52) ’’کیچڑ میں گرنے والا بچہ‘‘
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کسی جگہ سے گزر رہے تھے، دیکھا کہ ایک بچّہ کیچڑ (mud)میں گر گیا ہے اور اس کے کپڑے و جسم کیچڑ کیچڑ ہوگئے ۔ لوگ دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں، کوئی اُسے کیچڑ سے نہیں نکالتا۔ کہیں دُور سے ماں نے دیکھا، دوڑتی ہوئی آئی، دو تھپَّڑ (slaps)بچّہ کے لگائے، اسے نہلایا اور اس کے کپڑے دھوئے ۔ وہ بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ یہ دیکھ کر ایک کیفیت میں آ گئے اور فرمایا کہ یِہی حال ہمارا اور اللہ پاک کی رحمت کا ہے۔ ہم گناہوں کی کیچڑمیں گر جاتے ہیں، کوئی ہمیں نہیں نکالتا! مگر اللہ پاک کی رحمت،ہم کو مصیبتوں کے ذَرِیعے اس کیچڑ سے نکالتی ہے اور ا للہ پاک ہمیں توبہ و عبادات کے پانی سے غسل دے کر صاف فرما تا ہے۔ مفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہیہ حکایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: جب مہربان ماں کچھ سزا دیکر صاف کردیتی ہے تو خالق و مالک اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے، بعض اوقات سزا دیکر بھی ہماری اصلاح فرماتا ہے ۔( معلم ِتقریر، ص ۳۳ ، بتغیر) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ماں ہم سے کتنی محبت کرتی ہے، ہمارا خیال (care)رکھتی ہے مگر ہمارا ربّ(lord) توہمیں ماں سے زیادہ محبت فرمانے والا ہے، ابھی آپ نے سنا کہ ماں نے بچے کو مارا پھر اس کی محبت میں اْسےنہلایااوراس کے کپڑے بھی دھوئے۔ اسی طرح ہم بھی قدم قدم پر گناہ کرتے ہیں، اللہ پاک کبھی بیماری اور کبھی کسی اور مصیبت کے ذریعے ہمارے گناہوں کے میل کو صاف فرما تا ہے۔اس طرح کبھی یہ مصیبتیں درجات بڑھاتی ہیں تو کبھی گناہوں کی سزا بھی ہوتی ہیں۔بس ہم گناہ گاروں کو اس کی رحمت چاہیےیقیناً وہ اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ رحم کرنے والا ، غلطیاں معاف کرنے والا اور ان کی توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ پاک کو خوش کرنے کے لیے نیک کام کریں اور گناہوں سے بچیں۔
53) ’’عقل مند بوڑھی عورت (wise old woman) ‘‘
ایک بوڑھی عورت(old woman )مشین پر کام کر رہی تھی۔کسی نے پوچھا: آنٹی (anti) !ساری عمر مشین پر کام کرنے کے علاوہ کچھ اور کام بھی کیا ہے؟کیا اللہ پاک کی بھی کچھ پہچان حاصل کی ہے۔کہنے لگی کہ اس کے لیے یہ مشین ہی کافی ہے۔اُس نے پوچھا:وہ کیسے ؟ بولی: وہ ایسے کہ جب تک میں اس مشین کو چلاتی ہوں یہ چلتی رہتی ہے اور جب میں اسے چھوڑ دیتی ہوں تو رُک جاتی ہے تو جب بغیر کسی چلانے والے کے یہ چھوٹی سی مشین نہیں چل سکتی تو پھرزمین وآسمان ، سورج اور چاند وغیرہ کا اتنا بڑا نظام کیسے چل سکتا ہے؟اس مشین کو میں چلا رہی ہوں تو مجھے اور اس پوری دنیا و آسمان کے نظام کو میرا ربّ چلا رہا ہے۔ بوڑھی عورت (old woman )مزید بولی کہ ایک اور بات سن لو کہ اس پورے جہان (universe )کو چلا نے والا ایک ہی ہے یہ بھی اس مشین سے پتہ چلا کیونکہ میں اسے اپنی مرضی سے ایک طرف چلاتی ہوں تو یہ ایک ہی طرف چلتی ہے اگر میرے ساتھ کوئی اور بھی مل کر چلائے تو یہ بہت تیز ہوجائے اور مشین خراب ہوجائے۔اسی طرح اگرآسمان وزمین کا چلانے والا کوئی دوسرا ہوتا اور وہ مل کر چلاتے تو یہ تباہ(یعنی ختم )ہوجاتے ۔ صرف یہ ہی نہیں اگردونوں الگ الگ طرف(opposite directionمیں) چلاتے تب بھی تباہ ہوجاتی۔ تو جس طرح یہ مشین ایک چلانے والے کی وجہ سے صحیح چل رہی ہے،اسی طرح یہ آسمان وزمین بھی ایک چلانے والے کی وجہ سےصحیح طرح چل رہے ہیں اور وہ ایک چلانے والا اللہ پاک ہے۔ اس کہانی سے پتا چلا کہ جس طرح ایک مشین ایک ہی شخص کے چلنے سے ٹھیک چلتی ہے اسی طرح زمین وآسمان، چاند، سورج، ستارے،بارش،دھوپ سب ایک ہی چلانے والا چلا رہا ہے اس کا کوئی بھی شریک (partner ) نہیں وہ چلانے والا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، زمین وآسمان بھی اسی کے بنائے ہوئے ہیں، وہ اللہ پاک اکیلا(alone )ہی سارے جہان (universe ) کا مالک ہے۔ سمندر اور خشکی کی ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔
54) ’’اللہ پاک ہی کی عبادت ہوگی ‘‘
اسلام کاسب سے اہم اور پہلا عقیدہ، ” توحید“ ہے۔یعنی ہر مسلمان اس بات پر پکا یقین رکھتا ہے کہ اللہ پاک ایک ہے۔یہ عقیدہ تمام عقیدوں کی جَڑ(root) ہے جس طرح جڑ کے بغیر کوئی درخت نہیں رہ سکتا اسی طرح عقیدۂ توحید پر ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔ توحید کامطلب: پہلے دولفظوں کا مطلب سمجھیں(۱)ذات(۲) صفات۔ (۱)ذات: اس کا ایک معنی ہے” حقیقت “۔مثلا انسان کا بدن(انسان کی ذات ہے) مگر اللہ پاک جسم اور بدن سے پاک ہے، اس کی حقیقت ہم سمجھ نہیں سکتے۔ (۲) صفات:یعنی خوبی(merit) اور خامی (demerit)وغیرہ جیسے انسان کا بولنا، غصّہ کرنا اور اللہ پاک کا کریم (یعنی کرم فرمانے والا)ہونا، رحیم( یعنی رحم والا ) ہونا۔ توحید کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ کریم کو اس کی ذات اورصِفات میں کسی بھی شریک(partner) سے پاک ماننا یعنی جیسا اللہ ہے ویسا کوئی بھی نہیں۔ اگر کوئی اللہ پاک کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو اللہ کہتاہے تو وہ ذات میں شِرک کرتاہے۔ علم ،سننا، دیکھنا وغیرہ اللہ پاک کی صِفات ہیں ان صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنے والا۔ مثلاً جو یہ کہے کہ جیسا علم اللہ پاک کا ہے،ویسا ہی فلاں کا ہےیا جیسے اللہ سنتا ہے ویسے ہی فلاں سنتا ہے تو ایسا کہنے والا بھی شرک کرنے والا مشرک ہے۔ (مقالاتِ کاظمی،جلد۳،ص۱۹ ماخوذاً) یاد رہے!اگر کوئی اللہ پاک کے علاوہ کسی کے لیے بہت زیادہ علم مانتا ہے مگر یہ کہتا ہے کہ اللہ پاک نے فلاں کو یہ علم دیا ہے تو یہ شرک نہیں۔
55 )’’واہ کیا بات ہے عاشقِ قرآن کی‘‘
حضرتِ ثابِت بُنانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روزانہ ایک بار مکمل قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہمیشہ دن کوروزہ رکھتے اورساری رات عبادت فرماتے ، جس مسجِد سے گزر تے اس میں دو رَکعت نفل نماز ضَرور پڑھتے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےاپنی مسجِد کے ہرسُتُون(column) کے پاس مکمل قرآن پاک کی تلاوت فرمائی اور اللہ پاک سے رو رو کر دعا بھی کی تھی ۔ نَماز اور قرآنِ پاک کی تلاوت کے ساتھ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بہت زیادہ مَحَبَّتتھی،اللہ پاک نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پر ایسا کرم کیا کہ حیرت ہوتی ہے چُنانچِہ انتقال کے بعد، جب ان کو قبر میں دفن کر رہے تھے تو قبر کی ایک اینٹ(brick) اندر کی طرف گر گئی،جب اُس اینٹ کوا ُٹھانے کے لیے لوگ جھکےتو یہ دیکھ کر حیران رَہ گئے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ قَبْر میں کھڑے ہو کرنَماز پڑھ رہے ہیں ! آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے گھر والوں سے جب معلوم کیا گیا تو آپ کی بیٹی نے بتایا : والد صاحب روزانہ دُعا کیا کرتے تھے: یا اللّٰہ! اگرتُو کسی کو وفات کے بعد قَبْر میں نَماز پڑھنے کی اجازت دے تو مجھے بھی دینا۔ کہا جاتا ہے: جب بھی لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزار مُبارک کے قریب سے گزرتے تو قَبْر شریف سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز آرہی ہوتی۔(حِلیۃُ الاولیا ء ج۲ ص۳۶۲۔۳۶۶ مُلتَقطاً دار الکتب العلمیۃ) اس سچے واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے والوں کا بہت بڑا مقام ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ پانچوں نمازیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ نفل نماز بھی پڑھیں اور خوب خوب قرآن ِ پاک کی تلاوت کریں۔ یہ باتیں بھی یاد رکھیں کہ ہمیں قرآن پاک صحیح پڑھنا، سیکھنا ہوگا، اسی طرح نماز کے مسائل سیکھنا بھی ضروری ہیں ۔سمجھدار بچوں اور مردوں کو مسجد میں امام صاحب کے پیچھے، جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔
56 ) ’’حضرت داود عَلَیْہِ السَّلَام کی آواز ‘‘
حضرت ِداتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :اللہ پاک نے حضرت داود عَلَیْہِ السَّلَام کوبہت خوبصورت آواز دی تھی کہ جب آپ (زبور شریف پڑھتے) اوراللہ پاک کی تسبیح بیان کرتے تھےتو آپ کی آواز سن کرچلتا ہوا پانی رُک جاتا تھا،جانور آپ کی مبارک آواز سن کر اپنےگھروں سےباہَر نکل آتے(اور آپ کےساتھ اللہ پاک کی تسبیح کرتے)تھے،اُڑتے پرندے گرپڑتے تھےاور کبھی ایک ایک مہینےتک بےہوش پڑے رہتے اور کھانا پینا بھول جاتے تھے،دودھ پینے والے بچے دودھ مانگنا چھوڑ دیتے اورکئی لوگ فوت ہوجاتےحتّٰی کہ ایک بار آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی خوبصورت آواز سن کر،ا للہ پاک کی محبّت میں بَہُت سارے لوگوں کا انتقال ہو گیا۔ شیطان یہ سب کچھ دیکھ کر پریشان ہورہا تھا اوراُسے بہت تکلیف ہو رہی تھی ۔اب شیطان نےلوگوں کو حضرت داود عَلَیْہِ السَّلَام کے پیارے کلام سے دور کرنے کے لیے بانسری(flute) وغیرہ بنائی اورحضرتِ داود عَلَیْہِ السَّلَام کے رحمتوں بھرے اجتماع کے سامنے اپنا گناہوں بھرا میلا لگا لیا یعنی موسیقی( گانے باجے) کا سلسلہ شروع کیا۔اب حضرتِ داود عَلَیْہِ السَّلَام کو سننے والے لوگ دو جگہ تقسیم(divide)ہوگئے، نیک اور خوش نصیب(lucky) لوگ حضرتِ داود عَلَیْہِ السَّلَام ہی کو سنتےتھےجبکہ بُرے اور بدنصیب(unlucky) لوگ گانے باجے سن کرا پنی آخرت خراب کرنے لگے۔( ماخوذ از کشف المحجوب ص۴۵۷ ) حضرت داود عَلَیْہِ السَّلَام کی خوبصورت آواز اورتسبیح کےبارے میں قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا(ترجمہ ۔Translation) : اور داؤد کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو تابع بنا(یعنی ساتھ کر)دیا کہ وہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے ( پارہ 17،سورۃ الانبیاء، آيت:۷۹)( ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں: پہاڑ اور پرندے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ ایسی تسبیح کرتے تھے کہ سننے والے ان کی تسبیح سنتے تھے ۔ورنہ درخت ا ور پتھر وغیرہ تواللہ پاک کی تسبیح کرتے ہی رہتے ہیں ۔ (نورالعرفان ص ۵۲۳ مُلخصاً) اس قرآنی واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک کا کلام سُننا بہت اچھا کام ہے اور اگر اللہ پاک کے کلام کو اچھے انداز میں پڑھا جائے تو اس سے سننے والوں کے دلوں کو سکون (calm)ملتا ہے ۔اوریہ بھی معلوم ہوا کہ گانے سُننا، باجے بجانا شیطانی کام ہیں اور ان کے ذریعے شیطان لوگوں کو اللہ پاک کے ذکر سے دور کرتا ہے اورگناہ کرواتاہے ۔ یہ بات یاد رہے قرآن پاک سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں وہ صرف انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو زبانی یاد ہوتی تھیں،لیکن یہ اللہ پاک کا کرم ہے کہ مسلمانوں کا بچّہ بچّہ قرآنِ کریم زبانی یاد کرلیتا ہے
57) ’’ آسمانی کتابیں ‘‘
{} اللہ پاک نے بعض نبیوں پر آسمانی کتابیں اور کئی صحیفے(یعنی تختیاں یا چھوٹی کتابیں) نازل فرمائیں جن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: (1)تَورات: حضرتِ موسٰی عَلَیْہِ السَّلَام پر (2)زَبُور: حضرتِ داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر (3)اِنجیل: حضرتِ عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام پر(4)قرآنِ کریم: ہمارے پیارے پیارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر {} اللہ پاک نے اپنے نبیوں پر جو کچھ نازل فرمایا سب پر ایمان لانا فرض ہے(خزائن العرفان، پ۱، بقرہ،تحت الآیۃ:۴) یعنی جو اللہ پاک نے اپنے نبیوں پرنازل فرمایا ہے بے شک وہ سب حق اور سچ ہےاور اللہ پاک کی طرف سے ہے۔(خزائن العرفان، پ۳، بقرہ،تحت الآیۃ:۲۸۵ ماخوذاً) {} بعض لوگ پہلے کے شاعِروں کی نظموں(poems) کو آسمانی کتاب کہہ دیتے ہیں، یہ بالکل غلط ہےا{}قرآنِ پاک سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں(جیسےتورات،زبور ،انجیل) ،ان کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری(responsibility)،اُنہی اُمتّوں(nations) کو دی گئی تھی،جن کے لیے وہ کتابیں نازل کی گئیں تھیں لیکن وہ ان کی حفاظت میں ناکام رہے۔ ان اُمتّوں میں سے بُرے لوگوں نے ان کتابوں میں تبدیلیاں(changes) کر دیں تاکہ جو غلط کام کرنا چاہیں کر لیں، سزائیں مٹادیں، غلط باتیں ڈال دیں وغیرہ، یہی وجہ ہے کہ آج زمین پر وہ کتابیں اپنی اصل حالت میں موجود نہیں۔
58)’’نور والے‘‘
اللہ پاک کے پیارے نبی مُحمّد عَرَبِی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو سب سے پہلے حضرتِ بی بی آمِنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے تقریباً 7دن دودھ پلایا پھر چند دن حضرتِ ثُوَیْبہ(ثُ۔وَیْ۔بَہْ) رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے،اس کے بعدسے حضرتِ بی بی حلیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے 2سال کی عمر تک دودھ پلایا ۔بی بی حلیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پیار ے پیارے مکّی مَدَنی نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بچپن شریف کے بارے میں فرماتی ہیں :ا للہ پاک کے پیارے حبیب حضرتِ محمد مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا پیار ا پیارا نور والا چِہرہ رات کے وقت اِتنا زیادہ چمکتاتھا کہ اُجالا کرنے کیلئے چَراغ (oil-lamp) جلانے کی ضَرورت نہ ہوتی ،ایک روزہماری پڑوسن مجھ سے کہنے لگی:اے حلیمہ!کیا آپ اپنے گھر میں رات کے وَقت آگ جلایا کرتی ہیں کہ ساری رات آپ کے گھر میں سے پیاری پیاری روشنی نظر آتی ہے ! بی بی حلیمہ فرماتی ہیں ،میں نے کہا:یہ آگ کی روشنی نہیں بلکہ حضرتِ مُحمّدمَدَنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے نور والے چہرے کی روشنی ہے۔(ماخوذاز:تفسیر الم نشرح ص ۱۰۷) اس حدیث شریف سے سیکھنے کوملا کہپیارے حبیب حضرتِ محمد مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نور والے ہیں۔ ہمارے حُضُور سلطانِ دوجہان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم بے شک انسان تو ہیں مگر نور والے انسان اور سارے انسانوں کے سردار ہیں۔ نور والا آیا ہے ہاں نور لے کر آیا ہے سارے عالَم میں یہ دیکھو کیسا نور چھایا ہے (نور والا چہرہ ص ۷ تا ۹)
59) ’’میرے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا مسُکرانا‘‘
اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سَحری کے وَقت کچھ سی رہی تھیں کہ اچانک سوئی گرگئی اور چَراغ بھی بُجھ گیا۔ اتنے میں رَحمت والے آقا،نور والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تشریف لے آئے۔ چہرہ مُبارکہ کی روشنی سے سارا گھر روشن ہوگیا حتی کہ سوئی مل گئی۔اُمُّ الْمؤمِنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کی: ’’یارسُولَاللہ (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم)! آپ کا چہرہ مُبارکہ کتنا روشن ہے ۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کیلئے ہَلاکت(یعنی تباہی) ہے جو مجھے قیامت کے دن نہ دیکھ سکے گا۔ عرض کی:وہ کون ہے جو آپ کو نہ دیکھ سکے گا۔فرمایا:وہ بَخیل (کنجوس)ہے۔پوچھا :’’ بَخیل کون؟‘‘ ارشاد فرمایا: جس نے میر انام سنا اور مجھ پر دُرُودِ پاک نہ پڑھا۔ (القول البدیع،الباب الثالث فی التحذیر من ترک الصلاۃ علیہ عندذکرہ، ص۳۰۲) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نور والے ہیں اور محروم ہے وہ شخص جو نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا نامِ مُبارک سنے مگر دردو پاک نہ پڑھے۔ یاد رہے! زندگی میں ایک بار درود شریف پڑھنا فرض ہے اور جس مجلس میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ذکر ہو وہاں ایک بار درود شریف پڑھنا واجب ہے،اگر مجلس میں پڑھ نہ سکے تو بعد میں لازمی پڑھیں بلکہ جب بھی، جتنی بار بھی ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ذکر ہو ، ہر مرتبہ درودِ پاک پڑھنا چاہیے۔(بہارِ شریعت ج۱، ح۳،ص۵۳۳ ماخوذاً)
60)’’ نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ‘‘
{} حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بشر( یعنی انسان ) بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں۔ظاہِری جسم شریف بشر ہے(یعنی آپ ظاہری طور پر انسان ہی ہیں) اور حقیقت نور ہے(رِسالۂ نورمع رسائل نعیمیہ، ص ۳۹) {} تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بَشَرِیَّت کا مُطَلْقاً انکار (یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ بشر ہیں ہی نہیں، یہ)کفر ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۴، ص ۳۵۸) {} بلکہ اِس میں شک کرنا بھی کفر ہے کہ نبیِّ رحمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کابَشَر ہونا قرآنِ پاک نے بتایا ہے( پ۱۶، الکھف: ۱۱۰)۔ ہاں اپنے جیسا بشر نہ کہے خیرُ البشر(بہترین انسان) یاسیِّدُ البشر(انسانوں کے سردار) کہے۔ ( کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ص۲۲۴ مُلخصاً) {} حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اپنے جیسا بشر یعنی ہماری طرح کا انسان یا بھائی کےبرابر کہنے والے یا کسی اور طرح حضور کا مرتبہ گھٹانے والے مسلمان نہیں، گمراہ ، بددین ہیں۔قرآنِ کریم میں جگہ جگہ کافروں کا یہ طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نبیوں کو اپنے جیسا بشر ( یعنی انسان) کہتے تھے اور اسی وجہ سے غیر مسلم گمراہی اور کفر میں پڑے۔(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنّت ص۱۰مُلخصاً){} حدیثوں سےسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا نور والا ہونا ثابت ہے۔حضرت سیّدنا جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے جب یہ پوچھا کہ اللہ پاک نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا فرمایا ہے؟ تو حضور پُرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اے جابر! اللہ پاک نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔( الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص ۶۳، حدیث:۱۸، مواھب لدنیہ،ج۱،ص۳۶)
61)’’درخت نے سلام کیا ‘‘
حضرت عَبْدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے فرمایا کہ ہم لوگ اللہ پاک کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک جگہ جارہے تھے کہ گاؤں میں رہنے والا ایک آدمی آپ کے پاس آیا،آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نے سوال کیا کہ کیا آپ کے نبی ہونے پر کوئی نشانی بھی ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں یہ درخت بتائے گا کہ میں اللہ پاک کا نبی ہوں۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس درخت کو بلایا اور وہ فوراً ہی اپنی جگہ سے چل کر آگیا اور سلام کیا ، کہا”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اﷲ“ پھر اس نے زور سے تین مرتبہ آپ کو اللہ پاک کانبی کہا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس کو اشارہ فرمایا تو وہ درخت زمین میں چلتا ہوا اپنی جگہ پر واپس چلاگیا۔اُس گاؤں والے نے کہا :یا رسول اﷲ!( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے پیارے پیارے ہاتھ پاؤں چوم لوں تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اسے اجازت دے دی۔ اُس نے آپ کے پیارے پیارے ہاتھ اور پاؤں کو بہت محبت کے ساتھ چوم لیا۔ (شرح الزرقانی علی المواهب،ج۶، ص۵۱۷ تا ۵۱۹ مع بیہقی مُلخصاً) اس روایت سے ہمیں معلوم ہوا کہ درخت بھی اللہ پاک کے نبی کو جانتے اور ان کا حکم مانتے ہیں۔ ہمیں بھی اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔
62) ’’یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم آپ کے صَدقے‘‘
حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن حُنیَف رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے راویت ہے کہ ایک نابینا صَحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے بارگاہِ رسالت میں حاضِرہو کر عَرْض کی: اللہ پاک سے دُعا کیجئے کہ وہ مجھے عافیَّت(یعنی سلامتی) دے۔ ارشاد فرمایا:’’ اگرتم چاہو تو میں دُعا کروں اور اگر چاہو تو صَبْر کرو اور یہ تمہارےلئے بہتر ہے۔‘‘انہوں نے عَرْض کی:حُضُور! دُعا فرمادیجئے ۔ انہیں حکم فرمایا کہ وُضو کرو اوراچّھا وُضو کرو اور دو رَکْعَت نَماز پڑھ کر یہ دُعا پڑھو:اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ اَتَوَسَّلُ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِط یَامُحَمَّدُ ۱ اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ ط اللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیّ ط اے اللہ میں تجھ سے سُوال کرتا ہوں اور وسیلہ (یعنی صَدَقَہ)پیش کرتا ہوں تیرے نبی محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا جو نبیِّ رَحمت ہیں اور تیری طرف توجّہ کرتا ہوں ۔ یَامُحَمَّد( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم)!میں آپ کے ذَرِیعے سے اپنے ربّ کی طرف اپنی ضرورت پیش کرتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو۔یا اللہ! ان کی شَفاعت میرے حق میں قَبول فرما۔حضرت عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں :’’ خدا پاک کی قسم ! ہم اُٹھنے بھی نہ پائے تھے ،باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہ ہمارے پاس آئے گویا کبھی نابینا ہی نہیں تھے!‘‘( ابنِ ماجہ ج ۲ ص ۱۵۶ حدیث ۱۳۸۵،تِرمذی ج۵ص۳۳۶حدیث۳۵۸۹،اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج ۹ ص ۳۰ حدیث ۸۳۱۱ ) نوٹ: {}حدیث کی کتابوں میں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے اس دنیا سے انتقال ظاہری فرمانے کے بعد بھی لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا فرمایا کرتے تھے۔(مجمع الزوائد،کتاب الصلاة، باب صلاة الحاجة ، ۲/۵۶۵،حدیث:۳۶۶۸) {}پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اس دعا میں ’’یَا محمد‘‘(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کے الفاظ ارشاد فرمائےمگر بزرگانِ دین نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ادب سکھایا ہے کہ ہم یا رسولَ اللہ (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کہیں گے( فتاویٰ رضویہ ج ۳۰ ص۱۵۶،۱۵۷ ماخوذاً) اس حدیث شریف سے یہ سیکھنے کو ملا کہ اللہ پاک کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو یارسول اللہ کہنا اور اللہ پاک کو اُن کا وسیلہ اور واسطہ دینا،صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا طریقہ ہے بلکہ خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے یہ طریقہ بتایا ہے۔
63) ’’ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ‘‘
{}کسی کو پکارنے کے لیے عربی زبان میں’’یَا ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے یا عبد اللہ (اے اللہ کے بندے) {} الصلوۃ علیک یا رسول اللہ کہنا جائز اور مستحب(یعنی ثواب کا کام) ہے {} اللہ پاک کی عطا سےانبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام حیات ہیں جیسا کہ حدیث پاک میں ہے''ا للہ پاک نے زمین پر حرام کر دیا کہ وہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے جسموں کو کھائے، اللہ پاک کے نبی زندہ ہیں،رزق(روزی) دیے جاتے ہیں'' ۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، الحدیث: ۱۶۳۷، ج۲، ص۲۹۱){} حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے خود ایک نابینا صَحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ایسی دعا سکھائی کہ جس میں آپ کو’’یَا ‘‘کےساتھپکارا جائے( ) ( ابنِ ماجہ ج ۲ ص ۱۵۶ حدیث ۱۳۸۵،تِرمذی ج۵ص۳۳۶حدیث۳۵۸۹،اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج ۹ ص ۳۰ حدیث ۸۳۱۱ ){} یہ دعا، اُن صحابی یا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی زندگی کے لیے خاص نہیں، آج بھی اس سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔’’طَبَرانی ‘‘میں ہے: ایک شخص اپنی کسی ضرورت کو لے کر حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی خدمتِ اَقدَس میں حاضِرہواآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا : وُضُو کرو پھر مسجِد میں دورَکْعت نَماز ادا کرو پھر یہ دعا مانگو: (یہاں وُہی دعا بتائی جو ابھی گزری) اورفرمایا(اس دعا کےآخِری لفظ) حَاجَتِیْ کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لینا۔وہ آدَمی چلا گیا اور جیسا اس کو کہا گیا تھا اس نے ویساہی کیااور اس کی حاجت پوری ہوگئی(اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۹ص۳۰ حدیث۸۳۱۱ مُلَخَّصاً)
64)’’کھجور خود آگئی ‘‘
ایک گاؤں میں رہنے والاحضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کہ مجھے یہ کیسے یقین ہو کہ آپ اللہ پاک کےنبی ہیں؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےفرمایا کہ اس کھجور (dates)کے درخت پر جو کھجوریں ہیں اگر میں ان کو اپنے پاس بلاؤں اور وہ میرے پاس آ جائیں تو کیا تم میرے نبی ہونے پر ایمان لاؤ گے؟ اس نے کہا: ہاں بے شک میں آپ کوخدا کا رسول مان لوں گا۔ آپ نے کھجور وں کو بلایا تو وہ فوراً درخت سے اترآئیں اور آپ کے پاس آ گئیں پھر آپ نے حکم دیا تو وہ واپس جا کر درخت میں اپنی جگہ پر لگ گئیں۔ یہ دیکھ کر وہ گاؤں والا فوراً مسلمان ہوگیا۔(ترمذی،کتاب المناقب، جلد۵، ص۳۶۰، حدیث:۳۶۴۸۔سیرت مصطفٰے،ص۷۷۳ تا۷۷۴ مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں پتا چلا کہ اللہ پاک کے نبی کا حکم درخت بھی مانتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے حکم پر عمل کیا کریں۔
65 ) ’’پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے صحابی کی محبّت‘‘
ایک صحابی حضرت سیدنا ابوایوب انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ مدینہ پاک میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مبارک روضہ پر حاضر ہوئے اور پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی مبارک قبر پر اپنے گال (cheeks) رکھ دیئے۔مدینۂ منورہ کے گورنرمروان نے دیکھا تو کہا: کچھ خبر ہے،کہ آپ یہ کیا کررہے ہیں؟فرمایا :میں اینٹ،پتھر کےپاس نہیں آیا ہوں،(بلکہ) میں اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا ہوں۔ (المسندلامام احمد بن حنبل، الحدیث:۲۳۶۴۶، ج۹، ص۱۴۸) اس روایت سے معلوم ہواکہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے دنیا سے جانے کے بعد بھی پیارے آقا سے بہت زیادہ عشق ومحبت کرتے تھے اور آپ کا ادب ایسا ہی کرتے تھے جیسا کہ آپ جب صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کی نظروں کے سامنے ہوتے تھے۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکےدنیا سے جانے کےبعد صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم آپ کی مبارک قبر پرحاضر ہوتے اور برکتیں حاصل کرتے تھے ۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی تعظیم (respect) جس طرح اُس وقت فرض اورضروری تھی جب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم دنیا میں موجودتھے، اب بھی اُسی طرح فرض ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی کسی بات یا کام یا حالت کو جو نفرت کی نظر سےدیکھے گا وہ مسلمان نہیں رہے گا۔
66) ’’صحابہ کرام اور ’’اَیُّھاالنَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ‘‘ کا نعرہ‘‘
{} قرآنِ کریم میں بہت سی جگہوں پر اللّٰہ پاک نے حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو نداء فرمائی(یعنی پُکارا)۔ (یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ)، (یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ)،(یٰۤاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ)،( یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ) وغیرہ ان تمام آیات میں ’یا‘ کے ساتھ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے کلام (بات،گفتگو)کی گئی {} حضرت بَراء رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے جب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مکّے شریف سے مدینےپاک آئے توعورتیں اور مرد گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے گلیوں میں تھے، سب نعرے لگا رہے تھے(یعنی اونچی آواز سےکہہ رہے تھے )،ان میں ایک نعرہ: یَارَسُوْلَ اللّٰہ بھی تھا۔( صحیح مسلم،ص۱۶۰۸، حدیث:۲۰۰۹) {} حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی وفات شریف کے بعد بھی،صحابہ کرامرَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ کاآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو’’یَا ‘‘ کے ساتھ پُکارنا ثابت ہے جیساکہحضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے زمانے میں نبوّت کاجھوٹا دعویٰ کرنے والےمسیلمہ کذّاب کے خلاف مسلمانوں نے جنگ کی۔ اس جنگِ یمامہ میں مسلمانوں کا نعرہ ’’یَا مُحَمَّدَاہ‘‘ تھا (تاریخ الطبری،ج۲،ص۲۸۱){} حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کا پاؤں سو (یعنی سُن ہو) گیا، کسی نے کہا: انہیں یا د کیجیے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ حضرت نے بآوازِ بلند کہا: ’’یَامُحَمَّدَاہ‘‘ فوراً پاؤں ٹھیک ہو گیا۔(الشفاء، جزء۲،ص۲۳) نوٹ:ہم یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کہیں گے( فتاویٰ رضویہ ج ۳۰ ص۱۵۶،۱۵۷ ماخوذاً) {} ہر نماز کے تَشَہّد میں مسلمان التحیات پڑھتے ہیں اور التحیات میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو پکارا جاتا ہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَا تُہٗ بلکہ یہ پکارنا واجب ہے اور ہر عقلمند کے لیے یہی بات کافی ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۳،ص۶۸۴ماخوذاً)