91) ’’ مدینے میں حاضر ہیں مگر! ‘‘
مولانا محمد شریف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتےہیں میں حج کےلیے مکہ پاک گیا پھر مدینہ پاک حاضر ہوا۔اب میں نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضری کے لیے مسجدِ نبوی کے پاس پہنچا تو گنبد خضرا ء کے سامنے ایک سفید داڑھی والےاوربہت نورانی چہرے والے بزرگ کو دیکھا جو پیارےآقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مزار مبارک کی طرف منہ کرکےادب سے دوزانو (جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں) کچھ پڑھ رہے تھے پھر مجھےمعلوم ہوا کہ یہ تو عرب شریف کے بہت بڑے عالم حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نَبہانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں،میں آپ کے چہرے کی نورانیت اور رونق دیکھ کر بہت حیران ہوا پھر میں آپ کےقریب جاکر بیٹھ گیا اورسلام کیا اور ہاتھ ملایا،میں نے علامہ اسماعیل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےعرض کی :حضور میں (_country_)((_country_)) سے آیا ہوں میں نے آپ کی کتابیں بھی پڑھی ہیں اور مجھےآپ سے بہت محبت ہے۔پھر میں نےآپ سےعرض کیا:حضور آپ پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مُبارک روضے سے اتنا دور کیوں بیٹھے ہیں ؟میری یہ بات سن کر آپ رونے لگے اورروتے روتے فرمایا: میں اس لائق کہاں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے قریب جاؤں ۔اس کے بعد میں ان کے گھر کئی مرتبہ حاضر ہوا میں نے آپ کو پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے بہت زیادہ محبت کرنے والا پایا ۔ (جواہر البحارمترجم ،پیش لفظ،ص۱۰) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ بزرگانِ دین نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے روضہ مُبارک (یعنی مزار شریف) کا بہت ادب کرتے تھے اورنیک ہونے کے باوجو د خود کو گناہگار سمجھتے تھے ۔ہمیں بھی پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم ، آپ کے مزار اور جالیوں کا ادب کرنا چاہیے۔ جب مدینے پاک حاضری ہوتو ہرگز ہرگز جالیوں کی طرف پیٹھ(کمر) نہیں کرنی بلکہ اپنا چہرہ(منہ) پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مزار مبارک کی طرف کرنا ہے۔ تَعَارُف (Introduction): علامہ یوسف بن اسماعیل نَبہانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ زبردست عاشقِ رسول،اللہ پاک کےولی اوربہت بڑے عالمِ دین تھے۔آپ 1849سن عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق عرب شریف سے ہے۔ آپ عبادت کے علاوہ فتوی دینے، کتابیں لکھنے کی وجہ سے بہت مصروف رہتے مگر پھر بھی حرمین شریفین یعنی مکۃ المکرمہ اورمدینۃ المنورہ بار بار حاضری کےلیے جاتے رہتے تھے۔آپ سچے عاشق رسول تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ درود پاک اورپیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےفضائل پر بہت بہترین کتابیں لکھیں جنہیں پڑھ کر آج بھی عاشقانِ رسول فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ جب آپ نے اپنی زندگی کی آخری کتاب لکھی تو خواب میں پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی زیارت ہوئی پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے آپ کی کتاب کو اپنے سینے سے لگایا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کی :یارسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم اب آپ سے دور نہیں رہا جاتا ۔اسی حالت میں آپ کا انتقال ہوگیا ۔(جواہر البحارمترجم ،پیش لفظ،ص۹تا۱۲) اللہ کے ولی کی شان: نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اولیاء کرام کی فضیلت کے بارے میں فرمایا:اللہ پاک کی مخلوق میں اس کے کچھ خاص بندے ( یعنی ولی ) ہیں کہ جنہیں اللہ پاک عافیت(یعنی امن وسلامتی) کے ساتھ زندہ رکھتا ہے ،اورانہیں عافیت میں ہی موت عطا فرماتا ہے اورانہیں جنّت میں بھی عافیت کے ساتھ داخل فرمائے گا ۔(الاولیاء لابی الدنیا،ص۱۰)
92) ’’ پانی پر چلنے والے بزرگ‘‘
ایک بوڑھی عورت(old woman )مشین پر کام کر رہی تھی۔کسی نے پوچھا: آنٹی (anti) !ساری عمر مشین پر کام کرنے کے علاوہ کچھ اور کام بھی کیا ہے؟کیا اللہ پاک کی بھی کچھ پہچان حاصل کی ہے۔کہنے لگی کہ اس کے لیے یہ مشین ہی کافی ہے۔اُس نے پوچھا:وہ کیسے ؟ بولی: وہ ایسے کہ جب تک میں اس مشین کو چلاتی ہوں یہ چلتی رہتی ہے اور جب میں اسے چھوڑ دیتی ہوں تو رُک جاتی ہے تو جب بغیر کسی چلانے والے کے یہ چھوٹی سی مشین نہیں چل سکتی تو پھرزمین وآسمان ، سورج اور چاند وغیرہ کا اتنا بڑا نظام کیسے چل سکتا ہے؟اس مشین کو میں چلا رہی ہوں تو مجھے اور اس پوری دنیا و آسمان کے نظام کو میرا ربّ چلا رہا ہے۔ بوڑھی عورت (old woman )مزید بولی کہ ایک اور بات سن لو کہ اس پورے جہان (universe )کو چلا نے والا ایک ہی ہے یہ بھی اس مشین سے پتہ چلا کیونکہ میں اسے اپنی مرضی سے ایک طرف چلاتی ہوں تو یہ ایک ہی طرف چلتی ہے اگر میرے ساتھ کوئی اور بھی مل کر چلائے تو یہ بہت تیز ہوجائے اور مشین خراب ہوجائے۔اسی طرح اگرآسمان وزمین کا چلانے والا کوئی دوسرا ہوتا اور وہ مل کر چلاتے تو یہ تباہ(یعنی ختم )ہوجاتے ۔ صرف یہ ہی نہیں اگردونوں الگ الگ طرف(opposite directionمیں) چلاتے تب بھی تباہ ہوجاتی۔ تو جس طرح یہ مشین ایک چلانے والے کی وجہ سے صحیح چل رہی ہے،اسی طرح یہ آسمان وزمین بھی ایک چلانے والے کی وجہ سےصحیح طرح چل رہے ہیں اور وہ ایک چلانے والا اللہ پاک ہے۔ اس کہانی سے پتا چلا کہ جس طرح ایک مشین ایک ہی شخص کے چلنے سے ٹھیک چلتی ہے اسی طرح زمین وآسمان، چاند، سورج، ستارے،بارش،دھوپ سب ایک ہی چلانے والا چلا رہا ہے اس کا کوئی بھی شریک (partner ) نہیں وہ چلانے والا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، زمین وآسمان بھی اسی کے بنائے ہوئے ہیں، وہ اللہ پاک اکیلا(alone )ہی سارے جہان (universe ) کا مالک ہے۔ سمندر اور خشکی کی ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔
93) ’’اولیائے کِرام رَحمۃُ اللہ عَلَیْہِم کی طاقت‘‘
{} کرامتِ اولیا حق ہے ، اِس کا انکار کرنے والاگمراہ اور بہت بُرا شخص ہے {} اللہ پاک اپنے فضل سے نبی کے وسیلے سے ولی کو چھپی ہوئی باتوں کا علم بھی عطا فرماتا ہے (جیسے: حضرتِ عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے ایک مرتبہ مدینہ شریف میں خطبہ کے دوران سینکڑوں میل دور عراق کے ایک علاقے ’’نَہاوند‘‘ میں موجود حضرت ِسارِیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کو پکارا: یَاسَارِیَۃَ الْجَبَل (یعنی اے ساریہ! پہاڑ کی طرف سے ہوشیار ہوجاؤ) پہاڑ کے پیچھے سے دشمن حملہ کرنے والا تھا، وہاں موجود لوگوں نے یہ آواز سُنی اور اس طرح وہ دشمنوں کے حملے سے بچ گئے۔ یہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کی کرامت تھی کہ اتنےدور سے عراق کے ایک علاقے میں ہونے والی جنگ کا حال معلوم بھی کرلیا اور وہیں سے حضرت ساریہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کو بتابھی دیا) {} اللہ پاک کی عطا سے ، ولی کی کرامت لوگوں کو نظر آجاتی ہے یعنی اللہ کے ولی ایسے کام کرتے ہیں جن کو عام انسان کر ہی نہیں سکتا کہ وہ کام عادۃ (as per practice)نہیں ہوتے۔جیسے:مردہ زندہ کردینا، پیدائشی اندھے کو آنکھیں دے دینا،سینکڑوں بلکہ ہزاروں میل (miles)کا فاصلہ چند لمحوں میں طےکرلیناوغیرہ۔ یاد رہے کہ ولی کو بہت طاقت حاصل ہوتی ہے مگر جتنی بھی طاقت ہو سب اللہ پاک ہی نے دی ہے، اللہ پاک کی قدرت سب سے زیادہ ہے اور اللہ پاک کی قدرت ایسی ہے کہ اُسے کسی اور نے یہ قدرت نہیں دی اور اس نے انبیاء کرام اوراولیائے کرام کو طاقت عطا فرمائی ہے(چنانچہ۞مدرسہ شامیہ کے اُستاد حضرتِ شیخ زین الدین شافعی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے دعا کی تو چھت سے گر کر مرجانے والا بچّہ زندہ ہوگیا۔ (حجۃ اللہ علی العالمین،ص۶۰۹ ملخصاً) ۞مشہور ہے کہ بغداد شریف میں چار بزرگ ایسے گزرے ہیں جو پیدائشی اندھوں اورکوڑھ(leprosy) کے مریضوں کو اللہ پاک کے حکم سے شفادیتے تھے اوراپنی دعاؤں سے مُردوں کوزندہ کردیتے تھے، اُن میں سے ایک حضور غوثِ پاک شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ بھی تھے۔ (بہجۃ الاسرار، ص ۱۲۴) ۞منقول ہے کہ طرسوس کی جامع مسجد میں ایک ولی ہوتے تھے۔ اُنہیں کعبہ شریف کی زیارت کی خواہش ہوئی، چنانچہ اُنہوں نے اپنا سَرگریبان میں ڈالا اور چند لمحوں (moments)میں گریبان سے باہر نکالا تو وہ مسجدُ الحَرَمِ (مکّہ شریف)میں موجود تھے۔ (حجۃ اللہ علی العالمین،ص۶۰۹) {} اللہ پاک کی عطا سے اولیا ئے کِرام دور سے پکارنے والوں کی پکار بھی سن لیتے ہیں، پہلے کے لوگ بھی ولیوں کو مشکل میں پکارا کرتے تھے(جیسے: رُوم سے جب ایک جہاد کرنے والے نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے صحابی حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کو پکارا(یعنی آواز دی) تو آپ نے،ہزاروں میل (miles) دور سے مدینہ شریف میں اُس کی آواز سنی اور 2 مرتبہ ’’لَبَّیْک‘‘یعنی ’’میں حاضر ہوں‘‘ فرمایا۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، ۴/۱۰۹) اِسی طرح ایک مرتبہ کسی عورت نے اپنی حفاظت کے لیے حضور غوثِ پاک سیّد عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کو پکارا، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ اُس وقت اپنے مدرے میں وُضو فرمارہے تھے، آپ نے اس عورت کی مدد فرمائی۔ (تفریح الخاطر، ص۳۷) ولیوں کا دور سے سننا اور لوگوں کی مدد کرنا سب اللہ پاک ہی کی مدد سے ہے اور یہ اللہ پاک ہی کا کَرَم ہے۔ حقیقت میں اللہ پاک ہی مدد فرماتا ہے، اولیائے کِرام اِس مدد کا ذریعہ ہیں۔ ہاں!یہ بات یاد رہے کہ اللہ پاک کسی کا محتاج نہیں، لیکن اللہ پاک نےقرآنِ پاک میں اپنی جانب وسیلہ ڈھونڈنے کافرمایا ہے، اِسی لئے مسلمان ولیوں سے مدد مانگتے ہیں یعنی اللہ پاک کی بارگاہ میں اُنہیں وسیلہ بناتے ہیں{} طریقت(پیری مریدی وغیرہ)بھی شریعت (یعنی دین)کا ہی ایک راستہ ہے، شریعت سے جو چیز الگ ہو وہ گمراہی ہے{}شریعت سےاپنےآپ کو آزاد سمجھنا کفر اور اپنا ایمان خراب کرنے والی بات ہے {} ولی اصل میں نبی کےتحت ہوتے ہیں اور اللہ پاک نبی کے وسیلے سے ہی اُنہیں اختیارات اور طاقت عطا فرماتا ہے{} اولیا ئے کِرام اللہ پاک ہی کی عطا اور اُسی کے فضل و کَرَم سے ہماری مدد بھی فرماتے ہیں (جیسے: ایک مرتبہ حضرتِ علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے ایک غلام(slave) کا کٹا ہوا ہاتھ جوڑدیا تھا۔ (تفسیر کبیر،۷/۴۳۴) حضرت اِمام حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کا لُعاب (یعنی تھوک) ملا ہوا پانی جب کنویں میں ڈالا گیا تو کنویں کاپانی اُبل پڑا (یعنی اوپر آگیا) تھا۔ (طبقات الکبری لابن سعد،۵/۱۱۰) اسی طرح سلسلۂ قادریہ کے بزرگ حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کو ایک مرتبہ طواف کرنے کی خواہش ہوئی تو آپ راتوں رات اپنے شہر سے مکّہ شریف پہنچے اور طواف کرکے رات ہی کو واپس بھی تشریف لے آئے۔ (جامع کرامات اولیاء،۲/۴۹۱) یوں ہی سلسلہ قادریہ کے ایک اور بزرگ حضرت جنید بغدادی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے ایک بار ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو آپ کے ہاتھ میں(بہت قیمتی پھول) زعفران آگیا اور آپ نے اُسے لوگوں کے سامنے رکھ دیا۔ (جامع کرامات اولیاء،۲/۱۲)
94 ’’قیدیوں(prisoners) کے ساتھ کھانا کھایا‘‘
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں اپنے پیر صاحب حضرت ابونجیب ضیاء الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےساتھ مُلکِ شام گیا ۔کسی مالدار شخص نے کھانے کی کچھ چیز یں قیدیوں (prisoners)کے سروں پررکھوا کر بھجوائیں۔ان قیدیوں کےپاؤں بندھےہوئے تھے۔جب دستر خوان (tablecloth for meal) بچھایا گیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےخادِم کوحکم دیا:ان قیدیوں کوبلاؤ تا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔لہٰذا ان سب قیدیوں کو لایا گیا اور ایک دسترخوان پربٹھا دیا گیا۔شیخ ضیاء الدین ابو النجیب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر ان قیدیوں کے ساتھ جا کر بیٹھ گئےاور ان سب نے آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔(الابر یز،ج۲، ص۱۴۶ ملخصًا) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے وَلِی ، تکبّر(arrogance) سے بہت زیادہ بچتے تھے،غریبوں اورکمزورلوگوں سے محبّت کرتے تھے ۔ ہمیں بھی تکبّر جیسی برائی سے بچنا چاہیےاور کمزور لوگوں کے ساتھ محبّت بھی کرنی چاہیے ۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت ابونجیب ضیاء الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 490 سنِ ہجری میں ایران کے شہر سہرورد میں پیدا ہوئے ، آپ نے دینی تعلیم حاصل کرنے کےلیےبغداد کا بھی سفرکیا اورمزید تعلیم غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مدرسے ’’جامعہ نظامیہ ‘‘حاصل کی۔ ابونجیب سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(پیری مریدی کے)سلسلے’’سہروردیہ‘‘ کو شروع کرنے والے ہیں۔آپ کا بیان بہت اچھا ہوتا تھا کہ آپ کا بیان سن کرہزاروں لوگ گناہوں والی زندگی چھوڑ کر نیکیوں والی زندگی اپنا لیتے تھے۔563 سنِ ہجری جمعۃ المبارک کے دن آپ کا انتقال ہوا ۔(تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ ،ص ۱۰۷تا ۱۱۰) اللہ کے ولی کی شان: اللہ پاک نے اپنے و لیوں کو بڑا مقام دیا ہے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا کہ اللہ پاک جب کسی بندے سےمحبت کرتا ہےتو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سےمحبت کرو ، تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سےمحبت کرتے ہیں،پھر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آسمان میں ندا کرتے(پُکارتے) ہیں کہ اللہ پاک فلاں سےمحبت کرتا ہےتم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والےبھی اس سےمحبت کرتے ہیں، پھر اس کےلیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے(یعنی زمین والے اُسے پسند کرنے لگتے ہیں)۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا احبّ اللہ عبداً حبّبہ الی عبادہ، ص۱۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷(۲۶۳۷ملتقطا)
95) ’’تیز بارش شروع ہوگئ‘‘
ایک مرتبہ حضرت ابو اسحاق چشتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے شہر میں بارشیں ہونا بند ہوگئیں تو لوگ بہت پریشان ہوگئے،فقیر اورغریب لوگ کھانا نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگے۔ وہاں کا خلیفہ(حاکم۔ ruler) آپ کے پاس آیا اورعرض کی کہ آپ جیسےاللہ پاک کے وَلِی کے ہوتے ہوئے بھی بارش نہیں ہو رہی ۔ آپ اللہ پاک سےدعا کریں کہ آپ کی دعا قبول ہوتی ہے،آپ دعا فرمائیں تاکہ بارش ہو اورفقیروں کوسکون ملے۔آپ نے فرمایا: ہم نے بہت دنوں سے محفل نہیں کی ، ہمیں کلام سناؤ کہ جب ہماری آنکھوں سے (اللہ پاک کی محبّت اور اُس کے خوف میں)آنسؤں کاپانی نکلنا شروع ہوگا اس وقت بارش بھی ہوجائے گی۔ حضرت ابو اسحاق چشتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خلیفہ کو واپس بھیجتے ہوئے کہا :بارش ضرور ہوگی (ان شاء اللہ! )جب محفل شروع ہوئی تو آپ کی آنکھوں سےآنسوبہنا شروع ہو گئے اسی وقت اللہ پاک کےحکم سے بادل آئے اوربارش بھی شروع ہوگئی جس سے لوگوں کوا ٓرام ملا ۔بارش کےدو دن بعد خلیفہ آپ کے پاس دوبارہ آیا۔تو خلیفہ کو دیکھ کرحضرت ابو اسحاق چشتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رونے لگے،آپ کے رونے پر وہ بھی رونے لگا، بعد میں لوگوں نے آپ سے پوچھا :خلیفہ کو دیکھ کر آپ نے رونا کیوں شروع کردیا تھا تو آپ نےعاجزی کرتے ہوئے فرمایا کہ:نہ جانے مجھ سے ایسی کون سی غلطی ہوگئی ہے کہ دو دن سےدنیا والوں سے ملاقات ہورہی ہے اورفقیروں کی محبّت سے میرے دل کو ہٹا دیا گیاہے ۔(سیرالاقطاب ،ص ۸۵ملخصا) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک اپنے ولیوں کو بہت بڑے درجے(ranks) دیتا ہےاور اللہ کے ولی، اللہ پاک کی رحمت کا یقین رکھتے ہیں اور اللہ پاک ان کی دعا ئیں قبول فرماتا ہے ۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی جمعہ کےدن 237 سنِ ہجری مُلکِ شام کے شہردمشق میں پیدا ہوئے ،آپ اپنے وقت کے بہترین عالمِ دین تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (پیری مریدی کے)سلسلے ’’ چشِتیہ ‘‘کو شروع کرنے والے ہیں۔( سیرالاقطاب ،ص ۸۴ملخصا ۔اقتباس الانوار،ص ۲۷۰ملخصا) اللہ کے ولی کی شان: اللہ پاک کے محبوب بندے وہ ہیں جو پرہیز گار اور کم مال والے ہیں ، جب وہ غائب ہو جائیں تو انہیں تلاش نہ کیا جائے اور جب وہ حاضر ہوں تو انہیں پہچانا نہ جائے ، یہی لوگ ہدایت کے امام اور علم کے چراغ ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء ، مقدمۃ المصنف ، ۱ / ۴۶ ، حدیث : ۱)
96 ) ’’ وسیلہ اور تَبَرّْک‘‘
وسیلہ: {} اللہ پاک کی بارگاہ میں نیک بندوں کا وسیلہ پیش کرنا دعائیں قبول ہونے، مشکلات حل ہونے، مصیبتیں دور ہونےاور دینی و دُنیوی بھلائیاں حاصل ہونےکا آسان راستہ ہے۔ {} اللہ پاک کی بارگاہ میں نیک بندوں کاوسیلہ دینے کی تعلیم ،قرآن وحدیث میں ہے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْکا وسیلہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ ان حضرات کو اللّٰہ پاک کا قُرب (یعنی نزدیکی) حاصل ہے اور اللّٰہ پاک اپنے کرم سے ان کی دعا پوری کرتا ہے اور ان کی شفاعت(یعنی سفارش) قبول فرماتاہے۔ {} اللّٰہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اے ایمان والو!اللّٰه سےڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ (پ ۶، سورۃ المائدہ، آیت ۳۵) (ترجمہ کنز العرفان) {} اللّٰہ پاک نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سفارش پر توبہ قبول ہونے کا وعدہ فرمایا،ترجمہ (Translation) : اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ ۔ (سورۃ النساء، پ۵،آیت۶۴) (ترجمہ کنزالایمان) {} آیت کے شروع میں اگرچہ ایک خاص واقعے(special event) کے بارے میں کلام فرمایا گیا، البتہ اس میں موجود حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت مانگنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، ج۲، ص۲۳۳، مُلخصاً) {} اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں :بندوں کو حکم ہے کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ کے لوگوں کی سنتا ہےمگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ کرنا چاہو تو میرے محبوب کے پاس حاضر ہو۔(فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۶۵۴) {} پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی وفات شریف کے بعد ایک دیہاتی مزار شریف پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی پاک مٹی اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، جو آپ نے فرمایا، ہم نے سنا اور جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر نازل ہوا ،اس میں’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا‘‘ (اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے) یہ آیت بھی ہے تومیں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اللہ پاک سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو آپ میرے ربّ سے میرے گناہ مُعاف کرائیے ۔اسی وقت قبر شریف سے آواز آئی کہ تجھے بخش دیا گیا۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۳۶) {} اللہ پاک کی بارگاہ میں نیک لوگوں کو وسیلہ بنانا کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔اللہ پاک کے نیک بندوں کی دعا سے کام ہو جاتے ہیں ۔(خزائن العرفان، مُلخصاً) {} طَبرانی شریف میں ہے:نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مسلمان فقرا کے وسیلے سے کامیابی اور مدد کی دعا کیا کرتے تھے۔(معجم کبیر، ۱/۲۹۲، حدیث: ۸۵۹مُلخصاً) {}حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے دعا کی تو اللہ پاک نے فرمایا:بے شک! محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تمام مخلوق میں میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں اور اب اے آدم(عَلَیْہِ السَّلَام)! تم نے ان کے وسیلے سے سوال کیا ہے تو میں نے تمہاری مغفرت کردی(یعنی درجے بلند کیے اور ناپسندیدہ بات کو مُعاف کیا) اور اگر محمدصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘(دلائل النبوۃ للبیہقی،۵/۴۸۹) نوٹ:اللہ پاک کے سارے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَامگناہوں سے معصوم اور محفوظ ہیں کہ ان سے گناہ ہوہی نہیں سکتا۔البتہ اگر کوئی ناپسندیدہ بات اُن سے ہو جاتی ہے تو وہ اُس بات سے بھی اس طرح توبہ کرتے تھے کہ جس طرح نیک لوگ گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ {} نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی والدہ کے لئے اس طرح کی دعا فرمائی: ترجمہ: (اےاللہ !) میری ماں فاطمہ بنتِ اسد کی مغفرت فرمااور میرے اور مجھ سے پہلےنبیوں کے وسیلے سے اس کی قبرکو اچھا کردے!(معجم کبیر، ۲۴/۳۵۱، حدیث:۸۷۱مُلخصاً) {}امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہقحط(یعنی بارش اور رزق کی کمی) کے وقت یوں دعا کیا کرتے: اے اللہ! پہلے ہم تیرے نبی کے وسیلے سے دعا کرتے تھے، اب اپنے نبی کے چچا عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں، ہمیں بارش عطا فرما! (بخاری، ۱/۳۴۶، حدیث: ۱۰۱۰) تَبَرّْک: {}تابوتِ سکینہ وہ صندوق(box) تھا کہ جس میں انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی چیزیں یعنی تبرّکات تھے۔ بنی اسرائیل مشکل وقت میں اُس تابوت کے وسیلے سے دعا کرتے اور دشمنوں کے مقابلے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔(جلالین، پ۲، البقرۃ، تحت الآیۃ۲۴۸، ۱/۱۴۲) اللّٰہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :تمہارے پاس وہ تابوت آجائے گاجس میں تمہارے ربّ کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور معزّز (عزّت والے)موسیٰ او ر معزّز(عزّت والے) ہارون کی چھوڑی ہوئی چیزوں کا بقیہ ہے ، فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (ترجمہ کنز العرفان)(پ۲، سورۃ البقرۃ،آیت۲۴۸) {}حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی قمیض مبارک سے حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی آنکھیں صحیح ہوگئیں ۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں اپنے نبی کی یہ بات نقل فرماتا ہے:میرا یہ کُرتا (shirt)لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دینا وہ دیکھنے والے ہوجائیں گے۔(پ۱۳، سورۃ یوسف،آیت۹۳) {}بخار ی شریف کی حدیثِ پاک میں ہے کہ ایک عورت حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خدمت میں ایک خوبصورت چادر لائیں اور عر ض کیا:آپ کو پہننے کیلئے پیش کر رہی ہوں،آپ اس کو پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک صحابی نے اس چادر کی تعریف کی اور وہ چادر آپ سے مانگ بھی لی۔ (بعد میں)صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےاُ ن سے کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اسے اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ جو حضور سے مانگتا ہے،حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اُسے منع نہیں فرماتے ہیں تو اُن صحابی نے کہا کہ میں نے اس کو پہننے کے لئے نہیں لیا بلکہ (مر جانے کے بعد)اپنے کفن کیلئے مانگی ہے۔ اس حدیث کو بیان کرنے والے فرماتے ہیں کہ واقعی وہ چادر انہی صحابی کا کفن بنی۔(صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب من استعد الکفن ۔۔۔الخ،۱/۴۳۱،حدیث:۱۲۷۷،ملخصاً) {} حضرت امیرمعاویہرَضِیَ اللہُ عَنْہ کے پاس نبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مبارک قمیص اور پیارے ناخن تھے۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا وقتِ انتقال قریب آیا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ(یعنی یہ کہا تھا کہ میرے انتقال کے بعد) مجھےاُس قمیص میں کفن دیا جائے جو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مجھے دی تھی اور وہ مبارک قمیص میرےجسم سے بالکل ملاکررکھی جائے۔جبکہ آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مبارک ناخن میری آنکھوں اورمنہ پررکھ دئیے جائیں۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےمزید اس طرح فرمایا:یہ کام ضرور کرنااور مجھے سب سےزیادہ رحم وکرم کرنے والےربّ کی رحمت کے سپرد کردینا۔(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،باب المیم ولعین،۵/۲۲۳ مُلخصاً) {}مسلم شریف میں ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی صاحبزادی حضرت اسماء رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کےپاس حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کاایک جُبّہ (a long outer garment)تھا(ایک مرتبہ) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نےوہ جُبّہ نکالااورفرمایا:یہ جُبّہ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ہے، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسےپہناکرتےتھے،اب ہم اسےبیماروں کےلئےدھوتےہیں اور اس سے شفاحاصل کرتے ہیں۔(مسلم،کتاب اللباس و الزینۃ،باب تحریم لبس الحریر…الخ،حدیث:۲۰۶۹،ص۸۸۳)
97) ’’ ٹوٹے ہوئے ہاتھ سے کتاب لکھ دی‘‘
حضر تِ مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ نے۱۳۹۰ ھ میں حج کیا اور مدینے پاک میں حاضری کی سعادت پائی ۔ کہتے ہیں کہ :میں مدینہ پاک میں گر گیا اور سیدھے ہاتھ کی ہڈّی ٹوٹ گئی، درد بہت زیادہ ہوا تو میں نے اپنے ہاتھ کو چوم لیا اور کہا: اے مدینے کے درد، میرے دل میں بھی تیرے لیے جگہ ہے کہ تو مدینے پاک سے ملا ہے۔ دَرد اُسی وَقْت ختم ہو گیا مگر ہاتھ کام نہیں کر رہا تھا۔ سترہ(17 ) دن بعد ایکسرے(X-ray) کرایا تو ہڈّی کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے اور کچھ فاصلہ (gape) بھی تھا مگر میں نے علاج نہیں کرایا ،پھر آہِستہ آہِستہ ہاتھ کام بھی کرنے لگا، مدینہ پاک کے اَسْپتال کے ڈاکٹرمحمد اسمعٰیل نے کہا کہ یہ خاص کرم ہوا ہے کہ یہ ہاتھ ہمارے اندازے کے مطابق ہِل بھی نہیں سکتا۔(مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں:کہ) وہ ایکسرے میرے پاس ہے، ہڈی اب تک ٹوٹی ہوئی ہے۔اللہ پاک کے کرم سے، مدینے پاک کی برکت سے، اس ٹوٹے ہوئےہاتھ سے قرآنِ پاک کی تفسیر(یعنی قرآن ِ پاک کی آیات کے معنی اور مطلب) لکھ رہا ہوں ۔ میں نے اپنے اس ٹوٹے ہوئے ہاتھ کا علاج صِرْف یہ کیا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی جالیوں کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیاکہ حضور !میرا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے، آپ تو(حضرت) عبدُاللہ بِن عَتِیْک (رَضِیَ اللہُ عَنْہ)کی ٹوٹی پنڈلی(shin)جوڑنے والے ہیں !اور آپ تو(حضرت) مُعَاذ بِن عَفْرَاء(رَضِیَ اللہُ عَنْہ)کا ٹوٹا بازو(arms) جوڑ دینے والے ہیں، مجھ پر بھی کرم فرمائیں اور میرا ٹوٹا ہوا ہاتھ جوڑ دیں۔(تفسیرِ نعیمی ج ۹ ص ۳۸۸ مُلخصاً) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا ک ہہمارے علماء مدینے پاک سے بہت محبّت کرتے تھے اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی رحمت سے بہت اُمید رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ مفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے مدینے کی چوٹ کا علاج تو نہ کیا مگر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے ، اُن کی رحمت کا سوال کیا۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت علامہ مفتی احمد یارخان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ 1894ء میں یوپی ہند((_country_))میں پیدا ہوئے۔آپ نے اعلیٰ حضرت کےخلیفہ(جنہیں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے پیری مریدی کروانے کی اجازت دی) مفتی نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ سے بھی علمِ دین حاصل کیا اورآپ ہی سے مرید ہوئے۔آپ خود فرماتے تھے میرے پاس جو کچھ ہے سب حضرت مفتی نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ملاہے۔ قرآنِ پاک اور حدیث کے معنی ٰ سمجھانے والی کتابوں کے علاوہ اوربھی کئی کتابیں لکھیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس طرح کےعلمی کام کرنے کے ساتھ ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کے ایسے عادی تھے کہ چالیس سال تک آپ کی تکبیر اولی (نماز کی پہلی تکبیر، امام کے ساتھ )فوت نہ ہوئی ۔( فیضان مفتی احمد یار خان،ملخصاً) علم اورعلما ءکی شان: عالم کى مجلس مىں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز، ہزار بىماروں کى عىادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسى نے عرض کىا :یارسولَاللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اور قرآن کی تلاوت سے (بھی افضل ہے) ؟ فرماىا : ( کیا) قرآن ِ پاک علم کے بغیرفائدہ دے گا؟(قوت القلوب،الفصل الحادی والثلاثون،باب ذکر الفرق بین علماء الدنیا…الخ، ۱/ ۲۵۷مُلتقتاً)
98 ) ’’ بے ادب خاموش ہو گیا‘‘
جب مفتی وقارالدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مدرسے، منظر الاسلام میں پڑھایا کرتے تھے،اُس وقت کسی نے آپ کےپاس آکر بتایا کہ یہاں سے قریب ایک گاؤں میں ایک بے ادب شخص ہے کہ جو مسجد میں بیٹھ کر بال کٹواتا ہے، لوگ سمجھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ مسجد میں ایسا کر سکتے ہیں، کوئی بھی عالم آ کر مجھ سے بات کرلے۔ مفتی وقارالدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اُس شخص کے پاس چلے گئے اوراُس سے فرمایا :تم مسجد میں بیٹھ کر بال کیوں کٹواتے ہو؟اُس نے کہا کہ اگر یہ کوئی غلط کام ہےتو آپ قرآن وحدیث سے بتائیں ۔مفتی صاحب نےفرمایا: کہ ہمارے پیارے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےفرمایا:کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا ،نیکیوں کو اس طرح برباد کردیتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو جلادیتی ہے۔ (اتحاف السادة المتقین،کتاب اسرارالصلوة ومھماتھا،الباب الاول،۳/۵۰)اورمسجد میں بال کٹوانا مسجد میں گندگی کرنا ہے۔وہ آدمی کہنے لگا :حدیث میں مسجد میں باتیں کرنے سے منع کیا گیاہے بال کٹوانے سے منع نہیں کیا گیا ۔اس پرمفتی صاحب نے فرمایا:قرآن مجید میں اللہ پاک نے والدین کے ادب کے بارے ارشاد فرمایا: اپنے والدین کو اُف تک نہ کہو (پ۲۶،الاحقاف، الایۃ۱۷)۔یعنی انہیں بالکل تکلیف نہ دو۔اب کوئی شخص اپنے والدین کو مارنا شروع کردےاور کہے کہ قرآنِ پاک میں والدین کے سامنے اُف کہنے سے منع کیا گیا ہے، مارنے سےمنع نہیں کیا گیا ۔تو والدین کو مارنے والاشخص غلط کر رہاہے یا صحیح کر رہا ہے؟ اس نے کہا غلط ہے۔مفتی صاحب نےفرمایا :جس طرح والدین کو مارنے والابلکہ انہیں کسی بھی طرح تکلیف دینے والا گناہگار اورغلط کام کرنے والاہے حالانکہ قرآن ِ پاک میں صرف اُف کہنے سے منع کیا گیا اسی طرح مسجد میں گندگی پھیلانے والابھی ،ایسے کام کرنے والا ہے کہ جن سے منع کیاگیا ہے ۔یہ سُن کروہ آدمی خاموش ہوگیا اور لوگوں نےمفتی وقار الدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا شکریہ ادا کیا ۔(وقار الفتاویٰ،۱/۷بالتصرف) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ کچھ لوگ قرآنِ پاک اورمسجد کا ادب نہیں کرتے ایسے لوگوں کو نرمی سے سمجھانا چاہیے اوراگر یہ لوگ بے ادبی سے باز نہ آئیں تو ان سے دور رہنا چاہیے ۔ تَعَارُف (Introduction): مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سن 1915 میں ہند((_country_))میں پیدا ہوئے ۔صدرالشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی آپ کےاستاد تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ علم ِ دین سیکھنے اورسکھانےمیں گزارا ۔ہند،بنگلہ دیش پھرپاکستان میں علمِ دین پڑھانے کا سلسلہ رہا۔دارالعلوم امجدیہ(کراچی) کے دار الافتاءمیں آپ شرعی مسائل کے فتاویٰ (جوابات)بھی دیتے رہے۔امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہتقریبا 22سال تک ا ٓپ کے پاس شرعی مسائل وغیرہ کے سلسلے میں جاتے رہے۔مفتی اعظم پاکستان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےامیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو اپنی خلافت بھی دی (یعنی آپ کو اجازت دی کہ اب آپ دوسروں کو مرید کر سکتے ہیں)۔1993میں نماز فجر کےلیے اٹھے وضو کے دوران ہی آپ کو دل کا اٹیک(heart attack) ہوا جس کے بعد آپ انتقال فرماگئے۔ علم اورعلما ءکی شان: حضرت اسماعىل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ مىں نے امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو خواب مىں دىکھااوران کا حال پوچھا۔ (انہوں نے) کہا : اللہ پاک نے مجھے بخش دىا اور مجھ سے فرماىا : اگر مىں تجھ پر عذاب کرنا چاہتا (تو تجھے)علم (دین) نہ دیتا۔ (الدر المختار معه ردالمحتار، المقدمة، مطلب : یجوز تقلید المفضول...الخ، ۱/ ۱۲۵)
99) ’’ علم اور علماء کا ادب کریں‘‘
بہت اہم باتیں: (1)علمِ دین کو گھٹیا سمجھ کراگر کسی نے کہا:''میں کیوں عِلم سیکھوں!''یہ کُفرِیّہ قول ہے ۔ (منح الروض ص۴۷۲) (2) علمائے کرام کی توہین کی نیّت سے کہنا:''جتنے مولوی ہیں سب بدمَعاش ہیں ۔''کلِمۂ کُفر ہے ۔ (ماخوذازفتاوٰی امجدیہ ج ۴، ص ۴۵۴) (3)عالمِ دین سے اِس کے علم ِ دین کی وجہ سے بُغض رکھنا (نفرت کرنا)کفر ہے یعنی اس وجہ سے(نفرت کرنا ) کہ وہ عالمِ دین ہے۔ (ایمان کی حفاظت ص ۱۰۳) (4)جو کہے:''فسادکرنا عالم بننے سے بہتر ہے''ایسے شخص پر حکمِ کفر ہے ۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲، ص ۲۷۱) (5) علمِ دین سے نفرت کی وجہ سے،اس طرح کہنا:''عِلم سے جَہالت بہتر ہے یا عالِم سے جاہل اچّھا ہوتا ہے۔'' کُفر ہے۔ (مَجْمَعُ الْاَنْہُر ج۲،ص ۵۱۱) (6) علما ئے کرام کی توہین کی نیّت سے:''مولوی لوگ کیا جانتے ہیں؟''کہنا کُفر ہے (فتاوٰی رضویہ ج ۱۴، ص ۲۴۴) (7) ''جس نے کہا :''عُلَماء جو بتاتے ہیں اسے کون کرسکتا ہے!''یہ قَول کفر ہے۔ کیونکہ اِس کلام سے لازِم آتا ہے کہ شَریعت میں ایسے اَحکام ہیں جو طاقت سے باہَر ہیں یاعُلَماء نے انبِیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَم پر جھوٹ باندھا ہے۔ معاذَ اﷲ!(اللہ پاک کی پناہ) (مِنَحُ الرَّوض ص۴۷۰۔۴۷۱) (8) عالمِ شریعت اگر اپنے علم پر عامِل بھی ہو، جب تو وہ چاند کی طرح ہےکہ خودبھی ٹھنڈا اور تمہیں بھی روشنی دیتا ہےاورعالمِ بے عمل کی مثال چراغ کی طرح ہے کہ خودتوجلے مگر تمہیں فائدہ دے ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں:اُس شخص کی مِثال جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اُس چَراغ کی بتّی کی طرح ہے کہ لوگوں کو روشنی دیتا ہے اور خود جلتا ہے۔ (اَلتَّرْغِيْب وَالتَّرْھِيْب ج۱، ص۹۳، حدیث ۲۱۸ ) (فتاوٰی رضویہ جلد۲۱، ص ۵۳۰مُلخصاً) (9)عوام کوعُلَماءسے بدظَنّ کرنا بَہُت سخت گناہ ہے کہ جب بد ظَنّ ہونگے(تو)اُن(یعنی عُلَما)سے بیزار ہو نگے اورہَلاکت میں پڑیں گے ۔ (فتاویٰ امجدیہ ج۴، ص ۵۱۵) (10)عالمِ دین کو بُرا کہنا اگر اُس کے عالمِ دین ہونے کے سبب ہے تو کُفر ہے اور عورت نکاح سے باہَر ۔خواہ بُرا کہنے والا خود عالِم ہو یا جاہِل ۔ ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۱، ص ۲۹۴) یاد رہے! صِرْف عُلَمائے اہلسنّت ہی کی تعظیم کی جائے گی۔ رہے بد مذہب عُلماء ،تو ان کے سائے سے بھی بھاگیں کہ ان کی تعظیم حرام ، اُن کابیان سننا ان کی کُتُب کامُطالَعہ کرنا اور ان کے پاس آنا جاناحرام اور ایمان برباد ہونے کا سبب ہے۔ جیسا کہ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: عالم وُہی ہے جو سُنّی صحیح العقیدہ ہو، بد مذہب علمائے دین نہیں۔شیطان کتنا بڑا عالم تھا جسے مُعلِّم الْمَلَکُوت (یعنی فرشتوں کا استاد)کہا جاتا ہے، اللہ پاک اس کے بارے میں فرماتا ہے (ترجمہ Translation):بھلا دیکھو تو وہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنالیا اور اللہ نے اسے علم کے باوجودگمراہ کردیا ۔ (کنز العرفان،پ ۲۵، الجاثیہ ۲۳) ایسوں کی توہین کُفر نہیں بلکہ موقع محل کے مطابق لازم ہے۔ حدیث شریف میں ہے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں:کیا فاجِر کے ذِکر سے بچتے ہو ،اس کو لوگ کب پہچانیں گے، فاجِر کا ذِکر اس چیز کے ساتھ کرو جو اس میں ہے، تاکہ لوگ اس سے بچیں۔ ( اَلسُّنَنُ الکُبری ج۱۰، ص ۳۵۴،حدیث ۲۰۹۱۴)( فتاوی رضویہ جلد ۱۴،ص ۶۱۱ تا ۶۱۲مُخلصاً) نوٹ: جو بالکل صاف صاف کفر کہے، اُس کا اِسلام ختم ہوجاتا ہے۔ یادرہے: کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے اسلام کے خلاف کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔
100 ) ’’ عالم صاحب کا خوفِ خدا‘‘
ایک روز امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہیں جارہے تھے کہ بے خیالی میں آپ کا پاؤں ایک لڑکے کے پَیْر پر پڑ گیا، لڑکے کی چیخ نکل گئی اور اُس کے مُنہ سے یہ جملہ نکلا:جناب !کیا آپ قِیامت کے دن میں لیے جانے والے بدلوں(recompenses) سےنہیں ڈرتے ؟ ‘‘یہ سُننا تھا کہ امام اعظم پرخوف طاری ہوگیا اورآپ بیہوش(unconscious ) ہوگئے، کچھ دیر کےبعد جب ہوش آیا توعرض کی گئی:ایک لڑکے کی بات سے آپ اس قدر کیوں گھبرا گئے؟ ارشاد فرمایا:’’کیا معلوم اُس کی آوازاللہ پاک کی طرف سے کوئی ہِدایت (guidance)ہو۔‘‘(اَ لْمَناقِب لِلْمُوَفَّق ،۲/۱۴۸) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ کا خوف ایسی پیاری عادت ہے جوہمیں برائیوں سے بچاتی ہے اوراچھائیوں کی طرف لے کر جاتی ہے ۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ علمِ دین کی برکت سے علماء، اللہ پاک سے ڈرنے والے ہیں۔ تَعَارُف (Introduction): امام اعظم کا نام ”نُعمان“ اور کُنْیَت(kunyah)”ابُو حنیفہ“ہے۔سن 80سنِ ہجری میں آپ کی ولادت ہوئی ۔ امام ِاعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دن بھر علمِ دین پڑھاتے اور ساری رات عبادت میں گزارتے ۔ہمارے امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمبارَک میں 61 قرآن کر یم خَتْم کیا کرتے۔تیس دن میں ،تیس رات میں اور ایک تراویح میں نیز آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 45سال تک عشاء کے وُضُو سے نمازِ فجر ادافرمائی ۔ (بہارِ شریعت حصہ ۴ ص ۳۷) ایک روایت کے مطابِق امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے زندگی میں 55 حج کئے اور جس مکان میں وفات پائی اُس میں سات ہزار بار(7000) قرآن مجید خَتْم فرمائے تھے۔ ڈیڑھ سو(150 ) سنِ ہجری میں آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا ۔آپ کے جنازے میں بہت لوگوں نے شرکت کی ، بغداد شریف میں آپ کامزار مبارک (shrine)ہے۔ ( عقود الجمان ص ۲۲۱) قرآن وحدیث کی روشنی میں جو مسائل انہوں نے بیان کیے ہیں،پاک وہند او ربنگلہ دیش وغیرہ میں رہنے والے مسلمانوں کی بھاری اکثریت ان مسائل پر عمل کرتے اور اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں۔ علم اورعلما ءکی شان: رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہىں : اللہ پاک بڑا جَواد(سب سے زیادہ نوازنے والا) ہے اور مىں سب آدمىوں مىں بڑا سخی ہوں اور مىرے بعد اُن مىں بڑا سخى وہ ہے جس نے کوئى علم سىکھا پھر اس کو پھىلادىا۔ (شعب الایمان، باب فی نشرالعلم، ۲/ ۲۸۱، حدیث : ۱۷۶۷، باختصار)
101 ) ’’ حدیث شریف کا ادب(respect) ‘‘
حضرت امام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جب حدیث شریف کا درس دینے کا ارادہ کرتے تو پہلے وضو کرتے، اپنی داڑھی میں کنگھی کرتے، بہت اطمینان (calmness) اور ادب کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھتےپھر حدیث بیان کرتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے اس انداز سے حدیث بیان کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: میں حدیثِ رسول کی تعظیم (respect)کرنے کو پسند کرتا ہوں اور اطمینان وسکون کے ساتھ باوضو ہو کر ہی حدیث بیان کرتا ہوں ۔ آپ راستے میں کھڑے کھڑے یا جلد بازی (haste) میں حدیثِ مبارکہ بیان کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ آپ نے خود فرمایا کہ:مجھے یہ پسند ہے کہ میں جو بھی حدیثِ رسول بیان کروں اسے اچھی طرح سمجھا دوں ۔(حلیۃ الاولیاء ،۶/۳۴۷، رقم:۸۸۵۸ ) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمیں قرآن وحدیث اور علمِ دین کا ادب کرنا چاہیے۔اور یہ بھی پتاچلا کہ دینی کتابوں کا ادب سیکھنے کے لیے علماءکرام کے انداز (manners) جاننے چاہیے اور ان کی طرح اپنی زندگی گزارنی چاہیے ۔ تَعَارُف (Introduction): آپ کانام ”مالک“کُنْیَت(kunyah)ابو عبد اللہ ، والد کا نام انس ہے اور آپ امام مالک کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کو عالم ِمدینہ کہا جاتا ہے، 93 سنِ ہجری میں پیدا ہوئے، تبع تابعی بزرگ ہیں(یعنی آپ نے تابعین کرام رَحمۃاللہِ عَلیہمکا زمانہ پایا ہے اور ان کی زیارت بھی کی ہے) ( مراۃ ج۱، ص۱۸۴)، اتنے بڑے عالم تھے کہ لوگ دوسرے ملکوں سے سفر کر کے آپ کے پاس علم سیکھنے آتے، (سیر اعلام لانبلاء، ۱۵/۴۳ ملتقطا) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا عشق رسول ایسا تھا کہ مدینہ پاک میں گھوڑے پر سوار ہونا آپ کو بالکل پسند نہیں تھا کہ جس شہر میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا روضہ (مزار شریف)ہے اس کی مٹی پر میری سواری کے پاؤں کیسے پڑیں گے۔ ((احیاء علوم الدین،کتاب العلم، ۱/ ۴۸) ملخصا) ۱۰ ربیع الاول 179 سنِ ہجری ، 86 سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا ۔(سیر اعلام النبلاء، ۱۵/۱۳۱) دنیا بھر میں لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان، آپ کے بیان کیے ہوئے شرعی مسائل پر عمل کرتے اور اپنے آپ کو مالکی کہتے ہیں۔ علم اورعلما ءکی شان: رسولِ خدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: زمین وآسمان کے درمیان جو کچھ بھی ہے(وہ) عالم کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہے یہاں تک کہ سمندر میں مچھلیاں بھی۔ (ابن ماجہ،۱/۸۷، حدیث: ۲۳۹)
102 )’’ علماء کی ضرورت‘‘
{} اللّٰہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : تو اے لوگو! علم والوں(یعنی اہل ذکر) سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ۔ ( پ۱۴، سورۃ النحل، آیت۴۳) (ترجمہ کنز العرفان)یہاں اس آیت میں علم والوں سے پوچھنے کا حکم دیا گیا کہ ان سے پوچھو۔(خزائن العرفان پ۱۷، سورۃ الانبیاء، آیت۷) {}حدیث شریف میں ہے کہ:جہالت(یعنی علم نہ ہونے) کی بیماری کی شفاء(علماء سے) پوچھناہے۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی المجروح یتیمّم، ۱ / ۱۵۴، الحدیث: ۳۳۶) {}ایک سمجھدار بچّہ بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ ایسا شخص جو بالکل بے علم ہو اور اسے اپنے کام کاج سے فرصت(time) بھی نہیں ہے کیا وہ یہ طاقت رکھ سکتاہے کہ قرآن وحدیث پڑھ کر خود ہی دین کا ہر مسئلہ سیکھ لے؟ بالکل نہیں ۔اس لیے دین پر عمل کرنے کے لیے علماء کی سخت ضرورت ہے۔ {} اللّٰہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : اللّٰہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے ۔ کسی جان نے جو اچھاکمایا وہ اسی کیلئے ہے اور کسی جان نے جو برا کمایا اس کا وبال اسی پر ہے ۔( پ۳، سورۃ البقرۃ، آیت۲۸۶) (ترجمہ کنز العرفان) لہٰذا غریب پر زکوٰۃ نہیں ، نادار(ایسا غریب و محتاج کہ جو حج پر جانے کی طاقت نہ رکھتا ہو ) پر حج نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان،ج۱، ص ۴۳۱ مُلخصاً) جب غریب آدمی پر زکوٰۃ اور حج فرض نہیں تو بے علم پر ازخود قرآن و حدیث سے مسائل نکالنا کیسے ضروری کہا جائےگا۔ (جاء الحق مُلخصاً) {} اللّٰہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔ ( پ۱۳، سورۃ یوسف، آیت۷۶) (ترجمہ کنز العرفان) یاد رہے کہ مخلوق میں ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے اورمخلوق میں سب سے اوپر(زیادہ علم والے) ہمارے پیا رے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہیں ۔(تفسیر صراط الجنان، ج۵،ص۳۹مُلخصاً) {} صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو جن شرعی مسائل کو سیکھنے یا سمجھنے کی ضرورت ،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں پڑی تو اُنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے اس کا حکم پوچھ لیا ۔ اور اگر پوچھنا ممکن نہ ہوا تو اپنے علم کے مُطابق عمل کیا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جب یمن بھیجا تو فرمایا: جب تمھارے سامنے کوئی (شرعی)مسئلہ آئے گا تو کس طرح فیصلے کروگے؟ عرض کی: اللہ پاک کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ فرمایا: اگر تم اللہ پاک کی کتاب میں(وہ مسئلہ) نہ پاؤ تو؟ عرض کی: تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سنّت سے فیصلہ کروں گا۔فرمایا: اگر تم رسولُ اللہ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )کی سنّت میں بھی نہ پاؤ تو؟ عرض کی:اپنی رائے(اور علم) سے قیاس کروں گا اور کوتاہی(یعنی کمی) نہ کروں گا۔تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارکرفرمایا:تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں جس نے اللہ کے رسول کا پیغام لے کر جانے والے کواس(اچھے طریقے) کی توفیق دی جس سےاللہ کا رسول راضی ہے۔(مشکاة المصابیح، کتاب الامارة والقضاء، باب العمل فی القضاء۔۔۔الخ،۲/۱۴،حدیث:۳۷۳۷) {} حدیث میں ہے:میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پالو گے۔(مشکاة المصابیح، کتاب المناقب، باب مناقب الصحابة،۲/۴۱۴،حدیث:۶۰۱۸) {}بعض علماء بہت بڑے درجے کے ہوتے ہیں، انہیں مُجتَہِد کہتے ہیں۔ یہ علماء قرآن و حدیث کو سمجھ کر اُس میں سے دین کے مسائل نکال کر بتاتے ہیں۔ علماء کرام ان مسائل کو سمجھ کر عام لوگوں کو سمجھاتے ہیں پھر عام لوگ دین کے مسائل پر عمل کرتے ہیں۔ {} یہ بڑے بڑےعلماء شرعی طور پر قرآن وحدیث سمجھ کر کوئی دینی مسئلہ بتانے کی صلاحیت(ability) رکھتے ہیں ۔جب ایسے علماء دین کا کوئی مسئلہ بتاتے ہیں یا دین کے جس مسئلے پر عمل کرتے ہیں، تواِسے اپنےاوپر لازم سمجھ کر ان کی پیروی کرنا ،تَقْلِیْد کرنا کہلاتا ہے۔ (مفھوماً ماخوذاً تسہیلاً جاءالحق) {} تقلید مخصوص (specific)علماء ہی کی ہے، کسی کی غیر شرعی پیروی کی اجازت نہیں۔اللّٰہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : اور جب ان سے کہا جائے کہ جو اللہ پاک نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤتو کہتے ہیں کہ ہمیں وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانتے ہوں اور نہ انہیں ہدایت ہو۔ ( پ۲، سورۃ البقرۃ، آیت۱۷۰) (ترجمہ کنز العرفان) {} اللّٰہ پاک نے ہمیں اس طرح دعا مانگنے کاحکم دیا، ترجمہ (Translation) : ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے احسان کیا۔( پ۱، سورۃ الفاتحہ، آیت۵) (ترجمہ کنز العرفان)اس آیت سے معلوم ہوا کہ صراط مستقیم (یعنی سیدھا راستہ) وہی ہے۔ جس پر اللہ کے نیک بندے چلے ہوں ۔ بڑے بڑے علماء اور مشہور اولیاءِ کرام نے اپنے سے بڑے علماء کی پیروی اور تقلید کی۔(ماخوذاً جاءالحق) {} آج کے دور میں چار(4)بڑے علماء کی پیروی اور تقلید کی جاتی ہے:(1) امامِ اعظم(2)امام شافعی(3)امام مالک(4)امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ۔ دنیا میں کروڑوں مسلمان ، ان کی پیروی کرتے ہیں۔ پاک و ہند وغیرہ میں امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی پیروی اور تقلید کرنے والے زیادہ ہیں۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: جو ان میں سے جس کی پیروی کرے اور زندگی بھر پیروی کرتا رہے ،کبھی کسی مسئلے میں ان کے خلاف نہ چلے تووہ ضرور صراطِ مستقیم اور سیدھے رستے پر ہے ۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۷ / ۶۴۴)
103 ) ’’ بارش برسنے لگی‘‘
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں ایک نُجُومی(astrologer) حاضر ہوا ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اُس سے فرمایا: آپ کے حساب سے بارِش کب ہوگی؟ اس نے کہا :’’ اس مہینے میں پانی نہیں، بارش نہیں ہوگی۔‘‘ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اللہ پاک ہر بات پر قادِر ہے وہ چاہے تو آج ہی بارِش ہو جائے۔ آپ سِتاروں کو دیکھ رہے ہیں اور میں ستاروں کے بنانے والے، اللہ پاک کی قدرت اور طاقت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ دیوار پر گھڑی (clock)لگی ہوئی تھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اُس سے فرمایا :کتنے بجے ہیں ؟ عَرض کی: سوا گیارہ(11:15am)۔ فرمایا:بارہ بجنے میں کتنی دیر ہے؟ عرض کی: پون گھنٹہ(45 minutes)۔ فرمایا:ابھی بارہ بج سکتے ہیں یا نہیں ؟ عَرض کی: نہیں ، یہ سُن کر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہاُٹھے اور گھڑی کی سُوئی گھمادی، فوراً ٹن ٹن بارہ بجنے لگے۔ نُجُومی سے فرمایا : آپ تو کہتے تھے کہ ابھی بارہ بج ہی نہیں سکتے۔ تو اب کیسے بج گئے؟ عَرض کی: آپ نے سُوئی گھمادی۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : اللہ پاک قادِرہے کہ جس سِتارے کو جس وَقت چاہے جہاں چاہے پہنچادے۔ میرا ربّ چاہے تو آج اور ابھی بارِش ہونے لگے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اِتنا کہا ہی تھا کہ چاروں طرف بادل آگئےاور بارِش شروع ہوگئی ۔ (انوارِ رضا ، ص ۳۷۵ ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ عالم صاحب ، اللہ پاک کی قدرت پر زیادہ یقین رکھنے والے ہوتے ہیں۔علمِ دین کی بہت برکتیں ہیں، ہمیں علمِ دین حاصل کرنا چاہیے۔ تَعَارُف (Introduction): اعلیٰ حضرت، رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت ہی بڑے عالم تھے یہاں تک کےعرب شریف اور دیگر ملکوں کے بڑے بڑے عالموں نے آپ کو مُجَدِّد کہا(یعنی آپ اتنے بڑے عالم تھے کہ سو سال میں ایسا عالم نہیں ہوا)۔آپ ایسے عاشقِ رسول تھے کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کے خلاف کوئی بات نہ کر سکتا تھا۔کچھ لوگوں نے مسلمانوں کے دلوں میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کم کرنے کی کوشش کی تو آپ نے مسلمانوں کو ان سے بچایا اور عشق رسول کو خوب عام کیا۔ آپ پچاس(50)قسم کے علم کے عالم تھے۔ آپ نے قرآنِ پاک کا ترجمہ بھی کیا جس کا نام: ترجمۂ کنزالایمان ہے جو عاشقانِ رسوال کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔آپ نے تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں۔آپ چوّن(54) سال تک مسلمانوں کو دینی مسائل کے فتوے لکھ لکھ کر دیتے رہے۔ اعلیٰ حضرت، رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے جو فتوے ملے، انہیں جمع کیا گیا، عربی وغیرہ کا ترجمہ کیا گیا تو یہ تیس (30)جلدوں(volumes) کا فتاویٰ رضویہ بن گیا، جس کے صفحات(pages) تقریباً 21656 ہیں۔ سلسلہ قادریہ کی شان: حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: بے شک میرا ہاتھ میرے مرید پر ایسا ہے جیسے آسمان زمین پرہے۔ (بہجۃ الاسرار، ص۱۹۳)
104 )’’سا نپ نُما جِنّ‘‘
ولیوں کے سردار،شَہنشاہِ بغداد، سرکارغو ثُ الاعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے مدرَسے (مَد۔رَ۔سے)کے اندر اجتماع میں بیان فرمارہے تھے کہ چھت پر سے ایک سانپ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پرگرا۔ لوگ گھبرا گئے(panickedہوگئے)،ہر طر ف خوف پھیل گیامگر سرکا رِ بغداد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی جگہ سے نہ ہلے۔سانپ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے کپڑوں میں گھس گیااور تمام جسمِ مبارَک سے لپٹتاہو اگِرِیبان شریف(collar) سے باہَر نکلا اور گر دن مبارَک پرلپٹ گیا۔ مگر قربان جایئے! میرے مرشد شَہَنشاہِ بغداد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پرکہ ذرّہ برابر نہ گھبرائے نہ ہی بیان بند کیا۔ اب سانپ زمین پر آگیا اوردُم پر کھڑا ہوگیا اور کچھ کہہ کر چلاگیا ۔ لوگ جمع ہوگئے اور عرض کرنے لگے: حضور ! سانپ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے کیا بات کی ؟ ارشاد فرمایا: سانپ نے کہا: ’’میں نے اللہ پاک کے بَہُت سارے ولیوں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کو تنگ کیا ہے مگر آپ جیسا کسی کو نہیں پایا۔‘‘ (مُلَخَّص ازبَہجۃُ الاسرارلِلشَّطنوفی ص۱۶۸) واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا تَعَارُف (Introduction): غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کااسم مبارک''عبدالقادر''آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی کُنْیَت(kunyah) ''ابومحمد''اورالقابات ''محی الدین ''، ''غوثُ الاعظم''وغیرہ ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ۴۷۰ھ میں بغدادشریف کے قریب جیلان میں پیدا ہوئے اور۵۶۱ھ میں بغدادشریف میں انتقال فرمایا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مزار شریف مُلک عراق کے مشہورشہربغدادشریف میں ہے۔(بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرنسبہ وصفتہ، ص۱۷۱،ابو صالح سیدی عبدالقادرالجیلی، ج۱،ص۱۷۸)آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ والد صاحب کی طرف سے حسنی(امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد) ہیں اور والدہ صاحبہ کی طرف سے حسینی (امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد اور)سیّد ہیں۔(بہجۃالاسرار،معدن الانوار،ذکرنسبہ،ص۱۷۱) آپٍ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ابتدائی تعلیم جیلان میں حاصل کی، پھر مزید تعلیم کے لئے 488سنِ ہجری میں بغداد تشریف لائے اور علم ِ دین حاصل کیا اور بہت ہی بڑے عالم بنے ۔(نزہۃ الخاطر الفاتر، ۲۰بتغیر) ایک مرتبہ ایک سوال آیا کہ ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طرح کھائی ہے کہ وہ اللہ پاک کی ایسی عبادت کرے گا کہ جس وقت وہ شخص اُس عبادت کو کرے گا تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کررہا ہو، اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہوجائیں۔ علماء کرام نے یہ مسئلہ غوثِ پاک سیّد عبدُ القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی طرف بھیجا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ وہ شخص مکۂ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور اکیلے طواف کرکے اپنی قسم کو پورا کرے۔(بہجۃ الاسرار، ص:۲۲۶) ان دونوں حکایات سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ کے ولی ، اللہ پاک پر بھروسہ رکھنے والے ہوتے ہیں اور اللہ کے ولی بہت بڑے عالم بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں اگر نیک بننا ہے تو عبادت کے ساتھ ساتھ علم بھی حاصل کرنا ہوگا۔ سلسلہ قادریہ کی شان: سرکارِ بغداد غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں اپنے مرید بلکہ ان کے مریدوں کا سات پشت(یعنی اولاد پھر اُس کی اولاد) تک ہر ایک معاملے کا ذمہ دار ہوں اور اگر میرے مرید کا ستر(کپڑا وغیرہ)مشرق میں کھل جائے اور میں مغرب میں ہوں تو میں اس کو چھپانے والا ہوں۔ (بہجۃ الاسرار، ص۱۹۱)
105 ) ’’ بیعَت کب سے اور کس سے؟‘‘
{} اللّٰہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : بیشک اللہ ایمان والوں سے راضی ہوا جب وہ درخت کے نیچے تمہاری بیعت کررہے تھے ۔ ( پ۲۶، سورۃ الفتح، آیت۱۸) (ترجمہ کنز العرفان) {}مسلم شریف میں ہے،حضرتِ عُبادَہ بِن صامِت رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سا تھ ایک مجلس میں تھے،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم لوگ مجھ سے اس پر بیعت کرو پھر آپ نے مُختلف باتوں پر بیعت لی۔(مسلم، کتاب الحدود ، باب الحدود کفارات لأھلھا...الخ ، ص۹۳۹، حدیث:۱۷۰۹ مُلخصاً) {}حضرتِ امام فخرُ الدِّین رازی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ تفسیرِ کبیر میں نقل فرماتے ہیں: جب مکۂ پاک میں ستّر (70)صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےرسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے مُختلف باتوں پر بیعت کی تو صحابۂ کرامرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےعرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! جب ہم ایسا کر لیں گے تو ہمیں کیا صِلہ ملے گا؟ تو اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جنّت۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےعرض کی: یہ تو فائدے والی بیعت ہے،ہم اس بیعت کو نہ توڑیں گے اور نہ ہی توڑنے کا کہیں گے،اس پر یہ آیت نازِل ہوئی، ترجمہ (Translation) (ترجمہ کنز العرفان): بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے ۔ (پ۱۱،التوبة: ۱۱۱) ( تفسیرِ کبیر، پ۱۱، التوبة ، تحت الآیة:۱۱۱، ۶ / ۱۵۰) {}پیری ، مریدی میں بیعت یہ ہے کہ کسی صحیح پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین پر عمل اور روحانیت (spirituality)حاصل کرنا کہ بغیر پیر صاحب کے یہ راستہ طے نہیں ہو سکتا۔کتابیں پڑھ لینا یا ورد وظیفہ کر لینا کافی نہیں، اس سفر میں آنے والی مشکلات پیر صاحب ہی کی وجہ سے دور ہوتی ہیں۔اس منزل (destination) کو پانے کے لیےاپنا ہر کام، پیر صاحب کی رہنمائی کے مطابق کرے۔(فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۴۷۹ ماخوذاً) {} جس مسلمان کےعقیدے (نظریے)صحیح اور قرآن و حدیث کے مطابق ہیں۔علماء کی پیروی اور تقلید کو ضروری سمجھتا ہو، اولیاء کرام سے محبّت رکھتا ہو، وہ بے پیرا (یعنی بغیر پیر والا)نہیں بلکہ قرآن وحدیث سے رہنمائی حاصل کرنے والا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۴۷۹ ، ماخوذاً) {}پیر کے لیے چار شرطیں ہیں ، بیعت سے پہلے یہ باتیں دیکھنا ضروری ہیں:{1} سنّی صحیحُ العقیدہ ہو(اس کے اسلامی نظریے درست ہوں) {2} اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضرورت کے دینی مسئلے کتابوں سے نکال سکے {3} فاسِقِ مُعلِن(سب کے سامنے گناہ کرنے والا جیسے: داڑھی صاف کروانے والا یا کٹوا کر ایک مُٹھی سے کم کرنے والا، دو چار انگوٹھیاں یا چھلا(بغیر نگینے کی انگوٹھی )پہننے والا ) نہ ہو {4} اُس کا سلسلہ نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تک ملا ہوا ہو(یعنی اُن پیر صاحب کو کسی پیر صاحب نے بیعت کروانے کی اجازت دی ہو اور اُن کو کسی اور پیر صاحب نے، اس طرح اوپر جاتے جاتےصحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے ہوتے ہوئے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تک یہ سلسلہ پہنچتا ہو)۔ (بہارِ شریعت ، فتاوٰی رضویہ ج۲۱ ص۶۰۳ مُلخصا) اگر کسی پیر کے اندر ان چاروں میں سے ایک بھی شَرط کم ہو تو اس کا مُرید بننا جائز نہیں۔(سانپ نما جن ص۲۱،۲۲) {} کوئی پیر بلکہ ولی بھی ایسا نہیں کہ جس پر نماز معاف ہو یا اُس پر شریعت اور دین کے حکم پر عمل کرنا ضروری نہ ہو۔سب دین اور شریعت کے پابند(obliged)ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں عمل کی کیا ضرورت ہم منزل (destination) تک پہنچ گئے۔ ایسوں کے بارے میں حضرت جُنید بغدادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:وہ سچ کہتے ہیں کہ ہم پہنچ گئے، بیشک پہنچ گئے، مگر کہاں؟ جہنم میں۔(الیواقیت والجواھر ، المبحث السادس والعشرون ، ص۲۰۶) {}بلا وجہ شرعی پیر کامل کی بیعت توڑنا ناجائز ہے کہ اس میں پیر کامل کو تکلیف پہچانا بھی ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد ۲۷ ص ۵۷۷ ، ماخوذاً) {}: ’’بذریعۂ قاصِد (نمائندہ) یا خط مُرید ہو سکتا ہے‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلد ۲۶ صفحہ ۵۸۵ ) جب نُمائندے یا خط کے ذَریعے مُرید ہو سکتا ہے تو ٹیلی فون اور لاؤڈ اسپیکر پر تو بدرجۂ اَوْلیٰ بیعت ہو سکتی ہے۔
106 )’’ آلِ رسول (سیّد صاحب )نے نصیحت نہ کی‘‘
ایک مرتبہ حضرت داؤدطائی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے سلسلہ قادریہ کے شیخ امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے عرض کی: آپ اہلِ بیت میں سے(یعنی سیّد صاحب) ہیں،اس لئے مجھے کوئی نصیحت (advice)فرمائیں۔ لیکن وہ خاموش رہے ۔ جب آپ نے دوبارہ عرض کی کہ اہلِ بیت ہونے کی وجہ سے اللہ پاک نے آپ کو فضیلت(excellence) دی ہے ، تو نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔یہ سن کر امام جعفررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:مجھے تو خود یہ خوف ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے نانا جانصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرا ہاتھ پکڑ کر یہ نہ پوچھ لیں کہ تو نے خود میری پیروی (obeying)کیوں نہیں کی ؟ کیونکہ نجات کا تعلق نسب (یعنی خاندان)سے نہیں بلکہ نیک اعمال پر ہے ۔ یہ سن کر حضرت داؤو طائی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو رونا آگیا کہ وہ بزرگ جو پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خاندان سے ہیں ، جب یہ اللہ پاک کا اتنا خوف رکھتے ہیں، تو مجھے کتنا زیادہ رکھنا چاہیے ؟ (تذکرۃ الاولیاء عربی، ص۴۲ ) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں پہلی بات تو یہ پتہ چلی کہ جب کسی بزرگ یا عالم دین سے ملاقات ہو تو ان سے علم کا سوال کیا جائے، دوسری بات یہ پتہ چلی کہ بزرگوں سےنسبت اور تعلق ہونے کے باوجود نیک کام کرنے چاہئیں بلکہ زیادہ کرنے چا ہئیں۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت امام جعفرصادِقرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ17ربیع الاول83 سنِ ہجری پیر شریف کے دن مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کی کُنْیَت(kunyah)ابوعبداللہ اور ابواسماعیل جبکہ لقب (title)صادق،فاضل اور طاہر ہے۔آپ حضرت امام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بڑے بیٹےہیں،آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی والدہ حضرتِ سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی پوتی تھیں۔آپ آلِ رسول(یعنی سیّد) اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ ہیں۔ امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 68برس کی عمر میں 15رَجَبُ الْمُرَجَّب 148 ہجری کو وفات پائی۔ آپ کا مزار، مدینے شریف کے مشہورقبرِ ستان جنتُ البقیع میں والدِ محترم حضرت سیدنا امام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےقریب ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء، ۶/۲۶۹،شواہدُ النّبوہ ،ص۲۴۵) اہل ِ بیت سے محبت کرنے والے پندرہ(15) رجب کو، ان کی نیاز میں، ایصال ثواب (یعنی انہیں ثواب پہنچانے) کے لیے کھیر پوری کھلاتے ہیں۔ آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی شان: ایک بزرگرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں:میں جب بھی حضرت امام جعفرصادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دیکھتا ہوں تو جان لیتا ہوں کہ یہ انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔(حلیہ الاولیاء،۳/۲۲۵، رقم:۳۷۸۲)
107 ’’ وسیلے کی برکت‘‘
حضرت حسن بن ابراہیم حنبلیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہبہت بڑے بزرگ اور عالم تھے، آپ فرماتے ہیں: جب مجھے کوئی مشکل پیش آتی ہے،میں حضرت امام موسی کاظم بن جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِما (جو کہ سیّد صاحب اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ ہیں)کےمزار پر حاضر ہو کر ان کے وسیلے سے دعا مانگتا ہوں تو اللہ پاک میری دعا قبول فرماتا ہے اور میرا کام آسان فرمادیتاہے ۔(تاریخ بغداد،۱/۱۳۳) اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہاللہکے ولیوں کے مزاروں پر حاضر ہو کر ان کے وسیلے سے دعا کرنا بہت اچھا کام ہے۔ یہ طریقہ ہمارے بزرگوں کا ہے اور اس میں دعا قبول ہونے کی زیادہ امید ہے، ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ کوئی عالم بھی ہو تو وہ بھی مزارات پر حاضر ہو کر فیض حاصل کرے۔ تَعَارُف (Introduction): آلِ رسول(یعنی سیّد)،سلسلہ قادریہ کے بزرگ،حضرت سیّدموسیٰ کاظمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ128 سنِ ہجری کو پیدا ہوئے، نام موسیٰ،کُنْیَت(kunyah) ابو الحسن اور القابات صابر، صالح اور مشہور لقب(title) کاظم ہے، آپ حضرت امام جعفر صادق کے بیٹے ہیں، بہت زیادہ عبادت کرنے والے سخی تھے، غصے پر قابو پالیتے تھے جس کی وجہ سے آپ کو کاظم (یعنی غصہ پی جانے والا) لقب ملا۔ 183 ہجری میں 55 سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ (تاریخ بغداد، ۱/۱۳۳-۱۳۷ ملتقطا) آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی شان: امام شافعیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : تجربہ(experience)ہے کہ آلِ رسول(یعنی سیّد) ،حضرت موسی کاظمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی قبر شریف پر دعا قبول ہوتی ہے۔(اشعۃ اللمعات، ۱/ ۷۶۲ مُلخصاً)آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہساری رات عبادت میں اوردن روزے میں گزارتے تھے،کوئی آپ پر زیادتی کرتا تو آپ اسے معاف فرما دیتے،عراق والوں میں مشہور تھا کہ اللہ پاک سے دعا کر کے اپنے مسائل حل کروانے کے لیے آپ کا مزار شریف ایک دروازے کی طرح ہیں۔(نور الابصار، ص۱۶۴، مُلخصاً)
108 ) ’’ سیّدوں کی شان‘‘
{}ایک سیّد صاحب جب حضرت عمر بن عبد العزیز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے پاس کسی کام سے تشریف لائے تو آپ نے کہا: اگر آپ کو کوئی کام ہو تو آپ مجھے بُلا لیا کریں یا مجھے خط لکھ کر بھیج دیا کیجئے۔ آپ کو یہاں دیکھ کر مجھے شرمندگی ہورہی ہے(I'm embarrassed)۔( نورالابصار، ص۱۲۹) {}حضرت علی خَوّاص رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: سیّد صاحباناگرچہ نسب میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کتنے ہی دور ہوں(یعنی اولاد، ان کی اولاد، ان کی اولاد۔۔۔۔۔۔۔ میں سےہوں) اُن کا ہم پر حق ہے کہ ہم اپنی خواہشوں پر اُن کی رضا اور خوشی کو اہمیت دیں ،اُن کی بہت تعظیم(respect) کریں اور جب یہ حضرات زمین پر بیٹھے ہوں تو ہم اُونچی جگہ نہ بیٹھیں۔( نورالابصار، ص۱۲۹) {}ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کو کسی سیّد صاحب کی ضرورت کا پتہ چلا تو اُس وقت جتنی رقم آپ کے پاس موجود تھی ، وہ سب رقم اُن کے سامنے رکھ دی۔سیّد صاحب نے اُس میں سے تھوڑی رقم لی تو اُسی وقت آپ نے یوں فرمایا: حُضور! یہ سب آپ کے لیے ہے۔ سیّد صاحب بولے: مجھے اتنی رقم کافی ہے۔ پھر جب وہ جانے لگے تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ بھی اُن کو چھوڑنے کے لیے ساتھ گئے۔ جب وہ چلے گئے تو اپنے خادم سے فرمایا: دیکھو! سیّد صاحب کو آئندہ اپنی ضرورت پر پریشان نہ ہونا پڑے۔ ( حیاتِ اعلیٰ حضرت، ۱/۱۸۹مُلخصاً) {}امیر ِ اہل سنّت، محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سیّدوں کی بہت تعظیم(respect) کرتے ہیں ، ملاقات کے وقت اگر بتادیا جائے کہ یہ سیّد صاحب ہیں تو کبھی اُن کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں، کبھی اپنے برابر بٹھا لیتے ہیں اور کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سیّد صاحب کے ہاتھ چُوم لیا کرتے ہیں۔چھوٹے بچے جو سیّد ہوتے ہیں، ان سے بہت زیادہ محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔ {}امام عبدُالوہاب شعرانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:کسی شخص نے ایک سَیِّد صاحِب کو مارا تو اُسے اسی رات خواب میں حُضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اِس حال میں زِیارت ہوئی کہ آپ نے اپنا منہ شریف دوسری طرف کیا ہوا تھا۔ اُس نے عَرض کی:یارسولَ اللہ! میرا کیا گناہ ہے؟ فرمایا: تُو مجھے مارتا ہے، حالانکہ میں قِیامت کے دِن تیری شفاعت کرنے والا ہوں۔ اُس نے عَرْض کی: یارسولَ اللہ! مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ کو مارا ہو۔ ارشاد فرمایا: کیا تُو نے میری اَوْلاد کو نہیں مارا؟ اُس نے عَرْض کی: ہاں۔ فرمایا: تیری ضَرْب (یعنی مار) مجھے ہی لگی۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنامُبارَک ہاتھ نکال کر دِکھایا جس پر وَرم تھا(اس طرح سوجا (swollen)ہوا تھا) جیسے کہ شہد کی مکّھی نے کاٹا ہو۔(الشرف المؤبد،ص۱۰۴) {}سیّد صاحبان بھی توجہ فرمائیں! حضرتِ عبد اللہ بن مبارَک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ ایک بار کہیں تشریف لئے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک سیِّد صاحِب مل گئے اور کہنے لگے :آپ کی بھی کیا خوب شان ہے اور ایک میں بھی ہوں کہ سیِّد ہونے کے باوُجُود مجھے کوئی نہیں پوچھتا ! آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے فرمایا:میں نے آپ کے جدِّ اعلیٰ( نانا محترم) مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سنّتوں کو اپنایا تو خوب عزّت پائی مگر آپ نے اپنے نانا جان کی سنّتوں کونہ اپنایا تو آپ پیچھے رہ گئے ! عبد اللہ بن مبارَک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ رات جب سوئے تو خواب میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی زِیارت ہوئی، چہرے پر ناراضی معلوم ہو رہی تھی ، کچھ اس طرح فرمایا:تم نے میری آل (یعنی اولاد)کو طَعنہ (taunt)کیوں دیا!آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ بے چین ہو کراُٹھے اور صبح ہوتے ہی مُعافی مانگنے کیلئے سیِّد صاحِب کی تلاش میں نکل گئے۔ دوسری طرف وہ سیّد صاحب بھی انہیں ڈھونڈ رہے تھے، دونوں کی ملاقات ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن مبار ک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے اپنا خواب سنایا۔ سیِّد صاحِب نے سُن کر کہا:مجھے بھی رات میرے نانا جان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے خواب میں تشریف لا کر کچھ اس طرح فرمایا:تمہارے اعمال اچّھے ہوتے تو عبداللہ بن مبارک تم سے یہ بات کیوں کرتے ! عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نےسیِّد صاحِب سے بہت معافی مانگی اور سیِّد صاحِب نے بھی نیکیاں کرنے کی اچّھی اچّھی نیّتیں کیں۔ (ماخوذاز تذکرۃ الاولیاء جزء اول ص ۱۷۰مُلخصاً) {}اگر کوئی شخص ایسی بات کہہ دے کہ جس پر علماء کرام اور مُفتیانِ کرام یہ فرما دیں کہ اب وہ مسلمان نہیں رہا اور ایسی بات کرنے والا پہلے سیّد بھی تھا تو اب وہ سیّد نہیں رہا۔(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ص۲۸۸) {}بد مذہبوں اور گمراہ لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا حرام ہے اور بد مذہب ہوجانے کا خطرہ ہے۔(ملفوظات اعلی حضرت ص۲۷۷، مُلخصاً) اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں:انھیں اپنے سے دور کر و اور ان سے دور بھاگو وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈالیں ۔(صحیح مسلم مقدمہ، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔الخ، الحدیث۷، ص۹) {}سنّی عالم، سیّد صاحب سے افضل ہیں۔(فتاوی رضویہ جلد۲۹،ص۲۷۴) اللہ پاک ہمیں اور ہماری نسلوں کو سیّد زادوں کی تعظیم (respect)کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ((اےاللہ! اس دعا کو)قبول فرما(ہمارے) امانت دار (غیب اور چھپی ہوئی باتوں کی خبر دینے والے)نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی عزّت و شان کے صدقے میں)