’’ دین کی ضروری باتیں ‘‘(part 03_A)

109 ’’ شیطان میرا نوکر(servent) ہے‘‘

حضرت ایوب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ہمارے علاقے میں اللہ پاک پرمکمل یقین(believe) رکھنے والا ایک نوجوان (young man)رہتا تھا۔ وہ عبادت اور اللہ پاک پر بھروسہ ( trust)کرنے کے معاملے میں بہت مشہور تھا۔ لوگو ں سے کوئی چیز نہ لیتا۔ جب بھی کھانے کی ضرورت ہوتی اسے اپنے سامنے سِکّوں (coins)سے بھری ایک تھیلی مل جاتی۔ اسی طر ح وہ اپنے دن رات عبادت میں گزارتا۔ ایک مرتبہ لوگو ں نے اس سے کہا : اے نوجوان! تو سِکّوں کی وہ تھیلی (pouch of coins)لینے سے ڈر! ہو سکتا ہے شیطان تجھے دھوکا دے (cheat کر)رہا ہو او روہ تھیلی اسی کی طرف سے ہو۔ اس نے کہا: میری نظر تو اپنے ربّ کی رحمت اور کرم کی طرف ہوتی ہے، میں اللہ پاک کے علاوہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتا ، جب میرا ربّ مجھےدیتا ہے تو میں لے لیتاہوں ۔ اگر وہ سِکّوں(coins) کی تھیلی میرے دشمن شیطان کی طرف سے ہو تو اس میں میرا کیا نقصان بلکہ مجھے فائدہ ہی ہے کہ میرا دشمن میرے کام کر رہاہے، اگر واقعی ایسا ہے تو اللہ پاک نے اُسے میرا نوکر(servant)بنا دیا ہے۔ اس سے زیادہ اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ میرا سب سے بڑا دشمن، میرا نوکر بن کر میری خدمت(service) کرے اور میں اس کی طرف نظر نہ رکھو ں بلکہ یہ سمجھوں کہ اللہ پاک مجھے میرے دشمن کے ذریعے مال دے رہا ہے بلکہ ساری دنیا کو اللہ پاک ہی دے رہا ہے جو میرا ربّ ہے۔ اُس نوجوان کی یہ بات سن کر لوگ خاموش ہوگئے اور سمجھ گئے کہ اس کو واقعی اللہ پاک کی طرف سے ہی مال مل رہا ہے۔(عیون الحکایات ،ج۲،ص۱۰۵) اس سچے واقعے سے یہ پتا چلا کہ اللہ پاک جو چاہے کرسکتا ہے، جسے جس طرح چاہے دے سکتا ہے۔ اُسے کسی کی ضرورت نہیں، نہ لوگوں کی ، نہ فرشتوں کی، نہ سِکّوں (coins) کی۔ اپنے نیک بندوں کو کبھی بہت آسان انداز(easy style) سے مال دے دیتا ہے مگر اس نے دنیا کا ایک نظام(system) بنایا ہے، ہمیں جائز طریقے سے حلال کمانا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نیک لوگوں کو مال کمانے میں مشکل ہو کیونکہ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور جو اللہ پاک کی رحمت سے اس امتحان میں پاس(pass ) ہوگا، وہ اللہ پاک کے کرم سے جنّت میں جائےگا۔

110 ’’ بیس غم بیس سیڑھیاں‘‘

ایک عورت کے بیس(20) بیٹے تھے پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہر سال ایک(1) بیٹا مرنا شروع ہوا، ایک ایک کر کےانیس (19) بیٹوں کا انتقال ہوگیا اور ان کی ماں صبر کرتی رہی ، جب بیسویں (20th )بچے کو وہی بیماری ہوئی تو یہ گھبرا گئی (یعنی پریشان ہوگئ) بہت علاج کیا ، بڑی کوششیں کیں لیکن فائدہ نہ ہوا اورآخری بیٹا بھی مر گیانتیجہ یہ ہوا کہ ماں پاگل(crazy) ہو گئی ایک رات اسی حالت (condition)میں اس نے خواب میں ایک بہت خوبصورت باغ دیکھا جس میں درخت اور نہریں (canals)تھیں۔ اس میں بہت سے محل (castles)تھے، ہر ایک پر مالک کا نام لکھا ہواتھا ایک محل پر اُ س عورت کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی اور اندر چلی گئی تو اپنے بیسوں بیٹوں(twenty sons) کو وہاں دیکھا کہ وہ آرام سے بیٹھے تھے۔ماں کو دیکھ کر ایک بیٹا بولا، ماں!ہم اپنے ربّ کے پاس بہت آرام سے ہیں، کسی کی آواز آئی : اے مسلمان عورت!تیر ے لیے یہ محل (castle)تھا مگر تیرے نیک کام ایسے نہیں تھے کہ تو یہاں تک پہنچ جاتی اس لئے تجھے بیس (20) تکلیفیں، مصیبتیں اور غم دیئے گئے یہ بیس(20) غم اس جگہ کی بیس (20) سیڑھیاں(stairs) تھیں جن کو تو نے اللہ پاک کے کرم سے طے کرلیا اب تیرے لئے خوشی ہی خوشی ہے۔(رسائل نعیمیہ،ص۰۴۴مُلخصاً) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ بندہ جتنا مشکل امتحان پاس(pass ) کرتا ہے اُسےاتنا ہی بڑا انعام (reward)بھی ملتا ہے، لیکن اس کے لیے مشکلوں پر صبر patience)) کرنا پڑتا ہے۔ اس حکایت سے یہ بھی پتا چلاکہ اللہ پاک کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ مصیبت پر صبر کرنے والوں کو انعام دیتا ہے،یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک جو چاہے کر سکتا ہے ہر نفع اور نقصان(profits and loss) اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہمارا مالک اور رحم فرمانے والا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے فیصلوں(decisions) پر راضی اور خوش رہیں۔

111 ’’ اللہ پاک نے لکھ دیا‘‘

اللہ پاک کا فرمان ہے،ترجمہ (Translation) : بلکہ وہ بہت بزرگی والا قرآن ہے،لو حِ محفوظ میں۔(پ۳۰، البروج:۲۲،۲۱)(ترجمہ کنزالعرفان”لَوْح“ عربی زبان میں تختی (board)کو کہتے ہیں ، کوئی شیطان لوح محفوظ تک نہیں جا سکتا اوراس میں تبدیلی بھی نہیں ہوسکتی اس وجہ سے اِسے لوحِ محفوظ(محفوظ تختی) کانام دیا گیا ہے(تفسیر بغوی، ج۴،ص۴۴۰، پ۳۰،البروج،تحت الآیۃ:۲۲۔تفسیر بیضاوی، ج۵،ص۲۹۲، پ۲۷، الواقعۃ، تحت الآیۃ:۷۸)لوحِ محفوظ اور قلم پر ایمان (believe)رکھنا واجب اور ضروری ہے (شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص۲۶۳ لوح وقلم کی حقیقت (یعنی وہ اصل میں کیسے ہیں، اسے) اللہ پاک ہی جانتا ہے اور اللہ پاک نے اس کا جو علم اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دیا، اُس علم سےآپ نے فرمایا:لوحِ محفوظ سفید موتی(white pearl) سے بنی ہے،اس کے صفحات سرخ یاقوت(یعنی لال قیمتی پتھر) کے ہیں، اس کا قلم نور( ) ہے اور کتابت( یعنی لکھائی)بھی نور ہے(حلیۃالاولیاء،ج۴،ص۳۳۸)لوحِ محفوظ عرش کی سیدھی طرف ہے(تفسیرِ قرطبی، ج۱۰،ص۲۱۰، پ ۳۰، البروج، تحت الآیۃ:۲۲) حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش تمام آسمان و زمین کو گھیرے ہوئے ہے(یعنی بہت ہی بڑا ہے) اور اس وقت تو چار(4) فرشتے اس کو اپنے کندھوں(shoulders) پر اٹھائے ہیں اور قیامت کے دن آٹھ(8) فرشتے اٹھائیں گے( ملفوظات اعلی حضرت، ص:۵۰۸مُلخصاً)عرش تمام مخلوقات (creatures) میں سب سے بڑا ہے(شرح المقاصد،ج ،۳ص۳۶۱)عرش و کرسی پر ایمان لانا( believe کرنا) واجب اور ضروری ہے(تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید، ص۴۳۴) عرش و کرسی کی حقیقت بھی اللہ پاک ہی جانتا ہےکرسی اللہ پاک کی بہت بڑی نورانی مخلوق(creature) ہے۔ یہ عرش کے نیچے عرش سے ملی ہوئی ہےاور ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ ساتوں آسمان کرسی کے سامنے ایسے ہیں جیسے بہت بڑے میدان میں ایک چھوٹی سی انگوٹھی (ring) (یعنی کرسی، ساتوں آسمان سے بہت زیادہ بڑی ہے)اور خود کرسی، عرش کے سامنے ایسی ہے جیسے بہت بڑے میدان کے سامنے ایک چھوٹی سی انگوٹھی (ring) ہو(کتاب العظمۃ، ص۸۳، حدیث:۲۰۸ ماخوذاً) (یعنی عرش، کرسی سے بہت زیادہ بڑاہے)لوحِ محفوظ میں مخلوق(creatures) کی تمام باتیں مَثَلًا موت، رِزْق (جیسے انسان کیا کیا کھائے گا، اُسے کیا کیا ملے گا وغیرہ)، اَعمال (یعنی کیا کیا کام کرے گا)اور ہر قسم کے فیصلے (مثلاً کس کے ساتھ کیا ہوگا) لکھے ہوئے ہیں (تفسیرِ قرطبی، ج۱۰،ص۲۱۰، پ۳۰، البروج، تحت الآیۃ:۲۲)لوحِ محفوظ میں جو کچھ لکھا ہے، اسے تقدیر بھی کہتے ہیں۔

112 ’’آگ ٹھنڈی ہو گئی‘‘

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کواللہ پاک نے رسول بنا کر اس دنیا میں بھیجا،جن لوگوں کو آپ نے اللہ پاک کے ایک ہونے اور صرف اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا وہ قوم جھوٹے خداؤں (false gods)کی عبادت کرتی تھی اور ان کا ایک ظالم بادشاہ تھا جس کا نام” نمرود “تھا، وہ اپنے آپ کو خدا کہتا تھا ، اس نے اپنے ماننے والوں (believers)کے ساتھ مل کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کوجان سے مارنے کا پروگرام بنایا، اس کام کے لیے اس نے ایک میدان (ground)میں بہت زیادہ لکڑیاں جمع کروائیں اور ان میں آگ لگا دی،اتنی خطرناک(dangerous) آگ تھی کہ کوئی قریب بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اب غیر مسلموں نے غلیل (slingshot)کی طرح کے ایک طرح کے جھولےمیں رکھ کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو اس آگ کی طرف اُچھال دیا...! جب آگ کے پاس پہنچے تو جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حاضر ہوئے اور عرض کی: حضور کچھ حاجت(یعنی کوئی کامneed) ہے؟ فرمایا: ہاں ہے، مگرتم سے نہیں(یعنی کام تو ہے مگر تم سے نہیں، اللہ پاک سے)۔عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے(یعنی اللہ پاک سے عرض کیجیے)۔ توفرمایا:میر ا ربّ میری حالت(condition) جانتا ہے میرے لیے یہی کافی (enough)ہے(یعنی جب اللہ پاک کو معلوم ہے کہ مجھے آگ میں ڈالا جارہے تو اب اللہ پاک چاہے گا تو میں آگ سے بچ جاؤنگا) ۔ اللہ کریم نے آگ کو حکم فرمایا،ترجمہ(Translation): اے آگ! (حضرت)ابراہیم(عَلَیْہِ السَّلَام) پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا ۔ (ترجمہ کنز العرفان ) (پ۱۷،الانبیاء: ۶۹) اللہ پاک کے اس حکم کو سُن کر پوری زمین میں جہاں جہاں آگ تھی سب جگہ بُجھ گئی (بند ہوگئی) کہ شاید مجھے یہ حکم ملا ہو۔ اور جس آگ میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو غیر مسلموں نے ڈالا تھا وہ تو بالکل ٹھنڈی ہوگئی۔ علماء فرماتے ہیں کہ اگراللہ پاک آگ کو بُجھنے(بند ہونے) کے ساتھ ”سلامتی والی ہونے کا“نہ فرماتا تو یہ آگ اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک(cool) تکلیف دیتی لیکن حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو آگ نے نہ جلایا اور نہ ٹھنڈک کی وجہ سے کوئی تکلیف دی۔ (بہار شریعت ،ج۱،ص۲۶ بتغیر) اس روایت سے یہ سیکھنے کوملا کہ سب کچھ اللہ پاک کے حکم سے ہوتا ہے، اسے کسی کام کے لیے کسی اور کی ضرورت نہیں، دیکھیں آگ کا کام جلانا(burn کرنا) ہوتا ہے مگراللہ کے حکم سے آگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے لیےٹھنڈی ہوگئی حالانکہ پہلے وہ اتنی گرم تھی کہ کوئی بھی اس کے قریب نہ جا سکتا تھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے،اسے کوئی روکنے والا نہیں، پانی سے آگ بُجھ جاتی ہے، پیاس ختم ہو جاتی ہے اللہ پاک چاہے تو پانی جلائے اور آگ پیاس ختم کر دے کیونکہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے ۔

113 ’’موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور اللہ پاک کا دیدار‘‘

اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے کلام فرمانے (یعنی اپنی شان کے مطابق بات کرنے)کے لیے طورِ سینا (ایک پہاڑ)پر آنے کا فرمایا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت (یعنی پاکی)حاصل کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کرحاضر ہوئے ۔اللہ پاک نے ایک بادل بھیجاجو پہاڑ کے ہر طرف آگیا۔ شیطان اور زمین کے جانور بلکہ فرشتے تک وہاں سے دور ہو گئے۔ آپ کے لئے آسمان کھول دیا گیا تو آپ نے آسمان کے فرشتوں کو دیکھ لیا بلکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ پاک کے عرش کو بھی صاف صاف دیکھ لیا پھر اللہ پاک نے آپ سے کلام فرمایا(یعنی اپنی شان کے مطابق بات کی)۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ پاک سے اس طرح بات کی کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو آپ کے ساتھ تھے ، وہ بھی نہ سن سکے کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے کیا فرمایا؟ اب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے دل میں یہ بات آئی کہ وہ اللہ پاک کو دیکھیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۱۳۶، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۲۲۹-۲۳۰) تو آپ نے اللہ پاک سے عرض کی: اے میرے ربّ! میں تیرا دیدار کرنا چاہتا ہوں ‘‘ یعنی آنکھ سے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۷۰۷) قرآن پاک میں ہے کہ اللہ پاک نے ان سے فرمایا: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا( ترجمہ کنز العرفان )(الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳) پھر جب اللہ پاک نےپہاڑ پر اپنا نور چمکایا تو پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بے ہوش ہو گئے(الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳مُلخصاً) اس قرآنی واقعے سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی میں جاگتی آنکھوں سے اﷲ پاک کا دیدار (نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے علاوہ )کسی کو نہیں ہو سکتا۔ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے معراج کی رات ، اللہ پاک کا دیدار کیااور آخرت میں ہر مسلمان جنّت میں جانے کے بعد اللہ پاک کا دیدارکرے گا۔ یاد رہے! کہ خواب میں اللہ پاک کا دیدار انبیا عَلَیْہِم السَّلَام کو ہوا بلکہ کچھ اولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کو بھی ہواہے۔ ہمارے امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو خواب میں سو (100)بار اللہ پاک کی زیارت ہوئی ہے۔

114 ’’ وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے‘‘

دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے یا ہوگا اور بندے جو کچھ کرتے ہیں یا کریں گے،نیکی یابُرائی وہ سب اللہ پاک کے علم میں ہے کہ اس کا علم بھی ہمیشہ سے ہمیشہ تک رہے گا اور اللہ پاک بھولنے سے پاک ہے جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب اللہ پاک نے اپنےعلم کے مطابق(according to ilm)، اپنے پاس لکھا ہوا ہے، اسے تقدیر کہتے ہیں (کتاب العقائد،ص۲۴) جو تقدیر کو نہ مانے،پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُسے”اِس اُمّت(nation) کا مجوسی“(یعنی آگ کی عبادت کرنے والا)کہاہے۔(ابو داؤد، ۴/۲۹۴،حدیث:۴۶۹۱) تقدیر کا انکار(denial) کرنا یعنی تقدیر کو نہ ماننا گمراہی (اور جہنّم میں لے جانے والی بات)ہے (فتاوی رضویہ ، ج۱۶، ص۵۸۶ ماخوذاً) تقدیر پر ایمان (believe)رکھنے کے بہت سے فائدے ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مصیبتوں اوربیماریوں پر صبر patience)) کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ ہمارا ذہن بنا رہے گا کہ یہ سب تقدیر میں لکھا تھا۔ دنیا میں بندے کا امتحان ہوتاہے اور ہمیں کامیاب ہونے کی کوشش کرنی ہے جیسا کہ بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کرتے تھے۔ بعض بزررگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایسے تھے کہ بچے کے انتقال پر ہنسنے لگے کہ ہم اللہ پاک کی رضا پر خوش ہی انسان پتھر کی طرح مجبور(forced) نہیں ہے، اُسے ایک قسم کا اختیار (a kind of authority)ہے۔ انسان کوئی کام کرناچاہے تو کر سکتا ہے اور نہ کرنا چاہے تو نہیں کرتا۔ انسان کے پاس عقل بھی ہے جس کے ذریعے وہ اپنا فائدہ اور نقصان سمجھتا ہے،اسی لئے اگر انسان کوئی برا کام کرے تو اس کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا( بہارِ شریعت ح۱، ص۱۸ ماخوذاً) ۔ بیمار آدمی کے پاس عقل ہے، اگر اس کے سامنے دو پیالے ہیں کہ ایک میں شہد (honey)ہے اور دوسرے میں زہر(poison)۔ اب اگر وہ شہد(honey) پی کر صحت مند (healthy)ہو جائے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اوراگر زہر(poison) پی کر مر جائے تو لوگ اسے بُرا بھلا کہتے ہیں(فتاوی رضویہ ، ج۲۹، ص۲۹۰ ماخوذاًیاد رہے کہ تقدیر پر یقین(believe) رکھنا، اسلامی عقیدوں(Islamic beliefs) میں بہت اہم(Important) ہے۔ مگر اس بارے میں بحث کرنا (یعنی آپس میں باتیں کرنا یا اُلجھنا،discussion کرنا)منع ہے، حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بھی تقدیر کے بارے میں بحث (یعنی سوال جواب اور گفتگو )کرنے سے منع فرمادیا (ترمذی،ج۴،ص۵۱، حدیث:۲۱۴۰) تو ہمیں اس میں سوال جواب کرنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟( بہارِ شریعت ح۱، ص۱۸ ماخوذاً) بس ہمارے لیے یہی کافی (enough)ہے کہ اللہ پاک ہمارا رحم فرمانے والا ربّ ہے،وہ ظلم سے پاک ہے اور ہم اُس کے گناہ گار (sinner)بندے ہی بُرا کام کرکے اس طرح کہنا کہ یہ اللہ پاک کی طرف سے ہے،بہت بُری بات ہے بلکہ اس طرح کہے کہ یہ اچھا کام اللہ پاک نے مجھ سے لے لیا(مثلاً اللہ پاک کے کرم سے میں نے نماز پڑھ لی) اور بُرا کا م کیا تو اس طرح کہے کہ یہ کام میں نے کیا (مثلاً میں نے یہ بُرا ئی کی )۔(بہارِ شریعت ح۱، ص ۱۸،۱۹ماخوذاً)

115 ’’دن رات کسے گزارتے تھے؟ ‘‘

حضرت ِمِسْعَر رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی مسجِد میں حاضِر ہوا، دیکھا کہ فجر کی نماز پڑھنےکے بعد آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ لوگوں کو سارا دِن علمِ دین پڑھاتے رہتے، پورے دن میں صِرف نَمازوں کا وَقفہ (gape)ہوا۔ عشاء کی نماز کے بعدآپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے گھر چلے گئے مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد سادہ لباس پہن کر،عِطْر لگا کر، پھر مسجِد آگئے اور ایک کونے (corner)میں نفل نمازپڑھنا شروع کر دی یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوگیا،آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ پھر اپنے گھر چلےگئے اور لباس بدل(change) کر واپَس آئے اور فجر کی نمازجماعت کے ساتھ پڑھی اور کل (yesterday)کی طرح عِشاء تک علم دین پڑھاتے رہے۔ میں نے سوچا آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بَہُت تھک گئے(tired) ہونگے، آج رات تو ضَرور سوئیں گے، مگر دوسری رات(second night) بھی نفل نماز پڑھتے رہے۔ پھر تیسرا دن اور رات بھی اِسی طرح گزرا۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ زندگی بھر ان کے پاس رہ کر علم حاصل کرونگا۔ بس!میں وہی رُک گیا۔ میں نے امامِ اعظم رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دن میں کبھی روزے کے بغیر نہیں دیکھا اور رات کو کبھی عبادت ا ور نفل نماز چھوڑتےنہیں دیکھا ۔ ہاں! ظہر سے پہلےآپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ دیر آرام فرما لیا کرتے تھے۔ (اَ لْمَناقِب لِلْمُوَفَّق ج ۱ ص۲۳۰تا۲۳۱ کوئٹہ، مُلخصاً) اس طرح ظہر سے پہلے سونے کو”قیلولہ “کہتے ہیں ، دوسرے مکروہ وقت(یعنی ضحوہ کُبریٰ جونمازکلینڈراور اپلییکیشن (prayer time dawateislami mobile application ) سے دیکھا جاسکتا ہے) سے لے کر ظہر تک ”قیلولہ “ کرنے کا وقت ہے(فتاوی رضویہ ج۷، ص ۸۷، ماخوذاً) ۔قیلولہ مُستحب اور ثواب کا کام ہے،یہ سونااُن لوگوں کے لیے ہے کہ جو رات کو عبادت کرتے یا علمِ دین حاصل کرتے ہیں۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶، ص۴۳۴،۴۳۵،مُلخصاً) شروع میں آپ ساری رات عبادت نہیں کرتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے یہ کہہ دیا کہ’’ ابو حنیفہ (رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ )ساری رات نہیں سوتے(یعنی عبادت کرتے ہیں)۔ ‘‘ اب آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اُس کی بات سچی کرنے کے لیے ساری رات عبادت شُروع کردی۔(اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان ص۵۰ مُلخصاً) آپ نےتیس(30) سال تک روزے رکھے، تیس (30)سال تک ایک رَکعَت میں قرآنِ پاک خَتْم کرتے رہے، چالیس (بلکہ 45)سال تک عِشا ءکے وُضُو سے فجر کی نَماز پڑھی ، ایک رَکْعَت میں پورا قرآن کریم خَتْم کرلیتے تھے، جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پر آپ نے سات ہزاربار قرآنِ پاک خَتْم کئے تھے۔(اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان ص۵۰ ) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ علم کے ساتھ عمل کا بہت بڑا مقام ہے۔ فرض کےساتھ ساتھ نفل نماز بھی پڑھنی چاہیے(لیکن یہ یاد رہے کہ قرآنِ پاک ایک رات میں مکمل کرنا یہ اللہ پاک کے ولیوں کا کام ہے، ہم پڑھنے کی کوشش کریں گے تو جلد کریں گے اور غلطیاں کریں گے، اس لیے ہمیں تین راتوں سے پہلے مکمل قرآنِ پاک ختم نہیں کرنا چاہیے(فتاوی رضویہ ج۷،ص۴۷۲ مع بہارِ شریعت ج۱،ص ۵۵۱، مسئلہ ۴۸ماخوذاً)) نیز یہ بھی پتا چلا کہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی بہت اہمیّت(importance) ہے ۔ یاد رہے کہ نماز ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری آنکھوں کی ٹھنڈک اور جنّت میں لے جانے والی ہے لھذا ہم نماز پڑھیں اور ایسی پڑھنی ہے کہ جیسا پڑھنے کا حکم ہے تو ہم نماز کے مسائل بھی سیکھیں اور بچّے، مرد وغیرہ کسی سُنی عالم کو اور بچّیاں ، خواتین وغیرہ کسی سُنی عالمہ کو اپنی نماز چیک بھی کروائیں،اسی طرح کسی سنی قاری کے ذریعے مرد اور بچّےجبکہ قاریّہ کے ذریعے خواتین اور بچّیاں درست قرآنِ پاک پڑھنا سیکھ لیں۔

116 ’’قرآن پاک کی تلاوت اورغیر مسلم کا قبولِ اسلام‘‘

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہ (مدینے پاک کی )مسجد ِنبوی شریف میں کھڑے تھے تومُلکِ روم کا رہنے والا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا:میں گواہی دیتا ہوں(I testify) کہ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کے رسول ہیں۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُ نےاس سے فرمایا: تم مسلمان کیوں ہوئے؟اس نےعرض کی : میں نے تورات، انجیل، زبور اور دیگر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی کتابوں کو پڑھاہے۔میں نے ایک قیدی(prisoner) کو قرآن پاک کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا جو پچھلی(previous) تمام کتابوں میں دئیے گئےحکموں کو جمع کرنے والی ہے،اس آیت سے مجھے پتا چل گیا کہ قرآنِ پاک واقعی اللہ پاک کی کتاب ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نےا س سے پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے؟تو اس نے یہ آیت تلاوت کی، ترجمہ (Translation) : اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں(ترجمہ کنز العرفان) (پ۱۸، النور ،آیت:۵۲) ( تفسیرقرطبی، النور، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۲۲۷، الجزء الثانی عشر) اس حکایت(سچے واقعے) سے قرآنِ پاک کی شان معلوم ہوئی کہ ایک ایسا غیرمسلم کہ جسے کئی کتابوں کا علم بھی تھا، جب اس نے قرآنِ پاک کی آیت سنی تو اُس نے اسلام قبول(accept) کرلیا۔یاد رہے! کہ جو اللہ پاک نے اپنے نبیوں پرنازل فرمایا ہےبے شک وہ سب حق اور سچ ہےاور اللہ پاک کی طرف سےہے۔(خزائن العرفان، پ۳، بقرہ،تحت الآیۃ:۲۸۵ ماخوذاً) البتہ قرآنِ پاک سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں(یعنی اللہ پاک کی طرف سے آئیں جیسےتورات،زبور ،انجیل) ،ان کتابوں کی حفاظت(یعنی جس طرح آئی ہیں، اُسی طرح باقی ررکھنے) کی ذمہ داری(responsibility)،اُنہی اُمتّوں (nations)کو دی گئی تھی،جن کےلیے وہ کتابیں آئیں تھیں لیکن وہ ان کی حفاظت (اسی طرح باقی رکھنے میں نا کام(fail) رہے۔ان اُمتّوں میں سے بُرے لوگوں نے ان کتابوں میں تبدیلی(changes) کر دی تاکہ جو غلط کام کرنا چاہیں کر لیں اور قرآن کریم کی حفاظت(یعنی باقی رکھنے) کی ذمہداری(responsibility)، اللہ پاک نے خود لے لی، اسی وجہ سے قرآن میں کسی حرف یا نقطے کی کمی کرنا یا بڑھا دینا ممکن(possible) نہیں بلکہ قرآن کریم جیسی کتاب،اس کی سورت جیسی کوئی ایک سورت،یا اس کی آیت جیسی کوئی ایک آیت بھی بنالینا کسی کے لیےبھی ممکن نہیں۔ )

117 ’’ آسمانی کتابوں پر ایمان(believe) ‘‘

قرآنِ کریم سب سے افضل (superior) آسمانی کتاب ہے،اس کے افضل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لئے اس میں ثواب زیادہ ہے ورنہ اللہ پاک ایک ہے، اُس کا کلام بھی ایک ہے(چاہے وہ قرآنِ پاک سے پہلے آیا ہو کیونکہ وہ بھی اللہ پاک ہی کا کلام ہے)، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اُس کا ایک کلام فضیلت میں زیادہ اوردوسرا فضیلت میں کم ہو قراٰنِ کریم وہ عظیم کتاب ہےجس کی تلاوت کرنے والے کو ہر ہر حرف پر دَس (10)دَس نیکیاں ملتی ہیں۔(ترمذی،۴/۴۱۷، حدیث: ۲۹۱۹ اللہ پاک نے جو تَورات اور اِنجیل(bible) وغیرہ نازل فرمائی تھیں اُن پرہمارا ایمان(believe) ہے، لیکن آج کل جو تَورات یا اِنجیل وغیرہ موجود ہیں چونکہ اُن میں بہت ساری تبدیلیاں (changes)کردی گئی ہیں، کہیں سے کچھ نکال دیا گیا ہے تو کہیں کچھ بڑھادیا گیا ہے، یہاں تک کہ تَورات یا اِنجیل کے ہی مختلف نسخے (different editions) سامنے رکھے جائیں تو اُنہی میں اِختِلاف(difference) نظر آتا ہے، اِسی لئے آج کل کی تَورات یااِ نجیل کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اِن کی جو باتیں قرآنِ کریم کے مطابق(according to the Holy Quran) ہیں، وہ حق اور سچ ہیں اور جو قرآنِ کریم کے خلاف(opposite) ہیں، ہم اُسے نہیں مانتے اگر اِن کتابوں کی کوئی ایسی بات بیان کی جائے جو کہ نہ تو قرآنِ پاک سے پتاچلے اور نہ ہی قرآن پاک میں اُ س بات کا انکار(denial) ہو تو ایسی بات پر ہم چُپ رہیں گے اور یہ کہیں گے کہ ’’ہم اللہ پاک، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے( believe کیا) ‘‘۔

118 ’’ہزارصحابہ کی دعوت ‘‘

حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ ایک جنگ میں کھانا نہ ہونے کی وجہ سے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنےپیٹ پر پتھر باندھا ہوا تھا یہ دیکھ کر میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور بیوی سے کہا :میں نے نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت بھوک کی حالت (condition)میں دیکھا ہے، کیا گھر میں کچھ کھانا ہے؟ بیوی نے کہا : گھر میں تھوڑا سا” جو “ ہے(کہ جس سےآٹا بنتا ہے۔ barley) اور کچھ بھی نہیں ہے۔میں نے کہا کہ تم جلدی سے اس کا آٹا بناؤ۔ میرے گھر میں ایک بکری کا بچہ تھا، میں نے اُسےذبح کر کے(یعنی کاٹ کر)، اُس کی بوٹیاں بنا دیں اور بیوی سے کہا:تم جلدی سے گوشت اورروٹی بنالو، میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بلا کر لاتا ہوں۔بیوی نے کہا : صرف حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور ایک ، دولوگوں کو ساتھ لائیں کیونکہ کھانا کم ہے ۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےاکیلے میں(privately) جاکر عرض کی :یَارَسُوْلَ اللہ!( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )تھوڑے سے آٹے کی روٹیاں اور ایک بکری کے بچے کا گوشت میں نے گھر میں بنوایا ہے، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک ، دولوگوں کے ساتھ آجائیں،یہ سن کر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے سب کو فرمایا کہ جابر نےکھانے کی دعوت دی ہے ، سب لوگ ان کے گھر پر آ کر کھانا کھا لیں ،پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آجاؤں روٹی مت پکانا۔ جب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تشریف لائے تو آٹے میں اپنا لُعاب(یعنی تھوک شریف) ڈال کر دعا فرمائی اور جس برتن میں گوشت تھا، اُس میں بھی اپنا لُعاب (یعنی تھو ک شریف) ڈال دیا۔ پھر روٹی پکانے کا حکم دیااور یہ فرمایا کہ برتن چولھے (stoves)سے نہ اتارنا ۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی بیوی نے روٹی بنانا شروع کردی اور برتن سے گوشت نکال نکال کر دینا شروع کیاایک ہزار (1000)آدمیوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیامگر آٹا جتنا پہلے تھا اتنا ہی رہ گیا اوربرتن میں سالن بھی بچ گیا۔(بخاری،ج۳،ص۵۱،حدیث:۴۱۰۱،۴۱۰۲ملخصاً،سیرت مصطفیٰ ،ص ۳۲۶مُلخصاً) اس روایت اورسچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نےاپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یہ طاقت دی ہےکہ چاہیں تو کم کھانے کو زیادہ کردیں اور یہ بھی پتا چلا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اپنے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے کتنا پیار فرماتے ہیں کہ اس بھوک میں بھی اپنے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو نہ بھولے۔ مزید یہ بھی پتا چلا کہ دنیا میں مصیبتیں اور پریشانیاں آتی ہیں لیکن کامیاب(successful) وہی ہے کہ جو ان پر صبر patience)) کرے۔

119 ’’دوقبروں میں عذاب ہو رہا تھا‘‘

حضرتِ اَبی بَکْرَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں حُضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ ایک آدَمی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُلٹی طرف تھے۔ چلتے چلتے ہم دو (2)قبروں کے قریب پہنچے تو اللہ پاک کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی غلطی کی وجہ سے نہیں ہو رہا، تم میں سے کون ہے جو مجھے ایک ٹہنی(درخت کی شاخ) لا دے۔ ہم نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو میں جلدی سے شاخ (tree branch)لے آیا ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُس شاخ کے دو(2) ٹکڑے کردیئے اوردونوں قبروں پر ایک(1) ایک رکھ دیا پھر فرمایا: جب تک یہ (شاخ کے ٹکڑے) تر (wet)رہیں گے ان پر عذاب میں کمی رہے گی اور ان دونوں کو غیبت اور پیشاب (کے چھینٹوں سے نہ بچنے)کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے۔(مُسند اِمام احمد ج۷ص۳۰۴ حدیث۲۰۳۹۵) اس حدیثِ پاک سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ غیبت اور پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والوں کو قَبْر میں عذاب ہو سکتا ہے ۔ اس حکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کوعلمِ غیب (یعنی چھپی ہوئی باتوں(hidden things) کا علم)ہے جبھی تو اللہ پاک کے بتانے سے ، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے قبر کےباہر سے ہی قبر کے اندر ہونے والا عذاب دیکھ لیا اورعذاب ہونے کی وجہ بھی بتا دی مزید یہ کہ اُن کی مدد بھی فرمائی۔

120 ’’اللہ پاک نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کوعلم دیا ہے‘‘

بعض چیزیں ہم پر ظاہر ہیں،ہم انہیں دیکھ سکتےہیں یا پکڑ سکتے ہیں یا چکھ(taste) کر کہ اُن کا ذائقہ(taste) بتا سکتے ہیں یا اُن کی بو(smell) کےذریعے اُنہیں پہچان لیتے ہیں یا عقل اور سمجھ سے کئی باتیں پتا چل جاتی ہیں، اس علم کو” علمِ ظاہر ‘‘کہتے ہی وہ باتیں یا وہ علم جو دیکھنے، سُننے، سونگھنے(smell کرنے)، چکھنے(taste کرنے) ، چُھونے (touch کرنے)سے پتا نہ چلے اور نہ ہی عقل غور(consider)کر کے اُسے معلوم کرسکتی ہو، اِسے”علمِ غیب ‘‘ کہتے ہیں(جیسے 2+2 پر غور کرکے عقل4 بتا دیتی ہے، یہ غیب نہیں ہے)۔(ملخص از تفسیرِ بیضاوی، ج۱،ص۱۱۴وغیرہ) (غیب کی مثال) جیسے جنَّت اور دوزخ وغیرہ ہمارے لئے اِس وقت غیب ہیں کیونکہ اِنہیں ہم نے نہ اپنی آنکھ سے دیکھا، نہ جنّت کی خوشبو سونگھی(smell کی)، نہ اُس کی کسی چیز کو چھوا(touch کیا)،نہ جنّت کی کوئی چیز کھائی، نہ ہمارے کان میں direct جنّت کی کوئی آواز آئی ،نہ ہم کسی calculation کے ذریعے جنّت کا حساب لگا سکتے ہیں، یعنی ہمیں کسی طرح جنّت کے بارے میں معلومات نہیں ، صرف قرآن و حدیث سے ہمیں اس کے بارے میں پتا چلا (یہ آج ہمارے لیے غیب ہے، ان شاء اللہ !قیامت کےدن نور والےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے صدقے، ان کے پیچھے پیچھے جنّت میں چلے جائیں گے تو پھر جنّت کا علم، علم غیب کی جگہ علمِ ظاہر ہو جائے گا)ذاتی طور پر(یعنی کسی کے دیے بغیر) علم، صرف اللہ پاک کو ہے کہ اُسے کسی دوسرےنے یہ علم نہیں دیابلکہ وہ خود جانتا ہے۔مخلوق(creatures) اللہ پاک کے بتائے بغیر ایک حرف، ایک ذرہ(any particle)،ایک نقطہ(any point) بھی نہیں جان سکتی چاہےوہ علم،” علمِ ظاہر ‘‘ ہو یا ”علمِ غیب ‘‘ ہوہماری آنکھ دیکھتی ہے، اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت سےاِسے نظر آتا اور ہمیں مختلف چیزوں(different things) کا رنگ بھی سمجھ آتا ہے۔ بغیر اللہ پاک کی عطا کے کسی کو بھی ،کسی طرح کا علم (چاہے وہ ”علمِ غیب ‘‘ ہو یا ” علمِ ظاہر ‘‘ ، اللہ پاک کے بتائے بغیر)حاصل نہیں ہو سکتا ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے ہمیں ،” علمِ ظاہر ‘‘ دیا ہے، اسی طرح اس نے اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کو ”علمِ غیب ‘‘ دیا ہے۔ اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو!تمہیں غیب کا علم دے دے،ہاں اللہ چن (selectکر)لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے ۔(پ ۴،اٰل عمرٰن:۱۷۹) (ترجمہ کنز الایمانمخلوق کے لئے ایک ذَرّے کا بھی علم’’ ذاتی‘‘ نہیں ،جو کوئی اللہ پاک کے بتائے بغیر غیرِ خدا (یعنی اللہ پاک کے علاوہ کسی )کے لئے ایک ذرّے(any particle) کا بھی علم مانے وہ کافر ہےساری مخلوق(creatures) کا علم،مل کر بھی اللہ پاک کے علم کے برابر نہیں ہو سکتا بلکہ اللہ پاک کے علم کے سامنے ساری مخلوق کے علم کی حیثیت(statu) وہ بھی نہیں کہ جو کروڑوںسمندروں (millions of oceans)کے سامنے ایک قطرہ پانی (drop of water)کی ہو کیونکہ مخلوق کا علم محدود (limited)ہے اور اللہ پاک کے علم کی کوئی حد نہیں(یعنی اُس کا علم unlimited ہے) اﷲ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَم کواللہ پاک نے غیب(یعنی چھپی ہوئی باتوں۔hidden things) کا علم دیا،جو اس بات کا بالکل انکار (absolutely denial) کرے یعنی یہ کہے کہ اللہ پاک نےانبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو علمِ غیب دیاہی نہیں، وہ کافر ہے۔( فتاویٰ رضویہ ج ۲۹ ص۴۱۴ ماخوذاً)

121 ’’چڑیا اور اس کے بچے ‘‘

ایک مرتبہ ایک صَحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کسی جھاڑی(bush (کے قریب سے گزررہے تھےکہ اُنہیں چڑیا کے بچّوں کی آوازآئی،وہ قریب گئے اورچڑیا کے بچّوں کو پکڑ کر اپنی چادرمیں رکھ لیا، اِتنے میں اُن کی ماں(چڑیا)آگئی اور اُن صَحابی کےسَر پر گھومنے لگی۔اُنہوں نے چادر کو کھولاتو وہ چڑیا نیچےآئی اوراپنے بچّوں کے ساتھ بیٹھ گئی، وہ صَحابی اِن سب کوچادر میں لے کر نبی ِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس لے آئے اورپوری بات بتائی۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: چادرزمین پر رکھ کر کھول دو! اُنہوں نےچادر کوکھول دیا لیکن چڑیا اپنے بچّوں سےالگ نہ ہوئی۔اللہ پاک کے رَسُوْل صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےفرمایا:کیا تم اِس چڑیا کی اپنے بچّوں سے محبّت دیکھ کر حیران (surprise)ہورہےہو؟یہ چڑیا اپنے بچوں پر جتنا رحم کرنے والی ہے،بے شکاللہ پاک اپنے بندوں پر اِس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ پھر ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: انہیں واپس لے جاؤاورانہیں وہیں رکھ آؤ جہاں سےلے کرآئے ہو، ان کی ماں ان کے ساتھ ہی رہی تو وہ صَحابی انہیں واپس لے گئے۔ (ابوداود،کتاب الجنائز، ج۳، ص۲۴۵، حدیث :۳۰۸۹) اس روایت(سچے واقعے) سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ماں اپنے بچّوں سےبہت مَحبّت کرتی ہے،اِس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے والدین کا بہت خیال رکھیں،اُن کی بات مانیں اور اُنہیں تنگ نہ کریں۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک اپنےبندوں پر اُن کی ماں سےبھی زیادہ رحم کرنے والا ہے اور اللہ پاک نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن (سب کے لیے رحمت)بنایا وہ ہمارے لیے بھی رحمت ہیں اور جانوروں کے لیے بھی رحمت ہیں تو ہمیں بھی اللہ پاک اور اُسکے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے مَحبّت کرنی چاہیئے اوران کے بتائے ہوئے کاموں کو کرنا چاہیئے۔

122 ’’کل کی بات بتادی‘‘

حضرت اُنَیْسَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں ، مجھے میرے والد صاحب نے بتایا : میں بیمار ہوا تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میری عِیادت (یعنی طبیعت پوچھنے)کے لئے تشریف لائے اور مجھےدیکھ کر فرمایا: تمہیں اس بیماری سے کچھ نہیں ہو گا (یعنی تم زندہ رہو گے)لیکن اُس وقت کیا ہو گا جب تم میری وفات کے بعد لمبی زندگی گزار کر نابینا (blind)ہو جاؤ گے ؟ (یعنی آنکھ سے دیکھ نہ پاؤگے) یہ سن کر میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )!میں اس وقت ثواب کی نیّت سےصَبْر کروں گا ۔ فرمایا:اگر تم ایسا کرو گے توبِغیر حساب (without accountability)کے جنَّت میں چلےجاؤگے۔پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دنیا سے تشریف لے جانے (یعنی انتقال فرمانے) کے بعد ان کی بینائی جاتی رہی (یعنی آنکھوں نے دیکھنا بند کر دیا)، پھر ایک وقت کے بعد اللہ پاک نے ان کی آنکھیں روشن کر دیں اور(اب وہ دیکھنے لگے پھر) ان کا انتِقال ہو گیا۔ (دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْہَقِیّ ج۶ص۴۷۹، دارالکتب العلمیۃ بیروت) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ پتا چلا کہ اللہ پاک کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اپنے ربّ کے دیے ہوئے علم سےدوسروں کی موت کے وقت کو بھی جانتے ہیں اوران کے ساتھ جو کچھ ہونے والا ہے اسے بھی جانتے ہیں ۔

123 ’’ہمارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا علم مبارک‘‘

اللہ پاک نےحبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اتنے غیبوں (یعنی چھپی ہوئی باتوں۔hidden things) کا علم دیاہے کہ جن کی گنتی(counting) بھی اللہ پاک ہی جانتا ہے ہمارے آقا،مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا علمِ غیب تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام بلکہ تمام مخلوق (creatures) میں سب سے زیادہ ہے اللہ پاک نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اس بات کا بھی علم دیا کہ قیامت کب آئے گی اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو علومِ خمسہ( یعنی ان پانچ(5) باتوں کا علم بھی دیا ہے(۱)قیامت کب آئے گی؟(۲)بارش کب ہوگی؟(۳)ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے(لڑکا یا لڑکی)؟(۴)بندہ کل کیا کرے گا؟ (۵)بندہ کس جگہ مرے گا؟یعنی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یہ بھی جانتے ہیں) جیسے ایک جنگ سے پہلے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے بتا دیا کہ کونسا کافر، کل کہاں پر مرا ہوا ہوگا (مسلم،ص۷۵۹،حدیث:۴۶۲۱، ماخوذاًمخلوق (یعنی زمین و آسمان، فرشتوں وغیرہ ) کی پیدائش(birth) کے پہلے دن (first day)سے لے کر، ان کے مرنے تک کی تمام باتیں جو لوحِ محفوط( ) میں ہیں، اس کا علم بھی اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کودیا بلکہ اس سے بہت زیادہ علم عطا فرمایا(جیسے اللہ پاک نے اپنی ذات وصفات( ) کا جو علم اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دیا، اتنا علم مخلوق (creatures) میں سے کسی کو نہیں ہے اور یہ بہت ہی بڑا علم ہے)روح کیا ہے؟اس کی اصل یا حقیقت کا علم(جوچھپی ہوئی باتوں(hidden things) میں سے ایک علم ہے، یہ بھی) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دیا گی قرآنِ پاک کی کچھ آیتیں ایسی ہیں کہ ان کا معنی معلوم نہیں(جیسے: الٓـمّٓ) (پ1، سورۃ البقرۃ، آیت1)یا معنی معلوم ہے مگر صحیح مفہوم معلوم نہیں(جیسے: یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیۡدِیۡہِمْ (ترجمہ:) ان کے ہاتھوں پر اللہ پاک کا ہاتھ ہے(پ ۲۶، سورۃ الفتح، آیت۱۰) حالانکہ اللہ کریم انسانوں جیسے ہاتھ سے پاک ہے تو اس آیت سے کیا مراد ہے؟ اس کا علم اللہ پاک کو ہے، ان آیتوں کو آیات مُتَشَابِھَات کہتے ہیں اور اللہ پاک نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اس کا علم بھی دیا ہے۔( فتاویٰ رضویہ ج ۲۹، ص ۴۱۴تا۴۱۶ ، ۴۵۰تا۴۵۱ ماخوذاً)ہم یہ نہیں کہتے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اللہ پاک جتنا علم ہے کیونکہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ مخلوق(creatures) کو اللہ پاک کی طرح کا علم حاصل ہو۔(الدولۃ المکیہ،ص ۶۴مُلخصاًیاد رہے! ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا علم ’’عطائی (یعنی اللہ پاک کا دیا ہوا) ‘‘ہونے کی وجہ سے’’مخلوق‘‘ ہے اور اللہ پاک کا علم’’ ذاتی اور قدیم‘‘ یعنی ہمیشہ سے ہے۔ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا علم ہرگز ہرگز اللہ پاک کے علم کے برابر نہیں۔ (مقالاتِ کاظمی،جلد۲،ص۱۱۱ملخصاً) قراٰنِ پاک جیسے جیسے نازل ہوتا رہا (یعنی جس طرح قرآنِ پاک کی آیتیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس آتیں رہیں)، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مبارَک علم میں اضافہ(increas) ہوتا رہا اور جب قرآنِ پاک مکمل نازل ہوگیا (یعنی مکمل آگیا)تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا علم بھی مکمل ہوگیا (فتاویٰ رضویہ،ج۲۹،ص۵۱۲ اللہ پاک کی طرف سےاولیاءکرام کو بھی غیب کے کچھ علم ملتے ہیں مگر رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کے ذریعے ۔ جو یہ بات نہ مانے یعنی جو یہ کہے کہ اولیاء کرام کو اللہ پاک کی طرف سے نبیوں کے ذریعے علم غیب( ) بالکل ملتا ہی نہیں، وہ گمراہ (اور جہنّم میں لے جانے والا عقیدہ(belief) رکھنے والا )ہے۔( فتاویٰ رضویہ ج ۲۹ ص ۴۱۴ماخوذاً)

124’’چاند دو ٹکڑے ہو گیا ‘‘

مکّے شریف میں رہنے والے غیر مسلموں نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے یہ کہا کہ اگر آپ سچّے نبی ہیں تو ہمیں کوئی نشانی دکھائیں (یعنی کوئی ایسی چیز دیکھائیں کہ ہم آپ کو” نبی‘‘ مان لیں)۔ حضرت عبدُاﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہ کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے چاند کے دو (2)ٹکڑے کردیے۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا ٹکڑا پہاڑ کے نیچے نظر آ رہاتھا۔ غیر مسلموں نے جب یہ دیکھ لیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُن سے فرمایا : گواہ ہو جاؤ (be a witness)گواہ ہو جاؤ(کہ میں اللہ پاک کا سچّا نبی ہوں)۔ (بخاری،ج۳،ص۳۳۹ تا ۳۴۰،حدیث:۴۸۶۴،۴۸۶۵مُلخصاً) قرآنِ پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے،ترجمہ (Translation) : قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا (یعنی ٹکڑے ہوگیا) ۔ (ترجمۂ کنزالعرفان) (پ۲۷،القمر:۱) علماء فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےچاند کے دو ٹکڑے کر دیے۔(تفسیر خازن ،جلد۴،ص ۲۰۱ مُلخصاً) اس حدیث ِ مُبارک سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ایسی طاقت دی ہے کہ چاند، سورج بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔اور یہ بھی پتا چلاکہ قیامت آئےگی یعنی ہم مرنے کے بعد دوبارہ (again)زندہ ہو ں گے اور ہم سے ہمارے اچھے بُرے کاموں کے بارے میں پوچھا جائے گا ، تو ہمیں چاہیے کہ نیک کام کر کے اللہ پاک کو خوش کریں۔

125 ’’میں تمھیں بتاؤنگا‘‘

ایک مرتبہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے صحابَۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے فرمایا: میری اُمّت(nation) مجھ پر ایسے پیش کی گئی(یعنی سامنے آگئ) جیسے حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلاَم پر پیش کی گئی تھی تو میں نے جان لیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے (یعنی مسلمان ہو جائے) گا اور کون کفر کرے(یعنی مجھ پر ایمان نہیں لائے) گا۔ یہ بات جب منافقین (یعنی وہ کافر جو ظاہری طور پر کلمہ پڑھ کراپنے آپ کومسلمان کہتے تھےمگر دل سے ایمان(believe) نہیں لائے تھے، غیر مسلم ہی تھے)کو پتا چلی تو انہوں نے کہا: مَعَاذَاللہ!(یعنی اللہ پاک کی پناہ) محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہے یعنی وہ جانتے ہیں کہ قیامت تک کون اِن پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرےگا ؟اور یہ دیکھو کہ ہم ان کے ساتھ ہیں(اِن پرایمان(believe) نہیں لائے) اور وہ ہمیں نہیں جانتے۔ (العجاب فی بیان الاسباب ،جلد۲،ص۷۹۸) منافقوں کی اس طرح کی باتوں کے بعد، ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ منبر (muslim pulpit یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں،اس)پر کھڑے ہوئےاور اللہ کریم کی حمد(یعنی تعریف) کرنے کے بعد فرمایا:ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم کے خلاف باتیں کرتے ہیں پھر فرمایا: تمہارے اور قیامت کے درمیان جو کچھ بھی ہے تم مجھ سے ان میں سے جس چیز کے بارے میں سُوال کرو گے میں تمہیں بتا دوں گا۔ حضرتِ عبدُ اللہ بن حُذافہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کھڑے ہو کر عرض کی: يارسولَ اللّٰه! میرا والد کون ہے ؟ فرمایا: حُذافہ، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کھڑے ہوکر عرض کی: يا رسولَ اللّٰه! ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )، ہم اللہ پاک کے ربّ ہونے، اسلام کے دین ہونے، قرآن کے امام اور رہنما(leader)ہونے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہیں، اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے ہمیں معاف فرما دیجئے۔نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دو(2) مرتبہ فرمایا: تو کیا تم باز آئے ،تو کیا تم باز آئے (یعنی میرے علم کے خلاف باتیں کرنے سے رُکتے ہو؟)، پھر منبر سے نیچے تشریف لے آئے اس پر اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی، ترجمہ (Translation) :اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو!تمہیں غیب کا علم دے دے،ہاں اللہ چن (select کر)لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے ۔(پ ۴،اٰل عمرٰن:۱۷۹) (ترجمہ کنز الایمان)(خازن،پ۴، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ:۱۷۹،ج۱،ص۳۲۸) اس قرآنی واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت علم دیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے علم شریف کے خلاف بولنا مسلمان کا کام نہیں، غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔

126 ’’قرآن و حدیث اور ہمارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا علم مُبارک‘‘


: قرآنِ پاک اور علمِ غیب
ترجمہ (Translation) : آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔ (پ ۵، سورۃ النساء، آیت ۱۱۳) (ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں:آپ کو دین کے مُعاملے میں، شریعت کے مسائل میں اور چھپی ہوئی باتوں(hidden things) کاوہ علم دیا جو آپ نہ جانتے تھے ۔(صراط الجنان۲/۳۰۳مُلخصاً)ترجمہ (Translation) : اور یہ نبی غیب بتانے پر ہرگز بخیل نہیں ۔(پ۳۰، سورۃ التکویر، آیت۲۴) (ترجمہ کنز العرفان) علماء فرماتے ہیں: اللہ پاک یوں فرماتا ہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کو غیب کا علم آتا ہے، وہ تمہیں بتانے میں بخل (یعنی کمی)نہیں فرماتے بلکہ تم کو بھی اس کا علم دیتے ہیں ۔( بغوی، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۴۲۲)
احادیثِ مبارکہ اور علمِ غیب :
ترجمہ (Translation) : آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔ (پ ۵، سورۃ النساء، آیت ۱۱۳) (ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں:آپ کو دین کے مُعاملے میں، شریعت کے مسائل میں اور چھپی ہوئی باتوں(hidden things) کاوہ علم دیا جو آپ نہ جانتے تھے ۔(صراط الجنان۲/۳۰۳مُلخصاً)ترجمہ (Translation) : اور یہ نبی غیب بتانے پر ہرگز بخیل نہیں ۔(پ۳۰، سورۃ التکویر، آیت۲۴) (ترجمہ کنز العرفان) علماء فرماتے ہیں: اللہ پاک یوں فرماتا ہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کو غیب کا علم آتا ہے، وہ تمہیں بتانے میں بخل (یعنی کمی)نہیں فرماتے بلکہ تم کو بھی اس کا علم دیتے ہیں ۔( بغوی، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۴۲۲)
چند ضروری باتیں:
شیطان کے علم کو نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے علم غیب سے زیادہ ماننا خالِص (بالکل)کفر ہے(کہنے والا مسلمان نہیں رہے گا)۔ (۲) حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے علمِ شریف کو بچّوں، جانوروں اور پاگلوں کے علم کی طرح کہناصریح(یعنی واضح اور صاف ) کفر ہے۔ (ماخوذ ازبہارِ شریعت حصہ اول ص۱۲۰)

127 ’’حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سچے نبی ہیں‘‘

حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا مکّہ کی ایک بہت ہی امیرعورت تھیں۔ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کو ضرورت تھی کہ کوئی امانت دار(honest) آدمی مل جائے تو اس کے ساتھ اپنا سامان بیچنے کے لیےملکِ شام بھیجیں۔ابھی نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی عمر شریف تقریباً پچیس(25) سال ہی تھی مگرآپ کی امانت دار(honest) اور سچا ہونا دور دور تک مشہور ہوچکا تھی۔ حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو جب آپ کے بارے میں پتا چلا تو آپ نے تجارت (trade)کے لیےحضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو بھیجنا چاہا اور تجارت کا سامان لے جانے کا پیغام(message) بھیجا۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ان کی بات مان لی اورتجارت کا مال لے کر ملکِ شام چلے گئے۔اس سفر میں حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اپنے غلام’’ مَیْسَرہ‘‘کو بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ساتھ بھیج دیا تا کہ وہ آپ کے ساتھ رہے(پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ملکِ شام کےمشہور شہر’’ بصریٰ‘‘ کے بازار میں پہنچے تو وہاں ایک عبادت کرنے والے شخص’’ نسطورا ‘‘ کے بیٹھنے کی جگہ کے قریب ہی رُکے۔’’ نسطورا‘‘ میسرہ(غلام) کو بہت پہلے سے جانتا تھا۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دیکھتے ہی ’’ نسطورا ‘‘ میسرہ(غلام) کے پاس آیا اور پوچھا : کہ اےمیسرہ! یہ کون ہیں جو اس درخت کے نیچے سورہے ہیں ؟میسرہ نے جواب دیا کہ یہ مکّے کے رہنے والے ہیں اوران کا خاندان ’’ بنو ہاشم ‘‘ہے ،ان کا نام ’’ محمد‘‘اور لقب ’’امین‘‘ہے۔ نسطوراء نے کہا کہ: نبی کے علاوہ اس درخت کے نیچے آج تک کبھی کوئی نہیں آیا۔اس لئے مجھے پکّا یقین (believe)ہے کہ یہیاللہ پاک کے’’ آخری نبی ‘‘ ہیں ۔کیونکہ آخری نبی کی تمام نشانیاں (signs) جومیں نے توریت و انجیل (پرانی کتابوں ) میں پڑھی ہیں وہ سب میں ان میں دیکھ رہا ہوں۔ کاش!میں اس وقت تک زندہ رہتا جب یہ’’ اپنے نبی ہونے کا‘‘ اعلان (announcement) کریں گے تو میں ان کی مدد کرتا اور اپنی تمام زندگی ان کے ساتھ گزار تا۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ خبردار(یعنی یہ بات تم پر لازم ہے کہ)! ایک لمحے (one moment)کےلئےبھی تم ان سے الگ نہ ہونا اور بہت محبّت اور احترام (respect)کے ساتھ ان کے ساتھ رہناکیونکہ اللہ پاک نے ان کو ’’ خاتَمُ النَّبِیِّین ‘‘یعنی’’ آخری نبی‘‘ بنایاہے۔(مدارج النبوت ، قسم دوم ، باب دوم، ج۲،ص۲۷) اس حکایت اورسچے واقعے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ پہلے زمانے کے علماء بھی اپنی کتابوں میں پڑھ چکےتھے کہ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم دنیا میں آئیں گےاور اُن میں کیا کیا نشانیاں(signs) ہونگیں۔اوروہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کےآخری نبی ہیں ان کے بعد کوئی دوسرانیا نبی نہیں آئے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے آخری نبی ،’’ اپنے نبی ہونے کا‘‘ اعلان (announcement) کرنے سے پہلے بلکہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے دنیا میں آنے سے پہلے بھی ’’نبی ‘‘ تھے، جیسا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: میں اس وقت بھی نبی تھا ،جب آدم عَلَیْہِ السَّلَام مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، ج۲،ص ۴۸۴، حدیث: ۳۵۳۵)

128 ’’میں آخری نبی اور میری اُمّت (nation) آخری اُمّت ہے‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جب فجر کی نماز پڑھا دیتے تو تسبیح پڑھتے پھر اپنا برکت والاچہرہ(face) صحابہ کرام َضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی طرف کرلیتے ۔اب صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے فرماتے :تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟(صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْاپنے خواب بیان کرتے اورپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ان خوابوں کا مطلب بتاتے )ایک مرتبہ حضرت ابن زمل رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےعرض کی:یارسول اللہ (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) ! میں نے خواب دیکھاہے ۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: اپنا خواب بیان کرو !انہوں نے عرض کی: یارسول اﷲ ! میں نے دیکھا کہ ایک بڑا راستہ ہے ،اچانک(suddenly) مجھے اس کے ایک طرف(one side) خوبصورت ہرے بھرے باغ نظر آئے وہ اتنے خوبصورت باغ تھے کہ کبھی میں نے ایسے باغ نہ دیکھے ، ہر طرف سر سبز درخت، پودے چمک دار اور گیلے نظر آرہے تھے ،اس باغ میں ہر قسم کی پودےتھے ،پھر اس راستے پر بہت سارے لوگوں کا آنا ہوا ۔ ایک گروہ کے لوگ جب اس خوبصورت باغ کےقریب پہنچے تو ان لوگوں نےتکبیر کہی (یعنی ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ پڑھا )اوراس باغ سے فائدہ اٹھائے بغیر وہ سب لوگ سیدھے چلے گئے۔ پھر کچھ دوسرے لوگوں کا گروہ آیایہ پہلےوالے لوگوں سے بہت زیادہ تھے، یہ باغ اورہریالی کے پاس پہنچے تو انہوں نے بھی تکبیر کہی (یعنی ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہا ) یہ لوگ بھی سیدھے اپنے راستے پر چلتے رہے مگر ان میں سے کچھ لوگ اس خوبصورت جگہ رُکے اورتھوڑی بہت نعمت وہاں سے لے کر چلے گئے،ان کے بعد بہت سارے لوگ اس خوبصورت جگہ کے پاس آئے ان لوگوں نےبھی تکبیر پڑھی اورکہنے لگے :یہ سب سے اچھی جگہ ہے اور وہ اس جگہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے رک گئے ۔یہ سب کچھ دیکھ کرمیں بھی اس خوبصورت باغ کی طرف چلنے لگا جب اس خوبصورت باغ سےآگے بڑھا تومجھے سات(7) سیڑھیوں والا ایک منبرنظر آیا ( یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں)،اس منبر (muslim pulpit)کی سب سے اوپر والی سیڑھی پر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تشریف فرما تھے ،اورایک اونٹنی دیکھی جس کے پیچھے آپ جارہے ہیں ۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اس خواب کی تعبیر (یعنی مطلب)بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ جو تم نے بڑا راستہ دیکھا یہ ہدایت (یعنی اسلام ) کا راستہ ہے جس پر میں تمہیں لایا ہوں، تم اسی راستے پر چلتے رہو اوروہ خوبصورت ہرے بھرے باغات دنیا اور اس کی راحتیں (یعنی دینا کی نعمتیں) ہیں۔میں اور میرے صحابہ(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) تو دنیا سے فائدہ اٹھائے بغیر ہی چلے گئے۔پھرہمارےبعدجودوسرے لوگ اس دنیا میں آئے اُن میں سے کچھ لوگوں نے دنیا سے بہت تھوڑا فائدہ اٹھایا وہ دوسرا گروہ بھی امتحان میں کامیاب(success) ہوگیا ۔پھران کے بعد جو لوگ اس دنیا میں آئے وہ اس کی خوبصورتیوں اورآسائشوں (یعنی دینا کی نعمتوں) سے فائدہ اٹھانے لگے۔(وہ اس دنیا کےامتحان میں پہلے آنے والوں کی طرح کامیاب نہیں ہوئے ) اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن o(ترجمہ: ہم الل ہہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں(پ۲، سورۃ البقرہ، آیت ۱۵۶) (ترجمہ کنز العرفان))اور اے ابن زمل!تم ہدایت (یعنی اسلام) کے راستے پر چلتے رہو گے یہاں تک کہ (انتقال کے بعد) مجھ سے ملوگے۔ اوروہ جو تم نے اونٹنی دیکھی جس کے پیچھے میں جارہا ہوں اس سے مراد قیامت ہے۔ہمارے ہی زمانے میں قیامت آئے گی، نہ میرے بعد کوئی (نیا)نبی آئے گااور نہ ہی میری اُمّت(nation) کے بعد اس دنیا میں کوئی اُمّت آئے گی۔(المعجم الکبیر حدیث ۸۱۴۶،۸/ ۳۶۲ تا ۳۶۷ملتقطا )(فتاوی رضویہ جلد۱۵،ص۷۰۹ملخصا) اس روایت سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا اورپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اُمّت بھی آخری اُمّت ہے، اس کے بعد کوئی امت نہیں آئے گی ۔یہ بھی معلوم ہواکہ جس طرح ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم دنیا کے تمام علم جانتے ہیں اسی طرح آپ خوابوں کا علم بھی جانتے ہیں ۔

129 ’’آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ‘‘

اللہ پاک نے انسان کو پیدا کیا،اچھے بُرے کی سمجھ دی اور انسان جو کام کرنا چاہے اس کے لئے مختلف اسباب(different reasons) اور سامان بھی دیا۔یہ دنیا اصل میں انسان کا امتحان ہے کہ وہ اللہ پاک کے حکم پر عمل کر کے اس امتحان میں کامیاب (success) ہوتا ہے یا اس کی نافرمانی(disobedience) کرکے ناکام (faile) ہوجاتاہے۔ جو اس امتحان میں کامیاب ہوگااُس کے لیے جنّت میں کبھی ناختم ہونے والی زندگی اور ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔اللہ پاک نے انسانوں پر یہ کرم بھی فرمایا کہ اُن کو سیدھا (یعنی اسلام کا) راستہ بتانے والےانبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کو بھیجااور سب سے آخر میں ہمارے آخری نبی ،محُمّدِمدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو بھیج مسلمان ہونے کے لیے اس بات پر یقین (believe)کرنا بہت زیادہ ضروری ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی، کوئی نیارسول نہ آیا ہے، نہ آسکتا ہے اور نہ آئے گ جو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے زمانے میں یا آپ کےانتقال کے بعد کسی اور کو نبی مانے یا یہ عقیدہ (belief) رکھے کہ کوئی نیا نبی ہو سکتا ہے ، تو وہ کافر ہے( بہارِ شریعت ج۱،ص ۶۳ماخوذاً) ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نیا نبی آہی نہیں سکتا، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام، آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نائب (deputy)کے طور پرتشریف لائیں گے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُمّت میں سے ہوں گے( خصائصِ کبریٰ، ج۲،ص۳۲۹)
قرآنِ پاک اور آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
اللہ پاک کا ارشادہے ترجمہ (Translation) :’’ محمد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ (پاک)سب کچھ جاننے والاہے۔ ‘‘(ترجمہ کنزالعرفان)( پ۲۹، الاحزاب: ۴۰)
احادیثِ مبارکہ اور آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏ اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔(ترمذی،ج۴،ص۱۲۱،حدیث ۲۲۷۹) فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت(nation) نہیں۔(معجم کبیر، ج۸،ص۱۱۵، حدیث:۷۵۳۵) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا: میری اور دوسرے نبیوں (عَلَیْہِمُ السَّلَام)کی مثال اس محل(castle) کی طرح ہے جس کی تعمیر (construction)بہت اچھی کی گئی اور اس میں ایک اینٹ(brick) کی جگہ چھوڑ دی گئی۔دیکھنے والے اس کے گرد چکر لگاتے تھے اور اچھی تعمیر سے تعجب کرتے(حیران(surprised) ہوتے) تھے سوائے اس اینٹ کے(کہ یہ جگہ خالی تھی) تو میں نے ہی اس اینٹ کی جگہ پُر کردی(یعنی اب وہ محل مکمل ہوگیا اور کوئی جگہ باقی نہ رہی) مجھ پر انبیاء(عَلَیْہِمُ السَّلَام) ختم کردئیے گئے اور مجھ پر رسول (عَلَیْہِمُ السَّلَام)ختم کردیئے گئے۔ وہ آخری اینٹ(brick) میں ہی ہوں اور نبیوں (عَلَیْہِمُ السَّلَام)میں آخری نبی (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم)ہوں۔ (مراۃ شرح مشکوۃ جلد۸،ص۷ مع بخاری، ۲ / ۴۸۴، حدیث: ۳۵۳۴،۳۵ مع مسلم، کتاب الفضائل، ص۹۶۶، حدیث: ۵۹۶۳