130 ’’موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی لاٹھی(Stick) ‘‘
مُلک مِصْر میں عید کا دن تھا، لوگ خوب تیّار ہو کر ایک بڑے میدان (ground) میں آگئے۔ اس جگہ بادشاہ ’’فِرْعَون‘‘ کےستّر ہزار(70،000)جادوگروں(magicians) کا حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے مقابَلہ(contest) تھا۔یہ تمام جادوگر تین سو(300)اونٹوں(camels) پر مختلف رَسِّیاں (different ropes) وغیرہ لے کر میدان میں آگئےاورحضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ہاتھ میں ’’جنّت کی لاٹھی‘‘ (heavenly staff ) کے ساتھ پہلے سے موجود تھے، جادوگروں نے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا ادب (respect)کرتے ہوئے عرض کیا : پہلے آپ اپنی لاٹھی زمین پر ڈالیں گے یا ہم اپنا سامان ڈالیں؟ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا : پہلے تم لوگ ڈالو! اب جیسے ہی اُنہوں نے اپنی رَسِّیاں اور لکڑیاں زمین پر ڈالیں تو پورا میدان بڑے بڑے سانپوں(big snakes) سے بھرا ہوا نظر آنے لگا ، یہ دیکھ کر لوگ ڈرگئے، اتنے میں حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے ہاتھ میں موجود ’’جنّت کی لاٹھی“ زمین پر ڈالی تو وہ ایک دَم اَژْدَھَا (بہت ہی بڑا سانپserpent.)بن گئی اور میدان میں جو رَسِّیاں اور لکڑیاں ،سانپ نظر آرہے تھے، تو وہ بڑا سانپ سب کو کھا گیا،پھر حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اُس بڑے سانپ کوہاتھ میں لیا تو وہ پہلے کی طرح لاٹھی(stick) بن گئی۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا تو وہ سب آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان (believe)لے آئے۔(صراط الجنان، ج۳، ص ۴۰۳ملخصاً)
اس قرآنی حکایت سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کا ادب (respect)بہت ضروری ہے کہ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا ادب کرنے کی وجہ سے وہ جادوگر مسلمان ہوئے۔(قرطبی ،ج۴، ص۱۸۶مُلخصاً) نیزہمیں چاہیے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور اولیا کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ بلکہ ہر دینی چیزمثلا ًقراٰنِ پاک ،آبِ زم زم ، دینی کتابوں،تسبیح ، نیاز کا کھانا، شربت وغیرہ کا ادب(respect ) کریں ۔
چند ضروری باتیں:
یہ لاٹھی (stick) جنّتی دَرَخت کی لکڑی سے بنی ہوئی تھی، اسے حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام جنّت سے لائے تھے اور کئی نبیوں سے ہوتی ہوئی حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام تک پہنچی تھی ۔(خازن ،ج۱، ص ۵۷ملخصاً) یہ لاٹھی 10گز لمبی تھیاِس کی 2شاخیں تھیں جو اندھیرے میں روشنی (light) دیتی تھیں(تفسیرخازن ،ج۱، ص۵۷ ملخصاً) جب حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام سوتے تھے تو یہ لاٹھی آپ کا خیال رکھتی (خازن،ج۳،ص ۲۵۹، مُلخصاً) ساتھ ساتھ چلا کرتیباتیں کرتی جانوروں کو دور کر دیتی کنویں(well) سے پانی نکالنے کے لئے رَسّی بن جاتی زمین پر لگاتے تو دَرَخت بن کر پھل دیتی (نسفی،ص ۶۸۸ ملخصاً)
131 ’’ سو(100) سال تک سوتے رہے‘‘
ایک مرتبہ اللہ پاک کے نبی حضرتِ عُزَیْر عَلَیْہِ السَّلَام’’ بَیْتُ الْمَقْدِس‘‘کے پاس سے گزر ے(مُلک فلسطین میں موجود ’’ مسجدِ اقصیٰ ‘‘جس کی طرف منہ کر کے پہلے نماز پڑھی جاتی تھی مگر اب قیامت تک کعبہ شریف کی طرف ہی نماز پڑھی جائے گیا، اسے’’ بَیْتُ الْمَقْدِس‘‘ بھی کہتے ہیں)۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس ایک برتن میں کھجور اور ایک پیالے میں انگور کا رَس(grape juice ) تھا نیز آپ ایک دَرَازگوش (donkey) پر تھے ۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام بَیْتُ الْمَقْدس کے سب محلّوں میں گئے لیکن آپ کو کوئی آدمی نظر نہیں آیا،اور سب گھر خالی تھے، یہ دیکھ کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے کہا، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے( ترجمہ۔Translation : ) اللہ اِنہیں اِن کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ (پ۳، البقرۃ،آیت۲۵۹) (ترجمہ کنز العرفان)یہ کہنے کے بعد آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنا جانور کسی جگہ باندھااور سونے کے لیے لیٹ گئے، یہ صُبْح کا وقْت تھا،اِس دوران آپ کی رُوح نکال لی گئی اور آپ ” سو(100) سال تک سوتے رہے‘‘، اس وقت میں آپ کا گدھا تو مرگیامگرآپ عَلَیْہِ السَّلَام کا برکت والا جسم بالکل صحیح رہا لیکن کوئی بھی آپ کو دیکھ نہ سکا پھر اللہ پاک نے 100 سال بعد آپ کو شام کے وقْت زندہ کیا ،اورفرمایا : تم کتنے دن سے یہاں رُکےہوئے ہو؟ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرْض کی:’’ایک دن یا اِس سے کچھ کم وقْت۔‘‘کیونکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ خیال تھا کہ یہ اُسی دن کی شام ہے جس کی صُبْح آپ سونے کے لئے لیٹے تھے۔ اللہ پاک نے فرمایا: تم یہاں سو(100) سال سے سو رہے ہو، اپنے کھانے پینے کی چیزیں دیکھو ! وہ بالکل صحیح ہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو کہ وہ کس حال میں ہے! جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے کھجوریں(dates ) اورانگور کا رَس (grape juice ) دیکھا تووہ بالکل صحیح تھے لیکن گدھا بالکل ختم ہو گیا تھا ، صِرْف ہڈّیاں نظر آرہی تھیں۔ اللہ پاک کے حکم سے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہوکر آواز نکالنے لگا۔ حضرتِ عُزَیْرعَلَیْہِ السَّلَام نے جب یہ دیکھا تو فوراً کہا: میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اللہ پاک جو چاہے، وہ کام کرسکتا ہے۔ (ماخوذ اَز صِراط الجِنان ،ج۱، ص۳۹۱) قرآنِ پاک میں موجود اس واقعے سے سیکھنے کو ملا کہ اللہ پاک جو چاہے، وہ کام کر سکتا ہے۔جس طرح اللہ پاک نے سو(100)سال بعد حضرتِ عُزَیْر عَلَیْہِ السَّلَام کو زندہ فرمایا اور آپ کے گدھے کو بھی زندہ کیا اِسی طرح قِیامت کے دن اللہ پاک سب لوگوں کو زندہ فرمائے گااور اُن سے اُن کے اچھے بُرے کاموں کے بارے میں پوچھے گا دوسری بات یہ پتا چلی کہ نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کی بہت بڑی شان ہے کہ سو(100) سال تک سوتے رہے مگر اللہ پاک کے حکم سے آپ کے جسم اور آپ کے کھانے کو بھی کچھ نہیں ہوا۔
132 ’’اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی شان‘‘
اللہ پاک نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو ایسی بہترین عقل دی ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا عقل مند ان (wise man)، ان کی عقل کے کروڑویں درجہ(یعنی بہت ہی کم حصّے) تک بھی نہیں پہنچ سکتا(یعنی ساری اُمّت (nation)بھی مل جائے تب بھی نبی کی عقل کے برابر نہیں ہو سکتی)۔)المسامرۃ، ص۲۲۶ اللہ پاک کے سب نبی معصوم ہوتے ہیں، یعنی ان سے کسی قسم کا کوئی گناہ ہونا ممکن(possible)ہی نہیں سارے نبیوں کی تعظیم(respect) اور عزّت کرنا دین کا سب سے بنیادی(basic) فرض ہے، کسی بھی نبی کو جھٹلانا (یعنی اُن کا اِنکار(denial) کرنا) یا اُن کی تھوڑی سی بھی توہین(insult) کرنا کفر ہے (لھذا کبھی اس طرح کی بات نہیں کر سکتے کہ کسی نبی نے غلطی کی یا نبی نے یہ کام غلط کیا وغیرہ)نبیوں کی کوئی تعداد(number) ہم مقرّر(یعنی fixed) نہیں کر سکتے، ہمارا یہ عقیدہ (belief) ہے کہ اللہ پاک کے جتنے نبی ہیں ہم سب پر ایمان (believe)رکھتے ہیں نبی ہر اُس بات سے دور ہوتا ہے جس سے لوگ نفرت یا گھن کرتے ہیں (پتا چلا کہ کسی نبی کو ایسی بیماری بھی نہیں ہو سکتی کہ جس سے لوگ نفرت کرتے ہوں) اللہ پاک نے اپنے نبیوں کو جتنے اَحکامات (یعنی جتنی دینی باتوں کو) پہنچانے کا حکم دیا تھا وہ سب کے سب اُنہوں نے اپنی اُمّت (nation)تک پہنچادئیے، کوئی ایک حکم بھی چھپا کر نہیں رکھا اللہ پاک نبیوں کو ایسی چھپی ہوئی باتوں (hidden things)کا علم بھی دیتا ہے کہ جنہیں عام لوگ نہیں جانتے (اس علم کو”علمِ غیب ‘‘ کہتے ہیں نبی تمام مخلوق(creatures) بلکہ فرشتوں میں جو رسول ہیں اُن سے بھی افضل (superior) ہوتے ہیں۔(ماخوذ از بہار شریعت،ج۱،ص۲۸ تا ۵۸ ، ہمارا سلام، ص ۴۸تا۵۴ مُلخصاً) جو کسی غیرِ نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے، کافر ہے۔( بہار شریعت،ج۱،ص۴۷)
133 ’’سات لاکھ میں سے ایک ہزار بچ گیا‘‘
ایک بار حضرت طلحہ بن عبیدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ایک زمین سات لاکھ درہم(چاندی کے سکّے ۔ silver coins) میں بیچ (sellکر)دی۔ (الزہد للامام احمد بن حنبل، الحدیث:۷۸۳، ص۱۶۸) تو پریشان اور بے چین ہو گئے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی زوجہ نے عرض کی: آج آپ کو کیا ہوا ہے؟فرمایا کہ مجھے یہ پریشانی ہے کہ جس بندے کی راتیں اللہ پاک کی عبادت کرتے ہوئے گزرتی ہوں ، اُس کےگھر میں اتنا مال موجود ہو تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں کیسے حاضر ہو گا؟ تو آپ کی زوجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے بڑے اَدَب سے عرض کی: اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ آپ اپنے غریب دوستوں کو کیوں بھول رہے ہیں ؟ صبح ہوتے ہی انہیں بلا کر یہ سارا مال ان میں بانٹ (distribute کر) دیں اور ابھی اللہ پاک کی عبادت میں رات گزاریں۔ نیک بیوی کی یہ بات سن کر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا دل خوش ہو گیا اور آپ نے فرمایا: آپ واقعی نیک باپ کی نیک بیٹی ہیں۔
یاد رہے! کہ یہ نیک باپ کی نیک بیٹی امیر المؤمنین حضرتِ ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی پیاری شہزادی اُم کلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا تھیں۔ صبح ہوتے ہی حضرت ِطلحہ بن عبیدُ اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے سارا مال باٹنا (distribute کرنا) شروع کر دیا اور اس میں سے کچھ حصّہ امیر المؤمنین حضرت ِعلی المرتضیٰرَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بھی بھیجا۔ پھر آپ کی زوجہ حاضر ہوئیں اور عرض کی: کیا اس مال میں گھر والوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟تو فرمایا: آپ کہاں رہ گئی تھیں ، چلیں جو باقی بچ گیا ہے وہ سب آپ لے لیں ۔فرماتی ہیں کہ جب بقیہ مال(rest of the money) کا حساب کیا تو (سات لاکھ میں سے)صرف ایک ہزار(1000) درہم (سکّے ۔ coins) ہی رہ گئے تھے۔
(سیر اعلام النبلاء، الرقم ۷ طلحہ بن عبید اللہ، ج۳، ص۱۹۔ مفہوماً)
اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ حضرت ِ طلحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اپنی ضرورت کے لئے بھی کچھ بچا کر نہ رکھتے بلکہ غریبوں کو دے دیتے۔
چند ضروری باتیں:
جنّتی صحابی،حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اُن دس (10)صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک(1) ہیں کہ جنہیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےایک ساتھ جنّت کی خوشخبری(good news) سنائی۔ایک مرتبہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا: اے طلحہ! یہ جبرائیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں قیامت کی پریشانیوں میں آپ(یعنی حضرت طلحہ) کے ساتھ ہوں گا اور آپ (یعنی حضرت طلحہ) کو ان(قیامت کی پریشانیوں ) سے بچاؤں گا۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، الباب الخامس ، ج۲، الجزء الرابع، ص۲۵۴)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
آپکو شہادت(یعنی جنگ میں قتل ہونے کی وجہ سے انتقال کرنے)کے بعد بصرہ کے قریب دفن(buried) کردیا گیا ۔ کسی وجہ سے، حضرت عبدُاللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے مسئلہ پوچھ کر اور اجازت لے کر حضرت طلحہ َضِیَ اللہُ عَنْہ کے مبارک جسم کو پرانی قبر سے نکال کر نئی قبر میں دفن کرنے کے لیے نکالا گیا۔ کافی وقت گزر جانے کے بعد بھی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ آپ کا جسم شریف بالکل صحیح،سلامت تھا۔(اسد الغابۃ طلحۃ بن عبیداللہ ،ج۳،ص۸۷ ملخصاً،داراحیاء التراث العربی بیروت) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نیک بندوں کے جسم قبروں میں بھی صحیح رہتے ہیں۔
134 ’’ماں کی سو(100) جانیں‘‘
حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہ اپنی ماں کے بڑے فرمانبردار(باتیں ماننے والے obedient) تھے۔ہرحکم مانتے اور کبھی اپنی ماں کی نافرمانی(disobedience) نہ فرماتے تھے ۔ آپ کی ماں غیر مسلم تھی اور اپنے دین پر سختی سے عمل کرتی تھی۔ جب آپ مسلمان ہوئے تو آپ کی غیر مسلم ماں بہت پریشان ہوئی اور کہنے لگی: اے میرے بیٹے! یہ تو نے کیا کیا؟ تو نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دیا؟تو نے آج تک کبھی میری نافرمانی نہیں کی! اب تو میری یہ بات بھی مان اور اسلام چھوڑ دے، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو ميں نہ توکھاؤں گی اور نہ پیوں گی، بھوکی پیاسی (hungry and thirsty)مر جاؤں گی ۔ میری موت تیری وجہ سے ہوگی اور لوگ تجھے ماں کا قاتل (killer)کہئیں گے۔يہ کہہ کر واقعی(really) اس نے کھانا پينا چھوڑ ديا، دھوپ ميں بیٹھ گئی، اور کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئی۔
سُبْحَانَ اللہ! قربان جائیےحضرت سعد بن ابی وقاصرَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اللہ پاک اور نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے محبّت پر، ماں کی یہ حالت (condition)دیکھ کر بھی آپ ایمان(faith) پر ہی رہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عشق ومحبت بھرےانداز میں گویا یوں فرمايا: اے میری ماں! اگر کوئی دنیاوی بات ہوتی تو میں ہر گز تیری نافرمانی(disobedience) نہ کرتا مگر یہ معاملہ(case) اللہ پاک کے دین اور نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبّت کا ہے، تیری ایک جان توکیااگرسو(100)جانيں بھی ہوں اور ايک(1) ايک کر کے سب قربان کرنا پڑیں تو سب کوقربان کردوں مگردینِ اسلام اور اپنے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ )تفسیر البغوی، العنکبوت، تحت الایۃ:۸، ج۳، ص۳۹۶ ماخوذا) اب تمھاری مرضی ہے کہ کھانا کھاؤیا نہیں،جب ماں نے یہ بات سنی تواُس نے کھاناکھالیا۔(ابن عساکر، حرف السین، ذکر من اسمہ سعد، ۲۰ / ۳۳۱ مُلخصاً)
اس سچے واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ والدین کی بہت اہمیّت(importance) ہے، دنیاوی کام (جو شریعت نے منع نہیں کیے) میں اُن کی بات فوراً مانی جائے اگرچہ غیر مسلم ہوں( مثلاًکھانا مانگیں تو دیں، دوائی منگوائیں تو لا کر دیں)۔اگر والدین کسی دینی لازم کام(جیسے:فرض، واجب یا سنّت مؤکدّہ) کو کرنے سے روکتے ہوں تب بھی وہ کام کریں گے (اور اب والدین کی بات نہیں مانیں گے) یا کسی گناہ(مثلاً فلم دیکھنے، گانوں کے پروگرام میں جانے) کا حکم دیں تو اُن کی بات نہیں مانیں گےلیکن اُن کے ساتھ کسی طرح کی بد تمیزی(rudeness) بھی نہیں کریں گے ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک کی نافرمانی کے کاموں میں کسی کی اطاعت جائزنہیں ، اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔ (صحیح مسلم ، ج۳،ص ۱۴۹۶ ، حدیث۱۸۴۰)
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی، حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہ اُن دس(10) صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک(1) ہیں کہ جنہیں خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےایک ساتھ جنّت کی خوشخبری(good news) سنائی۔
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حضرت سالم بن عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں: مجھے میرے والد صاحب نے بتایا کہ ایک دن ہم پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:اس دروازے سے ابھی ایک جنّتی شخص آئےگا۔تو ہم نے دیکھاکہ اس دروازے سےحضرت ِسعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہ اندر آئے۔
(کنز العمال، کتاب الفضائل من قسم الافعال، الحدیث: ۳۷۱۰۸، ج۱۳، ص۱۸۰)
135 ’’ ہرصحابیِ نبی،جنّتی جنّتی‘‘
نبیوں اور رسولوں(عَلَیْہِمُ السَّلَام) کے بعد ساری مخلوق(creatures) میں سب سے افضل(superior) حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ پھر حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ پھر حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ پھر حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ ہیں(بہارِ شریعت ح۱، ص ۲۴۱) تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھم خیرا ور بھلائی والے ہیں، ان کا جب بھی ذکر کیا جائے تو لازم ہے کہ اچھے الفاظ ہی کے ساتھ کیا جائے تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھم جنّتی ہیں، وہ جہنّم کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے،قیامت کی بڑی گھبراہٹ(panic) انھیں غمگین(sad) نہ کرےگی، فرشتے ان کا استقبال (welcome) کریں گے ،(اور ان سے) کہیں گے کہ یہ وہ دن (ہے)جس کا (آپ) سے وعدہ (کیا گیا)تھا کسی صحابی کے بارے میں بُرا عقیدہ رکھنا،بدمذہبی و گمراہی (اور جہنّم میں لے جانے والا کام )ہے کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ (یعنی کیسے ہی درجے)کا ہو، کسی صحابی کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ (بہارِ شریعت ج۱، ص ۲۵۳ تا ۲۵۴ بتغیر)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی
سب صحابیات بھی جنّتی جنّتی
چار یارانِ نبی جنّتی جنّتی
حضرتِ صدیق بھی جنّتی جنّتی
اور عمرفاروق بھی جنّتی جنّتی
عثمانِ غنی جنّتی جنّتی
فاطمہ اور علی جنّتی جنّتی
ہیں حسن ،حسین بھی جنّتی جنّتی
ہر زوجہء نبی جنّتی جنّتی
ہیں معاویہ بھی جنّتی جنّتی
اور ابو سفیان بھی جنّتی جنّتی
136 ’’دین سے محبّت‘‘
مکّے شریف کے غیر مسلم اس بات سےبڑےپریشان تھے کہ اسلام بہت تیزی سے پھیل رہاہے اور لوگ مسلمان ہوتے جا رہے ہیں۔ان کے ایک سردار (chief)نے کہا کہ اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ جو شخص اسلام کی طرف بلاتا ہے اسے ختم کردیا جائے۔یہ سن کر تمام لوگ کہنے لگے کہ اسلام کو پھیلانے والے(حضرت ) مُحَمَّدبن عبداللہ(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) ہیں، لیکن انہیں شہید کرناآسان نہیں۔ فوراً ایک بہادر (brave man)آدمی کھڑےہوئےاورکہا: ’’یہ کام میں کروں گا‘‘۔ تمام لوگ حیران(surprise) ہوئے لیکن سب کویقین (believe)تھاکہ یہ شخص ایساکرسکتے ہیں ، کیونکہ وہ اپنی طاقت اوربہادری میں بہت مشہور (famous)تھے۔ پھروہ بہادر شخص(brave man) تلوار(sword)لے کر اس بُری نیّت سے اپنے گھر سے نکلے۔ ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک شخص سامنےسے آگیا، اس نے پوچھا: خیریت ہے! تلوارلیے کہاں جارہے ہیں؟۔ بہادرشخص نے کہا: میں(حضرت ) مُحَمَّدبن عبد اللہ(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )کو (مَعَاذَ اللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ) شہید کرنےجارہا ہوں۔ اس آدمی نے کہا: پہلے اپنے گھر کو تو دیکھ لیں، تمہاری بہن اور اُسکاشوہر(یعنی بہنوئی) دونوں مسلمان ہو چکے ہیں۔
یہ سنتے ہی وہ بہادر غصّے سے اُن کے گھر پہنچ گئے، جہاں وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہےتھے۔ بہن نے دروازہ کھولاتواُنہوں نے اپنی بہن اوربہنوئی دونوں پرغصّہ کرتے ہوئے پوچھا:کیا تم دونوں اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر نئے دین میں چلے گئے ہو؟اورغصّے میں بہن وبہنوئی دونوں کومارنا شروع کردیااور بہت مارا۔ پھروہاں موجود قرآنی آیتوں کو دیکھ کرکہنے لگے:یہ کیا ہے؟بہن نے کہا:یہ اللہ پاک کاکلام’’قرآن مجید‘‘ہے،آپ ناپاک ہیں اِسے ہاتھ نہیں لگاسکتے،ہاں غسل کرلیں پھراسے پکڑ سکتے ہیں ۔ اُنہوں نے غسل کیا اور پھر پڑھنے لگےتو یہ آیت سامنےآگئی،ترجمہ (Translation) :بیشک میں ہی اللہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پ۶ ۱، سورۃ طہ، آیت۱۴) (ترجمہ کنز العرفان)یہ پڑھ کراُن کی سوچ بدل گئی اور وہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس جا کر مسلمان ہوگئے۔(تاریخ الخلفاء،ص۱۱۱، سیرت سید الانبیاء، ص ۱۰۳ مفھوما)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک اور نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبّت کی بہت برکتیں ہیں اور اسی محبّت کی وجہ سے انسان، ہر حالت (condition) میں اسلام ہی پر رہتا ہے بلکہ اس کی برکت سے دوسروں کو بھی فائدہ ملتا ہے جیساکہ اس واقعے سے پتا چلا کہ جو اپنی بہن کو دین سے دور کرنے آئے تھے وہ خود مسلمان ہوگئے۔
تَعَارُف (Introduction):
مسلمان ہونے والا بہادر شخص امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ عَنْہ،قرآنِ پاک کو پکڑنے سے روکنے والی آپ کی بہن اُمّ جمیل حضرت فاطمہ بنت خطاب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اوردین اسلام کی محبّت میں مار کھانے والےجنّتی صحابی حضرت سعید بن زید رَضِیَ اللہُ عَنْہ تھے۔
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
جنّتی صحابی،حضرت سعید بن زیدرَضِیَ اللہُ عَنْہ اُن دس (10)صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک(1) ہیں کہ جنہیں ایک ساتھ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جنّت کی خوشخبری(good news) سنائی۔ایک روایت میں اس طرح ہےکہسعید بن زید جنّتی ہیں اور جنّت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے رفیق(یعنی ساتھی) ہونگے۔(الریاض النضرۃ ، ج۱،ص۳۵) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جب اپنا نبی ہونا لوگوں کو بتایا تو یہ شروع ہی میں اسلام لے آئے تھے۔(الاصابۃ ،حرف السین المھملۃ ملخصاً)
137 ’’بہت بڑی مچھلی‘‘
حضرتِ جابِر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَافرماتے ہیں، ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ہم (تین سو لوگوں)کوقبیلہ(tribe)قُریش کی طرف بھیجا اور حضرتِ ابو عُبَیدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ہماراسِپہ سالار(یعنی نگران) بنایا اور ہمیں کَھجوروں کی ایک بوری بھی دی۔ حضرتِ ابوعُبَیدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہہمیں (روزانہ)ایک ایک کَھجور دیتے ، ہم اس کو چُوستے جس طرح بچّہ چُوستا ہے اور اُوپر سے پانی پی لیتے ۔ تو اُس دن اور رات تک کے لیے ،یہی کھانا ہوتا۔ ہم دَرَخْتوں سےپتّے گراتے اور انھیں پانی میں ڈال کرکھا لیتے ۔ مزیدفرماتے ہیں کہ جب ہم سَمُندر(sea) کے قریب سے گزرے تو ہمیں ایک بہت ہی بڑی مچھلی نظر آئی ۔ وہ اتنی بڑی مچھلی تھی کہ ہم تین سو(300) لوگ ایک مہینے تک اُسے کھاتے رہے یہاں تک کہ ہم صحت مند(healthy) ہوگئے۔ مزید کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ہم اُس کی آنکھ کے گڑھے (یعنی سوراخ)سے مٹکے بھر بھر کر چَربی (fat)نکالتے اور ہم اُس (مچھلی)سے گائےجتنے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹتے۔ (اس مچھلی کی آنکھ کا سوراخ اتنا بڑا تھا کہ) تیرہ (13)آدمی اس کی آنکھ کے گڑھے میں بیٹھ گئے۔ ایک مہینے بعد ہم نے اس کے خشک گوشت (dried meat)کے ٹکڑے سفر میں ساتھ رکھ لئے۔ جب ہم مدینہ منوّرہ پہنچے تو سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضِر ہوئے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اس مچھلی کے بارے میں بتایا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ رزْق تھا جو اللہ پاک نے تمہارے لیے پَیداکیا۔ کیاتمہارے پاس اُس گوشت میں سے کچھ ہے؟ (اگر ہو تو)ہمیں بھی کھلاؤ۔ ہم نے حضُورِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کواس (مچھلی ) کا گوشْت بھیجا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُس میں سے کھایا۔
(صحیح مسلم ج۲ ص ۱۴۷ رقم الحدیث۱۹۳۵، مُلخصاً)
حدیثِ پاک میں موجود واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ اللہ پاک کی راہ میں جو بھی سفر کرتا ہے، اللہ پاک کی اس پر خوب رَحْمتیں ہوتی ہیں، مصیبتوں میں آسانیاں ہو جاتی ہیں ۔ ہر مسلمان کو صَحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی کوششوں(efforts) سے سبق(lesson) حاصل کرتے ہوئے، دین کے کام کے لیے کوششیں کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہُ عَنْہ اُن دس(10) صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک(1) ہیں کہ جنہیں خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےایک ساتھ جنّت کی خوشخبری (good news) سنائی۔آپ شروع ہی میں اسلام لے آئے تھے۔( الریاض النضرہ، ج۲، ص۳۴۶)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: ہر اُمّت میں ایک امین (یعنی امانت والا) ہوتا ہے اور اس اُمّت کے امین(یعنی امانت والے) ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔( صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،الحدیث:۳۷۴۴،ج۲،ص۵۴۵)علماء فرماتے ہیں :مطلب یہ ہے کہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا امین (یعنی امانت والا) ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ زید جیسا عالم ہونے کا حق ہے ویسا عالم ہے۔ سارے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ امانت والے ہیں مگر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہُ عَنْہ اوّل نمبر امانت دار۔(مراٰۃ المناجیح، ج۸،ص۴۴۷)
138 ’’عشرہ مبشّرہ (دس خوش نصیب صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)‘‘
{} قرآن وحدیث سے پتا چلتا ہے کہ سب صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ جنّتی ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھحضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے بہت سے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو مختلف وقتوں(different times) میں جنّت کی خوشخبری(good news) سنائی ہے اور اللہ پاک کے دیے ہوئے علم سےدنیا ہی میں ان کے جنّتی ہونے کااعلان (announcement)فرمادیامگردس(10) ایسے خوش نصیب(lucky) اور بزرگ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ہیں کہ جن کو آ پ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایک ساتھ ان کا نام لے کر جنّتی ہونے کی خوش خبری(good news) سنائی۔ ان خوش نصیبوں(lucky people) کو ''عشرہ مبشرہ ''کہا جاتاہے ۔ جیسا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: (۱)ابوبکر جنّتی ہیں ،(۲) عمر جنّتی ہیں ،(۳) عثمان جنّتی ہیں ،(۴) علی جنّتی ہیں ،(۵) طلحہ جنّتی ہیں ،(۶) زبیر جنّتی ہیں ، (۷)عبدالرحمن بن عوف جنّتی ہیں ،(۸) سعد بن ابی وقاص جنّتی ہیں ،(۹) سعید بن زید جنّتی ہیں ،(۱۰) ابو عبیدہ بن الجراح جنّتی ہیں ۔ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)(ترمذی،کتاب المناقب، ۲/۲۱۶، حدیث: ۳۷۶۸) تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْمیں سب سے افضل(superior) اوراعلیٰ ''عشرہ مبشرہ '' ہیں۔
139 ’’نفلی حج سے منع کردیا‘‘
ہماری پیاری امّی جان ،اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرض حج کر چکی تھیں ۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نفلی حج وعمرہ کے لئے عرض کی گئی تو فرمایا : میں فرض حج کر چکی ہوں ۔میرے ربّ نے مجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے۔ خدا کی قسم! اب میں نہیں بلکہ(میری موت کے بعد) میرا جنازہ ہی گھر سے نکلے گا۔اس بات کو بتانے والے راوی فرماتے ہیں : خدا کی قسم! اس کے بعد زندَگی کے آخِر ی سانس تک آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا گھر سے باہَر نہیں نکلیں۔ (تفسیردرّمنثورج۶ص۵۹۹)
اس حکایت سے سیکھنے کوملا کہ اُمّہاتُ المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ کے نزدیک پردے کی کتنی زیادہ اہمیّت (importance) تھی کہ آپ نفلی حج کےلیے بھی نہ جاتی تھیں لھذا ہمیں پردے پر شروع ہی سے توجّہ (attention)دینی چاہیے۔ بچّوں اور بچّیوں کو شروع سے ہی الگ رہنا چاہیے۔ بچّیوں کو شروع سےہی دوپٹے اور اسکارف(scarf) وغیرہ پہننے کی عادت بنانی چاہیے۔سات (7)سال کی عمر سے ان باتوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے اور بچّیاں جب نو(9)سال کے ہوجائیں تو اب ہرطرح سے پردہ کروایا جائے کہ غیر محرم رشتہ داروں مثلاً خالہ زاد ، ماموں زاد، پھُوپھی زاد، چَچا زاد،تایازاد(ہر طرح کےcousin)، خالو، پھوپھا(uncles)، بہنوئی(یعنی بہن کے شوہر) بلکہ اپنے نامحرم (کہ جن سے پردہ لازم ہے)پیرو مرشِد اور پڑوسیوں سے بھی پردہ کرائیں۔نو(9) سال کی بچّی کواپنے والد صاحب کے ساتھ نہ سلائیں اورجب لڑکا دس (10)سال کا ہوجائے تو اس کو بھی الگ سلائیں بلکہ اپنے ہم عُمر (یعنی اپنی عمر کے) لڑکوں یا (اپنے سے بڑے ) مَردوں کے ساتھ بھی نہیں سلانا چاہیے۔ لڑکوں کو مُمانی،چچی،تائی(aunts)،بھابھی (بھائی کی بیوی)وغیرہ سے بھی الگ رکھنااور ان سے پردہ کروانا چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ سودہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَامکّے شریف میں اُس وقت مسلمان ہوگئیں تھیں کہ جب اسلام کی دعوت کا سلسلہ نیا نیا شروع ہوا (newly started) تھا۔ (مدارج النبوت،ج۲، ص۴۶۷ مُلخصاً) حضرتِ سودہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا جب حبشہ سے مکّہ شریف سے واپس تشریف لائیں توخواب میں دیکھاکہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف لائے اور قدم مبارک(یعنی پیر شریف) ان کی گردن(neck) پر رکھا۔ آپ نےاپنا یہ خواب، اپنے پہلے شوہر حضرت سکران رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر خواب ایسا ہی ہے جیسا کہ تم نے کہا تو میں بہت جلد وفات پاجاؤں گا اور پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے تمہارا نکاح ہو جائے گا۔ پھر کچھ دنوں بعد حضرت سکران رَضِیَ اللہُ عَنْہُ انتقال فرماگئے۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲، ص۴۶۷)
دوسری طرف حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی وفات کے بعد سے اکیلے اکیلے سے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت خولہ بنت حکیم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کی کہ آپ ، سودہ سے نکاح فرمالیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان کی بات مان لی اورحضرت سودہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح فرمالیا ۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۲۹ و اکمال ص۵۹۹)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے درہموں(پیسوں) سے بھرا ہوا ایک تھیلا (bag) ہماری پیاری امّی جان ،حضرت سودہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو بھیجا۔آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ لانے والے نے بتایا کہ درہم (پیسے)ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے فرمایا کہ بھلا درہم کھجوروں کے تھیلے (bag)میں بھیجے جاتے ہیں یہ کہا اور اٹھ کر اسی وقت ان تمام درہموں(یعنی رقم) کو مدینے پاک کے فقیروں میں تقسیم کر دیا۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۲۹ و اکمال ص۵۹۹)
140 ’’مہاجرین اور انصار‘‘
ہماری پیاری امّی جان ،اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرض حج پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو مکّے کے غیر مسلموں نے بہت زیادہ تنگ کیا اور مسلمانوں کو بھی بہت تکلیفیں دیں پھر اللہ پاک نے مسلمانوں کو مکّے پاک سے مدینے شریف جانے کا حکم دیا تو ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ساتھ لے کر مکّے پاک سے مدینہ شریف آ گئے اور مسلمانوں میں سے جس سے جس طرح ہو سکا، مدینے پاک پہنچے۔ جو مکّے سے آئے وہ مہاجر ہوئے اور جو مدینے میں پہلے سے تھے وہ انصار ہوگئے۔انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نے مہاجرین صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا بہت ساتھ دیا۔ کسی انصاری نے اپنے مہاجر بھائی کوآدھا گھر دے دیا، کاروبار میں شریک (partner)کر لیا وغیرہ وغیرہ۔
غزوہ اُحد (ایک جنگ)سے جب واپس آرہے تھے توابو سفیان (جو اب تک مسلمان نہ ہوئے تھے) کہنے لگے کہ اگلے سال(next year) بدر (کی جگہ)میں ہم تم سے جنگ کریں گے ۔ حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان کے جواب میں فرمایا: ’’اِنْ شَآءَ اللہ ! ‘‘ جب وہ وقت آیا اور ابوسفیان مکّے والوں کو لے کر جنگ کے لیے آئے تو اللہ پاک نے ان کے دل میں ڈر ڈالا اور انہوں نے واپس جانے کا ذہن بنالیا ۔ اب ابوسفیان کی نُعَیْم بن مسعود سے ملاقات ہوئی تو کہاکہ اگر تم مدینے جاؤ اور کسی طرح بھی مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں آنے سے روک دو تومیں تمھیں دس (10)اونٹ دوں گا۔ نُعَیْم نے مدینے شریف پہنچ کر دیکھا کہ مسلمان جنگ کی تیاری کررہے ہیں تو اُن سے کہنے لگا کہ تم جنگ کے لئے جانا چاہتے ہو اور مکّے والے بہت بڑا لشکر(trop )لے کر آئے ہوئے ہیں۔ خدا کی قسم !تم میں سے ایک بھی زندہ واپس نہ آئے گا۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: خدا کی قسم، میں ضرور جاؤں گا چاہے میرے ساتھ کوئی بھی نہ ہو۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ستر (70)صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کو ساتھ لے کر ’’ حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ پڑھتے ہوئے چلے گئے اور بدر میں پہنچے ، وہاں آٹھ (8)دن رُکے، تجارت (trade)کا سامان ساتھ تھااسے بیچا(saleکیا)، بہت فائدہ ہوا اور پھر سلامتی کے ساتھ مدینہ شریف واپس آئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۱ / ۳۲۵-۳۲۶)
اسی سال ایک اور جنگ کے بعد انصار نے کہا کہ یا رسول اﷲ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اس جنگ میں جو مال ملا وہ سب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہمارے مہاجر بھائیوں کو دے دیجیے ہم اس مال میں سے کوئی چیز نہیں لیں گے تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے خوش ہو کر یہ دعا فرمائی کہاَللّٰھُمَّ ارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَاَبْنَآءَ الْاَنْصَارِ وَاَبْنَآءَ اَبْنَآءِ الْاَنْصَارِ۔یعنیاے اﷲ! انصارپر،اورانصارکےبچوں پراورانصارکے بچوں کے بچوں پررحم فرما۔ (مدارج جلد۲ ص۱۴۸) اسی سال ہماری پیاری امّی جان،اُمّ المؤمنین، حضرت بی بی زینب بنت خزیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی وفات ہوئی۔( مدارج النبوت ، قسم سوم ،ج۲،ص۱۴۹،۱۵۰)
حدیثوں میں موجود اس واقعے سے ہمیں یہ سیکھنے کوملا کہ مسلمان مسلمان بھائی بھائی ہیں، چاہے وہ کسی ملک، کسی قوم، کسی شہر، کسی قبیلے(tribe)، کسی برادری(community) سے تعلق(belong) رکھتے ہوں، سب کے سب مکّی مدنی عربی آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے غلام اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ زینب بنت ِ خزیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا غریبوں، مسکینوں سے بہت محبت کرتیں اور ان کی مدد بھی کرتیں۔یہاں تک کہ جب آپ ایمان نہ لائی(یعنی مسلمان نہ ) تھیں ، اُس وقت بھی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو اُمُّ المَساکین پکارا جاتا۔ اُمّہاتُ المومنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّمیں حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے علاوہ صرف آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا ہی نے خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں انتقال کیا، اور حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انہیں دفن (buried)فرمایا ۔( اُمّہات المؤمنین،ص۳۸ مُلخصاً) اُمّہاتُ المومنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّمیں صرف آپ ہی کا جنازہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پڑھایا۔
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ہماری پیاری امّی جان ،حضرت ِ زینب بن خزیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ان(نیک) عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لیے ہبہ(یعنی گفٹ) کردی تھیں۔(مراۃ ج۵،ص۱۷۱، مُلخصاً) ان کے بارے میں اللہ پاک نے یہ آیت ِمبارکہ ناز ل فرمائی: ترجمہ (Translation) : اور تم انہیں جو کچھ عطا فرماؤ اس پر وہ سب کی سب راضی رہیں ۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۲، سورۃ الحزاب، آیت ۵۱)
(ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۲، سورۃ الحزاب، آیت ۵۱)
141 ’’ اہل ِ بیت سے محبّت کرو‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کی اہلِ بیت سے محبت:
حضرتِ عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں:آلِ رسول(یعنی سیّد) کی ایک(1) دن کی محبت ایک (1)سال کی عبادت سے بہتر ہے۔(الشرف المؤبد لآل محمد، ص۹۲) نیز آپ فرمایا کرتے تھے:اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت (یعنی مرنے کے بعد،میّت کے مال کو تقسیم کرنے )کا سب سے زیادہ علم حضرت علی کَرَّمَ اللہ ُوَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص۱۳۵)
حضرت علّامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:جب اُمّت (nation)کے ان رہنماؤں (leaders) کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کوپیچھے نہیں رہنا چاہیے(یعنی ہر مسلمان کو ان کی عزّت کرنا لازم ہے)۔(الشرف المؤبد لآل محمد، ص۹۴)
صَحابَۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہم کس انداز سے اہلِ بیت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی اولاد سے زیادہ پسند کرتے، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے، ان کو بہتریں لباس اور دیگر چیزیں تحفے میں دیتے تھے، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر رو پڑتے، ان کی تعریف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان سنتے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ آلِ رسول(یعنی سیّد) کا بہت زیادہ ادب اور احترام(respect) کریں ۔
کیوں نہ ہو رُتبہ بڑا اصحاب واہل بیت کا
کیوں نہ ہو رُتبہ بڑا اصحاب واہل بیت کا
ہے خُدائے مصطفیٰ ،اصحاب و اہلِ بیت کا
آل و اصحاب نبی سب بادشہ ہیں بادشاہ
میں فقط ادنیٰ گدا اصحاب و اہل بیت کا
میری جھولی میں نہ کیوں ہوں دوجہاں کی نعمتیں میں ہوں منگتا، میں گدا اصحاب و اہل بیت کا کیوں ہو مایوس اے فقیرو!آؤ آکر لوٹ لو ہے خزانہ بٹ رہا اصحاب و اہل بیت کا فضل ربّ سے دوجہاں میں کامیابی پائے گا دل سے جو شیدا ہوا اصحاب و اہل بیت کا اے خدائے مصطَفٰے! ایمان پر ہو خاتمہ مغفرت کر! واسطہ اصحاب و اہل بیت کا جینا مرنا اُن کی اُلفت میں ہو یاربّ! اور ہو قرب جنّت میں عطا اصحاب و اہل بیت کا حشر میں مجھ کو شفاعت کی عطا خیرات ہو واسطہ یا مصطَفٰے! اصحاب و اہل بیت کا نور والے! قبر میری حشر تک روشن رہے واسطہ تم کو شہا! اصحاب و اہل بیت کا ہر برس میں حج کروں، میٹھا مدینہ دیکھ لوں یاالٰہی! واسطہ اصحاب و اہل بیت کا نزع میں حسنین کے نانا کا جلوہ ہو نصیب یاالٰہی! واسطہ اصحاب و اہل بیت کا دے گناہوں سے نجات اور متقی مجھ کو بنا یاالٰہی! واسطہ اصحاب و اہل بیت کا دردِ عصیاں کی دوا مل جائے میں بن جاوں نیک یاالٰہی! واسطہ اصحاب و اہل بیت کا شاہ کی دُکھیاری اُمّت کے دُکھوں کو دور کر یاالٰہی! واسطہ اصحاب و اہل بیت کا تنگدستی دُور ہو اور رِزق میں برکت ملے یاالٰہی! واسطہ اصحاب و اہل بیت کا یاالٰہی! شکریہ عطّار کو تو نے کِیاشعر گو، مِدحَت سَرا اصحاب و اہلَ بیت کا
142 ’’سب سے بہتر‘‘
ہماری پیاری امّی جان، اُمُّ المؤمنین حضرت ِ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں اپنے شوہر کے انتقال کے بعد وہ دعا کیا کرتی تھی جو پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مسلمان کو مصیبت کے وقت پڑھنے کےلیے بتائی تھی۔وہ دعا یہ ہے: اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ طاَللّٰہُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا(ترجمہ : ہم الل ہہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے (یعنی واپس ہونے)والے ہیں ط اے اللہ! مجھے اجر دے میری مصیبت میں اور میرے لئے اس سے بہتر عطا فرما )۔ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں کہتی تھی کہ ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بہتر کون ہوگا؟لیکن پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اسے پڑھنے کا فرمایا تھا تو میں پڑھا کرتی تھی ۔ پھر اللہ پاک نے مجھے ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بہتر عطا فرما دیے اور وہ اللہ پاک کے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تھے۔
( صحيح مسلم، كتاب الجنائز، ص۳۲۹، الحديث:۹۱۸، مُلخصاً)
اس حدیث شریف سے یہ درسlesson) )ملا کہ مُصیبت پر شور کرنے کے جگہ اللہ پاک سے دعا کرنی چاہیے۔ اللہ پاک چاہے گا تو آسانیاں مل جائیں گی۔یاد رہے! کسی کے انتقال پر آنسو آجانے اور رونے میں کوئی گناہ نہیں۔البتہ میّت کی جو عادتیں تھیں،اُنہیں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا،زور زور سے چلا کر رونا ، شور مچانا یہ ناجائز اور گناہ ہے(بہارِ شریعت ج۱، ح۴، ص ۸۵۴ماخوذاً)اورکسی کے انتقال پر اللہ پاک کے فیصلوں(decisions) پر اعتراض(objection) کرنا جیسے اے اللہ تو نے میرے دوست کو کیوں لےلیا ؟ابھی تو یہ چھوٹا تھا یا جوان تھا یا ابھی تو اس نے اپنی یا اپنے بچوں کی شادی بھی نہیں کی تھی ۔ اس طرح کے جملےکہنا بہت خطرناک ہے کہ اللہ پاک پر اعتراض(objection) کرنا، اُس کو ظالم (یعنی ظلم کرنے والا)سمجھنا یا کہنا یہ سب کُفر ہیں ۔اس طرح کے جملے کہنے سے بندے کا ایمان بھی چلاجاتا ہے (یعنی وہ مسلمان نہیں رہتا)اورزندگی کے تمام نیک اعمال ختم ہوجاتے ہیں ۔(28 کفریہ کلمات ،ص ۲ماخوذاً) یاد رہے! کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نےاس طرح کی کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو، آپ کے شوہر ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے انتقال کے بعدحضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے اپنی اپنی طرف سے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن حضرت اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے ان کے پیغام کو قبول (accept)نہ فرمایا پھر جب خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرف سے نکاح کا پیغام آیا تو کہا: ’’مَرْحَبًا بِرَسُوْلِ اللہ‘‘(یعنی اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو خوش آمدید welcome) ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۵) اُمّ المؤمنین حضرتِ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال اُمّہات المؤمنین میں سے سب سے آخر میں ہوا۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن(buried) کیا گیا۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
امامُ الحرمین کا بیان ہے کہ میں حضرت اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے علاوہ کسی عورت کو نہیں جانتا کہ اُن کی رائے (یعنی مشورہ)ہمیشہ درست ہو۔ صلح حدیبیہ کے دن جب ( کافروں نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، تو) رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی قربانیاں کرکے سب لوگ احرام کھول دیں (یعنی عمرے والے جو لباس پہنے ہیں وہ اتار کر دوسرے لباس پہن لیں) اور بغیر عمرہ کئے سب لوگ مدینے شریف واپس چلے جائیں کیونکہ اسی شرط(condition) پر صلح (reconciliation with each other) ہوئی ہے۔ تو لوگ قربانی نہیں کررہے تھے ۔حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پریشان ہوگئے تو حضرت بی بی اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے یہ مشورہ دیاکہ یارسول اﷲ!( صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) آپ کسی سے کچھ بھی نہ فرمائیں اورخوداپنی قربانی ذبح کرکے اپنا احرام اتار کر دوسرا لباس پہن لیں۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایسا ہی کیا،جب لوگوں نے دیکھا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے احرام کھول دیا ہے تو سب نے اپنی اپنی قربانیاں کرکے احرام اتار کر کپڑے بدل لیے اور سب لوگ مدینہ شریف واپس چلے گئے۔(زرقانی جلد۳ ص۲۳۸ تا ۲۴۲ و اکمال و حاشیۂ اکمال ص۵۹۹مُلخصاً) حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف “ میں موجود ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چند بال مبارک حضرت اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے پاس تھے ، جب کوئی شخص بیمار ہوتا تھا تو ایک برتن میں پانی بھر کر بھیج دیتا تھا ۔ ہماری پیاری امّی جان اُس پانی میں ان مبارک بالوں کو دھو کر واپس کردیا کرتیں تھیں۔ بیمار آدمی شفا حاصل کرنے کے لئے اس پانی کو پیتے تھے( یا اس سے غسل کرلیتے تھے اور بیماری ختم ہو جاتی تھی)۔
(صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب مایذکر فی الثیب،الحدیث۵۸۹۶،ج۴،ص۷۶)
143 ’’ پیاری امّی جان کا ہار(necklace)‘‘
ایک جگہ سے مسلمانوں کا قافلہ مدینہ پاک واپس آرہا تھا کہ راستے میں کہیں رُکا،تواُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کسی ضرورت سے کونے (corner)میں تشریف لے گئیں ، وہاں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کاہار (necklace) ٹوٹ گیا تو آپ اُسے ڈھونڈنے لگیں ۔ دوسری طرف قافلے والے یہ سمجھے کہ سب لوگ پورے ہیں اور وہاں سے قافلہ چل پڑا۔ جب حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا واپس تشریف لائیں تو ا س خیال سے وہیں بیٹھ گئیں کہ مجھے ڈھونڈنےکے لئےقافلہ ضرور واپس آئے گا۔پہلے عام طور پر یہی ہوتا تھا کہ قافلے کے پیچھے گر ی ہوئی چیز اُٹھانے کے لئے کسی آدمی کی ذمہ داری (responsibility)لگائی جاتی تھی ۔ اس قافلے میں یہ کام حضرت صفوان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا تھا۔ جب وہ اس جگہ پر آئے اور اُنہوں نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو بلند آواز(loud) سے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ(ترجمہ: ہم الل ہہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) ‘‘ کہا۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پردے میں تھیں ۔ انہوں نے اپنی اُونٹنی بٹھائی اور آپ رَضِیَ اللہ عَنْہَا کو اس پر بٹھا دیا اور خود اونٹ کو لے کر پیدل چلتے رہے اورقافلے والوں کے پاسں پہنچ گئے ۔ اس وقت منافقین (یعنی وہ کافر جوکلمہ پڑھ کراپنے آپ کومسلمان کہتے تھےمگر دل سے ایمان (believe)نہیں لائے تھے ، غیر مسلم ہی تھے، ان لوگوں) نے غلط باتیں پھیلائیں ۔ دوسری طرف اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا بیمار ہوگئی تھیں اور ایک مہینے تک بیمار رہیں تو انہیں کسی بات کا پتا نہیں چلاکہ اُن کے بارے میں منافقین کیا کہہ رہے ہیں ۔ ایک دن اُن کو پتا چل گیا تو آپ اور زیادہ بیمار ہوگئیں۔ اس وقت پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہوئی(یعنی اللہ پاک کا پیغام (message)آیا) اور اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہ عَنْہَا کی پاکی میں قرآنِ پاک کی آیتیں اُتریں اورمدینے والے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےمنبر شریف( یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں) پر کھڑے ہو کر فرمایا: میں اپنے اہل (یعنی گھر والوں)کے بارے میں بھلائی (goodness) کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، ۳ / ۶۱، الحدیث: ۴۱۴۱)
حضرت علی مرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا کہ ایک جوں(lice) کا خون لگنے سے اللہ پاک نے آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو نعلین(یعنی مُبارک چپل ) اتارنے کا حکم دیا توجب اللہ پاک آپ کی نعلین شریف ( یعنی چپل مُبارک) پراتنی سی (بُری) چیزکو پسند نہیں فرماتا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اہل(یعنی گھر والوں) میں غلط چیزوں کو رکھے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۷۷۲، ملخصاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں: اللہ پاک نے قرآن کریم میں سترہ(17) آیتیں حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا کی پاکی میں نازل فرمائیں جو قیامت تک مسجدوں میں، محفلوں میں تلاوت کی جائیں گی۔(فتاوی رضویہ جلد۲۹،ص۱۰۸مُلخصاً)
احادیثِ مُبارکہ میں موجود واقعے اور قرآن کی آیتوں کے نازل ہونے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اُمّہات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّکی بہت بڑی شان ہے کہ جب ہماری پیاری امّی جان پر لوگوں نے اعتراض (objection)کیا(باتیں بنائیں ) تو اللہ پاک نے قرآنی آیتوں میں اس کا جواب دیا۔ یاد رہے!حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پر تہمت یعنی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاکی پاکدامنی پر بے شرمی کے الزام لگانے والا یقیناً کافر ہے۔(بہارِ شریعت ح۱،ص۲۶۱ مُلخصاً)
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ اُمّجنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں : خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:تم تین(3) راتیں مجھے خواب میں دکھائی گئیں ایک (1) فرشتہ تمہیں (یعنی تمہاری صورت)ریشم کے ( خوبصورت کپڑے کا) ایک ٹکڑے میں لے کر آیااوراس نے کہا:یہ آپ کی زوجہ ہیں(دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی) ان کاچہرہ کھولئے۔ پس میں نے دیکھاتووہ تم تھیں میں نے کہا:اگریہ خواب اللہ پاک کی طرف سے ہے تووہ اِسے پوراکرے گا۔
(صحیح مسلم،الحدیث۲۴۳۸،ص۱۳۲۴ مع سنن الترمذی،الحدیث۳۹۰۶،ج۵،ص۴۷۰)
حضرت ابو موسیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں: ہمیں کسی حدیث(پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے فرمان ) کے بارے میں کوئی مشکل ہوتی(یعنی فرمان سمجھ نہ آتا) تو ہم حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے پوچھتے اوروہ اس کے بارے میں بتا دیتیں(یعنی سمجھا دیتیں)۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،الحدیث:۳۹۰۸،ج۵،ص۴۷۱)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی شہزادی فاطمۃ(رَضِیَ اللہُ عَنْہَا) سے فرمایا:اے فاطمہ! رَضِیَ اللہُ عَنْہَا جس سے میں محبّت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبّت کرو گی؟ حضرت فاطمہرَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کیا: ضرور یارسول اللہ ! صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں محبّت رکھوں گی۔ اس پر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :تم عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے محبّت رکھو۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،الحدیث۲۴۴۲،ص۱۳۲۵)
144 ’’ اہلِ بیت کی محبّت‘‘
اہلِ بیتِ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہم سے جو محبت نہ رکھے، مردود (اور بہت ہی بُرا آدمی)ہے{} حسنین کریمین(یعنی امام حَسَن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اور امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ (یقیناً شہیدہیں، ان میں سےکسی ایک کی شہادت کا انکار(denial) بھی گمراہی (اور جہنّم میں لے جانے والی بات)ہے(بہارِ شریعت ح۱، ص ۲۶۳تا۲۶۱ بتغیر){} یزید پلید(یعنی بُرا اور گندہ آدمی) ،جہنّم میں لے جانے والے بہت سے کام کرنے والا، فاسق،فاجر(اور گناہ گار) تھا، اسی کی حکومت میں امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ شہید کیے گئے{}اس کے فسق وفجور (اور گناہوں)سے انکار (denial) کرنا اور امام ِمظلوم(کہ جن پر ظلم کیا گیا)، امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کو غلطی پر کہنا، گمراہی (اور جہنّم میں لے جانے والی بات)ہے( فتاوی رضویہ، جلد۱۴، ص۵۹۲) {} قادری سلسلہ اہلِ بیت سے چلا ہے،قادری سلسلے کے پیشوا( یعنی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد قادریوں کےسب سے پہلے شیخ اور پیر صاحب )حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ ہیں۔ ان کے بعد امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ جو کہ اہل بیت سے ہیں پھرامام زین العابدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پھر امام باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہپھرامام جعفر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پھر امام موسیٰ کاظ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہم پھرامام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہیہ سب حضرات بھی سیّدہیں، یوں قادری سلسلہ اہلِ بیت اور سیّدوں کے سائے میں ہے۔( شرح شجرہ قادریہ ماخوذاً) اللہ پاک ہمیں اور ہماری نسلوں کو صحابہ کرام اور اہل ِ بیت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہم کی تعظیم (respect)کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ((اےاللہ! اس دعا کو)قبول فرما(ہمارے) امانت دار (غیب اور چھپی ہوئی باتوں کی خبر دینے والے)نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی عزّت و شان کے صدقے میں)
ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی
سب صحابیات بھی جنّتی جنّتی
چار یارانِ نبی جنّتی جنّتی
فاطمہ اور علی جنّتی جنّتی
ہیں حسن ،حسین بھی جنّتی جنّتی
ہر زوجہء نبی جنّتی جنّتی
145 ’’پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بستر کا ادب‘‘
ہماری پیاری امّی جان، اُمُّ المؤمنین حضرتِ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے والد ابو سفیان مدینے پاک میں اپنی بیٹی سے ملنے آئے اور بستر پر بیٹھنے لگے تو حضرتِ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے بستر ہٹا دیا اور فرمایا یہ اللہ پاک کے پاک رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا پاک بستر ہے اور آپ شرک ( ) کی وجہ سے ناپاک ہیں، اس لیے آپ اس بستر پر نہیں بیٹھ سکتے۔ابو سفیان اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد حضرتِ ابو سفیان ایمان لاکر صحابی بن گئے رَضِیَ اللہُ عَنْہُاور آپ کے بیٹے اور اُمُّ المؤمنین حضرتِ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے بھائی ،حضرت ِامیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہیں کہ جو وحی لکھا کرتے تھے ۔ حضرت ہند رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اِ ن کی والدہ اورحضرتِ ابو سفیانرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی بیوی اور صحابیہ ہیں۔ یوں یہ خاندان صحابہ اور صحابیات کا خاندان ہے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ۔
اس سچی حکایت سے پتا چلا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ادب والدین اور دنیا کے ہر شخص سے زیادہ ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا شروع ہی میں مسلمان ہوگئی تھیں۔(الطبقات الکبری لابن سعد،ج۸،ص۷۶)آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں :میں نے خواب میں دیکھاکہ ایک شخص مجھے ’’یااُمّ َالمؤمنین‘‘ کہہ رہا ہے، تو میں سمجھ گئی کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مجھ سے نکاح فرمائیں گے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج۸،ص۷۷)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ہماری پیاری امّی جان ،اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے انتقال کا وقت قریب آیا توانہوں نے حضرتِ عائشہ اورحضرتِ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے کہا کہ مجھے وہ باتیں معاف کردو جو ایک شوہر کی بیویوں کے درمیان ہوجاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا اللہ پاک آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کو معاف فرمائے ہم نےبھی معاف کیا۔ اُمُّ المؤمنین اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے کہا اللہ پاک تمہیں خوش رکھے تم نے مجھے خوش کردیا۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۸۱)
146 ’’کُتّے گھروں میں نہ رکھیں‘‘
ہماری پیاری امّی جان، اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کہتی ہیں کہ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک دن صبح کو پریشان تھے اور یہ فرمایا کہ:جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آج رات میں ملاقات کا وعدہ کیا تھا مگر وہ میرے پاس نہیں آئے۔ اللہ کی قسم اُنھوں نے وعدہ خلافی نہیں کی(یعنی اُن کے نہ آنے کی کوئی وجہ ہے)۔اس کے بعد حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو خیال ہوا کہ خیمے(مکان وغیرہ) کے نیچے کُتے کا ایک بچہ ہے، اُسے نکالنے کا حکم دیا۔ پھر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے ہاتھ میں پانی لے کر اُس جگہ کو دھویا۔ شام کو جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آئے، توحضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کل رات آپ نے ملاقات کا وعدہ کیا تھا،پھر کیوں نہیں آئے؟ عرض کی، ہم اُس گھر میں نہیں آتے جس میں کُتا اور تصویر ہو۔
(صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،الحدیث:۸۲-(۲۱۰۵)،ص۱۱۶۵)
اس حدیث ِمُبارک اورسچے واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ گھروں میں شوقیہ(بغیر ضرورت کے) کتّے نہیں رکھنے چاہیئں۔ حضرت علّامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : بعض بچے کتوں کے بچوں کو شوقیہ(کھیلنے وغیرہ کے لیے) پالتے اور گھروں میں لاتے ہیں ماں باپ کو لازم ہے کہ بچوں کو اس سے روکیں اور اگر وہ نہ مانیں تو سختی کریں ۔( جنتی زیور، ص۴۴۱) کتے سے مراد بغیر ضرورت صرف شوق کے لیے پالا ہوا کتاہے(مراۃ جلد۱،ص۴۳۹ مُلخصاً)حفاظت (security)کے کتے کا یہ حکم نہیں(مراۃ جلد۵،ص۷۸۸) یعنی حفاظت(security کے لیے کتے رکھ سکتے ہیں مگر شوقیہ نہیں رکھ سکتے۔ یہ بھی یاد رہے کہ! صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اور اُمّہات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ کا زمانہ(age)، تربیت(training) کا زمانہ تھا،اس میں شرعی حکم آہستہ آہستہ بتائے جارہے تھے ۔ جب انہیں کوئی نیا شرعی حُکم یا نیا دینی مسئلہ بتایا جاتا تو فوراً اُس پر عمل کرتے۔
تصویر سے مراد جاندار(مثلاً انسان یا جانور) کی تصویریں ہیں جو شوقیہ بلاضرورت ہوں اور احترام(respect) سے رکھی جائیں لہذا نوٹ، روپیہ ،پیسہ کی تصاویر اور وہ تصویریں جو زمین پر ہوں اور پاؤں میں آئیں ، ان کی وجہ سے فرشتے آنے سے نہیں رُکتے۔بچوں کی گڑیاں رکھنا اور بچوں کا ان سے کھیلنا جائز ہے(مراۃ جلد۶،ص ۳۳۰مُلخصاً) اہم بات! ٹی وی پر نظرآنے والا انسان ،تصویر نہیں بلکہ عکس(یعنی سایہshadow) ہے۔جس طرح آئینے (mirror)میں نظرآنے والاعکس تصویرنہیں ،پانی پراورچمکدا رچیز مثلا اسٹیل(steel) اورپالش کئے ہوئے ماربل(marble) پربننے والا عکس تصویر نہیں۔ اسی طرح شعاعوں(rays) سے بننے والےعکس کو تصویرنہیں کہہ سکتے ۔(ٹی وی اور مووی ص۲۶ ماخوذاً)
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو جب خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرف سے نکاح کا پیغام ملا تو اُس وقت وہ اونٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں ،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے فرمایا: اونٹ اورجواس پرہے اللہ اوراس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے ہے۔(التفسیر القرطبی،الجزء الرابع عشر، الاحزاب:۵۰،ج۷،ص۱۵۴)مکّۂ مکرَّمہ سے باہرمدینہ روڈ پر ’’نَوارِیہ‘‘کے قریب آپ کا مزراشریف آج بھی موجود ہے۔ یہ مزار مبارَک سڑک کے بیچ میں ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑک کی تعمیر(construction)کیلئے اِس مزار شریف کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی تو ٹریکٹر (tractor) اُلَٹ جاتا تھا، لھذااس کےچاروں طرف دیوار بنا دی گئی۔ ہماری پیاری امّی جان مَیمُونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان مرحبا! (عاشقانِ رسول کی 130حکایات ص۲۴۴،۲۴۵مُلخصاً)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ حضرت میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ہم میں سب سے زیادہ اللہ پاک سے ڈرنے والی اور صلۂ رحمی(رشتہ داروں سے اچھا سلوک ) کرنے والی تھیں۔
(مستدرک،ج۵، ص۴۲، حدیث:۶۸۷۸)
147 ’’ اُمّہات المومنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہن ‘‘
اللہ پاک نے فرمایا: اے نبی کی بیبیو! تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو (پ۲۲، الاحزاب:۳۲) اللہ پاک فرماتا ہے: اور اِس (نبی)کی بیبیاں اُن (اُمتیوں۔nation)کی مائیں ہیں (پ۲۲، الاحزاب:۶) اللہ پاک نے فرمایا:اورجب تم ان (مبارک بیبیوں)سے برتنے(استعمال کرنے) کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو(پ۲۲، الاحزاب:۵۳) ۔ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تمام مُبارک بیبیاں اُمّت (nation) کی مائیں ہیں اور ہر اُمّتی کے ليے اپنی حقیقی ماں (real mother)سے بڑھ کر ان کی تعظیم(respect) کرنالازم ہے اُمّہات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہن کی تعدادگیارہ(11) ہے ان گیارہ (11) اُمّہات المومنین کے نام یہ ہیں:(۱) حضرت ِخدیجہ بنت خویلد رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (۲) حضرت ِ عائشہ بنت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (۳) حضرت ِ حفصہ بنت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (۴) حضرت ِام حبیبہ بنت ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (۵) حضرت ِ ام سلمہ بنت ابوامیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (۶) حضرت ِسودہ بنت زمعہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (۷) حضرت ِ زینب بنت جحش رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (۸) حضرت ِمیمونہ بنت حارث رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (۹) حضرت ِزینب بنت خزیمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (۱۰) حضرت ِ جویریہ بنت حارث رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا اور (۱۱) حضرت ِ صفیہ بنت حیی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ان میں سے حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں انتقال فرماگئیں تھیں جبکہ نو(9) بیبیاں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی وفات شریف کے وقت موجود تھیں سب سے پہلے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرت ِ خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا سے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا( شرح العلامۃ الزرقانی، ج۴،ص۳۵۶ تا ۳۵۹) اُمّ المومنین خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ، اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ، حضرت فاطمۃ الزھراء رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہاقطعی(یعنی یقینی) جنّتی ہیں اور انھیں اور بقیہ اُمّہات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہن اور صاحب زادیوں (یعنی دوسری بیٹیوں)رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہن کو (بھی)تمام صحابیات رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہن پر فضیلت اور رتبہ حاصل(یعنی بڑا درجہ ملا ہوا) ہے اِن اہل ِ بیت کی پاکیزگی کی گواہی قرآنِ عظیم نے دی(یعنی اللہ پاک نے ہمیں یہ بتایا ہے) ۔(بہارِ شریعت ج۱، ص ۲۶۳تا۲۶۱) اُمّہات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہن کو صحابیت کا درجہ بھی حاصل ہے(یعنی ہر اُمّ المؤمنین، صحابیہ بھی ہیں) تمام صحابہ اور صحابیات رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھم خیر اور بھلائی والے ہیں، ان کا جب بھی ذکر کیا جائے تو لازم ہے کہ اچھے الفاظ ہی کے ساتھ کیا جائے تمام صحابہ اور صحابیات جنّتی ہیں، وہ جہنّم کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے،قیامت کی بڑی گھبراہٹ(اور پریشانی) انھیں غمگین(sad) نہ کرےگی،فرشتے ان کا استقبال(well come) کریں گے اور ان سے کہیں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا کسی صحابی یا صحابیہ کے لیے بُرا عقیدہ (belief) رکھنا،بدمذہبی و گمراہی (یعنی جہنّم میں لے جانے والا عقیدہ رکھنا والی بات )ہے (بہارِ شریعت ح۱، ص ۲۵۳ تا ۲۵۴ بتغیر)
148 ’’آسمان سے پانی کا ڈول آگیا‘‘
پیارے آقا مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب مکّے شریف سے مدینہ شریف تشریف لے گئے توحضرت اُمِّ اَیمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا (جو کہ دودھ کے رشتے سے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی والدہ ہیں ) سخت گرمی میں مکّے شریف سے مدینہ شریف جانے کے لیےپیدل ہی نکل گئیں اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا روزہ بھی تھا۔راستے میں اتنی سخت پیاس لگی کہ ایسا لگتا تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال ہو جائے گا۔ جب سُورج غروب ہوگیا اور افطار کا وقت ہو گیا تو آسمان سے ایک ڈول(یعنی پانی کا برتن) ، سفید رسّی سے بندھا ہوا اُترا اور اتنا نیچے آگیا کہ حضرت اُمِّ اَیمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اسے پکڑ لیا اور اُس میں سے پیا یہاں تک کہ آپ کی پیاس ختم ہوگئی ۔ اس کے بعد ساری زندگی آپ کو پیاس نہ لگی، یہاں تک کہ سخت گرمی کے دن دھوپ میں آپ باہر نکل جاتیں تاکہ آپ کو پیاس لگے لیکن پھر بھی پیاس نہ لگتی تھی۔(دلائل النبوۃ،۱/۱۲۵مُلخصاً)
اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک کی رضا اور خوشی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے والوں کی اللہ پاک مدد فرماتا ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو دودھ پلانے والی والدہ،حضرت اُمِّ اَیمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا وہ خوش نصیب (lucky) خاتون ہیں کہ جنہوں نے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بچپن (childhood)میں بہت زیادہ خدمت(service) کی ہے یعنی ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی برکتیں حاصل کیں۔ یہی آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو کھانا کھلایا کرتی تھیں ، کپڑے پہنایا کرتی تھیں، کپڑے دھویا کرتی تھیں۔ (کراماتِ صحابہ، ص۳۳۵) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نفل روزے رکھنے والی، بہت عبادت کرنے والی اور اللہ پاک کے خوف سے رونے والی خاتون تھیں۔(حلیۃ الاولیاء،۲/۸۰) جب حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنا نبی ہونا لوگوں کو بتایا تو شروع ہی میں آپ مسلمان ہوگئی تھیں۔(اسد الغابۃ،۷/۳۲۵) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے:اُمُّ اَیْمَن اُمِّی بَعْدَ اُمِّی یعنی میری والدہ کے بعد اُمِّ اَیمن میری ماں ہیں۔(المواہب اللدنیۃ،۱/۴۲۸ ملخصاً)
دودھ کےرشتے کی والدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ایک مرتبہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جو کسی جنّتی خاتون سے نکاح کرنا چاہتا ہے وہ اُمِّ اَیمن سے نکاح کرلے۔ حضرتِ زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ان سے نکاح کر لیا۔(الاصابہ،۸/۳۵۹)
149 ’’حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی بہادری(bravery) ‘‘
جنگ خندق(یعنی ایک لڑائی) میں ایسا بھی ہوا کہ جب یہودیوں نے یہ دیکھا کہ ساری مسلمان فوج خندق (یعنی گڑھے وغیرہ)کی طرف جنگ میں مصروف(busy) ہےتو جس قلعہ(fort) میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے موجود تھے، تو کچھ یہودی وہاں پہنچے اور حملہ (attack)کر دیااور ایک یہودی دروازہ تک پہنچ گیا،حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نےاس کو دیکھ لیا اور حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہسےکہا کہ تم اس کو مارو، ورنہ یہ جا کر دشمنوں کو بتا دے گا (کہ یہاں کوئی مرد نہیں)پھر خود حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے خیمہ (tent)کی ایک چوب(یعنی خیمہ لگانے کی لکڑی ) نکال کر اس کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیاپھرخود ہی اس کا سر قلعہ(fort) کے باہر پھینک دیایہ دیکھ کر حملہ کرنے والوں کویقین ہو گیا کہ قلعہ کے اندر بھی کچھ فوج موجود ہے اس ڈر سےانہوں نے پھر اس طرف حملہ نہیں کیا۔نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دور سے دیکھ رہے تھےاور حضرت صفیہ کے بیٹےحضرت زبیررَضِیَ اللہُ عَنْہساتھ تھے ،اُن سے فرمایا کہ اپنی والدہ کی بہادری (bravery)کو تو دیکھو۔(زرقانی ج۲ ص۱۱۱ مع سیرت مصطفی ، ۳۴۱ مُلخصاً)
اس حکایت سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام ہمیں اتنی آسانی سے نہیں ملا بلکہ شروع میں اسلام کے دشمن مسلمانوں کو ہر طرح ختم کرنے کی کوششیں کرتے تھے اورمسلمان بہادری سے ان کا مقابلہ(competition) کرتے تھے۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پھوپھی(یعنی والد کی بہن) ہیں ۔آپ بہت ہی بہادر تھیں۔ 20سن ِہجری میں تہتر( 73)سال کی عمر میں مدینہ پاک میں وفات پائی ،اور دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن(buried) ہوئیں۔آپ زبیر بن العوام رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی والدہ ہیں اورآپ کے بیٹے حضرت زبیر بن عوام ” عشرہ مبشرہ“یعنی ان دس(10) خوش نصیب (lucky) صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ہیں جن کو حضوراکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےجنّتی ہونے کی خوشخبری(good news) سنائی۔(زرقانی جلد ۳ ص۲۸۷تاص ۲۸۸مع سیرت مصطفی ۷۰۱ مُلخصاً)
حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شہادت کے بعد جب جنّتی صحابیہ،پھوپھی مُصطفیٰ، حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اپنے بھائی کے پاس آنے لگیں تو خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انکے بیٹے حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو حکم دیا کہ اپنی والدہ کو روکیں۔حضرت بی بی صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کی کہ مجھے اپنے بھائی کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے(کہ انہیں بہت بری طرح شہید(یعنی جنگ میں قتل(murder)) کر دیا گیا ہے) لیکن میں اس کو اللہ پاک کی راہ میں کوئی بڑی بات نہیں سمجھتی، توحضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جانے کی اجازت دے دی ۔ جب آپ ، حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے مُبارک جسم کے پاس گئیں اور دیکھا کہ پیارے بھائی کے کان، ناک، آنکھ سب کٹے ہوئے ہیں اور طرح طرح کے زخم ہیں تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (ترجمہ: ہم الل ہہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں)کے علاوہ کچھ بھی نہ کہاپھر ان کی مغفرت کی دعا مانگتی ہوئی چلی آئیں۔(طبری ص۱۴۲۱مُلخصاً)
150’’ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دودھ پلانے والی مبارک خواتین ‘‘
رضاعت“ یعنی بچوں کو ماں کے علاوہ کسی عورت سے دودھ پلانےکا رواج (custom)شروع ہی سے چلا آرہا ہے۔اسی طرح عرب شریف میں بھی ”رضاعت“ کاسلسلہ تھا۔اسی وجہ سےچند نیک خواتین نے ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی رضاعی(یعنی دودھ کے رشتے سے) والدہ بننے کی سعادت حاصل کی ۔(سیرت رسول عربی ص۵۴) بچے کو(ہجری یعنی اسلامی) دو سال تک دودھ پلایا جاسکتا ہے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو(2) سال تک اور لڑکے کو ڈھائی سال(یعنی دو(2) سال، چھ(6) ماہ) تک پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں۔(بہار شریعت ج۱، ح۷،ص۳۶،مسئلہ۱)دودھ کے رشتوں میں پردہ نہیں مَثَلاً رَضاعی ماں بیٹے اور رَضاعی بھائی بہن میں پردہ نہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمَاکچھ اس طرح فرماتے ہیں: مگران سے پردہ کرنا ہی مناسب ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۲، ص۲۳۵،ماخوذ اً)
{}حضرتِ حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کچھ اس طرح فرماتی ہیں: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دوسروں کے حقوق (rights)کا خیال رکھنے والے تھے، بلکہ بچپن شریف(childhood) میں بھی اپنے حصّے(share) کا دودھ پیتے اور اپنے رضاعی(یعنی دودھ کے رشتے سے) بھائی کے حصّہ کی جگہ(اُلٹی طرف) جاتے ہی نہ تھے، لہٰذامیں نے سمجھ لیاکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عدل و انصاف فرمانے والے ہیں۔''(حکایتیں اور نصیحتیں ص۵۸۲،ماخوذاً)رشتوں کا جیسا درجہ ہوتا ہے،اس کے مطابق اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم ہے۔ (رَدُّالْمُحتار،۹ /۶۷۸ ملخصاً)
{} جن خُوش قِسمت(lucky) خواتین نے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کودودھ پلایا ،ان سب کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی یعنی وہ مسلمان ہوگئیں۔ جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان قادریرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ امام ابُو بکر ابنِ عربی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کاقول لکھتے ہیں کہ : پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کوجتنی عورتوں نےدودھ پلایاسب اسلام لائیں۔(فتاویٰ رضویہ،۳۰/۲۹۵) ان کی تعداد (numbers)کے بارے میں مفتی احمدیارخان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو چار(4) عورتوں نے دودھ پلایا: والدہ محترمہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ، حضرت ثویبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ، حضرت ام ایمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ،حضرت حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ۔ (مراۃ المناجیح،۵/ ۴۵بتغیر)
یہ کشتی کیسی تھی؟:
یہ کشتی 300 گز لمبی(300 yards long)، 50 گز چوڑی(50 yards wide) اور 300 گز اونچی (300 yards high)تھی٭ کشتی میں 3 منزلیں بنائی گئی تھیں)یعنی اس کے three levels تھے)٭سب سے نیچے والی منزل (ground floor)پرندوںوغیرہ کے لیےتھی٭درمیانی منزل(middle floor) جانوروں کے لیے ٭جبکہ سب سے اوپر والی منزل(highest floor)انسانوں کے لیے ٭ یہ کشتی تقریباً 100 سال میں تیار ہوئی ۔(پ۱۲، ہود:۳۶تا۴۴،ملخصاً) (درِّ منثور،ج۴،ص ۴۱۹تا۴۳۷، ملخصاً) (صاوی،ج۳،ص ۹۱۳تا۹۱۴، ملخصاً) (ماخوذ اَز عجائب القراٰن مع غرائب القراٰن، ص ۳۱۶تا۳۲۱)
تَعَارُف (Introduction):
حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کا مبارک نام عبدُالغفار اورلقب” نوح “ہے آپ اللہ پاک کے ڈر سے بہت زیادہ روتے تھے اس لیے آپ کا لقب ” نوح “ یعنی (اللہ پاک کے خوف سے رونے والا ) ہوا ،آپ اللہ پاک کا بہت شکرادا کرنے والے تھے،آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی نافرمان قوم (disobedient nation)پر جب اللہ پاک کا عذاب آیا تو جو لوگ کشتی میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ تھے، وہ زندہ تو رہے مگر اُن کے ہاں مزید بچے نہیں ہوئے ۔اس طوفان storm)) کے بعد جتنے انسان ہوئے وہ سب حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد سے ہوئے۔ اس لیے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کو آدم ِ ثانی یعنی دوسرے آدم بھی کہا جاتا ہےلھذا حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے بعد ہونے والے تمام انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام یہاں تک کے ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بھی آپ کی اولاد سے ہیں۔
(سیرت الانبیاءملخصا مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،۱۶۰تا ۱۶۱، مُلخصاً)
151 ’’دنیا کی پہلی کشتی(boat) ‘‘
ہزاروں سال پہلے کی بات ہے، اللہ پاک کے نبی حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام دنیا میں موجود تھے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلاتے اور نیک کاموں پر لانے کی کوششوں کرتےتھے۔ 950 سال تک آپ عَلَیْہِ السَّلَام اللہ پاک کا پیغام پہنچاتے رہے (یعنی لوگوں کو مسلمان ہونے کا کہتے رہے)لیکن80 لوگوں کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہوا۔ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ سمجھ لیا کہ اب یہ مسلمان نہ ہونگے تو آپ نے اللہ پاک سے قوم کے خلاف(against) دعا کی، اللہ پاک نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم پر آنے والے طوفان storm))کی خبر دی اور آپ کو ایک کشتیboat) بنانے کا حکم دیا ۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ایمان لانے والوں (یعنی مسلمانوں)کے ساتھ مل کر ”دنیا کی پہلی کشتی“ بنانے کا کام شروع کر دیا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم کے بُرے لوگ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو طرح طرح سے تنگ(tease) کرتے تھے لیکن آپ عَلَیْہِ السَّلَامصبرpatience)) کرتے رہے اور کشتی مکمل کرنےمیں لگے رہے۔
طوفان کے آنے کی نشانی(sign) یہ بتائی گئی تھی کہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے گھر کے تندور clay) ovenجس میں روٹی پکاتے ہیں)سے پانی باہر آئے گا۔ ایک دن حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے پانی دیکھا تو پرندوں، جانوروں اور مسلمانوں کو کشتی میں بیٹھنے کا حکم دیااور سب کشتی میں بیٹھ گئے۔ اتنی تیز بارش ہونے لگی کہ زمین کئی جگہوں سے پھٹ گئی اور اس میں سے بھی پانی نکلنے لگا، چالیس(40) دن تک یہ بارش ہوتی رہی، یہاں تک کہ اونچے اونچے پہاڑبھی چالیس 40 گز تک پانی میں ڈوب گئے، کشتی میں موجود انسانوں اور جانوروں کے علاوہ کوئی بھی زندہ نہ رہا۔
اس حكايت(واقعے) سے ہمیں پتا چلا کہ نبی (عَلَیْہِ السَّلَام)کی نافرمانی (disobedienceیعنی بات نہ ماننے) میں نقصان ہی نقصان ہے اور ان کا حکم ماننے والا کامیاب successful)) ہوتا ہے۔
یہ کشتی کیسی تھی؟:
یہ کشتی 300 گز لمبی(300 yards long)، 50 گز چوڑی(50 yards wide) اور 300 گز اونچی (300 yards high)تھی٭ کشتی میں 3 منزلیں بنائی گئی تھیں)یعنی اس کے three levels تھے)٭سب سے نیچے والی منزل (ground floor)پرندوںوغیرہ کے لیےتھی٭درمیانی منزل(middle floor) جانوروں کے لیے ٭جبکہ سب سے اوپر والی منزل(highest floor)انسانوں کے لیے ٭ یہ کشتی تقریباً 100 سال میں تیار ہوئی ۔(پ۱۲، ہود:۳۶تا۴۴،ملخصاً) (درِّ منثور،ج۴،ص ۴۱۹تا۴۳۷، ملخصاً) (صاوی،ج۳،ص ۹۱۳تا۹۱۴، ملخصاً) (ماخوذ اَز عجائب القراٰن مع غرائب القراٰن، ص ۳۱۶تا۳۲۱)
تَعَارُف (Introduction):
حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کا مبارک نام عبدُالغفار اورلقب” نوح “ہے آپ اللہ پاک کے ڈر سے بہت زیادہ روتے تھے اس لیے آپ کا لقب ” نوح “ یعنی (اللہ پاک کے خوف سے رونے والا ) ہوا ،آپ اللہ پاک کا بہت شکرادا کرنے والے تھے،آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی نافرمان قوم (disobedient nation)پر جب اللہ پاک کا عذاب آیا تو جو لوگ کشتی میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ تھے، وہ زندہ تو رہے مگر اُن کے ہاں مزید بچے نہیں ہوئے ۔اس طوفان storm)) کے بعد جتنے انسان ہوئے وہ سب حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد سے ہوئے۔ اس لیے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کو آدم ِ ثانی یعنی دوسرے آدم بھی کہا جاتا ہےلھذا حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے بعد ہونے والے تمام انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام یہاں تک کے ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بھی آپ کی اولاد سے ہیں۔
(سیرت الانبیاءملخصا مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،۱۶۰تا ۱۶۱، مُلخصاً)
152 ’’تینوں رات تک ایک طرح کا خواب‘‘
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے تین (3)رات یہ خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے:بے شک اللہ پاک تمہیں اپنے بیٹے کو ذَبح (یعنی گلے پر چھری (knife)چلانے) کرنے کا حُکم دیتا ہے ۔ (تفسیرِ کبیر ج۹،ص۳۴۶ مُلخصاً) آپ اپنے بیٹے کی قربانی کرنے کے لیے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کو لے کر چلے ۔ شیطان ایک آدمی کی شکل میں آیا کہنے لگا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک نے آپ کو اس طرح بیٹے کی قربانی کا حکم دیا ہے۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اگر اللہ پاک نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے تو پھر میں اس حکم کو پورا کرونگا۔پھرشیطان حضرتِ ا سمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی امّی جان کے پاس آیا اور کہا کہ: ابراہیم (عَلَیْہِ السَّلَام)آپ کے بیٹے کولے کرانہیں ذَبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں اِس بات کا حکم دیا ہے۔یہ سن کر حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے فرمایا:اگر اللہ پاک کا حکم ہے تو اُنہوں نے بہت اچّھا کیا ۔ پھر شیطان حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آیا تو آپ نے بھی یہی جواب دیا کہ اگر اللہ پاک کا حکم ہے توبَہُت اچّھا کررہے ہیں ۔ (مُستَدرَک ج۳ص۴۲۶ رقم۴۰۹۴مُلَخَّصاً)
اب شیطان سامنے آگیا اور آگے جانے سے روکنے لگا توحضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے تین(3) جگہ اُسے سات(7) ، سات (چھوٹے چھوٹے) پتھر مارے تو شیطان چلا گیا ( آج بھی حاجی ان تینوں(3) جگہوں پر کنکریاں مارتے ہیں) (تفسیرِ خازن ج۴،ص۲۴ مُلَخّصًا) ۔اب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرتِ اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا(ترجمہ۔Translation): اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟(ترجمہ کنز العرفان) (پ ۲۳، سورۃ الصّفّٰت، آیت۲ ۱۰)بیٹے نے یہ سُن کر جواب دیا(ترجمہ۔ Translation) : اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیاجارہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب(soon) آپ مجھے صبر patience)) کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(ترجمہ کنز العرفان) (پ ۲۳، سورۃ الصّفّٰت، آیت۲ ۱۰)
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے جب حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کو ذَبح کرنے کے لئے زمین پر لٹایا تو اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام جنّت سے ایک مینڈھا(یعنی دُنبہsheep) لئے تشریف لائے اور دُور سے اُونچی آوازمیں کہا:اَللّٰہُ اَکْبَر اَللہُ اَکْبَر، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے جب یہ دیکھا اورآواز سنی تو کہا:لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر،پھر حضرتِ اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام نے کہا:اَللہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمد(اس کے بعد سے اِن تینوں پاک حضرات کے ان مبارَک الفاظ کوادا کرنے کی یہ سنّت(یعنی طریقہ) قیامت تک کیلئے جاری ہوگئی: اَللّٰہُ اَکْبَر اَللہُ اَکْبَر، لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر، اَللہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمد)۔ (بِنایَہ شرح ہِدایَہ ج۳ص۳۸۷) اللہ پاک نے فرمایا(ترجمہ۔Translation): اے ابراہیم(عَلَیْہِ السَّلَام)! بیشک ’’آپ‘‘ نے خواب سچ کردکھایاہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔(پ ۲۳، سورۃ الصّفّٰت، آیت۴،۱۰۵ ۱۰) (ترجمہ کنز العرفان،مُلخصاً)
جنّت سے آنے والے مینڈھے(یعنی دُنبے) کے سینگ کعبہ شریف میں رکھے رہے یہاں تک کہ یزید کی حکومت آگئی۔ اس کی فوج نےپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے نواسے، امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو شہید کر دیا ۔ اس کے بعداس نےبارہ ہزار یا بیس ہزار سپاہیوں کی فوج(army of soldiers) بھیج کر مدینہ پاک پر حملہ(attack) کرنے بھیجا، انہوں نے سات ہزار(7000) صَحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو شہید کیا، پھر یہمکّےپاک آئے اوربہت سارےشیطانی کام کیے، یہاں تک کہ کعبۃ اللہ شریف کو بھی آگ لگ گئی، جس کی وجہ سے یہ مُبارک سینگ بھی جل گئے۔ (سوانح کربلاص۱۷۸ مُلَخّصًا مع مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۵ ص۵۸۹ حدیث ۱۶۶۳۷ معبیٹا ہو تو ایسا ص۲ تا ۱۵)
اس واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) ملا کہ دین کے لیے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ السَّلَام نے بہت قربانیاں (sacrifices)دیں لھذا ہمیں بھی دین پر عمل کرنے کے لیے ، سردی گرمی، خوشی اور غمی میں پانچوں وقت نماز پڑھنی ہے اور اللہ پاک کے دین کی تعلیمات(teachings) پر عمل کرنا ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا نام ابراہیم بن تارخ ہے۔آپ کو اللہ پاک نے اپنا خلیل یعنی دوست بنایا اس لیےآپ کو خلیل اللہ یعنی اللہ کا دوست کہا جاتا ہے۔آپ کے بعد والے تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اورہمارے پیارے نبی محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بھی آپ ہی کی اولاد سے ہیں اس وجہ سے آپ کو ابوُالانبیاء یعنی انبیائے کرام کے والد بھی کہا جاتا ہے آپ مہمان نوازی میں بہت مشہور تھے بغیر مہمان کھانا ہی نہیں کھاتے تھے آپ نے اپنے مکان کے چار(4) دروازے رکھے تھے تاکہ کوئی مہمان ، بغیر کھائے پیے یہاں سے نہ جائے ،آپ کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک کپڑا بیچنے والےتاجر کے پاس سے گزرے تو فرمایا:تم اپنی تجارت کو لازم پکڑ لو کیونکہ تمہارے والد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کپڑے بیچا(sell out )کرتے تھے ۔(سیرت الانبیاء ص ۲۵۶ تا ۲۶۲ملخصا )
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی شان:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام اپنے خاندان کے بڑوں کو بھی دین کی دعوت دیا کرتے تھے۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے والد تارخ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، اللہ پاک پر ایمان(believe) رکھتے تھے مگر چچا آزر مسلمان نہ تھا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کی عادت کے مُطابق اپنے چچا کو باپ کہہ کر دین کی طرف بُلایا۔یاد رہے! حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام اور تارخ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اوپر سے دادا ہیں اور پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والدین اور سب دادا اور اُمّہات (اوپر تک کی سب والدہ) جنّتی ہیں (تفصیل کے لیے دیکھیں صراط الجنان،ج۶،ص۱۰۲)حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے چچا کو جو دعوت دی ،قرآنِ پاک میں اُسے یوں بیان کیا گیاہے: ترجمہ (Translation) : اے میرے باپ! شیطان کا بندہ نہ بن، بیشک شیطان رحمٰن کا بڑا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ! میں ڈرتا ہوں کہ تجھے رحمٰن کی طرف سے کوئی عذاب پہنچے تو تُو شیطان کا دوست ہوجائے۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ ۱۶، سورۃ مریم ، آیت ۴۴،۴۵)
153 ’’ہمارے آخری نبی،عربی،قریشی، ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ‘‘
{} بَرِّ اعظم(continent) ایشیا(Asia)، یورپ(Europe) اور افریقہ(Africa) کے درمیان میں عرب شریف ہے۔ اللہ پاک نے سب انسانوں کو صحیح راستے پر لانےکے لیے ، آخری نبی کو اس اہم مُلک میں بھیجا۔ {}عرب کے لوگوں کو اپنی زبان پر بہت فخر(proud) تھا کہ وہ عربیوں کے علاوہ ساری دنیا کو عجمی(یعنی گونگا deaf) کہتے تھے۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر ایسا کلام نازل کیا (یعنی ایسی کتاب دی)کہ جس کی طرح کی کوئی آیت آج تک کوئی عربی بلکہ کوئی غیر مسلم نہ بنا سکا۔یاد رہے!پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے کسی بھی انسان سے نہیں پڑھا کہ کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے فلاں سے سیکھ کر یہ کلام لکھا ہے۔ {}قیامت تک کےانسانوں کوصحیح راستے پر لانے کے لیے آخری نبی پر نازل ہونے والا کلام، اسلام کے سچا ہونے، حضرت محّمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کی نشانی ہے کہ چودہ سو (1400)سال سے اس میں تبدیلی(change) نہیں ہوئی،اس کے اصول(principles) قیامت تک کے لیے ہیں، اسے بچّہ بچّہ یاد کرلیتا ہے ۔ {}ہمارے سچّے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر اللہ پاک کا کلام بھی نازل ہوا اور وہ اللہ پاک کی طرف سے بہت سی نشانیاں (signs)بھی لے کر آئے،کبھی چاند کے دو ٹکڑے کر دیے، کبھی ڈوبے ہوئے سورج(setting sun) کو واپس بُلا لیا یعنی اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اتنی نشانیاں دیں کہ غیر مسلم جان گئے یہ سچّے ہیں ۔تو جنہوں نے سچ کو قبول (accept)کیا وہ مسلمان بلکہ صحابی اور اس پوری اُمّت(nation) کے بہترین(best) لوگ بن گئےاور جنہوں نے ضِد (counter)کی، وہ بہت بُرےغیر مسلم ہوگئے۔ {} اللہ پاک نے اپنے سچّے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یہ نشانیاں دینےکے ساتھ ساتھ، بہت پیارا اور خوبصورت اخلاق (morality) بھی دیا ۔ عرب کے غیر مسلم جو بات بات پر قتل (murder)کردیتے، بیٹیوں کو زندہ دفن (buried)کر دیتے،شرابیں پیتے، ڈاکے ڈالتے، گالیاں دیتے اور ہر طرح کی بُرائیاں کرتے، ایسے لوگ بھی ہمارے آخری نبی کو سچّا اور امانت دار(honest) سمجھتےبلکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ’’ امین ‘‘(یعنی امانت دار)اور’’ صادق‘‘(یعنی سچے) کے لقب (title)سے یاد کرتے تھے۔ {} اللہ پاک نے اپنے سچّے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہترین قبیلہ(tribe)اور بہترین خاندان دیا۔ ابو سفیان جب مسلمان نہ ہوئے تھے تو انہوں نے روم کے بادشاہ سے کہا تھا کہ: محّمد( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) بہترین خاندان والے ہیں۔(بخاری ج۱، ص۴، مُلخصاً) {} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک نے حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ''کنانہ'' کو چُن لیا(یعنی اُن میں سب سے زیادہ عزّت والا بنایا) اور ''کنانہ'' میں سے ''قریش'' کو چنُا ،اور ''قریش'' میں سے ''بنی ہاشم'' کو،اور ''بنی ہاشم'' میں سے مجھ کو چن لیا۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل ، الحدیث:۲۲۷۶، ص۱۲۴۹) {} ''قریش'' ایک سمندری جانور کا نام ہے جو بہت ہی طاقتور ہوتا ہے، اور سمندری جانوروں کو کھا ڈالتا ہے گویا کہ یہ '' سمندر کا شیر'' ہے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے خاندان میں ''فہر بن مالک'' بھی ہیں جو اپنی بہادری (bravery) اور طاقت کی وجہ سے مشہور تھے یہاں تک کےاہل عرب نے ان کو ''قریش'' کا لقب دیا۔ ان کی اولاد قریشی ''یا قریش'' کہلاتی ہے۔ (زرقانی علی المواہب ج ۱،ص۷۶ مُلخصاً) {}حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پردادا ''ہاشم'' بڑی شان والے تھے۔ ایک سال عرب میں لوگ بہت تکلیف میں تھے تو آپ نےملکِ شام سے خشک روٹیاں خریدیں اور اُن کاچورا (sawdust)کرکے ،اونٹ کے گوشت اور سالن کے ساتھ ملا کرحاجیوں کو کھلائیں۔اس دن سے لوگ ان کو''ہاشم''(روٹیوں کاچورا کرنے والا)کہنے لگے۔ ( مدارج النبوۃ ج۲، ص۸ مُلخصاً) آپ کی اولاد کو '' ہاشمی'' کہتے ہیں۔ {} ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان یہ ہے کہ وہ عربیوں میں ایسا کلام لائے کہ اُس طرح کا کلام کوئی نہیں لاسکتا، اُن کا قبیلہ(tribe)عزّت والا'' قریش''،اُن کا خاندان شرافت اور بزرگی والا''ہاشم''۔ ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اسلام کی دعوت(invitation) دینا شروع کی تو اکیلے(alone) تھے اور اس دعوت کے کچھ سالوں بعد حج کیا تو ایک لاکھ چوبیس ہزار (1,24,000)کے ساتھ تھے اور اللہ پاک کا یہ ارشاد سنا رہے تھے) ترجمہ ۔ Translation ) : آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا (پ ۶، سورۃ المائدۃ، آیت ۳) (ترجمہ کنز العرفان) ۔ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی قیامت میں شان یہ ہوگی کہ کہ سب لوگ آپ کی تعریف کریں گے، چاہے وہ آپ سے پہلے دنیا میں آئے ہوں یا بعد میں، مسلمان ہوں یاغیر مسلم ،آپ کا ساتھ دینے والے ہوں یا تکلیف دینے والے ہوں۔جنّت میں شان یہ ہوگی کہ آپ کو ''وسیلہ'' دیا جائےگا (فتاوی رضویہ جلد۳۰،ص۲۳۳ مُلخصا)یعنی جنّت میں ایک ایسی جگہ کہ جوصرف ایک یعنی صرف آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ہی ملے گی۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد وَعَلٰی اٰلہِ وَاَصْحَابِہِ وَسَلَّم