’’ دین کی ضروری باتیں ‘‘(part 04_B)

205 ’’فرعون کے محل(palace) میں‘‘

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کےپیدا ہونےسے پہلےمصر کے مُلک میں فرعون کی حکومت تھی۔ فرعون نے ایک دن خواب دیکھا جس کے بارے میں اُسے بتایا گیا کہ: بنی اسرائیل کی قوم میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمھاری بادشاہت(kingship) ختم کردےگا،لھذا اس نے حکم دیا کہ جو بچہ پیدا ہو،اُسے قتل کر دیا جائے۔جن دنوں فرعون کےحکم سے بنی اسرائیل کےلڑکوں کو قتل کیا جارہاتھا انہی دنوں میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پیدا ہوئے۔ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ (یعنی امّی جان) کے دل میں یہ بات ڈال دی (ترجمہTranslation:) کہ اس بچے کو صندوق(box) میں رکھ کر دریا (river)میں ڈال دے ۔ (پ۲۰،سورۃ القصص،آیت۷) ( ترجمۂ کنزُالعِرفان) جب یہ صندوق (box)فرعون کے سامنے کھولا گیا تو اس میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام تھے،وہاں پرفرعون کی بیوی حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا بھی موجودتھیں (یہ بہت نیک عورت تھیں،انبیائے کرام عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سےتھیں، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لے آئیں تھیں)۔جب فرعون نے صندوق میں ایک بچہ دیکھا تو اس نے سوچا کہ کہیں یہ وہی بچہ نہ ہو جومیری بادشاہت (kingship)ختم کر دےگا۔اب اس نے بچےکو قتل کرنے کا پکا ارادہ (firm intention)کر لیا لیکن حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَانے فرعون کو اس کام سے منع کرتے ہوئے کہا: اس کو قتل نہ کر،یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،ہم اس کو بیٹا بنالیتے ہیں،ممکن (possible) ہے کہ اس سے ہمیں فائدہ ہو ۔یہ سُن کرفرعون نے بچے کو چھوڑدیا ۔ فرعون کے محل (palace) میں بچے کو دودھ پلانے کے لیے کئی عورتیں بلائی گئیں مگر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام دودھ نہ پیتے تھے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی بہن بھی وہاں موجود تھیں انہوں نےیہ دیکھ کر کہا :میں ایک ایسی عورت کو جانتی ہوں کہ یہ بچہ اس سے دودھ پی لے گا،فرعون بچے کے دودھ نہ پینے کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھا اس نے ان کی بات مان لی، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ کو بلایا گیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے دودھ پی لیا،اب فرعون نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ کو دودھ پلانے پر رکھ لیا اور یوںاللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو اُن کی امّی کے پاس دوبارہ(again) بھیج دیا۔ قرآنِ پاک میں بیان کردہحکایت ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ پاک جس کی حفاظت(protects) فرمائے اسے کوئی بھی تکلیف نہیں دے سکتا ۔ یہ بھی پتا چلا کہاللہ پاک اپنے نیک لوگوں کے دلوں میں خاص باتیں ڈال دیتا ہے ۔ اللہ پاک کے نیک بندوں کے دلوں میں جو بات ڈالی جاتی ہے، اِسے "الہام"کہتے ہیں، جیسے اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ کے دل میں بات ڈالی ۔ اللہ پاک اپنے نبیوں(عَلَیْہِمُ السَّلَام) کو جو خاص پیغام بھیجتاہے،اِسے "وَحی "کہتے ہیں۔اور"وحیِ نبوت " صرف انبیاء ِکرام (عَلَیْہِمُ السَّلَام)کو ہوتی ہے، اولیاء ِ کرام(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ)کو بھی نہیں ہوتی۔نبی کا خواب بھی "وحیِ نبوت " ہوتا ہے کہ ان حضرات کی آنکھیں سوتی ہیں،دل نہیں سوتا۔( مراۃ شرح مشکوۃ، جلد۱۔ص ۶۴۵مُلخصاً) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو خواب میں ہی حضرت اسمعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی قربانی کا حکم دیا گیا۔( پ۲۳، سورۃ الصٰفٰت، آیت۱۰۲مُلخصاً)

206 ’’ہر نبی عَلَیْہِ السَّلاَم کی شان بہت بڑی ہے ‘‘

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے زمانے(time) میں ایک بہت عبادت کرنے والا عالم تھا، اس کا نام بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء تھا۔اس کو اللہ پاک نے ایسا مقام (rank)دیاتھا کہ یہ اپنی جگہ بیٹھ کر ساتوں آسمانوں سے اوپر عرشِ اعظم( ) کو دیکھ لیا کرتا تھا۔اور اس کی دعائیں قبول(accept) ہوتی تھیں۔اس کےشاگر(students) بہت زیادہ تھے۔ بَلْعَمْ کی قوم، اس وقت کے نبی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم پر ایمان نہیں لائی تھی اس لیے، اس قوم نے بَلْعَمْ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَماوران پرایمان لانے والےمومنین کے خلاف (against)بددعا کرنےکےلیےکہا: یہ سن کر بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء ڈرگیااور کہنےلگا: خدا کی پناہ! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم اللہ پاک کے رسول ہیں۔اور ان کے ساتھ ایمان والے اور فرشتے ہیں ، میں ان کےلیےکیسےبددعا کرسکتا ہوں؟ اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں خراب ہوجائیں گی۔لیکن اس کی قوم نے بار بار اسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے لیے بددعا کرنے کا کہا اور اسے بہت زیادہ انعام (rewards)اورتحفوں (gifts)کالالچ بھی دیا ۔یہاں تک کہ بَلْعَمْ لالچ میں آگیااوروہ مال کی لالچ میں اپنی گدھی پر بیٹھ کر بددعا کے لیے چل پڑا ۔راستے میں بار بار اس کی گدھی رُک جاتی اور پیچھے جانا چاہتی تھی مگر یہ اس کو مار مار کر آگے لے جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ گدھی کو اللہ پاک نے بولنے کی طاقت دی اور اس نے کہا کہ افسوس (Alas!)! اے بَلْعَمْ تو کہاں جا رہا ہے؟ دیکھ! میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روک کر مجھے پیچھے کر رہے ہیں۔اے بَلْعَمْ! تیرا برا ہو۔ کیا تو اللہ پاک کےنبی اور ایمان والوں پر بددعا کریگا؟ گدھی کی بات سن کر بھی بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء واپس نہیں ہوا اور ایک اونچے پہاڑ پر چڑھ کر بیٹھ گیااور وہاں سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کی قوم کو دیکھنے لگا اور مال و دولت کےلالچ میں اس نے بددعا شروع کردی۔لیکن اللہ پاک کی شان کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کےلئے بددعا کرنے کی کوشش کرتا تھا مگر اس کی زبان سے اس کی قوم کے لئے ہی بددعا نکلتی تھی(یعنی وہ کہنا چاہتا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کی قوم تباہ ہوجائے مگر جب وہ بولتا تو یہ کہتا کہ میری قوم تباہ ہوجائے)۔ یہ دیکھ کر کئی مرتبہ اس کی قوم نے بولا: کہ اے بَلْعَمْ! تم تو ہمارے لیے بددعا کررہے ہو۔ تو اس نے کہا کہ اے میری قوم! میں کیا کروں میں تو حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلاَم اوران کی قوم کےلیے بددعا کرتا ہوں لیکن میری زبان سے تمہارے لیے بددعا نکلتی ہے۔ پھر اچانک (suddenly)اس پر اللہ پاک کا عذاب آ گیااور اس کی زبان لٹک(یعنی منہ سے باہر نکل ) کر اس کے سینے پر آگئی۔ اس وقت بَلْعَمْ بِنْ بَاعُوْرَاء نے اپنی قوم سے رو کر کہا کہ افسوس (Alas!) میری دنیا اور آخرت دونوں خراب ہوگئیں۔ میرا ایمان چلا گیا اور مجھ پر اللہ پاک کاعذاب آگیا(punishmentہوئی) ،اب میری کوئی دعا قبول(accept) نہیں ہوسکتی۔(تفسیر الصاوی، ج۲، ص۷۲۷،پ۹،الاعراف، :۱۷۵۔ مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ کوئی شخص کتنی ہی عبادت کرے اگرچہ اس کی دعائیں بھی قبول(accept) ہوتی ہوں لیکن وہ اللہ پاک کے”نبی ‘‘کے برابرتو کیا ان کے قدموں کی مٹّی کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام تو،تمام مخلوق(creatures) یہاں تک کہ رسول فرشتوں سے بھی افضل (superior) ہیں۔ ولی کتنا ہی بڑے مرتبہ والا ہو، کسی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا ۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کےگستاخ پر اللہ پاک کا عذاب آجاتا ہےیاد رہے! نبی کی تعظیم (respect) فرض،لازم اور ضروری ہے۔ کسی نبی کی تھوڑی سی بھی توہین(insult) کرنا کفر ہے کہ تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ، اﷲ پاک کے نزدیک، شان اور عزّت والے ہیں۔

207 ’’نبی اور رسول عَلَیْہِمُ السَّلَام ‘‘

سارے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام میں سب سے بڑا مرتبہ(rank) ہمارے پیارےنبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ہے، ان کے بعد حضرت ابراہیمعَلَیْہِ السَّلاَم، پھر حضرتِ موسٰیعَلَیْہِ السَّلاَم، ان کے بعد حضرتِ عیسیعَلَیْہِ السَّلاَم اور حضرتِ نوحعَلَیْہِ السَّلاَمکامرتبہ (rank)ہے نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کا اللہ پاک کی بارگاہ میں خاص مقام(special status) ہوتا ہےاور یہ اللہ پاک کے ہاں بہت عزّت اور بزرگی والے ہوتے ہیں نبی اپنے’’ نبی‘‘ ہونے کا لوگوں کو بتاتے ہیں اور’’مُعْجِزہ‘‘ دکھاتے ہیں یعنی ایسا کام کرکے دکھاتے ہیں جو عام طور پر کرنا ممکن(possible) نہیں ہوتا، مثلاً: چیونٹی کی آواز سن لینا،پہاڑ سے زندہ اونٹ نکالنا، لاٹھی (stick)سے پانی کے چشمے(water springs) نکال دینا یا لاٹھی (stick)سے دریا(river)میں راستے بنادینا،چاند کے دو( 2) ٹکڑے کرنا، اُنگلیوں (fingers) سے نہریں(canals) جاری کر دینا، جو فوت ہوگیا اُسے زندہ کر دینا، کسی کے مرنے کا مقام بتا دینا، جیسا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے بتایا بلکہ اِس طرح کے بہت زیادہ مُعجزے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے ہوئے تمام نبی اپنے مزارات میں اُسی طرح زندہ ہیں جس طرح دنیا میں زندہ تھے، کھاتے پیتے ہیں،جہاں چاہتے ہیں آتے جاتے ہیں نبیّوں میں سے جونئی شریعت لائیں(یعنی دین کے نئے حکم لے کر آئیں مثلاً اب پانچ نمازیں فرض ہیں یا اب زکوۃ فرض ہے وغیرہ) انہیں رسول کہتے ہیں(یاد رہے! اسلامی عقائد اور ایمان تمام نبیوں کے دین میں ایک ہی ہیں مثلاً اللہ ایک ہے ،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں وغیرہ)۔ (المسامرۃ، ص۲۳۱) اللہ پاک کے کچھ فرشتے بھی رسول ہیں۔ جیسے: حضرت جبرئیلعَلَیْہِ السَّلاَم ،حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلاَم ، حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلاَم اور حضرت میکائیل عَلَیْہِ السَّلاَم اسی طرح عرش( ) اٹھانے والے فرشتے(فتاوی رضویہ، ۳۵۳/۲۹ماخوذاً) اللہ پاک نے بعض نبیوں پر آسمانی کتابیں اور کئی صحیفے(یعنی چھوٹی کتابیں) نازل فرمائیں جن میں سے چار(4) کتابیں بہت مشہور ہیں: (۱)تَورات: جو حضرتِ موسٰی عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی (۲)زَبُور: جو حضرتِ داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی (۳)اِنجیل: جو حضرتِ عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی (۴)قرآنِ کریم: جو ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر نازل ہوا اللہ پاک نے جتنی کتابیں اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلَام پر نازل فرمائیں ہم ان سب پر ایمان لاتے ہیں ۔(ماخوذ از بہار شریعت، ۱/۲۸ تا۵۸،حصہ۱۔ ہمارا سلام، ص ۴۸تا۵۴)

208 ’’مشکل وقت میں حاجیوں کی مدد‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے کی بات ہے کہ اُس وقت لوگ بہت مشکل میں تھے، آج کل کی طرح بڑی بڑی فیکٹریاں(factories)،اونچی اونچی بلڈنگز(buildings)، بڑی بڑی گاڑیاں،ٹرینیں،ہوائی جہاز اوردیگر آسانیاں نہیں تھیں۔ جہاں یہ چیزیں ہوتی ہیں، وہاں ان کو بنانے والے، ان کو چلانے والے بھی ہزاروں مزدور (laborer)ہوتے ہیں اور اس طرح لوگوں کے کاروبار اور ملازمت (employment) کا سلسلہ بنتا ہے۔اُس وقت لوگوں کا کاروبار صرف سونا چاندی ، کھیتی باڑی(cultivation) اوردودھ دینے والےجانوروں کےذریعے ہوتا تھا مگر جن دنوں بارش(rain) نہیں ہوتی تھی،فصلیں(crops)تباہ ہوجاتی تھیں،جانوروں کو چارہ(fodder)نہیں ملتا تھاتو جانور دودھ نہیں دیتے تھے اورپانی اورخوراک(food)کی کمی کی وجہ سے جانور بھی مرجاتے تھے توانسانوں کے لیے روٹی کھانا بھی مشکل ہوجاتا تھا۔نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پردادا یعنی آپ کےدادا حضرت عبدالمطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے والد حضرت ہاشم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےوقت میں بھی ایسا ہوا کہ ایک سال بارشیں(rains) نہ ہوئیں ،جس کی وجہ سے کھیتی باڑی (cultivation)ختم ہوگئی ،لوگ بڑی مشکل میں آگئے، کھانے پینے کےلیے بھی بہت مشکل میں آگئے تھے۔ ایسےمشکل وقت میں حضرتہاشمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اللہ پاک کی عبادت کرنے والوں اورحج کے لیے مکّہ پاک آنے والوں کےلیے ملک شام سےخشک روٹیاں خرید کرلائے،اُن کاچورا (sawdust)کرکے ،اونٹ کے گوشت اور سالن کے ساتھ ملا کر لوگوں کو کھانا کھلایا ۔اسی لیے آپ کا نام ’’ہاشم ‘‘ یعنی روٹیوں کا چوراکرنے(یعنی پیسنے) والا پڑ گیا ۔ ( مدارج النبوۃ ج۲، ص۸) آپ کی اولاد کو '' ہاشمی'' کہتے ہیں۔ اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ایسی برادری (community) میں پیدا فرمایا کہ آپ کے دادا(grandfather) ،پردادا (great-grandfather)سب نیک ، غریبوں کی مدد کرنے والے، لوگوں کی پریشانیاں دور کرنے والےتھے ۔اس حکایت سے ہمیں یہ درس(lesson) بھی ملتا ہے کہ اگر ہمارے گھروالوں ،رشتہ داروں اوردوسرے مسلمانوں میں کوئی پریشانی ہو تو ان کی مدد کرنی چاہیے ۔
تَعَارُف (Introduction):
حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پردادا، حضرت ہاشم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بڑی شان والے اور بہت خوبصورت تھے۔ ان کا اصلی نام ’’عمرو‘‘ تھا ۔بہت بہادر ، سخی اورمہمان نواز(hospitable)تھے۔ عبد مناف کے بعد خانہ کعبہ کی دیکھ بھال اور خدمت کی ذمہ داری(responsibility) آپ کے پاس آئی۔ (سیرت مصطفی ،ص۵۲،۵۳مفصّلا)

209 ’’ہاتھی والوں کے ساتھ کیا ہوا ؟ ‘‘

تقریباً 1500 سال (fifteen hundred years)پہلے مُلکِ یَمَن اور حَبْشہ پر ’’اَبْرَہَہ‘‘ نامی آدمی کی بادشاہَت(kingship) تھی، وہ دیکھا کرتا تھا کہ لوگ حج کے لئے مکّے شریف جاتے اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے (یعنی ثواب کی نیّت سے اس کے چکر لگاتے) ہیں، اُس نے سوچا کہ کیوں نہ میں یَمَن کے شہر صَنْعاء میں عبادت کے لیے ایک جگہ بناؤں، تاکہ لوگ خانہ کعبہ کی جگہ یہاں آئیں، تو اُس نے عِبادت کے لیے ایک جگہ بنادی۔ عَرَب کے لوگوں کو یہ بات بَہُت بُری لگی اور ایک شخص نے وہاں جا کر اُس جگہ کو گندہ کر دیا۔ اَبْرَہَہ کو جب پتا چلا تو اُس نے غُصّے میں آکر خانہ کعبہ کو گرانے (توڑنے)کی قسم کھالی (مَعَاذَاللہ!یعنی اللہ پاک کی پناہ)۔اب اپنا لشکر trops) یعنی بہت سارے لوگوں کو)لے کر مکّے شریف کی طرف چلا، لشکر میں بَہُت سارے ہاتھی(elephants) تھےاور اُن کا سردار ایک ’’مَحْمود‘‘ نام کا ہاتھی تھا جس کا جسم بڑا مضبوط (strong) تھا۔ اِنہی ہاتھیوں کی وجہ سے اُس لشکر کو قراٰنِ کریم میں اَصْحٰبُ الْفِیْل یعنی ’’ہاتھی والے‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اَبْرَہَہ مکّہ شریف کے قریب پہنچتے ہی ایک جگہ رُک گیا اور مکّہ والوں کے جانوروں کوپکڑ لیا، جن میں مَدَنی آقا، محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دادا جان حضرت عبدُ الْمُطَّلِب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے 200 اونٹ بھی تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مکّے والوں کو پہاڑوں میں چھپنے کا حکم دیا اور اللہ پاک سے خانۂ کعبہ کی حِفاظت(security) کی دُعا کرنے کے بعد خود بھی ایک پہاڑ پر چلے گئے۔ صُبْح ہوئی تو اَبْرَہَہ حملہ کرنے کے لیے سب کو لے کرآیا، جب مَحْمود نامی ہاتھی کو اٹھایا گیا تو لشکر والے جس طرف لے جاتے، اُس طرف چلتا مگر خانۂ کعبہ کی طرف منہ کرتے تو وہ بیٹھ جاتا۔تھوڑی دیر تک یہی ہوتا رہا کہ ایک دم بہت سارے ’’اَبابیل‘‘ (کالےرنگ کے پرندے (black birds)جن کا سینہ(chest) سفید (wight) ہوتا ہے) آگئے، ہر اَبابیل کے پاس تین(3) چھوٹے پتّھر (small stones)تھے، دو(2) پنجوں(یعنی ہاتھوں) میں اور ایک منہ میں اور ہر پتھرپر مرنے والے کا نام بھی لکھا ہُوا تھا، ابابیل نے پتھر پھینکنا شروع کردئیے، پتھر جس ہاتھی والے پر گِرتا اُس کی لوہے کی ٹوپی کو توڑ کر سَر میں جاتا اور جسم سے ہوتا ہوا ہاتھی تک پہنچتا اور ہاتھی کے جسم میں سوراخ کرتا ہوا زمین پر گِر جاتا، یوںوہ سب لوگ مر گئے۔جس سال یہ عذاب آیا (punishmentہوئی) اُسی سال رَحْمت والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دنیا میں تشریف لائے یعنی آپ کی پیدائش (birth)ہو گئی۔(ماخوذ از صراط الجنان،ج ۱۰، ص۸۲۷، عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص۲۲۴) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک کی نافرمانی(disobedience) میں دنیا و آخرت کی خرابی ہے ۔ خانۂ کعبہ کی تعظیم (espect r ) کرنا لازم ہے کہ اس کی بے ادبی کرنے والوں کا انجام(result) بہت برا ہوتا ہے جیسا کہ ہاتھی والےلشکر کا ہوا ۔ ہمیں ہر مسجد کا ادب کرنا چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت عبدالمطلب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےداداتھے ان کا اصلی نام’’ شیبہ‘‘ہے۔ اللہ پاک پر ایمان(believe)رکھتے تھے۔یہ بڑے ہی نیک تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ’’غارِحرا ‘‘ میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک اللہ پاک کی عبادت کرتے۔ رمضان شریف کےمہینے میں اکثر غارِ حرا میں رہتے تھے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی برکت سےآپ کے بدن سے خوشبو آتی تھی۔ عرب کے لوگ خصوصاً قریش ، آپ سے بہت محبت کرتے تھے ۔ مکّے والوں پر جب کوئی مصیبت آتی یا بارش(rain) رُک جاتی تو لوگ حضرت عبدالمطلب کوساتھ لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں ان کو وسیلہ بنا کر(یعنی ان کے صدقے سے) دعا مانگتے تھے تو دعا قبول(accept) ہو جاتی تھی۔ اُ س وقت لوگ لڑکیوں کو زندہ ہی دفن(buried) کر دیتے تھےیہ لوگوں کو بڑی سختی کے ساتھ روکتے تھے اور چور کا ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے۔ اپنے دسترخوان(tablecloth) سے پرندوں کو بھی کھلایا کرتے تھے اس لئے ان کا لقب ’’مُطْعِمُ الطَّیْر‘‘(یعنی پرندوں کو کھلانے والا) ہے۔شراب اور دیگر بُرائیوں کے قریب بھی نہ جاتے تھے۔ مسجدُ الحرام( جس میں کعبہ شریف ہے) کے انتظام(management) وغیرہ دیکھتےاور لوگوں کو آب زم زم پلاتے تھے۔ ایک سو بیس(120) سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ (زرقانی علی المواہب ج۱، ص ۷۲ماخوذاً)

210 ’’آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےسب دادا صاحبان رَحمۃُ اللہ ِ عَلیْھِم اور مبارک نانیاں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِنّ ‘‘

اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation): اور(اللہ پاک) نمازیوں میں تمہارے دورہ فرمانے کو (دیکھتا ہے) ۔ ( ترجمۂ صراط الجنان) (پ۱۹،الشعراء :۲۱۹) علماء فرماتے ہیں: اس آیت کا مطلب یہ ہیں کہ حضو ر صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا نور، سجدہ کرنے والوں سے سجدہ کرنے والوں کی طرف آتارہا تو اس آیت سے پتا چلا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سب والدین(یعنی والدین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا، دادا صاحبان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْاور مبارک نانیاں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِنّ سب)مسلمان تھے۔ (مفاتیح الغیب تحت آیۃ ۲۶ / ۲۱۹ ۔۔ ۲۴/ ۱۴۹ مُلخصاً) آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے بارے میں کچھ اس طرح فرمایا کہ :میں ہمیشہ پاک مردوں اور پاک ماؤں میں رہا ہوں۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابی نعیم عن ابن عباس المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۷۴ مُلخصاً) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:اس سے پتا چلاکہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سب پاکیزہ والد اور ساری ستھری والدہ سب کے سب ایمان والے اور اللہ پاک کو ایک ماننےوالےتھے۔(فتاوی رضویہ جلد۳۰، ص ۲۷۰ماخوذاً) اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہمزیدکچھ اس طرح بھی فرماتے ہیں:جب حدیثوں سے پتا چل گیا کہ ہر زمانے (time) میں پوری زمین پر کم از کم سات(7) مسلمان ایسے ضرور ہونگے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں بزرگ(یعنی بڑے مرتبے والے) ہونگے(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ عبدالرزاق وابن المنذر المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۷۴)، اورخودصحیح بخاری شریف کی حدیث سے پتا چلا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جن سے پیداہوئے وہ لوگ ہر زمانے(time) میں بہترین لوگ ہونگے (صحیح البخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۰۳) ، اور قرآن کی آیت یہ بتاتی ہے کہ کوئی کافر اگرچہ کیسا ہی بڑی قوم کا ہو، کسی مسلمان غلام سے بھی بہتر نہیں ہوسکتا (قرآن الکریم ۲ /۲۲۱ مُلخصاً) ( یاد رہے!پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )تو یہ بات لازم ہے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والدین ،(حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم سے لے کر، آپ کی پیدائش(birth) تک کے سب)دادا صاحبان اور مبارک نانیاں ہر زمانے(time) میں، اللہ پاک کی بارگاہ میں بزرگ اور مقبول(یعنی مسلمان)تھے ۔اگر کوئی کہےکہ یہ مومن نہ تھے تو اس کی یہ بات قرآن و حدیث کے خلاف (against)ہے۔ (فتاوی رضویہ جلد۳۰، ص ۲۶۹ماخوذاً) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا خاندان، والد صاحب رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی طرف سے اس طرح ہے: (۱)حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (۲) حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے شہزادے(۳)وہ حضرت عبدالمطلب کے(۴) وہ حضرت ہاشم کے (۵) وہ حضرت عبد مناف کے(۶) وہ حضرت قصی کے(۷) وہ حضرت کلاب کے(۸) وہ حضرت مرہ کے(۹) وہ حضرت کعب کے (۱۰) وہ حضرت لوی کے(۱۱) وہ حضرت غالب کے(۱۲) وہ حضرت فہر کے(۱۳) وہ حضرت مالک کے(۱۴) وہ حضرت نضر کے (۱۵) وہ حضرت کنانہ کے(۱۶) وہ حضرت خزیمہ کے(۱۷) وہ حضرت مدرکہ کے(۱۸) وہ حضرت الیاس کے(۱۹) وہ حضرت مضر کے (۲۰) وہ حضرت نزار کے(۲۱) وہ حضرت معد کے(۲۲) وہ حضرت عدنان کے بیٹے ہیں(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ)۔ (بخاری ج ۵،ص۴۴ مُلخصاً) حضرت عدنان، حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں، اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام،حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے بیٹے ہیں۔ والدہ صاحبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی طرف سے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا خاندان یہ ہے: (1) حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (2) حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے شہزادے (3) وہ حضرت وہب کی بیٹی(4) وہ حضرت عبد مناف کے(5) وہ حضرت زہرہ کے(6) وہ حضرت کلاب کے(7) وہ حضرت مرہ کے بیٹے ہیں (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ)۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،اولاد عبد المطلب،ص۴۸ مُلخصاً)(سیرت مُصطفیٰ ص۴۹ تا ۵۴ مُلخصاً)

211 ’’جنگ ِبدر‘‘

جب مسلمان مکّے شریف میں تھے تو غیر مسلم ، مسلمانوں کو مختلف (different) طریقوں سے تکلیفیں دیتے تھے۔ اللہ پاک کے حکم سےمسلمان اپنے گھروغیرہ چھوڑ کرمدینہ پاک چلے گئےمگر غیر مسلموں کی طرف سے مسلمانوں کو تکلیفیں دینے کا سلسلہ ختم نہ ہوا ۔پہلے مسلمانوں کو اللہ پاک کی طرف سے جنگ کی اجازت نہیں تھی اور صرف صبر کا حکم تھا مگرغیر مسلموں کی طرف سے ہونے والی تکلیفوں کی وجہ سے اللہ پاک نے مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت دے دی ۔اس کے بعد مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پہلی جنگ ’’غزوہ بدر ‘‘ ہوئی(’’غزوہ ‘‘ اُس جنگ کو کہتے ہیں کہ جس میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے بھی شرکت فرمائی)۔ دو (2) سنِ ہجری، سترہ (17) رمضان المبارک جمعہ کے دن،غزوۂ بدر ، ’’بدر ‘‘ کے مقام پرہوئی(’’بدر ‘‘ مدینہ منورہ سے تقریباً اسّی (80) میل کے فاصلے(distance) پر ایک گاؤں کا نام ہے)۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ (313) تھی اور مسلمانوں کے پاس صرف دو(2)گھوڑے،ستّر(70)اونٹ،چھ (6)زرہیں(یعنی لوہے کے لباس) اورآٹھ (8) تلواریں (swords)تھیں جبکہ غیر مسلم ایک ہزار (1000)تھے،اُن کے پاس سو (100) گھوڑے، سات سو(700) اونٹ اور لڑائی کے بہت سارے ہتھیار (weapons)تھے۔(زرقانی علی المواھب، ۲/۲۶۰، معجم کبیر، ۱۱/۱۳۳، حدیث :۱۱۳۷۷، مدارج النبوۃ،۲/۸۱) غزوہ بدر کی رات اللہ پاک نے مسلمانوں پر خاص رحمت نازل فرمائی جس سے اسلامی فوج آرام کی نیند سو گئی اور ان کی تمام تھکاوٹ(tiredness) ختم ہوگئی مگر ہمارے پیارے نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے تمام رات اللہ پاک کی عبادت اور دعا میں گزاری اور صبح مسلمانوں کو نمازِ فجر کے لئے جگایا۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے نماز کے بعدایک خطبہ فرمایا(یعنی بیان فرمایا) جس سے مسلمانوں میں اللہ پاک کی راہ میں شہادت(یعنی لڑتے ہوئے فوت ہو جانے) کا جذبہ(spirit of martyrdom) اورزیادہ ہو گیا۔(دلائل النبوۃ للبیہقی، ۳/۴۹،سیرت حلبیہ، ۲/۲۱۲،سیرت مصطفیٰ ،ص ۲۱۸ملخصا)جب بدر کی جنگ میں مسلمان، غیر مسلموں کے سامنے کھڑےہوگے تو اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اللہ پاک سے دعا کی: ’’اے اللہ! تونے مجھ سے جو وعدہ فرمایا تھا اسے پور ا کر دے۔ اے اللہ!اگر یہ مسلمان بھی شہید ہو گئے (all were martyred) تو زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔‘ ‘ اس وقت اللہ پاک نے نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل کرنے کی خوشخبری (good news)دی، پھر جب جنگ شروع ہوئی تو اللہ پاک نے پہلے ایک ہزار(1000) فرشتے بھیجے پھر تین ہزار (3000) فرشتے ہوگئےاوراس کے بعد فرشتے پانچ ہزار(5000) ہو گئے۔(مواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ،۲/۲۸۶)غزوۂ بدرمیں مسلمان بہادری سے لڑتے رہے اور اللہ پاک نے فرشتوں کو بھیج کر، مسلمانوں کی مدد بھی فرمائی اور مسلمانوں کو بہترین کامیابی(great success) ملی۔ ستّر(70)غیر مسلم مر گئے(died)اور ستّر (70) گرفتار(arrest) بھی ہوئے۔ جبکہ چودہ(14)مسلمان شہید ہوئے ۔(مسلم،ص۷۵۰، حدیث:۴۵۸۸ملخصاً،عمدۃ القاری،۱۰/۱۲۲) جنگ شروع ہونے سے پہلے ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے کچھ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے سامنے اپنی چھڑی(stick) سے زمین پرنشان لگائے تھے کہ یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی جب جنگ ختم ہونے پر دیکھا گیا تو جس جگہ کے لیے نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا تھا کہ یہاں فُلاں کافر مرا ہوگا تواُس کافر کی لاش ٹھیک اسی جگہ پڑی تھی ۔ ( مسلم، ص۹۸۱، حدیث:۱۷۷۸، شرح الزرقانی علی المواھب، ۲/۲۶۹) اس حکایت سے ہمیں یہ درس ملا کہ غزوۂ بدرمیں اگرچہ مسلمانوں کے پاس سامان کم تھا اور تعداد (یعنی لوگ) بھی کم تھی مگر ان کے دل میں اللہ پاک اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبّت تھی ۔ اللہ پاک نے کرم فرمایا اور اس تکلیف(trouble )میں فرشتوں کے ذریعے،اُن کی مدد فرمائی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو غیب کا علم بھی عطا فرمایا تھا کہ ایک دن پہلے ہی کافروں کے مرنے کی جگہ بتادی۔

212 ’’اللہ پاک ان سے راضی ‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عمرے کی نیّت سے مدینہ پاک سے مکّے شریف کی طرف آئے۔ جب مکّے پاک سے پہلے(ایک جگہ)حدیبیہ پہنچے تو پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ ٖ وَسَلَّمَ نےحضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو مکّےشریف بھیجا تاکہ وہاں جاکر بتا دیں کہ حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عمرہ کے لیے تشریف لا رہے ہیں یعنی آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ ٖ وَسَلَّمَ جنگ کرنے کے لیے نہیں آئے ہیں ۔حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ قریش کے سرداروں(chiefs) کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں بتا دیا۔ وہ سب یہ کہہ رہے تھے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اس سال عمرہ نہ کریں بلکہ اگلے سال(next year) آئیں ،لیکن حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے کہا کہ اگر آپ کعبہ شریف کا طواف کرنا (یعنی خانہ کعبہ کے سات (7) چکر لگانا)چاہیں تو کرلیں ۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بغیرطواف کروں ۔ دوسری طرف حدیبیہ میں موجود مسلمانوں نے کہا:حضرت عثمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ بڑے خوش نصیب (lucky) ہیں جو کعبہ شریف تک پہنچ گئے اور طواف بھی کر لیا۔ حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ وہ ہمارے بغیر طواف نہ کریں گے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی مکّے شریف کے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی، تو غیر مسلموں نے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو روک لیا ، اب حدیبیہ میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ شہید(یعنی قتل ۔murder) کردیئے گئے ہیں ۔اس پر مسلمانوں کو بہت جوش (excitement)آیا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ سے اس بات پر بیعت لی(یعنی وعدہ لیا) کہ وہ غیر مسلمین سے جنگ میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ بیعت ایک درخت کے نیچے ہوئی ۔حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی اُلٹی طرف کے ہاتھ کو، سیدھے ہاتھ میں لیا اور فرمایا کہ یہ عثمان(رَضِیَ اللہ عَنْہُ)کی بیعت ہے اور دعا فرمائی : یا ربّ!، عثمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ تیرے اور تیرے رسول صَلَّی اللہ عَلَیْہِ ٖ وَسَلَّمَ کے کام میں ہیں ۔ حُدَیْبِیَہ کے مقام پر جن صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے بیعت کی انہیں اللہ پاک نے اپنی رضا کی خوشخبری (good news)سنائی ، اس لئے اس بیعت کو’’ بیعت ِرضوان‘‘ (یعنی ایسا وعدہ کہ جس سے اللہ پاک راضی ہوا)کہتے ہیں ۔(صراط الجنان، ۹/۳۶۷ مُلخصاً) اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :بیشک اللہ ایمان والوں سے راضی ہوا ،جب وہ درخت کے نیچے تمہاری بیعت کررہے تھے تو اللہ کووہ معلوم تھا جو ان کے دلوں میں تھا تو اس نے ان پر اطمینان (satisfaction) ا تارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔ (پ۲۶، سورۃ الفتح، آیت ۱۸) (ترجمہ کنز العرفان) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کو اپنے آقا و سردار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کتنی محبّت تھی کہ ایک طرف حضرت عثمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بغیر طواف نہ کیا اور دوسری طرف دیگر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے اپنی جان پیش کرنے کے لیے بھی وعدے کر لیے۔دوسری بات یہ بھی پتا چلی کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اللہ پاک کے دیے ہوئے علم سے معلوم تھا کہ حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہشہید نہیں ہوئے جبھی تو ان کی طرف سے بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے بیعت کی۔ غیر مسلمین کو جب اس بیعت کا پتا چلا تو وہ ڈر گئے اور انہوں نے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو واپس بھیج دیا۔ (خازن ، الفتح ، تحت الآیۃ: ۱۸ ، ۴ / ۱۵۰-۱۵۱ ، خزائن العرفان، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۸، ص ۹۴۳مُلخصاً)

213 ’’ ا صحاب بدر اور اصحاب ِ رضوان‘‘

اصحابِ بدر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْوہ صحابۂ کرام تھے کہ جو دو( 2 )ہجری(یعنی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مکّے پاک سے مدینے پاک آنے یعنی ہجرت فرمانے کے دوسرے سال۔second year) میں بدر کے مقام پر غیر مسلمین کے خلاف (against)اسلام کی سب سے پہلی جنگ میں شامل ہوئے تھے،ان کی تعداد 313تھی۔ اصحابِ بیعتِ رضوان رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے مراد وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ہیں جنہوں نے چھ(6)ہجری میں حُدیبیہ کے مقام پر آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ہاتھ پر غیر مسلمین کے خلاف (against) جنگ میں کھڑے رہنے پر بیعت کی(یعنی وعدہ کیا) اور اللّٰہ پاک نے اس پر انہیں اپنی رضا کی خوشخبری(good news) دی،ان کی تعداد چودہ سو( 1400)تھی۔(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنّت ص ۷۷تا ۷۶مُلخصاً) خلفائے اربعہ راشدین(پہلے چار (4)سچے خلیفہ یعنی پہلے (1st )خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ، دوسرے (2nd )خلیفہ حضرت عمر فاروقرَضِیَ اللہُ عَنْہ، تیسرے(3rd ) خلیفہ حضرت عثمان غنیرَضِیَ اللہُ عَنْہ اور چوتھے (4th ) خلیفہ حضرت علی المُرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ) کے بعد بقیہ عشرہ مبشَّرہ(یعنی وہ دس(10)صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْکہ جنہیں ایک ساتھ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جنّتی ہونے کی خوشخبری (good news)دی تھی، پہلےچار(4) خلیفہ بھی ان دس (10)میں شامل ہیں)ا ور حضرات حسنین (یعنی امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ)او راصحابِ بدر او راصحابِ بیعۃ الرضوان رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے لیے فضلیت (یعنی بڑا درجہ )ہے اور یہ سب قطعی(یعنی یہاں جن جن کا ذکر ہے، وہ سب کے سب یقینی طور پر۔definitely) جنّتی ہیں۔(بہار شریعت ج۱،ص۲۴۹،مُلخصاً) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :بیشک اللہ ایمان والوں سے راضی ہوا جب وہ درخت کے نیچے تمہاری بیعت(وعدہ) کررہے تھے تو اللہ کووہ معلوم تھا جو ان کے دلوں میں تھا تو اس نے ان پر اطمینان (satisfaction)اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح(یعنی کامیابی) کا انعام دیا۔ (پ۲۶، سورۃ الفتح، آیت ۱۸) (ترجمہ کنز العرفان) حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی اُن میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہ جائےگا۔( ترمذی ، کتاب المناقب ، ۵ / ۴۶۲ ، الحدیث: ۳۸۸۶) حدیث میں ہے:جو چاہو عمل کرو بے شک میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔ (کنزالعمال ، ۱۴/ ۶۹، حدیث۳۷۹۵۷ ، بیروت)یہ اصحاب بدر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے لیے فرمایا۔(فتاوی رضویہ ج۳۰،ص،۷۷مُلخصاً) جنگ بدر شاید اسلام کی حفاظت کے لیے ہونے والی سب سے اہم جنگ تھی۔ایک طرف یہ کیفیت(condition)تھی کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہاتھ پھیلا کر روتے ہوئے دعا کر رہے تھے، عرض کر رہے تھے کہ:یا اللہ!تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے آج اسے پورافرما دے۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بہت توجّہ (attention)کے ساتھ دعا مانگ رہے تھے یہاں تک کہ آپ کی چادر مُبارک ، کندھوں(shoulders) سے نیچے تشریف لے آئی۔ کبھی آپ سجدہ میں سر رکھ کر دعا کر رہے تھے کہ : یا اللہ!اگر تیرےیہ چند بندے بھی شہید(تیری راہ میں قتل)ہو گئے تو پھر قیامت تک زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ رونے لگے اور انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مُبارک کندھے پر رکھ دیااور آپ کا ہاتھ مُبارک پکڑ کر بڑے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ :حضور! اب بس کیجیے اللہ پاک اپنا وعدہ ضرورپورا فرمائے گا۔پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دعا ختم کر دی اور آپ کی زبان مبارک پر یہ آیت تھی ، ترجمہ (Translation) : عنقریب(soon) سب بھگادیئے جائیں گے اور وہ پیٹھ پھیردیں گے۔(ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۷، القمر، آیت:۴۵)آپ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے کہ اس میں کامیابی کی خوشخبری (good news)کی طرف اشارہ تھا۔(سیرت ابن ہشام ج۲ ص۶۲۷مُلخصاً) جنگ بدر میں دوسری طرف یہ کیفیت (condition) تھی جیسا کہ حدیث کی مشہور کتاب ’’صحیح مسلم شریف ‘‘ ( جسے ’’بخاری شریف ‘‘ کے بعد ، مسلمانوں میں بہت اہمیّت (importance) حاصل ہے)میں ہے، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : الله پاک کے رسول صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہمیں بتا رہے تھے کہ یہا ں فلاں کافر قتل ہوگا اوریہاں فلاں ، جہاں جہاں حضورصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے بتایا تھا وہیں وہیں ان کی لاشیں گریں ۔ پھر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے حکم سے ان کی لاشیں ایک کنویں میں ڈال دی گئیں ۔پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وہاں تشریف لے گئے اور ان غیر مسلموں کو ان کے ناموں میں باپ کے ناموں کو ملا کر آواز دی (جیسے اے ابو جہل بن عبدُالمّطلب)اور فرمایا: جو سچا وعدہ اللہ ا ور رسول نے تمہیں دیاتھا وہ تم نے بھی پالیا؟ کیونکہ جو سچاوعدہ اللہ پاک نے مجھ سے کیا تھا، وہ میں نے تو پالیا(یعنی ہم جنگ میں کامیاب (succeeded)ہوگئے)۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ الله! صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، آپ ان جسموں سے بات فرما رہےہیں جن میں روحیں نہیں ۔ فرمایا: جو میں کہہ رہاہوں اسے تم ان سے کچھ زیادہ نہیں سنتے لیکن انہیں یہ طاقت نہیں کہ مجھے جواب دیں ۔ (مسلم،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلھا، ص۱۵۳۶، الحدیث: ۷۶( ۲۸۷۳)مُلخصاً) جنگ بدر میں اللہ پاک نے مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کا لشکر(unit) اتار دیا تھا۔ پہلے ایک ہزار(1000) فرشتے آئے پھر تین ہزار (3000)ہو گئے اس کے بعد پانچ ہزار(5000) ہو گئے۔( المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ،ج۲،ص۲۸۶) اللہ پاک فرماتا ہے: اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے(یعنی تمہارے پاس سامان نہ تھا) تو اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار (grateful)بن جاؤ۔ (پ۴،اٰل عمرٰن: ۱۲۳) (ترجمہ کنز العرفان)

214 ’’سیبوں کی ٹوکریاں ‘‘

ایک مرتبہ مسلمانوں کے خلیفہ(caliph) حضرت عمربن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکوسیب کھانے کی خواہِش (desire)ہوئی مگر پیسے وغیرہ نہ تھے جس سے وہ سیب خرید سکیں ۔ پھر آپ ایک گاؤں(village) کی طرف کسی کام سے چلے گئے ۔ گاؤں کے راستے میں کچھ لڑکے ملے جنھوں نے (تحفہ دینے کیلئے) ٹوکریاں اُٹھائی ہوئی تھیں اور اُن میں سَیب تھے۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ایک ٹوکری سے سیب اٹھاکر سُونگھا اور پھر واپَس کردیا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ نے تحفے(gift) کے سیب کیوں نہیں لیے، تو فرمایا: مجھے اِس کی ضرورت نہیں ہے ۔عرض کی گئی: کیارسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ابوبکرصِدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہُ اور عمرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُتُحفہ (gift) نہیں لیا کرتے تھے ؟(یعنی وہ حضرات تو تحفہ لے لیتے تھے) توفرمایا : اُن کے لئے ایسی چیزیں تحفہ ہی تھیں مگران کے بعد والوں کےلئے رِشوت ہے (کہ اب لوگ اپنے کام نکلوانے کے لیے حکمرانوں (rulers)، خلیفہ(caliphs) اور بڑوں کو مال یا رقم وغیرہ دیتے ہیں)۔(عمدۃ ُالقاری ج ۹ص ۴۱۸ مُلخصاً) اس واقعے سے معلوم ہوا کہ ہر کسی کا تحفہ(gift) نہیں لینا چاہیے کہ کچھ تحفےرشوت(bribery) بھی ہوتے ہیں۔حضرت عمربن عبدُالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے تُحفے کے سیب نہ لیے کیوں کہ آپ جانتے تھے کہ یہ تُحفہ مجھے خلیفہ ہونے کی وجہ سے دیا جارہا ہے اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو کوئی مجھے تحفہ کیوں دیتا؟ اور یہ بات تو ہر عقلمند آدَمی (wise man)سمجھ سکتا ہے کہ حُکومَتی افسران(government officers) بلکہ پولیس والوں کو لوگ کیوں تُحفہ دیتے ہیں؟یاد رہے!اس طرح تحفہ دینا رِشوت کے حکم میں ہے اوراس طرح رِشوت لینا دینا جہنَّم میں لے جانے والاکام ہے ۔(آدابِ طعام ص۵۴۱ تا۵۴۴ مُخلصاً)

215 ’’زمین سے پانی نکل آیا‘‘

مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے کہا کہ میرے والد صاحب پرآپ کاکچھ قرض (loan)باقی ہے ۔ آپ نے فرمایامیں نے معاف کردیا ۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اس قرض کو معاف کروانا نہیں چاہتا لیکن میرے پاس ابھی آپ کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں، ہاں میرے پا س زمینیں (lands)ہیں ۔ آپ میری وہ زمین اپنے قرض میں لے لیں مگر اس زمین میں کنواں (well) نہیں ہے اور پانی حاصل کرنے کے لیے کوئی دوسری چیز بھی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایاکہ ٹھیک ہے میں نے آپ کی وہ زمین لے لی۔پھر آپ اس زمین میں تشریف لے گئے اوروہاں پہنچ کر اپنے غلام کو جائے نماز(وہ کپڑا جو نماز پڑھنے کے لیے بچھایا جاتا ہے)بچھانے کا حکم دیا ( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )اورآپ نے اس جگہ دو(2)رکعت نماز پڑھی اوربڑی دیر تک سجدہ کیا پھر جائے نماز اٹھاکر آپ نے غلام سے فرمایا کہ اس جگہ زمین کھودو۔ غلام نے زمین کھودی تو فوراً وہاں سے پانی نکلنے لگا اور اتنا زیادہ تھا کہ اس زمین کے ساتھ ساتھ دوسری زمینوں کی ضرورت(need) کو بھی پورا کرنے والا تھا۔(اسد الغابہ ،ج۳،ص۱۳۵مُلخصاً) اس سچےواقعے سے یہ سیکھنے کو ملا کہ جب پریشانی(problem) آئے تو نماز پڑھ کر اللہ پاک سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اے ایمان والو! صبر اور نمازسے مدد مانگو، بیشک اللہ صابروں(یعنی صبر کرنے والوں) کے ساتھ ہے۔ (پ ۱، سورۃ البقرۃ، آیت ۴۵) (ترجمہ کنز العرفان)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا جب خلیفہ (caliph)بنے، تو آپ نے کعبہ شریف کی تعمیر (construction)، اُس نقشے کے مطابق(according to that map) کروائی جو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پسند فرمایا تھا یعنی حطیم(وہ جگہ جو کعبہ شریف کے ساتھ آدھے گول دائرے کی شکل میں ہے) کی زمین کو کعبہ شریف کی عمارت(building) میں لے لیا۔ اور دروازہ زمین کے برابر نیچے کر دیا اور مزید دو (2) دروازے بنا دیے۔ (حاشیہ بخاری ،ج۱، ص۲۱۵ ،باب فضل مکہ مُلخصاً) امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شہادت کے بعد، یزیدنے مزیدبہت سے شیطانی کام کیے۔ اس نے مدینہ پاک میں قتل کیے اور اب یہ بد نصیب(unlucky) شخص، جنّتی صحابی حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو شہید(یعنی قتل(murder)) کرنے کے لئے مکّے شریف گیا۔مسجدُ الحرام ( جس مسجد میں کعبہ شریف بھی ہے) کے باہر سے خاص قسم کے ہتھیار(weapons) سے پتھر پھینکے جس کی وجہ سے کعبہ شریف میں آگ لگ گئی۔

216 ’’ امامت کُبریٰ اور خلافت(Caliphate)‘‘

ہمارے ہاں! امامت کا معنیٰ یہ ہے کہ لوگوں کو نماز پڑھانا ،لیکن امامت کُبریٰ سے مراد نماز پڑھانے والے امام صاحب نہیں بلکہ اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا، تو ضرورت اس بات کی ہےکہ مسلمان کسی امیر ( یعنی حاکم)کے پیچھے اپنے دینی و دنیاوی معمولات (routines)چلائیں۔ امامِ اَ کْبَر وہ شخص ہے کہ جو نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعلیمات (teachings)کے مطابق ، اُن کا نائب(deputy) ہونے کی حیثیت (status)سے مسلمانوں کے تمام دینی ا وردنیوی معاملات (routines) میں شریعت کے مطابق حکم دینے کا مکمل اختیار (authority) رکھتاہو اور جائز کاموں میں اُن کا حکم ماننا، ساری دنیا کے مسلمانوں پر فرض ہو۔ اِس امام کے لیے مسلمان، آزاد(آج کل سب انسان آزاد ہیں، اب غلام نہیں پائے جاتے)، عاقل(عقلمند)، بالغ، قادر(یعنی جو اپنے علم، بہادری، عدل وانصاف وغیرہ کی وجہ سے امام بننے کی طاقت رکھنے والا)، قرشی (یعنی قبیلہ (tribe)قریش سے) ہونا شرط(condition) ہے۔ امام ہونے کے لیے صرف ان باتوں کا پایا جانا کافی(enough) نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ دینی و دنیاوی انتظامات (managements)کو چلانے والوں نے اُنہیں امام بنایا ہو، یا جو پہلے امامِ تھے، انہوں نے بنا یا ہو۔ امام ایسےشخص کو بنایا جائے کہ جو بہادر اور عالم ہو، یا علماء کی مدد سے کام کرے۔ امام کی اِطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، جبکہ اس کا حکم شریعت کے خلاف (against) نہ ہو، کیونکہ شریعت کے خلاف حکم میں کسی کی اطاعت نہیں۔ عورت اور نابالغ کی امامت جائز نہیں۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۱، ص۲۳۷ تا ۲۵۶ ماخوذاً) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏میرے بعد بارہ (12)خلیفہ ہوں گے ابوبکر تھوڑے ہی دن رہیں گے۔ ( المعجم الکبیر حدیث ۱۴۲ المکتبۃ الفیصیلۃ بیروت ۱ /۹۰)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں کہ: اس سے مراد وہ خُلفاء ہیں کہ والیانِ اُمّت(یعنی اُمّت کے نگہبان(guardian)، ان پر نظر رکھنے والے خیر خواہ(well wisher)) ہوں اور عدل(یعنی انصاف) و شریعت کےمطابق حکم کریں، یہ ضروری نہیں کہ ایک کے بعد دوسرا ہو بلکہ فاصلہ (gap) بھی ہو سکتا ہے۔ اُن میں سے خلفائے اربعہ(یعنی پہلے چار(4) خلیفہ) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اور(5)حضرت امام حسن مجتبٰے رَضِیَ اللہُ عَنْہ او ر(6)حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور (7)حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور(8) حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہمعلوم ہیں اور آخر زمانے(time) میں (9)حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہہوں گے۔یہ نو(۹) ہوئے، حدیث نے جو بیان کیے،اس کے مطابق تین(۳) اور بھی ہونگے مگریقین(believe) سے نہیں بتایا جاسکتا کہ کون ہونگے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۷،ص ۵۱ ماخوذاً) خلافتِ راشدہ ( یعنی جس میں خلیفہ بننے کی سب شرطیں(conditions) پائی جائیں، اُس ) خلیفہ کی وہ سچی خلافت ہے کہ جس میں انھوں نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نائب(deputy) ہونے کا پورا حق ادا فرمایا(یعنی دین و شریعت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں (responsibilities) پوری کیں)۔ پہلے چار (first four)خلیفہ کی فضیلت( اور بڑے مقام والا ہونا) ، اُن کی خلافت کی ترتیب (sequence) کے مطابق ہے یعنی جو اﷲ پاک کے نزدیک رسولوں، نبیوں (اور فرشتوں میں جو رسول ہیں) عَلَیْہِمُ السَّلَام کے بعد مخلوق(creatures) میں (چاہے وہ انسان ہوں یا فرشتے ہوں یا جنّ ہوں)سب سے افضل(superior) ہیں، وہ پہلے خلیفہ بنے،ان کے بعد جو افضل وہ دوسرے پھر تیسرے پھر چوتھے۔سب سے پہلے(1st ) خلیفہ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ بنے یہ اُمّت میں سب سے افضل(superior) ہیں ، پھر دوسرے(2nd )خلیفہ عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ بنے یہ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے بعد اُمّت میں سب سے افضل ، پھر تیسرے (3rd )خلیفہ عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ بنے یہ ان دونوں حضرات(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا) کے بعد اُمّت میں سب سے افضل(superior) ، پھر چوتھے(4th ) خلیفہ مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ بنے یہ ان تینوں حضرات(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) کے بعد اُمّت میں سب سے افضل ہیں۔ افضل (superior) کے یہ معنی ہیں کہ اﷲ پاک کے یہاں زیادہ عزت والا یا زیادہ ثواب والا۔ چاروں خلیفہ سچے اورسب قطعی(یعنی یقینی طور پر۔definitely) جنّتی ہیں۔ جو شخص حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ یا حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے افضل بتائے وہ گمراہ ،بدمذہب اور جہنّم میں لے جانے والا عقیدہ (belief) رکھنے والاہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۱، ص۲۳۷ تا ۲۵۶ ماخوذاً) امیر المؤمنین مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے کچھ اس طرح فرمایا:ایسا نہیں ہوا کہ مَعَاذَاللہ!(یعنی اﷲ پاک کی پناہ) رسولاللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شہید ہوئے یااچانک(suddenly) انتقال فرماگئے بلکہ کئی دن رات حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےمرض شریف (یعنی بیماری)میں گزرے ، مؤذن(اذان دینے والا) آتا نماز کی خبر دیتا، پیارے پیارے آقا، مدینے والے مُصطفیٰ، حبیب ِ مولیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مسلمانوں کے پہلے(1st ) خلیفہ، امیر المؤمنین ،حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو امامت(یعنی نماز پڑھانے) کا حکم فرماتے حالانکہ(although) میں(یعنی حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سامنے حاضر ہوتا تھا،پھر بھی مؤذن کے آنے پر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابوبکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہی کو نماز پڑھانے کا حکم دیتے۔ حضرت مولی علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ مزید کچھ اس طرح فرماتے ہیں : تو میں نے ابو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ان کا حق دیا اوران کی اطاعت (obedience) کو لازم جانا اور ان کے ساتھ ہوکر ان کے لشکروں میں جنگ بھی کی، جب وہ مجھے بیت ُالمال (یعنی مسلمانوں کےسرکاری خزانے(government treasure))سے کچھ دیتے تو میں لے لیتا اور جب مجھے لڑائی پر بھیجتے تو میں چلا جاتا۔(التاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۵۰۲۹ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳۳۷/۴۵ تا ۳۳۹ مُلخصاً)پھر مسلمانوں کے چوتھے (4th )خلیفہ ،امیر المومنین حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اسی طرح اطاعت(obedience) کرنےکی بات مسلمانوں کے دوسرے(2nd ) خلیفہ ،امیرالمومنین فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور مسلمانوں کے تیسرے (3rd )خلیفہ ،امیر المومنین عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے لیے بھی کہی۔(فتاوی رضویۃ، ج۲۸، ص۴۷۲۔ ۴۷۳مُلخصاً) حضرت امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اسلام کے پہلے بادشاہ ہیں، ان کے بارے میں تورات شریف میں اشارہ ملتاہے کہ: آخری نبی ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) مکّے میں پیدا ہو نگے، مدینہ پاک ہجرت فرمائیں گے( یعنی اللہ پاک کے حکم سے مکّہ شریف چھوڑ کرمدینہ پاک چلے جائیں گے) اور ان کی حکومت شام میں ہوگی۔ (المستدرک، کتاب تواریخ المتقدمین من الأنبیاء والمرسلین، الحدیث: ۴۳۰۰، ج ۳، ص۵۲۶مُلخصاً) یہ حکومت حضرت امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے کی۔ حضرت امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ وہ ہیں کہ جن سے پیارے آقا ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کے نواسے (grandson) امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے صلح کر لی(reconciliation یعنی اُن کی بات مان کر معاہدہ کر لیا) ان کے ہاتھ پر بیعت بھی فرمالی (یعنی اب "امیر "کی طرف سےجوحکم دیا جائے گا، اُنہیں بھی ماننے کا وعدہ کرلیا)۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےپہلے ہی اپنی ظاہری زندگی میں اس طرح ہونے والے واقعے کےبارے میں بتا تے ہوئے فرمایا تھا: میرا یہ بیٹا سیّد (یعنی سردار)ہے، میں اُمید کرتا ہوں کہ اﷲ پاک اس کے ذریعے (through)مسلمانوں کے دو (2) بڑے گروہوں(groups) میں صلح کرا دے۔ ( صحیح البخاري، کتاب الصلح، الحدیث: ۲۷۰۴، ج۲، ص۲۱۴ مُلخصاً) چوتھے(4th ) خلیفہ ،امیر المومنین علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا درجہ(spiritual status) اور فضیلت حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے بہت ہی زیادہ ہے مگر پھر بھی حضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہمارے سردار ہیں(فتاوی رضویہ ج۱۰،ص ۲۰۲ ماخوذاً) یاد رہے! کسی صحابی کے بارے میں بُرا عقیدہ (belief) رکھنا،بدمذہبی و گمراہی (اور جہنّم میں لے جانے والا کام )ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۱، ص ۲۵۲ مُلخصاً) حضرت علامہ شِہابُ الدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جو شخص حضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہپر طعن کرے (یعنی بُرا بھلا کہے) وہ جہنَّم کے کتوں میں سے ایک کُتّا ہے ۔ (نسیم الریاض ج۴ص۵۲۵)

217 ’’فرشتے فقیروں کے ہاتھوں پرپانی ڈال رہے تھے‘‘

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ چند نیک مسلمان رہا کرتے اور سب اللہ پاک کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ان بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ(burst) گیااور حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے ساتھ دیگر فرشتے سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوئے ۔فرشتوں کے ہاتھوں میں تھال (tray)اورجگ ( jug) تھے،میں جن نیک لوگوں کے ساتھ رہتا تھا اُن کے ساتھ وہاں موجود تھا۔اب فرشتوں نے ان نیک لوگوں کے ہاتھوں اور پاؤں پر پانی ڈالنا شروع کیا، جب وہ میرے قریب آئے تومیں نے بھی اپنا ہاتھ آگے کیا تاکہ وہ مجھ پر بھی پانی ڈالیں تو انہوں نے میرے ہاتھ پر بھی پانی ڈالا۔ (حکایتیں اور نصیحتیں ص۱۷۵،مُلخصاً) اس حکایت سے پتا چلا کہاللہ پاک نے فرشتوں کو مختلف کام (different work)کرنے کی ذمہ داریاں(responsibilities) دی ہیں۔ یہ و ہی کرتے ہیں جو اللہ پاک نے انہیں حکم دیا ہے ، اللہ پاک کے حکم کے خلاف (against)کچھ نہیں کرتے۔

218 ’’ہاروت عَلَیْہِ السَّلَام ا ورماروت عَلَیْہِ السَّلَام کا صحیح واقعہ‘‘

اللہ پاک نے مخلوق (creatures) کے امتحان کے لئے دو (2)فرشتوں یعنی ہاروت عَلَیْہِ السَّلَام اور ماروت عَلَیْہِ السَّلَام کو دنیا میں بھیجا۔ان دونوں کو جادو کا علم بھی دیا( کسی چیز کے ذریعے کوئی ایسا کام کرنا جو عام طور پر نہ کیا جا سکتا ہو، اُسے جادو کہتے ہیں۔ (شرح المقاصد، المقصد السادس، الفصل الاول فی النبوۃ، ۵ / ۷۹ مُلخصاً) مثلاً کوئی کچھ جملے پڑھے اور پانی پر چلنے لگ جائے ۔ یاد رہے! جادو کرنا کبھی کفر بھی ہوتا ہے جبکہ اس میں کفریہ الفاظ ہوں(صراط الجنان ج۱، ص۱۷۶) ۔ اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : وہ (جادو) جو بابِل شہر میں دو (2) فرشتوں ہاروت و ماروت(عَلَیْہِمَاالسَّلَام) پراتارا گیاتھا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو صرف(لوگوں کا) امتحان ہیں تو(اے لوگو!تم ) اپنا ایمان ضائع (یعنی برباد)نہ کرو۔وہ لوگ ان فرشتوں سے ایسا جادوسیکھتے جس کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال (یعنی الگ کر)دیں حالانکہ(although) وہ اس کے ذریعے کسی کو اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے اور یہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو انہیں نقصان دے اور انہیں نفع نہ دے اور یقیناً انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا ہے آخرت میں اس کا کچھ حصّہ نہیں اور انہوں نے اپنی جانوں کا کتنا براسودا کیا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ جانتے۔ (پ ۱، سورۃ البقرۃ، آیت۲ ۱۰) (ترجمہ کنز العرفان) ہر چیز میں اللہ پاک ہی اثر(effect) رکھنے والا ہے۔یعنی اللہ پاک چاہے تو ہی کوئی چیز نتیجہ(result) دے،اگر اللہ پاک نہ چاہے تو آگ جلا نہ سکے، پانی پیاس(thirst) نہ بجھاسکے اوردوا شِفا نہ دے سکے۔(صراط الجنان ج۱،ص۱۷۹مُلخصاً) فرشتوں کا جادو لے کر آنا، اس لیے تھا تاکہ یہ بات سمجھ لی جائے کہ جادو میں اثر (effect)بھی اللہ پاک ہی کی طرف سے ہے۔ فرشتے یہ بھی کہتے تھے کہ: ہم تو صرف(لوگوں کا) امتحان ہیں تو(اے لوگو!تم ) اپنا ایمان ضائع نہ کرو۔(پ ۱، سورۃ البقرۃ، آیت۲ ۱۰) (ترجمہ کنز العرفان) اب جو ان کی بات نہ مانے وہ نافرمان(disobedient) ہے اور اپنے پاؤں پہ چل کے خودجہنّم میں جانے والا ہے۔(الشفاءص۱۷۵-۱۷۶، الجزء الثانی مُلخصاً) کچھ وقت گزرنے کے بعد حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی حکومت آئی، تو اس وقت بنی اسرائیل جادو سیکھنے میں لگے ہوئے تھےتو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان کو اس سے روکا اور ان کی کتابیں لے کر اپنی کرسی کے نیچے دفن(buried) کردیں۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات کے بعد شیطانوں نے وہ کتابیں نکال کر لوگوں سے کہا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام اسی جادو سے اتنی بڑی حکومت کرتے تھے۔جادو کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے ”نبی “ہونے کا اعلان فرمادیا۔پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ اللہ پاک نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ذریعے لوگوں کو بتا دیا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام جادو گر نہ تھے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۷۳ مُلخصاً) اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اور یہ سلیمان کے عہدِ حکومت میں اس جادو کے پیچھے پڑگئے جو شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے کفر نہ کیابلکہ شیطان کافر ہوئے جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔(پ ۱، سورۃ البقرۃ، آیت۲ ۱۰) (ترجمہ کنز العرفان) اس واقعے سے معلوم ہوا کہ شیطان بہت سی غلط باتیں مشہور کر دیتا ہے، ہمیں سنی سنائی باتوں پر یقین (believe)نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی دینی بات ہو تو کسی اچھے سُنی عالم صاحب سے اس بارے میں ضرور، ضرور اور ضرور معلوم کریں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے فرشتے گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، یہ گناہ کرتے ہی نہیں ہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:ہارُوت ومارُوت عَلَیْہِمَاالسَّلَام کا واقعہ جس طرح عوام بتاتی ہے کہ مَعَاذَاللہ!(یعنی اللہ پاک کی پناہ) یہ قید میں ہیں،انہوں نے غلطیاں یا گناہ کیے ہیں، علماء کرام نے ان باتوں کا سخت انکار (denial) کیا ہے بلکہ کچھ علماء تو کہتے ہیں کہ یہ باتیں یہودیوں نے اپنی طرف سےبڑھا دی ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو اللہ پاک کے حکم سے جادو سیکھایا تو گناہ کیسے ہو گیا؟(فتاوی رضویہ ،ج۲۶،ص۳۹۶،ماخوذاً)

219 ’’فرشتوں کے بارے میں چند ضروری باتیں‘‘

ہیں اللہ پاک نے اِنہیں نُور سے پیدا کیا ہے یہ جس شکل میں آنا چاہیں آسکتے ہیں فرشتے معصوم ہوتے ہیں (یعنی ان سے گناہ ہوتے ہی نہیں) ۔یہ اللہ پاک کی کسی بھی طرح کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے (لھذا کوئی فرشتہ ایسا نہیں کہ اس نے نافرمانی کی اور اسے نافرمانی کی سزا ملی۔ابلیس یعنی شیطان جن تھا فرشتہ نہ تھا، خود قرآنِ پاک میں ہے، ترجمہ : وہ جنوں میں سے تھا۔ (پ ۱۵، سورۃ الکہف، آیت ۵۰) (ترجمہ کنز العرفان)) فرشتے وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے کچھ فرشتے مختلف انداز میں اللہ پاک کی عبادت اور تسبیح کرتے رہتے ہیں اس کے علاوہ فرشتے مختلف کام کرتے ہیں: () کچھ بارِش لاتے ہیں() کچھ ہَوا چلاتے ہیں () کچھ روزی پہنچاتےہیں () کچھ ماں کے پیٹ میں بچّہ کی شکل بناتے ہیں() کچھ انسان کی دشمن سے حفاظت کرتے ہی() کچھ مسلمانوں کے نیک اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں () کچھ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس مسلمانوں کے پڑھے ہوئے صلوٰۃ و سلام لے کر آتے ہیں () کچھ نامۂ اعمال لکھتے ہیں ()کچھ مرنے والے سے سوالات کرتے ہی() کچھ عذاب دینے کا کام کرتے ہیں () کوئی انسان کی رُوح نکال کر اُسے موت دیتے ہیں () جبکہ کوئی قیامت کے دن صُور پھونکیں گے (یہ ایک آواز ہوگی جو آہستہ آہستہ تیز ہوتی رہے گی ، جسے سن کرساری دنیا کے لوگ مر جائیں گے اور دنیا ختم ہو جائےگی) () کوئی نبیوں کی بارگاہ میں اللہ پاک کا پیغام پہنچاتے ہیں () بہت سارے فرشتے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس آج بھی حاضر ہوتے ہیں فرشتے نہ ہی مرد ہیں اور نہ ہی عورت یہ عقیدہ رکھنا کہ ’’فرشتے ہمیشہ ہمیشہ سے ہیں یا ساری دنیا کو پیدا کرنے والے ہیں‘‘کفر ہے کیونکہ یہ خود کچھ نہیں کرتے سب کچھ اللہ پاک کے حکم اور اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت سے کرتے ہیں فرشتوں کی صحیح تعداد (کہ وہ کتنے ہیں؟)اللہ پاک جانتا ہے اور اللہ پاک کے بتانے سے اس کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جانتے ہیں چار مشہور فرشتے ، باقی سب فرشتوں سے افضل اور رسول فرشتے ہیں: (۱)حضرتِ جِبریل عَلَیْہِ السَّلَام(۲)حضرت میکائیل عَلَیْہِ السَّلَام (۳) حضرت اِسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام (۴)حضرتِ عِزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اسی طرح عرش( ) اٹھانے والے فرشتے بھی رسول فرشتے ہیں(فتاوی رضویہ ،۲۹/۳۵۳ ماخوذاً) رسول ملائکہ کو رسول اس لیے کہتے ہیں کہ ان کو اللہ پاک کی طرف سے وحی آتی ہے تویہ رسول فرشتے بقیہ سب فرشتوں تک وہ بات پہنچاتے ہیں (النبراس شرح شرح ِعقائد۷۶۷) کسی فرشتے کی تھوڑی سی گستاخی کرنا بھی کُفْر ہے اِسی طرح فرشتوں کے ’’ہونے کا اِنکار(denial) کرنا‘‘ یا یہ کہنا کہ ’’فرشتہ تو بس نیکی کی طاقت کوکہتے ہیں، اِس کے علاوہ فرشتہ کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘یہ دونوں باتیں کُفر ہیں سب سے اہم بات یہ کہاللہ پاک فرشتوں کا محتاج نہیں ہے، یہ اس کی شان ہے کہ اُس نے فرشتوں کو اس طرح کی خدمت کے کاموں پر لگایا ہے۔( بہار شریعت، ۱/۹۰ تا۹۵ ماخوذ ا)
نوٹ:
جو بالکل صاف صاف کفر کہے، اُس کا اِسلام ختم ہوجاتا ہے۔یادرہے: کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے فرشتوں کے خلاف (against) کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔

220 ’’جنّات کو اسلام کی دعوت‘‘

نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اللہ پاک کی طرف سےحکم دیاگیاکہ وہ جنّات کو آخرت کے عذاب (punishment) سے ڈرائیں اورانہیں اللہ پاک کے دین کی دعوت دیں اوران کوقرآنِ مجیدپڑھ کر سنائیں۔ اللہ پاک نےجنّات کےگروہ (group)کوایک جگہ جمع کردیا۔نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم حضرت عبدُاللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ساتھ جنّات کے پاس تشریف لے گئے ۔حضرت عبدُ اللہ بن مسعودفرماتے ہیں کہ:میرے علاوہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکےساتھ کوئی دوسرا نہ تھا۔ہم چلتے رہے یہاں تک کہ مکّے پاک کے ایک محلے(an area)’’شِعبُ الحَجُوْن‘‘میں داخل ہوئے۔ پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے میرےلئے ایک دائرہ (circle)کھینچا اورمجھےاس میں بیٹھنے کاکہا اورفرمایا:میرے واپس آنے تک یہاں سے باہرنہ نکلنا۔پھرآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وہاں سےتشریف لے گئےاورکھڑے ہوکرتلاوتِ قرآن کرنے لگے۔میں نے گدھ (vultures) کی طرح اُڑتے ہوئے پرندوں کے پروں کی آواز سنی اورمیں نےشدیدشوربھی سنا۔ پھربہت سی کالی چیزیں میرے اورآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے درمیان آگئیں یہاں تک کہ مجھے آپ کی آوازمبارک نہیں آ رہی تھی پھروہ سب کالی چیزیں غائب ہوگئیں، اب فجرکا وقت ہو چکا تھا۔آپصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم میرے پاس تشریف لائے ۔میں نےعرض کی : یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم !میں نے سناکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جنّات کو عصامبارَکہ(لاٹھی شریف) سے مارتے ہوئے فرمارہے تھے : بیٹھ جاؤ۔ آپ نے فرمایا : کیاتم نے کچھ دیکھا؟میں نےعرض کی : جی ہاں !میں نے کالے رنگ کے کچھ آدمی دیکھے جن پرسفید کپڑے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا : وہ نَصیبین(ایک جگہ) کےجنّات تھے۔میں نےعرض کی : میں نے بہت شور بھی سناتھا۔ فرمایا : وہ اپنے درمیان ایک قتل (murder)ہونے والے کے فیصلے میں جلدی کررہے تھے انہوں نے مجھ سے فیصلے کے لئے کہاتومیں نے ان کے درمیان حق اور سچا فیصلہ کردیا۔ (الجامع القرآن،سورۃ الاحقاف ،۸/۱۵۳،تحت الآیۃ:۲۹ملخصا) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ جنّات کے لیےبھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر ایمان (believe)لانا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جنّات میں بھی دینِ اسلام کی تبلیغ کی اور انہیں بھی قرآنِ پاک کی تعلیم دی۔تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنّات بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےحکم کو پورا کرتے تھے اورآپس کےجھگڑوں میں ان کےدرمیان نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے فیصلہ کرواتے تھے۔چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ ویران جگہوں(deserted places) میں جنّات کی آبادیاں ہوتی ہیں ایسی جگہوں پرخصوصًا رات کے وقت نہیں جانا چاہیے ۔

221 ’’وہاں جنّات رہتے تھے ‘‘

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے مکۂ مکرمہ میں ایک ایسے شخص کوطواف کرتے ہوئے دیکھا کہ جو پہلے غیرمسلم تھا اور اب مسلمان ہو چکا تھا، میں نے پوچھا:تم نے اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑا؟اس نے کہا: میں اُس دین سے بہتر دین میں آگیا(اور یہ دین ہی سب سے بہتر ہے)۔میں نےپوچھا: یہ سب کیسے ہوا؟تواس نے اپنا واقعہ یوں بیان کیا:میں سمندر(sea) میں ایک کشتی پر سوار تھا،تھوڑی دور پہنچنے کےبعد کشتی ٹوٹ گئی۔ میں اس کے ایک تختے پر لٹک گیا،سمندر کی لہریں مجھےاِدھر اُدھر لے جاتی رہیں یہاں تک کہ لہروں نے مجھے ایک جزیرے (island)میں ڈال دیا،اس میں بہت درخت تھےاوران میں لگےپھل شہد سے زیادہ میٹھےاور مکھن سے زیادہ نرم تھے۔ایک صاف اورخوبصورت نہر (canal) تھی۔ میں نے اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور کہا: جب تک کوئی راستہ نہیں ملتا میں یہ پھل کھاؤں گا اور نہر سے پانی پیؤ ں گا۔جب رات ہوئی تو میں جانوروں کے خوف سے درخت پر چڑھ کرایک ٹہنی پر سو گیا، رات کا کچھ حصّہ گزرنے کے بعد میں نے پانی پر ایک جانور کوبہت اچھے انداز میں اللہ پاک کی تسبیح کرتے ہوئے دیکھا،صبح کے وقت اس نے پھر اللہ پاک کی تسبیح کی۔جب وہ جانور خشکی پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کا سر شتر مرغ (ostrich)جیسا،چہرہ انسان جیسا، ٹانگیں اونٹ کی ٹانگوں کی طرح اورمچھلی کےجیسی دُم ہے،میں اس سے بہت زیادہ ڈر گیا اورموت کےخوف سے بھاگنے ہی والا تھا کہ اس نے مجھےدیکھ کر کہا:تم اس وقت جنات کے جزیرے میں ہو ! رُک جاؤ،ورنہ مرجاؤگے۔پھر اس نےمجھ سے میرے دین کےبارے میں پوچھاتو میں نے جواب دیا:’’میں غیر مسلم ہوں‘‘اس نے کہا:اے نقصان اٹھانے والے! اسلام قبول (accept) کرلے ۔میں نے پوچھا:اسلام کیسے لاؤں؟اس نے کہا :اس بات کی گواہی دے کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ کے رسول ہیں۔ چنانچہ میں کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ پھراس جانور نے مجھ سے پوچھا:تم یہاں ٹھہرنا چاہتے ہو یا اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہتے ہو؟میں نے کہا: اپنے گھر والوں کےپاس جانا چاہتا ہوں۔اس نے کہا:تو پھر یہاں کھڑے رہو، ایک کشتی یہاں سے گزر ے گی۔ میں وہاں کھڑا رہا۔ وہ جانورسمندر میں اترکر میری آنکھوں سےگم ہو گیا پھرایک کشتی گزری جس میں چند لوگ سوار تھے۔ میرے اشارہ کرنے پر انہوں نے مجھے بھی کشتی میں بٹھالیا۔اس میں بارہ(12) غیرمسلم تھے۔ جب میں نے ان کو اپنا واقعہ بتایا تو سب کے سب مسلمان ہو گئے۔(حکایتیں اورنصیحتیں ،ص۶۰۷) اس حکایت سےہمیں یہ معلوم ہوا کہ انسانوں کےعلاوہ جنات بھی ہمارے پیارےنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو جانتے ہیں اوروہ بھی اللہ پاک اوررسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر ایمان (believe)رکھتے ہیں ،انہیں بھی آخری نبی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: مجھے کائنات کی تمام مخلوق(creatures) کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔(صحیح مسلم ،ص۲۱۱،حدیث:۱۱۶۸)دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنات بھی اللہ پاک کی تسبیح کرتے ہیں۔

222 ’’ جِنّات کے بارے میں چند ضروری باتیں‘‘

’’جنّات‘‘اللہ پاک کی مخلوق (creatures) ہیں اللہ پاک نے انہیں آگ سے پیدا کیا ہے بعض جنّات کو یہ طاقت بھی دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی شکل میں آسکتے ہیں جنّات کی عمر (age)بہت لمبی ہوتی ہے شرارت کرنے والے جنّات کو شیطان کہا جاتا ہے جنّات ہم انسانوں کی طرح عقل، رُوح اور جسم والے ہوتے ہیں اِن کی اولاد بھی ہوتی ہے جنّات بھی کھاتے، پیتے، جیتے اور مرتے ہیں جنّات میں بھی مسلمان اور غیر مسلم ہوتے ہیں اکثر جنّات غیر مسلم ہوتے ہیں جو جنّات مسلمان ہوتے ہیں ان میں اچّھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی ہوتے ہیں، لیکن بُروں کی تعداد زیادہ ہے جنّات کے’’ ہونے کا انکار(denial) کرنا‘‘ یا ’’بُرائی کی طاقت کا نام جنّ یا شیطان‘‘ رکھنا کُفر ہے۔ ( بہار شریعت،۱/۹۶ تا۹۷ ماخوذاً) بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خبیث(یعنی کافر اور گناہ گار) لوگوں کی روحیں مرنے کے بعد’’ بھوت‘‘ بن کر جنگلوں میں پھرتی ہیں اور لوگوں کو پریشان کرتی ہی، حدیثِ پاک میں اس کا انکار(denial) فرمایا گیا ہے۔ ہاں! اگر بھوت ، تنگ کرنے والے جنّ کو بولا جاتا ہے تو اس طرح کے جنّ پائے جاتے ہیں جیسا کہ حدیثوں سے پتا چلتا ہے۔(مراۃ ج۶، ص۴۱۶، ماخوذاً) جِنّ اور مرد و عورت کی ناپاک روحوں کا ذکرحدیثوں میں ہے ، وہ ناپاک جگہوں پر پائی جاتی ہیں۔ انہیں سے بچنے کے لئے اِستِنجاء خانے(toilet) جانے سے پہلے یہ دعا پڑھنا ہوتی ہے: ''اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبَا ئِث''۔ یعنی میں گندی اور ناپاک چیزوں سے اللہ پاک کی پناہ مانگتا ہوں۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۱، ص ۲۱۸ ،مُلخصاً)یہ یا اِس طرح کی اور کوئی دعا پڑھ کر جانے سے استنِجاخانے میں رہنے والے گندے جنّات نقصان نہیں پہنچا سکتے۔(کفریہ کلمات ص۳۱۴، مُلخصاً) ''قُلْ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ '' اور ''قُلْ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ''، یہ دونوں سورتیں جنّ ، شیطان، نظر بد(یعنی بُری نظر) ، آسیب (یعنی تنگ کرنے والے جنّ)اور تمام بیماریوں خصوصاً (specially) جادو ٹونے کا بہترین علاج ہیں۔(عجائب القرآن ص،۲۳۱، مُلخصاً)جس گھر میں جنّ یا شیطان یا آسیب وغیرہ ہو تو مغرب کے بعد اُس گھر میں کچھ دن تک اذان پڑھنے سے یہ چلے جائیں گے۔(شامی، جلد اول ،ص۲۵۸ وایذان الاجر) اذان درست مخارج(یعنی صحیح طرح قرآنِ پاک پڑھنے کے اصولوں) کے مطابق دی جائے۔

223 ’’وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا ‘‘

جب اللہ پاک نے زمین و آسمان اور ساری کائنات(universe) کو پیدا کرنا چاہاتو اُس وقت نہ فرشتے تھے، نہ جنّ تھے، نہ چاند، نہ سورج، نہ جنّت، نہ دوزخ، نہ عرش( )، نہ کُرسی، نہ قلم تھا بلکہ کچھ بھی نہ تھا۔ جیسا کہحضرت عبدُاللّٰہبن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے کہا کہ: اللّٰہ پاک نے حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو وحی بھیجی(یعنی ایسا خاص پیغام(message) بھیجا جو اللّٰہ پاک اپنے نبیوں کو بھیجتا ہے) :اے عیسیٰ( عَلَیْہِ السَّلَام)! محمّد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )پر ایمان لاؤ! اور تمہاری اُمّت(nation) میں سے جو لوگ اس(یعنی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) کا زَمانہ(time) پائیں گے، ا نہیں بھی حکم کرنا کہ اس پر ایمان لائیں(کیونکہ) اگر میں محمّد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) کو پیدا نہ فرماتا تومیں آدم(عَلَیْہِ السَّلَام) کو(بھی) پیدا نہ کرتا، نہ ہی جَنَّت و دوزخ بناتا(کسی کو بھی پیدا نہ فرماتا)۔ اللّٰہ پاک نے مزید فرمایا: جب میں نے عرش کو پانی پر بنایا تووہ ہلنے لگا تھا تو میں نے اس پر ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘(ترجمہ : اللہ پاک کے علاوہ کسی کی بھی عبادت نہیں ہوسکتی اور محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ پاک کے رسول ہیں) لکھ دیا، تو وہ رُک گیا۔(الخصائص الکبری، باب خصوصیتہ بکتابۃ اسمہ الشریف …الخ ، ۱/ ۱۴) علماءفرماتے ہیں: اس پانی سے مراد سمندر کا پانی نہیں بلکہ عرشِ اعظم کے نیچےایسا پانی ہے جو ہوا پر ہے اور ہوا اللہ پاک کی قدرت (اور طاقت)سے ہے۔اس فرمان کا یہ مطلب نہیں کہ عرش پانی پر رکھا ہوا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پانی اور عرش کے درمیان کوئی چیز نہ تھی جیسے زمین و آسمان کے درمیان کچھ نہیں ہے۔( مراٰۃ ۷/ ۵۶۲ مُلخصاً) حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتےہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا : اے جابر(رَضِیَ اللہُ عَنْہ)! اللّٰہ پاک نے سب سے پہلے تیرے نبی کے نُور کو پیدافرمایا ۔ (کشف الخفاء ،حرف الہمزۃ مع الواو، ۱/ ۲۳۷) حدیث شریف میں موجود واقعے سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے صدقے اس دنیا کو بنایا اور سب سے پہلے اپنے حبیب(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کے نور کو پیدا فرمایا۔ اور یہ بھی پتا چلا کہکلمے شریف کی بہت برکت ہے کہ اس کی برکت سے ہلتا ہوا عرش رُک گیا۔

224 ’’ شب ِ قدر اور فرشتوں کے جھنڈے‘‘

جب شب ِ قدر( ) آتی ہے تو سِد رۃُالمنتہیٰ( یہ ساتویں آسمان پر ہے۔ جو چیزیں زمین سے اوپر اٹھائی جاتی ہیں یہاں تک ہی پہنچتی ہیں پھر یہاں سے لے لی جاتی ہیں اور جو چیزیں اوپر سے نیچے کے لیےاتاری جاتی ہیں، وہ بھی یہاں تک ہی پہنچائی جاتی ہیں پھر یہاں سے نیچے جاتی ہیں(حلیۃ ُ الاولیاء جلد۵،ص۳۴ مُلخصاً)) میں رہنے والے فر شتے اپنے ساتھ چار(4)جھنڈ ے لے کر اُترتے ہیں۔حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَامبھی ان کے سا تھ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک(1) جھنڈا پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مزار کی جگہ پر، دوسرا (2nd )جھنڈا طو رِ سینا پر(یہ وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے کلام فرمایا تھا)، تیسرا (3rd )جھنڈامسجد ِ حرام(مکّہ شریف کی وہ مسجد جہاں کعبۃ ُ اللہ شریف بھی ہے) پر اور چوتھا (4th )جھنڈا بیتُ المقدَّس (مُلک فلسطین میں موجود ’’ مسجدِ اقصیٰ ‘‘کہ جس طرف منہ کر کہ پہلے نماز پڑھی جاتی تھی مگر اب قیامت تک کعبہ شریف کی طرف ہی نماز پڑھی جائے گی)پر لگاتے ہیں ،پھر وہ مسلمانوں کے گھر میں جاکر انہیں سلام کرتے ہوئے کہتے ہیں : اے مؤ من مرد اور اے مؤمن عورت ! اللہ پاک تمہیں سلام بھیجتاہے۔ (تفسیرقرطبی،سورۃالقدر،تحت الآیۃ۵،الجزء العشرون،ص۹۷ ماخوذاً) اور جب فجر کا وقت شروع ہوتا ہے تو سب سے پہلے حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَامزمین وآسمان کے درمیان اونچائی پر(یعنی بیچ میں) چلے جاتے ہیں اور اپنے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں پھر جبرائیلعَلَیْہِ السَّلَام فرشتوں کو ایک(1) ایک کرکے بلاتے ہیں اور فرشتوں کا نور اور حضرت جبرائیلعَلَیْہِ السَّلَام کے پروں کا نور جمع (gathered)ہو جاتا ہے اوراس وجہ سے سورج بغیر شعاعوں (rays) کے نکلتاہے۔ پس جبرائیلِ امین اور دیگر فرشتے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لئے دعائے مغفرت کرنے کے لئے زمین وآسماں کے درمیان رُک جاتے ہیں۔ جب شا م ہو تی ہے تو آسما ن پر چلے جاتے ہیں توآسما ن کے فر شتے اُن سے پوچھتے ہیں: تم سب کہا ں سے آرہے ہو؟ تو یہ کہتے ہیں: ہم حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اُمّت (nation) کے پاس سے آرہے ہیں۔ آسمان کے فرشتے پوچھتے ہیں: اللہ پاک نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اُمّت کے نیک لوگوں کوبخش(یعنی معاف کر) دیاگیا اور گنہگاروں کے حق میں نیکوں کی سفارش (recommendation)قبو ل(accept) کر لی گئی ۔ تو وہ فرشتے صبح تک اس نعمت کے شکر میں اللہ پاک کی تسبیح ، حمد اور پاکی بیان کرتے رہتے ہیں ۔ پھر کُرسی( ) جھومنے لگتی ہے تو عر ش پوچھتا ہے: اے کرسی تمھیں کیا ہوا؟ تو کرسی کہتی ہے: مجھے جنّتِ عد ن(وہ جنّت کہ جس میں اللہ پاک کا دیدار ہوگا(مسلم، کتاب الایمان، ص۱۱۰، حدیث:۱۸۰ ،ماخوذاً)) نے جنّتِ نعیم (جس جنت میں اللہ پاک کے سامنے قیامت میں کھڑے ہونے کے ڈر سے گناہوں کو چھوڑنے والا جائے گا (تفسیر خزائن العرفان ،پارہ۲۷ ،سورۃ الرحمٰن، آیت ۴۶ ، ماخوذاً)) سے سن کر ، اس نے جنّت ُ الما ویٰ(آٹھ جنّتوں میں سے ایک جنّت) سے سن کر، اس نے سِدْرۃُ المنتہیٰ سے سن کر، اس نے اپنے رہنے والو ں سے سن کر، انہو ں نےحضرتِ جبرائیلعَلَیْہِ السَّلَام سے سن کر خبر دی کہ اللہ پاک نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اُمّت کو معاف فرمادیا اور گنہگاروں کے حق میں نیکو ں کی شفاعت(یعنی سفارش) قبو ل فر ما لی ہے۔یہ سن کر عرش بھی خو شی سے جھومنے لگتاہے تو اللہ پاک پوچھتا ہے: کیا ہوا؟حا لا نکہ اللہ پاک تو سب کچھ جا نتا ہے۔ عرش کہتا ہے :یا ربّ ! مجھے کر سی نے حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے حو ا لے سے خبر دی کہ تونے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اُمّت (nation) کو معاف کر دیا اوربُر و ں کے حق میں نیکوں کی سفارش(recommendation) قبول (accept) فرما لی ہے ۔ تو اللہ پاک فرما تا ہے جبرائیل(عَلَیْہِ السَّلَام) نے سچ کہا ،سد ر ۃُ المنتہیٰ نے سچ کہا، جنّتُ الما ویٰ نے سچ کہا ، جنّتِ نعیم نے سچ کہا ، جنّتِ عدن نے سچ کہا، کرسی نے سچ کہااوراے عرش! تو نے بھی سچ کہا ۔میں نے اپنے محبوب(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کی اُمّت کے لئے وہ اجر و ثواب تیا ر کیا ہے جونہ تو کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کا ن نے سنا اور نہ ہی کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا۔ (حکایتیں اور نصیحتیں ص۱۰۶ تا ۱۰۷ماخوذاً) حدیث شریف میں موجود ہر سال ہونے والے ان سچے حالات (conditions)سے پتا چلا کہ شبِ قدر کی بہت اہمیّت (importance) ہے۔ ہمیں یہ رات عبادت میں گزارنی چاہیے اور ساتھ ساتھ یہ پتا چلا کہ اللہ پاک کی دیگر مخلوقات (creatures) مثلاً عرش و کرسی بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری اُمّت (nation) سے محبّت کرتی ہیں۔

225 ’’عرش و کرسی‘‘

عرش:
عرش اللہ پاک کی ایک بہت بڑی،بلند (یعنی اونچی)اور نورانی مخلوق (creature) ہے ۔عرش و کرسی پر ایمان(believe) لانا یعنی اس بات کا یقین(believe) رکھنا کہ اللہ پاک نے ان کو پیدا کیا ہے، یہ واجب ہے۔(تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید، ص۴۳۴) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےنور کو پیدا کرنے کے بعد اللہ پاک نےعرش کو پیدا فرمایا۔ (شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید، ص۳۹۰) عرش تمام مخلوق میں سب سے بڑا ہے۔ ساتویں آسمان کے اوپر عرش ہے۔( تفسیرکبیر، پ ۱۲، ھود، تحت الآیۃ:۶، ۷/۳۲۰) بلکہ جنّت کی چھت پر عرش ہے۔ (شرح المقاصد، ۳/۳۶۱)اسی سے جنّت کی نہریں نکلتی ہیں۔( بخاری، ۴/۵۴۷، حدیث:۷۴۲۳، ماخوذاً) امام ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : عرش کی اصل حقیقت(reality) کا یقینی طور پر (definitely)علم نہیں ہے اس لئے اس بارے میں خاموش رہنا بہتر ہے۔اس کی شکل وصورت گول نہیں ہے بلکہ وہ گنبد (dome)کی طرح ہے جوجنّت کی چھت پر ہونے کے ساتھ تمام مخلوقات (creatures) اور دنیا کے اوپر بھی ہے اور اس کے چار (4)ستون(column) ہیں۔( تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید، ص۴۳۴، شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید، ص۳۹۰) اللہ پاک کا عرش کبھی اللہ پاک کے غضب(جلال) کے خوف سے ہلنے لگتا ہے اور کبھی اللہ پاک کی رحمت سے اُمید (hope)پر: (1) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏شادی کرو اور طلاق نہ دیا کرو کہ طلاق سے(عرش کے ہر طرف (surround)موجودفرشتے کانپتے ہیں تو) عرشِ الٰہی ہلنے لگتا ہے۔ (جامع الصغیر، ص۱۹۷، حدیث:۳۲۸۹ مع فیض القدیر ج۳، ص ۲۴۳مُلخصاً) (2) فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏اچھی نیّت عرش سے چمٹ(یعنی چپک) جاتی ہے پس جب کوئی بندہ اپنی نیّت کوسچا کر دیتا (یعنی اپنی نیّت کے مطابق عمل کرتا) ہے تو عرش ہلنے لگ جاتا ہے، پھر اس بندے کو بخش(یعنی معاف کر) دیا جاتا ہے۔(تاریخ بغداد، ۱۲/۴۴۴، رقم:۶۹۲۶) فرمانِ نبّیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏بے شک قیامت کے دن اللہ پاک کے عرش کے سائے(shadow) میں سب سے پہلے جگہ پانے والا وہ شخص ہوگا جس نے کسی تنگد ست( یعنی غریب قرض(loan) لینے والے) کو مہلت دی (یعنی قرض لینے والے کو قرض واپس کرنے کا ٹائم مزید بڑھا دیا ہوگا)یہاں تک کہ وہ قر ض کی ادا ئیگی (یعنی واپس کرنے)کے لئے (کوئی چیز)پالے یا اپنا قرض معاف کردیا اور کہا کہ میرا مال تم پر اللہ پاک کی رضا (اور خوشی)کے لئے صدقہ ہے اور اُس قرض کی رسید کوجلا(burnکر)دے۔( مجمع الزوائد، ۴/۲۴۱، حدیث: ۶۶۷۰)
کرسی اور قلم :
کرسی بھی اللہ پاک کی بہت بڑی نورانی مخلوق(creature) ہے۔ یہ عرش کے نیچے ہے لیکن عرش سے ملی ہوئی ہے(یاد رہے!عرش اور کرسی دو الگ الگ چیزیں ہیں)اور ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو (500)سال کا فاصلہ (distance) ہے ۔ اللہ پاک ان چیزوں کا محتاج(یعنی ضرورت مند) نہیں لہٰذا اس نے عرش اس لیے نہیں بنایا کہ اُسے کوئی اونچی جگہ چاہیے اور کرسی اس لیے نہیں بنائی کہ اس پر بیٹھے (مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ)۔ (تحفۃ المرید، ص:۴۳۴، ۴۳۵) یاد رہے! اللہ پاک جسم اور جگہ سے پاک ہے۔ اللہ پاک بہت بڑی شان والا ہے، اللہ پاک نور ہے، اللہ پاک کا علم اور قدرت ہمارے بہت قریب ہے(یعنی وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو جانتا ہے اور جو چاہے، جب چاہے کر سکتا ہے)، ہماری عقلیں بہت بہت بہت چھوٹی ہیں اور اللہ پاک کی ذات بہت بہت بہت بڑی ہے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏ساتوں آسمان کرسی کے آگے ایسے ہیں جیسے صحرا (desert) میں ایک چھلاپڑا ہو (یعنیringپڑی ہو) اور عرش کرسی کے سامنےاتنا بڑا ہے جیسے کسی صحرا(یعنی ریگستان)کے سامنے چھلا (ring)۔ ( کتاب العظمۃ، ص۸۳، حدیث:۲۰۸) حضرت وہب بن منبہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :کرسی کے چار پائے (four legs)ہیں۔( کتاب العظمۃ، ص۹۵) کرسی کی اصل حقیقت(reality) کا علم، اللہ پاک کو ہے۔ فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏کرسی بھی موتی (pearl)کی ہے اور قلم بھی موتی کا ہے، قلم کی لمبائی (length)سات سو(700)سال کے سفر جتنی ہے ۔(کتاب العظمۃ، ص۱۰۱، حدیث:۲۰۶) قلم کی اصل حقیقت (reality) کا علم، اللہ پاک کو ہے

226 ’’ صحابی کے دشمن کی موت ‘‘

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میرے ایک مزدور نے مجھے خبر دی کہ فلاں مسافر خانے (جہاں مسافر لوگ آتے جاتے رہتے ہیں)میں ایک شخص مرگیا ہے اور وہاں اس کا کوئی جاننے والا نہیں ہے۔ مجھے اس پر رحم آیا، میں وہاں پہنچا، مجھے کسی نے کہا کہ یہ بڑا نیک آدمی تھا لیکن آج اس کے لیے کفن بھی نہیں ہے۔ میں اس کے غسل کے لیے سب چیزیں لے آیا اور اس کے غسل کی تیاری شروع کردی۔ وہ مردہ اُٹھ گیا اورچیخنے لگا(Start screaming):ہائے آگ، ہائے ہلاکت، ہائے بربادی! ہائے آگ، ہائے ہلاکت، ہائے بربادی! اس کے ساتھی ڈر کر بھاگ گئے۔ میں اس کے قریب گیااور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔ پھر اس سے پوچھا: تُو کون ہے اور تیرے ساتھ کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا: میں ایسے برے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا کہ جو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُاور حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو بُرا بھلا کہتے تھے ۔ان لوگوں کی وجہ سے میں بھی ایسا ہی کرنے لگا ۔ وہی بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزیدفرماتے ہیں کہ: میں نے اس کی یہ بات سن کر اَسْتَغْفِرُاللہ!پڑھا اور کہا:'' اے بد نصیب (unlucky)!پھر تو تجھے سخت سزا(punishment) ملنی چا ہے اور تُومرنے کے بعد زندہ کیسے ہوگیا ؟ تو اُس نے جواب دیا: میرے نیک اعمال نے مجھے کوئی فائدہ نہ دیا۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُم سے دشمنی کی وجہ سے مجھے مرنے کے بعد گھسیٹ(drag) کر جہنّم کی طرف لے جایاگیا اور وہاں مجھے میری جگہ دکھائی گئی، جہاں بہت بڑی آگ تھی پھر مجھ سے کہا گیا : تو دوبارہ زندہ ہوگا تاکہ تُو اپنے برے ساتھیوں کو یہ سب بتا سکے اور انہیں بتانا کہ جو کوئی اللہ پاک کے نیک بندوں سے دشمنی رکھتا ہے اس کا آخرت میں بہت برا انجام(result) ہوتا ہے ، جب تُو ان کو اپنے بارے میں بتا دے گا توپھر دوبارہ تجھے جہنّم میں تیری جگہ میں ڈال دیا جائے گا۔اِتناکہنے کے بعد وہ شخص دوبارہ مر گیا۔ پھر میں اُسے اسی طرح چھوڑ کر چلا گیااور اس کے بُرےعقیدے (beliefs) والے ساتھیوں نے ہی اسے غسل و کفن دیا۔(عُیُون الحکایات ،ح ۱،ص۲۴۶ تا ۲۴۸ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے یہ سیکھنے کوملا کہ صحابہ کرام اور اہل بیت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے دشمنی دنیا اور آخرت کی بربادی والا کام ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ’’صحابہ کے معاملہ میں مجھے تکلیف نہ پہنچانا کیونکہ قیامت کی علامات (یعنی نشانیوں )میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس اُمّت کے بعد والے پہلوں(یعنی پہلے انتقال کرنے والوں) پر لعنت کریں گے۔(سیراعلام النبلاء، اویس القرنی، ج۵، ص۷۸)

227 ’’نَماز صحیح طرح آنی چاہیے‘‘

ایک تابعی بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتےہیں(’’تابِعی‘‘اس خوش نصیب(lucky) کو کہتے ہیں جس نے (ایمان کی حالت(condition) میں)کسی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملاقات کی ہو(اور ان کا انتقال بھی ایمان پر ہوا ہو) ۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ، ص۳۹۲ )): میں کئی دن کا سفر طے کر کے کسی شخص کے پاس(حدیث پاک سننے) جاتا ہوں تو پہنچ کر سب سے پہلے اُن کی نماز دیکھتا ہوں،اگر نماز کے حق( rights )ادا کرتے اور اسے پورے طور پر صحیح پڑھتے ہوئےدیکھتا ہوں تو اُن کے پاس رُک کر اُن سے حدیث شریف سُن لیتا ہوں، اگر اسے نماز کے حق ضائع(waste) کرنے والا پاتا ہوں تو حدیث سنے بغیر واپس آجاتا ہوں اور(دل میں) کہتا ہوں کہ(جب) یہ (نماز کے حق ادا نہیں کر رہا تو) نماز کے علاوہ (دین کے) دیگر(حقوق) کو زیادہ ضائع کرتا ہوگا(تو ایسے شخص سے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کیحدیث کیسے سنوں؟)۔(حلیۃ الاولیاء،ج۲،ص۲۵۰،حدیث۲۱۱۹) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ نماز نہ پڑھنے کے بہت زیادہ نقصانات ہیں، ہمیں پانچوں نمازیں وقت پر اور سمجھدار بچّوں اور مردوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولی علی شیر خدا رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: قیامت قریب ہونے کی علامت (یعنی نشانی )ہے کہ تم لوگوں کو نماز ضائع کرتا ہوا دیکھو گے۔(کنز العمال ج۱۴ص۲۴۳حدیث۳۹۶۳۲) علماء فرماتے ہیں :نماز ضائِع کرنے سے مراد یہ ہے کہ لوگ یا تو بالکل نماز ہی نہیں پڑھیں گے یا پڑھیں گے تو اس کا کوئی فرض یا واجب چھوڑدیں گے۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ ص۱۲۳)

228 ’’ قیامت آنے سے پہلے کی چند نشانیاں‘‘

زمین و آسمان، جن و اِنسان و فرشتے سب ایک دن فنا(یعنی ختم) ہونے والے ہیں، صرف اﷲ پاک ہے کہ جو ہمیشہ سے ہمیشہ ہے۔ دنیا کے ختم ہونے کا نام قیامت ہے، اس سے پہلے چند نشانیاں(signs) سامنے آئیں گی: {}تین (3)جگہ آدمی زمین میں دھنس جائیں گے(یعنی زمین میں چلے جائیں گے)، ایک مشرق (east)میں، دوسرا مغرب (west)میں، تیسرا (3rd )عرب کی کسی جگہ میں{} علما ء کم ہو جائیں گے یعنی انتقال کرتے جائیں گے{} علم کی کمی ہوگی اور جہالت(یعنی علم سے دوری) بہت ہوگی {} بے حیائی بہت عام ہوگی{} مرد کم ہوں گے اور عورتیں زیادہ ہوں گی{} بڑے دجّال کے علاوہ تیس(30) دجّال اورہوں گےاور وہ سب نبی ہونے کا جھوٹادعوی کریں گے، حالانکہ(although) ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نیا نبی آہی نہیں سکتا، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام، آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نائب (deputy)کے طور پرتشریف لائیں گے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُمّت میں سے ہوں گے( خصائصِ کبریٰ، ۲/۳۲۹) {} مال بہت زیادہ ہو جائے گا،ملک عراق میں موجودنہر (canal)فرات اپنے خزانے(treasures) کھول دے گی کہ وہ سونے کے پہاڑ ہوں گے{} ملک ِعرب میں کھیتی اور باغ اور نہریں ہوجائیں گی{} دین پر قائم رہنا بہت مشکل ہوگا جیسے ہاتھ میں جلتا ہوا کوئلہ(burning coal) لینا ، یہاں تک کہ آدمی قبرستان میں جاکر چاہے گا، کہ کاش! میں اِس قبر میں ہوتا{} وقت میں برکت نہ ہوگی، یہاں تک کہ سال مہینے کی طرح ،مہینا ہفتے کی طرح اور ہفتہ دن کی طرح اور دن ایسا ہوجائے گا جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور وہ جل کر ختم ہوگئی ، یعنی وقت بہت جلدی جلدی گزرے گا {} زکوٰۃ دینا لوگوں پر بوجھ ہوگا کہ اس کو تاوان (Penalty) سمجھیں گے{} علمِ دین پڑھیں گے، مگر دین کے لیے نہیں(بلکہ دنیا بہتر کرنے کے لیے) {} مرد اپنی بیوی کے حکم کے مطابق چلے گا{} ماں باپ کی نافرمانی(disobedience) کریگا{} اپنے دوستوں سے میل جول رکھے گا اور باپ سے الگ رہے گا{} مسجد میں لوگ چِلّائیں گے(people will shout){} گانے باجے بہت زیادہ ہونگے{} جو لوگ پہلے گزر گئے(یعنی فوت ہوچکے) ہونگے ، بعد والے ان پر لعنت کریں گے، ان کو بُرا کہیں گے{} جانور، آدمی سے باتیں کریں گے، جُوتے کا تَسْمہ(Shoe lace) کلام کریگا، اُس کے بازار جانے کے بعد جو کچھ گھر میں ہوا بتائے گا، بلکہ خود انسان کی ران(thigh) اُسے خبر دے گی{} ایسےلوگ جن کے پاس جسم چھپانے کا کپڑا، پاؤں میں پہننے کی جوتیاں نہ تھیں(یعنی بہت غریب تھے)، بڑے بڑے محلوں (palaces) میں غرور اور فخر(pride) سے رہیں گے۔ (بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱۱۶ تا ۱۲۰ بتغیر)