’’نماز کی کچھ مؤکدّہ سنّتیں ‘‘
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتےہیں:
جو سنّت کے مطابق عمل کرتا ہے اللہ کریم اس کا عمل قبول(accept) فرمالیتا ہے ۔ (الابانۃ الکبری لابن بطۃ،، ۱/۳۵۸)
واقعہ(incident): گندا پرندہ صاف ہوگیا
اللہ کریم کے پیارے نبی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ایک بارسمندر (sea)کےقریب سے جارہے تھے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک(bird یعنی) پَرِندے کو دیکھا جو کہ سمندر کی مٹی(sea sand) میں جاتا ہے جس سے اُس کا جسم گندا ہوجاتا۔ پھر وہ وہاں سے نکل کرسمندرمیں نہانے چلا جاتا جس سے وہ پھر صاف ہو جاتا، اِس طرح اُس نے پانچ(5) مرتبہ کیا۔ حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو اِس بارے میں، حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے بتایا کہ: یہ جو آپ نے دیکھا ہے یہ حضرت مُحمّد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُمت (nation)کے نمازیوں کی مثال اور یہ سمندر کی مٹی ،اُن کے گناہوں کی مثال اورسمندر میں نہاناپانچ نمازوں کی مثال ہے۔(نزھَۃ المجالِس ج۱،ص۱۴۵ ملخّصاً )
سنّت دو طرح کی ہے: (۱) مؤکدّہ(۲)غیر مؤکدّہ
سنّتِ مؤ کَّدہ پر عمل ضروری ہے:
سنت مؤکدہ اگر ایک آدھ مرتبہ(یعنی کبھی کبھی) چھوڑی تو بُرا کیا اور اگر سنّت مؤکدّہ چھوڑنے کی عادت بنالی تو گناہ گار ہے (فتاویٰ رضویہ، جلد ۱، ص۵۹۵ ،مُلخصاً) ۔ کوئی مستحب کیسی ہی فضیلت والا ہو جب کسی سنّت مؤکدہ کے چھوٹنے کا سبب بنے تو مستحب نہیں رہتا بلکہ اب وہ بُرا عمل ہو جاتا ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۷،ص۴۱۰ ماخوذاً)
سنّتِ غیر مؤکَّدہ:
اس کا کرنا توثواب ہے مگر اسے نہ کرنے والا گناہ گار نہیں یعنی چاہے تو اس سنّت پر عمل کرے اور اگر اس سنّت پر عمل نہ کرنے کی عادت ہو ، تب بھی گناہ نہیں (فتاوی رضویہ جلد۱،ص۹۰۳ ماخوذاً) ۔مگر یاد رہے! کہ ہمیں کوئی بھی نیکی چھوڑنی نہیں چاہیے کیونکہ ہر نیکی (جو دین کی تعلیمات(teachings) کے مطابق کی جائے تو وہ) اللہ کریم کو خوش کرنے والی اور جنّت میں لے کر جانے والی ہے۔
نماز کی چند مؤکدّہ سنّتیں :
{۱} تکبیرِ تحریمہ(یعنی نماز میں پہلی بار ’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘ کہنے) کیلئے ہاتھ اُٹھانا ، سنّت مؤکّدہ ہے۔(جدّ الممتار، جلد۳،ص ۱۷۷، مُلخصاً)
{۲} پہلی رکعت میں سُبْحٰنَکَ اللّٰہْمَّ پڑھنا سنّتِ مؤکّدہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد۶، ص ۱۸۲، مَاخوذاً)
{۳} پہلی رکعت کے شروع میں اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھناسنّت مؤکدّہ ہے ۔(الھدایۃ مع شرح البنایۃ،ج۲،ص۲۱۶،مطبوعہ کوئٹہ، ماخوذاً)
{۴} تکبیر قنوت (یعنی وتر کی تیسری (3 rd )رکعت میں دعائے قنوت پڑھنےسے پہلے اَللہُ اَکْبَر)کے لیے ہاتھ اُٹھانا بھی سنّت مؤکّدہ ہے۔(درمختار مع رد المحتار، جلد۲،ص۲۶۲ تا ۲۶۳)
{۵} اسی طرح عید کی چھ(6) زائد(additional) تکبیروں(یعنی اَللہُ اَکْبَر کہنے) کے لیے ہاتھ اُٹھانا بھی سنّت مؤکّدہ ہے۔(درمختار مع رد المحتار، جلد۲،ص۲۶۲ تا ۲۶۳)
{۶} قعدہ اخیرہ(یعنی سلام پھیرنے سے پہلے آخری مرتبہ بیٹھنے) میں تَشَہُّد (یعنی اَلتَّحِیَّات پڑھنے)کے بعددرود پڑھنا سنّت ِمؤکدّہ ہے۔(فتاویٰ امجدیہ جلد۱، ص ۷۴، مُلخصاً)
’’نمازکے مستحبات‘‘
حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا :
اے انس(رَضِیَ اللہُ عَنْہ) اپنی نگاہ سجدہ گاہ( یعنی سجدہ کرنے کی جگہ) پر رکھو ۔(سنن کبریٰ، کتاب الصلاۃ، ۲/۴۰۳، حدیث:۳۵۴۵ )
واقعہ(incident): نماز کی وجہ سے اونٹنی واپس آ گئی
ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : میں نے ایک گاؤں والےکو مسجد کے دروازے پر آتا دیکھا، وہ اونٹنی سے اُترا اور اُونٹنی کو وہیں چھوڑ کر مسجد میں چلا گیا اورآرام سے نماز پڑھنے لگا ، پھر دُعا کرنے لگا ، جب وہ باہَر ن
(1) جواب دیجئے:
س۱) سنّت مؤکدّہ پر عمل نہ کرنا کیسا ہے؟
س۲) نماز کی کچھ سنّت مؤکدّہ بتائیں ؟
نکلا تو اونٹنی نہیں تھی تواُس نے اللہ کریم سےعرض کی : یا اللہ ! میں نے تیری نماز پڑھ لی ! میری چیز(یعنی اُونٹنی )کہاں ہے ؟لوگ کہتے ہیں کہ : تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک آدمی اونٹنی پر آیا اور اونٹنی اُس گاؤں والے کو دے کر چلا گیا ۔
نماز کے مستحب
01 | مسجد میں امام صاحب پہلے سے موجود ہوں تواقامت میں حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا |
02 | نیّت کے الفاظ زبان سے کہنا (دل میں نیّت ہونا ضروری ہے) |
03 | قیام میں دونوں پنجوں(پیروں) کے درمیان چار انگلیوں کا فاصلہ ہونا۔ |
04 | قیام میں سجدہ کی جگہ نظر رکھنا اور رکوع میں دونوں قدموں پر |
05 | قیام میں سجدہ کی جگہ نظر رکھنا اور رکوع میں دونوں قدموں پر |
06 | اکیلے(alone)نمازپڑھنے والے کا رکوع اور سجدے میں تین بار سے زیادہ(طاق عدد میں)تسبیح کہنا (مثلا ًپانچ(5)،سات(7)، نو(9))۔ |
07 | اکیلے(alone)نمازپڑھنے والے کا رکوع اور سجدے میں تین بار سے زیادہ(طاق عدد میں)تسبیح کہنا (مثلا ًپانچ(5)،سات(7)، نو(9))۔ |
08 | سجدہ بلاواسطہ(یعنی جائے نماز وغیرہ کے بغیر)زمین پر کرنا |
09 | سجدہ میں ناک کی طرف اور قعدہ میں گود (دامن)کی طرف دیکھنا۔ |
10 | سجدہ میں ناک کی طرف اور قعدہ میں گود (دامن)کی طرف دیکھنا۔ |
11 | پہلے سلام میں سیدھے کندھے کی طرف اور دوسرے میں الٹے کندھے کی طرف دیکھنا۔ |
12 | پہلے سلام میں سیدھے کندھے کی طرف اور دوسرے میں الٹے کندھے کی طرف دیکھنا۔ |
وضاحت(explanation):
اوپر جو مستحب کی تعداد (number) بیان کی گئی
(2) ’’مستحب‘‘ وہ نیک کام ہوتا ہے جسے اسلام اچھاسمجھے کہ اسے کرنے والے کو ثواب ملتا ہے مگراسے چھوڑنے پر آخرت (قبر اور قیامت)میں کوئی پکڑ یا گناہ نہیں ۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۳۸ ماخوذاً)
ہے، وہ آسانی کے لیے ہے، کچھ جگہ ایک ساتھ چند مستحبات بھی بیان ہوئے ہونگے اور کچھ مستحب بیان ہونے سے رہ گئے ہونگے۔
نوٹ:
سنّتیں اور مستحب چھوڑنے سے نماز ہو جاتی ہے مگر دوبارہ پڑھ لینا مستحب اور ثواب کا کام ہے، اگرچہ سنّتیں اور مستحب بھولے سےچھوٹے ہوں۔(بہارِ شریعت ،حصہ:۴، ۱/۷۰۹ ملخصاً)
’’نماز کےکچھ مکروہِ تنزیہی‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
جب نماز میں کسی کو جماہی آئے تو جہاں تک ہو سکے روکے اور ''ھا'' نہ کہے(یعنی جماہی کی آواز نہ نکالے) کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، شیطان اس سے ہنستا ہے۔ (بخاري، کتاب بدء الخلق، ۲/ ۴۰۲، حدیث: ۳۲۸۹)
واقعہ(incident): قبر میں نماز
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فوت ہوگئے تو جب آپ کو دفن کیا جارہا تھا،اس دوران ایک پتھر قبر کے اندر چلا گیا، لوگ پتھر اٹھانے کیلئے نیچے ہوئےتو یہ دیکھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ قَبْر میں کھڑے ہو کرنَماز پڑھ رہے ہیں ! آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے گھر والوں سے جب پوچھا گیا تو بیٹی نے بتایا کہ: والد صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روزانہ دُعا کیا کرتے تھے: یا اللہ ! اگرتُو کسی کو وفات کے بعد قَبْر میں نَماز پڑھنے کی اجازت دیتا ہے تو مجھے بھی نماز پڑھنے کی اجازت دینا۔جب بھی لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پیارے پیارے مزار کے قریب سے گزرتے تو قَبْر شریف سے قرآن ِ پاک کی تلاوت کی آواز آرہی ہوتی۔(حِلیۃُ الاولیا ء ج۲ ،ص۳۶۲۔۳۶۶ مُلتَقطاً )
نماز کےمکروہ ِتنزیہی
(3) جواب دیجئے:
س۱) مستحب کسے کہتے ہیں؟
س۲) قیام اور سجدے میں نظر کہاں رکھنا مستحب ہے؟
(4) ’’مکروہ تنزیہی‘‘ وہ کام ہے کہ جس کے کرنے کو اسلام پسند نہیں کرتامگر یہ دینِ اسلام میں اتنا ناپسندیدہ(dislike) نہیں کہ اس کے کرنے پر بندے کو عذاب(punishment) ہو۔ نماز میں اگرمکروہِ تنزیہی ہو جائے تو بندہ گناہ گار تو نہیں ہوگا مگرایسی نماز دوبارہ پڑھ لینا بہترہے(مگر دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے)۔
نمبر شمار | مکروہِ تنزیہی |
01 | دوسرے کپڑے ہونے کے باوجود کام کاج کے کپڑوں میں نماز پڑھنا۔ |
02 | الٹا کپڑا پہننا یا اوڑھنا۔ |
03 | سستی سے ننگے سر نماز پڑھنا۔ |
04 | مرد کا نماز میں پائنچے(bottom of trousers)کا ٹخنوں(ankles) سے نیچے رکھنا۔ |
05 | ایسی چیز کے سامنے نماز پڑھنا جس سے دھیان بٹے مثلاً سینری (scenery)، شیشہ وغیرہ۔ |
06 | صحرا(desert)میں سُترے کے بغیر نماز پڑھنا جبکہ ذہن میں ہو کہ لوگ یہاں سے گزریں گے۔ |
07 | جلتی آگ کے سامنے نماز پڑھنا۔ |
08 | اونٹ گھوڑے وغیرہ مویشیوں کے باندھنے کی جگہ پر نماز پڑھنا۔ |
(5) مرد کو اپنے تمام کپڑے(مثلاً شلوار، پینٹ، جُبّہ،لمبا عربی کُرتا) اس طرح سلوانے چاہئیں کہ سب ٹخنوں(ankles) سے اوپر رہیں کہ لباس کا ٹخنوں سے اوپر ہونا سنّت ہے۔ اگر کپڑا لمبا ہو تو جتنا ہو سکے کھینچ کر اوپر کرلیں، اب بھی ٹخنوں سے اوپر نہیں ہو ا تو اُسے اسی طرح ٹخنوں سے نیچے رہنے دیں کیونکہ کپڑے فولڈ کر کے یا اوپر سے شلوار موڑ کر نماز پڑھنا ناجائز و گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔(نماز کا طریقہ ص۷۰ ماخوذاً)
(6) ڈیڑھ فٹ یا18 انچ اُونچی اور انگلی برابر موٹی کوئی بھی چیز سُترہ بن سکتی ہے۔ اس کی تفصیل(detail) ”دین کے مسائل“ 1 part : ، 29 Topic number : میں دیکھیں۔
(7) شمع(candle) یا چراغ (lamp) کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔
09 | نماز کے لیے دوڑنا |
10 | عام راستے میں نماز پڑھنا |
11 | کُرتے وغیرہ کے بٹن کُھلے ہونا جس سے سینہ کُھلا رہے |
12 | بغیر مجبوری دیوار وغیرہ پر ٹیک لگانا۔ |
13 | نماز میں ثنا اوراٰمین وغیرہ اذکار زور سے پڑھنا (امام صاحب کے پیچھے بھی آہستہ ہی پڑھیں گے)۔ |
14 | نماز میں ہاتھ یا سر کے اشارے سے سلام کا جواب دینا(اگر آواز سے جواب دیا تو نماز ٹوٹ جائے گی)۔ |
15 | دائیں بائیں جھومنا(یعنی ہلنا)۔ |
16 | انگڑائی لینا(جس طرح نیند پوری کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو لمبا کرتے ہیں)۔ |
17 | جان بوجھ کر(deliberately) بلا وجہ کھانسنا کھنکارنا(اگر دوحرف پیدا ہوگئے تو نماز ٹوٹ جائے گی)۔ |
18 | بغیر عذر ہاتھ سےمکّھی، مچھر اڑانا۔ |
وضاحت(explanation):
مزید(more) مکروہ تنزیہی اگلے topic میں۔
’’مکروہاتِ تنزیہی اورتصویر کے سامنے نماز
اُمّ المؤمنین اُمّ سَلَمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں:
ہمارا ایک غلام جس کا نام اَفلَح تھا جب سجدہ کرتا تو پھونکتا(یعنی منہ سے ہوا نکالتا تھا)، تو نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اے افلح! اپنا چہرہ خاک آلود کر(یعنی ناک و پیشانی (forehead)پر مٹی لگنے دے) ۔( ترمذی، أبواب الصلاۃ، ۱/ ۳۹۲ ، حدیث: ۳۸۱) ( یاد رہے! پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )
(8) جواب دیجئے:
س۱) مکروہ تنزیہی کسے کہتے ہیں؟
س۲) نماز کے دس مکروہ تنزیہی بتائیں۔
واقعہ(incident): گدھا کس طرح زندہ ہوا؟
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کریم کی خوشی اور رضا کے لیے کسی جگہ جا رہا تھا راستے میں اُس کا گدھا(donkey) مر گیا، اُس نے وُضو کیا، دو(2) رَکعت نماز پڑھی اور اللہ کریم سے عرض کی: یا اللہ ! میں تیری خوشی اور رضا کے لیے اپنے گھر سے دور جا رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تو مرنے والوں کو زندہ کرتا ہے اور قبر والوں کوقِیامت کے دن اُٹھائے گا، اے اللہ! آج کے دن مجھ پر رحم فرما اور میرے گدھے کو زندہ کر دے۔ (یہ کہنا تھا کہ) گدھا کا ن ہلاتا ہوا کھڑا ہوگیا۔ (دلائل النبوۃ ج۶،ص۴۸)
نماز کے چندمکروہ ِتنزیہی
19 | رکوع یا سجدہ میں بلاضرورت تین (3)بار سے کم تسبیح کہنا۔ |
20 | رکوع میں سر کو پیٹھ سے اُونچا نیچا کرنا۔ |
21 | رکوع میں گھٹنوں(knees) پر ہاتھ نہ رکھنا۔ |
22 | سجدے میں جاتے ہوئے گھٹنے سے پہلےبلا مجبوری ہاتھ زمین پر رکھنا۔ |
23 | سجدے وغیرہ میں انگلیاں قبلے کی طرف نہ کرنا۔ |
24 | مرد یا لڑکے کا سجدے میں ران (thigh) کو پیٹ(belly) سے چپکا دینا۔ |
25 | رکوع یا سجدے میں بِلا ضرورت تین(3) بار سے کم تسبیح کہنا۔ |
26 | اٹھتے وقت بلا مجبوری ہاتھ سے پہلے گھٹنے زمین سے اٹھانا۔ |
27 | ہر وہ کام جس سے دیکھنے والے کے بارے میں مضبوط خیال (strong assumption) نہ ہو کہ یہ نماز نہیں پڑھ رہا،اگر کسی فائدے کے لیے نمازی نے کیا(مثلاً قیام میں خارش ختم کرنے کے لیے ایک مرتبہ کھجانا) تو یہ جائز ہے۔ اور اگر کسی فائدے کے لیے نہ ہو(مثلاً بلاوجہ ایک مرتبہ کھجانا) تو یہ مکروہِ تنزیہی ہے۔ |
28 | مرد یا لڑکے کا سجدے میں ران (thigh) کو پیٹ(belly) سے چپکا دینا۔ |
وضاحت(explanation):
اوپر جو مکروہ تنزیہی کی تعداد (number) بیان
(10) اسلامی بہنیں اور بَچِّیاں ران (thigh)،پیٹ سے ملائیں گی اور سمٹ (keeping their body parts close together)کر سجدہ کریں گی،اسلامی بہنوں کی نماز اور بارہ
(12) رسائل عطاریہ کے practical ویب سائٹ farzuloom.net سے دیکھیں۔
کی گئی ہے، وہ آسانی کے لیے ہے، کچھ جگہ ایک ساتھ چند مکروہ بھی بیان ہوئے ہونگے اور کچھ بیان ہونے سے رہ گئے ہونگے۔
جس جگہ نماز پڑھی جا رہی ہے وہاں تصویر ہونے سے نماز کب مکروہ تحریمی ہوگی؟
جس جگہ نماز پڑھى جارہى ہو اس جگہ تصوىر ہونے سے نماز مکروہ تحرىمى (یعنی ناجائز و گناہ) اس صورت (case) مىں ہوگى کہ جب ىہ پانچ (5)باتىں پائى جائىں:(۱)تصوىر پورے قد (height) کى ہو (۲)تصوىرمىں چہرہ(face) سمجھ مىں آرہا ہو (۳) تصوىر کسى کپڑے وغىرہ سے چھپى ہوئى نہ ہو (۴) نمازى کے سامنے( frontمىں ) ہو ىعنى پىچھے ىا سائڈ (side) مىں نہ ہو (۵) تصوىر تعظىم (respect) کے ساتھ لٹکى ہوئى (hanging) ہو ىا تعظىم کے ساتھ رکھى ہوئى ہو(تو ایسی نماز مکروہ تحریمی، ناجائز اور گناہ ہوگی)۔ (جدّالممتار،ج۲،ص۴۰۶تا۴۰۹ماخوذاً)
’’سجدۂ سہو کے کچھ مسائل ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
قیامت قریب ہونے کی علامت (یعنی نشانی )ہے کہ تم لوگوں کو نماز ضائع کرتا ہوا دیکھو گے۔ (کنز العمال ج۱۴ص۲۴۳حدیث۳۹۶۳۲) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: نماز ضائِع کرنے سے مراد یہ ہے کہ لوگ یا تو بالکل نماز ہی نہیں پڑھیں گے یا پڑھیں گے تو اس کا کوئی فرض یا واجب چھوڑدیں گے ۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ ص۱۲۳)
واقعہ(incident): آخر میں دو(2) سجدے کیے
حضرت محمد بن یوسف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نماز کی امامت فرمائی۔ نماز میں ایک مقام پر جہاں بیٹھنا تھا آپ کھڑے ہو گئے اور آپ کھڑے رہے واپس نہ آئے۔ نماز مکمل کرنے لگے تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے دو سجدے کر کے نماز ختم کی پھر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ منبر پر تشریف لے آئے(منبر ایسی سیڑھیوں کو کہتے ہیں کہ جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں) اور فرمایا کہ میں نے اللہ کریم کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہو ئے سنا جو شخص اپنی نماز میں کچھ بھول جائے تو وہ (ایک سلام کے بعد) ان سجدوں کی طرح دو سجدے کر لے۔( نسائی،کتاب السھو ،ص۲۱۵،حدیث:۱۲۵۷، مُلخصاً)
(11) جواب دیجئے:
س۱) نماز کے مزید(more) سات (7)مکروہ تنزیہی بتائیں۔
س۲) تصویر کے آگے نماز پڑھنا کب مکروہ تحریمی ہے؟
کھڑے رہے واپس نہ آئے۔ نماز مکمل کرنے لگے تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے دو سجدے کر کے نماز ختم کی پھر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ منبر پر تشریف لے آئے(منبر ایسی سیڑھیوں کو کہتے ہیں کہ جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں) اور فرمایا کہ میں نے اللہ کریم کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہو ئے سنا جو شخص اپنی نماز میں کچھ بھول جائے تو وہ (ایک سلام کے بعد) ان سجدوں کی طرح دو سجدے کر لے۔( نسائی،کتاب السھو ،ص۲۱۵،حدیث:۱۲۵۷، مُلخصاً)
سجدۂ سہو کے مسائل:
{1} نماز کے واجبات میں کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس نقصان اور کمی کو ختم کرنےکے لیے سجدۂ سہو واجب ہے۔
{2} نماز کے واجبات میں چند واجب بھولے سے چھوٹ جائیں توسجدۂ سہو کےوہی دو (2)سجدے سب کے لیے کافی (enough)ہیں۔
{3} جان بوجھ کر(deliberately) واجب چھوڑا تو سجدۂ سہو سے وہ نقصان دور نہ ہوگا بلکہ نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔ یوہیں اگر بھولے سے واجب چھوٹا اور سجدۂ سہو نہ کیا جب بھی نماز دوبارہ پڑھناواجب ہے۔(درمختار ج۲ص۶۵۵ وغیرہ)
اگراَلْحَمْدشریف کا ایک حرف بھی چھوٹا:
{4} فرض کی پہلی دو(۲) رکعتوں میں اور سنّت و نفل اور وِتر کی ہر رَکعت میں اَلْحَمْد شریف کی ایک آیت بھی رہ گئی (بلکہ ایک حَرف بھی چھوٹا)یا سورت سے پہلے دو بار اَلْحَمْد پڑھی یا پہلی مرتبہ سورۃُ الفاتحہ کا زیادہ حصّہ پڑھ لیا تھا پھر دوسری مرتبہ مکمل پڑھ لی(بہارِ شریعت ج۱،ص۷۱۱،مسئلہ۱۵) یا سورت ملانا بھول گیا یا سورت کو اَلْحَمْد شریف سے پہلے پڑھ لیایا اَلْحَمْدشریف کے بعد ایک (۱)یا دو (۲)چھوٹی آیتیں پڑھ کر رکوع میں چلا گیا پھر یاد آیا اور واپس آیا اور تین (3)آیتیں پڑھ کر رکوع کیا تو ان سب صورتوں (cases)میں سجدۂ سہو واجب ہے (بہارِ شریعت ج۱،ص۷۱۰،مسئلہ۱۴) ۔یہ بھی یاد رہے! فَرضَوں کی پہلی دو (۲)رکعتوں اور دوسری نَمازوں کی ہر رکعت میں سورۃُ الفاتحہ کاایک(۱) ایک حَرف اس طرح پڑھنا واجب ہے کہ سُننے میں کوئی رُکاوٹ نہ ہو تو اپنے کانوں سے سُن لے۔ ( نماز کا طریقہ ص ۵۴مُلخصاً)
نوٹ:
فرض نماز کی تیسری(3rd ) اور چوتھی (4th)رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنا افضل (اور زیادہ ثواب کا کام)ہے اور سُبْحَانَﷲ کہنا بھی جائز ہے اور جتنی دیر میں تین(3) تسبیح پڑھی جاتی ہے( مثلاً تین مرتبہ سُبْحَانَﷲ!)، اتنی دیر خاموش کھڑے رہنے سے بھی نماز تو ہو جائے گی مگر خاموش نہ رہے(کم از کم تین بار سُبْحَانَﷲ! کہہ لے)۔ (بہارِ شریعت ج۱، ص ۵۳۱، مسئلہ ۱۱۱ مُلخصاً)
اَلْحَمْد شریف اور سورت ملانے میں بھول ہوگئی:
{5} ا َلْحَمْد شریف پڑھنا بھول گیا اور سورت شروع کر دی اور ایک(۱) آیت جتنی پڑھ لی ،اب یاد آیا تو اَلْحَمْد پڑھ کر سورت پڑھے اور اب سجدۂ سہوواجب ہے اگر سورت پڑھنے کے بعد یا رکوع میں یاد آیا کہ ا َلْحَمْد شریف نہیں پڑھی (تو قیام میں واپس چلا جائے) یا رُکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا تو پھر (ہاتھ باندھ کر)اَلْحَمْد شریف پڑھ کر سورت پڑھے اور(ان دونوں صورتوں (cases)میں) رُکوع دوبارہ کرے اور سجدۂ سہو کرے۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۷۱۱،مسئلہ۱۶)
{6}سورت پہلے پڑھی اس کے بعد اَلْحَمْد یا اَلْحَمْد و سورت کے درمیان اتنی دیر خاموش رہا جس میں تین (۳) بار سُبْحَانَﷲ کہا جاسکتا تھا، تو اب سجدۂ سہو واجب ہے۔
{7} جہاں قراءت فرض ہے( یعنی نمازِ جنازہ اور چار(۴) رکعتی فرض کی تیسری ،چوتھی(3rd ,4th ) رکعت اور مغرب کی تیسری (3rd )رکعت کے علاوہ (other) ہر نماز کی ہر رکعت میں) اَلْحَمْد کا ایک لفظ (بلکہ ایک حرف) بھی رہ گیا تو سجدۂ سہو کرے۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۱۹،مسئلہ،۵۸،۵۷ مُلخصاً)
اگر کسی رکعت کا سجدہ رہ جائے تو کیا کرے؟:
{8}کسی رَکعت کا کوئی سجدہ رہ گیا اور کسی دوسری رَکعت کے سجدے میں یاد آیا تواُس (رہ جانے والے)سجدے کو ادا کرنے کے دو (۲) طریقے ہیں:
(۱)جس سجدہ میں یاد آیا،اسی وقت وہ چھوٹا ہوا سجدہ کر لے(۲) قعدہ اخیرہ سے پہلے وہ چھوٹا ہوا سجدہ کر لے۔
(۱)جس سجدہ میں یاد آیا،اسی وقت وہ چھوٹا ہوا سجدہ کرنے کا طریقہ:
جس سجدے میں یاد آیا ، (مثلاً پہلے سجدے میں تو)اس سے سر اٹھا لے(جلسے کی طرح بیٹھ جائے) اب وہ بھولا ہواسجدہ کرے پھر اس رکعت کا دوسرا(2nd ) سجدہ کرے(یعنی اس صورت (case) میں کُل تین(total 3) سجدے ہونگے) بلکہ مستحب ہے کہ جس سجدےمیں یاد آیا اسے بھی دوبارہ(again) کر لے(یعنی اس صورت (case) میں تین(۳) سجدےکرنا لازم ہے اور مستحب یہ ہے کہ چوتھا (4th ) سجدہ بھی ہو) اور نماز کے آخر میں سجدۂ سہو کرے۔
(۲) قعدہ اخیرہ سے پہلے وہ چھوٹا ہوا سجدہ کرنے کا طریقہ:
آخری رکعت کے دو (۲) سجدوں کے بعد وہ چھوٹا ہوا سجدہ کرلے(یعنی آخری رکعت میں تین (۳)سجدے ہونگے) پھر اَلتَّحِیَّات وغیرہ پڑھ کر نماز مکمل کر لے اور سجدۂ سہو بھی کرے۔(درمختار و رد المحتار، ج۲،ص ۴۴۴، مُلخصاً)
’’تعدیلِ ارکان اور قعدہ اُولیٰ‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
جواب دیجئے:
س۱) سجدہ سھو واجب ہونے کی چند صورتیں(conditions) بیان کر دیں۔
س۲) اگر کسی رکعت کا بھولا ہوا سجدہ یاد آیا تو اب کیا کرے؟
اﷲ کریم نے کوئی ایسی چیز فرض نہ کی، جو توحید(یعنی اللہ کریم کو ایک ماننے)ا ور نماز سے بہتر ہو۔ اگر اس سے بہتر کوئی چیز ہوتی تو وہ ضرور فرشتوں پر فرض کرتا ،کہ اُن(فرشتوں) میں کوئی رکوع میں ہے اور کوئی سجدے میں۔
واقعہ(incident): نماز میں رکوع اور سجدہ پورا نہ کرنے والا
حضرت حُذَیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز پڑھتے ہوئے رُکوع اور سجدے صحیح طرح ادانہیں کرتاتھاتو اُس سے فرمایا :تم نے نماز نہیں پڑھی اور اگر تم اسی حالت میں اِنتقال کر جاؤتو حضرتِ محمدمصطفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے طریقے پرتمہاری موت نہیں ہو گی (بخاری ج ۱ ص ۲۸۴ حدیث ۸۰۸) ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت حُذَیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اُس آدمی سے پوچھا: تم کب سے اِس طرح نماز پڑھ رہے ہو؟ اُس نے کہا: چالیس(40) سال سے۔ تو آپ نے اس سے فرمایا: تم نے چالیس (40)سال سے نماز ہی نہیں پڑھی اور اگر اِس حالت میں تمہیں موت آگئی تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دین پرنہیں مروگے۔ (نسائی، ص۲۲۵، حدیث ۱۳۰۹، مُلخصاً)
تعدیل ِ ارکان :
{1} رُکوع، سجدوں ، قومہ(یعنی رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونے) او رجلسے (یعنی دو سجدوں کے بیچ میں بیٹھنے) میں(مکمل طور پر آنے کے بعد) کم از کم ایک بار سُبْحَانَﷲ کہنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنی دیر رُکنا تَعْدِیْل ِ ارکان کرنا کہلاتا ہے اور یہ واجب ہے۔ اگر تَعْدِیْل ارکان کرنابھول گیا تو سجدۂ سہو واجب ہے۔(بہار، شریعت ح۳،ص۵۱۸، ح۴،ص۷۱۱، مسئلہ۲۱،مُلخصاً)
قعدۂ اُولیٰ بھول کر کھڑا ہو جانے کا مسئلہ:
{2} فرض (یا وتر)میں پہلا قعدہ بھول گیا تو اس کی تین (3)صورتیں (conditions)ہیں:
(۱)اگر ابھی زمین سے قریب ہے کہ نیچے کا آدھا بدن ابھی تک سیدھا نہیں ہوا تو قعدے میں واپس آ جائے اور اس پر سجدۂ سہو نہیں ۔
(۲) اگر قیام سے قریب ہوگیا یعنی نیچے کا آدھا بدن سیدھا تو ہوگیا مگرکمر میں جھکائو(یعنی ٹیڑھا پن ) باقی ہے تو بھی قعدے میں واپس آنے ہی کا حکم ہے مگر اب اس پر سجدۂ سہو واجب ہے۔
(۳) اگر بالکل سیدھا کھڑا ہوگیا تو قعدے میں واپس جانے کی اجازت ہی نہیں بلکہ اب تیسری(3rd ) رکعت پڑھے اور نماز مکمل کر کےآخر میں سجدۂ سہو کرلے ۔(فتاوی رضویہ جلد ۸، ص۱۸۱، ماخوذاً)
قعدۂ اولیٰ میں دُرُود شریف شروع کر دیا تو۔۔۔؟
{3} (فرض، واجب اور سنّت مؤکدّہ کے)قعدۂ اولیٰ میں تَشَہُّد کے بعد اتنا: اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ (یا اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلٰی سیِّدِنا) پڑھا تو سجدۂ سہو واجِب ہے اس وجہ سے نہیں کہ دُرُود شریف پڑھا بلکہ اس وجہ سے کہ تیسری (3rd )رکعت کے قیام میں دیرہوئی تو اگر اتنی دیر تک خاموش رہاجب بھی سجدۂ سہو واجب ہے۔ (درمختارورد المحتار ج۲ص۶۵۷ وغیرہما)
{4}مُقتدی(جو امام صاحب کے پیچھے، جماعت سے نماز پڑھ رہا ہو) نے قعدۂ اُولیٰ(یعنی پہلے قعدے ) میں امام صاحب سے پہلے تَشَہُّد پڑھ لیا تو اب خاموش رہے، وہ بھی دُرُود و دُعا کچھ نہ پڑھے۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۲۰، مسئلہ ۶۴مُلخصاً)
تَشَہُّد میں بھول :
{5} کسی قعدے میں اگرتَشَہُّد(یعنی اَلتَّحِیَّات)میں سے کچھ (یعنی ایک حَرف بھی )رَہ گیا، سجدۂ سہو واجب ہے، فرض نماز ہو یا نفل
{6}فرض کی پہلی دو (1st n 2nd )رکعتوں اور باقی نمازوں کی ہر رکعت کے قیام میں ا َلْحَمْد کے بعد تَشَہُّد( یعنی اَلتَّحِیَّات) پڑھی توسجدۂ سہو واجب ہے ۔
{7} اگر قعدۂ اُولیٰ میں چند بار تَشَہُّد (یعنی اَلتَّحِیَّات)پڑھی توسجدۂ (سہو) واجب ہوگیا ۔
{8}تَشَہُّد(یعنی اَلتَّحِیَّات) پڑھنا بھول گیا اور سلام پھیر دیا، اب یاد آیا تو فوراً تَشَہُّد پڑھ لے اور سجدۂ سہو کے ساتھ نماز مکمل کرے۔
{9} اگر تَشَہُّد کی جگہ اَلْحَمْد پڑھی تو سجدۂ سہو واجب ہوگیا۔
{10}(دُعائے) قنوت یا تکبیر قنوت یعنی (وتر کی تیسری(3rd ) رکعت میں) قراءَت کے بعد قنوت کے لیے جو تکبیر(یعنی اَللہُ اَکْبَر) کہی جاتی ہے بھول گیا توسجدۂ سہو کرے
{11} امام صاحب سے سہو ہوا(یعنی غلطی سے واجب چھوٹ گیا) اور سجدۂ سہو کیا تو مقتدی پر بھی سجدۂ سہو واجب ہے، چاہے مقتدی کے جماعت میں ملنے سے پہلے، امام صاحب سے سہو ہوا ہو ۔(بہارِ شریعت ج۱،ص ۷۱۳ تا۷۱۵مُلخصاً)
’’قعدہ اخیرہ‘‘
اللہ کریم نے حضرت داوٗد عَلَیْہِ السَّلَامکو وحی فرمائی:
اے داوٗد! بنی اسرائیل سے کہو! جس نے ایک نماز بھی چھوڑی وہ مجھ سے قیامت کے دن اس حال میں ملے گا کہ میں اس پر غضب فرماؤں گا۔ (الزہر الفائح ص۲۷)
اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے والد صاحب ، علامہ مولانا مُفتی نَقِی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: نماز کو چھوڑ دینا اور اپنے مالک کا حکم ٹال دینا سب گناہوں سے بڑا گناہ اور سب بے حیائیوں سے سخت بے حیائی کی بات ہے۔
(انوارِ جمالِ مصطفٰے ص ۳۴۵ مُلخصاً)
اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے والد صاحب ، علامہ مولانا مُفتی نَقِی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: نماز کو چھوڑ دینا اور اپنے مالک کا حکم ٹال دینا سب گناہوں سے بڑا گناہ اور سب بے حیائیوں سے سخت بے حیائی کی بات ہے۔
(انوارِ جمالِ مصطفٰے ص ۳۴۵ مُلخصاً)
قیامت تک یہ رہے گا: نماز میں سات آسمانوں کے فرشتوں کی عبادت ہے
حضرت علامہ محمود رضوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ لکھتے ہیں : نماز میں سات(۷) آسمان کے فرشتوں کی عبادت ہے :{1} پہلے آسمان کے فرشتے قِیام میں کھڑے ہیں ،{2} دوسرےآسمان کےفرشتے رُکوع میں ، {3} تیسرےآسمان کےفرشتے سَجدے میں ، {4}چوتھےآسمان کے فرشتےقعدے میں ،{5} پانچو یں آسمان کے فرشتےتسبیح(یعنی پاکی بیان کرنے) میں ،{6} چھٹےآسمان کےفرشتے تہلیل (یعنی لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہُ کے وِرد ) میں ،{7}ساتویں آسمان کے فرشتےتَمجِید (یعنی اللہ کریم کی بُزرگی اور تعریف بیان کرنے) میں ۔ جب مومن آدَمی دو (۲)رَکعت نماز میں یہ سب کام کرتا ہے تو اللہ کریم فرماتا ہے:اس کے اعمال نامے(یعنی وہ رجسٹر جس میں بندے کے اچھے اور بُرے کام لکھے جاتے ہیں(قوت القلوب، ص ۳۹۶ ،ماخوذاً)) میں سات آسمان کے فرشتوں کی گنتی کے مطابق نیکیاں لکھو۔ (مسائلِ نماز ص۲۶ ملخصاً)
جواب دیجئے:
س۱) تعدیل ارکان کسے کہتے ہیں؟ کیا یہ واجب ہے؟
س۲) قعدہ اُولیٰ میں بھول سے کھڑا ہوگیا، اب کیا کرے؟
قعدہ اخیرہ:
{1} قعدۂ اخیرہ(نماز ختم کرنے سے پہلے اَلتَّحِیَّات کے لیے بیٹھنے) میں درود شریف پڑھنا سنّت مؤکدّہ ہے۔(فتاویٰ امجدیہ جلد۱،ص۷۴)
{2} مسبُوق(یعنی جس مُقتدی کی امام صاحب کے پیچھے ایک یا زیاد ہ ، رکعتیں نکل گئی ہوں اور وہ بعد میں امام صاحب کے پیچھے نماز میں ملا ) کو چاہیے کہ قعدۂ اخیرہ میں ( یعنی سلام پھیرنے سے پہلے آخری بار جب امام صاحب بیٹھیں تو) آہستہ آہستہ اَلتَّحِیَّات پڑھے۔ اگر امام صاحب کے سلام پھیرنے سے پہلے اَلتَّحِیَّات مکمل پڑھ لی توا ب کلمۂ شہادت (اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ط) بار بار پڑھتا رہے۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۵۲۰، مسئلہ ۶۴مُلخصاً)
{3} قعدۂ اولیٰ ہو یا قعدہ اخیرہ ،اَلتَّحِیَّات کا ایک ایک حَرف اس طرح پڑھنا واجب ہے کہ سُننے میں کوئی رُکاوٹ نہ ہو تو اپنے کانوں سے سُن لے۔ اگر کوئی ایک حَرْف بھی چب گیا(یعنی جلدی میں اُس ایک حرف کی آواز ہی نہ نکلی) تو نماز مکروہِ تحریمی ہو جائے گی۔ ( نماز کا طریقہ ص ۵۴مُلخصاً)
{4} پانچویں(5th ) رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا :
(۱)آخری رکعت میں قعدہ نہ کیا اور بھول سے پانچویں(5th ) کے لیے کھڑا ہو گیا:
{a} آخری رکعت میں قعدہ نہ کیا اور بھول سے پانچویں(5th ) کے لیے کھڑا ہو گیا تو جب تک پانچویں (5th )کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جائے (اور سجدۂ سہو کے ساتھ نماز مکمل کر لے)۔
{b}اگرپانچویں (5th ) کا سجدہ کر لیایا فجرمیں دوسری (2nd ) پر نہیں بیٹھا اور تیسری (3rd ) کا سجدہ کرلیا یا مغرب میں تیسری (3rd ) پرنہ بیٹھا اورچوتھی(4th ) کا سجدہ کرلیا ان سب صورَتوں میں فرض باطل ہو گئے (یعنی فرض نماز نہیں ہوئی)۔ مغرب کے علاوہ (other) اور نمازوں میں ایک (1 ) رَکعت مزید(more) ملا لے(تاکہ وہ نماز نفل ہو جائے (یعنی چار (4) رکعت والی نماز چھ (6) رکعت نفل اور دو(2 ) رکعت والی نماز چار(4) رکعت نفل ہو جائے) لیکن مغرب میں بھول سے ایک(1 ) رکعت زیادہ پڑھ لی ہے تو اب یہ پہلے ہی چار(4 ) نفل بن گئےہیں تو اب مغرب میں مزید (more)ایک (1) رکعت نہیں ملائیں گے کہ پانچ(5) رکعت نفل نمازنہیں ہوتی۔ان سب نمازوں کے بعد سجدۂ سہو کریں اور فرض نماز دوبارہ پڑھیں)۔ (غُنْیَہ ص۲۹۰،بہارِ شریعت ج۱ص۵۱۶)
(۲) آخری رکعت میں اَلتَّحِیَّات پڑھنے کے بعد بھول سے پانچویں (5th ) کے لیے کھڑا ہو گیا:
{a } آخری رکعت میں اَلتَّحِیَّات پڑھنے کے بعد پانچویں (5th )رکعت کے لیے بھول کر کھڑا ہوا تو جب تک پانچویں (5th)رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو تو بیٹھ جائے اور سجدۂ سہو کرکے نماز پوری کرلے اور {b}اگر(ظہر یا عشاء میں) آخری رکعت میں اَلتَّحِیَّات پڑھنے کے بعد پانچویں(5th ) (اور فجرمیں تیسری(3rd ) یا مغرب میں چوتھی(4th ) ) رکعت کا سجدہ کرلیا پھر یاد آیا تو ایک(1) رکعت مزید(more) ملا کر (ظہر یا عشاء کی)چھ(6) (اور فجر کی چار (4 ) یا مغرب کی پانچ(5) ) پڑھ کرسجدۂ سہو کر کے سلام پھیر دے ، ایسی صورت (case) میں شروع کی رکعتیں فرض اور آخر کی دو (2 ) رکعت نفل ہوجائیں گی۔( فتاوی عالمگیری ج۱ ص۱۲۹، ماخوذ ا)
{5} مسبوق(امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والا جس کی ایک(1) رکعت یا کچھ رکعتیں رہتی ہوں) اگر امام صاحب کے ساتھ سلام پھیرے تو اس کی صورتیں(conditions) ہیں:
(۱) مسبوق کوامام صاحب کے ساتھ سلام پھیرناجائز نہیں ،چاہےوہ سجدۂ سہو کاسلام ہویاآخری سلام ہو۔اگر جان بوجھ کر (deliberately) سلام پھیرے گا تو نماز ہی نہیں ہو گی۔
(۲) اگرمقتدی (یعنی امام کے پیچھے نماز پڑھنے والا)بھول کر واجب چھوڑ دےتو اس وجہ سے، اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہو گا۔ اسی طرح مسبوق (یعنی جس کی ایک(1) یا زیادہ رکعتیں نکل گئی ہوں)بھی جب تک امام صاحب کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے، بھول کر واجب چھوڑ دے تو اس پر بھی سجدہ سہو واجب نہیں ہو گا لھذا سجدۂ سہو کاسلام امام صاحب کے ساتھ بھولے سے پھیرا،تو چاہے امام صاحب کے سلام سے (a)پہلے یا(b) ساتھ یا(c) بعدپھیراہو سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا،کیونکہ مسبوق اب تک امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے لھذا بھو لے سے واجب چھوڑ دے گا تو اُس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا۔
(۳) آخری سلام بھولے سے امام صاحب سے(a) پہلے یا(b) ساتھ سلام پھیراتومقتدی(یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز میں) ہونے کی وجہ سےان صورتوں (cases) میں بھی سجدۂ سہو واجب نہیں۔
(۴) آخری سلام بھولے سے امام صاحب کے سلام کے بعد پھیرا تو سجدۂ سہو واجب ہوگا، کیونکہ جس کی رکعت رہ گئی ہے، وہ امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد،اُن کامقتدی نہ رہا بلکہ اب وہ اکیلے(alone) نماز پڑھنے والا بن گیا ہے اور جو اکیلے نماز پڑھنے والا ہوتا ہے اگر اس سے بھولے سے واجب چھوٹ جائے تو سجدۂ سہو واجب ہوتاہے۔
( دیکھئے ’’فتاوٰی رضویہ‘‘ ج۸، ص۱۸۷ تا ۱۹۱)
(14) جواب دیجئے:
س۱) قعدہ اخیرہ میں دردو شریف نہ پڑھنے کی عادت بنانا کیسا؟
س۲) مسبوق نے اگر امام صاحب کے ساتھ یا امام صاحب کے سلا م پھیرنے کے بعد، سلام پھیر دیا تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
’’رکعتوں کی تعداد میں شک(doubt) کے مسائل‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
جو نماز پڑھے گا اس کے لیے نماز برہان ہوگی ، قیامت کے دن دلیل ہوگی، نور ہوگی اور نجات ہوگی اور جو نماز نہیں پڑھے گا تو اس کے لیے نہ نور، نہ برھان،نہ نجات ۔(قرۃ العیون ومفرح القلب المحزون،ص۳۸۴)
واقعہ(incident): بیٹے کی موت پر صبر
حضرت اِبنِ عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکو جب آپ کے بیٹے کے فوت ہونے کی خبر ملی، تویہ بات سن کر نماز پڑھنا شروع کردی اور اتنی لمبی نماز پڑھی کہ لوگ آپ کے بیٹے کوقبر میں دفن کر کے بھی آگئےلیکن آپ کی نماز پوری نہیں ہوئی تھی۔لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایاکہ مجھے اپنے بیٹے سے بہت محبت تھی،مجھے اس کی موت کا بہت افسوس ہوا اور مجھے بہت تکلیف ہوئی، لہٰذا میں نے نماز پڑھنا شروع کر دی کہ نماز پڑھنے سے تکلیف دور ہوتی ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ترجمہ (Translation) :اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو ۔ (ترجمہ کنز العرفان)(تفسیر نعیمی ج ۱،ص ۲۹۹تا۳۰۰)
نماز کی رکعتوں کی تعداد(numbers) میں شک :
{1} جس کو رَکعت کی گنتی(counting) میں شک (doubt)ہو، مَثَلاً تین(3) ہوئیں یا چار(4)؟ اور بالغ(grown-up) ہونے کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے تو سلام پھیر کر نماز توڑ دے یا غالب گمان(مضبوط خیال۔strong assumption) کے مطابق پڑھ لے مگر پھر بھی یہ نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔یاد رہے! صرف توڑنے کی نیّت کافی نہیں ہوتی ، نماز توڑنے والا عمل کرنا بھی ضروری ہے(مثلاً سلام پھیر دے) ۔
{2} اگر یہ شک(doubt) پہلی بار (first time)نہیں ہوا بلکہ ہوتا رہتا ہے تواب یہ دیکھے کہ کسی رکعت کا گمان غالب ہو رہا ہے!(یعنی کوئی مضبوط خیال آ رہا ہے کہ میں نے اب تک اتنی رکعتیں پڑھی ہیں!)اب اگر گمان غالب ہو رہا ہو تو(جو خیال دل میں مضبوط ہو جائے) اتنی رکعتیں مان لے اور باقی نماز پوری کر لے ۔ یاد رہے! گمانِ غالب پر عمل کی صورت میں سجدۂ سہو نہیں (کیونکہ یہ زندگی کا پہلا واقعہ نہیں) لیکن جبکہ سوچنے میں اتنا وقت لگایا کہ ایک رکن کی مقدار(یعنی اتنی دیر کہ جس میں تین مرتبہ سُبْحَانَ اللہ کہہ سکتے ہوں ) سوچتا رہا تو اب سجدۂ سہو واجب ہوگیا۔
رکعتوں کی تعداد(numbers) میں باربار شک ہوتا ہے اور کہیں گمان غالب نہ ہو رہا ہو تو۔۔
{3}رکعتوں کی تعداد(numbers) میں باربار شک ہوتا رہتا ہے اورگمان غالب نہ ہو رہا ہو تو کم کی جانب کو اپنائیں:
(۱) اگر دو(2)رکعت کی نماز میں ایک(1) اور دو (2)میں شک ہوتواس رکعت میں قعدہ کریں(کہ ہو سکتا ہے یہ دوسری ہو) اور مزید(more) ایک (1) رکعت پڑھیں(ہو سکتا ہے کہ جو پہلے پڑھی تھی وہ پہلی(1st ) ہی ہو)، اس (دوسری۔2nd )میں بھی قعدہ کریں اور اس کے بعدسجدۂ سہو بھی کریں۔
(۲) اگر چار (4)رکعت کی نماز میں ایک(1) اور دو(2) میں شک ہو تو اب تین(3) رکعت مزید(more) پڑھے، ہر رکعت میں قعدہ کریں(تاکہ قعدے والی رکعت میں قعدہ ہو جائے) اور آخر میں سجدۂ سہو کر کےسلام پھیر دیں۔
(۳) دو(2) اور تین(3) میں شک ہو تو اپنے آپ کو دوسری ( 2nd ) میں سمجھیں اور اب اس رکعت میں قعدہ کریں (کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری( 2nd ) ہی ہو) اوراگلی(یعنی تیسری۔3rd ) رکعت میں بھی قعدہ کریں(کیونکہ ہو سکتا ہے یہ چوتھی(4th ) رکعت ہو) پھر آخری رکعت پڑھیں اور سجدۂ سہو کر کےسلام پھیر دیں۔ یعنی جب دو (2) اورتین (3) میں شک ہوا تو اس رکعت میں قعدہ کریں اور مزید (more)دو(2) رکعتیں پڑھیں، ہر رکعت میں قعدہ کرکےآخر میں سجدۂ سہو بھی کریں۔
(۴) تین(3) اور چار (4) میں شک ہو تو اپنے آپ کوتیسری (3rd) میں سمجھیں اور اس رکعت میں قعدہ کریں (کیونکہ ہو سکتا ہے یہ چوتھی(4th) رکعت ہو) پھر ایک اور رکعت پڑھیں(کیونکہ ہو سکتا ہے یہ آخری والی چوتھی(4th ) رکعت ہو) اور اب سجدۂ سہو کر کے سلام پھیر دیں۔ یعنی جب تین(3) اور چار(4) میں شک ہوا تو اس رکعت میں قعدہ کریں اور مزید (more)ایک رکعت پڑھیں، اس میں بھی قعدہ کرکےسجدۂ سہو بھی کرئیں۔(بہارِ شریعت ج۱،ص ۷۱۸مُلخصاً)
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
جب کوئی دوسروں کو نماز پڑھائے تو تخفیف (یعنی مختصر short)کرے کہ ان میں بیمار اور کمزور اور بوڑھے ہوتے ہیں اور جب اپنی پڑھے تو جس قدر چاہےلمبی کرے۔ (صحيح البخاري، الحدیث: ۷۰۳، ج۱، ص۲۵۲،وغیرہ)
واقعہ(incident): اعلی ٰحضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہاورجماعت کے ساتھ نمازیں
امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ، اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے لکھ کر جن دینی مسائل کے جواب دیے، ان کو جب کتاب میں جمع کیاگیا، عربی جملوں کا ترجمہ وغیرہ کیا گیا تو وہ 22,000 صفحات (twenty two thousand pages) سے بھی زیادہ بن گئے،جب آپ کےپاؤں کےانگوٹھے میں کچھ مسئلہ ہو گیا، تو خاص ڈاکٹر surgeon) )نے اُس انگوٹھے کا آپریشن کیا، پٹّی bandage) )باندھنے کے بعد عرض کی : حضور! آپ بالکل نہ چلیں تو یہ دس بارہ(10-12) دن میں ٹھیک ہو جائے گا،ورنہ زیادہ وقت لگے گا۔ یہ کہہ کر ڈاکٹرچلے گئے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مسجد میں جا کر ہی جماعت سے فرض نماز پڑھتے تھے۔ جب ظہر کا وقت آیا تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے وُضو کیا، کھڑے نہیں ہوسکتے تھے اس لئے زمین پر بیٹھے بیٹھے،آہستہ آہستہ آگے ہوتے رہے اورباہر دروازے تک آگئے، لوگ سمجھ گئےاور انہوں نے کُرسی پر بٹھا کر آپ کومسجِدمیں پہنچا دیا اور اُسی وقت رشتہ داروںوغیرہ نے یہ سوچا کہ ہر اذان کے بعد چار(4) آدمی کرسی لے کر آجائیں گے اور پلنگ سے ہی کرسی پر بٹھا کر مسجد لے جائیں گے۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک مہینا چلتا رہا۔ جب چوٹ اچّھی ہوگئی تواعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خودمسجد جانا شروع کر دیا۔ (فیضانِ اعلیٰ حضرت ص۱۳۶)
جواب دیجئے:
س۱) زندگی میں پہلی بار رکعتوں کی تعداد(number) میں شک ہوا تو کیا کریں؟
س۲) اگر رکعتوں کی تعداد میں بار بار شک ہوتا ہوتو کیا کریں؟
امام:
{1} مرد غیرمعذورکے امام کے ليے چھ شرطیں (preconditions)ہیں: (۱) اسلام (۲) بالغ (grown-up)ہونا (۳) عاقِل(یعنی پاگل وغیرہ نہ) ہونا (۴) مرد ہونا (۵) صحیح قراء ت والا ہونا (۶) معذور نہ ہونا (معذور شرعی کے مسائل اگلے سبق میں دیکھیں) ۔(بہار شریعت ج۱، ص ۵۶۱مُلخصاً)
{2} سب سے زیادہ اِمام بننے کا حقدار(eligible) اور بہتر وہ شخص ہے (۱) جو نماز و طہارت(یعنی پاکی ) کے مسائل کو سب سے زیادہ جانتا ہو، اگرچہ باقی علوم(مثلاً عربی گرامر، قرآن کی تفسیر وغیرہ) میں پوری مہارت(skills) نہ رکھتا ہو، لیکن شرط(condition) یہ ہے کہ(۲) اتنا قرآنِ پاک یاد ہو کہ سنّت کے مطابق نماز پڑھا سکےاور(۳) قرآنِ پاک صحیح پڑھتا ہو یعنی حروف مخارج سے(یعنی صحیح) ادا کرتا ہو اور (۴) مذہب کی کچھ خرابی نہ رکھتا ہو اور (۵)بے حيائيوں کے کاموں سے بچتا ہو، اس کے بعد وہ شخص امامت کے لیے بہتر ہے جو تجوید ( یعنی قراء ت) کا زیادہ علم رکھتا ہو اور تجوید کے اصولوں کے مطابق قراءت بھی کرتا ہو۔
{3}جو امام ،مسجد والوں کی طرف سے مُقَرَّر(appointed) ہے(اور امامت کی شرطیں (preconditions) بھی پائی جاتی ہیں، وہ) ہی امام بننے کا حقدار(eligible) اور بہتر ہے، چاہے نماز پڑھنے کے لیے جو لوگ موجود ہیں، اُن میں کوئی امام صاحب سے زیادہ علم اور زیادہ تجوید (اور قراءت )والے ہوں۔ (بہار شریعت ج۱، ص ۵۶۷،مسئلہ۳۵،۳۶مُلخصاً)
{4} فرض نماز نفل پڑھنے والے کے پیچھے نہیں ہوتی۔
{5}جو رکوع اور سجدہ نہیں کرسکتا یعنی وہ کھڑے یا بیٹھے رکوع اور سجدے کی جگہ سر(head) سے اشارہ کرتا ہو، اِس کے پیچھے اُس کی نماز نہ ہوگی جو رکوع وسجدہ باقاعدہ کر سکتا ہے اور اگر بیٹھ کر رکوع و سجود کر سکتا ہو تو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی ہوجائے گی۔
{6}جس سے حروف صحیح ادا نہیں ہوتے اس پر واجب ہے کہ حروف صحیح کرنے میں رات دن پوری کوشش کرے اور اگر قرآنِ پاک صحیح پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہو تو جہاں تک ممکن ہو جماعت کے ساتھ ہی نماز پڑھے ۔ ایسے شخص کے پیچھے صحیح طرح قرآن ِ پاک پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔(بہار شریعت ج۱، ص ۵۷۰،مسئلہ۵۴،۵۹،۶۰،مُلخصاً)
{7}نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اُسے دُرُست پڑھنے کی طرف بھر پور تَوَجُّہ(attention) نہ دینے اور جلدی جلدی پڑھنے میں کچھ نہ کچھ حُرُوف چَب جانے (یعنی ادا نہ ہونے)کا خوف رہتا ہے، اگر ایک بھی حَرْف کھا گیا اور معنیٰ فاسِد ہوگئے(یعنی بگڑ گئے) تو نَماز ٹوٹ جائے گی۔ کوئی لفظ مُہْمَل(یعنی بے معنیٰ) ہو جانا بھی نماز کو فاسد کر دیتا(یعنی توڑ دیتا) ہے۔ ( نماز کا طریقہ ص ۵۴مُلخصاً)
{8}اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: سنّت یہ ہے کہ ’’سَمِعَ اللہ ‘‘کا ’’سین ‘‘رکوع سے سر اُٹھانے کے ساتھ کہیں اور’’حَمِدَہ‘‘کی’’ہ‘‘ سیدھا ہونے کے ساتھ ختم ہو، اسی طرح ہر تکبیرِ انتقال میں (یعنی نماز میں جہاں بھی ’’ اَللہُ اَکْبَر ‘‘کہتے ہوئےایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا ) حکم ہے (اس کا طریقہ یہ ہے)کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی حرکت کی ابتداء کے ساتھ ’’ اَللہُ اَکْبَر ‘‘کا’’ الف ‘‘شروع ہو اور دوسری جگہ پہنچتے ہی ’’ اَکْبَر ‘‘ کی’’ راء ‘‘ ختم ہو۔ امام صاحب جو اس طرح کریں (کہ ’’سَمِعَ اللہ ‘‘کہتے میں رکوع سے کھڑے ہو کر سجدے کی طرف چلے جائیں تو وہ)دو باتیں سنت (غیر مؤکّدّہ کے ) خلاف کرنے والے ہیں : (۱) ’’سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ‘‘ کو (رکوع سے سیدھا کھڑے ہونے کے بعد)سجدہ کی طرف جاتے ہوئے ختم کرنا اور (۲)سجدہ کو جانے کی تکبیر(یعنی ’’ اَللہُ اَکْبَر ‘‘جو کہ بالکل سیدھا کھڑے ہونے کے بعد) سجدہ کی طرف جاتے ہوئے پڑھناشروع کرنی تھی وہ کھڑے ہو کر شروع کرنے کی جگہ زمین کے قریب پہنچ کر شروع کی، ان دونوں باتوں کی وجہ سے نماز دو طرح سے مکروہ (تنزیہی) ہوتی ہے، ایسے امام صاحب کو سمجھا یا جائے کہ خلاف ِسنّت نہ کر۔ مزید(more) فرماتے ہیں :خلافِ سنّت میں اس امام کی پیروی نہ کریں (بلکہ جو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں، وہ سنّت کے مطابق ہی نماز پڑھیں) (فتاوی رضویہ ،جلد۶، صفحہ۱۸۸) ۔یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ رکوع سے مکمل سیدھا کھڑے ہونے کے بعد اتنی دیر کھڑا رہنا کہ جس میں ایک بار سُبْحَانَ اللہ کہہ سکتے ہوں،یہ واجب ہے، اگر کوئی اس جگہ رُکے بغیر ہی سجدے میں چلا گیا تو سنّت ہی نہیں بلکہ واجب بھی چھوٹ گیا، جان بوجھ کر (deliberately) ایسا کیا تو نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔
{9} قبلہ کی طرف منہ ہونا ہر جگہ افضل(اور ثواب کا کام) ہے مگر امام صاحب کے لیے (نہیں) کہ سلام کے بعد انہیں قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھنا مکروہ ہے۔ (فتاوی رضویہ ،جلد۶، صفحہ۱۹۰ مُلخصاً)
{10} سلام کے بعد سُنّت یہ ہے کہ امام صاحب سیدھی یا اُلٹی طرف مڑ جائیں اور سیدھی طرف مڑنا افضل ہے اور مقتدیوں(یعنی جنہوں نے امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھی) کی طرف بھی منہ کر کے بیٹھ سکتےہیں، جب کہ کوئی مقتدی امام صاحب کے سامنےآخری صف تک نماز میں نہ ہو۔ (بہار شریعت ج۱، ص ۵۳۷،مسئلہ۱۳۷،مُلخصاً)
{11} ظہر و مغرب و عشا کے بعد مختصر دُعاکر کے سُنّت پڑھے، زیادہ لمبی دُعانہ کرے۔ (بہار شریعت ج۱، ص ۵۳۷،مسئلہ۱۳۹،مُلخصاً)
{12}فجر و عصر کے بعد جتنا چاہےذکر اور دعا کرے۔ اگر امام صاحب نمازیوں کے ساتھ دُعا کریں گے اور لوگ دعاختم ہونے کا انتظار کریں گے(جیسا کہ اب تقریباً ہر جگہ لوگوں کو جلدی ہوتی ہے) تو امام اس قدر لمبی دُعا نہ کرے کہ لوگ گھبرا جائیں (بہار شریعت ج۱، ص ۵۳۷، مسئلہ۱۳۷ تا ۱۴۰ مُلخصاً) ۔ اگر یہ بات صحیح طور پر معلوم ہو جائے کہ نمازیوں میں کسی ایک پر بھی لمبی تسبیح بوجھ نہ ہوگی تو کچھ حرج نہیں(اور اس بات کو صحیح طور پر معلوم کرنا ، بہت مُشکل کام ہے) ورنہ یہی بہتر ہے کہ مختصر دعا مانگ کر نمازیوں کو فارغ کردے پھر جس کا جتنا دل چاہے تسبیح وغیرہ پڑھتا رہے (فتاوی رضویہ ،جلد۶، صفحہ۲۳۴ملخصاً) ۔ نماز کے بعد اوردعاسے پہلے ہونے والے درس، وعظ،اعلانات وغیرہ میں بھی ان باتوں کا خاص خیال رکھا جائے بلکہ درس وغیرہ کی ترکیب ہوتو مختصر دعا (مثلاً: نماز کے فوراً بعد دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا کر صرف آیۃ درود یعنی اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ (مکمل پڑھنے))کے بعد ہی کیے جائیں کہ جو جانا چاہتے ہوں، وہ پریشان نہ ہوں۔
{13} تلاوت و نعت (اور شرعی اجازت سے کئے جانے والے اعلان) وغیرہ کی اِتنی اونچی آواز ہونا جس سے کسی نمازی کو تشویش(یعنی پریشانی) ہو یا سوتے کو ایذا (یعنی تکلیف)پہنچے، مکروہ ہے ۔مسجد میں نعرے لگانے اور مائک استعمال کرنے میں سخت احتیاط (caution)کی ضرورت ہے (فیضانِ نماز ص۲۴۷،مُلخصاً) ۔جہاں شریعت نے نماز کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے(جیسا کہ بڑی عید کے کچھ دنوں میں فرض نماز کے بعد ذکر کیا جاتا ہے ) تو اِن میں بھی مائیک کے استعمال سے بچا جائے۔
{14}نماز میں اونچی آواز سے قراء ت کے بارے میں مولانا مفتی امجد علی اعظمی رَحْمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : ضرورت سے زیادہ اتنی اونچی آواز سے پڑھنا کہ اپنے یا دوسرے کے لیے ِ تکلیف کا سبب ہو مکروہ ہے (بہار شریعت ج ۱ ص ۵۴۴ مُلخصاً) ۔ مائک صرف ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے اور آواز ضرورت سے زیادہ بلند نہ رکھی جائے۔ بیان و خطبے، اقامت و دعا وغیرہ کیلئے مائک offکر کے set کیا جائے ورنہ اِس کی آواز مسجد میں شور(noise) کا سبب بنتی اور نمازیوں کو بھی تکلیف پہنچاتی ہے ۔(فیضانِ نماز ص ۲۴۹،۲۵۰ مُلخصاً)
{15}بڑی راتوں کی محفلِ نعت وغیرہ میں صرف مسجد کے اندرکے اسپیکر استعمال کئے جائیں۔ اس بات کا پورا خیال رکھنا ہے کہ راستے گھیر کر یا مائک کے غلط استعمال کے ذریعے کسی کو بھی تکلیف نہ پہنچے۔(فیضانِ نماز ص۲۵۱،۲۵۰ مُلتقطاً)
{16}مسجِدوں میں دوسروں کی تکلیف کا سبب بننے والی باتیں:(۱)سلام پھیرتے ہی بلند آوازسے مائک پر اعلان وغیرہ شروع کردینا(اس سے اپنی بقیہ رکعتیں پوری کرنے والوں کوپریشانی ہوتی ہے کچھ نمازی تو رکعتیں ہی بھول جاتے ہوں گے، لہٰذا لوگوں کی تعداد (number) کم ہو تو دونوں دُعائیں بغیر اسپیکر کے مانگی جائیں اگر تعداد (number) زیادہ ہو تو اسپیکر کی آواز صرف اُتنی کھولی جائے جتنی ضرورت ہو اور دعا مانگنے والا بھی اپنی آواز کم رکھے) (۲)خطیب صاحب کا جمعہ میں بیان کو لمباکرتے رہنا اور طے شدہ (decided)وقت پر جماعت کھڑی نہ کرنا (اِس سے دفتر یا فیکٹری یا دکان کو چھوڑ کر آنے والوں کو آزمائش ہوتی ہے اور نمازی دوسری مسجد کی طرف چلے جاتے ہیں)۔ (فیضانِ نماز ص۲۵۳ مُلتقطاً)
{17} اگر امام حسین وجمیل خوب صورت لڑکا (مثلاً پندرہ(15) سال سے بیس(20) سال کا ایسا لڑکا ہو کہ جس کی داڑھی نہ آئ ہو)ہو تو اس کے پیچھے نماز خلاف اولی (ماخوذاًفتاوی رضویہ جلد۶،ص ۵۴۵) مکروہ تنزیہی(یعنی جائز تو) ہے (مگر بہتر یہ ہے کہ کوئی ایسا مرد امام بنےکہ جس کی داڑھی آگئ ہو) ۔(فتاوی رضویہ جلد۶،ص ۶۲۶)
’’معذور شرعی(جن کا وضو نہ رہتا ہو) ان کے مسائل‘‘
اللہ کریم فرماتا ہے:
ترجمہ (Translation) :
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللّٰہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ (پ۲۸، سورۃ المنافقون،آیت۹) (ترجمہ کنز العرفان)
امام محمد بن احمد ذَہَبی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرتے ہیں : اس آیت میں، ’’ اللہ کریم کے ذِکر‘‘سے مراد پانچ نمازیں ہیں، پس جو شخص اپنے مال یعنی خرید و فروخت،کاروبار، سامان اور اَولاد میں مصروف(busy) رہے اور وقت پر نماز نہ پڑھے وہ نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہے۔( کتابُ الْکَبائِر ص ۲۰ مُلخصاً)
واقعہ(incident): عمر فاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ عَنْہ کو چاقو مار دیا
فجر کی نماز میں ایک آگ کی عبادت کرنے والے نےحضرتِ عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کوچاقو(dagger) ماردیا، بعد میں آپ سےکہا گیا،اے مسلمانوں کے امیر(،خلیفہ اور حاکم)!نماز(کا وقت ہے) توفرمایا:جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے اُس کا اسلام میں کوئی حصّہ نہیں(یعنی اُس نے اسلام کے حکم پر عمل نہیں کیا)۔اورحضرتِ عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اس تکلیف میں بھی نماز پڑھی۔(کتاب الکبائر، ص۲۱، ملخّصاً )
(19) جواب دیجئے:
س۱) امامت کی شرطیں (preconditions) بتائیں؟
س۲) امامت کا زیادہ حقدار (eligible)کون؟
مردوں اور عورتوں کےمسائل :
{1} پیشاب وغیرہ کا قطرہ آنے یاپیچھے سے رِیح خارِج ہونے(breaking wind) یا زَخم بہنے یادُکھتی آنکھ سے بیماری کی وجہ سے آنسو نکلنے یا کان یاناف(پیٹ کے سوراخ) یا پِستان(سینے) سے پانی نکلنے یا پھوڑے (boils) سے رَطوبَت(پانی وغیرہ) نکلنے یا دست(loose motion) آنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر کوئی ایسی بات جو وضو توڑ دے ، بیماری کی صورت (case) میں مُستقل (permanent) جاری رہے اورکسی ایک(1) نماز کا مکمل وقت اس طرح گزرے کہ شُروع سے آخِر تک اتنا وقت ہی نہ ملےکہ جس میں وُضو کے ساتھ صرف فرض نمازپڑھ لیتا تو اب وہ شخص شَرعاًمعذور ہے(اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کو gas زیادہ بھی ہو، تب بھی جب تک اوپر بتائی ہوئی صورتِ حال(condition) نہ ہو، اُس وقت تک وہ شرعی طور پر معذور نہیں ہوگا )۔ ایک وُضو سے فرض نماز کے ایک(1) وقت میں جتنی نَمازیں(فرض، سنّتیں، نفل وغیرہ) چاہے پڑھ سکتا ہے ۔اس کا وُضو اُس بیماری سے(ایک فرض نماز کے وقت میں) نہیں ٹوٹے گا۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۸۵، دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج۱ص۵۵۳ مُلخصاً)
نوٹ:
اگر مریض کسی طرح بھی اپنی بیماری کے مسئلے کو روک سکتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِسے روکے مثلاً مریض کو قطرے آتے ہیں اور وہ روئی(cotton) سے یا کسی بھی طریقے سے قطرے روک سکتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اِس طرح کرے۔ اب یہ شخص شرعاً معذور نہیں ہوگا، جب وضو ٹوٹے گا تو وضو کر کے نماز پڑھنی ہوگی اور اگر کہیں ناپاکی لگی ہو تو نماز سے پہلے اُسے دھونا بھی ہوگا۔(فتاوی رضویہ ج۴، ص ۳۶۷، ۳۶۸ ماخوذاً)
مزید(more):
وہی بیمار ،شرعی معذور بنے گا جس پر نماز کا ایک پورا وقت ایسی حالت (condition)میں گزر ا کہ وہ شخص وُضو کے ساتھ فرض نماز بھی نہ پڑھ سکا، لہذا اگر کسی شخص کو نماز کے وقت کے دوران (during the time of prayers)کوئی ایسی بات ہوئی کہ جو بار بار اُس کا وضو توڑ رہی ہو(مثلاً زخم سے خون نکل کر اپنی جگہ سے بہہ رہا ہو) تو اب وہ شخص اس نماز کے آخری وقت تک انتظار(wait) کرے، اگر وہ بات ختم نہ ہوئی تو وضو کرکے نماز پڑھ لے۔ پھر اگر اگلی نماز کے وقت میں(next prayer time) وہ بات ختم ہوگئی اور اسے اتنا وقت مل جائے کہ وہ اس وقت میں وضو کرکے صرف فرض نماز پڑھ لے تو اب ایسی صورت (condition)میں وہ پچھلی نماز(last prayer) کہ جو وضو توڑنے والی بات(مثلاً زخم سے خون نکل کر اپنی جگہ سے بہنے) کے ساتھ پڑھی تھی ، اُسے دوبارہ پڑھے(کیونکہ پہلے بھی ایک پوری نماز کا وقت اس حالت (condition)میں مکمل نہیں ہوا تھا)۔ ہاں!اگر اگلی نماز کا پورا وقت بھی اسی بیماری کی حالت میں گزر جائے تو ایسی صورت میں اس کی وہ پچھلی نماز(last prayer) کہ جو آدھے وقت کی بیماری میں پڑھی تھی ، صحیح ہوگی یعنی دوبارہ
نہیں پڑھیں گے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب الطھارۃ، ج۱،ص۴۰-۴۱،مطبوعہ پشاور،ماخوذاً)
{2}اِس قسم کے مریض اور مریضہ اپنے معذورِشَرعی ہونے نہ ہونے کو check اس طرح کریں کہ فرض نَمازکے مکمل وَقت میں کوشِش کریں کہ وُضو کر کے طہارت(یعنی پاکی) کے ساتھ کم از کم فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ پورے وَقت کے دَوران بار بار کوشِش کرنےکے باوُجُود اگر اتنا ٹائم نہیں ملا کہ جس میں وضو کر کے فرض نماز پڑھ سکیں، کبھی تو وُضو کرتے ہوئے ہی اسی وجہ سے (کہ جس کے سبب بیماری ہے مثلاً زخم سے خون نکل کر بہنے سے) وضو ٹوٹ گیا اور کبھی وُضُو پوراکرنے کے بعد اور کبھی فرض نَماز پڑھتے ہوئے اسی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا ، یہاں تک کہ آخِری وَقت آ گیا تو اب انہیں اجازت ہے کہ وُضو کر کے نَماز پڑھ لیں ،نَماز ہو جائے گی، اب چاہے نَماز پڑھتے ہوئے، اسی وجہ سے نَجاست (یعنی ناپاکی)بدن سے نکل رہی ہو تب بھی نماز ہو جائے گی (مگر ایسا مریض مسجد میں جا کر نماز نہ پڑھے)۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں : کسی شخص کازخم بہ نکلا تو وہ آخِری وَقت کا انتظار کرے اگر خون ختم نہ ہو(بلکہ مسلسل یا وقفے وقفے سے آتاہے) تو وقت نکلنے سے پہلے وُضو کر کے نَماز پڑھ لے۔(اَلْبَحْرُ الرَّائِق ج۱ص۳۷۳۔۳۷۴ مُلخصاً)
{3}فرض نَماز کا وقت ختم ہوتے ہی شرعی معذور کا وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے کسی نے عَصر کے وقت وُضو کیا تھا تو سورج غُروب ہوتے ہی وُضو ٹوٹ گیا اور اگر کسی نے سورج نکلنے کے بعد وُضو کیا تو جب تک ظُہر کا وقت ختم نہ ہو وُضو نہیں ٹوٹےگا کہ ابھی تک کسی فرض نَماز کا وقت ختم نہیں ہوا(ہاں! وضو توڑنے والی کوئی دوسری بات پائی گئی تو وضو ٹوٹ جائے گا)۔
نوٹ:
یہ بات یاد رہے کہ فرض نَماز کا وقت ختم ہوتے ہی شرعی معذور کا وضو اس صورت میں ٹوٹ جاتا ہے جبکہ وضو کرنے کے بعد وہی بیماری (مثلاً زخم سے خون نکل کر اپنی جگہ سے بہنے) والی بات، نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پائی جائے۔اگر وضو کے بعد(مثلاً آخری وقت میں وضو کر کے نماز پڑھی اور) وہ بیماری والی بات نہ پائی گئی تو شرعی معذور کا وضو، نماز کا وقت ختم ہونے سے نہیں ٹوٹتا۔ (بحر الرائق ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، ج۱، ص۳۷۶، کوئٹہ،ماخوذاً)
{4}جب کوئی شخص شرعی معذور بن گیا تو جب تک نَماز کے ایک پُورے وقت میں ایک بار بھی وہ چیز پائی جائے گی شرعی طور پرمَعذورہی رہے گا ۔مَثَلاً کسی کو سارا وقت قطرہ آتا رہا اور اتنا ٹائم ہی نہ ملاکہ وُضو کر کے صرف فرض نماز پڑھ لے تو اب شرعی معذور ہو گیا ۔اب دوسرے وقت میں اتنا ٹائم تومل جاتا ہے کہ وُضو کر کے نماز پڑھ لے مگر ایک آدھ(یعنی کچھ نہ کچھ) مرتبہ قطرہ آجاتا ہے تو اب بھی شرعی معذور ہی ہے ۔ ہاں !اگر پورا ایک وقت ایسا گزر گیا کہ ایک بار بھی قطرہ نہ آیا تو معذور نہ رہا ۔اب پھر جب کبھی
پہلی حالت آئی(یعنی سارا وقت مسلسل بیماری کا معاملہ رہا) تو پھر شرعی معذور بن گیا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۸۵ مُلخصاً)
{5} شرعی معذور کا وُضو اس چیز سے نہیں جاتا جس کی وجہ سے وہ شرعی معذور بنا ہے۔ ہاں !اگر دوسری کوئی چیز وُضو توڑنے والی پائی گئی تو وُضو ٹوٹ جائے گا۔ مَثَلاً جس کو زخم سے خون نکل کر بہنے کی بیماری ہو تو قطرہ نکلنے سے اُس کا وُضو ٹوٹ جائے گا ۔اور جس کو قطرہ نکلنے کی بیماری ہو، زخم سے خون نکل کر بہنے سےاس کا وُضو ٹوٹ جائے گا ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۸۵ بالتغیر)
{6} شرعی معذور کو ایسی بیماری ہو جس کی وجہ سے کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں تو اگر ایک دِرہَم سے زیادہ ناپاک ہو گئے اور معلوم ہے کہ اسے دھو کر پاک کپڑوں سے نَماز پڑھ لوں گا تو پاک کر کے نَماز پڑھنا فرض ہے اور اگر جانتا ہے کہ نَماز پڑھتے پڑھتے پھر اتنا ہی ناپاک ہو جائے گا تو اب دھونا ضَروری نہیں ۔ اِسی طرح نماز پڑھے،چاہے جس جگہ نماز پڑھ رہا ہے وہ بھی ناپاک ہو جائے تب بھی اس کی نَماز ہو جائے گی۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۸۷) ( معذور کے وضو کے تفصیلی مسائل فتاوٰی رضویہ ج۴،ص۳۶۷ تا۳۷۵ ،بہارِ شریعت ج ۱ ، ص ۳۸۵تا۳۸۷ سے معلوم کیجئے )
’’لقمے(یعنی نماز میں امام صاحب کو غلطی بتانے) کے مسائل‘‘
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں:
ایک دن ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فجرکی نماز میں سورہ رُوم(الٓـمّٓ ﴿۱﴾ۚ غُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿۲﴾) پڑھی اور متشابہ لگا(یعنی ایک آیت پڑھتے ہوئے، اُس سے ملتی جلتی دوسری آیت کی طرف توجُّہ شریف ہوگئی)۔ نماز کے بعد فرمایا کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اچھی طرح طہارت(پاکی حاصل) نہیں کرتے کہ ایسے لوگوں کی وجہ سے امام کو قراء ت میں شبہہ پڑتا (کہ وہ ایک آیت سے ملتی جُلتی دوسری آیت کی طرف چلا جاتا )ہے۔(سنن النسائي، کتاب الافتتاح، الحدیث: ۹۴۴، ص ۱۶۵ مُلخصاً)
(20) جواب دیجئے:
س۱) بندہ شرعی معزور کب بنتا ہے؟
س۲) بندہ معذور کب تک رہتا ہے؟ اور معذور کا وضو کب ٹوٹتا ہے؟
طرح طہارت(پاکی حاصل) نہیں کرتے کہ ایسے لوگوں کی وجہ سے امام کو قراء ت میں شبہہ پڑتا (کہ وہ ایک آیت سے ملتی جُلتی دوسری آیت کی طرف چلا جاتا )ہے۔(سنن النسائي، کتاب الافتتاح، الحدیث: ۹۴۴، ص ۱۶۵ مُلخصاً)
واقعہ(incident): قریب تھا کہ وہ نماز توڑ دیتے
ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم دنیا سے تشریف لے جانے سے پہلے بیمار تھے، پیر کا دن تھا، فجر کا وقت تھا، لوگ پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے پیچھے فجر کی نماز پڑھ رہے تھے ، اتنے میں ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنے برکت والے(blessed) حجرےکا پردہ اٹھا دیا، صحابَۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نماز کے دوران ہی اپنے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی زیارت کرنے لگے اور سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، ایسی خوشی ہوئی کہ لگتا تھا وہ نماز ہی توڑدیں گے کیونکہ وہ یہ سمجھے کہ نبیّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نماز پڑھانے کے لئے تشریف لارہے ہیں ۔ لیکن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ رہو(اور نماز پڑھتے رہو) ۔
امام صاحب اگر نماز میں غلطی کریں:
{1} امام صاحب انسان ہوتے ہیں، اگر نماز میں غلطی ہو جائے تو مسجد میں شور(noise) مچا کر مسجد کی بے ادبی، امام صاحب کی تکلیف اور دل آزاری اور نمازیوں کے لیے پریشانی کی غلطیاں کرنے کی جگہ،امام صاحب کی غلطی کا شرعی حل معلوم کریں۔ دین ِ اسلام نے ہمیں اس بات کی اجازت دی ہے بلکہ کچھ جگہوں پر لازم کیا ہے کہ شرعی طریقے سے نماز کے اندر ہی امام صاحب کی غلطی کو دور کیا جائے،اس طرح غلطی بتانے کو” لقمہ دینا‘‘کہا جاتا ہے ۔
{2} جب امام صاحب ایک رکن(مثلاًسجدے )سے دوسرے رکن(مثلاً قعدے) میں جانا بھول جائیں تو سُبْحَانَ اللہ یا اَللہُ اَکْبَر کہےکہ جس سے امام صاحب کو خیال ہو جائے اور وہ نماز کو درست کر لیں۔(فتاوی امجدیہ ج۱، ص۱۴۷، مُلخصاً)
{3}جہاں تلاوت میں غلطی ہوگی تو ” لقمہ‘‘ میں قرآنی آیت پڑھی جائے گی اور امام صاحب نے کتنی ہی آیتیں پڑھ لی ہوں، انہیں لقمہ دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے:امام صاحب جہاں غلطی کریں مقتدی (امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے)کو جائز ہے کہ اُ نہیں لقمہ دے ،چاہے امام صاحب ہزار آیتیں پڑھ چکے ہوں۔(فتاوی رضویہ ج۶،ص۳۷۱ مُلخصا)
{4}جو شخص بھی” لقمہ‘‘دے اس کو چاہیے کہ” لقمہ‘‘دیتے وقت وہ قراء ت کی نیّت نہ کرے بلکہ” لقمہ‘‘دینے کی نیّت سے وہ الفاظ کہے (عالمگیری ج ۱ ،ص ۹۹ ،مطبوعہ پشاور، مُلخصاً) کیونکہ قراء ت کرنے کی مقتدی کو اجازت نہیں ہے جبکہ لقمہ دینا جائز ہو تو وہ دے سکتا ہے ۔
{5}جن امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں، اُن کو ”صحیح لقمہ‘‘ دینا اور امام صاحب کا اپنے پیچھے نماز پڑھنے والوں سے” صحیح لقمہ‘‘ لینا ، نماز نہیں توڑتا۔(بہارِ شریعت، ج۱،ص۶۰۷، مسئلہ ۲۵ مُلخصاً)
{6} امام صاحب صرف اپنے پیچھے نماز پڑھنے والوں کا ” لقمہ‘‘ لے سکتے ہیں، کسی ایسے شخص کا ” لقمہ‘‘ لیا جو ان کے پیچھے نماز میں نہیں تو امام صاحب کی اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی(یعنی سب کی) نماز ٹوٹ جائے گی۔البتہ اگر اُس شخص(جو جماعت سے نماز نہیں پڑھ رہا) کے بتاتے وقت امام صاحب کو خودہی یاد آگیا یعنی اگر وہ نہ بتاتا تب بھی امام صاحب کو یاد آجاتا تو نماز نہ ٹوٹی ۔ (ردالمحتار،ج۲ ، ص ۳۸۲،ماخوذاً)
{7}اگر غلطی ایسی ہو کہ جس سے نہ نماز ٹوٹتی ہو نہ واجب چھوٹتا ہو ،جب بھی ہر مقتدی کو بتانے کی اجازت ہے ۔
(فتاوٰی رضویہ شریف ص۲۸۱ج۷مُلخصاً)
{8} جہاں” لقمہ‘‘نہیں دینا تھا وہاں ایک مرتبہ غلط ” لقمہ‘‘دینے سے مقتدی کی نماز ٹوٹ جائے گی (فتاوی عالمگیری ،ج۱،ص ۱۱۰ مُلخصاً) کیونکہ” لقمہ‘‘ایک طرح کی بات ہے، اس لیےنماز میں شرعی اجازت کے بغیر” لقمہ‘‘دیا، لیا نہیں جاسکتا۔اگر اس طرح کا” لقمہ‘‘امام صاحب نے لیا تو اُن کی بلکہ سب نمازیوں کی نماز ٹوٹ جائے گی۔
{9}تراویح میں اگر بھول سے” غلط لقمہ‘‘ دے دیا تو” لقمہ‘‘ دینے والے کی نماز نہیں ٹوٹے گی، آسانی کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے۔(فتاوٰی رضویہ ،ج۷ا، ص۲۸۴،ماخوذاً)
{10}بالغ (grown-up)مقتدیوں کی طرح تمیز دار ، سمجھدار (sensible) ایسا بچّہ بھی” لقمہ‘‘ دے سکتا ہے جسے نماز آتی ہو۔(فتاوٰی رضویہ،ج۷، ص۲۸۴،ماخوذاً)
{11}(۱) امام صاحب جب ایسی غلطی کریں جس سے نماز ٹوٹ جاتی ہو تو اس غلطی کا بتانا اور اصلاح (reformation) کرانا ہر مقتدی (یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے) پر فرض کفایہ ہے یعنی ان میں سے جو بتادے گا سب پر سے فرض اتر جائے گا اور اگرکوئی بھی نہیں بتائے گا تو جس جس کو غلطی ہونے کا معلوم ہے لیکن نہ بتایا تو نہ بتانے والے گناہ گار ہونگے(۲)اگر امام صاحب کوپہلے قعدے میں اتنی دیر ہو گئی کہ جس سے مقتدی ( یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے) یہ سمجھ چکے کہ امام صاحب بھول گئے ہیں یعنی زیادہ دیر ہو چکی ہے اور سجدہ سھو واجب ہو گیا ہے تو اب لقمہ دینے کا وقت نکل گیا ہے، کیونکہ ابھی لقمہ دے بھی دیا تب بھی سجدہ سھو تو کرنا ہی ہے (یعنی ابھی لقمہ دینا غلط ہے، جو اس وقت لقمہ دے گا، اس کی نماز ٹوٹ جائے گی) یہاں تک کہ امام صاحب اگر نماز ختم کرنے کے لیے سلام پھیر دیں تب بھی (یہ سلام غلطی سے پھیرنے کی وجہ سے) نماز نہیں ٹوٹے گی،اب بھی صرف سجدہ سھو ہی کرنا ہوگا۔ ہاں! امام صاحب جس وقت سلام پھیرنا شروع کیااس وقت لقمہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اگر اب بھی لقمہ نہیں دیا تو ہو سکتا ہے کہ نماز کے بعد وہ کوئی بات کر لیں ! تو اب نماز ٹوٹ جائے گی ۔ (فتاوی رضویہ ج۷،ص ۲۵۷،مَاخوذاً)
{12}ایک کا بتانا سب پر سے فرض اُس صورت (case) میں اُتاردے گا جب کہ امام صاحب مان جائیں ورنہ دوسروں پر بھی بتانا فرض ہو گا کہ وہ بھی غلطی بتائیں یہاں تک کہ امام صاحب کو غلطی کا یقین ہو جائے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک کے بتانے پرامام صاحب کو اپنی غلطی سمجھ نہیں آتی اور ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے بھی توجُّہ (attention)دلائیں تو یہاں فرض ہو گا کہ دوسرا بھی بتائے اور اب بھی امام صاحب غلطی قبول (accept)نہ فرمائیں تو تیسرا بھی بتائے یہاں تک کہ امام صاحب صحیح کی طرف آجائیں ۔ (فتاوٰی رضویہ،ج۷، ص۲۸۰،مُلخصاً)
{13}اگر غلطی ایسی ہے جس سے واجب چھوٹ کر نماز مکروہ تحریمی ہو رہی ہو تو اس کا بتانا ہر مقتدی (یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے)پر واجبِ کفایہ ہو گااور اگر ایک بھی بتادے گا اور اس کے بتا نے سے غلطی درست ہو جائے گی توسب پرسے واجب اتر جائے گا ورنہ سب گنہگار رہیں گے۔ (فتاوٰی رضویہ ،ج۷، ص۲۸،مُلخصاً)
{14}امام صاحب کو خود ہی پتا چل گیا کہ وہ غلطی کر گئے(مثلاً غلط آیت پڑھ لی)، مگر اپنی غلطی درست کرنے کے لیے (مثلاً صحیح آیت )یاد کر رہے ہیں اب اگر اتنی دیر سوچتے رہے کہ تین بار سُبْحَانَ اللہ کہنے کا وقت گزر جائے گا تو سجدہ سہو واجب ہو جائےگا، جب انہیں اس طرح رُکا ہوا دیکھيں تو،مقتدیوں پر(آیت وغیرہ کا) بتانا واجب ہو گاتا کہ امام صاحب تین مرتبہ سُبْحَانَ اللہ کہنے کا وقت خاموش نہ رہیں۔(فتاوٰی رضویہ ، ص۲۸۱،ج۷،مُلخصاً)
{15} تراویح میں کوئی آیت رہ گئی تو مقتدی بتادے، چاہے اس غلطی سے نماز میں کچھ خرابی نہ ہو رہی ہو(یعنی چاہے غلطی ایسی ہو کہ نماز نہ ٹوٹ رہی ہو) کیونکہ تراویح میں قرآنِ پاک ختم کرنا ہوتا ہے اور اگر ایک آیت بھی رہ جائے گی تو قرآن پاک مکمل ختم نہ ہو گا۔(فتاوٰی رضویہ ، ص۲۸۲،ج۷،مُلخصاً)
{16} اگر ایسی غلطی تراویح کے دوران مقتدیوں نے نہیں بتائی تو نماز کے بعد بتا دیں، امام صاحب دوسری تراویح میں اتنے الفاظ صحیح طور پر دوبارہ پڑھ لیں مگر بہتریہی تھا کہ اسی وقت ، نماز کے دوران بتایا جاتا۔(فتاوٰی رضویہ ،ج۷،ص۲۸۲، مُلخصاً)
{17} جسے تراویح میں سامع بنا کر(یعنی امام صاحب کے پیچھے قرآنِ پاک سننے کے لیے) کھڑا کیا گیا، اس کے علاوہ (other)دوسرا مقتدی (جو جماعت سے نماز پڑھ رہا ہے ، وہ )بھی ” لقمہ‘‘ دے سکتا ہے ۔(فتاوٰی رضویہ ج۷، ص۲۸۴، ماخوذاً)
{18} فوراً ہی ” لقمہ‘‘ دینا مکروہ ہے بلکہ تھوڑا رُکنا چاہیے کہ شاید امام صاحب خود صحیح کر لیں( رد المحتار ص۳۸۲ج۲ملخصاً ) مگر جب کہ ان کی عادت معلوم ہو کہ امام صاحب رُکتے ہیں تو کچھ ایسے حروف نکلتے ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے تو فوراً ” لقمہ‘‘ دے دے۔( بہار شریعت ،ح ۳،ص۱۵۱، مُلخصاً)
{19} دیکھا گیا ہے کہ ایک تراویح پڑھانے والے کے پیچھے کئی کئی حافظ کھڑے لقمے دے رہے ہوتے ہیں انھیں اپنی نیّت کے بارے میں غورکرنا چاہیے اگر ان کی نیّت حافظ صاحب کو پریشان کرنے کی ہوئی تو ایسا کرنا حرام ہو گا اگر کسی کی نیّت امام صاحب کو پریشان کرنے کی تو نہ ہو مگر اپنا پکّاحفظ(یعنی قرآنِ پاک کا یاد) ہونا، لوگوں کو بتانا چاہ رہے ہوں تو یہ بھی حرام ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۷، ص۲۸۷،ماخوذاً) (نماز میں لقمہ کے مسائل ص۱۵ تا ۲۷ ملخصاً)
’’اقتداء(یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے) کی شرطیں (preconditions) ‘‘
واقعہ(incident): مسجد میں نماز پڑھنے کی عادت
دین کے مسائل (یعنی اسلام نے یہ کام کرنے کا کہا اور اس سے منع کیا) بتانے والی کتاب’’بہارِ شریعت‘‘ لکھنے والے ،حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مسجد میں حاضر ہو کرجماعت کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے(اذان دینے والے) مؤذِّن صاحِب وقت پر نہیں آتے تو آپ خود اذان دیتے۔ مکان سے مسجد دور تھی اور نظر کمزور ہوچکی تھی۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ فجر کی نماز کے لئے جا رہے تھے ،راستے میں ایک کُنواں (well)تھا،ابھی کچھ اندھیرا تھا اور راستہ بھی خراب تھا ، تو کنویں (well) کے قریب چلے گئے اور اس کے سوراخ میں پیر رکھنے والے تھے، اتنے میں ایک عورت آگئی اور زور سے بولی: ’’ رُک جائیں! ورنہ کنوئیں میں گر جائیں گے!‘‘ یہ سن کر مُفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رُک گئےاور دوسرے راستے سے مسجد چلے گئے۔ (تذکرۂ صدرالشریعہ ص۳۱)
(22) جواب دیجئے:
س۱) ” لقمہ‘‘ دینا کب فرض کفایہ اور کب واجب ہے؟
س۲) تراویح میں ” لقمہ‘‘ دینے کے مسائل بتائیں۔
اقتدا(یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے) کی تیرہ (۱۳) شرطیں (preconditions) ہیں:
(۱) اقتدا(یعنی مقتدی جو امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو، اُ س کا امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے) کی نیّت کرنا ۔
(۲) اور اس نیّت کا تحریمہ(یعنی سب سے پہلی مرتبہاَللہُ اَکْبَرکہنے) کے ساتھ ہونا یا پہلے ہونا(پہلے جو نیّت ہوگی تو اس نیّت اور نماز شروع کرنے کے درمیان خلاف نماز کام(مثلاً موبائل دیکھنا، باتیں کرنا، کچھ کھانے کا )عمل نہ پایا جائے)۔
(۳) امام صاحب ا ور مقتدی دونوں کا ایک مکان( یعنی ایک جگہ) میں ہونا۔
(۴) دونوں کی نماز ایک ہو (مثلاً فرض)یا امام صاحب کی نماز، مقتدی کی نماز کو شامل ہو(مثلاً امام صاحب فرض پڑھا رہے ہیں، مقتدی فرض پڑھ چکا ہے تو نفل کی نیّت سے ظہر اور عشاء کی نماز پڑھ سکتا ہے لیکن عصر، مغرب اور فجر نفل کی نیّت سے نہیں پڑھ سکتاکیونکہعصر کے فرض پڑھنے کے بعد، نفل نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ مغرب تین (3) رکعت ہے اور نفل تین(3) رکعت نہیں ہوتے اور فجر کے پورے وقت میں نفل نماز نہیں پڑھ سکتے صرف دو(2) رکعت سنّت پڑھنی ہوتی ہے۔یاد رہے! امام صاحب فرض پڑھا رہےہوں تو اُن کے پیچھے نفل نماز ہو جائے گی مگر نفل نماز(مثلاً اشراق، چاشت) پڑھا رہے ہوں تو اُن کے پیچھے فرض (مثلاً فجر کی قضا) نہیں پڑھ سکتے۔
(۵) امام صاحب کی نماز مذہبِ مقتدی پر صحیح ہونا(یعنی حنفی شافعی کے پیچھے پڑھے تو وہ شافعی حنفی مسائل کی ضروری چیزیں پوری کرے)۔
(۶) امام صاحب اور مقتدی دونوں کا اسے صحیح سمجھنا(مثلاً امام صاحب کے کپڑے پر اتنی ناپاکی لگی ہوئی تھی کہ جس سے نماز نہیں ہوتی ، نماز کے بعد پتا چلا تو مقتدی کی نماز بھی نہیں ہوئی (فتاوی شامی ج۱، ص۵۵۱، مطبوعہ بیروت، ما خوذاً)) ۔
(۷) جماعت میں مرد کے برابر میں عورت کا برابر نہ ہونا۔
(۸) مقتدی کا امام صاحب سے آگے نہ ہونا (۹) امام صاحب کے انتقالات(یعنی ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے) کا علم ہونا (۱۰) امام صاحب کا مقیم(یعنی رہائشی ، کم از کم ۱۵ دن رات ٹھہرنے کی نیّت ہو) یا مسافر ہونا معلوم ہو (نماز کے بعد بھی اگر معلوم ہوجائے نماز صحيح ہوگئی)۔
(۱۱) مقتدی کاارکان (مثلاً رکوع اور سجدہ) ادا کرنےمیں امام صاحب کے ساتھ شامل ہونا ۔
(۱۲) ارکان پورے کرنے میں مقتدی امام صاحب کے مثل ہو یا کم(مثلاً کھڑے ہو کر نماز پڑھانے والے کے پیچھے کھڑے ہو کر یا معذور (disabled)کا بیٹھ کر نماز پڑھنا لیکن اگر امام صاحب اشارے سے نماز پڑھاتے ہوں تو ان کے پیچھے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز نہ ہوگی(فتاوی شامی ج۱، ص۵۵۱، مطبوعہ بیروت، ما خوذاً))۔
(۱۳) یوہیں شرطوں (preconditions) میں مقتدی کا امام صاحب سے زائد نہ ہونا(مثلاًامام صاحب معذور شرعی ہو اور مقتدی صحت مند (healthy)ہو تو مقتدی کی نماز نہیں ہوگی)۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۵۶۲ مُلخصاً)
ناسمجھ(unsensible) بچےّ کو مسجد میں لانے اور صف میں کھڑا کرنے کا حکم :
(۱)ایسے ناسمجھ (unsensible) بچےّ جن کے بارے میں مضبوط خیال (strong assumption) ہو کہ یہ نجاست(یعنی ناپاکی )کر دیں گے، انہیں مسجد میں لانا مکروہِ تحریمی یعنی ناجائز و گناہ ہے
(۲) مضبوط خیال تو نہیں لیکن شک ہو کہ شاید یہ بچّہ ناپاکی کر دے تو ایسے بچےّ کو مسجد لانا مکروہِ تنزیہی ہے یعنی گناہ تو نہیں مگر مسجد میں نہ لانا بہتر ہے۔
(۳)جہاں تک صفوں میں ان کے کھڑے ہونے کی بات ہے تو بالکل ناسمجھ (unsensible)بچےّ کہ جنہیں نماز پڑھنا ہی نہیں آتی (صرف نمازیوں کو دیکھ کر نماز کی طرح رکوع کرتے اور سجدے میں جاتے ہیں)، یہ بچےّ نماز کے اہل ہی نہیں ہوتے( یعنی یہ نماز نہیں پڑھتے بلکہ نماز کی طرح اُٹھتے بیٹھتے ہیں) لہٰذا ایسے بچّے اگر صف میں کھڑے ہونگے تو اس سے ضرور صف قَطَع ہوگی(یعنی بیچ میں سے ٹوٹ جائے گی ) اور قطعِ صف (یعنی صف کو بیچ میں سے کاٹنا، نمازیوں سے مکمل نہ کرنا)ناجائز و گناہ ہے۔ لہٰذا ایسے بَچّوں کو ہرگز مردوں کی صف میں کھڑا نہ کیا جائے ( ربیع الآخر1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً) ۔نوٹ: ایسے چھوٹے بچےّ جو نماز کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے،مسجد میں آکر اُلٹی سیدھی حَرکَتیں کرتے، بھاگتے دوڑتے اور شور مَچاتے ہیں ان کو مسجد میں لانے کی بھی شرعاً اِجازت نہیں ۔ حدیثِ پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ مَساجدکو بَچّوں اور پاگلوں سے بچاؤ۔( جمادی الاولیٰ1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)
(۴)وہ بچّے جو سمجھدار (sensible) ہیں اور انہیں نماز پڑھنا بھی آتی ہے، ان بَچّوں کی صَف مردوں کی صَف کے بعد الگ سے بنائی جائے۔ ہاں !اگر اس طرح کا صرف ایک ہی بچّہ ہے تو اس کے لئے الگ سے صَف بنانے کی ضرورت نہیں،بلکہ وہ مَردوں کی صَف میں بھی کھڑا ہو سکتا ہے،چاہے صَف کے درمیان (center)میں کھڑا ہو یا کونے(side) میں، یعنی ایسے ایک بچّے کومردوں کے ساتھ کھڑا کرنے میں کوئی گناہ نہیں ۔( جمادی الاولیٰ1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)
اقتدا(یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے) کے مسائل:
جماعت سے پہلے اذان و اقامت اور صفیں بنانے کے مسائل:
{1} پانچوں فرض نَمازیں ان میں جُمُعہ بھی شامل ہے جب جماعت اُولیٰ(مسجد میں طے شدہ(decided) وقت میں ہونے والی نماز) کے ساتھ مسجِد میں وقت پرپڑھی جائیں توان میں” اذان“ کہنا ” سنّت مؤکدّہ “ ہے بلکہ(ان نمازوں کے لیے) اذان کہنا ”واجب“ کی طرح ضروری ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ص ۴۶۴، مسئلہ ۱، مُلخصاً)
{2} ” اِقامت“ کی سنّت پوری کرنا،” اذان“ کی سنّت پوری کرنے سے زیادہ تاکیدی (اہم اور ضروری)ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ص ۴۷۰، مسئلہ۴، مُلخصاً)
{3} اَذان کے الفاظ میں لحن(یعنی عربی طریقے سے نہ پڑھنا یا غلط طریقے سے پڑھنا) حرام ہے، مثلاً اَﷲ يا اَکْبَر میں ”ہمزہ “کو کھینچ کر آﷲ یا آکبر پڑھنا(حرام ہے)، اسی طرح اَکْبَر میں” باء “کے بعد” الف“ بڑھانا(یعنی اَکْبَار پڑھنا ) بھی حرام ہے۔
{4} اسی طرح اذان کے الفاظ گانے کے لحن(یعنی انداز) میں پڑھنا گناہ اورناجائز ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ص ۴۶۸، مسئلہ۳۰،۳۱، مُلخصاً)
{5} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مومن کی بدبختی(بد نصیب۔unlucky ہونے) و نامرادی (یعنی ناکام ہونے)کے ليے، اتنی ہی بات کافی(enough) ہے کہ موذّن (یعنی اذان دینے والے)کو تکبیر(یعنی اَللہُ اَکْبَر) کہتے سنے اور اجابت نہ کرے۔ (المعجم الکبير للطبراني، الحدیث: ۳۹۶، ج۲۰، ص۱۸۳) یعنی جماعت واجب ہونے کے باوجود مسجد نہ آئے۔
{6}جماعت میں تین باتوں پر عمل کرنے کا بہت تاکید(یعنی سختی )سے حکم ہے۔(۱)صف میں سیدھا کھڑا ہونا(۲) صفوں کو دونوں کونوں تک پورا ہونا(۳) خوب اچھی طرح مل کر صف بنانا، بلکہ ان تین کے ساتھ چوتھی(4th ) چیز یہ ہے کہ (۴)صفوں کا پاس پاس ہونا۔ ان کی تفصیل(detail) یہ ہے:
(۱)صف سیدھی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صف ایسی سیدھی ہو کہ کہیں سے ترچھی(ٹیڑھی) نہ ہو ، مقتدی (یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے)آگے پیچھے نہ ہوں ، سب کی گردنیں ، کندھے(shoulders) ، ٹخنے (ankles)، ایک دوسرے کی سیدھ میں، اس طرح ہوں کہ سیدھی لکیر(straight line) بن رہی ہو، سینے (chest) آگے پیچھے نہ ہوں۔
(۲) اگلی صف کا دونوں کونوں تک پورا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو دوسری صف نہ بنائی جائے۔ شریعت میں یہ کام بہت اہم ہے یہاں تک کہ آگے والی صف میں جگہ ہو اور بعد میں آنے والو ں نے پیچھے صف بنالی پھر کوئی اور نمازی آیا اور اس نے آگلی صف میں جگہ خالی دیکھی تو اُس کے لیے حکم ہے کہ پیچھے والی صفوں کو
چیرتا(یعنی آخری صف کے نمازیوں کے کندھوں کےبیچ سے ہوتا)ہوا ، آگے جائے اور جو جگہ خالی ہے، وہاں کھڑا ہو کر جماعت سے نماز پڑھے۔
(۳) خوب مل کر کھڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کندھے(shoulder) سے کندھا خوب اچھی طرح ملا ہوا ہو۔
اوپر بتائی ہوئی تینوں باتوں پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ضروری کام بھی ہے:
(۴) صفوں کا پاس پاس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دو صفوں کے بیچ میں اتنا فاصلہ(gape) نہ ہو کہ جس میں کوئی صف بن سکے۔(فتاوٰی رضویہ، ج ۷ ،ص ۲۱۹ تا ۲۲۳، مَاخوذاً)یعنی بس اتنا فاصلہ ہو کہ ہر طرح کے قد والے نمازی پچھلی صف میں آسانی سے سجدہ کر لیں ۔ شرعی اجازت کے بغیر پوری صف کا اضافی گیپ(extra gape) کرنا، گناہ ہے اور پوری صف سے کم اضافی گیپ ہو تو سنّت چھوٹ جائے گی۔(فیضانِ نماز ص۲۱۸،مُلخصاً)
{7} ہو سکے توجماعت سے پہلے اس طرح اعلان کیجئے:اپنی اَیڑیا ں(heels) ،گردنیں اور کندھے (shoulders) ایک سِیدھ میں (straight)کرکے صف سیدھی کرلیجئے ، پاؤں صف کی لکیر پر رکھ کر کھڑے ہوں۔ دو آدَمیوں کے بیچ میں جگہ چھوڑنا گناہ ہے ، کندھے سے کندھاخوب اچّھی طرح ملا کر رکھناواجب ، صف سیدھی رکھنا واجب اور جب
تک اگلی صف (دونوں کونوں تک) پوری نہ ہوجائے جان بوجھ کر(deliberately) پیچھے نماز شروع کردینا تَرک ِواجب، ناجائز اور گناہ ہے۔پندرہ( 15) سال سے چھوٹے نا بالِغ بَچّوں کو صَفوں میں کھڑا نہ رکھئے،انہیں کونے(side) میں بھی نہ بھیجئے چھوٹے بَچّوں کی صف سب سے آخرمیں بنائیے۔(ثواب بڑھانے کے نسخے ص۸،مُلخصاً)
{8} (۱)امام صاحب کا مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہونامکروہ ہے(۱)اگر وہ جگہ تھوڑی سی اونچائی (مثلاً تین انچ۔3 inches) ہو تونماز، مکروہ تنزیہی ہوگی یعنی گناہ تو نہیں لیکن امام صاحب کا اس سے بچنا بہتر ہے اور (۲)اگر وہ جگہ بہت زیادہ اونچی ہو تونماز، مکروہ تحریمی ہوگی یعنی اس صورت میں وہ نماز دوبارہ پڑھناواجب ہوگی۔ (جنوری2021 ،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)
{9} شرعی اجازت کے بغیر سُتونوں(pillars) کے درمیان (یعنی بیچ میں)صف بنانا مکروہ و ناجائز ہے کہ اس سے صَف کا کاٹنا(نامکمل(incomplete) بنانا)لازم آتا ہے جو کہ نا جائز ہے۔ ہاں !اگر کوئی مجبوری ہو، جیسے نَمازی بہت زیادہ ہوں ، جس کی وجہ سے مسجد میں جگہ کم پڑ جائےیا باہَر بارش ہو(اور اندر ستون والی صف کے علاوہ جگہ نہ ہو) تو سُتونوں کے بیچ میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔( جمادی الاولیٰ 1440،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)
اقتدا(یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے) کے مسائل:
{1}میدان میں جماعت قائم ہوئی، اگر امام و مقتدی کے درمیان اتنی جگہ خالی ہے کہ اس میں دو صفیں بن سکتی ہیں تو اقتدا صحیح نہیں(یعنی پیچھے پڑھنے والے کی نماز نہ ہوئی)۔
{2}امام و مقتدی کے درمیان (میدان وغیرہ میں)اتنا چوڑا راستہ ہو جس میں بیل گاڑی جاسکے، تو بھی اقتدا نہیں ہوسکتی۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۵۶۳،مسئلہ۱۱،۱۵)
{3} شہر یا گاؤں میں جو شخص چار(4) رکعت والی نماز پڑھائے اور دو(2) پر سلام پھیر دے، تویہ ضروری ہے کہ مقتدی(یعنی پیچھے نماز پڑھنے والے) کو امام صاحب کا مقیم(یعنی رہائشی) یا مسافر ہونا معلوم ہو۔ (ص ۵۷۳،مسئلہ۶۷)
{4} پانچ (5)چیزیں وہ ہیں کہ امام صاحب چھوڑ دیں تو مقتدی بھی نہ کرے اور امام صاحب کا ساتھ دے:
(۱) تکبیرات عیدین(یعنی عیدکی نماز میں جو چھ (6)باراَللہُ اَکْبَر، عام نمازوں سے زیادہ پڑھی جاتی ہیں) (۲) سجدۂ تلاوت (یعنی آیت سجدہ کی تلاوت پر فوراً جو سجدہ کیا جاتا ہے)(۳) سجدۂ سہو(یعنی نماز میں غلطی سے واجب چھوٹنے پر آخر میں جو دو سجدے کیے جاتے ہیں) (۴) (نمازِ عشاء کے فرض اورسُنّتوں کے بعد پڑھی جانے والی تین رکعت وتر نماز کی تیسری (3rd )رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے پڑھی جانے والی) دعائےقنوت جب امام صاحب بھول جائیں تو مُقتدی بھی نہ پڑھے( ہاں! اگر مختصر (مثلاً تین بار’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘ )پڑھ کر رکوع میں امام صاحب کے ساتھ مل سکتا ہے تو پڑھ لے)(۵) قعدۂ اُولیٰ۔نوٹ: امام صاحب نےقعدۂ اُولیٰ نہ کیا اور ابھی سیدھا کھڑےنہ ہوئے تو مقتدی ابھی قعدہ نہ چھوڑے بلکہ” لقمہ‘‘ دے کربتائے، تاکہ امام صاحب واپس آئیں، اگر واپس آئے تو ٹھیک اور اگر سیدھے کھڑےہوگئے تو اب نہ بتائے کہ(لقمے کا وقت ختم ہوگیا اور اگر اب ” لقمہ‘‘ دیا تو ”لقمہ‘‘ دینے والے کی ) نماز ٹوٹ جائے گی، بلکہ اب خود بھی قعدہ چھوڑ دے اور کھڑا ہو جائے۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۵۹۳،مسئلہ۵۰ مُلخصاً)=
{5} مُقتدی ، امام صاحب سے پہلے سجدے میں چلا گیا، مگر نمازی کے سر اٹھانے سے پہلے ہی امام صاحب بھی سجدہ میں پہنچ گئے تو اُس نمازی کا بھی سجدہ ہوگیا، مگر مقتدی(امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے) کو ایسا کرنا حرام ہے (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۵۹۴، مسئلہ۵۴ ) ۔ہاں! اگر نماز ی،امام صاحب کے سجدے میں آنے سے پہلے ہی اُٹھ گیا اور وہ سجدہ دوبارہ بھی نہ کیا تو اُس کی نماز کا سجدہ نہ ہوا اور جب سجدہ نہ ہوا تو اُس کی نماز بھی نہیں ہوئی۔
{6} چار(4) چیزیں وہ ہیں کہ امام صاحب کریں تو مقتدی ان کا ساتھ نہ ديں:
(۱) نماز میں کوئی زائد(extra) سجدہ کیا (۲) تکبیرات عیدین میں اقوالِ صحابہ (یعنی صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نے جو جو تعداد (number) بتائی ہیں،اُن)سے بھی زیادہ تکبیریں کہیں (۳) جنازہ میں پانچ تکبیریں کہیں (۴) پانچویں (5th)رکعت کے ليے بھول کر کھڑےہوگئے، پھر اس صورت (case) میں اگر قعدۂ اخيرہ کر چکے ہوں تو مقتدی ان کا انتظار کرے اگر پانچویں(5th) کے سجدہ سے پہلے واپس آگئےتو مقتدی بھی ان کا ساتھ دے یعنی ان کے ساتھ سجدۂ سہو کرے پھر سلام پھیرےاور اگر پانچویں (5th)کا سجدہ کر لیا تو مقتدی اپنا سلام پھیر کر اپنی نماز پوری کر لے اور اگر قعدۂ اخیرہ نہیں کیا تھا اور پانچویں(5th) رکعت کا سجدہ کر لیا تو اب سب کی نماز ٹوٹ گئی، چاہے مقتدی نے تشّہد( یعنی اَلتَّحِیّات) پڑھ کر سلام پھیر لیا ہو۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۵۹۳،مسئلہ۵۱ مُلخصاً)
{7} نو(9) چیزیں ہیں کہ امام صاحب اگر نہ کریں تب بھی مقتدی ، وہ کام کرے:
(۱) تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اُٹھانا (۲) ثنا(یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ) پڑھنا، جبکہ امام صاحب فاتحہ میں ہوں اور آہستہ آواز میں پڑھتے ہوں ،اگر بلند (یعنی اونچی)آواز سے قراءت کر رہے ہوں تو قراءت سننا ضروری ہے ، اب کچھ نہیں پڑھنا (۳) رکوع کی تسبیح (یعنی سُبْحَانَ رَبّیَ الْعَظِیْم) (۴) سجدوں کی تکبیرات(یعنی اَللہُ اَکْبَرُ) (۵) سجدوں کی تسبیحات(یعنی سُبْحَانَ رَبّیَ الْاَعْلٰی) (۶) تسمیع (یعنی سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہاگر امام صاحب نے نہ پڑھی تب بھی مُقتدی اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد کہتے ہوئے کھڑا ہوگا)(۷) تشّہد (یعنی اَلتَّحِیّات) پڑھنا (۸) سلام پھیرنا(یعنی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللہ) (۹)بڑی عیدکے جن دنوں میں فرض نماز کے بعد تکبیرات تشریق (یعنی اَللہُ اَکْبَرُ ط اللہ ُاَکْبَرُط لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ ط اللہُ اَکْبَرُط وَلِلّٰہِ الْحَمْد) پڑھنی ہوتی ہے،امام صاحب بھول جائیں تب بھی مُقتدی اسے پڑھے گا۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۵۹۴،مسئلہ۵۲ مُلخصاً)
{8} امام صاحب اور مقتدیوں میں اختلاف ہوا، مقتدی کہتے ہیں تین (3)رکعتیں پڑھی ہیں اور امام صاحب کہتے ہیں چار(4) پڑ ھی ہیں تو اگر امام صاحب کو یقین ہو تو نماز دوبارہ نہ پڑھیں، اوراگر یقین نہ ہو تو دو بارہ پڑھیں اور اگر مقتدیوں میں آپس میں اختلاف ہوگیاتو امام صاحب جو بات کہیں، وہ مان لی جائے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۵۹۴،مسئلہ۵۵ مُلخصاً)
{9}(۱)سنّی ،صحیح العقیدہ،شافعی یا مالکی یا حنبلی امام صاحب کے پیچھے ہم حنفی اس وقت نماز پڑھ سکتے ہیں کہ جب وہ طہارت(یعنی پاکی) اور نماز کے مسائل میں ہم حنفیوں کے مسائل کا بھی خیال رکھتے ہوں کہ وہ ہمارے نزدیک بھی باوضو ہوں اورا ن کی نماز ہمارے نزدیک بھی نہ ٹوٹےاور(۲) اگر معلوم نہ ہو کہ ہمارے) حنفی (مسائل کا خیال رکھتے ہیں یا نہیں تب بھی نماز ان کے پیچھے جائز ہے مگر مکروہ(تنزیہی)اور (۳)اگر معلوم ہو کہ اِس نماز میں، اما م صاحب نے ہمارے حنفی مسائل کا خیال نہیں رکھا تو ان کے پیچھے یہ نماز نہ ہوگی۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۵۶۳،مسئلہ۲۹ مُلخصاً)
’’امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے رکعتیں کیسے مکمل کریں؟‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
قیامت کی علامات(symptoms) میں سے ہے کہ مسجد والے امامت ایک دوسرے پر ڈالیں گے، کسی کو امام نہیں پائیں گے کہ ان کو نماز پڑھا ئے (سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، الحديث: ۵۸۱، ج۱، ص۲۳۹) ۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: یعنی کسی میں اِمامت کی صلاحیت(ability) نہ ہوگی۔ (بہارِ شریعت ج۱،ص ۵۵۹)
واقعہ(incident): یہ نماز نہ پڑھائے
ایک شخص نے لوگوں کو نماز پڑھائی توقبلے کی طرف تھوک دیا(spit)۔ اللہ کریم کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یہ دیکھ رہے تھے ۔ جب وہ شخص نماز سے فارغ ہو گیا تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس کی قوم سےفرمایا کہ یہ شخص تمہیں(دوبارہ) نماز نہ پڑھائے ۔ پھر جب وہ(شخص اگلی بار) نماز پڑھانے لگا تو لوگوں نے اسے منع کیا اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا حکم اُسے بتایا تو وہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوئے اور اس بات کا ذکر کیا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہاں ( میں نے منع کیا ہے )۔ اس واقعے کو بتانے والے صاحب کہتے ہیں: میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے یہ بھی فرمایا کہ تو نے اللہ کریم اور اس کے رسول (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)کو تکلیف دی ہے۔(سنن ابی داود،ج۱، ص۱۳۰، بیروت)
امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے چار(types) قسم کے نمازی ہے:
(27) جواب دیجئے:
س۱) چند وہ باتیں بتائیں کہ امام صاحب چھوڑ دیں تب بھی ہم کریں گئے۔
س۲) امام صاحب اور مقتدیوں میں رکعتوں کی تعداد(number) میں اختلاف (disagreement)ہو تو کس کی بات مانی جائے؟
مقتدی کی چار (4)قسمیں ہیں: {1} مُدرِک {2} مَسبُوق{3} لاحِق{4} لاحِق مَسبُوق۔
امام صاحب کے پیچھے سب مُقتدیوں کے مسائل:
(۱) امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کر رہے ہیں تو پہلی تکبیر (یعنی اَللہُ اَکْبَر) اتنی آواز سے کہنا ضروری ہے کہ اگر شور(noise) وغیرہ نہ ہو تو خود سن سکے۔ اگر یہ تکبیر نہ کہی یا دل میں کہہ لی تو نماز نہیں ہوگی۔
(۲)جب تک امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں، قرائت کسی نے بھی نہیں کرنی ، چاہے امام صاحب اونچی آواز میں قرائت فرمائیں یا آہستہ آواز میں۔
(۳)امام صاحب کے پیچھے اَعُوْذُ بِاللّٰہ اور بِسْمِ اللہ نہیں پڑھیں گے۔
(۴)ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے جو( اَللہُ اَکْبَر یعنی) تکبیر کہی جاتی ہے، وہ پڑھیں گے۔
(۵) رکوع اور سجدے کی تسبیح(یعنی ’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم ‘‘،’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘) ہو سکا تو تین(3) مرتبہ پڑھیں گے لیکن اگر امام صاحب پہلے ہی کھڑے ہو گئے تو تین(3) پوری کرے بغیر ہی امام صاحب کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔
(۶)رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے’’ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد‘‘کہیں گے(’’سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘‘ نہیں کہیں گے)۔
(۷)پہلا قعدہ ہو یا آخری اگر ہم نے تشّہد(یعنی اَلتَّحِیَّات) مکمل نہیں پڑھی تھی تو ہم مکمل کریں گے چاہےامام صاحب نے سلام پھیر دیا ہو۔
(۸) آخری قعدے میں امام صاحب کے سلام پھیرنے سے پہلے پہلے تک درود شریف اور دعا بھی پڑھیں گے۔
{1} مُدرک
اسے کہتے ہیں جس نے پہلی(1st ) رکعت سے تشّہد(یعنی اَلتَّحِیَّات) تک امام صاحب کے ساتھ نماز پڑھی، چاہےپہلی رکعت میں امام صاحب کے ساتھ رکوع میں ملا ہو۔
(۱) مُدرک امام صاحب کے پیچھے ثنا(یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ ) اُ س وقت تک پڑھے گا کہ جب تک امام صاحب نے اونچی آواز سےقرائت شروع نہ کی ہو۔ اگر امام صاحب آہستہ آواز میں قرائت کر رہے تھے رکوع میں چلے گئے اور مضبوط خیال (strong assumption) ہے کہ ثنا پڑھ کر امام صاحب کے ساتھ رکوع میں مل جاؤنگا، تو اب ثنا پڑھ کر رکوع میں جائے۔
(۲) امام صاحب کی نماز مکمل ہونے کے ساتھ مُدرک کی نماز مکمل ہو جائے گی۔
{2} مَسبُوق
وہ ہے کہ امام صاحب کی ایک یا کچھ رکعتیں پڑھنے کے بعد شامل ہوا اور آخر تک شامل رہا۔
(۱) مَسبُوق نےاگر پہلے اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھیں پھر امام صاحب کے ساتھ مل کر باقی نماز پڑھی (مثلاً دوسری رکعت میں آیا اور اپنی نماز پڑھنے لگا اور دوسری رکعت کے قعدے میں امام صاحب کے ساتھ مل گیا اور آخر تک اُن کے ساتھ پڑھی اور سلام پھیر دیا ) تو نماز ٹوٹ جائےگی۔
(۲) مَسبُوق نے امام صاحب کو (دوسری رکعت کے بعد یا سلام پھیرنے سے پہلے)قعدہ میں بیٹھا ہوا پایا ،تو تکبیر تحریمہ(اَللہُ اَکْبَر) سیدھے کھڑے ہونے کی حالت میں کہے، پھر دوسری تکبیر (یعنی دوسری مرتبہ اَللہُ اَکْبَر)کہتا ہوا قعدہ میں جائےرکوع میں امام صاحب کو پائے ،جب بھی ایسا ہی کرے، اگر پہلی تکبیر کہتا ہوا جھکا اور رکوع کی حد (یعنی ہاتھ بڑھائیں تو رکوع تک چلے جائیں) تک پہنچ گیا ،تو نماز ہی نہ ہوگی۔
(۳) مَسبُوق کو چاہیے کہ امام صاحب کے سلام پھیرتے ہی فوراً کھڑا نہ ہو جائے، بلکہ اتنی دیر صبر کرے کہ معلوم ہو جائے امام صاحب کو سجدۂ سہو تونہیں کرنا ہے ۔ شرعی ضرورت کے بغیرسلام سے پہلے کھڑا ہونا مکروہ تحریمی ہے۔
(۴) امام صاحب نے سجدۂ سہو کیا مسبوق نے(بغیر سلام پھیرے) اس کے ساتھ سجدے کیے جیسا کہ اسے حکم ہے، پھر معلوم ہوا کہ امام صاحب پر سجدۂ سہو نہ تھا، مسبوق کی نمازفاسد ہوگئی(یعنی نماز دوبارہ پڑھے)۔
(۵) دو مَسبُوقوں نےایک ہی رکعت میں امام صاحب کے پیچھے نماز شروع کی، پھر جب اپنی پڑھنے لگے تو ایک کو اپنی رکعتیں یاد نہ رہیں، دوسرے کو دیکھ دیکھ کر جتنی اُس نے پڑھیں، اُتنی ہی رکعتیں (بھولے ہوئے نمازی نے بھی) پڑھ لیں، تو اِ س کی نماز بھی ہوگئی ۔
(۷) مَسبُوق نے امام صاحب کے سہو میں امام صاحب کے ساتھ سجدۂ سہو کیا پھر جب اپنی پڑھنے کھڑا ہوا تو اس میں بھی سہو ہوگیا تواب اپنی رکعتوں کے بعد دوسرا سجدۂ سہو کرے۔ (ح۴،ص۷۱۵، مسئلہ ۴۸)
(۸) مَسبُوق اپنی نماز کیسے مکمل کرے گا، اس کے مسائل آخر میں بیان کیے گئے ہیں۔
{3} لاحِق
وہ کہ امام صاحب کے ساتھ پہلی رکعت میں ملا مگراس کی سب یا چند رکعتیں نکل گئیں۔ مثلاً قعدہ اولیٰ میں بیٹھے بیٹھے سو گیا اور اگلی رکعت کا رکوع اور سجدے امام صاحب کے ساتھ نہ کر پایا ۔ ( یاد رہے! سونے کے کچھ انداز (styles)ایسے ہیں کہ جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہےاور کچھ طریقے ایسے ہیں کہ جن سے وضو نہیں ٹوٹتا )
(۱) لاحِق مُدرک کے حکم میں ہے کہ نماز کا جو حصّہ (part)اس طرح(مثلاً سوتے ہوئے) نکل گیا، جب وہ ادا کرے گا، تو اس میں قراء ت نہیں کریگا (بلکہ جتنی دیر قراءت میں لگتی ہے، اُتنی دیر خاموش کھڑا رہے گا )اور جو جو رکن (مثلاً رکوع، قومہ وغیرہ) رہ گیا ہے، وہ ادا کرتا ہوا امام صاحب سے مل جائے گا۔
(۲)اسی طرح مُقیم مُقتدی، جب مسافر امام صاحب کے پیچھے(مثلاً ظہر کی) نماز پڑھے گا تو امام صاحب کے ساتھ(دو رکعت) نماز مکمل ہونے کے بعد جب اپنی (دو رکعت) نماز پڑھے گا تو اُن دو رکعتوں میں بھی قرائت نہیں کرے گا بلکہ اُتنی دیر خاموش کھڑا رہے گا کہ جتنی دیر قرائت میں لگتی ہے کیونکہ یہ بھی’’ لاحق ‘‘ہے۔( ردالمحتار باب سجود السہو مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۵۴۹، ماخوذاً)
(۳)لاحِق ایسا نہیں کر سکتا کہ (مثلاً جب جاگا تو نکلی ہوئی رکعت پڑھے بغیر) امام صاحب کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردے پھر جب امام صاحب سلام پھیر دیں تو اپنی چھوٹی ہوئی رکعت وغیرہ پڑھنا شروع کر دے۔ لیکن پھر بھی لاحِق نے اس طرح نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی مگر ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا۔
(۴) قعدۂ اُولیٰ میں امام صاحب تشّہد(یعنی اَلتَّحِیَّات) پڑھ کر کھڑے ہوگئے اور کچھ مقتدی تشّہد پڑھنا بھول گئے، وہ بھی امام صاحب کے ساتھ کھڑے ہوگئے، تو جس نے تشّہد نہیں پڑھا تھا وہ بیٹھ جائے اور تشّہد پڑھ کر امام صاحب سے جاملے، چاہے رکعت نکل جائے۔نوٹ: رکوع یا سجدہ سے امام صاحب کے پہلے مقتدی نے سر اُٹھا لیا، تو اسے واپس جانا واجب ہے اور یہ دو رکوع یا دو سجدے نہیں ہوں گے بلکہ یہ وہی رکوع یا وہی سجدہ ہے۔
{4} لاحِق مَسبُوق
وہ ہے جس کی کچھ رکعتیں شروع کی نہ ملیں، پھر شامل ہونے کے بعد لاحق ہوگیا(مثلاً پہلی رکعت نہ ملی، دوسری میں شامل ہوگیااور قعدہ اولیٰ میں بیٹھے بیٹھے سو گیا اور اگلی رکعت کا رکوع اور سجدے امام صاحب کے ساتھ نہ کر پایا) ۔
(۱) لاحِق مَسبُوق کا حکم يہ ہے کہ جن رکعتوں میں لاحق ہے ان کو امام صاحب کی ترتیب سے پڑھے(جیسے اوپر لاحق کا بتایا گیا مثلاً سونے کے بعد جب جاگا تو جہاں سویا وہاں سے لے کر امام صاحب سے ملنے تک کی جو رکعتیں ہیں)، ان میں لاحق ہے۔ جب امام صاحب سے مل گیا تو آخر تک امام صاحب کے ساتھ نماز پڑھےمگر سلام نہ پھیرے کہ اب یہ مسبوق ہوگیا یعنی شروع میں جو رکعتیں رہ گئی تھیں، اب وہ پڑھ کر نماز مکمل کرے۔ مثلاً چار(4) رکعت والی نماز کی دوسری(2nd ) رکعت میں ملا پھر دو(2) رکعتوں میں سوتا رہ گیا، تو پہلے یہ رکعتیں جن میں سوتا رہا بغیر قراء ت کیے پڑھ لے، صرف اتنی دیر خاموش کھڑا رہے جتنی دیر میں سورۂ فاتحہ پڑھی جاتی ہے پھر امام صاحب کے ساتھ جو کچھ مل جائے، اس میں امام صاحب کے ساتھ نماز پڑھے، پھر وہ دو (2)رکعتیں جو نکل گئیں تھیں، اب قراء ت کے ساتھ پڑھے۔ ( بہار شریعت ج۱، ح۳،ص ۵۹۲ تا ۵۸۸، مُلخصاً)
مسبوق کس طرح نماز مکمل کرے ؟
{1} جس نمازی کے نماز میں ملنےسے پہلے امام صاحب ایک(1) یا کچھ رکعتیں پڑھا چکے ہوں، اس کے بعد وہ نمازی ملا ہو تو(سلام کے بعد) وہ مَسبُوق ایسا ہے جیسا اکیلے (alone)اپنی نماز پڑھنے والا ،وہ(پہلی رکعت میں) ثناء(یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ ،مکمل) اور اَعُوْذُ(مکمل) پڑھے گا باقی رکعتوں میں بِسْمِ اللہ کے ساتھ قراءت بھی کرے گا (تفصیل آگے دیکھیں ) ۔(فتاوی رضویہ ،جلد۷، صفحہ۲۴۲ ماخوذاً)
{2} مَسبوق نے جب امام صاحب کے فارغ ہونے کے بعد اپنی نماز شروع کی تو قراء ت کے حق میں یہ پہلی رکعت ہے اور تشّہد کے حق میں(رکعتوں کے اعتبار سے) پہلی نہیں بلکہ دوسری(2nd ) تیسری(3rd ) چوتھی(4th ) مانی جائے گی (تفصیل آگے دیکھیں ) ۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۵۹۰،مسئلہ۲۷ تا ۴۹)
{3} اس کی آسان ترکیب یوں سمجھیں کہ :
(۱)ایک :قراءت کے لحاظ سے رکعتیں پڑھنے کا طریقہ ہے۔
(۲)دوسرا: اَلتَّحِیَّات پڑھنے یا قعدہ کرنے کے لحاظ سے رکعتیں پڑھنے کا طریقہ ہے۔
قراءت کے لحاظ سے رکعتیں پڑھنے کا طریقہ
ایک رکعت نکلی تو :
مَسبُوق بعد میں اپنی ایک رکعت میں مکمل ثناء (یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ)پڑھے، پھر مکمل اَعُوْذُ ،پھرمکمل بِسْمِ اللہ ، پھر مکمل سورۃ ُالفاتحہ پھر سورت وغیرہ۔
دو رکعتیں نکلیں تو :
جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس طرح پہلی (1st )رکعت پڑھے، پھر دوسری(2nd ) میں مکمل بِسْمِ اللہ ، پھر مکمل سورۃ ُالفاتحہ پھر سورت وغیرہ۔
تین رکعتیں نکلیں تو :
تیسری (3rd ) میں مکمل بِسْمِ اللہ ، پھر مکمل سورۃ ُالفاتحہ پھر سورت وغیرہ( ) پڑھے۔
نوٹ:
مغرب یا وتر کی نماز کی تیں رکعتیں نکل گئی تو جس طرح یہ مکمل نمازیں پڑھی جاتی ہیں، اسی طرح امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد(اپنا سلام پھیرے بغیر) ’’اَللہ ُاَکْبَر‘‘کہتے ہوئے کھڑا ہو جائے اور مکمل نماز پڑھ لے۔
چار رکعتیں نکلیں تو :
امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد(اپنا سلام پھیرے بغیر) ’’اَللہ ُاَکْبَر‘‘کہتے ہوئے کھڑا ہو جائے اور عام نمازوں کی طرح مکمل چار(4 ) رکعتیں پڑھ لے۔
اَلتَّحِیَّات کے لحاظ سے رکعتیں پڑھنے کا طریقہ :
ایک(1) رکعت نکلی تو :
اوپر جس طرح بیان ہوا ہے، اسی طرح َمسبُوق قراءت کرے پھر قعدہ اخیرہ کر کے سلام پھیر کر نماز مکمل کرے۔
دو (2)رکعتیں نکلیں تو :
اوپر جس طرح بیان ہوا ہے، اسی طرح قراءت کرے۔
{} اگر تین(3) رکعت والی نماز ہے تو اپنی پہلی(1st ) رکعت میں قعدہ کرے اور صرف اَلتَّحِیَّات پڑھ کر کھڑا ہو جائےاور آخری(last ) رکعت میں قعدہ کرے اور اَلتَّحِیَّات کے بعد درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔
{}اگر چار(4) رکعت والی نماز ہے تواپنی دو (1st n 2nd ) رکعتوں میں سے پہلی (1st ) میں قعدہ نہ کرے بلکہ صرف دوسری (2nd ) رکعت میں قعدہ کرے اور اَلتَّحِیَّات کے بعد درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔
تین(3) رکعتیں نکلیں تو :
مغرب اور وتر کی نمازہے تو طریقے کے مطابق مکمل نماز پڑھے۔
{} اگر چار (4)رکعت والی نماز ہے تو اوپر بیان کیے ہوئے طریقے کے مطابق قراءت کرے۔اپنی پہلی (1st ) رکعت میں قعدہ کرے اور صرف اَلتَّحِیَّات پڑھے ، پھر اگلی (next)رکعت میں قعدہ نہ کرے اورآخری(last) رکعت میں قعدہ کرے اور اَلتَّحِیَّات کے بعد درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔
چار (4)رکعتیں نکلیں تو :
امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد(اپنا سلام پھیرے بغیر) ’’اَللہ ُاَکْبَر‘‘کہتے ہوئے کھڑا ہو جائے اور عام نمازوں کی طرح مکمل چار(4 ) رکعتیں پڑھ لے۔
وضاحت(explanation):
رکعتوں کی ترتیب(sequence) کا صحیح طریقہ یہی ہے جو بیان ہوا اور اسے یاد رکھنے میں بھی آسانی ہے، البتہ اس کے علاوہ (other) بھی کچھ صورتیں(conditions) ہیں جو ہم نے بیان نہیں کیں مگر وہ بھی صحیح ہیں، مثلاً چار(4) رکعت والی نماز میں،اگر تین(3) رکعتیں نکل گئیں تو اپنی تین رکعت میں سے پہلی (1st ) میں قعدہ نہ کرنا اور آخری دو (last two) میں قعدہ کرنا۔ جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے: (جس کی تین (3)رکعتیں، امام صاحب کے پیچھے نکل گئی ہوں وہ)دو(2) پڑھ کر بیٹھا(یعنی اپنی دوسری (2nd ) رکعت میں قعدہ اولیٰ کیا لیکن) پہلی(1st ) پر قعدہ نہ کیا پھر تیسری(3rd ) پر قعدہ اخیرہ کیا تو یوں بھی نماز جائز ہوگی سجدہ سہو(بھی) لازم نہ آئے گا۔ (فتاوی رضویہ ،جلد۶، صفحہ۳۸۱) ( )
’’نفل اور سنّت نمازوں کے مسائل‘‘
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
اﷲ کریم فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سےدشمنی کرے تو میری طرف سے اس کے خلاف جنگ کا اعلان ہےاور میرا بندہ جن اعمال کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہےان میں سے مجھے سب سے زیادہ پسند فرض عبادت ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ (بخاری،۴/۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲)
حضرت ِ مفتی احمد یار خان (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) حدیثِ پاک کے اس حصّے ((میرا بندہ جن اعمال کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہےان میں سے مجھے سب سے زیادہ پسند فرض عبادت ہے))کے تحت فرماتے ہیں: یعنی مجھ تک پہنچنے کے بہت سارے راستے ہیں،مگر ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ (favorite)راستہ فرضوں کو پورا کرنا ہے ۔اسی لیے بزرگ فرماتے ہیں کہ فرض کے بغیر نفل قبول (accept)نہیں ہوتے۔ افسوس ان لوگوں پر جو فرض عبادتوں میں سستی کریں اور نفل عبادتوں پر زور دیں ۔
اور اس حصّے ((اور میرا بندہ نفل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں))کے تحت فرماتے ہیں :یعنی بندہ مسلمان فرض عبادتوں کے ساتھ نفل عبادتیں بھی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ میرا پیارا ہوجاتا ہے کیونکہ وہ فرض اور نفل دونوں عبادتیں کرنے والا بن جاتاہے (مرقات)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرض چھوڑ کر نفل عبادت کرتے رہو۔ محبّت سے مراد کامل اور مکمل محبّت ہے۔(مراٰۃ المناجیح،۳/۳۰۸ مُلخصاً)
یاد رہے کہ فرائض ،واجبات ا ور سنّت مؤکّدہ کا علم حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا نفل عبادت کرنے سے بہت اہم ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: کوئی مستحب کیسی ہی فضیلت والا ہو جب کسی سنت مؤکدہ کے چھوٹنے کا سبب ہو تو یہ عمل اب مستحب(ثواب والا کام) نہیں کہلائے گا بلکہ اب یہ کام بُراہوگا (فتاوی رضویہ،۷/۴۱۰، مُلخصاً) ۔بلکہ عُلَمائے کِرام تو یہ بھی فرماتے ہیں: جوفرض چھوڑ کر نفل میں مشغول (مصروف۔ busy) ہو حدیثوں میں اس کی سخت برائی آئی اور اس کا وہ نیک کام مردود(یعنی نامقبول) قرارپایا۔(فتاوی رضویہ،۲۳/ ۶۴۸ )
واقعہ(incident): روزانہ800 نوافل پڑھتے تھے
حضرت حُمَمَہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کہا: اے عامر ! آپ کو کون سی چیز تباہی(destruction) کا سبب لگتی ہے ؟ فرمایا: مجھے اﷲکریم سے حیا آتی ہے کہ اس کے علاوہ (other) کسی اورچیز کا خوف (یعنی ڈر) رکھوں ۔اور یہ بھی فرمایا: اگر اﷲ کریم مجھے پیٹ (یعنی کھانے پینے )کی آزمائش میں نہ ڈالتا(یعنی نہ مجھے بھوک لگتی، نہ مجھے استنجاء کے لیے (toilet وغیرہ) جانا پڑتا) تو میرا ربّ مجھے ہروقت رُکوع اور سجدے ہی میں دیکھتا لیکن جب میں کھاتا ہوں توقضائے حاجت کے لیے (toilet وغیرہ) بھی جانا پڑتا ہے(اور یوں میرا کچھ وقت عبادت کی جگہ ان کاموں میں لگ جاتاہے)۔
حضرت حُمَمَہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ روزانہ آٹھ سو(800)رکعت نفل نماز پڑھتے تھے لیکن پھر بھی (عاجزی کرتے ہوئے) فرماتے: میں عبادت میں کوتاہی (یعنی کم عبادت کرنے والا) ہوں اور (عاجزی کی وجہ سے)اپنے آپ کو بُرا بھلا کہتے۔ (حلیۃ الاولیاء ج۲ص۱۰۴حدیث۱۵۸۱، مُلخصاً)
نفل اور سنّت نمازیں:
{1} تَہَجُّد کی نماز کی فضیلت، فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:قِیامت کے دن تمام لوگ ایک جگہ جمع ہوں گے پھر ایک آواز لگانے والا، آواز دے گا کہ: کہاں ہیں وہ لوگ جِن کے پہلو(sides)بستروں سے الگ رہتے تھے؟ پھر وہ لوگ کھڑے ہوں گے اوروہ تعداد(number) میں بہت کم ہونگے اوربِغیر حِساب جَنّت میں چلےجائیں گے ، پھرتمام لوگوں سے حساب شروع ہوگا۔ (الترغیب والترہیب ،کتاب النوافل ،حدیث ۹، ج ۱، ص ۲۴۰)
{2} فجر کی سنّتوں کی فضیلت ، فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فجر کی دو رکعتیں (یعنی سنّتیں)دنیا ا ور جو کچھ دنیا میں ہے، اُ س سے بہتر ہیں۔( صحيح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرين، الحديث: ۷۲۵، ص۳۶۵)
{3} اشراق کی نماز کی فضیلت، فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جو فجر کی نماز جماعت سے پڑھ کراللہ کریم کا ذکر کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج بلند ہوگیا پھر دو(2) رکعتیں پڑھےتو اُسے پورے حج اور عمرہ کا ثواب ملے گا۔
(جامع الترمذي، أبواب السفر، الحديث ۵۸۶، ج۲، ص۱۰۰.)
{4} چاشت کی نماز کی فضیلت، حدیثِ پاک میں ہے: جس نے چاشت کی بارہ(12) رکعتیں پڑھیں، اللہ کریم اس کے ليے جنّت میں سونے کا محل بنائے گا۔ (جامع الترمذي، أبواب الوتر، الحدیث: ۴۷۲، ج۲، ص۱۷)
{5}تَحِیَّۃُ الْوُضُو کی فضیلت، فرمانِ نبّیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جو شخص وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور ظاہر و باطن کی توجّہ (attention)کے ساتھ دو(2) رکعت پڑھے، اس کے ليے جنّت واجب ہو جاتی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، الحدیث: ۲۳۴، ص۱۴۴)
{6}تَحِیَّۃُ الْمَسْجِد کی شان، فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جب تم سے کوئی شخص مسجد میں جائے تو اسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔ (صحيح البخاري، کتاب الصلاۃ، الحديث: ۴۴۴، ج۱، ص۱۷۰)
{7}سنت ِ مؤکدّہ کی فضیلت ،حدیثِ پاک میں ہے کہ: جو شخص ظہر سے پہلے اور بعد میں چار(4)، چار(4) رکعتیں پڑھے ، اﷲ کریم اس کے گوشت کو جہنّم پرحرام فرمادے گا (مسند احمد ،۱۰/۲۳۲ حدیث: ۲۶۸۲۶) ۔عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں :یعنی اس طرح کہ(اﷲ کریم) اسے گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق (enablement) دے گا۔معلوم ہوا کہ سنّت کی پابندی سے تقویٰ (اور پرہیزگاری یعنی گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا) نصیب ہوتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،۲/ ۲۲۵ مُلخصاً)
{8}سنت غیرِ مؤکّدہ کی فضیلت،حدیث میں ہے کہ: اﷲ کریم اس شخص پر رحم کرےجس نے عصر سے پہلے چار (4) رکعتیں پڑھیں۔ (ابوداود، کتاب التطوع،۲/۳۵ ،حدیث: ۱۲۷۱)
{9} اوّابین کی نماز کی فضیلت، حدیثِ پاک میں ہے:جو مغر ب کے بعد چھ (6)رکعتیں پڑھے گا، اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ، چاہے سمندر کی جھاگ(sea foam) کے برابر ہوں۔ (معجم الاوسط ، ۵/۲۵۵ ، حدیث: ۷۲۴۵)
{10} وتر کے بعد دو (2)رکعت نفل نماز کی فضیلت، حدیثِ پاک میں ہے: اگر رات میں نہ اُٹھا تو یہ( دو(2) رکعت نفل جو وتر کے بعد پڑھی گئیں کہ پہلی رکعت میں اِذَا زُلْزِلَت(مکمل)، دوسری میں قُلْ یٰاَیُّھَا الْکٰفِرُوْن (مکمل) پڑھی گئی)تہجّد کے قائم مقام(in place of tahajjud) ہو جائیں گی۔ (غنیۃ المتملي ، صلاۃ الوتر، ص۴۲۴)
{11} عشاء کی نماز اور چار(4) نفل کی فضیلت، حدیثِ پاک میں ہے:جس نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی اور مسجد سے نکلنے سے پہلے چار (4)رکعتیں (نفل) پڑھیں تو اس کی یہ رکعتیں”شب قدر“ میں پڑھی جانے والی رکعتوں کے برابر ہيں۔ (معجم الاوسط،۴/ ۶۸،حدیث:۵۲۳۹)
{12} توبہ کرنے والوں کی نماز:توبہ کابہترین طریقہ یہ ہے کہ دو(2) رکعت نماز ”صلوۃُ التوبہ“ کی نیّت سے پڑھے پھر اپنے گناہوں پرشرمندہ ہوکر اللہ کریم سے یہ وعدہ کرے کہ میں اب کبھی بھی گناہ نہ کروں گاپھر گناہوں کے قریب نہ جائے اور اللہ کریم سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔(بہشت کی کنجیاں ص۱۵۷ مُلخصاً)
مختلف نفل نمازوں کے مسائل:
{1} عشا کے بعد رات میں سو کر اُٹھے پھر جو نفل نماز پڑھی وہ تہجّد ہے، سونے سے پہلے تہجّد نہیں تہجّد نفل نماز ہے اگر کوئی عشا کے بعد سو گیا پھر اٹھ کر قضاپڑھی تو اُس کو تہجد نہیں کہیں گےکم سے کم تہجّد کی دو(2) رکعتیں ہیں اورحدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے آٹھ(8) رکعت بھی پڑھی ہیں(بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص، ۶۷۷،۶۷۸، مسئلہ ،۱،۲،۳ مُلخصاً)نمازِ تہجُّد کے لیے نیند شرط (precondition)ہے اگرچہ نیند کا ایک جھونکا ہی ہو۔(فیضانِ مدنی مذاکرہ قسط ۳۱،ص۲۹)
{2}سب سنّت نمازوں میں اہم ترین فجر کی سنّت ہے، یہاں تک کہ کچھ عُلَمائے کِرام نے اس کو واجب کہا ہے۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۶۶۳ ) سنّت فجر میں قیام فرض ہے کہ شرعی اجازت کے بغیر بیٹھ کر یہ نماز نہ ہو گی۔(ح۳،ص۵۱۰ ، مسئلہ ۱۶) چلتی ریل گاڑی میں فجر کی سنّتیں نہیں ہوتی ۔(ص۶۷۳ ، مسئلہ۷۴) فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے سنّت فجر جائز نہیں اور فجر کا وقت شروع ہونے میں شک ہوتب بھی جائز نہیں اور فجر کا وقت شروع ہوتے ہی نماز شروع کر دی تو جائز ہے۔ (ح۴،ص۶۶۴ ، مسئلہ۸) فجر کی سنّت کی پہلی رکعت میں اَلْحَمْدُلِلّٰہ کے بعد قُلْ یٰاَیُّھَا الْکٰفِرُوْن(مکمل سورت)اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللہُ (مکمل سورت)پڑھنا سنّت ہے۔(ص۶۶۵ ، مسئلہ۱۲) فجر میں جماعت نکل جانے کا غالب گمان (مضبوط خیال۔strong assumption)ہو تو صرف واجبات (مثلاً سورۃُ الفاتحہ اور سورت ملانا)پورے کرے، سنّتیں (مثلاً ثنا ، اَعُوْذُ ، بِسْمِ اللہ ) نہ پڑھے۔ رکوع اورسجدے میں تسبیح بھی ايک ایک بار پڑھے۔(بہار شریعت ج۱،ح۴،ص۵۴۶،مسئلہ۱۷، مُلخصاً) یہاں تک کے کچھ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: اگرمضبوط خیال(strong assumption) ہو کہ فجر کی جماعت کی رکعتیں نکل جائیں گی تب بھی فجر کی سنّت میں نماز کی سنتیں (مثلاً اَعُوْذُ ، بِسْمِ اللہ، رکوع و سجدے میں تین تسبیحات وغیرہ) چھوڑ دے۔(رد المحتار، کتاب الصلوۃ، ج۲،ص۶۱۸، کوئٹہ، مَاخوذاً)
{3} ”اشراق “ کی نماز کا وقت سورَج نکلنے کےبیس(20) مِنَٹ بعد سے لے کر ”ضحو ہ ٔ کُبریٰ “ تک رہتا ہے (اسلامی بہنوں کی نماز ص۱۷۹ مُلخصاً) ۔احتیاط (caution) اسی میں ہے کہ پاکستان ، ہند اور عرب ممالک والے بیس(20) مِنَٹ کا خیال رکھیں۔ (واجباتِ حج اور تفصیلی احکام ص ۱۴۷ ،ماخوذاً)
{4} ”چاشت “ کی نماز مستحب ہے، کم از کم دو ، زیادہ سے زیادہ اور افضل بارہ(12) رکعتیں ہیں ، ”نماز ِچاشت “ کا وقت(پاکستان ، ہند اور عرب ممالک میں) سورَج نکلنے کےبیس(20) مِنَٹ بعد سے لے کر ضحو ہ ٔ کُبریٰ تک ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب التاسع فی النوافل،ج۱، ص۱۱۲،وردالمحتار، کتاب الصلاۃ،باب الوتروالنوافل،مطلب:سنۃ الوضوئ،ج۲، ص۵۶۳ مُلخصاً)
{5} وضو کے بعد جسم خشک ہونے سے پہلے دو (2)رکعت نماز ، ” تَحِيَّۃُ الْوُضُو “ پڑھنا مُستحب ہے۔(بہارِ شریعت ج۱، ح۴، ص۶۷۵)
{6} ” تحیۃُ المسجد “ جو شخص مسجد میں آئے اُسے دو(2) رکعت نماز پڑھنا سنّت ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ چار(4) پڑھے۔ فرض یا سنّت یا کوئی نماز مسجد میں پڑھ لی ” تحیۃُ المسجد “ ادا ہوگئی چاہے ” تحیۃُ المسجد “ کی نیّت بھی نہ کی ہو،جبکہ داخل ہونے کے بعد ہی پڑھ لی ہواور اگر بہت دیر بعد نماز پڑھی تو اُس نماز سے ” تحیۃُ المسجد “ نہیں ہوگی ” تحیۃُ المسجد “ پڑھنے کا حکم اس شخص کے ليے ہے جو مسجد میں نماز کے لیے نہ گیا ہو بلکہ درس وغیرہ کے ليے گیا ہو اگر کوئی شخص بے وضو مسجد میں گیا یا ایسے وقت مسجد میں آیا جس میں نفل نماز پڑھنامکروہ ہےیا کوئی اور وجہ ہے کہ ” تحیۃُ المسجد “ نہیں پڑھ سکتا تو چار(4) بار سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ کہے ہر روز ایک(1) بار ” تحیۃُ المسجد “ کافی(enough) ہے ہر بار ضرورت نہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۶۷۵،۶۷۴ ، مسئلہ ۱،۲،۳،۴)
{7} سنّت مؤکدّہ دو (2) رکعت(مثلاً فجر،ظہر، مغرب، عشاء) عام نمازوں کی طرح ہےسنّت مؤکدّہ چار (4) رکعت(مثلاً ظہر، جمعہ) میں دو(2) رکعت کے بعد قعدہ میں صرف اَلتَّحِیَّات پڑھ کر تیسری (3rd )رکعت کے لیے کھڑے ہو جائیں گے (اگر بھول سے درود شریف بلکہ اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ یا اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلٰی سیّدِ نا پڑھا تو سجدۂ سہو واجب ہو جائے گا ) ، ا س کی تیسری (3rd )اور چوتھی(4th ) رکعت میں قراءت فرض، سورۃ ُ الفاتحہ کی قراءت واجب اور سورت وغیرہ ملانا بھی واجب ہے(بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۶۶۷، مسئلہ۲۴، ماخوذاً) سنّت ا ور فرض کے درمیان باتیں کرنے سے سنّت کا ثواب کم ہو جاتا ہے(ص۶۶۶، مسئلہ۱۶)اگرظُہر کے فرض پہلے پڑھ لئے تو دو(2) رَکْعَت سنّتِ بعدِیہ(جو فرض کے بعد پڑھتے ہیں) ادا کر نے کے بعد چار (4)رَکعَت سنّتِ قبلِیہ(جو پہلے پڑھنی تھی، وہ اب) پڑھ لیجئے۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۱۴۸ ماخوذاً)
{8}سنّت ِ غیرِمؤکدّہ چار (4) رکعت(مثلاً عصر اور عشاء کی فرض نمازسے پہلے کی سنّتوں) میں دو(2) رکعت کے بعد قعدہ میں اَلتَّحِیَّات کے بعد درود شریف بلکہ دعا بھی پڑھیں اور تیسری (3rd )رکعت میں ثنا (یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ) پھر مکمل اَعُوْذُ ،پھرمکمل بِسْمِ اللہ ، پھر مکمل سورۃ ُالفاتحہ پھر سورت وغیرہ پڑھیں اور بقیہ نماز، عام نمازوں کی طرح پوری کریں۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۶۶۷، مسئلہ۲۴، ماخوذاً)
{9} دن کے نفل میں ایک سلام کے ساتھ چار(4) رکعت سے زيادہ اور رات میں آٹھ(8) رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے اور افضل یہ ہے کہ دن ہو یا رات ہو چار (4)چار (4)رکعت پر سلام پھیرے مغرب کے فرض کے بعدچھ(6) رکعتیں نماز پڑھنا مستحب ہیں ان کو ” صلوٰۃُ الاوّابین “ کہتے ہیں، چاہے ایک سلام سے سب پڑھے یا دو(2) سے یاتین(3) سے اور تین (3) سلام سے یعنی ہر دو (2) رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۶۶۶ ،مسئلہ۲۳، ۲۰)
نفل نمازوں کے مزید(more) مسائل:
{1} اگر عبادت کے لیے وقت ہو اور اس وقت میں نفل نماز پڑھنامکروہ نہ ہوں تو جتنے چاہے نفل پڑھے اور اگر اس نفل عبادت سے فرض نمازیا جماعت نکل جائے گی تو نفل میں مصروف (busy)ہوناجائز نہیں ہے۔
{2} نفل نماز قصداً ( مثلاًنفل نماز پڑھنے کی نیّت باندھ کر)شروع کرنے سے واجب ہو جاتی ہے کہ اگر توڑ دے گا قضا (یعنی دوبارہ)پڑھنی ہوگی۔
{3} نماز میں قیام لمبا(long) ہونا زیادہ رکعتیں پڑھنے سے افضل اور بہتر ہے ، جب کہ کسی وقت مُعَیَّن (fixed time) تک نماز پڑھنا چاہتا ہو(مثلاً آٹھ(8) منٹ تک نفل نماز پڑھنا چاہتا ہے اور اس وقت میں چار (4)رکعت نفل نماز پڑھ سکتا ہے، تو اب ان آٹھ(8) منٹ میں چار (4)رکعت کی جگہ دو(2) رکعت نفل پڑھنا افضل ہے )۔
{4} تین(3) مکروہ وقتوں( ) میں ، نفل نماز شروع کی تو واجب ہے کہ توڑ دے اور مکروہ وقت کے علاوہ(except for this time)، اس کی قضا پڑھے ۔
{5} شرعی اجازت کے بغیرنفل شروع کر کے توڑ دینا حرام ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۶۶۶ تا ۶۶۸، مسئلہ، ۳۳،۲۶،۲۹،۱۵)
{6} نفل نماز میں بھی بھول سے واجب چھوٹنے سے سجدۂ سہو واجب ہو جاتا ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص ۷۱۰، مسئلہ ۹،۲۸ مُلخصاً)
{7} نفل نمازوں کے مکروہ و قت:
(۱،۲،۳) تین (3)مکروہ وقت۔
(۴) فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر سورج نکلنے تک کا وقت کہ اس میں فجر کی دو(2)رکعت سنّت کے علاوہ
(other)کوئی نفل یا سنّت نماز جائز نہیں سنّتیں پڑھنے سے اگر فَجر کی جماعت نکل جانے کا ڈر ہو تو سنّتیں پڑھے بِغیر جماعت سے فرض پڑھےاور اب سلام پھیرنے کے بعد بھی سنّتیں پڑھنا جائز نہیں اسی طرح فرض سے پہلے سنّت فجر شروع کی مگر کسی وجہ سے ٹوٹ گئی تھی اور اب فرض کے بعد اس کی قضا پڑھنا چاہتا ہے، یہ بھی جائز نہیں۔(قضا نمازوں کا طریقہ ص۱۶) مگر مکروہ وقت کے بعد اسے دوبارہ پڑھے۔
(۵) اِقامت سے لے کر جماعت ختم ہونے تک نفل و سنّت پڑھنا مکروہ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے۔
(الف) اگر نماز فجر کی جماعت کھڑی ہو گئی اور جانتا ہے کہ سنّت پڑھونگا تب بھی جماعت مل جائے گی یا ا مام صاحب کے سلام پھیرنے سے پہلے صرف قعدہ میں مل جاؤنگا، تو حکم یہ ہے کہ جماعت سے الگ ہو(مثلاً سُترے وغیرہ کے ساتھ یا بالکل پیچھے)اور دو(2)رکعت سنّت فجر پڑھ کر جماعت میں شریک ہو جائے۔
(ب)ظہر کی سنّت قبلیہ(یعنی فرض سے پہلے پڑھے جانے والی سنّتیں)پڑھنے کی وجہ سے ، اگر جماعت کی ایک یا زیادہ رکعتیں نکل جانے کا ڈرہو تو، ان سنّتوں کو جماعت سے پہلے پڑھنے کی اجازت نہیں ۔جب جماعت میں کم وقت وہ جائے تو یہ سنّتیں نہ پڑھے بلکہ جماعت سے نماز پڑھے۔(جنوری 2023،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)
(ج)اگر مسجد میں سنّتِ غیرمؤ کدہ جیسے(فرض سے پہلے پڑھے جانے والی) عصر یا عشاء کی سنّتِ قبلیہ چار(4) رکعت سنّتیں پڑھ رہے ہوں اور وہاں پر عصر یا عشاء کی جماعت کھڑی ہوجائے تو عصر یا عشاء کی سنّتِ غیرمؤکدہ کی دو(2) رکعتیں پوری کرکے جماعت میں مل جائے جبکہ تیسری (3rd )رکعت کے لئے کھڑا نہ ہوا ہو کیونکہ سنّتِ غیر مؤکدہ نفل کے حکم میں ہیں اور نفل میں ہر دو(2) رکعتیں الگ سے نماز ہوتی ہے(یعنی چار(4) رکعت سنّتِ غیرمؤ کدہ، اصل میں دو(2) رکعت، جمع(+) دو(2) رکعت نفل نماز ہوتی ہے )۔ اگر تیسری (3rd ) رکعت کے لئے کھڑا ہوگیا تو پھر چار(4) رکعتیں پوری کرلے۔(صفر المظفر1442،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)
(۶) سورج ڈوبنے سے لے کرمغرب کے فرض ادا کرنے تک۔ کچھ عُلَمائے کِرام نے دو(2) رکعت نفل پڑھنے کی
اجازت دی ہے(لیکن ہمارے ہاں! عام طور پر اذان کے بعد فوراً جماعت کھڑی ہو جاتی ہے، لھذا نفل نہ پڑھے جائیں)۔
(۷) خطبۂ جمعہ سے جمعے کی فرض نماز ختم ہونے تک یعنی جس وقت امام صاحب اپنی جگہ سے جُمُعہ کے خطبے کے ليے کھڑےہوں اس وقت سے جُمُعہ کے فرض مکمل ہونے تک نماز نفل پڑھنا مکروہ ہے، یہاں تک کہ جمعہ کی سنّتیں بھی مکروہ ہیں جمعہ کی سنّتیں شروع کی تھیں کہ امام صاحب خطبے کے ليے اپنی جگہ سے اُٹھ گئے تو چاروں رکعتیں پوری کرلے۔
(۸) عین خطبہ کے وقت اگرچہ نکاح کا خطبہ ہو ہر نماز یہاں تک کہ قضا بھی ناجائز ہے، مگر صاحب ترتیب(کہ جس کی چھ(6) نمازیں قضاء نہیں ہوئی ہوں اور اگر چھ(6)یا زیادہ نمازیں چھوٹ گئیں ہوں تو اس نے ساری قضاء پڑھ لی ہوں، تو ایسا شخص)( ) جمعہ کے خطبے کے وقت قضا نماز پڑھ سکتا ہے۔
(۹) نماز عیدین سے پہلے نفل مکروہ ہے، چاہےگھر ميں پڑھے يا عید گاہ میں یا مسجد میں۔
(۱۰) نما زعیدین کے بعد بھی نفل مکروہ ہے، جب کہ عید گاہ یا مسجد میں پڑھے، گھرمیں پڑھنا مکروہ نہیں۔
(۱۱) مزد لفہ میں مغرب و عشاء کے درمیان یعنی حاجی نو(9) ذوالحجۃ میدانِ عرفات(جہاں پہاڑ”جبل رحمت‘‘ ہے اور سارے حاجی یہاں آتے ہیں اور حج کا اہم ترین فرض پورا کرتے ہیں) میں گزار کر مغرب کا وقت شروع ہونے کے بعدمزدلفہ چلے جاتے ہیں( اب رات دس (10)ذوالحجۃ کی ہو جاتی ہے، اس میں) دین و شریعت کے حکم کے مطابق عشاء کے وقت میں مغرب و عشا ایک کے بعد ایک فوراً پڑھتے ہیں،اُن حاجیوں کے لیے اِن (یعنی مغرب و عشاء)کے درمیان میں نفل و سنّت پڑھنا مکروہ ہے، بعدمیں مکروہ نہیں۔
ان وقتوں کے علاوہ (other) دیگر وقتوں اور صورتوں میں بھی نفل پڑھنا مکروہ ہونے کے مسائل ہیں، مثلاً
فرض کا وقت تنگ (short time)ہو تو ہر نماز مکروہ ہے۔ یہاں تک کہ سنّتِ فجر و ظہر بھی مکروہ ہے۔
جس بات سے دل بٹے(توجّہ(attention) ہٹے) اور اس سبب کو دور کرسکتا ہے تو اس سبب کو دور کیے بغیر ہر نماز مکروہ ہے مثلاً پاخانےیاپیشاب وغیرہ کی سخت کیفیت(situation) ہو تو نماز پڑھنا مکرو ہ ہے ۔ البتہ اگر نماز کا وقت نکل رہا ہو تو نمازپڑھ لے لیکن اس کے بعد اس نماز کو دوبارہ پڑھنا ہوگا( اِس وقت یہ نماز اس لیے پڑھی جائے گی تاکہ قضا کا گناہ نہ ہو اور بعد میں اس لیے دہرانی ہے کہ نماز میں جو کمی رہ گئی ہے، وہ دور ہوجائے)۔
یوہیں کھانا سامنے آگیا اور اس کو کھانے کی چاہت ہوتو ان وقتوں میں بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے(پہلے کھانا کھا لے پھر نماز پڑھے)۔ (ص ۴۵۵ مُلخصاً) (بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۴۵۵ تا ۴۵۷مُلخصاً) ( )
(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)