39) ’’ فرض روزے ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس نے اللہ پاک کی رِضا (اور خوشی)حاصِل کرنے کیلئے ایک دن کا روز ہ رکھا ، تو اللہ پاک اُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا کہ ایک کوّا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہوکر مَرجائے۔ ( مسنَد ابی یعلٰی ج۱ ص۳۸۳حدیث۹۱۷) ، کہاجاتاہے، ''کوّے کی عُمْر پانچ سو سال تک ہوتی ہے''۔(غُنْیَۃُ الطَّالِبِین)
حکایت: بچوں کا روزہ ایسا ہی ہوتا ہے اعلیٰ حضرت ،امامِ اہل سنت مولانا احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہچھوٹے سے تھے کہ رمضان کا پیارامہینا آیا تو اس میں اعلیٰ حضرت کا پہلا روزہ رکھنے کا پروگرام(program) رکھا گیا ، گھر میں افطاری کے لیے خوب سامان تیار کیا گیا،ایک کمرے میں فیرینی (دودھ سے پکے ہوئے چاول کی میٹھی ڈش (dish)کے پیالے جمانے کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ دوپہر ہوئی تو سخت گرمی تھی، اعلی حضرت کے والد صاحب آپ کو کمرے میں لے گئےاور دروازہ بندکرکے ایک پیالہ اٹھا کر دیتے ہوا کہا: اِسے کھا لو۔اعلٰی حضرت جو اس وقت بچّے تھے عرض کرنے لگے کہ :میرا توروزہ ہے، میں کیسے کھاؤں؟ والد صاحب نے فرمایا کہ: بچّوں کا روزہ ایسا ہی ہوتا ہے ،لو کھالو ،میں نے دروازہ بند کردیا ہے ،کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے ( یاد رہے کہ بچّہ روزہ رکھے اور کھانا مانگے تو کھانا وغیرہ دینا ہوگا)۔ اعلٰی حضرت نے عرض کیا کہ: جس کے حکم سے روزہ رکھا ہے ،وہ (یعنی اللہ پاک )تو دیکھ رہا ہے۔یہ سنتے ہی اعلی حضرت کے والدصاحب کی آنکھوں سے (خوشی) کے آنسو نکل آئے اور کمرہ کھول کر آپ کو باہرلے آئے ۔(حیات اعلیٰ حضرت ،ص ۸۷،مکتبہ نبویہ لاہور) فرض روزے: {1} روزے کا مقصد نیکی اور اللہ پاک کی خوشی حاصل کرنا ہے۔ روزے میں نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق(Practice) ہوتی ہے۔( تفسیرِ صِراطُ الْجِنان‘‘ جلد۱، صفحہ ۲۹۰ مُلخصاً) {2}مسلمان ہونے کے بعدجس طرح ہر مسلمان(عاقل وبالغ (grown-up)( ) مرد اور عورت) پر نماز فرض ہے اسی طرح رَمضان شریف کے روزے بھی ہر مسلمان (مرد وعورت ) عاقل وبالغ پر فرض ہیں۔ (دُرِّمُخْتار و رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۳۸۳مُلخصاً) {3}بچّہ یا بچّی کی عمر جب سات(7) سال مکمل ہو جائے اور روزہ رکھنے کی طاقت ہو کہ روزہ رکھنے سے طبیعت خراب نہ ہوگی تو باپ وغیرہ کو چاہیے کہ بچّےکو روزہ رکھوائیں(فتاویٰ رضویہ ج۱۰ص۳۴۵ماخوذاً) {4} ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں سے کچھ دن ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے غارِ حرا میں گزار ے تھے، اِس دَوران آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دن کو کھانا نہ کھاتے اور رات کو اللہ پاک کا ذکر کرتے تو اللہ پاک نے اُن دِنوں کی یاد تازہ کرنے کیلئے روزے فرض کئے تاکہ اُس کےحبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سنّت باقی رہے ۔ (فیضانِ رمضان ۵۸مُلخصاً) {5} روزے کی شرط یہی ہے(یعنی ضروری ہے) کہ روزہ دارجان بوجھ(کر) کھانے پینے اورکچھ دیگر چیزوں سے رُکا رہے ۔لیکن روزے کے کچھ اور آداب بھی ہیں جن کا جاننا ضروری ہے تاکہ ہم مکمل طور پر روزہ کی برکتیں حاصِل کرسکیں ۔ جیسا کہ روزے کے تین دَرَجے ہیں :(۱) عوام کا روزہ (۲)خَاص لوگوں کا روزہ (۳) بہت خَاص لوگوں کا روزہ۔ (۱) عوام کا روزہ : شریعت اور دین کے مطابق فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر مغرب کا وقت شروع ہونے تک جان بوجھ کر کھانے پینے اور کچھ دیگر چیزوں سے ’’رُکے رہنے‘‘کا نام روزہ ہے۔تو عام لوگوں کا روزہ یہی ہے۔ (۲)خَاص لوگوں کا روزہ:کھانے پینے اور کچھ دیگر چیزوں سے رُکے رہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے تمام حصّوں کو برائیوں سے ’’روکنا‘‘۔ یہ خاص لوگوں کا روزہ ہے( اور ہر مسلمان کو کم از کم اس طرح کا روزہ رکھنا چاہیےکہ برائیوں سے بچنا تو روزے کے علاوہ بھی ضروری ہے )۔ (۳) بہت خَاص لوگوں کا روزہ:اپنے آپ کو دنیا کی تمام چیزوں سے ’’روک‘‘ کر صرف اور صرف اللہ پاک کی طرف توجّہ (attention)رکھنا، یہ بہت خَاص لوگوں کا روزہ ہے۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۶۶ مُلَخَّصاً) ( )
(3) جواب دیجئے: س۱) روزے کا مقصد کیا ہے؟ کیا بچے بھی روزہ رکھیں گے؟ س۲) مسلمان کا روزہ کیسا ہونا چاہیے؟
40) ’’ روزے کی نیّت ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو فجر سے پہلے روزہ کا ارادہ(نیّت)نہ کرے اس کے روزے نہیں ہوتے۔ (ترمذی ابوداؤد نسائی،دارمی) علماء فرماتے ہیں :یعنی رمضان کے قضا روزے کی نیّت،فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے کرنا ضروری ہے ۔(مراۃ جلد۳،حدیث۲۱۳مُلخصاً)
دن بھر دودھ نہ پیتے حضرت شیخ سیّدعبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ولادت (birth)رمضان کے پیارے مہینے میں ہوئی اور پہلے(1st ) دن ہی سے روزہ رکھا۔ سحری سے لے کر افطاری تک آپ اپنی والدہ کا دودھ نہ پیتے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ: جب میرا بیٹا عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان شریف میں دن کے وقت دودھ نہ پیتا تھا۔ (بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکر نسبہ وصفتہ ،ص۱۷۲) روزے کی نیّت : {1} روزے کیلئےنیّت شرط (condition) ہے لہٰذا روزے کی نیّت کے بغیر اگر کوئی پورے دن بالکل نہ کھائے پئے تب بھی اُس کا روزہ نہ ہوگا ۔(رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۳۹۳ ماخوذ اً) {2} رَمضان شریف کا ادا روزہ ہو یا نفل، اِن میں سورج ڈوبنے کے بعد سے لے کراگلے دن میں’’نصف النہارِشرعی ‘‘سے پہلے پہلے تک جب بھی نیّت کرلیں روزہ ہوجائے گا (’’نصف النہارِشرعی ‘‘ کو ’’ضَحوَۂ کُبریٰ ‘‘ بھی کہتے ہیں ، namaz calendar یا prayer time dawateislami کی app کے ذریعے اس کا وقت دیکھا جاسکتا ہےیعنی آپ نے کل روزہ رکھنا ہے تو آج مغرب کے بعد آپ نیّت کر سکتے ہیں ، اسی طرح آنکھ دیر سے کھلی تو اب calendar میں ضَحوَۂ کُبریٰ کا وقت دیکھ کر آپ دن میں بھی نیّت کر سکتے ہیں)۔ (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتَار ج۳ص۳۹۳) {3} نیّت دِل کے اِرادے کا نام ہے زَبان سے کہنا شرط (condition) نہیں ،مگر زَبان سے کہہ لینا مستحب (اور ثواب کاکام )ہے اگر رات میں رَمضان کے روزےکی نیّت کریں تو یوں کہیں : نَوَیتُ اَنْ اَصُوْ مَ غَدًا لِلّٰہِ تَعَالیٰ مِنْ فَرْضِ رَمَضان۔ترجمہ :میں نے نیّت کی کہ اللہ پاک کے لئے کل رَمضان کا فرض روزہ رکھوں گا ۔ {4} اگر دن میں نیّت کریں تو یوں کہیں : نَوَیتُ اَنْ اَصُوْ مَ ھٰذاالْیومَ لِلّٰہِ تَعَالیٰ مِنْ فَرضِ رَمَضان۔ ترجمہ :میں نے نیّت کی کہ اللہ پاک کے لئے آج رَمضان کا فرض روزہ رکھوں گا۔ (جَوْہَرہ ج۱ص۱۷۵) {5} اگر دِن میں نیّت کریں تو ضروری ہے کہ یہ نیّت کریں کہ میں صبح صادق (یعنی فجر کا وقت شروع ہونے) سے روزہ دار ہوں ۔اگر اِس طرح نیت کی کہ اب سے روزہ دار ہوں صبح سے نہیں ،تو روزہ نہ ہوا۔ (جَوْہَرہ ج۱ص۱۷۵ و رَدُّالْمحتار ج۳ص۳۹۴) {6} ماہِ رَمضان کے دِن میں نہ روزے کی نیّت کی نہ یہ کہ ’’روزہ نہیں ‘‘ اگرچہ معلوم ہے کہ یہ رَمَضانُ الْمبارَک کا مہینا ہے تو روزہ نہ ہوگا۔ (عَالمگِیری ج۱ص۱۹۵) {7} رات کے کسی وَقت میں بھی نیّت کی پھر اِس کے بعد رات ہی میں کھایاپیا تو نیّت نہ ٹوٹی ،وہ پہلی ہی نیّت کافی ہے دوبارہ سے نیّت کرنا ضروری نہیں ۔ ( جَوْہَرہ ج۱ ص۱۷۵) {8} رَمَضانُ الْمبارَک کے ہر روزے کے لئے نئی نیّت ضروری ہے ۔ پہلی تاریخ یا کسی بھی اور تاریخ میں اگر پورے ماہِ رَمضان کے روزے کی نیّت کر بھی لی تو یہ نیّت صرف اُسی ایک دن کے حق میں ہے ،باقی دِنوں کیلئے نہیں ۔( اَیضاً ) {9} سحری کھانا بھی نیّت ہی ہے خواہ ماہِ رَمضان کے روزے کیلئے ہو یا کسی اور روزے کیلئے مگر جب سحری کھاتے وَقت یہ اِرادہ ہے کہ صبح کو روزہ نہ رکھوں گا تو یہ سحری کھانا’’نیّت‘‘ نہیں ۔ ( اَیضاً ص۱۷۶) (فیضانِ رمضان ۸۶ – ۹۰) آسانی اسی میں ہے کہ رمضان المبارک میں روزہ کے لیے سحری کر لیں تو یہی نیّت ہوگئی (سحری ہر روزے کے لیے سنّت ہے خواہ فرض ہو یا نفل)اور اگر سحری میں آنکھ نہ کھلی تو calendar میں ضحویٰ کُبریٰ کا ٹائم دیکھ کر یہ نیّت کر لیں کہ ’’ میں صبح سے روزے سے ہوں ‘‘۔ {10} رمضان کا روزہ قضا رکھنا ہو تو اس کی نیّت رات میں (یعنی صبح صادق / فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے) کرنا ضروری ہے ، دن میں نیّت کرنے سے یہ روزہ نہیں ہو گا ۔( )
(4) جواب دیجئے: س۱) مسلمان کا روزہ کیسا ہونا چاہیے؟ س۲) کیا روزے کی نیّت ضروری ہے؟ آسانی کس بات میں ہے؟
41) ’’ روزے توڑنے والی چند چیزیں ‘‘
حدیثِ مُبارک: کچھ لوگوں کوٹخنوں(ankles) کی رَگوں (veins)میں باندھ کر (اُلٹا)لٹکایا گیاتھا (hanged upside down) اور اُن لوگوں کے جبڑے(Jaws) پھاڑ (torn)دئیے گئے تھے جن سے خون(blood) بہ رہا تھا، تو میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟تو مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ روزہ اِفطار کرتے(یعنی توڑ دیتے) تھے اِس سے پہلے کے اُن کو روزہ اِفطار کرنا حلال ہو۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۹ص۲۸۶حدیث۷۴۴۸)
حکایت: بیماری میں بھی روزے امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ(رمضان شریف سے دو(2) مہینے پہلے) رجب کے مہینے میں والد صاحب(یعنی مفتی نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) کو خواب میں دیکھا ،فرما رہے تھے: اَحمد رَضَا! آنے والے رمضان میں تم بیمار ہو جاؤگےاور بیماری زیادہ ہوگی تو روزہ نہ چھوڑنا ۔(اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزید( فرماتے ہیں:اللہ پاک کا شکر ہے کہ جب سے روزے فرض ہوئے کبھی نہیں چھوڑے، نہ سفر میں ، نہ بیماری میں، کسی حالت میں کوئی روزہ نہیں چھوڑا۔ (جیسا خواب میں آکر اللہ پاک کے ولی ، بہت بڑے مُفتی یعنی والد صاحب نے فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا ) رمضان شریف میں بیمار ہوا اور بہت بیمارا ہوا مگر اللہ پاک کے کرم سے روزے نہ چھوڑے۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص۴۱۳ مُلخصاً) روزہ توڑنے والی چند چیزیں : {1} کھانے ، پینے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۹۸۵ مُلخصاً) {2} حقہ،سگریٹ وغیرہ پینے سے بھی روزہ جاتا رہتا ہے، اگرچہ ہمارا یہ خیال ہو کہ حلق تک دُھواں(smoke) نہیں گیا۔ (ایضاً ص۹۸۶) {3} پان یا صرف تمباکو کھانے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے اگر چِہ بار بار اس کی پیک تھوکتے رہیں ،کیوں کہ حلق میں اُس کے باریک ذَرّے ضرور جاتے ہیں ۔ (اَیضاً) {4} شکر (یعنی چینی) وغیرہ ایسی چیزیں جو منہ میں رکھنے سے گُھل ( یعنی تھوک(spit) کے ساتھ مکس ہو) جاتی ہیں(ایسی چیزیں) مُنہ میں رکھی اورتھوک نگل گئے ،روزہ جاتا رہا۔( اَیضاً) {5}دانتوں کے دَرمیان کوئی چیز چنے کے برابر یا زیادہ تھی اُسے کھا گئے تو روزہ ٹوٹ گیا۔ (دُرِّ مُخْتَار ج۳ص۴۵۲) {6} دانتوں سے خون نکل کر حلق سے نیچے اُترا اور اُس کا مزا حلق میں محسوس ہواتوروزہ ٹوٹ گیا ۔ (ایضاًص۴۲۲) {7} کلی کررہے تھے اور یہ یاد ہے کہ میرا روزہ ہے پھر بغیر ارادے کےپانی حلق سے نیچےاُتر گیا یا ناک میں پانی چڑھایا اور دِماغ کو چڑ ھ گیا روزہ ٹوٹ گیا۔اور اگر یہ بھول گیا تھا کہ ’’ میرا روزہ ہے ‘‘ تو اب روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۲) {8}جب تک تھوک(spit) منہ کے اندر موجود ہواُسے نگل جانے سے روزہ نہیں جاتا،بار بارتھوکتے رہنا ضروری نہیں ۔(فیضانِ رمضان ۱۱۶،۱۱۷) ( )
(5) جواب دیجئے: س۱) روزہ توڑنے والی چند باتیں بیان فرمائیں؟
42) ’’ روزے میں قے(vomiting) ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس کو خود بخود قے(vomit) آئی اس پر قضا نہیں اور جس نے جان بوجھ کر قے کی وہ روزے کی قضا کرے۔ (تِرمذی ج۲ص۱۷۳حدیث۷۲۰)
حکایت: آگ کی عبادت کرنے والےپر رحمت کسی شہر میں ایک آگ کی عبادت (worship)کرنے والا رہتا تھا، ایک مرتبہ رَمَضان شریف میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مسلمانوں کے بازار سے گُزررہا تھا ۔اُس کے بیٹے نے کوئی چیز سب کے سامنے کھانی شُروع کردی۔ اُس غیر مسلم نے جب یہ دیکھا تَو اپنے بیٹے کو ایک تھپڑ(slap) مارا او رخوب ڈانٹ کر کہا:تجھے رَمَضان کے مہینے میں مسلمانوں کے بازار میں کھاتے ہوئے شَرم نہیں آتی؟لڑکے نے جواب دیا: ابّا !آپ بھی تَو رَمَضان میں کھاتے ہو۔اُس نے کہا: میں مسلمانوں کے سامنے نہیں اپنے گھر کے اندرچُھپ کر کھاتا ہوں۔کچھ وقت بعداُس شخص کا اِنتِقال ہوگیا۔کسی نے خواب میں اُس کو جنّت میں چلتے ہوئے دیکھا تَوحیرت (surprise)سے پُوچھا: تم تَو آگ کی عبادت کرتے تھے،جنّت میں کیسے آگئے؟کہنے لگا:واِقعی میں غیر مسلم تھا،لیکن جب میری موت کا وَقت قریب آیا تو اللہ پاک نے رَمَضان شریف کا ادب(respect) کرنے کی وجہ سے مجھے مرنے سے پہلے ایمان دےدیا(یعنی میں مسلمان ہو گیا تھا)اور مرنے کے بعد جنّت بھی دے دی ۔ (نُزھَۃُ الْمجَالِس ج۱ص۲۱۷) روزے میں قے(vomiting) : {1}روزے میں خود بخود(automatically) کتنی ہی قَے(یعنی اُلٹی۔Vomiting) ہوجائے(خواہ بالٹی ہی کیوں نہ بھر جائے)اِس سے روزہ نہیں ٹوٹتا (دُرِّمُختَار ج۳ص۴۵۰) {2} اگر روزہ یاد ہونے کے باوُجُود جان بُوجھ کر(deliberately) قَے کی اور وہ مُنہ بھر ہےتَو اب روزہ ٹوٹ جائے گا(ایضاً ص۴۵۱) مُنہ بھر قے کا مَطلب یہ ہیں : ’’اُسے کوشش کے بغیرنہ روکا جاسکے۔‘‘ (عالمگیری ج۱ص۱۱) {3} جان بوجھ کر مُنہ بھر ہونے والی قَے سے بھی اِس صورت میں روزہ ٹوٹے گا جبکہ قَے میں کھانا یا (پانی) یا صَفْرا(یعنی کڑوا پانی) یا خُون آئے (عالمگیری ج۱ص۲۰۴) اگر(منہ بھر) قَے میں صرف بلغم نکلا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا (دُرِّمُختَار ج۳ص۴۵۲) {4} جان بوجھ کرvomiting کی مگر تھوڑی سی آئی، مُنہ بھر نہ آئی تواب بھی روزہ نہیں ٹوٹا (ایضاً ص۴۵۱) {5} منہ بھر قے کھانے، پانی یا پیلے رنگ کے کڑوےپانی کی ہو تو وُضو توڑ دیتی ہے ۔ (بہارِشریعت ج۱ص۳۰۶ ) قے(vomiting) کا اَہم مسئلہ: مُنہ بھر قے(بلغم کے علاوہ) ناپاک ہے،اِس کا کوئی چھینٹا کپڑے یا جسم پر نہ گرنے پائے اِس کی اِحتیاط فرمائیے۔ اکثر لوگ اِس میں بڑی بے اِحتیاطی کرتے ہیں ،کپڑوں پر چھینٹے پڑنے کی کوئی پروا نہیں کی جاتی اور مُنہ وغیرہ پر جوناپاک قَے لگ جاتی ہے اُس کواپنے کپڑوں سے صاف کر لیتے ہیں ۔ (فیضانِ رمضان۱۱۷) ( )
(6) جواب دیجئے: س۱) کونسی قے روزہ توڑتی ہے؟ اور کیا یہ ناپاک ہوتی ہے؟
43) ’’ روزہ نہ ٹوٹنے کے مسائل ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس روزہ دار نے بھول کر کھایا پیا وہ اپنا روزہ پورا کرے کہ اُسے اللہ پاک نے کھلایا اور پلایا۔ ( مسلم ص۵۸۲ حدیث ۱۱۵۵ )
حکایت: میرے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی عادتیں حضرتِ ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بھلائی(goodnessیعنی اچھے کاموں) میں تمام لوگوں سے زیادہ سخی (generousیعنی غریبوں کی مدد فرماتے) تھے اور رمضان شریف میں جب حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ سے ملاقات کرتے تواور زیا دہ سخاوت فرمایا کرتے۔ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَامآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے رمضا ن شریف کے مہینے کی ہر رات ملا قا ت کیا کرتے،اسی طرح پورا مہینا آتے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُن کے ساتھ قرآنِ پاک پڑھا کرتے ۔ جب حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ سے ملتے تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی میں سخاوت فرماتے۔ (صحیح البخاری،کتاب الصوم،الحدیث۱۹۰۲،ص۱۴۸) روزہ نہ ٹوٹنے کے مسائل : {1} بھول کر کھایا یا کچھ پیا یا تو روزہ نہ ٹوٹا،چاہے وہ روزہ فرض ہو یا نفل۔ (دُرِّمُخْتار ،رَدُّ المحتار ج۳ص۴۱۹) {2} کسی روزہ دار کو کھاتے پیتے دیکھیں تو یاد دِلانا واجب (اور لازم) ہے،ہاں روزہ دار بہت ہی کمزور ہو کہ یاد دِلانے پر وہ کھانا چھوڑدے گا جس کی وجہ سے کمزوری اِتنی بڑھ جائے گی کہ اِس کیلئے روزہ رکھنا ہی مُشکل ہوجائے گااور اگر کھالے گا تو روزہ بھی اچھی طرح پُورا کرلے گا اور دیگر عبادَتیں بھی کر لےگا(اور چونکہ بھول کر کھاپی رہا ہے اِس لئے اِس کا روزہ تو ہو ہی جائے گا) لہٰذا اِس صورت میں یاد نہ دِلانا ہی بِہتر ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۱) {3} روزہ یاد ہونے کے باوجود بھی غبار(dust) یا دُھواں(smoke) حلق میں چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۲) {4} اسی طرح بس یا کا ر کا دُھواں یا اُن سے غبار(dust) اُڑ کر حلق میں پہنچا اگر چِہ روزہ دار ہونایا د تھا،روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ البتہ روزہ دار ہونا یاد تھا اور دھواں(smoke) یا غبار جان بوجھ کر حلق سے نیچے اتارا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ {5} اگر بتی سلگ (یعنی جَل)رہی ہے اوراُس کا دُھواں ناک میں گیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ ہاں لوبان یا اگر بتی سلگ(یعنی جَل) رہی ہو اور روزہ یاد ہونے کے باوجود منہ قریب لے جاکر اُس کا دُھواں ناک سے کھینچا توروزہ ٹوٹ جا ئے گا۔ ( اَیضاً ص۴۲۱) {6} تیل یا سرمہ لگایا توروزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ (رَدُّالْمُحتَارج۳ص۴۲۰) {7}غسل کیا اور پانی کی ٹھنڈک اندر محسوس ہوئی جب بھی روزہ نہیں ٹوٹا۔(عالمگیری ج۱ص۲۰۳) {8} کلی کی اور پانی بالکل پھینک دیا صرف کچھ تری(wet) منہ میں باقی رہ گئی تھی تھوک (spit) کے ساتھ اِسے نگل لیا،روزہ نہیں ٹوٹا۔ (رَدُّالْمُحتَارج۳ص۴۲۰) {9} کان میں پانی چلاگیا جب بھی روزہ نہیں ٹوٹابلکہ خود پانی ڈالا جب بھی نہ ٹوٹا۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۲۲) {10} تل (sesame)یا تل کے برابرکوئی چیز چبائی اور تھوک(spit) کے ساتھ حلق سے اُتر گئی تَو روزہ نہ گیا مگر جب کہ اُس کا مزا (taste)حلق میں محسوس ہوتا ہوتو روزہ جاتا رہا۔ (فَتحُ القدیر ج۲ص۲۵۹) {11} بھولے سے کھانا کھارہے تھے ،یا دآتے ہی لقمہ پھینک دیا یا پانی پی رہے تھے یاد آتے ہی مُنہ کا پانی پھینک دیا تو روزہ نہ ٹوٹا ۔اگر مُنہ کا لقمہ یا پانی یادآنے کے باوُجود نگل گئے تو روزہ ٹوٹ گیا۔ (اَیضاً) (فیضانِ رمضان۱۲۰,۱۲۲) ( )
(7) جواب دیجئے: س۱) روزہ نہ توڑنے والی چند چیزیں بتائیں۔
44 ’’ روزے کے چند مکروہات ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : روزہ سپر (یعنی ڈھال۔shield) ہے جب تک اُسے پھاڑا نہ ہو۔ عرض کی گئی : کس چیز سے پھاڑ ے گا؟ اِرشاد فرمایا:جھوٹ یا غیبت سے۔( معجم اوسط ج۳ص۲۶۴حدیث۴۵۳۶)
حکایت: زبان کا غلط استعمال اللہ پاک کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے صَحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو ایک دِن روزہ رکھنے کا حُکم دیا اور فرمایا:جب تک میں تمہیں اِجازت نہ دوں ،تم میں سے کوئی بھی روزہ ا ِفطار نہ کرے۔ لوگوں نے روزہ رکھا ،جب شام ہوئی تو تمام صَحابہ کِرامرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْایک ایک کرکے(one by one)آتےاور کہتے: یَا رَسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! میرا روزہ ہے ، مجھے اِجازت دیجئے تاکہ میں روزہ کھول لوں۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُسے اِجازت دےدیتے ۔ ایک صَحابی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنے حاضِر ہوکر عَرض کی: میرے گھر میں سے دو لڑکیاں بھی ہیں جِنہوں نے روزہ رکھا ہے، اُنہیں بھی اجازت دیجئے تاکہ وہ بھی روزہ کھول لیں۔ اللہ پاک کے مَحبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُن سے اپنا پیارا چہرہ (منہ شریف) دوسری طرف کر لیا،اُنہوں نے دوبارہ عَرض کی۔ آپ نے پھر ایسا ہی فرمایا۔ جب تیسری بار(third time) اُنہوں نے کہاتو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ َ نے فرمایا:اُن لڑکیوں نے روزہ نہیں رکھا،انہوں نے کیسا روزہ رکھا ہے ؟وہ تَو سارا دن لوگوں کا گوشت کھاتی رہیں ہیں!جاؤ ،ان دونوں کو کہو کہ اگر اُنہوں نے روزہ رکھا تھا تَواُلٹی کردیں۔ وہ صَحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہاُن کے پاس گئے اور انہیں ساری بات بتائی تواُن دونوں نے اُلٹی کی ، جس سے خُون وغیرہ نِکلا۔ اُن صَحابی نے نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس آکر یہ بات بتائی ۔ مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اگر یہ اُن کے پیٹوں(Stomach) میں باقی رہتا ، تَو اُن دونوں کوآگ کھاتی(کیوں کہ انہوں نے غِیبت کی تھی)۔(الترغیب والترہیب ج۳ص۳۲۸حدیث۱۵) روزے کے چند مکروہات : {1} جھوٹ ،چغلی ،غیبت ، گالی دینا، کسی کو(بغیر شرعی اجازت کے) تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز وحرام ہیں روزے میں اور زِیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ بھی مکروہ ہو جاتاہے۔(بہار ِ شریعت ج۱ ص۹۹۶) {2} گلاب یا مشک(کی خوشبو) وغیرہ سُونگھنا مکروہ نہیں ۔ (اَیضاً ص۴۵۵) {3} روزے کی حالت میں ہرقِسْم کا عِطْر سونگھ بھی سکتے ہیں اور لگا بھی سکتے ہیں ۔(اَیضاً) اِسی طرح روزے میں بدن پر تیل کی مالش (massage)کرنے میں بھی حرج نہیں ۔ {4}روزے میں مسواک کرنا مکروہ نہیں بلکہ جیسے اور دِنوں میں سُنَّت ہے وَیسے ہی روزے میں بھی سُنَّت ہے۔(اَیضاً ص۴۵۸) {5} وضو وغسل کے علاوہ ٹھنڈک پہنچانے کے لیے کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا ٹھنڈک کیلئے نہانا بلکہ بَدَن پر بھیگا کپڑا لپیٹنا بھی مکروہ نہیں ۔ہاں پریشانی ظاہِر کرنے کیلئے بھیگا کپڑا لپیٹنا مکروہ ہے کہ عبادَت میں دِل تنگ ہونا (اکتانا، بور ہونا ) اچھی بات نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۹۷،رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۵۹ ) {6} رَمَضانُ الْمُبارَک کے دِنوں میں ایسا کام کرنا جائز نہیں جس سے ایسی کمزوری آجائے کہ روزہ توڑنے کا خیال مضبوط ہو۔لہٰذا روٹی پکانے والے(baker) کو چاہئے کہ دوپہرتک روٹی پکائے پھر باقی دِن میں آرام کرے۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۶۰) مزدور(laborer) اور دیگر محنت کے کام کرنے والے اس مسئلے پر غور فرما لیں ۔ (فیضانِ رمضان ۱۲۳-۱۲۵) ( )
(8) جواب دیجئے: س۱) روزے کے چند مکروہات بتائیں۔
45 ’’ روزہ نہ رکھنے یاتوڑنے کی اجازت ‘‘
حدیثِ مُبارک: اُم المومنین حضرت ِعائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کہتی ہیں کہ ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ بہت روزے رکھا کرتے تھے، انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا، کہ سفر میں روزہ رکھوں؟ ارشاد فرمایا: ''چاہو رکھو، چاہے نہ رکھو۔'' (صحیح البخاري، کتاب الصوم، باب الصوم في السفر والإفطار، الحدیث: ۱۹۴۳، ج۱، ص۶۴۰مُلخصاً)
حکایت: رمضان سے محبّت کرنے والا مُحمَّدنام کا ایک آدمی پوراسال تونَما زنہ پڑھتا تھا مگر جب رمَضَان شریف کا پیارا مہینا آتا تو وہ پاک صاف کپڑے پہنتا اورپانچوں وَقت نَماز پڑھتا اورپورے سال جو جو نمازیں،اُس نے چھوڑی ہوتیں،وہ قَضاء پڑھ لیتا اور روزے بھی رکھتا تھا۔ لوگوں نے اُس سے پوچھا: تُو ایسا کیوں کرتا ہے؟اُس نے جواب دیا یہ مہینارحمت والا اور توبہ والا ہے،شاید اللہ پاک مجھےاِسی بات سے مُعاف فرمادے۔ جب وہ فوت ہوگیا تو کسی نے اُسے خواب میں دیکھا تو پُوچھا : اللہ پاک نے تیرے ساتھ کیاکیا؟ اُس نے جواب دیا:اللہ پاک نے مجھے رمضان کا ادب (respect)کرنے کی وجہ سے مُعاف کردیا۔ (دُرَّۃُ النَّاصِحِین ص۸)یاد رہے!مُعاف کرنا یا عذاب کرنایہ سب کچھ اللہ پاک کی مرضی ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :تو جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گاسزادے گا اور اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے (یعنی جو چاہے ، وہ کر سکتا ہے)۔( پ۳ البقرہ ۲۸۴)(کنز العرفان)ہمیں اللہ پاک کی رحمت سے اُمید(hope) بھی رکھنی چاہیے اور اُس کے عذاب(punishment) سے بھی ڈرنا چاہیے۔یاد رہے کہ ہمیں پورے سال پانچوں نمازیں پڑھنی ہیں۔ روزہ نہ رکھنے کی اجازت : {1} مسافر(یعنی جو سفر کی شرطوں کے مطابق(according to conditions) ،تقریبا 92 کلو میٹر دور جانے کی نیّت سے اپنے شہر کی آبادی سے نکل چکا ہو،اُس)کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اِختیار ہے۔(رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۶۲) {2} سانپ نے ڈَس لیا اور جان خطرے میں پڑگئی تو روزہ توڑدے ۔ (اَیضاً) {3} بھوک اور پیاس ایسی ہوکہ ہلاک (یعنی جان چلی جانے )کا صحیح خوف ہو یاعقل چلی جانے کا ڈرہو تو روزہ نہ رکھے ۔ (دُرِّمُختار، ردُّ الْمُحتار ج۳ص۴۶۲) {4} مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا مضبوط خیال ہو تو اِجازت ہے کہ اُس دِن روزہ نہ رکھے۔ {5} رَمَضانُ الْمُبارَک کے ادااور رَمَضانُ الْمُبارَک کے قضا روزوں کیلئے شوہر کی اِجازت کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ منع کرے تب بھی رکھے۔ (دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۷۸) {6} اگر آپ کسی کے ملازِم ہیں یا اُس کے یہاں مزدوری پر کام کرتے ہیں تواُس کی اِجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھ سکتے کیوں کہ روزے کی وجہ سے کام میں سستی آئے گی۔ہاں روز ہ رکھنے کے باوُجود آپ باقاعدہ کام کرسکتے ہیں ،اُس کے کام میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوتی، کام پورا ہوجاتا ہے تواب نفل روزے کی اِجازت لینے کی ضَرورت نہیں ۔ (ردُّالْمحتار ج۳ص۴۷۸، مُلخصاً) {7} ماں باپ اگر بیٹے کو نفل روزے سے منْع کردیں اِس وجہ سے کہ بیمار ہونے کا خوف ہے تو ماں باپ کی بات مانے۔ (اَیضاً)(فیضانِ رمضان ۱۴۴-۱۵۰) ( ) نے۔ (اَیضاً)(فیضانِ رمضان ۱۴۴-۱۵۰)
(9) جواب دیجئے: س۱) کیا کسی صورت میں روزہ چھوڑ سکتے ہیں؟ س۲) جو روزہ چھوڑا، کیااس کی قضاء کرنی ہوگی؟
46 ’’ وہ چیزیں کہ جن سے روزے کی صرف قضاء لازم ہو ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس نے رَمضان کے ایک دن کا روزہ بغیر رُخصت وبغیر مرض اِفطار کیا (یعنی نہ رکھا)توزمانے بھر کا روزہ بھی اُس کی قضا نہیں ہوسکتا اگرچہ بعد میں رکھ بھی لے ۔(تِرمذی ج۲ص۱۷۵حدیث۷۲۳) علماء فرماتے ہیں :یعنی وہ فضیلت جو رَمَضانُ الْمبارَک میں روزہ رکھنے کی تھی اب کسی طرح نہیں پاسکتا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۵ مُلَخّصاً)
حکایت: کیا اس نے رمضان کے روزے نہ رکھے؟ ایک نیک مسلمان شہید ہوگے (یعنی اللہ پاک کو خوش کرنے کےلیے جنگ لڑتے ہوئے ، لڑائی کے دوران فوت ہوئے )، ایک سال بعدان کے بھائی بھی فوت ہوگئے۔جنّتی صحابی، حضرت طلحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے خواب میں اس(ایک سال بعد انتقال کرنے والے بھائی) کو دیکھا کہ شہید(بھائی ) سے جنّت میں آگے آگے جا رہے ہیں(یعنی بعد میں انتقال کرنے والے کاثواب شہید سے بھی زیادہ تھا)۔ انہوں نے یہ خواب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بتایا توپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جو بعد میں فوت ہوا ہے، کیا اُس نے ایک رمضان کا روزہ نہ رکھا(یعنی ایک مہینے کے روزے زیادہ رکھے)! اور ایک سال کی نماز ادا نہ کی! (یعنی اگر بعد میں انتقال کرنے والے کا ثواب زیادہ ہے تو اُس کی عبادت ، شہیدکی عبادت سے زیادہ تھی اور اُس نے ایک سال کے روزے زیادہ رکھے تھے۔) (مسند احمد ،مسند ابی اسحاق ابی محمد طلحۃ بن عبد اللہ ،رقم ۱۴۰۳ ،ج۱، ص ۳۴۴ بتغیر ) جن سے روزے کی صرف قضاء لازم ہوتی ہو: {1} بھول کر کھایا، پیا یا قے ہوئی اور ان سب صورَتوں میں یہ گمان(یعنی خیال) کیا کہ روزہ ٹوٹ گیا، اب جان بوجھ کر کھالیا تَو بھی صرف قضا فر ض ہے۔(دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۱) {2} روزے کی حالت میں ناک میں دَوا چڑھائی تو روزہ ٹوٹ گیااور اِس کی قضا لازِم ہے۔ (اَیضاًص۴۳۲) {3} بارِش کاپانی یا اولاحلْق میں چلاگیا تَو روزہ ٹوٹ گیا اور قضا لازِم ہے۔ (اَیضاًص۴۳۴ مُلَخّصاً) {4} گمان کیاکہ ابھی تَو رات باقی ہے،سحری کھاتے رہے اور بعد میں پتا چلا کہ سحری کا وَقْت ختم ہوچکا تھا۔اِس صورت میں بھی روزہ نہیں ہوا اور قضا کرنا ہوگا۔ (دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۶) {5} اِسی طرح گمان ہواکہ سورج غروب ہوچکا ہے ،کھاپی لیااور بعد میں معلوم ہوا کہ سورج نہیں ڈوبا تھا جب بھی روزہ ٹوٹ گیا اور قضا کریں ۔ (دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۶، بہار شریعت ج۱ص۹۸۹) {6} اگر غروبِ آفتاب سے پہلے ہی سائرن (siren) بج گیایا اذانِ مغرب شروع ہوگئی اور روزہ اِفطار کرلیااور بعد میں معلوم ہوا کہ سائرن یا اَذان وَقت سے پہلے ہی شروع ہوگئے تھے، تب بھی روزہ ٹوٹ گیا قضا کرنا ہوگا۔( رَدِّالْمُحتَار ج۳ص۴۳۹ ماخوذاً) {7}آج کل لوگ دین پر عمل کرنے سے دور ہیں، ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے روزے کی خود حفاظت کرے۔سائرن ،ریڈیو ،ٹی وی کے اِعلان بلکہ مسجِد کی اذان پربھی بھروسہ(trust) کرنے کے بجائے خود سحری وا ِفطار کے وَقت کی صحیح صحیح معلومات رکھے ۔ {8} وضو کررہا تھا پانی ناک میں ڈالا اور دِماغ تک چڑھ گیا یاحلق کے نیچے اُتر گیا،روزہ دار ہونایا د تھا تو روزہ ٹوٹ گیا اورقضا لازِم ہے ۔ ہاں اُس وَقت روزہ دار ہونا یادنہیں تھا تو روزہ نہ گیا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۲) (فیضانِ رمضان ۱۳۵-۱۳۷،مُلخصاً) ( )
(10) جواب دیجئے: س۱) روزہ ٹوٹنے کی ایسی صورتیں بتائیں کہ جس سے صرف قضا لازم ہوتی ہے۔
47 ’’ تراویح ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو رَمضان میں ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کے لیے قیام کرے ،تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(مسلم ص۳۸۲حدیث۷۵۹) یعنی تراویح کی پابندی کی برکت سے سارے صغیرہ (یعنی چھوٹے)گناہ معاف ہوجائیں گے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۲ص۲۸۸)
حکایت: تراویح کی جماعت امیرُالْمُؤمِنِین حضرت عمر فاروقرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے (اپنے دور میں یعنی جب آپ مسلمانوں کے امیر بن گئے تھے ) رَمَضانُ المُبَارَک کے پیارے مہینےکی ایک رات مسجد میں دیکھا کہ لوگ الگ الگ انداز سے تراویح کی نماز اداکر رہے ہیں ، کوئی اکیلا تو کچھ لوگ امام کے پیچھے پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا:میں اس بات کو بہتر سمجھتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں ۔ لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حضرت اُبَی بِن کَعْب رَضِیَ اللہُ عَنْہ کوسب کا امام بنا دیا، پھر جب دوسری رات آپ مسجد میں تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ تراویح کی نماز باجماعت(امام کے پیچھے) پڑھ رہے ہیں ( توبہت خوش ہوئے اور کچھ اس طرح) فرمایا: ’’ یہ دین میں ایک اچھا طریقہ نکالا گیاہے۔‘‘ (بُخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۱۰) تراویح : {1}تراویح کی بیس(20) رَکْعَتَیں ہیں ۔ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے زمانے میں بیس(20) رَکْعَتَیں ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ (السُّنَن ُالکبرٰی للبیہقی ج۲ص۶۹۹حدیث۴۶۱۷) {2}تراویح کا وقت عشا کے فرض پڑھنے کے بعد سے فجر کا وقت شروع ہونے تک ہے۔ عشا کے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو نہ ہو گی۔ (عالمگیری ج۱ص ۱۱۵ ) {3} وترکے بعد بھی تراویح پڑھی جا سکتی ہے ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۵۹۷) جیساکہ بعض اوقات انتیس(29) کوچاند کا اعلان دیر سے ہوتا ہے۔ {4}بِہتر یہ ہے کہ تراویح کی بیس (20) رَکْعَتَیں دو(2) دو(2) کر کے دس (10) سلام کے ساتھ ادا کر یں ۔ (اَیضاص۵۹۹) {5}بلاعذر تراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض علماء کے نز د یک تو ہوتی ہی نہیں ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۶۰۳) {6}تراویح مسجِدمیں باجماعت ادا کرنا افضل ہے،اگر گھر میں باجماعت ادا کی تو جماعت چھوڑنےکا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں پڑھنے کا تھا۔(عالمگیری ج۱ص۱۱۶) عشا کے فرض مسجد میں باجماعت ادا کرکے پھر گھر یا ہال وغیرہ میں تراویح ادا کیجئے اگر بلا عذرِشرعی مسجد کے بجائے گھر یا ہال وغیرہ میں عشا کے فرض کی جماعت قائم کر لی تو واجب چھوڑنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے ۔ {7}نابالِغ امام کے پیچھے صرف نابالغان ہی تراویح پڑھ سکتے ہیں ۔ {8}بالِغ(grown-up) کی تراویح( بلکہ کوئی بھی نماز حتی کہ نفل بھی) نابالغ کے پیچھے نہیں ہوتی۔ {9}ہر چار(4) رَکْعَتَوں کے بعد اُتنی دیر بیٹھنا مُستَحَبْ (اور ثواب کا کام)ہے جتنی دیر میں چار(4) رَکعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰، عالمگیری ج۱ص۱۱۵) {10} اس بیٹھنے میں اسے اختیار ہے کہ چپ بیٹھا رہے یا ذِکر و دُرُود اور تلاوت کرے یا چار(4) رَکعتیں نفل اکیلے پڑھے (دُرِمُخْتار ج۲ص۶۰۰،بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰) یہ تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں : سُبْحٰنَ ذِی الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوْتِ، سُبْحٰنَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَيْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْكِبْرِيَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحٰنَ الْمَلِكِ الْحَیِّ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ، سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا و رَبُّ الْمَلٰٓئِكَۃِ وَالرُّوْحِ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ ۔بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ۔ {11}مقتدی کو جائز نہیں کہ بیٹھا رہے ، جب امام صاحب رکوع کرنے والے ہو ں تو کھڑا ہو جائے، یہ مُنافقین کی طرح کا کام ہے۔سُوْرَۃُ النِّسَآء کی آیت نمبر 142 میں ہے،ترجمہ (Translation) : اور (منافِق ) جب نَماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے) (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۳، غُنیہ ص۴۱۰) فرض کی جماعت میں بھی اگر امام صاحب رُکوع سے اُٹھ گئے توسجدوں وغیرہ میں فورًا شریک ہو جائیں نیز امام صاحب قعدۂ اُولیٰ میں ہو تب بھی اُن کے کھڑے ہونے کاانتظار نہ کریں بلکہ شامل ہو جائیں ۔ اگر قعدے میں شامل ہو گئے اور امام صاحب کھڑے ہو گئے تو اَلتَّحِیَّات پوری کئے بغیر نہ کھڑے ہوں ۔(فیضانِ رمضان ۱۵۹-۱۶۴)
(11) جواب دیجئے: س۱) تراویح کے چندمسائل بیان فرمائیں؟
48 ’’ مسجد کے آدب ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو شخص صبح و شام مسجدجائے ، اللہ پاک اس کے لیے صبح وشام جنت میں مہمانی تیّار فرمائے گا۔(بخاری ج۱ص۲۳۷حدیث۶۶۲)یعنی جو ہمیشہ نماز کے لیے مسجد میں جانے کا عادی ہوگا اسے ہمیشہ جنتی رِزق ملے گا۔ (مراٰۃ المناجیح ج۱ص ۴۳۳۔۴۳۴)
حکایت: اٹھا کر مسجد لایا جاتا حضرتِ ابوعبدُ الرحمن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کوبیماری کی حالت میں اٹھا کر (نمازِ باجماعت کے لئے) مسجد لے جایا جاتا تھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ص۳۸۶،حدیث۲)صرف یہی نہیں بلکہ بارِش کے دن بھی آپ بہت مرتبہ فرماتے کہ مجھے مسجد میں لے چلو جیسا کہ حضرتِ سَعْد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں: حضرتِ ابوعبد الرحمن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی بیماری کے دوران کیچڑ اور بارِش کے باوجود اپنے اسلامی بھائیوں کو حکم دیتے کہ انہیں باجماعت نماز ادا کرنے کیلئے اٹھا کر مسجد لے جایا جائے۔(الزہد لابن المبارک ص۱۴۱حدیث ۴۱۹مُلخصاً) مسجد کے آداب : {1}فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا (لاتا) ہے۔(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب، ج۲، ص۴۳۱حدیث ۳۸۹۱) ہاں ضرورتاً مسکرا سکتے ہیں ۔ {2}اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنقل فرماتے ہیں : جو مسجد میں دُنیا کی بات کرے ، اللہ پاک اُس کے چالیس (40)سال کے نیک اعمال برباد فرما دے۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج۱۶ ص ۳۱۱ ، غَمزُ الْعُیون ج۳ص۱۹۰) {3}منہ میں بدبو ہونے کی حالت میں (گھر میں پڑھی جانے والی) نماز بھی مکروہ ہے اور ایسی حالت میں (یعنی منہ یا کپڑوں یابدن سے پسینے یا کسی بھی طر ح کی بدبو آنے کی حالت میں ) مسجدمیں جانا حرام ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۷ ص۳۸۴) {4}مسجد میں رِیح(breaking) خارِج کرنامنع ہے۔ {5}مسجد میں ا یسے بچوں کو(ڈائیپی باندھ کر بھی ) لانا گناہ ہے جن کے بارے میں غالب گمان ہو کہ پیشاب وغیرہ کر دیں گے یا شور مچائیں گے۔ {6}مسجد میں پاگلوں (insane)کو، یا اُن آسیب زدوں (possessed)کو جو شور وغیرہ کرتے ہوں ، ایسے مریضوں کوجن کی وجہ سے لوگوں کو گِھن آتی ہو(یعنی لوگ نفرت کرتے ہوں یا گھبراتے ہوں، ایسوں کو) لانا گناہ ہے اور اُن سمجھداربچوں کو لانا بھی گناہ ہے جو و ہاں بھاگم بھاگ کرتے، شور مچاتے اور نمازیوں کی پریشانی کا سبب بنتے ہیں ۔ {7} مسجد کی زمین پرلوگوں کے گرے پڑے بال یا ہلکا پھلکا کچرااٹھا کر ڈالنے کیلئے ہو سکے تو ایک شاپر (shopping bag) جیب میں رکھ لیجئے۔ فرمانِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو مسجد سے تکلیف دینے والی چیز نکالے گا، اللہ پاک اُس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا ئے گا۔ ( ابنِ ماجہ ج۱ص۴۱۹حدیث ۷۵۷) ۔ {8}اپنےپسینے سے مسجِد کے فرش، دری یا کارپیٹ کو بچا ئیں ۔ {9}مسجد میں اگر معمولی سا تنکا یا ذَرّہ بھی پھینکاجائے تواس سے مسجِدکو اس قدر تکلیف پہنچتی ہے جیسے انسان کو اپنی آنکھ میں معمولی ذَرّہ پڑجانے سے ہوتی ہے۔ (جذبُ الْقُلُوب ص ۲۲۲) {10} وضوکے پانی کے قطرے فرشِ مسجد (یعنی مسجد کی زمین) پر گرانا، ناجائز و گناہ ہے ( البتہ فِنائے مسجد( مثلاً وضو خانے )میں قطرے ٹپکانے کا یہ حکم نہیں ) ۔ {11}مسجد کی دریوں اور کارپیٹ وغیرہ کے دھاگے اورچٹائیوں کے تنکے نوچنے سے پرہیز کیجئے۔ (ہرجگہ مَثلاً کسی کے گھر یا کہیں محفل وغیرہ میں جائیں تب بھی بلکہ اپنے گھر میں بھی اس بات کا خیال رکھئے) {12}مسجد میں دوڑنایازورسے قدم رکھنا، جس سے آوازپیدا ہو منع ہے۔ {13}مسجد کے فرش پرکوئی چیز زور سے نہ پھینکی جائے،اورچادریا رومال وغیرہ سے فرش اس طرح نہ جھاڑیں کہ آواز پیداہو(مسجد کی صفائی کرنے والوں کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے)۔ {14}تلاوت و نعت (شرعی اجازت سے مسجد میں کئے جانے والے اعلان) وغیرہ کی اِتنی بلند آواز نہ ہو کہ جس سے کسی نمازی کوپریشانی ہو یا سونے والےکو تکلیف پہنچے، یہ سب مکروہ ہے ۔ (مسجد میں نعرے لگانے اور مائک استعمال کرنے میں سخت احتیاط کی حاجت ہے ) ( فیضان ِنمازص۲۴۵-۲۴۷ مُلخصاً) ( )
(12) جواب دیجئے: س۱) مسجد کے چند آداب بیان کریں۔
49 ’’بچہ کب بالغ(بڑا) ہوتا ہے اور اس پر غسل کب فرض ہوتا ہے‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تم اپنے مَردوں کو ''سورۂ مائدہ ''سکھاؤ ۔(شعب الايمان، التاسع عشر من شعب الايمان...الخ، فصل فی فضائل السور والآيات، ٢/ ٤٦٩، الحديث : ٢٤٢٨)اپنے بچے کو سورۂ مائدہ سیکھاؤ (فتاوی رضویہ جلد۲۴،ص۴۵۳ ماخوذاً)
حکایت: چھوٹے سے شاگرد امامِ اعظم ابو حنیفہ علم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہدین پڑھایا کرتے اور آپ کے پاس کئی شاگرد پڑھا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ امام محمّد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، آپ کے درس(class)میں آگئے۔آپ کی عمر(age)بہت چھوٹی تھی اور آپ خوبصورت بھی تھے۔ امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے چاہا کہ یہ کچھ سال بعد آئیں تاکہ عمر بڑی ہو جائے تو آپ نے انہیں قرآنِ پاک حفظ کرنے کے لیے بھیج دیا۔ایک ہفتے بعد پھر امام محمّد آگئے تو امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کیا میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ حفظ کے بعد درجے(class)میں آئیں تو امام محمّد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کیا کہ:اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں نے قرآنِ پاک حفظ کر لیا ۔ یہ سن کر امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہخوش ہوئے اور انہیں درس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی مگرنیک اور پرہیزگار ہونے کے باوجود، آنکھوں کی حفاظت کے لیےامامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اُنہیں اپنے سامنے بٹھانے سے منع فرمادیا ، انہیں گنجا ہونے(shaved head) کا حکم دیااور ستون (column) کے پیچھے بٹھا کر دَرس دیا کرتے تھے۔( مناقب الامام الاعظم للکردری ، الباب الثالث فی ذکر الامام محمد بن الحسن ، ۲ / ۱۵۵۔ الجواہر المضیہ،ج۲،ص۵۲۵ ماخوذاً) بچہ کب بالغ ( یعنی بڑا) ہوتا ہے؟ : {1} بچے کے بالغ ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہِجری (یعنی اسلامی)سِن کے حساب سے 12اور 15سال کی عمر کے دَوران جب بھی لڑکے کو اِنزال یا سوتے میں اِحتِلام ہوا (یعنی ایک خاص قسم کا سفیدگاڑھا مادہ نکل آیا) تواُسی وَقت با لِغ ہو گیا (یعنی بچہ بڑا ہوگیا، نماز فرض ہوگئی، کہ اس پر دین و شریعت کی پابندی لازم ہوگئی۔ اب نماز چھوڑے گا تو گناہ گار ہوگا) اوراُس پرغسل فرض ہو گیا۔ اگر اس طرح کی کوئی بات ظاہرنہ ہوئی کہ جس سے بچہ بالغ ہوجائے توہِجری سِن کے مطابِق پندرہ(15)سال کا ہوتے ہی با لِغ ہو گیا۔ (دُرِّمُختارج۹ص۲۵۹ملخصاً ) {2}بچّےاور بچّیاں کو شروع سے ہی الگ رکھا جائے۔ تاکہ بالغ ہونے پر غیر محرموں (کہ جن سے نکاح ہو سکتا ہو)سے پردہ کرنا آسان رہے۔ {3}نابالغ عشا کی نماز پڑھ کر سویا تھا اس کو احتلام ہوا اور بیدار نہ ہوا (یعنی جاگا نہیں)یہاں تک کہ فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد آنکھ کھلی تو عشا دوبارہ پڑھےاور اگر فجر کا وقت ہونے سے پہلے آنکھ کھلی تو اس پر عشا کی نماز فرض ہے۔(بحرالرائق) (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۴۴۴،مسئلہ۶ مُلخصاً) {4}جب لڑکے کی عمر دس (10)سال کی ہوجائے تو اس کو الگ سُلانا چاہیے بلکہ اس عُمر کا لڑکا اتنے بڑے(یعنی اپنی عمر کے) لڑکوں یا (اپنے سے بڑے ) مَردوں کے ساتھ بھی نہ سوئے۔ (دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج ۹ ص۶۲۹ماخوذاً) {5} لڑکوں کو مُمانی،چچی،تائی،بھابھی وغیرہ سے بھی الگ رکھا جائے اور پردہ کروایا جائے۔ لڑکے پرغُسل فرض کرنے والی کچھ چیزیں: نمبر شمار غسل فرض کرنے والی چیزیں 01 مَنِی (ایک خاص قسم کا سفیدگاڑھا مادہ)کا شَہوت (ایک خاص کیفیت۔condition) کے ساتھ (پیشاب کی جگہ سے)باہر آنا 02 سوتے ہوئے مَنِی کا نکل جانا (ماخوذ از نَماز کے احکام، ص۱۰۹،۱۱۰) جو بچے دس، بارہ (10-12)سال کے ہوگئے ہوں، وہ یہ احتیاطیں کریں: {1} لڑکے کے لئے بہتر یہ ہی ہے کہ اپنے سے بڑی عمر والوں سے دُور رہے ۔ {2} لڑکے آپَس میں بھی ایک دوسرے کو دَبوچنے ، اُٹھانے ، پٹخنے ، گلے میں ہاتھ ڈال کر چپٹانے وغیرہ حرکتیں نہ کریں ۔ {3} بڑوں کے ساتھ بَہُت زیادہ اٹھنا بیٹھنا،ملاقاتیں کرنا،ان کے گھروں میں آنا جانا یا ان کو اپنے گھروں پر بلانا وغیرہ سے بچیں۔ {4} ہر ’’بڑے ‘‘ سے خواہ وہ استاذ ہی کیوں نہ ہوں، دوستی نہ کریں(احترام سے ملاقات کر کے اپنے پڑھنے پڑھانے کے کاموں میں مصروف ہوجائیں)۔ {5} مَدَنی قافِلے میں بھی والد صاحب کے بغیر سفر نہ کریں۔ {6} عید کے دن بھی لوگوں سے گلے ملنے سے بچیں ۔ {7} جب بھی بیٹھیں پردے میں پردہ لازِمی کیجئے۔ یعنی اپنی گود پر چادر بچھا لیں۔ {8} بنے سنورے رہنے(مختلف اسٹائل کے کپڑے پہننے اور فیشن کرنے) سے بچیں ۔ {9} اگر سنّت کی نیّت سے زلفیں رکھنی ہوں تو آدھے کان سے زیادہ نہ رکھیں۔ {10} چہرے پر کریم(cream)یا پاؤڈرہرگز ہرگز مت لگایئے۔ {11} ضرورت ہو تو سادہ ساعینک استعمال کیجئے۔ {12} اسی طرح لباس بھی سادہ رکھیں۔ (قوم لوط کی تباہ کاریاں ص ۲۸ تا ۳۰مُلخصاً) {13} لباس کا خیال رکھیں،آدھی پتلون(half pant ) تو کسی کو بھی نہیں پہننی چاہیے۔اسی طرح اس عمر سے لڑکوں کو آدھی آستین( half sleeves )،بغیر آستین ( with out sleeve shirts ) اور چُست لباس (skin fit clothing)سے بھی بچنا چاہیے بلکہ بچّیوں کو توشروع ہی سے، اس طرح کے لباس سے بچایا جائے۔ {14}کسی سے کسی قسم کا تحفہ نہ لیں، اگر کوئی دینا چاہیے تواُسے والد صاحب وغیرہ کو دینے کا کہہ دیں اور جو پیسے یا چیزیں آپ کے پاس ہیں،اُس پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں، دوسروں کے تحفوں سے بالکل دور رہیں۔ {15} سب سے اہم کام”خاموشی اورسنجیدگی (seriousness) “ہے۔آپنے کام سے کام رکھیں، نیک کاموں میں زندگی گزاریں تو بہت سے مسائل سے بچ جائیں گے (اِنْ شَاءَ اللہ!) ۔( )
50 ’’ بچی کب بالغہ(بڑی) ہوتی ہے اور اس پر غسل کب فرض ہوتا ہے‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اپنی عورَتوں کو ''سورۃُ النُّور''کی تعلیم دو۔ ( اَلْمُسْتَدْرَک ج ۳ ص ۱۵۸ حدیث ۳۵۴۶مُلتقطاً) اپنی بچیوں کو سورۂ نور سیکھاؤ (فتاوی رضویہ جلد۲۴،ص۴۵۳ ماخوذاً)
حکایت: گڑیاں (dolls) حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکہتی ہیں کہ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس گڑیوں سے کھیلتی تھی کیونکہ جب آپ کی رخصتی ہوئی تھی (یعنی جب آپ نکاح کے بعداپنے والد صاحب کے گھر سے نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے گھر میں آگئی تھیں) تو آپ کی عمر مُبارک نو(9)سال تھی۔مزید فرماتی ہیں کہ میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلتی تھیں تو جب رسول اﷲ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تشریف لاتے یہ چلی جاتیں پھر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ انہیں میری طرف بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلتیں (مسلم،بخاری مع مراۃ،ج۵، حدیث ۵۰ مع۱۶۴مُلخصاً)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچیوں کے لیے گڑیاں (dolls)بنانا ان سے کھیلنا جائز ہے کہ اس سےان کو سینے اور کھانا تیار کرنے کی تعلیم ملتی ہے۔(مراۃ،ج۵، حدیث۱۶۴مُلخصاً) بچّی کب بالغہ(بڑی) ہوتی ہے؟: {1} بچی کی بالغہ ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہِجری(یعنی اسلامی) سِن کے حساب سے 9اور15سال کی عمر کے دَوران لڑکی کو احتِلام ہو یا حیض (یعنی منتھلی کورس۔ monthly course )آ جائے (یعنی مخصوص bleeding ہوجائے) تو با لِغہ ہو گئی۔ اگر اس طرح کی کوئی بات ظاہرنہ ہوئی کہ جس سے بچی بالغہ ہو جائے تو ہجری(یعنی اسلامی) سِن کے مطابِق 15 سال کی ہوتے ہی بالِغہ ہے ۔ {2}بچّےاور بچّیاں کو شروع سے ہی الگ رکھا جائے۔ بچّیوں کو شروع سےہی دوپٹے اور اسکارف(Scarf) وغیرہ کی عادت ڈالی جائے ۔سات(7) سال کی عمر سے ان باتوں کا خیال رکھا جائے ۔ بچی جب پندرہ(15) سال کی ہو گئی تو سب غیر محرموں (جس سے نکاح ہو سکتا ہو) سے پردہ واجب ،اور نو (9)سے پندرہ (15)کے درمیان اگر بالغہ ہوگئی تو( بھی پردہ) واجب ، اور بالغہ نہ ہوئی تو (یعنی نو (9) سال کی عمر کے بعد نابالغہ کوپردہ کروانا)مُستحب(اورثواب کا کام) ہے( کہ غیر محرم رشتہ داروں مثلاً خالہ زاد ، ماموں زاد، پھُوپھی زاد، چَچا زاد،تایازاد(cousin)، خالو، پھوپھا(uncle)، بہنوئی (brother in law)بلکہ اپنے نامحرم پیرو مرشِد اور پڑوسیوں سے بھی پردہ کروائیں)مگربارہ (12)سال کی عمرکے بعد(پردے کی) سخت تاکید (emphasis)ہے کہ بارہ (12)سال کی عمر کی لڑکی کے بالِغہ ہوجانے کا وقت قریب ہے۔(فتاویٰ رضويہ ج۲۳ ص ۶۳۹ بالتغیر) {3} بیٹی کی عمر جب نو(9) سال ہو جائے تو باپ، اُسے اپنے پاس نہ سلائے اور نہ بھائی وغیرہ کے ساتھ سونے دے ۔(فتاوی رضویہ جلد۲۴،صفحہ۴۵۴مُلخصاً) حیض اور استحاضہ کی وضاحت(explanation): {1} بالِغہ عورت کے آگے کے مقام سے جو خون عادت (routine)کے طور پر نکلتا ہے اور بیماری یا بچہ پیدا ہونے کی وجہ سے نہ ہو تو اسے حیض کہتے ہیں۔ (بہارِ شريعت حصہ۲ص۹۳) حیض کیلئے ماہواری، اَیّام، ایّام سے ہونا، مَہینا، مَہینا آنا،مہینے سے ہونا باری کے دن اور monthly course(منتھلی کورس)وغیرہ الفاظ بھی بولے جاتے ہیں۔ {2} جو خون بیماری کی وجہ سے آئے۔ اس کو اِستحاضہ (اِس۔تِ۔حاضہ،بیماری کا خون)کہتے ہیں(اس کے مسائل آگے آرہے ہیں)۔ {3} حیض کے چھ رنگ ہیں:(۱) سیاہ(black) (۲)سُرخ(red)(۳) سبز(green) (۴) زرد (yellow) (۵)گدلا(میلا، گاڑھا رنگ)(۶)مٹیالا(مٹی کے رنگ کا)۔ سفید رنگ کی رطوبت حيض نہیں۔(بہارِ شريعت حصّہ ۲ ص ۹۵ ) یاد رہے! کہ عورت کے اگلے مقام سے جوخالِص رطوبت بے آمیز ش خون نکلتی ہے(leucorrhoea) اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اگر کپڑے میں لگ جائے تو کپڑا پاک ہے ۔ (اَیضاًص ۲۶) {4} حیض کی کم سے کم مُدّت (duration)تین(3) دن اور تین(3) راتیں یعنی پورے 72 گھنٹے ہیں۔ اگر ایک مِنَٹ بھی کم ہوا تو وہ حیض نہیں بلکہ اِستِحاضہ یعنی بیماری کا خون ہے اور زیادہ سے زیادہ مُدّت(duration) دس(10) دن اور دس(10) راتیں یعنی 240گھنٹے ہیں ۔ {5} کم سے کم نو( 9 )سال کی عمر سے حَیض شروع ہوگا۔ اور حیض آنے کی زیادہ سے زیادہ عمر پچپن(55) سال ہے۔ (بہارِ شريعت حصہ۲ص۹۴) نو( 9 ) سال کی عمر سے پہلے جو خون آئے گا وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ(بیماری) ہے۔ {6} دو حیضوں کے درمیان(between the two menstrual cycles) کم سے کم پورے پندرہ ( 15 )دن کا فاصلہ(gap) ضَروری ہے ۔ (دُرِّمُختَارج۱ص۵۲۴) اسلامی بہن کو چاہئے کہ وہ حيض(monthly course) آنے کی مدّت لکھنے کی عادت بنا لیں ۔ {7} یہ ضَروری نہیں کہ پوری مُدّت(full duration) میں ہر وقت خون آتارہے جب ہی حَيض ہو بلکہ اگر تھوڑے تھوڑے وقت بھی آئے، جب بھی حَيض ہے۔ (دُرِّمُختَارج۱ ص۵۲۳) حیض کے مسائل: {1} حیض کی حالت میں نَماز پڑھنا اور روزہ رکھنا حرام ہے۔ (بہارِ شريعت حصہ۲ص۱۰۲،عالمگیری ج۱ ص۳۸) {2} ان دنوں میں نَمازیں مُعاف ہیں ان کی قضا بھی لازم نہیں۔ البتَّہ روزوں کی قضا دوسرے دنوں میں رکھنا فرض ہے ۔(بہارِ شريعت حصہ۲ص۱۰۲،دُرِّمُختَار ج ۱ ص ۵۳۲ ) {3} حیض والی کو قراٰنِ مجید پڑھنا حرام ہے خواہ دیکھ کر پڑھے یا زَبانی پڑھے۔ یوں ہی قرآنِ مجید کا چھونا یا اُن کا ترجمہ پڑھنا چھونا بھی حرام ہے۔ ہاں اگرجُزدان(ایسےغلاف یا کور میں کہ جس میں کتاب رکھی جاتی ہے) میں قرآن مجید ہو تو اُس جُزدان کو چھونے میں کوئی حرج نہیں۔ (بہارِ شريعت حصّہ۲ص۱۰۱) (ایضاًص۳۷۹،۳۸۰) خانہ کعبہ کا طواف کرنا(یعنی عبادت کی نیّت سے کعبہ شریف کے چکر لگانا) اگرچِہ مسجدالحرام کے باہَر سے ہو حرام ہے۔ (اَیضاً) {4} قرآنِ مجید پڑھنے کے علاوہ دوسرے تمام اورادو و ظائف کلمہ شریف اور دُرُود شریف وغیرہ حیض کی حالت میں اسلامی بہن پڑھ سکتی ہے بلکہ مُستحب (اورثواب کاکام)ہے کہ نَمازوں کے اوقات میں وُضو کر کے اتنی دیر تک دُرُود شریف اور دوسرے وظائف پڑھ لیا کرے جتنی دیر میں نَماز پڑھ سکتی تھی تاکہ عادت باقی رہے۔(بہارِ شريعت حصّہ۲ص۱۰۱،۱۰۲) {5} روزے کی حالت میں اگر حیض شروع ہوگیا تو وہ روزہ جاتا رہا اس کی قضا رکھے، روزہ فرض تھا تو قضا فرض ہے اورروزہ نفل تھا تو قضا واجب ہے۔(بہارِشریعت حصّہ۲ص۱۰۴) حیض والی کے لئے اِختیار ہے کہ چھپ کر کھائے یا سب کے سامنے ،روزہ دار کی طرح رہنا اُس پر ضَروری نہیں ۔ ( جوہرہ ج۱ص۱۸۶) مگر چھپ کرکھانا بہتر ہے ۔ (بہارشریعت ج۱، ص۱۰۰۴) {6} حیض کی حالت میں سجدۂ تِلاوت بھی حرام ہے اور سجدہ کی آیت سننے سے اس پر سجدہ واجب نہیں۔ (اَیضاًص۱۰۴) {7} رات کو سوتے وقت عورت پاک تھی اور صبح کو سو کر اٹھی تو حیض کا اثر(effect) دیکھا تو اُسی وقت سے حیض کا حکم دیا جائے گا رات سے حائِضہ(menstruation) نہیں مانی جائے گی۔ (بہارِشریعت حصّہ۲ص۱۰۴) {8} حیض والی صبح کو سو کر اٹھی اورکپڑے وغیرہ پر کوئی نشان حیض کا نہیں تو رات ہی سے پاک مانی جائے گی۔ (اَیضاً مُلخصاً) {9} دس(10) دن میں جب تک عورت کو خون آئے نَماز چھوڑے رکھے البتّہ اگر خون کا بہنا دس (10)دن رات مکمل (یعنی240 گھنٹے)سے بڑھ جائے تو غسل کرکے نماز پڑھنا شروع کردے یہ اس صورت میں ہے کہ پچھلا حیض بھی دس(10) دن رات آیا ہو اور اگر پچھلا حیض دس(10) دن سے کم تھا۔ مثلاً چھ(6) دن کا تھا تو اب غسل کرکے چار(4) دن کی قَضا نَمازیں پڑھے اور اگر پچھلا حیض چار (4)دن کا تھا تو اب چھ(6) دن کی قَضا نمازیں پڑھے گی۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرِّجہ ج۴ص۳۵۰) اِستِحاضہ کے مسائل: {1} اِستحاضہ میں نہ نماز مُعاف ہے نہ روزہ ۔ (عالمگیری ج۱ ص۳۹) {2} استحاضہ والی کا کعبہ شریف( اورمسجد) میں داخِل ہونا، طوافِ کعبہ(یعنی عبادت کی نیّت سے کعبہ شریف کے چکر لگانا) ، وُضو کرکے قراٰن شریف کو ہاتھ لگانا اورا س کی تلاوت کرنا یہ تمام کام جائز ہیں۔ ( رَدُّالْمُحتَار،ج۱،ص۵۴۴) {3} اِستحاضہ اگر اس حد تک پہنچ گیا کہ(بار بار خون آنے کی وجہ سے) اس کو اتنا وقت (time) نہیں ملتی کہ وُضو کرکے فرض نَماز ادا کر سکے تو نماز کا پورا ایک وَقت شروع سے آخِر تک اسی حالت میں گزر جانے پر اس کو معذور کہا جائیگا ،ایک وُضو سے اُس وَقت میں جتنی نَمازیں چاہے پڑھے، خون آنے سے اس کا وُ ضو نہ جائے گا۔ (بہارِ شريعت حصہ ۲ ص ۱۰۷) {4} اگر کپڑاوغیرہ رکھ کر اتنی دیر تک خون روک سکتی ہے کہ وُضو کرکے فرض پڑھ لے، توعذر ثابت نہ ہوگا(یعنی ایسی صوررت میں '' معذور'' نہیں کہلائے گی) ( )۔