154 ’’بزرگوں کی زبان‘‘
ایک شخص نے بابافرید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےعرض کی:میری کئی لڑکیاں ہیں جن کی شادی کے اخراجات (expenses) اٹھانا میرے بس میں نہیں۔یہ سُن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مٹی کا ایک ٹکڑا اُٹھایا، سورۂ اخلاص (یعنی قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾ مکمل سورت)پڑھ کردم کیا جس سے وہ مٹّی سونا (gold)بن گی۔ آپ نے اُسے سونا دے کر فرمایا: اسے لے جاؤ اور اپنی لڑکیوں کی شادی کرو۔ اُس آدمی کے دل میں لالچ پیدا ہوگئی کہ سونا بنانے کا طریقہ پتا چل گیا۔اُس نے گھر پہنچ کر بہت ساری مٹی جمع کی اور سورۂ اخلاص پڑھ کر دم کیا مگر جب وہ پڑھتے پڑھتے تھک گیا اور تھوڑی سی مٹی بھی سونا نہیں بنی تواُس نے اپنے ایک دوست کو ساری بات بتا دی ۔ دوست سمجھدار (sensible)تھا کہنے لگا: بھائی! سورۂ اخلاص تو وہی ہے مگر بابا فرید صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی زبان کہاں سے لاؤ گے؟( انوار الفرید، ص ۳۰۰ ملخصاً)
اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہاللہ پاک کےنیک بندے اپنی زبان کو گناہوں سے بچاتے اور نیکیوں میں استعمال کرتے ہیں اسی لیے اللہ پاک اُن کی زبان میں اثر(effect) پیدا فرمادیتا ہے۔ہمیں بھی چاہیےکہ نیک بندوں کی طرح اپنی زبان کو گناہوں سے بچائیں اور نیکیوں میں استعمال کریں ۔
تَعَارُف (Introduction):
بابافرید صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ569ھ یا 571ھ مطابق 1175ء میں پیداہوئے۔(سیرالاولیاء مترجم،ص۱۵۹، انوارالفرید،ص۴۲،۴۸) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ قرآن پاک حفظ کرنے اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملتان آ گئے اوروہاں قرآن و حدیث، فقہ(یعنی دینی مسائل) اور کئی شرعی علم حاصل کیے۔( خزینۃ الاولیاء، ۲/۱۱۰مُلخصاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال، 5محرمُ الحرام 664ھ مطابق 17 اکتوبر 1265ء کو ہوا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مزار پنجاب (پاکستان) کے شہر پاکپتن شریف میں ہے۔ (فیضان بابا فرید گنج شکر،ص ۹۶تا ۹۸)
اللہ کے ولیوں کی شان:
پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ھُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پا س بیٹھنے والا بدبخت(bad luck) نہیں رہتا۔)صحیح مسلم،الحدیث: ۲۶۸۹، ص۱۴۴۴،مُلتقظاً(
155 ’’پتھر روٹی بن گئے! ‘‘
حضرت احمد کبیر رفاعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بھانجے(بہن کے بیٹے) حضرت عبد الرحمٰن رفاعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں ایسی جگہ چھپ کر بیٹھا تھاکہ جہاں سے میں اپنےماموں امام رفاعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کودیکھ کر ان کی باتیں سن سکتاتھا کہ اچانک(suddenly) اوپر سےایک آدمی زمین پر آگیاا اورآپ کے سامنےآکر بیٹھ گیا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفرمایا : مشرق (east)سے آنے والے کو خوش آمدید(well come) ،اس نے عرض کی: بیس( 20)دن سے میں نے نہ کچھ کھایا ہے نہ پیا ہے میں چاہتا ہوں آپ مجھے میری پسند کا کھانا کھلائیں،آپ نے فرمایا : تم کیا کھانا چاہتے ہو؟اس نےنظر اٹھائی تو پانچ مُرغابیاں (wildfowl) ہوا میں اڑ رہی تھیں اس نے کہا : مجھےان میں سے ایک بھنی ہوئی (fried)مُرغابی،گندم (wheat)کی دو (2)روٹیاں اور ٹھنڈے پانی کا ایک(1) جگ چاہیے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےان مُرغابیوں کو دیکھا اورفرمایا :فوراً اس آدمی کی بات پوری کردو!ابھی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ ان میں سے ایک بھنی ہوئی مُرغابی( wildfowl fried ) آپ کے پاس آگئی،پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےاپنےقریب پڑے ہوئے دو(2) پتھروں کو اُٹھاکرجیسے ہی اس کے سامنےرکھاتو وہ فوراً بہترین آٹے کی دو (2)روٹیاں بن گئے، پھر ہوا میں ہاتھ اوپر کیا تو لال رنگ کا پانی سے بھرا ہوا جگ آگیا اس کےبعد اس نیک آدمی نے کھانا کھایا اور پھر جس طرح آیا تھا اُسی طرح واپس چلا گیا،اُس کےجانے کے بعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے تمام ہڈیوں (bones) کو الٹے ہاتھ میں لیا اوران پر اپنا سیدھا ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا : اے ہڈیو،مل جاؤ! اللہ پاک کےحکم اوربِسۡمِ الله الرَّحۡمٰنِ الَّرحِیۡم کی برکت سے اُڑجاؤ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہڈیاں زِندہ مُرغابی بنگئیں اور وہ مرغابی ہوا میں اُڑنے لگی۔)جامع کرامات الاولیاء، ۱/ ۴۹۴، ملخصاً (
اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے اپنے ولیوں کو ایسی طاقت دی ہے کہ وہ ایسے کام کر سکتے ہیں جو عام آدمی نہیں کرسکتا ۔دنیا کی چیزیں ان کےحکم پر چلتی ہیں وہ جس کا م کا ارادہ (intention)کرتے ہیں اللہ پاک اپنی رحمت سے اُسے پورا فرمادیتا ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کا نام احمدبن علی ہے۔ آپ امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی اولاد میں سے ہیں ۔ آپ نےصرف سات (7)سال کی عمر میں قرآنِ پاک یاد کر لیا، صرف بیس (20)سال کی عمر میں بہت سارا علمِ دین حاصل کرلیا اور ساتھ ہی اپنے ماموں جان شیخ منصوررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سےاہم دینی علم بھی حاصل کرنے لگے۔ (فیضان احمد کبیر رفاعی ،ص ۱تا۶مُلخصاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ (پیری مریدی کے)سلسلہ رفاعی کو شروع کرنے والے ہیں(الاعلام للزرکلی ،باب الرفاعی ،ج ۱ ،ص۱۷۴) ۲۲جمادی الاولی ۵۷۸ھ کو ظہرکے وقت آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کا انتقال ہوا۔ (فیضان احمد کبیر رفاعی ،ص۳۱)
اللہ کے ولیوں کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :اَدْفِنُوْا مَوْتَاکُمْ وَسْطَ قَوْمٍ صَالِحِیْنَیعنی اپنے مُردوں کو نیکوں کے درمیان دفن (buried)کرو۔ (کنزالعمال، الحدیث۴۲۳۶۴، ج۱۵، ص۲۵۴)
156 ’’اولیائے کِرام رَحمۃُ اللہ عَلَیْہِم کے مزاراور عرس‘‘
مزار شریف اور اس کی حاضری:
ولیوں کے مزارات پر حاضری دینا برکت والا کام ہے۔ ( بہار شریعت، ج۱،ح۱،ص۲۷۵،مُلخصاً)
انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اوراولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کے مزارات کے ساتھ مسجد بنانا تاکہ لوگ ان کے مزارات پر آئیں ، یہ مسلمانوں کی پُرانی عادت ہے۔پہلے کی اُمّتوں (nations)میں اصحاب کہف گزرے ہیں۔ یہ مسلمان بلکہ اولیاء کرام تھے،غیر مسلم بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لیے ایک غار(cave) میں چلے گئے، وہاں سوئے تو اُن کو موت آگئی اور تین سو (300)سال سوتے رہے پھر مسلمان بادشاہ کی حکومت میں یہ جاگے اور ان کے واقعے سے غیر مسلموں کو پتا چلا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی مل سکتی ہے اور مسلمان جو قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کی بات کرتے ہیں، وہ صحیح ہے۔(صراط الجنان ج۵،ص۵۴۰ تا ۵۴۱ ماخوذاً) پھر یہ سب دوبارہ سو گئے یعنی انتقال کر گئے تو لوگ آپس میں مشورہ کرنے لگے،جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے: انہوں نے کہا” ہم ضرور ان کے قریب ایک مسجد بنائیں گے “۔(ترجمہ کنز العرفان) (پ ۱، سورۃ البقرۃ، آیت ۱۰)علماء فرماتے ہیں کہ: یہ مسجد اس لیے بنائیں گے کہجس میں مسلمان نماز پڑھیں اور ان اولیاء کرام کی برکتیں حاصل کریں گے۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۲۰۶، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۶۴۶، ملتقطاً)
خود ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا مزار شریف مسجد کے ساتھ ہے اور اُس پر ہرے رنگ کا خوبصورت گنبد بھی موجود ہے۔نیز ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مزار شریف کی حاضری کی بہت زیادہ اہمیّت (importance) ہے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےفرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔(شعب الایمان، فضل الحج و العمرۃ، الحدیث۴۱۵۹،ج۳،ص۴۹۰) یہاں تک فرمایا: جس نے بیت اﷲ(یعنی اﷲ پاک کے گھر ) کا حج کیا اور میری زیارت نہ کی(یعنی میرے مزار پر نہ آیا تو) اس نے مجھ پر ظلم کیا(مَعَاذَاللہ(یعنی اللہ پاک کی پناہ))۔( الکامل فی ضعفاء الرجال ،ج۸، ص ۲۴۸) حاجی کے لیے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مزار شریف پر حاضری واجب کے قریب لازم ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۱۰، ص۷۶۳مُلخصاً)
اللّٰہ پاک کے پیارےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ: میں نے تم کو قبروں کی زیارت(قبرستان وغیرہ جانے) سے منع کیا تھا تو اب محمد ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یعنی مجھ)کو اجازت دے دی گئی ہے(تو میں نے) اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی، لہٰذا تم بھی قبروں کی زیارت کرو بے شک وہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔(ترمذی،کتاب الجنائز، ۲/۳۳۰،حدیث:۱۰۵۶)
مزارات پر حاضری دینا بہت پرانا طریقہ ہےبلکہ خود ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہر سال جنگِ اُحُد میں شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)) ہونے والوں کے مزارات پر تشریف لاتے تھے۔ ( مصنف عبد الرزاق،کتاب الجنائز، ۳/۳۸۱، حدیث:۶۸۴۵ ، مُلخصاً)
اللہ پاک کے ولی کا عرس:
بزرگوں کے عُرس میں قرآنِ پاک کی تلاوت ہوتی ہے، اللّٰہ پاک کا ذکر ہوتا ہے،نعت خوانی اور اور اس کے علاوہ دیگر نیک کام ہوتے ہیں پھر ان سب کا ثواب مزار والے بزرگ کو پہنچایا جاتا ہے۔
اولیائے کِرام(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کا عُرس منانا(یعنی سالانہ نیاز وغیرہ کرنا) اور اُن کو ثواب پہنچانا جیسے: فاتحہ دلانا، قرآن پڑھنا اور نعت خوانی کرنا وغیرہ سب ثواب کے کام ہیں۔ (بہار شریعت،ج۱، ۲۷۷مُلخصاً) لھذا عُرس بہت برکت والا کام ہے۔
یاد رہے! عرس میں کسی قسم کا ناجائز کام نہیں ہونا چاہیے۔جو ناجائز کام کرتے ہیں ، وہ بہت غلط کرتے ہیں، جہاں ناجائز کام ہو رہے ہونگے، ہم وہاں نہیں بیٹھیں گے اور اس طرح کے ناجائز کاموں سے اولیاء کرام کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جیسا کہ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ایک سوال کا جواب کچھ اس طرح دیا: بزرگانِ دِین کے عرسوں میں جو ناجائِزکام ہوتے ہیں (مثلاً ڈھول بجانا، بے پردہ عورتوں اور مردوں کا ایک ساتھ ہونا ، ناچنا وغیرہ ) ان سے اولیاء کرام کو تکلیف ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِن حضرات نے بھی لوگوں کی طرف تَوَجُّہ (attention)کم فرمادی ہے ورنہ پہلے جس طرح ان کے مزارات سے برکتیں حاصل ہوتی تھیں وہ اب حاصل نہیں ہوتیں!(ملفوظات اعلی حضرت ۳۸۳ مُلخصاً)
سب لوگ ایک جگہ اونچی آوازسے قرآن شریف پڑھیں یہ ناجائز ہے ۔ عرس و فاتحہ میں بہت سے لوگ زور زور سے تلاوت کرتے ہیں یہ ناجائز ہے اگر چند آدمی پڑھنے والے ہوں تو سب لوگ آہستہ پڑھیں۔(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراہیۃ،ج۵،ص۳۱۷ مُلخصاً)
امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں امام ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے برکت حاصل کرتا ہوں اور اگر مجھے کوئی حاجت (یعنی ضرورت) ہوتی ہے تو اُن کے مزار پر آتاہوں پھر دو (2)رکعت نماز پڑھتا ہوں اورانکی قبر کے پاس جاکراللّٰہ پاک سے دعا کرتا ہوں تو میری ضرورت جلدپوری ہوجاتی ہے۔(ردالمحتار ، مقدمة الکتاب،۱/۱۳۵مُلخصاً)
مزاروں پر پھول ڈالنا جائز ہے۔ایک مرتبہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے درخت کی ایک تَر شاخ(fresh branch) لی اوراس کے دو حصّے(parts) کئے اور پھر ہر ایک قبر پر ایک حصّہ لگادیا،لوگوں نے عرض کیا کہ آپ نے ایساکیوں کیا ؟ فرمایا: جب تک یہ خشک (dry)نہ ہوں تب تک ان کے عذاب میں کمی رہے گی۔
(مشکوة المصابیح،کتاب الطھارة، ۱/۸۱،حدیث:۳۳۸)
اﷲ پاک کے اولیاءکی قبروں پر چادریں ڈالنا جائز ہےکیونکہ اس کی وجہ سے عام لوگوں کی نظر میں مزار شریف کی اہمیّت(importance) پیدا ہوتی ہے۔ (شامی جلد ۵کتاب الکراہیت باب اللبس ،جلد۶، ص ۳۶۳ماخوذاً)
157 ’’ہاتھ کی طاقت ختم ہوگئی‘‘
حضرت بہاءالدین زکریا سہروردی ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(پیری مریدی کے)سلسلہ سہروریہ کےبڑے بزرگ ہیں آپ اللہ پاک کےولی ، بڑے زمیندار(landowner) اورتاجربھی تھے دنیا کے کئی ملکوں میں لوگ آپ کا مال لے کرجاتے تھے جس سےلاکھوں روپےآپ کےپاس آتے تھے،آپ بہت ہی سخاوت کرنے والے تھے،آپ تجارت اور کھیتی باڑی(cultivation)سےحاصل ہونے والاتمام مال غریبوں فقیروں،مسافروں وغیرہ پرخرچ کردیتے تھے ۔(فیضان بہاء الدین زکریا ،ملخصا)
ایک مرتبہ حضرت بہاءالدین زکریا سہروردی ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے کمرے میں عبادت کر رہے تھے۔چند مُرید (disciples)بھی آپ کےپاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک(suddenly) آپ ا پنی جائے نمازسے اُٹھے اور رقم کی ایک تھیلی ہاتھ میں لے کر باہر نکل گئے ۔مُرید بھی حیران (surprise) ہوکر آپ کےپیچھے چل پڑے،باہر آکر دیکھا کہ چند آدمی ایک غَریب شخص کو اپنا دیا ہوا قرض (loan)مانگتے ہوئے اسے تنگ کر رہے ہیں اور اس شخص کے پاس ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےقرض مانگنےوالوں کو بلا کر فرمایا : یہ تھیلی لےلو اورجتنا اس شخص کا قرض (loan)ہے،اُتنا نکال لو۔قرض مانگنے والے کے دل میں لالچ آگئی اوراس نےاپنےقرض سے کچھ روپے زیادہ لینے چاہے۔فوراً اس کا ہاتھ خشک ہو گیا(یعنی ایک ہی جگہ رُک گیا ،اب ہاتھ ہلانے کی طاقت نہیں رہی ) چِلّا کربولا :حضور معاف فرمائیے،میں زیادہ لینے سے توبہ کرتا ہوں۔فوراً اس کا ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔غریب شخص کا قرض ادا ہوگیا، وہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دعائیں دینے لگا۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ مریدوں کےساتھ اپنے کمرے کی طرف واپس تشریف لےآئے اور فرمایا: اللہ پاک نے مجھےاس شخص کی مدد کے لئے بھیجا تھا ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ !اس کا قرض (loan)ادا ہو گیا ۔(فیضان بہاء الدین زکریا ،ص۴۲)
اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک کے ولیوں کے سامنے اپنا دل بھی سنبھال کررکھنا چاہیے یعنی کسی بُرے کا م کا ارادہ (intention) بھی نہیں کرنا چاہیے ،یہ بھی معلوم ہوا کہ لالچ بُری بلا ہے اور اللہ پاک کے ولی غریبوں کی مدد کرتے ہیں، ہمیں بھی چاہیے کہ جب کسی کی پریشانی کا پتا چلے اورہم اُس کی مدد کر سکتے ہوں تواِس سے پہلے کہ وہ ہمیں مدد کا کہے، ہم اُس کی مدد کر دیں ۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت بہاءالدین زکریا سہروردی قریشی ملتانیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ۲۷ رمضان المبارک522سنِ ہجری پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ (پیری مریدی کے)سلسلہ سہروردیہ کےبزرگ حضرت شہاب الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےآپ کو خلافت بھی دی(یعنی آپ کو اجازت دی کہ اب آپ دوسروں کو مرید کر سکتے ہیں)۔آپ بہت زیادہ عبادت کرنے والے اور اللہ پاک کی مخلوق (creatures) کی خدمت (یعنی لوگوں کی مدد) کرنے والے تھے ،آپ کا مزار شریف مدینۃ الاولیاء ( یعنی اولیاء کےشہر ) ملتان میں ہے ہزاروں عاشقانِ رسول آپ کے مزار کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔(فیضان بہاء الدین زکریا ،ملخصا)
اللہ پاک کے ولی کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بہت سے پراگندہ بال (یعنی جن کے بال درست نہ ہوں)،غبار آلود چہرے (یعنی چہرے پر مٹی ہو)اورپھٹے پرانے کپڑوں والے لوگ جن کو حقیر (یعنی چھوٹا)سمجھا جاتا ہے ،(لیکن یہ لوگ)ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہاللہ پاک پرقسم کھائیں تواللہ پاک اس(قسم) کو ضرور پورا کرے ۔(سنن الترمذی، کتاب المناقب،۵/ ۴۶۰،حدیث:۳۸۸۰)
158 ’’بریلی سے مدینہ‘‘
مدینہ پاک میں رہنے والے حاجی محمد عارِف ضِیائی کہتے ہیں کہ ایک بار حُضور قُطبِ مدینہ مولاناضِیاء ُ الدِّین قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مجھ سے فرمایا: میں ایک بار مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مزار شریف پر حاضر ہوا۔ سلام عَرْض کرنے کے بعد جب واپس جانے لگا تواچانک (suddenly) میری نظر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی جالیوں کی طرف چلی گئی تو مجھے جالیوں کے سامنےاعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نظر آئے۔ میں بہت حیران (surprise) ہواکہ میرے پیر صاحب، امام اہلسنّترَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مدینہ پاک میں ہیں اور مجھے معلوم تک نہیں۔ اب میں دوبارہ جالی شریف کے پاس حاضر ہوا لیکن اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مجھے نظر نہیں آئے تو میں پھر واپس جانے لگا، جاتے جاتے میری نظر پھر جالی شریف کی طرف گئی تو دیکھا کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ وہیں حاضِر ہیں، لہٰذا میں پھرجالیوں کے پاس آگیا لیکن اب بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ موجود نہ تھے۔ تیسری بار بھی اِسی طرح ہوا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ راز کا (secret)مُعاملہ ہے، مجھے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس نہیں جانا چاہیے۔(بریلی سے مدینہ ص۳ تا ۵مُلخصاً)
اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے اپنے اولیاء کو بہت طاقت دی ہے ۔وہ جب چاہیں ، جہاں جاناچاہیں، جا سکتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ جہاں جس سے ملنے جانا چاہیں ، اُ س سے مل لیتے ہیں ، کسی اور سے ملنے کی خواہش(desire) نہ ہو تو اسی جگہ کوئی دوسرا اُن سے نہیں مل سکتا۔
تَعَارُف (Introduction):
ولی کامل، مُجدِّد و عالمِ دین، عاشقِ نبی، سلسلہ قادریہ کے بزرگ،کئی کتابیں لکھنے والے مُصَنِّف، ترجمہ قرآن کرنے والے مُفَسِّر،ہزاروں فتوے دینے والے مُفتی،حافظِ قرآن،کئی علوم میں ماہر(expert)،نیک و پرہیزگار مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت ہی بڑے عالم تھے، آپ نے دینی مسائل کے جو جوابات لکھے ہیں، جب انہیں جمع کیا گیا اور عربی وغیرہ کا ترجمہ کیا گیا تو وہ بائیس ہزار(22,000) سے بھی زیادہ صفحات بن گئے، دنیا کے مختلف ممالک (different countries) کے علماء نے آپ کو مُجَدِّد کہا یعنی آپ کو اتنا بڑا عالم کہا کہ سو(100)سال میں اتنا بڑا عالم پیدا ہوتا ہے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اُن علماء میں سے ہیں کہ جن کی ساری زندگی مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرتے ہوئے گزری اور آپ نے اُمّت(nation) کو شیطانی وسوسوں سے بچا کر عشق رسول کے راستے پر چلایا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کا روحانی درجہ (spiritual status) بھی بہت بڑاتھا،آپ کے پیرصاحب نے جیسے ہی آپ کو اپنی بیعت میں لیا (یعنی مرید کیا)اُسی وقت اس بات کی اجازت دے دی کہ آپ بھی لوگوں کو اپنا مرید بنا سکتے ہیں حالانکہ آپ کے پیر صاحب اس طرح اجازت دیتے ہی نہ تھے اور روتے ہوئے فرمانے لگے کہ اگر کل قیامت کے دناللہ پاک نے
فرمایاکہ تو میرے لیے کیا لایا ہے تو میں کہہ دونگا”احمد رضا“۔
اللہ پاک کے ولی کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک فرماتا ہے جو میرے کسی ولی سے عداوت(یعنی دشمنی) رکھے میں اسے اعلان جنگ دیتا ہوں۔ (بخاری،۴/۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲)
159 ’’اولیائے کِرام رَحمۃُ اللہ عَلَیْہِم کی نیاز اور ایصالِ ثواب ‘‘
ایصالِ ثواب:
اپنے کسی نیک عمل کا ثواب کسی دوسرے مسلمان کو پہنچانا ’’ایصالِ ثواب‘‘ کرنا کہلاتاہے۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سےعرض کی کہ میری والدہ کا اچانک (suddenly) انتقال ہوگیا اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ کہتیں تو صدقے کا کہتیں ، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اُنہیں ثواب ملے گا فرمایا: ’’ہاں‘‘۔(صحیح البخاری،کتاب الجنائز،۱/۴۶۸،حدیث:۱۳۸۸)
حضرت سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سےعرض کی:یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! میری ماں کا انتقا ل ہو گیا ہے، اُ ن کے لیے کون سا صدقہ افضل (superior) ہے؟حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’پانی‘‘تو حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ایک کنواں(well) کھدوایا اور کہا کہ یہ کنواں ’’سعد کی ماں ‘‘کے لیے ہے۔)ابو داود،کتاب الزکاة،۲/۱۸۰،حدیث:۱۶۸۱( یعنی اس کا ثواب ان کو ملے۔
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :مُردے کا حال قبر میں ڈوبتے ہوئے انسان(drowning man) کی طرح ہے کہ وہ شدّت سے (یعنی بہت زیادہ)انتِظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یاکسی دوست کی دعا اس کو پہنچے۔
( شُعَبُ الاِیْمَان ج۶ص۲۰۳حدیث۷۹۰۵)
فرمانِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جو قبرستان میں گیارہ (11) مرتبہ سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کرے تو مُردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کواس کا ثواب ملے گا۔
(جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۷ ص۲۸۵حدیث۲۳۱۵۲)
اولیاء کرام (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ)کی نیاز:
کوئی بھی نیک کام کرکے ولیوں کو اُس کا ثواب پہنچانا، اِسی طرح اُن کوثواب پہنچانے کے لئے کھانا کھلانا، جانور ذَبْح کر کے دیگیں بنوانا بہت نیکی اور بَرَکت والا کام ہے۔ یہ ایصالِ ثواب ہی ہے مگر اولیاء کرام کے ادب کی وجہ سے اِسے ’’نذر و نیاز‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ جانور کی قربانی اللہ پاک کا نام لے کر ہوتی ہے اور اُس کھانے کا ثواب بزرگوں کو پہنچادیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ولیوں کے سردار، غوثِ پاک سیّد عبدُ القادررَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی گیارہویں شریف کی نیاز اور فاتحہ کرنا تو بہت برکت والا کام ہے۔ یاد رہے کہ ثواب پہنچانے سے ہماری نیکیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ اور بڑھ جاتی ہیں ۔ (بہار شریعت،ج ،۲۶۴،۱ تا ۲۷۷ ماخوذ۱ً)
ہاں! اس بات کا خیال رہے کہ کوئی کام شریعت کے خلاف نہ ہو مثلاً دیگ بنانے یا کسی بھی طرح کا کھانا بنا کر ایصالِ ثواب کے لیے پوری رات اس طرح جاگی جائے کہ عورتیں وغیرہ جمع ہوں ، خوب بے پردگی ہو یا گانے باجوں کا سلسلہ (program)ہو(یا صبح فجر کی نماز قضا کر دی جائے یا مردبغیر شریعت کی اجازت کےجماعت سے نماز چھوڑ دیں کہ) یہ ناجائز و گناہ اور جہنّم میں لے جانے والے کام ہے۔(بہار شریعت،ج۱،ح ۹، ص ۳۱۷ماخوذ۱ً) یعنی ایصال ثواب اچھا کام ہے، ضرور ہونا چاہیے مگر اس کے ساتھ کوئی ناجائز کام نہ ہونا ضروری ہے۔
کسی بزرگ کے نام کا جانور ذبح کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں جبکہ ذبح کرتے (یعنی جانور پر چھری چلاتے ) وقت اللّٰہ پاک کانام لیکر ذبح کرے کیونکہ اگر ذبح کے وقت اللّٰہ پاک کے علاوہ کسی دوسرے کا نام لیا تو وہ جانور حرام ہوجائے گا لیکن کوئی مسلمان اس طرح نہیں کرتا، ہمارے یہاں لوگ عموماً جانور خریدتے یا پالتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ یہ گیارہویں شریف کا بکرا ہے یا فلاں بزرگ کا بکرا ہے یا گائے ہے لیکن ذبح کرتے وقت جانور پر اللّٰہ پاک کا نام ہی لیا جاتا ہے لھذا اس جانور کا گوشت کھانا ،جائز ہے جیسے قربانی کے دنوں میں کہا جاتا ہے کہ یہ قربانی کا بکر اہے، میرے داد جان کا بکرا ہے اور قربانی کرتے ہوئے، اللّٰہ پاک کا نام لے کر ذبح کر دیا جاتا ہے۔
محرّمُ الحرام میں پانی یا شربت کی سبیل لگانا(یعنی لوگوں کو پانی پلانا) جبکہ نیّت اچھی ہو اور کوئی شرعی خرابی(مثلاً چلنے والوں کا راستہ روکنا یا گانے لگانا یا زبردستی چندہ لینا یا لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے اتنی آواز سے کوئی کلام لگانا) نہ ہو تو یہ بہت اچھا کام ہے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جب تیرے گناہ زیادہ ہوجائیں تو پانی پر پانی پلا ، تو تیرے گناہ اس طرح جھڑ جائیں گے جیسے سخت آندھی(strong wind) میں پیڑ کے پتّے (leaves of the tree)جَھڑ (fall off ہو) جاتے ہیں۔(تاریخ بغداد، ۶/۴۰۰، رقم:۳۴۶۴)
گیارہویں شریف کی نیازدلانا ،جائز ہے۔یہ سب حضور غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
رجبُ المرجّب میں کونڈوں کی نیاز دلوانے کا رواج ہے ، یہ جائز ہے۔ یہ پندرہ(15)رجبُ المرجّب میں حضرت امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ایصالِ ثواب کے لیے نیا ز کی جاتی ہے جس میں چاول ، کھیر یا پوریاں وغیرہ پکا کرکونڈے(مٹّی کے برتن میں) بھرتے ہیں، پھرقرآنِ پاک وغیرہ پڑھ کر اس تلاوت کا اور کھانا کھلانے کا ثواب بزرگوں کو پیش کیا جاتا ہے، اِسے کونڈے کا ختم یا نیاز کہتے ہیں۔ یہ بھی ایصالِ ثواب کی ایک صورت ہے اور جب ایصالِ ثواب کرنا ،جائز ہے تو یہ بھی جائز ہے۔ مگر یہ باتیں منع ہیں:
()کونڈوں کی نیاز میں جو کہانیاں عام طور پر سنائی جاتی ہے(جیسے دس بیبیوں کی کہانی، فاطمہ بی بی کی کہانی) وہ غلط ہیں، لہٰذا اُس کو سننے سنانے کی اجازت نہیں()بعض جگہ یہ کہتے ہیں کہ یہیں کھاؤ کہیں اور نہ لے جاؤ ، یہ بات بھی غلط ہے۔ ان باتوں سے دور رہیں () بعض یہ کہتے ہیں کہ مٹّی کے برتن وغیرہ میں کونڈے کی نیاز ضروری ہے، یہ بات بھی غلط ہے ۔(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنّت ص۱۰۰ تا۹۷ ماخوذاً)
() اسی طرح آج کل مختلف دنوں(different days) میں دیگ گھمانے کا بھی سلسلہ ہے یہ بھی غلط انداز ہے۔
160 ’’زبان اور کانوں کی حفاظت‘‘
حضرت احمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا بیان ہے کہ ایک دن حضرت امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بازار (market)سے اپنے گھر کی طرف جارہے تھے، ہم بھی ان کے ساتھ جانے لگے۔ اتنے میں راستے میں موجود ایک شخص کسی عالم کی برائی کرنے لگا، امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہماری طرف مڑے(turn to us) اور فرمایا: اپنے کانوں کو غیبت (یعنی برائی )سننے سے بچاؤ جیسے اپنی زبانوں کو بچاتے ہوکیونکہ سننے والا کہنے والے کا شریک(partner) ہوتا ہے۔مزید فرمایا کہ اگر بےوقوف کی بات کو قبول(accept) نہ کیا جائے تو یقیناً قبول نہ کرنے والا خوش نصیب (lucky) ہوتا ہے اور وہ بری بات کرنے والا بدنصیب(unlucky) ہوتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء،۹/۱۳۰ رقم: ۱۳۳۶۴)
اس سچے واقعے سےپہلی بات یہ سیکھنے کوملی کہ عالم ِدین کو برا نہیں کہنا چاہیے اور اگر کوئی کسی عالم کی یا کسی بھی مسلمان کی برائی کر رہا ہو تو اسے روکنا چاہیے روک نہ سکیں تو اپنے کانوں کو وہ برائی سننے سے بچانا چاہیے، یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء کے پاس حاضر ہونا چاہیے کہ علماء برائیوں سے بچاتے اور اللہ و رسول (عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کے حکم پر عمل کرواتے ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام” محمد‘‘ اور والد کا نام” ادریس‘‘ تھا ، آپ کے دادا کے کا نام” شافع ‘‘ تھا جن کی وجہ سے آپ کو ” شافعی ‘‘کہا جاتا ہے،آپ” قریش‘‘ خاندان سے ہیں۔بچپن(childhood) ہی سے علم حاصل کرنے میں مصروف(busy) ہو گئے تھے، بہت زیادہ صدقہ وخیرات کرنے والے تھے، 50 ہزار درھم (یعنی چاندی کے سکّے)بھی ایک ہی دن میں صدقہ کر دیا کرتے تھے، آپ کی پیدائش(birth) 150 سنِ ہجری میں اور آپ کا انتقال 204 سنِ ہجری کو رجب(کے مہینے) کی آخری تاریخوں میں ہوا۔ (حلیۃ الاولیاء، ۹/۷۷، رقم:۱۳۱۷۰) دنیا بھر میں لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان، آپ کے بیان کیے ہوئے شرعی مسائل پر عمل کرتے اور اپنے آپ کو” شافعی ‘‘کہتے ہیں۔
علم اورعلما ءکی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :اس حال میں صبح کرو کہ تُم (۱)عالِم ہو یا (۲) علم سیکھنے والےہویا(۳) عالم کی باتیں سننے والے یا (۴)عالم سے محبت کرنے والےہو اور پانچو اں(5th) نہ ہونا کہ ہلاک ہوجائے گا ۔
161 ’’اسلام کے لیے‘‘
علماءِدین اور بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ ،اسلام کے لیےحق اور سچی بات پر ہی رہتے اور کسی سےنہ ڈرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کوآپ کے زمانے کےخلیفہ(حاکم۔caliph)نے قرآنِ پاک کے بارے میں ایک غلط فتوی دینے(یعنی غلط دینی مسئلہ بتانے) کو کہا: امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے منع کر دیا۔ خلیفہ اس بات پر بہت غصّہ ہوا اور اس نےآپ کو بہت سی دھمکیاں (threats)دی بلکہ آپ کو جان سے مارنے کا حکم دے دیا لیکن آپ نےغلط فتوی نہیں دیا۔ امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو قید(imprisoned) کرلیا گیا پھر آپ کی کمر پر کوڑے(whip) مارےگئےجس سے آپ کی کمر خون سےبھر گئی ۔ آپ کو جب کوڑا مارا جاتا توفرماتے، میں نےخلیفہ کو مُعاف کیا۔پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بےہوش ہوگئے۔امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو اٹھائیس (28) مہینے( یعنی دو (2)سال سے بھی زیادہ وقت)قید میں رکھا گیا اور آپ کو ہر رات کوڑےمارےگئے۔( معدنِ اَخلاق حصہ ۳ ص ۳۷ تا ۳۹، دار الکتب حنفیہ باب المدینہ کراچی،الطبقات الکبریٰ ج۱ص۷۹، مُلَخَّصاً (
اس حکایت سے معلوم ہوا کہ علماء کرام نے اسلام کی اصل تعلیم کو بچانے کے لیے بہت تکالیف اور پریشانیاں اٹھائیں، ان کی قربانیوں کی وجہ سے آج ہم تک اسلام کی صحیح معلومات پہنچی ہیں۔ اگر وہ لوگ ظلم کرنے والوں سے ڈر جاتے اوران کی غلط باتیں مانتے تو آج اسلام باقی نہ رہتا۔ اللہ پاک ہمیں علماء کرام کی محبّت عطاء فرمائے ۔
تَعَارُف (Introduction):
امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 164سنِ ہجری میں پیدا ہوئے ۔حضرت ادریس حدَّاد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں نے امام احمد بن حنبل کوہمیشہ نماز پڑھتے، تلاوتِ قرآن کرتے یا کوئی کتاب پڑھتےہوئےدیکھا ہے۔ امام احمد حدیثِ پاک کو سب سے زیادہ جانتے تھے۔آپ نے دس لاکھ(one million) احادیث لکھیں۔انتقال کے وقت آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عمر مبارک ستتر( 77) سال تھی۔آپ کے نمازِ جنازہ میں تقریباً آٹھ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔(حکایتیں اورنصیحتیں،ملخصا) دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان، آپ کے بیان کیے ہوئے شرعی مسائل پر عمل کرتے اور اپنے آپ کو ” حنبلی ‘‘کہتے ہیں۔
امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی وفات کے230 سال کے بعد آپ کی قبر کے قریب جب کسی کیلئے قبر کھودی گئی تو غلطی سے آپ کی قبر کھل گئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ230 سال گزر جانے کے باوجودآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا جسم اورکفن بالکل صحیح تھا۔ (مرقاۃ المفاتیح ،ترجمۃ الامام احمد بن حنبل،ج۱،ص۶۷، دارالفکر بیروت)
علم اورعلما ءکی شان:
ایک مرتبہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ علَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:عالم کى مجلس مىں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز، ہزار بىماروں کى عىادت(بیمار کی خیریت پوچھنے) اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسى نے عرض کىا : یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ علَیْہِ وَسَلَّم اور قرآن کی تلاوت سے (بھی افضل(superior) ہے) ؟ فرماىا : آىا (یعنی کیا) قرآن بغیرعلم کے فائدہ دے گا؟(قوت القلوب، ۱/ ۲۵۷)
162 ’’ رحمت ہی رحمت‘‘
اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتا ہے،ترجمہ (Translation) :اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو۔(پ ۳، سورۃ آل عمران، آیت ۱۰۳) (ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں:حکم یہ ہے کہ جس طریقے پر مسلمان چلتے آرہے ہیں ، جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جاری ہے اور سنّت سے جس کا پتا چلے، اس سے نہ ہٹو۔ (صراط الجنان،ج۲،ص۲۰، مُلخصاً)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ ٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میری امت گمراہی (یعنی غلط عقیدوں۔beliefs)پر کبھی جمع نہ ہو گی،جب تم اختلاف ( different باتیں )دیکھو تو بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو(یعنی اُن کے ساتھ ہو جاؤ کہ جو زیادہ ہیں)۔(ابن ماجہ، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
قرآنِ پاک کی آیت میں جوتفرقہ(پھوٹ ڈالنے) سے منع کیا گیا، اس سے مراد اسلامی عقیدوں (Islamic beliefs) میں مسلمانوں سے الگ ہونا ہے۔جب کہ شرعی مسائل میں علماء کرام کا مختلف(different) مسئلے بیان کرنا، یہ اِس اُمّت(nation) کے لیے رحمت ہے(تفسیر صاوی، جلد۱،ص۳۰۱، سورۃ ال عمران، آیت۱۰۵ ماخوذاً)
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :میری اُمّت(کے علما) کا اختلاف رحمت ہے۔(جامع صغیر للسیوطی، ص۲۴، حدیث:۲۸۸ ) علماء کچھ اس طرح فرماتے ہیں: اس حدیث سے اصول اور عقیدوں(beliefs) کا اختلاف مراد نہیں (کہ وہ تو تفرقہ اور پھوٹ ڈالنا ہے اور) اس اختلاف سے (قرآنِ پاک میں) منع کیا گیا ہے بلکہ اس اختلاف سے مراد شرعی مسائل میں علماء کی رائے(یعنی بتائے ہوئے مسئلے) کاالگ ہونا ہے۔ اسے رحمت اس لیے کہا گیا کہ اس سے لوگوں کے لیے آسانی ہے کہ وہ ایک عالم کے بتائے ہوئے مسائل پر چلتے رہیں لہٰذا مذاہب (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) کا اختلاف بہت بڑی نعمت ہے ۔(فیض القدیر،۱/۲۷۱،۲۷۰،تحت الحدیث:۲۸۸ماخوذاً)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: چاروں مذاہب(کہ جنہوں نے شرعی مسائل ایک دوسرے سے الگ الگ بیان کیے) حق ہیں اور ایک اہلسنت ہی سے سب کا تعلق ہے اور اُن میں پاکی اورنماز کے مسائل میں اختلاف (شرعی مسائل کا different ہونا )، اُمّت کے لیےرحمت ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد۷،ص۲۲۶ ماخوذاً)
یہ بھی یاد رہے کہصحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے آپس میں جو ایسےواقعات ہوئے کہ جن میں اُن کی رائے
(opinion) آپس میں مختلف(different) ہوئی، ان میں باتیں کرنا، صحیح غلط کہنا حرام، حرام اور سخت حرام ہے۔ مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے وفادار(loyal) سچے غلام اور ہمارے سردار ہیں۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۱،ص۲۵۴،مسئلہ ۵مُلخصاً) صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اس اُمّت(nation) کے لیے چمکتے ستارے (shining stars)ہیں (مشکوۃ المصابیح ، کتاب المناقب ، ۲/ ۴۱۶، حدیث : ۶۰۱۸) اہلِ بیت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اس اُمّت کے لیے کشتی (boat) ہیں(مسند البزار، مسند عبد اللّٰہ بن عباس، ۱۱/ ۳۲۹،حدیث: ۵۱۴۲)اور علماء کرام، انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے علم کے وارث (یعنی نبی کے علم سے حصّہ لینے والے)ہیں۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب السنۃ ،ج۱،ص۱۴۵، رقم الحدیث:۲۲۳ )
امام کے ساتھ:
اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ (پارہ ۱۵ ،سورۃ بنی اسرائیل، آیت ۷۱) (ترجمہ کنز العرفان) علماء فرماتے ہیں: اس کا ایک معنیٰ یہ ہے کہ شریعت کے مسائل میں کسی عالم صاحب کی تقلید(یعنی پیروی) کر کے انہیں اپنا امام بنانا چاہیے تاکہ قیامت میں اچھوں کے ساتھ ہوں۔(تفسیر نور العرفان ص۷۹۷ مُلخصاً)
اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن ہر انسان کو اس کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا۔ یوں کہا جائے گاکہ: اے حنفیو! اے شافعیو!اے مالکیو! اے حنبلیو! چلو تو جس نے امام ہی نہ پکڑا اس کو کس کے ساتھ بلایا جائے گا؟
(جاء الحق،ح۱،ص ۲۷ مطبوعہ لاہور مُلخصاً)
” امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ‘‘کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کرنے والوں کو” حنفی ‘‘،” امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ‘‘ کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کرنے والوں کو ” شافعی ‘‘ ،” امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ‘‘ کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کرنے والوں کو ” مالکی ‘‘ اور ” امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ‘‘کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کرنے والوں کو ” حنبلی ‘‘ کہتے ہیں۔
چار بھائی:
ایک مرتبہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ علَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:عالم کى مجلس مىں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز، ہزار بىماروں کى عىادت(بیمار کی خیریت پوچھنے) اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسى نے عرض کىا : یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ علَیْہِ وَسَلَّم اور قرآن کی تلاوت سے (بھی افضل(superior) ہے) ؟ فرماىا : آىا (یعنی کیا) قرآن بغیرعلم کے فائدہ دے گا؟(قوت القلوب، ۱/ ۲۵۷)
ان کی آپس میں محبّت:
امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا فرمان مشہور ہے : جو علمِ فقہ(یعنی دینی مسائل کے علم) میں کمال(یعنی ماہر (expert)ہونا) چاہتا ہے وہ ابوحنیفہ کا محتاج ہے(یعنی ان کی کتابیں پڑھے بغیر وہ ماہر (expert)نہیں ہو سکتا)۔(رد المحتار ، مقدمہ ،ج۱،ص۱۵۱)
امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جب مجھے کوئی ضرورت پڑتی ہے (کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو)میں دو (2)رکعت نماز نَفْل پڑھتاہوں اور امام ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی قبر(یعنی مزار) کے پاس آکر اس (مسئلے)کے حل کیلئے اللہ پاک سے دعا کرتا ہوں تو میرا کام ہو جاتا ہے۔ (ردالمحتار،ج ۱،ص۱۳۵)
163 ’’ آنکھوں کی روشنی دوبارہ آگئی‘‘
بچپن میں حضرت امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بینائی(یعنی آنکھوں کی روشنی) چلی گئی، آپ کی والدہ کو بہت افسوس ہواتوانھوں نے رو رو کر دعائیں کیں۔ ایک رات جب امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی والدہ سوئیں توانہوں نے خواب میں حضرت ابراہیمعَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا ،آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بیٹے کی آنکھوں کی روشنی واپس آنے کی خوشخبری (good news) سنائی ۔ جب امّی جان صبح اٹھیں تو امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بینائی(یعنی آنکھوں کی روشنی) واپس آگئی تھی۔ (فتح الباری، ج،ص۴۵۲)
اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson))ملا کہپریشانی میں”سب“کےسامنے مت روئیے،”ربّ“ سے دعا کیجئے ، اُس کے سامنے روئیے، اللہ پاک کی رحمت پر اُمید(hope) رکھیئے ، وہ چاہے گا تو آپ کی مشکل ختم ہوجائے گی، اللہ پاک سے دعا کر نے کی عادت بنالیجئے ۔
تَعَارُف (Introduction):
امام بخاریرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جمعہ کے دن 13شَوّالُ المُکَرَّم،194سنِ ہجری میں پیدا ہوئے۔آپ کا نام ”محمد“ہے۔(المنتظم،۱۲/۱۱۳)امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی تمام زندگی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی حدیثیں پڑھنے پڑھانے اور جمع کرنے میں گزری۔ آپ نے کئی کتابیں لکھیں جن میں سے”بخاری شریف “ سب سے زیادہ مشہورہوئی اور قرآنِ پاک کے بعداس کتاب کو مسلمانوں میں اہمیّت(importance) حاصل ہے۔(طبقات الشافعیہ الکبریٰ، ۲/۲۳۴،مرقاۃ المفاتیح، ۱/۵۴) شَوّال کی پہلی تاریخ،256سنِ ہجری کو 62سال کی عمر میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال ہوا۔ سَمَرْقند(ازبکستان) کے قریب” خرتنگ(khartank)“میں آپ کا مزار ہے۔(سیر اعلام النبلاء، ۱۰/۳۱۹،۳۲۰)
علم اورعلما ءکی شان:
اللہ پاک اور اُس کے فرشتے اور سب زمىن والے اور سب آسمان والے ىہاں تک کہ چىونٹى اپنے سوراخ مىں اور ىہاں تک کہ مچھلى ىہ سب درود بھىجتے(یعنی دعا کرتے) ہىں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائى سکھاتا ہے۔(ترمذی، کتاب العلم، ۴/ ۳۱۳، حدیث : ۲۶۹۴)
164 ’’علم کا شوق‘‘
بزرگانِ دین علمِ دین سے بہت محبّت فرماتے تھے جب وہ دین کا علم حاصل کرتےتو انہیں کسی چیز کا خیال نہیں رہتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی نے امام مسلم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا ،تو آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ گھر آکر وہ حدیث کتابوں میں دیکھنے لگے۔آپ کےقریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا(basket) بھی رکھا ہوا تھا۔آپ وہ حدیث ڈھونڈتے رہےاور ایک ایک کھجور اٹھا کر کھاتے رہے ۔ آپ اس طرح حدیث دیکھتے رہے کہ آپ کو کسی چیز کا کوئی خیال ہی نہ رہا،جب آپ کووہ حدیث ملی جسےآپ ڈھونڈ رہے تھے تو کھجور کا پورا ٹوکرا (basket)خالی ہوگیا تھا۔ اتنی زیادہ کھجوریں کھا لینے کی وجہ سےآپ بیمار ہوگئے اور اِسی بیماری میں آپ کا انتقال ہوگیا ۔ (تھذیب التھذیب ،ج۸،ص۱۵۰مطبوعہ دارالفکر بیروت)
اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے بزرگانِ علمِ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ دین سے بہت محبّت کرتے تھے اورعلمِ دین حاصل کرنے کے لیے بہت کوششیں بھی کرتے تھے ،یہ بھی معلوم ہواکہ کسی مسلمان کی دینی مدد کے لیے ہمارے بزرگانِ دین بہت کوششیں کرتے تھے ۔
تَعَارُف (Introduction):
امام مسلم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 202 سنِ ہجری میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے علم ِ دین حاصل کرنے لیے کئی ملکوں کاسفر کیا ۔آپ کوحدیث کے علم سے بہت محبّت تھی ۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں ، اُن میں حدیث کی مشہور کتاب ’’صحیح مسلم شریف ‘‘ بھی ہے ۔ حدیث شریف کی کتابوں میں’’ بخاری شریف ‘‘ کے بعد ، مسلمانوں میں ’’مسلم شریف ‘‘ کو بہت زیادہ اہمیّت(importance) حاصل ہے۔261 سن ہجر ی میں تقریبا 59 سال کی عمر آپ کا انتقال ہوا۔ (بستان المحدثین،اکمال وغیرہ،منتخب احادیث ،ص۲۳۳)
علم اورعلما ءکی شان:
حضرت ابراہىم عَلَیْہِ السَّلَام سے اللہ پاک نے فرمایا : اے ابراہىم(عَلَیْہِ السَّلَام)! مىں عَلِىم(علم والا) ہوں، ہر(دین کا)علم(رکھنے والے) کو دوست رکھتا ہوں۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، ص۷۰، حدیث : ۲۱۳)
165 ’’ حنفیّوں کے لیے‘‘
امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی شان:
’’ امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ‘‘ کا نام’’ نُعمان‘‘ کُنْیَت (kunyah) ’’ ابو حنیفہ ‘‘ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 70ھ میں عراق کے مشہور شہر’’ کُوفے ‘‘میں پیدا ہوئے او ر 80 سال کی عمر میں 2شَعبانُ الْمُعظَّم 150ھمیں وفات پائی۔(نُزھَۃُ الْقارِی ج ۱ ص ۱۶۹ ، ۲۱۹) امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ چاروں اماموں میں بُلند مرتبے(rank) والےہیں ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان چاروں میں صِرف آپ تابِعی ہیں ۔(اشکوں کی برسات،ص۲،۳ ، مُلخصاً) ’’تابِعی‘‘ اُن بزرگ کو کہتے ہیں :جنہوں نے ایمان (believe)کی حالت (condition) میں کسی صَحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملاقات کی ہو اور ایمان پرہی اُن کا خاتمہ ہوا ہو۔(اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان ص ۳۳ مُلخصاً)
{2} امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جب علم دین حاصل کر لیا توسب سے اکیلے(alone)رہ کر عبادت وغیرہ میں مصروف(busy) ہونے کی نیَّت فرمائی ۔رات کو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو خواب میں دیکھا کہ فرمارہے تھے: اے ابو حنیفہ! اللہ پاک نے آپ کو میری سنَّت زندہ کرنے کیلئے پیدا فرمایا ہے، آپ گوشہ نشینی(سب سے الگ ہو کر عبادتوں میں مصروف رہنے) کا ہرگز ارادہ (intention) نہ کریں ۔
(تذکرۃُ الاولیاء ص۱۸۶)
{3}حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی فضیلت پہلے ہی سے،بہت پیارے انداز میں بتا دی تھی۔ (جاء الحق، ح۲،ص۵۳۸، مطبوعہ لاہور مُلخصاً) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس (یعنی بہت دور ) ہوتا تو فارس کی اولاد میں سے بعض لوگ وہاں سے لے آتے۔ (بخاری،۳/۳۵۲،حدیث:۴۸۹۷)
علامہ ابن حجر مکی شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حضرت امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے فضائل میں ایک کتاب لکھی،اُس میں یہ حدیث بھی ہے کہ: سن ڈیڑھ سو میں دنیا کی زینت اٹھالی جائے گی۔‘‘(الخیرات الحسان،المقدمۃ الثالثۃ،ص۲۵)سن ڈیڑھ سو سنِ ہجری میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی وفات ہوئی ۔(الخیرات الحسان،المقدمۃ الثالثۃ،ص۲۵)
{4}آخری وقتوں میں امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ آئیں گے اور وہ بہت بڑے عالم ہونگے یعنی ان چاروں(یعنی(1) امامِ اعظم (2) امام شافعی(3)امام مالک(4)امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کی طرح مُجتَہِد ہونگے۔ مُجتَہِد ایسے عالم ہوتے ہیں کہ جوعلماء قرآن و حدیث کو سمجھ کر اُس میں سے دین کے مسائل نکال کر بتاتے ہیں۔ علماء کرام ان مسائل کو سمجھ کر عام لوگوں کو سمجھاتے ہیں پھر عام لوگ دین کے مسائل پر عمل کرتے ہیں۔ امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مُجتَہِد ہونے کے باوجود نماز امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے طریقے پر پڑھیں گے۔ کیونکہ وہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بتانے سے جس دین کے مسئلے تک پہنچیں گے، وہ مسئلہ وہی ہوگا کہ جو پہلے امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پہلےبتا چکے ہیں۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص۲۵۸ ماخوذاً)
حنفیوں کے لیے:
{1} ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے لوگوں سے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے پیارے آ قا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرح نماز نہ پڑھوں پس آپ نے نمازپڑھی ۔اس میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ پوری نماز میں کہیں بھی ہاتھ نہ اٹھائے۔ (ترمذی،۱/۲۹۲،۲۹۳،حدیث:۲۵۷ مُلخصاً)
{2}حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب نماز شروع فرماتے تھے تو اپنے ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر نماز ختم کرنے تک ہاتھ نہ اٹھاتے تھے ۔(ابوداود،۱/۲۹۲،حدیث:۷۴۹)
{3} بخاری اور مسلم شریف میں ہے:حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ مبارک کانوں تک اُٹھاتے۔ اور کچھ نے یہ کہا کہ: کانوں کی لَو(earwax) تک اُٹھاتے ۔‘‘(مسلم،ص۱۶۵،حدیث:۸۶۵،۸۶۶)
{4}مسلم شریف میں ہے کہ رسولِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے صحابی حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے پوچھا گیا کہ کیا امام کے ساتھ قراءت (یعنی قرآنِ پا ک کی تلاوت) کی جائے گی تو فرمایا:نہیں۔(مسلم،ص۲۳۰،حدیث:۱۲۹۸)
{5}حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ آپ نے (ناف کے نیچے)سیدھاہاتھ، دوسرے ہاتھ پر رکھا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،۱/۴۲۷،حدیث:۶، مُلخصاً)
{6}حضرت وائل ابن حجر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ: میں نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو سنا کہ آپ نے پڑھاغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَتو فرمایا: آمین اور آواز مبارک آہستہ رکھی۔(ترمذی،۱/۲۸۵،حدیث:۲۴۸)
{7} ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں: جو کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورۃ الفاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہ ہوگی۔ہاں! اگر امام کے پیچھے ہے (اور سورت فاتحہ نہ پڑھی)تو نماز ہو جائے گی۔ (ترمذی،۱/۳۳۸،حدیث:۳۱۳)
{8} پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا (بنایا)گیا ہے تا کہ اس کی پیروی کی جائے (followکیا جائے)،جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔(نسائی،ص۱۶۱،حدیث:۹۱۹)
{9}ابن ابی شیبہ اور طبرانی کہتے ہیں:بیشک نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رمضان شریف میں بیس(20) رکعتیں پڑھتے تھے(یہ ۲۰ رکعتیں) وتر کے علاوہ (ہوتی تھیں)۔(مصنف ابن ابی شیبہ،۲/۲۸۶،حدیث:۱۳)
{10} حضرت عبد اﷲبن زید انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مؤذن اذان اور تکبیر کے کلمات دو(2) دو(2)بار کہتے تھے۔ ( ترمذی،۱/۲۳۸،حدیث:۱۹۴)
{11} حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے حدیث بیان کی، جس میں یہ بھی ہے کہ :نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جس کسی کو قے(vomit) یا نکسیر ٹوٹے(یعنی ناک سے خون نکلے)تو نماز سے الگ ہوجائےاور وضو کرے۔(ابن ماجہ،۲/۶۹،حدیث:۱۲۲۱مُلتقطاً)
{12} حضرت رافع بن خدیج رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: نماز فجر خوب اُ جالا کرکے(یعنی جب روشنی ہو جائے مگر سورج نہ نکلا ہو تو) پڑھوکہ اس کا ثواب زیادہ ہے۔(ترمذی،۱/۲۰۴،حدیث:۱۵۴) یاد رہے!فجر میں اتنی دیر کرنا مکروہ ہے کہ سورج نکلنے کا شک ہونے لگے(بہارِ شریعت ح۳،ص۴۵۱، مسئلہ۵، مُلخصاً)
{13}حضرت نافع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں: میں نے حضرت عبدُ اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکو فجر کی نماز کے لیے جگایاحالانکہ فجر کی تکبیر ہو رہی تھی تو آپ نے پہلے فجر کی سنتیں پڑھیں۔(شرح معانی الآثار،۱/۴۸۶،حدیث:۲۱۶۲)
166 ’’چار پرچے‘‘
اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پیر ومرشد، سلسلہ قادریہ کے بزرگ ،حضرت سیّد شاہ آل رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد چار(4) مریدین آپ کے آستانے پر(یعنی جہاں آپ ہوا کرتے تھے وہاں) حاضر ہوئے،سجادہ نشین(یعنی آپ کے بعد وہاں پر جو پیر صاحب بنے، حضرت) میر صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے عرض کی کہ پیر صاحب سیّد شاہ آل رسول رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا کچھ تبرک (holy relic) ہمیں دیں ،حضرت نے فرمایا: جو کچھ تھا وہ تقسیم(distribute) کر دیا اب تو کچھ بھی نہیں بچا یہ صندوقچہ (چھوٹا سا بکس)ہے اس میں دیکھ لیں کچھ ملتا ہے تو آپ کی قسمت۔اُن میں سے ایک مرید نے کھول کر تلاش کیا تو اس میں سے چار (4) پرچے نکلے، جب میر صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دکھائے تو انہوں نے قسم کھا کر فرمایا: میں نے بار بار اسے کھولا مگر اسے خالی پایا یہ آپ حضرات کو مرشد کا خاص تحفہ(special gift) ہے، مبارک ہو۔اس مرید نے اپنے تینوں دوستوں کو ایک ایک پرچہ دے دیا، جب ہر ایک نے کھولا تو اس پرچے کے اندر ہر ایک کے لیے مختصر (short)دعائیں لکھی ہوئی تھیں۔ (تذکرہ نوری، ص۱۱۰ ملخصاً)
اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ بزرگوں کی کوئی چیز خصوصا(specially) کوئی ذاتی تحریر مل جائے تو برکت کے لیے اپنے پاس رکھ لینی چاہیے اور یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ اللہ والے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنے مُریدوں کا خیال رکھتے ہیں جبھی تو ہر شخص کے ہاتھ میں جو پرچہ آیا اس پر اس کے لیے دعا لکھی ہوئی تھی، لہذا ہمیں بھی اللہ والوں کا بہت ادب(respect) کرنا چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت سیّد شاہ آل رسولرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑےعالم، ولی کامل، اعلی حضرت کے پیر ومُرشد،سیّد صاحب اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ تھے، آپ کی ولادت(birth) رجب کے مہینے میں 1209 سنِ ہجری ہندمیں ہوئی، آپ کے والدحضرت شاہ آل برکات رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں، آپ نے ابتدائی تعلم(early education) اپنے والد صاحب سے حاصل کی، آپ کے چچا حضرت آل احمد اچھے میاں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے آپ کو خلافت (یعنی مرید بنانے کی)اجازت بھی دی ۔ انتقال کےوقت ، آپ نے وصیت (will)کی تھی کہ ”اللہاور اس کے رسول کی اطاعت کرو“ ۔18 ذوالحجہ 1296 سنِ ہجری کو آپ کا انتقال ہوا۔ (تذکرہ نوری، ص۱۰۵ ملتقطاً)
سلسلہ قادریہ کی شان:
شیخ ابو سعود عبداللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ : ہمارے شیخ سیّدعبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے مریدوں کے لیے قیامت تک اس بات کے ضامن(guarantor) ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی توبہ کئے بغیر نہیں مرے گا۔ (بہجۃ الاسرار، ص۱۹۱)
167 ’’میں مرید کیوں بنا؟‘‘
باب المدینہ( کراچی) کے مقیم ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میری لیاقت نیشنل ہسپتال( کراچی) میں ڈیوٹی ہے ۔ایک بارکوئی عالم صاحب تشریف لائے اورمیں نے ان کو بتایا کہ میں’’ قادری عطاری‘‘ ہوں تو انہوں نے پوچھاکہ کیا آپ ’’الیاس قادری صاحب‘‘ کے مرید ہیں۔ میں نے عرض کی:جی ہاں اور مزید بتایا کہ میں مرید اس طرح ہوا کہ ایک دن امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کسی مریض کی عیادت (ملاقات وغیرہ)کیلئے ہسپتال تشریف لائے۔ مجھے شخصیات(یعنی مشہور لوگوں) سے آٹو گراف (autograph)لینے کا بہت شوق تھا جس کے لئے میں نے ہسپتال کاایک رجسٹر ،اسی کام کے لیے رکھا ہوا تھا۔ میں نے واپسی کے وقت وہ رجسٹر کھول کر امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے سامنے کر دیا کہ آٹو گراف دے دیں۔ آپ نے رجسٹر بند کرنے کے بعد اپنی جیب سے پیڈ نکالا اور اس پر جوکچھ تَحریر فرمایااسکا مفہوم یہ ہے کہ یہ رجسٹرہسپتال کے کاموں کیلئے ہے، آپ کو آٹوگراف لینے کے لئے نہیں دیا گیا۔ ساتھ میں کچھ دعائیں تَحریر فرما کر پرچی بھی مجھے دےدی ۔مجھے بہت اچھا لگا اور میں فوراً آپ کے ذریعے’’ قادری‘‘ سلسلے میں مرید ہو کر’’عطاری ‘‘بن گیا۔(حقوق العباد کی احتیاطیں، ص۱۸مُخلصاً)
اس حکایت سے پتا چلا کہ ادارہ سرکاری(governmentکا) ہو یا نِجی(private)، اُس کی چیزیں جن کاموں کے لیے ہوں، انہیں کاموں میں استعمال کرنی چاہیے
تَعَارُف (Introduction):
1981 ء میں دعوتِ اسلامی کے نام سے ایک تحریک بنی ، آج اس کا پیغام دنیا کے تقریباً تمام ممالک تک پہنچ چکا ہے اور کئی شعبہ جات کے ساتھ مُختلف(different) ممالک میں دین کی خدمت کا سلسلہ جاری ہے۔ یقیناً اس مختصر سے وقت (short time)میں ترقیوں میں ایک شخصیت کی کوششیں پہلے دن سے جاری رہیں، جنہیں آج دنیا شیخِ طریقت ،امیرِ اہلسنت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار ؔقادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے نام سے پہچانتی ہے۔آپ نے نہ صرف خود سُنتوں پر عمل کیا بلکہ علاقہ علاقہ،شہر شہر جا جاکر درس وبیان اور انفرادی کوشش کے ذریعے سُنّتوں کو عام کیا۔ اَلْحَمْدُللّٰہ! آپ کی کتابوں وغیرہ کی تعداد سو(100)سے زیادہ ہے ،ان میں سے مختلف(different) کتابوں کا 36 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔آپ کی جانب سے مدنی مذاکروں کا سلسلہ ہوتا ہے جس میں آپ علم وحکمت سے بھرپور جوابات دیتے ہیں ، ان سلسلوں کی تعداد مجموعی طور پر(overall) ہزاروں تک پہنچ چکی ہے، جس میں سے کچھ کے تحریری رسائل(written booklets) بھی آچکے ہیں ۔امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سلسلۂ عالیہ قادریہ میں مرید بھی کرواتے ہیں ۔امیرِ اہلسنّت نے اپنا آئیڈیل اعلیٰ حضرت،مجددِدین وملت امام احمدرضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بنایا ہے، اور اپنی زندگی کا سب سے پہلا رسالہ بھی ’’ تذکرۂ احمدرضا ‘‘ لکھا۔
سلسلہ قادریہ کی شان:
سرکارِ بغداد غوثِ پاک شیخ عبدُ القادررَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اللہ پاک نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مریدوں اورمیرے دوستوں کو جنّت میں داخِل کرے گا ۔ میں نے (قبر میں سوال کرنے والے دونوں فرشتوں)مُنکَر نکِیرسے اس بات کا وعدہ لیا ہے کہ وہ قَبر میں میرے مریدوں کو نہیں ڈرائیں گے ۔ (بہجۃُ الاسرار ص۱۹۳،ُملَخَّصا)
168 ’’ پیرصاحب کےحقوق‘‘
مُرشِدکے کچھ حقوق:
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : (صحیح )مرشد (کہ جس میں وہ باتیں ہوں کہ جو ایک مرشد میں ہونی چاہیے)کے حقوق مرید پر بہت زیادہ ہیں ، اُن میں یہ بھی ہیں کہ ( مرید) {۱} اِن (یعنی مرشد) کے ہاتھ میں اس طرح ہو جیسےزندہ کے ہاتھوں میں مردہ ہوتا ہے(مثلاً زندہ لوگوں نے مرنے والے کو جہاں رکھ دیا، وہ وہاں سے نہیں ہلتا) {۲} مرشد کی خوشی کو اللہ پاک کو راضی کرنے والا کام سمجھے اور جس کام سے یہ ناراض ہوں،اُس سے بچے کہ اِن کی ناخوشی کو اللہ پاک کی ناخوشی سمجھے{۳}انہیں اپنے حق میں دنیا میں اس وقت موجود تمام اولیاء کرام سے بہتر سمجھے(کہ میرے لیے میرے پیر صاحب ہی بہتر ہیں){۴}اگر کوئی نعمت بظاہرکسی دوسرے بزرگ سے ملے تو بھی اسے (اپنے) پیر صاحب ہی کی طرف سے سمجھے{۵}مال،اولاد، جان، سب انہیں پیش کرنے کے لیے ہر وقت تیّار رہے {۶}ان کی جو بات اپنی نظر میں شریعت کے خِلاف لگے اس پر بھی نہ اعتراض(objection) کرے، نہ دل میں بدگمانی کو جگہ دے بلکہ یقین جانے کہ مجھ کم علم کی سمجھ کی غلطی ہے {۷}دوسرے کو اگر آسمان پر اُڑتا دیکھے جب بھی (اپنے) مرشد کے سوا دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کو سخت آگ جانے، ایک باپ سےدوسرا باپ نہیں بنایا جاتا{۸}ان کے پاس بات نہ کرے{۹}ہنسنا تو بڑی چیز ہے ان کے سامنے آنکھ، کان، دل کے ساتھ مکمّل طور پر توجّہ(attention) رکھے{۱۰}جو وہ پوچھیں نہایت ہی نرم آواز سے ادب کے ساتھ بتا کر فوراً خاموش ہوجائے(یاد رہے! یہ حقوق صحیح پیر صاحب کے ہیں اور پیر صاحب اگر غیر محرم ہیں (جیسا کہ عام طور پر غیر محرم ہی ہوتے ہیں) تو عورتیں اُن سے پردہ کریں گی){۱۱}ان کے کپڑوں ، ان کے بیٹھنے کی جگہ، اِن کی اولاد، ان کے مکان، ان کے مَحَلّے، اِن کے شہر کی بھی تعظیم(respect) کرے {۱۲}جو وہ حکم دیں ’’ کیوں !‘‘ نہ کہے بلکہ اُسے پورا کرنے میں دیر نہ کرے،سب کاموں سے پہلے یہ کام کر لے ( ہاں! شریعت نے جو کام فوراً کرنے کا حکم دیا ہے، تو وہ کام کر لے مثلاً نماز کا وقت ہو گیا ہے تو نماز پہلے پڑھ لے) {۱۳}اِن کی غیر موجودَگی میں بھی اِن کے بیٹھنے کی جگہ نہ بیٹھے{۱۴}اِن کی موت کے بعد بھی ان کی زَوجہ سے نِکاح نہ کرے(کہ انہیں پیرانی اماں کہتے ہیں){۱۵}پیر صاحب اگر زِندہ ہوں تو روزانہ کئی بار اِن کی سلامتی اور عافیت کی دُعا کرتا رہے اور اگراِنتِقال ہوگیا تو روزانہ اِن کو ایصالِ ثواب کرتا رہے{۱۶}ان کے دوست کا دوست رہے۔ جب یہ ایسا کرے گا تو موت کے وقت ، قبر میں ،قیامت میں ، حساب کتاب کے وقت، پُل صِراط سے جاتے ہوئے ، حوض ِ کوثر( )پر ہر جگہ اِس کے فائدہ دیکھے گا۔ اِس کے مرشِد اگر بہت بڑے درجے پر نہ بھی ہوں تو اُن کے مُرشد بڑے درجے والے ہیں یا مُرشدکے مُرشد یہاں تک کہ صاحِبِ سلسلہ(قادِریہ) حُضُور غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پھر یہ(قادِری)سلسلہ مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ تک پہنچ کر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے ملتا ہے اور ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ہم سب کو اللہ پاک سے ملانے والے ہیں ۔ ہاں یہ بات ضَروری ہے کہ مرشد میں مرید بنانے کی چاروں شرائطِ پائی جاتی ہوں( )۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ص ۳۶۹ مُلخصاً)
پیر صاحب پر اعتراض(objection) :
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے
(1) قیامت، حساب کتاب، پل صراط، حوضِ کوثر کی تفصیل دین کی ضروری باتیں part:4میں دیکھیں۔ قبر کی تفصیلtopic number:174,177میں دیکھیں۔ (2) topic number:105میں پیر کی شرائط کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
ہیں :پِیروں پر اعتِراض (objection)سے بچے کہ یہ مُریدوں کے لیے زہرِ قَاتِل (بہت زیادہ نقصان والی بات)ہے۔ اما م ابوالقاسِم قُشَیری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جو اپنے پِیر صاحب سے کسی بات میں ’’کیوں !‘‘ کہے گا کبھی کامیاب successful)) نہ ہو گا۔ (رسا لہ قُشیریہ ص۲۷۶،فتاوٰی رضویہ ج۲۱ص۵۱۰ تا ۵۱۱ مُلخصاً)
169 ’’غریب کا مذاق مت اُڑاؤ‘‘
کچھ لوگ قبیلہ(tribe)بنو ہاشم کے نوجوان سیّد صاحب ،سلسلہ قادریہ کے بزرگ، حضرت امام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس بیٹھے تھے، وہاں قریب سے جعفر بن عمر گزرے جو کہ غریبی کی حالت (poverty)میں تھے۔اُن لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف مذاق والے انداز میں دیکھا تو امام علی رضارَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: تم لوگ جلد ہی ان کو اچھی حالت (condition) میں، بہت مالدار اور کافی ملازموں کے ساتھ دیکھو گے۔وہ لوگ کہتے ہیں کہ ابھی ایک مہینا بھی نہیں گزرا تھا کہ ان کو مدینہ پاک کا حاکم(ruler) بنا دیا گیا، ان کی حالت اچھی ہو گئی، پھر وہ ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم ان کے احترام (respect)میں کھڑے ہو جاتے اور ان کے لئے دعائیں کرتے،ان کےآگے پیچھے بہت سے خادم(servent) ہوتے تھے۔(نور الابصار، ص:۱۷۶)
اس حکایت سے یہ درسlesson) )ملتا ہےکہ کسی کی غریبی والی حالت (condition) دیکھ کر اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے نہ اسے چھوٹا سمجھنا چاہیے کیا معلوم اللہ پاک اُس کو بہت بڑا مقام دے دے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے ولیوں کو اللہ پاک کے بتانے سے آنے والے حالات وغیرہ کی خبر ہوتی ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام علی،کُنْیَت(kunyah)ابوالحسن اور لقب (title)رضا ہے، امام علی رضا کے نام سے مشہور ہیں،حضرت امام موسی کاظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بیٹے ،آلِ رسول(یعنی سیّد) اور سلسلہ قادریہ کے بزرگ ہیں ، 148 سنِ ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 203 سنِ ہجری میں 55 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔(نور الابصار، ص:۱۶۸۔۱۷۷ ملتقطا) سیّدعلی رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکم سوتے، زیادہ عبادت کرتے، بہت روزے رکھتے اور ہر مہینے میں تین(3) روزے تو کبھی بھی نہ چھوڑتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے: ہر مہینے تین(3) روزے رکھنا زندگی بھرروزےرکھنے کی طرح ہے۔ آپ نیک کاموں کا حکم دیتے بہت زیادہ صدقہ وخیرات کرتےاور زیادہ تر رات میں صدقہ کیا کرتے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بہت سی کرامات( )، لوگ بیان کرتے ہیں۔(نور الابصار، ص:۱۷۰مُلخصاً)
آلِ رسول کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اہل بیت کی محبت لازم پکڑو کہ جو اللہ سے ہماری دوستی کے ساتھ ملے گا وہ ہماری شفاعت سے جنّت میں جائے گا، قسم اس کی جس کے ہاتھ(یعنی قدرت میں،اختیار میں،قابو میں) میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل فائدہ نہ دے گا جب تک ہمارا حق نہ پہچانے۔
(معجم اوسط، ج۱، ص۶۰۶ ، حدیث: ۲۲۳۰مُلتقطاً)
170 ’’ سپاہی بھاگ نہ سکے‘‘
حضرت شیخ عبد الرزاق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے باہر نکلا، راستے میں دیکھا کہ خلیفہ(caliph) کے سپاہی(soldiers)جانوروں پر شراب رکھ کر لے جا رہے ہیں،والد صاحب شیخ عبد القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے سپاہیوں کو آواز دی کہ رُک جاؤ مگر وہ ڈر کے مارے نہ رُکے اور چلتے رہے۔ والد صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جانوروں سے فرمایا: خدا کے حکم سے رک جاؤ۔ جانور فورًا رک گئے،سپاہیوں نے بہت کوشش کی مگر جانور آگے نہیں چلے، سپاہیوں کو فورًا آنت کا درد (appendix) ہو گیا، جس کی وجہ سے وہ تڑپنے لگے اور عرض کرنے لگے کہ معاف فرما دیجئے آئندہ (next time)ایسا نہیں کریں گے۔اب والد صاحب نے دعا کی تو ان کا مرض ٹھیک ہو گیا اور جانوروں پر جو شراب تھی وہ سرکے(vinegar) میں بدل گئی۔ جب یہ خبر خلیفہ(caliph) کو پہنچی تو اس نے ہمیشہ کے لیے شراب سے توبہ کر لی۔(تاریخ مشائخ قادریہ، ص:۱۸۲)
اس حکایت سے ہمیں پہلی بات جو سیکھنے کو ملی وہ یہ کہ جب اللہ والے کسی کام کا فرمائیں تو وہ کر لینا چاہیے ورنہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ اللہ کے ولی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا حکم جانور بھی مانتے ہیں۔ اللہ پاک کے ولی کی دعا میں برکت ہو تی ہے، جیسا کہ سپاہیوں(soldiers) کا درد غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی دعا سے ختم ہو گیا ، آپ کی نظر سے شراب سرکے (vinegar)میں بدل گئی اور اس کرامت کی برکت سے بادشاہ نے شراب پینے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔یاد رہے کہ شراب پینا حرام، بہت بڑا گناہ اور آدمی کی دنیا اور آخرت خراب کرنے والا کام ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
ابھی آپ نے جو کرامت پڑھی یہ سلسلہ قادریہ کے بزرگ،سیّد صاحب ، حضرت سیّد عبد الرزاقرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے والد حضور غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ہے۔شیخ عبدالرزاق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے والد سے تعلیم وتربیت حاصل کی، حافظِ قرآن اور حافظ ِحدیث تھے، عراق کے مفتی بھی تھے۔ عاجزی اور عبادت میں بہت مشہور تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ولادت 528 سنِ ہجری اور انتقال 623 سنِ ہجری میں ہوا۔ آپ کا مزار شریف بغداد میں ہے۔(تاریخ الحفاظ للذہبی، ۴/۲۰۴ ملتقطا)
آلِ رسول کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو شخص چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں وہ اپنی کوئی خدمت(service) پیش کرے جس کی وجہ سے قیامت کے دن میں اس کی شفاعت (یعنی اللہ پاک سے سفارش )کروں تو اسے میرے اہل بیت (یعنی گھر والوں اور اولاد وغیرہ)کی خدمت اور انہیں خوش کرنا چاہیے۔
(برکات آل رسول (مترجم)ص:۲۴۵)
171 ’’ سیّدوں کا ادب کریں‘‘
بہت اہم باتیں:
(1) امیرُ الْمُؤمِنِین حضرت علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں:جو میرے اہلِ بَیت میں سے کسی کے ساتھ اچّھاسُلوک کریگا، میں قِیامت کے دن اِس کا بدلہ اُسے دونگا۔ (اَ لْجامِعُ الصَّغِیر ص ۵۳۳، حدیث ۸۸۲۱،فتاوٰی رضویہ جلد ۱۰، ص ۱۰۵ )
(2) سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جس شخص نے میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عِترَتِ پاک (یعنی اولاد)کے بارے میں تکلیف دی ، اُس پر جنَّت حرام کر دی گئی ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد للنبہانی ص ۲۵۹)
(3) ایک حدیثِ پاک میں یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص بیتُ اللہ شریف کے ایک کونے اور مقامِ ابراھیم کے درمیان جائے اور نَماز پڑھے اور روزے رکھے اور پھر وہ اہلِ بیت کی دشمنی پر مر جائے تو وہ جہنَّم میں جائے گا۔
(4) امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِخدا رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا فرمان ہے:ہم(اہلِ بیت) سے بُغض (یعنی نفرت)مت رکھنا کہ اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی ، مکّی مدَنی ، مُحَمَّدِ عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جو شخص ہم سے بُغض یا حسد کریگا، اسے قِیامت کے دن حوضِ کوثر سے آگ کے چابکوں(whips) سے دُور کیا جائے گا۔ (الشرف المؤبد لآل محمد للنبہانی ص ۲۵۹)
(5) سیّدوں کا نسب حُضُور سیِّد عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر ختم ہوتا ہے ، (یعنی ان کے جدِّ اعلیٰ (ناناجان)تو مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہیں!)، اِس عظیم نسبت (کہ سیّد پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اولاد ہیں)کی تعظیم (respect)عام سے مسلمان تو کیا،ہر مُتَّقِی اور پرہیز گار (یعنی نیک آدمی)پر بھی فرض ہےکیوں کہ اصل میں وہ سیِّد صاحب کی تعظیم (respect)نہیں بلکہ خودحضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم (respect)ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۲، ص ۴۲۳،مُلخصاً)
(6) سیِّد کی بطورِ سیِّد( یعنی وہ سیِّد ہیں اِس لئے) توہین(insult) کرنا کُفر ہے۔ (ماخوذ از مَجْمَعُ الْاَنْہُر ج ۲، ص ۵۰۹) جو کسی مِیر(یعنی سیِّد)کو حَقارت (contempt)سے مِیروا کہے کافر ہے۔)فتاوٰی رضویہ جلد ۲۲، ص ۴۲۰ مُلخصاً (
(7) سیِّدسنّی المذہب کی تعظیم لازِم ہےاگر چِہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں ، اُن اعمال کے سبب اُس سے نفر ت نہ کی جائے، صرف برے عمل سے نفرت ہو۔(فتاوٰی رضویہ ج ۲۲، ص ۴۲۳)البتہ اگر کسی نے واضح طور پر کُفر بک دیا تو اب وہ سیِّد نہ رہا۔ حضرت نُوح عَلَیْہِ السَّلَام کا نافرمان(disobedient) بیٹا کنِعان جو کہ مُنافِق تھا یعنی اپنے آپ کو مسلمان کہتا مگروہ ایمان (believe)نہیں لایا تھا لہٰذا وہ بھی طوفان میں ڈوب کر مرگیا ۔ اللہ پاک نے فرمایا،ترجمہ (Translation) :اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں ہرگز نہیں۔ (پ ۱۲، سورۃ الھود، آیت ۴۶) (ترجمہ کنز العرفان)
(8) اعلیٰ حضرت ،اِمامِ اَہلسنّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ سے سُوال ہوا:سیِّد لڑکا جب شاگرد ہو یا ملازِم(یعنی نوکر) ہو تو کیا دینی یا دُنیوی کام لینا اور اس کو مارنا ،جائز ہے؟ تو جواب میں کچھ یوں فرمایا:ذلیل خدمت(مثلاًبھنگی،جمعدار کے کام) اس سے لینا جائز نہیں، نہ ایسی خدمت پر اُسے ملازِم (employee)رکھنا جائز۔اور جس خدمت (service) میں ذلّت نہیں(یعنی جو کام گھٹیا نہیں) اس پر ملازِم رکھ سکتا ہے، شاگرد ہو تو عُرف اور(عام) عادت کے مطابق کام لیناشرعاً جائز ہے،لے سکتا ہے اور سیِّد شاگرد کومارنے سے بالکل پرہیزکرے(یعنی بالکل نہ مارے) ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۲،ص ۵۶۸مُلخصاً)
(9) قاضی کے سامنے اگر کسی سیِّد صاحب کو حدّ(یعنی شرعی سزا )دینا ظاہر ہو جائے تو اُس پرفرض ہے کہ وہ یہ سزا دے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قاضی کے لیے یہ حکم بھی ہے کہ سزا دینے کی نیّت نہ کرے بلکہ دل میں یہ نیّت رکھے کہ شہزادے کے پَیر میں کیچڑ(mud) لگ گئی ہے اُسے صاف کر رہا ہوں۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ح۳،ص۳۹۶ )
(10) سنّی عالم، سیّد سے افضل (superior) ہے۔ اللہ پاک فرماتاہے، ترجمہ (Translation) : تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟ ( پ۲۳ ، سورۃ الزمر،آیت۹) (ترجمہ کنز العرفان)۔اور فرماتاہے، ترجمہ (Translation) :اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہےجنہیں علم دیا گیا ( پ۲۸، سورۃ المجادلۃ 11،ایت ۱۱) (ترجمہ کنز العرفان) ۔ ان آیات کے بعد اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:تو اللہ پاک کے نزدیک رشتے داری سے علم کا رُتبہ(rank) بڑا ہے۔سیِّدصاحِب جب کہ عالم نہ ہوں اگر چِہ نیک آدمی ہوں مگر عالِم سُنّی صحیح العقیدہ (جس کے اسلامی عقیدے (beliefs)صحیح ہوں)کے مرتبہ کو شرعاً نہیں پہنچتے۔ علماء فرماتے ہیں:نوجوان عالم کو بوڑھے غیرِ عالم سےآگے جانےکا حق حاصِل ہے چاہے وہ غیر عالم قَرشی بلکہ سیِّد صاحب ہوں کہ اللہ پاک نے فرمایا: اللہ پاک عالموں کے درجے بلند فرمائے گا ۔یاد رہے! بُلندی عطا فرمانے والا اللہ پاک ہے لہٰذا جو اس کو گھٹائے(یعنی کم کرے) گا ،اللہ پاک اس کو جہنَّم میں ڈالے گا۔ (تَنْوِیرُ الْاَبْصَار، دُرِّمُختار ج۱۰، ص ۵۲۲،فتاوٰی رضویہ ج ۲۹،ص۲۷۴، مُلخصاً)
‘‘ 172 کئی سو سال بعد بھی دونوں صحابیوں رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکے جسم صحیح تھے ’’
حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکی وفات کا وقت جب قریب آیا تو رونے لگے۔کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا:اس لئے نہیں رو رہا کہ دنیا چھوٹ رہی ہے کیونکہ موت تومجھے پیاری ہے( بلکہ رونے کی وجہ یہ ہے کہ )میں نہیں جانتا کہ مجھے آگے کیا پیش ہو گا؟یعنی اللہ پاک مجھ سے راضی ہوگا یا ناراض؟( ابن عسا کر ج۱۲ص۲۹۶) انتقال کے کئی سو سال بعد غالباً 20ذوالحجۃالحرام 1351ہجری کو کسی وجہ سے ،مفتی اعظم عراق کے فتویٰ کے بعد حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے مبارک جسموں کو دوسری جگہ دفن (buried) کرنے کے لیے نکالا گیا تو دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں عاشقانِ صحابہ و اہل بیت نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اللہ پاک کے پیارے رسول کےدونوں پیارے پیارے صحابیوں کے برکت والے جسم اور مُبارک کفن صحیح اور سلامت ہیں ،یہاں تک کہ داڑھی شریف کے پیارے پیارےبال بھی بالکل صحیح تھے۔مُبارک جسموں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ شاید ان کی وفات کو دو تین گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوا۔ (قبر کھل گئی ص ۱۴تا ۱۵ ماخوذاً) اس سچے واقعے سے سمجھ میں آیا کہ نیک بندوں کو بھی اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اور ساتھ ساتھ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا مقام بھی پتا چلا کہ انتقال کو ہزار سال سے زیادہ ہوگئے مگر جسم بالکل صحیح و سلامت رہا۔
حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کاتَعَارُف
تَعَارُف (Introduction):
آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی کنیت(kunyah) ابوعبداللّٰہ جبکہ لقب ”صاحبُ سرِّ رسولِ اللہ“ہے یعنی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےبتائے ہوئے کچھ راز(secret) جاننے والے۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہمنافقین اور ان کی علامات (symptoms)کو جانتے تھے جیسا کہ ایک مرتبہ غیب کی خبریں بتانے والے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو اپنے قریب بلایا اور ایک ایک منافق کا نام بتایا۔ (معجم کبیر،ج۳،ص۱۶۴، حدیث:۳۰۱۰)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو مدائن شہر کا گورن(governor)ر بنا دیا۔اتنے سادہ تھے کہ جب آپ مدائن میں آئے تو لوگ پہچان نہ سکے کہ آپ گورنر ہیں۔(تاریخ ابن عساکر،ج ۱۲،ص۲۸۶،ماخوذاً) کچھ وقت کے بعد جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو آپ کی واپسی کا پتا چلا تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ مدینے آنے والے راستے پر آگئےتاکہ دیکھیں کہ آپ کی پہلے والی حالت (condition) اور اب کی صورتِ حال میں کیا فرق ہے؟ جب آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو پہلی حالت پر دیکھا (یعنی آپ خالی ہاتھ ہی تھے )تو (خوش ہوکر )آپ کو گلے سے لگالیا اور فرمایا: تم میرے بھائی اور میں تمہارا بھائی ہوں۔(الزہد لاحمد،ص۲۰۰)
173 ’’حضرت ابو جابرعبداللہ شہید رَضِیَ اللہُ عَنْہ‘‘
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ( یعنی میرے والد) غزوہ اُحُد کے دن شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder) ہوگئے تو اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا : اے جابر ! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ پاک نے تمہارے والد سے کیا فرمایا ہے ؟میں نے عرض کی:ضروربتائیے۔ فرمایا: اے عبد اللہ ! مجھ سے مانگ میں تجھے عطافرماؤں گا۔ تو تمہارے والد نے عرض کیا: یا ربّ !مجھے دوبارہ زندگی عطا فرما تاکہ میں تیری راہ میں دوسری مرتبہ شہید ہوجاؤں۔ تو اللہ پاک نے فرمایا کہ میرا یہ فیصلہ ہے، ترجمہ (Translation) :(تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ)تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟ ( پ ۲۰،سورۃ القصص، آیت:۳۹) (ترجمہ کنز العرفان) پھر تمہارے والد نے عرض کیا :مجھ سے پیچھے رہ جانے والوں تک یہ بات پہنچادے۔ تو اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی، ترجمہ (Translation) : اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔(پ ۴ ، آل عمران: ۱۶۹) (ترجمہ کنز العرفان) (ابن ماجہ ،کتاب الجہاد، رقم ۲۸۰۰، ج۳ ،ص ۳۶۱)
اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو اللہ پاک سے بہت محبّت تھی جبھی تو حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اللہ پاک کی راہ میں دوبارہ شہید ہونے کی خواہش(desire) کی۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ، مدینہ منورہ کے رہنے والے انصاری اورمشہور صحابی حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے والد ہیں ۔ (اسد الغابۃ، عبداللہ بن عمرو بن حرام، ج۳، ص۳۵۳) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے جسم مبارک کو کسی وجہ سے دو مرتبہ قبر مبارک سے نکالنا پڑا ۔ پہلی مرتبہ چھ(6) مہینےکے بعد نکالا گیا، تو وہ اسی حالت (condition) میں تھے جس حالت میں دفن (buried)کیا گیا تھا۔(صحیح البخاری ،کتاب الجنائز،حدیث ۱۳۵۱،ج۱،ص ۴۵۴ )حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوسری مرتبہ چھیالیس(46) سال کے بعد اپنے والد ماجد ( یعنی حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ) کی قبر کو کسی وجہ سےکھود کر ان کے برکت والے جسم کو نکالا ، تو میں نے ان کو اسی حالت (condition)میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ ہٹایا گیا، تو زخم سے خون نکلنے لگا۔ پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا۔ اور ان کا کفن جو( کپڑوں کی کمی کی وجہ سے صرف) ایک چادر کا تھا ،وہ بالکل صحیح تھا۔(حجۃ اللہ علی العالمین ،ص۶۱۵،مطبوعہ برکاتِ رضاہند)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف “ میں موجود ہے کہ حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے رات میں اپنے بیٹے حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بلا کر فرمایا: میرے پیارے بیٹے!کل صبح جنگ اُحُد میں سب سے پہلے میں ہی شہید ہونگا اوربیٹا سن لو! اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد تم سے زیادہ مجھے کوئی پیارا نہیں ہے لہٰذا تم میرا قرض(loan) ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ واقعی صبح کو میدان جنگ میں سب سے پہلے میرے والد صاحب ہی شہید ہوئے ۔(بخاری، ج۱،ص۱۸۰،اسدالغابہ، ج۳،ص۲۳۲) معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی عطا اور رسولِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے صدقے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کل کی باتیں بھی بتا دیتے ہیں۔
174 ’’ایک دن موت آئے گی ‘‘
ہر شخص کی جتنی زندگی طے (fixed) ہے اُس سے نہ زیادہ ہوسکتی ہے اور نہ ہی کم جب انسان کی زندگی کا وقت ختم ہوجاتا ہے تو اللہ پاک کے فرشتے رُوح نکالنے کےلئے آتے ہیں جس شخص کی رُوح نکالی جانی ہوتی ہے اُسےآس پاس(یعنی قریب) فرشتے ہی دکھائی دیتے ہیں مسلمان کے آس پاس رَحمت کے فرشتے ہوتے ہیں جبکہ غیر مسلم کے آس پاس عذاب کے فرشتے ہوتے ہیں موت کے وقت ہر شخص کو یہ بات پتاچل جاتی ہےدینِ اِسلام ہی حق اور سچا دین ہےلیکن اُس وقت اگر کوئی اِسلام قبول کرے تو اس کا مسلمان ہونا قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اُسے اپنی زندگی میں اِسلام لانے کا حکم دیا گیا تھا اور اب وہ وقت ختم ہوگیا دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور دنیا ہے، جسے ’’بَرْزَخ‘‘ (یعنی پردہ)کہاجاتا ہے، مرنے کے بعد انسان اور جنّات قیامت تک بَرْزَخ میں رہتے ہیں بَرْزَخ میں کوئی آرام میں ہوتا ہے اور کوئی تکلیف میں ہوتا ہے مرنےکے بعد بھی رُوح کا بَدَن کے ساتھ تعلق(relation) باقی رہتا ہے جس طرح دنیا میں جسم کو پہنچنے والے آرام یا تکلیف کا اِحساس (feel)ہماری رُوح کو ہوتا تھا اُسی طرح مرنے کے بعد جسم کو پہنچنے والے آرام یا عذاب کا احساس بھی رُوح کو ہوتا ہے(اگرچہ روح جسم میں موجود نہ ہو) مرنے کے بعد مسلمان کی روح مختلف (different) جگہوں پر رہتی ہے۔ مثلاً: () قبر میں () مکّہ پاک میں خانہ کعبہ کے قریب، زَم زَم شریف کے کنویں(well) میں () آسمان و زمین کے درمیان ()پہلے سے لے کر ساتویں آسمان تک () آسمانوں سے بھی اوپر ()عرشِ الٰہی( ) کے نیچے فانوسوں (lanterns)میں ()جنّت کے بہت ہی اونچے مکانات میں اِسی طرح غیر مسلموں کی رُوح بھی مختلف(different) جگہوں پر رہتی ہے۔ مثلاً: ()قبر میں () مُلکِیَمَن کے ایک نالے (drain)میں ()پہلی سے لے کر ساتویں زمین تک ()ساتوں زمینوں سے نیچے جہنّم کی ایک وادی(valley) میں جو کوئی بھی قبر پر آئے مرنے والا اُسے دیکھتا، پہچانتا اور اُس کی بات بھی سنتا ہے(جبھی تو ہم قبرستان جا کر انتقال کرنے والے مسلمانوں کو سلام کرتے ہیں) ’’تَناسُخ‘‘ اور ’’آواگون‘‘ یعنی یہ عقیدہ(belief) رکھنا کہ:مرنے کے بعد روح نکل کر کسی اور انسان یاجانور میں چلی جاتی ہے، (یہ عقیدہ رکھنا) کفر ہے مرنےوالا شخص بات بھی کرتا ہے، لیکن اُس کی بات انسان اور جنّات کے علاوہ سارے حیوان سنتے ہیں قبر مرنے والے کو دباتی بھی ہے۔ اگر مرنے والا مسلمان ہے تو ایسے دباتی ہے جیسے ماں پیار سے اپنے بچے کو گلے لگاتی ہے اور اگر مرنے والا غیر مسلم ہو تو قبراتنے زور سے دباتی ہے کہ پسلیاں(ribs) ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں۔(بہار شریعت،۱/۹۸ تا۱۱۵ ماخوذاً) انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو قبر نہیں دباتی۔ (شرح الصدور، ص ۱۱۰)نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جس نے مَرَضُ الموت(یعنی ایسی بیماری کہ جس میں یہ خوف ہو کہ اس مریض کا انتقال ہو جائے گا اور پھر اسی بیماری میں اُس کا انتقال بھی ہو جائے۔فتاویٰ رضویہ، ۲۵/۴۵۷ ماخوذاً) میں سورۃُ الْاِخْلاص کی تلاوت کی وہ فتنۂ قبر میں مبتلا نہیں ہوگا (یعنی قبر کی آزمائشوں سے بچے گا) اور قبر کے دبانے سے بھی حفاظت میں رہے گا۔(حلیۃ الاولیاء، ۲/۲۴۳،حدیث : ۲۰۹۱)
175 ’’درود و سلام کی برکتوں والی کتاب: دلائل الخیرات ‘‘
ایک مرتبہ حضرت شیخ محمد بن سلیمان جَزُولی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہوُضُو کرنے کے لئے ایک کنویں(well) پر گئے مگر اُس میں سے پانی نکالنے کے لئے کوئی چیزپاس نہ تھی۔شَیخ پریشان تھے کہ کیاکریں ؟ اتنے میں ایک اُونچے مکان سے بچی نے دیکھا تو کہنے لگی : یاشیخ! آپ وہی ہیں نا،جن کی نیکیاں بہت مشہور ہیں، اِس کے باوُجُود آپ پریشان ہیں کہ کنویں سے پانی کس طرح نکالوں ! پھراس بچی نے کنویں میں کچھ ڈالا۔ تھوڑی ہی دیر میں کنویں کا پانی بڑھنا شروع ہوگیا یہاں تک کہ کنویں سے نکل کر زمین پر گرنے لگا ۔شیخ نے وُضُو کیا اور اُس بچی سے کہنے لگے :میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم مجھے بتاؤ کہ تم نے یہ کیسےکیا؟اس بچی نے جواب دیا:میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھتی ہوں۔یہ سُن کرحضرتِ شیخ سلیمان جزولیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے قَسَم کھائی کہ میں دُرُود و سلام کے فضائل پر کتاب ضرور لکھوں گا۔ (مطالع المسرات مترجم،ص۳۳،۳۴ مُلخصاً)پھر آپ نے ’’ دَلَائِلُ الْخَیْرَات ‘‘نام کی کتاب لکھی ، جوکہ دنیا بھر کے عاشقانِ رسول میں مشہور ہے۔
اس حکایت سے معلوم ہوا کہ درود شریف کی بہت برکتیں ہیں اور وہ لوگ جو درود وسلام سے دور ہیں ، وہ دنیا و آخرت کے بہت بڑے فائدوں سے دور ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
ایک مرتبہ حضرت شیخ محمد بن سلیمان جَزُولی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہوُضُو کرنے کے لئے ایک کنویں(well) پر گئے مگر اُس میں سے پانی نکالنے کے لئے کوئی چیزپاس نہ تھی۔شَیخ پریشان تھے کہ کیاکریں ؟ اتنے میں ایک اُونچے مکان سے بچی نے دیکھا تو کہنے لگی : یاشیخ! آپ وہی ہیں نا،جن کی نیکیاں بہت مشہور ہیں، اِس کے باوُجُود آپ پریشان ہیں کہ کنویں سے پانی کس طرح نکالوں ! پھراس بچی نے کنویں میں کچھ ڈالا۔ تھوڑی ہی دیر میں کنویں کا پانی بڑھنا شروع ہوگیا یہاں تک کہ کنویں سے نکل کر زمین پر گرنے لگا ۔شیخ نے وُضُو کیا اور اُس بچی سے کہنے لگے :میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم مجھے بتاؤ کہ تم نے یہ کیسےکیا؟اس بچی نے جواب دیا:میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھتی ہوں۔یہ سُن کرحضرتِ شیخ سلیمان جزولیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے قَسَم کھائی کہ میں دُرُود و سلام کے فضائل پر کتاب ضرور لکھوں گا۔ (مطالع المسرات مترجم،ص۳۳،۳۴ مُلخصاً)پھر آپ نے ’’ دَلَائِلُ الْخَیْرَات ‘‘نام کی کتاب لکھی ، جوکہ دنیا بھر کے عاشقانِ رسول میں مشہور ہے۔
اس حکایت سے معلوم ہوا کہ درود شریف کی بہت برکتیں ہیں اور وہ لوگ جو درود وسلام سے دور ہیں ، وہ دنیا و آخرت کے بہت بڑے فائدوں سے دور ہیں۔
176 ’’پیشانی(forehead) چمک رہی تھی ‘‘
25رجب المرجب 1430ھ بمطابق 2009-07-18 ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات بابُ المدینہ کراچی میں کئی گھنٹے تک بارش کا سلسلہ ہوا جس کی وجہ سے تقریباً 3سال 7مہینے 10دن پہلے انتقال کرنے والے مفتی ٔدعوت اسلامی الحاج الحافظ محمد فاروق عطاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی قبر کھل گئی۔ جو اسلامی بھائی صحرائے مدینہ میں موجود تھےانہوں نے قسم کھا کر کچھ یوں بتایا کہ ہم نے دیکھا کہ مفتیٔ دعوتِ اسلامی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی مبارک لاش اور کفن اِس طرح صحیح تھے کہ جیسےابھی ابھی انتقال ہوا ہو۔چہرے کی ایک طرف سے کفن ہٹا ہوا تھا، عمامہ شریف ، کان کے قریب زلفوں کا کچھ حصہ اور چمکتی ہوئی پیشانی (forehead) بھی نظر آ رہی تھی ۔
اس واقعے کے تقریباً دس (10)دن بعد شرعی رہنمائی لینے کے ساتھ مفتیان کرام ، علمائے کرام، اور ہزاروں اسلامی بھائیوں کی موجود گی میں جانشینِ امیرِ اہلسنّت ابو اُسید حاجی عبیدرضا ابن عطارؔمدنی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہقبر میں ہونے والا سوراخ دیکھنے کے لیے قبر میں اُترےتاکہ یہ اندازہ لگائیں کہ جسم کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے یا نہیں ۔ اُنہوں نے اندر کا جائزہ لیا view) کیا)اور اندر ہی سے دعوتِ اسلامی کے’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ کے مفتی صاحب کو صورتِ حال (condition)بیان کی انہوں نے بدن باہرنہ نکالنے کا حکم فرمایا، جانشینِ امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کومُووی کیمرہ دیاگیا، پرانی قبر کے اندرونی ماحول اور اوپر سے مٹی وغیرہ گرنے کے باوجود اَلْحَمْدُلِلّٰہ! اُنہوں نے عمامہ شریف، پیشانی مبارک اور زلفوں کے بعض حصّے کی مووی بنالی، جو کہ ’’صحرائے مدینہ‘‘میں لگائی گئی مختلف اسکرینوں پر ہزاروں اسلامی بھائیوں نے دیکھی(اور آج بھی www.dawateislami.netسے دیکھی جاسکتی ہے)۔
(فیضان سنت،باب غیبت کی تباہ کاریاں ،جلد۲،ص ۴۶۶ مُلخصاً)
اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ نیک لوگوں، نیک نسبتوں اور نیک ماحول کی بہت زیادہ برکتیں ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر تحریک ،دعوتِ اسلامی کی'' مرکزی مجلسِ شوریٰ ''کے رُکن،شیخ طریقت، عالم شریعت، پابندِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار ؔقادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے مرید، مُفْتِئ دعوتِ اِسلامی الحاج اَلحافِظ اَلقاری حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد فاروق عطارِی مدنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بارے میں خود ان کے پیر ومرشد یعنی امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں کہ میراحُسنِ ظن(یعنی ان کے بارے میں اچھا گمان) ہے کہ وہ دعوتِ اسلامی کے مخلِص مبلِّغ اور اللہ پاک سے ڈرنے والے بُزُرگ تھے اورگویا اِس حدیث ِ پاک میں جس طرح زندگی گزارنے کا فرمایا گیا ہے، اُن کی زندگی ایسی ہی تھی ، حدیث میں ہے : کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌیعنی دنیا میں اس طرح رہو کہ گویا تم مسافر ہو ۔ (صَحیح بُخاری ج ۴ ص ۲۲۳ حدیث ۶۴۱۶) ۱۸محرم الحرام۱۴۲۷ھ بمطابق 17-2-2006 بروز جُمعَہ نَمازِ جمعہ پڑھنے کے بعد جب اپنے گھر(گلشنِ اقبال، بابُ المدینہ کراچی ) آئے تو اچانک(suddenly) دل کی حرکت بند ہونے کی وجہ سے تقریباً 30 سال کی عمر میں جوانی میں ہی انتِقال فرماگئے تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو صحرائے مدینہ ، باب المدینہ کراچی میں دفن (buried)کیا گیا ۔ (فیضان سنت،باب غیبت کی تباہ کاریاں ،جلد۲،ص ۴۶۶ مُلخصاً)
167 ’’میں مرید کیوں بنا؟‘‘
قبر میں آسانی یا تکلیف:
جب مرنے والے کو قبر میں دفنا دیا جاتا ہے تو دو (2) فرشتے اپنے کئی گز لمبے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے(tearing the ground) قبر میں آتے ہیں() اُن کی شکلیں بہت خوفناک(fearsome) ہوتی ہیں() آنکھیں کالی اور نیلی اور دیگ(pot) جتنی بڑی ہوتی ہیں() آنکھوں میں آگ بھڑک (flared up)رہی ہوتی ہے() جسم کا رنگ بھی کالا ہوتا ہے()اور پورے جسم پر بال ہوتے ہیں()ان میں سے ایک کا نام ’’مُنْکَر‘‘ جبکہ دوسرے کا ’’نَکِیْر‘‘ ہوتا ہے یہ مرنے والے کو ڈانٹ کر اٹھاتے اور بہت سختی سے یہ تین( 3 )سوالات کرتے ہیں: (1)تیرا ربّ کون ہے؟ (2)تیرا دین کیا ہے؟ (3) (ایک صورت دکھاکر پوچھا جاتا ہے:) اِن کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟ مرنے والا نیک مسلمان ہو تو یہ جوابات دیتا ہے: (1)میرا ربّ اللہ پاک ہے (2)میرا دین اسلام ہے(3) (اور صورت دیکھ کر کہتا ہے کہ)یہ تو میرے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہیں۔ اِس کے بعد مسلمان کو اُس کے اَعمال (نیک کام وغیرہ)کے مطابق مختلف نعمتیں دی جاتی ہیں اور اُس کا قیامت تک کا وقت بہت آرام میں گزرتا ہے جبکہ اگر مرنے والا غیر مسلم ہو تو ہر سوال کے جواب میں وہ یہی کہتا ہے: ’’افسوس! مجھے تو کچھ معلوم نہیں، میں تو جو لوگوں کو کہتے سنتا تھا خود بھی وہی کہتا تھا(بہار شریعت،ج۹۸،۱ تا۱۱۵ ماخوذ ًا) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: قبر کاعذاب حق ہے۔( بخاری، ۱/۴۶۳،حدیث: ۱۳۷۲)یہ عقیدہ (belief)رکھنا واجب اور لازم ہے( یعنی دل میں یہ بات مضبوطی سے بیٹھی ہو ) کہ منکر نکیر سوالات کریں گے۔ (شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید، ص۳۶۹، ۳۷۰) منکر نکیر کے سوالات روح و بدن دونوں سے ہونگے۔ (فتاویٰ رضویہ، ۹/۸۵۱ مُلخصاً) اِن سوالات کے بعد کافر اور جن گناہ گاروں کے لیے حکم ہوگا ان پرمختلف (different) عذابات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور مرنے والا بہت زیادہ تکلیفوں میں ہوگا قبر میں نعمتوں کا ملنا یا عذاب ہونا حق اور سچ ہے ،اس کا انکار (denial) کرنا گمراہی(یعنی جہنّم میں لے جانے والا عقیدہ(belief) رکھنے والی بات ) ہے۔(بہار شریعت،۱/۱۱۳مُلخصاً) انسان جیسے بھی مَرے، چاہے جل جائے، ڈوب جائے یا کوئی جانوراُسے کھاجائے ہر حال میں اُسے قبر کے سوالات کا جواب دینا ہوتا ہے اور پھر آگے نعمتوں یا عذاب کا سلسلہ بھی ہوتا ہے() جسم اگرچہ گل(یعنی melt ہو)جائے، جل جائے، مٹی ہو جائے، مگر اُس جسم کے اصلی حصّے قیامت تک باقی رہیں گے،ا ور انہی پرعذاب وثواب ہوتا ہے ۔ یہ اصلی حصّے بہت چھوٹے ہوتے ہیں کہ microscope سے بھی نظر نہیں آتے، نہ آگ اُنھیں جلا سکتی ہے، نہ زمین اُنھیں گلا سکتی ہے اور اُنھیں پرقیامت کے دن دوبارہ مکمل جسم بن جائے گا۔ اس کو یوں سمجھیں کہ جیسے: بچہ جب پیدا ہوتا ہے توکتنا چھوٹا ہوتا ہے، پھر کتنا بڑا جوان ہو جاتاہے، پھر بیماری میں کمزور ہو جاتا ہے،پھر بیماری کے بعد طاقت ور ہو جاتا ہے، اِن سب تبدیلیوں(changes) سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص بدل گیا، اسی طرح قیامت کے دن ہوگا۔ ( بہار شریعت،۱/۱۱۲ ماخوذاً)
قبر میں بھی ان کے جسم سلامت رہتے ہیں:
انبیائے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلاَم، اولیائے کِرام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہم، عُلَمائے کِرام، حافظِ قرآن، شہید(جو اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)کر دیا گیا)، ہمیشہ اللہ پاک کی نافرمانی سے بچنے والے اور اکثر دُرود شریف پڑھنے والے شخص کے بدن کو مٹّی نہیں کھاتی ۔(بہار شریعت،ج۱ٍ،ص۱۱۴ مُلخصاً) () انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَم زندہ ہیں حدیثِ پاک میں ہے:انبیاء(عَلَیْہِمُ السَّلاَم) زندہ ہیں اپنی قبروں میں نمازیں پڑھتے ہیں۔(مسند ابی یعلی، ۳/۲۱۶، حدیث:۳۴۱۲) ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے:تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَم کے لیے (وفات ) صرف ایک پَل(a moment) کے لیے آنی ہے پھر ان کے لیے زندگی ہے۔جواس بات کا انکار (denial) کرے، وہ بدمذہب، گمراہ اور جہنّم میں جانے کا حقدار (entitled)ہے۔ ( ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص ۵۰۴ماخوذاً) () جو انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَم کے بارے میں کہے کہ ’’وہ فوت ہوکر مٹی میں مل گئے‘‘ ایسا شخص گمراہ (یعنی جہنّم میں لے جانے والا عقیدہ(belief) رکھنے والا )اور بے دین ہے( بہار شریعت،۱/۱۱۵ مُلخصاً) () روزانہ رات میں تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الْمُلْکُ (پوری سورت) پڑھنےوالا عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔ (ترمذی، ۴/۴۰۷، حدیث:۲۸۹۹، مفہوما) ()تلاوتِ قراٰن کرنے والا بھی عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔( معجم اوسط، ۶/۴۷۰، حدیث:۹۴۳۸،مفہوماً) امام عمر نَسَفِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اللہ پاک کا حکم ماننے والےمسلمان کو عذابِ قبر نہیں ہو گا لیکن اسے قبر دبائے گی ۔( بحرالکلام، ص۲۱۹مُلخصاً)
178 ’’تراویح کی جماعت‘‘
حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف “میں موجود ہے کہ : امیرُالْمُؤمِنِین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہایک مرتبہ رَمَضان المُبَارَک کے مہینے کی ایک رات مسجد میں گئے تودیکھا کہ لوگ الگ الگ انداز سے تراویح پڑھ رہے ہیں ، کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کے پیچھے پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا:میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں(یعنی یہ سب ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھ لیں حالانکہ(although) اس انداز سے ایک امام کے پیچھے تراویح جماعت سے پڑھنے کا سلسلہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں نہیں ہوا تھا، لیکن پھر بھی) ،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حضرت اُبَی بِن کَعْبرَضِیَ اللہُ عَنْہ کوسب کا امام بنا دیا، پھر جب دوسری رات تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ باجماعت (تراویح) ادا کر رہے ہیں ( توبہت خوش ہوئے اور) فرمایا:نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ یعنی’’یہ اچّھی بدعت ہے‘‘ ۔ (بُخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۱۰) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےدین میں اچھے طریقے نکالے ہیں تاکہ لوگ دین پر اچھے انداز سے عمل کر سکیں۔
179 ’’قرآنِ کریم میں نقطوں اور اعراب کا آغاز‘‘
حجاج بن یُوسُف کے ایجاد کردہ کاموں(invented works) میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے سب سے پہلے قرآنِ پاک میں علامات(symptoms) لگائیں ، اسی طرح زبر، زیر، پیش اور نقطوں وغیرہ بھی لگائے۔ قرآنِ پاک بہت خوبصورت انداز سے لکھنے کی کوشش کی لیکن اس طرح کا کام صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نے نہیں کیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یُوسُف نے تیس(30)قاریوں کو جمع کیا جنہوں نے ایک مہینے میں قرآنِ کریم کے حُروف اور اَلفاظ کو گنا( countکیا) اور اگر اُمّت (nation)کے پہلےخلیفہ حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ یا دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ یا تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ یا چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہْانہیں اس طرح قرآنِ کریم کے حُروف گنتے ہوئےدیکھ لیتے تو یقیناًان کے سروں پر دُرّے(whip) لگاتے کہ فرمایا گیا کہ آخری زمانے میں قرآنِ کریم پڑھنے والے ایسے لوگ ہوں گے جو قرآنِ کریم کے حُروف کی خوب حِفَاظَت (protection)کریں گے مگر اس میں دیے گئے حکموں پر عمل نہیں کریں گے۔ حجاج بن یُوسُف اپنے زمانے میں سب سے بڑا قرآنِ کریم کا قاری تھا اور اُسے سب سے اچھا قرآنِ کریم یاد تھا، وہ ہر تین (3)دن میں قرآنِ پاک کا ختم کیا کرتا تھامگر اس سے بڑھ کر قرآنِ کریم کی حکموں پر عمل نہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔(قوّت ُ القلوب ج۲،ص۴۸،۴۹ماخوذاً) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے زمانےکے بعد بھی دین میں جو نئے کام ہوں لیکن دین کی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں، ان پرعمل کیا جاسکتا ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں نقطے وغیرہ بعد میں لگائے گئے مگر اب شاید دنیا میں ایک مسلمان بھی ایسا نہ ہوگا کہ جو نقطوں کے بغیر قرآنِ پاک پڑھ سکے(زبانی یاد ہونا ، ایک الگ بات ہے) حالانکہ یہ نقطے کسی نیک پرہیزگار آدمی نے نہیں لگائے، ان کا لگانے والا بہت بڑا ظالم آدمی تھا۔
180’’اچھے اور بُرے طریقے‘‘
اللہ پاک فرماتا ہے: اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں ۔(ترجمہ کنز العرفان) (پ۷،سورۃ المائدہ، آیت۱۰۱)علماء فرماتے ہیں:اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس کام کو شریعت نے منع نہ کیا ہو وہ جائز ہے۔(صراط الجنان ج۳، ص۳۷مُلخصاً)
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :حلال وہ ہے جو اللہ پاک نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اورحرام وہ ہے جس کو اُس نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا(یعنی جس بارے میں کچھ ارشاد نہ فرمایا) تووہ معاف (یعنی جائز)ہے۔(ترمذی، کتاب اللباس، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲)
ہمارا دین قیامت تک کے لیے ہے، اس کے اصول ایسے ہیں کہ قیامت تک آنے والے، مختلف (different) قوم والے ، مختلف ذہنوں والے ،مختلف جگہوں (different places)پر رہنے والے، بعد میں آنے والے سب کے سب اس پر عمل کر سکیں۔ ہمیں ہمارے دین نے بتا دیا کہ یہ یہ کام کرنا ثواب ہے، یہ یہ کام گناہ والے ہیں ، اس کے علاوہ جو کام کریں وہ منع نہیں ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی عادتیں بدلیں(habits change)، زندگی کے انداز بدلے، اب انہیں دین کے قریب لانے کے لیے کوئی ایسا کام کیا کہ دین جسے منع نہیں کرتا تو اچھی نیّت کے ساتھ کر سکتے ہیں جیسے پہلے مسجدوں میں کھجور کے درخت کو پلر(columns) کی جگہ استعمال کیا جاتا تھا، اب مسجدیں مضبوط بنتی ہیں۔ اگر کوئی ایسا کام کیا کہ دین جس کی اجازت نہیں دیتا تو یہ گناہ کا کام ہے جیسے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس کی مثال دی:شبِ براء َت میں آتش بازی(fireworks) ہوتی ہے بیشک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کو ضائِع(waste) کرنا بھی پایا جاتا ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص ۲۷۹ مُلخصاً)
فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا، اس کے لئے اسے نکالنے اور بعد میں اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم نہ ہوگا۔ جس نے اسلام میں برا طریقہ نکالا، اس پر اس طریقہ کو نکالنے اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ،الحدیث: ۲۳۵۱،ص۸۳۸)
بدعت:
” بدعت“سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مبارک دور(یعنی آپ کی
ظاہری زندگی) میں نہ تھا بعد میں کسی نے اس کو شروع کیا، اب اگر یہ کام شریعت سے ٹکراتا ہے تو اس بدعت کو ”بدعتِ سَیّئہ “یعنی بُری بدعت کہتے ہیں، اسی کے بارے میں سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ: یہ مَردود ہے (صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ،الحدیث:۴۴۹۲،ص۹۸۲، مُلخصاً) ۔وہ نیا کام جو قرآن و سنّت کے خلاف نہیں ہے اسکو بدعتِ مُباحہ یعنی جائز بدعت یا حَسَنَہ یعنی اچھی بدعت کہتے ہیں ۔
یوںبدعت کی تین قسمیں بنیں:(۱)اچھی بدعت(۲) بُری بدعت (۳) جائزبدعت۔ ان کی مثالیں:
اچھی بدعت: جیسے مدرسوں کی تعمیر(construction)، درسِ نظامی (عالم کورس)، جشنِ ولادت اور میلاد کی محفلیں وغیرہ۔
بُری بدعت:جیسے بُرے عقیدے(beliefs)،شبِ برأت میں پٹاخے پھوڑنا۔
جائزبدعت: جیسے ولیمے وغیرہ کی دعوت میں عمدہ عمدہ (یعنی بہترین)کھانے بنانا۔
سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مسلمانوں میں کئی دینی نئے کام ہوئے جیسے:
() حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے تراویح کی جماعت شروع کروائی لیکن حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی زندگی میں ایسا نہیں ہوا تھا۔
() چاروں صحابہ(یعنی مسلمانوں کے پہلے، دوسرے، تیسرےاور چوتھے خلیفہ) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد، حجاج بن یو سف نے قرآنِ پا ک میں نقطے و اعراب (زبر، زیر، پیش) لگوائے اور آج دنیابھر میں نقطے والے قرآنِ پاک ہی موجود ہیں۔
()اسی طرح مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کے لئے محراب(archway) ،ولید کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےبنائی تھی۔
() چھ(6) کلمے جو ہمارے ہاں کئی بچوں کو یاد ہوتے ہیں،یہ چھ(6) کلمے توبہت بعد میں مسلمانوں میں اس طرح لکھنے، پڑھنے اور یاد ہونے لگے لیکن دین اور شریعت نے اسے منع نہیں کیاہے لہٰذا یہ کام کرنا،جائز ہے۔
(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنّت ص ۱۲۱تا ۱۱۸ ماخوذاً)
() پہلے امام صاحبان، مؤذّن صاحبان، قاری صاحبان اور درسِ نظامی پڑھانے والوں کو وظیفہ یا مشاہرہ(salary) نہیں دی جاتی تھی، نہ اس طرح درسِ نظامی (جسے عالم کورس کہتے ہیں) پڑھا یا جاتا تھا، نہ” بُخاری شریف“ پڑھانے سے پہلے ” افتتاحِ بُخاری شریف “اور ختم ہونے پر ” اختتامِ بُخاری شریف“ کے اجتماعات ہوتے تھے بلکہ خود ”بُخاری شریف“ بھی کئ سو سال کے بعد لکھی گئ ہے۔
181 ’’ قرآن جمع کیا گیا‘‘
اُمّت(nation) کے سب سے پہلے خلیفہ حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جب خلیفہ بنے تو بعض جھوٹے لوگ ایسے کھڑے ہوئے کہ اپنے آپ کو نبی کہنے لگے( حالانکہ ہمارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تو آخری نبی ہیں، خود فرمایا کہ: میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے(صحیح البخاری،کتاب المغازی،لحدیث:۴۴۱۶،ج۳،ص۱۴۴)) ،دین ِ اسلام کے ان دشمنوں کے خلاف جنگ ہوئی تو اس میں بہت سارے حافظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم شہید ہو گئے(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)کر دیےگئے) ۔ اُمّت کے دوسرے خلیفہ ، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ امیر المؤمنین ، حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ اس لڑائی میں بہت سے وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم شہید ہو گئے ہیں جنہیں قرآنِ پاک یادتھا،اگر اسی طرح جنگوں میں حافظ شہید ہوتے رہے اور قرآنِ عظیم کوایک جگہ لکھا ہوا جمع نہ کیا گیا تو مسلمان پریشان ہو جائیں گے، میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس بات کا حکم دیں کہ قرآنِ مجید کی سب سورتیں ایک جگہ لکھ لی جائیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا: جو کام حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے نہ کیا وہ ہم کیسے کریں؟حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے یہ کام نہ کیا لیکن خدا کی قسم! یہ کام بھلائی کا ہے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو ان کا مشورہ پسند آگیا اور آپ نے حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو قراٰن مجید جمع کرنے(یعنی ایک جگہ لکھنے) کا حکم دے دیا۔ (بخاری، ج۳،ص۳۹۸،حدیث:۴۹۸۶ ماخوذاً) یہاں تک کہ کچھ دنوں میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!سارا قرآنِ عظیم ایک جگہ لکھ لیا گیا۔اور بعد میں اُمّت (nation)کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اس قرآنِ پاک کی طرح مزید قرآنِ پاک (copies)تیار کرواکے مختلف علاقوں میں بھیج دییے ۔(بخاری ، ج۳، ص۳۹۹ ، حدیث: ۴۹۸۷مُلخصاً) اُمّت کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے مشورے پر امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے قرآن پاک یوں بھیجے تھے، آپ نے یہ مشورہ قبول کر کے قرآنِ پاک کے فیضان کو عام کیا اس لیے آپ کو ’’ جامعُ القرآن ‘‘ ( یعنی قرآنِ پاک کو جمع کرنے والا)کہا جاتا ہے۔(فتاوی رضویہ،۲۶ / ۴۳۹-۴۵۲، ملخصاً) حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف“ وغیرہ میں موجود اس واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمارے چاروں خلیفہ(پہلے: صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ، دوسرے: فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ، تیسرے:عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور چوتھے حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ، سب کے سب) اسلام اور مسلمانوں کی دینی حالت (condition) کے بارے میں سوچتے اور ضرورت ہوتی تو اسلام میں ایسا نیا کام لے آتے یا نیا کام لانے کا مشورہ دیتے کہ جو دین کے اصول کے خلاف نہ ہو۔
182 ’’برے طریقے‘‘
سن ۸۰ ہجری میں حجاج ایک ظالم گورنر(governor) تھا، اس کے وقت میں جنتّی صحابی حضرت اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہ عَنْہ فرمایا کرتے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے زمانے میں جو چیزیں تھیں آج میں ہر چیز کو بدلا ہوا دیکھ رہا ہوں،لیکن یہ ایک بات باقی ہےکہ گواہی دی جاتی ہے کہ اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ عَرْض کی گئی:اے ابو حمزہ! کیا نَماز بھی بدل گئی ہے؟ فرمایا:کیا انہوں نے نَماز میں ان باتوں کو شامِل نہیں کر دیا جو پہلے نہ تھیں؟ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی مُراد یہ تھی کہ اب نَماز دیر سے پڑھی جاتی ہے (قوت القلوب ج۲، ص۵۰،۵۱)۔ (یاد رہے!فجر میں اتنی دیر کرنا مکروہ ہے کہ سورج نکلنے کا شک ہونے لگے(بہارِ شریعت ح۳،ص۴۵۱، مسئلہ۵، مُلخصاً) اسی طرح! مغرب میںاتنی دیر کرنا مکروہ (یعنی ناجائز و گناہ)ہےکہ (بڑے بڑے ستاروں کے علاوہ) چھوٹے چھوٹے ستارے بھی چمک جائیں (نظر آنے لگیں) ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۵ص۱۵۳ مُلخصاً) اس حکایت سے پتا چلا کہ بُرا طریقہ یا بُری بدعت کسی بھی زمانے میں کوئی بھی نکالے وہ بُری ہی ہے۔
183 ’’ اچھی بُری بدعت ‘‘
بُری بدعت:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہر بدعت (یعنی نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنّم میں (لے جانے والی) ہے۔ (سُنَنُ النَّسائی ج۲، ص۱۸۹)
فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :بدترین (یعنی سب سے بُرے )کام نئے طریقے ہیں ہر بدعت (یعنی نئی بات)گمراہی ہے۔(صحیح مسلم ص۴۳۰حدیث۸۶۷)
بُری بدعت کو” بدعت سیئہ“ کہتے ہیں اور بری بدعت کا سب سے بڑا معنی یہ ہے کہ مسلمان کہلانے والوں نے اسلام میں بُرے عقیدوں(beliefs) کا اضافہ کیا، جن کا تعلق اسلام سے نہیں ہے۔جس” بدعت “یا ” بدعتی(یعنی دین میں نیا کام کرنے والے) “کی سخت برائیاں آئی ہیں، اُ س سے مراد ایسے لوگ اور ایسے کام ہیں۔(مراۃ ج۱، ص۱۱۴ ماخوذاً)یاد رہے!اگر کفریہ عقیدے کا اضافہ کیا تو وہ” بدعت “ نہیں بلکہ”کفر“ ہے اور ایسا کرنے والا مسلمان نہیں رہتا، جیسے: پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد کسی کو” نیا نبی “ماننا۔
اب بُری بدعت کےتین معنیٰ ہیں (1)نیا کام جو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد شروع ہوا مگر وہ کام ایسا ہو کہ اسلام اُس سے منع کرتا ہو(2)خلاف سنت کام جو سنّت کو مٹائے(3)برے عقیدے(beliefs) جو بعد میں پیدا ہوئے ۔ (جاء الحق، ح۱،ص ۱۷۷، ۱۷۸، مطبوعہ لاہور ماخوذاً)
بُری بدعت مکروہ ،حرام، گناہِ صغیرہ اور گناہِ کبیرہ ہر طرح کی ہوتی ہے ۔(فتاوی رضویہ جلد۲۱،ص۱۶۱مُلخصاً)
بُری بدعت کی مثالیں:
تمام ایسے عقیدے(beliefs) جو پہلے نہ تھے، بعد میں لوگوں نے بنا لیے۔
پیارے پیارے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے وقتوں میں بھی بُرے لوگوں نے بُرے عقیدے(beliefs) ایجاد کیے جیسے: کسی نے اپنے آپ کو نیا نبی کہا(حالانکہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:میں آخری نبی ہوں (ترمذی،ج ۴،ص۹۳، حدیث: ۲۲۲۶)) یہ عقیدہ رکھنا تو کُفر ہے، اس طرح کے لوگوں نے اسلام میں گمراہ کرنے(یعنی جہنّم میں لے جانے والا عقیدے(belief)) بھی نکالے، وہ سب عقیدے(belief)بھی بُری بدعتیں ہیں ۔ اس مُبارک زمانے میں بھی بعض لوگ ایسے ہوئےکہ جنہوں نے تقدیر کے اسلامی عقیدے(Islamic beliefs)میں اختلاف کیا اور گمراہ کرنے(یعنی جہنّم میں لے جانے) والے عقیدے(beliefs) لوگوں کو بتانا شروع کیے، تو یہ عقیدے (beliefs) ”بدعتِ سَیّئہ“ ہی ہیں۔ حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے تقدیر کاانکار(denial) کرنے کو ” بدعتی “کہا (مراۃ ج۱، ص۱۱۴ماخوذاً) اب اگر کوئی کہے کہ(معاذاللہ!یعنی اللہ کی پناہ ) اللہ پاک جھوٹ بول سکتا ہے۔ یا کوئی کہے کہ(معاذاللہ!یعنی اللہ پاک کی پناہ )حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کوغیب کا علم نہیں تھا تو یہ عقیدے (beliefs)بھی بدعت ہیں کہ پہلے نہ تھے اب لوگوں نے اپنا عقیدہ بنا لیا۔(جاء الحق، ح۱،ص ۱۷۷، ۱۷۸، مطبوعہ لاہور ماخوذاً) (یاد رہے! جو یہ کہے یا یہ عقیدہ رکھےکہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور دیگر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو اپنے بعض غیب کا علم بھی نہیں دیا(یعنی علم غیب میں سے کچھ علم بھی نہ دیا) تو ایسا کہنے والا یا ایسا عقیدہ(belief) رکھنے والا کافر ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۹،ص ۴۱۶مُلخصاً))
اگر جاہل لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جہاں(فوت ہونے والی کی) میّت کو نہلایا ہو، وہاں چالیس(40) رات تک اس لیے چراغ(lamp) جلاتے ہیں کہ مرنے والا روز یہاں آتا ہے، اگر روشنی نہیں ہوتی تو گھبرا (یعنی پریشان ہو)کر چلا جاتا ہے یا گھر سے چراغ(lamp) جلا کر ، اُس کی قبر تک لے جاتے ہیں تاکہ مرنے والا نہ گھبرائے ان دونوں کاموں کے لیے چراغ جلانا، پیسے برباد کرنا اور اسراف ہے۔یہ کام عملی بدعت اور یہ نظریہ عقیدے(beliefs) کی بھی بدعت ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۹،ص ۵۰۲ماخوذاً)
جس طرح انتقال والے گھر پر عورتیں جمع ہوتی ہیں اور ان کے کھانے وغیرہ کا اہتمام(arrangement) میّت کے گھر والوں کو کرنا پڑتا ہے۔ وہ کھانا فاتحہ وایصال ثواب نہیں ہے بلکہ وہ تو مہمان نوازی اوردعوت ہے۔ غم(مثلاً انتقال) کے موقع پر ایسی مہمان نوازی اور دعوت کی اجازت نہیں لہٰذا علماء نے اسے بُری بدعت کہاہے۔(فتاوی رضویہ،۹/۶۷۱ ماخوذاً)
ہمارے ہاں جس طرح تقریبوں(events) پرآتش بازی (fireworks) کی جاتی ہے یہ بُری بدعت ہے۔(فتاوی رضویہ،۸/۵۸۴ ماخوذاً)
نماز قضائے عمری کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں پڑھی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ساری قضا نمازیں ادا ہوگئیں یہ بُری بدعت ہے۔(فتاوی رضویہ،۸/۱۵۶ ملخصاً)
اچھی بدعت:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :تمام اعمال کا ثواب نیّتوں سے ہے اور ہر آدمی کے لئے وہی ہے جو اس نے نیّت کی۔(صحیح البخاری،کتاب بدء الوحی، الحدیث:۱، ج۱، ص۵)
جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ پاک کے یہاں بھی اچھا ہے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ۲ / ۱۶، الحدیث: ۳۶۰۰)
جونیا کام حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد ایجاد ہوا، نہ وہ خلاف سنت ہو نہ دین اُسے منع کرتا ہو، وہ جائز ہے اور اگر وہ کام کوئی نیکی ہو تو وہ اچھی بدعت ہے۔(جاء الحق، ح۱،ص ۱۷۷، ۱۷۸، مطبوعہ لاہور ماخوذاً)
اچھی بدعت کی مثالیں:
سبز گنبد:جسے ہر عا شقِ رسول بار بار دیکھنا چاہتاہے، یہ بھی اچھی بدعت ہے کیوں کہ وہ سرکا ر صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دنیا سے تشریف لے جانے کےکئی سو سال بعد بنا ہے۔
اچھی بدعت کی مثالیں:
سبز گنبد:جسے ہر عا شقِ رسول بار بار دیکھنا چاہتاہے، یہ بھی اچھی بدعت ہے کیوں کہ وہ سرکا ر صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دنیا سے تشریف لے جانے کےکئی سو سال بعد بنا ہے۔
اذان و اقامت سے پہلے بِسْمِ اللہ اور درودِ پاک پڑھنا:
()فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جو کام بِسْمِ اللہ سے شروع نہیں کیا جاتا وہ ادھورا (incomplete)رہ جاتا ہے ۔(کنزالعمال ،کتاب الاذکار ،ج۱،ص۲۷۷،رقم الحدیث: ۲۴۸۷، مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
()فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جو بھی اہم کام اللہ پاک کے ذکر اوراس کے بعد درود شریف سے شروع نہیں کیا جاتاوہ نامکمل ،ادھورا اور برکت سے خالی ہے۔(القول البدیع،ص۴۵۴)
()اذان واقامت سے پہلے درود میں یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ درود شریف پڑھنے کے بعد کچھ وقفہ کرے پھر اذان یا اقامت کہے تاکہ درود شریف اور اذان واقامت کے درمیان فاصلہ(gap) ہو جائے یا درود شریف کی آواز اذان و اقامت کی آواز سے کم رہے تاکہ دونوں کے درمیان فرق رہے اور درود شریف کو اقامت کا حصّہ(part) نہ سمجھا جائے۔(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنّت ص۱۰۸ تا ۱۱۰مُلخصاً)درود شریف پڑھنے کے بعد اذان توجہ سے سننے یا نماز سے پہلےمؤبائل بند کرنے کا کہنا بھی ایک اچھا کام ہے کہ اس سے بھی درود شریف اور اذان وغیرہ میں(gap) ہو جاتا ہے۔
انگوٹھے چومنا:
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے جب مؤذّن کو اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْ لُ اللہ کہتے سنا تو یہ دُعا پڑھی : اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ، رَضِیتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیناً وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ نَبِیاً، پھر دونوں کلمے کی انگلیوں کے نیچے کا حصّہ چوم کر آنکھوں سے لگالیا،اس پر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو ایسا کرے جیسا میرے پیارے(صدیق) نے کیا اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوجائےگی۔ (المقاصد الحسنۃ حروف المی حدیث ۱۰۲۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۳۸۴ مُلخصاً)
بڑی راتوں میں عبادت:
رجب میں ایک ایسی رات ہے جس میں عبادت کرنے والے کیلئے سو(100)سال کی نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہےاور یہ رجب کی ستائیسویں(27th ) رات ہے،جو اس رات بارہ (12)رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھے اور (بارہ (12)رکعت پڑھنے کے بعد ،نماز سے باہر یہ کلمات پڑھے)سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ولَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرسو (100)مرتبہ پڑھے اور اللّٰہ پاک سےسو(100) مرتبہ استغفار کرے (مثلاً سو(100)مرتبہاَسْتَغْفِرُاللہ کہے) اور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر سو (100)بار درود پڑھے اور اپنے لیے دنیا وآخرت میں سے جو چاہے مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو بے شک اللّٰہ پاک اس کی سب دعاؤں کو قبول فرمائے گا،سوائے اس دعا کے جو گناہ کی ہو۔ (ما ثبت بالسنۃ، ص۱۵۰،شعب الإیمان، ۳/۳۷۴، حدیث:۳۸۱۲)
()رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایاکہ جب شعبان کی پندرھویں(15th ) رات ہو تو رات کو جاگا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت سے اللّٰہ پاک فرماتاہے اور(اپنی شان کے مطابق) اعلان کرتاہے کہ: کوئی ہے مغفرت مانگنےوالا تاکہ میں اس کوبخش دوں ، ہے کوئی رِزق مانگنے والا تاکہ میں اس کورِزق دوں ،ہے کوئی مصیبت والا کہ میں اس کواس (مُصیبت)سے نجات دوں ۔یہ اعلان فجر کا وقت شروع ہونے تک ہوتا رہتا ہے۔(ابن ماجہ،کتاب اقامة الصلاة،۲/۱۶۰،حدیث:۱۳۸۸مُلتقطاً)
میلاد شریف منانا:
میلاد کا معنی ہے”پیدا ہونا “اور ہمارے ہا ں جومیلاد شریف ہوتے ہیں، اُس کا مطلب پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ذکر کرنا، اُن کے فضائل بیان کرنا ہے چاہےدو آدمی مل کر کریں یا ہزاروں ۔ اس محفل میں تلاوتِ قرآنِ مجید ہوتی ہے، اللّٰہ پاک کی حمد ہوتی ہے ،اللّٰہ پاک کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نعتیں پڑھی جاتی ہیں،قرآن وحدیث سے اُن کی شان بیان کی جاتی ہے اُن پر صلوٰۃ وسلام پیش کیا جاتا اور مسلمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔اس میں کوئی بات بھی ناجائز نہیں اور یہ سب الگ الگ ثواب کے کام ہیں ۔تو جب یہ ثواب کے کام مل جائیں تو یہ محفل ناجائز کیسے ہو جائے گی؟
()صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نے بھی مل کر سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ذکر کیا ہے جیسا کہحضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُبیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنے صحابہ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)کے ایک حلقے کے قریب سے گزرے تو ان سے پوچھا: تمہیں کس چیز نے یہاں بٹھایا ہے؟انہوں نے عرض کی:ہم اس لیے بیٹھے ہیں تاکہ ہم اللہ پاک کو پکاریں اور اس کی اس بات پر حمد کریں کہ اُس نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت دی (کہ ہم مسلمان ہوئے) اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےذریعے، ہم پر احسان کیا۔(یہ سن کر ) فرمایا: تمہیں اللہ کی قسم ! کیا تم صرف اسی کام کے لیے بیٹھے ہو؟ صحابہ کر ام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےعرض کی:اللہ پاک کی قسم ! ہم اسی کام کے لئے بیٹھے ہیں۔ توآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:میں نے تم سے تہمت کی وجہ سے حلف(قسم) نہیں اٹھوایا (یعنی تمھیں جھوٹا نہیں سمجھتا)بلکہ میرے پا س جبرائیل(عَلَیْہِ السَّلَام )آئے اور انہوں نے مجھ سے عرض کی: اللہ پاک فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرماتا(یعنی خوش ہوتا)ہے ۔(سنن نسائی ج۸، ص۲۴۹ )
()حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا كہتی ہیں اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (جنّتی صحابی) حسان بن ثابت(رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ) کے لئے مسجد میں منبر لگاتے ( یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں)اور وہ منبر پر کھڑے ہو کر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (کی نعتیں پڑھتے اور) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کے خلاف(against) بولنے والوں کا جواب دیتے، پھر اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے کہ جب تک حسان (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ) اللہ کے رسول کےخلاف بولنے والوں کے جواب دیتے ہیں روحُ القدس (یعنی جبریل عَلَیْہِ السَّلَام) ان کے ساتھ ہوتے ہیں ۔(سنن ابو داود، ج۴، ص۳۰۴، بیروت )
()اللّٰہ پاک کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے پیر شریف کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا:فِیْہِ وُلِدْتُ وَفِیْہِ اُنْزِلَ عَلَیَّ اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔(صحیح مسلم، ص۵۹۱،حدیث:۱۱۶۲)
()ربیع الاوّل کے مہینے میں خاص طور پر میلاد شریف کی محفلیں ہوتی ہیں کیونکہ یہ وہی برکت والا مہینا ہے کہ جس میں نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اس دنیامیں تشریف لائے تھے۔اس مہینے میں عاشقانِ رسول، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم (respect) کیلئے ،پرچم لگاتے، گھروں کو سجاتے، روشنیاں کرتے اوربارہ(12) ربیع الاوّل کو جلوس نکالتے ہیں۔
()اللہ پاک فرماتا ہے: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔(پ٣٠، سورۃ الضحٰى، آیت:١١) (ترجمہ کنز العرفان)
()اللہ پاک نے یہ بھی فرمایا: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ، یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ (پ١١، سورۃ يونس، آیت:٥٨) (ترجمہ کنز العرفان)
()عقل کا بھی تقاضا ہے کہ میلاد شریف منانا چاہیے کیونکہ اس کے بہت سے فائدے ہیں ، ان فائدوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمانوں (خصوصاً سمجھداربچوں )کے دل میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے فضائل سن کر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محّبت بڑھتی ہے۔(جاء الحق، ج۱،ص ۱۹۵، مطبوعہ لاہور، مُلخصاً)
()ا گر ہم یہ دن مناتے ہیں تو کیا غیر مسلموں پر اسلام کی شان ظاہر نہیں ہوتی؟ کیا دنیا کو یہ پتا نہیں چلتا کہ مسلمانوں کو اپنی نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے بہت زیادہ محبّت ہے؟
() دین حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی باتوں پر ایمان (believe)لانے کا نام ہے اور یہی دین حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی باتیں ماننے کا پیغام ہے، تو دین سے تعلق(relation) مضبوط کرنے کے لیے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبّت لازم ہے اور محفلِ میلاد اور ربیع الاوّل کا خرچہ، اس محبّت کے اضافے کا سبب ہے، تو کیا یہ کام دین میں اچھا نہیں ہے؟
نوٹ:
دینِ اسلام نے جن جن باتوں سے منع کیا ہے، میلاد شریف میں ان باتوں کا نہ ہونا ضروری ہے۔ مثلاً ()عورتوں اور مردوں کا بے پردہ، غیر مردوں کے ساتھ کسی محفل میں شریک ہونا ()راستے روک کر محفلِ میلاد کرنا()اسپیکر کی اتنی اونچی آواز رکھنا کہ محلے والوں اور پڑوسیوں کی تکلیف کا سبب بنے() عورتوں کا مائیک پر نعتیں پڑھنا اور آواز کا غیر مردوں تک جانا ()کسی قسم کامیوزک چلانا()چوری کی بجلی استعمال کرنا ()زبردستی چندہ کرنا () لنگر پھینکنا ()غیر شرعی اشعار اور کلام پڑھنا() غلط روایات یا غیر شرعی باتوں کا سننا، سنانا () کسی کا رات دیر تک محفلوں میں رہنا اور فجر کی نماز قضا کر دینا یا واجب ہونے کے باوجود بغیر شرعی اجازت کے، مر د کا گھر پر نماز پڑھنا اور مسجد نہ جانا، وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے:
ہم بُرائی کو ختم کریں گے، نیک کام بند نہیں کریں گے۔ شادی کی غلط رسموں کو ختم کیا جائے گا، شادیاں بند نہیں کی جائیں گی۔اگر نفل نماز پڑھنے میں کوئی غلطیاں کر رہا ہے تو نفل نماز پڑھنا نہیں چھوڑیں گے بلکہ نماز کی غلطیاں ، درست کریں گے۔