’’ دین کی ضروری باتیں ‘‘(part 02b)

67 ) ’’سب سے پہلے انسان‘‘

حضرت ابوذَر غِفَاری رَضِیَ اللہ عَنْہ فرماتے ہیں:میں مسجد میں داخل ہوا تو پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم اکیلےمسجد میں تشریف فرماتھے۔میں آپ کےقریب بیٹھ گیاتو پیارےآقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا:’’ابوذَر!دو رکعت تَحِیَّۃُ الْمَسْجِد(یعنی مسجد میں داخل ہونےکے بعد پڑھی جانے والی نفل نماز )ادا کرلو۔‘‘ فرماتے ہیں:میں وہاں سے اٹھا نماز ادا کی اور پھر پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس آکر بیٹھ گیا پھرمیں نے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے( چند سوالات کیے ،ان میں یہ سوال بھی تھے،میں نے) عرض کی: انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام میں کتنے رسول ہیں ؟ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا: انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام میں 313 رسول ہیں۔ پھرعرض کی: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم !پہلے نبی کون ہیں ؟ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا: حضرت آدم(عَلَیْہِ السَّلَام)۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ! کیا وہ نبی ٔ مرسَل ہیں؟ ارشاد فرمایا:ہاں!اللہ پاک نے انہیں اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا (دست ہاتھ کو کہتے ہیں مگر اللہ پاک ہمارے ہاتھوں کی طرح کے ہاتھ سے پاک ہے یعنی اللہ پاک نے اپنی قدرت اور طاقت سے پیدا فرمایا)اورآپ کےجسم مبارک میں روح ڈالی (یعنی جان ڈالی ) ۔‘‘ )الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،الحدیث:۳۶۲ والمسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث:۲۱۵۵۶ و المعجم الکبیر،الحدیث:۱۶۵۱مُلتقتاً) اس حدیث شریف سے پتا چلا کہ انسانوں میں اللہ پا ک نے سب سے پہلےحضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو مٹی سے بنایا پھر آپ کے مبارک جسم میں روح پھونکی (یعنی آپ کےمبارک جسم میں جان ڈالی) ۔اورآج تک دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوئے اورہوں گے سب حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بعد ہوئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے دنیا میں اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے بہت سارے انبیاء اور رسول بھیجے ۔اوریہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام ہیں ۔

68 ) ’’سمجھدار چیونٹی(ant) ‘‘

ایک مرتبہ اللہ پاک کے نبی حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام بہت بڑا لشکر trops) یعنی بہت سارے لوگوں کو) لے کرایک جگہ سے گزرے جہاں بہت زیادہ چیونٹیاںants) تھیں،لشکر کو دیکھ کر چیونٹیوں کی ملکہ (queen )نے تمام چیونٹیوں سے کہا: اے چیونٹیو! تم سب اپنے گھروں میں چلی جاؤ کہیں حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کا لشکر تمھارے اوپر چل نہ پڑے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔ ’’سمجھ دار چیونٹی‘‘(ant) کی یہ بات حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے تین (3)میل( miles three)دور سے سن لی اور مسکرا ئے (smiled)پھر اپنے لشکر کو روک دیا تاکہ چیونٹیاں اپنے گھروں میں چلی جائیں۔اللہ پاک نے اس واقعے کو قرآنِ پاک میں اس طرح بیان فرمایا ہے،( ترجمہ۔ Translation : )یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی پر آئے توایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو!اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ، کہیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں ۔ (پ۱۹،النمل:۱۸، ۱۹) (ترجمہ کنز العرفان) اس قرآنی واقعے سےیہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک نے اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو یہ طاقت دی ہے کہ انہوں نے تین میل دور سے چیونٹی کی ہلکی آواز کو بھی سن لیا ۔آپ غور (consider) کیجئے کہ جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی سننے کی طاقت اتنی ہے تو پھر تمام نبیوں کے سرداراور ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سننے اور دیکھنے کی طاقت کیسی ہوگی؟ دوسری بات یہ پتا چلی کہ ایک چیونٹی بھی جانتی ہے کہاللہ پاك کے نبی کسی پر ظلم نہیں کرتے اس لیے اُس نے دوسری چیونٹیوں سے کہا کہ”اپنے گھروں میں چلی جاؤ ،ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کوپتہ بھی نہ چلے اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کا لشکر تمھارے اوپر چل پڑے۔ “ تیسری بات یہ پتا چلی کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام ظلم نہیں کرتے بلکہ جانوروں پر بھی رحم فرماتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی جانوروں(animals) پر رحم کرنا چاہیے۔

69) ’’اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ‘‘

{} اللہ پاک نے دنیا والوں کی ہِدایت و راہنمائی اوران تک اپنا پیغام پہنچانے کےلئے مختلف وقتوں میں اپنے پسندیدہ بندے دنیا میں بھیجے جنہیں ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ کہا جاتا ہے {} اللہ پاک پر لازم نہیں تھا کہ نبیوں کو بھیجتا، اُس نے صرف اپنے فضل و کرم سے دنیا میں نبیوں کو بھیجا {} نبی وہی ہے کہ جس کی طرف اللہ پاک کی جانب سے وحی نازل ہو، چاہے کوئی فرشتہ وحی لے کر آئے یا بغیر کسی واسطے کے (direct) وحی نازل ہو {} نبیوں پر جو وحی نازل ہوتی ہے وہ کسی عام شخص پر ہرگز نازل نہیں ہو سکتی {} نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، یعنی نبی کا خواب جھوٹا ہونا ممکن نہیں {} اللہ پاک نے جتنے بھی نبی بھیجے وہ سب انسان اور مرد تھے، کوئی بھی جن یا عورت نبی نہیں ہوا{} انسان اپنی کوشش یا بہت زیادہ عبادت کے ذریعے نبی نہیں بن سکتا{} اللہ پاک صرف اپنے کرم سے جسے چاہتا ہے نبی بنادیتا ہے {} ایک بار کوئی نبی بن جائے تو ہمیشہ نبی رہتا ہے، اس سے کبھی بھی نبوت واپس نہیں لی جاتی {} اللہ پاک نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور ہمارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے درمیان بہت سےنبیوں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجا {} قرآن کریم میں کئی نبیوں کا واضح طور پر نامِ مبُارَک آیا ہے۔ جیسے: حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ نوح عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ اِبراہیم عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ اِسحاق عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ یوسُف عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ موسٰی عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ ہارون عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ شعیب عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ لُوط عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ ہُود عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ داؤد عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ ایّوب عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ زکریّا عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ اِلیاس عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ یَسَع عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ یونُس عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ اِدریس عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ ذُو الْکِفْل عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ صالِح عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ عُزَیر عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرتِ محمّدِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (ماخوذ از بہار شریعت، جلد۱، ص۲۸ تا ۵۸، ہمارا سلام، ص ۴۸ تا۵۴ مُلخصاً)

70 ) ’’روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں ‘‘

ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے حضرت بلال رَضِیَ اللہُ عَنْہ سےفرمایا:اے بلال! آؤ ناشتہ کریں۔ تو حضرت بلال رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی:میں روزے سے ہوں۔یہ سن کر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا:ہم اپنا رزق(sustenance)کھارہے ہیں اور بلال کا رزق جنت میں بڑھ رہا ہے۔پھر فرمایا :اے بلال! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جتنی دیر تک روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتاہے تواس کی ہڈیا ں (bones) تسبیح کرتی ہیں اور فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں ۔(ابن ماجہ،۲/۳۴۸،حدیث:۱۷۴۹) اس حدیث ِ مُبارک سے یہ سیکھنے کو ملاکہ روزہ رکھنا کتنی اچھی بات ہے کہ اس سے ہمیں کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں جن میں سےدو یہ ہیں :(1)ہڈیاں تسبیح کرتی (bones glorify Allah) (2)فرشتے ، اللہ پاک سے روزہ رکھنےوالے کی بخشش(forgiveness) کی دعا کرتے ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ روزے کو اُس کے آداب کے مطابق پورا کریں یعنی روزے کے مسائل اور آداب سیکھیں اور ان پر عمل بھی کریں۔ نہ صرف رمضان المبارک کے روزے رکھیں بلکہ نفل روزے رکھنے کی بھی کوشش کریں۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی،حضرتِ بلالرَضِیَ اللہُ عَنْہ پہلے ایک غلام (slave)تھے( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”بلال“ہے۔(حلیۃ الاولیاء،بلال بن رباح، ۱/۲۰۰،ملخصاً ) مؤذنِ رسول اورسَیّدُالْمُؤذِّنِیْن(یعنی اذان دینے والوں کے سردار)کے القاب(titles) سےمشہور ہیں ۔ (معجم کبیر،۵/۲۰۹، حدیث :۵۱۱۹) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا انتقال 20سنِ ہجری میں ہوا۔(ابن عساکر،رقم:۹۷۴،بلال بن رباح،۱۰/۴۴۵) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا: انبیاء اور شہیدوں کےبعدسب سے پہلےبلالِ حبشی کوجنّتی لباس پہنایا جائےگا۔ (ابن عساکر،رقم: ۹۷۴،بلال بن رباح، ۱۰/۴۵۹،حدیث:۲۶۵۵، ملتقطاً)

71 ) ’’شَیْطان نے نَماز کے لیے جگایا ! ‘‘

سردارِ مکّہ،سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ایک مشہور صحابی اپنے گھر میں سورہے تھے، اچانک آپ کو کسی نے اُٹھایا، آنکھ کھول کر جب دیکھا تو جگانے والا نظر نہیں آیا، اُس وقت آپ نے فرمایا: کون ہے؟ اور تیرا نام کیا ہے ؟ یہ سن کر شیطان نے کہا: میرانام ’’اِبلیس‘‘ ہے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے حیران(surprised) ہو کر اس سے فرمایا : ابلیس کا کام تو مسلمان کو سُلا کر اُس کی نماز قضا کرادینا ہے تو اگر اِبلیس ہے تو پھر تو نے مجھے نماز کے لیے کیوں جگایا ؟ تیرا کام تو ہے نماز چھڑانا، نماز پڑھاناتیرا کام ہی نہیں ۔ یہ سن کر ابلیس نے کہا کہ میں نے اس لیے جگادیا کہ اگر اس وقت کی نماز فوت ہوجاتی تو آپ خوب افسوس کرتے اور دل سے روتے۔ اِس رونے کی وجہ سے، اللہ پاک آپ کو دو سو رَکعت نماز وں سے بھی زیادہ ثواب دےدیتا! لہٰذا میں نے آپ کو نماز کے لیے جگادیا ہے تاکہ آپ کا ثواب زیادہ نہ ہوجائے۔ (مثنوی معنوی مع تفسیر عرفانی مثنوی معنوی ج۲دفتر دوم ص۳۲۸۔ ۳۴۸ملخّصاً) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ شیطان ہمارا بہت بڑا دشمن ہے۔اس لیے ہمیں شیطان کے وسوسوں کا علاج کرنے کی کس قدر ضرورت ہے؟اس کے لیے اَمِیْرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رِسالے ”وسوسے اور ان کا علاج“ کو پڑھ لیجئے۔ تَعَارُف (Introduction): وہ جنّتی صحابی،عاشقِ نماز، کاتبِ وحی(یعنی اللہ پاک کے پیغام کو لکھنے والے) ، صحابی ابن ِ صحابی حضرتِ امیرمُعاوِیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ تھے اور ان کو نماز سے کیسی محبّت تھی۔ حضرتِ امیر مُعاوِیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ خود صحابی، والد محترم بھی صحابی ، امّی جان صحابِیہ اور پیاری بہن اُمِّ حبیبہ نہ صرف صَحابیہ بلکہ اللہ پاک کے کرم سے ’’ اُمُّ الْمؤمِنین ‘‘ اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی زوجہ (wife)بھی تھیں( رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)۔ حضرتامیرِمُعاوِیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے پاس اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا کُرتامبارک، ایک چادر، ناخن شریف اور چند موئے مبارک (یعنی بال شریف)وغیرہ تھے۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے وفات کے وقت وصیَّت فرمائی کہ میری وفات کے بعد ان مُبارک کپڑوں میں مجھے کفن دیا جائے اور ناخن شریف و موئے مبارَک میرے منہ اور ناک پر رکھ دیے جائیں پھر مجھے دفن کر دیا جائے۔ ( ابن عسا کر ج ۵۹ ص ۲۲۹) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: بخاری شریف میں ہے کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو سمندر میں غزوہ کرے گا، انہوں نے (جنّت)واجب کر لی۔ (بخاری ج۲ص۲۸۸حدیث ۲۹۲۴)اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : یہ حدیث حضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے جنّتی ہونے کی گواہی دیتی ہے۔یہ غزوہ حضرتِ عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے زمانے(time)میں ہوا اور حضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اس کے اَمیر (یعنی سردار) تھے۔ لہٰذا ثابت ہوا آپ ان لوگوں میں سے ہیں ، جن کے لیے جنّت واجب ہوئی اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ توان کے امیر(یعنی سردار) تھے۔ (تعلیقات الامام اہل السنۃ علی العلل المتناہیۃ ص۵ مخطوط)

72) ’’قرآن وحدیث اور صحابہ کرامرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ‘‘

قرآنی آیتوں ا ور حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ: {} تمام صحابہ جنّتی ہیں {} اللہ پاک ان سب سے راضی ہے اور یہ خدا سے راضی ہیں {} ان کے لئے جنّت کے باغات ہیں {} یہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے رفیق(یعنی ساتھی) ہیں {} غیر مسلموں کے مُقابلے میں سخت اور آپس میں نرم دل {} عبادت ، رکوع اور سجدوں کا شوق رکھنے والے {} اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے والے کام کرتے ہیں {} نورانی چہروں والے {} پاک دل والے{} پاک سیرت(یعنی اچھے اخلاق)والے{}حکمت والے ہیں{} ان کا ایمان معیار(standard)ہے {} راہِ خدا میں جان، مال، گھربار قربان کرنے والے {} مؤمنوں کے مددگار {} سچّے ایمان والے {} خدا کی طرف سے مغفرت اور عزّت والے رزق کے حقدار(entitled) ہیں {} اُمت میں سب سے افضل {} ان کی مَحبت، نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مَحبت {} ان سے نفرت، نبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نفرت {} انہیں تکلیف دینا، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو تکلیف دینا ہے {} ان کی تعظیم(respect) فرض ہے{} ان کی توہین (insult)حرام ہے اور ان کے گستاخ، اللہ پاک کی گرفت کا شکار ہوں گے۔(ماہنامہ فیضانِ مدینہ رجب المرجب ۱۴۴۰ھ،اپریل ۲۰۱۹، ماخوذاً)

73) ’’نمازتو ایسے پڑھنی چاہیے! ‘‘

حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَابہت توجہ کے ساتھ(یعنی اچھے انداز سے) نماز پڑھتے تھے۔ایک مرتبہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور قریب ہی آپ کا بچّہ تھا، چھت سے ایک سانپ اُس کے قریب گر پڑا۔ لوگوں نے ”سانپ سانپ“کہہ کر شور مچایا اور آخر کار اس سانپ کو ماردیا۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے۔ (سیر اعلام النبلاء ، ۴/۴۶۴) یعنی نماز اس طرح پڑھتے تھے کہ لوگوں کےشور وغیرہ کا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ یہ سچا واقعہ ہمیں درس دیتا ہے کہ ہمیں نماز پوری توجہ کے ساتھ ادا کرنے کی عادت بنانی چاہیے ۔یہی انداز ہمیں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی زندگی سے ملتا ہے ۔ یہ دینی مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ رسول اﷲ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایاکہ :نماز میں دو کالی چیزوں سانپ (snake)اور بچھو (scorpian) کو قتل کردو (احمد،ابوداؤد)عُلماء فرماتے ہیں: اگر نمازی ، نماز میں سانپ یا بچھو دیکھے تو اسے مار سکتا ہے۔(اگر اس طرح مارا کہ نماز ٹوٹ گئی تو نماز) دوبارہ پڑھنی ہوگی مگر یہ شخص نماز توڑ نے کی وجہ سے گنہگار نہ ہوگا۔(مُلخصاً مراۃ، جلد۲، ص۲۲۹) تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی،حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پھوپھی (یعنی والد صاحب کی بہن)حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا کے بیٹےاور حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے داماد(یعنی آپ کی بیٹی ،ان کی بیوی) ہیں۔ (کرامات صحابہ، ص۱۲۰) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہجرتِ مدینہ کے موقع پر پیدا ہوئے ۔ آپ کے والددنیا میں جنّت کی بشارت پانے والے صحابی حضرت زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور والدہ”حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ہیں ۔آپ بہت بہادر اور نماز و روزہ سے محبت کرنے والے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن زُبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہسترہ(17 ) جُمادی الاولیٰ 73سنِ ہجری کوشہید ہوئے۔(تہذیب الاسماء،۱/۳۷۴،طبقات الکبریٰ،۸/۲۰۱)

74 ) ’’اللہ کا کرم ہوگیا‘‘

حضرت ِ عبدُالرّحٰمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہ بہت امیر صحابی تھے۔ہجرت (یعنی مکّہ شریف سے مدینہ پاک جانے)کا حکم ملنے کے بعد جب حضرت ِ عبدُالرّحٰمن رَضِیَ اللہُ عَنْہ مکّہ پاک میں اپناسب مال چھوڑ کر خالی ہاتھ مدینہ شریف میں پہنچےتو پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے دوسرے مہاجرین (مکّے شریف سے مدینہ پاک آنے والے صحابہ) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی طرح ان کا بھی ایک انصاری (مدینے پاک میں رہنے والے)صحابی حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ساتھ بھائی چارے (brotherhood)کا تعلق بنا دیا(یعنی اب یہ دونوں ساتھ رہیں گے)۔ حضرت سعد بن ربیع انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ مال دارتھے،آپ نے اپنے مہاجر بھائی حضرت عبدُالرّحٰمن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےلیےاپنا آدھا مال دے دیا۔حضرت عبدُالرّحٰمن رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنے بھائی کی اس پیشکش (offer)سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اورفرمایا: ’’اللہ آپ کو برکت دے، میں آپ کے مال سے کچھ نہ لوں گا، بس آپ مجھے بازار کا راستہ بتا دیں۔‘‘ یعنی میں خود اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کمانا چاہتا ہوں۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےآپ کو بازار کا راستہ بتایا،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے گھی اورپنیر (cheese)کا کاروبار شروع کر دیا تو اللہ پاک نے آپ کے مال میں برکت پیدافرما دی۔(بخاری، حدیث:۲۰۴۸، ج۲/۴ ملتقطاً) اور آپ پھر امیر (rich)ہوگئے۔ اس حدیثِ پاک سےیہ سیکھنے کوملا کہ ہمیں ہر حال میں اللہ پاک پر یقین رکھنا چاہیے جیسا کہ حضرت عبدُالرّحٰمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے کیا۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی،حضرت عبدُالرّحٰمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی والدہ کانام” حضرت شفا بنتِ عَوف رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا “ ہے۔ حضرتِ عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہ ،عمر میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے تقریباً دس سال چھوٹے تھے۔(طبقات ابن سعد،۳/۹۲) آپ کا انتقال 31یا32 سنِ ہجری میں ہوا، انتقال کے وقت آپ کی عمر72 یا 75 سال تھی۔(معجم کبیر، حدیث:۲۶۲ ، ج۱، ص۱۲۸) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اُن دس صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک ہیں کہ جنہیں ایک ساتھ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جنّت کی خوشخبری سنائی۔ جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےخودحضرت عبدُالرّحٰمن رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرمایا: اے عبدُالرّحٰمن بن عوف!تم دنیاوآخرت میں میرے دوست ہو۔( مسلم بشرح النووی،جزء:۳،۲/۱۷۲)

75 )’’اُمت میں سب سے افضل‘‘

{}صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی تو کیا شان ہے، اللہ پاک فرماتا ہے ۔ترجمہ (Translation) :تم کہو سب خوبیاں اللہ کواور سلام اُس کے چنے ہوئے (selected) بندوں پر۔(پ۱۹،النمل:۵۹)حضرتِ عبداللہ بنِ عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے فرمایا کہ چُنے ہوئے بندوں سے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے صحابہ مراد ہیں ۔ (خزائن العرفان،پ۱۹،النمل،تحت الآیۃ:۵۹) {}صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی تو کیا شان ہے،ان کے بارے میں نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں(stars)کی طرح ہیں ان میں سے جس کے پیچھے چلو گے راہ(path) پاؤ گے۔ (مشکوۃ المصابیح ، کتاب المناقب ، باب مناقب الصحابۃ، الفصل الثالث، ۲/۴۱۴، حدیث:۶۰۱۸){}صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا امّت میں سب سے افضل ہونا، نبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے یوں بیان فرمایا:”میرےصحابہ کو بُرا بھلا نہ کہو، اگر تم میں سے کوئی(شخص) اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کے ایک مُد (ایک پیمانہ،اس scale) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس مُد کے آدھے کو۔“ (بخاری،۲/۵۲۲،حدیث:۳۶۷۳) {} صحابہ سے مَحبّت رکھنا، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے محبت رکھنا ہے{}ان سے نفرت رکھنا، پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نفرت کرنا ہے {} ان کے بارے میں دل و زبان سنبھالنے کا حکم ہے۔فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :”میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو طعن و تشنیع ( یعنی اعتراضات وغیرہ) کا نشانہ نہ بنا لینا۔ پس جس شخص نے ان سے مَحبت کی تو اس نے میری مَحبت کی وجہ سے ان سے مَحبت کی اور جس نے ان سے بُغْض (یعنی نفرت کا معاملہ) رکھا تو اس نے میرے بُغْض کی وجہ سے بُغْض رکھا اور جس نے انہیں اِیذا(یعنی تکلیف) پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے اِیذا پہنچائی اور جس نے مجھے اِیذا (یعنی تکلیف) پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی اور جس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔“( ترمذی، ۵/۴۶۳، حدیث:۳۸۸۸)

76) ’’بارش شروع ہوگئی‘‘

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے زمانے(time) میں مدینہ منورہ میں شدیدقحط(famine) پڑگیا(یعنی بارشیں نہ ہونے کے سبب کھانے پینے کی چیزوں کی بہت کمی ہوگئی )اوراس کی وجہ سے عرب والےپریشان ہوگئے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ لوگوں کو جمع کرکےمدینہ منورہ سے باہر ایک میدان میں لے گئے ان میں حضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےایسےصحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ بھی موجود تھے کہ جن کا مرتبہ (rank)بہت بڑا تھا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےاپنے ہاتھ سے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا ہاتھ لیا اور ان کو اپنے آگے کھڑا کرکے اللہ پاک سے یوں دعا کی: یااللہ! پہلے جب ہم بارش وغیرہ کی کمی کا شکار ہوتے تھے تو تیرے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو وسیلہ بناکر(یعنی آپ کے صدقے سے) بارش کی دعا مانگتے تھے اور تو ہم کو بارش عطا فرماتا تھا مگر آج ہم تیرے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چچا کو وسیلہ بناکر دعا مانگتے ہیں لہٰذا تو ہمیں بارش عطا فرمادےپھر حضرت عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےبھی دعا کےلئے ہاتھ اٹھادئیےتو چاروں طرف بادل آگئےاور اسی وقت اتنی بارش ہوئی کہ لوگ(گوں)کے گھٹنوں (knees) تک پانی آگیا اور وہ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ چند لوگ خوشی اورمحبّت سےحضرت عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی چادر کو چومنے لگے اور کچھ لوگ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےجسم مبارک پر ہاتھ لگا کر برکتیں حاصل کرنے لگے۔ (بخاری، ۲/۵۳۷، رقم: ۳۷۱۰،مستدک للحاکم،۴/۴۰۰،رقم:۵۴۸۹وغیرہ) اس سچے واقعے سے ہمیں یہ سیکھنے کوملا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور اُن سے تعلق رکھنے والوں کے وسیلے اور صدقے سے دعا کرنا صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا طریقہ ہے ۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی،حضرت عباس بن عبدُالمطلب رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ،خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےچچا ہیں۔ اسلام لانے سے پہلے اور بعد میں بھی مکہ میں آنے والے حاجیوں کو آبِ زم زم پلاتے تھے۔(اسد الغابہ، ۳/۱۶۳، الثقات لابن حبان،۱/۱۸) حضرت عباس عمر میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے تین سال بڑے تھے۔ایک بارکسی نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ آپ نے بہت خوبصورت اور محبّت بھری بات کہی: کہ بڑے تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہی ہیں مگر میں پہلے پیدا ہوا ہوں ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،۸/۴۸، رقم:۶۵ملخصا وغیرہ) انتقال کے وقت آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنے بیٹے حضرت عبدُ اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو چند نصیحتیں کیں پھر اپنا منہ کعبۃُ اللہ شریف کی طرف کرتے ہوئے کلمہ شریف پڑھااورآپ کا انتقال ہوا ۔(تاریخ ابن عساکر،۲۶/۳۷۷،۳۷۶) آپ کا انتقال اٹھاسی (88)سال کی عمر میں سن 32سنِ ہجری رجب یا رمضان المبارک کے مہینےمیں جمعہ کے بابرکت دن 12 تاریخ کو ہوا۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔ (الاستیعاب، ۲/۳۶۲،۳۶۱) حضور کے چچا رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے تھےکہ جس نے انہیں (یعنی حضرت عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو) تکلیف پہنچائی اس نے مجھےتکلیف پہنچائی کیونکہ آدمی کا چچا باپ کی طرح ہوتا ہے۔ (ترمذی ،۵/۴۲۲،حدیث:۳۷۸۳،مسند احمد،۶/۱۶۴،حدیث:۱۷۵۲۴)

77)’’سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے محبت‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےچچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اسلام قبول کرنے سے پہلےبھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے بہت محبت کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت حمزہ شکار کے لیے گئے ہوئے تھے ابو جہل نے کعبہ شریف میں حضورِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت زیادہ برا بھلا کہا جب آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ شکار سے واپس گھر آئے تو آپ کی بیوی نے بتایا کہ اگر آپ کچھ دیر پہلےآتے تو ا پنی آنکھوں سے دیکھ لیتے کہ ابو جہل آپ کےبھتیجے (یعنی بھائی کے بیٹے)کے ساتھ کیاکیا کر رہا تھا۔یہ سنتے ہی آپ غصے میں آگئے اورکمان (bow)ہاتھ میں پکڑےابو جہل کے پاس پہنچے اور ابو جہل کے سَر پر اس زور کےساتھ کمان ماری کہ اس کا سر پَھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمانے لگے: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہےمیں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں،اب میں ان کےبارے میں کوئی بات نہ سنوں،اگرتم سچے ہوتو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔(معجم کبیر، ۳/۱۴۰،حدیث: ۲۹۲۶) ابو جہل کہنے لگا:غلطی میری ہی ہے کہ آج میں نے آپ کے بھتیجے (یعنی بھائی کے بیٹے)کو بہت برا بھلا کہا تھا۔(سیرۃ ابن ہشام،ص۱۱۴) حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اپنی زبان سے اسلام لانےکی بات کہہ کر گھرواپس آئے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا:تم تو قریش کے سرداروں(chiefs) میں سے ہو، کیا تم اپنا دین بدل دو(change کر لو)گے؟ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی پوری رات بے چینی(restlessness) میں گزر ی، صبح ہوتے ہی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوئے اوراپنی پریشانی بتائی تو رحمت ِعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اسلام کا حق اورسچا ہونا آپ کو سمجھا دیا ،جس پر حضرت ِحمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ یہ کہنے لگے کہ میں دل سے گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔(مستدرک للحاکم، ۴/۱۹۵،حدیث:۴۹۳۰) اس حدیث شریف سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک جسے چاہتا ہے حق اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرماتا ہے۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی، حضرت امیرحمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ بہت ہی خوبصورت تھے ۔(تذکرۂ سید الشہداء، ص۱۷،۱۸ملخصاً) بہترین اخلاق والے اوربہترین سپاہی (soldier) تھے۔(کواکب سبعہ،ص۵۶)آپ 3 سنِ ہجری ماہِ شوال ،غزوہ اُحد میں شہید ہوئے اوروہیں آپ کا مزار شریف ہے۔ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شہدائے اُحد کی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے پھر حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق اور دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا بھی یہی عمل رہا جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہ تو یہاں آکر تین مرتبہ سلام کہا کرتے تھے۔( کتاب المغازی للواقدی، ۱۰/۳۰۰تا۳۱۳) ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اولیاء کرام کے مزارات پر حاضری دیں اورفاتحہ خوانی کے بعد ان کے درجات کی ترقی اوراپنے لیے مغفرت کی دعائیں کریں۔ یاد رہے! عورتوں کو قبرستان جانا منع ہے، بلکہ مزارات کی حاضری بھی منع ہے، صرف اور صرف نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے روضہ مبارکہ پر عورتوں کو حاضری کی اجازت ہے،(بلکہ واجب ہونے کے قریب ہے) اس کے علاوہ کسی بھی مزار یا قبرستان میں فاتحہ کے لیے عورتوں کو جانا منع ہے ، اجازت نہیں ہے، گھر سے ہی فاتحہ پڑھ کر اس کا ایصالِ ثواب کردیں ۔(تجہیز و تکفین کا طریقہ ص۲۹۸) حضور کے چچا رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: ایک صحابی نےپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کی:میرے ہاں لڑکا پیدا ہواہے میں اس کا کیا نام رکھوں؟ تو رحمت ِعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ اپنے چچا حمزہ سے محبت ہے لہٰذا انہیں کے نام پر اپنے بچّےکا نام (حمزہ)رکھو۔(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم،۲/۲۱،حدیث:۱۸۳۷،۱۸۳۹) آپ کی شہادت کی وجہ سے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت دکھ ہوا اور آپ نے فرمایا: اللہ پاک کی آپ پررحمت ہو کہ آپ رشتہ داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے اور نیک کاموں میں آگے آگے رہتے تھے۔ (معجم کبیر،۳/۱۴۳،حدیث:۲۹۳۷) اللہ پاک نےآگ پرہمیشہ کے لئے حرام کردیا ہے کہ وہ حضرت حمزہ کے جسم کے کسی حصے(part) کو جلائے۔(طبقات ابن سعد، ۳/۸) تقریبا46سال بعد حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی حکومت میں اُحد پہاڑکے درمیان سے ایک نہر کی کھدائی (digging)کے دوران اتفاق سے ایک شہید کےپاؤں میں بیلچہ(shovel) لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سےتازہ خون بہہ نکلا ۔ یہ شہید کوئی اور نہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے محترم چچا ،حضرتِ امیر حمزہرَضِیَ اللہُ عَنْہُ تھے۔ (طبقات ابن سعد، ۱/۸۷، الاستیعاب، ۱/۴۲۵)

78) ’’ اہلِ بیت اور ان کی فضیلت‘‘

اہل بیت : مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتےہیں: اہلِ بیت کے معنیٰ ہیں گھر والے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت کا لفظ چند معنیٰ میں آتا ہے: (1)جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے (2)حُضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد (3)حُضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے گھر میں رہنے والے جیسے اَزواج پاک۔ (یعنی مقدّس بیبیاں)۔ (مراٰۃ المناجیح، ۸/۴۵۰مُلخصاً) یعنی اہلِ بیت میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پاک بیبیاں، حضرت ِ مولیٰ علی اورسب اولادِ پاک شامل ہیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہم ۔ تفسیرِ خزائنُ العرفان میں ہے:حُضور سیّدِعالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبّت اور آپ کے اَقارِب (یعنی رشتہ داروں) کی محبّت دِین کے فرائض (یعنی ضروری باتوں)میں سے ہے۔(خزائنُ العرفان، پ۲۵،الشوریٰ، تحت الآیۃ:۲۳، ص۸۹۴) اہل بیت کی فضیلت: (1)اللہ پاک (کی خوشی) کے لیےمجھ سے محبّت کرو اور میری(خوشی) کے لیے میرے اہلِ بیت (یعنی میرے گھر والوں)سے محبت کرو۔( ترمذی، ۵/۴۳۴، حدیث:۳۸۱۴) (2)ہمارے اہلِ بیت سے بُغض(یعنی نفرت) رکھنے والے کو اللہ پاک جہنّم میں داخل کرے گا۔( مستدرک للحاکم، ۴/۱۳۱، حدیث:۴۷۷۱) (3)میری شفاعت میری اُمّت کے اس شخص کے لئے ہے جو میرےاہل بیت سے محبت رکھنے والا ہو۔( جامع صغیر، ص۳۰۱، حدیث:۴۸۹۴) (4)قیامت کے دن بندہ اس وقت تک اپنے قدم نہ ہٹا سکے گا جب تک اس سے چار باتوں کے بارے میں سوالات نہ کرلیے جائیں:(۱)عمر کن کاموں میں گزاری (۲)جسم کس طرح استعمال کیا (۳)مال کہاں خرچ کیا اور کہاں سے کمایا اور(۴) اہلِ بیت سے محبت رکھی؟( معجم کبیر، ۱ٍ۱/۸۳، حدیث:۱۱۱۷۷،مُلخصاً)

79) ’’قبر والوں سے گفتگو‘‘

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرما تے ہیں :ہم حضرتِ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ساتھ قبرِستان سے گزرے،آپ نے فرمایا: ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ وَرَحْمَۃُ اللہ یعنی اے قبر والو!تم پر سلامَتی اور اللہ پاک کی رَحمت ہو۔‘‘ پھر فرمایا: اے قَبْر والو!تم اپنے بارے میں بتاؤ گے یا ہم بتائیں ؟ وہ بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہم نے قَبْر سے ’’وَ عَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ‘‘ کی آواز سنی اور کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا: اے امیرُالْمُؤمِنِین!آپ ہی بتائیں کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوا؟ حضرتِ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا :سُن لو! تمہارے مال تقسیم (distributed)ہو گئے، تمہاری بیویوں نے دوسر ی شادیاں کر لیں ، تمہاری اَولاد یتیموں میں ہے ، جس مکان کو تم نے بہت مضبوط(durable) بنایا تھا ، اب اُس میں تمہارے دشمن رہتے ہیں۔ اب تم اپنا حال سناؤ۔ یہ سن کر ایک قَبْر سے آواز آنے لگی: اے امیرُالْمُؤمِنِین!ہمارے کفن پَھٹ گئے ، ہمارے بال جھڑ گئے، ہماری کھالیں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں ہماری آنکھیں باہرآ گئیں اور ہما ر ے جسم سے پِیپ(pus) نکل رہی ہے اور ہم نے جو کچھ آگے بھیجا(یعنی جیسے عمل کئے) اُسی کو پایا ، جو کچھ پیچھے چھو ڑا اُس میں نقصان ہوا۔ (شَرْحُ الصُّدُورص۲۰۹،ابن عَساکِر۲۷/۳۹۵ ) اس سچی حکایت سے پتاچلا کہ جب بھی قبرستان جائیں تو وہاں دفن کیے گئے مسلمانوں کو سلام کریں، وہ ہمارا سلام سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ ان کا جواب اللہ پاک کے نیک بندے بھی سن لیتے ہیں اور ان سے بات بھی کرلیتے ہیں۔یہ بھی پتہ چلا کہ جوبندہ نیک کام کر کے فوت ہوتا ہے،اُسے اُس کا فائدہ قبر میں بھی ملتا ہے۔ دنیا اچھی کرنے کے لیے جو مال جمع کیا ہوگا، قبر او ر قیامت میں اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تَعَارُف (Introduction): مسلمانوں کےچوتھےخلیفہ،جنّتی صحابی،اہلِ بیتِ مُصطفیٰ،قادریوں کے پیشوا،امیرُ المومنین حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہ عَنْہ مکّہ شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والِدۂ ماجدہ حضرت فاطِمہ بنتِ اَسَد رَضِیَ اللہُ عَنْہَانے آپ کا نام ’’حیدر‘‘رکھا،والِد نے آپ کا نام’’علی‘‘ رکھا۔ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے آپ کو ’’ اَسَدُ اللہ ‘‘ کا لقب(title) دیا، اس کے علاوہ’’شیرِ خدا ‘‘اور ’’مولا مشکل کُشا‘‘بھی آپ کے مشہور لقب ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ مکّی مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ (مراٰ ۃ المناجیح ج ۸ ص۴۱۲ وغیرہ ملخصا) اہلِ بیت نبی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: آپ کی کُنْیَت(kunyah)ابوالحسن اور ابو تراب ہے، تیرہ(13) رجب المرجب جمعہ کے دن مکّہ شریف میں پیدا ہوئے،دس(10)سال کی عمر میں ہی مسلمان ہوگئے تھے،پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس رہے،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہ عَنْہا سے آپ کا نکاح ہوااور حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنْہ کی جو اولاد حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہ عَنْہا سے ہوئی ، انہیں سید کہا جاتا ہے

80) ’’اللہ پاک سے مشورہ‘‘

ہماری پیاری امّی جان، اُمّ المؤمنین، حضرت زَیْنَب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے پاس حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہُ آئے اور کہا کہ تمہیں خوشی(یعنی مُبارک) ہو کہ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے تمہارے لیے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے کہا:میں اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتی جب تک کہ میں اپنے ربّ (یعنی اللہ پاک ) سے مشورہ نہ کرلوں ۔ پھر وہ اٹھیں اوراپنی نماز کی جگہ پر گئیں اور سجدہ کر کے اللہ پاک سے عرض کیا: اے اللہ! تیرے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مجھے چاہا ہے اگر میں ان کے لائق(یعنی قابل) ہوں تو تومجھے اُن کے نکاح میں دے دے۔ اسی وقت اُن کی دعا قبول ہوئی اور یہ آیت نازل ہوئی،ترجمہ (Translation) : ہم نے آپ کا اس کے ساتھ نکاح کردیا (ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۲،الاحزاب:۳۷) پھرآپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :کون ہے جو زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے پاس جائے اور انہیں خوشخبری دے کہ اللہ پاک نے ان کو میرے نکاح میں دے دیا ہے؟حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی خادمہ حضرت سلمی رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بھاگتی ہوئی گئیں اور حضرتِ زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو یہ خوشخبری (good news) سُنا دی ۔ یہ بات سنتے ہی حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اپنے زیورات (jewelry) اُتار کر حضرت سلمی رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو تحفے(gift)میں دےدیئے اور شکر انے کا سجدہ کیا پھر دو مہینے روزے سے رہنے کی نذر مانی(یعنی اپنے اوپر لازم کیا کہ وہ دو مہینے روزے رکھیں گی)۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۷) اس حدیث ِ مُبارک سے پتا چلا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ادب بہت ضروری ہے۔صحابیہ کو بھی خوف ( یعنی ڈر) تھا کہ کیا میں پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نکاح میں آ کر ان کا ادب کرسکتی ہوں یا نہیں؟ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نسبت(یعنی تعلق) رکھنے والی ہر چیز(مثلاً آپ کے فرمان، سنّت، مدینے پاک ) کا بہت زیادہ ادب (respect)کریں۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ زَیْنَب بنت جحش رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام بَرّہ تھا۔ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام بدل کر زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا رکھا۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۵) بُرّہ کے معنیٰ ہے نیک اور پرہیزگار، اپنے منہ سے اپنے آپ کو نیک کہنا یا اس طرح کے نام رکھنا، پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو پسند نہ تھا۔ اس وجہ سے اُمّ المؤمنین کا نام بدل دیا۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کیا:مجھے چند فضیلتیں(اچھی چیزیں ) ایسی ملی ہیں جوآپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی کسی اور زوجہ(یعنی بیوی) کو نہیں ملیں ۔ ایک یہ ہے کہ میرے جد ّ(یعنی دادا وغیرہ)اورآپ کے جد ّایک ہیں ،دوسرے یہ کہ میرا نکاح آسمان میں ہوا تیسرے یہ کہ اس نکاح کے معاملے میں جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام گواہ تھے۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۸) اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں :میں نے کوئی عورت حضرت زَیْنَب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے زیادہ نیک کام کرنے والی،صدقہ و خیرات کرنے والی،رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنے والی،اور اپنے آپ کوہرعبادت کے کام میں مصروف رکھنے والی نہیں دیکھی۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۸) ایک دن اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد تم (یعنی اُمھات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ) میں سے میری وہ زوجہ (یعنی بیوی) سب سے پہلے وفات پا کر مجھ سے ملے گی جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہے۔ یہ سن کر سب نے ایک لکڑی سے اپنا ہاتھ ناپا (measure کیا)تو حضرت سودہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا تھا لیکن جب حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد اُمھات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ میں سے سب سے پہلےہماری پیاری امّی جان ، حضرت زینب بنت جحش رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے وفات پائی تو اس وقت لوگوں کو پتا چلا کہ ہاتھ لمبا ہونے سے مراد صدقہ زیادہ کرنے والی تھا۔ کیونکہ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اپنے ہاتھ سے کچھ کام کرتی تھیں اور اس سے آنے والی رقم فقیروں پر صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۷۶ تا ۴۷۸ وغیرہ)

81) ’’ اہلِ بیت کی شان‘‘

حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی فضیلت پردو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (1)اَنَا دَارُالْحِکْمَۃِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اورعلی اس کا دروازہ ہیں۔(تِرمذی، ۵ /۴۰۲ حدیث:۳۷۴۴) (2)میں جس کا مولا (یعنی مدد کرنے والا یا دوست) ہوں علی(بھی) اُس کے مولا ہیں۔ (ترمذی، ۵/۳۹۸،حدیث: ۳۷۳۳) حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا کی فضیلت: (1)نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کااِرشاد ہے:فاطِمہ تمام جہانوں کی عورتوں اورسب جنّتی عورتوں کی سردار ہیں۔ (2) مزید فرمایا: فاطِمہ میرے جسم کا ٹکڑاہیں جس نے اِسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (1) ایک اور رِوایت میں ہے:جو چیز انہیں پریشان کرے وہ مجھے بھی پریشان کرتی ہے اور جو چیز انہیں تکلیف دے وہ مجھے تکلیف دیتی ہے۔ (مِشْکٰوۃُ الْمَصَابِیْح،کتاب المناقب، ج۲، ص۶۳۴، الحدیث :۹۳۱۶) امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی فضیلت: رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ وہ جنّتی جوانوں کےسردار کو دیکھے تو وہ حَسَن کو دیکھ لے۔(تاریخ ابن عساکر،۲۰۹ /۱۳) امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی فضیلت: رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے بارے میں فرمایا:حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ پاک اُس(شخص) سے محبت فرمائے جو حسین سے محبت کرے۔ (ابن ماجہ، باب فضل الحسن والحسین،۱/۵۱، حدیث:144)

82 ’’ایمان سب سے اہم ہے‘‘

’’فِرْعَون‘‘ کےستّر ہزار(70،000) جادوگروں نے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے مقابَلہ (competition) کیا۔ تمام جادوگر 300اونٹوں پر مختلف رَسِّیاں اور لکڑیاں لے کرآئے،جبکہ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے ہاتھ میں ایک عصا(یعنی لاٹھی) تھی ، جادوگروں نےاپنی رَسِّیاں اور لکڑیاں زمین پر ڈالیں تو پورا میدان بڑے بڑے سانپوں سے بھرا ہوا نظر آنے لگا ، دوسری طرف حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے ہاتھ میں موجود لاٹھی زمین پر ڈالی تو وہ ایک دَم اَژْدَھَا (بہت بڑا سانپ)بن گئی اور میدان میں نظر آنے والے تمام سانپوں کواُس لاٹھی نے کھا لیا،پھر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اُسے ہاتھ میں لیا تو وہ پہلے کی طرح لاٹھی بن گئی ۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا تو وہ سب حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لے آئے۔(صراط الجنان، ج۳، ص۴۰۳ملخصاً) حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَانے جب یہ دیکھا تو وہ بھی فوراً ایمان لے آئیں(یعنی مسلمان ہوگئیں)۔ جب فرعون کو پتاچلا تو اس ظالم نے ان پر بہت ظلم کیا اور حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَاکے ہاتھوں پیروں میں لوہے کی بہت بڑی بڑی کیلیں(nails) ٹھونک دیں کہ آپ ہل بھی نہ سکتی تھیں پھر آپ کو دھوپ میں ڈال دیا اور بھاری پتھر سینے پر رکھنے کا حکم دیا جب پتھر لایا گیا تو حضرت آسیہ نے اللہ پاک سے عرض کی: یاربّ! میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنا دے ۔ فوراًانہیں جنّت میں سفید موتیوں سے بنا ہوا گھر دکھا دیا گیا پھر اللہ پاک نے ان کی روح، ان کے جسم سے نکال لی ۔ جب ان کے جسم پر پتھر رکھا گیا تو ان کے جسم میں روح نہیں تھی تو انہیں کچھ بھی درد محسوس نہ ہوا ۔ (عمدۃ القاری،کتاب احادیث الانبیاء۱/۱۴۴) اس واقعے اور حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ایمان سب سے قیمتی(precious) دولت ہے۔اور ایمان کی حفاظت جان کی حفاظت سے زیادہ اہم ہے۔ تَعَارُف (Introduction): اللہ پاک کی ولیّہ،حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا مصر میں رہتی تھیں اور ایک نیک خاتون تھیں۔ مال ودولت کی ان کے پاس کوئی کمی نہ تھی، اللہ پاک کے کرم سے یہ غرور(یعنی تکبُّر ) سے بہت دور تھیں ۔ان کے پاس ہر وَقْت خادم ہوتے اور یہ غریبوں سے بہت محبت کیا کرتیں اور بہت زیادہ صدقہ کیا کرتی تھیں۔ اسی لیے لوگ انہیں اُمُّ الْمَسَاکِیْن (مسکینوں کی ماں ) بھی کہا کرتے۔ (مستدرك حاكم، كتاب تواريخ المتقدمين...، حديث:٤١٥٠، ٣/٤٥٧) جب فرعون کو ان کے ایمان لانے کی خبر ہوئی تو پہلےاُس نےحضرت آسیہ کی ماں کو بُلایا اور کہا: میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر اس نے موسیٰ (عَلَیْہِ السَّلَام) کے خُدا کا انکار نہ کیا تو ضرور اسے قتل کردوں گا۔ ماں نے اکیلے میں جا کر حضرتِ آسیہ کو فرعون کی بات ماننے کا کہا تو آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا نے جواب دیا: ِ کیا میں اللہ پاک کا انکار کروں...!! خدا کی قسم ! میں ہرگز ایسانہیں کرونگی۔“(الكامل فى التاريخ، قصة موسىٰ عليه السلام ونسبه...الخ، ١/١٤١) اللہ کی ولیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْھَا کی شان: ایک مرتبہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےحضرتِ فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے فرمایا:’’ خوش ہوجاؤ تم جنّتی عورتوں کی سردار ہو!‘‘ انہوں نے پوچھا: حضرتِ آسیہ اور مریم کہاں ہونگی؟ آپ نے فرمایا: آسیہ اپنے زمانے کی عورتوں کی اور تم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہو۔ (مشکل الاثار للطحاوی ،۱/۳۶، الجزء الاول، الحدیث ۱۰۱)حضرت عبداﷲ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے حدیثِ پاک بیان کی کہ جس میں اہل جنّت کی افضل عورتوں کا بتایا گیا تھا اُن میں حضرت مریم و حضرت آسیہ بھی تھیں ۔(زرقانی جلد۳ ص۲۲۳ تا۲۲۴) حضرت مریم اور حضرت ِ آسیہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نکاح میں ہوں گی۔(مراۃم جلد۷،ص ۴۲۰،شرح ۲۷)

83 ) ’’چار(4)کلمات‘‘

حضرتِ جُوَیْرِیَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فجر کی نما ز کے وقت میرے پاس سے تشریف لے گئے اور(سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد) چاشت کی نماز ادا فرمانے کے بعد تشر یف لائے تو میں اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھی۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پوچھا: جب میں تمہیں یہاں چھوڑ کر گیا تھا تو کیاتم اُس وقت سے اِسی طرح بیٹھی ہو ؟ میں نے عر ض کیا: جی ہا ں! تو فرمایا: میں نے یہاں سے جانے کے بعد چا ر(4) کلمات (یعنی چار جملے)تین تین مرتبہ پڑھے ہیں،اگر انہیں تمہارے آج کے تمام ذکر کے ساتھ وزن (weight)کیاجائے تو میں نے جو پڑھا ہے، اُس کا وزن زیادہ ہوگا، وہ کلمات یہ ہیں: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِ ہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضَا نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ (ترجمہ:اللہ پاک کے لیے پاکی اور حمد(یعنی تعریف) ہے ،اللہ پاک کی مخلوق کی تعداد (number)کے برابر اور اللہ پاک کی رضا کے برابر اور اللہ پاک کے عرش کے برابراور اللہ پاک کے کلمات (words)کی روشنائی (ink)کے برابر)۔(صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء ،رقم ۲۴۲۶، ص۱۴۵۹مُلخصاً) یاد رہے! اللہ پاک کی مخلوق کی تعداد، اللہ پاک ہی جانتا ہے اور جسے اللہ پاک اس کا علم دے، وہ جانتا ہے ۔ اللہ پاک کی رضا، اللہ پاک کا عرش، اللہ پا ک کے کلمات کی روشنائی بھی اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے اور جسے وہ اس کا علم دے، وہ جانتا ہے ۔ اس حدیثِ پاک اورسچے واقعے سے معلوم ہوا کہ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِ ہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضَا نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ پڑھنے کا بہت ثواب ہے، ہمیں یہ تسبیح بھی پڑھنی چاہیے۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ جویریہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ مدینہ پاک سے چاند چلتا ہوا میری گودمیں آگیا، یہ خواب میں نےکسی کو نہیں بتایا اور میں خود اس خواب کا مطلب سمجھ گئی اور پھر ایسا ہی ہوا(کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح فرمالیا)۔ (مدارج النبوت، قسم۵، ج۲، ص ۴۸۰) ہماری پیاری امّی جان ،حضرتِ جویریہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا پہلا نام بھی بَرَّۃ(نیکی کرنے والی ) تھا،پیارے آقا، مدنی مُصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان کا نام بدل کر جُوَیریہ رکھ دیا ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ کوئی یہ کہے ’’برہ کے پاس سے نکل آئے ‘‘(برہ کے معنی نیکی و احسان کے ہیں(۔(مسلم، کتاب الآداب، ص۱۱۸۲، حدیث : ۲۱۴۰) اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: حضرتِ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ میں جویریہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سب سےزیادہ خیر(یعنی بھلائی)اوربرکت والی ہیں ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲، ص ۴۸۰مُلخصاً)

84)’’ حضرت امیرِ مُعاویہ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ)کی اہل ِ بیت(آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے گھر والوں) سے محبّت ‘‘

{}حضرت امیر مُعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے فرمایا:حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ ُوَجْہَہُ الْکَرِیْم کے چند نُقُوش(یعنی نشان) بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہمارے خاندان) سے بہتر ہیں۔(الناھیۃ، ص۵۹) {}ایک مرتبہ آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ ُوَجْہَہُ الْکَرِیْم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے۔(تاریخ ابن عساکر، ۴۲/۴۱۵) ایک مرتبہ آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ ُوَجْہَہُ الْکَرِیْم کے فیصلے کو مانا اور علمی مسئلے میں کسی کے ذریعےآپ سے رابطہ بھی فرمایا۔(سنن الکبریٰ للبیہقی، ۱۰/۲۰۵، مؤطا امام مالک،۲/۲۵۹) {} ایک موقع پر آپ نے حضرت ضَرّار سے کہہ کر حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ ُوَجْہَہُ الْکَرِیْم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی:اللہ پاک ابوالحسن(یعنی حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ) پر رحم فرمائے۔(الاستیعاب، ۳/۲۰۹) {} جب حضرت امام حَسَن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ ،حضرتامیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے پاس آتے تو حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجا تے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، تو کچھ اس طرح فرمایا کہ:(حضرت امام )حسن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ہم شکل ہیں (یعنی آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کی شکل پیارے آقا سے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بہت ملتی ہے) ، اِ س وجہ سے میں اُن کا احترام(respect) کرتا ہوں۔(مراٰۃ المناجیح، ۸/۳۸۵ مُلخصاً) {}ایک بار حضرتامیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور لوگوں کو اُس میں جانے کا کہا۔(تاریخ ابن عساکر،۱۴/، ۱۷۹مُلخصاً) {}حضرت امیرمُعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے سالانہ وظائف(مال وغیرہ) دینے کے علاوہ مختلف وقتوں میں حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین(یعنی امام حَسَن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اور امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ) کی خدمت میں بہت سے تحفے پیش کئے، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار۴۰کروڑ تک کا تحفہ پیش کیا۔(سیراعلام النبلاء، ۵/۳۰۹،طبقات ابن سعد، ۶/۴۰۹، معجم الصحابہ، ۴/۳۷۰، کشف المحجوب،ص۷۷)

85 ) ’’ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی دعا‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی صاحبزادی حضرت اُمّ کلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ’’عُتَیبہ‘‘ کے نکاح میں تھیں عُتَیبہ ابولہب کا بیٹا تھااور عُتَیبہ کا باپ )یعنی ابولہب (اسلام اور پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سخت دشمن تھا ،اس نے اپنے بیٹے عُتَیبہ کو کہا کہ تم محمد ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )کی بیٹی کو طلاق دے دو۔ حضرت اُمّ کلثوم ابھی عُتَیبہ کے گھر نہ گئیں تھیں ،عُتَبیہ نے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شہزادی کو طلاق دے دی اور بہت غلط باتیں کیں۔ عُتیبہ کی بے ادبی سے ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بہت تکلیف ہوئ اوربہت زیادہ غم کی وجہ سےآپ کی مبارک زبان سے یہ الفاظ نکل گئے کہ:یا اﷲ! اپنےکتوں میں سے کسی کتے (dog)کو اس پر مُسَلَّط فرما دے( یعنی ایسا جانور اس کی طرف بھیج دے جو اسے سزا دے)۔اس دُعا کے بعد ابولہب اورعُتَیبہ دونوں تجارت کےلیے ایک قافلہ کے ساتھ ملکِ شام گئے اورراستے میں ایک راہب(یعنی عبادت گزار) کے پاس رات رُکے ،راہب نے ان کو بتایا کہ یہاں خطرناک جانور بہت ہیں،احتیاط (caution)سے سوئیں۔یہ سن کر ابولہب نے سب سے کہا کہ اے لوگو!محمد (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) نے میرے بیٹے کے خلاف بد دعا کی ہے۔ لہٰذا تم لوگ تجارت کا تمام سامان جمع کرکے اس کے اوپر میرے بیٹے کا بستر لگادو اور سب لوگ اس کے ارد گرد (around) چاروں طرف سو جاؤ تاکہ میرا بیٹا درندوں (یعنی جانوروں)کے حملے سے بچا رہے۔ سب نے اُس کی حفاظت (safety)کی پوری کوشش کی لیکن رات میں ایک شیر آیا اور سب کو سونگھتے(smell کرتے) ہوئے عُتَیبہ کے بستر پرپہنچا اور اس کےسر کو چبا ڈالا(chew کر گیا)۔ لوگوں نے شیر کو تلاش کیا مگر کچھ بھی پتا نہیں چل سکا کہ یہ شیر کہاں سے آیا تھا؟ اور کہاں چلا گیا؟ اس حکایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اورآپ کی اولاد کو تکالیف دینے والے کی دنیا وآخرت خراب ہو جاتی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ جن بُرے کاموں کے خلاف پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےدعا فرمائی ایسے کاموں سے بچنا چاہیے۔حدیثِ پاک میں ہے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مسجد میں داخل ہو کر منبر شریف پر چڑھتے ہوئے( منبریعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں) فرمایا:’’آمین !آمین! آمین! ‘‘پھر جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تشریف لےجانے لگےتوعرض کی گئی:یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! ہم نے آپ کو ایسا کام کرتے دیکھا جو آپ نے پہلےکبھی نہيں کيا توپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’ جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نےعرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! جس نے اپنے والدین کو پایا، پھر انہوں نے اسے جنّت میں داخل نہ کرایا (یعنی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان سے دعائیں لے کر جنّتی نہ ہوا )تو اللہ پاک اسے اپنی رحمت سے دور اور مزيد دور فرمائے ۔ میں نے’’ آمین ‘‘کہا، دوسرے زینے(stair)پر پہنچا تو جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا مانگی :جس نے رمضان کا مہیناپایا اور اس کی مغفرت نہ کی گئی تو اللہ پاک اسے اپنی رحمت سے دور فرمائے، مزيد دور(اور محروم) فرمائے۔ تو میں نے’’ آمین ‘‘کہا، تیسرے زینے(stair)پر پہنچا تو جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نےدعا مانگی :''جس کے سامنے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ذکر ہو اور وہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر درودِ پاک نہ پڑھےتو اللہ پاک اسے اپنی رحمت سے دور فرمائے،مزيد دور فرمائے۔’’ تو میں نے کہا’’ آمین ‘‘۔‘‘(مجمع الزوائد ، کتاب الادعیۃ، الحدیث:۱۷۳۱۴،ج۱۰،ص۲۵۷) تَعَارُف (Introduction): حضرت اُمّ کُلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اوراُمّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شہزادی (یعنی بیٹی) ہیں۔حضرت ِعثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی پہلی شادی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے ہوئی تھی لیکن کچھ وقت کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال ہوگیا تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرت اُمّ کُلثوم سے عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نکاح کردیا ۔حضرت اُمّ کُلثوم کی کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔9 سنِ ہجری شعبان کے مہینے میں حضرت اُمّ کُلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے وفات پائی اورحضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا ۔ (زرقانی جلد۳ ص۱۹۷تا ۲۰۰)(سیرت مصطفے۶۹۵تا ۶۹۷)

86 )’’اچانک کچھ لوگ آگئے‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی دنیا میں آمد سے پہلے کی بات ہے۔ یہودیوں(jews) نےاپنی کتاب میں آخری نبی( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کی بہت سی نشانیاں (signs)پڑھی تھیں اور ان نشانیوں کی وجہ سےوہ جانتے تھے کہ اب اللہ پاک کے آخری نبی( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) دنیا میں آنے والے ہیں اورجب وہ دنیا میں آئیں گے تو دین اسلام پھیل جائے گا اورہماری کوئی عزت اورطاقت نہیں رہے گی اس لیے وہ چاہتے تھے کہ ہم اُس خاندان کو ہی ختم کر دیں کہ جس میں سے یہ آئیں گے کیونکہ آخری نبی( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کے خاندان وغیرہ کی نشانیاں بھی وہ اپنی کتاب میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ جب انہوں نے حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو دیکھا تو سمجھ گئےکہ آخری نبی جو دنیا میں آنے والے ہیں یہ ان کے والد ہیں ۔ اب ان یہودیوں نےحضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کوشہید کرنے کی کوششیں شروع کر دیں مگر کامیاب نہ ہوئے ۔ ایک دن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والد محترم حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ شکار (hunting)کے لئے جنگل میں تشریف لے گئے تو یہودیوں کی ایک بہت بڑی جماعت تلواریں لے کر اس نیّت سےجنگل میں گئی کہ حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو شہیدکر دےمگر اللہ پاک نے اس مرتبہ بھی اپنے کرم سےآپ کو بچا لیا۔ اچانک(suddenly) کچھ ایسےلوگ گھوڑوں پر آگئے جو عرب کے لوگ نہیں تھے،ان لوگوں نے آ کر یہودیوں کو بھگادیا اورحضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ صحیح سلامت(safely) اپنے گھر چلے گئے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی والدہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے والد(یعنی ہمارے مدنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نانا جان) حضرت وَہب بن مُناف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی اُس دن جنگل میں تھے اور انہوں نے ا پنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا،اس لئے ان کوحضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے بہت محبت ہو گئی اور پکا ارادہ کرلیا کہ میں اپنی پیاری بیٹی (حضرت) آمنہ(رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ) کی شادی (حضرت )عبداللہ(رَضِیَ اللہُ عَنْہ) ہی سےکروں گا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دادا جان حضرت عبدالمطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو شادی کا پیغام (proposal)بھیجا۔ حضرت عبدالمطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو اپنے پیارے بیٹے حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے لئے جس طرح کی دلہن چاہیےتھی، وہ سب باتیں حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا میں تھیں لھذا چوبیس (24) سال کی عمر میں حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا حضرت بی بی آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سےنکاح ہو گیا۔ ( مدارج النبوت،قسم دوم، باب اول،۱۲-۱۴ ملتقطا) اس سچے واقعے سے پتہ چلا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےوالد حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی غیر مسلموں سے حفاظت فرمائی ،یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک جس کی حفاظت فرمائے اسے کوئی بھی نقصان نہیں دے سکتا ۔ تَعَارُف (Introduction): حضرتِ عبدُاللہ بِن عبدُ المطّلب رَضِیَ اللہُ عَنْہ ،نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والد صاحب ہیں،آپ کا نام عبدُاللہ،کُنْیَت(kunyah) اَبُو محمد،اَبُو اَحمد اور اَبُوقُثَم(یعنی خیر و بَرکت والے)ہیں۔( شرح زرقانی علی المواھب اللدنیة، ۱/۱۳۵) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دادا جان حضرت عبد المطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو اپنے سب بیٹوں میں سب سے زیادہ پیارے حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ تھے۔ حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی پیشانی(forehead) میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا نور چمک رہا تھا، اس لئےآپ خوبصورت اور اچھے اخلاق والے تھے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابھی دنیا میں تشریف نہیں لائے (یعنی پیدا نہیں ہوئے)تھے کہ والد صاحب حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ تجارت (trade)کے لئے ملکِ شام گئے۔وہاں سے واپسی پر مدینۂ پاک میں اپنے رشتہ داروں کے پاس گئے۔ وہاں جا کر آپ بیمار رہے اور ایک ماہ بیمار رہ کر پچیس(25) سال کی عمر میں وفات پا گئے اور وہیں”دارِ نابِغَہ“(مدینہ پاک)میں دفن ہوئے ۔( مدارج النبوت،قسم دوم، باب اول،۱۲-۱۴ ملتقطا) پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والد رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شان: روایت ہے کہ حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی وفات پر فرشتوں کو غم ہوا اور انہوں نے اللہ پاک سے عرض کی کہ یا اللہ!تیرے نبی یتیم(orphan) ہو گئے ۔ اللہ پاک نے فرمایا: میں اس کی مدد اور حفاظت کرنے والا ہوں ۔ (زرقانی علی المواہب ج ۱ ،ص۱۰۱ ، مدارج جلد۲،ص ۱۴مُلتقتاً)

87) ’’ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والد صاحب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ‘‘

{} حضرتِ عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والدہیں اور دادا جان حضرتِ عبدُ المُطَّلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں جو کہ مکّے میں قبیلہ قریش کے راہنما(guide) اور بنوہاشم کے سردار(leader) تھے ان کا اصل نام شَیبَہہے اور لوگ ان کے اچھے کاموں کی وجہ سے انہیں شَیْبَۃُ الْحَمْدْ(تعریف کے قابل بزرگ)کہتے تھے۔(مدارج النبوۃ، ۲/۱۲ ملخصاً) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی دادی جان کا نام فاطمہ بنتِ عمرو ہے۔ ( تاریخِ طبری، ۲/۲۳۹۰) {}حضرت عبد المطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کسی بات کو پورا کرنے کے لئے حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اورسو اونٹوں کا قُرعہ(draw)ڈالا تواونٹوں کےنام قُرعہ نکلا (یعنی اب اونٹ ذبح کیے جائیں گے اورحضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو کچھ نہیں ہوگا) ۔ وہاں موجود قریش اور دوسرے لوگوں نے حضرت عبدالمطلب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو مبارَک دی۔حضرت عبدال م طّلبرَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کہا کہ اللہ کی قسم! جب تک تین بار اونٹوں کا نام نہیں نکلے گا تب تک میں اس قُرعہ کو نہیں مانوں گا تو آپ نے تین مرتبہ ایسا کیا اور ہر مرتبہ اونٹوں کا ہی قُرعہ نکلا۔( السیرۃ النبویہ لابن ہشام، ص۶۴)تب حضرت عبدالمطّلب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے تکبیر کہی (یعنی اَللہُ اَکْبَر کہا)اور(مکّے شریف کے دو پہاڑ) صفا و مروہ کے درمیان اونٹوں کو لے جا کر قربان کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکہتے ہیں کہ ان دنوں یہ اصول تھا کہ ایک جان کے بدلے دس اونٹ دیئے جائیں۔ حضرت عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک جان کےبدلے سو(100) اونٹ دیے۔ جس کے بعد عرب میں بھی ایسا ہی ہونے لگا(یعنی سواونٹ دیے جانے لگے)۔( طبقات ابن سعد، ۱/۷۲) {} حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو مدینے پاک میں دفن کیا گیا۔نوائے وقت اخبار 21 جنوری 1978ء کے مطابق مدینۂ منوّرہ میں مسجدِ نبوی کی مزید تعمیر(construction)کے سلسلہ میں کی جانے والی کھدائی کے دوران سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والدِ صاحب حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی قبر کُھل گئی تو آپ کاجسم ِمبارک جس کو دفن ہوئے چودہ سو (1400)سال سے زیادہ وقت ہو چکاتھا ، بِالکل صحیح حالت میں موجود تھا۔ {} مفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں مدینہ شریف حاضر ہوا وہاں 29نومبر 1994ء کو مدینہ پاک کی تعمیرات(construction) کرنے والے عبداللطیف سے ملاقات ہوئی اس نے بتایاکہ جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والد صاحب حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا جسم شریف، دوسری جگہ دفن کرنے کے لیے لیا گیا تو ہم نے بھی کچھ دور سے دیکھا کہ کفن مبارک بھی بالکل صحیح ہے، کوئی داغ بھی نہیں تھا اور ایسی خوشبو آرہی تھی کہ بتانہیں سکتے۔(فضائل سیدہ آمنہ،ص۴۱) {} اب آپ کا مزارِ شریف دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع میں(جو کہ مدینے میں مسجد نبوی کے ساتھ ) ہے۔ ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی چار یارانِ نبی جنّتی جنّتی ہر زوجہء نبی جنّتی جنّتی سب اولادِ نبی جنّتی جنّتی والدینِ نبی جنّتی جنّتی

88) ’’حضرت زینب کی ہجرت‘‘

حضرت زَینَب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِہِ وَسَلَّم کی بیٹی تھیں۔آپ کی شادی ،خالہ زاد بھائی(cousin) ابُو الْعَاص سے ہوئی۔جب پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا تو حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی تمام اولاد آپ پر ایمان لائیں مگر ابُوالْعَاص اُس وقت مسلمان نہ ہوئے۔پیار ے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جب لوگوں کو اسلام کی طرف بُلانا شروع کیا تو قریش نےآپس میں کہا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کی بیٹیوں سے رشتے ختم کرو اور ان کو تکلیف دو۔ ابُو الْعَاص نےقریش کے کہنے پر حضرت زَینَب کو طلاق نہ دی ( ایک وقت کے بعد جب وہ اسلام لے آئے تو پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے حضرت زَینَب کو ان کے پاس بھیج دیا)۔حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےحکم سے حضرت زَینَب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا اونٹ پر بیٹھ کر مکّے شریف سے مدینہ پاک جانےکےلیے، شہر سے باہر نکلیں تو کچھ غیر مسلم آپ کے پیچھے آگئے اور کچھ دور جا کر رستہ روک لیا۔ایک شخص نےحضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو ڈرا یا تو وہ اونٹ سے گر گئیں۔ اسی تکلیف کےساتھ آپ کا سفر جاری رہا اور آپ مدینہ پاک پہنچ گئیں ۔پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اس بات سے بہت تکلیف ہوئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا کہ: یہ (حضرت زینب)میری بیٹیوں میں بہت فضیلت والی ہے کہ انہوں نے میری طرف ہجرت کرنے(یعنی نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے حکم پر مکّے پاک سے مدینہ شریف آنے) میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔(شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ،ج۴،ص ۳۱۸۔۳۲۲مُلخصاً) اس حکایت سے یہ سیکھنے کو ملا کہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنی بیٹیوں بلکہ اُن کے بچوں سے بھی بہت محبت اورپیار فرماتے تھے اوران کی تکالیف وپریشانیوں پر آپ کو بھی تکلیف ہوتی ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان مردوں کے علاوہ خواتین نے خصوصاً پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی آل اور اولاد نےبھی دینِ اسلام کے لیےبہت تکلیفیں اُٹھائیں اورقربانیاں دیں ۔ تَعَارُف (Introduction): پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِہِ وَسَلَّم کی بیٹیوں میں سب سے بڑی حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا تھیں ۔حضرت ز ینب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نے 8 سنِ ہجری میں انتقال فرمایا۔ اُمّ اِیمن اور اُمّ سَلَمہ نے انہیں غسل دیا اور پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے دو بچے تھے، ایک لڑکا جن کا نام ’’علی‘‘اور ایک لڑکی’’ اُ مَامہ ‘‘تھی۔ (شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ،ج۴،ص ۳۱۸۔۳۲۲مُلخصاً) جنّتی شہزادیرَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن کسی نے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو تحفے میں ایک سونے کا ہار دیا۔ ازواجِ مطہرات(یعنی اُمھات المؤمنین) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنَّ سب ایک گھر میں جمع تھیں (حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کی بیٹی حضرت) اُمامہ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا)گھرکے ایک کونے میں مِٹی سے کھیل رہی تھیں حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ہم سب سے پوچھا کہ یہ ہار(necklace) کیسا ہے؟ ہم نےعرض کیا کہ اس سےزیادہ خوبصورت ہار ہم نے آج تک نہیں دیکھا ۔ پھر پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا کہ مجھے جس سے سب سے زیادہ محبت ہے، میں اُسے یہ ہار دوں گا۔ ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنَّ سمجھیں کہ یہ ہار حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہاکو ملے گامگر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے(حضرت) اُ مَامہ(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا) کو بلایا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے وہ ہار ان کے گلے میں ڈال دیا۔ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کی بیٹی حضرت امامہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا سےبھی بہت محبت فرماتے تھے۔جب پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نماز پڑھتےتو حضرت امامہ آپ کے کندھے(shoulder) پر آجاتیں تھیں ، جب پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم رکوع میں جاتے تو اتار دیتے لیکن جب سجدے میں جاتے تو وہ دوبارہ آپ کے کندھے پر آجاتیں ۔(شرح العلامۃ الزرقانی،ج۴،ص۳۱۸۔۳۲۱ مُلخصاً)

89 ) ’’ حضرت بی بی آمنہرَضِیَ اللہُ عَنْہَا‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری امّی جان حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ایک مرتبہ اپنے رشتہ داروں کے گھر مدینہ پاک گئیں،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بھی ساتھ تھے ۔ مدینے پاک سے واپسی پر مقام ابواء میں بیمار ہوگئیں۔اس بیماری میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (جن کی عُمر شریف پانچ سال تھی) اپنی والدہ صاحبہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا سر دباتے تھے اور روتے جاتے تھے۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آنسو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے چہرے پرگرے تو آنکھ کھولی اور اپنے دوپٹے سے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آنسو پونچھ کر بولیں دنیا مرے گی مگر میں کبھی نہیں مروں گی کیونکہ میں تو تم جیسا بیٹا چھوڑ رہی ہوں جس کی وجہ سے مشرق (east)اور مغرب (west)میں(یعنی ہر جگہ ) میرا ذکر ہوگا(I will mentioned)۔(مراۃ، ج۲،ص، ۹۸۵،مُلخصاً)اس کے بعدفرمایا :ہرنئی چیز کو پرانا ہوناہے ، کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن ختم ہوجائے گا اور ہر زندے کو مرنا ہے ۔ میں کیسی بڑی بھلائی (برکت والے کو)چھوڑ کر جارہی ہوں اورکیسا پاک (بیٹا)مجھ سے پیدا ہوا، صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ (لمواہب اللدنیۃ المقصد الاول ذکر وفاۃ آمنۃ رضی اللہ عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۰۔۱۶۹، مُلتقطاً)یہ کہا اورانتقال ہوگیا۔ اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی وجہ سے آپ کی والدہ کی بہت بڑی شان ہے۔ اور پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے صدقے،حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام قیامت تک رہے گا۔ تَعَارُف (Introduction): آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے والد وَہْب بن عبدِمَنَاف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی بیٹی (حضرت)آمنہ (رَضِیَ اللہُ عَنْہَا) کی شادی(حضرت) عبدُاللہ ( رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) سے کروادی اور یوں پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا نور، آپ کے پاس آگیا ۔(مدارج النبوۃ، ۲/۱۲ ۔۱۳ماخوذاً) اعلیٰ حضرت کچھ اس طرح فرماتے ہیں: عرب میں بلکہ پوری دنیا میں کتنی تاج(crown) والی ملکائیں(queens) آئیں مگر اُن کا نام بھی باقی نہ رہا۔ مگر میرے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی والدہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان یہ ہے کہ ہر طرف محفلوں میں آپ کا ذکر ہے ، زمین و آسمان میں آپ کا ذکر ہے اور یہ ذکر ہمیشہ رہے گا۔(فتاوی رضویہ جلد۳۰، ص ۳۰۳ماخوذاً) پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی والدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: صلح حدیبیہ (یعنی ایک مرتبہ غیر مسلموں سےکچھ باتوں کا مُعاہدہ(agreement) کرنے کے بعد)،حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ایک ہزار (1000) صحابہ کرامرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے ساتھ اپنی والدہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے مزار شریف پر تشریف لے گئے۔(مرقاۃ، مُلخصاً)وہاں جا کرآپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی آنکھوں میں آنسو(tears) آ گئےکہ آج وہ زندہ ہوتیں اور ہم سب کو دیکھتیں توانہیں خوشی ہوتی ۔ یہ دیکھ کر صحابہ کرام(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) بھی رونے لگے۔(مراۃ، ج۲،ص، ۹۸۵، مُلخصاً)

90 ) ’’ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی والدہ صاحبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا‘‘

{} حضرت بی بی آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی والدہ بننے کی سعادت ملی ،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے والد کا نام وَہْب بن عبدِمَنَاف اور والدہ کانام بَرَّہ تھا۔ (دلائل النبوۃ،۱/۱۸۳) {} پیارے آقا،محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بی بی آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی اکلوتی اولاد(یعنی آپ اُن کے ایک ہی بیٹے) تھے(طبقات ابن سعد،۱/۷۹) {}حضرت بی بی آمنہرضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا بہت نیک، شریف، پاکی کا خیال رکھنے والی، عزت والی اوراللہ پاک پر ایمان رکھنے والی عورت تھیں۔(دلائل النبوۃ، ۱/۱۰۲ملخصاً) {} آپرضیَ اللہُ عنہَا حضرت عبدُالمطَّلِب اور حضرت امِّ اَیْمَن کے ساتھ حضرت عبداللہ رضیَ اللہُ عنہ کی قبرِمبارک پر حاضر ہوا کرتیں ۔ایک مرتبہ واپس آتے ہوئے مقامِ اَبْواء(مدینے پاک سے مکّہ شریف کے راستے میں آنے والے مقام) پر وفات پاگئیں اور اسی جگہ پر آپ کو دفن کیا گیا۔ ( انساب الاشراف،۱/۱۰۳) {}حضرت آمِنہ رضیَ اللہُ عنہَا نے انتقال کےوقت اپنے پیارے بیٹے محمد مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (جن کی عُمْر اس وقت تقریباً پانچ(5)سال کی تھی ) کی طرف محبّت بھری نظر سے دیکھا پھر ارشاد فرمایا : اے پاک لڑکے!اللہ تجھ میں بَرَکت رکھے۔ اے اُن(یعنی حضرت عبد اللہ) کے بیٹے! جو بڑے انعامات دینےوالے بادشاہ یعنی اللہ پاک کی مدد سے(مکّے شریف میں) موت سے بچ گئے ۔ جب صُبْح کو قُرعہ(draw)ڈالا گیا تو سو(100)بڑے اُونْٹ ان کے جگہ پر قُربان کئے گئے۔ اے میرے بیٹے!میں نے جوخواب دیکھا ہے اگر وہ ٹھیک ہے تو پھرتوعزت والے ربّ(یعنی اللہ پاک) کی طرف سے سب لوگوں اور ساری مخلوق کے لیے” نبی‘‘ بنایاجائے گا۔ تو حرم) یعنی مکّہ پاک وغیرہ )اور اس کے علاوہ دیگر جگہوں میں اسلام کی دعوت(اسلام پھیلانے) کے لئے بھیجا جائے گا ۔ اوراسلام وہی دین ہے کہ جو تیرے نیک والدحضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا دین ہے۔ تو میں اللہ کی قسم دے کر تجھے بتوں(کی عبادت)سے منع کرتی ہوں کہ قوموں کے ساتھ ان (بتوں سے) دوستی نہ کرنا ۔( فتاویٰ رضویہ، ۳۰ /۳۰۱ مُلخصاً) {}آج بھی عاشقانِ رسول آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے مزار شریف، مقامِ اَبْواء پر حاضری دیتے ہیں، لیکن وہاں باقاعدہ مزار شریف بنا ہوا نہیں اور جانے کابھی باقا عدہ راستہ نہیں ہے ۔ ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی چار یارانِ نبی جنّتی جنّتی ہر زوجہء نبی جنّتی جنّتی سب اولادِ نبی جنّتی جنّتی والدینِ نبی جنّتی جنّتی