا :بیٹا!تم چھوٹے سے ہو پھر بھی جہنّم سے ڈرتے ہو؟ وہ کہنے لگا: میں نے دیکھا ہے کہ میری امّی جان جب آگ جلاتی ہیں تو پہلے چھوٹی لکڑیاں جلاتی ہیں، پھر بڑی۔ میں نے پوچھا: امِّی جان! آپ پہلے چھوٹی لکڑیاں کیوں جلاتی ہیں اوربڑی لکڑیاں بعد میں جلاتی ہیں؟امّی جان نےکہا: میرے بچے! چھوٹی لکڑیاں ہی بڑی لکڑیو ں کو جلاتی ہیں۔ بس اسی بات نے مجھے رُلا دیا۔ (کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ جہنّم میں پہلے چھوٹوں سے آگ جلائی جائے (ignite)پھر بڑوں کو ڈالا جائے) میں نے اس لڑکے سے کہا:بیٹے! کیا تم میرے ساتھ رہو گےتاکہ تم ایساعلم سیکھ جاؤ جو تمہیں فائدہ دے؟اس نے کہا:ایک شرط(condition) پر۔میں نے کہا:وہ کیا ؟وہ بولا:اگر مجھے بھوک لگے تو آپ مجھے کھانا کھلائیں گے، مجھے پیاس لگی تو آپ مجھے پانی پلائیں گے ، اگر مجھ سے غلطی ہوجائے تو آپ مجھے معاف فر ما دیں گے اور اگر میں مر جاؤں تو آپ مجھے زندہ کریں گے۔میں نے اسے کہا:میرے بیٹے! یہ سب کام تو میں نہیں کرسکتا۔ تو اس نے کہا: پھر مجھے چھوڑ دیجئے، اس لئے کہ میں اس کے دروازے پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں جو یہ سارے کام کر سکتا ہے (یعنی اللہپاک)۔ (حکایتیں اور نصیحتیں، ص:۲۶۴) اس سچے واقعے سے یہ پتا چلا کہ اللہ پاک کا خوف ہونے کے لیے جوان(young) یا بوڑھا(old man) ہونا ضروری نہیں، کم عمری میں بھی اللہ پاک یہ دولت نصیب فرما دیتا ہے، دوسری بات جو سیکھنے کو ملی وہ یہ ہے کہ بھوک مٹانے کے لیےکھانا دینا، پیاس بجھانے کے لیے پانی دینا، باربار گناہ کرکے معافی مانگنے پر اپنے بندے کو معاف کر دینااور انسان کو زندگی دینا یہ اللہ پاک کی قدرت (power)میں ہے وہی پیدا کرنے والاہے اور وہی قیامت کے دن دوبارہ زندہ بھی کرے گا، اللہ پاک کو کسی نے پیدا نہیں کیا وہ ہمیشہ سے ہے اور اس نے ہمیشہ رہنا ہے، جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں سب اسی کا بنایا ہوا (made)ہے۔
03)’’اللہ پاک کے بارے میں چند ضروری عقیدے‘‘
{} اللہ ایک ہے{}اُس کا کوئی شریک نہیں{}اُس کے علاوہ(except)کسی کی عبادت نہیں ہوسکتی{} نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ ہی کسی کا بیٹا {} اس کی کوئی بیوی بھی نہیں ہے{} کوئی بھی کسی بھی طرح اللہ کے برابر نہیں ہوسکتا {}اللہ پاک میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں، وہ تمام خوبیوں (یعنی اچھائیوں)کا مالک ہے{}اُسے کسی کی ضرورت نہیں، بلکہ ساری کائنات (دنیا، آسمان میں جو بھی ہے، سب)اس کی محتاج(needy) ہے{} وہ ہماری طرح سونے جاگنے (sleeping and waking)سے بھی پاک ہے{}وہ تھکتا (tired)بھی نہیں ہے{} ہمارا اورتمام جہان(universe) کاپیدا کرنے والا وہی ہے تمام جہان کا نظام (system) اسی کی قدرت و اختیار (control) میں ہے {}اللہ پاک ہمیشہ سے ہے، یعنی جب کچھ بھی نہیں تھا تب بھی اللہ پاک تھا {}اوراللہ پاک ہمیشہ رہے گا، یعنی جب سب کو موت آجائے گی تب بھی اللہ پاک ہوگا {} اللہ پاک خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اُس کے ہاتھ میں ہے {} جسے جب چاہے زندہ کردے اور جب چاہے موت دے دے {} وہ بڑی طاقت والا ہے، جو چاہے کرسکتا ہے {} وہ ہر کسی کی پکار اور آواز کو سن لیتا ہے، چیونٹی کے چلنے اور مچھر کے پروں(mosquito wings) کی آواز بھی سنتا ہے {} کوئی بھی چیز اس سے چھپی ہوئی(hidden) نہیں، چاہے چھوٹی ہویا بڑی، دور ہو یا قریب، اندھیرے میں ہویا روشنی میں {} وہ ہر چیز جانتا ہے، جو کچھ ہورہا ہے یا ہوچکاہے یا ہونے والا ہے سب اُس کے علم میں ہے، کوئی ذرّہ(particle) بھی اُس سے چُھپا ہوا نہیں ہے {} ہر چیز اُس کے اختیار(یعنی طاقت) میں ہے، جو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے {} اس کی دی ہو طاقت کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا، وہ نہ چاہے تو کوئی ایک پتّہ بھی نہیں ہِلا سکتا {} وہی اکیلا ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، ہر چھوٹی بڑی چیز اُسی نے پیدا کی ہے {} تمام مخلوق (یعنی دنیا آسمان میں جو بھی ہے، سب )کو وہی رزق دیتا ہے اور وہی سب کو پالتا ہے {} تمام آسمانی کتابیں اور قرآن کریم اللہ کا کلام ہے{}انسان کو سننے کے لیے کان اور دیکھنے کے لیے آنکھ بلکہ روشنی بھی چاہیے لیکن اللہ پاک کو سننے کے لئے کان کی ضرورت نہیں اسی طرح اللہ پاک کو دیکھنے کے لئے آنکھ اور روشنی کی بھی ضرورت نہیں ہے {} وہ جسم(ہاتھ، پاؤں وغیرہ) اور جگہ(اوپر، نیچے، سیدھی طرف، اُلٹی طرف ہونے) سے پاک ہے، اِس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ ’’ اللہ اوپر ہے‘‘(ملخص از ہمارا اسلام، ص ۴۶ تا۴۸) {} اللہ پاک اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے ہمارے گلے کے بھی قریب ہے۔(بہارِ شریعت ح۱، ص ۱۸،۱۹ماخوذاً)
04 )’’ سب سے پہلے نبوت پانے والے‘‘
اللہ پاک کے حکم سےجب حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم جنّت سے زمین پر تشریف لائے تو آپ عَلَیْہِ السَّلاَم کو بہت فکر تھی کہ کس طرح اللہ پاک کو راضی کیا جائے ؟)حالانکہ نبی گناہوں سے ایسے پاک ہوتے ہیں کہ ان سے گناہ ہوتے ہی نہیں( پھرآپ عَلَیْہِ السَّلاَم کو یاد آیا کہ جب میں پیدا(born) ہوا تھا، اُس وقت میں نے سراٹھا کر دیکھا تو لکھا ہوا تھا: لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ( ترجمہ :)اللہ پاک کے علاوہ(except)کسی کی بھی عبادت نہیں ہوسکتی ، محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ پاک کے رسول ہیں۔ اسی وقت حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم نے سمجھ لیا تھا کہ جو مرتبہ(rank)اللہ پاک نے (اپنے محبوب (beloved)حضرت ) محمد ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )کو دیا ہے وہ کسی اور کو نہیں ملا کہ اللہ پاک نے ان کا نام اپنے مبارک نام کے ساتھ ملا کر لکھا ہے۔ تو حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم نے ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نام کے ساتھ یوں دعا فرمائی : اے اللہ! تو نے اپنےخاص بندے محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کوجو مرتبہ(rank) اورعزّت دی ہے اُس کے صدقے میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ کو معاف کردے۔یہ دعا کرتے ہی اللہ پاک نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم کی توبہ قبول فرمائی۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۹۴، ۱۰۹۵،پ۱، البقرۃ:۳۷) اس روایت سے یہ پتا چلا کہ سب سے پہلے انسان اوردنیا میں سب سے پہلےتشریف لانے والے اللہ پاک کے نبی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم جب پیدا ہوئے تو لکھا ہوا دیکھا : لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ جس سے پتا چلا کہ دنیا کے بننے اورحضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم کے پیدا ہونےسے پہلےبھی ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا نبی ہونا بتا دیا گیاتھا۔بلکہ ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے عرض کی: یارسولَ اللہ (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم)!آپ کونبی کب بنایاگیا؟تو نبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا : میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام روح اور جسم کے درمیان تھے(یعنی ابھی پیدا(born) نہیں ہوئے تھے)۔ (مسند امام احمد، حدیث میسرة الفجر، ۷ / ۳۵۰، حدیث: ۲۰۶۱۹، بدون بعض الفاظ)
05) ’’درخت چل کر آگیا ‘‘
ایک مرتبہ کہیں جاتے ہوئےہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو پردہ کرنے کی ضرورت ہوئی مگر کہیں کوئی پردہ کرنے کی جگہ(place to cover) نظر نہیں آئی لیکن اُس میدان میں دو(2) درخت نظر آئے جو ایک دوسرے سےبہت دور تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایک درخت کی شاخ (branch of tree)کوپکڑکر چلنے کا حکم(order) دیا تو وہ درخت اس طرح آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا جس طرح اونٹ چلتا ہے پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دوسرے درخت کو بھی چلنے کا اشارہ (hint)فرمایا تو وہ بھی چل پڑا اور دونوں درخت ایک دوسرے سے مل گئے اور آپ نے ان دو درختوں سے پردے کی جگہ(place to cover) بنالی۔ ضرورت پوری ہونے کے بعد آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حکم دیا تو وہ دونوں درخت زمین پر چلنے لگےاور اپنی اپنی جگہ پر واپس چلےگئے۔(شرح الزرقانی علی المواہب ،ج۶،ص۵۲۰) اس حدیث ِ پاک سے پتا چلاکہ درخت(اور سب چیزیں) اللہ پاک کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بات مانتے ہیں یعنی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جو فرماتے ہیں، وہ کام درخت بھی کرتے ہیں پھر بھی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے لیے دنیا کا سامان جمع نہیں کیا بلکہ اپنی پوری زندگی ا للہ پاک کو خوش اور راضی کرنے والے کاموں میں گزاری۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنی زندگی اللہ پاک اور اسکےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو خوش اور راضی کرنے والے کاموں میں گزاریں۔
06) ’’ہمارے نبی مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ‘‘
{} اللہ پاک نے سب سے پہلے ہمارے پیارے نبی حضرت محمّد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ’’نبی‘‘ کا مرتبہ(rank) دیا اگرچہ دنیا میں سب سے پہلے حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلاَم تشریف لائے {} آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تمام انسانوں، جِنّات بلکہ ساری مخلوق (all creatures)کے نبی ہیں {} آپ کو اللہ پاک نے جوبھی اَحکامات (یعنی دین کی باتیں)پہنچانے کا حکم دیا تھا آپ نے وہ سب (جیسے تھے ویسے ہی )اُمّت (یعنی لوگوں)تک پہنچادئیے ، اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی {} آپ معصوم ہیں، یعنی آپ سے گناہ ہو ہی نہیں سکتے {} آپ ہر اُس بات سے پاک ہیں جس سے لوگ نفرت کرتے ہیں {}اللہ پاک نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر قرآنِ کریم نازِل فرمایا(یعنی اُتارا) {} اللہ پاک نے آپ کو غیب یعنی چھپی ہوئی باتوں کا علم عطا فرمایا ہے۔یعنی زمین اور آسمان کا ہر ذرّہ(particle) آپ کے سامنے ظاہر ہے {} آپ کی تعظیم(respect) کرنا فرضِ عَیْن یعنی ہر ہر مسلمان پر لازِم اور دین کا اہم فرض ہے {} اللہ پاک نے جو کچھ پیدا کیا ہے آپ اُن سب سے افضل(یعنی بڑے مرتبے(rank) والے ) ہیں {} آپ اللہ پاک کے سب نبیوں کے سردار ہیں {} آپ اپنے مزار میں اُسی طرح زندہ (alive)ہیں جس طرح دنیا میں تھے، کھاتے پیتے ہیں اورجہاں چاہیں آتے جاتے ہیں {} آپ ساری مخلوق(all creatures) کے لئے رَحمت ہیں اور مسلمانوں پر تو بہت ہی زیادہ مہربان(رحم کرنے والے۔kind) ہیں {} آپ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں، آپ کی زندگی میں کوئی اور نبی نہیں آیا اور آپ کے دنیا سے چلے جانےکے بعد بھی قیامت تک کسی طرح کا کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا ۔ حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم جو کہ اللہ پاک کے سچّے نبی ہیں، زندہ ہیں، آسمان پر ہیں۔ یہ قیامت سے پہلے دوبارہ(again) تشریف لائیں گے مگر اِنجیل شریف(جو کتاب اللہ پاک نے آپ عَلَیْہِ السَّلاَم پر نازِل فرمائی(یعنی اُتاری)تھی،اُس) کی تعلیمات(teachings) نہیں دیں گے بلکہ دینِ اسلام ہی کی تعلیمات عام کریں گے۔
07) اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اطاعت(حکم ماننا)، ہر حال(condition) میں ضروری ہے‘‘
حضرت رَبیعہ رَضِیَ اللہُ عَنْہپیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےخادِم تھے،فرماتے ہیں کہ میں رات کونبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس حاضر رہا کرتا تھا اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےوضو وغیرہ کےلیےپانی لایا کرتا تھا،ایک دن آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے کرم فرمایا اورمجھ سے فرمایا : (اے ربیعہ!) مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں نےعرض کی:یارسول اللہ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )! میں جنّت میں آپ کا ساتھ (یعنی جنّت میں آپ کے قریب جگہ)مانگتا ہوں۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا: اس کے علاوہ اور کچھ؟ میں نےعرض کی: بس یہی ( کافی (enough)ہے)۔ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:تو پھر سجدوں کی کثرت(یعنی نفل نماززیادہ پڑ ھ ) کر اپنے اس معاملے میں میری مدد کرو۔ ( مسلم، کتاب الصلاۃ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹)) تجھ سےتجھی کو مانگ لوں توسب کچھ مل جائے سو (100)سوالوں سے یہی ایک(1) سوال اچھا ہے اس حدیثِ مُبارک سے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی یہ شان معلوم ہوئی کہ اللہ پاک نے نبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کودنیاکے تمام خزانے عطا فرمادیئے آپ جس کو جو چاہیں عطا فرمائیں، خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا:مجھے زمین کےخزانوں(treasures of the earth) کی چابیاں(keys) دی گئی ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، الحدیث: ۶۴۲۶، ص۵۴۰) اسی طرح اللہ پاک نے آپ کو جنّت کا بھی مالک بنایا ہے، جبھی توآپ نےحضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرمایا:جو چاہو مانگ لو۔ اس حکایت سےدوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اختیارات (authorities) جانتے تھے کہ آپ دنیا کی نعمتیں اورجنّت دینے کی طاقت رکھتے ہیں
08) ’’جنّت میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ساتھ‘‘
حضرت رَبیعہ رَضِیَ اللہُ عَنْہپیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےخادِم تھے،فرماتے ہیں کہ میں رات کونبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر رہا کرتا تھا اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےوضو وغیرہ کےلیےپانی لایا کرتا تھا،ایک دن آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے کرم فرمایا اور آپ نےمجھ سے ارشاد فرمایا : (اے ربیعہ!) مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں نےعرض کی:یارسول اللہ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )! میں جنت میں آپ کا ساتھ (یعنی جنّت میں آپ کے قریب جگہ)مانگتا ہوں۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا: اس کے علاوہ اور کچھ؟ میں نےعرض کی: بس یہی ( کافی ہے)۔ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:تو پھر سجدوں کی کثرت(یعنی زیادہ نوافل پڑ ھ ) کر اپنے اس معاملے میں میری مدد کرو۔ ( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحثّ علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹)) تجھ سےتجھی کو مانگ لوں توسب کچھ مل جائے سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے اس حدیثِ مُبارک سے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی یہ شان معلوم ہوئی کہ اللہ پاک نے نبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کودنیاکے تمام خزانے عطا فرمادیئے آپ جس کو جو چاہیں عطا فرمائیں، خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا:مجھے زمین کےخزانوں(treasures of the earth) کی چابیاں دی گئی ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب مایحذرمن زھرۃالدنیا، الحدیث: ۶۴۲۶، ص۵۴۰) اسی طرح اللہ پاک نے آپ کو جنّت کا بھی مالک بنایا ہے، جبھی توآپ نےحضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرمایا:جو چاہو مانگ لو۔ اس حکایت سےدوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابۂ کرام بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اختیارات (authorities) جانتے تھے کہ آپ دنیا کی نعمتیں اورجنت دینے کی طاقت رکھتے ہیں ۔
09) ’’میرے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شان‘‘
{} اللہ پاک نے جتنے کمال (خوبیاں، اچھائیاں) زمین و آسمان والوں کو دیے وہ سب کے سب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بھی دیے بلکہ ان کے علاوہ بہت سی ایسی خوبیاں (یعنی اچھائیاں)بھی عطا فرمائیں جو کسی اور کو نہیں ملیں {} آپ کو اللہ پاک نے دین کے تمام مسائل پر(authority) اختِیارعطا فرمایا ہےیعنی جسے جو آسانی دینا چاہیں، دے سکتے ہیں مثلاً مردوں کے لئے ریشمی کپڑے پہننا حرام ہونے کے باوجود دو(2) صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو اس کی اجازت دے دی ( بخاری ، ج۴،۶۱، حدیث : ۵۸۳۹) {} چاہیں تو کسی پر فرض معاف کردیں۔ مثلاً آپ نے ایک شخص کو روزانہ پانچ(5) کی جگہ( 2 )نمازیں پڑھنے کی اجاز ت دے دی( مسند احمد ،ج۷،ص۲۸۳ ، حدیث :۲۰۳۰۹) {} اللہ پاک نے ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو یہ (authority) اختیار بھی دیاکہ جس چیز کو چاہیں ، کسی پرفرض اور لازم فرمادیں حالانکہ وہ عام شخص پر لازم نہ ہو، اسی طرح جو عام لوگوں کے لیےجائز ہے، جس جس کے لیے چاہیں، اُ س کام کو ناجائز فرما دیں۔ مثلاً عام آدمی ایک وقت میں چار(4) شادیاں کر سکتا ہے، لیکن خاتونِ جنّتحضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکی موجودگی میں حضرت علی المُرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے لیے حرام ہوگیا کہ(وہ دوسری شادی کریں کہ) یہ جناب فاطمہ کی تکلیف کا سبب تھا اور آپ کی تکلیف حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تکلیف کا سبب ہے۔( مراۃ شرح مشکوۃ جلد۸ ، ص : ۳۸۰ مُلخصاً) {} آپ جسے جو چیز دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: اللہ پاک عطا فرماتا ہے اور میں تقسیم(distribute) کرتا ہوں (صحیح بخاری کتاب الاعتصام مطبوعہ کراچی ۲/ ۱۰۸۷){} اللہ کریم کی طرف سے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ملے ہوئے خصوصی اختیارات(special authorities) میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو جنّت اور دنیا کی تمام زمین کا مالک بنادیا گیا،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جسے چاہیں جنّت عطا فرمادیں، جیسے حضرت ربیعہ کے مانگنے پر جنّت دے دی( مسلم، کتاب الصلاۃ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶،۴۸۹) حضور جنّت کی زمین میں سے جتنی چاہیں جسے چاہیں عطا فرمادیں تو دنیا کی زمین کی کیا حیثیت(status)؟)فتاوی رضویہ ، ج۱۴، ص۶۶۷ملخصاً)یعنی چاہیں تو دنیا کی جو نعمت جسے چاہیں ، دے دیں۔
10) ’’نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےسب سے بڑھ کر محبت‘‘
مکہ ٔ مکرمہ فتح ہونے سے پہلےمشہورصحابی حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو غیر مسلموں نے پکڑلیا ۔حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو حرم (مکہّ پاک کا کچھ حصّہ اور اس کے علاوہ کچھ علاقے)سے باہر لے جایا گیا،تو ابوسفیان نے(جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے) ان سے پوچھا:زید! میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم پسند کرتے ہو کہ اس وقت ہمارے پاس تمہاری جگہ محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) ہوں اور ہم ان کو شہید کریں اور تم آرام اور سکون سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہو۔حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے جواب دیا: اللہ پاک کی قسم! میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ حضور جہاں کہیں بھی ہیں ان کو ایک کانٹا (thorn)بھی چبھے اور میں آرام و سکون سے اپنے گھر میں رہوں۔یہ سن کر ابوسفیان کہنے لگے کہ میں نے ایسا کہیں نہیں دیکھا کہ کسی سے ایسی محبت کی جاتی ہو،جیسی محبت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے صحابہ ان سے کرتے ہیں ۔اسکے بعد حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو شہید کردیا گیا۔ (شرح الشفاء،ج۲،ص۴۴) اس سچے واقعے سے یہ پتا چلا کہ صحابہ ٔ کرام پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے اپنی ہرہر چیز سے زیادہ محبت کرتے تھے یہاں تک کہ پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے لیے اپنی جان بھی دے دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبت ایمان کا معیار (standard)ہےبلکہ ایمان اسی محبّت کا نام ہے کہ جب تک آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبت ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں اور ہر چیز سے زیادہ نہ ہو آدمی مکمل اور صحیح مسلمان نہیں ہوسکتا ۔اوریہ بھی معلوم ہواکہ پیارے صحابہ ٔ کرام کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو تکلیف پہنچنے (trouble ہو) یہاں تک آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ایک کانٹا چبھ جائے یہ بھی صحابہ ٔ کرامرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو پسند نہیں تھا۔
11) ’’اُنگلیوں سے پانی نکل آیا ‘‘
ایک مرتبہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ چودہ سو(1400) صحابَۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مکّے شریف گئے۔ غیر مسلم ایک فوج لے کر آگئے اور مکّے شریف میں آنے سے پہلے ہی مسلمانوں کو روک دیا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور صحابَۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وہاں رُک گئے۔ یہاں پانی بہت کم تھا، ایک ہی کنواں (well)تھااور اُس کا پانی بھی ختم ہوگیا۔ جب صحابَۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو پیاس زیادہ لگی تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایک برتن میں اپنا مبارك ہاتھ ڈال دیا اور آپ کی پاک انگلیوں سے پانی کے چشمے(springs) جاری ہو گئے یعنی بہت زیادہ پانی نِکلنا شروع ہوگیا۔ پھر یہ پانی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس کنویں (well)میں ڈالا جس میں پانی نہیں تھا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جس پانی سے وضو کیا تھا، وہ پانی اور اپنا ایک تیر بھی اسی کنویں میں ڈال دیا تو اُس کنویں میں اتنا پانی ہوگیا کہ سب صحابہ ٔ کرامرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اپنے لیے اور اپنے جانوروں کے لیے اس کنویں سے کئی دن تک پانی لیتے رہے۔(بخاری،کتاب المغازی،ج۳،ص۶۸،۶۹،حدیث:۴۱۵۰،۴۱۵۲ ملخصاً ۔ الکامل فی التاریخ ، ج۲، ص ۸۶،۸۷، ملخصاً۔سیرت مصطفٰے، ص۳۴۷ مُلخصاّ) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں: سب پانیوں میں سب سے افضل پانی وہ ہے کہ جو پیارے آقا،مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی انگلیوں سے نکلا۔(فتاوی رضویہ،ج۳،ص۲۴۵) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت طاقت دی ہےکہ آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور یہ بھی پتا چلا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اپنی اُمّت (nation)پر بہت رحم کرنے والے ہیں۔
12)’’ اللہ پاک کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ‘‘
{} ہر مسلمان پر لازم ہےکہ اللہ کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اپنا مالک اور خود کو آپ کا غلام (slave)سمجھے{} آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جیسا نہ کوئی تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ کسی کا بھی آپ جیسا ہونا ممکن نہیں {} اللہ پاک نے آپ کو ’’اپناسب سے بڑامحبوب(beloved) ہونے‘‘ کا مرتبہ(rank) دیا ہے (یعنی ویسے تو سارے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام ہی اللہ پاک کے پیارے ہیں لیکن اللہ پاک کو ساری مخلوق(all creatures) میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے زیادہ پسند اور محبوب (beloved) کوئی نہیں) {} اللہ پاک نے آپ کو رات کے تھوڑے سے حصّے میں معراج کروائی یعنی پہلے مکّہ سے بیتُ المُقَدَّس (مسجد اقصیٰ، فلسطین)تک اور پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر کروائی ، اُس کے بعد نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اللہ پاک کو دیکھا اور اللہ پاک سے بغیرکسی واسطے کے(یعنی direct)بات کرنے کی سعادت حاصل کی {} اللہ پاک نے آپ کو ’’شفاعتِ کُبرٰی‘‘ کا منصب بھی عطا فرمایا ہے کہ جب تک قیامت کے دن آپ شفاعت (یعنی گناہوں سے معافی وغیرہ کی سفارش)نہیں کریں گے کوئی اور کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا {} آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبّت ایمان کے لیے ضروری ہے یعنی آپ کی محبت کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا {} جب تک آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبت ماں باپ اولاد اور تمام جہان سے زیادہ نہ ہو، آدمی کامل مسلمان نہیں ہوسکتا {} آپ کا حکم ماننا در اصل(یعنی حقیقت میں) اللہ پاک کا حکم ماننا ہے (کہ اللہ پاک نے ہی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی باتوں کو ماننے کا حکم دیا ہے ) {} آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے (passing away)کے بعد بھی آپ کی تعظیم (respect)ویسے ہی لازم اور ضروری ہے جیسے آپ کی ظاہری زندگی میں لازم تھی {} آپ کی کسی بھی بات، یا کام یا حالت وغیرہ کو نفرت یا ناپسندیدگی سے دیکھنا( a look of contempt or hatred) کفر ہے۔ ایسادیکھنے والاشخص کافر ہوجاتا ہے۔(بہار شریعت، حصہ۱،ص۲۹ تا۸۵ ،ملخصاً)