’’ دین کی ضروری باتیں ‘‘(part 01c)

34) ’’تختِ بلقیس کس طرح آیا؟‘‘

حضرت سُلَیْمَان عَلَیْہِ السَّلَامجب بادشاہ تھے، اُس وقت ایک ’’سبا ‘‘نام کاملک تھا جس کی مَلْکَہ(queen) کا نام ’’ بِلْقِیْس‘‘ تھا اس کا بادشاہی تخت (throne)اَسّی 80گز لمبا(long) اور چالیس40 گز چوڑا(wide) تھا ،یہ تخت سونے،چاندی اور طرح طرح کے ہیروں (diamonds) سے بنایا گیا تھا،جب پہلی مرتبہ(first time) حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَامنے ملکہ بلقیس کو اسلام کی دعوت دی تو اس نےحضرت سلیمان کو بہت سارے تحفے(gifts) بھیجے تاکہ اسے اسلام قبول نہ کرنا پڑے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَامنےبلقیس کےتمام تحفے واپس کردیئے اورحکم بھیجا کہ وہ مسلمان ہوکر آپ کےپاس آجائے،حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ چاہا کہ ملکہ بلقیس کےیہاں آنے سے پہلے ہی اُس کا تخت(throne) میرے پاس آجائے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے پاس موجود لوگوں سے یہ فرمایا: تم میں کون ہے کہ وہ ملکہ بلقیس کے یہاں آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لےآئے ایک بڑے جنّ نے بولا: میں آپ کا اجلاس(meeting)ختم ہونے سے پہلے وہ تخت لے آؤں گا ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نےفرمایا :اس سےبھی جلدی ۔یہ سن کر اللہ پاک کے ولی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کےوزیر آصف بن بَرخِیا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےعرض کیا: ترجمہ (Translation) : میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے (in the blink of an eye) سے پہلے لے آؤں گا پھرجب سُلَیْمَان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا: یہ میرے ربّ کے فضل سے ہے(جو اُس نے مجھ پر کیا) تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری ؟ (پ۱۹، سورۃ النحل، آیت۴۰) (ترجمہ کنز العرفان))عجائب القرآن،۱۸۷،۱۸۸) اس قرآنی واقعے سے ہمیں یہ درس ملا کہ اللہ پاک نے اپنےولیوں کو بہت طاقت دی ہے۔ اللہ پاک کے ولی بہت دور کا سفر فوراً کر سکتے ہیں، انہی کسی گاڑی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں بھاری چیز اُٹھانے کے لیے کوئی ٹرک (truck)نہیں چاہیے۔انہیں کسی جگہ کا پتا(address) معلوم کرنےکے لیےانٹرنیٹ(internet)پر سرچ(search)بھی نہیں کرنا پڑتا ۔ تَعَارُف (Introduction): اللہ پاک کےولی ،حضرت آصف بن بَرخِیا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ،حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کے وزیر اور شاگرد تھے۔( کشف النور ،ص ۵۲مُلخصاً) اللہ کے ولی کی شان: فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اللہ پاک فرمائےگا:کیاتومیرےولیوں سےدوستی رکھتاتھا؟وہ کہےگا:میں تولوگوں سےدوررہتاتھا۔فرمائےگا:کیاتو میرے دشمنوں سے دشمنی رکھتا تھا؟بندہ کہے گا: مولا! میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ اللہ پاک فرمائے گا: جو میرے اولیا سے دوستی اور میرے دشمنوں سے دشمنی نہ رکھے وہ میری رحمت سے محروم ہے۔ (معجم کبیر،۱۹/ ۵۹،حدیث:۱۴۰مُلتقطا)

35) ’’شَیطان بہت چالاک ہے‘‘

غوثِ پاک سیّد عبدُ القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک بار میں کسی جنگل کی طرف نکل گیا اور کئی دن تک وہاں رہا ۔میرے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہ تھا ۔مجھے بہت پیاس لگی ، ایسے میں میرے سر پر ایک بادَ ل (cloud) آگیا ، اُس میں سے کچھ بارِش ہوئی جس سے میں نے پانی پی لیا، اس کے بعد بادَل میں ایک خوبصورت شکل نظر آئی اور ایک آواز آنے لگی :’’اے عبدُالقادِر!میں تیرا ربّ ہوں ،میں نے دنیا کی تمام حرام چیز یں تمھارے لئے جائز کردیں (یعنی تم ہر گناہ کا کام کر سکتے ہو)۔‘‘میں نےاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھا، فواً وہ رو شنی ختم ہوگئی اور اب ایک دھواں(smoke) نظر آنے لگااور اب شیطان کی آواز آئی: اے عبدُالقادِر!اس سے پہلے میں نے ستَّر (70) ولیّوں کو نیکی کے راستے سے ہٹا دیا مگر تجھے تیرے علم نے بچالیا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے کہا: اے بےعزّت!مجھے میرے علم نے نہیں بلکہ اللہ پاک نے بچا لیا۔ (بہجۃ الاسرار، ص۲۲۸ ) لوم ہوا کہ شیطان بہت چالاک ہے، وہ ہر مسلمان کا دشمن ہے، ہر کسی کو نیکی سے دور کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ پاک سے دعا کرتے رہا کریں کہ وہ ہمیں،شیطان سے بچائے۔ تَعَارُف (Introduction): غوثِ پاک شیخ عبدُ القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رَمضَان کی پہلی تاریخ 470 سنِ ہجری کو جیلان میں پیدا ہوئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پہلے دن ہی سے روزہ رکھا بلکہ پورا مہینا ہی روزہ رکھتے رہے کہ آپ سحری سے لے کر افطاری تک دودھ نہیں پیتے تھے۔(بہجۃ الاسرار، ص:۱۷۲،۱۷۱) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے چالیس(40) سال تک ایسا کیا کہ رات کو وضوکر کے عشاء کی نماز پڑھتے اور پوری رات عبادت میں گزار دیتے یہاں تک کہ رات والےوضو سے فجر کی نماز پڑھتے۔(بہجۃ الاسرار، ص:۱۶۴) پندرہ سال تک ہر رات قرآنِ پاک کاختم کرتے رہے۔(بہجۃ الاسرار، ص:۱۱۸)آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 11رَبِیعُ الثّانِی 561 سنِ ہجری میں اکانوے (91)سال کی عمر میں بغداد شریف میں انتقال فرمایا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مزار شریف بغداد میں ہے اور اولیاء کرام سے محبّت رکھنے والے بہت سے عاشقانِ اولیاء، دنیا بھر سے آپ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ للشعرانی،ج ۱،ص۱۷۸) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال گیارہ(11) تاریخ کو ہوا لھذا آپ سے محبّت کرنے والےہر ماہ کی (11) تاریخ کو ، آپ کے ایصال ثواب کے لیے قرآن پاک پڑھتے پڑھاتے، نعت خوانی کرتے اور کھانا کھلاتے ہیں۔ اللہ کے ولی کی شان: فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مخلوق میں سے اللہ پاک کےایسے( نیک )بندے(یعنی اولیاء ) ہروقت ہوتے ہیں جن اولیا کی وجہ سے اللہ پاک لوگو ں کو زندگی اور موت دیتا،ان کی وجہ سے بارش ہوتی ہے،(کھیت میں)فصلیں اُگتی ہیں اور انہی کے سبب سے لوگوں کی مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہ سے پوچھا گیا:ان(اللہ پاک کے ولیوں ) کی وجہ سے لوگوں کو زندگی اور موت کیسے ملتی ہے ؟فرمایا اس لئے کہ: وہ اللہ پاک سے اُمت زیادہ ہونے کی دُعا کرتے ہیں تو ان کی دُعا سے مسلمانوں میں اضافہ کردیاجاتا ہے اور ظالموں کے خلاف دعاکرتے ہیں تو اللہ پاک ظالموں کو ختم کردیتا ہے۔(تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر،ج ۱، ص۳۰۳ ،ملخصا )

(1) والدین کو چاہیے کہ خود بھی پڑہیں اور اگر صلاحیت ہو تو اپنے بچوں کو پڑھائیں ورنہ کسی سُنی عالم/ سُنی عالمہ کے ذریعے پڑھوائیں (بھلے انہیںfess دینا پڑے لیکن عام قاری صاحبان کے ذریعے نہ پڑھوائیں کہ دینی عقائد سکھانے میں غلطیاں ہونے کا بہت امکان ہے)

36) ’’اللہ پاک کےولیوں کی شان ‘‘

{}’’وَلِی بننا‘‘ ایک بہت خاص درجہ(special ranks) ہے جو اللہ پاک اپنے خاص بندوں کو دیتا ہے {} صرف اللہ پاک کے کرم سے ہی کوئی’’وَلِی ‘‘ بنتاہے۔بہت زیادہ عبادت سے بھی کوئی’’وَلِی ‘‘ نہیں بنتا لیکن بندے کے نیک کاموں سے خوش ہوکر اللہ پاک چاہے تو’’وَلِی ‘‘ بنا دے {} بعض ’’وَلِی ‘‘ پیدا ہوتے ہی’’وَلِی ‘‘ ہوتے ہیں جیسے: غوثِ پاک سیّد شیخ عبد القادر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ {} کوئی جاہل ’’وَلِی ‘‘ نہیں ہوتا،عالم ہی کو ’’وَلِی ‘‘ بنایا جاتا ہے {} پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دنیا میں آنے سے پہلے بھی اللہ پاک کے ولی ہوتے تھے، لیکن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے ’’وَلِی ‘‘ پہلےکے ولیوں سے بڑے درجے(ranks) والے ہیں {} اور ہماری اُمت میں سب سے بڑے درجے(ranks) والے ’’وَلِی ‘‘ ، صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ہیں اوراِن صحابہ کرام میں سب سے بڑے درجےوالے صدیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ پھر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ پھرعثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ پھر حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ ہیں(بہارِ شریعت ح۱، ص ۲۴۱){} صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے بعد کوئی ’’وَلِی ‘‘ کتنے ہی بڑے درجے(ranks) والا ہو، کسی صحابی کے برابر نہیں ہو سکتا۔(بہارِ شریعت ح۱، ص ۲۵۳،مُلخصاً){} ہر ’’وَلِی ‘‘ اسلام اورشریعت(یعنی دین) کی تعلیمات(teachings) پر عمل کرتا ہے، کوئی بھی ’’وَلِی ‘‘اللہ پاک کی نافرمان(disobedient) نہیں ہوتا {} جو چیز، جس طرح عام مسلمانوں پر فرض ہے، اُسی طرح ’’وَلِی ‘‘ پر بھی فرض ہے ۔

37) ’’ کل کیامنہ دکھائیں گے؟‘‘

ایک مرتبہ حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ ایک ایسے شہر میں گئے کہ جہاں کے لوگ وقت سے پہلے ہی نماز کے لئے تیار ہوجاتے اور وقت پر نماز پڑھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم جلدہی نماز کی تیاری نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے اس کا وقت نکل جائے پھر کل قیامت کے دن کس طرح یہ منہ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دکھاسکیں گے؟ (دلیل العارفین، ص۸۳)حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:نماز ایک امانت ہے جو اللہ پاک نے اپنے بندوں کو دی ہے،لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو پورا کریں۔(دلیل العارفین، ص ۸۳مُلخصاً) اس سچے واقعے سے پتہ چلا کہنمازکو امانت سمجھیں اور نماز وقت پر ادا کرنے کی عادت بنائیں۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت خواجہ غریب نواز رَحمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ 537سنِ ہجری میں” سنجر“مىں پیدا ہوئے ۔آپ کا نام”حسن“ ہے۔”مُعینُ الدّین“اور”غریب نواز“مشہور لقب (title)ہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزاج میں نرمی تھی۔سخت بات سُن کرغصّہ نہ فرماتے ۔6رجبُ المرجب 633سنِ ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کا مزار شریف ہند کے مشہورشہر اجمیرشریف میں ہے۔ اللہ کے ولی کی شان: فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :بے شک میری اُمّت میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر وہ تم سےایک(1) دینار مانگیں تو تم انہیں نہیں دوگے، اگر وہ تم سے ایک دِرہم (1) مانگیں تو تم منع کر دوگے،اور اگر ایک(1) پیسہ مانگیں تب بھی تم منع کر دوگے۔(لیکن ان لوگوں کا اللہ پاک کی بارگاہ میں ایسا درجہ(special ranks) ہے )اگر وہ اللہ پاک سے جنّت مانگ لیں تو وہ انہیں ضرور عطا فرمائے۔ (المعجم الاوسط،۵/ ۳۴۴، حدیث:۷۵۴۸ ملخصا)

38) ’’ شیراور لنگڑی لومڑی‘‘

حضرتداتا گَنج بَخش رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:میں نے شیخ احمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے ان کی توبہ کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے:ایک بار میں اپنے اُونٹوں کو لے کر جا رہا تھا۔ راستےمیں ایک بُھوکے شیرنے میرا ایک اُونٹ زخمی(injured) کر کے گرا دیا اور پھراوپر ایک جگہ پر چڑھ گیا اور آواز نکالنے لگا، اُس کی آواز سنتے ہی بَہُت سارے جانور آگئے۔شَیر نیچے آ گیااور اُونٹ کو مار دیامگر خود کچھ نہ کھایا بلکہ دوبارہ اوپر چلا گیا ، جمع ہونے والے جانوراُونٹ کو کھانے لگےاور کھا کر چلے گئے۔اب جو گوشت بچ گیا، اُسے کھانے کےلئے شَیر قریب آیا تو ایک لنگڑی لُومڑی(lame fox) دُور سے آ رہی تھی ، شیر پھر اوپر چلا گیا۔ جب لُومڑی کھا کر چلی گئی تب شیر نے اُس گوشت میں سے تھوڑا سا کھایا ۔ شیخ احمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کہتے ہیں کہ: میں دُور سے یہ سب دیکھ رہا تھا،اچانک شیر نے میری طرف دیکھا اورصاف آواز میں بولا:”احمد ! ایک ٹکڑا(Piece) دوسروں کے لیے چھوڑ دیناتو کُتّوں (dogs)کا کام ہے، اللہ پاک کو خوش کرنے کے لیے مرد تو اپنی جان بھی دے دیتے ہیں ۔ بس میں نے اپنے تما م گناہوں سے توبہ کی اور دنیا سے دور ہو کر اللہ پاک کی عبادت کرنے لگ گیا۔( کشف المحجوب،ص۲۰۴،مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہجب ایک جانوردوسرے جانوروں کا خیال رکھتا ہےتو ہمیں انسان ہوکردوسروں انسانوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت داتا علی ہجویری رَحمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ کم و بیش 400 سنِ ہجری میں پیدا ہوئے۔آپ رَحمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد سے ہیں۔آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی کُنْیَت(kunyah) ”ابوالحسن“، نام ”علی“اور لقب”داتا گنج بخش“ ہے۔ بچپن ہی سے محنت کےساتھ علمِ دین حاصل کرنا شروع کیا۔ آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کا انتقال 20 صفرُ 465سنِ ہجری میں ہوا۔آپ کا مزار شریف لاہور میں ہے۔ اللہ کے ولی کی شان: فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :تمہارا سب سے بہترجگہ بیٹھنا اللہ پاک کے ان نیک بندوں کےساتھ بیٹھنا ہے،جن کو دیکھنے سےتمہیں اللہ پاک کی یاد آجائے،ان سے بات کرنے سے تمہارےعلم میں اضافہ ہو،اوران کے اعمال دیکھ کرتمہیں آخرت (یعنی مرنے کے بعد کی زندگی ) کی یاد آجائے ۔(الاولیاءلابی الدنیا،ص17)

39) ’’ اللہ کے ولیوں کی شان ‘‘

قرآن اور اللہ پاک کے ولیوں کی شان: {} حضرت مریم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَاکے پاس گرمی کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمی میں ہوتے۔ (تحفۃ المرید،ص۳۶۳)جب کبھی(حضرت) زکریا(عَلَیْہِ السَّلَام) اس (یعنی حضرت مریم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا)کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے تواس کے پاس پھل پاتے۔(تو حضرت زکریاعَلَیْہِ السَّلَامنے) سوال کیا، اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ اللہ (پاک)کی طرف سے ہے، بیشک اللہ (پاک)جسے چاہتا ہے بے شمار(یعنی بہت) رزق عطا فرماتا ہے۔ (پ۳، آل عمران:۳۷، ماخوذاً) {} اللہ پاک کے ’’اَولیاء ‘‘ اصحابِ کہف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْتین سو نو (309) سال تک بغیر کھائے پئے غار(cave) میں سوتے رہے اور زندہ رہے(تحفۃ المرید،ص۳۶۳ مُلخصاً) جب وہ کھڑے ہوگئے تو کہنے لگے: ہمارا ربّ وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے ،ہم اس کے سوا کسی معبود کی عبادت ہرگز نہیں کریں گے۔(پ۱۵، الکہف:۱۴) {} سن لو! بیشکاللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہے ، اللہ کی باتیں بدلتی نہیں ،یہی بڑی کامیابی ہے۔(پ۱۱، ایونس:۶۲) {}ان کا صلہ ان کے ربّ کے پاس بسنے کے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللّٰہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے ،یہ صلہ اس کے لیے ہے جو اپنے ربّ سے ڈرے۔(پ۳۰، البینۃ:۸)(ترجمہ کنز العرفان) حدیثِ پاک اور اللہ پاک کے ولیوں کی شان: {} نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: 40 ابدال (اللہ پاک کے ولی )اور 500 بہترین لوگ میری اُمت میں ہمیشہ رہتے ہیں۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْنےعرض کی: یارسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم! ہمیں ان کے اعمال(کاموں) کے بارے میں بتائیں ! ارشادفرمایا: جوان پر ظلم کرے وہ اسے معاف کر دیتے ہیں ، جو ان سے برائی کرے وہ اس سے بھلائی (اچھا سلوک) کرتے ہیں اوراللہ پاک نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس سے لوگو ں کی غم خواری کرتے (یعنی اُن پر خرچ کرتے )ہیں۔(فردوس الاخبار للدیلمی،الحدیث:۲۶۹۳،ج۱،ص۳۶۴) {} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اچّھا ساتھی وہ ہے کہ جب تو اللہ پاک کو یا د کرے تو وہ تیری مدد کرے اور جب تُوبُھولے تووہ یاد دلائے۔(جامع صغیر،الجزء الثانی، ص ۲۴۴،حدیث:۳۹۹۹) {} فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جب تم دیکھو کہ کسی بندے کو دنیا سے بے رغبتی(یعنی دوری) اور کم بولنے کی نعمت دی گئی ہے تو اس کے قریب ہو جاؤ کیونکہ اسے حکمت(یعنی سمجھ اور عقلمندی) دی جاتی ہے ۔( ابن ماجہ، کتاب الزھد، ۴ / ۴۲۲، حدیث: ۴۱۰۱، عن ابی خلاد)

40) ’’امام غزالی کا تھیلہ(bag) ‘‘

امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دین کا علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ علم دین حاصل کرنے کے لیے اپنے گھر سے بہت دور ایک جگہ جاکر آپ نے خوب علم حاصل کیا ۔آپ علمِ دین حاصل کرتے اور اہم اہم پوائنٹس(points) لکھ لیتے تو آپ کے پاس بہت سارےصفحات(papers) جمع ہوگئے۔اب آپ اپنے گھر واپس آنے لگے تو آپ نے اپنے لکھے ہوئے صفحات، ایک تھیلے(bag) میں ڈال لیے اور گھر کی طرف جانے لگے،راستے میں آپ کےقافلے کو ڈاکوؤں(Robber) نے روک لیا سب لوگوں سے ان کا سامان اورپیسےچھین لیے، امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس ڈاکو آئےتو ان کےسامان کےساتھ وہ تھیلہ (bag)بھی چھین لیاجس میں آپ کے صفحات تھے ،اس پر آپ بہت پریشان ہوئے اورڈاکوؤں کے سردار کے پاس چلے گئے اوراس کو بتایا آپ میرا سارا سامان لےلیں مگر مجھے میرا تھیلہ دے دیں ،وہ تمہارے کسی کام کا نہیں۔ڈاکوؤں کے سردار نے کہا: اس تھیلے میں ایسا کیا ہے ؟آپ نے فرمایا: اس میں میرے سالوں کے لکھے ہوئے نوٹس(notes) ہیں اگر مجھے وہ نہیں ملے تو میرا بہت سارا علم چلا جائے گا۔ یہ سُن کر ڈاکوؤں کا سردار ہنس پڑا اوراس نے امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کچھ اس طرح کہا :آپ کے پاس علم نہیں ہے، آپ کا علم تو اس تھیلے میں ہے۔یہ کہہ کر ڈاکوؤں کے سردار نے وہ تھیلا واپس کردیا ۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے وہ تھیلا تو واپس لے لیا مگر آپ سوچنے لگےاورا ب آپ نے گھر پہنچ کر تین(3) سال میں علمِ دین کی وہ سب باتیں یاد کرلیں تاکہ اب اگر کتابیں چلی بھی جائیں تب بھی علمِ دین ان کے پاس ہی رہے۔(فیضان امام غزالی ص ۱۲ملخصا( اس حکایت سے یہ سیکھنے کوملا کہعلم کو لکھنے کے ساتھ ساتھ یاد بھی کرنا چاہیے۔ تَعَارُف (Introduction): امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 450سن ِہجر ی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا، آپ کے والد کا اور آپ کے دادا ،تینوں کا نام” محمد“رکھا گیا یعنی آپ محمد بن محمد بن محمد غزالی ہیں۔آپ نے علم دین حاصل کرنے کے لیے دور دور کے سفر کیے،علم دین پڑھا بھی اورپڑھایا بھی ۔آپ بہت عبادت بھی کیا کرتے۔آپ نے دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں اور بُرے خیلات کے علاج اور انسان کی اپنی اصلاح کے لیے ضروری باتوں پر کتابیں لکھیں، جن کو پڑھنا ہر مسلمان کے لیے فائدہ مند (beneficial)ہے۔کم از کم، کتاب ” لڑکے کو نصیحت“ تو فوراًپڑھ لینی چاہیے۔(فیضان امام غزالی ملخصا( علم اور علماء کی شان: جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے چلے گا اللہ پاک اُس کے لئے جنّت کا راستہ آسان کرے گا اور جب کچھ لوگ اللہ پاک کے گھروں میں سے کسى گھر مىں جمع ہوکر اللہ پاک کی کتاب(یعنی قرآنِ پاک) پڑھتے ہىں اور آپس مىں درس کرتے (یعنی پڑھاتے)ہىں تو اُن پر سکىنہ(یعنی اطمنان) نازل ہوتا ہے اور رحمت اُن کو گھیر لىتى(یعنی رحمت اُترتی) ہے اور فرشتے اُن کو ہرطرف سے گھىرلىتے ہىں(یعنی ہر طرف فرشتے آجاتے ہیں) اور اللہ پاک اپنے پاس والوں کے سامنے اُن کا ذکر کرتا ہے(مسلم، کتاب الذکر والدعا ، ص۱۴۴۷، حدیث : ۲۶۹۹) ىعنى اللہ پاک اُن( کے علم دین کے لیے چلنے ، جمع ہو کر سیکھنے سیکھانے) کے اِن اچھے کاموں پر خوش ہوتا ہے اور فرشتوں کو بتاتا ہے کہ میں اِن سے خوش ہوں۔ (فیضان علم وعلماءص۱۷بتغیر)

41) ’’بخار کی حالت میں صرف دو دن میں ایک کتاب لکھ دی‘‘

اعلی حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑے عالم اورسچّے عاشقِ رسول تھے۔ آپ کا کام،پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرنا اور اگر کوئی ہمارے نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کم کرنے کی کوشش کرے تواُس کی گستاخیوں اور بے ادبیوں سے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُمت(ummah)کو بچانا تھا۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہدوسری بار جب حج ادا کرنے گئے،تو وہاں جاکر پتا چلا کہ مکّے شریف کے گورنر (governor)کے پاس کچھ لوگوں نے آکرنبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کے خلاف باتیں کی ہیں اور سوالات کے جوابات مانگے ہیں۔مکّہ شریف کے بہت بڑے عالم صاحب نےاُن لوگوں کی طرف سے ہونے والے سوالات اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ كو دیئے اور دو (2)دن کے اندر،اِ س کا جواب لکھنے کی گزراش کی ۔اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اسی وقت قلم اوراِنک(ink) لانے کو کہا لیکن دوسرے دن آپ کو بہت تیز بخار ہوگیا۔ بخار کی حالت میں بھی کچھ گھنٹے آپ نے جواب لکھ کر مکمل (complete) کردیا اور اس کے علاوہ بھی اپنے دیگر کام کیے۔آپ نے ان سوالوں کے جوابات قرآن وحدیث کی روشنی میں ایسے دیے کہ مکّے شریف کے گورنر (governor) نے کہا ’’اَللہُ یُعْطِی وَھٰؤُلآءِ یَمْنَعُونَ‘‘یعنی اللہ پاک تو اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو غیب کا علم عطا فرماتا ہےاوریہ لوگ منع کرتے ہیں۔ عرب کے علماءاُن جوابات کو پڑھ کر اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی تعریفیں کرنے لگے اور اُن سوالات کرنے والوں کو جب یہ جوابات سنائے گئے تو وہ سمجھ گئے کہ ہم سب مل کربھی اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا جواب نہیں دے سکتے لھذا وہ مزید کوئی بات نہ کر سکے۔(ملفوظات اعلی حضرت ،۱۹۰تا ۱۹۳ماخوذاً) اس سچے واقعے سے پتا چلا ک ہہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑے عالم تھے کہ مکّے کے علماء بھی آپ کی تعریفیں کرتے تھے۔ اللہ پاک ہمیں ان کی کتابوں میں بتائی ہوئی باتوں کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کا شوق عطاء فرمائے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ بدنصیب اور بُرے لوگ ہمارے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کم کرنے کی کوشش کرتے اور دوسری طرف کچھ خوش نصیب اور اچھے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کا بیان کرتے اور وسوسے ڈالنے والوں سے اُمت کو بچاتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اُن علماء میں سے ہیں کہ جن کی ساری زندگی مکّے کے سردار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرتے ہوئے گزری اور آپ نے اُمت کو شیطانی وسوسوں سے بچایا اور عشق رسول کے راستے پر چلایا۔آپ کی ان کوششوں کی وجہ سے مختلف ملکوں کے علماء نے آپ کو مُجَدِّد کہا یعنی آپ کو اتنا بڑا عالم کہا کہ سو(100)سال میں اتنا بڑا عالم پیدا ہوتا ہے۔ تَعَارُف (Introduction): اعلی حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دس (10)شوال1272 سنِ ہجری کوہفتے کےدن ظہر کے وقت پیدا ہوئے۔آپ کا نام ”محمد“ ہے، دادا نے ”اَحمد رضا “کہہ کر پکارااوراسی نام سے مشہور ہوئے۔چار(4) سال کی عمر میں قرآنِ مجید مکمل پڑھ لیا۔ تیرہ (13)سال، چار(4) ماہ اور10 دن کی عمر میں دینی تعلیم مکمل ہوئی تو دینی کتابیں پڑھانا اور فتوی دینا(یعنی دینی مسائل لکھ کر دینا) شروع کر دے۔ آپ نے بہت کتابیں لکھیں، ترجمۂ قرآن کنزالایمان کے علاوہ کئی کتابیں اردو،عربی اور فارسی (زبانوں) میں لکھیں۔پچیس (25)صفرالمظفر 1340 سنِ ہجری 28 اکتوبر1921ء کو جمعۃ المبارک کے دن ،جمعہ کی اذان کے وقت تقریباً اڑسٹھ(68 ) سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ علم اور علماء کی شان: حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہىں : رات میں عبادت کرنےوالے اوردن میں روزہ رکھنےوالے ہزار لوگوں کا مرنا اىک ایسے عالم کی موت کے برابر نہیں ہو سکتا کہ جو اللہ پاک کے حلال وحرام پر صبر کرتا ہے(یعنی دین پر عمل بھی کرتا ہو)۔ ( جامع بیان العلم وفضلہ، ص۴۲، حدیث : ۱۱۵)

42) ’’ علم و علماء کی شان‘‘

قرآن اور شانِ علماء: {} اللہ (پاک)سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں (پ۲۲، فاطر : ۲۸) {} اللہ (پاک)جسے چاہتا ہے حکمت (قرآن، حدیث کا علم وغیرہ)دیتا ہے اور جسے حکمت دی جائے تو بیشک اسے بہت زیادہ بھلائی مل گئی ۔ (پ۳، البقرة : ۲۶۹){} تم فرماؤکىا برابر ہىں وہ لوگ کہ جانتے ہىں اور وہ لوگ جو نہىں جانتے۔(پ۲۳، الزمر : ۹) {} اللہ پاک (دَرَجے)بلند کرے گا اُن لوگوں کے جو اىمان لائے تم مىں سے اور ان کے جن کو علم دىا گىا ہے۔ (پ۲۸، المجادلة : ۱۱) (ترجمہ کنز العرفان) احادیث اور روایات میں شانِ علماء: {} اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا (یعنی ان کے بارے میں بات ہوئ جن میں)اىک عبادت کرنے والا اورر دوسرا عالم تھا، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرماىا : عالم کى فضیلت (virtue)عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے ادنٰی( یعنی چھوٹے درجے والے) پر۔(ترمذی، کتاب العلم، ۴/ ۳۱۳، حدیث : ۲۶۹۴){}قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى(ink) اور شہىدوں کا خون تولا (weight کیا) جائے گا تو ان کی دواتوں کی رُوشنائی (ink) شہىدوں کے خون سے زیادہ وزنی(heavy)ہو جائے گى۔)جامع بیان العلم و فضلہ، ص۴۸، حدیث : ۱۳۹({}اللہ پاک قىامت کے دن عبادت کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں کو حکم دے گا کہ جنّت مىں جاؤ۔ علما ءعرض کرىں گے : یا اللہ!انہوں نے ہمارے بتانے سے ہی عبادت کى اور جہاد کىا۔حکم ہوگا : تم مىرے نزدىک کچھ فرشتوں کى طرح ہو، شفاعت(یعنی مسلمانوں کےجنّت میں جانے کی سفارش ) کرو کہ تمہارى شفاعت قبول ہو۔ پس (علماپہلے) شفاعت کرىں گے پھر جنّت مىں جائىں گے۔)احیاء علوم الدین، کتاب العلم، ۱/ ۲۶ ({}جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے(کسی) رستے پرچلے اللہ پاک اُسے جنّت کے راستوں میں سے اىک راستے پرچلادیتاہے اور بےشک فرشتے اپنے بازو(wings)طالبِ علم کى خوشی کے لیےبچھا دیتے ہىں اور بےشک سب زمىن والے اور سب آسمان والے ىہاں تک کہ مچھلىاں پانى مىں ،عالم کے لئےمغفرت کی دعا کرتے ہىں اور بےشک عالم کی فضیلت عبادت کرنے والے پر اىسی ہے جىسے چودھوىں رات کے(چمکتے ہوئے پورے) چاند کى فضیلت سب ستاروں پر۔( ابوداود، کتاب العلم، ۴/ ۴۴۴، حدیث : ۳۶۴۱) {}اىک فقىہ(عالم) شىطان پر ہزار عبادت کرنے والوں سے زىادہ بھارى ہے۔( ترمذی، کتاب العلم، ۴/ ۳۱۱، حدیث : ۲۶۹۰)علماء فرماتے ہیں:کیونکہ عبادت کرنے والا اپنے آپ کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم دنیا کے لوگوں کو(دوزخ سے) بچاتا ہے۔(فیضانِ علم و علماء ص۱۸مُلخصاً){} مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَيْرًا یُّفَقِّھْهُ فِى الدِّيْن (ترجمہ) اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائى کا ارادہ کرتا ہے اسے دىن کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔( بخاری، کتاب العلم، ۱/ ۴۱)علماء فرماتے ہیں کہ: کوئى آدمى اپنے انجام کے بارے میں نہىں جانتا سوائے عالم کے، کیونکہ وہ سچی خبریں دینے والے سچے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بتانے سےجانتا ہےکہ ا ُس کے ساتھ اللہ نے بھلائى کا ارادہ کىا ہے(ان شاء اللہ! موت کے وقت عالم کا ایمان سلامت رہے گا )۔(الاشباہ والنظائر، ص ۳۳۷ مُلخصاً)(علم وعلماء کی فضیلت ص۱۲ تا ۲۱ ماخوذ۱ً) {}امام غزالى رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے رواىت کىا کہ عالم کو اىک نظر دىکھنا سال بھر (نفل)نماز پڑھنےاور(نفل)روزے رکھنے سے بہتر ہے۔(منھاج العابدین، ص۱۱)

43) ’’ابھی 8 رَکعت تراویح باقی ہیں‘‘

نماز، روزہ وغیرہ کےہزاروں دینی مسائل کی کتاب بہارِ شریعت لکھنے والے مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ر مضان ُ المبارک کی ایک رات ، تروایح کی نماز پڑھ رہے تھے ابھی 12 رکعتیں ہی ہوئی تھیں کہ کسی نے آکر بڑے بیٹے کے وفات پانے کی خبر دی جسے سُن کر آپ کی زبان سے ”اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن“(ترجمہ: ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اللہ ہی کی طرف واپس جانے والے ہیں)کہااور فرمایا:ابھی آٹھ(8)رَکعت تراویح باقی ہیں ،پھر نَماز پڑھنا شروع کر دی۔ (صدرالشریعہ نمبر ،ص۱۳) اس حکایت سے پتا چلا کہہر حال میں صبر کرنا چاہیےکہ جس طرح مفتی صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کے انتقال کی خبر پر کیا۔نمازوں سے بہت محبت ہونی چاہیے اور علمِ دین شوق کے ساتھ حاصل کر نا چاہیے ۔ تَعَارُف (Introduction): صدر الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی پیدائش 1300ھ مطابق 1882ءمیں ہند((_country_))میں ہوئی۔آپ نے بہت شوق کے ساتھ علمِ دین حاصل کیا، آپ کے استادِ محترم” حضرت مولانا وصی احمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ “فرماتے ہیں:مجھ کو ساری زندگی میں ایک ہی طالبِ علم ملا ہے جو محنتی ، سمجھ دار، علم سے شوق اور دلچسپی رکھنے والا ہے ۔ (صدر الشریعہ نمبر،ص ۷۴ملخصا ) صبح جلداُٹھ کر مسجدجانا،مؤذّن نہ ہو تو اذان دینا،نمازِ فجرادا کرنےکےبعد بلاناغہ روزانہ ایک پارہ تلاوت کرنا اور پڑھنا،اسی طرح جمعہ کی نمازکے بعد خاص طور پر درودِ رضویہ ضرور پڑھنا،آپ کے معمولات(routine) میں شامل تھا۔(صدرالشریعہ نمبر ،ص ۱۶۱،۱۶۲) 2ذیقعدۃُ الحرام1367ھ مطابِق6 ستمبر 1948ء کو آپ کا انتقال ہوا ۔ہند میں آپ کا مزار ہے ۔ (تذکرۂ صدر الشریعہ،ص۳۹ بتصرف) نوٹ، درودِ رضویہ یہ ہے: صَلَّی اللہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ اٰلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ، صَلَاۃً وَّ سَلَامًا عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہط علم اورعلما ءکی شان: جب آدمى مرتا ہے اُس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تىن(3) چىزوں سے(اُسے فائدہ پہنچتا ہے) : (۱)کوئی جاری رہنے والاصدقہ چھوڑ گىا(مثلاً مسجد بنا دی)یا(۲) اىسا علم(چھوڑا کہ ) جس سے لوگوں کو فائدہ ہو یا(۳)نیک لڑکا(یعنی نیک اولاد)کہ اُس(مرنے والے) کے لیے دعا کرے۔ (مسلم، کتاب الوصیة، ص۸۸۶، حدیث : ۱۶۳۱) یعنى تىن (3)چىزوں کا فائدہ مرنے کے بعد بھى باقى رہتا ہے۔

44 ’’بُری نیّت والوں نے توبہ کر لی‘‘

ایک مرتبہ کسی علاقے میں حضرت مفتی نَعِیْمُ الدِّیْن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا بیان تھا ،لوگوں کو پتا چلا توبہت سارے آدمی آپ کا بیان سُننے کے لیے آگئے۔جب بیان شروع ہوا تو کچھ شرارتی لوگ کہ جو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان میں غلط باتیں کرتے تھے، اِس بُری نیّت کے ساتھ آگئے کہ ہم مفتی صاحب سےاُلٹے سیدھےسوال کرکےآپ کو پریشان کریں گےتاکہ سننے والے آپ کا بیان نہ سنیں۔ لیکن جب انہوں نے آخری نبی ، مکّی مدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرنے والے مفتی نَعِیْمُ الدِّیْن صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا بیان سنا تو سنتے ہی رہ گئے اور سمجھ گئے کہ ہم غلط سوچ رکھنے والے ہیں اور مفتی صاحب ہی اسلام کی سچی اور صحیح باتیں بتا رہے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت بڑا مقام دیا اوران کی شان میں کمی کرنا، اپنی آخرت برباد کرنا ہے۔مفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بیان کےبعد اِعلان فرمایا : اگر کسی کو میری تقریر(speech) پر کوئی سوال ہے یا کوئی بات سمجھ نہ آئی ہو تو پوچھ لے(اِن شَاءَ ا للّٰہ!)اس کوجواب دیاجائے گا۔ تو بُری نیّت سےآنے والوں کی یہ پوری جماعت کھڑی ہوگئی اور کہا: حضور ! کوئی سوال نہیں بس اتنی عرض ہے کہ ہم آپ کے بیان میں رکاوٹ ڈالنے آئے تھے،لیکن آپ کے بیان نے ہمارے دل کی آنکھیں کھول دی ہیں،اب آپ ہمیں توبہ کرائیں اور آج شام ہمارے مَحَلے میں بھی بیان فرمائیں ۔(تذکرہ صدرالافاضل ،ص۱۷) اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمارے علمائے کرام اوربزرگانِ دین کا بیان سُن کر بُرے لوگوں کی اصلاح ہوجاتی ہے ۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت مفتی نَعِیْمُ الدِّیْن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ،1 جنوری 1883 پیرشریف،ہند((_country_)) میں پیدا ہوئے۔ آپ اعلی حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے بہت محبّت رکھتے تھے ہر پیر اور جمعرات کو اعلیٰ حضرت کے پاس حاضرہوتے تھے۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ آپ کو بہت اہمیت دیتے اورآپ کےمشورےبھی قبول فرماتے تھے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو خلافت(پیری مریدی کی اجازت) دی ۔آپ نے بہت سی دینی کتابیں لکھیں اور قرآن پاک کی ایک تفسیر(کہ جس میں قرآنی آیتوں کا مطلب وغیرہ ہے بھی) لکھی۔(تذکرہ صدرالافاضل ،ص ۲تا ۹ملخصا) علم اورعلما ءکی شان: حضرت اسمعىل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ مىں نے امام محمدرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو خواب مىں دىکھا اور پوچھا تو انہوں نے کہا : مجھے اللہ پاک نے بخش دىا اور مجھ سے فرماىا : اگر مىں تجھ پر عذاب کرنا چاہتا (تو تجھے)علم (دین) نہ دیتا۔ (الدر المختار معه ردالمحتار، المقدمة، ۱/ ۱۲۵)

45) ’’ فرض اور لازم علم‘‘

فرض علم میں پانچ (5)طرح کے علم ہیں: (1)اسلامی عقائد(یعنی ان عقیدوں کو جاننا کہ جن کے ذریعے آدمی سچا پکا مسلمان بنے اور ان کا انکار کرنے سے بندہ اسلام سے نکل جائے یا گمراہ ہو جائے)۔ (2)ضرورت کے مسئلے یعنی عبادات(مثلاً نماز، روزہ،حج و زکوۃ وغیرہ) و معاملات (مثلاً نوکری ا ور کاروبار وغیرہ جس کام سے اس شخص کا تعلق(Relations) ہے) کے ضروری مسائل۔ (3) حلال و حرام (مثلاً کھانا کھانے ،لباس پہننے، ناخن و بال کاٹنے، نام رکھنے،عارضی(temporary) استعمال کے لیے چیزیں لینے، قرض و امانت و تحفہ لینے دینے، قسم کھانے، وغیرہ)کے مسائل(ظاہری گناہ کی ضروری معلومات بھی اس میں شامل ہیں)۔ (4)ہلاک کرنے والے اعمال (مثلاً: جھوٹ، حسد، تکبُّر وغیرہ)کی ضروری معلومات اور ان سے بچنے کے طریقے۔ (5)نجات دلانے والے اعمال (مثلاً: اخلاص، صبر، شکر وغیرہ)کی ضروری معلومات اور انہیں حاصل کرنے کے طریقے۔ فرض علوم کے لیے مشورۃً چند کتابیں (1)اسلامی عقائد کے لیےکم ازکم: (۱)دین کی ضروری باتیں part 01,02,03,04 (فرض علوم ویب سائٹ) (۲)کتابُ العقائد(مفتی نعیم الدّین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ)(۳) بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلِ سنّت(مکتبۃ المدینہ) (2)ضرورت کے دینی مسائل کے لیے کم از کم: (۱)دین کے مسائل part 01,02,03 (فرض علوم ویب سائٹ) (۲)نماز کے احکام۔ (3) حلال و حرام کے ضروری دینی مسائل اور ظاہری گناہوں کی ضروری معلومات کے لیے کم از کم: (۱)101مدنی پھول(۲)163مدنی پھول(۳)گناہوں کے عذابات (مکمل حصّے)۔ (4)(5)مہلکات(باطنی بیماریوں) اور منجیّات(نجات دلانےوالے اعمال) کے لیے کم از کم: (۱) بیٹے کو نصیحت (۲)پاکیزہ زندگی part 01,02,03 (فرض علوم ویب سائٹ) ۔ اچھی نیّتوں کے لیے: (۱)ثواب بڑھانے کے نسخے۔ مزیدفرض علوم کے لیے: امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّارقادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ساری کتابیں ۔ نوٹ: ان کتابوں میں موجود سب باتیں”فرض علوم“ ہی کی نہیں مگر یہ سب کتابیں فرض علوم کے لیے فائدہ مند ہیں۔اِنْ شَاءَ اللہ ! گزارش: یہ سب کتابیں دعوتِ اسلامی کے مکتبۃ المدینہ سےلی جاسکتی یا www.farzuloom.netسے download کی جاسکتی ہیں۔

46) ’’ سفید دھبے والا مریض ‘‘

ایک مرتبہ ایک مریض جس کے جسم پر سفید دھبے (white spots) تھے ، اعلیٰ حضرت کے دادپیرصاحب(یعنی پیر صاحب کے بھی پیر صاحب)، سلسلہ قادریہ کے بزرگ ، آلِ رسول،سیّد اچھے میاں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ملاقات کرنے کے لیے حاضر ہوا۔اُ س وقت کئی لوگ ملاقات کرتےرہے،مگر یہ صاحب دور کھڑے رہے کہ مجھے بیماری ہے، میں حضرت کے قریب کیسے جاؤں۔ پیر صاحب نے فرمایا: بھائی! آگے آؤ۔ وہ آگے بڑھےاور عرض کی: حضور میں آپ سے کس طرح مُلاقات کر سکتا ہوں۔ پیر صاحب نے فرمایا: آگے توآؤ۔ وہ پاس جا کر بیٹھ گئے۔ پیر صاحب نے ان کے سفید داغ پر انگلی رکھی اور فرمایا: یہاں تو کچھ نہیں ہے۔ جب اُ س نے اپنے جسم(body) کو دیکھا تووہ سفید دھبہ(white spot) ختم ہوگیا تھا۔ اس طرح پیر صاحب نے ہر دھبے کو ختم کردیا، اُن کاجسم بالکل صحیح ہو گیا اور بیماری ختم ہوگئی۔ (احوال وآثار شاہ آل احمد اچھے میاں، ص:۲۵۳) اس حکایت سے معلوم ہوا کہاللہوالوں کے پاس جانے کی بہت برکتیں ہیں،ان کی محفل میں آنے والا فائدے میں رہتا ہے،ان کی دعا سے جہاں بندہ نیکی کے راستے پر آجاتا ہے وہاں اِس کی جسمانی بیماریاں بھی دور ہو سکتی ہیں ۔ تَعَارُف (Introduction): آپ کا نام آل احمد، لقب(title)شمس الدین اور کُنْیَت(kunyah)ابو الفضل ہے،سیّد اچھے میاں کے نام سے مشہور ہیں۔ 28 رمضان المبارک 1160 سنِ ہجری کو ہند میں پیدا ہوئے، آپ سلسلہ قادریہ کے بزرگ، اعلی حضرت کے پیر صاحب سیّد شاہ آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بھی پیر صاحب اور آلِ رسول یعنی سیّد ہیں اور آپ کےوالد صاحب کا نام شاہ حمزہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہے، آپ نے اپنے والد صاحب سے بھی علمِ دین حاصل کیا۔ (احوال وآثار شاہ آل احمد اچھے میاں، ص:۲۶) سلسلہ قادریہ کی شان: غوثِ پاک شیخ عبدُ القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: مجھے اپنے پالنے والے (یعنی اللہ پاک )کی عزّت کی قسم !میں اُس وَقت تک اپنے ربّ کی بارگاہ سے نہ ہٹوں گا جب تک اپنے ایک ایک مُرید کو جنّت میں داخل نہ کروالوں ۔ (تفریحُ الخاطرفی مناقب الشیخ عبدالقادر ص۴۳) اللہ پاک ہمیں نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچتے ہوئے غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے محبّت کرنے والوں میں رکھے۔اٰمین

47) اچھا! لاؤ

مولانا ضیاءُ الدِّین قادری مدنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جنہیں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خلافت(یعنی اس بات کی اجازت ) دی تھی(کہ آپ لوگوں کو مرید کر سکتے ہیں) کی عمر 100 سال سے زیادہ تھی ۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 77 سال سےمدینے پاک میں رہے، آپ کے گھر میں روزانہ محفلِ میلاد ہوتی تھی ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی نظر کمزور ہوگئی توڈاکٹرزنے علاج کےلئے (مدینے پاک سے باہر)جدّہ شریف چلنےکاکہا تو فرمایا: آنکھوں کے علاج کےلئے مدینہ پاک نہیں چھوڑ سکتا۔(سیدی ضیاء الدین احمدالقادری، ۱/۵۲۳مختصراً) ۔جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ نہ کھاتے تھے مگر جب یہ عرض کیا جاتا:دودھ اور شہد نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت پسند تھا۔توفرماتے: اچھا! لاؤ۔پھرچند گھونٹ پی لیتے۔(انوارِ قطبِ مدینہ ،ص۲۷۵) اس حکایت سے یہ سیکھنے کوملا کہ پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جن چیزوں کوپسند کیا، وہ ہمیں معلوم ہونی چاہیے اور ایسی کھانے کی چیزیں ہمیں شوق سے کھانی چاہئیں ۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت مولانا ضیاءُ الدِّین رضوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رات جاگ کر عبادت کیا کرتےاور تہجُّد کی نماز پڑھنے کی عادت تھی ۔ اس کے علاوہ نفل نمازیں (سورج نکلنے کے تقریباً بیس (20)منٹ بعد پڑھے جانے والی نفل نمازیں) اِشراق،چاشت اور(مغرب کے فرض کے بعد چھ(6) رکعت نماز) اوّابین کی نمازیں پڑھنے کے بھی عادی تھے۔ ہر اسلامی مہینے کی15،14،13تاریخ کےروزے رکھا کرتے (لیکن بڑی عید سے چار(4)دن (10,11,12,13ذوالحجۃ)روزہ نہیں رکھتے تھے کہ ان دنوں میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں)یہاں تک آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بوڑھے اور کمزور ہوگئے مگر پھر بھی آپ یہ نفل روزے رکھا کرتے تھے۔(سیدی ضیاءالدین احمد القادری،۱ / ۴۸۶،بتغیر) آپ کا لقب(title)قُطبِ مَدِیْنہ (مدینے کے قطب) تھا۔مسلمان اُس ولی کو”قطب“ کہتے ہیں کہ جس کے پاس کسی جگہ کے مسلمانوں کے روحانی کام ہوں۔(نام رکھنے کے احکام ص۱۶۹ مُلخصاً)آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال جمعہ کے دن4ذوالحجۃ 1401 ہجری ، 2اکتوبر 1981ء کو ہوا۔آپ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔ (سیّدی قطبِ مدینہ ،ص ۱۷ملخصاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ذریعے امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہسلسلہ قادریہ میں داخل ہوئے یعنی حضرت مولانا ضیاءُ الدِّین مدنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے پیر صاحب ہیں۔ سلسلہ قادریہ کی شان: غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : کوئی میرے وسیلے سے اللہ پاک سے دُعاکرے گا تو اللہ پاک اُس کی دُعاکو پورا فرمادے گا۔ ( بہجۃ الاسرار ، ص۱۹۷ مُلخصاً)

48) ’’ پیری مریدی‘‘

{}پیری ، مریدی کا ایک مطلب یہ ہے کہ کسی پیر صاحب کا مرید ہو جائے اور گناہوں سے توبہ کرکے آئندہ (next time) گناہوں سے بچتے ہوئے نیک کاموں کا اِرادہ کرئے۔(مدنی مذاکرہ قسط۱۹،ص۲مُلخّصاً) {} اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے( ترجمہ ۔Translation) : یاد کروجس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ (پ ۱۵، سورۃ بنی اسرائیل، آیت ۷۱) (ترجمہ کنز العرفان) علماء فرماتے ہیں: اِس سے معلوم ہوا کہ دُنیا میں کسی نیک آدمی کو اپنا امام بنا لینا چاہئے ۔ کسی نیک آدمی سے مرید بھی ہوجائے تاکہ قیامت میں اچھے لوگوں کے ساتھ ہو۔)نورُالعرفان، پ ۱۵، بنی اسرائیل ، تحت الآیۃ: ۷۱ مُلتقطاً ( {} پیر بنانے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ بندہ اچھے لوگوں جیسا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جو جس قوم سے مُشابَہَت کرے (اُن جیسا بنے تو)وہ انہیں میں سے ہے( سنن ابو داؤد ،کتاب اللباس ، ج۴ ، ص ۶۲) (آدابِ مرشد کامل ص ۱۶، ۱۷ ماخوذاًفتاوی افریقیہ) {} مرید ہونا ایک نعمت ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بھی بدبخت(بُرے نصیب والا) نہیں رہتا۔( صحیح مسلم ، کتاب الذکر و والدعا ء،رقم ۲۶۸۹ ، ص ۱۴۴۴ ) (آدابِ مرشد کامل ص ۱۶، ۱۷ ماخوذاًفتاوی افریقیہ) {}پیر بنانے سےایمان کی حفاظت ہو تی ہے(یعنی اللہ پاک کی رحمت سے اُمید ہے کہ مرتے وقت تک مسلمان رہے)اور نیکی کے کاموں میں مدد ملتی ہے اور گناہوں سے نفرت ہوتی ہے ۔(مدنی مذاکرہ قسط۳۷،ص۲۶،۲۷ماخوذاً) {}اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: صحیح پیر بنانے کا فائدہ دیکھنے والے دنیا میں بھی دیکھتے ہیں اور سب مریدوں کو موت کے وقت، قبر میں اور قیامت میں اس کے فائدے نظر آئیں گے۔( فتاویٰ رضویہ ، ۲۶ / ۵۷۰ ماخوذاً) {} امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: انسان کو کسی صحیح پیر کی ضرورت ہوتی کہ جو اُسے شیطان کی باتوں سے بچائے کیونکہ شیطان بہت خطر ناک ہے اور اُ س کے وسوسے بھی بہت خطر ناک ہیں۔لھذا مرید پر لازم ہے کہ اپنے پیر کی باتوں کو مانے جس طرح اندھا اپنے چلانے والے کے بتانے کے مطابق چلتا ہے تو اس طرح مرید چلے تاکہ شیطان سے بچے۔ (احیاءُ العلوم ، کتاب ریاضة النفس و تھذیب الاخلاق ، ۳ / ۹۳ماخوذاً)

49)’’چھپ کرلوگوں کی مدد‘‘

امام زین العابدین حضرتِ علی بن حسین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ جو کہ سیّد صاحب اور سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ ہیں ، آپ چھپ کرلوگوں کی مدد فرماتے ۔جب آپ کا انتقال ہوا تو پتا چلا کہ آپ مدینے شریف میں 100 گھروں کی مدد کیا کرتے تھےاوررات کے اندھیرے میں ضرورت کا سامان غریبوں کے گھر پہنچا دیا کرتے تھے ۔ (حلیہ الاولیاء،۳/۱۶۰، رقم:۳۵۴۵) اس سچے واقعے سے یہ سیکھنے کوملا ک ہہمارا ہر کام اللہ پاک کی رضا اور خوشی کے لیے ہونا چاہیے۔ کوئی بھی عمل لوگوں کی واہ واہ کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ تَعَارُف (Introduction): آپ کا نام علی بن حسین بن علی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ ہے (یعنی آپ امام حسین رَضی اللہُ عَلَیْہ کے بیٹے اور حضرت علی رَضی اللہُ عَلَیْہ کے پوتے ہیں اور آپ کا نام بھی علی ) ، آپ کی ولادت 38 سنِ ہجری مدینہ پاک میں ہوئی، آپ کی کُنْیَت (kunyah) ا بو محمد، ابو الحسن اور ابو بکر ہے، آپ کا ایک لقب (title)سجّاد(بہت سجدے کرنے والا) ہے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت زیادہ عبادت کرتے تھے کہ آپ کا ایک لقب”زین العابدین“یعنی عبادت گزاروں کی خوبصورتی کا سبب ہو گیااور آپ کایہ لقب نام سے بھی زیادہ مشہور ہوا۔آپ سلسلہ قادریہ کے بزرگ اور آلِ رسول یعنی سیّد بھی ہیں۔ آپ کا وصال 94 سنِ ہجری میں ہوا۔آپ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔ (سیر اعلام النبلاء،۴/۳۸۶۔۴۰۰ مُلخصاً) آلِ رسول کی شان: کسی نے حضرت سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا: کیا آپ نے اُس آدمی سے زیادہ نیک شخص دیکھا ہے؟ آپ نے پوچھا: کیا تم نےآلِ رسول (امام زین العابدین) حضرت سیِّدعلی بن حسین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمَا کو دیکھا ہے؟ اس نے عرض کی: نہیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے ان سےبڑا نیک اورپرہیزگار نہیں دیکھا۔ (حلیہ الاولیاء،۳/۱۶۵، رقم:۳۵۶۷)

50) ’’ ظالم بادشاہ ڈر گیا‘‘

ایک مرتبہ ظالم بادشاہ نے نیک پرہیز گار بزرگ امام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (جو کہ سیّد صاحب اور سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ ہیں )کو شہید کرنے کی نیّت سے بُلایا، جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بادشاہ کے قریب پہنچے توبادشاہ ان سے معافی مانگنے لگا اور کافی سارے تحفے (gifts)دے کر عزّت کے ساتھ واپس بھیج دیا، لوگوں نے بادشاہ سے پوچھا کہ آپ نے تو انہیں قتل کرنے کے لیے بلایا تھا مگر ہم نے تو کچھ اور ہی دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ بادشاہ نے کہا: جب امام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ میرے قریب آئے تو میں نے دیکھا ان کے سیّدھی طرف (the right side)اور اُلٹی طرف (the left side)دو شیر ہیں جو بہت غصّے میں تھےاور مجھ سے کہہ رہے ہیں: اگر تم نے حضرت امام محمد باقر کے ساتھ کچھ کیا تو ہم تمہیں مار ڈالیں گے۔(کشف المحجوب، ص۸۰) اس حکایت سے پتا چلا کہ اللہ پاک اپنے ولیوں کی مدد فرماتا ہے اوراللہ پاک کے نیک بندے کسی سے نہیں ڈرتے تھے جبھی تو امام باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکسی ڈر اور خوف کے بغیر بادشاہ کے پاس چلے گئے کیونکہ آپ کو اللہ کی رحمت پر یقین(believe) تھا۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت سیّدامام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 56 سنِ ہجری کو پیدا ہوئے، آپ کی کُنْیَت(kunyah) ابو جعفر ، نام محمد اور لقب (title)باقر (بہت علم والا)، شاکر(شکر کرنے والا) ہے، آپ امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بیٹے اور امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے نواسے(grandson)،آلِ رسول (سیّد صاحب)اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ ہیں۔114 سنِ ہجری کو مدینہ پاک میں انتقال فرمایا۔(سیر اعلام النبلاء، ۴/۴۰۱۔۴۰۹ ملتقطا) آپ بہت بڑے عالم اور سنّتوں پر بہت عمل کیا کرتے تھے ۔ آلِ رسول کی شان: حضرتعبد اللہ بن عطاء رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں نے آلِ رسول سیِّدمحمدبن علی باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے علاوہ عُلَما میں سے ایسا کوئی نہیں دیکھا جس کے پاس عُلَما کا علم بھی کم پڑ جائے( یعنی علما کو بھی اپنا علم کم لگنے لگتا مزید کہتے ہیں کہ) میں نے بڑے بڑے علماءکو ان کی خدمت میں اس طرح بیٹھے دیکھا ، جیسا کہ طالِب علم ، اپنے استاد کے پاس ہوتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء۔ ۳/۲۱۷، رقم:۳۷۵۷ مُلخصاً)

51) ’’ سیّد کسے کہتے ہیں؟‘‘

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنَّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:”سَیِّد“ حسنین کریمین(یعنی امام حَسَن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اور امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ ( کی اولاد کو کہتے ہیں۔( فتاویٰ رضویہ جلد۱۳،ص۳۶۱) کامل مسلمان ہونے کے لئے اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبت کا ہونا بہت ضروری ہے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:تم میں سے کوئی اُس وَقْت تک (کامِل) مؤمِن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والِد، اَوْلاد اور تَمام لوگوں سے زِیادہ مَحْبُوب(beloved) نہ ہوجاؤں۔ ( بخاری ۱/۱۷، حدیث:۱۵) آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز (خواہ وہ لباس ہو، جگہ ہو یا آپ کی آل و اولاد ہو ان سب) کا ادب و احترام (respect) اور دل کی گہرائیوں سے ان کی تعظیم(respect) کرنا عشق و محبت کا نتیجہ(result) ہے۔ اللہ کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان یہ ہے کہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیزعزّت والی ہوجاتی ہے مثلاً آپ نےنکاح فرمایا تو آپ کی پاک بیبیاں اُمَّہَاتُ المؤمنین (یعنی اُمت کی مائیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ) ہوئیں، ایمان کی حالت میں آپ سے ملنے اور ایمان ہی پر دنیا سے جانے والے ، اُمت کے سب سے افضل اولیاء صحابہ کرام (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)ہوئے اور آپ کی آل اولاد اہل بیت مبارک ہوئے(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) بلکہ آپ کی شہزادی خاتون جنّت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کی اولاد(یعنی امام حَسَن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اور امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کی اولاد) سیّد ہوئے، جنہیں ہم ادب سے آلِ رسول اور ساداتِ کرام (سیّد حضرات)کہتے ہیں انہیں بھی پیار اور احترام کی نِگاہ سے دیکھا جائے یہی رسول اللہ کی محبت کا نتیجہ ہے۔