’’ دین کے مسائل ‘‘(part 02 D)

’’رمضان کا روزہ توڑنے پرکفّارہ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جس نے کسی رخصت (یعنی شریعت کی دی ہوئی اجازت) اور مرض کے بغير رمضان المبارک کا ايک(1) روزہ چھوڑا وہ ساری زندگی کے روزے رکھے تب بھی اس کی کمی پوری نہيں کر سکتا۔ (جامع الترمذی، الحدیث: ۷۲۳،ص۱۷۱۸)

واقعہ(incident): کیا کفّارہ، اس طرح بھی دیا جاتا ہے؟

بخاری شریف میں ہے،ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضِر ہوئے اور بتایا کہ مجھ پر رَمَضان شریف کے روزے کا کَفّارہ لازم ہوگیا،( فرمائیے !اب میں کیا کروں ؟) ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: غلام آزاد کرسکتے ہو؟عرض کی: نہیں ۔ فرمایا: کیا مُسلسل (continuous)دو(2) مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟عرض کی: نہیں ۔ فرمایا: ساٹھ(60) مِسکینوں کو کھانا کھلاسکتے ہو؟ عرض کی: یہ بھی نہیں کرسکتا۔ اتنے میں کسی نے کچھ کَھجوریں(dates) ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لیے تحفے میں بھیجیں۔ ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے وہ ساری کَھجوریں اُس صَحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو دے دیں اور فرمایا: انہیں خیرات(یعنی غریبوں میں صدقہ) کردو (تمہارا کفارہ اداہوجائے گا)۔ انہوں نے کچھ اس طرح عرض کی: اللّٰہ کریم کی قسم! مدینے پاک میں میرے گھروالے سب سے زیادہ غریب ہیں ۔ پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یہ سن کر مُسکرائے(یعنی ہنسے) یہاں تک کہ آپ کے برکت والے(blessed) دانت نظر آنے لگے اور فرمایا: اَطْعِمْہُ اَھْلَکَ یعنی اپنے گھر والوں کو ہی کھلا دو( تو تمھارا کفّارہ پوراہوجائے گا)۔(بُخاری ج۱ص۶۳۸حدیث۱۹۳۶ مُلَخَّصاً)
اللّٰہ کریم نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یہ طاقت دی ہے کہ جس کو چاہیں دین کے حکم میں آسانی دے دیں۔ صدقہ جو دوسرے غریبوں کو دینا تھا، وہ صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ خود کھا لیں اور اپنے گھر والوں کو کھلا دیں، اس سے کَفّارہ پوراہوجائے گا یعنی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُن کے کَفّارے کو انعام بنادیا، ورنہ کوئی شخص اپنا کَفّارہ یا اپنی زکوٰۃ خود نہیں کھاسکتا اور نہ ہی اپنے بیوی بَچّوں کو کھلاسکتا ہے۔ (مراٰۃ ج۳ص۱۶۱،۱۶۲ مع نزہۃ القاری ج۳ص۳۳۵ ملخّصاً )

رَمضان المبارک کے روزے کےکفّارے کی ایک صورت:

{1}رَمَضانُ الْمُبارَک میں کسی عاقل(یعنی جو پاگل نہ ہو)، بالغ(grown-up)، مقیم (یعنی جو شرعی مسافر نہ ہو)نے اس وقت کے فرض روزے (یعنی" ادا")کی نیّت سے روزہ رکھا اور شرعی اجازت کے بغیر جان بوجھ کر(deliberately) کوئی بھی چیز لذت (pleasure)کیلئے کھائی یا پی تَو روزہ ٹوٹ گیا اور اِس کی قضا اور کفّارہ دونوں لازِم ہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۹۱)

کفّارےکے لیے شرط (precondition):

{2} جس جگہ روزہ توڑنے سے کفارہ لازِم آتا ہے،اُس میں شرط (precondition) یہ ہے کہ رات ہی سے رَمَضانُ المُبَارَک کے روزےکی نیّت کی ہو،اگر دِن میں نیّت کی اور توڑدیا تو کفّارہ لازِم نہیں صرف قضا کافی(enough) ہے۔ (جَوْہَرہ ج ۱ ص ۱۸۰ )
{3}کفّارہ لازِم ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ روزہ توڑنے کے بعدکوئی ایسی بات نہ ہوئی ہو جس کی وجہ سے روزہ توڑنے کی اجازت ہوتی ہو، مثلاً روزہ توڑنے کے بعد اُسی دن میں ایسا بیمار ہوا جس میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہو جاتی ہے تو اب اُس روزے کا کفَّارہ نہیں۔ اور سفر شروع کر دیا تو کفّارہ باقی رہے گا کیونکہ سفر کرنا تو انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔(اَیضاً، ص۱۸۱،مُلخصاً)

جن صورتوں(cases) میں کفّارہ نہیں ہوتا، اُس کے لیے شرط (precondition):

{4} جن صورَتوں میں روزہ توڑنے پر کفّارہ لازِم نہیں ان میں شرط (precondition)ہے کہ ایک(1) بار ایسا ہوا ہو اور معصیت (یعنی نافرمانی مثلاً شرعی اجازت کے بغیر روزہ توڑنے) کاارادہ نہ کیا ہو ورنہ ان صورتوں (cases)میں بھی کفّارہ دینا ہوگا۔ (دُرِّمُختار ج ۳ ص ۴۴۰)

کفّارے کے مسائل:

{5} قے آئی یا بھول کرکھایا اور اِن سب صورَتو ں میں اِسے معلوم تھا کہ روزہ نہیں ٹوٹاپھربھی کھالیا تو کفَّارہ لازِم نہیں( مگر شرعی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے گناہ گار ہوگا اور ایک قضا روزہ رکھنا ہوگا)۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۳۱)
{6} کچے چاول، باجرہ(pearl )، مسور،مونگ(mung bean) کھائی تو کفارہ لازِم نہیں ، یہی حکم کچے (raw) جو(barley) کا ہے(کیونکہ عام طور پر یہ چیزیں کچّی نہیں کھائی جاتیں، مگر شرعی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے گناہ گار ہوگا اور ایک قضا روزہ رکھنا ہوگا) اور بھنے ہوئے(یعنی پکّے ہوئے) ہوں تو کفّارہ لازِم ہے(کیونکہ جو(barley) وغیرہ پکّے ہوئے ہوں تو کھائے جاتے ہیں)۔(بہار شریعت ج۱ص۹۹۳،عالمگیری ج۱ص۲۰۲)
{7} سحری کا نوالہ (bite)منہ میں تھا کہ فجر کا وَقت شروع اور سحری کا وقت ختم ہوگیا،یا بھول کر کھا رہے تھے ،نوالہ منہ میں تھا کہ یاد آگیا،پھر بھی نگل(یعنی کھا) لیا تو اِن دونوں صورَتوں(cases) میں کفارہ واجب ہے ۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۳، مُلخصاً)
{8} اگر ایک ہی رمضان کے دو(2) روزے توڑے اور ابھی پہلا روزہ توڑنے کا کَفَّارہ نہیں دیا تھا تو ایک ہی کَفَّارہ دونوں روزوں کیلئے کافی (enough)ہے۔ (جَوْہَرہ ج۱ص۱۸۲ مُلخصاً)
{9} اگر دو(2) روزے توڑے اور دونوں روزے الگ الگ رمضان کے تھے تو دونوں کیلئے دو(2) کفارے ہی دینے ہونگے چاہے ابھی تک پہلے روزے کا کَفَّارہ نہ دیا ہو۔ (جَوْہَرہ ج۱ص۱۸۲)(فیضانِ رمضان۱۴۱ تا ۱۳۹ مُلخصاً) یاد رہے کہ جتنے روزے شرعی اجازت کے بغیر توڑے،قضا کے ساتھ ساتھ سب سے توبہ کرنا ہوگی۔

آج کل روزے کا کفّارہ دینے کا طریقہ:

{1}( ۱)پے دَرْپے(یعنی ایک ساتھcontinuously) ساٹھ (60)روزے رکھے۔ (۲ )یاد رہے!اگرسن ہجری کے مہینے کی یکم (پہلی تاریخ) سے شروع کریں تو پورے دو(2)مہینے کے روزے رکھئے، ہو سکتا ہے کہ دونوں مہینے انتیس(29)، انتیس (29)کے ہوں تو اٹھاون( 58 )روزوں سے کفّارہ پوراہو جائے گا اور اگر پہلی(1st ) تاریخ کے بعد کسی دن سے روزے شروع کیے تو اب پورے ساٹھ( 60 ) دن روزے رکھنے ہوں گے۔ ( ۳)رَوزوں کی صورَت (case) میں (کفّارہ پورا کرنے میں) اگر ایک(1) دِن کا بھی روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ ساٹھ(60) روزے رکھنے ہوں گے،چاہے اُنسٹھ(59) روزے پہلےرکھ لیے تھے،چاہے بیماری وغیرہ کسی بھی وجہ سے روزہ چھوٹ گیا ہو۔(بہار شریعت ج ۱ ص ۹۹۴مُلَخصاً )

{2}( ۱)اگر یہ ممکن نہ ہو تو ساٹھ(60) مسکینوں کو پیٹ بھر کر دونوں وَقت کھانا کھلائے یہ ضروری ہے کہ جس کو ایک وقت کھلایا دوسرے وقت کا کھانا بھی اُسی کو کھلائے ۔

( ۲)یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ساٹھ (60) مسکینوں کو ایک(1) ایک(1) صدقۂ فطر (مَثَلاً 2کلو میں 80 گرام کم(یعنی1کلواور 920 گرام) گیہوں (wheat)یا اُس کی رقم (amount))کا مالک کر دیا جائے۔ ایک ہی مسکین کو ایک ساتھ ساٹھ (60) صدقۂ فطر نہیں دے سکتے۔ہاں! یہ کر سکتے ہیں کہ ایک ہی کو ساٹھ (60) دن تک ہر روز ایک(1) ایک(1) صدقۂ فطردے دیں ۔

( ۳)روزے میں بھی اُس جگہ کا اعتبار کیا جائے گا جہاںوہ رہتا ہے یعنی اگر کوئی شخص مدینے شریف میں رہتا ہے اوراپنے روزوں کا کَفّارہ پاکستان میں دینا چاہتا ہے تو (چاہے وہ صَدَقۂ فِطْر کی ادائیگی بیرونِ مُلک کرنسی میں کرے یا بیرونِ مُلک کرنسی کے اعتبار سے پاکستانی کرنسی میں) مدینے شریف کے صَدَقۂ فِطْر کی رقم کے حساب سے دیا جائے گا۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۳۵،مُلخصاً)

روزے کے فدیے کے کچھ مسئلے :

{4}(۱)کوئی شخص رمضا ن شریف کے روزے نہیں رکھ سکتا تو اُسے ہر صورت (case) میں فدیہ دینے کا حکم نہیں ہے (۲)اگر وہ( کمزور شخص) قضا روزے گرمیوں میں نہیں رکھ سکتا(اور رمضان شریف گرمیوں میں تشریف لایا ہو) توگرمیوں کے بجائے سردیوں میں روزہ رکھے ،اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ مسلسل (constantly) روزے رکھے بلکہ چھوڑ چھوڑ کر بھی رکھ سکتا ہے مگرجتنے روزے قضا ہوئے ان کی تعداد (گنتی)پوری کرے اور (۳) اگر وہ سردیوں میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتے تو انتظار(wait) کرے، یہاں تک کے بالکل بوڑھا ہو جائے یعنی اب وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتا، نہ ابھی رکھ سکتا ہے، نہ سردی میں رکھ سکتا ہے نہ آئندہ(next time)روزہ رکھنے کی طاقت نظر آرہی ہے، تو یہ شخص ”شیخ فانی“ ہے ( رمضان المبارک 1440،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً) ۔یاد رہے کہ اگر کسی شخص میں اتنی طاقت ہو کہ وہ دس (۱۰)سے بارہ (۱۲)دن میں ایک روزہ رکھ سکتا ہو تو وہ ایک سال میں تیس (۳۰) روزے رکھ سکتا ہے لھذا اب بھی وہ ”شیخ فانی“ نہیں ہے، اُسے روزے ہی رکھنے ہونگے جس شخص کو ہفتے میں ایک دن روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اُس کے لیے آسانی ہے کہ ہفتے میں کسی ایک دن (مثلاً چھٹی والے دن، اتوار کو یا کام کاج نہیں کرتا تو پیر شریف کو رمضان شریف کا قضا روزہ رکھ لیا کرے اور اپنی کاپی پر نوٹ بھی کرتا رہے تو ہر ماہ دو سے تین روزے رکھنے والا بھی ایک سال میں تیس(30) روزے رکھ لے گا۔ جن پر قضا روزے ہوں انہیں بھی اسی طرح اپنے روزوں کا حساب رکھنا چاہیے مگر انہیں جلد از جلد(جلدی جلدی) اپنے قضا روزے پورے کرنے ہونگے۔

{5} ”شیخ فانی“کے لئے حکم یہ ہے کہ ایک روزے کے بدلے میں فدیہ دے یعنی دو(۲) وقت ایک مسکین کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائے یا ایک ”صدقہ فطر“ مسکین کو دے۔ ”صدقہ فطر“ کی ایک صورت(case) دو (۲)کلو سے 80گرام کم گندم (یعنی ایک کلو، 920 گرام،wheat) یا اس کا آٹا یا اس کی رقم مسکین کو دیناہے۔لیکن یاد رہے کہ اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ اب روزہ رکھ سکتا ہے تو یہ فدیہ ، نفلی صدقہ ہو جائے گا اور اس (”شیخ فانی“)کے لئے ان روزوں کی قضا کرنی ہو گی۔(ماخوذ از درمختار،3/463، ردالمحتار،3/471، بہارِ شریعت، 2/1006)

{6}اگر کوئی شخص بڑھاپے کے علاوہ (other)کسی بیماری کے سبب یا کسی اَورصحیح وجہ سے روزے نہیں رکھ پاتا تو فِدیہ دینے کی اجازت نہیں بلکہ تندُرُست ہونے یا اُس صحیح وجہ کے ختم ہونے کا انتظار کرے اور تندُرُست ہوجانے پر اُن روزوں کی قضا کرے اور اگر بیماری سے صِحَّت یاب ہونے کی اُمید ہی نہیں بلکہ یقین ہوچلا ہے کہ اب مَوت ہی آجائے گی تو ایسی صورت(case) میں اُن روزوں کے فدیوں کو دینے کی وصیّت کرے(یعنی لوگوں(مثلاً اپنے بیٹوں) کو کہہ دے کے میرے انتقال کے بعد میرے مال میں سے اتنے روزوں کے فدیے کی رقم دے دی جائے)۔( رمضان المبارک 1440، ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

عورتوں کے مسائل:

{1} کفّارہ لازِم ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ روزہ توڑنے کے بعدکوئی ایسی بات نہ ہوئی ہو جس کی وجہ سے روزہ توڑنے کی اجازت ہوتی ہو، مثلاً روزہ توڑنے کے بعد عورت کو اُسی دن میں حیض (menstruation) یانفاس (postpartum bleeding)آگیا تو اب اُس روزے کا کفَّارہ نہیں۔(اَیضاً ص۱۸۱مُلخصاً)

{2} حیض کے دن بخار(fever) آنے کی عادت تھی اور آج حیض آنےکا دِن بھی تھالہٰذا یہ خیال کیاکہ بخار آئے گا اورروزہ جان بوجھ کر(deliberately) توڑ دیا تو اِس صورت (case) میں کفّارہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح عورت کو خاص تاریخ (specific date) پر حیض آتا تھا اور آج حیض آنے کا دِن تھا اُس نے جان بوجھ کر (deliberately) روزہ توڑدیا اور حیض نہ آیا تب بھی کفّارہ نہیں ہوگا(مگر اس روزے کی قضا فرض ہے)۔ (دُرِّ مُختار، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۴۸ مُلخصاً)

{3} اگر عورت نے رَمضان کا روزہ توڑدیا اور کفّارے میں روزے رکھ رہی تھی اور حیض آگیا تو شروع سے دوبارہ روزے رکھنے کا حکم نہیں بلکہ جتنے باقی ہیں(حیض کے فوراً بعد) اُن دنوں کا روزہ رکھ لے۔ (بہارِ شریعت ج۲ص۲۱۴ مُلخصاً)

’’نفل روزوں کے مسائل‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

اگر کسی نے ایک دن کا نفل روزہ رکھا تو اُسے زمین بھر سونا دیا جائے، جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا۔ اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔ (مسند أبي یعلی، مسند أبي ہریرۃ، الحدیث: ۶۱۰۴، ج۵، ص۳۵۳)

واقعہ(incident): روزے دار کی سانسں اورشیطان

ایک نیک شخص مسجد کی طرف جا رہا تھا، اس نے مسجد میں دو(2)آدمی دیکھے جن میں سے ایک(1) نما ز پڑھ رہاتھا اوردوسرا (2nd )مسجد کے دروازے پر سویا ہوا تھا جبکہ شیطان باہرپریشان کھڑا تھا۔ اس نیک شخص نے شیطان سے پوچھا: میں تجھے حیران(surprised) کیوں دیکھ رہا ہوں؟ شیطان بولا: اس مسجد میں ایک (1)شخص نماز پڑھ رہا ہے جب بھی میں اس کے پاس نماز میں وسوسے ڈالنے کے لئے مسجد میں جانے کی کوشش کرتاہوں تومسجد کے دروازے پر سونے والےشخص (جس کا روزہ ہے)کا سانس(breath) مجھے مسجد میں جانے سے روک دیتا ہے(یعنی مجھے روزہ رکھنے والے کے سانس سے تکلیف ہوتی ہے)۔(حکایتیں اور نصیحتیں ص ۸۵)

نفل روزوں کے مسائل:

{1}ماں باپ اگر بیٹے کو نفل روزے سے اِس لئے منع کریں کہ بیمار ہوجانے کا ڈر(fear)ہے(یعنی مضبوط خیال (strong assumption) ہے) تو والدین کی اطاعت کرے(یعنی روزہ نہ رکھے)۔ (رَدُّالْمُحتارج۳ص۴۷۸)

{2}شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۷۷)

{3}نفل روزہ باقاعدہ نیّت کر کے رکھا تو اب اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے اگر توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔ (ایضاًص۴۷۳)

{4}نفل روزہ بغیر شرعی اجازت کے توڑنا ،ناجائز ہے ۔مہمان(guest) کے ساتھ اگر میزبان (host)نہ کھائے گا تو مہمان کو بُرا لگےگا۔ یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کوتکلیف ہوگی تو اس وجہ سے نفل روزہ توڑ سکتے ہیں مگر اس صورت (case) میں بھی روزہ توڑنے کے لیے شرط (precondition) ہے کہ یہ یقین ہو کہ اس روزےکی قضا رکھ لےگااور یہ بھی شرط (precondition)ہے کہ ضَحْوۂِ کُبْر یٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں(ضَحْوۂِ کُبْر یٰ کا وقت نمازcalender یا prayer time dawateislami کی app سے دیکھا جاسکتا ہے)۔(دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحْتار ج ۳ ص۴۷۵-۴۷۶)

{5}والدین کی ناراضی کی وجہ سے عصر سے پہلے تک نفل روزہ توڑ سکتا ہے، عصر کے بعد نہیں توڑ سکتے ۔(ایضاًص۴۷۷)

{6}اگر کسی نے دعوت کی تو ضَحْوۂِ کُبریٰ سے پہلے نفل روزہ توڑسکتا ہے مگر اس کی قضا واجب ہے۔ (دُرِّمُختار ج۳، ص۴۷۷،۴۷۳)

{7}اِس طرح نیّت کی کہ ’’ کہیں دعوت ہوئی تو روزہ نہیں ہےاور اگر کہیں دعوت نہ ہو تو میرا روزہ ہے ۔ ‘‘ یہ نیّت صحیح نہیں ، اس طرح نیّت کرنے والے کاروزہ نہیں ہوگا ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۹۵)

{8}ملازِم (employee)یا مزدور(laborer) اگرنفل روزہ رکھیں توکام پورا نہیں کرسکتے تو جس نے ملازَمت یا مزدوری پر رکھا ہے،اُس کی اجازت ضروری ہے۔اور اگر کام پورا کرسکتے ہیں تواجازت کی ضرورت نہیں ۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص ۴۷۸)ہاں! وقفی ادارے(مثلاً مسجد، مدرسے) میں ملازِم (employee) ہے اور نفل روزہ رکھنے سے کام (مثلاً بچوں کو پڑھانے) میں کمی آتی ہے تو اب انتظامیہ(administration) کی اجازت کے ساتھ بھی نفلی روزہ نہیں رکھ سکتے۔

{9}طالبِ علمِ دین اگر نفل روزہ رکھتا ہے تو کمزور ہو جاتا ہے، نیند چڑھتی اور سستی(laziness) کی وجہ سےعلمِ دین حاصل کرنے میں کمی ہوتی ہے تو افضل(اور بہتر) یہ ہےکہ نفل روزہ نہ رکھے۔

{10} ان پانچ(۵) دنوں (۱) شوال کی پہلی(یعنی چھوٹی عید ) اور(۵،۴،۳،۲) ذِی الحجہ(یعنی بڑی عید) کی دسویں سے تیرھویں (10,11,12,13) کو روزہ رکھنا حرام ہے

{11}عاشورے کا روزہ جب بھی رکھیں تو ساتھ ہی نو(9) یا گیارہ(11)مُحرَّم کا روزہ بھی رکھ لینا بہتر ہے (فیضانِ رمضان ص ۳۲۲) ۔فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:عاشورا کے دن کا روزہ رکھو اور اِس میں یہودیوں کی مخالفت(oppose) کرو، اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک(1) دن کا روزہ رکھو۔ (مُسْنَد اِمَام اَحْمَد ج۱ص۵۱۸ حدیث۲۱۵۴)

{12} جس طرح عاشوراکے روزے کے پہلے یا بعد میں ایک روزہ رکھنا ہے اِسی طرح جُمُعہ میں بھی کرنا ہے ، کیوں کہ خاص طور پر(especially) جُمُعہ یا صِرف ہفتے کا روزہ رکھنا مکروہِ تَنزِیہی (یعنی ناپسندید ہ )ہے۔ہاں! اگر کسی خاص تاریخ(special date) کو جُمُعہ یا ہفتہ آگیا تو صرف جُمُعہ یا ہفتے کا روزہ رکھنا مکروہ نہیں ۔مَثَلاً 15شَعبا نُ الْمُعظَّم،27 رَجَبُ الْمُرجَّب وغیرہ(جمعے کے دن آئی تو صرف جمعے کا روزہ رکھ لینا،صحیح ہے)۔(فیضانِ رمضان۳۶۵ مُلخصاً)

{13} ہمیشہ روزہ رکھنا:

( ۱)جنہیں مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے اس بات کا مضبوط خیال (strong assumption) ہو کہ اتنے کمزور (weak)ہوجائیں گے کہ جو حقوق (rights) ان پر واجب ہیں اُن کو پورا نہیں کر سکیں گے چاہے وہ حقوق (rights) دینی ہوں یا دُنْیوی، مَثَلاً نماز پڑھنے، بَچّوں کے لیے کھانے، پینے اور ضروری سامان کے لیے کمانے (earn کرنے)کی طاقت کم ہو جائے گی تو اس طرح کے روزوں کا کوئی ثواب نہیں ملے گا۔

(۲ ) اگرروزہ رکھنے والے کو مضبوط خیال ہو کہ اسلام نے جو حقوق(rights) مجھ پر واجب کیے ہیں ، وہ تو پورے کر لونگا مگر دوسرے (مثلاً اخلاقی )حقو ق پورےکرنے کی طاقت نہیں رہے گی، تو ایسے کے لیے نفل روزہ رکھنا مکروہ یا خلافِ اَولیٰ(یعنی ناپسندیدہ) ہے۔

( ۳) جسے اس بات کا مضبوط خیال ہو کہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ فرض، واجب، سنّت اور مُستحب وغیرہ کام بھی کر لے گا تو اُس کے لیے(اُن پانچ (۵)دنوں جن میں روزہ رکھنا جائز نہیں ، (۱) شوال کی پہلی(یعنی چھوٹی عید ) اور(۵،۴،۳،۲) ذِی الحجہ(یعنی بڑی عید) کی دسویں سے تیرھویں (10,11,12,13) تاریخ کے علاوہ۔other) پورے سال روزہ رکھنا مکروہ نہیں ۔ (نزہۃ القاری ج۳ص۳۸۶ مُلَخّصاً)

{14} عورتوں کا مسئلہ:

نفل روزہ جان بوجھ کر(deliberately) نہیں توڑا بلکہ خود ٹوٹ گیا مَثَلاً عورت کوروزے کے دَوران حیض (menstruation) آگیا تو روزہ ٹوٹ گیا مگر قضا واجب ہے۔ (ایضاًص۴۷۴)(فیضانِ رمضان۳۶۸ تا ۳۷۰ مُلخصاً)

’’منّت اور روزے‘‘

حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ:

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خطبہ دےرہے(یعنی بیان فرما رہے)تھے اور ایک آدمی کھڑا تھا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس کے بارے میں پوچھا تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نے بتایا یہ ابو اسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے(یعنی اس نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے) کہ دھوپ میں کھڑا رہے گا، بیٹھے گا نہیں ، سائے(shade) میں بھی نہ جائے گا اور نہ ہی کسی سے بات کرے گا اور (ہمیشہ) روزہ رکھے گا۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اس سے کہو!بات کرے، سائے سے فائدہ اُٹھائے، بیٹھے اور اپنا روزہ پوراکرے۔ (بخاری،كتاب الايمان والنذور،۴‏ / ۳۰۳ ،حدیث: ۶۷۰۴ بتغیر)

یاد رہے!اللہ کریم کا ذکر چھوڑ دینا عبادت نہیں ۔اسی طرح دھوپ میں بیٹھنا اورہر وہ کام جس سے انسان کو تکلیف ہو اور قرآن و حدیث میں اس پر ثواب نہ ہو تو وہ عبادت نہیں(اسی طرح دس(10) بیبیوں کی کہانیاں، فاطمہ بی بی جیسی جھوٹی کہانی سنانا ، کوئی ثواب نہیں) ۔عبادت تو وہی عمل ہے جس کا اللہ کریم اور اس کےرسو ل صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حکم دیا ہے۔(عمدۃ القاری،۱۵‏ / ۷۴۶ ،تحت الحدیث: ۶۷۰۴)

واقعہ(incident): اپنے اوپرتین(3) روزے لازم کر لیے

امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ جب چھوٹے تھے تو ایک مرتبہ بیمار ہو گئے۔ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ، حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اور حضرت فضہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا (جو کہ خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی خادمہ ( maid) تھیں) نے دونوں شہزادوں کی صحت مندی (health)کے لئے تین(3) روزوں کی منّت مانی(یعنی اللہ کریم کے لیے اپنے اوپر لازم کر لیا کہ تین(3) روزے رکھیں گے )۔ اللہ کریم نے دونوں شہزادوں کو شفا (healing)دے دی تو وہ ٹھیک ہوگئے۔ اب ان تینوں (حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ، حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اور حضرت فضہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا)نےنذر کے روزے رکھنے کی تیاری کی تو حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کسی سے اتنے جو(barley) ادھار میں لے آئے جو تین(3) دن افطار کے کھانے کے لیے ہوں۔ اس جو(barley) کے تین(3) حصّوں میں سےایک (1)ایک(1) حصّہ تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور تینوں کے سامنے روٹیاں رکھی گئیں تو ایک دن مسکین(indigent person) ، ایک دن یتیم(orphan)، ایک دن قیدی (prisoner)دروازے پر آگئے اور کھانا مانگا تو تینوں دن سب روٹیاں ، آنے والے کو دے دی گئیں اور صرف پانی سے روزہ افطار کر کے دوسرے دن(other day) کا روزہ رکھ لیا گیا۔

شرعی منّت:

اپنے اوپر کوئی ایسی چیز لازم کر لینا کہ شرعاً اس کا پورا کرنا واجب(اور لازم) ہوتا ہے، اس کے لیے کچھ شرطیں (preconditions)ہیں:

{1}ایسی چیز کی منّت ہو کہ اس کی جنس (یعنی قسم۔type)سے کوئی واجب ہو(جیسے نماز کہ کچھ نمازیں فرض ہیں،کچھ واجب لھذا) بیمار کی عیادت(visit) اور مسجد میں جانے اور جنازہ (funeral)کے ساتھ جانے کی منّت نہیں ہو سکتی۔

{2} (عبادتیں دو طرح کی ہیں(۱) ایک وہ کہ بندہ، اسے ادا کرتا ہے جیسے نماز، روزہ، حج(۲)دوسری وہ کہ بندہ کسی اور عبادت کو کرنے کے لیے،اس عبادت کو ذریعہ یا وسیلہ بناتا ہے جیسے نماز کے لیے غسل یا وضو کرنا۔تو منّت کے لیے پہلی قسم کی عبادت ضروری ہے یعنی )وہ عبادت جو بالذّات مقصود ہو کسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ نہ ہو، لہٰذا وضو و غسل اور قرآنِ پاک کو دیکھنے کی منّت صحیح نہیں۔

{3} اس چیز کی منّت نہ ہو جو دین و شریعت نے خو د اس پر واجب کی ہو، مثلاً آج کی ظہر یا کسی فرض نماز کی منّت صحیح نہیں کہ یہ تو پہلے ہی سےلازم ہیں۔

{4} جس چیز کی منّت مانی ہو وہ کوئی گناہ کی بات نہ ہو (مثلاً مَعَاذَاللہ! (یعنی اللہ کریم ہمیں اس سے بچائے) بچّے کو فقیر بنانے کی منّت ماننا کہ یہ جائز نہیں ہے) اور اگر کسی اور وجہ سے گناہ ہو تو منّت صحیح ہو جائے گی، مثلاً عید کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، اگرعید کے دن روزہ رکھنے کی منّت مانی تو روزے کی منّت ہو جائے گی یعنی روزہ رکھنے کی منّت توصحیح ہے مگر اس دن روزہ نہیں رکھ سکتےبلکہ کسی اور دن روزہ رکھنا ہوگا۔

{5} ایسی چیز کی منّت نہ ہو جس کا کرنا محال ( یعنی عادۃً (as per practice)نہ ہو سکتا) ہو ، مثلاً یہ منّت مانی کہ کل جو گزر گئی ہے،اُس میں روزہ رکھوں گا یہ منّت صحیح نہیں۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۵،ص ۱۰۱۵ مُلخصاً)

{6} منّت کے اَلفاظ زَبان سے پورےکرنا شرط (precondition) ہے،صرف دل ہی دل میں منّت کی نیَت کرلینے سے منّت صحیح نہیں ہوتی(اور ایسی منّت کاپوراکرناواجب بھی نہیں ہوتا) ۔ ( رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۴۹۵ مُلَخَّصاً )

منّت کی دو قسم ہے:
(۱) مُعَلَّق
(۲) غیرِ مُعَلَّق

{1} مُعَلَّق:

ایسی منّت کہ جس میں اپنا کام پورا ہونے پر اﷲ کریم کے لیے اپنے اوپر کچھ لازم کیا جائے۔مثلاً میرافلاں کام ہو جائے گا یا فلاں شخص سفر سے آجائے تو مجھ پر اﷲ کریم کے لیے اتنے روزے یا نماز یا صدقہ وغیرہا ہے۔

مُعَلَّق کی دوصورتیں(cases) ہیں:

(۱) اگر ایسے کام کے پورے ہونے پر منّت مانی کہ اس کام کے پورےہونے کی خواہش (desire)ہے مثلاً اگر میرا بیمار بیٹا صحیح ہوجائے یا دوسرے ملک سے واپس آجائے یا میری نوکری لگ جائےتو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنے پیسے خیرات(یعنی صدقہ) کروں گا ۔اب اس صورت(case) میں جس بات کی منّت مانی تھی ، وہ پوری ہوگئی مثلاً بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکا واپس آگیا یا نوکری لگ گئی تو اُتنے روزے رکھنا یا خیرات کرناہی ضرور ی ہے ،یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام نہ کرے (مثلاً روزے کی منّت تھی تو روزے نہ رکھے)اور اس کےبدلے میں کفّارہ دیدے۔
اس طرح کی منّت میں شرط (precondition)پائی جانے سے پہلے منّت پوری نہیں کر سکتا، اگر پہلے ہی روزے رکھ لیے بعد میں شرط (precondition)پائی گئی تو اب روزے دوبارہ رکھنا واجب ہوگا، پہلے کے روزوں سے منّت پوری نہیں ہوگی ۔
(۲) اگر ایسے کام کے پورے ہونے پر منّت مانی کہ اس کام کے پورے ہونے کی خواہش(desire) نہیں ہے مثلاً اگر میں تم سے بات کروں یا تمھارے گھرآؤں تو مجھ پر اتنے روزے ہیں اوراس بات کرنے میں یہ ارادہ (intention) ہے کہ میں تمھارے گھر نہیں آؤں گا یا تم سے بات نہیں کروں گا ایسی صورت (case)میں جس بات کی منّت مانی تھی ، وہ پوری ہوگئی مثلاً اُس کے گھر چلا گیا یا اُس سے بات کر لی تو اب اس پر دو (2) چیزوں میں سے ایک (1) بات لازم ہے۔(پہلی) جتنے روزے کی منّت مانی تھی وہ رکھ لے یا(دوسرا یہ کہ)کفّارہ دے دے۔ (درمختار) یہاں کفّارے سے مراد وہی کفّارہ ہے جو قسم توڑنے میں ہوتا ہے۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۹،ص ۳۱۴ ،مُلخصاً) آج کل قسم کا کفّارہ دس(10) مسکینوں کو کھانا کھلانا یا اُن کو کپڑے پہنانا(یعنی پہننے کے کپڑوں کا مالک بنانا،انہیں دے دینا) ہے۔ ان دونوں باتوں میں سے جو چاہے کرے۔(بہارِ شریعت ج۲،ح۹،ص ۳۰۵ ماخوذاً وغیرہ)
کسی سے ناراض ہوئے تو اُس سے بات نہ کرنے کی منّت مان لینا یا قسم کھا لینا، بہت ہی بُری عادت ہے۔ اگر کسی غلط بات یا گناہ(مثلاً محرم یارشتہ دار سے تعلق اور رابطہ ختم کرنے) پر قسم کھا لی تو توبہ کرے، قسم توڑ دے اور قسم توڑنے کا کفّارہ دے دے۔فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏ جو شخص قسم کھائے اور دوسری چیز کواُس سے بہتر پائے توقسم کا کفّارہ دیدے اور وہ کام کرلے۔( صحیح مسلم،کتاب الأیمان، الحدیث: ۱۱۔(۱۶۵۰)، ص ۸۹۷)

{2} غیر مُعَلَّق:

وہ منّت کہ جو کسی چیز کے ہونے یا نہ ہونے پر نہ مانی گئی ہو بلکہ اﷲ کریم کے لیے کسی چیز (مثلاًاتنے روزے یا نماز یا صدقہ وغیرہا) کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہو اور اس چیز میں منّت کی ساری شرطیں( preconditions) جو اوپر بتائی گئی)بھی پائی جائیں۔

اگر کام ہونے یا نہ ہونے کی بات نہ بولی ہو تو اُس منّت کا پورا کرنا ضروری ہے، ( مثلاً)حج یا عمرہ یا روزہ یا نماز یاخیرات (یعنی صدقہ)یا اعتکاف جس کی منّت مانی ہو تو وہ ہی کرے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۹،ص ۳۱۴ ،مسئلہ۳،مُلخصاً)

یہ منّت مانی کہ جمعہ کے دن اتنے روپے فلاں فقیر کو خیرات (یعنی صدقہ کر)دوں گا اور جمعرات ہی کو خیرات کردیے یا اُس کے علاوہ (other)کسی دوسرے فقیر کو دیدیے تب بھی منّت پوری ہوگئی یعنی خاص (specifically) اُسی فقیر کو دینا ضرور ی نہیں ہے، اسی طرح جمعے ہی کو دینا بھی ضروری نہیں۔

اگر مکّہ شریف یامدینہ شریف کے فقیروں پر خیرات(یعنی صدقہ ) کرنے کی منّت مانی تو وہیں کے فقیروں کو دینا ضروری نہیں بلکہ کسی اور جگہ بھی خیرات کردینے سے منّت پوری ہوجائے گی۔اسی طرح اگرمنّت میں کہا کہ یہ روپے (جو میرے ہاتھ میں ہیں، یہ) فقیروں پر صدقہ کروں گا تو خاص(specifically) انھیں نوٹوں کو خیرات کرنا ضروری نہیں بلکہ اتنی رقم(amount) کے دوسرے نوٹ دینے سے بھی منّت پوری ہو جائےگی۔ (بہارِ شریعت ج۱، ح۹، ص ۳۱۶ ، مسئلہ۱۱، مُلخصاً)

روزے کی منّت:

{1} ایک(1) دن کے روزے کی منّت مانی ہو یا دو(2)د ن کے روزے کی یا تین (3)دن کے روزوں کی تو مرضی ہے کہ اَیّامِ مَنْہِیّہ(یعنی سال کے جن پانچ (۵)دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے: (۱) شوال کی پہلی(یعنی چھوٹی عید ) اور(۵،۴،۳،۲) ذِی الحجہ(یعنی بڑی عید) کی دسویں سے تیرھویں (10,11,12,13) تاریخ) کے علاوہ (other) جس دن چاہے روزہ رکھ لے۔

{2}ایک مہینے(one month) کے روزے کی منّت مانی تو پورے تیس (30) دن کے روزے رکھنا واجب ہیں، چاہے جس(اسلامی) مہینے میں رکھے وہ انتیس(29) دن کا ہوا ہو۔

{3}اس (سال)رجب (مہینے)کے روزہ کی منّت مانی اور رجب میں بیمار ہوگیا تو دوسرے دنوں میں ان کی قضا رکھے اور قضا میں مرضی ہے کہ ایک ساتھ روزے رکھےیا بیچ میں ناغہ (break)کرے۔

{4} مستقل(permanent) روزے کی منّت مانی (مثلاً رجب کے مہینے میں ایک ساتھ چار(4) روزے رکھونگا)تو ناغہ(break)کرنا جائز نہیں اور الگ الگ روزوں کی منّت مانی(مثلاً رجب شریف میں ناغے(gape) کر کے چار(4) روزے رکھوں گا) تو یہ روزےلگاتار (continuously) رکھنا بھی جائز ہیں ۔

{5} آدھے دن کے روزے کی منّت مانی تو یہ منّت صحیح نہیں۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۵،ص۱۰۱۵، مسئلہ ۱،۷،۸،۱۱،۱۷)

{6} منّت یا قسم میں اِنْ شَاءَﷲ !اس طرح کہا کہ وہ قسم کے جملے سے بالکل ملا ہوا ہو(مثلاً اِنْ شَاءَﷲ !مجھ پر کل کے دن کا روزہ رکھنا لازم ہے) تو اُس منّت یا قسم کا پورا کرنا واجب نہیں اور اگر فاصلہ(break)ہوگیا مثلاً قسم کھا کر چُپ ہوگیا یا قسم کھا کر کچھ اور بات کی پھر اِنْ شَاءَﷲ !کہا تو قسم ہوگئی(یعنی اب اسے پورا کرنا لازم ہے)۔ (بہارَ شریعت ،ج۲،ح۹،ص۳۱۸، مسئلہ۲۱،مُلخصاً)

{7} منّت میں اگر کسی چیز کوطے(fixed)نہیں کیا مثلاً کہا اگر میرا یہ کام ہوجائے تو مجھ پر منّت ہے یہ نہیں کہا کہ نماز یا روزہ یاحج وغیرہا تو اگر دل میں کسی چیز کو طے(fixed) کیا تھا تو جو نیّت کی تھی وہ کام کرے اوراگر دل میں بھی کچھ طے(fixed) نہ کیا تو کفّارہ دے۔یاد رہے!جہاں کفّارہ کہا جائیگا اُس سے وہی کفّارہ مراد ہے جو قسم توڑنے میں ہوتا ہے۔(ص۳۱۵، مسئلہ۴،مُلخصاً)

{8} منّت مانی اور زبان سے منّت کو طے نہ کیا مگر دل میں روزہ رکھنےکا ارادہ (intention)ہے تو جتنے روزوں کا ارادہ ہے اُتنے رکھ لے، اور اگر روزہ کا ارادہ ہے مگر یہ طے (fixed) نہیں کیا کہ کتنے روزے رکھنے ہیں تو تین(3) روزے رکھے۔ اور اگرصدقہ کی نیّت کی اور کچھ طے نہیں کیا تو دس(10) مسکین کو صدقۂ فطر (مَثَلاً 2کلو میں 80 گرام کم(یعنی1کلواور 920 گرام) گیہوں (wheat)یا اُس کی رقم (amount)) دے دے۔ یوہیں اگر فقیروں کے کھلانے کی منّت مانی تو جتنے فقیر کھلانے کی نیّت تھی اُتنوں کو کھلائے اور تعداد(numbers) اُس وقت دل میں بھی نہ ہو تو دس(10) فقیر وں کو کھلائے اور دونوں وقت کھلانے کی نیّت تھی تو دونوں وقت کھانا کھلائے اور ایک وقت کی نیّت تھی تو ایک وقت کھانا کھلائےاور کچھ نیّت نہ ہو تو دونوں وقت کھلائے یا صدقۂ فطر کی رقم اُن کو دے دے اور فقیر(یعنی ایک)کو کھلانے کی منّت مانی تو ایک (1)فقیر ہی کو کھلائے یا صدقۂ فطر کی رقم اُس کو دے دے ۔ (مسئلہ۵،مُلخصاً)

{9} منّت صحیح ہونے کے لیے یہ ضرور ی نہیں ہے کہ زبان سے جو بولا، اُس کا دل میں بھی ارادہ(intention) ہو۔ اگر کہنا کچھ اور چاہتا تھا مگر زبان سے منّت کے الفاظ نکل گئے تب بھی منّت صحیح ہوگئی ،مثلاً کہنا یہ چاہتا تھا کہ اﷲ کریم کے لیے مجھ پر ایک دن کاروزہ رکھنا ہے اور زبان سے ایک مہینا (one month)نکل گیا تو اب تیس دن (30)کے روزے رکھنا واجب ہیں ۔ (ج۱،ح۵،ص۱۰۵۱،۱۰۱۷، مسئلہ۱،۶مُلخصاً)

عورتوں کا مسئلہ:

{11}اگرعورت نے ایک مہینے کے مُسلسل روزے رکھنے کی منّت مانی اور مہینا پورا ہونے سے پہلے اُسے حیض (menstruation) آگیا تو حیض سے پہلے جتنے روزے رکھ چکی تھی ، وہ ہوگئے۔اب جو باقی رہ گئے، انھیں حیض ختم ہونے کے فوراً بعد کسی دن کاناغہ (break)کیے بغیر رکھ لے۔(ج۱،ح۵،ص۱۰۱۷، مسئلہ۶مُلخصاً)

’’چاند دیکھنااوراعتکاف کی قسمیں‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار کرو (یعنی عید مناؤ)اور اگر چاند چھپا ہوا ہو تو(رمضان شریف سے پہلے کے مہینے) شعبان کی گنتی(countingیعنی)تیس (30دن ) پوری کرلو۔(صحیح البخاري، کتاب الصوم، الحدیث: ۱۹۰۹، ج۱، ص۶۳۰)

واقعہ(incident): چاند دیکھ کر روزہ رکھو

ایک نیک آدمی کہتےہیں کہ :میں حضرت شعبیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ چل رہا تھاکہ ایک شخص نے اِن سے کہا: اے ابوعَمْرو!آپ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو رمضان سے ایک(1) دن پہلے اور ایک(1) دن بعد روزہ رکھتے ہیں؟آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پوچھا: وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟اُس نے عرض کی: اِس لئے کہ ان کا رمضان کاکوئی روزہ نہ رہ جائے۔آپ نے فرمایا:بنی اسرائیل(حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم) اسی وجہ سے تباہ(destroy) ہوئی تھی کہ وہ لوگ چاہتے تھے ہمارے روزوں میں کمی نہ ہو اور احتیاط(caution) کی وجہ سے مہینے سے ایک(1) دن پہلے اور ایک(1) دن بعد روزہ رکھتے تھے یوں ان کے بتیس(32 ) روزے ہو جاتے تھے (اصل میں یہ احتیاط نہیں تھی، شیطان کے وسوسے(whispers) پر عمل کرتے تھے کیونکہ جب دین کا حکم مکمل طور پر پتا ہے اور اس پر مکمل عمل ہوگیا تو وہ کافی (enough)ہے)۔ان لوگوں کے مرنے کے بعد آنے والوں نےمہینے سے پہلے دو(2) اور بعد میں دو (2) روزے رکھنا شروع کر دیئے اور اس طرح چونتیس(34) روزے ہو جاتے تھے ۔یہاں تک کہ بعد والے پچاس(50) روزوں تک پہنچ گئے۔ پھر حضرت شعبیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: تم لوگ چاند دیکھ کر روزے شروع کرو اور چاند دیکھ کر ختم کر دو۔(حلیۃ الاولیاء ج۴،ص۳۹۲، مُلخصاً)

چاند دیکھنے کے دینی مسائل:

{1}(اسلامی مہینوں کے آخری)پانچ(5) مہینوں کا چاند دیکھنا، واجبِ کفایہ ہے(اگر کسی ایک نے بھی دیکھنے کی کوشش نہ کی تو سب لوگ گناہ گار ہونگے): (۱) شَعْبَانُ الْمُعَظَّم (۲) رَمَضَانُ الْمُبَارَک (۳) شَوَّالُ الْمُکَرَّم (۴) ذُوالْقَعْدَۃِ الْحَرَام (۵) ذُوالْحَجَّۃ شریف۔

{2}ان مہینوں کا چاند دیکھنا، اس لیےواجبِ کفایہ ہے کہ: (۱) شعبان کے بعد رمضان شریف ہے، اگر تیس(30) کی رات کو بادل(cloud) وغیرہ کی وجہ سےچاند نظر نہ آیا تو شعبان کے تیس(30)دن پورے کیے جائیں گے(کہ پہلی تاریخ کو چاند دیکھ لیا تھا اور اب یہ مکمل تیس (30)ہوگئے) پھر رمضان شریف (کی تراویح اور ) روزے شروع ہونگے اور(۲) رمضان شریف کا چاند دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اس میں روزے رکھنے ہیں اور (۳) شوال کا اس لیے دیکھنا ہے کہ روزےختم کرنے ہیں اور(۴)ذیقعدہ کا اس لیے کہ ذی الحجہ کی پہلی(1) تاریخ میں کوئی مسئلہ نہ ہو(اگر تیس(30) کی رات کو بادل(cloud) وغیرہ کی وجہ سےچاند نظر نہ آیا توذیقعدہ کے تیس(30)دن پورے کیے جائیں گے(کہ پہلی تاریخ کو چاند دیکھ لیا تھا اور اب یہ مکمل تیس (30)ہوگئے) پھر ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے عید کا حساب لگائیں گے (count کریں اور (۵) ذی الحجہ کا چاند بقر عید(یعنی بڑی عید) کی وجہ سےدیکھنا ضروری ہے

{3}شعبان کی انتیس(29) کو شام کے وقت چاند دیکھیں گے، نظر آیا تو اگلے دن کاروزہ رکھیں، ورنہ شعبان کے تیس(30) دن پورے کر کے رمضان کا مہینا شروع کریں۔

{4}ہلال (یعنی پہلی رات کا چاند)دیکھ کر اُس کی طرف انگلی سے اشارہ کرنا مکروہ (اور ناپسندیدہ)ہے، چاہے دوسرے کو بتانے کے لیے ہو۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۵،ص ۹۷۴،مسئلہ۱،۲،۲۸، مُلخصاً)

{5} جوشخص علم ہیأت(astronomy) جانتا ہے، اُس کا اپنے علم کی وجہ سے کہہ دینا کہ آج چاند ہوگا یا نہیں ہوگا، یہ شریعت کے اصول میں قبول(accept) نہیں ہے کیونکہ دینِ اسلام نے چاند ہونے کے لیے یہ معیار (standard) رکھا ہے کہ چاند دیکھا جائے یا جس نے چاند دیکھا ہو، وہ چاند دیکھنے کی گواہی(testimony) دے۔(ح۵،ص ۹۷۶،مسئلہ۵ مُلخصاً)

{6} اگر آسمان پر بادل وغیرہ نہیں تو جب تک بہت سارے لوگ شہادت (یعنی گواہی۔ testimony)نہ دیں چاند نہیں مانا جائے گا۔ (ص ۹۷۷،مسئلہ۱۴ مُلخصاً)

{7} رمضان شریف کا چاند دیکھ رہے ہیں اور بادل وغیرہ ہیں ، تو ایک مسلمان عاقل(پاگل وغیرہ نہ ہو) بالغ(grown-up)، عادل(یعنی ایسا آدمی جو گناہ کبیرہ سے بچتا ہو اور گناہِ صغیرہ پر اصرار(یعنی بےخوفی کے ساتھ) نہ کرتا ہو اور ایسا کام بھی نہ کرتا ہو جو مروت کے خلاف ہو مثلاً طاقت ہونے کے بعد بھی مہمان نوازی(hospitality) نہ کرنا،ان سب باتوں سے بچنے والے آدمی) بلکہ مستور) یعنی جس کی ظاہری صورت(condition) شریعت کے مطابق ہو، مثلاً شریعت کے حکم کی مطابق داڑھی ہو، گناہوں سے بچتا ہو، دین کے فرائض وغیرہ بھی پورے کرتا ہو) نے چاند دیکھنے کی گواہی(testimony) دے دی توآج سے تراویح پڑھیں گے اور کل سے روزہ رکھا جائے گا۔ (ص ۹۷۵،۹۷۶،مسئلہ۷،۸ مُلخصاً)

اعتکاف کی قسمیں:

اِعتکاف کی تین قسمیں ہیں {1} واجِب اعتکاف {2} سُنّت اعتکاف {3} نَفْل اِعتکاف۔

{1} واجب اعتکاف :

اِعتکاف کی نذر( منّت)مانی یعنی زَبان سے کہا: اللہ کریم کیلئے میں فلاں دن یا اتنے دن کااِعتکاف کر و ں گا۔تواب جتنے دن کا کہا ہے اُتنے دن کا اِعتکاف کرناواجب ہو گیا ۔ منّت کے اعتکاف کے لیے روزہ شرط (precondition)ہے (بہارِ شریعت ج۱،ح۵،ص۱۰۲۲، مسئلہ ۱۰) ۔منّت کااعتکاف مردمسجدمیں کرے اورعورت مسجد بیت میں (عورت گھر میں جو جگہ نمازکیلئے خاص کرلے (special place for prayer) اُسے ’’مسجدِ بیت‘‘کہتے ہیں )، عورت کے لیے بھی روزہ شرط (precondition) ہے ۔

{2} سُنّت اعتکاف :

رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عشرے کااعتکاف ’’سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ‘‘ ہے (دُرِّ مُخْتار ج ۳ ص ۴۹۵) ۔ اگر سب چھوڑ دیں گے تو (سب نے بُرا کیا اب)شریعت سب سے مُطالبہ(demand) کرتی ہے کہ وہ اعتکاف کریں۔ ہاں! اگر شہر میں ایک نے کر لیا تو شریعت کا مطالبہ پورا ہوگیا۔ ) بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱، مُلخصاً)

اِس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں (20)تاریخ کوسورج ڈوبنے(sunset) سے پہلے پہلے مسجِدکے اندر ، اعتکاف کی نیّت کے ساتھ آجائے اور اب اُنتیس (29)کو چاند ہونے پر یا رمضان شریف کی تیس(30) تاریخ کو سورج ڈوبنے(sunset) کے بعدمسجِدسے باہَر آئے، اس اعتکاف کے لیے بھی ہر دن روزہ رکھنا شرط (precondition)ہے۔ اگر بیسویں (20) رَمَضانُ المبارک کو سورج ڈوبنے کے بعدمسجدمیں آیا تو سنّتِ مُؤَکَّدَہ اعتکاف نہیں ہوگا۔ہاں! اب نفل اعتکاف کر سکتا ہے۔(فیضانِ رمضان ص۲۲۰، مُلخصاً)

{3}نفل اعتکاف :

واجب اور سنّتِ مُؤَکَّدہ کے علاوہ (other) جو اعتکاف کیاجائے وہ نفل یا مستحب اعتکاف ہے (بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱، مُلخصاً) ۔اِس کیلئے روزہ شرط (precondition)نہیں اور نہ ہی یہ اعتکاف کسی خاص وَقت(special time) میں کرنا لازم ہے، جب بھی مسجِد میں آنا ہواِعتکاف کی نیّت کرلیجئے،جب مسجِد سے باہرنکلیں گے اِعتکاف ختم ہوجائے گا۔ نوٹ: اسلامی بہنیں مسجدِ بیت میں نفلی اعتکاف کر سکتی ہیں (درمختار، ج۳، ص۴۳۴، مطبوعہ ملتان،ماخوذاً) ۔اسلامی بہنیں جب مسجدُ الحرام(مکّے پاک کی جس مسجد میں کعبہ شریف ہے) میں جائیں یا جب حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خدمت میں سلام عرض کرنے(مدینے پاک کی) مسجدِ نبوی میں حاضری کا موقع(opportunity) ملے تو وہ بھی اعتکاف کی نیّت کر سکتی ہیں، بلکہ انہیں بھی اعتکاف کی نیّت کر نی چاہیے۔

’’ مسجد اور اعتکاف ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جس نے رَمَضانُ الْمُبارَک میں دس(10) دن کا اعتکاف کرلیاوہ ایسا ہے جیسے دو(2)حج اوردو(2)عمرے کئے۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۲۵حدیث ۳۹۶۶)

واقعہ(incident): ہمارےآقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم اس جگہ ا عتکاف فرمایا کرتے تھے

حضرت نافِع رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدُ اللّٰہ ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے فرمایا کہ: پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَمضان شریف کے آخری عشرے (یعنی آخری دس(10)دنوں)کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔حضرت نافِع رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے یہ بھی فرمایا کہ: حضرت عبدُ اللّٰہ ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نےمجھے مسجِد میں وہ جگہ دکھائی جہاں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اعتکاف فرماتے تھے (مسلم ص۵۹۷ حدیث ۱۱۷۱ ، مُلخصاً) ۔

مدینے پاک کی پیاری پیاری مسجدِ نبوی میں جہاں ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اعتکاف فرمایا تھا، وہاں ایک ستون کے قریب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لیے تخت(bench) لایا گیا تھا۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ، ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نسبت (تَعَلُّق۔ belonging) رکھنے والی چیزوں کا احترام (respect) کرتےتھے بلکہ ساری اُمّت میں عشقِ رسول بانٹنے والے(distributors) بھی صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ہی ہیں۔اس تخت رکھنے والی جگہ کو یاد رکھا گیا اور وہاں کے ایک برکت والے(blessed)سُتون (column)کا نام ’’اُسْطُوَانَۃُ السَّرِیْر‘‘ ہوگیا(عربی زبان میں’’ ستون‘‘ کو ’’اُسْطُوَانَۃ‘‘ اور’’تخت‘‘ کو ’’سَرِیْر‘‘ کہتے ہیں۔ ’’اُسْطُوَانَۃُ السَّرِیْر‘‘ کا معنی ہے’’ تخت والا ستون‘‘ہے)۔ خوش نصیب عاشِقانِ رسول اس برکت والے ستون کی زیارت کرتے(یعنی اسے محبّت سے دیکھتے) اور بَرَکت (blessing)حاصل کرنےکیلئے نفل پڑھتے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں اللّٰہ کریم کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اللّٰہ کریم کی عبادت کی ہے، ہم بھی اس جگہ اللّٰہ کریم کی عبادت کریں (فیضانِ رمضان ص۲۱۶ بالتغیر) ۔

عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں :جس جگہ پر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے نماز پڑھی ہے وہ برکت والی(blessed) ہوگئ اور اُس جگہ سے برکت (blessing)حاصل کرنا، یعنی وہاں جا کر نماز پڑھنا صحابہ کرام کی سنّت ہے۔(نزہۃ القاری ج۲،ص۱۴۱، بتغیر)

مسجد کے تین حصّے(part) ہوتے ہیں :

(۱) اصلِ مسجد(۲) فنائے مسجد(۳)خارِجِ مسجِد۔

(۱)اصلِ مسجد :

مسجد کی وہ جگہ جو نماز پڑھنے کے لیے خاص ہو۔ اسے’’ عینِ مسجد‘‘ بھی کہتے ہیں۔

(۲)فنائے مسجد :

’’فنائے مسجد‘‘ سے مرادوہ جگہیں ہیں جو مسجد یا نمازسے تَعَلُّق(belonging) رکھنے والی ضروری چیزوں کے لئے مسجد(کے اُس حصّے جہاں نماز پڑھی جاتی ہے یعنی ’’اصلِ مسجد‘‘ ) سے ملی ہوئی ہوں ، جیسے منارہ (minaret)، وُضو خانہ ، اِستنجا خانہ(toilet)،غسل خانہ(bathroom) ، مسجِد سے ملےہوئےاِمام صاحب ا ور مُؤَذِّن صاحب کے کمرے وغیرہ۔

یہ جگہیں کچھ شرعی حکموں میں اصل یعنی عینِ مسجِد کے حکم میں ہیں اور کچھ شرعی مسائل میں نہیں ہیں ۔ مُعتَکِف (اعتکاف کرنے والا) بلا ضرورت بھی فنائے مسجِد میں جائے تو اعتکاف نہیں ٹوٹتا(فیضانِ رمضان ص۲۴۸،۲۴۹ مُلخصاً)۔یاد رہے! یہ سب جگہیں(منارہ (minaret)، وُضو خانہ ، اِستنجا خانہ(toilet)،غسل خانہ(bathroom) ، مسجِد سے ملےہوئےاِمام صاحب ا ور مُؤَذِّن صاحب وغیرہ کے کمرے وغیرہ)،اگر اصل یعنی عینِ مسجِد سے ملی ہوئی نہ ہوں یا ملی ہوں مگر اُن کا راستہ مسجد کے باہر سے ہو تو شرعی اجازت کے بغیر مُعتَکِف ان میں نہیں جاسکتا، اگر ایک بار بھی شرعی اجازت کے بغیر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

مسجدکی چھت ، مسجد ہی کا حصّہ(part) ہے لیکن مُعتکف مسجدکی چھت پر اُس صورت (condition)میں ہی جاسکتا ہے، جب کہ چھت پر جانے کاراستہ مسجِدکے اندرسے ہو۔ اگر اوپر جانے کیلئے سیڑھیاں(stairs) مسجد کےباہر (یعنی خارجِ مسجد)ہوں تو معتکف نہیں جاسکتا۔ اگر باہر کے راستے سے مسجد کی چھت پر جائے گاتو شرعی اجازت کے بغیر جیسے ہی مسجد سے باہر گیا، اعتکاف ٹوٹ گیا۔یہ بھی یادرہے کہ مُعتکف ہو یا کوئی ا ور، سب کے لیے مسجدکی چھت پر ضرورت کے بغیر چڑھنامکروہ (ناپسندیدہ)اوربے ادَبی ہے ۔ (فیضانِ رمضان ص۲۵۰، مُلخصاً)

(۳)خارجِ مسجد :

مسجِد کی عمارت (building)کا وہ حصّہ(part) کہ جو نہ تو عینِ مسجد ہو اور نہ فنائے مسجد ہو۔

مُعتَکِف کے مسجد سے باہرجانے کی صورتیں(conditions) :

دو (2) باتوں کی وجہ سے معتکف کومسجِدسے باہر جانےکی اجازت ہے: {1} شرعی حاجت اور {2} طبعی حاجت ۔

{1} شرعی حاجت:

شرعی حاجت مَثَلًاجمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے جانا یااذان کہنے کیلئے جانا وغیرہ۔

(۱)اگرمنارے (minaret) کاراستہ خارِجِ مسجِد(یعنی مسجِد سے ملا ہوا نہیں ہے)ہو توبھی اذان کیلئے معتکف جاسکتاہے کیونکہ اب یہ مسجد سے نکلنا شرعی حاجت کی وجہ سے ہے۔ (رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۵۰۲ مُلَخَّصاً)مگر اذان دے کر فوراً واپس آنا ہوگا۔

(۲)اگر وہاں جُمُعہ نہ ہوتا ہو تو مُعتکف جُمُعہ کی نماز کیلئے دوسری مسجد میں جاسکتا ہے (دُ رِّ مُخْتَار، رَدُّالْمُحْتار، ج۳،ص۵۰۲) ۔جمعہ کے لیے دوسری مسجد اس وقت جائے کہ (جُمُعہ کی ) دوسری اذان سے پہلے پہنچ کر سنّتیں پڑھ لے۔ جُمُعہ کے فرض پڑھ لینے کےبعد چار(4) یا چھ(6) رکعتیں سنّتیں پڑھ کرواپس آجائے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۵،ص۱۰۲۴ ، مسئلہ۲۱،۲۰، مُلخصاً)

(۳)اگر اپنے محلے کی ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جس میں جماعت نہ ہوتی ہو تو اب جماعت کیلئے دوسری مسجد جانےکی اجازت نہیں کیونکہ اب افضل (اور زیادہ ثواب ) یہی ہے کہ جماعت کے بغیرہی اِس مسجِد میں نماز پڑھی جائے(اور مسجد کا حق ادا کیا جائے)۔ (جَدُّ المُمتار ج۴ص۲۸۸)

{2} طبعی حاجت:

(۱) طبعی حاجت مسجد میں پوری نہ ہو سکے جیسے پاخانہ یا پیشاب کرنا(passing urine or stool)، وضو کرنا وغیرہ۔ اگر مسجد میں وضو و غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں ۔ ( بہارِشریعت ج۱ ص۱۰۲۳ تا۱۰۲۴ مُلخصاً)

(۲)عام طور پر نمازیوں کی سہولت کیلئے مسجد سے ملا ہوا وُضوخانہ وغیرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا معتکف ان ہی کو استعمال کرے۔

(۳)(اگر مسجد میں بیت الخلا نہیں ہے) قضائے حاجت(استنجاء۔passing urine or stool) کو گیا ، تو طہارت (پاکی حاصل)کرکے فوراً مسجد میں واپس آجائے،رُکنے کی اجازت نہیں(اگر شرعی اجازت کے بغیر ، کچھ دیر بھی رُکا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا)۔ اگر معتکف کا گھر مسجد سے دُور ہے اور اس کے دوست کا گھر قریب ہے تو یہ ضروری نہیں کہ دوست کے گھر جائے بلکہ اپنے گھر پر بھی جا سکتا ہے ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۳ص۵۰۱، عالمگیری ج۱ص۲۱۲)

(۴) کچھ مسجدوں میں استنجا خانے،غسل خانےوغیرہ مسجد سے ملے ہوتے ہیں مگر اُس کا راستہ فنائے مسجدکے بھی باہر (یعنی خارجِ مسجد ) سےہوتا ہے لہٰذا اِن استنجا خانوں اور غسل خانوں وغیرہ میں طبعی حاجت کے علاوہ (other) نہیں جاسکتے۔(فیضانِ رمضان ۲۴۸ تا ۲۵۲مُلخصاً) اگر شرعی اجازت کے بغیر ، ایسے استنجاء خانوں میں بھی کچھ دیر رُکا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

(۴)مَردوں کے اعتکاف کے لئے وقف مسجد کا ہونا شرط (precondition) ہے۔ جائے نماز ، مسجد نہیں ہوتی(کیونکہ وہ جگہ شرعی طریقے کے مطابق مسجد نہیں بنائی جاتی بلکہ کمپنی وغیرہ میں نماز پڑھنے کے لیے جگہ بنا دی گئی ہوتی ہے) اس لئے اس میں مَردوں کا اعتکاف بھی نہیں ہوسکتا۔ مسجد کے علاوہ (other) صرف عورتوں کا اعتکاف نماز کے لئے گھر میں مخصوص کی گئی (specific) جگہ میں ہو سکتا ہے، جسے’’ مسجدِ بیت‘‘ کہتے ہیں ۔مَردوں کے اعتکاف کے لئے ہر صورت(case)میں مسجد ہونا ضروری ہے، جائے نماز میں اعتکاف ہرگز درست نہ ہوگا۔( رمضان المبارک1438،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

’’ اسلامی بہنوں کا اعتکاف ‘‘

حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ:

ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے گھروں میں مسجدیں بنانے اور انہیں پاک ،صاف اورخوشبو دار (fragrant)رکھنے کا حکم دیا (سنن ابن ماجہ ج۱،ص۲۵۰،حدیث۷۵۹، بیروت) ۔عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ اس سے ’’ مسجدِ بیت‘‘ مرادہے،یعنی گھر میں کوئی کمرہ یا چھوٹی سی جگہ نما ز کے لیے خاص(fixed) کر دی جائے(کہ اُس جگہ نماز پڑھی جائے) پھر وہا ں کوئی دنیوی کام نہ کیا جائے،اس جگہ صفائی ہو اورخوشبو بھی لگائی جائے۔ پہلے کے بزرگ اس طرح کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا۔(مراۃ ج۱،ص۶۷۶،سوفٹ ائیر،مُلخصاً)

واقعہ(incident): ’’ مسجدِ بیت‘‘ میں نفل نماز پڑھتی رہتیں

ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےنواسے(grand son)، امام حَسَن رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی امّی جان حضرتِ بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو دیکھا کہ رات کو ’’ مسجدِ بیت‘‘ (یعنی گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ) میں نفل نماز پڑھتی رہتیں، یہاں تک کہ فجر کی نمازکا وقت شروع ہو جاتا۔آپ مسلمان مردوں اورعورتوں کے لئے بہت زِیادہ دعائیں کرتیں مگر اپنے لئے کوئی دُعا نہ کرتیں ۔میں نے عرض کی: امّی جان! کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے لئے کوئی دُعا نہیں کرتیں ؟ فرمایا: پہلے پڑوس ہے پھر گھر۔ (مَدَارِجُ النُّبُوَّت ج۲ص۴۶۱)

اسلامی بہنوں کا اعتکاف :

{1}اسلامی بہنیں مسجِدبیت میں اعتکاف کریں ۔ ’’مسجِدبیت ‘‘ اُس جگہ کوکہتے ہیں جوعورت گھر میں اپنی نمازکیلئے خاص (fixed)کرلیتی ہے۔ اسلامی بہنوں کیلئے یہ مستحب (اور ثواب کا کام )بھی ہے کہ گھرمیں نمازکیلئے جگہ طے (fixed) کریں اور اُس جگہ کوپاک وصاف رکھیں (دُرِّمُخْتَار،رَدّالْمُحْتَارج۳ص۴۹۴، بہارِ شریعت ج۱ص۱۰۲۱ ملخّصاً) ۔اسلامی بہنیں پورے کمرے کو بھی’’ مسجدِ بیت‘‘ بنا سکتی ہیں۔(مراۃ ج۱،ص۶۷۶،سوفٹ ائیر،مُلخصاً)

{2}گھر میں نماز کے لیے جگہ مُقَرَّر(fixed) کرنا سنّت ہے(نور العرفان ص ۳۴۷) ۔اگراسلامی بہن نے نَمازکے لئے کوئی جگہ طے(fixed) نہ کی تھی اور اعتکاف کرنا چاہتی ہے تواُس وَقت نمازکیلئے کوئی جگہ خاص(fixed) کر لے تو اب اُس جگہ اِعتکاف کرسکتی ہے ۔(دُرِّمُختَار، رَدّالْمُحْتَارج۳ص۴۹۴ مُلخصاً)

{3}کسی اورکے گھر جا کر اسلامی بہن اعتکاف نہ کرے

{4}شوہرکی اجازت کے بغیربیوی کیلئے اِعتکاف کرناجائز نہیں ہے ۔ ( رَدّ الْمُحْتَار ج۳ ص۴۹۴ )

{5}اگربیوی نے شوہرکی اجازت سے اِعتکاف شروع کردیا، بعد میں شوہر منع کرناچاہتاہے تواب منع نہیں کرسکتا اور اگر منع کرے گاتوبیوی کو اس کی بات پوری کرنا واجب نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ ص۲۱۱)

{6}شَرعی ضرورت کے بغیر اعتکاف کی جگہ سے نکلنا جائزنہیں ، وہاں سے اٹھ کرگھرکے کسی اورحصّے میں بھی نہیں جاسکتی ، اگرجائے گی تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔

{7}اسلامی بہنوں کیلئے بھی اعتکاف کی جگہ سے ہٹنے کے وُہی مسائل ہیں جواسلامی بھائیوں کے ہیں ۔یعنی جس ضرورت کی وجہ سے اِسلامی بھائیوں کو مسجِد سے نکلناجائزہے،اُسی کے لئے اِسلامی بہنوں کو بھی اِعتکاف کی جگہ سے ہٹنا جائز اور جن کاموں کیلئے مَردوں کو مسجِد سے نکلنا جائز نہیں ، اُن کیلئے اِسلامی بہنوں کو بھی اپنی جگہ سے ہٹنا جائز نہیں ۔ نوٹ: مسجد میں فناء مسجد کی جگہ بنائی جاتی ہے مگر ”مسجدِ بَیت “کے لیے کوئی فناء مسجد نہیں لہٰذا غلطی سے بھی مسجدِ بیت سے باہر چلی گئی تو اعتکاف ٹوٹ گیا۔

{8}اسلامی بہن سحری میں جگانے کے لیے بھی”مسجدِ بَیت “سے نکل کر نہیں جاسکتی، اَلْبَتّہ اگر سنّت اعتکاف کرنے والی اسلامی بہن نے خود سَحَری نہیں کی اور سَحَری دینے والا کوئی جاگ نہیں رہا (اور وہیں سے اُٹھایا بھی نہیں جاسکتا)تو یہ اپنی سَحَری کے لیے”مسجدِ بَیت “ سے باہر جاکر بھی جگا سکتی ہےمگر جگا کر یا اپنی سَحَری کا کھانا لے کر فوراً واپس آجائے،اگر جان بوجھ کر(deliberately) دیر کرے گی تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

{9}اِسلامی بہنیں اعتکاف کے دَوران اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے سِینے پکانے کا کام کرسکتی ہیں ،گھرکے کاموں کے لئے بھی دُوسروں کو کہہ سکتی ہیں مگر خود اُٹھ کرنہیں جا سکتیں ۔(فیضانِ رمضان ۲۴۸ تا ۲۵۲، احکام ِ تراویح ص ، ۱۹۱، گھریلو مسجد ص ۳۰مُلخصاً)

{10}عورت اگر فرض غسل کے علاوہ (other) کسی اورغسل کے لیے اعتکاف کی جگہ سے نکلے گی،مثلاً گرمی کی وجہ سے ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے اعتکاف کے کمرے سے غسل خانے(bath room) چلی گئ تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔( رمضان المبارک1438،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً)

{11}رمضان المبارک میں اور اس ماہِ مبارک کے علاوہ (other) بھی عورت اپنی مسجدِ بیت میں نفلی اعتکاف کر سکتی ہے۔ (مئی، 2021،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً)

عورتوں کے خصوصی(special) مسائل :

{12}اسلامی بہنوں کے اِعتکاف کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حیض (menstruation) او رنفاس (postpartum)سے پاک ہوں کہ ان دنوں میں نماز، قرآن پاک کی تلاوت اور روزہ رکھناحرام ہے۔ (عامۂ کُتُب) جبکہ اعتکاف کے لیے روزہ رکھنا شرط (precondition) اور لازم ہے۔

{13}اگر ماہواری(menstruation) کی تاریخیں رمضان شریف کے آخِری عشرے میں آنے والی ہوں تو اعتکاف شُروع ہی نہ کریں ۔

{14}اگرعورت کو حیض آجائے تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا (بدائع الصنائع ج۲ص۲۸۷) ۔ اِس صُورت (condition)میں جس دن اِعْتِکاف ٹوٹاہے صِرْف اُس ایک دن کی قَضا اُس پر واجب ہوگی۔(رَدُّ الْمُحْتَار ج۳ ص۵۰۰)

اسلامی بہن کے لئے اعتکاف قضا کرنے کا طریقہ:

{15} کسی دنسورج ڈوبنے(sun sets یعنی مغرب کی نماز شروع ہونے)کے وقت بلکہ احتیاط (caution)اس میں ہے کہ مغرب سے کچھ دیر پہلے ہی اعتکاف قضا کرنےکی نیّت سے’’ مسجدِ بَیت ‘‘ میں آجائے ۔اب پوری رات

’’ مسجد کے آداب‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جو مسجِد سے تکلیف دینے والی چیز نکالے اللّٰہ کریم اُس کیلئے جنّت میں ایک گھر بنا ئے گا۔ ( ابنِ ماجہ ج۱ص۴۱۹حدیث۷۵۷)

واقعہ(incident): مسجد میں آواز بلند(یعنی اونچی) کرنا منع ہے

حضرت سائب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں :میں مسجد میں موجود تھا اور وہاں دو(2) آدمی اونچی آواز میں باتیں کررہے تھے۔ کسی نے مجھے چھوٹا سا پتھر(pebbles) مارا ،جب میں نےدیکھا تو وہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ تھے ۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے مجھے (اشارےسے) فرمایا:جاؤ اور ان دونوں کو میرے پاس لے آؤ ۔میں فوراً ان دونوں کو حضرت عمر فاروقرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے پاس لے آیا،آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے ان دونوں سے فرمایا: ’’تم کون ہواور کہاں سے آئے ہو؟‘‘انہوں نے جواب دیا: ہم طائف سے آئےہیں ۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے فرمایا:تم حضور صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ ٖ وَسَلَّم کی مسجد میں آوازیں اونچی کرتے ہو،اگر تم مدینے پاک کے رہنے والےہوتے تومیں تمہیں ضرور سزا دیتا(کیونکہ ان لوگوں کو یہاں کا ادب زیادہ معلوم ہے)۔(بخاری ،کتاب الصلوۃ ،ج۱، ص۱۷۸، حدیث:۴۷۰)

مسجد کے آداب:

{1} فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مسجِد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا (لاتا) ہے (اَلفِردَوس،حدیث : ۱۹۸۳) ۔ہاں! ضرورتاً مسکرانے میں حرج نہیں،لیکن مسجِد میں شور (noise)اورہنسی مَذاق وغیرہ گناہ ہے(فیضانِ رمضان ص۲۶۲) )۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روایت بتاتے ہیں کہ : جو مسجِد میں دُنیا کی بات کرے ،اللہ کریم اُس کے چالیس (40)سال کے نیک اعمال برباد(ختم) فرما دیتا ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۶۱ ص ۱۱۳ ، غَمزُ العُیون ج۳ص۰۹۱)

{2}مُنہ میں بدبو ہونے کی حالت میں (گھر میں پڑھی جانے والی ) نَماز بھی مکروہ ہے اور ایسی حالت میں (کہ کپڑوں یابدن سے پسینے یا کسی بھی طر ح کی بدبوآ رہی ہو) مسجِدمیں جانا حرام ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۷ ص ۴۸۳)

{3} مسجِد میں رِیح خارِج(breaking wind) کرنامنع ہے۔

{4}مسجد میں ا یسے بَچّوں کو(ڈائیپی باندھ کر بھی ) لانا گناہ ہے جن کے بارے میں مضبوط خیال(strong assumption) ہو کہ پیشاب وغیرہ کر دیں گے یا شور مچائیں ( noise کریں)گے۔

{5} مسجد کی زمین پر گرے ہوئےبالوں کے گچھے (bunches of hair) اور تنکے(straws) وغیرہ ڈالنے کیلئے ہوسکے تو ایک چھوٹی تھیلی(shopping bag) جیب میں رکھ لیجئے۔ فرمانِ نبّیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏جو مسجِد سے تکلیف دینے والی چیز نکالے گا، اللہ کریم اُس کیلئے جنّت میں ایک گھر بنا ئے گا۔ ( ابنِ ماجہ ، حدیث:۷۵۷)

{6}مسجدمیں اگرمعمولی سا ذَرّہ(tiny particle) بھی پھینکاجائے تواس سے مسجِد کو اتنی تکلیف پہنچتی ہے جیسے انسان کواپنی آنکھ میں ذَرّہ پڑجانے سے ہوتی ہے ۔ (جذبُ القُلُوب ص ۲۲۲ مُلخصاً)

{7} وُضو کے بعد،وُضوکے پانی کے قطرے مسجِد کی زمین پر گرانا، ناجائز وگناہ ہے(لہذا مسجد میں آنے سے پہلےجسم پر ہاتھ پھیر کر پانی وضو خانے ہی میں گرا دیں یاکسی کپڑے یا رومال سے جسم سکھا کر، مسجد میں آئیں مگر گیلے کپڑے کو مسجد کے اندر نہ سکھائیں)۔

{8} مسجِدکی دریوں کے دھاگے (threads of sheets)اورچٹائیوں کے تنکے(straws of mats) نَوچنے (picking) سے بچیں (ہرجگہ اس بات کاخیال رکھئے )۔

{9}مسجِد میں دوڑنایازورسے قدم رکھنا،جس سے دَھمک (یعنی آواز)پیدا ہو منع ہے۔

{10}مسجِد کی زمین پرکوئی چیز زور سے نہ پھینکی جائے،اورچادریا رومال سےزمین وغیرہ اس طرح نہ جھاڑیں کہ آواز پیداہو۔ (پمفلٹ از شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مُلخصاً)

مسجِد اور فنائے مسجِد کے مزید(more) آداب:

{11}قرآن پاک کی الماری(closet) کے اوپر کوئی چیز نہیں رکھ سکتے۔
{12}عینِ مَسجِد (یعنی مسجد کا وہ حصّہ(part) جو صرف نماز کے لیے ہو)میں ہر کسی کو کپڑے دھونا، سُکھانا(dryکرنا)، لٹکانا(hang کرنا)، منع ہے۔
{13}مَسجِد کے ساتھ ساتھ فنائے مَسجِد کو بھی بَدبو سے بچانا واجِب اور لازم ہے۔
{14} فنائے مَسجِد کا اَدَب بھی مَسجِد کی طرح ہے۔(مسجد کے آداب، افتاء مکتب، لاہور،مُلخصاً)

مسجد کے مسائل:

{15}مسجد کو ناپاکی، بدبو(odour) اور ہر گھن والی چیز(disgusting thing) سے بچانا ضروری ہے ۔لہذا جب بھی مسجد میں جائیں تواپنے جسم ،کپڑوں اور سامان وغیرہ کو اچھی طرح چیک کرلیں کہ کہیں ان پر اس طرح کی کوئی چیز تو نہیں ؟

{16}ایسے مریض جن کو یورین بیگ(urine bag) لگا ہو یاجسے پیشاب وغیرہ کے قطرے (drops) آتے رہتے ہیں ، جس سے مسجد یا مسجد کی دریاں وغیرہ خراب ہونے کاڈر ہے ،ان کو مسجد میں رُکنا جائز نہیں۔

{17}جس کو منہ سے بد بو آنے کی بیماری ہو یا کوئی بدبو دار زخم(stinky wound) ہو یا کوئی بد بو دار دوائی لگائی ہو تو جب تک بدبو ختم نہ ہو جائے، اس وقت تک مسجد میں آنے کی اجازت نہیں ۔اسی طرح ایسی چیز استعمال کرنا کہ جس سے منہ میں بدبو پیدا ہو جیسے سگریٹ یا ،حقہ وغیرہ پینا اور منہ میں ان کی بدبو ہو تے ہوئے مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ۔

{18}مچھر یا تکلیف دینے والے کیڑوں سے بچنے کیلئے مسجد میں بد بو دار لوشن یا بد بو دار کوائل وغیرہ کا استعمال جائز نہیں ۔ ضرورت ہو تو ایسا لوشن استعمال کریں جو خوشبودار ہو ورنہ کم از کم اس میں بد بو نہ ہو کہ ان کا استعمال جائز ہے مگر ایسے لوشن وغیرہ کے دھبوں سے بھی مسجد کی دریوں وغیرہ کوبچانا ہو گا ۔

{19}زکام (flu)وغیرہ کے سبب ناک سےاگر پانی گرتا ہو تو رومال وغیرہ صف پر رکھ دیں تاکہ مسجد میں کسی قسم کی گندگی نہ ہو۔

{20}مسجد میں خریدو فروخت(buy and sell) منع ہے ۔ ہاں! اگر معتکف کو بیوی بَچّوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوئی چیز چاہیے تو اُسے اجازت ہے لیکن اب بھی وہ چیز مسجد میں نہیں لائی جائے گی( مسجد کے آداب کا خیال بھی رکھا جائے، بات چیت میں شور (noise) وغیرہ بھی نہیں ہو) ۔ یاد رہے!تجارت(trade) کے لیے معتکف بھی مسجد میں خریدو فروخت(buy and sell) نہیں کر سکتا۔

{21}مسجد میں ناخن کاٹنا ،تیل لگانا یا کنگھی کرنا ،اگر اس طرح ہو کہ کاٹے جانے والے بال یا ناخن مسجد میں نہیں گرتے(بلکہ کپڑا وغیرہ بچھا کر یہ کام کیا) تو مسجد میں کاٹ سکتے ہیں ۔ہاں!اگر بال یا ناخن گرنے کا ڈر ہے تو اس کی اجازت نہیں(آسانی اس میں ہے کہ مُعتکف بھی یہ کام وُضو خانے یا فنائے مسجِدمیں اپنی چادربچھاکر کریں) ۔(فیضانِ رمضان ۲۵۷مُلخصاً)

{22}مسجدمیں بلاضرورت جائزبات کرنابھی نیکیوں کو ضائع (ختم)کرنے کا سبب ہے ،معتکف کیلئے بھی بلا ضرورت بات کرنے کو عُلَمائے کِرام نے مکروہ فرمایا ہے ۔ہاں! ضرورۃًجائزبات کی جا سکتی ہے جبکہ اس بات کرنے سےکسی نمازی یا تلاوت کرنےوالےکوپریشانی نہ ہو ۔لہذ ا مسجد میں گھر والوں سے(فون وغیرہ پر بھی) بات کرنے سے بچیں۔

{23}مسجِدکی دیواروں یا دَرْیوں(موٹی چادروں) وغیرہ پرناک یا کان کا میل اور تیل وغیرہ سے چکنے ہاتھ(hands lubricated with oil) مت لگایئے ۔

’’ مسجد میں کھانا، پینا اور سونا‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جب بندہ اچھی طرح وُضو کرکے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس کی نیّت صرف نماز کی ہوتی ہے تواُس کے ہر قدم پر ایک درجہ بلند ہوتا (یعنی بڑھتا)ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے، جب وہ نماز پڑھ لیتا ہے تو جب تک اپنی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں : اے اللہ!اس کی مغفرت فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ (بخاری ج۱ص۲۳۳ حدیث ۶۴۷)

واقعہ(incident): مسجد جانے والے قدم

حضرت جابِر بن عبدُ اللّٰہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتے ہیں : (مدینے پاک کی)مسجد نبوی کے قریب زمین خالی ہوگئی تو (قبیلہ tribe) بنو سلمہ نے یہ کوشش کی کہ مسجد کے قریب آجائیں ،جب اللّٰہ کریم کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یہ بات پتا چلی تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان سے پوچھا: مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم مسجد کے قریب آنا چاہتےہو؟ انہوں نے عرض کی:جی ہاں! یَارَسُولَ اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ!ہم نے قریب آنے کی نیّت(intention) کی ہے۔ فرمایا: اے بنو سلمہ ! اپنے گھروں میں ہی رہو،تمہارے قدموں کے نشان(footprints) لکھے جائیں گے(یعنی جتنے قدم تم مسجد کے لیے اُٹھاتے ہو، اُن قدموں پر تمھیں ثواب ملتا ہے)، اپنے گھروں میں ہی رہو،تمہارے قدموں کے نشان لکھے جائیں گے (مسلم ص ۲۶۲ حدیث ۱۵۱۹،مُلخصاً)۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں :خیال رہے کہ گھر کا مسجد سے دور ہونا نیک لوگوں کے لیے ثواب کا سبب ہے کہ وہ دور سے جماعت کے لئے آئیں گے مگر غافلوں (اور دین سے دور لوگوں )کے لیے ثواب سے دور ہوناہے کہ وہ دُور ہونے کی وجہ سے گھر میں ہی نمازپڑھ لیا کریں گے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۱ص۴۳۴،مُلخصاً)

مسجد میں کھانا پینا :

{1}مسجِدکے اندر کھانے پینے، سحری یا افطار کرنے، آبِ زم زم یا دم کیا ہوا پانی پینے اور سونے کی شَرْعاً اجازت نہیں۔ اگر اعتکاف کی نیّت تھی تو اب ان سب کاموں کی اجازت ہوجائے گی اعتکاف کی نیّت ثواب کیلئے کی جائے(فیضانِ رمضان۲۲۱ مُلخصاً) اگرکوئی مسجِد میں کھانا ، پینا یا سونا چاہے تو اعتکا ف کی نیّت کرلے،کچھ دیر اللہ کریم کاذِکر کرے(مثلاً نماز پڑھے یا تسبیح یا درود شریف پڑھے) پھر جو چاہے کرے (رَدُّالمُحتار ج۳ص۵۰۶) یعنی اب چاہے تو کچھ پی سکتا ہے یا کھا نا کھا سکتا بلکہ سو بھی سکتا ہے

{2}اگر کوئی شخص بے وضو مسجد میں گیا یا ایسے وقت مسجد میں آیا جس میں نفل نماز پڑھنامکروہ ہےیا کوئی اوروجہ ہے کہ تحیۃُ المسجد نہیں پڑھ سکتا تو چار(4) بار سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ کہے (بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۶۷۵ ، مسئلہ ۴) ۔ مسجِد میں کھانا ، پینا یا سونا چاہے تو اعتکاف کی نیّت کے بعد یہی تسبیح چار(4) بار پڑھ لیجیئے۔

{3}مسجد میں اس طرح کھانا پینا کہ جس سے مسجدآلودہ(untidy) ہوجائز نہیں ہے، چاہے مسجد میں معتکف ہو(تب بھی ایسا نہیں کر سکتا)۔اسی طرح اتنا زیادہ کھانا مسجد میں لانا بھی منع ہے کہ جس سے نمازیوں کے لیے نماز پڑھنے کی جگہ کم ہوجائے۔(فتاویٰ رضویہ،ج ۸،ص ۹۵مُلخصاً)

{4} کھانا جب بھی عین مسجد(یعنی مسجد کے اُس حصّے(part)میں کہ جو صرف نماز کے لیے ہو) لائیں تو اس میں کچی پیاز، کچا لہسن، ادرک وغیرہ کوئی بھی بد بو دار چیز نہ ہو۔

{5} مسجد میں کچا لہسن، پیاز کھانا جائز نہیں ۔ مسجد میں یہ چیزیں کھا کر آنا بھی اُس وقت تک جائز نہیں، جب تک ان کی بدبو باقی ہو ۔ اسی طرح ہر وہ چیز جس میں بدبُو ہو، جیسے مولی،کچا گوشت، مٹی کا تیل، تو جب تک ان میں بدبُو باقی ہو ان کو مسجد میں لانے کی اجازت نہیں۔( بہارِ شریعت حصّہ۳،ص۴۵۱)

{6} مسجد میں کچھ بھی کھانا ہو بلکہ چائے بھی پینی ہو تو موٹادستر خوان (table mat) استعمال کریں۔ کھانے کے لیے ہرگز ہرگز مسجد کی دریاں استعمال نہ کی جائیں،بلکہ الگ سے دری یا چٹائی لی جائے۔ جب کھانا ،کھانا ہو تو اس کو بچھا لیا جائے تاکہ مسجد کی دری یا زمین خراب نہ ہو بلکہ ٹھنڈے پانی کی بوتل بھی مسجد کی زمین پر نہ رکھیں کیونکہ کچھ دیر بعد، پانی کے چند قطرے،بوتل کے باہرآجاتے اور وہ پانی نیچے گر جاتا ہے ۔

{7} کبھی دسترخوان، دری، چٹائی،برتنوں کی صحیح صفائی نہ ہونے کی وجہ سےان میں بدبو آرہی ہوتی ہے۔ ایسی بد بو دار چیزیں مسجد میں بچھانا بلکہ لے کر آنا بھی جائز نہیں (کچھ مسجدوں میں ماہانہ(monthly) یا ہفتہ وار(weekly)، نیاز یا کھانا کھلانے کا سلسلہ ہوتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ استعمال کے بعد اور دوبارہ استعمال کرنے سے پہلے دسترخوان، دری وغیرہ کی صفائی اور دہلائی کا اہتمام(arrangement) کر لیا کریں)۔

{8}ہوسکے تو معتکف کو بھی کھانا فنائے مسجد ہی میں کھانا چاہیے۔مگر فنائے مسجد کو بھی آلودگی (litter) سےبچانا ضروری ہے۔

{9}اگر مسجد میں سالن وغیرہ بنانا پڑے تو اس بات کا خیال رکھیں کہ کچھ چیزوں کی بو(smell)اچھی نہیں ہوتی جیسے مچھلی،پیاز ، وغیرہ۔ اگر کوئی ایسی چیز بنانی ہو تو اسےمسجد سے اتنا دور پکایا جائے کہ اس کی بو مسجد میں نہ جائے ۔

{10} مسجد کی چیزیں اس طرح استعمال کرنےکی اجازت نہیں: (۱)مسجد کی گیس پر کھانا پکانا (۲)کپڑے استری کرنا (۳)مسجد کی دریوں کو کمبل(blanket) کی جگہ استعمال کرنا(۴)ذاتی لیپ ٹاپ(laptop)، مسجد کی بجلی سے چارج (charge) کرنا (۵)مسجد میں سوتے ہوئے مسجد کے ائیر کنڈیشنر(air conditioner) چلانایا سردیوں کی رات میں ہیٹر(heater) چلانا ( 16ذوالحجۃ الحرام1440ھ، 18اگست 2019ء۔افتاء مکتب دعوتِ اسلامی بالتغیر) ۔ہاں! امام صاحب، مؤذّن جن کی رہائش(accommodation) مسجد کی چار دیواری ہی میں ہے، بجلی اور گیس وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں مگر جو چیز، جس طرح استعمال کرنا چاہیے، پہلے اُس کی شرعی رہنمائی لے لیں۔

مسجد میں سونا:

{11} مسجدکی زمین،دری (موٹی چادروں) یا چٹائی (mat)پر نہ سوئیں کہ پسینے کی بدبو(odour) اور سر کے تیل کا دھبا(stain) لگنےکا خطرہ ہے۔ لہٰذااپنی چٹائی یا موٹی چادر بچھا کر سوئیں ۔یاد رہے کہ مسجد میں ایسی چٹائی (mat)استعمال نہیں کر سکتے جس کے تنکے(straw) نکلتے ہوں، اگر ایسی چٹائی مسجد میں استعمال کریں تو اس کے نیچے کپڑا وغیرہ سی(sewn) دیں تاکہ مسجد میں تنکے نہ گریں ۔

{12} گھر ہویا مسجِد،جہاں بھی سوئیں ’’ پردے میں پردہ‘‘ کر لیجئے، یعنی ایک چادر لپیٹ لیجئے اور لیٹ کر اوپر سےبھی چادر یا لحاف(blankets) اوڑھ ( یعنی اپنے آپ کو cover کر ) لیجئے۔ہر سمجھدار (sensible)آدمی کو اس بات کا خیال کرنا چاہیے۔

{13} مسجد کی دریوں کو بطور چادر اوڑھنا یا تکیہ بنانا جائز نہیں۔ (27نومبر 2018۔افتاء مکتب)

{14} مسجد میں اعتکاف کی نیّت کے ساتھ کوئی آرام کر رہا ہو تو وقت پر اٹھنے کیلئے مسجد میں ، موبائل پر الارم (alarm)لگانا جائز ہے جبکہ میوزیکل ٹیون (musical tune)نہ ہو۔یاد رہے کہ موبائل میں میوزیکل ٹیونز کا نہ ہونا صرف مسجد کے لیے نہیں ہے بلکہ مسجد کے علاوہ (other) بھی میوزیکل ٹیونز جائز نہیں ہے ،مسجد کی وجہ سے اس کی برائی اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔( 16ذوالحجۃ الحرام1440ھ، 18اگست 2019ء۔افتاء مکتب دعوتِ اسلامی)

سحری، افطار اور نیاز وغیرہ کے لیے چندہ :

15}لنگرِ گیارہویں، لنگرِبارہویں، لنگرِ 15رجب(کونڈوں کی نیاز)، شبِ معراج، شبِ براء ت اور شبِ قدر کی نیاز وغیرہ کے لیے چندہ(dunation) جمع کیا جاسکتاہے،لیکن بہتر یہ ہے کہ لنگر کا چندہ ان الفاظ سے کیا جائے اور چندہ دینے والے(رقم کے مالک ) کو یہ الفاظ بتا کر چندہ لیا جائے: آپ اپنی یہ رقم رَمَضانُ الْمُبارَک کی سحری و اِفطاری، بڑی راتوں اور دیگر مواقع (محفل وغیرہ)میں غریب و امیر، اعتکاف کرنے والے یا غیر معتکف، روزہ دار و بے روزہ دار، بڑوں چھوٹوں سبھی کو کھانا کھلانے اور اس رقم سے کھانے کی چیزیں تقسیم(distribute) کرنے، دریاں، تھال اور ڈیکوریشن کا سامان خریدنے یا کرائے پر لینے نیز ان کے علاوہ (other) ہر طرح کے نیک اور جائز کاموں میں خرچ کرنے کی مکمل اِجازت دے دیجئے۔

{16}لنگر کے لئے صرف اور صرف چندہ لیجیئے کیونکہ لنگر امیرو غریب سب ہی کھاتے ہیں لہٰذا اِس کے لئے زکوٰۃ ، فِطرہ بلکہ کسی طرح کے بھی صَدَقاتِ واجِبہ ہرگز ہرگز نہ لیجئے اور نہ ہی کسی کو اِس کی ترغیب دیجئے۔(چندہ کرنے کی احتیاطیں ، ص۱۸،۱۹، مُلخصاً)

مردوں کے مسائل :

{15}مسجدمیں سوتےہوئے غسل فرض ہوجائےتوفوراًتَیَمّم کرکےمسجدسےباہرنکل جائےاورغسل کرنے کے بعدمسجدمیں آئے۔البتہ اگرفنائےمسجدمیں غسل خانہ نہ ہواورباہرجانےمیں کوئی صحیح خطرہ (danger) ہواورمسجدمیں ٹھہرنےکےعلاوہ (other) کوئی صورت(condition) نہ ہو(مثلاً اذان دینے والے مؤذن صاحب تالا (lock) لگا کرچلے گئےاور مسجد کا کوئی حصّہ (part)فناء مسجد بھی نہیں)توفوراًتَیَمّم کرے اور اب مسجد میں رہنا بھی جائز ہے(لیکن اگر فناء مسجد ہو تو مسجد میں نہیں فناء مسجد میں رُکے)۔ یاد رہے!اس تَیَمّم سےنماز و تلاوت جائز نہیں، جیسےہی باہرنکلناممکن ہوفوراً نکل جائے۔

{16}کپڑے ناپاک ہو گئے اس کے علاوہ (other) پہننے کیلئے کوئی دوسرا کپڑا نہیں، یا کپڑے تو ہیں لیکن ان ناپاک کپڑوں کو اپنے بیگ وغیرہ میں رکھنا ہے اور بیگ مسجد میں ہے تو ان صورتوں میں جتنے حصّے (part)پر ناپاکی لگی ہے، اتنے حصّے (part)کی ناپاکی دور کرنے کیلئےمسجد کا پانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ میلے کپڑوں کو مسجد کے پانی سے دھونے کی اجازت نہیں۔( 16ذوالحجۃ الحرام1440ھ، 18اگست 2019ء۔افتاء مکتب دعوتِ اسلامی، مُلخصاً)

’’اعتکاف اور مُعتکف‘‘

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے :

ایک مرتبہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پہلی (1)رَمضان سے بیس (20)رَمضان شریف تک اِعتکاف کرنے کے بعد فرمایا: میں نے شبِ قدر کو ڈھونڈنے (find outکرنے)کیلئے رَمضان شریف کے پہلے عشرے(یعنی پہلے دس(10) دن ) کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرے(یعنی گیارہ(11) رمضان سے بیس(20) تک) کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتایا گیا کہ شبِ قدر آخری عشرے میں (یعنی اکیس(21) رمضان سے مہینے کے آخر تک) ہے لہٰذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اِعتکاف کرنا چاہے وہ کر لے ۔(مُسلم ص۵۹۴حدیث۱۱۶۷)

واقعہ(incident): پہلے کے بزرگ (یعنی نیک لوگ)

بہت پہلے ایک بزرگ حضرتِ شَمْعُون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ تھے ، جنہوں نے ایک ہزار(1000) مہینے اس طرح عِبادت کی کہ رات کو عبادت کرتے، دن میں روزہ بھی رکھتے اور اللہ کریم کے دین کو عام کرنے کے لیے غیر مسلموں سے جہاد بھی کرتے (یعنی لڑتے) ، طاقتور اتنے تھے کہ لوہے(iron) کو اپنے ہاتھوں سے توڑ ڈالتے تھے۔

غیر مسلموں نے آپ کو شہید (یعنی قتل۔murder)کرنے کی بہت کوشش کی مگروہ قتل نہ کر سکے تو انہوں نے بہت سے مال (wealth)کا لالچ دے کر آپ کی بیوی کو کہا کہ جب یہ سو جائیں تو اِن کو باندھ کرہمیں بتا دے۔جب آپ سو گئے تو بیوی نے رسیوں(ropes) سے آپ کو باندھ دیا، آپ کی آنکھ کھلی، آپ نے اپنے جسم کو ہلایا تو ساری رسیّاں ٹوٹ گئیں۔ پھر اپنی بیوی سےپوچھا: مجھے کِس نے باندھ دیا تھا؟ کہنے لگی کہ میں تو آپ کی طاقت دیکھ رہی تھی کہ آپ اِن رسیّوں سے کس طرح باہر آتے ہیں ۔ دوسری بار جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سوئے تو اُس نے آپ کو لوہے کی زنجیروں (iron chains) سے اچھّی طرح باندھ دیا۔جیسے ہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آنکھ کھُلی ، آپ نے فوراً زنجیریں (chains) توڑ دیں ۔ بیوی نے پھر وہی کہا کہ میں تو آپ کی طاقت دیکھنا چاہتی تھی ۔ حضرتِ شَمْعَون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ مجھ پر اللہ کریم کا بڑا کرم ہے ۔مجھے دُنیا کی کوئی چیز باندھ نہیں سکتی مگر ، ''میرے سَر کے بال '' ۔

تیسری بارجب آپ سوئے تو اس عورت نے آپ کو آپ ہی کے بالوں سے باندھ دیا ۔اب جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آنکھ کھلی تو آپ بستر سے نہیں اُٹھ پائے ۔اُس عورت نے فوراً دشمنوں کو بلالیا۔ ظالم غیر مسلموں نے حضرتِ شَمْعُون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ایک سُتُون (pillar) سے باندھ دیا اور بہت بُری طرح آپ کے ناک ،کان کاٹ ڈالے ۔اب حضرتِ شَمْعُون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اللہ کریم سے دعا کی تو سُتُون (pillar) اور چھت اُن غیر مسلموں پر گر گئے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ غیر مسلموں سے بچ گئے۔(ماخوذ ازمُکاشَفَۃُ القُلُوب ص۳۰۶،فیضانِ رمضان ٖص ۱۸۴،مُلخصاً)

اُمَّت سے محبت کرنے والا آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یہ سُن کر غم میں آگئے (sad ہوگئے)۔ اُسی وَقت حضرتِ جِبرئیلِ عَلَیْہِ السَّلَام قرآنِ پاک کی سورت(سورۃ ُالقدر یعنی اِنَّاۤ اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الْقَدْرِ ﴿۱﴾ۚ مکمل سورت (لے کر آئے، جس میں یہ بھی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُمَّت کو ہم نے ہر سال میں ایک ایسی رات دی کہ اگر وہ اُس رات میں اللہ کریم کی عِبادت کریں گے تَو اِن کی وہ عبادت ہزار مہینوں کی عِبادت سے بھی زیادہ ہو جائے گی (اور وہ رات شبِ قدر ہے)۔ (ماخوذ از تفسِیرِ عزیزی ج۴ص۴۳۴)(فیضانِ رمضان ٖص ۱۸۳)

کچھ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ یہ رات رمضان شریف کی آخری دس (10)راتوں میں ہوتی ہے (عمدۃُ القاری ج۱، ص۳۳۵)اور کئی عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ یہ رات رمضان شریف کی ستائیسویں (27th )رات ہے (مسلم ص۳۸۳حدیث، ۷۶۲، ماخوذاً) ، تورمضان شریف کے پورے مہینے اور اس کی آخری راتوں میں اللہ کریم کی عبادت زیادہ سے زیادہ کرنی چاہیئے۔ خصوصاً ستائیسویں(27) کی رات جیسا کہ عاشقانِ رسول یہ رات عبادت میں گزارتے ہیں، جو کہ ایک بہت اچھا طریقہ ہے۔

اِعتکاف:

{1}معتکف نے صرف ایک پاؤں مسجِد سے باہر نکالا تو اعتکاف نہیں ٹوٹے گا ۔
{2} اگر دونوں ہاتھ اور سر بھی مسجِد سے باہَر نکال دیئے تب بھی اعتکاف نہیں ٹوٹے گا ۔
{3}بے خیالی میں مسجِد سے باہر نکل گیا اور یاد آنے پر فوراًمسجِد کے اندر آ بھی گیا پھر بھی اعتکاف ٹوٹ گیا(کیونکہ غلطی سے اگر کانچ کا کلاس زمین پر گر جائے تب بھی ٹوٹ جاتا ہے)۔
{4}چور جوتے وغیرہ لےکر بھاگا اور اُسے پکڑنے کیلئے مسجد سے باہرنکل گئے تو اِعتکاف ٹوٹ جائےگا۔
{5} ایسے اسلامی بھائی جو پہلے اعتکاف کر چکے ہوں،اُن سے مشورہ کر کے اپنی ضرورت کی چیزیں پہلے ہی سےلے لیجئے تاکہ اعتکاف میں کسی دوسرے سے کوئی چیز مانگنےکی ضرورت نہ ہو، دوسروں سے چیزیں مانگتے رہنا بھی اچھی عادت نہیں ۔
{6} ہرگزہرگزدو(2)اسلامی بھائی ایک تکیے پریاایک چادرمیں نہ سوئیں (اور اس بات کا خیال ہر جگہ رکھیں)۔
{7}اِسی طرح کسی کی ران یاگودمیں سررکھنے سے بھی بچیں۔
{8}اَخبارات (newspapers) عام طور پرجانداروں جیسے انسان اور حیوان(humans and animals) کی تصویروں بلکہ اشتہارات (advertisements)سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذامسجِد میں اخبارات نہیں پڑھنے چاہئیں اورمؤبائل کااستعمال تو بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
{9} آپ گھر سے نیکیاں کرنےآئے تھے مگر کہیں ایسانہ ہوکہ مسجد کی بے ادبیاں کر کے گناہوں کاڈھیرلے کر واپس جائیں ۔ لہٰذا خبردار! مسجِد میں بلا ضرورت کوئی لفظ منہ سے نہ نکالیں اورموبائل سے دور رہیئے۔
{10} استنجا خانے میں جانےکیلئے اصل مالک کی اجازت کے بغیر کسی کے چپّل مت پہنئے(کسی اور سے چپل مانگنے سے بھی بچیں)۔
{11} اعتکاف کے دوران جہاں تک ہو سکے اپناوَقت، قرآنِ پاک صحیح طرح پڑھنا سیکھنے، نماز کے مسائل سمجھنے، علمِ دین حاصل کرنے، سنّتیں جاننے، دُعائیں یاد کرنے، عُلَمائے اہلسنّت کی کتابوں کو پڑھنے، قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے، مکمل تروایح کے ساتھ ساتھ نفل نمازیں پڑھنے، ذِکرو دُرود کرنے میں گزارئیے( معتکف ایسے بھی ہوتے ہیں کہ قرآنِ پاک صحیح پڑھنا نہیں آتا لیکن صبح و شام تلاوت کر رہے ہوتے ہیں، اسی طرح کئی معتکف نماز کے مسائل جاننے میں کمزور ہوتے ہیں مگر بہت زیادہ نفل نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ایسوں کو چاہیے کہ تلاوت اور نماز کے ساتھ ساتھ کسی صحیح قاری سے درست طریقے سے قرآنِ پاک پڑھنا اور کسی عاشقِ رسول عالم صاحب(یا کسی ایسے سمجھدار(sensible) مبلغ سے جو سُنی عالم صاحب کی کتابوں سے مسائل پڑھ کر سناتے ہوں، پڑھنا اچھا آتا ہو اور اپنی طرف سے کچھ بھی نہ بتاتے ہوں) سے نماز کے مسائل سیکھیں)۔
{12} خوب خوب قرآنِ پاک کی تلاوت کیجئے مگر یہ مسئلہ یاد کر لیں ،جیسا کہ بہارِ شریعت جلد1 صفحہ552 پر مسئلہ53 ہے: ’’مجمع میں(یعنی مل کر بیٹھے ہوئے) سب لوگ اونچی آواز سے(قرآنِ پاک ) پڑھیں یہ حرام ہے۔ اگر کچھ لوگ پڑھنے والے ہوں تو حکم ہے کہ آہستہ پڑھیں‘‘ ۔ (مُلخصاً)
{13}دوسرے مُعْتَکِفِین کے حقوق(rights) کا بھی خیال رکھئے، اُن کی خدمت اپنے لئے سعادت سمجھئے، اُن کی ضروریات (needs)پوری کرنے کی کوشش کیجئے۔
{14}جب29رَمَضانُ الْمُبارَک کوعیدکے چاندکی خبرسنیں یا30 رَمضان شریف کاسورج ڈوب جائے تو اعتکاف پورا ہوجانے کی وجہ سے مسجد سے ایسے مت جایئے جیسے قید(imprisonment) سے نکل گئے، بلکہ ہونایہ چاہیے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے جانے کی خبر سنتے ہی دل غم (grief)میں ڈوبنے لگے کہ آہ !محترم مہینا چلاگیا، خوب رورو کر رمضان کے مہینے کو اَلوَداع کیجئے۔
{15}اعتکاف ختم ہونے پر خوب روروکر اللہ کریم سے اپنی غلطیوں اور مسجِد کی بے اَدبیوں سے مُعافی مانگیئے، دنیا بھر کے معتکفین کے اعتکاف قبول ہونے اور ساری اُمَّت کی مَغْفِرَتْ کی دعا کیجئے۔
{16}آپس میں ایک دوسرے سے حق تلفیاں(violation of rights) مُعاف کروایئے۔
{17} امام صاحِب، مُؤذِّن صاحب اورخادم صاحب سے بھی غلطیوں کی مُعافی مانگیئے اور ہو سکے توکچھ نہ کچھ رقم ، احترام (respect) کے ساتھ تحفے میں انہیں دےکر کے ان کا دل خوش کیجئے۔ مسجد کی انتظامیہ(یعنی کمیٹی وغیرہ) کا بھی شکریہ اداکیجئے۔
{18}اعتکاف میں مسجد کی بجلی اضافی (extra) استعمال ہوتی ہے لہٰذا مشورہ ہے کہ ہر معتکف مسجد کے چندے کے لیے کچھ نہ کچھ رقم، مسجد کی انتظامیہ(یعنی کمیٹی) کو پیش کریں۔ (فیضانِ رمضان۲۶۱ تا ۲۶۵ بالتغیر)

اعتکاف میں ان باتوں کی اجازت ہے:

{19}کھانا،پینا اورسونا ۔
{20}ضرورۃًدُنیوی بات چیت کرنا (مگرآہستہ آواز میں اورفالتوباتیں ہر گز مت کیجئے) ۔
{21}مسجِد میں(پردے وغیرہ کے ساتھ) کپڑےبدلنا،عطرلگانا ،سریاداڑھی میں تیل ڈالنا۔
{22} مسجِد میں اُجرت(wages) کے بغیرقرآنِ کریم یاعلمِ دین پڑھنا، پڑھانا یا سنّتیں اور دُعائیں سیکھنا ، سکھانا ۔ ان باتوں کے علاوہ (other)بھی ہروہ کام کہ جو نہ تواعتکاف توڑتے، نہ منع ہو بلکہ جائز ہو، نہ اس سے مسجدکی بے حرمتی(desecration) ہوتی ہو اور نہ کسی عبادت کرنے یا سونے والے کے لئے پریشانی ہوتی ہو ، معتکف کیلئے جائز ہے ۔(فیضانِ رمضان ۲۵۷،۲۵۸مُلخصاً)

’’اعتکاف میں دینی کام ‘‘

ہمارےآخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے مُعتکف کے بارے میں فرمایا:

وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکیوں سے اُسے اتنا ثواب ملتا ہے جیسے اُس نے تمام نیکیاں کیں۔(شعب الإیمان، الحدیث، ۳۹۶۶، ج۳، ص۴۲۵)

واقعہ(incident): حضرت امير معاويہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی مسجد میں اعتکاف کرتے تھے

حضر ت مالک بن دينار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (شہر) دمشق ميں رہتے تھے اور حضرت امير معاويہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی بنائی ہوئی مسجد ميں اعتکاف کيا کرتے تھے ۔ايک مرتبہ ان کے دل میں خيال آيا کہ کاش ! (I wish) اس مسجد کا سارا نظام (system)میرے ہاتھ میں آجائے۔اب آپ نے اعتکاف اور نمازوں کا وقت مسجد میں زیادہ کر دیاليکن کسی نے آپ کے بارے میں کوئی بات نہ کی ۔ ایک (1)سال اسی طرح گزر گیا۔ ایک مرتبہ آپ مسجد سے باہر آئے توآواز آئی :اے مالک !تجھے اباللہ کریم کی طرف توجُّہ(attention) کرنی چاہيے ۔

یہ سن کر آپ کو افسوس ہوا اور آپ نے اپنے دل سے مسجد کا خیال دور کر کےاللہ کریم کی عبادت شروع کر دی۔ صبح کے وقت مسجد کے دروازے پر کئی لوگ کھڑے تھےاور آپس ميں کہہ رہے تھے کہ: مسجد کا انتظام (management)ٹھيک نہيں ہے لہذا اسی شخص کو مسجد کا نظام (system) دے دو ۔ اب سب مل کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس آئے، آپ نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے نماز مکمل کی تو لوگوں نے عرض کی کہ : ہم مسجد کا انتظام آپ کو دینا چاہتے ہيں۔ یہ سن کرآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اللہ کریم سے عرض کی :اے اللہ! ميں ايک سال تک عبادت کرتا رہا اور جو میں چاہتا تھا ایسا نہ ہوا، اب جب میں نے تیری طرف توجُّہ (attention) کر لی تو یہ لوگ مجھے مسجد کا انتظام (management)دینا چاہ رہے ہیں،ليکن ميں تير ی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب نہ تو میں مسجد کا نظام (system)دیکھوں گا اور نہ مسجد سے باہر نکلوں گا ۔يہ کہہ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پھر عبادت شروع کر دی ۔ (تذکر ۃ الاولياء،ج ۱ ،ص ۴۸ ،۴۹ بالتغیر) مسجد میں ہونے والےچند کاموں کے دینی مسائل:

مسجد میں ہونے والےچند کاموں کے دینی مسائل:

{1} تلاوت، نعت و بیان میں، اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ نمازیوں کی نماز میں کوئی پریشانی نہ ہو ۔

{2}نمازی کے قریب نعت وغیرہ پڑھنا منع ہے۔ فتاوی رضویہ میں ہے:جہاں کوئی نماز پڑھتا ہو یا سوتا ہو کہ بآواز پڑھنے سے اس کی نماز یا نیند میں خلل آئے(یعنی پریشان ہو) گا وہاں قرآن مجید و وظیفہ ایسی آواز سے پڑھنا منع ہے(جس سے پریشانی ہو)، مسجد میں جب اکیلا تھا اور(تلاوت، نعت شریف یا وظیفہ) بآواز پڑھ رہاتھا جس وقت کوئی شخص نماز کے لئے آئے فوراآہستہ ہوجائے۔(فتاوی رضویہ ،ج۸،ص:۱۰۰،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

{3}مسجدوں میں کچھ جگہ نماز کے فوراً بعد محفلوں کا سلسلہ ہوتا ہے، کبھی شروع میں مائیک پر تلاوت یا مل کر ذکر یا مل کر کلام پڑھ جاتا ہےاور دوسری طرف لوگ سنّتیں وغیرہ پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ تلاوت،ذکر، کلام ا وردعا ثواب کے کام ہیں لیکن اگر نماز کے بعد اس کی ترکیب ہو تو یہ اطمینا ن کر لیا (ensure) جائے کہ کہیں لوگ نماز تو نہیں پڑھ رہے ؟ جب تک لوگ نماز پڑھ نہ لیں اس وقت تک مائیک پر تلاوت و کلام، مل کر ذکر اور دعا شروع نہ کی جائیں تاکہ نمازیوں کونماز میں پریشانی نہ ہو ۔سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں : بیشک ایسی صورت میں اسے جہر (یعنی بلند آواز)سے (ذکر وغیرہ کو)منع کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے کہ یہ نہی عن المنکر(یعنی برائی سے روکنا ) ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ، ج۸،ص۹۹،مکتبہ رضویہ،مُلخصاً)

{4} مسجد یا فنائے مسجد میں اپنا سامان (مَثَلًا بیگ، رضائی(thick blanket) وغیرہ) رکھنے میں ، اس بات کا خیال رکھیں کہ نہ تو نماز پڑھنے والوں کو پریشانی ہو ،نہ ہی نماز پڑھنے کی جگہ کم ہو اور نہ ہی سامان کی وجہ سے صف نامکمل ہو (بلکہ صف کے آخر میں بھی نہیں رکھ سکتے کہ صف مکمل کرنے میں رکاوٹ(obstruction) ہوگی)۔(مسجد کے آداب، افتاء مکتب، لاہور،مُلخصاً))

{5}مسجد میں کبھی کئی(many) حلقے لگتے ہیں(یعنی چند اسلامی بھائی ایک مُبلّغ (یعنی عُلمَائے اہلسنّت کی کتابوں سے دیکھ کر بیان کرنے والے اسلامی بھائی) کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور چند دوسرے مُبَلِّغ کے ساتھ بیٹھتے ہیں)،ان میں ہردو(2)حلقوں کےدرمیان اتنا فاصلہ(gap) ہو کہ دونوں حلقوں کے مبلغین کی آوازیں آپس میں نہ ٹکرائیں(یعنی پہلے حلقے کے مُبَلِّغ کی آواز دوسرے حلقے والوں کو پریشان نہ کرے اسی طرح دوسرے حلقے کے مُبَلِّغ کی آواز پہلےحلقے والوں کو پریشان نہ کرے) اور ہر حلقے کے اسلامی بھائی اپنے مُبَلِّغ کی آواز صحیح طرح سُن سکیں تاکہ دینی مسائل وغیرہ سمجھنے میں غلطی نہ ہو۔

{6}اسی طرح اگر کوئی سورہا ہے یا قرآنِ پاک پڑھ رہا ہے تو ان کے قریب یہ حلقے نہ لگائے جائیں کہ اس سے ان کے آرام و عبادت میں پریشانی ہوگی ۔

{7}نماز کے احکام یا فیضان سنّت میں موجود دینی مسائل، مُبَلِّغ بھی پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ اگر کوئی کسی مسئلے پر سوال کرے تومُبَلِّغ بلکہ کوئی بھی اسلامی بھائی اپنی طرف سے جواب نہ دے اور دارلافتاء اہلسنت فون کرنے کا کہہ دے کیونکہ علم کے بغیر ،شرعی اور دینی مسائل کا جواب دینا ناجائز و گناہ ہے ۔( 16ذوالحجۃ الحرام1440ھ، 18اگست 2019ء۔افتاء مکتب دعوتِ اسلامی،مُلخصاً)

{8}کچھ جگہوں پر فجر کی نماز کے بعد کلام یا شجرے وغیرہ پڑھنے کا سلسلہ اس طرح ہوتا ہے کہ سب اسلامی بھائی مل کر پڑھتے ہیں۔اس طرح پڑھتے وقت تلاوت کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کہیں اونچی آواز کی وجہ سےان کی (بلکہ کسی ایک کی بھی) تلاوت و نماز میں کوئی پریشانی نہ آئے ۔سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فتاوی رضویہ میں’’بعد نماز ذکرکرنے‘‘ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: دوسرے مسلمانوں کی ایذا (یعنی تکلیف) نہ ہونے کا لحاظ لازم ہے، سونے والوں کی نیند میں خلل(یعنی فرق) ،اورنمازیوں کی نماز میں تشویش (یعنی پریشانی)نہ ہو۔(فتاوی رضویہ ،ج۲۳،ص،۹۷۱،رضا فاؤنڈیشن لاہور)(ہفتہ وار اجتماع کے شرعی مدنی پھول ،27نومبر 2018۔افتاء مکتب، دعوتِ اسلامی،مُلخصّاً) فجر کی نماز کے بعد کلام یا شجرہ شریف وغیرہ میں مائیک کا استعمال تو بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

{9}اعلان وغیرہ کی ترکیب اس انداز (style)سے کرنا جس سے کسی نمازی کو پریشانی ہو یا سو نے والے کو تکلیف پہنچے، گناہ ہے (مسجد میں نعرے لگانے اور مائک استعمال کرنے میں سخت احتیاط (caution)کی ضرورت ہے) ۔

{10} مسجد میں ایسے شعر پڑھنا جن میں عشق اور فسق(بے حیائی وغیرہ) کی باتیں ہوں، ناجائز ہے ۔( 16ذوالحجۃ الحرام1440ھ، 18اگست 2019ء۔افتاء مکتب دعوتِ اسلامی مُلخصاً)

{11}کبھی مسجد میں جماعت کے ساتھ تَہَجُّد یا مُختلف (different) نفل نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔نفل نمازیں پڑھنا (یا لوگوں کو نفل نمازوں کے قریب بلانے کے لیے، اس کی جماعت کرنا)،ذکر وتلاوت وغیرہ کرنا سب بہترین اعمال اور عبادت کے کام ہیں لیکن یہ تمام کام کرتے وقت آس پاس سونے والے اسلامی بھائیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کہیں اس طرح کی نفل عبادت کی وجہ سے ،سونے والوں کی نیند میں پریشانی نہ آئے ۔بہتر یہ ہے کہ مسجد کے کچھ حصّے (part)کو عبادت کرنے والوں کیلئے خالی رکھا جائے تاکہ جس نے رات میں جو عبادت کرنی ہے وہ وہاں جا کر عبادت کر سکےمگر (اس حصّے کی لائٹ چلانے میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ دوسروں کی نیند خراب نہ ہو۔ہاں! اگر مسجد کا پورشن بلکل الگ ہے کہ وہاں کی روشنی سونے والوں کے پورشن میں نہیں جاتی تو لائٹ چلا سکتے ہیں ) ہر اُس کام سے بچیں کہ جس سے دوسروں کو تکلیف ہو(مثلاً مائیک چلانا یا مل کر مناجات کرنا وغیرہ ) ۔

امامت:

{12}جماعت سے جب بھی نماز پڑھنی ہو(وہ نماز فرض ہو یا نفل)، ان باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
1۔بد مذہب و بد عقیدہ (غیر اسلامی عقیدے رکھنے والا مثلاً جو یہ کہے: اﷲ کریم جھوٹ بول سکتا ہے(مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ کریم ہمیں اس سے بچائے) یا جو یہ کہے: انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام مرکے مٹّی میں مل گئے (مَعَاذَاللہ!)، ایسے)امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
2۔فاسق مُعْلِن (یعنی علی الاعلان ( سب کے سامنے)کبیرہ اور بڑےگناہ کرنے والے) کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
3۔جو قرآت میں لحن جلی کی غلطیاں (یعنی جس کی وجہ سے قرآنِ پاک پڑھنے والا گناہ گار ہو)کرتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ۔یونہی نابالغ کے پیچھے بالغ(grown-up) كا نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
4۔جسمانی معذور(physically handicapped)کےپیچھےنمازپڑھی جا سکتی ہے جبکہ اس میں کوئی اور ایسی خرابی نہ ہو کہ وہ امامت نہ کراسکتا ہو(یعنی اس میں امامت کی شرطیں (preconditions) پائی جاتی ہوں)۔

’’اعتکاف توڑنے والی چیزیں‘‘

حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ :

ایک مرتبہ میرے والدصاحب حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سےعرض کیا: یَارَسُول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ! میں نے ایمان لانے سے پہلے نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا، کیا میں اپنی نذر پوری کروں ؟ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:ہاں ! اپنی نذر پوری کرو۔ )بخاری ،کتاب ا لاعتکاف،ج۱، ص۶۶۶، حدیث:۲۰۳۲(

واقعہ(incident): کیا آپ اعتکاف بھول گئے؟

حضرت عبدُ اللّٰہ ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے مدینہ پاک کی مسجِدِ نَبَوِیِّ الشَّریف میں اعتکاف کیا ہوا تھا۔ ایک پریشان شخص آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے پاس حاضر ہوا اوراُس نے عرض کی:اے رَسُول اللہ کے چچا کے بیٹے!فلاں آدمی کا مجھ پر حق (یعنی قرض (loan)وغیرہ)ہے اورمیں اُسے دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔حضرت عبد اللّٰہ ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے فرمایا: کیا میں تمہاری سفارش(recommendation) کروں ؟اُس نے عرض کی: جس طرح آ پ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ بہتر سمجھیں ۔یہ سن کر حضرت عبد ُاللّٰہ ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فوراً مسجدسے باہرنکل آئے ۔ یہ دیکھ کر وہ شخص عرض کرنے لگا : حضور!کیاآپرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہاپنا اعتکاف بھول گئے ؟ فرمایا:اعتکاف نہیں بھولا پھر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَ

اعتکاف توڑنے والی باتیں:

{1} اعتکاف واجب میں مُعتکف کو مسجد سے شرعی اجازت کےبغیر نکلنا حرام ہے، اگر نکلاتو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اگر بھول کر نکلا تب بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ یوہیں (رَمضانُ المبارَک کے آخری عشرے کے) سنّت اعتکاف میں بھی شرعی اجازت کے بغیر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔(بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۰۲۳)
{2} مسجدسے نکلنااُس و قت کہاجائے گا جب پاؤں مسجد سے اس طرح باہر ہوجائیں کہ اسے عرفاً(یعنی عام طور پر)مسجدسے نکلنا کہا جا سکے۔ اگر صرف سرمسجدسے نکالا تو اس سے اِعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (اَلْبَحرُالرَّائِق ج۲ص۵۳۰)
{3} شرعی اجازت سے باہرنکلے،کام ہونے کے بعد اگرایک لمحے (one moment)کیلئے بھی باہررُک گئے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
{4} اعتکاف میں روزہ شرط (precondition) ہے،اِس لئے روزہ ٹوٹ جانےسے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتاہے۔ چاہےیہ روزہ جان بوجھ کر(deliberately) توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹاہو،ہرصورت (case) میں اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔ اگر بھول کرکچھ کھاپی لیا، تونہ روزہ ٹوٹا نہ اِعتکاف۔
{5} استنجاء خانہ(toilet) مسجِدسے باہر تھا، مُعتکف وہاں گیا اورقرض خواہ (borrower)نے روک لیا، تواعتکاف ٹوٹ گیا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۱۲)
{6}بے ہوشی(unconsciousness) یا پاگل پن(madness) اگر بہت دیر تک ہوں کہ روزہ نہیں رکھ سکتا تو اعتکاف ٹوٹ گیا اور اس اعتکاف کی قضا واجب ہے، چاہےکئی سال کے بعد صحت یاب(healthy) ہو۔ (اَیضاًص۲۱۳)
{7}معتکف مسجِدہی میں کھائے پئےاور سوئے،ان کاموں کیلئے مسجِدسے باہر جائے گا تو اِعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ (اَلْبَحْرُالرَّائِق ج۲ص۵۳۰)
{8}کھانالانے والاکوئی نہیں توپھر اپنا کھانالانے کیلئے مُعتکف خودباہرجاسکتا ہے ، لیکن کھانا مسجِد ہی میں کھانا ہوگا۔
{9}بیماری کے علاج کیلئے مسجدسے نکلے تو اِعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
{10}نیند کی حالت میں چلنے کی بیماری ہواور نیند میں چلتے چلتے مسجِدسے نکل جائے تو بھی اِعتکاف ٹوٹ گیا۔
{11}اگر ڈوبنے یا جلنے والے کو بچانے کے لیے مسجد سے باہر گیا یا بیمار کی عیادت(visit) یا نمازِ جنازہ کے لیے گیا، چاہے کوئی دوسرا پڑھنے والا نہ ہو تب بھی ان سب صورتوں (cases)میں اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۰۲۵)(فیضانِ رمضان۲۵۲ تا ۲۵۴ مُلخصاً)

’’اعتکاف قضا کرنے کا طریقہ‘‘

حضرت اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں:

ایک عمل ایسابھی ہےجس کاثواب گنا(count)نہیں جاسکتا،وہ اعتکاف ہےاور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَمَضان شریف کے آخری دس (10)دنوں کا اعتکاف فرمایاکرتے تھے۔ (ابن ماجہ، کتاب الصیام، ۲ / ۳۶۳، حدیث: ۱۷۷۹)

واقعہ(incident): رمضان کے آخری جُمُعَے کابیان

ایک بزرگ(یعنی نیک آدمی) رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رَمَضان کے آخری جُمُعہ کے دن اللہ کریم کے نیک بندے حضرت منصور بن عمّار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس گئے تووہ رَمضان شریف کے روزوں اور راتوں کی عبادت کےثواب کے بارے میں بتا رہے تھے پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اے لوگو! کیا یہ توبہ کا مہینا نہیں ؟ کیا یہ معافی (forgiveness)ملنے کا مہینا نہیں ؟ کیا اس پیارے مہینےمیں جنّت کے دروازے نہیں کھولے جاتے؟ کیا اس میں جہنَّم کے دروازے بند نہیں کئے جاتے؟ کیا اِس میں شیطانوں کو بند(imprisoned) نہیں کیاجاتا؟ توتمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اتنے بڑے ثواب سے دور ہو اور نیک کام کرنے کی جگہ گناہ کرتے رہتے ہو۔ اللہ کریم سےتوبہ کرو! یہ سنتے ہی سب لوگ زور زور سے رونے لگے۔ایک جوان روتا ہوا کہنے لگا: یہ بتائیں کہ کیا میرے روزے قبول (accepted)ہوئے ؟ کیا میرارمضان کی راتوں میں عبادت کرنا ( مثلاًنماز اور تراویح پڑھنا، قرآن پاک کی تلاوت کرنا یاسُننا)قبول ہوا؟ اور مجھ سے تو بہت سارے گناہ بھی ہوئے ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اے لڑکے! اللہ کریم سے توبہ کرو، کیونکہ اُس نے قرآنِ پاک میں اس کا حکم (order)دیا ہے۔یہ سن کراُس نے زور سے چیخ ماری(scream) اور کہا: اللہ کریم کا اِحسا ن (favour)مجھ تک پہنچتا رہا لیکن پھر بھی میں گناہ کرتا رہا، پھر اُس نے دوبارہ چیخ ماری اور وفات پا گیا۔ (اَلرّوضُ الفائق ص۴۵، مُلخصاً)

اعتکاف کی قضاء:

{1}رَمَضان شریف کے آخری عشرے (یعنی اکیس(21st ) رمضان سے مہینے کے آخر تک)کا سنّت اِعتکاف ٹوٹ گیا تو صرف اُس ایک دن کی’’قضا ‘‘ لازم ہے جس دن اِعتکاف ٹوٹا ہے۔

{2} ’’اعتکاف قضا کرنےکا طریقہ‘‘ یہ ہے کہ کسی دنسورج ڈوبنے(sun set یعنی مغرب کی نماز شروع ہونے)کے وقت بلکہ احتیاط (caution)اس میں ہے کہ چند منٹ پہلے اعتکاف قضا کرنےکی نیّت سے مسجد میں آجائے۔ اب پوری رات مسجد میں رُکے، صبح روزہ رکھے ( کیونکہ اعتکاف کی قضا میں بھی روزہ رکھنا شرط (precondition)ہے) اور یہ پورا دن مسجد میں گزارے یہاں تک کہ سورج ڈوبنے (sun set) کا وقت مکمل کرلے (اب مسجد میں اذان اور جماعت سے نماز کا سلسلہ ہوگا لھذا جماعت سے نماز پڑھ کر ہی مسجد سے جائے)۔

{3}اگر رَمضان شریف کا مہینا ختم نہیں ہوا، چاہے ایک (۱)دن ہی باقی ہے اور اعتکاف ٹوٹ گیا(مثلاً 28 رمضان کو یا اس سے پہلے)، تو رمضان کے جو دن باقی ہیں، اُن میں بھی اِسی سال کے اعتکاف کی قضا ہو سکتی ہے(بلکہ مُعتکف کو ایسا ہی کرنا چاہیے کہ 21 رمضان سے 28رمضان تک جب بھی اعتکاف ٹوٹے، فوراً دوسرے دن اعتکاف کی قضا کرلے اور اس کے بعد نفل اعتکاف کی نیّت کے ساتھ، رَمضان شریف کا مہینا ختم ہونے تک اعتکاف ہی میں رہے)۔

{4}اعتکاف کی قضا رمضان المبارک میں کرنا ہی ضروری نہیں ، پورے سال میں ان پانچ (۵)دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے: (۱) شوال کی پہلی(یعنی چھوٹی عید ) اور(۵،۴،۳،۲) ذِی الحجہ(یعنی بڑی عید) کی دسویں سے تیرھویں (10,11,12,13) تاریخ۔ ان پانچ (5)دنوں میں روزے رکھنامکروہِ تحریمی، ناجائز اور گناہ ہیں جبکہ اعتکاف کی قضا میں روزہ رکھنا شرط (precondition) ، لازم اور ضروری ہے، اس لیے ان دنوں (days)میں اعتکاف کی قضا نہیں ہوسکتی۔

{5}اگراِعتکاف کسی شرعی اجازت کی وجہ سے توڑا تھا یا بھولے سے ٹوٹ گیا تھاتوگناہ نہیں اور اگر جان بوجھ کر(deliberately) شرعی اجازت کے بغیر توڑاتھاتویہ گناہ ہے لہٰذاقضا کے ساتھ ساتھ توبہ بھی کیجئے۔

زندگی میں اگراعتکاف کی قضاء نہ کی تو!:

{6}کسی کا اعتکاف ٹوٹ گیا اور اس کے بعد کچھ دن زندہ رہا جس میں اعتکاف کی قضا کرسکتا تھا مگر موت کا وقت آپہنچا (مثلاً ایسی بیماری آگئی کہ اب زندہ رہنے کی اُمید(hope) نہ رہی)تو وارِثوں (یعنی ایسے قریبی رشتہ داروں کو جنہیں مرنے والے شخص کے مال میں سے حصّہ(part) ملے گا )کو وصیّت کرنا(یعنی یہ کہہ دینا) واجب (اور لازم)ہے کہ وہ (میرے مرنے کے بعد، میرے مال سے)اِس اِعتکاف کے بدلے فِدْیَہ (یعنی صدقہ) ادا کر دیں۔

{7}اگر(مرنے والے نے) وصیّت نہ کی(یعنی اس طرح صدقہ دینے کا نہ کہا) اور وارِثوں (یعنی قریبی رشتہ داروں )نے فِدْیَہ(یعنی اعتکاف قضاء ہونے کا صدقہ) دینےکی اجازت دے دی توبھی فِدْیَہ ادا کرنا جائز ہے (جبکہ ان میں کوئی نابالغ بچّہ یا بچّی (جو بالغ(grown-up))نہ ہو)۔ ( عالمگیری ج ۱ ص ۲۱۴ )

{8} ’’اعتکاف کا فِدْیَہ دینےکا طریقہ ‘‘ یہ ہے کہ (۱)اعتکاف کے فِدْیَےکی نیّت سے (۲)کسی ایسے شخص کو کہ جسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہو (۳)صَدَقۂ فطر(مَثَلاً 2کلو میں 80 گرام کم(یعنی1کلواور 920 گرام) گیہوں (wheat)یا اُس کی رقم (amount)) دے دے۔ (فیضانِ رمضان۲۵۸-۲۵۹ مُلخصاً)

’’ صدقۂ فطر‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جب تک صَدَقَۂِ فِطْر ادا نہیں کیا جاتا، بندے کا روزہ زَمین و آسمان کے درمیان مُعلَّق (یعنی لٹکا ہوا ) رہتاہے۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۳۹۵حدیث۳۷۵۴)

واقعہ(incident): صدقۂ فطر چوری کرنے والے

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مجھےصدقۂ فطر کی حفاظت کرنے کا حکم فرمایا۔ ایک آنے والا آیا اور اُس مال میں سے چوری کرنے لگا، میں نے اسے پکڑلیااور یہ کہاکہ تجھے حضورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس لے کر جاؤنگا۔ کہنے لگا، میں بَچّوں والا ہوں، مجھےسخت ضرورت تھی تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے چھپی ہوئی بات کے بارے میں پوچھتے ہوئے فرمایا: (اے)ابوہریرہ !تمہارے رات کے قیدی (prisoner)کاکیا ہوا؟ میں نے عرض کی، یَارَسُولَ اﷲصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ!اس نے سخت ضرورت اور بَچّوں وغیرہ کا کہا تو مجھے رحم(mercy) آگیا،لھذا میں نے چھوڑ دیا۔ ارشاد فرمایا:اُس نے تم سے جھوٹ بولا اور وہ پھر آئے گا۔
میں نے سمجھ لیا وہ پھر آئے گا، کیونکہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرما دیا ہے۔میں اس کے انتظار (waiting) میں تھا وہ آیا اور چوری کرنے لگا، میں نے اسے پکڑ لیا اور یہ کہا تجھے اﷲ کریم کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس لے کر جاؤنگا۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو، میں ضرورت مند(needy) ہوں، بَچّوں والا ہوں، اب نہیں آؤں گا۔ مجھےپھر رحم آگیا، اسے چھوڑ دیا صبح ہوئی تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پھر فرمایا:ابوہریرہ تمہارے قیدی (prisoner) کا کیا ہوا؟ میں نے عرض کی :اس نے سخت ضرورت اور بَچّوں وغیرہ کا کہا تو مجھے رحم(mercy) آگیا،لھذا میں نے چھوڑ دیا۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اُس نے تم سے جھوٹ بولا اور وہ پھر آئے گا۔ میں اس کے انتظار (waiting)میں تھا وہ آیا اور چوری کرنے لگا، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا:تجھے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس لے کر جاؤنگا ، تین (3)مرتبہ ہوچکاہے، تو کہتا ہے نہیں آئے گا پھر آجاتا ہے۔ اس نے کہامجھے چھوڑ دو، میں تمھیں ایسے کلمات(یعنی الفاظ) سکھاتا ہوں جن سے اﷲ کریم تم کو فائدہ دے گا، جب تم بستر(bed) پر جاؤ تو آیت ُالکرسی(یعنی اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوۡمُ(پ۳،سورۃ البقرۃ،آیت ۲۵۵)مکمل) پڑھ لو، صبح تک اﷲ کریم کی طرف سے تم پرحفاظت کرنے والاہوگا اور شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا۔ میں نے اسے چھوڑ دیا جب صبح ہوئی، حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:تمہارےقیدی (prisoner) کاکیا ہوا؟ میں نے عرض کی، اس نے کہا کہ چند کلمات(یعنی الفاظ) تم کو سکھاتا ہوں، اﷲ کریم تمہیں ان سےفائدہ دے گا۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:یہ بات اس نے سچ کہی، ویسے وہ بڑا جھوٹا ہے۔ تمھیں معلوم ہے کہ تین (3)راتوں سےتم سے بات کرنے والا کون ہے؟ میں نے عرض کی نہیں۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ وہ شیطان ہے ۔ (صحیح البخاري،کتاب الوکالۃ،الحدیث:۲۳۱۱،ج۲،ص۸۲، مُلخصاً)

صدقۂ فطر :

{1} رمضان شریف میں روزے رکھے جاتے ہیں، ان روزوں میں ہونے والی کمی کو دور کرنے کے لیے صَدَقَۂِ فِطْر دیا جاتا ہے کیونکہ نیکیوں سے گناہ مُعا ف ہوتے ہیں اور دوسرا اس سے غریبوں کو آسانی ہوتی ہے کہ انہیں پیسے ملتے ہیں۔(مراۃ ج۳،ص۴۳سوفٹ ائیر، ماخوذاً)
{2} صَدَقَۂِ فِطْر ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو ’’صاحب نصاب ‘‘ ہوں ۔(ماخوذ از عالمگیری ج۱ص۱۹۱)
{3}’’صاحب نصاب ‘‘ وہ ہے جس کے پاس ساڑھے سات(7.5) تولہ (87.48grams) سونا (gold) یا ساڑھے باوَن(52.5) تولہ(612.36grams) چاندی(silver) یا اتنی چاندی کی رقم (amount)یا اتنی رقم کامال (wealth )یا سامان ہو۔
{4} صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہونے کے لیے ’’صاحب نصاب ‘‘ کے پاس موجودمال وغیرہ ’’حاجاتِ اَصلیہ ‘‘ کے علاوہ (other)ہونا چاہیے (ماخوذ از عالمگیری ج۱ص۱۹۱) ۔’’حاجاتِ اَصلیہ ‘‘ یعنی زندگی کی ضرورت کا سامان مَثَلاً رہنے کا مکان ، کھانا پکانے کا سامان وغیرہ ۔(فیضانِ رمضان ص ۲۹۸ مُلخصاً)
{5} عِیدُ الْفِطْر (یعنی چھوٹی عید)کی صبح صادِق (یعنی فجر کا وقت شروع)ہوتے وَقت جو صاحبِ نصاب تھا اُسی پر صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ،اگر صبحِ صادِق کے بعد صاحبِ نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔ (ماخوذ از عا لمگیری ج۱ص۱۹۲)

صدقہ فطر کس پر لازم ہے؟ :

{6} کسی کے پاس ساڑے سات(7.5) تولے سے کم سونا ہو(مثلاً سات(7) تولہ سونا ہے)اورضرورت ہی کا سامان ہے۔ایک چیز بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ہے اور ایک روپیہ بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ہے تو اب اس پر نہ زکوۃ ہے، نہ صَدَقَۂِ فِطْر ہے اور نہ قربانی (مگر ایسی صورت بہت مشکل ہے)۔
{7} اگرایک(1) یا آدھا(0.5) تولہ ہی سونا ہے اور اس کے ساتھ دس(10) روپے ہیں یا ضرورت سے زیادہ ایک چادر ہے تو اس سونے اورسامان کی رقم(amount)، مارکیٹ ریٹ(market rate) کے مطابق معلوم کریں گے۔اب سونے اور ضرورت سے زیادہ چیزوں یا پیسوں کے ساتھ مکمل رقم(total amount)، اگر ساڑھے باوَن(52.5) تولہ چاندی(silver) کی رقم کے برابر یا زیادہ ہوتو صَدَقَۂِ فِطْر(اور قربانی کے وقت میں قربانی) لازم ہے۔
{8}اگر کسی پر قرض (loan)ہے اور قرض لینا بھی ہے، کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے،کچھ cash ہے، ایک bond ہے، ایک dollar ہے،ایک مدینے پاک کا riyal بھی ہے،ایک جیکٹextra ہے،ایک mobile بھی extra ہے،ایک scenery frameہے، کچھ برتن صرف سجا کر رکھے ہیں، استعمال نہیں ہوتے تو اب ایسی سب چیزوں کا market rate معلوم کریں اور پیسوں کے ساتھ total amount میں وہ قرض (loan)بھی جمع(plus) کریں جو لینا ہے اور وہ قرض نکال دیں(minusکریں) گے جو واپس کرنا ہے،تو جو رقم(amount) اب بچے گی ، اگر ساڑھے باوَن(52.5) تولہ چاندی(silver) کی رقم کے برابر یا زیادہ ہوتو صَدَقَۂِ فِطْر(اور قربانی کے وقت میں قربانی) لازم ہے۔

صدقۂ فطر کے مسائل:

{9} صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہونے کیلئے ،’’عاقل وبالغ ‘‘(grown-up)ہونا شرط (precondition)نہیں ۔بلکہ بچّہ یا پاگل بھی اگر’’ صاحبِ نصاب ‘‘ہوتو اُس کے مال میں سے اُس کا وَلی (یعنی سرپرست(guardian) مثلاً باپ ، اگر باپ زندہ نہ ہو تو دادا) دے۔ (ردّالْمُحتار ۳ص۳۶۵)

{10} ’’مالک نصاب مرد‘‘پر اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بَچّوں کی طرف سے اور اگر کوئی پاگل اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد کتنی ہی عمر کی ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے۔ہاں! اگر وہ بچّہ یا پاگل خود’’ صاحبِ نصاب‘‘ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فطرہ ادا کردے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۹۲ مُلَخَّصاً)

{11}والد نہ ہو تو دادا جان، والد صاحِب کی جگہ ہیں ۔یعنی اپنے فقیر ویتیم(orphan) پوتے پوتیوں(grand sons n daughters)، کی طرف سے اُن پہ صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجِب ہے۔ (دُرَّمُختار ج۳ص۳۶۸)

{12} ماں پراپنے چھوٹے بَچّوں کی طرف سے صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجب نہیں ۔ ( رَدُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۸)

{13} باپ پر اپنی عاقِل بالِغ اولاد کا فِطْرہ واجِب نہیں ۔(دُ رِّمُختار مع رَدِّالْمُحتار ج۳ص۳۷۰)

{14}کسی صحیح شرعی مجبوری کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکایا مَعَاذَ اللہ !َّ (یعنیاللہ کریم کی پناہ)بغیر مجبوری کے رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے نہ رکھے اُس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت (case) میں صَدَقَۂِ فِطْر واجِب ہے۔ (رَدّالْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)

{15}بیوی کانفقہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) شوہر پر ہےیا بالغ اولاد جن کانفقہ باپ دیتا ہے، تو باپ اگر اِن سب کی اجازت کے بغیر ہی اِن کا فطرہ دے دے تو ادا ہوجائے گا ۔ہاں! اگر نفقہ اُس کے ذِمے نہیں ہے مَثَلاً بالِغ بیٹے نے شادی کرلی اور گھر الگ چلا رہا ہے اور اپنا گزارہ خودہی کرلیتا ہے تو اب اپنے نان نفقے(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ ) کا خود ہی ذِمے دار ہوگیا۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے باپ نے اجازت لیے بغیر فطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔

{16} شوہر نےبیوی کو نہ کہا بلکہ بیوی نے خود ہی شوہر کا فطرہ دے دیا، فطرہ ادا نہ ہوگا۔(بہار شریعت ج۱ص۳۹۸ مُلَخَّصاً)

{17}صَدَقَۂِ فِطْر دینے کا اَفضل اور بہتر وَقت یہ ہے کہ عید کی صبح(morning)، عید کی نماز پڑھنے سے پہلے پہلے دے دیا جائے۔اگر چاند رات یا رَمضان شریف کے کسی بھی دِن بلکہ رَمَضانُ الْمُبارَک سے پہلے بھی کسی نے دے دیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (اَیضاً)

{18}اگر عید کا دِن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ دینا ہوگا۔(اَیضاً)

{19}جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کوفطرہ بھی نہیں دے سکتے۔ (اَیضاًص۱۹۴

{20}سیّد صاحبان کو صَدَقَۂِ فِطْر نہیں دے سکتے کیوں کہ یہ بنی ہاشم میں سے ہیں (اور بنی ہاشم میں کسی کو بھی زکوۃ نہیں دی جاسکتی)۔ بنی ہاشم ان پانچ لوگوں کی اولاد کو کہتے ہیں (۱) حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ،(۲) حضرت جعفر رَضِیَ اللہُ عَنْہ ،(۳)حضرت عقیل رَضِیَ اللہُ عَنْہ ،(۴) حضرت عباس بن عبد المطلب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا ا ور(۵) حارث بن عبدالمطلب (کی اولاد) ۔( بہارِ شریعت جلد۱، ص۹۳۱، مُلخصاً)

{21}(۱) نابالغ اگر صاحب نصاب تھا اور اُس کے والد صاحب نے فطرہ ادا نہ کیا تو بالغ (grown-up)ہونے کے بعد وہ خود دے گا(۲) اگر صاحب نصاب نہ تھا اس پر صدقہ فطر دینا واجب نہیں(اپریل، 2023،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً) لیکن(۳) جو روزے نابالغ بچّے نے رکھ کر توڑ دیے تھے، اُن کی قضا بالغ ہونے کے بعد بھی لازم نہیں۔(مارچ، 2023،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً)

صدقۂ فطر کتنا ہے؟ :

{21} صَدَقۂ فطر کی ایک صورت (case) یہ ہے کہ2کلو میں 80 گرام کم(یعنی1کلواور 920 گرام) گیہوں (wheat)یا اُس کی رقم (amount) دینا (فیضانِ رمضان۲۹۸-۳۰۲ مُلخصاً) ۔اس کے علاوہ(other) بھی صَدَقۂ فطر کی صورتیں (case) ہیں مثلاً جَو(barley)، کھجور،کشمش(raisin)4کلو میں 160 گرام کم(یعنی3کلواور 840 گرام)۔

{22} صَدَقۂ فِطْر میں بھی اُس جگہ کا اعتبار کیا جائے گا جہاںوہ رہتا ہے یعنی اگر کوئی شخص مدینے شریف میں رہتا ہے اوراپنا صَدَقۂ فِطْر پاکستان میں دینا چاہتا ہے تو ( چاہے وہ صَدَقۂ فِطْر بیرونِ مُلک کرنسی میں دے یا بیرونِ مُلک کرنسی کے اعتبار سے پاکستانی کرنسی میں دے، لیکن) مدینے شریف کے صَدَقۂ فِطْر کی رقم کا حساب کرے گا(مثلاً مدینے پاک میں صَدَقۂ فِطْر دس(10) ریال بن رہا ہو اور پاکستان میں سو(100) روپے۔ ایک شخص مدینے پاک میں رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان میں صَدَقۂ فِطْر دے تو اب پاکستانی سو(100) روپے ، پاکستان میں نہیں دے گا بلکہ پاکستان میں جو رقم دس(10) ریال کی بن رہی ہوگی ، اتنے پاکستانی روپے صَدَقۂ فِطْر میں دے گا)۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۳۵،مُلخصاً)

’’عید کا دن اورتکبیرِ تشریق ‘‘

حدیث شریف:

ایک مرتبہ عید کے دن بارش ہوئی تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےمسجد میں عید کی نماز پڑھی۔ (سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، الحدیث: ۱۱۶۰، ج۱، ص۴۲۵)

واقعہ(incident): شہزادے کی عید

عِید کے دِن حضرتِ عُمرفاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنے شہزادے (یعنی بیٹے)کو پُرانی قمیص (old shirt) میں دیکھا تو رَو نے لگے ،بیٹے نے عَر ض کی:پیارے ابّاجان !آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا:پیارے بیٹے ! مجھے ڈر ہے کہ آج عِید کے دِن جب لڑکے تمھیں اِس پرانی قمیص (old shirt) میں دیکھیں گے تو تمھارا دِل ٹوٹ جائے گا۔ بیٹے نے عَرْض کی:دِل تو اُس کا ٹُوٹے جو اللہ کریم کو خوش کرنے والے کام نہ کر سکا ہویا جس نے ماں ،باپ کی جائزباتیں نہ مانی ہوں۔ مجھے اُمِّید(hope) ہے کہ آپ مجھ سے خوش ہیں تو اللہ کریم بھی مجھ سے خوش ہو جائے گا۔یہ سُن کر حضرتِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے بیٹےکو گلے لگایا اور اُن کیلئے دُعا فرمائی ۔ (مُلَخَّصاًمُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص ۳۰۸ مع فیضانِ رمضان ٖص ۳۰۷)

عید کے دِن یہ کام مُستحب(اور ثواب والے) ہیں :

{1} مرد کابال بنوانا(مگر سُنّت کے مطابق بنوایئے ) {2}ناخُن کاٹنا{3} غُسل کرنا{4} مِسواک کرنا(یہ اُس کے عِلاوہ (other)ہے جو وُضُو میں کی جاتی ہے ) {5} اچّھے کپڑے پہننا ، نئے ہوں تو نئے ورنہ دُھلے ہوئے{6} خُوشبو لگانا۔

{7}انگوٹھی (ring) پہننا:
مردجب کبھی انگوٹھی پہنے تو اِس بات کا خاص خیال رکھے کہ صِرف ایک انگوٹھی ہو چاندی کی ہو اس پر نگینہ (مثلاً ایک پتھر ) بھی ہواور نگینہ ایک ہی ہو ساڑھے چار ماشہ(4.374grams) سے کم وَزن چاندی کی انگوٹھی ہو نگینے (پتھروغیرہ )کا وَزن اس میں نہیں آئے گا، اس(نگینے) کا وزن جتنا بھی ہو پہن سکتے ہیں۔

ایک سے زیادہ نگینے والی انگوٹھی پہننا مرد کے لیے جائز نہیں بِغیر نگینے کی انگوٹھی پہننا بھی جائز نہیں ایک سے زیادہ انگوٹھیاں پہننا جائز نہیں ایک انگوٹھی چاندی کے علاوہ (except)کسی اور دھات(metal) کی پہننا بھی جائز نہیں چاندی کی ایک انگوٹھی بھی ساڑھے چار ماشےیا 4.374grams سے زیادہ وزن کی پہننا جائز نہیںچاند ی کی بغیر نگ والی انگوٹھی یعنی چَھلّہ پہننا بھی جائز نہیں بلکہ چاندی کے علاوہ (except)کسی بھی دھات (metal) کا چھلّہ(shell of the ring) جائز نہیں، اسی طرح چاندی کے علاوہ (except)کسی بھی دھات کی انگوٹھی پہننا بھی جائز نہیں۔(بہار شریعت ج۳،ص۴۲۶،۴۲۸ مسئلہ ۱۲،۱، مُلخصاً)

نوٹ:
عورَت سونے چاندی کی جتنی چاہے انگوٹھیاں اور چھلّے پہن سکتی ہے ، اِس میں وزن اور نگینے کی تعداد (number) بھی جتنی چاہے رکھ سکتی ہے۔(163مدنی پھول ص۳۱،مُلخصاً)

{8} نَماز فَجر مَحَلّے کی مسجد میں پڑھنا
{9} عیدُ الفِطَر (یعنی چھوٹی عید) کی نَماز کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھا لینا، تین (3)، پانچ (5)، سات (7) یا کم یا زیادہ ہوں مگر طاق (odd) کی تعداد میں ہوں (یعنی 2،4،6،8 نہ ہوں)۔ کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھا لینا اگر نَماز سے پہلے کچھ بھی نہ کھایا تو گُناہ نہ ہوا مگر عشاء تک نہ کھایا تو عِتاب (ملامت) کیا جائے گا (یعنی یہ برا کام ہے)
{10} عید کی نَماز، عِیدگاہ (یعنی میدان وغیرہ میں جہاں عید کی نَماز ہوتی ہے) میں پڑھنا
{11} عِید گاہ پیدل جانا، سُواری پر بھی جانے میں حَرَج نہیں مگر جس کو پیدل جانے کی طاقت ہو اُس کیلئے پیدل جانا اَفضل (اور بہتر) ہے اور واپَسی میں سُواری (ride) پر بھی آ سکتے ہیں
{12} عید کی نَماز کیلئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپَس آنا
{13} عِید کی نَماز سے پہلے صَدَقَۂ فِطر ادا کرنا (اَفضل تو یہی ہے مگر عید کی نَماز سے پہلے نہ دے سکے تو بعد میں بھی دینا ہوگا)
{14} خُوشی ظاہِر کرنا
{15} بہت زیادہ صَدَقَہ دینا
{16} عید گاہ (میدان وغیرہ میں جہاں عید کی نَماز ہوتی ہے) کو اِطمینان (satisfaction) اور نظریں نیچی کئے جانا
{17} آپَس میں مُبارک باد (congratulations) دینا
{18} نَماز کے بعد ہاتھ مِلانا اور گلے ملنا، جیسا کہ عُمُوماً مسلمان محبّت میں گلے ملتے ہیں۔ مگر بائیس سال (22) سے چھوٹے لڑکوں کو دوسروں سے گلے نہیں ملنے چاہیے اور دوسروں کو ان سے گلے نہیں ملنے چاہیئے۔ ہاں! اپنے والد صاحب، دادا صاحب، ناناجان، سگے چچا، سگے ماموں سے گلے مل سکتے ہیں
{19} عیدُ الفِطَر (یعنی میٹھی عِید) کی نَماز کیلئے جاتے ہوئے راستے میں آہستہ سے ’’ تکبیرِ تشریق ‘‘ کہنا اور عِیدِ اَضحٰی (یعنی بڑی عید) کیلئے جاتے ہوئے راستے میں اونچی آواز سے ’’ تکبیرِ تشریق ‘‘ کہنا۔ ’’ تکبیرِ تشریق ‘‘ یہ ہے: اَللہُ اَکْبَرُ ط اَللہ ُاَکْبَرُط لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ الَلہُ اَکْبَرُ ط الَلہُ اَکْبَرُط وَلِلّٰ

بَقَر(یعنی بڑی ) عید کا ایک مُستَحَب:

عیدُ الاضحیٰ ( یعنی بَقَر عید) کے سب دینی مسائل ، وہی ہیں جو عیدُ الفِطَر ( یعنی میٹھی عید) کے ہیں۔ صِرف کچھ باتوں میں فَرق ہے، مَثَلاً بَقَر عید میں مُستحب (یعنی ثواب والا کام)یہ ہے کہ نَماز سے پہلے کچھ نہ کھائے چاہے قُربانی کرے یا نہ کرے اور اگر کھا لیا تو کوئی گناہ بھی نہیں۔ (عالمگیری ج۱ص۱۵۲ دارالفکربیروت) (فیضانِ عید ص ۶ تا ۸ مُلخصاً)

تکبیر تشریق :

{1} نویں(9th ) ذوالحجۃ الحرام (یعنی بڑی عید سے ایک دن پہلے)کی فَجر سے تیرھویں (یعنی قربانی کے تین(3) دن مکمل ہونے کے بعداگلے دن(next day))کی عصر تک(یعنی چار(4)دن فجر سے عشاء تک) پانچوں وقت کی فرض نمازیں (اور پانچویں دن(5th day) فجر سے عصر تک کی نماز) جو مسجد کی جماعتِ مُستحبہ(یعنی وہ جماعت جو مسجد کے طے شدہ (decided)وقت پر ہوئی ) کے ساتھ پڑھی گئیں ان میں ایک بار اونچی آواز سے ’’ تکبیرِ تشریق ‘‘ کہنا واجب ہے اور تین(3) بار افضل ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹تا۷۸۵، تَنوِیرُ الْاَبصار ج۳ص۷۱)

{2}تکبیرِ تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراًکہنا واجِب ہے ۔ (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۳ دارالمعرفۃ بیروت)

{3}’’ تکبیرِ تشریق ‘‘اُس پر واجِب ہے جو شہر میں مُقیم ہو۔ مسافر اور گاؤں کے رَہنے والے پر’’ تکبیرِ تشریق ‘‘ واجب نہیں۔ہاں! اگر ان دونوں(both of them) یا ایک نےمقیم امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھی تو اب ان پر بھی ’’تکبیرِ تشریق ‘‘ واجب ہے۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۷۴، مُلخصاً)

{4}مُقیم نے اگر مسافر امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھی، تب بھی مُقیم پر ’’ تکبیرِ تشریق ‘‘واجِب ہےلیکن ان مسافر امام صاحب پر ’’ تکبیرِ تشریق ‘‘واجِب نہیں ہے۔(دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۴)

{5}نَفل، سنّت اور وِتر کے بعد ’’ تکبیرِ تشریق ‘‘ واجِب نہیں ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۵،رَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۳)

{6}جمُعُہ کے بعد’’ تکبیرِ تشریق ‘‘ واجِب ہے اور عید کی نَماز (یعنی بڑی عید) کے بعد بھی’’ تکبیرِ تشریق ‘‘ کہہ لے (تو اچھی بات ہے)۔(اَیْضاً)

{7} مَسبُوق ( جس کی ایک(1) یا زیادہ رَکْعَتیں نکل گئی ہوں ) پر ’’ تکبیرِ تشریق ‘‘ واجِب ہے مگر جب خود سلام پھیرے اُس وقت کہے۔(رَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۶)

{8} مُنفرد( یعنی اکیلے(alone) نَماز پڑھنے والے، جیسا کہ اسلامی بہنوں کو اکیلے ہی نماز پڑھنی ہوتی ہے ) پر ’’ تکبیرِ تشریق‘‘واجِب نہیں (اَلْجَوْہَرَۃُ النَّیِّرَۃ ص۱۲۲) مگر کہہ لے کیونکہ صاحبین( دو(2)بہت بڑے امام یعنی امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہاور امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ)کہتے ہیں کہ اکیلے نَماز پڑھنے والے پر بھی ’’ تکبیرِ تشریق‘‘واجِب ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۶) (فیضانِ عید ص ۸ تا ۹ مُلخصاً)

” فرض”“واجب“وغیرہ کا حکم اور اہم باتیں

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

اللہ کریم نے کچھ حدیں(limits) رکھی ہیں تو ان سے آگے نہ بڑھو، کچھ فرضوں کولازم فرمایا ہے توانہیں ضائع(waste) نہ کرو، کچھ چیزیں حرام کی ہیں تو ان کے حرام ہونے کونہ توڑو(یعنی ایسے کام نہ کرو) اورتم پر رحمت فرماتے ہوئے ، بھول کے بغیر (without forgetting) کچھ چیزوں میں سکوت (یعنی کوئی حکم بیان نہیں ) فرمایا ہے تو ان کے بارے میں بحث(discussion) نہ کرو۔(مستدرک، کتاب الاطعمۃ، شان نزول ما احل اللہ فہو حلال، ۵ / ۱۵۷، الحدیث: ۷۱۹۶) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں : فرض اعمال قرآن سے ثابت(proven) ہوں یا حدیث سے ان پر پابندی (restricted compliance)ضرور کرو اور اخلاص سے (یعنی صرف اللہ کریم کی خوشی پانے کے لیے) کرو۔خیال رہے کہ فرض کو چھوڑنے والا فاسق اور سخت گناہ گار ہے ۔اسی طرح حرام کام کرنے والا بڑا گناہ گار ہے تو حرام کام کرنے سے بچو بلکہ اس کے قریب بھی نہ جاؤ ۔ حلال و حرام کی حدوں (limits) کو نہ توڑو،نمازیں پانچ(۵) فرض ہیں،چار (۴)یا چھ(۶) فرض ہونے کو نہ مانو،زکوۃ مال کاچالیسواں حصّہ (2.5%۔part 40th)فرض ہے،کم یا زیادہ پر عقیدہ (یقین)مت رکھو، چار (۴) عورتوں تک کا نکاح جائز پانچویں (5 th) کو حلال چوتھی(4 th) کو حرام نہ سمجھو وغیرہ۔(مراۃ جلد۱،ص۱۹۵، سوفٹ ائیر،مُلخصاً)

واقعہ(incident): نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور حج کرو

حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر (travel)میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھا، ایک دن چلتے چلتے میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے قریب ہو گیا اور عرض کی: یَا رَسُولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جو مجھے جنّت میں لے جائےاور دوزخ سے دور رکھے۔پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم نے مجھ سے ایک بہت بڑی بات کا سوال کیا البتہ جس کے لئے اللہ کریم آسان فرما دے اس کے لئے آسان ہے، تم اللہ کریم کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک(partner) نہ بناؤ، نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور اللہ کریم کے گھر(کعبۃُ اللہ)کا حج کرو۔ پھر فرمایا:کیا میں تمہیں نیکی کے دروازے نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال (shield) ہے اور صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا تا ہے اور رات کے درمیانی حصّے میں انسان کا نماز پڑھنا (بھی گناہوں کو مٹا دیتا ہے) پھر آیت تلاوت فرمائی، ترجمہ (Translation) :ان کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں(یعنی بستروں) سے جدا رہتی ہیں ۔ (پ۲۱، سورۃ السجدۃ، آیت ۱۶) (ترجمہ کنز العرفان)(ترمذی، کتاب الایمان، الصلاۃ، ۴ / ۲۸۰، الحدیث: ۲۶۲۵)

اہم باتیں:

{1}فرضِ عملی: اگر وہ کسی عبادت کے اندر فرض ہے تو وہ عبادت بغیر اس کے ہوگی ہی نہیں۔

{2} واجبِ عملی: کسی واجب کا ایک(۱) بار بھی جان بوجھ کر (deliberately) چھوڑنا صغیرہ(یعنی چھوٹا) گناہ ہے اور چند بار چھوڑنا کبیرہ(یعنی بڑا) گناہ ہے۔

{3}سنّتِ مؤ کَّدہ: کام کرنا ثواب اور اس کو چھوڑنا اساء ت(یعنی برا) ہے، چھوڑنے والا ملامت (یعنی ڈانٹ پڑنے)کا حقدار (entitled)ہے اور اسے چھوڑنےکی عادت پر عذاب کا مُستحق (deserving for punishment) ہے۔ سنّت مؤکّدہ چھوڑنے پر اصرار(یعنی سنّت مؤکّدہ چھوڑنے کی عادت پر ملنے والے گناہ کی پرواہ (care)کیے بغیر بار بار کرتا رہنے (فتاوی شامی ج۳، ص ۵۲۰ ماخوذاً) سےیہ گناہ چھوٹا نہیں رہے گا بلکہ اب یہ کبیرہ(یعنی بڑا گناہ بن جاتا) ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۷،ص۴۱۰)

{4}سنّتِ غیر مؤکَّدہ: اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے والاگناہ گار نہیں ہے۔ اگر نہ کرنے کی عادت بنالی تب بھی گناہ گار نہیں۔

{5}مُستَحب: اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر کچھ نہیں۔

{6} مُباح: وہ جس کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو یعنی نہ ثواب، نہ گناہ۔

{7}حَرامِ قَطعی: یہ فرض کا مُقابِل(opposite) ہے ،اس کا ایک بار بھی جان بوجھ کر(deliberately) کرنا کبیرہ(یعنی بڑا)گناہ۔حرام قطعی کرنے والافاسق اور سخت گناہ گارہے اور اس سے بچنا فرض و ثواب ہے۔

{8} مَکروہ تَحْرِیمی: یہ واجب کا مقابل (opposite) ہے اس کے کرنے سے عبادت ناقص(یعنی نامکمل) ہوتی ہے اور بغیر شرعی اجازت کےجان بوجھ کر کرنے والا گنہگار ہوتا ہے ۔اس کا گناہ ،اگرچہ حرام سے کم ہے مگر چند بار کرنے سے یہ بھی کبیرہ اور بڑاگناہ بن جاتا ہے(یاد رہے! صغیرہ گناہ بھی جہنّم میں لے کر جانے والا ہےاور چھوٹا سمجھ کر کرنا، اسے بہت سخت بنا دیتا ہےمزید(more) ہر گناہ ’’ کفر‘‘ کی طرف لے جانے اور ایمان برباد کروانے کا سبب بن سکتا ہے )۔

{9}اِساءَ ت: یہ سنّتِ مؤ کدہ کا مقابل (opposite) ہے،اس کا کرنا بُرا ہے اور جو کبھی کرے، شرعاً وہ ملامت (یعنی ڈانٹ پڑنے)کا حقدار (deserving)اور اسے کرنے کی عادت بنانے والا گناہ گار ہے۔

{10} مَکروہِ تَنزِیہی: یہ سنّتِ غیر مؤکدہ کا مقابل (opposite) ہے، جس کا کرنا دین و شریعت کو پسند نہیں مگر جو کرے تو اس کے لیے کوئی وعیدِ یا عذاب (punishment)بھی نہیں ۔

{11} خِلافِ اَولیٰ: یہ مستحب کا مقابل(opposite) ہے، جس کا نہ کرنا بہترہے ، مگر جو کرے تو اس پر ملامت(یعنی ڈانٹنا) بھی نہیں ۔(فتاوی رضویہ جلد۱،ص۹۰۳ ماخوذاً) ( )

(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)