’’ دین کے مسائل ‘‘(part 03 C)

 

’’کھانا ، کپڑا اور رہنے کا مکان ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

آدمی کو گنہگار ہونے کے ليے اتنا کافی ہے کہ جس کا کھانا اس کے ذمہ ہو(whose food is his responsibility)، اُسے کھانے کو نہ دے۔ (''صحیح مسلم''، کتاب الزکوۃ، الحدیث: ۹۹۴، ص۴۹۹)

واقعہ(incident):                    ضرورت مند(needy)  والد

      ایک شخص نےپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پاس حاضر ہو کر عرض کی، کہ میرے پاس مال ہے اور میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے؟ فرمايا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کے ليے ہیں۔

(''سنن أبي داود''، کتاب البیوع،  الحدیث: ۳۵۳۰، ج۳، ص۴۰۳)

کن کو کھانا،کپڑا اور رہنے کا مکان دیا جائے گا؟:

{1}    نابالغ اولاد کانفقہ باپ پر واجب ہے(نفقے سے مراد  تمام خرچ  جوکھانے، پینے، رہنے کے مکان کا  ہو(فتاوی رضویہ، ج۱۰،ص۲۲۶)) جبکہ اولاد (۱) آزاد ہو(اب سب لوگ آزاد ہیں) (۲) فقیر ہو یعنی خود اس کے پاس اپنا مال نہ ہواگر نا بالغ کی مِلک میں مال ہے مگر یہاں مال موجود نہیں تو باپ کو حکم دیاجائے گا۔ کہ اپنے پاس سے خرچ کرے جب مال آئے تو جتنا خرچ کیا ہے اُس میں سے لے لے۔

{2}  ماں نے اگر بچّے کا نفقہ اُس کے باپ سے لیا اور چوری ہوگیا یا  کسی طریقہ سے بھی   ضائع(waste) ہوگیا تو پھر دوبارہ نفقہ لے گی اور بچ گیاتو واپس کرے گی۔

{3}اولاد بالغ  (wise, grownup)بیٹا ہو مگر اپاہج(جسمانی طور پر معذور۔ disabled) یا مجنون(یعنی پاگل) یا نابینا(یعنی اندھا) ہو  کہ کما (earn)نہیں سکتا اور اُس کے پاس مال بھی  نہ ہو تو اُس کا نفقہ (کھانے وغیرہ کا خرچا)بھی باپ پر ہے ۔

{4}  طالب علم کہ علم دین پڑھتا ہواور نیک  کردار (good character) ہو اُس کا نفقہ(خرچا) بھی اُس کے والد پر ہے ۔یاد رہے! یہاں وہ طلباء مراد نہیں جو فضول اور  بے کار کاموں  میں لگے رہتے ہیں، اگر کوئی طالب العلم اس طرح کے فضول کاموں  میں  لگا رہےتو  اُس کا نفقہ(یعنی خرچا) باپ پر نہیں۔

{5}    لڑکی(چھوٹی ہو یا بڑی) جبکہ مال نہ رکھتی ہو تو اُس کانفقہ باپ  ہی پر ہے چاہے  اُس کا جسم  سلامت ہو(یعنی کما سکتی ہو تب بھی نفقہ والد پر ہی ہے)    لڑکی جب جوان ہوگئی اور اُس کی شادی کردی تو اب شوہر پرنفقہ (یعنی کھانے پینے کا خرچا اور رہائش(accommodation))ہے، اب  باپ  کی ذمہ داری (responsibility) ختم ہوگئی۔

{6}   اگر باپ مفلس(destitute) ہے (کہ مال وغیرہ نہیں ہے )تو کمائے اور بَچّوں کو کھلائے اور کمانے کی طاقت نہیں،مثلاًاپاہج (جسمانی طور پر معذور ۔ disabled) ہے تو دادا کے ذمہ نفقہ(یعنی کھانے وغیرہ کا خرچا) ہے بلکہ اس صورت (case) میں (دادا پر) باپ (یعنی اپنے بیٹے)کانفقہ بھی لازم ہے۔

{7} (۱)باپ، ماں، دادا، دادی، نانا، نانی اگر غریب ہوں(کہ کھانے پینے کا بھی خرچ نہ ہو) اور ان  کی اولادمالدار (نصاب کے مالک )ہوں( یعنی  ساڑھے سات(7.5)  تولے (87.48grams)سونا، یاساڑھے باون (52.5) تولے (612.36grams) چاندی، یا اتنی مالیت(value)  کی رقم، یا اتنی مالیت    (value) کا ضروریاتِ زندگی سے زیادہ  سامان ہو)  چاہے وہ نصاب نامی (یعنی روپیہ، پیسہ، مال تجارت وغیرہ)نہ ہو توان  لوگوں (یعنی باپ، ماں، دادا، دادی، نانا، نانی)کا نفقہ اولاد پر واجب ہے ،چاہے یہ لوگ(یعنی باپ، ماں، دادا، دادی، نانا، نانی) کمانے (earning) کی طاقت رکھتے ہوں  ۔

(۲)  سوتیلی ماں(step mother) ، جو سیّد یا ہاشمیّہ نہ ہو اور شرعی فقیر  بھی ہو  تو اُسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ (فروری، 2023،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً) مگر سگی ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔

(۳)اور اگر  اولاد بھی محتاج(یعنی غریب ) ہے تو باپ کا نفقہ(یعنی خرچا) اولاد پر واجب نہیں ۔ہاں! اگر باپ اپاہج (جسمانی طور پر معذور ۔ disabled)  یا مفلوج (یعنی فالج کا مریض۔paralytic patient)ہے کہ کما (earn) نہیں سکتا تو بیٹے کے ساتھ نفقہ میں شامل ہے(یعنی مِل جُل کر کھائیں گے)  چاہے بیٹا فقیرہی  ہو۔

(۴) باپ اور ماں دونوں محتاج ہوں (یعنی ایسے غریب ہوں کہ کھانے پینے کو نہ  ہو) تو دونوں کا نفقہ (یعنی خرچا)بیٹے پر ہے اور اگر باپ محتاج نہ ہو تو باپ پر ہے اور  باپ محتاج ہے اورماں مالدار تو ماں کانفقہ اب بھی بیٹے پر نہیں بلکہ اپنے پاس سے خرچ کرے اورشوہر سے وصول کرسکتی ہے۔

 (۵) بیوہ (جس کا شوہر فوت ہوگیا)والدہ کا نفقہ بھی بیٹے پر ہے(یعنی  والد کے انتقال کے بعد)، ماں چاہے اپاہج (جسمانی طور پر معذور ۔disabled)  نہ بھی  ہو، چاہے بیٹا فقیر  ہی ہو اگر بیوہ ماں نے  دوسرانکاح کرلیا ہے تو اب  اس کانفقہ  دوسرےشوہر پر ہے(بیٹے پر نہیں) ۔

{8} باپ وغیرہ کانفقہ جس طرح بیٹے پر واجب ہے،  اُسی طرح بیٹی پر بھی واجب ہے یعنی اگر بیٹا بیٹی دونوں ہوں تو دونوں پر برابر برابر واجب ہے اور اگر دوبیٹوں میں سے  صرف ایک بیٹا ہی  نصاب  کا مالک ہے اور دوسر ا بہت مالدار ہے تب بھی دونوں پر باپ کانفقہ برابر برابر  لازم ہے۔

{9} باپ  کے کچھ  بچےّ چھوٹے ہوں   اور خودغریب (کہ اپنا اور ان بَچّوں کے کھانے پینے کا خرچابھی  نہیں اُٹھا سکتا) ہواور ان بَچّوں کا بھی کوئی مال نہ ہو مگر بڑا بیٹا   مالدار ہو  تو باپ اور اُس کی سب اولاد کانفقہ اس پر واجب ہے۔

{10} باپ کے پاس رہنے کا مکان اور سواری (ride)کا جانور ہے تو اُسے یہ حکم نہیں دیا جائیگا کہ ان چیزوں کو بیچ کر نفقہ میں استعمال کرے بلکہ اس کانفقہ اس کے بیٹے پر فرض ہے۔ ہاں !اگر مکان  ضرورت سے زیادہ  ہے کہ تھوڑے سے حصّے میں رہتا ہے تو جتنا  زیادہ  ہے اُسے بیچ کر نفقے میں  استعمال کرے اور جب  صرف وہ حصّہ باقی رہ گیا جس میں رہتا ہے تو اب نفقہ اُس کے بیٹے پر ہے، اسی طرح اگر اُس کے پاس اعلیٰ درجےکی سواری (expensive ride)ہے تو یہ حکم دیا جائے گا کہ بیچ کر کم درجےکی سواری خریدے اور جو رقم  بچے، وہ اپنے نفقے میں استعمال کرے پھر اس کے بعد  بیٹے پر نفقہ واجب ہوگا۔

{11} بیٹا زندہ ہو تو  باپ اُس کی کسی چیز کا خود مالک نہیں بن سکتا، اسی طرح بیٹے کی اجازت اور رضا مندی ( منظوری ۔consent) کے بغیراس کے مال سے ایک  دانہ لینے کا اختیار(authority) نہیں رکھتا لیکن اگر باپ فقیر  اور ضرورت مند  ہو   او ربیٹا  مالدار ہو، تو صرف اتنی رقم یا مال لے سکتا ہے کہ جس سے اپنا نفقہ(یعنی خرچ) پورا کرے  ،(اس صورت(case) میں، اتنا لینے پر)چاہے بیٹا راضی (agree) نہ بھی ہو، تب بھی (اتنا مال) لے سکتا ہے۔(فتاوی رضویہ، ج۱۹،ص۶۴۳، مَاخوذاً)

{12} نابالغ  بچّہ  محرم (وہ لوگ جن کا رشتہ والدىن کے ذرىعے ہو، انہىں ’’ذِ ی رِحم‘‘  کہتے ہىں  ( تفسىر نعىمى ،ج۱،ص۴۴۷،ملخصاً)  )رشتہ دار یا عورتیں  (چاہے بالغہ(wise, grownup) ہوں یا نا بالغہ) محارم رشتہ دار(یعنی  جن سے نکاح  کبھی بھی جائز نہ ہو، مثلاً  بہن، بھائی ،(بھائی کے بیٹے، بیٹیاں یعنی ) بھتیجے، بھتیجیاں، (بہن کے بیٹے بیٹیاں یعنی ) بھانجے، بھانجیا ں، چچا، ماموں، پھوپھی، خالہ، نانا، دادا(فتاوی رضویہ ج۱۳،ص۴۷۸،مُلخصاً))اور انہیں وراثت میں حصّہ بھی ملنا ہو، اگرمحتاج(یعنی ضرورت مند۔needy) ہوں تو اُن کا  نفقہ (دوسرے رشتہ دار پر کچھ شرطوں (preconditions)   کے ساتھ ) واجب ہے۔نوٹ:انسان کے مرنے کے بعد، اُس کا سب مال مخصوص قریبی رشتہ داروں۔specific close relatives اور بعض  صورتوں (cases) میں کچھ اور لوگوں کو ملتا ہے، اِسے وراثت کا مال کہتے ہیں۔

{13}اگر محرم  رشتہ دار بالغ (wise, grownup) مرد ہو تو یہ بھی شرط (precondition)ہے کہ کمانے (earning) کی طاقت نہ رکھتا ہو، مثلاًدیوانہ (یعنی پاگل) ہے یا اُس پر فالج گرا (paralysis)ہے یا اپاہج (جسمانی طور پر معذور ۔disabled) ہے یا اندھا ہے (اور ضرورت مند(needy)ہے تو اب  نفقہ واجب ہے  )اور اگر مرد محرم رشتہ دار کمانے کی طاقت رکھتا ہو  تو اب  ان کا نفقہ  واجب نہیں ، چاہے محتاج (یعنی ضرورت مند۔ needy)ہو، اسی طرحاگر عورت  کوئی کام کرتی ہے جس سے اُس کاخرچ  پورا ہو جاتاہے تو اب اس کانفقہ رشتہ دار پر فرض نہیں اور اگر اندھا وغیرہ کما لیتا ہو تو اب اس کا نفقہ بھی  کسی اور پر فرض نہیں۔

ان کے نفقے کا اتنا ہی حصّہ لازم ہے، جتنا اُن کا وراثت میں حصّہ بنتا ہے یعنی  جس شخص کا نفقہ دینا ہے، سمجھیں کہ اُس کا انتقال ہوگیا  تو اب اس آدمی    کا مال  کس کس کو ملے گا ؟اور کتنے  فیصد(percentage) ملے گا؟ تو جن محرم رشتہ داروں کو جتنا  فیصد(percentage) مال ملے گا، اُن پر اُتنا فیصد نفقہ ابھی لازم ہوگا مثلاً ایک  عورت محتاج(یعنی ضرورت مند۔needy) ہے یا ایک مرد محتاج جسمانی طور پر معذور (disabled) ہے، اُن کی  والدہ اوردادا زندہ ہیں (والد، بھائی، بہن، شوہر اور بچّے نہیں ہیں) تو نفقے(یعنی جتنی رقم کی ضرورت ہے) کے تین حصّے کیے جائیں گے، ایک حصّہ(یعنی کُل رقم(total amount) کا 33%) ماں پر اور دو حصّے(یعنی 66%) دادا  کو دینا لازم ہوگااگر والدہ کے ساتھ صرف  چچاہے (اور کوئی  وارث رشتہ دار نہیں) یا صرف بھائی ہے تب بھی  اتنا ہی  فیصد دینا ہوگا(یعنی ماں کو33% اور چچا یا بھائی کو66% رقم دینی ہوگی)۔یاد رہے!ان صورتوں میں بچّہ بھی ہے مگر وہ غریب نابالغ ہےیابالغ  (wise, grownup)ہے مگر کمانے کی طاقت نہیں رکھتا، تو اُس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے(یعنی  جب اُس شخص کے نفقے کے لیے، اُس کے وارثوں کا حساب لگایا جائے گا تو  اُس وقت ایسے بیٹوں کو حساب میں نہ ڈالا جائے گا یعنی  اس طرح کے بچّے نہ ہوتے تو کون کون وارث بنتے؟ اور ان کا کتنا  فیصد(percentage) حصّہ ہوتا؟ اس کا حساب لگائیں پھر جس کا جتنا فیصد بنے ، اُس پر اتنا نفقہ لازم ہے )۔

اگر چچا  کے ساتھ پھوپی یا   ماموں ہے تو نفقہ چچا پر ہے پھوپی یاماموں پر نہیں۔

{14} طالبِ علمِ دین  چاہے  صحت مند ہو اور کام کرنے  کی طاقت رکھتا ہو مگر اُس نے اپنے آپ کو دین کا علم حاصل کرنے میں مصروف(busy) رکھا ہے تو (والد کے انتقال یا محتاج ہونے پر)اُس کانفقہ بھی رشتہ والوں پر فرض ہے۔

{}قریبی رشتہ دار  موجود نہیں  اور دوروالا موجود ہے تو نفقہ اس دور کے رشتہ دار پر ہے۔

{15} عورت کاشوہر  غریب ہے اور بھائی مالدار ہے تو بھائی کو خرچ کرنے کا حکم دیا جائے گا لیکن بعد میں  جب شوہر کے پاس مال  آجائے تو بھائی  نے جتنا مال دیا ہے، اُ تنا واپس لے سکتا ہے۔

{16} ضرورت سے زیادہ مکان اور  بہترین سواری کا جو حکم والد کے نفقے میں ہے  (یعنی مکان  ضرورت سے زیادہ  ہو  تو جتنا  زیادہ  ہے اُسے بیچ کررقم  استعمال کرے اور اعلیٰ درجےکی سواری (expensive ride)ہے تو  بیچ کر کم درجےکی  لے اور جو رقم  بچے، وہ اپنے نفقے میں استعمال کرے ) یہی  حکم اولاد و دیگر محارم رشتہ داروں  کے لیے بھی ہے(کہ وہ ایسا کریں اور جب یہ رقم ختم ہوگی تو رشتہ داروں پر نفقہ دینا واجب ہوگا)۔

(بہارِ شریعت ج۲،ح۸،ص۲۷۳، مسئلہ۶۴،۶۶،۶۷،۶۹،۷۲،۸۲،۸۳،۸۵،۸۸،۸۹،۹۰،۹۱،۹۲،۹۸)

()

137 ’’ رشتہ دار اور والدین ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جسے نرمی عطا کی گئی اسے دنیاو آخرت کی اچھائیوں میں سے حصّہ دیا گیا اور(۱) رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا،(۲) پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک (good behavior)کرنا اور (۳)حسن اخلاق(قائم رکھنا، یہ سب کام) گھروں کوآبا د رکھتے اور عمر میں اضافہ کرتے ہیں۔ (مسند احمد، رقم۲۵۳۱۴،ج۹ ،ص۵۰۴)

واقعہ(incident):                    پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا پیارا اخلاق

      پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو جب یہ خَبَر مِلی کہ نَجْد(اب اسے رِیاض کہتے ہیں)کے ایک مَشْہور بَہادُر ”دُعْثُور بن حارِث “ مدینے شریف پر حَملہ(attack) کرنے کے لئے ایک لشکر(unit of Army) تیَّار کر چکےہیں تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ چارسو(400)صَحابَۂ کِرام رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْکی فَوج لے کر  اُن کی طرف تشریف لےگئے۔دُعْثُور کو جب یہ  پتا چلا کہ اللہ   کریم کےرَسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَہمارے شہر میں آ گئے ہیں تو وہ  اپنے لشکر  کے ساتھ   پہاڑ پر چَڑھ گئےمگر اِن کی فَوج کے ایک صاحب”حَبَّان“ پکڑے گئے اورپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس  آکر مسلمان ہوگئے۔

       اُس دِن بہت بارِش ہوئی ، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک دَرَخْت کے قَرِیب اپنے کپڑے سکھانے لگے

 ( drying the clothes)۔پہاڑ کے اوپر سے غیر مُسْلموں نے دیکھا کہ صَحابَۂ کِرام رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْ اپنے اپنے کام کر رہےہیں اور  آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اکیلے(alone) ہیں تو تلوار(sword) لے کر  دُعْثُور آگئے  اور پیارے آقا  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو کہنے لگے: اب مجھ سے آپ کو کون بچائے گا؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اللہ کَرِیم مجھے تجھ سے بچائے گا۔اِتنا کہنا تھا کہ حضرت جِبْرِیل عَلَیْہِ السَّلَام فَوراً زمین پر آگئے اور دُعْثُور کے سینے پر ایسا گُھونْسَہ مارا (punched) کہ تَلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ  خود زمین پرگر گئے۔ رَسُولِ کَرِیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فَوراً تَلوار اُٹھالی اور فرمایا:اب مُجھ سےتمھیں کون بچائے گا؟دُعْثُور  کہنے لگے:مجھے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کوئی بھی نہیں بچاسکتا!پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُن پررَحم (mercy)فرمایا اورآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انہیں مُعاف فرمادیا بلکہ اُن کی تَلوار(sword)  بھی اُنہیں واپَس کر دی ۔دُعْثُور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اَخلاق (morality) دیکھتے رہ گئے اور کَلِمَہ پڑھ کر اُسی وَقْت مُسَلمان  ہو گئےاور اپنی قَوم میں آ کر اِسلام کی  طرف بلانے لگے۔

(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،۲/ ۳۷۸-۳۸۱ ملخصاً)

صلہ رحم  کی  کچھ مسائل:

{1}صلہِ رَحم رشتے جوڑنے کو کہتے ہیں یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی (courtesy) کرنا۔صلہ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ داری توڑنا ) حرام ہے جب اپنا  رشتے دار کوئی حاجت پیش کرے(یعنی اپنی ضرورت بتائے) تو اُس کی  ضرورت پوری کرے،اس کو رَد کردینا (یعنی رشتہ دار کے کھانے، پینے یا رہائش  (accommodation) وغیرہ کی جائز ضرورت، طاقت ہونے کے باوجود شرعی اجازت کے بغیر پوری نہ کرنا) قَطعِ رِحم(یعنی رِشتہ توڑنا اور  ناجائز)ہے۔

{2}سب رشتہ داروں سے صلہِ رَحم لازم ہے(بہارِ شریعت ح ۱۶، ص۵۵۸، ماخوذاً)مگر یہ بات ضرور ہے کہ رشتہ میں درجے (ranks) مختلف  ہوتے ہیں لھذا صلہ رحم کے در جے  بھی  مختلف ہوں گے۔(رشتہ داروں میں) والدین کا  درجہ (rank) سب سے بڑا ہے، ان کے بعد’’ ذورحم محرم‘‘ کا ( یعنی وہ لوگ کہ جن کا رشتہ والدىن کے ذرىعے ہو اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو )، ان کے بعد دیگر(other) رشتہ والوں کا  اپنے اپنے درجے (ranks)کے مطابق دادا، دادی،نانا،نانی ،چچا، پھوپھی ،ماموں، خالہ وغیرہ کے حقوق (rights) بھی ماں باپ ہی کی طرح ہیں۔  (جنّتی زیور ص ۹۳ تا ۹۴)

{3} مفتى احمد ىار خان نعىمى رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: (۱) سب سے زىادہ حق (right)ماں باپ کا ہے کہ ان کے ساتھ احسان (favour) کىاجائے، باقى رشتے دار والدین کے بعد ہىں ( ۲)  جن لوگوں  کا رشتہ والدىن کے ذرىعے ہو، انہىں ’’ذِی رِحم‘‘  کہتے ہىں ۔  ذِى رِحم تىن (3) طرح کے ہىں، اىک(1st ) باپ کے رشتے دار جىسے دادا،دادى، چچا ، پھوپھى وغىرہ ، دوسرے(2nd ) ماں کے رشتے دار جىسے نانا، نانى ، ماموں ، خالہ تىسرے (3rd ) دونوں کے رشتے دار جىسے حقىقى بھائى بہن۔ذِى محرم مىں جس کا رشتہ مضبوط ہواس کا حق(right) بھى زىادہ ہوگا۔ بہن بھائى کا رشتہ چچا اور ماموں سے زىادہ مضبوط ہے لہٰذاپہلا حق ان کا ہوگا۔

نوٹ: (الف )’’ذِی رِحم‘‘   رشتہ دار دو(2) طرح کے ہیں:  (۱)  اىک وہ جن سے نکاح حرام ہے  جىسے پھوپھى ، خالہ وغىرہ،(یعنی ذِی رحم محرم)۔ ضرورت کے وقت ان کى خدمت کرنا فرض ہے، نہ کرنے والا گناہ گار ہوگا۔(۲)  دوسرے اىسے رشتہ دار جن سے نکاح حلال ہوتاہے جىسے خالہ، ماموں اور چچا کى اولاد۔ ان کے ساتھ احسان(favour)ا ور اچھا سلوک(good behavior) کرنا سنّت مؤکّدہ اور ثواب  ہے۔

(ب ) باقى رشتہ دار بلکہ تمام مسلمانوں سے اچھے سلوک سے پىش آنا ضرورى اور انہىں تکلىف پہنچانا حرام ہے۔

(ج) سسرالى اور دودھ کے رشہ داروں مىں کچھ محرم ہىں جىسے ساس اور دودھ کى ماں۔ جبکہ کچھ محرم نہىں ہوتے،ان سب کےبھی  حقوق(rights)  ہىں۔ ( تفسىر نعىمى ،ج۱،ص۴۴۷،ملخصاً)

 {4} صلۂ رِحمی( یعنی رِشتے داروں کے ساتھ سلوک) کی مختلف صورَتیں ہیں اِن کو ہَدیہ و تحفہ (یعنی gift) دینا  اگر یہ کسی بات میں مدد چاہتے ہوں تو اِس کا م میں ان کی مدد کرنا  انہیں سلام کرنا   ان کی ملاقات کو جانا  ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا  ان سے بات چیت کرنا  ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا۔

 {5}اگر کوئی  دوسرے شہر میں ہو تو  اپنےرشتہ داروں کے پاس خط بھیجے تاکہ بے تعلقی(situation of disregard) پیدا نہ ہونے پائے   ہوسکے تو اپنے شہرآئے اور رشتے داروں سے ملاقاتیں  کرے، اِس طرح کرنے سے مَحَبَّت بڑھے گی (فون یا انٹرنیٹ سے  بھی رابطے کیے جاسکتے ہیں )۔

 {6} صِلَہ ٔرِحمی (یعنی رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک(good behavior)) اِسی کا نام نہیں کہ وہ  اچھاسلوک کریں  تو تم بھی اچھا سلوک  کرو۔ حقیقتاً (indeed)صِلَۂ رِحم(یعنی اعلیٰ دَرَجے(high ranks) کا  اچھا سلوک )یہ ہے کہ وہ کاٹے  تو تم جوڑو، وہ تم سے  دورہونا چاہےتو تم(شریعت و سنّت کے مطابق) اُس کے ساتھ رشتہ داری  کے حقوق(rights)   کا خیال کرو۔(550 سنتیں اور آداب ص۳۰ تا ۲۷ ملخصاً) ہاں! رشتہ دار میں اگر ایسی برائیاں  ہیں کہ شریعت اُ س سے میل جول، تعلقات (relations)  کا منع کرتی  ہے یا اُس کے عقیدوں (دینی نظریوں۔beliefs) میں خرابی ہو تو اُن  سے اس طرح کا انداز نہیں رکھا  جاسکتا۔یاد رہے!بد مذہب(یعنی بُرے عقیدے والے )سے کینہ(یعنی دل میں نفرت) رکھنا واجب ہے(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص۲۷۴ماخوذاً) ۔البتہ اگر کسی نے ظلم کیا اور اس وجہ سے(دل میں اُس کا) کینہ ہے تو یہ  حرام  نہیں ہے (الحدیقۃ الندیہ،۳/۸۶، ملتقظا) لیکن مسلمان  کو معاف کر کے دل صاف کرنا چاہیے۔

{7}دوسرے شہر میں ہے  اوروالِدَین اِسے بُلاتے ہیں تو  آنا ہی ہوگا،خط لکھنا کافی (enough)نہیں ہے والِدَین کو اس کی خدمت(service) کی  ضرورت ہو تو آئے اور ان کی خدمت کرے۔

{8}باپ کے بعد دادا اور بڑے بھائی کا مرتبہ (rank)ہے کہ بڑا بھائی باپ  کی جگہ ہوتا ہےبڑی بہن اور خالہ ماں کی جگہ پر ہیں بعض عُلَمائے کِرام نے چچا کو باپ کی  طرح کہاہےان کے عِلاوہ،  دیگر رشتہ داروں (other relatives) کے پاس خط یا تحفہ  بھیجنا  کافی (enough)ہے۔  (رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۷۸)

{9} رشتے داروں سے ناغہ(gap) دے کر ملتا رہے یعنی ایک دن ملنے کو جائے دوسرے دن نہ جائےکہ اس  انداز سے مَحَبَّت زیادہ ہوتی ہے رشتے داروں سے  جُمعہ جُمعہ ملتا رہے یا مہینے میں ایک باراور تمام  برادری  اور خاندان کو  مُتَّحد(united)ہونا چاہیے،جب وہ  حق پر ہوں  تو سب ایک ساتھ ہوں۔ (دُرَر،ج۱ ص۳۲۳، مُلخصاً)

{10}صِلَۂ رِحمی میں اچھی نیّت بھی ہو۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:ایک آدمی راستے میں بیٹھا ہوا  تھا، دوسرا  شخص کھاتا پیتا(یعنی امیر) اجنبی(unknown) گھوڑے پر بیٹھا جارہا تھا اس  جانے والےنے ہزار روپے اٹھا کر اُسے دے دیے(مثلاً خوشی میں تھا اور پیسے لُٹا دیے ) نہ صدقہ کرنے کی نیّت، نہ صلہ رحم (یعنی رشتہ داروں  کے ساتھ اچھا سلوک(good behavior) ) کی ،نہ  ضرورت مند(needy) یا دوست  کی  مدد کرنے کی   نیّت  یعنی کوئی بھی اچھی نیّت نہیں  اور نہ ہی ریاکاری(یعنی لوگوں کو دکھانے ) کے لیے اور نہ ہی کسی بُرے ارادے(intention) سے یہ پیسے دیے تو اب یہ  پیسے دینا(یا لُٹانا)ضرورعبث(یعنی بے فائدہ)  حرکت  ہے چاہے وہ رستے میں بیٹھا ہوا شخص، اُس گھوڑے پر بیٹھے ہوئے شخص کا”ذی رحم (رشتہ دار) “ہی کیوں نہ ہو کہ نہ تو اُسے معلوم تھا کہ راستے میں بیٹھا ہوا آدمی میرا رشتہ دار ہے اور نہ ہی اُس  گھوڑے والے نے اس کے ساتھ،اللہ   کریم کی رضا کے لیے اچھا سلوک(good behavior) کرنے کی نیّت (intention)کی تھی۔

(فتاوی رضویہ جلد۱(ب)،۱۰۰۲،مَاخوذاً)

{11} اگر  (کوئی بدنصیب۔unlucky) اپنے والدین ،یا دادا ، یا دادی کو خدمت(service) کے لیے نوکر رکھے یہ اجارہ ناجائز ہے مگر  جب انہوں نے  نوکری کا کام کرلیا تو اُجرت (wages) ملے گی  اور وہی اُجرت پائیں گے جو طے (fixed)ہو گئی تھی ۔

   {12} ان کے علاوہ دیگر رشتہ داروں (other relatives)،مثلاً بھائی یا چچا وغیرہ کو خدمت(service) کے لیے نوکر (servent) رکھنا جائز  توہے لیکن  کچھ عُلَمائے کِرام نے فرمایا ہے کہ بڑے بھائی یا  وہ چچا کہ جو عمر میں بڑے ہوں، کو ملازم (servent) رکھنا جائز نہیں ہے۔  (بہار شریعت ح ۱۴،ص۱۶۴،مسئلہ۴،۵، مُلخصاً)

{13}   اگر مال میں شبہہ(یعنی شک ہو کہ پتا نہیں حلال ہے یا حرام) ہو تو ایسے مال کو اپنے قریبی رشتہ دار پر صدقہ (یعنی خیرات) کرسکتا ہے یہاں تک کہ اپنے والد صاحب یا بیٹے کو  بھی دے سکتا ہے(جب کہ سیّد وغیرہ نہ ہوں)، اس صورت(case) میں یہ ضروری  نہیں کہ کسی غیر(رشتہ دار کہ جو شرعی فقیر ہو) ہی کو دے۔

(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶، ص ۶۱۱، مسئلہ۸  ،مُلخصاً)

صِلَۂ رِحْمی کرنے کے 10 فائدے :

حضرتِ سیِّدُنا فقیہ ابواللَّیث سمرقندی  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: صِلَۂ رِحْمی کرنے کے 10 فائدے ہیں:(۱)اللہ کریم کی رِضا حاصل ہوتی ہے(۲) مسلمانوں کے دلوں میں خوشی پیدا ہوتی  ہے (۳)فرشتے خوش ہوتے ہیں (۴)مسلمان ایسے شخص کی تعریف کرتے ہیں (۵) شیطان کو اس سے تکلیف ہوتی  ہے(۶)عمربڑھتی ہے(۷) رِزْق(روزی) میں برکت (blessing) ہو تی ہے(۸)فوت ہوجانے والے  والدین  خوش ہوتے ہیں (۹)آپس میں محبّت بڑھتی ہے(۱۰)وفات کے بعداس کا ثواب  بڑھا دیا جا تا ہے،کیونکہ لوگ اس کے لیے دعا کرتے ہیں ۔(تَنبیہُ الغافِلین ص۷۳،مُلخصاً)

والدین کے حقوق (rights) کے کچھ مدنی پھول:

{1}اولاد پر والدین کے حقوق (rights)اتنے ہیں کہ پورے نہیں ہو سکتے،  صرف ایک صورت(case) میں پورے ہوسکتے ہیں  کہ  وہ  انتقال کر جائیں  تو تم اُن کو دوبارہ زندہ  کرسکتے  ہو توکر دوکیونکہ   یہ (والدین)تمھارے دنیا میں آنے  کاسبب ہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد ۲۴،ص۳۷۰، مُؒخصاً)

{2} (جائز) کاموں (میں والدین کی نافرمانی(disobedience) کرنا یعنی ان کی بات نہ ماننا گناہ ہے ، اس  وجہ )سے اولاد نافرمان(اور گناہ گار ہوگی) اوراُس کا  اس طرح (والدین کی نافرمانی کرنا)اللہ   کریم کے حکم کی مُخالفت(opposition) کرنا ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد ۲۴،ص۳۸۶، مُؒخصاً)

{3} اولاد پر ماں باپ کا حق نہایت عظیم(یعنی بہت ہی زیادہ) ہے اور ماں کاحق(right) باپ سےبھی اعظم( یعنی بڑا)ہے (فتاوی رضویہ، جلد ۲۴،ص۳۸۷، مُؒخصاً) ۔ ماں کا حق زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدمت (service) میں ، کوئی چیز دینے میں والدسے پہلےوالدہ ہےمثلاًسو روپے والدین کو دینا چاہتا ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ  والد کو زیادہ دیا جائے(جیسے بیمار والد کو دوا (medicine)لینے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہو، ایسی  کوئی بات نہیں)تو اب  ماں کو پچھتر(75) روپے دے اور والد صاحب  کو پچیس(25) روپےدے ۔

اسی طرح  ماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے والدہ کو پلائے پھر والد کو یا دونوں سفر سے آئے ہیں پہلے والدہ کے پاؤں دبائے پھر  والدکے مگر یاد رہے!  یہ نہ ہو کہ اگر والدین میں کوئی جھگڑا ہو جائے تو ماں کا ساتھ دے کر مَعَاذَ اللہ! (یعنی   اللہ کریم  کی پناہ)والد صاحب  کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرے یا  کسی طرح  کی سختی کرے یا اُنہیں(غلط انداز سے) جواب دے یا  غصّے سے دیکھ  کر بات کرے، یہ سب باتیں حرام اوراللہ   کریم کی نافرمانیاں (disobedience)ہیں۔

توجّہ(attention): والدین کے جھگڑے میں  نہ والدہ کی اطاعت ہے نہ والدکی، یعنی اولاد کو ماں باپ میں سے کسی کا گناہوں بھرا ساتھ دینا ہر گز جائز نہیں(ہاں! کسی طرح ممکن ہو تو لڑائی ختم کروانے کے لیے بَچّوں کو بیچ میں آکر لڑائی ضرور ختم کروانی چاہیے مگر اس میں بھی والدین کے ادب   کا خیال  رکھنا ضروری ہے ۔ ان کے ساتھ  اونچی  آواز سے بات کرنا ، انہیں برا بھلا کہنا وغیرہ اس حال میں بھی منع ہی رہے گا)۔ یاد رہے!  والدین دونوں ہی، اولاد کے لیے جنّت  اور دوزخ میں جانے کا سبب ہیں ، لھذا جسے بھی تکلیف دےگا دوزخ کا حقدار (deserving)بنےگا(ہم اللہ   کریم سے،اُس کے عذاب(punishment)  سے پناہ مانگتے ہیں)۔

 (فتاوی رضویہ، جلد ۲۴،ص۳۸۹،۳۹۰، مُؒخصاً)

{4} ماں کی خدمت  دنیا اور آخرت  کے لیےسعادت ہے، (شریعت کے دائرے میں)جتنی  ہو سب بہتر ہے اور اولاد کی مرضی پر ہے لیکن اُس صورت (case) میں کہ جب  ماں کو نفقہ(یعنی کھانے، پینے، رہائش (accommodation)کے خرچ)  کی ضرورت نہ ہو اور اگر ماں کونفقے(یعنی خرچے کی ضرورت ہو تو اب ماں کو اس کی ضرورت کے مطابق) دینا واجب  ہے۔(فتاوی رضویہ ج ۱۸،ص۲۰۶،مُلخصاً)

 {5} خدمت میں ماں  پہلے ہے لیکن والد کی  تعظیم(respect) زیادہ ہے کہ وہ اس( یعنی اولاد) کی ماں کا بھی حاکم (ruler) اورآقا ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد ۲۴،ص۳۸۹،۳۹۰، مُؒخصاً)

{6} جو مطلقاً بلا تاویل ایسا (یعنی  ہر صورت(case) میں یہی ) اعتقاد (belief)رکھتا ہو کہ باپ کی اطاعت (یعنی فرمانبرداری۔obedience) شرعاً ضروری نہیں یا مَعَاذَ اللہ! والد کی توہین (یعنی بے عزّتی۔insult) اورتذلیل( یعنی ذلیل کرنا۔humiliation) جائز ہے، وہ بے شک اللہ   کریم  کے حکم کا انکار(refusal) کرنے والا  اور اس پر صریح (یعنی صاف صاف)الزامِ کفر(یعنی کفر لازم آئے گا)۔(فتاوی رضویہ، جلد ۲۴،ص۳۸۶، ماخوذاً)

{7} (جائز کاموں میں )باپ کی ناراضی اللہ  کریم  کی ناراضی ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد ۲۴،ص۳۸۷، مُؒخصاً)

{8} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَنْتَ وَمَالُکَ لِابِیکَ(ترجمہ)تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے (سنن أبي داود، کتاب البیوع،  الحدیث: ۳۵۳۰، ج۳، ص۴۰۳) ۔ حکم سعادت تو یہ ہی  ہے (کہ بیٹا اپنا سب مال لینے کی اپنے والد کو اجازت دے دے ) مگر  کسی چیز کا شرعاً مالک ہونے کے اعتبار (according) سے اصول یہی ہے کہ  بیٹا اپنی تمام چیزوں کا خود مالک (himself owner)ہےباپ اگر محتاج (ضرورت مند۔needy)ہو تو جتنی ضرورت  ہو، اُتنا مال بیٹے کے فاضل (extra)مال سے بیٹے کی  اجازت  کے بغیربلکہ اس کی رضامندی (consent)  کے بغیر بھی لے سکتا ہے لیکن یہ لینا  کھانے پینے، پہننے، رہنے کے لئے ہو(اس کے علاوہ (other) مثلاً گھومنے پھرنے(picnic) کے خرچوں کے لیے نہ ہو)۔ہاں! اگر  ضرورت ہوتو خادم کے خرچے  کے لیے بھی لے سکتا ہے۔(فتاوی رضویہ ج ۱۸،ص۳۱۴،مُلخصاً)

  {9} اپنے والد کو  نام لے کر بُلانا مکروہ اور ادب کے خلاف ہے۔(بہار شریعت ح ۱۶،ص۶۵۷،مسئلہ۳۰، مُلخصاً)

{10}    باپ کے دوستوں کے بارے میں حکم  یہ ہے کہ ان کے دوست کی عزّت کی جائے۔

(فتاوی رضویہ ج ۲۴،ص۳۸۷،مَاخوذاً)

 {11} سوتیلی ماں  کا   بہت خاص تعلّق  (آدمی کے) باپ سے  ہے(کہ سوتیلی ماں، آدمی کے والد کی زوجہ ہے) جس کی وجہ  سے اس کی  عزّت  کرنا لازم ہے، اسی  وجہ سے اللہ   کریم نےسگی ماں کی طرح سوتیلی ماں کو بھی سوتیلے بیٹے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام کیا ہے۔ (فتاوی رضویہ ج ۲۴،ص۳۸۷،ماخوذاً)

{12} خبردار! خبردار! ہرگز ہرگز اپنے کسی  کام یا کسی بات  سے ماں باپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دیں۔ چاہے ماں باپ اولاد پر کچھ زیادتی(مثلاً ظلم) بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض ہے کہ وہ ہرگز ہرگز کبھی بھی اور کسی حال میں بھی ماں باپ کا دل نہ دکھائیں۔

     آج کل  لڑکے اور لڑکیاں ماں باپ کے حقوق (rights) کو بالکل نہیں جانتے۔ ان کی تعظیم(respect) اور فرماں برداری(obedience) و خدمت گزاری (serving)سے دور ہیں بلکہ کچھ تو ایسے نالائق(idiot) ہوتے ہیں  کہ ماں باپ کو اپنی باتوں اور کاموں  سے  تکلیف دیتے ہیں اور اس طرح  گناہ کبیرہ میں پڑ کر اللہ   کریم کے قہر و غضب   کی طرف بڑھتےاور جہنّم کے عذاب کاحقدار(deserving for punishment) بنتے ہیں۔

{13}   اولاد کو چاہیے کہاپنی ہر بات اور اپنے ہر  کام  میں ماں باپ کی عزّت  کا  خیال رکھے ہر جائز کام میں ماں باپ کی فرماں برداری (obedience) کرےاگر ماں باپ کو کچھ بھی  ضرورت  ہو تو جان و مال سے ان کی خدمت (service) کرےاگر ماں باپ   اولاد کے مال وسامان میں سے کوئی چیز لے لیں تو خبردار !خبردار! ہر گز ہر گز برا نہ مانے،  نہ ناراض ہوماں باپ کا انتقال ہوجائے تو اولاد پر ماں باپ کایہ حق ہے کہ ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اوراپنی فرض اور نفلی عبادتوں وغیرہ  کا ثواب ان کی روحوں کو پہنچاتا رہے ماں  باپ کے دوستوں اور ان کے ملنے جلنے والوں کے ساتھ احسان(favour)  اور اچھا  انداز رکھےماں باپ پر جن کا قرض (loan)ہو ،اُن کو دے ماں باپ جن کاموں کی وصیّت کر گئے ہوں( مثلاًمیرے جانے کے بعد یہ یہ جائز کام کرنا ) توان  پر عمل کریں(یاد رہے!  اگر والدین نے مال  دینے یا جائیداد دینے کا کہا تھا یاکسی اور قسم کی وصیّت کی تھی(مثلاً اس طرح کہا تھا کہ میرے انتقال کے بعد میرے مال کا 10%، فلاں عالم صاحب کو دے دینا) ، تو  ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘ سے اس کی شرعی رہنمائی (guidance)لے لیں) جن کاموں سے زندگی میں ماں باپ کو تکلیف ہوا کرتی تھی ان کی وفات کے بعد بھی ان کاموں کو نہ کریں کہ اس سے ان کی روحوں کو تکلیف پہنچے گی(یاد رہے! جو کام  شرعاً لازم ہو مثلاً پردہ کرنا، اگر (مَعَاذَاللہ! یعنی   اللہ کریم    کی پناہ)اُس سے انہیں پریشانی ہوتی تھی تب وہ کام کیا جائے گا )کبھی کبھی ماں باپ کی قبروں کی زیارت کے لئے بھی جایاکرے، فاتحہ پڑھا کرے، سلام کیا کرےاور ان کے لئے دعائے مغفرت کیا کرے،اس سے ماں باپ  کو خوشی ہوگی اور فاتحہ کا ثواب فرشتے نور کی تھالیوں (plates)میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کریں گے اور ماں باپ خوش ہو کر اپنے بیٹے بیٹیوں کے لیے دعائیں کریں گے۔(جنّتی زیور ص ۹۳ تا ۹۴، مُلخصاً)

()

138 ’’قرض(loan) ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

     جس کا دوسرے پر حق ہو اور وہ ادا(pay) کرنے میں تاخیر(delay) کرے تو (جس  نے قرض (loan)دیا)ہرروز اُتنا مال صدقہ کرنے کا ثواب پائے گا(کہ جتنا مال اُس نے قرض میں دیا)۔

(المسندللإمام أحمد بن حنبل، الحدیث:۱۹۹۹۷، ج۷، ص۲۲۴)

واقعہ(incident):                    قرض میں شرط(precondition) لگا دی

     ایک شخص نےحضرت عبداﷲ بن عمر  رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکے پاس آکر عرض کی، کہ میں نے ایک شخص کو قرض (loan)دیا ہے اور یہ شرط (preconditios)طے(fixed)کرلی ہے کہ میں نے جتنادیا ہے، میں  اُس سے بہتر (یعنی زیادہ) واپس کرلوں گا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے  فرمایا: یہ سود ہے۔ اُس نے پوچھا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا، قرض کی تین (3)صورتیں ہیں:(1st )ایک وہ قرض  جس سے  اﷲ  کریم کی رضا حاصل  کی جائے(یعنی اﷲ  کریم کی  رضا کے لیے کسی کو قرض دیا جائے )، اس  سے تجھے اﷲ  کریم کی رضا ملے گی اور (2nd )ایک وہ قرض ہے جس سے  کسی شخص کو خوش کیا جائے، اس قرض  سے صرف اُس  آدمی کی خوشی  ملے گی  اور (3rd )ایک وہ قرض ہے جو تو نے اس لیے دیا ہے کہ پاک مال دے کر ناپاک مال حاصل کرے۔

          اُس شخص نے عرض کی، تو اب آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا:دستاویز(یعنی جس کاغذ پر  سود لینے کا طے (fixed)  کیا گیا تھا) پھاڑ ڈالو(tear the document) پھر اگر وہ قرضدار(borrower) اتنی ہی  رقم (amount)دے جتنی  تم  نے اُسے دی ہےتو  لے لواور اگر اُس سے کم دے تب بھی لے لو کیونکہ اس میں  تمھیں  ثواب ملے گا اور اگر اُس نے اپنی خوشی سے بہتر ادا کیا تویہ ایک شکریہ ہے، جواُس نے کیا۔

(''کنزالعمال''،کتاب البیوع،الحدیث:۱۰۱۴۰  ،   الجزء الرابع،ج۲،ص۸۲، وغیرہ، مُلخصاً)

    بہارِ شریعت میں ہے: قرض کی واپسی میں اُس چیز کی مثل (یعنی اُسی طرح کی چیز )دینی ہوگی جولی  تھی نہ اُس سے بہتر(better) نہ کمتر(inferior) ہاں !اگر بہتر چیز واپس کرتا ہے اور اس  طرح کی شرط (precondition)نہیں کی تھی تو  قرض دینے والے کے لیےجائز ہے کہ وہ اُس بہتر(better)چیز کولے سکتا ہے اسی طرح جتنا مال قرض میں  لیا ، دیتے وقت اُس سے زیادہ مال واپس کیا مگر پہلے سے یہ طے(fixed) نہیں تھا کہ زیادہ دے گا تو یہ بھی جائز ہے (بہارِ شریعت ح۱۱،ص۷۵۹، مسئلہ۱۹، مُلخصاً) ۔یاد رہے! اگر کسی شخص نے دوسرے سے سودلینے کا طے(fixed) کر لیا تھا، بعد میں توبہ کر لی تو اب جس سے سودی مُعاہدہ (interest agreement)کیا تھا،اُسے اپنی توبہ کرنے کی اطلاع(notification) دینا اور سودی مُعاہدے (interest agreement)کو ختم کرنا ضروری ہے۔

قرض کے دینی مسائل:

{1} سود ایک عقد(agreement) ہوتا ہے  جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی (اس کے مسائل ” دین کے مسائلpart 04  میں دیکھیں) لیکن یہاں جو مسائل بتائے جا رہے ہیں وہ  سود کے نہیں بلکہ  گھریلو چھوٹی موٹی چیزیں ادھار لینے کے ہیں()۔

{2} جو چیز قرض لی یا دی جائے ، اُس کا مثلی ہونا ضروری ہے یعنی ماپ(measurement) کی چیز ہویا تول (weigh)کی ہو یا گنتی کی (countable)ہو مگر گنتی کی چیز میں شرط (precondition)یہ ہے کہ اُس کے افراد میں زیادہ فرق نہ ہو، جیسے انڈے، اخروٹ(walnut)، بادام، اور اگر گنتی کی چیز میں زیادہ فرق ہو جس کی وجہ سے قیمت میں فرق(difference) ہو جیسے:پاکستان میں کیلے(bnana)  گِن کر بکتے ہیں، ان کوقرض نہیں دے سکتے۔اسی طرح ہر قیمی چیز جیسے جانور، مکان، زمین، ان کو قرض  میں دینا بھی  صحیح نہیں۔

{3}    روٹیوں کو گن کر (by counting)بھی قرض لے سکتے ہیں اور تول کر(by weigh)بھی گوشت وزن کرکے قرض لیاجائے گا۔

{4} آٹے  میں  عرف  (یعنی  معمول۔general routine )اگر وزن(weigh) سے قرض لینے کا ہو جیسا کہ عموماًہندوستان(موجودہ پاک و ہند  اور بنگلہ دیش) میں ہے تو وزن سے  قرض  لیناجائز ہے۔

{5} قرض واپس کرنے میں چیز کے سستے (cheap)یا مہنگے(expensive) ہونے کو نہیں دیکھا جائے گا مثلاً دس  کلوگیہوں(wheat) قرض لیے تھے اُن کی قیمت(price) ہزار روپے تھی  پھر جس  دن  واپس کیا تو اُس دن قیمت ہزار روپے سے کم یا زیادہ ہوگئی  تو اس  بات کو نہیں دیکھا جائے گا بلکہ دس کلو گیہوں(wheat) ہی  واپس کیا جائے گا۔

{6} میوے(fruits) قرض لیے تھے، جب قرض واپس کرنے لگا تو بازار میں میوے ختم ہوچکے تھے تو اب قرض دینے والے  کو انتظار کرنا پڑے  گا کہ جب  نئے پھل آجائیں اُس وقت قرض  واپس کیا جائے گا اور اگر دونوں قیمت (price)  دینے لینے پر راضی (agree)ہوجائیں تو قیمت دےدی جائے۔

{7} قرض لینے والے نے چیز قرض میں لے لی تو اُس چیزکامالک ہوگیا قرض میں  جو چیز لی  اور ابھی خرچ نہیں کی  تھی کہ اپنی چیز آگئی مثلاًآٹا قرض  میں لیا تھا، استعمال کرنے سے پہلے دوسرا آٹا( جو قرض میں لینے والے کا اپنا تھا) آگیا تواب قرض لینے والے کویہ اختیار(authority) ہے کہ اُس کی چیز رہنے دے اور اپنی چیز سے قرض دے دے  قرض  دینے والا یہ  نہیں کہہ سکتا کہ میں نے جوچیز دی تھی وہ تمھارے پاس موجود ہے میں وہی لوں گا۔

{8}ایک شخص سے دوسرے نے روپے قرض مانگے وہ دینے کولایا اس نے کہا پانی میں پھینک دو اُس نے پھینک دیا تو اس(قرض میں مانگنے والے)  کاکچھ نقصان نہیں اُس (پیسے لانے والے)نے اپنا مال پھینک کر ضائع (waste) کیا( کیونکہ ابھی قرض دینے والے کے ہاتھ میں رقم نہیں آئی تھی اور یہ بھی یاد رہے! مال کو شرعی اجازت کے بغیر پھینک دینا یا ضائع(waste)  کرنا،  جائز نہیں اور جو اس طرح مال ضائع کرنے کو کہے تو وہ بُرائی کی دعوت دینے والا اور گناہ گار ہے)۔

{9} قرض میں کسی شرط (precondition)کا کوئی اثر (effect) نہیں ، یعنی شرطیں(preconditions)  بیکار(useless) ہیں مثلاً یہ شرط کہ اس کے بدلے میں فلاں چیز دینا یا یہ شرط کہ فلاں جگہ (مثلاً حیدر آباد (ایک شہر)میں چیز لی اور کہا کراچی(دوسرے شہر) میں) واپس کرنا۔ یاد رہے کہ چھوٹی موٹی چیزیں ،اس طرح لینے میں  شرطیں (preconditions)  لگانا خطرناک (dangerous)ہے  کیونکہ کئی شرطیں سود یا سود کی طرف لے کر جانے والی بن  سکتی ہیں (اور سودی شرط لگانا  اور سودی شرطوں  پر راضی(agree)  ہونا  گناہ  اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے) لھذا اس طرح چیزیں لینے میں کوئی بھی شرط نہ لگائی جائے۔

{10} قرض  کی واپسی میں اُس چیز کی مثل(یعنی اُسی طرح کی) دینی ہوگی جولی ہے نہ اُس  چیزسے بہتر نہ اُس سے کم درجے والی ۔ہاں! اگر بہتر دیتا ہے لیکن پہلے ایسی کوئی بات طے(fixed) نہ تھی تو جائز ہے ،دائن (قرض دینے والا)اُس کولے سکتا ہے اسی طرح  جتنا لیا ہے، واپس کرتے ہوئے اُس سے زیادہ دیا مگر زیادہ دینے کا کسی طرح بھی طے(fixed) نہیں تھا تو یہ زیادہ دینا بھی جائز  ہے۔

{11} جس پر قرض ہے اُس نے قرض دینے والے کو کچھ تحفہ دیا تو(قرض دینے والے کو) لینے میں حرج نہیں جبکہ  یہ تحفہ  قرض کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس لیےہو کہ دونوں میں  رشتہ داری یا دوستی ہے یا تحفہ دینے والےکی عادت ہی میں سخاوت (generosity)ہے کہ لوگوں کوتحفے دیتا ہے اور اگر قرض کی وجہ سے  تحفہ دیتا ہے تو اس کے لینے سے بچنا چاہیے اور اگر یہ پتا نہ چلے کہ قرض کی وجہ سے ہے یانہیں ،تب بھی بچنا چاہیے جب تک یہ بات  صاف صاف پتا نہ چل جائے کہ (یہ تحفہ )قرض کی وجہ سے نہیں ہے۔

{12} جس نے قرض دیا، اُس کی دعوت کابھی یہی حکم ہے کہ  اگر قرض کی وجہ سے نہ ہو تو جانے میں حرج نہیں اور قرض کی وجہ سے ہے ،یا پتا نہیں  چل رہا کہ کیوں کی ہے؟ تو بچنا چاہیے۔ اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ قرض  نہیں دیا تھا جب بھی دعوت کرتا تھا تو معلوم ہوا کہ یہ دعوت قرض کی وجہ سے نہیں اور اگر پہلے نہیں کرتا تھا اور اب کرتا ہے، یا پہلے مہینے میں ایک بار کرتا تھا اور اب دوبار کرنے لگا، یا اب مہمان نوازی (hospitality) کا سامان زیادہ کرتا ہے تو معلوم ہواکہ یہ قرض کی وجہ سے ہے اس سے بچنا چاہیے۔(بہارِ شریعت ج۲،ح۱۱،ص ۷۵۴ تا۷۶۵،مسئلہ۱،۴،۵،مُلخصاً)

{13}    ضرورت کے وقت  قرض لینا جائز ہے، جبکہ  واپس  کرنے کی نیّت(intention) ہو اور اگر یہ  نیّت  ہو کہ  واپس  نہیں  کرے گا تو اب قرض لینا حرام  ہے اور  اگر بغیر ادا(pay) کیے مرگیا مگر نیّت یہ تھی کہ  واپس کر دے گا، تو اُمید(hope) ہے کہ آخرت(یعنی قیامت) میں اس سے (اس قرض کے بارے میں )  سوال جواب نہ ہو۔

   {14} جس کا حق(مثلاً مال یا قرض وغیرہ) ، آپ کی طرف تھا اور اب وہ شخص  نظر نہیں آتا، پتا نہیں کہاں گیا بلکہ یہ بھی نہیں  پتا کہ وہ  زندہ  بھی ہے یا  نہیں  تب بھی  (قرض وغیرہ لینے والے پر)واجب  ہے کہ  اُسے تلاش کرتا رہے۔  

{15} مدیون (کاروباری قرض لینے والا)اور دائن (کاروباری قرض دینے والا)جارہے تھے کہ  راستہ میں ڈاکو آگئے،  قرض لینے والا یہ چاہتا ہے کہ میرے پاس جو مال (یا پیسہ) ابھی ہے، میں اس سے قرض واپس کر دوں اور    ڈاکو میرا نہیں بلکہ سامنے والے کا مال لےلیں  توفقیہ ابواللیث رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ یہ فرماتے ہیں کہ(اس وقت)  قرض دینے والا، قرض واپس  لینے سے  منع کرسکتا ہے۔ (بہارِ شریعت ،ح۱۶،ص۶۵۶،مسئلہ۲۲،۲۳،۲۴،مُلخصاً)

  دائن( کاروباری قرض دینے والے) نے مدیون (کاروباری قرض لینے والے)سے کہہ دیا کہ میرا روپیہ جو تمہارے  اوپر ہے اُسے خیرات (یعنی صدقہ)کر دو ، تو دائن اس طرح کہہ سکتا ہے اور    اب اگر قرض لینے والےنے اُس(قرض دینے والے ) کی طرف سے خیرات کر دیا تو قر ض  ادا(pay) ہوگیا۔(بہار شریعت ، ح ۱۲،ص۱۲، مسئلہ ۳۶،مُلخصاً)

      مسلمان نے شراب بیچی تویہ  بیچناجائز  نہیں  اور  اس  سے ملنے والے پیسےبھی ناجائز ہے۔(اب اگر واقعی معلوم ہے کہ  یہ پیسے مسلمان نے شراب بیچ کر لیے ہیں  مثلاً ہماری آنکھوں کے سامنے بیچی پھر) اسی  پیسوں  کو دَین(یعنی قرض ) میں(قرض  دینے والے کا) لینا جائز  نہیں ہے۔ یہی حکم ہر ایسی صورت (case)میں ہے جہاں یہ معلوم ہے کہ یہ مال جو مجھے واپس کیا جا رہا ہے یہ حرام  مال ہے تو اس (حرام مال) کو( قرض میں واپس) لینا ناجائز ہے، مثلاً معلوم ہے کہ یہ  چوری کا مال ہے   عورت کو ناچنے گانے پر جو  اُجرت(wages)  ملی یہ بھی ناجائز، قرض میں اس کا لینا بھی ناجائز۔(بہار شریعت ح ۱۶،ص۴۸۱،مسئلہ۱۵،۱۶، مُلخصاً)

()

139 ’’ جوا اوررزقِ حلال ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

     جو تم کھاتے ہو اُن میں سب سے زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا۔

(جامع الترمذي،کتاب الأحکام،الحدیث: ۱۳۶۳،ج۳،ص۷۶)

واقعہ(incident):                    ایک آدمی کی چستی(agility)

      حضرت  کَعْب بن عُجْرَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کہتے ہیں  کہ ایک شخص پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سامنے سے گزرا۔ صحابہِ کرام رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْ نے اس کی چستی  (agility)دیکھ کر عرض کی :یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کاش! یہ شخص اللّٰہ  کریم  کے راستے میں ہوتاتو  ہمارے  پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اگر یہ اپنے چھوٹے بَچّوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے  گیا ہے تو بھی یہ اللّٰہ  کریم  کے راستے میں ہے اور اگر اپنے بوڑھے والدین کی خدمت (service)کے لئے گیاہے تو بھی  اللّٰہ  کریم  کے راستے میں ہے اور اگر اپنے آپ کو(ناجائز چیزوں سے) بچانے کے لیے گیا ہے تب  بھی اللّٰہ  کریم  کے راستے میں ہے اور اگر یہ ریاکاری (یعنی لوگوں کو اپنا نیک کام دکھانے)اور  فخر(pride) کے لئے نکلا ہے تو پھر یہ شیطان کے راستےمیں ہے۔(المعجم الکبیر، ۱۹/۱۲۹حدیث:۲۸۲، مُلخصاً)

جوئے کے کچھ دینی مسائل:

{1}ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط(precondition) ہو کہ ہارنے والے(losers) کی کوئی(مال یا) چیز جیتنے والے(winners) کو دی جائے گی،   ’’جوا‘‘ ہے۔ (التعریفات للجرجانی، ص ۱۲۶)

{2}مختلف کھیل مثلا  کرکٹ، کَیرم(carrom play)، بِلیرڈ(billiards)، تاش(playing cards)، شطرنج(chess) وغیرہ دو(۲) طرفہ(both sides) شرط لگا کر کھیلے جاتے ہیں کہ ہارنے والا(loser) جیتنے والے(winner) کواتنی رقم یا فُلاں چیز دے گا یہ بھی جُوا ہےگھروں یا دفتروں میں چھوٹی موٹی باتوں پر جو اس طرح کی شرطیں(preconditions)  لگتی ہیں کہ اگر میری بات صحیح نکلی تَو تم کھانا کِھلاؤ گے اور اگر تمہاری بات سچ نکلی تو میں کھانا کِھلاؤں گا(یہ بھی جُوا ہے)آج کَل موبائل پر کمپنی کو میسج (message) کرنے پر ایک مَخْصُوص رَقَم(fixed amount) کٹتی ہے اور اس پر بھی اِنْعَامات رکھے جاتے ہیں ، یہ بھی جُوا ہے۔

(جوئے کی مزید مثالیں جاننے کے لیے غیبت کی تباہ کاریاں  ص ۱۸۶ تا ۱۹۱پڑھیں)

{3}کرکٹ  میچ یا ایک ایک بال پر جو رقم لگائی جاتی ہے یہ بھی  جوئے میں داخل ہیں اسی  طرح لاٹری وغیرہ جوئے میں داخل ہے۔(صراط الجنان، ج۱،ص۳۳۷، مُلخصاً)

{4} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ! جوا کھیلیں۔ اس کہنے والے کو چاہئے کہ صدقہ کرے (مسلم، کتاب الایمان،  ص ۶۹۲، حدیث:۴۲۶۰) ۔ عُلَمائے کِرام  فرماتے ہیں: جوا کھیلنا تو بہت بڑا گناہ ہے ، اگر کسی کو جوا کھیلنے کی دعوت بھی دے تو وہ جوئے کا مال جس سے جوا کھیلنا چاہتا ہے وہ یا دوسرا اتنا ہی مال صدقہ کردے تاکہ اس غلط ارادے(یعنی بُری نیّت) کا یہ کفّارہ (یعنی بدلہ)ہوجائے (مراٰۃ المناجیح،  ۵/ ۱۹۵مُلخصاً) ۔ یاد رہے کہ بُرائی اور گناہ کی طرف بُلانا بھی بُرائی اور گناہ ہے۔

{5}حرام وناجائزکام سے پہلے بِسْمِ اللہ شریف ہرگز،ہرگز،ہرگزنہ پڑھی جائے، حرامِ قَطعی (یعنی جو کام   یقینی طور پر حرام ہو، اُس) سے پہلے بِسْمِ اللہ پڑھنا کفر ہے  جیسا کہ ''فتاوٰی عالمگیری ''میں ہے:شراب پیتے وَقْت، زِنا کرتے وَقْت یا جُواکھیلتے وَقْت بِسْمِ اللہ کہنا کُفْر  ہے۔ (فتاوٰی عالَمگیری ج ۲ ص ۳ ۲۷)

{6}کچھ لوگ  آپس میں یہ طے(fixed)  کریں کہ کون آگے بڑھےگا ؟ تو جو  آگے بڑھے گااس کو یہ انعام  دیا جائے گا   اس کے جائز ہونے کے لیےیہ ضروری  ہے کہ صرف ایک طرف سے مال کی  شرط (precondition)ہو، یعنی دونوں میں سے ایک نے یہ کہا کہ اگر تم آگے نکل گئے تو تم کو( مثلاً )سو روپے دوں گا اور میں آگے نکل گیا تو تم سے کچھ نہیں لوں گا  اسی طرح اگر کسی تیسرے آدمی (third party)نے کہا کہ جو آگے نکلا، میں اُسے اتنے پیسے  دوں گا تو یہ بھی جائز ہے اس مقابلے(competition)  کو مُسابقت (ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا مقابلہ) کہتے ہیںیہ مقابلہ(competition) صرف تیر اندازی (archery)  یا گھوڑے یا گدھے  یا اونٹ کی دوڑ بلکہ انسانوں کی دوڑ کا بھی کیا جاسکتا ہے کہ  یہ  چیزیں   جہاد (war) کے لیے مدد دیتی ہیں یعنی یہ مقابلہ (competition) جہاد کی تیاری کےلیے ہو سکتا ہےکھیلنےیا تفریح کے لیے یا اپنی طاقت دکھانے کے لیے اس طرح کا مقابلہ کرنا مکروہ ہے (بہارِ شریعت ح۱۶،ص۶۰۷،مسئلہ۱اور ۳مُلخصاً) ۔یاد رہے کہ  ہمارے ہاں  کئی کھیل  لھو و لعب(تفریح اور مزہ لینے) کے لیے کھیلے جاتے ہیں     (یعنی    وہ تنشیط(جسم کی ورزش) کے لیے نہیں ہوتے)    ،  ان میں سے  کچھ کھیل ایسے ہوتے ہیں کہ عورتیں اور مرد مل کر اُسے دیکھتے ہیں اور خوب بے پردگی ہوتی ہے، جوئے لگائے جاتے ہیں،  نماز کی جماعت بلکہ (مَعَاذَاللہ! (یعنی   اللہ کریم   ہمیں اس سے بچائے) نمازیں تک چھوڑ دی جاتی ہے۔ اسی طرح  موسیقی(music) چلانا، بد زبانی  (bad language)  کرنااور گالیوں  کا شور ہونا، پڑوسیوں کو تنگ  کرنا، راستوں کو بند کرنا، رات دیر تک کھیلنا اور  اس وجہ سے فجر کی نماز چھوڑ دینا، کیسا؟ ان میں کئی خرابیاں ایسی ہیں کہ ہر عقل رکھنے والا اُ س کا نقصان سمجھ سکتا ہے اور دینِ اسلام میں اس طرح کے کھیل کی بلکل بھی اجازت نہیں۔ حیرت ہے اُن لوگوں پر کہ جو ایسے کھیلوں   میں  وقت  خراب  کرتے ، پیسہ برباد کرتے بلکہ اس میں جیتنے کی  دعا کرتے، یہاں تک کہ  اس  میں جیّت کو اپنے لیے عزّت سمجھتے ہیں!!!

کھیل کود کے  کچھ دینی مسائل:

{1} اللہ   کریم   فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر سمجھے اللہ کی راہ سے بہکادیں (یعنی گمراہ کردیں)اور اُنہیں ہنسی مذاق بنالیں۔ اُن کےلئے ذِلّت(humiliation) کا عذاب(punishment)  ہے (ترجمۂ کنز العرفان) (پ۲۱، لقمٰن:۶) ۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: (کھیل کی باتوں میں) گانا بجانا  بھی  شامل  ہے اوروہ   آلات اور سامان (instruments) کہ جن سے  گانا بجایا  جاتا ہے، اُن (musical instruments) کوبیچنا بھی منع ہے اور خریدنا بھی ناجائز۔  اس آیت سے   پتا چلتا ہے کہ گانا بجانا حرام اور جہنّم میں لےجانے والا کام  ہے۔ (ماخوذ از صراط الجنان، ۷/۴۷۵)

{2} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جتنی چیزوں سے آدمی لہو کرتا ہے، سب باطل ہیں مگر کمان(bow) سے تیر(arrow) چلانا اور گھوڑے کو ادب دینا(یعنی گھوڑ سواری۔horse riding) اور زوجہ کے ساتھ کھیلنا کہ یہ تینوں حق ہیں۔(سنن الترمذي،کتاب فضائل الجھاد، الحدیث :۱۶۴۳،ج۳،ص۲۳۸)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:ہر کھیل اورعبث فعل(یعنی فضول کام) جس میں نہ کوئی  دینی فائدہ ہو اور نہ ہی  کوئی جائز دنیاوی فائدہ ہوسب مکروہ اوربے کار کام ہیں۔ ہاں! یہ بات الگ ہے کہ کوئی کم مکروہ ہے اورکوئی زیادہ مکروہ ۔(فتاوی رضویہ ج۲۴،ص۷۸، مُلخصاً)

{3} فرمانِ  مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لہو ولعب کرو (یعنی جائزکھیل ، شریعت کی اجازت کے مطابق کھیلو) کیوں کہ میں یہ پسند نہیں کرتاکہ لوگ تمہارے دین میں سختی دیکھیں ( شعب الایمان حدیث ۶۵۴۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۵ / ۲۴۷)۔عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں:حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرف سے مُباح لہو(یعنی شریعت  نے جس کھیل کو جائز  کہا ہو،اُسے کھیلنے )کی اجازت ہے۔(حدیقۃ الندیۃ ،   نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲ /۴۳۹)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:  کھیل جائزہو اور تھکاوٹ کے بعد اس لیے کھیلا  جائے کہ

 اس سے  طبیعت تازہ(  fresh )ہو جائے تواب  وہ کھیل  عبث(یعنی فضول )  نہ رہے گا  اور بظاہر تو یہ  کھیل نظر آرہا ہے مگر  اصل میں یہ کھیل ہی  نہیں ۔(فتاوی رضویہ جلد ۱ (ب)، ص۹۹۹،مُلخصاً)

{4}کھیل میں دو چیزیں ہوتی ہیں:(۱)غفلت (لاپرواہی۔negligence)اور(۲) لذت(مزہ)،غافل کرنے والا ہر کام باطل (یعنی شرعاً درست نہیں )ہے مگر لذت والے کاموں میں تفصیل(detail) ہے۔(مراۃ، جلد۵، ص۷۶۶، سوفٹ ائیر،مُلخصاً)

{5} امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ضروری ہے کہ پڑھنے کے بعد بچّے کو کوئی اچھا کھیل کھیلنے دیا جائے تاکہ وہ کتابوں (کو پڑھنے) کی تھکاوٹ (exhaustion)سے سکون (relaxation)پاسکے۔ (احیاء العلوم ،ج۳، ص۹۱)

ایک بار حضرت عبدُاللہ بن مُغفَّل  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کا چھوٹا سا بھتیجا(یعنی بھائی کا بیٹا) پتھر پھینک رہا تھا ، انہوں نے دیکھ کر منع کرتے ہوئے کہا کہ  پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے   فرمایا : اس (کھیل) کا کوئی  فائدہ نہیں، نہ شکا ر ہوسکتا ہے، نہ دشمن کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے(یعنی یہ کھیل دشمن سے لڑنے کی طاقت بھی نہیں دیتا) اور(یہ پتھر) اِتفاقاً (incidentally) کسی کو لگ جائے تو آنکھ پھوٹ سکتی ہے ، دانت ٹوٹ سکتا ہے۔ (ابن ماجہ ، ج ۱، ص۱۹، ، حدیث :۱۷،ماخوذاً)

{6} مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:اپنے لڑکو ں کو شوقین مزاج  نہ بناؤبلکہ ان کو سادگی اور اپنا کا م اپنے ہاتھ سے کرنا سکھاؤ، کرکٹ،ہاکی، فٹ بال سے ہرگز نہ کھیلاؤ۔کیونکہ ان کھیلوں میں کچھ فائدہ  نہیں بلکہ ان کو لکڑی کا ہنر، ڈنڈ(خاص ورزش) اور مختلف ورزش و ہنر وغیرہ  سکھاؤ جس سے تندرستی بھی اچھی رہے اور کچھ ہنر بھی آجائے تاش بازی ،پتنگ بازی،کبوتر بازی،سینمابازی،سے بَچّوں کو بچاؤ کیونکہ یہ کھیل حرام ہیں بلکہ میری رائے(یعنی مشورہ) تو یہ ہے کہ بَچّوں کو علم کے ساتھ کچھ دوسرے ہنر بھی سکھاؤجس سے بچّہ کما کر (by earning)اپنا پیٹ پال سکے۔ یہ سمجھ لو کہ ہنر مند کبھی خدا کے فضل سے بھوکا نہیں مرتا۔ اس مال و دولت کا کوئی اعتبار نہیں ان باتوں کے ساتھ انگریزی سکھاؤ کالج میں پڑھاؤ۔جج بناؤ،کلکٹر (collector)بناؤ ،دنیا کی ہرجائز ترقی کراؤ مگر پہلے اس کو ایسا مسلمان کردوکہ کوٹھی(ترقی کر کے بنگلہ، بڑا سا گھر بنا کر،اُس) میں (جانے کے بعد)بھی مسلمان ہی رہے۔(اسلامی زندگی ص۳۳، مُلخصاً)

{7} صحیح  یہ ہی ہے کہ پھل دار درختوں کی تصویر بنانا مکروہ  نہیں، لیکن اس طرح کی بے جان چیزوں  کی تصویریں بھی اگر  لہوولعب(یعنی تفریح اور تماشے) کی نیّت (intention)سے بنا ئی تو مکروہ ہے کیونکہ اب یہ  کھیل کود ہے۔(مراۃ، جلد۶، ص ۳۳۹،سوفٹ ائیر،مُلخصاً)

{8} بَچِّیوں کو گڑیوں اور کھلونوں سے کھیلنا جائز ہے گڑیوں سے انہیں  کپڑےسینا  اور گھر کے کچھ کام سیکھنے میں مدد ملتی ہے ۔(مراۃ، جلد۵،ص۵۰،سوفٹ ائیر،مُلخصاً)

{9}چڑیا پالنا (bird raising)،اسے پنجرے(cages) میں رکھنا اور اس سے بَچّوں کا کھیلنا جائز ہے  مگر شرط (precondition)   یہ ہے کہ اس کے دانہ پانی ،آرام وغیرہ  کا خیال رکھا جائے۔(مراۃ، جلد۶،ص۷۱۴سوفٹ ائیر، مُلخصاً)

{10}جاندار کی شکل والے کھلونوں(toys) کا خریدنا بیچنا جائز ہے اور ان کھلونوں سے بَچّوں کا کھیلنا بھی جائز ہے۔(دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:pin: 4867، مُلخصاً)

{11}باجے اگر کھیل کود کے لیے ہوں تو حرام، اگر اعلان وغیرہ صحیح  فائدے کے لیے ہوں تو حلال (مراۃ، جلد۵، ص۷۳، سوفٹ ائیر،مُلخصاً) ۔نوبت (یعنی ایک مخصوص ساز(specific instrument)) بجانا اگر فخر (pride)  کے لیے ہو تو ناجائز ہے اور اگر لوگوں کو کسی چیز کی اطلاع(notification) دینے کے لیے ہو تو جائز ہے ۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶،ص ۵۱۰،مسئلہ۱، مُلخصاً)

{12}    لوگوں کو جگانے یا  خبردار(beware) کرنے کے لیے بگل(bugle) بجانا جائز ہے، جیسے رمضان شریف میں سحری کے وقت بعض جگہ نقارے(naqaresh) بجتے ہیں، تا کہ لوگ سحری  کے لیے  اُٹھ جائیں اور انھیں معلوم ہوجائے کہ ابھی سحری کا وقت باقی ہے یہ جائز ہے اسی طرح کارخانوں میں کام شروع ہونے کے وقت اور ختم کے وقت سیٹی بجا کرتی ہے یہ  بھی جائز ہے کہ یہ  اطلاع دینے کے لیے  بجائی جاتی ہے اسی طرح ریل گاڑی کی سیٹی  بھی اسی لیے  ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ گاڑی چل رہی ہے یا اسی قسم کے دوسرے صحیح  فائدے کے لیے سیٹی دی جاتی ہے یہ بھی جائز ہے۔ (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶،ص ۵۱۰،مسئلہ۳، مُلخصاً)

{13}کتے،مرغ،بیل(ox) ،بٹیر(common quail)، ریچھ(bear)، تیتر (partridge) اور دیگر جانوروں  کو آپس میں لڑانا،ناجائز،گناہ اورحرام ہےاسی طرح اِن  کی لڑائی (کو شوق سے)دیکھنا  یا کسی شخص کا  لڑائی کروانے  ہی  کے لیے مرغ، کتے یا کسی جانور کو پالنا  بھی ناجائز اور گناہ ہے، کیونکہ اِنہیں لڑانے میں جانور یقیناً زخمی (injured) ہوتے اور کبھی  مر بھی جاتے ہیں، جو جانوروں پر بڑا ظلم اور اُنہیں   ایسی تکلیف دینا ہے کہ جس کی شریعت میں اجازت نہیں ۔(دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:sar: 7441، مُلخصاً)

{14} دینِ اسلام کا حکم یہ ہے کہ کُتّا بلکہ کوئی بھی جانور کہ جو تکلیف نہ دیتا ہو، اُسے شرعی اجازت کے بغیر مارنا جائز نہیں۔ ہاں!اگر وہ نقصان پہنچاتا  توکسی تیز دھار چھری (sharp knife)سے اُسے  ذبح کرنا جائز ہے   اگر  کتا گھر کے جانوروں(جیسے مرغی اور بطخ وغیرہ) کو کھا جاتا ہے تو  بھی اسے  بتائے ہوئے طریقے سے مار سکتے ہیں اگر پکڑ کر ذبح کرنا مشکل ہو تو  یہ بھی جائز ہے کہ پہلے اسے کوئی نشے والی چیز  کھلا کر بے ہوش (unconscious) کر دیا جائے، اس کے بعد ذبح کر لیا جائے ۔(مارچ2022،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

{15}کبوتر (pigeon)پالنا اگر اڑانے کے لیے نہ ہو تو جائز ہے اور اگر کبوتروں کو اڑاتا ہے تو ناجائز کہ یہ بھی ایک قسم کا لہو ( یعنی ناجائزکھیل)ہے اور اگر کبوتر اڑانے کے لیے چھت پر چڑھتا ہے جس سے لوگوں کی بے پردگی ہوتی ہے یا  اڑانے میں  چھوٹے چھوٹے پتھر پھینکتا ہے جن سے لوگوں کے برتن ٹوٹنے کا خوف ہے، تو اس  شخص کو  اس طرح کرنے سے سختی سے منع کیا جائے گا ۔ (بہارِ شریعت ح۱۶،ص۵۱۲، مسئلہ۷ مُلتقطاً)

{16}کسی نے کٹکھنا (یعنی کاٹنے والا ) کتا(biting dog) رکھا ہوا ہے جو  لوگوں کو کاٹتا بھی ہے ، تو بستی (یا محلے ) والے ایسے کتے کو قتل کر  سکتے ہیںبلی(cat) اگر  تکلیف دیتی ہو تو اسے تیز چھری(sharp knife) سے ذبح کر سکتے  ہیں مگر اسے بھی  تکلیف دے (مثلاً ڈنڈوں سے مار کر)  قتل نہ کریں گے۔

{17}  ٹڈی (locust)حلال جانور ہے اسے کھانے کے لیے مار سکتے ہیں اور اگر تکلیف دیتی ہے تو  تکلیف سے بچنے کے لیے بھی اسے مار سکتے ہیں چونٹی(ant) نے  کاٹا تو اُسے مار دینے میں کوئی  حرج  (یا گناہ)نہیں اگر چونٹی تکلیف نہیں دیتی ہو تو اُسے مارنا مکروہ ہے،  لیکن  جوں (lice)کو مار سکتے ہیں چاہے اُ س نے نہ  کاٹا ہو

بلکہ جوں کو بدن یا کپڑوں سے نکال کر زندہ پھینک دینا ادب کے خلاف ہے(یعنی مار دیا جائے) مگر جوں کو آگ میں ڈالنا مکرو ہ ہے کھٹمل (bed bugs)کو مارنا جائز ہے کہ یہ تکلیف دینے والا کیڑا(worm) ہے۔

(بہار شریعت ح۱۶،ص۶۵۵،مسئلہ۱۶،۱۷مُلخصاً)

{18}آتش بازی (fireworks) جس طرح  شادی،شب براء ت  یا کسی بھی  خوشی میں کی جاتی ہے،ناجائزوحرام ہے کہ اس میں مال بھی ضائع (waste) ہوتا ہے اور رات کے وقت آتش بازی (fireworks)کرنے میں اسراف کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو تکلیف دینا بھی پایا جاتا  ہے کہ اُن کے آرام میں خلل(خرابی۔ disturbance)   کا سامان ہوتا ہے اور کسی مسلمان کو  شرعی اجازت کے بغیر تکلیف  دینا بھی حرام ہےاسی طرح آتش بازی کے پروگرام میں شرکت کرنا بھی ناجائزوحرام ہے کیونکہ جس کام  کا کرناحرام ہو اس کو دیکھنا اور اس پر خوش ہونا بھی حرام ہوتا ہے۔(دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:pin: 4769، مُلخصاً)

{19}ویڈیوگیم(video game) عام طور پر جس طرح کھیلے جاتے ہیں ، یہ  ناجائز و حرام ہے کہ عموماً میوزک (music) او ربدنگاہی(مثلاً عورتوں کے کارٹونز دیکھنا) وغیرہ کے گناہ اس  میں ضرور ہوتے ہیں  اور یہ دونوں کام ہی ناجائز و گناہ ہیں اگر ویڈیوگیم  میں یہ گناہ نہ بھی ہوں  تب بھی اس کا کھیلنا (تفریح، فضولیات یعنی)  لہو و لعب  کے طور پر ہوتا ہے ، تو وڈیو گیمز اس لئے کھیلنا  بھی منع ہے کہ کسی عبث (یعنی فضول کام)میں وقت ضائع (waste) کرنامنع ہے  اور ویڈیوگیمز (video games)کی اجرت(wages) لینا بھی  ناجائز و حرام ہے دکاندار نے جتنی رقم (amount)وڈیو گیمز کی  اجرت میں لی ہے ، وہ دینے والوں کو واپس کرے اور اگر دینے والوں کا پتا نہ ہو تو اسے صدقہ کردے ، کیونکہ یہ معصیت(یعنی گناہ کے کام) پر اجارہ ہے ،  اور اس طرح کے کاموں کی اجرت(wages)  کایہی حکم ہے(کہ صدقہ کر دے)۔(دارالافتاء اہلسنّت، ماہنامہ فیضان مدینہ صفر المظفر 1441ھ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

{20}تفریحاً (for fun)برف سے انسانوں اور جانوروں کےپتلے(effigy)بنانا ، جس میں چہرہ بھی  صاف صاف سمجھ میں آرہا  ہو،سخت ناجائز و حرام ہے کہ اسلام میں شرعی اجازت کے بغیر تصویر بنانا، بنوانا سخت ناجائز و حرام ہے(البتہ ٹی وی اور موبائل کی اسکرین(screen) پر آنے والا عکس(image)، تصویر نہیں ہے(ٹی وی اور مووی ص۲۶ ماخوذاً)) اسی طرح اِن ، پرنٹڈ (printed)تصویروں کو گھر میں سجا نا یا لٹکانا بھی سخت ناجائز و حرام ہے کہ حدیثوں میں اس کی بہت سخت وعید یں(یعنی سزا ئیں وغیرہ) بیان ہوئی ہیں بلکہ  جانداروں (living things) کے مُجَسَّمِے(statues) بنانا ، ان (جانداروں) کی تصویریں بنانے سے بھی  زیادہ حرام ہیں، جس نے بھی ایسا  مُجسّمہ(statue)  بنایا ہےاس پر لازم ہے کہ وہ اللہ   کریم سے سچی توبہ کرے ،ان مجسموں کو ختم کرے  اور  آئندہ(next time) بھی اس گناہ سے بچتا رہے۔(دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:nor: 11413، مُلخصاً)

{21}لہو و لعب کے طور پر(یعنی تفریحاً(for fun))  کھیلنا ،چاہے موبائل (mobile) پر ہویا کمپیوٹر (computer)  پر ہو یا اس کےعلاوہ  (other)کسی بھی  طریقے سے وہ ، اسلامی تعلیمات (Islamic teachings)میں منع  ہی ہے کہ اسلام لہو و لعب(کھیل کود) کے ساتھ وقت ضائع (waste) کرنے کو ہرگز پسند نہیں کرتا  موبائل وغیرہ پر کھیلے جانے والے گیمز میں عام طور پرغیر شرعی چیزیں جیسے:میوز ک، بے پردگی وغیرہ بھی ہوتی ہے جوکہ ناجائز ہے بلکہ بعض گیمز ایسےہیں جن میں معاذاللہ! (یعنی   اللہ کریم   ہمیں اس سے بچائے) اسلامی شعائر(وہ چیزیں کہ جو اسلام کی علامات اور نشانیاں ۔ signsہوں مثلاً داڑھی، عمامہ، مسجد ) وغیرہ کی بے ادبی کا پہلو (aspect)بھی موجود ہوتا ہے، ایسے گیمز کا حکم اور بھی سخت ہے۔لہٰذا پب جی (اور اس طرح کے کھیل)کھیلنا، جائز نہیں ہے۔(دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:web:360، مُلخصاً)

{22}کیرم (carrom)چاہے(پیسے وغیرہ کی ) شرط(precondition) اور جوئے کے بغیرہو،  اسے تفریحاً  (for fun)کھیلنا ،اپنا وقت ضائع (waste)کرنا ہے ،جس سےمسلمان کو منع کیا گیا ہے ، لہذا  بغیر شرط کے بھی  یہ گیم نہ کھیلی جائے ( یاد رہے کہ شرط  اور جوئےکے ساتھ کھیلنا تو ناجائز و حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہی ہے) ۔(دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:wat:529، مُلخصاً)

{23}شطرنج(chess) کھیلنامطلقا(یعنی ہر طریقے سے  یعنی چاہےشرط کے ساتھ ہویا بغیر شرط کے کھیلنا )منع ہی  ہے (دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:wat:197 ، مُلخصاً) ۔جیسا کہ اعلی ٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہشطرنج کے بارے میں فرماتے ہیں:مگر تحقیق (research) یہ  ہےکہ مطلقاً(یعنی ہر صورت(case) میں شطرنج کھیلنا)منع(ہی) ہے۔  (فتاوی رضویہ ،جلد24، صفحہ 76،رضا فاؤنڈیشن ، لاہور، مُلخصاً)

{24}تاش اورشطرنج(cards and chess) دونوں  ناجائز ہیں اور تاش زیادہ گناہ و حرام(ہے) کہ اس میں تصاویر (pictures)بھی ہیں۔(فتاوی رضویہ جلد۲۴،ص۱۱۳)

{25}ہارمونیم(harmonium)ضرور حرام ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۴،ص۱۳۴)

{26}مزامیر(mizmar) حرام ہیں اور حرام ہر حال میں حرام  رہے گا، لوگ اگر اس گناہ  میں بہت زیادہ پڑگئے  ہوں   اور اس وجہ سے شریعت کی طرف سے  اس کے حرام ہونے کا حکم ختم  کردیا جائے تو شریعت کا سب نظام گناہ کرنے والوں کے ہاتھوں میں رہ جائے گا کہ جب وہ چاہیں گے تو سب مل کر  کسی  گناہ کو کرنا شروع کردیں گے پھر وہ  گناہ کرنے کی اجازت ہو جائے گی،مَعَاذَاللہ (یعنی   اللہ   کریم کی پناہ) ! لھذا اگر  بہت سے لوگ  کوئی  گناہ کرنا شروع کر دیں  تو اس  وجہ سے، اُس  گناہ کو کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔(فتاوی رضویہ جلد۲۴،ص۱۳۹، ماخوذاً)

{27}ناچنا(dancing)، تالی بجانا(clapping)، ستار(sitar)، ایک تارہ ۔ دو تارہ(ایک مخصوص ساز (specific instrument))، ہارمونیم(harmonium)، چنگ(chang)، طنبورہ (tambourine) بجانا، اسی طرح دوسرے قسم کے باجے (other musical instruments) بجاناسب ناجائز ہیں۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶،ص ۵۱۰،مسئلہ۵، مُلخصاً)

{28} پتنگ اُڑانا مَنْع ہے اورلڑانا گناہ ہے پتنگ لُوٹنا حرام ،اورخودآکرگرجائے تو اُسے پھاڑڈالے اگر معلوم نہ ہو کہ کس کی ہے؟ تو پتنگ  کی ڈَور(string)  کسی مِسکین()   کودے دے کہ وہ کسی جائزکام میں  استِعمال کرلے اگرخود مِسکین ہوتواپنے  استِعمال میں لا سکتا ہے  استعمال کرنے  کے بعد معلوم ہواکہ پتنگ کی ڈور  فُلاں مسلمان  کی  تھی اور وہ(مسلمان) اس  صدقے وغیرہ پرراضی(agree) نہ ہو تو اس ڈور کی قیمت  (price) دینا ہو گی لیکن  پتنگ کے پیسے نہیں دیے جائیں گے (فتاوٰی رضویہ ج ۲۴ ،ص ۶۶۰ ، مُلخصاً)  ۔پتنگ اُڑانے میں وَقت اور مال ضائع(waste) ہوتاہے،یہ بھی گناہ ہے اور گناہ کے آلات(instruments یعنی پتنگ)  اور اس کی ڈَوربیچنا بھی مَنْع ہے ۔

(فتاوٰی رضویہ جلد۲۴، ص ۶۵۹، مُلخصاً)( تفصیل( detail) جانے کے لیے  امیرِ اہلسنّت (دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ)کا رسالہ'' بسنت میلہ " پڑھیں)

 {29}دو ٹیموں  نے آدھے آدھے پیسے ملا کر ایک ٹرافی(trophy) خریدی کہ جو ٹیم جیتے گی اسے دے دی جائے گی ،ایسا کرنا شرعاً ناجائزوحرام ہے کہ اس میں جُوا(gambling) پایا جارہا ہے جس کی تفصیل (detail) یہ ہے کہ جیتنے والی ٹیم  کے لیے ٹرافی(trophy)  ہے لیکن ہارنے والی  ٹیم کے لیے کچھ بھی  نہیں تو ہارنے والی ٹیم کی  رقم ضائع(waste) ہوجائے گی، یہی تو جُوا (gambling) اور ناجائز و گناہ ہے یعنی مال کو اس طرح لگا نا کہ یا تو زیادہ ہو کر  مل جائے  گایا اپنا مال  ہی  چلا جائے گا۔(مارچ2022،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

{30}عام طورپرجس طرح باکسنگ(boxing) وغیرہ ہوتی ہے، وہ چند  باتوں کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے:

پہلی بات: اس لئے کہ ان کھیلوں میں شرعی  اجازت کے بغیر چہرے (face)پر مارا جاتا ہے اور  شرعی اجازت کے بغیر انسان کے چہرے پر مارنا حرام ہے دوسری بات: اس لئے کہ ان کھیلوں میں عمومی طور پر سَتر ( یعنی جسم کے وہ حصّے کہ جنہیں چھپانے کا حکم ہے، وہ) کُھلے ہوتے ہیں اور ان  حصّوں کو شرعی اجازت  اور ضرورت کے بغیر اکیلے میں (privately) بھی کھولناحرام ہے تو لوگوں کے سامنے کس طرح کھول سکتے ہیں ؟؟؟ تیسری بات: اس  طرح کے کھیل  لہو ولعب(تفریح اور فضول  کام) ہیں  کہ ان  میں نہ تو دین کا کوئی فائدہ   ملتاہے اور نہ ہی  دنیا کا کوئی جائز فائدہ ملتا ہے اور ہر لہو ولعب کم از کم مکروہ اورمنع ہے، پھر جس  لہو ولعب میں کوئی ناجائز کام  بھی ہوتا ہو جیسے چہرے (face)پر مارنا، تو وہ  کھیل  ناجائزا ورحرام ہے۔ (جون2022،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

{31}یہاںایسی مثالیں  ذکر کی جارہی ہیں  کہ   جن  کاموں سے  عام طور پر مسلمانوں  کو ناحق تکلیف پہنچتی  ہے:

شادیوں میں شور شرابا اور رات کے وقت آتش بازی (fireworks) کرنا۔

( قریب میں متبادل راستہ(alternative route) نہ ہونے کے باوجود)غلط جگہ پارکنگ کر کے، گلیوں میں ملبہ (debris) وغیرہ ڈال کر اور مختلف تقریبوں(ceremonies) میں  گلیاں بند کرنا۔

سائلنسر(silencer) نکال کر گلیوں  اور بازاروں  میں موٹر سائیکل اور کاریں  چلانا۔

گلیوں  میں  کچرا اور  گندگی  ڈالنا۔

گلیوں  میں  کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ کھیلنا اور خاص طور پر(especially)رمضان کی راتوں  میں  رات رات بھر ایسا کرنا اور اس دوران شور مچانا۔ (صراط الجنان ج۸،ص۸۷، مُلخصاً)

{} شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:

      آہ! صد آہ! رَمَضانُ الْمبارَک کی پاکیزہ راتوں میں کئی نوجوان محلے میں کرکٹ ،فٹ بال وغیرہ کھیل کھیلتے، خوب شورمچاتے ہیں اور اِس طرح یہ بد نصیب خود تو عبادت سے محروم رَہتے ہی ہیں ، دوسروں کیلئے بھی پریشانی  کا سبب بنتے ہیں ،نہ تو خود عبادت کرتے ہیں نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں ۔ اِس قسم کے کھیل اللّٰہ کریم کی یاد سے غافل کرنے والے ہیں ۔نیک لوگ تو اِن کھیلوں سے بہت  ہی دور رہتے ہیں ، خود کھیلنا تَو دور کی بات، ایسے کھیل تماشے دیکھتے بھی نہیں بلکہ اِس قسم کے کھیلوں کا آنکھوں دیکھا حال (commentary) بھی نہیں سنتے۔

(فیضانِ رمضان ص ۵۲، مُلخصاً)

ایک اور جگہ اس طرح فرمایا:اللّٰہ کریم کی  عطا کردہ آنکھوں سے ہرگز ہرگز فلمیں نہ دیکھئے ،ڈرامے نہ دیکھئے، نامحرم عورَتوں کو نہ دیکھئے، شہوت کے ساتھ اَمردوں(مثلاً  دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکے کہ جن کی داڑھی نہ آئ ہو) کو نہ دیکھئے ،کِسی کا کھلا ہوا سَتر(یعنی جسم کے وہ حصّے کہ جنہیں چھپانے کا حکم ہے، انہیں) نہ دیکھئے ، اللّٰہ کریم کی یاد سے غافل کرنے والے کھیل تماشے مَثَلاً ریچھ(bear) اور بند ر کا ناچ وغیرہ نہ دیکھئے ( ان کو نچانا اور ان کا ناچ دیکھنا دونوں کام ناجائز ہیں ) کرکٹ ،کبڈی(kabaddi) ،فٹ بال ،ہاکی ، تاش ، شطرنج ،وِڈیوگیمز ،ٹیبل فٹ بال وغیرہ  وغیرہ کھیل نہ دیکھئے ۔ یاد رہے کہجب  یہ کھیل دیکھنے کی اِجازت نہیں تو کھیلنے کی اِجازت کس طرح ہوسکتی ہے؟اور اِن میں کچھ کھیل تَو ایسے ہیں جو ہاف پینٹ(shorts) پہن کر کھیلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے گھٹنے(knee) بلکہ مَعَاذَ اللہ!رانیں (thighs) تک کھلی رہتی ہیں۔یاد رہے! اِس طرح دُوسروں کے آگے رانیں یا گھٹنے کھولے رہنا گناہ ہے اور دُوسروں کو اِس طرف نظر کرنا بھی گناہ ہے۔(فیضانِ رمضان ص ۷۸،۷۹، مُلخصاً)

لھوو لعب  کے کچھ  نقصانات:‏

(1)لوگوں کو تکلیف پہچانا(2) مسلمانوں کا مذاق اڑانا(3) سونے والوں  یا گھر میں  پڑھنے  والوں کے لیے پریشانی کا سامان کرنا (4) مختلف طرح کے گناہوں کا سلسلہ ہونا(5)اپنا قیمتی وقت ضائع کرنا۔وغیرہ

لھوو لعب  کی طرف لے جانے والی   کچھ چیزیں :‏

(1) اپنی ہر اچھی بُری خواہش(چاہت) پوری کرنا(2)برے دوست(3)وقت کی اہمیت(importance)نہ ہونا

 (4) تعلیم اور علم دین حاصل کرنے کے شوق کی کمی ہونا۔وغیرہ

لھوو لعب  سے بچنے کے کچھ طریقے:‏

{1}کھیلنے کی خواہش ہو تو جائز ورزش یا{2}جائز ہنر(کوئی کام) سکیھیں{3}تعلیم اور علمِ دین حاصل کرنے کا وقت بڑھائیں{4}کھیل کی وجہ سے ہونے والے گناہوں اور لوگوں کی تکلیفوں سے خود کو بچانے کا ذہن بنائیں۔

وغیرہ

ہنسی مذاق:

{1}ہنسی مذاق میں اگر بیہودہ(یعنی غیر اخلاقی) باتیں(indecent language)، (جھوٹِ غیبت، چغلی،)گالی گلوچ (یعنی کسی قسم کی بھی گناہوں بھری بات)اور کسی مسلم کو تکلیف پہنچانا نہ ہو  صرف  دل خوش کرنے والی باتیں ہوں   جس سے  لوگوں کو ہنسی آئے اور خوش ہوں، اس میں حرج نہیں (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶،ص ۵۱۲،مسئلہ۱۱، مُلخصاً) ۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں:حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کبھی کبھی خوش طبعی(یعنی مزاح) کرنا ثابت ہے ،اسی لیے عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت مُسْتَحَبَّہ(اور ثواب) ہے (مراۃ جلد۶،ص۷۱۴ سوفٹ ائیر،مُلخصاً) ۔ حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکا مِزاح( یعنی خوش طبعی کی باتیں کرنا)بھی دین(کا حصّہ) تھا کیونکہ اس  میں بھی تبلیغ تھی(یعنی اُمت کو مِزاح کا جائز طریقہ سکھانا تھا اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا یہ سکھانا ثواب  کا کام ہی تھا) ۔ (مراۃ جلد۶،ص۹۲ سوفٹ ائیر،مُلخصاً)

{2} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ایک شخص کوئی ایسی(جھوٹی) بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ہنساتا ہے ، لیکن وہ اسے آسمان اور زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ فاصلے تک(یعنی اتنا  دور )جہنّم میں لے جائے گی (مجمع الزوائد ، ج۸،ص۱۷۹، رقم:۱۳۱۴۹ ) ۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں:لوگوں کو ہنسانے کے لیے تو جھوٹ بولنا ہمیشہ ہی جرم  ہے لیکن کسی پریشان کو ہنسا نے کے لیے اچھی و سچی  دل لگی کی  بات کہہ دینا ثواب ہے۔(مراۃ، جلد ۶،ص۶۶۹سوفٹ ائیر، مُلتقطاً)

{3}مِزاح خوش دلی  سے بات  کرنے کو کہتے ہیں ۔ایسی بات جس سے اپنا اور سننے والے کا دل خوش ہو جائے،  کسی کو تکلیف نہ پہنچے ، بات بھی شریعت کے خلاف نہ ہواور سَخَرِیَّہ  یہ ہے  کہ جس سے دوسرے کو  تکلیف پہنچے جیسے کسی کا مذاق اڑانا۔مِزاح اچھی چیز ہے سَخَرِیَّہ (یعنی مذاق) بری بات ہے۔(مراۃ جلد۶،ص۷۱۴  سوفٹ ائیر،بتغیر)

قرآنِ مجید کی کسی آیت کا مذاق اُڑانا کفر ہے (مِنَحُ الرَّوض الازھرللقاری ص۴۵۷)   گانوں اور چٹکلوں میں طرح  طرح  کے مسائل  ہیں، ان میں حکم شرعی کا مذاق اُڑانا بھی ہے جو شخص اللہ  کریم کے احکام میں سے کسی حکم کا مذاق اُڑائے  تو اُس کو کافر قرار دیا جائے گا (فتاوٰی تاتارخانیہ ، ج ۵ص ۴۶۱مُلتقتاً) شریعت کا مذاق اُڑانا یا توہین کرنا کفر ہے (بہارِشریعت،  حصہ۹، ص۱۸۳ ،فتاوٰی خیریہ ج۱، ص۱۰۵ ) جو اذان کا مذاق اُڑائے وہ کافر ہے  (فتاوٰی رضویہ ج ۵،ص۱۰۲) داڑھی کو بُرش کہنا یا داڑھی والے کا مذاق اُڑاتے ہوئے اُس کو داڑھی والا بکرا کہنا دونوں کفریات ہیں(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب ص ۴۲۲) مذاق میں کلمۂ  کفر بکنا بھی کفر ہے (اَلْبَحْرُ الرَّائِق ج ۵، ص ۲۰۲) جو  مذاق مسخری میں کفر کریگا ،اُس کا اسلام ختم ہوجائے گا،چاہے کہتا ہے کہ  میرا ایسا  عقیدہ  نہیں  ہے۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۹، ص ۱۷۳،دُرِّمُختَار ج ۶،ص۳۴۳ )

ياد رہے! کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ عُلَمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے اسلام کے خلاف کوئی بات بولی تو ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘سے  پوچھ لیجئے۔

شعر وغیرہ کے کچھ دینی مسائل:

{1}جو اشعار مباح(یعنی جائز) ہوں ان کے پڑھنے میں حرج نہیں اشعار میں اگر کسی مخصوص عورت (certain woman) کے اوصاف(یعنی اس میں پائی جانے والی باتوں) کا ذکر ہواور وہ زندہ ہو تو پڑھنا مکروہ ہے شعر میں لڑکے کا ذکر ہو تو وہی حکم ہے جو عورت کے اشعار پڑھنے کا ہے۔

{2} اشعار  اگر اس لیےپڑھے(یا سیکھیں) جائیں  تاکہ ان کے انداز سے  تفسیر( یعنی قرآن پاک کی معنیٰ ، مطلب،شرح، وضاحت بتانے والی کتابیں) اور حدیث شریف (کی عربی ) میں(پائی جانے والی خوبیوں کو سمجھنے میں) اس طرح  مدد لی جائے کیونکہ عرب  شریف کے محاورات (idioms یعنی ایسے جملے  جن میں لفظ کے اپنے معنی چھوڑ کر  دوسرے معنی لیے جاتے ہیں) اور اسلوب کلام (speech style یعنی  بات کا انداز) جانا جاسکے، جیسا کہ  جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے)کے وقت میں اچھی عربی جاننے والے شاعر وں کے شعر سے ان چیزوں کو سمجھا جاتا ہے(یعنی ان کی شاعری سے عربی کے الفاظ وغیرہ کو سمجھنا پھر  تفسیر وحدیث میں غور کرنا کے  کتنی بہترین عربی کا استعمال کیا گیا ہے)، اس میں کوئی حرج نہیں۔ (بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۳۹۵ ملخصاً)

{3}    مسجد میں شعر پڑھنا ناجائز ہے، البتہ اگر وہ شعر (اللہ   کریم کی)حمد ،(حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی)نعت ، (بزگوں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کی)منقبت اور( نصیحت بھرے)وعظ و حکمت کا ہو تو جائز ہے۔(بہارِ شریعت ح ۳، ص ۶۴۷،مسئلہ۲۲)

رزقِ حلال کمانے کی کچھ سنتیں اور آداب:

{1}اتنا کمانا ( earn کرنا)فرض ہے   جس سے اپنا، اپنے بیوی بَچّوں اور جن کا نفقہ(یعنی خرچ)  آدمی کی  ذمہ داری (responsibility) ہے ان کا نفقہ ()دے سکےاسی طرح اگر قرضہ ہو تو اس کی رقم(amount) وغیرہ واپس کر سکے اس کے بعد اسے اختیار(authority) ہے کہ  مزید(more) نہ کمائےیا اپنے اور بیوی بَچّوں کے لیے کچھ پیسے  بچا کر رکھنےکی بھی کوشش کرے(یعنی مزید کمائے)   ماں باپ  اگر ضرورت مند(needy) ہوں تو فرض ہے کہ کما کر(by earning) ان کی ضرورت کے مطابق  دے(والدین  پہ خرچ کے مسائل پیچھے گزرے)۔

 {2}    ضرورت سے زیادہ  کماتا ہے تا کہ فقیروں  یا اپنے قریبی رشتہ داروں کی مدد کریگا  تو اب زیادہ کمانا (earn  کرنا)مستحب بلکہ  نفل عبادت سے افضل ہے اور اگر  ضرورت سے زیادہ  اس لیے کماتا ہے کہ مال ودولت زیادہ ہونے سے میری عزّت  زیادہ ہوگی  لیکن یہ  فخر(pride) کی وجہ سے نہیں کماتا تو یہ مباح (یعنی جائز)ہے اور اگرصرف مال زیادہ کرنے یا مال پر فخر(pride) کی وجہ سے ہو تو منع ہے۔

 {3} جس کے پاس اس دن کے کھانے کے لیے موجود ہو اسے سوال کرنا(یعنی بھیک مانگنا) حرام ہے۔ ایسے لوگوں نے(جنہیں مانگنا جائز نہ تھا) اس طرح  جو مال (بھیک میں)  لیا  یا جمع کیا وہ خبیث مال ہے(اور اسے صدقہ کرنے کا حکم ) ہے ۔

{4}  سیٹھ اور نوکر دونوں کے لئے اپنی  ضرورت کے مطابق اِجارے (work contracts)کے شرعی  مسائل سیکھنا فرض ہے۔اگر (یہ مسائل)نہیں سیکھیں گے تو گنہگار ہوں گے۔

{5} نوکر رکھتے وقت ، ملازمت(job) کی مدّت(duration) ، ڈیوٹی کاوقت اور تنخواہ(salary) وغیرہ کا پہلے سے طے(fixed) ہونا ضروری ہے۔

 {6} کام کی تین حالتیں ہیں(۱) سُست (slow) (۲) درمِیانی ( moderate) (۳)بہت تیز (fast)اگر ملازم ( employee کم از کم  درمیانی حالت نہیں،   صرف) سستی کے ساتھ کام کرتا ہے تو گنہگار ہے اور اِس پر پوری اُجرت(wages) لینی حرام، جتنا کام کیا ہے، اتنی اُجرت لے گا(مثلاً رات دیر سے سویا اور دن میں تھکا ہوا تھا، 8 گھنٹے کی ڈیوٹی میں 3 فائلز کا کام کر لیتا تھا یا 3 کرسیاں بنا لیتا تھا  مگر آج صرف سُستی کی وجہ سے2 فائلز کا کام کیا یا2 کرسیاں بنائیں تو اب آج کی اُجرت(wages)کا 66% لے سکتا ہے مثلاً 1 دن کے 900 روپے  ملتے ہیں تو آج 600 لے سکتا ہے)، جتنے پیسےاس سے  زیادہ لیے تو (وہ زیادہ پیسے) مستاجر (یعنی سیٹھ) کو واپس دے۔

      (فتاوٰی رضویہ ج ۱۹ ص ۴۰۷ ،مَاخوذاً)

{7}جوجائز پابندیاں سیٹھ اور ملازم (boss and employee) میں   طے (fixed) ہوئیں تھیں ان کا خلاف  کام کرناحرام ہے اور سیٹھ کو دیے ہوئے وقت( جس کی  تنخواہ(salary) لے رہا ہےِ اُس) میں اپنا  ذاتی (personal)کام کرنا بھی حرام ہے اور ناقص(نامکمل یا خراب) کام کرکے پوری تنخواہ (salary)لینا بھی حرام ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۹ص۵۲۱،مُلخصاً)

{8}وقت کے اِجارےمیں (یعنی جس کی ڈیوٹی  وقت کے ساتھ ہو مثلاً صبح8 بجے سے شام 4 بجےتک) چاہے آج  کام ہو یا نہ ہو یا جلدی کام ختم کرلینے کی صورت میں بھی  اگر وقت سے پہلے چلاگیا تومالِ وقف(مثلاً مسجد ، مدرسے کے چندے۔dunations) سے اسے پوری تنخواہ(salary) لینا یا دینا جائز نہیں بلکہ جتنے گھنٹے مَثَلًاتین(3) گھنٹے پہلے چلاگیا تو اُتنی (یعنی 3 گھنٹے) کی اُجرت(wages) میں سے کمی کی جائے گی ہاں! نجی اِدارے (private institution)کا مالک (اس کمی (less time)کو)جانتے ہوئے رِضامندی (consent)کے ساتھ پوری تنخواہ دیدے تو جائز ہے۔   

{9} ملازِم (employee)کو چاہئے  ڈیوٹی  کے وقت چاق وچوبند(active) رہے، سستی(laziness) پیدا کرنے والی باتوں  سے بچے مَثَلاً رات دیر سے سونے  بلکہ نفلی روزہ رکھنے کی وجہ سے بھی اگر کام میں کمی  ہو جاتی ہے تو ان  باتوں  سے بچے تا کہ جان بوجھ کر(deliberately)کام میں سستی کرنے والا  نہ بنے۔یاد رہے! اگر اس صورت (case) میں  کٹوتی(deduction) کروا  بھی دی  تب  بھی ایک طرح سے گنہگار ہےکیونکہ ملازِم  نے اِس  کام  کوکرنے کا معاہدہ (contract)کیا  تھا اور اب  اس  کے لیے درمیانےانداز میں  کام  کرنا ضروری ہے(بلاوجہ کی چھٹیاں اور  سستیاں کرنا ، اس مُعاہَدے کے خلاف ہے)۔

{10} جس کی ڈیوٹی  وقت کے ساتھ ہو ، وہ اس  وقت میں اپنا ذاتی (personal)کام بھی نہیں کر سکتا ۔ہاں! نماز کے وقتوں  میں فرض اور سُنَّتِ مُؤَکَّدہ پڑھ سکتا ہے، اس وقت میں نفل نَماز پڑھنا جائز نہیں۔ہاں! نجی اِدارے (private institution) کے سیٹھ نےباقاعدہ اجازت دے دی (مثلاً  سیٹھ صاحب نے  خود کہہ دیا کہ سب نفل  نماز بھی پڑھا کرو)یا عرف (یعنی  معمول۔general routine ) میں اجازت  ہو تو  (جتنی  اجازت ہے، اتنے) نفل  پڑھ سکتا ہے جمعہ کے دن نمازِ جمعہ پڑھنے کے لیے جانا لازم ہے، اب اگر جامع مسجِد  دُور ہو کہ وَقت زِیادہ لگے گا تو اُتنے وقت کی اجرت(wages) کم کر دی جائے گی (نجی اِدارے میں  سیٹھ نے اجازت دے دی تو پیسے نہیں کٹیں گے) اور اگر جامع مسجِد قریب ہے تو کچھ کمی نہیں کی جائیگی، اجرت پوری ملے گی اگرڈیوٹی کے دوران نمازِ عشاء آئی تووِتْر پڑھ سکتا ہے ۔

{11}     ہر ملازِم اپنے روزانہ کے کام کو چیک  کرے کہ آج ڈیوٹی کے وقت میں کتنی  غیر ضروری باتوں یابے جا کاموں  میں  وقت گزرا ہے؟ آنے میں کتنی تاخیر(late) ہوئی؟ وغیرہ نیز غیر واجبی چُھٹّیوں(یعنی ایسی چھٹیاں   جن کا نہ تو عرف (یعنی  معمول۔general routine )ہو اور نہ یہ چھٹیاں سیٹھ اور ملازم نے طے(fixed) کی ہوں) کا  حساب لگا کر ہر ماہ تنخواہ میں کٹوتی (deduction)کروالے(مشورہ یہ ہے کہ! ہر ماہ احتیاطی کٹوتی (precautionary deduction)کا سلسلہ ضرور کیا جائے کیونکہ ایسی غفلتوں میں پڑ جانے کا خوف اور حساب کتاب رکھنے میں سُستی کا ڈر ہے مثلاً ہر دن کے15 منٹ  تومہینے کے450 منٹ یا8 گھنٹے نوکری (job)کرنے والا اپنے ایک دن کی  تنخواہ(salary) کی رقم مثلاً30,000 تنخواہ ہے تو1,000  روپے کی احتیاطی  کٹوتی کروائے۔نوٹ: یہ احتیاطی کٹوتی ہے، اگر واقعی چھٹیاں کی ہیں یا ان  اوقات (times) میں سیٹھ کی  اجازت کے بغیر کم وقت دیا تو اس کی کٹوتی کروانا لازم ہے(یاد رہے! وقفی ادارے مثلاً مسجد ، مدرسے میں کسی کی اجازت سے بھی عرف(یعنی  معمول۔ general routine) سے کم وقت نہیں دے سکتے )،یعنی  جو کٹوتی (deduction) کرنا لازم ہے اس کے علاوہ(other) احتیاطی کٹوتی  بھی ضرور کروائیںالبتہ  جہاں سیٹھ کو معلوم ہو اور اجازت دے دے تو کٹوتی(deduction) کروانا ضروری نہیں)۔

{12}مراقب(supervisor)یامُقَرَّرہ ذِمہ دار(designated responsible person) تمام مزدوروں (یا کام کرنے والوں) کی اپنی طاقت کے مطابق نگرانی(monitoring) کرے۔ وقت اور کام میں  سستیاں (laziness) کرنے والوں کی مکمَّل کارکردَگی ( performance) کمپنی یا ادارے کو دے۔ مراقب (supervisor) اگر ہمدردی(sympathy) یا مُروَّت(courtesy) یا کسی بھی وجہ سے جان بوجھ کر (deliberately) پردہ ڈالے  یا چھپائےگا توگنہگار  ہو گا۔

{13}    اگر مخصوص  وقت(specific time) مَثَلاً بارہ مہینے کے لئے ملازَمت کا اِجارہ(employment contract) ہو تو اب فریقین(یعنی سیٹھ اور ملازم، دونوں) کی رِضا مندی (consent)کے بغیر اِجارہ ختم نہیں ہو سکتاسیٹھ کا  اس طرح کہتے رہنا کہ(وَقت سے پہلے ہی) فارغ کردوں گانیز اسی طرح ضرورت مند سیٹھ (needy boss)کونوکر کا ڈراتے رہنا کہ نوکری چھوڑ کر چلا جاؤں گا،درست نہیں ۔ہاں! جن مجبوریوں  میں شریعت اجازت دیتی  ہے  کہ اِس صورت (case)میں دونوں میں سے کوئی ایک  بھی وقت سے پہلے اجارہ ختم کر سکتا ہے، تو اُس صورت (case) میں وقت سے پہلے اجارہ ختم کیا جاسکتا ہے مگر  پھر بھی  دوسرے  کو  بار بار تنگ کرنے کی اجازت نہیں ۔

نوٹ:کسی کو ملازمت میں اس طرح کے مسائل ہوں  تو ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘سے  پوچھ لیجئے۔

{14}   دُکان کرائے پر دی کہ ہر ماہ اِتنا کرایہ ہوگا(مگر کتنے مہینے کے لیے دی؟ یہ طے نہیں ہوا) تو  صرف ایک مہینے کے لئے اِجارہ صحیح ہوا  پھر جب مہینا پورا ہوگیا تو دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی موجودگی (presence) میں اِجارہ ختم کرنے کا اختیار(authority) ہے ۔(دُرِّمُختار ج ۹ ص ۸۴، مُلتقطاً)

{15} کسی ایسے کام پر  غیر مسلم   کی نوکری  کرنا،  جائز نہیں کہ جو کام  مسلمان کے لیے ذِلّت (humiliation) والا ہو (عالمگیری ج۴ ص۴۳۵) ۔عمومی طور پر یہ کام ذِلّت (humiliation)والے کام ہیں : کافر کے پاؤں دبانا، اُس کے بَچّوں کی گندگیاں اُٹھانا، گھریا دفتر کا جھاڑو پوچا کرنا ، گند کچرا اٹھانا،استنجاء خانے(toilet) اورگندی نالیوں کی صفائی ، اُس کی گاڑی کی دُھلائی کرنا وغیرہ ۔ہاں! ایسی نوکری جس میں مسلمان کی ذِلّت نہ ہو وہ کافر کے یہاں جائزہے۔

{16}سیِّد صاحب کو ذلت(humiliation) کے کاموں پرملازِم (employee)رکھنا جائز نہیں۔

{17}ملازم (employee)نے اگر  بیماری  کی وجہ سے چھٹّی کر لی یا وقت کم دیا تومُسْتاجر(مثلاً سیٹھ) کو تنخواہ (salary) میں سے کٹوتی کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر اِس کی صورت (case)یہ ہے کہ جتنا وقت کم  دیا صرف اُتنی ہی کٹوتی کی جائے مَثَلاً 8گھنٹے کی ڈیوٹی تھی اور تین گھنٹے کام نہ کیا تو صرف تین(3) گھنٹے کی اُجرت(wages)  کاٹی جائے،  پورے دن بلکہ آدھے دن کی اُجرت کاٹ لینا بھی ظلم ہے۔

( تفصیل کیلئے فتاوٰی رضویہ جلد19 صفحہ515 تا 516 دیکھ لیجئے )

{18}امام و مُؤَذِّن ، خادمِ مسجِد اور (دینی و دُنیوی )ہرطرح کی ملازَمتوں(employees) میں عُرْف و عادت (یعنی  معمول۔general routine )کے مطابِق کی جانے والی چُھٹّیوں میں تنخواہ (salary) کی کٹوتی نہیں کی جاسکتی، البتّہ عُرْف (جوطریقہ چل رہا ہے،اُس) سے ہٹ کر جو چُھٹّیاں کی جائیں اُن پر تنخواہ کاٹی جائے گی (بلکہ اس طرح کی  چھٹیوں کی تنخواہ کاٹنا  و کٹوانا، امام و مُؤَذِّن  صاحبان اور کمیٹی کی شرعی ذمہ داری ہے) ۔

{19}متولیان مسجِد( شرعاًجنہیں  مسجد کے انتظام  وغیرہ  سنبھالنے کے لیے دیے گئے ہوں) کی رِضامندی (consent) کی صورت (case)میں امام و مُؤَذِّن عُرْف (general routine)  سے زیادہ چُھٹّیوں میں اپنا نائب(ایسا  متبادل(alternative) جو شرعاً نماز پڑھانے یا  اذان دینے کی صلاحیت (ability) رکھتا ہو اور اس کی   نماز و اذان میں  کسی قسم کی خرابی بھی نہ ہو) دیدیا کریں تو تنخواہ (salary)نہیں کاٹی جائے گی۔

جو شخص نماز کے مسائل  نہ جانتا ہو یاقرآن درست پڑھنا نہ آتا ہو، ایسے کو نماز میں امامت کے  لیے کھڑا کر دینے کےبارے میں اعلیحضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایسے شخص کو  نماز میں امام کرنا حالانکہ  نماز  توعمادِ اسلام (یعنی اسلام کا ستون)اورافضلِ اعمال (بہترین نیکی)ہے،  (مسائل نہ جانے والے شخص کو اتنی اہم دینی جگہ پر کھڑا کرنا اور امام بنانا)یقیناً بے احتیاطی(careless کام) اورحُکمِ شرعی( یعنی دین کے حکم پر عمل کرنے)میں مداہنت  (یعنی غفلت، سُستی اور لاپرواہی کرنا) ہے (فتاوی رضویہ جلد۶،ص۴۴۶) ۔ مُدَاہَنَت ()حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے (الحدیقۃ الندیۃ،الخلق التاسع و الاربعون،ج۲،ص۱۵۵) ۔یاد رہے کہ اگر کسی  شخص  کو  قرآن کریم   درست  پڑھنا  ہی نہیں آتا (کہ اچھے سُنّی  قاری   وعالم صاحبان یہ کہتے ہیں کہ یہ آدمی تلاوت میں  بڑی بڑی غلطیاں کر  کے گناہ گار ہو رہا ہے یا نماز خراب ہو رہی ہے) تو ایسے آدمی کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں  بلکہ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں : جو(نماز پڑھانے والا) قرآن مجید غلط پڑھتا ہو یا طہارت(مثلاً وضو) صحیح نہ کرتا (کہ وضو کے فرض بھی پورے نہیں کر پاتا)ہو اُس کا معزول(deposed) کرنا (اس ذمہ دار پر) فرض ہے(کہ جو شرعاً مسجد کا ذمہ دار (responsible)ہو) (فتاوی رضویہ جلد۶،ص۶۱۵،مُلخصاً) ۔نماز ہو یا  کوئی بھی دینی کام، یہ بات لازم ہے کہ اس کام کو کرنے والے ،اتنا علم رکھتا ہو کہ شریعت اور اسلام کے اصولوں (principles)کے مطابق وہ کام کر سکے۔ یاد رہے کہ جس شخص میں کسی  مذہبی کام کی اہلیّت(eligibility) نہ ہو، اُسے  ایسا شرعی کام کرنے کے  لئے دینے والا ،مُدَاہَنَت کی طرف جانے  والا بن سکتا ہے اور بغیر علم کے اس طرح کے کام کرنے والا بھی گناہ گار ہے۔ ہاں!  کسی کم علم (low knowledge)  رکھنے والےکو کوئی ایسا کام دینے کا ارادہ (intention) ہو تو پہلے اس کی شرعی تربیت (training)کر دی جائے، جب وہ اس کام کا اَہَل (eligible)ہو جائے تو وہ کام اُسے کرنے کو دے دیا جائے  پھر اس شخص کی شرعی ذمہ داریوں (Shariah responsibilities) کا جائزہ (overview) بھی لیا جاتا رہے تاکہ شرعی کام، شرعی طریقے کے مطابق ہوتا رہے۔ جہاں شرعی کمزوری آئے، اُسے شرعی طریقے کے مطابق دور کیا جائے کہ کہیں مُدَاہَنَت(یعنی شرعی حکم کو پورا کرنے میں کمی، بے جا نرمی، غفلت وغیرہ ) کا دروازہ نہ کُھلے۔

{20}(نفلی) حج یاعمرے کی وجہ سے ہونے والی چُھٹّیوں کی تنخواہ (وقفی ادارے مثلاً مسجد، مدرسے میں)کٹوانی ہو گی (دیکھئے: فتاوٰی رضویہ ،جلد ۱۶ ،صفحہ۲۰۹ )  ۔ہاں! نجی اِدارے (private institution) کا سیٹھ، تنخواہ (salary) نہ کاٹے تو الگ بات ہے۔

{21}چوکیدار ،گارڈ یا پولیس وغیرہ جن کا کام جاگ کر پہرا دینا(to guard) ہوتا ہے اگر ڈیوٹی کے اوقات میں جان بوجھ کر(deliberately)سو گئے تو گنہگار ہوں گے اور(جان بوجھ کر سوئے یا  خود نیند آجائے) جتنی دیر سوئے  اُتنی دیر کی اُجرت(wages)  کٹوانی ہوگی۔

{22} اجارے پر اجارہ  یعنی ایک ہی وقت کے اندر دو جگہ نوکری کرنا،جائز  نہیںہے۔ ہاں! اگر وہ پہلے ہی سے کہیں نوکری پر لگا ہواہے تواب اپنے سیٹھ کی اجازت سے دوسری جگہ کام کرسکتا ہے،جب کہ پہلی جگہ کی نوکری کی وجہ سے دوسری جگہ کے کام میں کسی طرح کی  کمی  نہ ہوتی ہو۔

{23}مزدوری یا ڈیوٹی میں سستی اورچُھٹّیوں کے بعد بھی  جو مکمّل اُجرت یا تنخواہ(salary) لیتا رہا اور اب نادِم (ashamed) ہے تو اُس کیلئے صِرْف زَبانی توبہ کافی  (enough)نہیں، توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ آج تک جتنی اُجرت(wages)   یا تنخواہ زیادہ   لی ہے، اُسے واپس کرنے کی  ترکیب کرے(نجی اِدارے (private institution) کا سیٹھ معاف کر دے تب بھی کافی(enough)ہے لیکن وقفی ادارے مثلاً مسجد ، مدرسے میں  اس طرح کی چھٹیوں کے پیسے معاف کرنے کا کسی کو حق نہیں، یہ پیسے واپس ہی دینے ہونگے)۔

{24} جس شخص نے حرام طریقہ سے مال جمع کیا اور مرگیا ،وارثوں (یعنی وہ لوگ  جو مرنے والے کے  مال کے مالک بن جاتے ہیں) کو اگر معلوم ہو کہ یہ  مال یا  یہ سامان  یا یہ چیزوغیرہ، فلاں فلاں کے ہیں تو ان کو واپس کردیں اور معلوم نہ ہو(کہ کس کے ہیں مگر یہ پتا ہے کہ حرام کے ہیں ) تو(شرعی فقیر کو) صدقہ کردیں۔

{25} اگر مال میں شبہہ (doubt)ہو تو ایسے مال کو اپنے قریبی رشتہ دار پر صدقہ کرسکتا ہے یہاں تک کہ اپنے باپ یا بیٹے کو دے سکتا ہے، اس صورت (case)میں یہی ضرور نہیں کہ کسی” غیر رشتہ دار“ ہی کو دے۔

{26}کوئی  طالب العلم، عالم  صاحب یا قاری صاحب بن  کر بیٹھ گئے اور کمانا(earn کرنا) چھوڑ دیا کہ لوگ مجھے عالم یا قاری سمجھ کر خود ہی کھانے کو دیں گے ، کمانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ناجائز ہے۔ہاں! قرآن مجید یا علم دین پڑھانےپر اُجرت(wages)  لینا اور اس کے پڑھانے کی نوکری کرنا، فی زمانہ (present time)جائز  ہے۔ (حلال طریقے سے کمانے کے ۵۰ مدنی پھول) (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶، ص ۶۰۹، وضاحت اورمسئلہ۱،۵،۷،۸،۶،۴)

{27} یاد رہے کہ یہ  مسئلے تو جائز کام پر اجارے کے بارے میں ہیں،رہے حرام کام توحرام کام پر اجارہ کرنا ناجائز و گناہ ہے (ماہنامہ فیضان مدینہ، صفر المظفر1414ھ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً) ۔جیسے  عورت کے  بال مردوں کی طرح کاٹنا جائز نہیں اوراس طرح کاٹنے کی اجرت لینا بھی جائز نہیں کہ حرام کام کی اجرت بھی حرام ہوتی ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص ۹۵مُلخصاً)

()

140 ’’ زینت(fashion) ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

        حضرت  ابواُمَامَہ انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْ نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سامنے دنیا کے بارے میں بات کی  تواللہ   کریم کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:کیا تم نہیں سنتے ؟کیا تم نہیں سنتے ؟کہ قدر ت(یعنی طاقت) کے باوجود زینت(یعنی خوبصورتی حاصل کرنے کو) چھوڑدینا ایمان میں سے ہے ،قدرت کے باوجود زینت  چھوڑدینا ایمان میں سے ہے۔ 

 (سنن ابی داؤد، کتاب الترجل ،رقم ۴۱۶۱، ج۴، ص ۱۰۲)

واقعہ(incident):          اگر میں چاہوں تو تمہیں  دےدوں

    اللہ  کریم نے حضرت موسٰی عَلَیْہِ السَّلَام اورحضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام سےفرمایا: اگر میں چاہوں تو تمہیں ایسی زینت (یعنی  وہ چیزیں جن سے آدمی خوبصورت ہو تا ہے ، دے)دوں  کہ جسے دیکھ کر فرعون بھی  جان لے کہ ایسی زینت (کی چیزیں) اس کی طاقت سے باہر ہیں اورمیں ضرور ایسا کر سکتا ہوں مگر میں تم دونوں سے دنیادور کرکےتمہیں  اس (دنیا)  سےبےپروا(یعنی آزاد)کردوں گااورمیں اپنےدوستوں کےساتھ ایساہی کرتاہوں۔میں انہیں دنیاوی نعمتوں سے ایسے ہی دور رکھتا ہوں جیسے مہربان چرواہا (shepherd)اپنے اونٹوں کو خارش زدہ اونٹوں (itchy camels) سے دوررکھتاہے۔میں انہیں دنیاکےعیش وآرام (luxury and comfort) سےاس لئےدورنہیں رکھتا کہ ان کی میرےسامنےکوئی اہمیّت(importance) نہیں بلکہ (دنیا سے یہ دوری )اس لئے(ہے) کہ وہ (نیک بندے) میری  طرف سےعزّت وانعام(honor and reward) کو پورے طور پرحاصل کریں۔(مختصر منھاج العابدین ص ۲۴۷ تا ۲۴۸، مُلخصاً)

مرد و عورتوں کے لیے زینت (fashion)کے دینی مسائل:

{1} بھنویں منڈانا(shaving the eyebrows) حرام ہے۔ (فتاوی رضویہ ،جلد۲۱، صفحہ۴۰۰)

{2}شریعت میں اجازت ہے کہ اگر اﷲکریم نے  کسی کودولت دی ہے تو وہ  اچھا لباس اور قیمتی کپڑے (expensive clothes) استعمال کرے۔ یہ اجازت عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے  ہے  لیکن اس میں شرط (precondition)   یہ ہے  کہ  اس طرح کا لباس فخر  (pride)کے لئے نہ ہو بلکہ اﷲکریم نے   جو نعمت دی ہے، اس کے اظہار (expression)کے لئے ہو۔     (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۵۷۹، مُلخصاً)

{3}   پرانے کپڑوں میں پیوند (patch)لگا کر پہننا اسلامی طریقہ ہے ۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس مایکرہ من ۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۳۳)

{4}  ناک منہ صاف کرنے کے لئے یا وضو کے بعد ہاتھ منہ پونچھنے یا پسینہ پونچھنے کے لئے رومال رکھنا عورتوں اور مردوں (دونوں) کے لئے جائز ہے بلکہ  اس  کام کےلئے رومال رکھنا چاہیے ،دامن(hem) یا آستین (sleeve)  سے ہاتھ منہ پونچھنا یا ناک صاف کرنا ادب کے خلاف  ہے ۔     (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس ،ج۵،ص۳۳۳، مُلخصاً)

{}  جس کے یہاں میت ہوئی ہے اسے  غم  ظاہرکرنے (یعنی لوگوں کو اپنے غم کی حالت بتانے) کے لئے کالے کپڑے پہننا جائز نہیں ہے۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،ج۵،ص۳۳۳، مُلخصاً)

{5}  کلف والے کپڑے پہن سکتے ہیں لیکن یہ کپڑے اتنے چست(skin-fit cloth) نہ ہوں کہ جسم )کو جہاں جہاں سے چھپانے کا حکم  ہے، وہاں) کے حصّے سمجھ میں آئیں۔یہ بھی یاد رہے کہ  کوئی بھی کپڑا ہو، اُسے تکبُّر(arrogance) کے لیے پہننا منع ہے۔ (زینت کے شرعی  احکام ص۱۰ مُلخصاً)

{6}  کسی جاندار کی تصویر  جس میں اس کا چہرہ (face) موجود ہو اور اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھیں توچہرے کے حصّے(مثلاً ناک، کان وغیرہ) صحیح طرح نظر آئیں، اس طرح کی تصویر والے لباس بنانا، بیچنا، پہننا، پہنانا سب ناجائز ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۲۰ مُلخصاً)

{7}  ایسا لباس  جو غیر مسلموں کی  مذہبی یا دینی  نشانی(sign religious) ہو کہ  بندہ دیکھے تو اسے لگے کہ یہ کافر ہے(مثلاًزُنّار باندھنا  یعنی وہ دھاگہ یا ڈوری جو ہندو گلے سے نیچے تک ڈالتے ہیں اور عیسائی (christian)، مجوسی(zoroastrian) اور یہودی(jews) کمر پر باندھتے ہیں)، ایسا  لباس   بغیر کسی شرعی ضرورت کے پہننا، کُفر ہے کہ یہ کافروں کی نقل (copy)ہے ۔(زینت کے شرعی  احکام ص۲۵ مُلخصاً)

{8}  ایسا لباس  جو غیر مسلم  پہنتے ہوں مگر وہ  ان کی مذہبی یا دینی  نشانی(religious sign)  نہ ہو بلکہ عام مسلمان بھی ویسا لباس پہنتے ہوں جیسا کہ مردوں کا (فاسقوں کے فیشن (fashion)  کی طرح نہیں بلکہ)عام انداز میں  پینٹ شرٹ    پہننا جائز ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۲۵ مُلخصاً)

{9} مرد و عورت دونوں کے لیے چوڑی دار پاجامہ پہننا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ جسم سے بالکل چپکا ہوا ہوتا ہے، جس سے جسم کے وہ حصّے   جنہیں چھپانے کا حکم ہے(مثلاً ران(thigh) ، پنڈلی(shin)  وغیرہ)، بالکل صاف محسوس ہو رہے ہوتے ہیں جو کہ ایک طرح کی بے پردگی ہے اور یہ فاسقوں ، سب کے سامنے گناہ کرنے والوں کا فیشن(fashion) ہے، اس لیے اسے پہننے کی اجازت نہیں ۔ اس لباس کو پہن کر نماز ہو جاتی ہے مگر  ایسے لباس میں نماز پڑھنامکروہ  ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۴۴ مُلخصاً)

{10}  خوبصورتی کے لیےچہرے کی سرجری کروانا ،جائز نہیں کہ یہ اللہ  کریم  کی بنائی ہوئی چیز کو بدلنا ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۵۳ ُملخصاً)

{11} ایسا میک اپ (make-up)  جس کی وجہ سے چہرہ واقعی بگڑ جائے اور بد صورت بن جائے جیسے Scary make-up, Fx make-up, Zombie make-up, Horror make-up, Holloween make-up تو اگر واقعی چہرہ بگڑ جاتا ہے تو ایسا میک اپ کرنا اللہ   کریم  کی بنائی ہوئی چیز کو بدلنا  اور ناجائز و گناہ ہےالبتہ میک اپ سے چہرہ بدلا مگر خوبصورت ہوگیا (مثلاًBeauty make-up) تو یہ  جائز ہے (زینت کے شرعی  احکام ص۷۱،۷۲  ماخوذاً) مگرضروری ہے کہ(۱)میک اپ میں   کوئی ناپاک چیز ڈلی ہوئی نہ ہو۔ اگر یقینی  طور پر معلوم ہو جائے کہ اس میں ناپاک چیز بھی ہے تو جائز نہیں  (۲) میک اپ ایسا نہ ہو کہ  بدن پر چپک جائے اور جلد(skin) تک پانی نہ پہنچے، کیونکہ ایسا  میک اپ کرنے سے وضو اور غسل نہیں ہوگا(اگر نماز پڑھنی ہے اور وضو وغیرہ نہیں ہے تو یہ میک اپ صاف کرنا ضروری ہوگا )(۳)سفید بالوں پر کالا یا اس سے ملتا جُلتا رنگ استعمال  نہ ہو کہ ایسا کرنا ،(مرد و عورت ، دونوں کے لیے) جائز نہیں ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۵۴،۵۵ مَاخوذاً)

{12}  چہرے پر پینٹ  کرنایا  پرچم وغیرہ اس انداز سے بنانا  گناہ نہیں ہےکہ جس سے چہرہ خوبصورت لگے یا کم از کم بگڑ نہ جائے۔ہاں! اگر چہرہ بگڑ گیا یا بد صورت ہو گیا تو(اب چہرے پر پینٹ کرنا، یا پرچم بنانا)  حرام ہے۔

(زینت کے شرعی  احکام ص۷۷ ماخوذاً)

{13}  انجیکشن(injection) اور دوائیوں(medicines) سے بال کالے کرنا،  جائز ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۷۹ مُلخصاً)

{14}اپنے یا دوسرے کسی انسان کے بالوں کی پیوند کاری(hair transplant)یا ان کے بالوں کی وِگ (wig)  لگانا،  جائز نہیں  سور(pig) کے علاوہ (other)کسی جانور کے بالوں یا اون(wool) وغیرہ سے بنے ہوئے مصنوعی بالوں (synthetic hair)  کی وِگ(wig)  لگانا ، جائز  ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۸۱ مُلخصاً)

{15}بریسلٹ (bracelet) کلائی پر پہننے والے زیور کو کہتے ہیں۔ مارکیٹ میں مرد وعورت ہر کسی کے لیے سونے ، چاندی اور دیگر دھاتوں(metals) کے  علاوہ(other) چمڑے(leather) اور ریگزین (ragazine)  سے  بنے پٹوں کو بھی  بریسلٹ (bracelet) کہا جاتا ہے اور کبھی بینڈ  جیسے friendship band یا wrist band  وغیرہ، مرد اور عورت کے پہننے میں تفصیل(detail) ہے:

 عورت کے لیے کسی بھی دھات (مثلاً سونا، چاندی،لوہے، پیتل، وغیرہ) یا دھات کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً چمڑے، ریگزین،ڈوریوں اور ربڑ وغیرہ کے زنانہ بریسلٹ(women's bracelet)  یا بینڈ پہننا جائز ہے لیکن  ایسے ڈیزائن کے بریسلٹ جو  مرد ہی استعمال کرتے ہیں،   عورتوں کو ان کا استعمال مردوں سے مشابہت (یعنی مردوں کی نقل (copy)کرنے) کی وجہ سے ناجائز ہے اسی طرح جو بریسلٹ فاسقہ عورتوں یعنی  سب کے سامنے گناہ کرنے والیوں کے فیشن (fashion) کی پہچان ہے، انہیں پہننا بھی ناجائز ہے۔

مرد کے لیے کسی بھی دھات(metal)  کا بنا ہوا بریسلٹ (bracelet) پہننا جائز نہیںاسی طرح جو بریسلٹ  عورتیں   ہی استعمال کرتی ہیں،مردوں کو ان کا استعمال عورتوں سے مشابہت(یعنی عورتوں کی نقل کرنے) کی وجہ سے ناجائز ہے مرد کے لیےدھات کے علاوہ(other)  کسی چیز کا مردانہ بینڈ(male band) پہننا جائز تو ہے مگر اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ  اگر کسی بھی بریسلٹ یا بینڈ  پہننے کی وجہ سے  فاسقوں یعنی  سب کے سامنے گناہ کرنے والوں  سے  مشابہت (یعنی ان کی نقل) ہو جاتی ہے تو ا سے  پہننا   بھی منع ہو جائے گا۔(زینت کے شرعی  احکام ص۱۱۵،۱۱۶ مُلخصاً)

{16} ہونٹ، زبان، ابرو(eyebrows)، ناف(navel) وغیرہ میں  سوراخ کروا کر بالیاں (earrings) ڈلوانا عام طور پر  غیر مسلموں کے ملکوں میں ہوتا ہے، عزّت دار مسلمان ایسے کام نہیں کرتے۔ اسلام نے غیر مسلموں اور فاسقوں (یعنی سب کے سامنے گناہ کرنے والوں) کی  نقل(copy) کرنے سے منع کیا ہے لھذا مسلمان مرد و عورت کو ہونٹ، زبان، ابرو، ناف  وغیرہ میں سوراخ کر کے  بالی ڈالنا مکروہ اور منع ہے(زینت کے شرعی  احکام ص۱۶۸ مُلخصاً)۔ عورتیں  کان اور ناک میں چھید(یعنی زیور پہننے کے لیے سوراخ) کر سکتی ہیں اور مرد  کا  ناک اور کان  میں  سوراخ کروانا یا بالی (یعنی کانوں کا زیور) پہننا ، دونوں کام ناجائز ہیں ۔(زینت کے شرعی  احکام ص۱۶۷ مُلخصاً)

{17} جسم پہ مختلف قسم کے  ٹیٹوز(tattoos) بنوانا(بلکہ ایک ہی بنانا) شرعاً ناجائز و منع ہیں۔(زینت کے شرعی  احکام ص۲۰۸ مُلخصاً)

مرد وں کے لیے زینت (fashion)کے دینی مسائل:

{1}   مردوں کو کالا سرمہ  صرف زینت (یعنی خوبصورتی)کے لئے لگانا ،جائز  نہیں (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ، ج۵، ص۳۵۹) ۔کالا سرمہ  اگر زینت  کے لیےنہ ہو تو  مکروہ نہیں( فتاوٰی عالمگیری ج۵ ص۳۵۹، مُلخصاً) ۔بہتر یہ ہے کہ سوتے وقت سرمہ لگایا جائے کہ سوتے وقت سرمہ لگانا سُنّت ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۶۵ مُلخصاً)

{2}  مرد کا اپنے ہاتھ، پاؤں یا ناخن پر مہندی لگانا گناہ  ہے کیونکہ  یہ عورتوں سے مشابہت (یعنی عورتوں کی نقل) ہے۔ (زینت کے شرعی  احکام ص۱۰۶ مُلخصاً)  چھوٹے بَچّوں (male children) کے ہاتھ پاؤں میں مہندی لگانا ، جائز نہیں ہے۔ (ردالمحتار ،کتاب الحظر والاباحۃ،ج۹،ص۵۹۹ ملتقطاً)

{3}پاکستان میں عام طور پر دنداسہ  عورتیں ہی استعمال کرتی ہیں،ایسی صورت میں پاکستان(اور اس طرح کے ممالک میں)  مرد وں کو دنداسہ استعمال کرنا عورتوں سے مشابہت (یعنی ان کی نقل۔copy)ہے، لھذا (ایسی جگہوں پر)  مردوں کا دنداسہ استعمال کرنا،  جائز نہیں۔ہاں!  جس جگہ  عام طور پر مرد بھی دنداسہ کرتے ہیں، وہاں  کا حکم الگ ہوگا۔(زینت کے شرعی  احکام ص۶۶ مُلخصاً)

{4}  مرد کا سر کی مختلف جگہوں سے بال کٹوا دینا اور بیچ بیچ میں بال چھوڑ دینا مکروہ تنزیہی  (ناپسندیدہ۔ unwanted )اور منع ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح بال کٹوائے جاتے ہیں کہ سر کے بیچ سے بال نہیں کٹوائے جاتے،  صرف کان کے اوپر کے بال کٹوائے جاتے ہیں یہ  مکروہ  نہیں لیکن یہ انداز  سنّت اور بزرگوں کے طریقے کے مطابق بھی  نہیں۔(زینت کے شرعی  احکام ص۸۳ ماخوذاً)

{5}داڑھی مونڈنا (shaving) یا کتروانا (یعنی ایک مُٹّھی (fist)سے کم کرنا) حرام اورگناہ ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۲،ص۶۵۵، مُلخصاً)  داڑھی کان اور چہرے کے درمیان قلموں (hair between beard, face and ear)کے نیچے سے کنپٹیوں (temple)، جبڑوں(jaws)، اور  ٹھوڑی(chin) پر  موجود بال ہیں اور عرضا(چوڑائی۔ width میں) داڑھی  کانوں اور گالوں کے بیچ میں  ہے بعض لوگوں کے کانوں پر ہلکے ہلکے بال  ہوتے ہیں وہ داڑھی کے بال نہیں  ہیں   اسی طرح  گالوں پر جو ہلکے ہلکےبال( کسی کے کم کسی کے آنکھوں تک ) ہوتے ہیں ، وہ  بھی داڑھی کے بال نہیں  ہیں (اور یہ بال قدرتی طور پر داڑھی کے بالوں کی طرح نہیں  ہوتے ) ان کو صاف (یعنیshave  )کرنے میں کوئی گناہ نہیں بلکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑھ جائیں  تو چہرے کو بد صورت کر دیتے ہیں  جو کہ  شرعا ہر گز پسندیدہ نہیں لھذا   ایسے بالوں کو کاٹ دینا چاہیے ۔

(فتاوی رضویہ جلد۲۲،ص۵۹۶،ماخوذاً)

 {6} داڑھی کو ایک مُٹھی (fist)سے اتنا بڑھانا  مکروہ اور ناپسند (dislike)ہےکہ لوگ  اس کی لمبائی   پر باتیں کرنا شروع کر دیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد۲۲،ص۶۵۵، ماخوذاً)     اورایک مٹھی داڑھی  سے  زیادہ بالوں کو کاٹ کر ایک مٹھی کر دینا سنّت  ہے ۔(فتاوی رضویہ ج۲۲،ص۵۸۹، ماخوذاً)

{7} داڑھی کے بیچ میں جو بال ذرا سے چھوڑے جاتے ہیں ،جنھیں عربی میں”عنفقۃ “اور ہندی میں” بَچیّ“ کہتے ہیں،  انہیں اکھیڑنا (یا کاٹنا)بدعت (یعنی  بُرا طریقہ) ہے، کیونکہ  یہ  بھی داڑھی ہی کا حصّہ ہے اور داڑھی کے کسی حصّے کو مونڈنا(shave کرنا) جائز نہیں۔(فتاوی رضویہ جلد۲۲،ص۵۹۵، مُلخصاً)   ہاں! اگر یہ بال  اتنے بڑھ گئے کہ کھانا کھانے ، پانی پینے، کلی کرنے میں  رکاوٹ (resistance) کریں تو ان(کی نوکوں) کوقینچی سے ضرورت کے مطابق کم کردینا جائز ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۲،ص۵۹۹، مُلخصاً)

{8}  مونچھوں کے  بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ بہار شریعت میں یہ بھی  ہے کہ:مونچھوں کو کم کرنا سنّت ہے اتنی کم کرے کہ ابرو (eyebrows)کی  طرح  ہوجائیں یعنی اتنی کم ہوں کہ مونچھوں کے نیچے ہونٹ کے  اوپر والا حصّہ نظر آئے (بہار شریعت، ح۱۶،ص ۵۸۴، مسئلہ ۶،مُلخصاً) ۔ مونچھیں اتنی بڑھانا کہ منہ میں آئیں،  یہ  حرام ا ورگناہ ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۶۸۴، مُلخصاً)

    {9} ہرجمعہ کو اگر ناخن نہ  کاٹے تو پندرھویں دن (15th day) کاٹ لے اور اس کا آخری وقت  چالیس (40) دن ہے  (بہار شریعت،ح۱۶،ص ۵۸۵، مسئلہ ۶،مُلخصاً)۔چالیس دن(40) سے زیادہ  ناخن رکھنا  گناہ ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۰، ص۳۵۳، مُلخصاً)

{10}    ناف  کے نیچے  والے بال دور کرنا سنّت ہے ہر ہفتہ میں نہانا، بدن کو صاف ستھرا رکھنا اور  ناف سے نیچے کے بال  دور کرنا مستحب (اور ثواب کا کام)ہے اس کام کے لیےبہتر جمعہ کا دن ہے اور پندرھویں  دن  بعد کرنا بھی جائز ہے لیکن چالیس(40) دن سے زیادہ وقت   گزار دینا  گناہ ہےیہی حکم  بغل(armpit) کے بال صاف کرنے کا ہے (کہ چالیس(40) دن سے زیادہ وقت گزر گیا تو گناہ گار ہونگے) موئے زیر ناف(یعنی وہ بال کے جو پیٹ کے سوراخ کے نیچے ہوتے ہیں) استرے (razors)سے مونڈنا( shave کرنا) چاہیے اور اس کو ناف کے نیچے سے شروع کرنا چاہیے اورمونڈنے کی جگہ ہرتال چونا (lime)یا بال اُڑانے  والے صابون  سے بال   دور کرنا (  مرد و عورت ، دونوں کے لیے) جائز ہے عورت کو یہ بال اُکھیڑ ڈالنا (uproot) سنّت ہے۔(بہار شریعت،ح۱۶،ص ۵۸۴،مسئلہ  ۶،۷مُلخصاً)   ناف(یعنی پیٹ کے سوراخ ) سے نیچے، عُضْوِ تَنَاسُل (کہ جہاں سے پیشاب کیا جاتا ہے۔penis)کے اردگرد(around) اور خُصْیَتَیْن(یعنی پیشاب نکلنے کی جگہ کے نیچے والےحصّے۔testicles) کے بال صاف کرنا سنّت  ہے،اور دبر (کہ جہاں سے بڑا پیشاب (stool)کرتے ہیں۔anus)کے  بال صاف کرنا مستحب ہے۔ (وقار الفتاوی ،ج۲،ص۵۴۱،مُلخصاً)

{11}  مارکیٹ میں ملنے والی  ” بوسکی “ میں عام طور پر اصل  ریشم نہیں ہوتا بلکہ اُس میں مصنوعی(artificial)   چمک وغیرہ ہوتی ہے لھذا ایسا کپڑا ( جس میں ریشم نہ ہو  صرف چمک ہو)مرد کو پہننا جائز ہے۔  (زینت کے شرعی  احکام ص۱۱ مُلخصاً)  لیکن شوخ لباس (fancy dress) سے بچنا چاہیے ۔

{12} اگر کوئی کپڑا مکمل طور پر  اصلی ریشم کا ہو تو مرد کو ایسا کپڑا پہننا حرام ہے(زینت کے شرعی  احکام ص۱۱ مُلخصاً) ۔ہاں! اگر کپڑے ، جُبّے یا عمامے وغیرہ پر ریشم کی ایسی  پٹی(strip) ہو  جو چار اُنگل(یعنی چار(4)اُنگل کی موٹائی ) سے  کم ہو تو اتنی ریشم والا جوڑا مردکو پہننا جائز ہے (زینت کے شرعی  احکام ص۱۴ مُلخصاً) ۔اسی طرح اگر مختلف جگہ  چار (4) چار انگل سے کم اصل ریشم کا کام ہو مگر سب کو ملایا جائے تو چار اُنگل سے زیادہ ہوجائے مگر کسی ایک جگہ بھی  چار اُنگل نہ ہو تو   ایسا کپڑا بھی مرد کو پہننا جائز  ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۲،ص۱۳۳، مُلخصاً)

{13}  کپڑے میں دو طرف سے دھاگہ  استعمال ہوتا ہے، ایک  لمبائی میں اور ایک چوڑائی  میں(لمبائی والا   دھاگہ، آج کل عام طور پر گز، سوا گز یا کم، زیادہ  یعنی کپڑے کی لمبائی کے مطابق ہوتا ہے، اسے ” تانا “کہتے ہیں جبکہ چوڑا دھاگہ جتنا  تھان، اُتنا ہوتا ہے مثلاً بیس گز کا تھان ہے تو بیس گز، سو میٹر کا تھان ہے تو سو میٹر، اسے ” بانا “کہتے ہیں)۔

اگر کسی کپڑے میں ریشم کی مکسنگ (mixing)ہو تو اس کی دو(2) صورتیں بنیں گی: (۱) لمبائی والا دھاگہ(یعنی ” تانا“)  ریشم کا اور چوڑائی والا  ریشم کا نہ ہو تو اس کا پہننا مرد کے لیے جائز ہے۔(۲) چوڑائی والا دھاگہ(یعنی”  بانا“) ریشم کا اور لمبائی والا  ریشم کا نہ ہو تو اس کا پہننا مرد کے لیے جائز  نہیں ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۱۲ ماخوذاً)

نوٹ(۱): تانا (یعنی لمبائی والا دھاگہ)ریشم ہو اور بانا (یعنی چوڑائی والا دھاگہ)سوت(yarn)  کاہو، مگر کپڑا اس طرح بنایا گیا ہے کہ ریشم ہی ریشم  نظر آرہا ہو تو بھی  اس کا پہننا مکروہ ہے۔(بہار شریعت،ح۱۶،ص ۴۱۰، مسئلہ ۵،مُلخصاً)

نوٹ(۲):لوگ اگر نقلی ریشم کو بھی ریشم کہتے ہوں تب بھی اس کا پہننا جائز ہے (فتاوی رضویہ ،جلد۲۲، صفحہ۱۹۴ ماخوذاً)  مگر  نہ پہننا بہتر ہے تاکہ لوگ بدگمانی (negative assumption)نہ کریں۔(فتاوی امجدیہ ،ج۴،ص۶۴، مطبوعہ مکتبۃ رضویہ، ماخوذاً)

{14}کاروباری لوگوں کا کہنا ہے کہ   اسٹون واش(stonewash)، سلک(silk) وغیرہ میں  اصلی ریشم نہیں ہوتا،بلکہ عام کپڑےمیں  پولیسٹر(polyester) یا ریڈیم(radium)  ملایا (mix           کیا)جا تا ہے۔اگر واقعی ایسا  ہے تو  مرد کو ایسے کپڑے پہننا جائز ہے۔ (زینت کے شرعی  احکام ص۱۶ مُلخصاً)

{15}اگر پینٹ شرٹ چست   (skin-fit) اور تنگ(tight) ہو جس سے جسم کے ان حصّوں  کی صورت (مثلاً ران(thigh) ، پنڈلی(shin)  وغیرہ)  محسوس ہوتی ہو جنہیں چھپانے کا حکم ہے، تو لوگوں کے سامنے ایسی پینٹ پہننا  مکروہ اور منع ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۴۸ مُلخصاً)

{16}  اگر پینٹ  اتنی موٹی، ڈھیلی اور کھلی ہو کہ جسم کے جن حصّوں   کو چھپانے کا حکم ہے، ان کی صورت محسوس نہیں ہوتی تو آج کل ایسی پینٹ پہننا  گناہ نہیں کہ اب یہ  غیر مسلموں  ہی کا لباس نہیں بلکہ مسلمان بھی اسے پہنتے ہیں البتہ  ایسی پینٹ شرٹ اب بھی مکروہ تنزیہی اور ناپسندیدہ ہے کیونکہ آج کل  بھی اکثر فاسق لوگ  ہی( جو سب کے سامنے گناہ کرتے ہیں) اسے پہنتے ہیں۔(زینت کے شرعی  احکام ص۴۸،۴۹  ماخوذاً)

{17} سونے کے بٹن  لگانا ، جائز ہے، جبکہ بٹن زنجیر (chain)کے بغیر ہوں۔ اگر بٹن زنجیر کے ساتھ ہوں تو اس کا پہننا  مرد کے لیے ناجائز ہے کہ یہ زیور(jewelry) ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۲۰ مُلخصاً)

{18}مردوں  کا ناک یا کان چھیدنا حرام  ہے کہ یہ عورتوں سے مشابہت (یعنی ان کی نقل)ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ، ص ۶۳ مُلخصاً)  بعض لوگ لڑکوں کے  کان چھدواتے(یعنی ان میں سوراخ کروادیتے) ہیں او ربالی (earrings)  وغیرہ پہناتے ہیں یہ ناجائز ہے ۔یعنی کان چھدوانا بھی ناجائز او راسے زیور پہنانا بھی ناجائز  ہے۔

(ردالمحتار ،کتاب الحظر والاباحۃ،ج۹،ص۵۹۸ ملخصاً)

انگوٹھی پہننے کی  کچھ سنتیں اور آداب:

{1}دونوں  عیدوں پر انگوٹھی پہننا مستحب (اور ثواب کا کام)ہے(دونوں عیدوں کے علاوہ(except)، مرد کے لیے) انگوٹھی نہ  پہننا افضل ہے۔(درمختار     کتاب الحظروالاباحۃ ، مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۲۴۰) لیکن عورت کا اپنے شوہر کے لئے  زیور(مثلاً انگوٹھی)پہننا، بناؤ سنگار کرنا بہت ثواب کا کام ہے بلکہ عورت کے لیے ایسا کرنا نماز نفل  پڑھنے سے  بھی افضل ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۲۶، مُلخصاً)

{2}ا ِس بات کا بہت خیال رکھیں کہ مر د کے لیےبِغیر نگینے کی انگوٹھی پہننا  جائز نہیں ایک سے زیادہ نگینے والی انگوٹھی پہننا  بھی جائز  نہیں چاندی کے علاوہ(except) کسی اور دھات(metal) مثلاً لوہے(iron)، تانبے (copper)،  اسٹیل(steel)کی  انگوٹھی پہننا بھی  جائز نہیں ایک نگ والی ،  چاندی کی ایک سے زیادہ انگوٹھیاں پہننا  بھی جائز نہیں چاندی کی ایک نگ والی ایک انگوٹھی بھی (نگینے مثلاً پتھر کے علاوہ۔ other)ساڑھے چار ماشےیا 4.374grams   سے زیادہ  وزن کی پہننا جائز نہیں۔

{3}مردصِرف ایک انگوٹھی چاندی کی ایک نگینے والی (مثلاً  ایک پتھر لگی ہوئی) جس میں انگوٹھی کا وزن ساڑھے چار ماشہ (4.374grams)  سے کم ہوپہن سکتا ہے۔ نوٹ:نگینے ( مثلاًپتھروغیرہ )کا  وَزن انگوٹھی (shell of the ring)کے  وزن  کے علاوہ (except)ہے، نگ کا وزن جتنا بھی ہو  پہن سکتے ہیں۔

{4} یاد رہے! مرد،دونوں  ہاتھوں میں سے کسی بھی ایک ہاتھ میں انگوٹھی پہن سکتے ہیں اور چھنگلیا یعنی سب سے چھوٹی اُنگلی میں پہنی جائےتو بہتر ہے  تَکبُّر(arrogance) یا زنانہ پن کا سنگار(یعنی لیڈیز اسٹائل کی ٹِیپ ٹاپ) یا اور کوئی  بھی بُری(یعنی  گناہوں بھری) نیّت  ہو تو ایک انگوٹھی(ہی)کیااِس نیّت (intention)سے (تو) اچھے کپڑے پہننے بھی جائز نہیں۔(بہار شریعت ج۳،ص۴۲۶،۴۲۸ مسئلہ ۱۲،۱، مَاخوذاً)

  {5}عورَت سونے چاندی کی جتنی چاہے انگوٹھیاں اور چھلے پہن سکتی ہے ، اِس میں وزن اور نگینے کی تعداد کی کوئی قید نہیں۔

{6}چاندی کا چھلا (ring with out stone)خاص عورَتوں کے پہننے کی چیز ہے(only for ladies)، یہ  مردوں کو  پہننامکروہِ تحریمی ، ناجائز وگناہ ہے  منّت کا یا دَم کیا ہوا دھات (metal) کا کڑا (bracelet)بھی مرد کو پہننا ناجائز و گناہ ہے  اسی طرح مدینے شریف یااجمیر شریف کے چاندی یا کسی بھی دھات (metal) کے چھلے(rings) اور اسٹیل (steel)کی انگوٹھی پہننا بھی جائز نہیںبواسیر(piles)اور دیگر بیماریوں کیلئے دم کئے ہوئے چاندی یا کسی بھی دھات کے چھلے  پہننا بھی جائز نہیںمرد کو سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہےلوہے(iron) کی انگوٹھی جہنّمیوں کا زیور ہے۔

{7}لوہے کی انگوٹھی پر چاندی کا خول چڑھا دیا کہ لوہا بالکل نہ دکھائی دیتا ہو، ایسی انگوٹھی مرد و عورت دونوں  کے لیے جائز ہےمرد کو چاہیے کہ انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی (palm)کی  طرف رکھے(کہ نگینہ نظر نہ آئے) اور عورت نگینہ ہاتھ کی پشت(back) کی طرف رکھے(یعنی نگینہ نظر آئے)۔

{8} حروفِ مُقَطَّعات (مثلاً : الٓـمّٓ، یٰسٓ، طٰہٰ،حٰمٓ وغیرہ) کی انگوٹھی پہننا جائز ہے مگر حروفِ مُقَطَّعات والی انگوٹھی بغیر وُضو پہننا اور چھونا (touch کرنا) یا ہاتھ ملاتے وقت ہاتھ ملانے والے کا اس انگوٹھی کو بے وضو چھو نا جائز نہیں ۔

{9}نابالغ( مثلاً12 سال سے چھوٹے) لڑکے کو (بھی) سونے چاندی کا زَیور پہنانا حرام ہے اور جس نے پہنایا وہ گنہگار ہو گابَچّوں (male children) کے ہاتھ پاؤں میں  مہندی لگاناجائز نہیں، لگانے  والا گنہگار ہوگا۔

(550 سنتیں اور آداب ص۵۹ تا ۵۷ ملخصاً)

{10} زیور وہ چیز  ہوتی ہے  جس سے خاص قسم کی زینت(یعنی خوبصورتی) حاصل  کی جاتی ہے۔ چابیوں کا چھلا(key ring)زیور کے طورپر نہیں بنا ہوتا اور نہ ہی  اسے زیور یا زینت کے طور پر پہنا جاتا، بلکہ صرف حفاظت (safety)  کے لیے انگلی میں ڈال لیا جاتا ہے تاکہ چابیوں کا گھچا ہاتھ سے نہ گرے، لھذا یہ زیور شمار نہیں ہوتا اور اسے حفاظت کے لیے انگلی میں لٹکا دینا جائز ہے (ماہنامہ فیضان مدینہ مارچ 2022، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)   تسبیح  وغیرہ کے ساتھ جو چھلّا (ring)ہوتا ہے اس سے(بھی) زینت(یعنی خوبصورتی) حاصل نہیں  کی جاتی لہٰذا طواف کے لئے ایسا دھات کا چھلّا پہننا جائز ہے  جس کے ساتھ دانوں والی تسبیح لٹک رہی ہو کیونکہ یہ  بھی زیور نہیں ہے ۔ یاد رہے کہتانبا(copper) اور پیتل (brass)  صرف  زیور  کے طور پر پہنناحرام ہے اور تسبیح وغیرہ کو پکڑنے کے لئے جو چھلّا، ان کے ساتھ لگا ہوتا ہے یہ زیور کی طرح بنا ہوا  نہیں ہوتا اور  اسے خوبصورتی کے لیے نہیں پہنا جاتا بلکہ حفاظت کے لئے انگلی میں اَٹکا یا جاتا ہے اور اس طرح پہننا جائز ہے۔ (مختصر فتاوی اہلسنت ص۱۰۵، ۱۰۶ مُلخصاً)

{11}مَردوں کے لیے قمیص کی سامنے والی پٹی،  کف(cuff)، کالر(collar) اور شلوار کے پائنچے پر سادہ دھاگے سے معمولی کڑھائی کروانا شرعاً درست ہے، اس میں کوئی حرج(یا گناہ) نہیں ہے۔ ( جمادی الثانی 1441،ماہنامہ فیضانِ مدینہ،مُلخصاً)

عورتوں کےلیے زینت (fashion)کے دینی مسائل:

{1}  دلھن (bride)کو سجانا تو سنت قدیمہ(یعنی ایک پرانا طریقہ)  ہےاور بہت سی حدیثوں سے  پتا چلتا ہے بلکہ کنواری لڑکیوں (virgin girls)کو زیور اور اچھے لباس  پہننا تاکہ  ان کے رشتے آئیں ، یہ بھی سنّت ہے (فتاوی رضویہ ،جلد۲۲، صفحہ۱۶۲، مُلخصاً) ۔  عورت کا بالکل  زیور کے بغیر رہنا مکروہ ہے کہ یہ  مردوں کی نقّالی(copy) کرنا ہے (فتاویٰ رضویہ، جلد۲۲،ص۱۲۸، مُلخصاً) ۔اُمُّ المؤمنین  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا  عورت کو بغیرزیور نماز پڑھنا مکروہ جانتیں اور فرماتیں: کچھ نہ پائے تو ایک ڈورا ہی گلے میں باندھ لے۔( مجمع بحار الانوار     ،     مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ    ۳ /۶۲۲)

{2}   خواتین اپنے شوہر کے لئے جائز  چیزوں کے  ساتھ مگر گھر کی چار دیواری میں زینت کریںشوہر کے لئے  زیورپہننا، تیار ہونا بہت ثواب کا کام ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج۲۲،ص۱۲۶، مُلخصاً)

{3}  انسان کے بالوں کی چوٹی(braid of hair) بنا کر عورت اپنے بالوں میں گوندھے(knots in hair)، یہ حرام ہے۔ حدیث مبارک میں اس پر لعنت آئی بلکہ اس پر بھی لعنت آئی جس نے کسی دوسری عورت کے سر میں انسانی بالوں کی چوٹی گوندھی ( درمختار،کتاب الحظروالاباحۃ،ج۹،ص۶۱۴تا ۶۱۵ )  ۔اگر وہ بال جس کی چوٹی بنائی گئی خود اس عورت کے اپنے بال ہیں جس کے سر میں جوڑی گئی ، جب بھی ناجائز ہے۔  ( درمختار،کتاب الحظروالاباحۃ،ج۹،ص۶۱۵ )

{4}   اُون یاسیاہ دھاگے کی چوٹی(braid of hair) اسلامی بہنوں کوسر میں لگانا، جائز ہے  (درمختار،کتاب الحظرو الاباحۃ،  ج۹، ص۶۱۴تا ۶۱۵ ) ۔ عورتیں اپنی چوٹیوں میں سونے چاندی کے دانے ،پھول، کلپ لگا سکتی ہیں۔(الفتاوی الھندیۃ،  کتاب الکراہیۃ،ج۵، ص۳۵۹)

{5}عورتوں کے لئے سونا اور چاندی پہننا، مطلقاً (یعنی ہر صورت میں۔ in any case)جائز ہے لہٰذا عورتوں کےلئےایسے جوتےپہننا بھی جائز ہے جن میں چاندی کا کام ہوا ہو۔(اگست، 2022،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً)

{6} عورتوں کو کندھوں (shoulders)سے اوپر بال کٹوانا ناجائز و حرام ہے کہ یہ مردوں  کی  نقل(copy) ہے اگر شوہر اس پر راضی(agree) ہوتو وہ بھی گناہ گار ہے۔(مختصر فتاوی اہلسنّت ص۱۸۴) اسی طرح فاسقہ عورتوں یعنی  سب کے سامنے گناہ کرنے والیوں کے فیشن(fashion) کی طرح  بال کٹوانا منع اور معمولی سے بال (جیسے عورتوں کے کندھوں سے لمبے بالوں کی نوکیں  اُلجھ جاتی ہیں) کٹوانے میں کوئی گناہ نہیں۔(زینت کے شرعی  احکام ص ۹۲مُلخصاً)

{7}عورتوں کا بال برابر کرنے کے لیے پیشانی(forehead) کی طرف سے اس طرح بال کاٹنا کہ ان کی لمبائی کندھوں سے نیچے تک نہ رہے،ناجائز و گناہ ہے کیونکہ   عورت کا اس طرح بال کاٹنا مردوں کی  طرح کے بال بنانا ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص ۹۶مُلخصاً)

{8}عورت کا  اپنے محرم رشتہ داروں ( جن سے ہمیشہ کے لیے نکاح ناجائز ہو) کے سامنے بالوں کو کندھے (shoulder) سے اوپر تک کاٹے بغیر لَٹ نکال کر آنا  جائز ہےجبکہ کسی فتنے وغیرہ کا خوف بھی نہ ہو اور شوہر کے سامنے شریعت کے حکم پر عمل کی نیّت سے نکالنا ثواب کا کام ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص ۹۷،۹۸مُلخصاً)

{9}عورت کا سر مُنڈوانا(shaving the head)حرام ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۲ص۶۶۴مُلَخَّصاً)

{10}  عورتوں کو کاجل(kohl)  اور کالا سرمہ زینت کے لئے لگانا ،جائز ہے ۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ، ج۵، ص۳۵۹)

{11}  عورت کے چہرے پر اگر بال آ گئے ہوں تو  اس کے لئے یہ بال صاف کرانا ،جائز ہے   اور یہ بال صاف کرانا  اگر شوہر کے لئے خوبصورتی  حاصل  کرنے کی نیّت(intention) سے ہوتو جائز ہونے کے ساتھ ساتھ مستحب (اور ثواب کا کام) بھی ہے یاد رہے! کہ ابرو(eyebrows)بنوانے کا یہ  حکم نہیں  کیونکہ  زینت (یعنی خوبصورتی)کےلئے ابرو  بنوانا ،ناجائز ہے ابرو کے بال بہت زیادہ بڑھ چکے ہوں کہ دیکھنے میں بُرے لگ رہے ہوں توصرف ان بڑھے ہوئے(overgrown) بالوں کو تراش کر اتنا چھوٹا کرسکتے ہیں کہ  بدصورتی دور ہو جائے۔(مختصر فتاوی  اہل سنّت ص۱۹۰، مُلخصاً)

{12}  آرٹیفیشل پلکیں(artificial eyelashes) جبکہ اِنسان اور خِنْزیر(pig) کے بالوں سے بنی ہوئی نہ ہوں، زِینَت (یعنی خوبصورتی)کے طور پر عورتوں کا لگانا ، جائز ہے۔لیکن وُضُو، غُسل کرنے کے لئے ان پلکوں کا اُتارنا ضروری ہوگا کیونکہ آرٹیفیشل پلکیں گُوند(glue)وغیرہ سے لگانے کے بعد اَصلی پلکوں کے ساتھ چِپکادی جاتی ہیں، لہٰذاانہیں اُتارے بغیر اصلی  پلکوں کا دھونا ممکن نہیں جبکہ وُضو، غُسل میں اَصلی پلکوں کے ہر بال کا دھونا فرض ہے۔(مختصر فتاوی  اہل سنّت ص۱۸۴، مُلخصاً)

{13}عورت  کی بھنؤوں(eyebrows) پر کلر(colour)، کاجل، سرمہ اور جس رنگ کی بھنویں ہیں اسی رنگ کا شیڈ(color shade) لگانا اس صورت میں جائز ہے  جبکہ بھنؤوں(eyebrows) کے بال نہ کاٹے جائیں ، نہ اکھاڑے(یعنی  جڑ سے  نہ نکالے) جائیں۔(زینت کے شرعی  احکام ص۵۲ ماخوذاً)

{14}کنٹورنگ(contouring) جس میں  چہرے کو خوبصورت کرنے کے لیے میک اپ (make-up) کیا جاتا ہے،خواتین  کے لیے اس کا استعمال جائز ہونے کے لیے  ضروری ہے کہ(۱)میک اپ میں   کوئی ناپاک چیز ڈلی ہوئی نہ ہو۔ اگر یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ اس میں ناپاک چیز بھی ہے تو کنٹورنگ یا میک اپ جائز نہیں  (۲) میک اپ ایسا نہ ہو کہ  بدن پر چپک جائے اور جلد (skin) تک پانی نہ پہنچے، کیونکہ ایسا  میک اپ کرنے سے وضو اور غسل نہیں ہوگا(اگر نماز پڑھنی ہے اور وضو وغیرہ کرنا ہے تو یہ میک اپ صاف کرنا ضروری ہوگا ) (۳) بالوں میں کنٹورنگ کروانا ہو تو(سفید بالوں پر) کالا یا اس سے ملتا جُلتا رنگ استعمال کرنا ، (عورت کے لیے بھی) جائز نہیں ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ  جائز کام کا طریقہ بھی جائز ہو ،کسی قسم کا ناجائز طریقہ(مثلاً عورت کی بھنویں مرد بنا رہا ہو) بھی نہ ہو۔ (زینت کے شرعی  احکام ص۵۲،۵۴،۵۵ ماخوذاً)

{15}رنگ گورا کرنے کے لیے عورت کا دوا یا کریم استعمال کرنا، جائز ہے، جبکہ اس میں کسی قسم کی ناپاک چیز نہ ہو اور نہ  ہی  اس کو لگانے سے چہرہ بہت بد صورت ہو جائے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۷۲ مُلخصاً)

{16}عورت کو سرمے  کانشان لگا کر چہرے  پر تل  (facial mole)بنانا ، جائز ہے  اسی طرحبَچّوں پر تل لگانا بھی جائز ہے  لیکن  فیشن کی وجہ سے چہرے کے کسی حصّے میں گدوا کر اس میں سرمہ وغیرہ بھر وا کر مصنوعی تل (artificial facial mole) بنانا گناہ ہے، حدیث میں ایسا کرنے والی عورت پر لعنت (یعنی  اللہ   کریم کی رحمت سے دوری کی دعا) کی گئی ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۶۹ مُلخصاً)

{17}سرخی(lipstick) کے اجزاء (ingredients)میں کوئی حرام اور ناپاک  چیز ملی ہوئی نہ ہو تو اس کا استعمال کرنا ، جائز ہے (زینت کے شرعی  احکام ص ۱۷۷(۔البتہ  روزے کی حالت میں  لگانے سے بچنا چاہیے کہ تھوک وغیرہ کے ساتھ اندر جانے کا خطرہ ہے۔اگر کسی طرح بھی حلق سے نیچے  چلی گئی تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اگر نیچے نہ بھی گئی  لیکن منہ میں ذائقہ (taste)محسوس ہو تو اس کا لگانا مکروہ ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص ۱۹۷مُلخصاً)

{18}دانتوں کو ریتی سے ریت کر(teeth sandblasting) خوب صورت بنانے والی یا  بھنوؤں کے بالوں کو نوچ کر(by scratching)باریک(fine) اور خوب صورت بنانے والی  عورتوں پر حدیث میں لعنت آئی

ہے۔(صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ،رقم ۲۱۲۵،ص۱۱۷۵)

{19} (۱)عورتوں کا ناک یا کان چھیدنا اور اس میں زیور پہننا بالکل جائز ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۶۰) (۲)   لڑکیوں  کے کان ناک چھیدنا(یعنی زیور کے لیے سوراخ کرنا)جائز ہے ۔ (ردالمحتار ،کتاب الحظر والاباحۃ،ج۹،ص۵۹۸) (۳)  اگر کسی علاقے میں عزّت دار مسلمان عورتیں  اینے ایک  ہی کان یا ناک میں ایک سے زیادہ سوراخ کر کے اس میں زیور لٹکاتی ہیں ، تاکہ اس سے زینت(یعنی خوبصورتی) حاصل  ہو ،تو اس میں بھی کوئی حرج (یا گناہ) نہیں ۔

(مارچ، 2023،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً)

{20} (۱)  عورتو ں کو ہاتھ پاؤں میں مہند ی لگانا ، جائز ہے(۲) بَچِّیوں کو بھی  مہندی لگانے میں حرج نہیں۔

(ردالمحتار ،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۵۹۹ ملتقطاً)

{21}عورتیں بازو(arm)، ہاتھ ،پاؤں اور ٹانگوں کے بال  اُتار سکتیں ہیں۔(زینت کے شرعی  احکام ص ۱۰۲مُلخصاً) اگر ضرورت ہو تو یہ کام خود کرے، کسی دوسری عورت سے بھی  نہ کروائے(اور سَتر کی جگہ مثلاً رانیں(thighs) تو کسی دوسری عورت کو  نہیں دکھا سکتی)۔

{22}    ایسا لباس  جو  غیر مسلموں کی  مذہبی یا دینی  نشانی(religious sign) نہ ہو  مگر فاسقوں ، سب کے سامنے گناہ کرنے والوں کے فیشن(fashion)  کا لباس  ہو جیسا کہ امام اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے آج کل عورتوں کے تنگ (tight) اور چست لباس  (skin-fit clothes) پہننے کی مثال دی، ایسے لباس پہننا مکروہ  تحریمی ناجائز و گناہ ہیں۔(زینت کے شرعی  احکام ص۲۵ مُلخصاً)

{23}  ایسا لباس   جو غیر مسلم عورتیں  پہنتی ہوں مگر وہ  ان کی مذہبی یا دینی  نشانی  نہ ہو بلکہ عام مسلمان عورتیں  بھی ویسا لباس پہنتی ہوں اور ان کا  سارا جسم صحیح طریقے سے چھپ جاتا ہو، جیسا کہ عورتوں کا لہنگا   پہننا(اور پاکستان میں ایسے لہنگے ہوتے ہیں کہ ان سے سارا جسم صحیح طرح چھپ جاتا ہے، یہ پہننا) جائز ہے (کہ لہنگا  اب غیر مسلموں کی  نشانی نہیں رہا)۔ (زینت کے شرعی  احکام ص۲۸ مُلخصاً)

{24}  ساڑھی اگر اس طرح  پہنی جائے کہ بے پردگی نہ ہو تو جائز ہے اور اگر بے پردگی ہو تو جائز نہیں ۔

(فتاوی فیض رسول ج۲،ص۶۰۱، شبیر برادرز،لاہور مُلخصاً)

{25}عورت کا نماز اور اس کے علاوہ (other)بھی باریک لان(جس سے بدن چمکے)یا ایسا کوئی بھی کپڑا پہننا، ناجائز و ممنوع ہے کہ جس سے شرعی پردہ نہ ہوسکے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۳۶ مُلخصاً)

{26}  وہ کالر (collar) جو  عورتوں کی قمیض پر لگائے جاتے ہیں (مردوں کی قمیض پر نہیں لگتے) وہ  عورت ہی کا لباس ہے، ایسا کالر (collar)  عورتوں کی قمیض پر لگانا ،جائز ہےمگرجو  کالر (collar)   مردوں ہی کی قمیض پر لگائے جاتے ہیں، ایسا کالر (collar)  عورتوں کی قمیض پر لگانا،  جائز  نہیں ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۳۹ مُلخصاً)

{27} عورتوں کا غیر مردوں کے سامنےآدھی آستین (half sleeve)     پہن کر بازو (arm)ظاہر کرنا، ناجائز گناہ اور حرام ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۳۹ مُلخصاً)

{28}عورتیں گھر کے اندر بھی مردوں کے سویٹر استعمال نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ بھی مرد  کا لباس ہے اور مردوں کا لباس، عورت کو پہننا جائز نہیں ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۵۰ مُلخصاً)

{29}عورتیں کانچ کی چوڑیاں پہن سکتی ہیں اگر شوہر کے لیے زینت کرنے(یعنی تیار ہونے) کے لیے چوڑیاں پہنے تو مُستحب(اور ثواب کا کام ہے) اگر  والدین یا شوہر نے  پہننے کا حکم دیا تو اب  عورت پر چوڑیاں پہننا واجب ہوگا۔(زینت کے شرعی  احکام ص ۱۲۲مُلخصاً)

{30}عورت کا مردوں جیسی انگوٹھی پہننا، مردوں کی مشابہت (یعنی ان کی نقل) کی وجہ سے ناجائز ہے۔

(زینت کے شرعی  احکام ص ۱۳۸مُلخصاً)

{31}پازیب(anklet) پاؤں میں پہنے جانے والے گھنگرو (tinklebell)سے خالی یا چھوٹے گھنگرو والے زیور کو کہتے ہیںعورت پازیب پہن کر  کسی غیر  مردکے  سامنے آئے  کہ وہ اس زیور کو دیکھ سکے یا اس طرح استعمال کرے کہ  اس زیور کی آواز اس(غیر محرم) تک جائے، یہ حرام  و ناجائز  ہے اگر پازیب (anklet) پہن کر شوہر یا محرم کے سامنے آئے تو اس کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ  فاسقہ عورتوں یعنی سب کے سامنے گناہ کرنے والیوں کے فیشن (fashion) کی پہچان نہ ہو اسی طرح گھنگرو (tinklebell) اگر ایسا ہے  جو صرف ناچ گانے والیاں ہی  پہنتی ہیں اور وہ فاسقہ عورتوں کی پہچان ہے تو ایسا گھنگرو پہننا کسی کے سامنے بھی جائز نہیں۔ (زینت کے شرعی  احکام ص۱۱۹،  ۱۱۸مُلخصاً) لھذا عورتیں گھنگرو نہ ہی پہنا کرئیں۔

{32}اللہ کریم قرآن پاک میں  فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’اور زمین پر اپنے پاؤں  اس لئے زور سے نہ ماریں  کہ ان کی اس زینت کا پتا چل جائے جو انہوں  نے چھپائی ہوئی ہے‘‘۔ (پ۱۸النور ۳۱) (ترجمہ کنز العرفان) عُلَمائے کِرام  فرماتے ہیں: عورَتيں گھر کے اندر چلنے پھرنے ميں بھی پاؤں  اِتنےآہِستہ رکھيں کہ ان کے زَيور (jewelry)  کی جَھنکار(آواز) نہ سُنی جائے۔ اِسی لئے چاہئے کہ عورَتيں باجے دار جھانجھن(ایک قسم کا پاؤں کا زیور(A kind of foot jewelry) کہ چلنے میں جس کی آواز آتی ہے) نہ پہنيں۔حديث شريف ميں ہے: اللہ کریم اُس قوم کی دُعا نہيں قَبول فرماتا جن کی عورَتيں جھانجھن پہنتی ہوں  (تَفسیرات اَحمدِیہ ص۵۶۵) ۔ اس سے سمجھناچاہئے کہ جب زيور کی آواز دعاقَبول نہ ہونے کا سبب (reason) ہے تو خودعورَت کی اپنی آوازکا بِلااجازتِ شَرعی غیر مردوں تک پہنچنا اور اسکی بے پردَگی اللہ کریم کے غضب کا کتنا بڑا سبب(reason) ہوگی۔   

( خزائنُ الْعِرفان ص  ۵۶۶ مُلخصاً) (پارہ۱۸ سورۂ نُور، آیت۳۱)

{33}عورت  کا غیر محرم کے سامنے  ٹخنے کھولنا حرام ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۴۶ مُلخصاً)

زینت کے مزید  (more)دینی مسائل:

{1}  نظر سے بچنے کے لئے ماتھے(forehead) یا ٹھوڑی (chin)وغیرہ میں کاجل(kohl) وغیرہ سے دھبہ لگا دینا یا کھیتوں میں کسی لکڑی میں کپڑا لپیٹ کر گاڑ دینا تاکہ دیکھنے والے کی نظر پہلے اس پر پڑے اور بَچّوں اور کھیتی کو کسی کی نظر نہ لگے ایسا کرنا منع نہیں ہے کیونکہ نظر کا لگنا حدیثوں سے  پتا چلتاہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جب اپنی یا کسی مسلمان کی کوئی چیز دیکھے اور وہ اچھی لگے ،پسند آجائے تو فوراً یہ دعا پڑھے:

تَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہ       ِ ؕ    (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۶۰۱)یا اردو میں یہ کہہ دے کہ: اﷲ کریم  برکت(blessing)  دے اس طرح کہنے سے نظر نہیں لگے گی ۔(جنّتی زیور ص ۴۱۱،مُلخصاً)

{2}  اولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْاور نیک لوگوں  کے مزاروں پر  چادر ڈالنا جائز ہے جب کہ یہ نیّت  (intention)ہو کہ بزرگ کی شان اور عزّت   لوگوں کے دلوں  میں پیدا ہو اور عوام ان  نیک لوگوں  کا ادب کریں اور ان   حضرات کی  برکتیں (blessing)حاصل کریں اور وہاں ادب کے ساتھ  حاضر ہو کر دعا کریں۔

(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۵۹۹، مُلخصاً)

{3}  میّت پرقیمتی چادر(expensive sheet)  زینت(یعنی خوبصورتی ) کے لیے ڈالنا مکروہ ہے کیونکہ میت(ایسی حالت) نہیں کہ اس کی زینت(یعنی خوبصورتی) کی جائے۔ہاں! اگر یہ نیّت (intention)ہے  کہ کسی   غریب کو(وہ چادر) صدقہ کریں گے، اس لیے مہنگی چادر ڈالی   ہو تو اب مکروہ  نہیں۔

(فتاوی رضویہ ج۱۶،ص۱۲۳مُلخصاً)

{4}  اپنے گھر وغیرہ میں  جاندار (مثلاً انسان، حیوان)کی تصویر لگانا ، جائز نہیں  لیکن غیر ذی روح(non-living) کی تصویر لگانا  ، جائز ہے جیسا کہ( پہاڑوں ، سمندر ، درختوں وغیرہ بے جان چیزوں کے ) طغرے (frames)  گھروں میں لگائے جاتے ہیں ۔ (بہار شریعت،ح۱۶،ص ۵۹۷، مسئلہ ۶، مُلخصاً)

{5}  اصل ریشم بچّے کو نہیں پہنا سکتے  بلکہ بچّے کے مر جانے کے بعد ،اِسے اصل ریشم سے کفن دینا  بھی جائز نہیں۔ بچّی کو پہنایا جا سکتا ہے اور اسے  اصلی ریشم کا کفن بھی دیا جاسکتا ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۱۹ مُلخصاً)

{6} کارٹون کی تصویر، اگر کسی زندہ جاندار (مثلاً انسان یا حیوان)کی ہو اور اس کا چہرہ (face) اتنا بڑا ہو کہ زمین پر رکھیں تو چہرے کے حصّے(مثلاً ناک، کان وغیرہ) صحیح طرح نظر آئیں، تو ایسا کپڑا   پہننا یا پہنانا  گناہ ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۲۲ مُلخصاً)

{7}کسی  کپڑے پر  فرضی اور خیالی کارٹون(fictional cartoon) بنا ہوا ہو کہ  جو کسی جاندار کا نہ ہو مثلاً کوئی ڈبا(box) دوڑتا ہوا نظر آ رہا ہو تو ایسا کپڑا بَچّوں کو پہنانا یا خود  پہننا جائز ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۲۳ مُلخصاً)

()

141 ’’ پردے اور نگاہ کے  بارے میں‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

     اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ یعنی آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں۔  (مُسندِ اِمام احمد ج۲ص۸۴حدیث۳۹۱۲)

واقعہ(incident):                  دو جنّتیں مل گئیں

      مسلمانوں کے دوسرے(2nd ) خلیفہ،امیر المؤمنین حضرت  عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی خلافت (caliphate) کے وقت میں ایک نوجوان تھا جونیک ، پرہیزگاراور مسجد میں بہت آتا جاتا تھا۔ اس سے ایک عورت محبّت کرتی تھی (جو اُن کو بلاتی رہتی تھی)، ایک مرتبہ اس عورت نے اس نیک آدمی کو اپنے پا س بلایا یہاں تک کہ وہ  دونوں اکیلے (alone)ہوگئےپھر اس نیک آدمی کو (کل قیامت کے دن) اللہ کریم کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کا خیال آیا تو وہ بے ہوش(unconscious) ہو کر گر گئے، اس عورت نے انہیں اپنے گھر کے دروازے  سے باہر  راستے میں ڈال دیا، پھر اس نوجوان کےوالد آئے اور انہیں  اٹھا کر اپنے گھر لے گئے، لیکن نوجوان کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا اور وہ مسلسل کانپ رہے تھے (shivering)، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ ان  کے غسل، کفن ، نمازِ جنازہ کے بعد انہیں دفن کردیا گیا تو حضرت  عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ ان کی قبر کےپاس تشریف لائے اور یہ آیت  تلاوت فرمائی:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(پ۲۷، الرحمٰن:۴۶)،ترجمہ (Translation) : اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں(ترجمہ کنز الایمان)۔تواس کی قبر سے آواز آئی :اے عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ! بے شک اللہ کریم نے مجھے دو جنّتیں عطا فرما دی ہیں اور وہ(یعنی اللہ کریم) مجھ سے راضی بھی ہو گیا ہے۔(الزواجرعن اقتراف الکبائر ،ص۴۳،مطبوعہ دار الحدیث القاہرہ، مُلخصاً)

اسلام میں پردے کی اہمیت (importance):

{1} مسلمان(عورت) کی بے پردگی ،کافرہ (non muslim women)کی بے پردگی سے ہزاردرجے (یعنی بہت ہی زیادہ)سخت ترہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۴،ص۱۴۳)

{2} بے پَرْدَگی حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔(الحديقة الندية،  ج٥،ص١٤٤،و المبسوط، كتاب الاشربة، ج۲۴، ص۳۷،مُلخصاً)

{3}  جو جسم کے پردے کا مُطْلَقاً(totally) انکار(denial) کرے اور کہے کہ ''صِرْف دل کا پردہ ہونا چاہیے'' اُس کا ایمان جاتا رہا(یعنی وہ کافر ہوگیا)۔ ( پردے کے بارے میں سوال جواب ص۱۹۴)

{4} اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس  طرح فرماتے ہیں : عورت موم کی ناک (یعنی نازک ہے)بلکہ رال کی پڑیا(یعنی اُس سے بھی نرم) بلکہ بارود(gunpowder) کی ڈبیا ہے آگ ایک ادنٰی سے لگاؤ (یعنی ذرا سی آگ )میں بھق  سے ہوجانے (یعنی پوری جل جانے)والی ہے ۔ (عورت کی ) عقل بھی ناقص (  نامکمل)  اور دین  بھی ناقص اور طینت(یعنی    مزاج اور طبیعت ) میں کجی( ٹیڑھا پن ہے) اور شہوت ( جنسی خواہشات۔sexual desires) میں مرد سے سو حصہ بیشی(hundred times more)، اور صحبت بد(یعنی  برے لوگوں) کاا ثر (effect تو) مستقل(باقاعدہ) مردوں کو بگاڑدیتا ہے۔ پھر ان نازک شیشوں کا کیا کہنا ، جو خفیف(ذرا سی) ٹھیس (hurt) سے پاش پاش(ذرہ، ذرہ) ہوجائیں۔ (فتاوی رضویہ ،جلد۲۲، صفحہ۲۱۲)

 {5} ایک اور جگہ ، کچھ یوں  فرماتے ہیں : حدیثوں سےیہ بات  پتا چلتی  ہے کہ لڑکیوں کوسورۂ یوسُف کا ترجَمہ (و تفسیر ) نہ پڑھائیں کہ اس میں  عورَتوں کے دھوکہ دینے (deceiving) کا واقعہ(incident)   ہے  ( فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ص۴۵۵، مُلخصاً) ۔غور کریں کہ لڑکیوں کو قرآنِ  کریم کی ایک سُورَت (سورۂ یوسُف) کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے سے اس لئے مَنْع کر دیا گیا کہ کہیں یہ  لڑکیاں مَنفی اثر (negative impact)نہ لے لیں اور ان کی  عزّت اور پردے میں کوئی  کمی(negligence) نہ آئے۔اب آپ ہی اندازہ(guess)  لگالیجئے کہ انہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے کی آزادی (freedom)دینا یا  ناوِلوں (novels) اور ڈائجسٹو ں (digests)کو پڑھنے دیناکتنا خطر ناک ہے ۔ پھر ان  تحریروں میں کُفرِیّات  بھی دیکھےجاتے ہیں، اور  کبھی  بدمذَہب (یعنی گمراہ  آدمی کہ جو جہنّم  میں لے جانے والے عقیدے (belief) پر یقین رکھتا ہو)کے مَضمون(stories) بھی ہوتے ہیں جنھیں پڑھنے سے دین و ایمان کی بربادی کا بھی  خطرہ رہتا ہے۔یاد رہے کہ بدمذَہبوں کے بیانات سننا، ان کی تحریریں(writings) پڑھنا، ان کے بیانات کے جلسوں میں جانا، ان میں اُٹھنا بیٹھنا  یا ان سے  رشتہ داری کرنا حرام، حرام ،حرام  ہونے کےساتھ ساتھ اپنی آخرت برباد کرنے اور اپنے دل سے اللہ  و رسول(عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) کی محبّت کم کرنے والا کام ہے۔ہاں! ماہر(expert)  سُنی عالم صاحب، شرعی ضرورت پر ان کی تقریر سُن سکتے ہیں۔ (پردے کے بارے میں سوال جواب ص۱۷۹،۱۸۰،ماخوذاً)

 {6}  پردے کی اہمیّت(importance) اس بات سے بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی  ظاہِری  زندگی  میں عورَتیں مسجِد میں  جماعت کے ساتھ  نَمازیں پڑھتی تھی  پھرحالات (condition)بدلنے  کی وجہ سے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْ اور عُلَمائے کِرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْنے عورَتوں کو مسجِد میں جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے آنے سے  مَنْع فرما دیا ۔حالانکہ (however) عورَتیں مسجِد کی صَفوں میں سب سے آخِر میں کھڑی  ہوتیں یعنی  جماعت میں  پہلےمرد  پھر بچّے اور آخر میں  عورَتوں  کی  صف    (دُرِّمُختار ج ۲ص ۳۷۷،مُلخصاً) ۔ مسلمانوں کے دوسرے (2nd )خلیفہ، اَمِیرُالْمُؤمِنِین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عورَتوں کو(جماعت سے نماز کے لیے ) مسجد  جانے سے منع فرمایا( عنایہ شرح ہدایہ،باب الامامۃ،ج۱،ص۳۱۷)۔ اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرت عائشہ  رَضِیَ اللہُ عَنْہَا   نے اس وقت فرمایا: اگرنبیِ پاک  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،یہ باتیں دیکھ لیتے کہ جو  عورتوں میں اب  پیدا  ہوگئی  ہیں تو ضَرور انھیں(جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے) مسجد(آنے) سے مَنع فرمادیتے (بخاری،ج۱،ص۳۰۰،حدیث:۸۶۹)۔  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے  کچھ اس طرح بھی  فرمایا: مسجِد سے بہتر عام محفِل(بیٹھنے کی جگہ) کہاں ہو گی ! اور  مسجِد کی نَماز میں پردہ بھی   کیسا زبردست  کہ  جماعت کے لیے مَردوں (کی صف آگے اور  ان  مردوں)کی  پیٹھ(back) عورَتوں کی طرف ہونے کے ساتھ  انہیں( یعنی مَردوں کو یہ بھی )حکم  کہ   نماز مکمل ہونے کے بعد بھی  پیچھے نہیں جائیں  گے، جب تک عورَتیں (مسجِد سے باہَر) نہ نکل جائیں۔ مگر پھر بھی عُلَمائے کِرام نے)  شروع شروع میں احتیاطوں (cautions)پر  عمل کا فرمایا لیکن  وقت گزرنے کے ساتھ  پردے کے مسائل بڑھنے لگےتو (مسجِد میں جماعت سے نماز پڑھنے  کیلئے عورَتوں کی حاضِری کو مکمَّل طور پر ناجائز فرما دیا ۔ ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۲ ص ۲۲۹، ماخوذاً)

{7} یاد رہے: مکّہ شریف کی مسجد الْحرام(کہ جس مسجد میں کعبۃ اللہ شریف ہے) میں عورتیں طواف(یعنی  عبادت کی نیّت سے کعبہ شریف کے چکر لگانے ) یا عمرہ کرنے یا حج کا کوئی رکن(یعنی حج کے لیے جو عبادت ہو، اُسے)پورا کرنے بلکہ کعبے شریف کی زیارت کرنے  یا  مدینے پاک کی مسجدُ النَّبَوِی(کہ جہاں پیارے آقا، مدینے والے مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا مزار شریف ہے)  میں  جالیوں پر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو سلام عرض کرنے کے لیے حاضر ہوسکتی (اور اب شیخین یعنی حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور حضرت عمر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بھی سلام کر سکتی )  ہیں مگر ان مسجدوں میں بھی جماعت سے نماز   نہیں پڑھیں گی۔

{8}(۱)اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ عائِشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا  کہتی  ہیں:ہم پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  کے ساتھ  حج  کے سفرمیں احرام کی  حالت میں(یعنی حج کی نیّت کے ساتھ) تھیں، جب ہمارے پاس سے کوئی  گزرتا تو ہم اپنی چادروں کواپنے سروں سے لٹکا کر چہرے کے سامنے کر لیتیں اور جب لوگ گزر جاتے تو ہم چہرے کھول لیتیں۔  ( اَ بُو دَاو،د ج۲ ، ص۲۴۱، حديث ۱۸۳۳،مُلخصاً) عورتیں جب حج یا عمرے کے لیے احرام  کی نیّت کر لیں گی تو وہ اپنے سِلے ہوئے کپڑے  ہی پہنیں  ،  دستانے اور موزے بھی پہن سکتی ہیں  ،  وہ سَر بھی ڈھانپیں(cover)   گی مگر چہرے پر چادر نہیں اَوڑھ سکتیں  (رفیق الحرمین ص۶۲،مُلخصاً)۔  پردے کی عادت کی وجہ سے  اُمّھاتُ المؤمنین چہرے کے آگے چادر کر لیا کرتیں، احرام والی عورتوں  کو چاہیے کہ غیر مَردوں سے چہرہ چُھپانے کے لئے ہاتھ کا پنکھا یا کوئی کتاب وغیرہ ضَرورتاً  آگے کرلیں ۔ اِحرام   میں عورَتوں کو کسی ایسی چیز سے مُنہ چھپانا جو چہرے سے چِپٹی ہو حرام ہے۔(رفیق الحرمین ص۶۳، مُلخصاً)

(۲)یہ مسئلہ  بھی  پردے کی اہمیّت(importance) سمجھاتا ہے کہ: عورت کے پاس پانی نہیں ہو اور باہر نکلنے کو چادر  وغیرہ بھی نہ ہو ، نہ ہی  بیٹا وغیرہ کہ پانی لادے  تو تَیَمُّمْ کرکے نماز پڑھ  لے  ۔ (فتاویٰ رضویہ ،جلد۳، صفحہ۴۱۶،مُلخصاً)

کون کسے دیکھ سکتا ہے؟ :

{9} یہاں  چار(4) قِسم (types)کے مسائل ہیں:(۱) مرد کا مرد کو دیکھنا(۲) عورت کا عورت کو دیکھنا(۳) عورت کا مرد کو دیکھنا(۴) مرد کا عورت کو دیکھنا۔

{10}بَہُت چھوٹے بچّے کے لیے عورت(یعنی  جسم کا کوئی بھی حصّہ (part)چُھپانے  والا) نہیں اس کے بدن کے کسی حصّے کو چُھپانا فرض نہیں، پھر جب کچھ بڑا ہوگیا تو اس کے آگے اورپیچھے کا مقام  (Private parts)چُھپانا ضَروری ہے ۔ دس (10)سال سے بڑا ہوجائے تو اس کے لیے بالِغ  (wise, grownup)کا ساحکم ہے(یعنی بڑوں کو جس طرح جسم دوسروں سے چھپانا ہوتا ہے، یہ بھی چھپائے گا) ۔

 ( رَدُّالْمُحتَارج۹ص۶۰۲،،بہارِ شریعت ج۳ص۴۴۲)

{11}کچھ لوگ دوسروں کے سامنے گھٹنے(knees)بلکہ رانیں (thighs) کھول دیتے ہیں یہ حرام ہے (بہارِ شریعت ج۱،ص۴۸۱، مُلَخَّصا) ۔  ان کی کھلی ہوئی ران(thigh)  یا گُھٹنے کی طرف نظر کرنا بھی جائز نہیں ۔ لہٰذا  ہاف پینٹ(half pant) یا کوئی بھی ایسا لباس پہن کر کھیلنے اورورزِش  کرنے کی اجازت نہیں  جس میں سَتر(جسم کے وہ حصّے جنہیں چھپانے کا حکم دیا گیا ہے) کا کوئی حصّہ(part) نظر آتا ہو اورایسوں کو دیکھنے سے بچنا  بھی ضَروری ہے ۔

{12}سَتْرِ عورت (یعنی اسلام نے جسم کے جن حصّوں (parts)کو  چھپانے کا حکم دیا)ہر حال(condition) میں (انہیں چھپانا) واجِب ہے شرعی اجازت کے بغیرتنہائی (loneliness)میں سَتُر کھولنا بھی جائز نہیں لوگوں کے سامنے اور نماز میں  ستُر کرنا (چھپانا)بِالاِجْماع (یعنی  عُلَمائے کِرام کے اتفاق سے۔with the consensus of  scholars) فرض ہے (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۲،ص۹۳ ،بہارِ شریعت ج۱،ص۴۷۹ ،مُلَخَّصاً) پیشاب وغیرہ کے لیے جب زمین سے قریب ہوجائیں اُس وَقْت سَتْر (مثلاً کپڑے)کھولنا چاہئے اورضَرورت سے زِیادہ حصّہ نہ کھولیں۔(بہارِ شریعت ج۱ص۴۰۹، ماخوذ ا)

{13}مرددوسرے مرد کی ناف (یعنی پیٹ کے سوراخ)سے لے کر گھٹنے(knees)  تک کا کوئی حصّہ (part) نہیں دیکھ سکتا اورعورَت بھی دوسری عورت کی  ناف سے گھٹنے تک کا کوئی حصّہ نہیں دیکھ سکتی  مرد مرد کے اور (مسلمان) عورتیں ایک دوسرے کے جسم کے باقی  حصّوں کو دیکھ سکتی ہیں جب کہ شَہوَت  (یعنی جنسی خواہش۔sexual desire)کا  ڈر نہ ہو۔(ج۳ص۴۴۳)

{14} کافِرہ عورت سے مسلمان عورت کو پردہ کرنا اسی طرح  واجِب ہے، جس طرح عورت کو غیر  مَردوں  سے پردہ کرنا لازم ہے یعنی سر کے بالوں کا کوئی حصّہ يا بازو (arm) يا کلائی(wrist)  يا گلے سے پاؤں کے گِٹّوں (ankles) کے نیچے تک جسم کا کوئی حصّہ، مسلمان عورت کا کافِرہ عورت کے سامنے کُھلاہونا جائز نہيں۔     (فتاوٰی رضويہ ج ۲۳ص ۶۹۲ ، مُلخصاً)

{15}کبیرہ (یعنی بڑے بڑے)گناہ کرنے والی یا صغیرہ( چھوٹے) گناہ پر اصرار(یعنی گناہ کی پرواہ (care)کیے بغیر بار بار  (فتاوی شامی ج۳، ص ۵۲۰  ماخوذاً)گناہ) کرنے والی مَثلاً نَماز نہ پڑھنے والی، ماں باپ کو تنگ کرنےوالی،غیبت و چغلی کرنے والی فاسِقہ عورت ہے۔جبکہ زانیہ (fornicator)،فاحِشہ(prostitute) اور بدکار عورت (harlot)کو فاسِقہ کے ساتھ ساتھ فاجِرہ بھی کہتے ہیں۔ مسلمان عورت کا فاسِقہ سے پردہ نہیں اور احتیاطاً فاجِرہ سے  پردہ کرنے کا حکم ہے۔(پردے کے بارے میں سوال جواب ص۷۷،مُلخصاً)

{16} فی زمانہ(یعنی آج کل) عورت کا غیر مردکے سامنے اپنا چہرہ چھپانا واجب ہے (دارالافتاء اہلسنّت، غیر مطبوعہ، sar-7620 ،مُلخصاً) ۔جیسا کہ  عُلمائے کرام فرماتے ہیں : عورت کا اپنے چہرے پر کپڑا ڈالنا واجب ہے، اس مسئلے سے پتا چلتا ہے کہ عورت کو بلا ضرورت(یعنی شرعی اجازت کے بغیر)  غیر مردوں  پر اپنا چہرہ کھولنا منع ہے (حاشیۃ ارشاد الساری الی مناسک الملا علی القاری ،  ص۱۶۲، مطبوعہ مکہ ) ۔  امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ،  اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:شروع شروع میں تو(عورت کو غیر مرد سے) چہرے (face)کو چھپانے کا حکم نہیں دیا جاتا  تھا، مگر آہستہ آہستہ  عُلَمائے کرام نے (حالات  کے مطابق۔ according to condition ) عورت کو(غیر مردوں سے) چہرہ چھپانے کو واجب (لازم اور ضروری) فرما دیا۔(فتاویٰ رضویہ، ج ۱۴،ص۵۵۱،مُلخصاً)

عورت کن سے پردہ کرے گی  اورکن سےنہیں :

{17} تایا زاد،چچا زاد ، ماموں زاد ، پھوپھی زاد ، خالہ زاد(all types of cousions) ، سالی(یعنی بیوی کی بہن) اوربہنوئی (یعنی بہن کا شوہر)، بھابی (یعنی بھائی کی بیوی)اور دیور(یعنی شوہر کا چھوٹا بھائی)،جیٹھ (یعنی شوہر کا  بڑا بھائی)، چچی ، تائی ،مُمانی، خالو، پھوپھا ، منہ بولے بھائی بہن (یعنی ایسے  غیر محرم  کہ جنہیں بھائی بہن بول کر رشتہ بنا لیا)، منہ بولے ماں بیٹے،منہ بولے باپ بیٹی، پیر اورمُریدَنی الغرض (یعنی )جس سے  شادی جائز ہے ،اُن  سب کا ایک دوسرے سے پردہ ہے۔

{18}(۱) جب  ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے غَیر عَورَتوں کے پاس جانے سے مَنْع فرمايا (تو) ایک صَحابی  نے عرض کی،يَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! جَیٹھ، دَیْوَر(یعنی شوہر کے چھوٹے اور بڑے بھائی)کے لئے کیا حُکم ہے؟ فرمايا: جَیٹھ، دَیْوَر تو موت ہيں (صحیح بخاری، ج۷،ص۳۷،بیروت، مُلخصاً)یعنی ان سے پردے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

(۲)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح  فرماتے ہيں:جَیٹھ(شوہر کا بڑا بھائی)، دَیْوَر(شوہر کا  چھوٹابھائی)، بہنوئی (بہن کا شوہر)، پُھپّا، خالو ،چچا زاد ، ماموں زاد، پُھپّی زاد، خالہ زاد بھائی(all types of cousins) يہ سب لوگ عورت کے لئے  غیر مرد ہيں بلکہ ان کانقصان پَرائے شخص (یعنی جن سے جان پہچان نہ ہو ) سے زیادہ ہے کہ  انجان آدمی (stranger) کسی کے گھر ميں آتے ہوئے ڈرےگا اور يہ( رشتے دار) جان پہچان کی وجہ سے (دوسرے کے گھر میں جانے کا) ڈرنہيں رکھتے۔ عورت نئے آدمی  کے قریب نہ جائے گی  اور ان  (رشتہ داروں) سے لحاظ ٹوٹا ہوتا ہے ( یعنی جھجک (hesitation) اُڑی ہوئی ہوتی ہے)۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص ۲۱۷ )

(۳)اگر ایک گھر ميں رَہتے ہوئے عورت کیلئے قریبی نامَحرم رشتہ داروں سے پردہ  مشکل ہو(کہ اسی  گھر میں غیر محرم  رہتے ہیں اور گھر کے کام بھی ہوتے ہیں) تو چہرہ کھولنے کی تو اجازت ہے مگر کپڑے ہرگز ایسے باریک نہ ہوں جن سے بدن یا سر کے بال وغیرہ چمکیں (یعنی نظر آئیں) ۔اسی طرح کپڑے ایسے چُست (skin tight clothes) بھی نہ ہوں کہ  جسم کے ان حصّوں  کی صورت (مثلاً ران(thigh) ، پنڈلی(calf)  وغیرہ)  محسوس ہوتی ہو ،جنہیں چھپانے کا حکم ہے (پردے کے بارے میں سوال جواب ص۵۲،مُلخصاً) ۔ان غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے  چہرے(face)کے ساتھ ساتھ ہتھیلی(palm)،گَٹّے(ہتھیلی اور قدم کا جوڑ۔ joint of palm and foot)، قدم اور ٹخنے(ankles) چھپانا بھی  لازم نہیں لیکن زینت، بناؤ سنگھار(ٹیپ ٹاپ۔fashion)  ان کے سامنے نہیں کیا جائے گا۔ (وقار الفتاوی،ج۳،ص۱۵۱،مُلخصاً)

یاد رہے کہ  یہ دین کی طرف سے آسانی ہے، لیکن اگر کوئی بھی  غلط نیّت سے  غیر محرم  کودیکھے گا تو گناہ گار  ہوگا۔

مزید(more) ایک گھر میں رہنے میں اس بات کا خیال رکھنا لازم ہے کہ کسی ایک کمرے میں اکیلے (alone) کسی کام سے غیر محرم  کے پاس  جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

{19}اصول یہ  ہے کہ(۱) نامحرموں سے پردہ   کرناواجب ہے اور(۲) محارم نسبی(یعنی وہ خاندانی رشتہ دار کہ جن سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو) سے پردہ نہ کرناواجب بلکہ  اگر محرم عورت ان سے پردہ  کریگی تو گنہگار ہوگی اور (۳) محارم غیر نسبی(یعنی  جن سے  ایسارشتہ  و تعلق ہو کہ جس کی وجہ سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام  توہو جاتا ہو لیکن اُن سے خونی رشتہ نہ ہو) مثلاً  سسُرالی رشتہ (جیسے ساس(mother-in-law)  ، سُسر(father-in-law) )  یا دودھ کا رشتہ(مثلاً  دودھ رشتے کے بھائ بہن) ان سے پردہ کرنا اور نہ کرنادونوں جائز ہے لیکن  جس کی جیسی حالت (condition) ہوگی ویسا ہی  حکم  ہوگا۔ اسی لیے عُلَمائے کِرام نے لکھا ہے کہ جوان ساس (mother-in-law) کو داماد  (son-in-law)سے پردہ کرنا مناسب ہے(حالانکہ ساس، سُسرالی رشتے کی وجہ سے داماد کی محرمہ ہے)۔ یہی حکم سُسر(father-in-law)اور بہو کا(daughter-in-law) ہے اورجہاں مَعَاذَاللہ! (یعنی   اللہ کریم   کی پناہ)  فتنہ(مثلاً ناجائز تعلق کا ڈر) ہو، وہاں  پردہ واجب ہوجائے گا۔

(فتاوی رضویہ ج۲۲،ص۲۴۰، مُلخصاً)

نظر کے بارے میں کچھ دینی مسائل:

{20}مَرد اپنی مَحارِم (یعنی وہ خواتین جن سےہمیشہ کے لیے نِکاح حرام ہو مَثَلاً والِدہ، بہن ، خالہ ، پھوپھی وغیرہ ) کے سر ،چہرہ ، کان، کندھا (shoulder)، بازو(arm) ، کلائی(wrist) ، پنڈلی(calf)اورقدم کی طرف نظر کرسکتاہے جب کہ شَہوَت(یعنی جنسی   خواہش۔sexual desire) کا  ڈر نہ ہو ۔

 (بہارِ شریعت ج۳ص۴۴۴،۴۴۵، مُلَخَّصا)

{21}مَحرِ م کے  جسم کے جن  حصّوں کو دیکھنا جائز ہے ان کو چُھونا(touchکرنا) بھی جائز ہے جبکہ دونوں میں سے کسی کو شَہوَت کا ڈر نہ ہو۔(بہارِ شریعت ج۳ص۴۴۵)

{22}مَرْد کے لیے مَحرَم کے پیٹ ، کروٹ(sides) ، پیٹھ (back)، ران (thigh)اورگُھٹنے(knees) کی طرف نظر کرنا جائز نہیں (یہ حکم اس وقت ہے جب جسم کے ان حصّوں پر کوئی  کپڑا نہ ہو اور اگر یہ تمام حصّے موٹے  اور ڈھیلے کپڑے سے چھپے ہوئے ہوں تو اُس طرف نظر کر سکتے ہیں جبکہ غلط خیالات پیدا  نہ ہوں) ۔

{23}غیر عورت پر پڑنے والی وہ پہلی نظر مُعاف ہے جو عورت پر بے اختیار (without knowing)پڑ گئی اور فوراً ہٹالی۔(بے پردہ  غیر عورت پر) جان بوجھ   کر(deliberately) ڈالی جانے والی پہلی نظر بھی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔

{24}اگرغیر  عورت نے کسی باریک کپڑے کا دوپٹّا پہنا ہے جس سے بال یا بالوں کی سیاہی(colour) کان یا گردن نظر آتی ہو تو اس کی طرف نظر کرنا حرام ہے ۔

 {25}آج کل مَعَاذَ اللہ! (یعنی   اللہ کریم  کی پناہ)، عورَتیں کھلے بالوں کے ساتھ باہَر نکلتیں، کلائیاں(wrists) اوربال کھولے گاڑیاں چلاتیں اوراسکوٹر کے پیچھے اپنی چُٹیا (braid)لہراتی ہوئی بیٹھتی ہیں ۔ ان کے بالوں یا کلائیوں (wrists)پراچانک  پڑنے والی پہلی نظر مُعاف ہے ، جبکہ فوراً ہٹالی۔یاد رہے! جان بوجھ   کر (deliberately)    بے پردہ غیر عورت کی  طرف دیکھنا یا نظر نہ ہٹانا حرام ہے۔

واقعہ(incident):          مفتی دعوتِ اسلامی کی موٹر سائیکل

      مفتی دعوتِ اسلامی حاجی محمد فاروق عطّاری  مدنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اِس خوف سے اپنی اسکوٹر بیچ ڈالی کہ راستے میں بے پردہ عورَتیں ہوتی ہیں ،موٹر سائیکل چلانے میں نگاہوں کی حِفاظت (یعنی ان پر اچانک نظر بھی نہ پڑے،یہ) بہت  مشکل کام  ہے ۔مگر مسئلہ یہ ہی ہے کہ غیر عورت پر پڑنے والی  پہلی نظر مُعاف ہے۔ اللہ کریم کی  اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدْقے ہماری بے حِساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن(یعنی ایسا  ہی ہو)۔

{26}اگر  بد نگاہی ہو جائے توفوراً آنکھوں کو بند کر لے یا نظر وہاں سے ہٹا لے اور ممکن(possible) ہو تو وہاں

سے ہٹ جائے اور اللہ   کریم کی بارگاہ میں سچی  توبہ کرےاگر مرد کے ساتھ ایسا ہوا ہو تو  وہ (نگاہ ہٹالینے کے بعد) اوّل آخِر دُرُودشریف کے ساتھ یہ دعا بھی پڑھے : اَللّٰھُمَّ اِنّی أَعُوْذُ بِک ِمِنْ فِتْنَۃِ النِّسَاءِ وَعَذَابِ الْقَبَر(    ترجمہ: اے اللہ ! میں عورت کے فِتنے اور عذابِ قَبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں)۔

{27} اگرغیر عورت مکمل  شَرعی پردے میں ہو اور مرد بغیر شَہوَت  کے اُسےدیکھے تو گناہ  نہیں  ہےکیونکہ یہ عورت کو دیکھنا نہیں  بلکہ کپڑوں کو دیکھنا ہے۔ ہاں! اگر کپڑے اتنے چست( skin tight clothes) ہوں کہ جسم )کو جہاں جہاں سے چھپانے کا حکم  ہے، وہاں) کے حصّے سمجھ میں آئیں(مثلاً ران(thigh) ،پنڈلی (calf) وغیرہ)تو اس صور ت (case) میں نظر کرنا جائز نہیں (بہارِ شریعت ج۳،ص۴۴۸،مُلَخَّصا) ۔اسی طرح مکمل پردے میں دیکھنے سے بھی نیّت میں خرابی پیدا ہوتی ہو تو دیکھنا جائز نہیں۔

{28}کسی عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ (intention) ہو تو اس نیّت سے اُسے دیکھنا جائز ہے کہ حدیث میں آتا ہے:(جس سے نکاح کرنا چاہتے ہو) اس کو دیکھ لو کہ یہ  محبّت باقی رہنے کا سبب  ہوگا۔(ترمذی ، ج۲، ص۳۴۶، حدیث:۱۰۸۹)اسی طرح عورت اُس مرد کو جس نے اس کے پاس پیغام بھیجا ہے دیکھ سکتی ہے، چاہے(دونوں کو)  شہوت کا خطرہ ہو مگر دیکھنے میں دونوں کی یہی نیّت(intention) ہو کہ حدیث پر عمل کر رہے ہیں (درمختار، ردالمحتار) ۔مفتی احمدیار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ لکھتے ہیں :مگر بہتر یہ ہے کہ پیغام سے پہلے دیکھا جائے اور وہ بھی کسی بہانہ سے کہ عورت کو پتا نہ لگے تاکہ ناپسندیدگی کی صورت میں (یعنی عورت سے نکاح کرنے کا ذہن نہیں بنا) عورت کو  غم(یعنی افسوس) نہ ہو ۔اوردیکھنے سے مراد چہرہ دیکھنا ہے کہ کسی بہانے سے چہرے کی خوبصورتی وغیرہ دیکھ  لے  یہ نہیں  کہ باقاعدہ(مل بیٹھ کر) عورت کا انٹرویو کرے۔ (مراٰۃ المناجیح ،ج۵،ص۱۱،۱۲، مُلخصاً)

{29}    جس  لڑکی (یا عورت) سے نکاح کرنا چاہتا ہے اگر اس کو دیکھنا  بہت مشکل ہو جیسا کہ آج کل ہوتا ہے   کہ   اگر کوئی نکاح کا پیغام(marriage proposal) دے تو اب  کسی طرح بھی اُسے لڑکی کو نہیں دیکھنے دیں گے یعنی عام لوگوں سے  زیادہ اُس سے پردہ کروائیں گے تواس صورت(case) میں نکاح کا پیغام دینے والے کو چاہیے کہ اپنی کسی محرم  عورت کواُس (لڑکی)کی طرف بھیج دے تا کہ وہ عورت  اُسے دیکھ  کرآئے  اور لڑکے کو  اس کے بارے میں بتا دے (مثلاً: لڑکی خوبصورت ہے، قد(height)   بھی صحیح ہے وغیرہ) تاکہ لڑکے کو اطمینان (satisfied) ہوجائے۔

پردے کے بارے میں مسائل:

{30} ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عورت کا ہاتھ، ہاتھ میں لئے بِغیر صرف زَبان سے بَیْعَت  (یعنی کسی چیز کا وعدہ) لیتےتھے (بہارِ شریعت  ج۳ ص۴۴۶، مُلخصاً) ۔مگر مردوں  سے بیعت کا سلسلہ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ہوا۔

{31} عورت کا اپنے پِیر ومرشِد سے بھی اِسی طرح پردہ ہے جس طرح دیگر نامَحرموں (یعنی جن سے نکاح  ہو سکتا ہو )    سے  پردہ  ہے عورت اپنے غیر محرم پِیر صاحب  کا ہاتھ  نہیں چُوم سکتی،  ان کے ہاتھ پاؤں بھی نہیں دباسکتی،  اسی طرح پِیر صاحِب سےاپنے سر پر ہاتھ(بھی) نہ پِھروائے۔          

{32} مرداور غیر عورت آپَس میں ہاتھ نہیں ملاسکتے ۔فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل ٹھونک دی جائے ،یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چُھوئے کہ جو اس کے لیے حلال نہیں ۔(مُعْجَم کبیرج۲۰ص۲۱۱حدیث۴۸۶ )

{33} عورت اجنبی مَرْد (یعنی جن سے نکاح  ہو سکتاہے) کے جِسْم کے کسی بھی حصّے کو نہ چُھوئے(  touch نہ کرے )،   چاہے دونوں کو اس بات کا اطمینان(satisfaction) ہو کہ کوئی  خواہش(desire) پیدا نہیں ہوگی جبکہ دونوں میں سے کوئی بھی جوان ہو یعنی  اس کو غلط خیالات آسکتے ہوں۔ (عالمگیری ج۵ص۳۲۷،بہارِ شریعت ج۳ص۴۴۳،مُلخصاً)

{34} نامَحرم کے ہاتھ سے عورت کا چُوڑیاں پہننا گناہ ہے ۔یعنی پہننے والی اور پہنانے والا دونوں گنہگار ہونگے۔

{35} مرد اپنی ماں کے پاؤں دبا سکتاہے ۔ مگر ران (thigh)اُس وَقْت دبا سکتاہے جب کہ کپڑے سے  چُھپی ہوئی ہو کیونکہ  ماں کی ران کو بھی بِلا حائل(یعنی بغیر کپڑوں وغیرہ کے) چُھونا (اوردیکھنا بھی)جائزنہیں۔ (بہارِ شریعت ج۳،ص۴۴۵، مُلَخَّصاً)

والِدہ کے پاؤں  چوم بھی  سکتاہے ۔ حدیثِ پاک میں ہے: جس نے اپنی ماں کا پاؤں چُوما تو ایسا ہے جیسے جنَّت کی چوکھٹ(doorstep) کو چوما۔ (اَلْمَبْسُوط لِلسَّرَخْسِی ج۵ص۱۵۶)

{36}(۱) جو لوگ قدرت (یعنی برائی سے روکنے کی  طاقت) ہونے کے باوجود(despite) اپنی بیویوں اور مَحرِموں (مثلاً بہن ، بیٹی)کو بے پردَگی سے مَنْع نہ کريں وہ” دَیُّوث“ہيں۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تين شخص کبھی جنّت ميں  نہ جائیں  گے(جن میں سے ایک ) دَیُّوث (بھی ہے)۔(مجمعُ الزَّوائد ج ۴ ص ۵۹۹حدیث۷۷۲۲ ، مُلتقطاً)یعنی (اگر انہیں معافی نہ ملی تو)ایک لمبے عرصے تک (جہنّم میں رہیں گے اور جلدی)جنّت میں نہ جائیں گے لیکن  مسلمان  ہونے کی وجہ سے (اس سزا کے بعد )  جنّت میں ضَرور  جائیں  گے(مگر یہ یا د رہے کہ ایک لمحے کا کروڑواں حصّہ بھی جہنَّم کا عذاب (punishment) کوئی برداشت نہیں کرسکتا، لہٰذا ہمیں ہرگناہ سے بچنے کی ہروقت کوشِش  کرنی ہے)۔ (پردے کے بارے میں سوال جواب ص۶۵ ، مُلخصاً)

(۲)” دَیُّوث“ وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی بیوی يا کسی مَحرمہ (یعنی جس عورت سے کبھی بھی نکاح نہیں ہو سکتا)پرغَیرت نہ کھائے (یعنی طاقت ہونے کے باوجود اُسے بے پردگی سے نہ روکے)(دُرِّمُختارج۶ ص ۱۱۳) ۔ ” دَیُّوث“ بدترین (worst) فاسِق (سب کے سامنے گناہ کرنے والا)ہے اور  جو سب کے سامنے گناہ کرنے والا ہو، اُس  کے پیچھے نَماز مکروہِ تحریمی(یعنی یہ نماز دوبارہ پڑھنی ) ہوتی ہے۔ اسے امام بنا نا  جائز نہيں اور اسکے پیچھے نَماز  پڑھنی گناہ اور پڑھ لی  تو اُس نماز کو دوبارہ پڑھنا واجِب  ہے۔  (فتاوٰی رضویہ،  ج۶،  ص ۵۸۳، مُلخصاً)

(۳)گھر کےچوکیدار (guard) ، نوکر،ڈرائيور(driver) یا باغ کےمالی (gardener)  وغیرہ اگر غیرمَحرم ہیں  تو ان سے بھی پردہ ہے، ان  کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرنا، ان سے شَرْعی پردہ نہ کرناحرام اورجہنَّم ميں لے جانے والا کام ہے ۔شوہر کو معلوم ہے پھر بھی نہیں روکتا تو وہ بھی گناہ گار اور  وہ ایسا ہے کہ جسےجہنّم کے عذاب  کی سزا  ملے(applicable for punishment) ۔اگر گھر کا نوکر 12سال کا لڑکا ہو تب بھی اسلامی بہن کو اُس سے پردہ کرنا چاہئے۔ کیوں کہ اب  یا تو وہ  بالغ(wise, grownup)  ہوگا یا بالغ ہونے والا ہوگا لیکن اب یہ  بالغ ہی کے حکم میں ہے(یعنی اس سے پردہ کرنا ہوگا)۔(پردے کے بارے میں سوال جواب ص۲۲۷،۲۲۸،مُلخصاً)

 (۴) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح  فرماتے ہيں:کوئی عورت ایسی ہوکہ  پردے کی پوری احتیاط (caution) رکھے، کپڑے  موٹے  ہوں، جسم سر سے پاؤں تک  اس طرح  چھپا رہے کہ منہ کی ٹِکلی (faceshape)،  ہتھیلیوں (palms)  اور پاؤں کے تَلْووں (soles)کے علاوہ  (other)جسم کا کوئی بال  تک نظر نہ  آئے تو اس صورت(case) میں دیور، جیٹھ (شوہر کے چھوٹے، بڑے بھائی)کے سامنے آنا جائز تو ہو گیا ، لیکن اگر شوہَر  اس حالت (condition) میں بھی ان لوگوں کے سامنے آنے کومَنع کرتا اور ناراض ہوتا ہے تو اب شوہر کے حکم کی وجہ سے پردے میں بھی ان  ( غیر مردوں)   کے سامنے آناحرام ہو گیا ۔ یاد رہے! عورت اگر( شوہر کا  جائز حکم) نہ مانے گی تو اللہ   کریم  کے غضب (اور جلال)میں گرفتار ہوگی۔(یعنی اللہ  کریم  بھی اس وقت تک ناراض رہے گا) جب تک شوہر ناراض ہوگا، عورَت کی کوئی نَماز قَبول(accept) نہ ہوگی، اللہ   کریم کے فرِشتے عورَت پر لعنت کرینگے۔ اگر عورت (مرد کی جائز بات  پوری نہ کرنے پر)طَلَاق مانگے گی تو مُنافِقہ ()ہو گی  اور جولوگ عورَت کو  شوہر سے دور کریں گے تو وہ شیطان کے پیارے ہیں۔ ( فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص ۲۱۷،مُلخصاً)

{37} لے پالک(یعنی ایسا) غیر محرم بچّہ(یعنی  جو بچّہ پالنے کے لیے لیاکہ  وہ نہ تو اپنی اولاد ہو اور نہ محرم ہو، مزید۔more) جس کو ایّامِ رَضاعت میں (یعنی جس عورت نے وہ بچّہ لیا ہو، اُس نے ڈھائی2.5 سال یعنی 30 مہینے کے اندر اندر) دودھ نہ پلایا ہو اورنہ ہی ایسی عورت نے دودھ پلایا ہو کہ جس سے وہ بچّہ لینے والی  عورت کا محرم بن گیا ہو، مثلاً اس عورت کی  بہن نے اُس بچّے کو دودھ پلادیا تو اب لینے والی عورت اور وہ بچّہ دودھ کے رشتے سے  خالہ اور بھانجا ہوگئے لیکن اس طرح بھی کسی عورت نے اُسے دودھ نہ پلایا ہو ،پھر اُس  (بچّے)کی عمر اتنی ہوگئی کہ  مردوعورت کے (خاص) معاملات سمجھنے لگا ہو تو اُس سے بھی پردہ کرنا لازم ہے۔

نوٹ: بچّے کو دودھ پلانے کا جائز وقت دو( 2) سال یعنی  ہجری (چاند کی) تاریخ کے مطابق چوبیس( 24) مہینے ہے، اس کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں لیکن اگرتیس( 30) ماہ(یعنی ڈھائی2.5 سال) تک دودھ پلا دیا تب بھی دودھ کا رشتہ بن جائے گا اور  بچّہ دودھ کے رشتے سے ایسا محرم بن جائے گا کہ اس سے  نکاح نہیں ہو سکتا۔

{38}ایسی بڑھیا جو  بہت ہی بد صورت  ہوکہ جسے دیکھنے سے بِالکل بھی  شَہوَت (یعنی برے خیالات)کا  خطرہ نہ ہو اس سے مرد کا پردہ نہیںایسی بڑھیا کے علاوہ(except) کسی غیر عورت کو دیکھنے سے شَہوَت ہو یا نہ ہو مرد  شرعی اجازت کے بغیر نہیں دیکھ سکتا عورت کو شَہْوَت کا ڈر نہ ہو تو غیر مرد کو دیکھ سکتی ہے لیکناگرعورت کو شَہْوَت  ہونے کا شک ہو تو اب غیرمَرد کی طرف ہر گز نظر نہ کرے۔(بہارِ شریعت ج۳، ص  ۴۴۳)

پردے کے  مزید(more) مسائل:

{39}کوئی عورت بچپن میں کسی نا مَحْرم سے قرآنِ پاک پڑھتی تھی اور اب بالِغہ(wise, grownup) ہوگئی تو اُس اُستاد سے بھی پردہ فرض ہو گیا۔(پردے کے بارے میں سوال جواب ص۸۴)

{40}اگرکسی امام صاحب، عالِم  صاحب یا  پیر  صاحب  کے گھر والے یا بَچِّیاں بے پردگی کرتی ہوں تب بھی ان حضرات  پر”بدگمانی“ (negative assumption)کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ  امام صاحب وغیرہ نے انہیں سمجھانے کے شرعی حکم پر عمل  کر لیا ہو،اور شریعت نے انہیں یہ حکم تو نہیں دیا کہ بے پردگی پر اپنی بیوی، بَچِّیوں کو جان سے ہی مار دیں (پردے کے بارے میں سوال جواب ص۹۸، مُلخصاً) بلکہ شریعت نے یہ بھی لازم نہیں کیا کہ وہ اپنی بیوی کو بے پردگی پر طلاق ہی دے دیں۔

{41}ماں باپ اور شوہر کے ذَرِیعے فرض عُلوم سیکھنا ممکن نہ ہو تو عورت، صحیح العقیدہ سنّی عالمہ سے علمِ دین حاصِل کرنے کیلئے جاسکتی ہے۔ اُمَّھَاتُ المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُنَّ کے پاس خواتین حاضِر ہوتیں اور ان سے دین کی تعلیم (religious education)حاصل کرتی تھیں (پردے کے بارے میں سوال جواب ص۱۴۰،مُلخصاً) ۔عورت علمِ دين حاصل کرنے کے لیے اپنے گھر سے  کچھ شرطوں(preconditions) کے ساتھ  نکل  سکتی ہے ۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح  فرماتے ہيں:  سنُّی صحيح الْعَقِیدہ کا درس و بیان صحيح ا ور شریعت کے مطابِق ہو اور عورت کے آنے جانے ميں پوری اِحتياط اور  مکمل پردہ ہو اور(بے پردگی کے) کسی  فتنے کا کوئی  خوف نہ ہو اور  مردوں سے دُور ہوں تو کوئی  حَرَج(یا گناہ) نہيں ۔ (فتاویٰ رضويہ ج۲۲ ص ۲۳۹، مُلخصاً)

{42}(۱)اگر کوئی طبِیبہ(female physician) نہ ملے توِ مجبوری کی  صور ت (case) میں عورت، کسی مرد طبیب (male doctor)کو  جتنی ضرورت ہو صرف اتنا، جسم کا بیماری و الا حصّہ دکھا سکتی ہے اوراب اگر واقعی  (really) مرد طبیب  کو  ضَرورت  ہو تو وہ اُس جگہ کو چھُو بھی (              touchکر)سکتاہے ۔ ضَرورت سے زِیادہ جسم ہر گزنہ کھولے۔اور (۲)اپنےشوہر یا محرم کے بغیر ڈاکٹر سے چیک اپ نہ کرائے کیونکہ جوان عورت کا کسی غیر  مرد(مثلاً  ڈاکٹر) کے ساتھ کمرے میں اکیلے(alone) ہونا، شرعی طورپر ناجائزو حرام ہے۔  ہاں !اگر وہ نو(9) سال سے کم عمر کی  (ایسی) بچّی ہے (کہ جسے دیکھ کر غلط خیال نہیں آتا)یا بہت ہی بوڑھی مثلاً ساٹھ(60) ستر(70) سال کہ  دیکھنے میں بالکل اچھی نہیں لگتی تو پھر اکیلے میں (ڈاکٹر وغیرہ کے پاس  )جانا حرام نہیں ( صفر المظفر، 1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ،مُلخصاً) ۔ مشورہ یہی ہے کہ بَچِّیوں کے بارے میں بہت زیادہ احتیاط(caution) کی جائے ، پانچ(5) چھ(6) سال کی بَچِّیوں کو بھی  کسی مرد کے پاس اکیلے نہ بھیجا جائے۔

{43} (۱) مسلمان عورت کے لئے  جائزنہیں کہ کافِرہ عورت کے سامنے سَتْر(یعنی جسم کے جن حصّوں(parts) کو چھپانے کا حکم ہے، اُسے) کھولے ۔ مسلمان دائی (labor nurse)مل سکتی ہو اور وہ یہ کام صحیح طرح کر سکتی  ہو تو کافِرہ عورت سے زَچگی (labor & delivery)کے مُعامَلات  نہیں کرواسکتے۔ ہاں! اگر مجبوری ہو اورمسلمان دائی نہ مل سکے توایسی سخت مجبوری میں کافِرہ دائی سے زچگی کروائی جا سکتی ہے۔

 (۲)  خصوصاًاس وقت دیور یاجَیٹھ  کابھابھی  بلکہ کسی بھی غیر محرمہ کو دیکھنے  یا مبارکباد دینے کیلئے جانا، بہت سے غلط   دروازوں کو کھولنے والا ہے ۔(پردے کے بارے میں سوال جواب ص۱۹۳)

(۳)اگرلیڈیز نرس (nurse) موجودنہ ہو اور عورت کو انجکشن لگوا نا ضَروری ہو تو اب   عورت  غیرمرد سے بھی انجکشن  لگوا سکتی ہے۔

(۴) مَرد  لیڈیزنرس سے نہ انجکشن لگوا سکتا ہے، نہ پٹّی(bandage) بندھوا سکتا ہے ، نہ بلڈ پریشر(blood pressure)  چیک  کرواسکتا ہے، نہ ٹیسٹ کروانے کیلئے خون نکلوا سکتا ہے ۔یاد رہے! شَرْعی اجازت کے بغیر مرد و عورت کو ایک دوسرے کا بدن چُھونا(touchکرنا) حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔

(پردے کے بارے میں سوال جواب ص۱۷۱،۱۷۲،مُلخصاً)

{44}(۱)عورت پانچ(5) شرطوں (preconditions) کے ساتھ مُلازَمت(job) کر سکتی ہے:  (۱) کپڑے باريک نہ ہوں جن سے سر کے بال يا کلائی(wrist) وغيرہ سَتْر کا (یعنی جسم کے جن حصّوں(parts) کو چھپانے کا حکم ہے، اُس میں سے) کوئی حصّہ چمکے (یعنی ہلکا ہلکا نظر آرہا ہو، ایسا بھی نہ ہو) (۲) بالوں يا گلے يا پيٹ ياکلائی(wrist) يا پنڈلی (calve)کا کوئی حصّہ  نظرنہ آتا ہو (۳)بلکہ کپڑے تنگ وچُست (skin-fit cloth)  بھی نہ ہوں  کہ  جس سے جسم کے ان حصّوں (مثلاً ران(thigh) ، پنڈلی  وغیرہ) کی صورت محسوس ہوتی ہو جنہیں چھپانے کا حکم ہے   (۴) کبھی نامَحْرَم (کہ جس سے کبھی نکاح ہو سکتا  ہو) کے ساتھ  تھوڑی  سی  دير کے لئے بھی تنہائی(privacy) نہ ہوتی ہو(۵)عورت کی جہاں نوکری ہو، اُس جگہ رہنے يا اپنے  گھر سے  باہَر آنے  اور وہاں جانے ميں کسی طرح کے  فتنے (یعنی خطرے مثلاً بے پردگی،عورت کا نامحرم کی طرف مائل  یا فری  ہونے ، مردوں  کےساتھ  کام کرنے میں شرعی حدود(دائرے۔boundary) کی رعایت نہ کرنے  وغیرہ) خیال بھی نہ ہو۔يہ پانچوں(all five) شرطيں   (preconditions)اگر پوری  ہو جائیں  تو عورت کو نوکری  کرنے میں حَرَج  (یا گناہ )نہيں اور ان ميں ايک بھی کم ہے تو عورت کا ایسی نوکری کرنا حرام ہے۔  (فتاوی رضويہ ج۲۲ ص ۲۴۸،مُلخصاً)

 (۲) اگر کوئی ایسااسپتال ہو جہاں بالکل بے پردگی نہ ہوتی ہو ، غیر مرد کو چُھونے ، انجکشن لگانے، پٹّی وغیرہ  کا کام عورتیں نہیں کرتیں اور اوپر بتائی ہوئی پانچوں شرطیں(preconditions)  پوری ہوتی ہیں  تو ایسے اسپتال میں نرس کی نوکری کی جا سکتی ہے۔(پردے کے بارے میں سوال جواب ص۱۷۳،مُلخصاً)

(۳) آج کل جس انداز سے ائیر ہوسٹِس(air hostess) کی نوکَری، بے پردگی  کے ساتھ ہوتی ہے، یہ  حرام

اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے نِیز  ائیر ہوسٹِس بِغیر شوہر یا محرم کے غیر مردوں کے ساتھ(شرعی) سفر بھی

 کرتی ہیں  جو کہ ایک اور ناجائز کام  ہے()۔

 (۴)اسی طرح اپنےگھر میں ''کام والی''  بھی رکھ سکتے ہیں مگر عورت کی ملازمت(یعنی نوکری ) کرنے کی (اوپر

بتائی ہوئی)  پانچ (5) شرطیں (preconditions)   پوری ہونی چاہیئے   ۔  یہ بھی یاد رہے کہ غیر عورت کے ساتھ  تھوڑی  دیر کے لیے بھی مرد کی  تنہائی(privacy) حرام ہے اور گھر میں رہنے والے مرد وں کا ان ماسیوں کی موجودگی میں  بد نگاہی (یعنی بری نظر )وغیرہ  کے گناہ سے بچنا بہت مشکل  ہے،لہٰذا  ممکن ہو تو کام والی نہ ہی رکھی جائے۔ اگر کام والی رکھنا ضروری ہو تو اس کے اوقات(timing) ایسے رکھے جائیں کہ جس وقت میں مرد اپنے کام کاج (مثلاً کاروبار  وغیرہ) پر جا چکے ہوں  اور چھٹی والے دن ،کام والی  کی بھی چھٹی   رکھی جائے  تاکہ گناہوں

سے  بچنا آسان  ہو جائے۔

(۵)اگر گھر میں میِّت ہو جائے اور  لوگوں کا آنا جانا لگا ہو،  ایسی  صورت (condition)میں بھی پردے کا خیال

رکھنا ضَروری ہے، بلکہ اب  تو اپنی موت زِیادہ یاد آنی چاہیے کہ گھر میں میّت موجود ہے۔موت کو یاد کرنے سے

گناہوں اور بے پردگی  سے بچنے کا ذِہن بھی زیادہ بنے گا۔(پرے کے بارے میں سوال جواب ص۱۸۸،۱۸۹،مُلخصاً)

{45}(۱)عورت کا( نعتیں وغیرہ) خوش اِلحانی(مثلاً طرز، لحن، سُر۔accent or tune) سے بَآواز ایسا پڑھنا کہ نا مَحرموں کو اُس کے نغمے( یعنی راگ و ترنُّم۔raga and melody) کی آواز جائے حرام ہے ۔یادرہے! عورت تَلْبِیَہ ( یعنی حج یا عمرے  میں  پڑھے جانے والا: لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ) کو بھی اونچی  آواز سے نہیں پڑھے گی ، اس لئے کہ اس کی آواز  کو چُھپانے  کا حکم  ہے۔ لھذا عورَتوں کو اپنی آواز اونچی  کرنا،لہجے(یعنی بولنے کے انداز۔  way of speaking)میں نرمی  کرنا (یعنی اس انداز سے باتیں کرنا کہ جو  مرد کےدل کو اچھی لگے )، اور شعر و شاعری  کی طرح آواز یں نکالنا ،  اس طرح کے سب  کام عورَتوں کو منع ہیں   کیونکہ  یہ  سب باتیں  مردوں  کو عورتوں کی طرف مائل  (attract)کرنے اور اُن میں غلط خواہش (sexual desire)  پیدا کرنے والی ہیں۔

      ( رَدُّالْمُحتَار ج۲ ص۹۷ ،فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص ۲۴۲،مُلخصاً)

(۲) ٹیلی ویژن پرنعت پڑھنا عورت کے لیے مطلقاً (ہر صورت(case) میں)نا جائز ہے، چاہے مکمل  پردے ہی  میں کیوں نہ پڑھے، کیونکہ ٹیلی ویژن غیر محرم بھی دیکھتے اور سنتے  ہیں اور ان تک بھی عورت کی خوش آوازی (اچھی آواز) پہنچتی ہے، لھذا عورت کا ، ٹیلی ویژن پرنعت پڑھنا جائز نہیں۔( ربیع الاول، 1441،ماہنامہ فیضانِ مدینہ،مُلخصاً)

{46}:نعت شریف سننا سنانا واقِعی ثواب کا کام ہے ، لیکن  نامَحرَم  (کہ جس سے کبھی نکاح ہو سکتا ہو، ایسے)نعت خوان کی آواز ميں عورت نعت شریف نہ سُنے کہ اُس کی سُرِيْلی آواز(melodious voice) عورت کے لیے خطر ناک ہے۔  پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ایک حُدی خواں( یعنی اونٹوں کوتیز چلانے کے لیےشعر پڑھنے والے) صحابی ، حضرت  اَنْجَشَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ  بہت  اچھی آواز والے تھے،  یہ ایک سفر میں ساتھ تھے اور (پردے   کے ساتھ) عورَتیں بھی تھیں اور آپ  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  شعر  پڑھ  رہے تھے ( تاکہ اونٹ تیز تیز چلیں)، اس پر ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اُن سے فرمایا: اے اَنْجَشَہ !آہِستہ ، نازُک شیشیاں نہ توڑ دینا  (بُخاری ج۴ ،ص ،۱۵۸، حدیث۶۲۱۱ ،مُلخصاً) ۔عُلَمائے کِرام اس فرمان کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ :یعنی میرے ساتھ سفر میں عورتیں بھی ہیں جن کے دل کچّی شیشی(fragile vessels) کی طرح کمزور ہیں،  اچھی  آواز  سن کر ان  کے دل میں کوئی  غلط بات پیدا ہوسکتی ہےاور وہ  اچھی  آواز کی وجہ سے گناہ کی طرف  جاسکتی ہیں، اس لیے اپنا  شعر پڑھنا بند کردو (مراٰۃ ج۶ص۴۴۳، مُلخصاً) ۔ لھذا عورتوں کو چاہیے کہ  فوت شُدہ (یا بڑی عمر کے)نعت خوانوں کی کیسٹیں سنیں۔ ہاں! مرحوم یا بڑی عمر کے نعت خوان کی آواز سننے پر بھی اگر کسی اسلامی بہن کے دل میں شیطان گندے وَسوسے ڈالتا ہو تو وہ  یہ بھی نہ سنے۔(پردے کے بارے میں سوال جواب ص۲۶۴،۲۶۳، مُلخصاً)

{47} یہ مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ عورت کا غیر مرد   کے  سَتْر(یعنی جن حصّوں(parts) کو چھپانے کا حکم ہے) کے علاوہ(باقی۔remaning) جسم  کو دیکھنا جائز ہے  مگر  شرط (precondition)  یہ ہے کہ  عورت کو یقین  ہوکہ اس (غیر مرد)کی طرف نظر کرنے سے شہوت (sexual desire) نہیں  ہوگی اور اگر ایسی صورت (condition) بننے کا شک(doubt) بھی ہو تو(غیر مرد کو) ہر گز نہ دیکھے۔ (بہار شریعت ح ۱۶،ص ۴۴۳،مسئلہ ۶، مُلخصاً) خصوصاً نوجوانوں کے وڈیو کلپس (video clips)، پروگرامز(programs) اور ان کی نعتیں دیکھنے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے بلکہ اَمْرَد(مثلاً  دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکے کہ جن کی داڑھی نہ آئی ہو)  کی نعتیں دیکھنے سُننے میں ، مردوں کو بھی  اس بات کا خیال کرنا ضروری ہے کہ کسی قسم کی شہوت (sexual desire) نہ  ہو، شہوت ہوتی ہو تو اب ایسی وڈیو دیکھنا جائز نہیں۔

{48}گرمیوں کے موسِم میں بُرقع پہن کریا موٹی چادر میں بَدَن چُھپا کر باہَر نکلنے سے گرمی لگتی ہو تو شیطانی وَسوَسوں کی طرف توجُّہ(attention) نہ دیں اور اس وقت  موت ، قَبْر وحَشْر اور جہنَّم کی سخت گرمی کو یاد کیجئے اِنْ شَاءَ اللہ!(یعنی    اللہ کریم    نے چاہا تو) شَرعی پردے کی وجہ سے لگنے والی گرمی پُھول معلوم ہو گی۔ (پردے کے بارے میں سوال جواب ص۱۸۸،۱۸۹،مُلخصاً)

{49}(۱)  جس کی ایک نظر پڑی، نگاہ  ہٹا لی اور محبّت ہوگئی،  تو اب صَبْر کرے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جو کسی پر عاشِق ہوا اور اُس نے پاکدامَنی اختیار(یعنی کسی قسم کی بے پردگی والی یا غیر شرعی حرکت نہ) کی اور عشق کو چُھپایا پھر اسی حال میں مر گیا تو وہ شہادت کی موت مرا( تاریخ بغداد ج ۱۳ ص ۱۸۵ رقم ۷۱۶۰ ) ۔ کوئی شرعی رکاوٹ (Shar’i forbiddance) نہ ہو تو شرعی اور اخلاقی  حدود(boundaries) میں رہتے ہوئے عاشِق و معشوق (lovers) آپس میں شادی  کر سکتے ہیں۔یاد رکھئے! شادی سے پہلےملاقات کرنا، میسیجز (messages) کرنا ،فون  یا نیٹ پر گفتگو  کرنا، تحفوں  کا لین دین کرنا وغیرہ حرام اور جہَّنم میں لے جانے والے کام ہیں (لھذا کسی کے دل میں کوئی بات آگئ ہو تو اپنے خاندان سے بات کرے اور ان کو راضی کر کے والدہ وغیرہ کے ذریعے لڑکی کے گھر والوں سے رشتے کی بات کرے)۔

(۲) کچھ عاشق و معشوق(lovers) والدین سے چھپ کر''کورٹ میرج ''(court marriage)کرتے ہیں اس طرح کرنے میں لازمی طور پر والِدَین کی دل آزاری اورخاص طور پر(especially) لڑکی کے والدین کی ذلت و رسوائی (disgrace) ہوتی ہے اور لڑکا اگر لڑکی کا کفو (ہم پلہ، برابر۔equal status)نہ ہوتو لڑکی کا والد یا ولی (سرپرست۔guardian) کی اجازت کے بغیر کیا جانے والا نکاح  بلکل بھی نہیں ہوتا()۔(پردے کے بارے میں سوال جواب ص۲۸۷ تا۲۹۴،مُلخصاً)  یہ مت سمجھیں کہ ہم جس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، جس  سے  ناجائز محبّت کر رہے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں، وہ ہمارے لیے بہتر ہی ہو! اللہ  کریم   فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے حالانکہ(however)  وہ تمہارے حق میں بری ہواور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (پ ۲، سورۃ البقرۃ، آیت ۲۱۶) (ترجمہ کنز العرفان) ۔ غور کیجیئے  کہ کیا ''کورٹ میرج ''(court marriage) بغیر رابطوں کے ہو جاتی ہے؟ نکاح سے پہلے کی باتیں، ملاقاتیں، تحفوں کی سوغاتیں، نا جانے کتنے ناجائز کاموں کے بعد یہ نکاح ہوتے ہونگے پھر دنیا جانتی ہے کہ اس طرح ہونے والی شادیاں زیادہ وقت تک چل نہیں پاتیں

کیونکہ ایسی شادیوں کا مقصد صرف کسی کو ''پانا ''تھا، گھر کو چلانا نہ تھا۔یاد رہے کہ  نکاح صرف  لڑکے، لڑکی کے رشتے کا نام نہیں بلکہ یہ دو خاندانوں کے رشتے کا  نام ہے۔

{50}(۱)  اپنی گندی محبّت  کو پاک بتانے کے لئے مَعاذَ اللہ!حضرت  یوسُف عَلَیْہِ السَّلَام اور زُلیخا ( رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَاکہ جنہوں نے بعد میں توبہ کر لی تھی) کے واقعے کو دلیل (evidence)بنانا سخت  گناہ ا ورحرام ہے ۔یہ محبّت صرف زُلیخا ہی کی طرف سے تھی ، اللہ   کریم کے پیارے نبی، حضرت یوسُف عَلَیْہِ السَّلَام  اس سے بالکل  پاک تھے۔ یاد رہے!ہر نبی معصوم  ہوتا ہے (یعنی اُن سے گناہ ہو ہی نہیں سکتا) ۔(پردے کے بارے میں سوال جواب ص۳۲۰ ،۳۲۱،مُلخصاً)

(۲)وہ  لوگ بہت بڑی غلطی پر ہیں (اور انہیں توبہ کرنا ضروری ہے ) کہ جو اپنے ناپاک گناہ  پر پردہ ڈالنے کے لیے

بے سوچے سمجھے کسی بھی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں زبان کھولتے ہیں کہ یہ ایمان کیلئے  بہت زیادہ  خطرناک  ہے۔   یاد رکھئے !  کسی نبی  عَلَیْہِ السَّلَام کی  تھوڑی سی  گستاخی(blasphemy) کرنا  بھی کُفر اور اپنا ایمان تباہ و برباد کرنے والا کام ہے۔ (پردے کے بارے میں سوال جواب ص۳۳۱،مُلخصاً)

مزید (more)پردے کے بارے میں :

{51}عورَتوں کے لیے لازِم ہے کہ کنگھا کرنے یا سر دھونے میں جو بال نکلیں انہیں کہیں چھپادیں کہ غیر مَرد کی ان پر نظر نہ پڑے (بہارِ شریعت ج۳  ص۴۴۹)      ۔      ناف(یعنی پیٹ کے سوارخ)  سے نیچے اور بغل (armpit)وغیرہ کے بالوں کا  بھی یہی حکم ہے۔ کچھ لوگ غسل خانے (wash room) وغیرہ میں یہ بال چھوڑ دیتے ہیں ایسا کرنا درست نہیں بلکہ ان کو ایسی جگہ ڈال دیں کہ کسی کی نظر نہ پڑے یا زمین میں دفن کردیں۔

(بہار شریعت ح۱۶،ص۴۴۹،مُلخصاً)

{52}عورت حیض کا  لتّا(menstrual cloth) بھی ایسی جگہ ہر گز نہ پھینکے کہ  جہاں دوسروں کی نظر پڑے۔

{53}عورت پردے سے ہاتھ بڑھا کر غیر مرد کو اس طرح کوئی چیز نہ دے کہ اس کی کلائی (wrist ) نظرآ رہی ہو   اگر مرد نے جان بوجھ  (deliberately) کر اس کی طرف نظر کی تو وہ بھی گنہگار ہے اسلامی بہنیں پوری آستین کا کرتا پہنیں نیزدستانے(gloves) اورجرابیں بھی استعمال فرمائیں ۔

{54}غیر مرد اورغَیر عورت کا ایک مکان(مثلاً کمرے) میں تنہا(alone) ہونا حرام ہے(چاہے عورت مکمل پردے میں ہو) ہاں! ایسی بدصورت بڑھیا کہ جسے دیکھ کر شَہْوَت(مثلاً بُرے خیالات)  نہ آتے ہوں تو اسے دیکھنا اور اس کے ساتھ کسی مکان میں  اکیلے (alone)ہونا جائز ہے ۔

  (پردے کے بارے میں سوال ص۲۹۶،۳۰۱، مُلخصاً) (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶،ص ۴۴۲،مسئلہ۱،۲،۳،۴،۸،۲۵،۲۶،۳۱  )

{55}    مرد  کا ’’اَمْرَد (مثلاً  دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکے کہ جن کی داڑھی نہ آئ ہو) ‘‘کو شَہْوَت(یعنی جنسی خواہش۔sexual desire) کی نظر سے دیکھنا حرام ہے ۔شَہْوَت آتی ہو تو اس کے ساتھ ا یک مکان میں تنہائی(alone  ہونا بھی ) ناجائز ہے ۔ بوسہ لینے یا چپٹا لینے(جسم سے جسم ملانے یا گلے لگانے) کی خواہش (desire)پیدا ہونا بھی  شَہْوَت کی نشانی(sign) میں سے ہے۔ (زخمی سانپ   ص۹ تا۱۹، مُلخصاً)

{56}عورت کا جھوٹا غیر مرد کو یا مرد کا جھوٹا غیر عورت کو  پینا مکروہ ہے،  شوہر و بیوی  کا یا اپنے محرم ، محرمہ(مثلاً والد، بھائی، بہن، والدہ)کا جھوٹا پینے میں کوئی  حرج(یا  گناہ) نہیں اور   غیر محرم کا  جھوٹا  پینا اس صورت (case) میں مکروہ  ہے جب کہ  لذّت(مزے۔ sexual desire) کے لیے پیا ہو۔  اگر لذّت  کے لیے نہ ہو بلکہ برکت  (blessing) حاصل  کرنےکے لیے ہو جیسا کہ کسی باعمل عالم صاحب  یا استاد صاحب  یا صحیح  پیر صاحب  کا جھوٹا  پینا، اس میں  کوئی حرج (یا گناہ)نہیں۔ (بہار شریعت ح۱۶،ص۶۵۵،مسئلہ۱۹مُلخصاً)

{57}  بی بی نماز نہ پڑھے تو شوہر اس کو مار سکتا ہے   اسی طرح  شوہر کے لیے تیار نہیں ہوتی تب بھی  مار سکتا ہے اور   گھر سے باہر نکل جانے پر بھی مارسکتا ہے۔   (بہار شریعت ح۱۶،ص۶۵۵،مسئلہ۲۰،مُلخصاً)مارنے میں نیّت اصلاح (reformation)کی ہو، صرف غصّہ اتارنے کے لیے نہ مارا جائے۔

{58}یاد رہے! رَدُّالمحتار میں  ہے:بِلاوجہ جانور کوبھی نہیں مار سکتےاور سر یا چہرہ پر کسی حالت میں ہرگز نہ مارے کہ یہ بِالاجماع  (یعنی  عُلَمائے کِرام کے اتفاق سے۔with the consensus of  scholars) ناجائز ہے (رد المحتار، کتاب الحظر والاباحۃ ،ج۹،ص۶۶۲،   دارالمعرفہ بیروت) ۔ انسان کے چہرے پر مارنے کا ناجائز ہونا  تو جانوروں کو مارنے سے بہت سخت ہے ( فیض القدیرج ۲،ص ۲۰۷،تحت الحدیث:۱۵۹۰، مُلخصاً) ۔ انسان یا جانور کے چہرے پر مارنا سخت منع ہے۔ منہ پر نہ طمانچہ (تھپڑ۔slap) مارے نہ کوڑا (whip)وغیرہ کیونکہ چہرے میں نازک حصّے (sensitive parts) بھی ہوتے ہیں جیسے آنکھ،ناک،کان جن پر چوٹ لگنے سے موت یا اندھے ہوجانے یا چہرہ بگڑ جانے کا ڈر ہے اور چہرے میں داغ (scar)لگانا تو بہت ہی برا ہے کہ اس میں تکلیف بھی بہت ہے اوریہ منہ کو بگاڑنا بھی ہے (مراۃ ج۵، ص ۹۷۲،سوفٹ ائیر،مُلخصاً) ۔ (اور جن لوگوں کو شریعت کی اجازت اور اصلاح(reformation) کی نیّت سے ، جس انداز سے جہاں مارنے کی اجازت ہے، وہاں بھی )تین(3) مرتبہ سے زیادہ نہ مارا جائے(نور الایضاح  مع مراقی الفلاح ، کتاب الصلوة ، ص ۱۰۸ ، مُلخصاً) اور جسم کے دیگر نازک حصّوں (sensitive parts) پر بھی نہ مارا جائے۔(فیضان ریاض الصالحین ج۳،ص ۴۷۶، مُلخصاً)

{59} فرمانِ  مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  جس کے گھر لڑکا پیدا ہو وہ اُس کااچّھا نام رکھے، نیک ادب  سکھائے اور جب بالِغ (wise, grownup)ہو پھر اس کا نکاح کر دے۔ اگر اس کا نکاح بُلُوغَت کے وَقت ( یعنی بالِغ ہو جانے کے بعد بھی)نہ کیا اور وہ کسی گناہ  میں پڑ گیا تو اس کا گناہ باپ پر (بھی)ہو گا۔(شُعَبُ الْاِیْمان لِلْبَیْہَقِیّ ج۶ص۴۰۱حدیث ۸۶۶۶) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں :یہ اس صورت میں ہے کہ بچّہ غریب ہو کہ خود نکاح کرنے  کی طاقت  نہ رکھتا ہو اور  باپ امیر ہو کہ   اولاد کا نکاح کر سکتا ہو مگر پھر بھی  لاپرواہی(سُستی،غفلت۔ignore, neglect) یا امیر (گھر کی لڑکی ) کی تلاش کرنے کی وجہ سے نکاح نہ کرے ،تب بچّے کے گناہ کا وبال اُس لاپرواہ باپ( careless father)پر(بھی) ہوگا (مراٰۃ ج۵،ص۳۰، مُلخصاً) ۔

{60} یاد رہے کہ  اگر والد صاحب لاپرواہی کر رہے ہوں تو  اس سے بَچّوں کو گناہ کرنے کی اجازت نہیں بلکہ حکم ہے کہ وہ روزے رکھا کریں۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جو قدرت (یعنی طاقت)رکھتا ہووہ نکاح کرے اور جو قدرت نہ پائے تو روزے رکھا کرے کیونکہ روزہ شہوت(خواہش) کو توڑتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح، باب ماجاء فی فضل النکاح،رقم۱۸۴۶،ج۲،ص۴۰۶)

بے پردگی     کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏

(1)  غیر شرعی طریقے پر   شادیوں کا ہونا  (2)فیشن ایبل(fashionable) اور دین سے دور  لوگوں  کے ساتھ میل جول(3)خاندان، برادری اور قومی رسم و رواج (custom)(4) نوجوانوں کی کم عمر لڑکوں سے دوستی (5) کاروبار ، دوستی ،شاگردی یا منہ بولے رشتے کے نام پر غیر محرموں سے ملاقاتیں۔

بے پردگی سے بچنے کے کچھ طریقے:‏

{1}بےپردگی سے  معاشرے (society) میں ہونے والے نقصانات کی معلومات حاصل کریں۔

{2} بے پَرْدَگی  کی وجہ سے قَبْر و آخرت میں ہونے والے عَذابات (punishments)جانیں۔

{3}ایسے بیانات سننا جن میں بے پَرْدَگی کے دینی و دنیاوی  نقصانات بیان کیے جائیں۔

نوٹ: بے پردگی کے تفصیلی مسائل جاننے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب  ”پردے کے بارے میں سوال جواب“ کو پڑھ لیجئے۔

تیسری قسم کے لوگوں کے بارے میں: 

{1} مُخَنَّث، ہجڑا،کُھسرا(shemale) وہ مرد ہے کہ جس کے انداز (style)میں عورتوں جیسی نرمی  ہو(مستفاد

 ازاَلْبَحْرُ الرَّائِق ج ۹ص۳۳۴) ۔عُلَمائے کِرام یہ بھی فرماتے ہیں: مُخَنَّث  کا عورتوں جیسا اندازکبھی تو  پیدائشی(یعنی فطری، قدرتی ) طور پر ہوتا ہے اور کچھ لوگ  خود اپنی طرف سے یہ انداز بنا لیتے ہیں      (شرح مسلم للنّووی ج ۲ص۲۱۸) ۔ جو لوگ خود عورتوں والا انداز (style) بناتے یا  لباس پہنتے  ہیں وہ سخت گنہگار ہیں کہ ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے  عورتوں  کی نقل(copy) کرنے والے مردوں پر لعنت(یعنی اللہ کریم کی رحمت سے دور ہونے کی دعا)  فرمائی ۔( صحیح البخاری ،کتاب اللباس ، الحدیث: ۵۸۸۶، ص ۵۰۱)

{2} ہِجڑا مَرد ہے جماعَت ميں يہ مَردوں ہی کی صَفْ ميں کھڑا ہو گا    ( فتاوٰی امجدِيہ ج۱ ص۱۷۰ مُلَخَّصاً) ۔  لھذا عورتیں  اُس   سے اسی طرح پردہ کریں گی کہ جس طرح مردوں سے پردہ  ہے۔یاد رہے! جماعت ہو یا ملاقات، اگر کسی مرد  کو ہجڑے کے ساتھ نماز پڑھنے یا اُس سے بات کرنے میں غلط خیالات آتے ہیں تو اُس مرد پر لازم ہے کہ وہ ہجڑے  سے دور ہو، شہوت (sexual desire) کے ساتھ ہجڑے   سے ملاقاتیں ناجائز و گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔

{3}  اگر  کسی کی فطری ( قدرتی یا پیدائشی )طور پر  آواز وغیرہ عورتوں جیسی ہوتو اس کو چاہئے کہ وہ مردانہ انداز بنانے  کی مشق (practice)کرے۔ یاد رہے! جس کی آواز قدرتی طور پر عورتوں جیسی ہو اُس کا اپنا کوئی قصور( fault) نہیں اور بدلنے کی کوشش کے بعد بھی نہ بدلے تو شرعاً اس  پر گناہ  نہیں۔          ( فیض القدیر ج ۵ص۳۴۶ ،نزھۃ القاری ،ج۵ص۵۳۷،مُلخصاً)

{4} جو مرد جان بوجھ کر(deliberately) ہجڑا بنے یعنی عورتوں جیسا انداز(style)بنائے تو  گناہ  گارہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضِیَ اللہُ عَنْہُمَا  کہتے ہیں  کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے لعنت فرمائی مردوں میں سےمُخَنَّثوں(یعنی عورَتوں کی  نقل (copy) کرنے والوں) پر اور اُن عورتوں پر جو مردوں کی نقل  کر تی ہیں   اور آپصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے یہ بھی فرمایا کہ ان(مُخَنَّثوں) کو اپنے گھروں سے نکال دو ۔(بخاری ،ج۴، ص۳۴۷ ، حدیث ۶۸۳۴،مُلخصاً)

{5} مرد و عورت کے ساتھ ساتھ ایک تیسری جنس(sex)  بھی ہے،  یعنی وہ انسان کہ جس میں مرد و عورت

(دونوں)  کی شرمگاہیں (private parts) ہوں ،وہ  ”   خُنثیٰ   “  کہلاتا ہے (محیط برھانی ج ۲۳ص۴۵۴ ) ۔ ”   خُنثیٰ    “اُسے بھی   کہتے ہیں کہ جس کے پاس دونوں شرمگاہوں میں سے کوئی سی بھی علامت (sign) نہ  ہو بلکہ صرف آگے کی  طرف  ایک سوراخ ہو جس سے قَضائے حاجت (استنجاء۔relief)کرتا ہو۔  (تَبْیِینُ الْحَقائِق ،ج۷،ص ۴۴۰،اَلْبَحْرُ الرَّائِق ، ج۹، ص۳۳۴، مُلخصاً)

{6} اگر بچّے میں مرد و عورت دونوں کی شرمگاہیں (private parts) ہوں تو اب اگر وہ مرد والی شرمگاہ سے پیشاب کرتا ہو تو مَرد ہے (یعنی  جو مردوں کے مسائل( جیسے مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنا، اُن )پر عمل کرے )اور اگر عورت والی شرمگاہ سے پیشاب کرے تو عورت ہے (یعنی  جو  عورتوں  کے مسائل( جیسے غیر مرد سے پردہ کرنا، اُن )پر عمل کرے ) اگر دونوں جگہوں سے پیشاب آتا ہو تو جس سے پہلے پیشاب کرے وُہی مانا جائے گا مَثَلاً پہلے عورت والی جگہ  سے پیشاب کرے تو عورت ہے اور مرد والی جگہ سے کرے تو مرد ہے اگر دونوں جگہوں سے ایک  ساتھ کرے  تو یہ انسان”   خُنثیٰ  مشکل  “ہے۔

 {7} ”   خُنثیٰ  مشکل  “ کےبالِغ (wise, grownup)ہونے کے بعد اگر  مرد کی کوئی علامت (sighn) پائی جائے تو  وہ مرد ہے ، جیسے  اُس کی  داڑھی نکل آئے تو  اب مردوں کے مسائل پر عمل کرے  اوراگر  عورت کی کوئی علامت (sign) پائی جائے تو  وہ  عورت ہے ، جیسے  اُس کے پستان(چھاتیاں۔breast)نکل آئیں  تو  اب عورتوں  کے مسائل پر عمل کرے ۔  (بَدائعُ الصَّنائِع ج ۶،ص۴۱۸ ، مُلَخَّصاً)

{8} ”   خُنثیٰ  مشکل  “ کےبالِغ ہونے کے بعد صرف مرد وں اور عورتوں (یعنی دونوں)  کی  علامات (نشانیاں ۔ signs) ظاہِرہوں گئیں مَثَلًا داڑھی بھی نکل آئے اورپِستان (breast) بھی تو اب بھی ”   خُنثیٰ  مشکل  “  ہی ہے ۔

(فتاوی شامی ج۱۰ص۴۷۸)

{9}  ”   خُنثیٰ  مشکل  “ سے نہ مرد کا نکاح ہوسکتا ہے نہ عورت کا ۔ اگر کسی نے نکاح کیا  تو یہ نکاح  باطل ہے (یعنی ہوا ہی نہیں)۔ اسی طرح ”   خُنثیٰ  مشکل  “ کا نکاح  ”   خُنثیٰ  مشکل  “  سے بھی نہیں ہوسکتا۔(بہار شریعت ح۷،ص۴، مسئلہ ۱)

{10}  (۱)  ”   خُنثیٰ  مشکل  “  کا انتقال ہوا تو اسے نہ مرد نہلا سکتا ہے نہ عورت بلکہ تَیَمُّمْ کرایا جائے اور تَیَمُّمْ کرانے

والا  غیر مرد ہو تو ہاتھ پر کپڑا لپیٹ لے اور کلائیوں(wrists)  کو نہ  دیکھے(۲) اسی طرح  خنثیٰ مشکل کسی مرد یا عورت کو غسل نہیں دے سکتا(۳)   ”   خُنثیٰ  مشکل  “ چھوٹا بچّہ ہو تو اُسے مرد بھی نہلا سکتے ہيں اور عورت بھی نہلا سکتی ہے ۔ (بہار شریعت ح۴،ص۸۱۴، مسئلہ۲۰،مُلخصاً)

{11}   ”   خُنثیٰ  مشکل  “  کو عورت کی طرح پانچ(۵) کپڑے ديے جائیں مگر کسم(یعنی ایک خاص(specific) پھول کا رنگا ہوا (coloured)لال کپڑا)، یا زعفران( پیلے رنگ کے پھول ) کا رنگا ہوا (پیلا کپڑا)اور ریشمی کفن اسے ناجائز ہے۔  (بہار شریعت ح۴،ص۸۱۹، مسئلہ۲۰،مُلخصاً)

{12}  ”   خُنثیٰ  مشکل  “ کو مرد و عورت دونوں کے مسائل پر عمل کرنا ہوتا ہے یعنی مسجد جا کر جماعت سے نماز پڑھے گا مگر مردوں کی صف میں کھڑا نہیں ہوگا۔ غیر مردوں سے جسم چھپائے گا اور غیر عورتوں کو نہیں دیکھے گا۔ یہ اس کے لیے دنیا میں آزمائش ہے، مگر جو دین و شریعت پر عمل کرے گا، اِنْ شَاءَ اللہ!(یعنی    اللہ کریم    نے چاہا تو)آخرت میں کامیاب ہوگا۔   ”   خُنثیٰ  مشکل  “  اپنے دینی مسائل (پردے کے ساتھ یا فون پر) کسی سُنی مُفتی  صاحب سے معلوم کرتا رہے۔

گفتگو کے بارے میں: 

{1}مَرد کا مُخاطَب(یعنی جس سے بات کر رہے ہیں وہ) اَمْرَد (مثلاً  دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکے کہ جن کی داڑھی نہ آئ )ہو اور اُس کو دیکھنے سے شَہوت(یعنی بُری خواہش) آتی ہو(یا  شَرعی اجازت سے مردکسی  غیر عورت سے یا عورت کسی غیر مَرد سے بات کر رہی ہو )تو نظراِس طرح نیچی رکھ کر گفتگو کر ے کہ اُس کے چِہرے(face) بلکہ بدن کے کسی بھی حصّے یہاں تک  کہ لباس پر بھی نظر نہ پڑے اگر کسی اور طرح وہ کام ہو سکے (مثلاً اَمْرد کے والد صاحب سے ) تو اس کی ترکیب کر لی جائے یا اَمرد سے مختصر(short) بات کر  کےوہاں سے چلا جائے ۔  یاد رہے ! مسئلہ یہی ہے کہ اگر کوئی  شَرعی رُکاوٹ نہ ہو تو مُخاطَب(یعنی جس سے بات کررہے ہیں اُس)کے چِہرے کی طرف دیکھ کر گفتگو کرنے میں کوئی حَرَج(یا گناہ) نہیں۔

{2}اگر نگاہوں کی حفاظت کی عادت بنانے کی نیّت سے ہر ایک سے نیچی نظر کئے بات کرنے کا  انداز (style)

رکھا جائے تو بَہُت ہی اچّھی بات ہے کیوں کہ تجربہ(experience)  یِہی ہے کہ  آج کل  جسے نظر نیچی  رکھ کر باتیں  کرنے کی عادت نہیں ہوتی اُسے جب اَمرد (مثلاً  دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکے کہ جن کی داڑھی نہ آئ ہو)یا  عورت سے بات کرنی پڑتی  ہے تو اُس وَقت نظر  نیچی رکھ کے بات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ (نیکی کی دعوت۳۱۶ تا۳۱۷، مُلخصاً)

نگاہِ مصطَفٰی:

     سرکارِمدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (۱)کسی کے چِہرے(face) پر نظریں نہ گاڑتے تھے(۲)جب کسی چیز کونہ دیکھ رہے ہوتے تو نظریں نیچی رکھتے (۳)آپ کی نظریں آسمان کی طرف کم اور زمین کی طرف اکثر رہتی تھی یعنی  اکثر خاموشی کے وقت مبارَک نگاہیں  نیچے کی طرف ہوتیں(۴)اکثر  آنکھوں کے  کناروں (sides) کی طرف سے دیکھتے تھے یعنی  شَرم وحیا (modesty)کی وجہ سے پوری آنکھ بھر کر(stair) نہ دیکھتے تھے (۵)جب کسی طرف توجُّہ(attention) فرماتے تو مکمل تَوَجّہ فرماتےیعنی آدھی نظر سے نہ دیکھتے تھے اور بعض نے یہ فرمایاکہ صرف گردن پھیرکر کسی کی طرف  نہ دیکھتے بلکہ پورا بدن مبارَک اُس شخص کی طرف فرما لیتے۔   

(جمع الوسائل فی شرح الشمائل للقاری ص۵۲،۵۳، مُلَخَّصاً ،احیاء العلوم ج۲ص۴۴۲)

 احتیاط کے مدنی پھول(be very careful) :

(۱)  جس کی داڑھی  نکل آئی ہو یا بے رِیش (یعنی جس لڑکے کی داڑھی نہ آئی )ہو(اسے دیکھ کر)بلکہ جانور کو دیکھ کر بھی شَہوَت  (یعنی جنسی خواہش۔sexual desire) آتی ہو تو اُس کی طرف دیکھنا حرام ہے (۲) مَویشیوں(cattle) ، جانوروں   اور پَرِندوں   کی شَرم کی جگہوں اور ان کے ایک دوسرے کے قریب جانے بلکہ مکّھیوں   اور کیڑے مکوڑوں   کے ایک دوسرے کے پاس جانےکے مناظِر(scenes) بھی شَہوَت کے ساتھ دیکھنا ناجائز و گناہ ہے ، اگر ایسا کچھ نظر آئے تو فوراً نظر ہٹا لیں بلکہ وہاں  سے بھی  ہٹ جائیں(۳) اجتِماع یا نَماز کی صَف میں   اَ مرَد قریب آجائے اور ابھی آپ نے نَماز نہ شروع کی ہو اور  شَہوَت کا ڈر ہو تو اُس کو نہ ہٹایئے  بلکہ  آپ خود وہاں   سے ہٹ جائیں(۴) اَ مرَدکو دیکھنے سے جسے شَہوَت آتی ہو اُسے  اَ مرَدسے نظر کی حفاظت کرنا(یعنی اُسے نہ دیکھنا) واجِب ہے اور ایسی جگہ سے بھی بچنا چاہئے جہاں   اَ مرَدہوتے ہوں(۵) سائیکل پر آگے یا پیچھے کسی غیر اَمرَد کو بھی اس طرح بٹھانا کہ اس کی ران وغیرہ سے گُھٹنا (knees)ٹکرائے مناسِب نہیں(۶) کسی  مرد یا  نوجوان  یا  امرد  (مثلاً  دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکے کہ جن کی داڑھی نہ آئ ہو)کے قریب ہونے سےشَہوَت  ہوتی ہو تو ایسےکو آگے یا پیچھے اسکوٹر یا سائیکل پر بٹھانا حرام ہے(۷) احتیاط (caution) اِسی میں   ہے کہ ڈَبل سُواری کے دوران موٹی چادروغیرہ اِس طرح بیچ میں رکھی  جائے کہ دونوں   کے جسم  مکمل طور پر ایک دوسرے سے  الگ  رہیں ، اس  احتیاط کے بعد بھی  اگر کسی کوشَہوَت آئے تو فوراً اسکوٹر روک کر  الگ  ہو جائے ورنہ گنہگار ہوگا(۸) اسکوٹر پر تین سُواریوں   کا چپک کر بیٹھنا بہت بُرا طریقہ  ہونے کے ساتھ  ساتھ قانوناً بھی جُرم ہے کہ  اس میں حادِثے (accident)کا بھی  ڈر ہے(۹) ایسے رش یا قِطار(lines) میں   جان بوجھ   کر (deliberately) جانے سے بچیں  کہ  جس میں   آدَمی ایک دوسرے سے چپکے ہوئے (touched) ہوں  اور اگرشَہوَت آتی ہو تو اب اس طرح لوگوں کے قریب  رہنا حرام ہے ۔  (قومِ لوط کی تباہ کاریاں  ص۲۳، مُلخصاً)

لڑکوں کے لیے احتیاط کے مدنی پھول(Be very careful) :

 (۱)  لڑکے کے لئے بہتر یہی ہے کہ  وہ اپنے سے بڑی عمر والے سے دُور رہے (۲) یقینا ہر بڑا ، چھوٹے کے لیے  ’’ بُرا‘‘  نہیں   ہوتا، لیکن کسی  ’’بڑے ‘‘ سے گہری  دوستی کر کےاُسے اور اپنے آپ کو  خطرے (danger) میں مت ڈالیں (۳)بالِغ (wise, grownup)  اَمرَ دبھی  ایک دوسرے کو چپکنے ، گلے میں   ہاتھ ڈال کر چپٹانے(یعنی دوسرے کو اپنے سے قریب کرنے) وغیرہ (کی)حرکتیں    نہ کریں   ۔ شَہوَت کے ساتھ اَ مرَدوں  کا بھی اِس طرح کی حَرَکتیں   کرنا حرام ہی ہے (۴) اگر کسی ’’بڑے ‘‘ (چاہے وہ استاد صاحب  ہی کیوں   نہ ہوں) کی طرف سے زیادہ ہی محبّت کا انداز دیکھیں  یا  بار بار تحفے دیں یا زیادہ ہی  تعریفیں   کریں تو  ان سے دور رہیں(یعنی سلام،دعا، پڑھنا پڑھانا وغیرہ کے علاوہ(other) ان کے ساتھ وقت نہ گزاریں بلکہ مردوں سے الگ رہنے ہی کی عادت بنائیں) (۵) بڑے اسلامی بھائیوں   سے بے شک الگ  رہیں  ، مگر بلا وجہ  کسی پر بد گُمانی (مثلاً کسی کی کوئی غلط بات سامنے نہیں آئی تو اس کے بارے میں یہ ذہن بنا لینا کہ یہ گندی سوچ کا آدمی ہے، ایسا خیال  )کرکے گناہ گار نہ ہوں (ہاں!( مَعَاذَاللہ! یعنی   اللہ کریم   ہمیں اس سے بچائے) اگر  کسی کی کوئی غلط بات سامنے آئے تو فوراً اپنے والد صاحب سے  اکیلے میں (alone)بات کریں)(۶)عید کے دن بھی لوگوں   سے گلے ملنے سے بچیں ،اَمرَد (مثلاً  دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکے کہ جن کی داڑھی نہ آئ ہو)بھی ایک دوسرے سے گلے نہ ملیں (۷)کوئی  نیک وپرہیزگار،  چاہے رشتے دار بلکہ اُستاذہی کیوں   نہ ہو احتیاط (caution)اِسی میں   ہے کہ ہر بڑے کے ساتھ بلکہ اَمرَدبھی  اَمرَدکے ساتھ اکیلے (alone)رہنے یا اکیلے میں ملاقاتوں  سے بچے ۔  ہاں!   والِد صاحب، سگے بھائی وغیرہ کے ساتھ اکیلے ہو سکتے ہیں    (۸)والِدَین ، نانا،داداوغیرہ خاندان کے بُزُرگوں   کے علاوہ (other)کسی کے سَر یا پاؤں   وغیرہ مت دَبائیں  نیز کسی اسلامی بھائی کو اپنا سر یا پاؤں   دبانے نہ دیں   نہ ہاتھ چُومنے دیں (۹)کسی کو اپنی ران(thigh) پر سر نہ رکھنے دیں اور کسی کی ران پر اپنا سر ہرگز نہ رکھیں(۱۰)مدرسے وغیرہ میں کسی  کے ساتھ  یا گھر میں کزنز (cousins) وغیرہ کے ساتھ سونا پڑ جائے تو ہرگز ایک تکیے  یا ایک بسترپر دو(2) نہ سوئیں بلکہ  سب  کو چاہئے کہ پاجامے کے اوپر تہبندباندھ لیں یا کوئی چادر لپیٹ کر پردے میں   پردہ کرکے  سوئیں۔ ایک کمرے میں صرف دو(2)  نہ سوئیں اور جہاں زیادہ سوئیں وہاں  ہر دو کے درمِیان مُناسِب(مثلاً ایک ہاتھ کا) فاصِلہ رکھیں اورممکن ہو توبیچ میں   کوئی تکیہ یابیگ وغیرہ بڑی چیز آڑ بنا لیں (یعنی رکھ دیں)   بلکہ (۱۱)گھر میں یہاں تک کہ اکیلے میں(alone) بھی پردے میں   پردہ(یعنی پاجامے کے اوپر چادر لے) کرکے سونے کی عادت بنائیں اورجب بھی بیٹھیں   پردے میں   پردہ لازِمی کیجئے (۱۲)بنے سنورے رہنے (مثلاً  ہر وقت خوبصورت کپڑے، مختلف انداز(different style) سے  بال بناتے رہنا یا رنگ برنگے عمامے بدل بدل کر باندھتے رہنے)سے بچیں (۱۳)اگر سنّت کی نیّت سے زلفیں   رکھنی ہوں   تو آدھے کان سے زیادہ  نہ رکھے (۱۴)  بہت خوبصورت عمامے  یا  مہنگےکپڑے پہننےکے بجائے ،ثواب کی نیّت  سےسستے کپڑے کا سادہ سا چھوٹا عمامہ شریف  پہنیں اور ایسا عمامہ  بھی خوبصورت انداز میں   باندھنے کے بجائے  سادہ  طریقے سے باندھیں، اسی طرح کپڑے بھی سادے رکھیں  (۱۵) عمامہ شریف پر نقشِ نعلِ پاک وغیرہ نہ لگایئے کہ اِس طرح لوگوں   کی نگاہیں   اٹھتیں  اور بعضوں   کے لئے ’’ بدنِگاہی ‘‘ کا سامان ہوتا ہے (۱۶) چہرے پر Cream یا پاؤڈرہرگز ہرگز مت لگایئے (۱۷) ضَرورت ہو تو سادہ ساعینک(glasses) استعمال کیجئے ،  خوبصورت فریم لگا کر دوسروں   کیلئے ’’بدنِگاہی‘‘ کے گناہ کا سبب مت بنئے (۱۸) بدبو سے بچنا ہی چاہئے ، لہٰذاعِطربے شک لگایئے مگر وہ کہ جس کی خوشبونہ پھیلے (۱۹) اپنے لباس اور انداز (style)میں   ہر اُس مُباح چیز (یعنی ایسے کام کہ  جن  کا کرنا نہ  ثواب ہو نہ گناہ مَثَلاً اِستری کئے ہوئے کپڑے وغیرہ) سے بھی بچنے کی کوشش فرمایئے کہ جو دوسروں کی نظریں ، آپ کی طرف کر دے   ۔

گزارش: والِدَین کو بھی چاہئے کہ ان باتوں کے مطابق(according)   اَمرَدوں(مثلاً  دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکوں کو کہ جن کی داڑھی نہ آئ ہو)   کوہر طرح کی ’’ ٹِپ ٹاپ ‘‘ سے بچنے کا ذِہن دیں۔(قومِ لوط کی تباہ کاریاں  ص۲۸ تا ۳۱، بالتغیر)

()

    142’’ دعوت، برتن اور عقیقےکے مسائل ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

    قیامت کے دن ، اللہ   کریم کے عرش() کے علاوہ (other)کوئی سایہ نہ ہوگا، تین(3) طرح کے لوگ اللہ    کریم کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔ عرض کیا گیا: یَارَسُوْلَ اللہ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: (۱) وہ شخص جو میرے کسی اُ مَّتِی کی پریشانی دُور کردے(۲)میری سُنَّت کو زِندہ کرنے والا(۳) اور مجھ پر کثرت سے دُرُود شریف پڑھنے والا (تسدید القوس اختصار مسندالفردوس، ص ۱۶۳مخطوط مصور، البدور السافرۃ فی امور الاخرۃ ، ص۱۳۱، حدیث:۳۶۶) ۔ عُلَمائے کِرام  فرماتے ہیں:یعنی جس سنّت کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہو، اس پر خود بھی عمل کرے اور دوسرے کو بھی عمل کرنے کا کہے،جیسے آج کے دور  میں داڑھی رکھنا۔(مراٰۃ المناجیح،ج۱،ص۱۶۸،مُلخصاً)

واقعہ(incident):          حدیث پر عمل کی برکت(blessing)

    بہت بڑے عالم حضرت  ہُدبہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو خلیفہِ بغداد(caliph of Baghdad) مامون رشید نے اپنے ہاں بلایا،  کھانے کے آخِر میں  جو دانے وغیرہ گر گئے تھے، حضرت وہ اُٹھا کر کھانے لگے ۔ مامون نے حیران ہو کر کہا، اے شیخ! کیا آپ کا ابھی تک پیٹ نہیں بھرا؟ فرمایا: پیٹ تو بھر گیا لیکن بات یہ ہے کہ مجھے حضرتِ حَمّاد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ایک حدیث  بتائی تھی کہ: جو شخص دسترخوان(dining mat) کے نیچے گِرے ہوئے ٹکڑوں کو چُن چُن (pick) کر کھائے گاوہ تنگدستی (مثلاً مال کی کمی)سے بے خوف ہو جائے گا(یعنی اس کے پاس مال کی کمی نہیں ہوگی)۔ تومیں اِسی حدیثِ مبارَک پر عمل کر رہا ہوں، یہ سُن کر مامون نے اپنے ایک خادِم کی طرف اِشارہ کیا تو وہ ایک ہزار دینار(یعنی سونے کے سکّے۔gold coin) رومال میں باندھ کر لایا۔ مامون نے وہ سب حضرت کو تحفے(gift) میں دے دیے۔ حضرتِ  ہُدبہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ! حدیث شریف  پر عمل کی ہاتھوں ہاتھ (سامنے سامنے)بَرَکت  (blessing) نظر آ گئی۔ (ثمرات الاوراق، ۱/۸، مُلخصاً)

دعوت میں جانے کی کچھ دینی مسائل:

{1}ولیمے  کے علاوہ  (other)عام دعوتوں  کاقبول (accept)کرنا افضل(بہتر اور اچھا) ہے جبکہ نہ  تو  شریعت کی طرف سے  منع ہو نہ کوئی اُس سے زیادہ اَہم(important) کام ہو، اور  خاص(especially)کسی  شخص کی کوئی دعوت کرے(کہ آپ آئینگے تو دعوت ہے) تو (اس صورت(case) میں)قبول کرنے یا نہ کرنے کا مکمل  اختیار (option)ہے(یعنی چاہے تو  جائیں  اور چاہیں تو منع کر دیں ) ()۔

 {2} اللہ   کریم کے رسول صَلَّی  اللہُ  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: جب دو(2) شخص دعوت دینے ایک ہی وقت آئیں   تو جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے قریب ہو اس کی دعوت قبول(accept) کرو اور اگر ایک پہلے آیا تو جو پہلے آیا اس کی(دعوت) قبول کرو۔       (ابوداؤد ،ج۳،ص۴۸۴،حدیث:۳۷۵۶)

 {3} ’’بن بلایا مہمان‘‘ (یعنی جسے دعوت نہ دی مگر وہ کھانا کھانے آ گیا تو اس طرح مہمان)بن کر کسی بھی   دعوت  میں  گھس جانا اور کھا  نا کھالینا گناہ، حرام و جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔

{4} اگر کہیں  لنگر عام ہے تو سب کھا سکتے ہیں(مثلاً گیارہوں شریف کی ایسی محفل  ہو کہ جس میں  سب کو آنے کی دعوت دی گئ ہو)۔ ہاں! اگر شادی وغیرہ میں مخصوص(specific) مہمانوں کو بلایا ہے اور محفل رکھی ہے تو  بغیر بلائے جاکر کھانے کی اجازت نہیں ۔

{5}بڑی دعوتوں  میں  اپنے دو ایک بچّے ساتھ لے جانا جائز ہے جب کہ یہ بھی ایسی جگہ ہو جہاں  ایسا کرنے کا عرف(یعنی  معمول۔general routine ) ہے ورنہ بچے لے جانا بھی منع ہے(لھذا  دعوت نامے میں بَچّوں کا نہ لکھا ہو تو بچّے لے کر نہ جائیں۔  بَچّوں کے بغیر جانا مشکل ہو اور سامنے والے کے لیے بَچّوں کے آنے سے بوجھ بھی نہ ہو تو دعوت ملتے ہی بچوں کو لانے کی اجازت لے لیں ) اور خاندان کے بَچّوں کی پلٹن (مثلاً بھائی، بہنیں سب اپنے بچّے) لے کر تو کہیں  بھی نہ جائے۔

 {6} دعوت میں  جانا اُس وقت سنّت ہے جب معلوم ہو کہ وہاں  گانا بجانا، لَہْو و لَعِب (کھیل، تماشہ)نہیں  ہے اور اگر معلوم ہے کہ ایسی گناہوں  بھری حرکتیں ہوں گی   تو نہ جائے۔ (بہار شریعت ج۳،ص۳۹۲، مُلخصاً)

{7}اگر وہاں لَہْو و لَعِب(مثلا گانا بجانا) ہو اور یہ شخص جانتا ہے کہ میرے جانے سے یہ چیزیں  بند ہوجائیں  گی تو اُس کو اس نیَّت سے جانا چاہیے کہ اس کے جانے سے گناہوں بھرے کام روک دیئے جائیں  گے۔(بہارشریعت ج۳ص۳۹۲،مُلخصاً)

 {8}(۱)  دعوت میں جانے والے کو پہلے سے معلوم نہیں تھا کہ دعوت میں بے پردگی ہوگی،جانے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں  لغویات (مثلاً گانے باجے، بے پردگی وغیرہ ناجائز حرکتیں ) ہیں،(تو جہاں بیٹھنا ہے) اگر وہیں  یہ چیزیں  ہوں  تو واپس آئے اور(۲) اگر مکان کے دوسرے حصّے میں   یہ ناجائز کام ہو رہےہیں   اورجس جگہ کھانا کھلایا جاتا ہے وہاں  ایسا کچھ نہیں ہے  تو  اُس جگہ  بیٹھ سکتا ہے اوروہاں کھانا بھی  کھا   سکتا ہے (۳)پھر اگر یہ شخص ان لوگوں  کو (گانے باجوں سے) روک سکتا ہے تو روک دے اور(اگر واقعی اُسے مضبوط خیال (strong assumption)  ہے کہ روکوں گا تو گناہ چھوڑ دیں گے تو اب بول کر گناہوں کا سلسلہ بند کروانا لازم ہے) (۴) اگر اس (یعنی روکنے)کی قدرت  نہ ہو تو صبر کرے۔

{9}    اگر  دعوت میں جانے والےمذہبی پیشوا(یعنی رہنما (leader)مثلاً  پیر صاحب، دینی  استاد صاحب، امام صاحب وغیرہ) ہوں  اور  دعوت کرنے والوں کی  یہ حالت (condition)ہے  کہ اُن کے کہنے سے بھی گناہوں سے نہ رکیں گے  تو یہ  وہاں  سے واپس  چلےجائیں  اور کچھ نہ کھائیں یعنی    یہ ایسا بھی نہ کریں کہ وہاں  کسی اور کمرے میں بیٹھ کر کھا لیں ۔(بہارِ شریعت ج۳ص۳۹۲،مُلخصاً)

پانی پینے کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)پینے سے پہلے بِسْمِ اللہ! پڑھ لیجئے (۲)چوس کر(suck)چھوٹے چھوٹے گھونٹ پئیں (۳)پانی تین سانس میں پئیں (۴)بیٹھ کر اور سیدھے ہاتھ سے پئیں (۵)پینے سے پہلے دیکھ لیجئے کہ  پانی یا شربت وغیرہ جو پی رہے ہیں،اُس میں کوئی نقصان دہ چیز(harmful) وغیرہ تو نہیں ہے(۶)پینے کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!کہیے(۷)   کسی مسلمان نے پانی پیا اور کچھ بچ گیا تو گلاس میں بچے ہوئے اس صاف ستھرے    پانی کو بغیر کسی وجہ کے پھینکنا نہ چاہئے ۔

(550  سنتیں اور آداب ص۱۸ تا ۱۷ ملخصاً)

کھانے کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)  کھاتے وقت یہ نیّت کرلیجئے: اللہ   کریم کی عبادت کے لیے طاقت  حاصل کرنے کیلئے  کھاناکھا رہا ہوں (۲) بھوک سے کم کھانا چاہیے اور اتنا کھا لینا بھی جائز ہے کہ جس کے بعد بھوک بالکل ختم ہوجائے(۳)بھوک سے زیادہ کھالینا حرام ہے یعنی  اتنا کھالینا جس سے پیٹ خراب ہونے یا بیمار ہونے یا مریض کا دیر میں  تندرست (healthy) ہونے یا بیماری(disease) مزید(more)  بڑھ جانے کا  مضبوط خیال(strong assumption)   ہو جائے (۴) اکثر دسترخوان پر عبارت لکھی ہوتی ہے (مَثَلاً شعر یا کمپنی وغیرہ کا نام) ایسے دسترخوانوں کو استعمال  نہیں کرنا چاہیے (۵)کھانا کھانے سے پہلے اور بعد دونوں ہاتھ پہنچوں (wrist)تک دھونا سنّت ہے (۶)کھانا کھاتے ہوئے جوتے اتا ر لیجئے کہ اِس سے قدم آرام پاتے ہیں۔ فرمانِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جب تم کھانا کھانے لگوتو اپنے جوتے اُتاردو! کیونکہ یہ تمہارے قدموں کے لیے راحت (یعنی آرام) کا سبب(reason) ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الاطعمۃ،الحدیث۴۲۴۰،ج۲،ص۴۵۴) (۷)کھاتے وَقْت اُلٹا پائوں بچھادیجئے اور سیدھا گھٹنا (knee) کھڑا رکھئے یا(۸) سرین (بیٹھنے کی جگہ) پر بیٹھ جایئے اور دونوں گھٹنے (both knees) کھڑے رکھئے یا (۹)دونوں پاؤں اور پنڈلیاں (calves) زمین سے ملا کر، اُس پر(نماز میں جلسے اور قعدے میں بیٹھنے کی طرح) دوزانو (legs)بیٹھئے (۱۰)اسلامی  بھائی ہو یا اسلامی بہن جب کھانے بیٹھیں تو چادر یا کرتے کے دامن کے ذَرِیعے پردے میں پردہ ضرور کریں(یعنی  اپنی گود والے حصّے کو اچھی طرح چھپالیں) (۱۱)سالن یا چٹنی کی پیالی روٹی پرمت رکھئے (۱۲)ننگے سر کھانا ادب کے خلاف ہے اور اس سے روزی میں تنگی(یعنی رزق میں کمی) ہوتی ہے (۱۳)الٹے ہاتھ کو زمین پر ٹیک دیکر(یعنی جسم کا وزن، اُلٹے ہاتھ کو دے کر) کھانا مکروہ ہے(۱۴)مٹی کے برتن میں کھانا اَفضل ہے(۱۵)اگر شروع میں بِسْمِ اللہ! پڑھنا بھول گئے اور  کھانا  کھاتے ہوئے یا دآیا تواس طرح کہیئے: بِسْمِ اللہِ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ ( ترجمہ: اللہ   کریم کے نام سے کھانے کی شروعات اور اس(کھانے) کا ختم ہونا) (۱۶)کھانے کے شروع اور آخر میں  نمک(یا نمکین( صفر المظفر  1442ماہنامہ فیضانِ مدینہ)۔salty dish) کھایئے کہ سنّت ہے (۱۷)سیدھے ہاتھ سے کھایئے، اُلٹے ہاتھ سے کھانا ، پینا، لینا، دینا، شیطان کا طریقہ ہے(۱۸) اُلٹے ہاتھ میں روٹی لے کر سیدھے ہاتھ سے نوالہ(morsel) توڑنا،تَکَبُّر دور کرنےکیلئے ایک طریقہ ہے (۱۹)تین(3) اُنگلیوں (یعنی بیچ والی ،شہادت کی(index finger یعنی ہاتھ کی وہ اُنگلی کے جو انگوٹھے کے ساتھ ہوتی ہے) اور انگوٹھے) سے کھانا کھایئے کہ یہ اَنبیا ء کرام  عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سنّت ہے(۲۰) اگر چاول کے دانے الگ الگ  ہوں اور تین(3) اُنگلیوں سے نوالہ(bite) بننا ممکن نہ ہو تو چار(4) یا پانچ(5) اُنگلیوں سے کھا لیجئے (۲۱)  لقمہ چھوٹا لیجئے اور اس احتیاط(caution) کے ساتھ چبایئے کہ چَپَڑ چَپَڑ کی آواز پیدا نہ ہو (۲۲)کھانے کے بعد دانتوں کا خلال (toothpick)  کیجئے (۲۳)کھانے کے بعداَلْحَمْدُ لِلّٰہ! کہیئے بلکہ اوّل آخر دُرُود شریف کے ساتھ یہ دُعا پڑھئے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْن(۲۴)کھانے کے بعد ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھو کر پونچھ لیجئے۔(550 سنتیں اور آداب ص۲۲ تا ۱۸ ملخصاً)(۲۵) کچھ صورتوں (cases) میں کھانا فرض ہے کہ کھانے پر ثواب ہے اور نہ کھانے میں عذاب(punishment) (۲۶) اگر بھوک اتنی زیادہ ہے کہ  مضبوط خیال(strong assumption) ہو کہ نہ کھانے سے مرجائے گا تو اتنا کھالینا فرض ہےکہ جس سے جان بچ جائے  اور اس صورت(case)میں اگر نہیں کھایا یہاں تک کہ مر گیا تو گنہگار ہوا(۲۷)اتنا کھالینا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت آجائے اور  (فرض)روزہ رکھ سکے یعنی نہ کھانے سے اتنا کمزور ہوجائے گا کہ کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے گا اور روزہ نہ رکھ سکے گا تو  اتنا کھالینا ضروری ہے اور اس میں بھی ثواب ہے(۲۸) ا گر جان(یعنی مر) جانے کا ڈر  ہو اور کھانے کے لیے کوئی  حلال چیز  نہ  ہو تو حرام چیز یا مردار (یعنی وہ  جانور کہ جو شرعی طریقے سے ذبح وغیرہ  نہ کیا گیا اور مر گیا)یا دوسرے کی چیز کھا کر اپنی جان بچائے اور اس صورت (case)میں ان چیزوں کے کھالینے پر کچھ گناہ نہیں، بلکہ نہ کھا کر مرجانے میں اس سے سوال ہوگا۔ہاں! دوسروں کی  چیز کھانے میں تاوان (یعنی جو کچھ نقصان ہوا )دینا ہوگا (۲۹) پیاس سے  مر جانے کا مضبوط خیال ہو، تو کسی چیز کو پی کر اپنے کو مرنے سے بچانا فرض ہے، پانی نہیں ہے اور شراب موجود ہے اور معلوم ہے کہ اسے پی لینے میں جان بچ جائے گی، تو اتنی پی لے جس سے جان  بچ جائے۔(بہار شریعت، ج۳، ح۱۶، ص۳۷۳،مُلخصاً)

برتنوں کے استعمال کی کچھ دینی مسائل:

{1} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جب رات کی ابتدائی تاریکی (یعنی رات کے شروع کا اندھیرا)آجائے یا یہ فرمایا کہ جب شام ہوجائے تو بَچّوں کو سمیٹ لو(مثلاً گھر میں بلالو) کہ اُس وقت شیاطین  پھیلے ہوئےہوتے ہیں پھر جب ایک گھڑی رات چلی جائے(یعنی کچھ وقت گزر جائے)، اب اُنھیں چھوڑ دو اور بِسْمِ ﷲ! کہہ کر دروازے بند کرلو کہ اس طرح جب دروازہ بند کیا جائے تو شیطان نہیں کھول سکتا اور بِسْمِ ﷲ!کہہ کر مشکوں(leather water flask)  کے  منہ بند کرو اور بِسْمِ ﷲ!پڑھ کر برتنوں کو ڈھانک دو،(اگر) ڈھانکو نہیں تو یہی کرلو کہ اس پر کوئی چیز آڑھی کرکے رکھ دو اور چراغوں (lamps)کو بجھادو۔(صحیح البخاری،کتاب بدء الخلق،رقم ۳۲۸۰، ج۲، ص۳۹۹)

{2} سونے چاندی کے علاوہ(except)ہر قسم کے برتن کا استعمال جائز ہے، مثلاً تانبے(copper)، پیتل (brass)، سیسہ (lead) وغیرہا مگر مٹی کے برتنوں کا استعمال سب سے بہتر  ہے تانبے اور پیتل کے برتنوں پر قلعی (plating۔ برتنوں پر دھات(metal)) ہونی چاہیے، بغیر قلعی ان کے برتن استعمال کرنا مکروہ ہے۔

{3}سونے چاندی کے برتن میں کھانا پینا یا   سونے چاندی  کی پیالیوں(bowls) سے تیل لگانا یا   سونے چاندی  کے عطر دان(perfumer) سے عطر لگانا یا   سونے چاندی  کی انگیٹھی(stove) سے بخور کرنا (یعنی دھونی لینا) مرد و عورت  دونوں کے لیےمنع ہے ۔

{4}عورتوں کو سونے چاندی کے زیور (jewellery)پہننے کی اجازت ہے زیور کے  علاوہ (except) دوسری طرح سونے چاندی کا استعمال مرد و عورت دونوں کے لیے ناجائز ہے۔

{5}چائے کے برتن ،سونے چاندی والےاستعمال کرنا ،ناجائز ہے   برتن پر سونے چاندی کا مُلمّع ہو (یعنی برتن پر سونے یا چاندی کا پانی چڑھایا ہوا ہو)تو اس کے استعمال میں حرج(یاگناہ) نہیں۔

 {6}  سونے چاندی کے چمچے (spoon)سے کھانایا   سونے چاندی  کی سلائی(sew) یا   سونے چاندی  کی سرمہ دانی(kohl vessel) سے سرمہ لگانا یا  سونے چاندی کے آئینے(mirror) میں چہرہ (face) دیکھنا یا   سونے چاندی کی قلم دوات(pen n ink) سے لکھنا یا   سونے چاندی کے لوٹے (lota)یا    سونے چاندی  کےطشت(bowl) سے وضو کرنا یا   سونے چاندی  کی کرسی پر بیٹھنا، مرد عورت دونوں کے لیے منع ہے۔

{7}سونے چاندی کی چیزیں صرف مکان کی  زینت (یعنی خوبصورتی)کے لیے ہوں، مثلاً  خوبصورتی کے لیے برتن اور قلم  لگا دیے تا کہ مکان   خوبصورت لگے تو اس میں کوئی  حرج(یا گناہ) نہیں یوہیں سونے چاندی کی کرسیاں یا میز یا تخت وغیرہ سے مکان سجا رکھا ہے  لیکن ان پر کوئی بھی  بیٹھتا نہیں ہے تو بھی حرج (یا گناہ)نہیں ہے     کرسی یا تخت پر  سونے چاندی  کا  کام بنا ہوا ہے(مثلاً وہ لوہے کی کُرسی ہے مگر اُس کے اوپر جگہ جگہ سونے کا کام ہے) یا زین میں (یعنی کُرسی کے نیچے والے حصّے پر خالص سونے۔pure gold کا) کام بنا ہوا ہے توا س پر بیٹھنا اس صورت (case) میں جائز ہے جبکہ سونے چاندی کی جگہ سے بچ کر بیٹھے(اور اس جگہ پر ہاتھ وغیرہ بھی نہ رکھے)۔ اصول یہ ہے کہ جو چیز خالص سونے چاندی(pure gold n silver) کی ہے، اُس کا(زیور کے علاوہ) استعمال مُطلقاً (یعنی ہر صورت  میں)ناجائز ہے اور اگر اس میں جگہ جگہ سونا چاندی ہے مگر استعمال  (مثلاً بیٹھنے یا ہاتھ رکھنے)کی جگہ میں (سونا یا چاندی)ہے تو اب اس چیز کا استعمال کرناجائز نہیں اگر وہ سونا چاندی استعمال کی جگہ پر نہیں ہے تو اس کا استعمال کرنا جائز ہے۔ نوٹ: سونا چاندی کا زیور عورت مُطلقاً (یعنی ہر صورت  میں) کر سکتی ہے جبکہ مرد چاندی کی ایک مخصوص(specific) انگوٹھی پہن سکتا ہے۔

{8} (مرد کے لیے)سونے چاندی کی گھڑی ہاتھ میں باندھنا بلکہ اس میں مرد یا عورت کا وقت دیکھنا بھی ناجائز ہے، کہ گھڑی کا استعمال یہی ہے کہ اس میں وقت دیکھا جائے(اور اس کا استعمال مرد وعورت دونوں کے لیے جائز نہیں)۔(بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۳۹۵ ، مسئلہ ۱،۲،۵،۶،۸،۱۲،۱۱ملخصاً)یعنی عورت ایسی گھڑی  زیور کے طور پر پہن سکتی ہے مگر اس سے وقت نہیں دے سکتی۔

عقیقے کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)   بچّہ پیدا ہونے کے شکریہ میں جو جانور ذَبح کیا جاتا ہے اُس کو عقیقہ  کہتے ہیں(۲)جب بچّہ پیدا ہو تو مستحب (ثواب کا کام)یہ ہے کہ اُس کے کان میں اَذان و اِقامت()  کہی جائے ۔ اِنْ شَاءَاللہ! اس کی برکت (blessing)  سے بلائیں دُور ہو جائیں گی()  (۳)بہتر یہ ہے کہ سیدھےکان میں چار(4) مرتبہ اَذان اور  اُلٹے  کان  میں تین(3) مرتبہ اِقامت کہی جائے(ورنہ کم از کم ایک مرتبہ سیدھے کان میں اذان کہہ لیں)(۴)بَہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں  کہ لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں  اَذان کہتے ہیں اور لڑکی پیدا ہوتی ہے تو نہیں کہتے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ لڑکی پیدا ہو جب بھی اذان و اِقامت کہی جائے (۵)ساتویں دن(seventh day) اُس  بچے کا نام رکھا جائے اور  سر کے بال مونڈوائے  جائیں(shave the head) اور  اسی  وَقت عقیقہ کیا جائے اور بالوں کو وَزن (weight)کر کے اُتنی چاندی  یا سونا صَدَقہ(یعنی خیرات) کیا جائے(۶)لڑکے کے عقیقے میں دو (2)بکرے اور لڑکی میں ایک(1) بکری ذَبح کی جائے یعنی لڑکے میں نَر جانور(male animal) اور لڑکی میں مادَہ (female animal) مناسب (یعنی بہتر) ہے(۷) اگر لڑکے کے عقیقے میں بکریاں اور لڑکی میں بکرا کیا جب بھی حرج (یا گناہ) نہیں(۸) بیٹے کیلئے دو (2)  جانور کرنے کی طاقت نہ ہو تو ایک(جانور) بھی کافی  (enough)ہے(۹)قربانی کے اُونٹ وغیرہ میں بھی عقیقے (یعنی سات (7)  حصّوں میں سے کچھ حصّے قربانی اور کچھ حصّے  عقیقے کے رکھ )سکتے ہیں  (۱۰)عقیقہ فرض یا واجب نہیں ہے صرف سنّت مُسْتَحَبَّہ (اور ثواب کا کام) ہے۔اگر عقیقے کی گنجائش (مثلاً پیسے وغیرہ )ہو تو ضرور کرناچاہئے لیکن  عقیقہ نہ کرنے والا گناہ  گار نہیں  ہوگا  لھذا غریب آدمی کو ہر گز جائز نہیں کہ سودی قرضہ(usury loan) لے کرعقیقہ کرے(۱۱)عقیقہ ولادت (birth) کے ساتویں روز سنّت ہے اوریہی افضل ہے،ورنہ چودھویں (fourteenth day)،  یا پھر اکیسویں دن (on the twenty-first day)  کرے(یعنی اگر بچّہ جمعے کے دن پیدا ہوا تو جمعرات کا دن اس کا ساتواں دن(7th day ) ، پھر اگلی جمعرات چودھواں(14th day )، پھر اگلی جمعرات اکیسواں دن (21th day) ،اسی طرح  زندگی بھر کی ہر جمعرات کا دن لیکن  عقیقہ) اگر ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں (والد صاحب اپنے بچّے  یابچّی کا عقیقہ)کرسکتے ہیں، سنّت پوری  ہوجائے گی (۱۲)جس بچے نے عقیقے کا وَقت پایا یعنی سات دن کا ہوگیا اور طاقت ہونے کے باوُجود( والدین  کی طرف سے) اُس (بچے)کا عقیقہ نہ ہوا تو ایسا بچّہ(نابالغی( juvenile )کی عمر میں فوت ہو جانے کی صورت (case) میں ) اپنے ماں باپ  کی شفاعت نہیں  کر پائے گا(۱۳) بچّہ اگر ساتویں دن سے پہلے ہی  فوت ہوگیا  اور اس  کا عقیقہ نہیں کیا گیا تھا، تو اب  وہ شفاعت کرنے والا ہے  کیونکہ  عقیقے کا اصل وقت  آنے سے پہلے ہی فوت  ہو گیا(۱۴)عقیقہ بچے کے پیدا ہونے کی خوشی میں اللہ   کریم کا شکر ادا کرنے کے لیےہےلہٰذا  بچے کے فوت  ہونےکے بعد عقیقہ نہیں ہوسکتا (۱۵) عقیقے کا جانور اُنھیں شرطوں(preconditions) کے ساتھ ہوگا کہ جو قربانی کے لیےہیں۔ اُس کا گوشت فقیروں ، رشتہ داروں ، دوستوں  وغیرہ (مسلمانوں )کو کچا تقسیم (distribute) کر دیا جائے یا پکا کر دیا جائے یا اُن کو دعوت میں کھلادیا جائے یہ سب صورَتیں(cases)  جائز ہیں (۱۶)عقیقے کےجانور کی کھال کا وُہی حکم ہے جو قربانی کی کھال کا ہے کہ خود بھی  استعمال میں لا سکتے ہیں  ، مسکین() کو بھی  دے سکتے ہیں  یا کسی اور نیک کام میں استعمال  کر (مثلاًمسجد یا مدرَسے  کو دے) سکتے ہیں ۔ (550 سنتیں اور آداب ص۶۳ تا ۵۹ ملخصاً)

ختنہ  کےکچھ آداب:

{1} ختنہ مسلمانوں کا ایک طریقہ ہے کہ جس میں بچے کی  شرم گاہ(کہ جہاں سے پیشاب کرتا ہے)  کی زائد (additional)کھال کاٹی جاتی ہے (فیروز الغات ص ۵۸۵،مُلخصاً) ۔ختنہ سنّت ہے اور یہ شعار اسلام (motto of islam)میں ہے کہ مسلم وغیرمسلم میں اس سےفرق ہوتا ہے اسی لیے عرف عام (یعنی  معمول۔general routine )میں اس کو مسلمانی بھی کہتے ہیں۔(الفتاویٰ الہندیہ ،کتاب الکراہیۃ ،ج۵،ص۳۵۷،مُلخصاً)

{2} باپ پر   بیٹے  کا ایک حق یہ بھی ہے کہ باپ اعلان کے ساتھ  اپنے بیٹے کا ختنہ کرائے(یعنی لوگوں کو بتا ئے کہ بچّے کی ختنہ کر وا رہا ہوں )۔(فتاوی رضویہ ج۲۴،ص۴۵۵،مُلخصاً) بچّے کا ختنہ باپ خود بھی کر سکتا ہے۔( فتاویٰ رضویہ،ج۲۲،ص۲۰۴)   اگر باپ   نہ ہو تو اس کا وصی (یعنی مرنے سے پہلے باپ نے جس شخص کو کہا کہ میرے بچے  کا خیال رکھنا، وہ کرائے) پھر  دادا۔ (بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۵۸۹ ، مسئلہ۵،ملخصاً)

{3}      ختنہ  میں سنّت یہ ہے ساتویں  سال(seventh year) بچّہ کا ختنہ کرادیا جائے، ختنہ کی عمر سات(7) سال سے بارہ(12) سال تک ہے یعنی بارہ  سال سے زِیادہ دیر لگا نا منع ہے۔ (الفتا وی الھندیۃ، کتاب الکراھیۃ، الباب التا سع عشر، ج ۵، ص ۳۵۷) اگر سات سال سے پہلے ختنہ کردی گئی  تو بھی کوئی  حرج(یا گناہ) نہیں۔ بعض لوگ عقیقہ کے ساتھ  ہی ختنہ کرتے ہیں(جیسا کہ آج کل عام طور پر اسی طرح کی جاتی ہے)، اس میں آسانی ہے اور یہ کام  آرام سے ہو جاتا ہے کیوں کہ اس وقت بچّے کی عمر چھوٹی ہوتی ہے، وہ چلتا پھرتا  نہیں ہے اور اس کا یہ فائدہ ہوتا ہے  کہ  چلنے پھرنے سے  زخم بڑھ جانے کا مسئلہ بھی نہیں ہوتا۔(اسلامی زندگی ص ۲۸، مُلخصاً)

{4} بچّہ پیدا ہی ایسا ہوا کہ ختنہ میں جو کھال کاٹی جاتی ہے وہ اس میں نہیں ہے تو ختنہ کی حاجت نہیں کوئی بوڑھا آدمی مسلمان ہوا اور اب اس میں ختنہ کرانے کی طاقت نہیں تو ختنہ کرانے کی  ضرورت نہیں۔

{5}     ختنہ ہوچکی ہے مگر وہ کھال پھر بڑھ گئی اور حشفہ(یعنی  لڑکے یا مرد کی پیشاب کی جگہ   کے آگے  والے حصّے ) کو چھپالیا تو دوبارہ ختنہ کی جائے اور اتنی زیادہ نہ بڑھی ہو تونہیں کی جائے گی۔

{6}انسان کو خصی (castrate)کرنا حرام ہے، اسی طرح ہیجڑا  (removal of testicles)کرنا بھی حرام ہے۔(بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۵۸۹ ، مسئلہ۷،۳،۶،۵،۸،۹،ملخصاً)

نام رکھنے کے  کچھ آداب:

(۱)حضرتِ علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: بچے کا اچھا نام رکھا جائے، ہندوستان (یعنی موجودہ :پاکستان ، بنگلہ دیش اور انڈیا)میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں جن کے کچھ معنٰی نہیں یا ان  لفظوں کے برے معنٰی ہیں تو اس طرح  کے  نام نہ رکھے۔ انبیائے کرام (عَلَیْہِمُ السَّلَام)کے  پاک ناموں، صحابہ و اہلِ بیت(رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْ) و تابعین و بزرگانِ دین(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، اُمید ہے کہ ان( حضرات) کی برکتیں(blessings)  اس بچے  کو ملیں۔ (بہارِ شریعت ح ۱۵، ص ۳۵۶ ،ملخصاً)(۲)بچّہ زندہ پیدا ہوا  پھر فوت ہو جائے یا  ایسا پیدا  ہوا کہ زندگی نہیں تھی یاایسے پیدا ہو کہ اُس  کا جسم  مکمَّل نہ  تھا ہر صورت (case)  میں اس کا نام رکھا جائے اور قیامت کے دن  وہ بھی  اُٹھایا جا ئے گا (۳) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:تم میں سے کسی کا کیا نقصان ہے اگر اس کے گھر میں ایک(بچے کا نام) مُحَمّد ہو یا دو  (بَچّوں کے نام)مُحَمّد ہوں یا تین (بَچّوں کے نام) مُحَمّد ہوں ( الطبقات الکبرٰی لابن سعد، الحدیث ۶۲۲، ج۵، ص۴۰)۔اس حدیث کو لکھنے کے بعد اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کچھ اس طرح لکھا: اِسی لئے میں نے اپنے سب بیٹوں، بھتیجوں کا عقیقے میں نام  صرف مُحَمّد رکھاپھر نامِ مبارک (مُحَمّد) کے ادب اور بَچّوں کی پہچان  (recognition)کے لیے عرفی( یعنی پکارنے والے) نام الگ ر کھے۔ اَلْحَمْدُ للّٰہ !پانچ(5) مُحَمّد (نام کے بچے) اب بھی موجود ہیں جبکہ پانچ(5) سے زیادہ اپنی راہ کو گئے یعنی وفات پا چکے ہیں (فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ،ص ۶۸۹، مُلَخَّصا)(۴)آج کل مَعَاذَ اللہ! (یعنی اللہ کریم کی پناہ)نام بگاڑنے کی عادت ہے اور مُحَمَّد نام کا بگاڑنا تو بَہُت ہی سخْت برا ہے۔لہٰذا ہر مرد کا نام مُحَمَّد یا اَحْمَد رکھ لیجئے اورعرف یعنی پکارنے کیلئے بزرگوں کے ناموں  میں سے کوئی آسان  نام رکھ لیا جائے(۵)جِبْرَئِیْل یا مِیْکائِیْل وغیرہ نام نہ رکھئے۔فرمانِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فرشتوں کے نام پر نام نہ رکھو۔(شعب الإیمان ، ج۶،ص ۳۹۴ ،  حدیث : ۸۶۳۶) (۶)محمدنبی، احمدنبی، نبی احمد نام رکھناحرام ہے  (۷)جب بھی نام رکھیں اُس کے معنٰی کسی سنی عالم سے پوچھ لیجئے، برے معنٰی والے نام نہ رکھئے مَثَلاً غفورُ الدّین کے معنٰی ہیں: دین کومٹانے والا، یہ نام رکھنا سخت برا ہے۔ برے نام  کا برا اثر (effect)ہوتا ہے ،جیسا کہ  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نے برے ناموں کا سخت برا اثر (bad influence)پڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے (۸)یٰسِیْن یا  طٰہٰ نام رکھنا منع ہے۔  مُحَمَّدیٰسِیْننام بھی مت رکھئے، ہاں! چاہیں تو غلام یٰسین اور غلام طٰہٰ نام رکھ لیجئے (۹)عبدُ اللہ و عبدُالرَّحمٰن بَہُت اچّھے نام ہیں مگر اب  دیکھا جاتا ہے کہ نام  عبدُالرَّحمٰن پورا لینے کے بجائے اس شخص کو بہت سے لوگ رَحْمٰن کہتے ہیں اور غیر خدا (مثلاً کسی آدمی )کو رَحْمٰن کہنا حرام ہے۔ اسی طرح عبدُالْخَالِق   کو خَالِق اور عبدُالْمَعْبُوْد کو  مَعْبُوْدکہتے ہیں اس قسم کے ناموں میں ایسی تبدیلی (change)کرناجائز نہیں ہے(۱۰)جو نام برے ہوں ان کو بدل کر اچھا نام رکھنا چاہیے کہ  اپنی اُمّت سے پیار کرنے والے، پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ برے نام کو (اچھے نام سے) بدل دیا کرتے تھے۔ ایک خاتون کا نام ’’عَاصِیَہ‘‘ (یعنی گنہگار ) تھا ،  رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس کے نام کو بدل کر ’’جمیلہ ‘‘ (یعنی خوبصورت) رکھا۔)صحیح مسلم،کتاب الآداب،ج۱۵،ص۱۱۸۱، الحدیث: ۲۱۳۹( (۱۱)ایسے نام منع ہیں جن میں اپنے منہ سے خود کو اچھا بتانا  پایا جائےیعنی ایسے نام نہ رکھے جائیں کہ کوئی  اپنے ’’منہ میاں مٹھو‘‘ بن جائے  (۱۲)ایسے نام رکھنا جائز نہیں جو غیر مسلموں کیلئے مخصوص(specific) ہوں (۱۳)غلام محمد اور احمد جان نام رکھنا جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ غلام یا جان وغیرہ لفظ نہ بڑھایا جائے تا کہ مُحَمَّداور اَحْمَد  نام کی فضیلتیں جو حدیثوں  میں آئی ہیں وہ  مل سکیں  (۱۴)غلام رسول ، غلام صدیق، غلام علی، غلام حسین ، غلام غوث ، غلام رضا نام رکھنا جائز ہے ۔ (550 سنتیں اور آداب ص۶۸ تا ۶۳ ملخصاً)  (۱۵)نبی نام رکھنا اور اس نام سے پکارنا شرعاً حرام ہے، اسی طرح  نَبِیَّہ نام رکھنا بھی حرام ہے۔ (شعبان المعظم1439،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

()

143 ’’شرعی آداب‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

     بیشک اس دین کی اِبتداء غریبوں سے ہوئی اور عنقریب(soon) یہ اسی(یعنی غریبوں کی) طرف  (  دوبارہ ۔ again )لوٹ آئے گا، جس طرح اس کا آغاز(beginning) ہوا تھا۔ پس غریبوں کو مبارک (یعنی خوشخبری) ہو۔ عرض کیا گیا: یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! غریب کون ہیں ؟ فرمایا : وہ لوگ جو میری سنّتیں زندہ کرتے اور اللہ   کریم کے بندوں کو  سکھاتے ہیں۔ (الزھد الکبیر، ص۱۱۷، رقم:۲۰۵)

واقعہ(incident):                  سنّت کی محبّت

      اہلسنّت کی بہت بڑی علمی درسگاہ(یعنی مدرسہ وغیرہ) الجامعۃُ الاشرفیہ(مُبارک پور۔India) کی بنیاد(foundation) رکھنے والے،حضرت علامہ مولاناعبدالعزیزمبارک پوری  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے ہر عمل میں سنّت کابَہُت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ایک بار حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے سیدھے پاؤں میں زَخم(wound) ہوگیا،ایک صاحِب دوا لے کر پہنچے اور کہا:حضرت !دوا حاضِر ہے۔سردیوں کے دن تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مَوزہ (socks)پہنے ہوئے تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پہلے اُلٹےپاؤں کا مَوزہ اُتارنے لگے، وہ صاحِب بول پڑے: حضرت!زَخم تو  سیدھےپاؤں میں ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: موزہ  پہلے اُلٹےپاؤں  سےاُتارنا سنّت ہے۔(نیکی کی دعوت،ص ۲۱۳، مُلخصاً)

گھر میں آنے جانےکی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)  جب گھرسے باہر نکلیں تو یہ دُعا پڑھئے : بِسْمِ  اللہ  تَوَکَّلْتُ عَلَی  اللہ  لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ (ابوداود، ج۴ ص۴۲۰ حدیث۵۰۹۵)  اِن شاءَ    اللہ !   اس دعاکوپڑھنے کی بَرَکت(blessing)  سے سیدھے راستےپر رہیں  گے ، آفتوں (یعنی مُصیبتوں۔troubles)سے حفاظت ہو گی اور اللہ   کریم کی مدد شامل  رہے گی(۲)اپنے گھر میں آتے جاتے محارِم ومحرمات (مَثَلاً ماں، باپ ، بھائی،بہن، بَچّوں وغیرہ) کو سلام کیجئے (۳) اللہ   کریم کا نام لئے بغیر مَثَلاً بِسْمِ  اللہ!  کہے بِغیر جو گھر میں  آجاتا ہے، شیطان بھی اُس کے ساتھ آ جاتا ہے(۴)اگر ایسے مکان(مثلاًاپنے   خالی گھر) میں  جانا ہو کہ اس میں  کوئی نہ ہو تو یہ کہئے:اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ  اللہ  الصّٰلِحِیْن (یعنی ہم پر اور اللہ   کریم کے نیک بندوں  پر سلام )فِرِشتے اس سلام کا جواب دیں  گے۔ ( رَدُّالْمُحتارج۹ ،ص ۶۸۲) یا اس طرح کہے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ (یعنی یا نبی آپ پر سلام ) کیونکہ حضور  صَلَّی اللّٰہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّم  کی  رُوحِ مبارَک مسلمانوں  کے گھروں  میں  تشریف فرما ہوتی ہے (بہارِشريعت حصّہ۶ا ص۹۶، شرح الشّفاء للقاری ج۲ص۱۱۸) (۵) جب کسی کے گھر میں  جانا چاہیں  تو اِس طرح کہئے : اَلسَّلامُ عَلَیْکُم کیا میں  اندر آسکتا ہوں  ؟(۶)اگر  آنے کی اجازت نہ ملے تو خوشی خوشی واپس آجائیں ، ہو سکتا ہے کسی مجبوری کی وجہ سے  ان لوگوں نے(گھر میں آنے کی) اجازت نہ دی ہو(۷)جب آپ کے گھر پر کوئی دستک دے  (یعنی  knock کرے)تو سنّت یہ ہے کہ پوچھئے: کون ہے؟ باہَر والے کو چاہئے کہ اپنا نام بتائے : مَثَلاً کہے:محمد الیاس۔ نام بتانے کے بجائے اس وقت”مدینہ!“، میں  ہوں !“”دروازہ کھولو“ وغیرہ کہنا سنّت نہیں (۸)جواب میں  نام بتانے کے بعد دروازے سے ہٹ کر کھڑے ہوں  تا کہ دروازہ کھلتے ہی گھر کے اندر نظر نہ پڑے(۹)کسی کے گھر میں  جھانکنا(peep in) منع ہے ۔(550 سنتیں اور آداب ص۱۳ تا ۱۱ ملخصاً) (۱۰)     جب کوئی شخص دوسرے کے مکان پر جائے، تو پہلے اندر آنے کی اجازت لے پھر جب اندر جائے تو پہلے سلام کرے ،اس کے بعد بات چیت(یعنی کلام) شروع کرے اور جس کے پاس گیا ہے وہ(پہلے ہی سے گھر کے) باہر(کھڑا) ہے تو اجازت  لینےکی ضرورت  نہیں سلام کرنےکے بعد ہی بات  شروع کر سکتا ہے (۱۱) آنے کے وقت بھی سلام کرے اور جاتے ہوئے بھی یہاں تک کہ دونوں کے درمیان میں اگر دیوار یا درخت آجائے، تب بھی سلام کرے۔    (بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۳۹۵ ، مسئلہ ۱،۶ملخصاً) (۱۲)  مکان کرایہ پر دیا اور کرایہ دار(renter) اس میں رہنے لگا ، اب مالک اگر  مکان کودیکھنے جانا چاہتا ہے کہ  مکان  کس حالت (condition)میں ہے تو کرایہ دار سے اجازت لے کر اندر جائے گا(یعنی  اب یہ خیال نہ کرے کہ مکان میرا ہے مجھے اجازت کی کیا ضرورت بلکہ مکان میں جانے کی جازت اسی لیے ہے کہ  جو لوگ رہتے ہیں ، ان سے اجازت لی جائے لھذا مکان کے مالک کو بھی اجازت لینی ہوگی)۔     (بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۶۵۴ ، مسئلہ ۱۲،مُلخصاً)

پڑوسی کے بارے میں کچھ  سنتیں اور آداب:

(۱) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟پھر ارشادفرمایا:اگروہ  تم سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرو،اگر تم سے قرض(loan) مانگے تو اسے قرض دو،اگر  ضرورت مند(needy) ہو تو اس کی ضرورت پوری کرو،اگر بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو(مثلاً ملنے جاؤ)،اگر وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں جاؤ،اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو مبارکباد(congratulation)دو اوراگر کوئی مصیبت پہنچے توتعزیت (مثلاً افسوس)کرو،اس کی اجازت کے بغیراس کے گھر سے اونچا گھر نہ بناؤ کہ اسے  ہوا نہ پہنچے،اسے  تکلیف نہ پہنچاؤ،اگرتم کوئی پھل خریدکر لاؤ تو اس میں سے پڑوسی کو بھی کچھ بھیجو ،اگر ایسا نہ کرسکو تو چھپاکرلے جاؤاوراپنے بَچّوں کوبھی وہ پھل گھر سے باہر نہ لانے دو کہ پڑوسی کے بچے اس پھل کی وجہ سے غمگین(sad) ہوں گےاوراپنی ہنڈیا (چولہے)کی خوشبو سے بھی پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ کچھ سالن اسے بھی بھیج دو۔یہ فرمانے کےبعدآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق(ride) کیا ہے ؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان (یعنی جو میری جان کا مالک)ہے! پڑوسی کا حق صرف و ہی پورا کر سکتا ہے جس پر اللہ  کریم رحم فرمائے ۔(شعب الايمان للبيهقی،ج۸۳،ص۷،الحديث:۹۵۶۰،المعجم الکبير،ج۱۹،ص۴۱۹،الحديث:۱۰۱۴،ملتقطًا)

(۲)  ’’نزہۃ القاری‘‘ میں ہے:  ہر شخص اپنے عُرف(یعنی  معمول۔general routine ) اور معاملے سے سمجھ سکتا ہے کہ اُس کا پڑوسی کون کون ہے؟ (نزہۃ القاری ج ۵ ص ۵۶۸، ماخوذاً) (۳)امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: پڑوسی کے حقوق(rights)  میں سے یہ بھی ہے کہ اُسے سلام کرنے میں پہل کرے (۴) اُس سے لمبی گفتگو(یعنی بات) نہ کرے(۵)اُس کے حالات(circumstances) کے بارے میں زیادہ  سوالات  نہ کرے(۶) وہ بیمار ہو تو اُس کی  خیریت (مثلاً طبیعت)معلوم کرے(۷) مصیبت کے وَقت اُس کو ہمت (courage)  دےاور اُس کا ساتھ دے(یعنی اُس کی مدد بھی کرے) (۸)خوشی کے وقت اُسے مبارَک باد دے اور اُس کے ساتھ خوشی میں شریک (participate) ہو (۹) اُس کی  غلطیاں مُعاف کردے(۱۰)چھت سے اس کے گھر میں نہ جھانکے (peep in) (۱۱) اُس کے گھر کا راستہ(سامان وغیرہ رکھ کر یا ٹینٹ وغیرہ لگا کر) تنگ(irritate)  نہ کرے (۱۲)وہ اپنے گھر میں جو کچھ لے جارہا ہے اُسے دیکھنے کی کوشش نہ کرے(۱۳)اُس کی برائیاں چھپائے(۱۴) اگر وہ کسی حادِثے(accident) یا تکلیف  میں  پڑ جائے تو فوراً اُس کی مدد کرے(۱۵)جب و ہ گھر میں  نہ ہو تو اُس کے گھر کی حفاظت(protection)  میں کمی  نہ کرے (۱۶) اُس کے خلاف کوئی بات نہ سنے اور (اگر ضرورت  کی وجہ سے)اُس کے  گھر کی عورتوں  کے سامنے (جانا پڑے تو) نگاہیں  نیچی   رکھے(یاد رہے! غیر عورت کے پاس اکیلے کمرے یا اکیلے گھر میں جانے کی اجازت نہیں، پڑوس میں کوئی بات کرنی پڑی تو گھر کے باہر  سے  ہی کر لے)(۱۷) اُس کے بَچّوں سے نرمی سے بات کرے(۱۸) اُسے جن دینی یا دُنیوی  کاموں  کا علم نہ ہو اُن کے بارے میں اُسے بتائے(اِحیاءُ الْعُلوم ج ۲ص۲۶۷مُلَخّصاً) (۱۹)فرمانِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  : پڑوسی تین(3)  طرح  کے ہیں: (۱)کچھ وہ کہ جن کے تین حق ہیں(۲) کچھ کے دو (2)اور (۳)کسی کا ایک حق ہے۔(1) جو پڑوسی مسلم اور رشتے دار ہو، اس کے تین حق ہیں: (۱)پڑوس کا حق ،(۲) اسلام کا حق  اور(۳) رشتے داری کا حق۔(2) مسلم پڑوسی کے دو(2) حق ہیں: (۱) پڑوس کا حق اور (۲) اسلام کا حق۔ (3) کافر پڑوسی کا صرف ایک(1) حق ہے: پڑوس کا حق ہے(حلیۃ الاولیاء ،  عطاء بن میسرہ ،ج ۵،ص ۲۳۵ ،  حدیث : ۶۹۴۸ ) (۱۹)چھت پر چڑھنے میں دوسروں کے گھروں میں نظر پہنچتی ہے تو وہ لوگ چھت پر چڑھنے سے منع کرسکتے ہیں۔ (بہارِ شریعت ح۱۶،ص۵۶۸، مسئلہ۱ مُلخصاً) (۲۰) حضرتجابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کہتے ہیں کہ  پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس چھت پر سونے سے منع فرمایا کہ جس پر روک نہ ہو۔(سنن الترمذي،کتاب الأدب،  الحدیث:۲۸۶۳،ج۴،ص۳۸۸) (۲۱)دو مکانوں کے درمیان میں دیوار تھی، پھر وہ دیوار گر گئی تو جس کی دیوار ہے وہ بنائے  گااور  اگر وہ دیوارمشترک (یعنی دونوں  کی )ہو تو دونوں بنوائیں تاکہ بے پردگی دور ہو۔(بہار شریعت ح۱۲،ص۹۱۸،مسئلہ۱۱،مُلخصاً)

(۲۲) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جس شخص نے (کسی گھر کا)پردہ اُٹھا کر اجازت سے پہلے اندر جھانکا (یعنی دیکھا)تو وہ ایسی حد پر آ گیا جہاں پر آنا اس کے لئے جائز نہ تھا اور اگر کسی نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو وہ رائیگاں (یعنی بیکار)گئی (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث ابی ذر الغفاری، الحدیث:۲۱۶۲۸،ج۸،ص۱۳۶) ۔عُلَمائے کِرام  ، آنکھ پھوڑ دی کے بارے میں فرماتے ہیں:یہ فرمان  پردے کی اہمیّت(importance) سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ کسی کی آنکھ پھوڑنے پر سزا دی جائے گی۔(مراٰۃ المناجیح،ج۵،ص۴۳۵،سوفٹ ائیر،ماخوذاً)

 (۲۳) اگر مکان بیچنا چاہے تو اس کا پڑوسی اس مکان کی بازاری  قیمت (market rate) پہ خریدنے کا زیادہ حقدار(deserving)  ہے۔( تفصیل کے لیے بہارِ شریعت ح۱۵ سے شفعہ کے مسائل پڑھ لیجیئے)

sclass="font_ur">مہمان نوازی(hospitality) کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)مہمان(guest)  کا اِحترام(respect) یہ ہے کہ اس سے  اچھی طرح ملے ،اس کے لیے کھانااور ضرورت کی  دوسری  چیزیں پیش کرے بلکہ اپنے ہاتھ سے اس کے کام  کرے (۲)سنّت یہ ہے کہ آدَمی مہمان کو دروازے تک چھوڑنے جائے(۳)مہمان وہ ہے جو ہم سے ملاقات کے لیے باہر (مثلاً دوسرے شہر یا ملک)سے آئے  چاہے  ہم اُسے پہلے سے نہ بھی جانتے ہوں (جیسے کسی نیک آدمی کا نام سُن کر اُس سے ملنے کے لیے کوئی آجائے تو اُس کی مہمان نوازی(hospitality)  کی جائے) جو ہمارے لئے اپنے ہی محلّے یا اپنے شہر  سے دو(2) چار(4) منٹ کے لئے، ہم سے ملنے آئے(مثلاً گلی محلے کے دوست) وہ ملاقاتی ہے مگر مہمان نہیں، اس  سے بھی اچھی طرح ملا جائے، چائے  وغیرہ  کا پوچھا جائے مگر اس کی دعوت نہیں ہے(یعنی یہ ایسا مہمان نہیں کہ اس کی مہمانی (hospitality)   میں دعوت کرنا، کوئی اخلاقی ذمہ داری(responsibility)   ہو) جو  انجان  آدمی (stranger)  اپنے کام کے لئے ہمارے پاس آئے وہ مہمان نہیں جیسے مفتی صاحب کے پاس  فتویٰ (لینے) والے آتے ہیں یہ مفتی صاحب کے مہمان نہیں (۴)حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:مہمان کو چار(4) باتیں ضَروری ہیں: (1)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے:اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا  اسی قسم کے دوسرے الفاظ (3) میزبان (host) کی اجازت کےبغیر (جس جگہ بٹھایا ہے) وہاں سے نہ اُٹھے اور (4) جب وہاں سے جائے تو ان کے لیے دُعا کرے۔ (عالمگیری ج۵ص۳۴۴) (۵)کھانے یا گھر کی کسی جائز چیز (یا سجادٹ) وغیرہ پر  کسی قسم کی تنقید(criticism) نہ کرے اور  نہ ہی  جھوٹی تعریف کرے(ہاں ! اگر کوئی ناجائز کام دیکھے اور مضبوط خیال(strong assumption)   ہے کہ گھر والوں کو سمجھاؤنگا تو اُس گناہ کو چھوڑ دیں گے تواُس گناہ سے رُکنے کا کہنا لازم ہے) (۶)میزبان بھی مہمان(guest) کو جھوٹ  میں ڈالنے والے سوالات نہ کرے مَثَلاًکہنا کہ ہمارا گھر کیسا لگا؟ یا کہا: ہمارا کھانا آپ کو پسند آیا یا نہیں؟ ایسے  سوالات پر  پسند نہ آنے کے باوُجود، اگر مہمان نے گھر یا کھانے کی جھوٹی تعریف کی  تو گناہ گار ہوگا (۷)میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے کہے ’’اور کھائیں‘‘ مگر  تین(3) بارسے زیادہ نہ کہے( اِحیا ء العلوم ج۲ ،ص ۹، مُلخصاً)۔میزبان اِس طرح کا سُوال بھی نہ کرے کہ: آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟ کیونکہ یہاں بھی جواب میں جھوٹ بولنے  کا خطرہ  ہے ، مثلاً کسی کا مذہبی ذہن نہ ہو اور پسند نہ آنے کی وجہ سے کھانا کم کھانے پر مِہمان کی طرف سے ہونے والے اس سوال کے جواب میں  جھوٹ کہہ دے کہ:میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے (۸)اگر کسی نے اِس لئے جلدی ہاتھ روک لیا تا کہ لوگ کہیں: کتنا نیک آدمی ہےکہ کھانا کم کھاتا ہے! تو ایسا آدمی رِیا کار اور جہنّم کے  عذاب  کا حقدار (deserving for punishment) ہے (۹)اگر بھوک سے کچھ زیادہ اس لیے کھالیا کہ مہمان کے ساتھ کھا رہا ہے اور معلوم ہے کہ  اگر میں نے ہاتھ روک دیا تو مہمان  بھی مکمل کھانا نہیں کھا سکے گا تو اس صورت (case) میں  کچھ زیادہ کھالینے کی اجازت ہے مگر اتنا زیادہ کھانے کی اجازت نہیں کہ  جس سے  پیٹ   خراب ہو جانے کا خطرہ ہو (۱۰)ایک شخص نے عرض کی: یَارَسُوْلَ اللہ !  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! میں ایک شخص کے پاس گیا، اُس نے میری مہمانی (hospitality)نہیں کی، اب وہ میرے یہاں آئے تو کیا میں اس سے بدلا لوں؟(یعنی میں بھی اس کی مہمانی نہ کروں!)  تو فرمایا:نہیں بلکہ تم اس کی مہمانی کرو۔(550 سنتیں اور آداب ص۲۷ تا ۲۳ ملخصاً)

سفرکی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)سفر پہ جانے کا لباس  پہن کر گھر میں چار(4) رَکعت نفل اَلْحَمْدُ للّٰہ شریف ا ور قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ (پوری سورت)  پڑھ کر باہر نکلے۔ وہ رَکعتیں واپس آنے تک اُس کے گھر والوں اور مال کی حفاظت (protection) کریں گی(یاد رہے! جو بھی نیک عمل کیا جائے وہ اللہ کریم کی رضا اور ثواب کے لیے کیا جائے۔  ہاں! اس نیک عمل کے وسیلے(صدقے) سے دعا کی جاسکتی ہے(فتاوی رضویہ جلد ج ۲۳،ص۳۹۹، ماخوذاً)) (۲)سفر میں تین یا اِس سے زیادہ اسلامی بھائی ہوں تو ایک کو ’’امیر‘‘ بنا لیناسنّت ہے (۳)آئینہ، سرمہ، کنگھا، مسواک ساتھ رکھنا  سُنّت ہے  (۴)والداعلیٰ حضرت ،مولانا مفتی نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ لکھتے ہیں: وہ جناب( یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)سفر میں (۱)مسواک اور (۲) سرمہ دان اور(۳)آئینہ اور (۴) شانہ (یعنی کنگھا) اور(۵)قینچی اور (۶) سوئی (۷) دھاگا اپنے ساتھ رکھتے (انوارِ جمال مصطفیٰ، ص۱۶۰) ۔ایک دوسری روایت میں (۸) ’’تیل‘‘ کے الفاظ (بھی) ہیں۔ (سُبُلُ الھُدیٰ، ج۷،ص۳۴۷،مُلخصاً)(۵)مسافر کی دُعا قبول ہوتی ہے ، لہٰذا اپنے لیے، اپنے والدین، بیوی بَچّوں اور عام مسلمانوں کیلئے دعائیں کیجئے(۶)سفر سے واپسی پر گھر والوں کے لئے کوئی تحفہ(gift) لے کرآئیں جیسا کہ فرمانِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہے:جب سفر سے کوئی واپس آئے تو گھر والوں کے لئے کچھ نہ کچھ ہَدِیَّہ (یعنی تحفہ) لائے، چاہے اپنی جھولی(یعنی دامن) میں پتھر ہی ڈال لائے۔ (کنز العمال ، کتا ب السفر،  حدیث۱۷۵۰۲، ج۶، ص۳۰۱)  (۷)شرعی سفر سے واپسی میں مکروہ وَقت نہ ہو تو سب سے پہلے اپنی مسجد میں اور جب گھر پہنچے تو گھر پر بھی دو(2) رَکعت نفل پڑھئے۔ (550 سنتیں اور آداب ،ص۷۲ تا ۶۸ ملخصاً) (۸) جہاد(یعنی  اللہ کریم کے راستے میں لڑنے ) کے علاوہ(other) ،کسی کام کے لیے سفر کرنا چاہتا ہے مثلاً تجارت (trade)یا حج یا عمرہ کے لیے سفر کرنا چاہتا ہے اس کے لیے والدین سے اجازت لے، اگر والدین اس سفر کو منع کریں اور  جانے والے کو ڈرہو کہ میرے جانے کے بعد ان (یعنی میرے والدین)کی کوئی خبر گیری(مثلاً اُن کی ضرورت کے کام ) نہ کریگا اور  جانے والےکے پاس اتنا مال (مثلاً پیسے وغیرہ)بھی نہیں ہے کہ والدین کو بھی دے اور سفر کے  خرچےبھی پورے کرے تو اس  صورت (case)میں ماں، باپ کی اجازت کے بغیر سفر کو نہ جائے اور اگر والدین محتاج نہ ہوں، ان کا نفقہ (یعنی روٹی، کپڑے وغیرہ کا خرچ)اولاد پر نہ ہو() مگر وہ سفر خطرناک ہے کہ جانے والا کا انتقال بھی ہو سکتا ہے، اب بھی ماں، باپ کی اجازت کے بغیر  سفر نہ کرے اور جان  کا خطرہ  نہ ہو(اور ماں، باپ کے خرچے کے پیسے اور ان کا خیال رکھنے والے ہوں) تو والدین کی اجازت  کے بغیر    بھی سفر کرسکتا ہے (۹) عورَت کوبغیرمحرم کے تین دن  ( خشکی میں 57.5میل  (فتاوٰی رضویہ، ج۸، ص۲۷۰) تقریباً92کلو میٹر)  یا  اس سے زِیادہ دور جانا جائز نہیں  ۔  چھوٹے نابالغ بچے یا معتوہ ( یعنی آدھے پاگل (فتاوٰی رضویہ، ج۱۹، ص۶۳۶، ماخوذاً))  کے ساتھ بھی سفرنہیں  کر سکتیاتنے سفر میں  بالغ محرم (کہ جس سے کبھی بھی نکاح نہ ہوسکے) یا شوہر کا ہونا ضروری ہے محرم کیلئے ضروری ہے کہ سخت فاسق(یعنی  بڑے سے بڑا گناہ کر جانے والا)، بے باک (کسی سے نہ ڈرنے والا)، غیر مامون (یعنی ایسا شخص کہ اگر کوئی اُس کے پاس ہو تو اُس کی جان، مال، عزّت وغیرہ کی  حفاظت) نہ ہو(یعنی عورت جس کے ساتھ سفر کرے وہ اعتماد والا(trustworthy) محرم ہو) (۱۰) عورت، مراہق محرم   (یعنی وہ لڑکا کہ جو بالغ (wise, grownup)ہونے کے قریب  مثلاً 12 سال کا ہو) کے ساتھ سفرکر سکتی ہے کیونکہ  مراہق ،بالغ  ہی کے حکم میں  ہے   (بہارِ شریعت ج۱ص ۷۵۲ ، ۱۰۴۴ ، ۱۰۴۵، مُلخصاً)   (۱۱)اگر کسی دوسرے شہر يادوسرے ملک ميں عورت کا مَحرَم يا شوہر ہے اور وہ اسے بُلا رہا ہے تو بھی عورت بس، کار،ریل گاڑی،کِشتی یا ہوائی جہازوغیرہ  میں  اکیلے(alone) شرعی سفر نہيں کرسکتی۔(پردے کے بارے میں سوال  جواب ص۱۶۶،مُلخصاً) (۱۲)کچھ عُلَمائے کِرام نے ایک دن کی مَسافت (تقریباً30کلومیٹر) پر عورت کے بے محرم جانے کو بھی منع فرمایا ہے  ( رَدُّالْمُحتارج۳،ص۵۳۳،وغیرہ، ماخوذ اً )۔عُلَمائے کِرام نے حالات (condition)کی  وجہ  سے ، اسی مسئلے پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے ،لہٰذا اب عورت  کا ایک دن کی مسافت (تقریباً30کلومیٹر)  پر بھی محرم  یا شوہر کے  بغیر سفر کرنا شرعاً منع ہے۔(محرم الحرام، 1442،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً) (۱۳)احتیاط(caution) یہی ہے کہ جوان عورت  شہر کے اندر بھی رِکشہ ٹیکسی میں بِغیر محرم  سفر نہ کرے (۱۴)اسلامی بہن کا ضَروتاً کسی بھروسے  والے نامحرم قریبی رشتے دار کے ساتھ شہر  کے اندرٹیکسی یا کار میں  اکیلے(alone) سفر کرناجائز ہے مگر کوشش کرے کہ   کوئی عورت بھی ساتھ ہو(۱۵) ایک سے زیادہ با پردہ اسلامی بہنیں ملکر نامحرم ڈرائیور کے ساتھ ٹیکسی وغیرہ میں شہر کے اندر جا آسکتی ہیں مگر جس جگہ جانا ہو ، وہاں کے راستے پر غور کر لیا جائے کہ  کسی قسم کا خطرہ تو نہیں ۔ (پردے کے بارے میں سوال  جواب ص۲۲۵ تا ۲۲۷،مُلخصاً)

سلام کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)مسلمان سے جب ملیں تو سلام کرنا سنّت ہے (۲) اسلامی بہنیں بھی مسلمان عورتوں نیز محارِم(مثلاً والد،  بھائی، دادا، چچا، ماموں، نانا وغیرہ) کو سلام کریں (۳) سلام کرتے  ہوئےدل میں یہ نیّت ہو کہ: جس کو سلام کرنے لگا ہوں اِس کا مال اور عزّت وغیرہ  سب کچھ میری حفاظت(protection) میں ہے اور میں ان میں سے کسی چیز میں دَخل اندازی(مثلاً چوری یا بے عزّتی) کرنا حرام جانتا ہوں(۴)سلام میں پہل کرنا سنّت ہے (۵)اَلسَّلامُ عَلَیْکُم(یعنی تم پر سلامتی ہو) کہنے سے 10 نیکیاں ملتی ہیں ۔ ساتھ میں وَرَحمَۃُ اللہ (اور اللہ کریم کی رحمت ہو) کے الفاظ بھی کہیں گے تو 20نیکیاں ہو جائیں گی ۔ اور وَبَرَکٰتُہٗ (اور اس کی برکتیں(blessings)  ہوں) کے الفاظ بڑھا دیں گے تو 30 نیکیاں ہوجائیں گی۔ بعض لوگ سلام کے ساتھ’’ جنَّتُ المقام اور دوزخ الحرام ‘‘کے الفاظ بڑھا دیتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے (۶)اِسی طرح جواب میں وَعَلَیْکُمُ السَّلامُ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکٰتُہٗ کہہ کر 30 نیکیاں حاصِل کی جا سکتی ہیں (۷) سلام کا جواب فوراً اور اتنی آواز سے دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا سن لے۔ (550 سنتیں اور آداب ص۳۱ تا ۳۰ ملخصاً)

ہاتھ ملانے کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱) دومسلمانوں کاملاقات کے وقت  دونوں ہاتھ ملانا سنّت ہے (۲)ہاتھ ملانے سے پہلے سلام کیجئے  (۳) جاتے ہوئے  بھی سلام کیجئے اور (ساتھ میں)ہاتھ بھی ملا سکتے ہیں(۴)جتنی بار ملاقات ہو ہر بار ہاتھ ملا سکتے ہیں(۵)آج کل بعض لوگ دونوں طرف سے ایک ہاتھ ملاتے بلکہ صرف اُنگلیاں ہی آپَس میں لگادیتے ہیں یہ سب خلافِ سنّت ہے (۶)ہاتھ ملانے کے بعد خود اپنا ہی ہاتھ چوم لینا مکروہ ہے۔ ہاں !اگر کسی بزرگ سے ہاتھ ملانے کے بعد  برکت (blessing) پانے کیلئے اپنا ہاتھ چوم لیا تو کراہت (یعنی مکروہ اور ناپسندیدہ)نہیں (۷)اگر اَمرد (مثلاً  دس(10) سال سے اٹھارہ (18)یا بیس(20) سال کے ایسے لڑکے کہ جن کی داڑھی نہ آئی  ہو یا کسی بھی مرد) سے ہاتھ ملانے میں شہوت(یعنی جنسی خواہش۔sexual desire)  آتی ہو تو اُس سے ہاتھ ملانا جائز نہیں بلکہ اگر دیکھنے سے شہوت آتی ہو تو اب دیکھنا بھی گناہ ہے(غیر مرد و عورت کا ایک دوسرے سے  ہاتھ ملاناجائز نہیں چاہے ان دونوں کو شہوت نہ بھی ہو پھر بھی یہ ہاتھ نہیں ملاسکتے) (۸) ہاتھ ملاتے ہوئےسنّت یہ ہے کہ ہاتھ میں رومال وغیرہ کوئی چیز موجود  نہ ہو، دونوں ہتھیلیاں (palms)خالی ہوں اور ہتھیلی (palm)سے ہتھیلی ملنی چاہئے۔ (550 سنتیں اور آداب ص۳۶ تا ۳۴ ملخصاً) (۹) جس طرح فجر و عصر کے بعد ہاتھ ملایا جاتا ہے، اسی طرح  دوسری نمازوں کے بعد بھی ہاتھ ملانا جائز ہے (۱۰)      گلے ملنابھی جائز ہے جبکہ  کوئی فتنہ  یا شہوت  ہونے  کا ڈرنہ ہو(۱۱)  جب گلے ملیں تو صرف تہبند یا  صرف پاجامہ پہنے ہوئے نہ ہوں بلکہ کرتا وغیرہ بھی پہنے ہوئے ہوں (۱۲) عید کی نماز کے بعدمسلمان جس طرح گلے ملتے ہیں  یہ جائز ہے اور خوشی منانے کا ایک طریقہ ہے(۱۳) عالمِ دین  کے ہاتھ پاؤں چومنا جائز ہے، بلکہ اگر کسی نے عالمِ دین سے  کہا کہ آپ اپنا ہاتھ مجھے دیجیے کہ میں  چوم لوں تو اس کے کہنے پرعالم صاحب اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا  سکتے ہیں (بہارِ شریعت ح۱۶،ص۴۷۰، مسئلہ۲، ۶، ۷،۱۰ ) (۱۴) کسی کے سامنے جھکنے کی دو صورتیں (cases)  ہیں ۔ (۱)  اگر  تعظیم (respect) کے لیے جھکا  اور  اتنا جھک گیا کہ ہاتھ پیروں کی طرف کرے تو گھٹنوں(knees) تک پہنچ جائیں گے تو اب یہ جھکنا ناجائز وگناہ ہے اور  اس سے کم ہے تو حرج (یا گناہ)نہیں۔(۲)  اگر  تعظیم (respect)  کے لیے نہیں  جھکا بلکہ کسی کام کے لیے جھکا اور وہ کام تعظیم ہے(مثلاً کسی عالم صاحب کے ہاتھ چومنے کے لیے جھکا) تو اب اس کا جھکنا چاہے اتنا ہو کہ گھٹنوں تک ہاتھ پہنچ جائیں پھر بھی جائز بلکہ( سُنّی عالم صاحب کی تعظیم کی نیّت سے اُن کا ہاتھ چومنا، ثواب کا کام ہے ۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْکی سنّت(یعنی طریقہ رہا) ہے کہ انہوں نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ہاتھ پاؤں کو چوما ہے)یاد رہے!غیر خدا (یعنی مخلوق۔creature)کو سجدہ تحیت(یعنی مخلوق کی تعظیم(reverence of creation) کے لیے انہیں سجدہ کرنا) حرام ہےاور اس کے لئے (رکوع جتنا)جُھکنا بھی حرام ہے۔ (فتاوی رضویہ ج۲۲،ص۵۵۰، مُلخصاً)   (۱۵) جو شخص  مذہبی  رہنما (یعنی دینی معاملے میں جسے بڑ ا سمجھتے ہوں ۔religious scholar) ہو یا جس شخص کی  پیروی کی (یعنی بات مانی ۔follow) جاتی ہے، اسے اہل باطل (مثلاً بدمذہب یعنی  گمراہ کہ جو جہنّم  میں لے جانے والے عقیدے (belief) پر یقین رکھتا ہو) اور برے لوگوں (مثلاً  ایسا مالدار(rich) کہ جو اپنے مال کی وجہ سے لوگوں پر ظلم کرتا ہو )سے میل جول (تعلقات۔ relation)رکھنا منع ہے(۱۶)اور عام آدمی  اگر اس (ظالم کے ظلم  سے بچنے کی)وجہ سے مدارات (یعنی ان سے نرمی )کرتا ہے تا کہ  اس شخص کے ظلم سے بچے، تو حرج (یا گناہ) نہیں۔(بہار شریعت ح۱۶،ص۶۵۵،مسئلہ۱۵،مُلخصاً)

   بات چیت کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)مسکرا کر اور اچھے طریقے سے (ان لوگوں سے)بات چیت کیجئے(کہ جن سے بات کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے)۔ یاد رہے! غیر مرد عورت ایک دوسرے سے اس انداز(style)  سے  بات نہیں کریں گے۔ جیسا کہ علامہ شامی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:ضرورت کے وقت   غیر عورتوں سے بات کرنا   جائز ہے، لیکن یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی آوازیں  بلند کریں ،(شرعی اجازت کے بغیر) باتوں کو زیادہ کریں   ،نرم انداز سے باتیں ہوں کیونکہ عورت کے انداز(style) سے مرد مائل ہوتے(یعنی دل میں غلط باتیں پیدا ہوتی ہیں)، اِسی وجہ سے تو عورت کا اذان دینا جائز نہیں ہے۔(رد المحتارعلی الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،ج۲، ص۹۷، مطبوعہ کوئٹہ ،مُلخصاً)

(۲) لوگوں کے ساتھ   نرمی  سے  ملنا، نرم انداز (polite behaviour) میں باتیں کرنا مستحب ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ مداہنت() نہ پیدا ( یعنی  دینِ اسلام نے جہاں نرمی سے منع کیا ہے، وہاں نرمی نہ) ہو۔بدمذہب سے گفتگو کرے تو اس طرح نہ کرے کہ وہ سمجھے میرے مذہب کو اچھا سمجھتا ہے، برا نہیں جانتا (بہار شریعت ح۱۶، ص۶۵۴، مسئلہ۱۱،مُلخصاً) ۔  پہلی بات تو یہ ہے کہ   بد مذہب سے دوستی کرنا یا تعلقات  ( relation) رکھنا یا رشتہ داری کرنا حرام، حرام اور حرام ہے۔ اگر کبھی کسی سفر وغیرہ میں بدمذہب ملے تو اس کے ساتھ نرمی، عاجزی اور محبّت بھرا انداز رکھنا، اپنی آخرت کو برباد کرنا اور اپنے دل سے اللہ  و رسول(عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) کی محبّت کم کرنے والا کام ہے(۳)مسلمانوں کا دل خوش کرنے  کی نیّت سے چھوٹوں کے ساتھ شفقت بھرا(kind) اور بڑو ں کے ساتھ ادب والا(respectful) انداز رکھئے،اِنْ شَاءَ اللہ! (یعنی    اللہ کریم    نے چاہا تو)ثواب بھی ملے گا اور چھوٹے بڑے سب آپ کی عزّت کریں گے (۴)چلا چلا کر(sarcastic tone) بات کرنا سنّت نہیں(۵)جب تک دوسرا بات کر رہا ہو، اطمینان(calmly) سے سنئے۔ اس کی بات کاٹ کراپنی بات شرو ع کر دینا سنّت نہیں(۶)بات چیت کرتے ہوئے بلکہ کسی بھی حالت(condition) میں قہقہہ(guffaw) نہ لگائیے کہ سر کار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا  (۷)فرمانِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جو چپ رہا اُس نے نجات پائی(۸) امام غزالی رحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ گفتگو (یعنی بات چیت) کی چار(4) قسمیں(types) ہیں : (1) مکمَّل  نقصان  والی بات(مثلاً گالی دینا) (۲) مکمَّل  فائدے والی بات (جیسے شریعت کے حکم کے مطابق (according) نیکی کی دعوت دینا) (3)ایسی بات جس میں نقصان بھی ہو اور فائدہ بھی  (مثلاً مختلف انداز (diffrenet style)سے بات کرنا کہ اس انداز سے نیکی کی دعوت دینا اور اپنی بات سمجھانا  آسان ہوجاتا ہے مگر اس میں خطرہ ہےکہ اس طرح بات کرنے والا ریاکاری یا حُبّ جاہ(یعنی عزّت کی خواہش) میں پڑ جائے) (4)نہ فائدہ  ہو نہ  نقصان(مثلاً فضول باتیں کہ کرنے والے کو اس سے نہ ثواب ملتا ہے، نہ گناہ)۔تو پہلی قسم(  یعنی  مکمَّل  نقصان  والی بات) سےہمیشہ دور رہنا ضروری ہے،دوسری قسم (یعنی مکمَّل  فائدے والی بات ) ضرور کریں (مگریہ بھی  وہ ہی  کر سکتا ہےکہ جسے اتنا علم ہو کہ  جان سکے کونسی بات واقعی مکمّل طور پر  فائدے والی ہے)، تیسری قسم (یعنی جس میں نقصان بھی ہو اور فائدہ بھی  ) اس کے بولنے میں احتیاط(caution) کرے  بلکہ بہتر ہے کہ نہ بولے(کہ کہیں ایسا  نہ ہو کہ کسی گناہ میں پڑ جائے) اور چوتھی قسم(یعنی جس میں  نہ فائدہ ہو اور نہ ہی نقصان، تو اس)  میں وَقت ضائع(waste) نہ کرے۔ نتیجہ یہ ہے کہ  ا ن  چار قسم کی باتوں میں  فرق کرنا مشکل ہے لہٰذا  (عام حالت(condition)  میں)خاموشی بہتر ہے(مراٰۃ المناجیح ج۶ ص۴۶۴، مُلخصاً) ۔ (550 سنتیں اور آداب ص۳۶ تا ۳۴ ملخصاً)

       یہ یاد رہے کہ بعض صورتوں(cases) میں بولنا واجب اور لازم ہے(مثلاً کوئی گناہ کر رہا ہے اور ہمیں مضبوط خیال(strong assumption)   ہے کہ اُسے اِ س گناہ سے منع کریں گے تو گناہ سے رُک جائے گا، اب اسے گناہ سے روکنا واجب ہے، اگر لکھ کر یا اشارے سے اُسے سمجھا نہیں سکتے تو بول کر  ہی سمجھانا  ضروری ہوگا اور عام طور پر اس صورت(case)  میں  بولنا ہی پڑتا ہے)۔اسی طرح  نیکی کی دعوت چاہے کسی مُستحب  (یعنی ایسا ثواب کا کام کہ جسے کرنا لازم نہ ہو  ، کرے تو ثواب  اور نہ کرے  تو کسی قسم کی کوئی پکڑ یا گناہ  نہیں ) ہی کی طرف بُلایا جائے، تب بھی اس کے لیے بولنا اچھا ہے اور اچھی نیّت سے بولنا ثواب کا کام ہے(بلکہ عُلَمائے کِرام کی دینی  ذمہ داریوں(religious obligations) میں سے یہ بھی   ہے یا عُلَمائے کِرام  کی شان یہ بھی  ہے کہ وہ فرض سے لے کر مُستحب کی طرف بُلاتے اور حرام سے لے کر منع کی گئی باتوں سے روکتے ہیں)۔ مزید (more) دنیا کی جائز باتیں بھی  اچھی نیّت سے کرنا ثواب کا کام ہے، مثلاً باپ کا اپنی اولاد کو کاروبار کا طریقہ اور  کاروباری مسائل بتانا تاکہ وہ سیکھ کر کما سکیں کہ بَچّوں کی کاروباری تربیت (business training)بھی والد کی اخلاقی ذمہ داری (moral responsibility)ہے۔

      الحاصل:گفتگو زندگی کا حصّہ ہے،لیکن گفتگو کرنے یا سننے والے کو اتنا علم ہو کہ اُس کے منہ سے کوئی بات کُفر یا گمراہی یا گناہ بھری  (مثلاً   غیبت، تہمت(یعنی الزام لگانے۔blame) ،جھوٹی تعریف (flattering) وغیرہ)یا گناہوں کی طرف لے جانے والی(مثلاً ایسی عاجزی کے  الفاظ ، جن کی دل  تائید (support)نہ کر رہا ہو) نہ نکلے، اسی طرح سننے والے کے لیے بھی لازم ہے کہ  وہ جو بات سُن کر راضی(agree) ہو رہا ہوتو اس بات میں  نہ کُفر ہو، نہ گمراہی اور نہ گناہ۔حقیقت یہ ہے کہ  انسان کی اپنی زندگی میں  خوش طبعی(دل لگی، جائز مذاق۔ cheerfulness )کی بھی اہمیّت(importance) ہے کہ اس سے انسان ترو تازہ(fresh) ہوتا ہے اور یہ تازگی(freshness) انسان کو عبادت اور اس کے دنیاوی کاموں میں مدد دیتی ہے تو  ایسی جائز باتیں کرنے والے کو بہارِ شریعت   کے اس مسئلے پر عمل کرنا چاہیے:اُنسیت(یعنی محبّت) کی بات چیت کرنا جیسے میاں بیوی میں یا مہمان سے  کی جاتی ہے، یہ جائز ہے اس قسم کی باتیں کرے تو آخر میں اللہ کریم کا ذکر، تسبیح ا ور (توبہ و) استغفار  کر لے (بہار شریعت ح۱۶،ص۴۳۶،مسئلہ۳، مُلخصاً) ۔مگر یاد رہے کہ اس طرح کی باتوں میں بھی   کوئی گناہ یا دل آزاری(heartbreak)والی بات نہ ہو۔

چھینک کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)چھینک کے وَقت سر جھکایئے(bow your head)، منہ چھپایئے او رآوا ز آہستہ نکالئے، چھینک کی  زیادہ آواز نکالنا حماقت (stupidity) ہے  (۲)چھینک آنے پراَلْحَمْدُ للّٰہ!کہنا چاہیے (خزائن العرفان صفحہ3پر طحطاوی کے حوالے سے چھینک آنے پر اللہ   کریم کی  حمد(مثلاً اَلْحَمْدُ للّٰہ!کہنے) کو سُنّتِ مُؤَکَّدہ لکھا ہے) (۳)بہتر یہ ہے کہ ا َلْحَمْدُ للّٰہ ربّ العٰلَمِیْن  یا   اَلْحَمْدُ للّٰہ عَلیٰ کُلِّ حَال کہا جائے (۴)سننے والے پر واجِب ہے کہ فوراً:  یَرْحَمُکَ اللہ!(یعنی اللہ کریم  تجھ پر رحم فرمائے)کہے ۔ اور اتنی آواز سے کہے کہ چھینکنے والا خود سن لے (۵) جواب سن کر چھینکنے والا کہے:  یَغْفِرُ اللہُ  لَنَا وَلَکُمْ! (یعنی اللہ کریم  ہماری اور تمہاری مغفِرت فرمائے) یا یہ کہے: یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ! (یعنی اللہ کریم تمہیں ہدایت دے اورتمہارا حال دُرُست کرے) (۶)چھینکنے والے کو چاہیے کہ زور سے حمد کہے تا کہ کوئی سنے اور جواب دے (۷)چھینک کا جواب ایک مرتبہ واجب ہے، دوسری بار چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُ للّٰہ کہے تو  اب دو بارہ جواب  دیناواجب نہیں  لیکن مستحب(اور ثواب کا کام) ہے (۸)چھینک  کاجواب دینا اس صورت(case) میں واجب ہوگا جب چھینکنے والا  اَلْحَمْدُ للّٰہ!کہے اور  (۹)اگر چھینکنے والےنےحمد نہ کی ( مثلاً اَلْحَمْدُ للّٰہ! نہ کہا)تو(اب چھینک سننے والے پر) جواب دینا(یعنی یَرْحَمُکَ اللہ! کہنا، واجب)  نہیں (۱۰) خطبے کے وقت کسی کو چھینک آئی تو سننے والا ،اس کو جواب نہ دے (۱۱)کئی اسلامی بھائی موجود ہوں اور  کچھ نے(یا ایک نے) چھینک کا جواب دے دیا تو سب کی طرف سے جواب ہوگیا مگر بہتر یہی ہے کہ سننے والے سب لوگ جواب دیں(۱۲) دیوار کے پیچھے کسی کو چھینک آئی اور اس نے اَلْحَمْدُ للّٰہ!کہا تو سننے والا اس کا جواب دے (۱۳)نما زمیں چھینک آئے تو  خاموش رہے اور اَلْحَمْدُ للّٰہ!کہہ لیا تو بھی نماز ہو جائے گی  لیکن اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد حمد کرے(یعنی  سلام پھیرنے کے بعداَلْحَمْدُ للّٰہ!پڑھے) (۱۴)  یاد رہےاگر  کسی نے چھینک کا جواب دے دیا، مثلاً کسی کو چھینک  آئی ، اُس نے اَلْحَمْدُ للّٰہ!کہا اور نماز پڑھنے والے نے، نماز  ہی میں جواب کی نیّت سے  یَرْحَمُکَ اللہ! وغیرہ کہہ دیا تو نماز ٹوٹ جائے گی(اوپر جو مسئلہ بتایا گیا ،وہ  خود چھینکنے والےکے بارے میں ہے جبکہ یہ  مسئلہ دوسرے کی چھینک پر جواب دینے کے بارے میں ہے ) (۱۵)کافر کو چھینک  آئی اور اس نے اَلْحَمْدُ للّٰہ!کہاتو جواب میں یَھْدِیْکُمُ اللہُ! (یعنیاللہ کریم تجھے ہدایت کرے) کہا جائے۔(550 سنتیں اور آداب ص۳۷ تا ۳۶ ملخصاً)

()

 

 (1)  جواب دیجئے:

س۱) نفقہ کسے کہتے ہیں؟

س۲)   نفقے    کے شرعی مسائل کی  تفصیل (detail) بتائیں ۔

 (2)  جواب دیجئے:

س۱)   رشتہ داروں کے کچھ حقوق (rights)بتائیں۔

س۲)   والدین کے کچھ حقوق بتائیں۔

 (3) ہمارے ہاں کئی چیزیںعاریت    کے طور پر بھی دی جاتی ہیں،  تفصیل (detail) جانے کے لیے Topic number :129 دیکھیں۔

 (4)  جواب دیجئے:

س۱)   قرض    کے شرعی مسائل  کی  تفصیل (detail) بتائیں ۔

 (5)   مسکین اور فقیر   کی تفصیل (detail)جانے کے لیے Topic number : 126 دیکھیں۔

 (6)    نفقے  کی تفصیل(detail) جانے کے لیے Topic number : 136 دیکھیں۔

(7)    مُداہنت کی تفصیل  (detail)کے لیےپاکیزہ زندگی  3   part : ، topic number:69  دیکھیں۔

 (8)  جواب دیجئے:

س۱)    جوئے    کے شرعی مسائل  کی  تفصیل (detail) بتائیں ۔

س۲)   رزقِ حلال کے مسائل کی  تفصیل (detail) بتائیں ۔

 (9)  جواب دیجئے:

س۱)    زینت   کے شرعی مسائل کی  تفصیل (detail) بتائیں ۔

(10)  منافق   کی تفصیل  (detail)کے لیےپاکیزہ زندگی  3   part : ، topic number:107  دیکھیں۔

 (11) عورتوں کے سفرکی تفصیل(detail) جانے کے لیے Topic number : 143 دیکھیں۔

 (12)  کفو  کے بارے میں تفصیل(detail) جانے کے لیےدین کے مسائل  4   part : ، Topic number : 174 دیکھیں۔

 (13) جواب دیجئے:

س۱)    شرعی پردہ کیا ہے،  مرد وعورت کےایک دوسرے کو دیکھنے کے شرعی مسائل کی  تفصیل (detail) بتائیں ۔

س۲)   لڑکوں کو کیا کیا احتیاطیں (precautions)کرنی چا ہئیں؟

(14)   ’’ عرش ‘‘ کی تفصیل جاننےکے لیے،دین کی ضروری باتیں  3   part : ،   Topic number : 111 دیکھیں۔

 (15) کچھ دعوتیں  ، رشوت بن جاتی ہیں اس کی تفصیل(detail) جانے کے لیے Topic number : 133 دیکھیں۔

 (16) مل کرجماعت  سے نماز پڑھنے سے پہلے، اذان کی طرح کے الفاظ پڑھے جاتے ہیں،اِسے اقامت کہتے ہیں۔ یہ الفاظ اذان کی طرح ہوتے ہیں  مگر اس میں ’’ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح  ‘‘کے بعد دو مرتبہ   ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلاۃ‘‘ پڑھتے ہیں۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۴۷۰،مسئلہ۴۱ ماخوذاً)

 (17)  (۱)اذان اور اقامت  کے بعد کسی عالمِ دین، بزرگ یا نیک شخص سے گھٹی دلوائی جائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ گھٹی دینے والا کوئی میٹھی شے خود چبا کر بچّے کے منہ میں ڈال کر تالو (palate)پہ مَل دے۔  ( محرم الحرام  1441،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

(۲)حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا   فرماتی ہیں: رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے  پاس بچّے لائے جاتے توحُضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ان کے لئے برکت (blessing)کی دعا کرتے اور تحنیک فرماتے(گھٹّی دیتے)۔ (مسلم، ص۱۳۴، حدیث:۶۶۲)

(۳)مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:تحنیک مستحب ہے کہ جب بچّہ پیدا ہو عُلَمائے کِرام  یا پیر صاحبان یا نیک لوگوں  میں سے کسی کے پاس بچےّ کو لے جایا جائے اور وہ کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں (نزھۃ القاری، ج۵،ص۴۳۰،مُلخصاً) ۔نیک لوگوں سے گھٹی دلوانے سے بچےّ کے ایمان اور اخلاق اچھا ہونے کی  اُمید(hope)ہے۔(  شعبان المعظم 1441،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

 (18) مسکین اور فقیر   کی تفصیل(detail) جانے کے لیے Topic number : 126 دیکھیں۔

 (19) جواب دیجئے:

س۱)   دعوتوں کے شرعی مسائل کی  تفصیل (detail) بتائیں ۔

س۲)   عقیقے اور نام رکھنے کے شرعی مسائل کی  تفصیل (detail) بتائیں ۔

 (20) ’’ نفقے ‘‘ کے مسائل کی تفصیل(detail) جانے کے لیے Topic number : 136 دیکھیں۔

(21)    مُداہنت کی تفصیل  (detail)کے لیےپاکیزہ زندگی  3   part : ، topic number:69  دیکھیں۔

 (22) جواب دیجئے:

س۱)   چھینک کی سنتیں اور آداب بتائیں۔

س۲)     سلام کی سنتیں اور آداب بتائیں۔

(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)