’’ دین کے مسائل ‘‘(part 03 D)

 

’’کچھ سنتیں اور آداب ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

        اللہ   کریم  سیدھے راستے پر چلنے والے، سنّتوں  پر عمل کرنے والے، سفید بالوں والے شخص سے حیا فرماتا ہے(یعنی یہ) کہ وہ( نیک شخص، اگر) اللہ   کریم سے سوال کرے اور وہ اسے عطا نہ فرمائے(یعنی ایسا نیک آدمی جب اللہ کریم سے دعا کرتا ہے تو اللہ کریم،اس کی دعا کو قبول فرما لیتا ہے)۔

(معجم الاوسط ، من اسمہ محمد، ج۴،ص۸۲ ، حدیث :۵۲۸۶)

واقعہ(incident):  سنّت پر عمل  کی برکت(blessing)  سے مغفرت ہوگئی

      حضرت  ہبۃُ اللہ  طَبَرِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے انتقا ل کے بعد، حضرت علی بن حسین بن جَدَّاء رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے انہیں خو اب میں دیکھ کر پوچھا:مَا فَعَل اللہُ  بِکَ یعنی اللہ کریم  نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ جواب دیا:  اللہ کریم نے میری مغفرت فرمادی ۔عرض کی: کس سبب سے؟تو انھوں نے  کہا :سنّت پر عمل کی برکت سے۔

(سیراعلام النبلاء، اللالکائی(ہبۃ اﷲ بن الحسن) ،ج ۱۳،ص۲۶۹، رقم:۳۷۸۸، مُلخصاً)

مسواک  کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)مسوا ک پیلو(salvadora persica) یا زیتون(olive) یا نیم (neem)وغیرہ کڑوی لکڑی کی ہو (۲)مسواک کی موٹائی چھنگلیا یعنی چھوٹی اُنگلی کے برابر ہو (۳)مسوا ک ایک بالشت(span of hand ) سے زیادہ لمبی نہ ہو ورنہ اُس پر شیطان بیٹھتا ہے(۴)اِس کے ریشے (bristles)نرم ہوں کہ سخت رَیشے دانتوں اور مَسُوڑھوں (gums)کے درمیان خلا (gap)کر دیتے ہیں (۵)  مِسواک تازہ(fresh) ہوتو بہتر ورنہ کچھ دیر پانی کے گلاس میں رکھ کر نرم کرلیجئے (۶) بہتر یہ ہے  کہ  مسواک کے ریشے روزانہ کاٹتے رہئے (۷)دانتوں کی چوڑائی (width) میں مسواک کیجئے (۸)جب بھی مسواک کرنی ہو کم از کم تین (3)بار کیجئے (۹)ہر بار دھو لیجئے (۱۰)مسواک سیدھے ہاتھ میں اِس طرح لیجئے کہ چھوٹی اُنگلی اس کے نیچے اور بیچ کی تین(3) اُنگلیاں اُوپر اور انگوٹھا سرے پر(یعنی بالکل اوپر) ہو (۱۱)پہلے سیدھی طرف کے اوپر کے دانتوں پر پھر اُلٹی طرف کے اوپر کے دانتوں پر پھر سیدھی طرف نیچے کے دانتوں پر پھر اُلٹی طرف نیچے کے دانتوں پر مسواک کیجئے(۱۲)مٹھی باندھ کرمسواک کرنے سے بواسیر (piles)ہونے کا خطرہ  ہے (۱۳)مِسواک جب(اتنی چھوٹی ہو جائے کہ) اِستعمال نہ کر سکتے ہوں  ، تب  بھی اسے مت پھینکیں کہ یہ وہ چیز ہے کہ جس کے ساتھ سنّت  پوری کی جاتی  ہے لھذا کسی جگہ اِحتیاط(honour)  سے رکھ دیجئے یا دَفن کردیجئے ۔ (550 سنتیں اور آداب ص۴۹ تا ۴۷ ملخصاً)  

زلفو ں کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)  پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مبارَک زُلفیں کبھی  آدھے کان مبارَک تک ہوتیں تو (۲)کبھی کان مبارَک کی لَو(ear lobe)   تک اور(۳)کبھی بڑھ جاتیں تو مبارَک  کندھوں(shoulders) کوجھوم جھوم کر چومنے لگتیں (۴)ہمیں چاہئے کہ   بدل بدل کر تینوں سنتوں پر عمل  کریں،یعنی کبھی آدھے کان تک تو کبھی پورے کان تک تو کبھی کندھوں تک زلفیں رکھیں(۵)  یاد رہے کہ جب کندھوں  تک  زلفیں بڑھائیں  تو اس بات کاخیال رکھنا ضروری ہے کہ بال کندھوں سے نیچے نہ جائیں (کیونکہ  مرد کو عورتوں کی طرح کندھے(shoulder) سے نیچے بال رکھنا  گناہ اور ناجائز ہے)،اپنے بالوں کی لمبای چیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ  غسل کے بعد کنگھی کرتے ہوئےغور سے دیکھ لیا کریں کہ بال کہیں کندھوں سے نیچے تو نہیں جا رہے (۶)بعض لوگ سیدھی یا اُلٹی جانب مانگ(hair parting)    نکالتے   ہیں یہ سنّت کے خلاف ہے (۷)سنّت  یہ ہے کہ اگر سر پربال ہوں تو بیچ میں مانگ نکالی جائے  (۸)مرد کو اختیار (option) ہے کہ سر کے بال منڈائے (shave)    یا بڑھا  کر مانگ نکالے   ( یاد رہے!حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے صرف اِحرام سے باہر ہوتے ہوئے سر منڈایا یعنی سر کے سب بال  مکمل صاف کر دیے) (۹)آج کل قینچی یا مشین کے ذَرِیعے بالوں کو  مختلف طریقوں پر  کاٹا جاتا ہے کہ کہیں سے بڑے  ہوتے ہیں تو کہیں سے چھوٹے کر دیئے جاتے ہیں، ایسے بال رکھنا سنّت نہیں  (۱۰)مرد کو داڑھی یا سرکے سفید بالوں کو سُرخ یا زرد رنگ کر دینامُستَحَب ہے، اس کیلئے مہندی لگائی جا سکتی ہے( مگر  مر د وعورت دونوں کوکالا رنگ لگانے کی اجازت نہیں بلکہ جو رنگ ، دیکھنے میں  کالا نظر آئے ، اُسے لگانے کی بھی اجازت  نہیں) (۱۱)عورت کا سر مُنڈوانا حرام ہے (۱۲)عورت کو سر کے بال کٹوانے جیسا کہ  نصرانی (christian) عورتوں(کندھوں کے اوپر تک)  کٹواتی ہیں ،ناجائز و گناہ ہے اوراس (طرح بال کٹوانے والی عورت) پر لعنت آئی ہے۔ شوہر نے ایسا کرنے کو کہا تب بھی یہی حکم ہے کہ عورت ایسا کرے گی تو گنہگار ہوگی کیونکہ شریعت کی نافرمانی (disobedience)  کرنے میں کسی (یعنی ماں باپ یا شوہر وغیرہ)کاکہنا نہیں مانا جائے گا(۱۳) چھوٹی بَچِّیوں کے بال بھی مردوں کی طرح  (کندھوں سے اوپر تک)نہ کٹوایئے، بچپن ہی سے ان کو  لمبے بال رکھنے کا عادی  بنائیں  ۔

 (550 سنتیں اور آداب ص۴۳ تا ۴۱ ملخصاً)

تیل ڈالنے، کنگھا کرنے کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)حضرت  انس رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ اللہ   کریم کے مَحبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سر   مُبارک میں اکثر تیل لگاتے اور داڑھی شریف میں کنگھی کرتے اور اکثر سر مبارَک پر کپڑا (یعنی سر بند شریف ) رکھتے تھے یہاں تک کہ وہ کپڑا تیل سے تر ہوجاتا تھا (الشمائل المحمدیہ للترمذی،ص۴۰ حدیث۳۲) ۔ معلوم ہوا’’سربند‘‘ استعمال کرنا سنّت ہے،اسلامی بھائیوں کو چاہئے کہ جب بھی سر میں تیل ڈالیں، سُنّت کو پورا کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا کپڑاسر پر باندھ لیا کریں،اِس طرح اِنْ شَاءَ اللہ! (یعنی    اللہ کریم    نے چاہا تو) سنّت کی برکت سےٹوپی اور عمامہ شریف تیل لگنے سے بچ جائیں  گے (۲)مکّی مدنی مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  جب تیل استعمال فرماتے تو پہلے اپنی اُلٹی ہتھیلی(pam) پر تیل ڈال لیتے، پھر پہلے دونوں اَبروؤں (eyebrows)پر پھر دونوں آنکھوں پر اور پھر سرمبارک پر لگاتے تھے۔( کنز العمال  ج۷ ص۴۶ رقم ۱۸۲۹۵)(۳) مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب داڑھی مبارک کوتیل لگاتے تو ’’عَنْفَقَہ‘‘ (یعنی نچلے ہونٹ اور ٹھوڑی کے درمیانی بالوں) سے لگانا شروع فرماتے۔(اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج۵ص۳۶۶حدیث ۷۶۲۹)(۴)داڑھی میں کنگھی کرنا سنّت ہے (۵)بغیر بِسمِ اللہ پڑھے تیل لگانااور  بکھرے ہوئے بال(scattered hair)  رکھنا خلافِ سنّت ہے (۶)حدیثِ پاک میں ہے: جو بغیربِسمِ اللہ پڑھے تیل لگائے تو 70 شیطان اس کے ساتھ(تیل لگانے میں) شریک (involve)ہو جاتے ہیں۔(عمل اليوم والليلة لابن سنى ،  ص١١٦ ،  حديث: ١٧٤)(۷)تیل ڈالنے سے پہلے ’’ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَحِیْم ‘‘ پڑھ کر الٹے ہاتھ کی ہتھیلی میں تھوڑا سا تیل ڈالئے، پھر پہلے سیدھی آنکھ کے ابر و(eyebrow) پر تیل لگائیے پھر الٹی اَبْرُو پر، اس کے بعد سیدھی آنکھ کی پلک(eyelash) پر ، پھر اُلٹی پر ، اب سر میں تیل ڈالئے ۔ اور داڑھی کو تیل لگائیں تو نیچے والے ہونٹ اور ٹھوڑی(chin) کے درمیانی بالوں سے  شروع کیجئے (۸)عورَتوں کو لازم ہے کہ کنگھی کرنے میں یا سر دھونے میں جو بال نکلیں انھیں کہیں چھپا دیں کہ ان پر اجنبی(یعنی ایسا شخص جس سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام نہ ہو) کی نظر نہ پڑے(۹)حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے روزانہ کنگھی(comb) کرنے سے منع فرمایا ( ترمذی ج۳، ص ۲۹۳ ،حدیث ۱۷۶۲) ۔  عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ اس  طرح کنگھا کرنا مکروہ تنزیہی (یعنی ناپسندیدہ) ہے اور یہ اس لیے کہ مرد کو سجنے  یعنی ہر وقت خوبصورت بننے کی کوششوں میں  مصروف(busy)  نہیں رہنا چاہیے(550 سنتیں اور آداب ص۴۷ تا ۴۳ ملخصاً) ۔امام مناوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   فرماتے ہیں: جس شخص کے بال زیادہ ہوں اور اُسےکنگھی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ  روزانہ(daily) کنگھی کر سکتا ہے (یعنی اس کا روز کنگھی کرنا مکروہ نہیں)(فیض القدیرج۶ ص۰۴ ۴ ، مُلخصاً) (۱۰)کنگھی کرنی ہو توسیدھی طرف سے شروع کریں  جیسا کہ  اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ بی بی عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا  فرماتی ہیں: دو جہاں کے سردار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہر کام  کو سیدھی طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے یہاں تک کہ جُوتا پہننے ،کنگھی کرنے اور طہار ت کرنے میں بھی (سیدھی طرف  سے شروع کرنے کو پسند کرتے تھے)۔ ( بُخاری ج،۱ ص ۸۱ ،حدیث: ۱۶۸ ) (۱۱)نمازِ جمعہ کے لیے تیل اور خوشبو لگانا مستحب ہے  (۱۲)روزے کی حالت میں داڑھی مونچھ میں تیل لگانا مکروہ نہیں  (۱۳)اگر کسی کی داڑھی مکمّل  ایک مُٹھی(fist) ہے، اب اُس نے اِس  نیّت سے تیل لگایا کہ داڑھی بڑھ جائے تو یہ مکروہ ہے اور روزے میں  زیادہ مکروہ اور زیادہ ناپسندیدہ ہے(۱۴)  میِّت کی داڑھی یا سر کے بالوں میں کنگھی کرنا،ناجائز وگناہ ہے ۔ لوگ میِّت کی داڑھی مونڈ ڈالتے (shave کر دیتے) ہیں یہ بھی ناجائز  اورگناہ ہے۔  مگرگناہ میِّت پر نہیں بلکہ داڑھی  مونڈنے  والےاور  داڑھی مونڈنے کا حکم کرنے والوں پر ہے(کیونکہ گناہ کرنے کا حکم دینا بھی گناہ ہے)۔(550 سنتیں اور آداب ص۴۷ تا ۴۳ ملخصاً)

ناخن کاٹنے کی  کچھ سنتیں اور آداب:

 ہاتھوں کے ناخن کاٹنے کے طریقہ:

(۱)پہلے سیدھے ہاتھ کی شہادت کی انگلی(یعنی ہاتھ کی وہ اُنگلی کہ جو انگوٹھے کے ساتھ ہوتی ہے)  کے ناخن  کاٹنا شرو ع کر کے ترتیب وار (sequentially)  سیدھے ہاتھ کی چھوٹی انگلی  تک کے  ناخن کاٹ لیجئے ( یعنی سیدھے ہاتھ کے  انگوٹھے کے علاوہ(other)  باقی   ناخن اس انداز(style) سے کاٹ لیں) ۔

(۲)اب اُلٹے ہاتھ کی  چھوٹی انگلی سے شروع کرکے تر تیب وار (sequentially) ساری انگلیوں  بلکہ اُلٹے  ہاتھ  کےانگوٹھے  کےناخن  بھی کاٹ لیجئے۔

وضاحت(explanation):)الف) سیدھے ہاتھ میں شہادت کی انگلی  سے ناخن کاٹنا شروع کریں گے اور چھوٹی اُنگلی پر ختم کریں گے، مگراُلٹے ہاتھ  میں چھوٹی اُنگلی سے کاٹنا  شروع کریں گے اور  سب انگلیوں کے بعدانگوٹھے کا ناخن بھی  کاٹ لیں۔(ب) سیدھے ہاتھ کے ناخن کاٹتے ہوئے،  سیدھےانگوٹھے کا ناخن نہیں کاٹیں گے اوراُلٹے ہاتھ   کے ناخن کاٹتے ہوئے اُلٹے انگوٹھے کا ناخن کاٹیں گے۔

(۳) اب آخر میں سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن کاٹ لیجئے۔

اس  کو آسانی سےسمجھنے کے لیے   دعا کی  طرح ہاتھ اُٹھائیں(کہ  ہتھیلیاں(palms)آسمان کی طرف ہوں) اب سیدھے ہاتھ کی شہادت کی انگلی کا ناخن کا ٹتے ہوئےتر تیب وار (sequentially)  اُلٹے ہاتھ کے انگوٹھے  کا ناخن کاٹ کر ،آخر میں سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن کاٹ لیجیے۔

{2} پائوں کے ناخن کاٹنے میں بہتر یہ ہے کہ: (۱)سیدھے پائوں کی چھوٹی انگلی سے ناخن کاٹنا شروع کریں  اور ترتیب وار (sequentially)  سیدھے پاؤں کے  انگوٹھے کا ناخن   بھی کاٹ  لیں ، پھر  اُلٹے پائوں کے انگو ٹھے  کے ناخن  کو کاٹ  کراُلٹے پاؤں کی چھوٹی اُنگلی تک  کے ناخن کاٹ لیجیئے۔

 (۲)جنابت کی حالت (یعنی غسل فرض ہونے کی صورت)  میں ناخن کاٹنا مکروہ (تنزیہی) ہے  ()دانت سے ناخن کاٹنا مکروہ(تنزیہی) ہے اور اس سے برص ( leprosyیعنی جسم پر سفید دھبے) کی بیماری  کا  خطرہ (danger) ہے  (۳)ناخن کاٹنے کے بعد ان کو دفن کر دیجئے اور اگر ان کو پھینک دیں تو بھی حرج(یا گناہ) نہیں (۴)  کٹے ہوئے ناخن   بیتُ الْخَلا   (toilet)یا غسل خانے (bathroom) میں ڈال دینا مکروہِ(تنزیہی) ہے کہ اس سے بیماری پیدا ہوتی ہے (۵) بدھ کے دن ناخن نہیں کاٹنے چاہئیں کہ برص (یعنی جسم پر سفید دھبے) ہوجانے کا  خطرہ (danger)ہے البتہ اگر اُنتالیس(39) دن سے نہیں کاٹے تھے، آج بد ھ کو چالیسواں دن (40th day)ہے اگر آج نہیں کاٹتا توچالیس دن سے زیادہ  ہوجائیں گے اور کل اکتالیسواں دن(41th ) شروع ہوجائے گا تو اس پر واجب ہوگا کہ آج ہی کے دن  کاٹے اس لیے کہ چالیس دن(40) سے زیادہ  ناخن رکھنا،ناجائز و مکروہِ تحریمی ہے۔(550 سنتیں اور آداب ص۵۱ تا ۵۰ ملخصاً) (۶)اگر عورت  کوحیض (یعنی منتھلی کورس۔ menstrual period   )یا نفاس(یعنی بچے کے پیدا ہونے کے بعد آنے والےوالا خون )  جاری ہے تو وہ ناخن کاٹ سکتی ہے کہ ابھی   اس پر پاکی حاصل کرنے کے لیے غسل کا حکم نہیں ہے(۷) حیض یا نفاس  ختم ہوگیااور ابھی تک غسل نہیں کیا تو اس حالت میں  اس (عورت) کے لیے ناخن کاٹنا مکروہ ہے کیونکہ اب اس پر ناپاکی کا حکم آگیا ہے کہ اس عورت پر غسل اب فرض ہوا ہے۔ اسی طرح (۸) جنبی (یعنی ناپاک شخص) کے لیے ناپاکی کی حالت میں ناخن  کاٹنا مکروہ ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص۱۲۲،۱۲۳ مُلخصاً)

لباس کی  کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)جو استطاعت(یعنی طاقت اور رقم وغیرہ) ہونے کے باوجود زیب وزینت (یعنی خوبصورتی) کا لباس پہننا صرف  تواضع(یعنی اللہ کریم  کے لیےعاجزی۔humbleness) کے طور پر چھوڑ دے ، اللہ کریم اس کو کرامت  کا حُلہ (یعنی جنّتی لباس ) پہنائے گا (۲) مالداراگر اللہ کریم کی نعمت کے اظہار کی نیّت سے (یعنی اس لیے کہ اللہ کریم کا بڑا شکر ہے کہ اُ س نے مجھے مال دیا ہے)شرعی خرابی سے پاک اچھا(یا مہنگا)لباس پہنے تو(اس نیّت سے ایسا لباس پہننا) ثواب کا کام ہے(۳)پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  کا مبارَک لباس اکثر (most of the times)سفید کپڑے کا ہوتا تھا (۴)پہنتے وَقت سیدھی طرف سے شروع کیجئےکہ  یہ سنّت ہے مثلاً جب کرتا پہنیں تو پہلے سیدھی آستین(sleeve) میں سیدھا ہاتھ  ڈالیں  پھر اُلٹا ہاتھ اُلٹی آستین میں(۵) اِسی طرح پاجامہ (یعنی شلوار یا پینٹ)پہننے میں پہلے سیدھے پائنچے  (pant)میں سیدھا پاؤں ڈالیں  اور (۶)جب(کُرتا یا پاجامہ) اُتارنے لگیں تو اس کا اُلٹ  کیجئے یعنی اُلٹی طرف سے پہلے اُتاریں پھر سیدھی طرف سے (۷)’’بہارِ شریعت‘‘ جلد 3 صَفْحَہ409  میں ہے: سنّت یہ ہے کہ دامن کی لمبائی آدھی پنڈلی(half calves) تک ہو اور آستین کی لمبائی (length)زیادہ سے زیادہ انگلیوں کے پورَوں (fingertips) تک اور چوڑائی(width) ایک بالشت (span of hand) ہو(۸)سنّت یہ ہے کہ مرد کا تہبند یا پاجامہ ٹخنے سے اُوپر رہے(۹)مرد مردانہ اور عورت زَنانہ (ladies) لباس پہنے(۱۰)چھوٹے بَچّوں اور  بَچِّیوں میں بھی اِس بات کا لحاظ رکھئے( کہ بَچّوں کو بَچّوں والا اور بَچِّیوں کو بَچِّیوں والا لباس پہنائیں ،اگر کسی نے بَچّوں کو بَچِّیوں والا یا بَچِّیوں  کو بَچّوں والا لباس پہنایا تو پہنانے والا گنہگار ہو گا)۔ہاں! جو لباس مردو عورت  یابچّہ اور بچّی دونوں میں پہنا جاتا ہو اور اس میں کوئی شرعی خرابی  بھی  نہ ہو تو دونوں پہن سکتے ہیں (۱۱)مرد کے لیے ناف (یعنی پیٹ کے سوراخ)کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک ’’عورَت‘‘ ہے، یعنی اس کا چھپانا فرض ہے۔ ناف سَتر(یعنی چھپانے والی جگہ)میں داخل نہیں اور گھٹنے (knees)داخل ہیں۔ اس زمانے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ تہبند یا پاجامہ اِس طرح پہنتے ہیں کہ پَیڑُو(یعنی پیٹ کے سواخ سے نیچے) کا کچھ حصّہ کھلا رہتا ہے، اگر کرتے وغیرہ سے اِس طرح چھپا ہو کہ جلد (skin) کی رنگت نہ چمکے(colour نظر نہ آئے) تو (ایسا لباس پہننا) جائز ہے، ورنہ حرام ہے۔(بہارِشریعت جلد۱، صَفْحَہ۴۸۱، مُلخصاً)(۱۲)تکبُّر (pride)کے  لیے(کوئی بھی) لباس  پہننا منع ہے۔ (550 سنتیں اور آداب ص۵۴ تا ۵۱ ملخصاً)

فتاوی رضویہ  سے لباس کے مدنی پھول اور  روایات :

{1})حضور پر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ) قمیص مبارک  آدھی پنڈلی(half calves) تک تھی۔(فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۷۰ مُلخصاً) (۱)مواہب شریف میں ہے: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی قمیص مبار ک کا دامن(border of shirt) اور چادر مبارک یعنی تہبند یہ دونوں آدھی پنڈلیوں تک ہواکرتے تھے۔ (لمواہب اللدینہ     ،المقصد الثالث   ، ج۲،ص۴۲۸،       مکتب اسلامی بیروت )

(۲)حضرت  عبدُ اللہ بنِ عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے روایت ہے :حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  نے ایک ایسا کرتہ پہنا ہوا تھا کہ  جو ٹخنوں (ankles)سے اوپر تک لمبا تھا ۔( المستدرک للحاکم     کتاب اللباس         دارالفکر بیروت،ج    ۴،ص۱۹۵)

(۳)قمیض میں   کم لمبائی کی  بھی  روایت موجود ہے (فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۷۰ مُلخصاً) ۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں  کہ اللہ   کریم کے   رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  کا ایک ایسا سوتی(cotton) کُرتا تھا جس کی لمبائی کم اور آستین  چھوٹی تھیں۔ (شعب الایمان،ج۵،ص۱۵۴،     حدیث: ۶۱۶۸ ،    دارالکتب العلمیۃ بیروت    )

{2}گریبان مبارک (collar)سینہ اقدس پر تھا (فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۷۰ مُلخصاً) ۔  اَشعِۃُ الْلَمْعَات میں ہے (ترجمہ) : حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ   کے قمیص مبارک کا گریبان (collar)آپ کے سینہ مبارک پر تھا، بہت سی حدیثوں سے اس  بات کا پتا چلتا ہے۔ ( اشعۃ اللمعات ، الفصل الثانی     مکتبہ، ج۳،ص۵۴۴، نوریہ رضویہ سکھر،مُلخصاً)

{3}دامن کے چاک (یعنی بٹن)کھلے ہونا ثابت ہے کہ ان پر ریشمی کپڑے(real silk fabric) کی گوٹ(مثلاً بٹن کی طرح ریشم) تھی اور گوٹ کھلے ہوئے چاکوں(یعنی بٹن کے سوارخ کی جگہ) پر لگاتے ہیں۔

(صحیح مسلم    کتاب اللباس،ج۲،ص۱۹۰،سنن ابی داؤد     کتا ب اللباس، ج     ۲،ص۲۰۵،ماخوذاً)

{4}(۱)کُسُم (یعنی ایک خاص(specific) پھول) کا رنگا ہوا (coloured)لال کپڑا، اسی طرح  کَیْسَر(یعنی زعفران، پیلے رنگ کے پھول ) کا رنگا ہوا (coloured) پیلا کپڑا مرد کو پہننا، ناجائز وممنوع ہے اور ان سے نماز مکروہ تحریمی۔ لیکن  ان کے علاوہ(other)   کسی اور چیز کے پیلےرنگ  کا لباس پہننا مرد کو بھی جائز ہے۔ خصوصا  پیلے جوتے کہ یہ سرورا ورفرحت(یعنی خوشی ) کا سبب ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۹۶ ،مُلخصاً)

(۲)حدیث میں ہے : سفید کپڑے پہنو کہ وہ زیادہ پاکیزہ اور خوب ہیں اور اپنے اموات (یعنی مرنے والوں)کو سفید کفن دو۔ ( مسند امام احمد بن حنبل     حدیث سمرہ بن جندب، ج۵،ص۱۷،         المکتب الاسلامی بیروت)

{5}    (۱)حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  نے  پاجامہ خریداہے۔اور ظاہر یہی ہے کہ خریدنا پہننے ہی کے لئے ہوگا(۲) اس میں شک نہیں کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْپیارے آقا کی ظاہری زندگی  میں، ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مُصطفیٰ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ   کی اجازت سے پاجامہ پہنتے تھے(۳)امیر المومنین حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہ جس دن  شہید ہوئے، اُس دن پاجامہ پہنے ہوئے تھے۔(فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۵۸،۱۵۹ مُلخصاً)

(۴)حضور پر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ   نے اپنی اُمّت (Ummah)  میں سے پاجامہ پہننے والی عورتوں کے لئے دعائے مغفرت کی اور مردوں کو تاکید (emphasise) فرمائی کہ خود بھی پہنیں اور اپنی عورتوں کو بھی پہنائیں کہ اس میں سَتَر زیادہ ہے (یعنی اس لباس میں جسم اچھی طرح چھپ جاتا ہے)۔ جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے اس لفظ کے ساتھ روایت ہے : اے اللہ! میری اُمّت میں سے پاجامہ پہننے والی عورتوں کی بخشش فرما۔ اے لوگو، پاجامہ پہنا کرو کیونکہ یہ تمھارے لباس میں  سب سے زیادہ ستر پوش(یعنی جسم چھپانے) والا لباس ہے۔ (کنزالعمال بحوالہ البزار     حدیث :۴۱۸۳۸،    مؤسسۃ الرسالہ بیروت ،ج  ۱۵،ص۴۶۳)

(۵) پاجامہ پہننا  مستحب بلکہ سنّت ہے۔ اگر فعلی سنّت (یعنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پہنا)نہ بھی ہو تب بھی  قولی سنّت (یعنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اسے پہننے کا فرمایا)ضرور ہے اور اگر یہ بھی نہ ہو  توکم از کم  حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تقریری سنّت تو ضرور ہے (یعنی آپ کے سامنے پہنا گیا اور آپ نے منع نہیں فرمایا) ۔ (فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۶۰ مُلخصاً)

{6}    (۱)پاجامہ لمبائی  میں ٹخنوں(ankles) سے زیادہ نہ  ہو    (۲) اگر اتنے لمبے پائچے(pants)   تَکَبُّر(pride) کے لیے ہوں تو حرام ا ورگناہ کبیرہ ہے    (۳)  اگر     تَکَبُّر(pride) کے لیے نہ ہو تو مردوں کے لئے اسے پہننا مکروہ (تنزیہی) ا ورخلاف اولٰی (یعنی ناپسند یدہ)ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۶۱ مُلخصاً)

(۴)عورتوں کا سارا پاؤں  ہی (غیر مردوں سے)چھپانے کا حکم ہے تو انھیں ٹخنوں(ankles) سے ایک بالشت (span of hand)  ازار(یا  پاجامہ وغیرہ) پائچے  لٹکانے کا حکم عزیمت کے طور پر ہے(یعنی پاؤں تک  چھپانے کا حکم ہے) اوردو بالشت (2 spans of hand)  تک رخصت ہوئی( کہ بہتر یہ ہے کہ   پورا ہی  پاؤں  چھپا لیں ) تاکہ جسم کی  حرکات سے ٹخنہ(ankles) یا پنڈلی(calve) نہ کُھل جائے۔ (فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۶۱،۱۶۲ مُلخصاً)

(۵)اسی طرح  مردکو گھٹنے (knees)کے نیچے تک کا جسم چھپانے کا حکم ہے تو کُھلاپائچہ(cuff of pant) جب وہیں تک ہوگا تو  جسم کی حرکت میں کوئی حصّہ پنڈلی (calf) یا ران (thigh) کا کُھل جائے گا لہذا  مرد کے لیے آدھی پنڈلی(half calf)   تک پاجامہ رکھنا عزیمت(یعنی اتنے رکھنے کا حکم)ہےاور ٹخنوں (ankles) تک رخصت(یعنی اجازت) ہے۔ (فتاوی رضویہ ج۲۲، ص۱۶۲ مُلخصاً)

عمامے کی  کچھ سنتیں اور آداب:

   (۱) مناسب یہ ہے کہ عمامے کا پہلا پیچ (یعنی عمامہ باندھنے کی ابتداء)سر کی سیدھی  طرف سے ہو(یعنی جب عمامہ باندھیں تو سیدھی طرف سے باندھیں) (۲) اللہ  کریم کے آخری نبیصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مبارَک عمامے کا شملہ(یعنی عمامے کے پیچھے کا  کپڑا )  عام طور پر(as usually) پشت(backیعنی پیٹھ مبارَک) کے پیچھے ہوتا تھا اور کبھی کبھی سیدھی  طرف، کبھی دونوں کندھوں (shoulders)کے درمیان دوشملے ہوتے (۳)عمامے کا شملہ (یعنی عمامے کے پیچھے  والا کپڑا )کم از کم چار اُنگل(یعنی چار اُنگلیوں کی موٹائی کے برابر) اور(۴)زیادہ سے زیادہ(آدھی پیٹھ تک یعنی تقریباً) ایک ہاتھ ہو  (بیچ کی انگلی کے اوپرسے لے کرکہنی تک کا  سائز(size) ایک ہاتھ کہلاتا ہے) (۵)عمامہ قبلہ رُخ(towards Qibla) کھڑے کھڑے باندھئے،’’ مراٰت شریف‘‘ میں ہے: عمامہ، کھڑے ہوکر باندھنا سنّت ہے مسجد میں باندھے یا کہیں اور)باندھے)۔(مراۃ، ج۶،ص۱۸۵) (۶)عمامے میں سنّت یہ ہے کہ ڈھائی(2.5) گز سے کم نہ ہو، نہ چھ(6) گز سے زیادہ اور اس طرح باندھے کہ جیسے گنبد(گول)  ہوتا ہے (۷)رومال اگربڑا ہو کہ اتنے پیچ آسکیں(یعنی اتنی بار گھوم سکے کہ) جو سر کو چھپالیں تووہ عمامہ ہی ہوگیا اور (۸)چھوٹا رومال جس سے صرف دوایک پیچ آسکیں  لپیٹنا مکروہ ہے۔ (550 سنتیں اور آداب ص۵۶ تا ۵۴ ملخصاً)

جوتے پہننے کی کچھ سنتیں اور آداب:

   (۱)جوتے پہننے سے پہلے جھاڑ لیجئے(cleanse) تاکہ کیڑا یا کنکر وغیرہ ہوتو نکل جائے(۲)سنّت یہ ہے کہ پہلے سیدھا جوتا پہنے پھر اُلٹااور اُتارتے وَقت پہلے اُلٹا جوتا اُتارے پھر سیدھا(۳) نزھۃُالقاری میں کچھ اس طرح ہے کہ : ایک    طرف حدیث کے مطابق مسجد میں جاتے  ہوئے حکم یہ ہےکہ پہلے سیدھا پاؤں مسجِد میں رکھے اور جب مسجِد سے نکلے تو پہلے اُلٹا پاؤں نکالے۔ دوسری طرف سنّت یہ ہے کہ پہلے اُلٹا جوتا  پاؤں سے اُتارے پھر سیدھا جوتا اُتارے ، تو اب دونوں کام ایک ساتھ کرنا مُشکل ہے کیونکہ  پہلے اُلٹا پاؤں جوتے سے اُتارنا ہے اور مسجد میں سیدھا پاؤں  رکھنا ہے۔ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اِس کا حل یہ ارشاد فرمایا ہے: جب مسجد میں جاناہو تو پہلے اُلٹے پاؤں کو(جوتے سے) نکال کر (اُسی )جوتے (کے اوپر) رکھ لیجئے پھر سیدھے پاؤں سے جوتا نکال کر مسجد میں آجائیں اور (۴)جب مسجِد سے باہر ہوں تو(پہلے)اُلٹا پاؤں نکال کر(اُلٹے) جوتے  پر(یعنی اوپر)رکھ لیجئے پھر سیدھا پاؤں نکال کر سیدھا جو تا پہن لیجئے پھر اُ لٹا پہن لیجئے(اس طرح جوتا پہنے کی سنّت اور مسجد میں آنے کی حدیث، دونوں ہی پر عمل ہوجائے گا) (۵)مرد مردانہ  (gents)اور عورت زَنانہ (ladies)جوتا استعمال کرے۔ ( نزہۃ القاری ج ۵ ص۵۳۰، مُلخصاً ) (۶)کسی نے حضرت    بی بی عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا  سے عرض کی کہ ایک عورت ( مردوں کی طرح)  جوتے پہنتی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مَردانی (یعنی مرد کی  نقل(copy) کرنے والی) عورَتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ یعنی عورَتوں کو مردانہ  (gents) جوتا نہیں پہننا چاہیے بلکہ وہ تمام باتیں جن میں مردوں اور عورَتوں میں  فرق ہوتا ہے اِن میں ہر ایک کودوسرے کی  نقالی (copy)کرنا منع ہے، نہ مرد عورت کی  نقل کرے، نہ عورَت مرد کی نقل کرے  (۷)اِستعمال شدہ(used) جوتا اُلٹا پڑا ہوتو سیدھا کردیجئے (یاد رہے! جوتا اُلٹا رکھا   رہے تو تنگدستی(poverty) ہوتی ہے)۔ (550 سنتیں اور آداب ص۸ تا ۷ ملخصاً)

خوشبو لگانے کی سُنّتیں اور آداب:

   (۱)نَماز میں اللہ   کریم  سے مُناجات (یعنی دعا بھی) ہے تو اس کے لئے زینت کرنا عطر لگانا مُستَحب (اور ثواب کا کام)ہے۔(نیکی کی دعوت، ص۲۰۷) (۲)آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہمیشہ اچھی خوشبو استعمال کرتے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے  کا فرماتے  (۳) ناخوشگوار(یعنی اچھی نا لگنے والی) بو(odour) آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ناپسند فرماتے (۴)  مَردوں کو اپنے لباس پر ایسی خوشبو استعمال کرنی چاہيے جس کی خوشبو پھیلے مگر رنگ کے دھبے وغیرہ نظر نہ آئیں (۵)عورتوں کے لئے خوشبو لگانا  اس صورت(case) میں  منع ہے کہ جب وہ خوشبو غیر مردوں تک پہنچے، اگر وہ گھر میں عطر لگائیں جس کی خوشبو  شوہر، اولادیاماں باپ تک ہی پہنچے تو حرج (یا گناہ)نہیں (۶)  سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ  وَسَلَّم کی  مُبارک عادت یہ تھی کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم’’مشک‘‘اپنے پاکیزہ سر کے بالوں اور داڑھی  شریف میں (بھی) لگاتے (یاد رہے!   آج کل زیادہ تر  کیمیکل (chemical)والی خوشبو استعمال ہوتی ہیں، داڑھی یا سر پر خوشبو لگانی ہو تو مشورہ ہے کہ خالص عطر(pure perfume) استعمال کریں)۔(سنتیں اور آداب ۸۳، ۸۴، ۸۵، مُلخصاً) باڈی اسپرے (body spray)اور  پرفیوم(perfume) وغیرہ ، ظاہر جسم پر استعمال والی چیزیں  ہیں(یعنی یہ کھائے نہیں جاتے)،  لہذا اس کے لگانے کی اجازت ہے اوراسے لگاکرنمازپڑھنے کی بھی اجازت ہے ۔ہاں!  کچھ عُلَمائے کرام  پرفیوم (perfume) استعمال کرنے سے منع فرماتے ہیں لھذا، اگر اسے لگانے سے بچا جائے تو بہتر ہے۔(دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر:wat:325، مُلخصاً)

چلنے کی کچھ سنتیں اور آداب:

   (۱)گلے میں سونے یا کسی بھی دھات (metal) کی چین (chain) ڈالے، رعب(awe) ڈالنے کے لئے گریبان کھول کر اکڑتے ہوئے ہرگز نہ چلیں کہ یہ احمقوں (idiots) ، مغروروں (arrogant) اور فاسقوں (یعنی  گناہ کرنے والوں)کا انداز (style)ہے(۲) گلے میں سونے کی چین (gold chain)یا بریسلیٹ (bracelet)  پہننا مرد کیلئے حرام اور دیگر دھاتوں(metals)کی چین وغیرہ) بھی ناجائز ہے (۳)اگر کوئی رُکاوٹ نہ ہو تو راستے کے کنارے کَنارے (side of the road)درمِیانی رفتار(medium speed) سے چلئے،نہ اتنا تیز کہ لوگ آپ کو دیکھنے لگیں  کہ جناب کہاں دوڑے دوڑے  جا رہا ہے! اور نہ اِتنا آہستہ کہ دیکھنے والے کو آپ بیمار لگیں (۴)راستہ چلنے میں پریشان نظری(یعنی بلا ضرورت ادھر اُدھر دیکھنا) سنّت نہیں، نیچی نظریں کئے پُروَقار(honoured) طریقے پر چلئے (۵)کسی کے گھر کی بالکنی (balcony) یاکھڑکی کی طرف بلاضرورت نظر اٹھا کر دیکھنا مناسب نہیں (۶)چلنے یا سیڑھی چڑھنے اُترنے میں یہ احتیاط(caution) کیجئے کہ جوتوں کی آواز پیدا نہ ہو (۷)راستے میں دو (2)عورَتیں کھڑی ہوں یا جارہی ہوں تو ان کے بیچ میں سے نہ گزریں کہ حدیثِ پاک میں اس سے منع کیا گیا ہے(۸)راستہ چلتے ہوئے، کھڑے بلکہ بیٹھے ہونے کی صورت میں بھی لوگوں کے سامنے تھوکنا، ناک  صاف کرنا، کان کھجاتے رہنا، بدن کا میل اُنگلیوں سے چھڑانا،  جگہ جگہ کھجانا وغیرہ تہذیب(civilization) کے خلاف ہے (۹)بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ راستہ چلتے ہوئے جو چیز بھی  سامنےآئے اُسے لاتیں مارتے جاتے ہیں، یہ بہت بُرا طریقہ ہے،اِس طرح پائوں زخمی (injured)ہونے کا بھی  خطرہ  رہتا ہے، نیزاَخبارات یا لکھائی والے ڈبوں، پیکٹوں(packets) اورمِنرَل  واٹر کی لیبل والی خالی بوتلوں (empty labeled bottles of mineral water)وغیرہ پر لات مارنا بے اَدَبی بھی ہے۔(550 سنتیں اور آداب ص۶ تا ۳ مُلخصاً)

بیٹھنے کی کچھ سنتیں اور آداب:

   (۱)حضرتِ  ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا  فرماتےہیں کہ: میں نے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو کعبہ شریف کے صحن میں اِحتِبا  کی صورت میں تشریف فرما دیکھا(۲)اِحتباکا مطلب یہ ہے کہ آدمی سرین (یعنی جسم کے جس حصّے پر آدمی بیٹھتا ہے) پر بیٹھے اور اپنی دونوں پنڈلیوں(calves) کو دونوں ہاتھوں میں لے لے۔اس طرح بیٹھنا عاجِزی (اور نرمی رکھنے) کا ایک اندازہے(۳)ہمارے جیسے لوگ جب اس طرح بیٹھیں تو ہمیں  چاہئے کہ ’’پردے میں پردہ‘‘ کریں یعنی  گھٹنوں (knees)سے  پاؤں  تک چادر ڈال لی جائے، اگر کرتا سنّت کے مطابق آدھی پنڈلی تک ہو تو اُس کے دامن سے بھی ’’پردے میں پردہ‘‘ کیا جاسکتا ہے (۴)حضورِ پرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب نماز فجر پڑھ لیتے چار زانو(یعنی چوکڑی مار کر۔sitting cross-legged) بیٹھے رہتے ،یہاں تک کہ سورج اچھی طرح  نکل جاتا (۵)نماز کے  علاوہ (other)بھی دو زانو(folded legs) بیٹھنا افضل ہے (۶)نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قبلے کو اس لئے پیٹھ (back) فرمایا کرتے تھے کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جنہیں علم سکھارہے ہیں یا وَعظ(یعنی بیان) فرمارہے ہیں اُن کا رُخ(direction) قبلے کی طرف رہے  (۷)حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  کبھی  کسی مجلس (یعنی بیٹھک )میں کسی کی طرف پائوں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے، نہ اولاد کی طرف نہ اَزواجِ پاک(یعنی اُمّھاتُ المؤمنین) رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُنَّ کی طرف نہ غلاموں خادِموں کی طرف (۸)پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کاآنے والے کیلئے سرکنا (کھسکنا۔move away) حدیثوں سے پتا چلتا ہے (۹)جب بیٹھیں تو جوتے اتارلیں،  اس سے آپ کے قد موں کوآرام ملے گا۔(550 سنتیں اور آداب ص۱۱ تا ۸ ملخصاً)

سرمہ کی  کچھ سنتیں اور آداب:

   (۱)مردوں کو کالا سرمہ  صرف زینت (یعنی خوبصورتی)کے لئے لگانا جائز  نہیں (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ، ج۵، ص۳۵۹) ۔کالا سرمہ  اگر زینت(یعنی خوبصورتی)  کے لیےنہ ہو تو(مرد کے لیے بھی)  مکروہ نہیں۔ ( فتاوٰی عالمگیری ج۵ ص۳۵۹، مُلخصاً)  (۲)سرمہ رات کوسوتے وقت استعمال کرنا سنّت ہے(۳) اے عاشقانِ رسول! تکریم (یعنی عزت ) کے جتنے بھی کام ہوتے سب ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سیدھی طرف سے شرو ع کیا کرتے، لہٰذا پہلے سیدھی آنکھ میں سرمہ لگا یئے پھر الٹی میں۔   (۴) سرمہ استعمال کرنے کے تین  طریقے بیان کیے گئے ہیں : (1) کبھی دونوں آنکھوں میں  سرمے کی تین ۔تین سلائیاں(picks) لگانا ، تو(2) کبھی دونوں آنکھوں میں دو ۔دو لگانا، (3)  کبھی سیدھی  آنکھ میں تین اور الٹی میں دوسلائیاں لگانا۔اب اگر اس طرح سرمہ لگایا جائے

 کہ:

(1)پہلے ایک سلائی کوسرمے والی کر کے سیدھی آنکھ میں  لگائیں پھر دوسری مرتبہ (second time)سلائی کوسرمے والی کر کے اُلٹی آنکھ میں لگائیں۔

(2) اب  تیسری مرتبہ (third time) بھی سلائی کوسرمے والی کر کے سیدھی آنکھ میں  لگائیں پھر چوتھی بار

 (fourth time) سلائی کوسرمے والی کر کے اُلٹی آنکھ میں لگائیں۔

 (3) پھر پانچویں مرتبہ(fifth time) جب سلائی سرمے میں ڈالیں گے تو سیدھی آنکھ میں لگانے کے بعد(بغیر سرمہ دانی میں ڈالے) اُلٹی آنکھ میں لگا دیں گے۔اس طرح کر نے سےاِنْ شَا ءَ اللہ! تینوں طریقوں  پر عمل ہوجائے گا۔ (550 سنتیں اور آداب ص۳۸  ملخصاً)

سونے جاگنےکی  کچھ سنتیں اور آداب:

   (۱) سونے سے پہلے یہ دعا پڑھ لیجئے:اَللّٰھُمَّ بِاسْمَکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰ ( ترجمہ: اےاللہ کریم! میں تیرے نام کے ساتھ ہی مرتا  اور جیتا  (یعنی سوتا اور جاگتا )ہوں) (۲)دوپہر کوقیلولہ (یعنی کچھ دیر لیٹنا) مستحب(اور ثواب کا کام) ہے۔غالباً یہ ان لوگوں کے لیے(مستحب) ہوگا جو رات جاگ کر علم حاصل کرتے یا عبادت کرتے ہیں۔ (بہار شریعت، ج۳، ص۴۳۵،مَاخُوذاً) (۳) سونے میں مستحب یہ ہے کہ باطہارت (مثلاً باوضو)سوئے اور (۴)کچھ دیر سیدھی کروٹ (right side) پر سیدھے ہاتھ کو  سیدھے گال (right cheek)  کے نیچے رکھ کر قبلہ رُخ(towards Qibla)  سوئے پھر اس کے بعد  اُلٹی  کروٹ پر(۵)جاگنے کے بعد یہ دعا پڑھئے : اَلْحَمْدُ  لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَ اِلَیْہِ النُّشُوْر (ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کریم کے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) (۶)جب لڑکے اور لڑکی کی عمر دس (10)سال کی ہوجائے تو ان کو الگ الگ سلانا چاہیے بلکہ اس عمر کا لڑکا اتنے بڑے (یعنی  اپنی عمر کے) لڑکوں یا (اپنے سے بڑے ) مردوں کے ساتھ بھی نہ سوئے(۷)میاں بیوی جب ایک چار پائی پر سوئیں تو دس(10) سال کے بچے کو اپنے ساتھ نہ سلائیں (۸) نیند سے  اُٹھ کرمسواک کیجئے(۹)دن کے ابتدائی حصے(یعنی جب سورج نکلے، اُس وقت) میں سونا یا مغرب و عشا کے درمیان میں سونا مکروہ ہے (550 سنتیں اور آداب ص۴۰ تا ۳۸ ملخصاً) ۔عشاء سے پہلے سونا،اُس کے لیےمکروہ(تنزیہی) ہے کہ جسے نماز کا وقت یا جماعت فوت ہونے کا ڈر ہو۔(رد المحتار، کتاب الصلوۃ،ص۳۳، کوئٹہ)

([1])

’’مسجد، قبلہ  رُخ(towards Qibla) ا ور مدرسہ ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

      اختلافِ اُمّت کے وقت میری سنّت کومضبوطی سے تھامنے(یعنی  سنّت پر عمل کرنے) والا ہتھیلی(palm) میں اَنگارے(embers) رکھنے والے کی طرح ہو گا۔ (کنزالعمال، کتاب الایمان والاسلام ،ج  ۱،ص۱۰۵، حدیث:۹۳۳)

نبیٔ کریم ، رء وفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے حضرت  بلال بن حارث رَضِیَ اللہُ عَنْہسے فرمایا :

      (اے بلال)جان لو!۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی : یَا رَسُوْلَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کیاجان لوں ؟ آپصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دوبارہ  فرمایا:اے بلال جان لو ! عرض کی : یَا رَسُوْلَ اللہ !  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  کیاجان لوں ؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جس نے میری ایسی سنّت کو زندہ کیا جو میرے بعد مٹ چکی تھی (یعنی لوگوں نے اس پرعمل کرنا چھوڑ دیا تھا) تو اسے ان تمام لوگوں کے اجر کے برابر ثواب ملے گاجو(اسے دیکھ کر یا اُس کی کوشش سے) اِس سنّت پر عمل کریں گے اور ان کے ثواب میں بھی کچھ کمی نہیں ہوگی۔(ترمذی ،کتاب العلم، ۴/۳۰۹، حدیث:۲۶۸۶)

مسجد و قبلے کے کچھ  مسائل:

{1}   مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے، مسجد کو راستہ بنانے کامطلب یہ ہے کہ اپنے کسی کام سے مسجد کی ایک طرف(مثلاً ایک دروازے) سےداخل ہو کر دوسری طرف (مثلاً دوسرے دروازے سے)غیر مسجد کی طرف نکل جانا۔یہ گزرنا اگر ضرورت و مجبوری کی وجہ سے ہو تو جائز ہے ، مثلاً: راستہ بند ہے اور دوسری طرف جانے کے لیے مسجد کے راستے کے علاوہ (other)کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں،توضرورت کی وجہ سے گزرنا ، جائز ہے اور بغیر  ضرورت اس طرح گزرنا ، ناجائز و گناہ ہے ۔ (دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ، فتوی نمبر: fsd-8062، مُلخصاً)

{2}  اندر جانے کے بعد اپنی اس  حرکت پر شرمندہ(embarrassed)  ہوا تو جس دروازے سے جانے کی نیّت سے اندر آیا تھا، اُس  کی  جگہ  دوسرے دروازے سے نکلے اور ()بعض عُلَمائے کِرام نے فرمایا ہے کہ: یہ شخص پہلے نماز پڑھے پھر نکلے اور() بعض عُلَمائے کِرام نے فرمایاکہ اگر بے وضو ہے تو جس دروازے سے گیا ہے، اسی سے نکلے۔

{3}      مسجد میں جوتے پہن کر جانا مکروہ ہے۔

{4}      جس کے بدن یا کپڑے پر نجاست (یعنی ناپاکی)لگی ہو وہ مسجد میں نہ جائے۔

{5}  مسجد میں جگہ کم  ہوگئی تو جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے وہ (نماز پڑھ لینے کے بعد)بیٹھے ہوئے (اسلامی بھائی)کو کہہ سکتا ہے کہ نماز پڑھنے کے لیے جگہ دے دیں ، چاہے  وہ اسلامی بھائی  ذکر  کر رہا ہو یا تلاوت قرآن  کر رہا ہو یا درس دے رہا ہو چاہے وہ (رمضان کے آخری دنوں کا) مُعْتَکِف  ہی کیوں نہ ہو(یاد رہے کہ معتکف نماز کے لیے جگہ دے گا مگر  مسجد سےباہر نہیں جائے گا)۔

{6}     مسجد کے سائل(یعنی مسجد میں بھیک مانگے والے) کو دینا منع ہے۔ جبکہ مسجد میں بھیک مانگنا حرام ہے۔(بہار ِ شریعت ح۳، مسئلہ ۲۱،ص۶۴۷،مُلخصاً)

 {7}  طالبِ علم نے مسجد کی چٹائی کا تنکا نشانی کے لیے کتاب میں رکھ لیا یہ معاف ہے۔  اس کا یہ مطلب نہیں کہ اچھی چٹائی سے تنکا توڑ کر نشانی بنائے، کہ اس طرح بار بار کرنے سے چٹائی خراب ہو جائے گی۔

{8}    قبلہ کی جانب ہدف یعنی نشانہ بنا کر،اس پر تیر مارنا ی (shoot an arrow)ا اس پر گولی مارنا مکروہ ہے۔

{9}     مسجد میں نکاح کرنا مستحب ہےمگر  ان باتوں کا خیال رکھنا ضرور ی ہے کہ  ()نکاح کے وقت  شور نہ ہو() ایسی

باتیں جو احترام مسجد کے خلاف ہیں  وہ بھی نہ ہوں  لہٰذا اگر معلوم ہو کہ مسجد کے آداب کا خیال نہیں  رہے گا تو

مسجد میں نکاح نہ پڑھوائیں۔(بہارِ شریعت ح ۱۶، ص۴۹۷ ،مسئلہ۳،۵،۶،۸،۹،۱۲،۱۳  ملخصاً)

 مسجد میں ان آداب کا لحاظ رکھے:

  (۱) جب مسجد میں داخل ہو تو سلام کریں جبکہ جو لوگ وہاں موجود ہیں، ذکر یا  درس  وغیرہ میں  مصروف (busy) نہ ہوں اور  ()اگر وہاں کوئی آدمی  نہ ہو یا جو لوگ ہیں وہ(نماز وغیرہ میں) مصروف ہیں تو (اتنی آواز سے ) اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا مِنْ رَّبِّنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصّٰلِحِیْنَ  (یعنی ہم پر اوراللہ کریم کے نیک بندوں پر ہمارے ربّ کا سلام ہو)کہےکہ کوئی  نماز ی وغیرہ پریشان نہ ہو  (۲) وقت مکروہ([2]) نہ ہو تو دو(2)رکعت تَحِیَّۃُ الْمَسْجَد پڑھے    (۳) خرید و فروخت(buying and selling) نہ کرے  (۴) کُھلی ہوئی تلوار مسجد میں نہ لے جائے (۵) گمی ہوئی چیز(lost thing) مسجد میں(ایسے) نہ ڈھونڈے (کہ جس میں شور ہو اور نہ اعلان (announcement) کرے یا کروائے)  (۶)ذِکرکےعلاوہ(other) کوئی آواز بلند نہ کرے(یہ بھی اُس  وقت کہ جب مسجد میں کوئی نماز یا قرآن نہ   پڑھ  رہا ہویا علمِ دین سیکھنے سکھانے کا سلسلہ نہ ہو)  (۷) دُنیا کی باتیں نہ کرے   (۸) لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے(یعنی پچھلی صفوں سے آگے آنے کے لیے لوگوں   کےکندھوں پر سے گزرتا  ہوا نہ جائے)   (۹)جگہ کےلیے کسی سے جھگڑا نہ کرے (یعنی میں یہاں بیٹھونگا یہ میری جگہ ہے وغیرہ نہ کہے)  (۱۰) اس طرح نہ بیٹھے کہ دوسروں کو بیٹھنے میں تکلیف ہو   (۱۱)نمازی کے آگے سے نہ گزرے   (۱۲)مسجد میں  نہ تھوکے(ہاں! وضو خانے میں ضرورۃً تھوک سکتے ہیں)   (۱۳) انگلیاں نہ چٹکائے (یعنی انگلیوں سے ٹخ ٹخ کی آواز نہ نکالے)  (۱۴) نجاست(یعنی ناپاک چیزوں) اور بَچّوں اور پاگلوں سے مسجد کو بچائے  (۱۵)مسجد میں زیادہ سے زیادہ اللہ کریم کا ذکر کرے۔ (بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۴۹۷ ، مسئلہ ۷ملخصاً) (۱۶)سگریٹ پینے کے فوراً بعد مسجد میں جانا جائز نہیں کیونکہ سگریٹ پینے والے کے منہ سے سخت بدبو آتی ہے اور بدبو ختم کئے بغیر مسجد میں جانا حرام و گناہ ہے۔ہاں! اگر سگریٹ پینے والا مسجد میں آنے سے پہلے کسی بھی  (جائز) طریقے  سے  منہ کی بدبو ختم کر لے تو  مسجد میں  جا سکتا ہے۔(فروری2021، ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)(۱۷)مسجد میں گڑ گڑا کر (مِنتیں کرتے ہوئے یا روتے ہوئے)یا نمازیوں کے آگے سے گزر کر یا گردنیں پھلانگ کر سوال کرنا(یعنی بھیک مانگنا)، چاہے اپنی ضرورت کے لئے  ہویا دوسرے کی ضرورت  کے لئے دونوں صورتوں(cases) میں  ہی ناجائز و حرام ہے۔ اگر یہ باتیں نہ بھی  ہوں، تب بھی اپنی ضرورت کے لئے   مسجد میں سوال کرنا منع ہے، کیونکہ جن کاموں کے لئے مسجدنہیں بنائی جاتی، وہ کام مسجد میں کرنا منع ہوتے ہیں۔ ( مارچ2021،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

مسجداورقبلہ رُخ(towards Qibla) تھوکنا:

(۱)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جو قبلے کی طرف تھوکے، قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا تھوک، دونوں آنکھوں کے درمیان ہوگا (سنن أبي داود، کتاب الأطعمۃ،  الحدیث: ۳۸۲۴، ج۳، ص۵۰۵ ) ۔   حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےفرمایا: مسجد میں تھوکنا  گناہ ہے۔(المسند للإمام أحمد بن حنبل، مسند الأنصار،  الحدیث: ۲۲۳۰۶، ج۸، ص۲۹۲)(۲) مسجد کی چھت پر وطی (میاں بیوی کی خاص ملاقات)اور بول و براز (یعنی پیشاب اور پاخانہ) حرام ہے،  اسی طرح جنب( یعنی ناپاک  ) اور حیض(یعنی منتھلی کورس۔ menstrual period   ) و نفاس والی(یعنی  جسےبچے کے پیدا ہونے کے بعد   سے خون آ رہا ہو  اور  چالیس (40)  دن   بھی پورے نہ ہوئے ہوں، ایسی عورت ) کو مسجد کی چھت پر جانا حرام ہے کہ  چھت بھی مسجد کے حکم میں ہے۔ (۳) مسجد کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا  بھی مکروہ ہے     (۴)کیچڑ سے پاؤں سنا ہوا ہے(یعنی کیچڑ لگ کر سوکھ گئی ہو)، اس کو مسجد کی دیوار یا ستون(pillar) سے  صاف کرنا منع ہے(۵) اسی طرح(مسجد کے)  پھیلے ہوئے غبار (یعنی مٹی)سے  صاف  کرنا بھی  ناجائز ہے لیکن (۶)  اگر(مسجد کا) کوڑا (الگ ، خارجِ مسجد میں)جمع ہے تو اس سے  صاف  کر سکتے ہيں(۷)  اسی طرح  مسجد میں کوئی لکڑی پڑی ہوئی ہے(یعنی فاضل ( extra )لکڑی ) کہ عمارت مسجد (premises of Masjid)  کا حصّہ نہ ہو تواس سے بھی صاف کرسکتے ہیں(۸) چٹائی کے بے کار ٹکڑے سے جس پر نماز نہ پڑھتے ہوں اُن سے بھی صاف کر  سکتے ہیں، مگر(ان باتوں سے بھی ) بچنا افضل ہے۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۳،ص ۶۴۷،مسئلہ۴،۱۶)

 قبلہ رخ(towards Qibla) بیٹھنا :

(۱)سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عام طور پر قِبلہ رُخ(towards Qibla) ہوکر بیٹھتے تھے  (۲)فرمانِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مجالِس(بیٹھنے کی جگہوں) میں  سب سے عزّت والی جگہ ،وہ ہے جس میں قبلے کی طرف مُنہ کیا جائے  ۔

)اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط ج ۶ ص ۱۶۱ حدیث ۸۳۶۱دارالکتب العلمیۃ بیروت((۳)مُبلِّغ اور مُدرِّس کے لیے سُنّت  یہ ہے کہ  بیان  کے وقت  پیٹھ(back)  قِبلے شریف  کی طرف رکھیں  تاکہ ان سے عِلم کی باتیں  سننے والوں  کا رُخ  قبلے شریف  کی  طرف ہوسکے، جیسا کہ عُلَمائے کِرام   فرماتے ہیں کہ :نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  قِبلے کو اس لئے پیٹھ فرمایا کرتے تھے تاکہ  عِلم سیکھنے والوں  کا رُخ (direction)قبلے کی طرف رہے۔ )اَلْمَقاصِدُ الْحَسَنۃص۸۸ دارالکتاب العربی بیروت((۴)حضرت عبدُاللہ بن عمررَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا اکثر(عام طور پر) قِبلے کومُنہ کرکے بیٹھتے تھے ۔(الادب المفردص۲۹۱حدیث۱۱۳۷مدینۃ الاولیاء ملتان) (۵)قرآنِ پاک نیز درسِ نظامی  پڑھانے والوں کو بھی چاہئے کہ(ممکن ہو تو) پڑھاتے وقت  سنّت کی نیّت سے اپنی پیٹھ (back)    قبلے شریف  کی  طرف کر لیں تاکہ طلباء کرام قِبلہ رُخ(towards Qibla) ہو جائیں (۶)دینی طَلَباء یا بیان سننے والے اُسی صورت(case) میں  قِبلہ رُخ بیٹھیں  کہ اُستاد صاحب یا عالم صاحب کی طرف بھی رُخ  اور توجّہ رہے ورنہ عِلم کی باتیں  سمجھنے میں مشکل ہوگی (اور ان حضرات کی طرف سے توجّہ ہٹانا بھی ادب کے خلاف(against) ہے) (۷) خطیب(جمعہ اور عید وغیرہ میں ایک طرح کا عربی بیان کرنے  والے) کیلئے خُطبہ دیتے وقت کعبے کو پیٹھ(back) کرنا سنّت ہے (۸)خصوصاً(specially)،تِلاوت کرتے،دِینی کتابیں پڑھتے، ذکر کرتے، دُرُود وسلام  پڑھتے  اور اس طرح کے برکت والے(blessed) کام کرتے ہوئے کوئی   رکاوٹ (یا مشکل وغیرہ)نہ ہوتو اپنا  منہ قِبلہ رُخ (towards Qibla)کرکے بیٹھنے کی عادت بنائیں  (۹)ممکن ہو تو میز کُرسی وغیر ہ اس طرح رکھئے کہ جب بھی بیٹھیں  آپ کا مُنہقِبلے شریف کی طرف ہو جائے(۱۰)پاک و ہند نیز نیپال،بنگال اور سی لنکا وغیرہ میں  جب کعبے کی طرف مُنہ کیاجا ئے تو  تقریباًمدینے شریف  کی طرف بھی رُخ (direction)ہوجاتا ہے ۔ (جنات کا بادشاہ ص ۱۵تا ۱۷،مُلخصاً)

مسجد میں  وظیفے:

 {1}اعمال(یعنی اپنے کسی کام کے پورا ہوجانے ، مثلاً نوکری مل جانے کے لیے وظیفے وغیرہ پڑھنا) مسجد وخارج مسجد (یعنی مسجد سے باہر)دونوں جگہ جائز ہیں جبکہ(اس کی چند شرطیں(preconditions) ہیں :) (۱)اس کے لئے مسجد کی جگہ نہ روکے(مثلاً اس طرح  گٹھلیاں وغیرہ پھیلا دینا کہ نمازیوں کی نماز میں پریشانی ہو) کہ یہ جائز نہیں اور (۲)وہ عمل(یعنی وظیفہ) بھی جائز(مثلاً قرآن و حدیث سے ملنے والا ذکر ہو، کسی غیر مسلم کا منَتر(جادو) وغیرہ نہ) ہو اور (۳)اس سے مقصود(مثلاً نوکری کا مل جانا)  بھی امر جائز (یعنی جائز کام)ہو اور(یاد رہے!) اگر عمل(وظیفہ) اصلا یا قصداً (یعنی جان بوجھ کر۔deliberately)ناجائز(کلمے والا پڑھا) ہو تو مسجد میں اور بھی سخت تر حکم رکھے گا مثلاً زن وشو (یعنی میاں بیوی )میں بغض (نفرت)پیدا کرنا (خود ایک  ناجائز کام ہے اور) اس کے لئے عمل(وظیفہ کرنا بھی) حرام ہے تو اسے مسجد میں پڑھنا حرام تر(یعنی سخت حرام) ہوگا، یوہیں اعمال سفلیہ (مثلاً جادو کے لیے حرام الفاظ بولنا) کہ اصل میں حرام ہیں ،مقصود محمود (یعنی ناجائز الفاظ سے جادو کرنا ، اگر کسی جائز کام )کے لئے بھی(ہو تب بھی ) مسجد میں حرام تر(یعنی سخت حرام) ہوں گے ۔

{2}پھر جو جائز عمل جائز نیت سے ہے، اس میں حالتیں دو (2)ہیں: (۱) ایک اہل علم کی کہ(یہ جو  وظیفہ کرتے ہیں اور) وہ اسماء الٰہیہ(یعنی اللہ کریم کے برکت والے(blessed)  ناموں ) سے تَوَ سُّل (یعنی انہیں وسیلہ بناتے ہیں)اور اپنے جائز مقصد (یعنی کاموں)کے لئے اللہ کریم کی طرف تَضَرُّع (یعنی  ان ناموں کے ساتھ عاجزی سے اللہ کریم   کا ذکر) کرتے ہیں یہ(یعنی اس طرح کرنا) دعا ہے اور دعا مَغْزِ  (یعنی  بہترین) عبادت ہے مسجد میں ہو خواہ (چاہے)دوسری جگہ (اس طرح کا وظیفہ کیا جائے کہ یہ  ثواب کا کام ہے)۔

(۲)دو م(دوسرے) عوام نافہم(یعنی ناسمجھ لوگ) کہ ان کا مطمح نظر اپنا مطلب دنیوی ہوتاہے (یعنی وہ یہ وظیفہ صرف اس لیے کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا دنیاوی کام پورا ہوجائے) اور(اس) عمل(وظیفے) کو نہ بطور دعا(یعنی دعا کے لیے نہیں ) بلکہ بطور تد بیر بجالاتے(یعنی اپنا  مقصد پورا کرنے کے لیے کرتے) ہیں ولہذا جب اثر(نتیجہ) نہ دیکھیں اس (وظیفے) سے بے اعتقاد ہوجاتے ہیں(یعنی اسے چھوڑ دیتے ہیں) اگر (اس وظیفے کو)دعا سمجھتے (تو اس سے) بے اعتقادی(یعنی وظیفہ اور اللہ کریم کا ذکر چھوڑ دینے) کے کیا معنٰی تھے کہ حاکم(یعنی  اللہ کریم ) پر حکم کس کا (چل سکتا ہے؟ کہ وہ تو سب کا مالک ہے)ایسے اعمال نہ مسجد میں عبادت ہوسکتے ہیں نہ غیر(یعنی مسجد کے علاوہ (other) کسی جگہ) میں(بھی عبادت نہیں اور ان پر ثواب بھی نہیں ملتا ) بلکہ جب کسی دنیوی مطلب کے لئے ہوں(تو ایسے وظیفے) مسجد میں نہ پڑھنا چاہئے ۔فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهَذَا (  صحیح مسلم، کتا ب المساجد،   جلد۱،ص ۲۳)اس لئے کہ مساجد اس کام کے لئے نہیں بنائی گئیں۔وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ (فتاوی رضویہ ج ۲۳،ص۳۹۹) ([3])

خلاصہ(conclusion) :

مثلاً مسجد میں نفل  نماز پڑھنی ہو اور کوئی  حاجت(ضرورت) بھی ہو جیسے:  عمر لمبی ہونا، بلاؤں سے حفاظت ہونا، اللہ کریم   کے علاوہ کسی کا مُحتاج نہ رہنا تو اس طرح نیّت کرے کہ: میں دو (2)رکعت نماز پڑھتا ہوں اللہ کریم   کے لیے اور اس نماز کو  وسیلہ بناتا ہوں کہ اس کے صدقے اللہمجھے لمبی عمر دے یا بلاؤں سے حفاظت کرے یا اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرے۔اہم بات:  ایک شخص ہر سال یہ نفل ، ان کاموں کے لیے پڑھتا ہے۔ اب چاہے مقصد (نتیجہ، وہ کام) پورا  ہو یا نہ ہو یہ عمل اللہکریم   کی رضا(یعنی خوشی) اور ثواب کے لیے جاری رکھے۔

مسجد ، مدرسے  وغیرہ کے لیے زکوۃ ، فطرہ اور چندے(donation)   کی تفصیل(detail):

عموماًتین قسم کے  عَطیّات (رقم وغیرہ) زکوۃ، فطرہ اور چندوں میں ملتے ہیں:

 (۱)واجِبہ (جو واجب اور لازم ہو) (۲)نافِلہ (چندہ ۔dunation) (۳) مَدّات ِمخصوصہ(کسی خاص (specific) کام کے لیے) ۔

(۱) عَطیّاتِ واجِبہ:اِن میں زکوٰۃ ، فطرہ،عُشْر،عُشْر کی رقم(amount)،قَسم کے کفارے،روزوں کے فِدیے،نمازوں کے فِدیے،مَنَّتِ واجِبہ کی رقَم اور حج یا عُمرے کے صَدَقے کی رقَم بھی شامل ہے([4])۔

(۲) عَطیّاتِ نافِلہ:اِن میں صَدَقہ، خَیْرات(،چندہ۔dunation) اور ہَدِیّہ (تحفہ۔gift)وغیرہ شامل ہیں۔

(۳)مداتِ مخصوصہ:اِس میں مسجد و مدرسے کی  تعمیرات (constructions)و دیگر اَخْراجات(other expenses) نیز لنگر اور نیازکے لئے خاص طور پر(especially) دئیے جانے والے عَطیّات(رقم وغیرہ) شامل ہیں۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۷،۸،مُلخصاً)

چندے   کے  الفاظ( اصل مالک(جس نے رقم  بھیجی ہے یا خود دینے آئے ہوں، اُن) کو یہ سمجھا نا ہوگا):

{1}مسجد کے لیےعطیات (چندے) کے الفاظ: مسجد  کی جگہ خریدنے،اس کی  تعمیرات(construction) کرنے  اور  ہر طرح کے اخراجات(expenses) کے لیے رقم (amount) خرچ (spend)کرنے کی اجازت دے دیں۔

{2}  مَدرسے کے لیے عطیات (چندے)کے الفاظ: مدرسے  کی جگہ خریدنے،اس کی  تعمیرات (construction) کرنے  اور  ہر طرح کے اخراجات(expenses) کے لیے رقم (amount) خرچ (spend)کرنے کی اجازت دے دیں   ۔

{3} مسجد  اور مدرسے کے اخراجات پورا کرنے کے لیےعطیات (چندے) کے الفاظ: ہماری مسجد(مثلاً جامع مسجد فیضانِ عطار، بلاک S،نارتھ ناظم آباد، کراچی )  اور اس کے مدرسے کے  ہر طرح کے اخراجات (expenses) کے لیے رقم (amount) خرچ (spend)کرنے کی اجازت دے دیں   ۔

{4}کسی دینی  مرکز وغیرہ  کے لیےعطیات  (چندے) کے الفاظ: دینی مرکز کی جگہ خریدنے،اس کی  تعمیرات(construction) کرنے کے لیے رقم (amount) خرچ (spend)کرنے کی اجازت دے دیں   ۔ یاد رہے کہ دینی مرکز میں مسجد، مدرسہ   کے ساتھ ساتھ  دینی کاموں کے لیے کمرے وغیرہ بھی بنائے جائیں گے۔ (تجہیز و تکفین کا طریقہ ص۲۸۳،بالتغیر)

 {5}) اگر  کوئی( دینی تحریک  ،یا  انجمن ، یا کمیٹی ہے کہ جو مختلف(different) دینی کام کرتی ہے اور اس کے دینی کام لوگوں کوبھی معلوم ہیں ، تو ان کاموں کے لیے عطیات  (چندے) کے الفاظ: خدمت دین کے تمام شعبہ جات کے جملہ اخراجات کیلئے دعوت اسلامی ٹرسٹ سے تعاون فرمائیں۔

{6}) اگر  کوئی(تحریک  ،یا  انجمن ، یا کمیٹی )ہے کہ جو مختلف(different) دینی  اور سماجی(social)کام کرتی ہے  ، تو ان کاموں( کے لیے عطیات  (چندے) کے الفاظ: آپ کے چندےکو کسی بھی جائز، دینی، اصلاحی،  فلاحی (social)، روحانی، خیرخواہی اوربھلائی کے کام میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔

نوٹ:   چندہ دینے والا ’’ ہاں ‘‘ کہہ دے اور وہ  چندے کا اصل مالِک ہو تو ہی ’’اجازت‘‘ مانی جائے گی۔ لہٰذا   چندہ دینے والے سے پوچھ لیا جائے کہ یہ کس کی طرف سے ہے ؟اگر کسی اور کا نام بتائے تو اب اس (نام بتانے والے غیر مالک)کا ’’ ہاں ‘‘ کہہ دینا کافی (enough)  نہیں ہو گا بلکہ  اصل مالِک سے فون وغیرہ کے ذَرِیعے رابطہ(contact) کرے۔(ابلق گھوڑ سوار،ص  ۴۵، بالتغیرً)

وضاحت(explanation): یہ الفاظ صرف سمجھانے کے لیےہیں، جس کام کے لیے چندہ کرنا ہو، ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘ کو بتا کر، چندہ کرنے کے الفاظ لے لیں۔

چندے(donation)   کی  احتیاطیں(cautions)   :

{1} بستوں،اسٹالز پر عَطیّات کرنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ  پہلے سے جمع شدہ (collected)واجِبہ اور نافِلہ عَطیّات(رقم)  میں سے کچھ بڑے نوٹوں کو کُھلا کرواکر (ہوسکے تو  نفلی  رقم پر ربر بینڈ (rubberband)   لگا کر یا کسی تھیلی وغیرہ میں  رکھ کر،اس کے ساتھ ایک  پرچی پہ نافلہ لکھ کر رکھیں ، اسی طرح  واجبہ  پر واجبہ لکھ کر) الگ الگ رکھ لیجئے۔اب  واجبہ چندہ، واجبہ میں اور نفلی نفلی میں  رکھیں اور  چندہ دینے والے کو بقایا رقم واپس کرنے کی ضرورت پڑے تو  واجبہ سے واجبہ اور نفلی سے نفلی واپس  کیجئے۔

{2}اپنی جیب سے اگر کھلے پیسے لیں تو کسی کو گواہ(witness) بنالیجئے اور رجسٹر یا کاپی میں بھی لازمی طور پر لکھ لیجئے تاکہ عَطیّات (رقم وغیرہ)کے لکھنے(entryکرنے) اور دینے(payکرنے)میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۱۵،۱۴مُلخصاً)

{3} عَطیّات کے بستوں پر جمع شُدہ (collected)عَطیّات (رقم وغیرہ)کی حفاظت(saftey) کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اِس کی ایک صورت (case)یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جیسے جیسےعَطیّات کیش یا چیک کی صورت میں جمع ہوتے جائیں، آگے یا بینک میں جمع کرواتے جائیں ، ایک یا دو دن سے زیادہ اپنے پاس نہ  رکھیں۔ (چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۱۶،۱۵،بالتغیر)

{4} مَدّاتِ مخصوصہ(کسی خاص(specific) کام کے لیے ملنے والا چندہ) ،مَدّاتِ واجِبہ(مثلاً زکوۃ، فطرہ) اور مَدّاتِ نافِلہ(مثلاً چندہ۔dunation) میں سے ہر ایک کو الگ الگ(تھیلی یا بیگ میں حفاظت سے) ہی رکھئے اور اِن کے ریکارڈ (مثلاً رقم۔amount)بھی الگ الگ ہی  لکھیں  تاکہ آپس میں ملنے   سے مکمل طور پر بچا جا سکے۔

{5}عَطیّاتِ واجِبہ مثلاً قَسَم کے کَفّارے ، نماز کے فِدیے ، روزے کے فِدیے اور مَنّت وغیرہ میں سے کسی کے پیسے ملیں تو اُس کی مکمل تفصیل(detail) ضرور معلوم کیجئے مثلاً(۱) کتنی قَسَموں کے کفّارے ہیں؟(۲)کتنی نمازوں یا روزوں کے فِدیے ہیں؟ (۳)اسی طرح مَنّت کے مکمل اَلفاظ وغیرہ  اور رقم دینے والا کا نمبر اور پتا (adress)وغیرہ بھی  مکمل لکھیں(کیونکہ اس رقم کی شرعی رہنمائی (guidance)لے کر ہی استعمال کرنا ہوگا اور اس کے لیے رقم دینے والے سے بھی رابطے(contact) کی ضرورت پڑے گی)۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۱۹،۲۰، مُلخصاً) مَنّت ([5]) کی  تفصیل(detail) اس طرح لکھیں۔مثلاً میں امتحان میں کامیاب ہوگیا تو 500 رُوپے فلاں مسجد کو دوں گا ، یا اس طرح کہ  اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اللّٰہ کریم کی راہ میں 1000 رُوپے دوں گا وغیرہ تاکہ شرعی رہنمائی (guidance)کے مطابق ہی ان کا استعمال کیا جاسکے ۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۳۲،مُلخصاً)

{6}ذرا سی غفلت(سستی) یا جلد بازی کی وجہ سے، ملنے والے عطیات(چندہ) اور زکوۃ وغیرہ مل جانے کی صورت(case) میں  کسی کی زکوٰۃ یا فطرہ ضائع (waste)ہوسکتا ہے۔ ثواب کے لیے چندہ جمع کرنے والا، اپنے علم  کی کمی یا غفلت کی وجہ سے گناہ گار ہو سکتا ہے بلکہ اُس پر تاوان (یعنی اپنی جیب سے رقم دینا) بھی لازم آسکتا ہے۔نوٹ: تاوان آئے گا یا نہیں، اس کی رہنمائی(guidance) ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘سے لے لیں۔

       عَطیّات جمع کرتے ہوئے،رسید پر مکمل تفصیل (detail) لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے پاس موجود رجسٹریا کاپی وغیرہ میں لازمی لکھیں، امید ہے  کہ اس طرح   ریکارڈ  ضائع(waste) ہونے سے  بچ جائے گا۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۲۴،۲۳،مُلخصاً)

{7} نمازِ عید کے لئے جاتے ہوئےکئی لوگ جلدی میں ہوتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ  فطرے سے زیادہ رقم یہ کہہ کر دے جاتے ہیں کہ اتنی رقم فطرہ ہے اور باقی چندہ، ایسے لوگ جلدی کی و جہ سے عُموماً رسید نہیں لے پاتے ایسی صورت (case)میں بستے پر موجود اسلامی بھائیوں کو چاہئے کہ فطرے اور  چندے کی رقم کو فوراً  الگ کر لیں ۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۲۷،مُلخصاً)

{8}جھولی ا ور بستے  وغیرہ پر عَطیّات جمع کرنے والوں کی  پہلے سے  اچھی طرح تَرْبِیَت  ہونا ضروری ہے پھر  یہ  اَہَم کام  انہیں کرنے کو دیا  جائے کیونکہ تھوڑی سی غلطی سے بھی  بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ عَطیّات  جمع کرنے کے لیے ہر کسی  کا جھولی لے کر کھڑے ہو جانا دُرُست نہیں ، جھولیاں صرف وہی اسلامی بھائی لے کر کھڑے ہوں جن کی باقاعدہ(proper) تَرْبِیَت کی گئی ہو اور یہ کام خاص طور پر (especially) یہ کام، اُنہیں دیا گیا ہو ۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۲۱،مُلخصاً)

{9}بہتر یہ ہے کہ جھولی صرف صَدَقات نافِلہ(چندے۔dunation) کے لئے لگائی جائے( ساتھ ساتھ چندے کے وہ الفاظ لکھے، بولے اور چندہ دینے والوں کو بتائے جائیں کہ جس کام کے لیے چندہ کیا جا رہا ہے) اور صَدَقاتِ واجِبہ (مثلاً زکوٰۃ، فطرہ  وغیرہ )اور مَدّاتِ مخصوصہ (مثلاً  کسی دینی کام کے لیے  ہونے والے چندے ) کے لئے جھولی کے بجائے الگ سے بستہ لگائیے  کہ جس میں رسید بنائی  جائے اور چندہ دینے والے کی  تفصیل لکھی جائے۔

(۱)مدرسے کے اخراجات کی جھولی کے  الفاظ: ہمار ےمحلے کے مدرسے(مثلاً جامعۃُ المدینہ-  فیضانِ عطار،سخی حسن،نارتھ ناظم آباد ، کراچی )  کے  ہر طرح کے اخراجات (expenses) کے لیے  چندہ (dunation)  اس جھولی میں ڈالئیے اوراپنی زکوٰۃ، فطرہ اور دیگر(other) عطیات بستے پر جمع کروا کر رسید ضرور لیجئے ۔

(۲)بستے پر عَطیّات جمع کرنے کے  الفاظ: اپنی زکوٰۃ،فطرہ اور دیگرعطیاتِ واجبہ(مثلاً روزوں کے فدیے کی رقم) ہمار ے محلے کے مدرسے(مثلاً جامعۃُ المدینہ-  فیضانِ عطار،سخی حسن،شادمان ، کراچی )کو دیجئے اور رسید ضرور لیجئے ۔

نوٹ:جھولی و بستے کے درمیان اتنا فاصلہ(gape)  ضرور ہو کہ دونوں جگہ  کی آوازیں ، ایک دوسرے   سے نہ ٹکرائیں  تاکہ سننے والے کو  کسی طرح کی کوئی غلط فہمی(misunderstanding) نہ ہو۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں،  ص۲۱،مُلخصاً)

{10} اگر کوئی سُود ، جُوا یا رِشوت وغیرہ کی رقم  چندےمیں دے تو ہرگز  نہ لیجئے۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص ۲۹، مُلخصاً)

{11}حج یا عمرے کا دَمْ یا بَدَنَہْ(کا جانور) ([6]) قربانی کی صورت میں حُدُودِ حرم شریف) یعنی مکّہ پاک وغیرہ ) میں ہی دیناضروری ہوتاہے۔ اس کی رقم مسجد و مدرسے وغیرہ کے لیے نہیں لی جاسکتی ۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۳۰،۳۱،مَاخوذاً)

{12} غیر مسلم یا بد مذہب سے چندہ لینے کی بالکل  اجازت نہیں ۔

{13} نابالغ(یعنی چھوٹے بَچّوں) کی اپنی رقم(مثلاً پیسے)  چندے میں ہرگزنہ لیں ۔ ہاں! اگر نابالغ  کو اس کے  والدین  نے اپنی طرف سے پیسے دے کر بھیجا ہو تو اب وہ رقم، چندے میں لےسکتے ہیں۔

{14} اگر کوئی شخص اپنی فصل کا عُشْر([7]) (یعنی زمین کی زکٰوۃ  یعنی  فصل۔ crop)وغیرہ بیچ کر اُس  کی رقم  دے تو وہ رقم لے سکتے ہیں  لیکن  عُشْر میں ملنے والی  گندم(wheat) وغیرہ کو شرعی  حیلے ([8]) (یعنی شرعی فقیر کو دینے)سے پہلے خود بیچنے کی ہرگز اجازت نہیں۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۳۱،مُلخصاً)

{15}عَطیّات جمع کرنے کیلئے بنائی جانے والی تمام قِسْم کی رسیدیں، امانت ہوتی ہیں جس کی حفاظت (protection)  کرنا بھی  چندہ کرنے والے کی  ذِمّہ داری (responsibility)ہے اور جن اسلامی بھائیوں کو یہ رسیدیں دی جائیں اُن پر لازم ہے کہ تمام رسید یں (مسجد وغیرہ کو) واپس کردیں۔ شرعی اجازت کے بغیر واپس نہ کرنا یا اپنی  غفلت (اور سُستی)سے رسیدیں گُم کر دینا ناجائز و گُناہ ہے۔ یاد رہے کہ کچھ صورتوں (cases) میں رسیّد گم کرنے والے کو تاوان(یعنی اپنی جیب سے اسکی رقم(amount) مسجد  وغیرہ میں دینی ہوگی) ۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ۳۷ص،مُلخصاً)

مسجد اور مدرسے کے چندے  (donation) کے کچھ مدنی پھول:

{1}مسجِدوں ، مدرَسوں ، کی تعمیر (construction)اورخرچوں کے لئے یا کسی  بھی  مذہبی و دینی ضَرورت کے لیے ہونے والا چندہ  عام طور پر نفلی  صَدَقہ  (یا چندہ ۔donation)ہوتا ہے ، اس کو وَقف نہیں کہا جاسکتا  کیونکہ کسی چیز(مثلاً مسجد، مدرسے) پر وَقف  اسے کہتے ہیں کہ  فائدہ پہچانے(مثلاً کرایہ وغیرہ لے کر اُس مسجد وغیرہ پر خرچ کرنے ) کے لیے کوئ باقی رہنے والی چیز(مثلاً دکان) اُس (مسجد، مدرسے)  کے لیے کر دی جائے کہ وہ(مثلاًدکان) باقی رہے اور اس کا فائدہ(مثلاً کرایہ)اُس(مسجد یا مدرسے وغیرہ)   کو ملتا رہے()  نفلی  صَدَقہ(یا چندہ۔donation) تو خود ہی ختم یا خرچ  ہو جاتا ہے لھذا یہ وَقف نہیں ہوتا۔ (فتاوٰی امجدیہ ج۳، ص۳۸، مُلخصاً)

{2}(۱)   واقِف (مثلاً کسی ادارے وغیرہ کے لیے کوئی جائیداد(property) جیسے  گھر، دینے والے)کی شَرط

 (precondition مثلاً اس نے گھر دیتے ہوئے کہا کہ اس گھر کا ایک کمرہ میرے ہی پاس رہے گا، جب تک میں زندہ ہوں) پر عمل اسی طرح لازم ہےجیسے شارِع کی نَص(یعنی قراٰن وحدیث کے حکم )  پر عمل لازم ہے۔ (دُرِّمُختار  ج ۶، ص ۶۶۴)

(۲) وقف کی ہوئی چیزوں میں سب سے پہلے وقف کرنے والے کی شرط(precondition) کو دیکھا جائے گا  مثلاً اگر اُس نے  دکانیں ، مسجِد کے جس کام   پر وَقف کیں تو اُن(سے حاصل ہونے والے کرائے وغیرہ) کو انہی کاموں میں استعمال کیا جائے گا(مثلاً اس نے مسجد کے خرچوں کے لیے وقف کی  ،تو اب) اس کے علاوہ (other)کسی دوسرے کام(مثلاً مدسرے کے خرچوں) میں(اس کرائے وغیرہ کو)  استعمال کرنا حرام حرام  اور سخت حرام  ہے، چاہے اس رقم (amount)سے دینی مدرسہ ہی کیوں نہ تعمیر(construct) کیا جائے، وہ بھی حرام ہی ہوگا۔

(۳)یہاں تک  کہ اگر صِرف مسجد کی   تعمیر کے لئے رقم لی گئی تو  مسجد  کی ٹوٹی پھوٹی جگہ  کی مرمّت(repairing) کے  علاوہ (other)مسجِد کے لوٹے چَٹائی  وغیرہ لینے میں بھی استعمال  نہیں کر سکتے تو مسجد میں ہونے والی  اِفطاری میں کیسے استعمال کر سکتے ہیں ؟ اور اگر (دکان وغیرہ کا کرایہ)مسجِد کے  عُرفی (یعنی  معمول۔general routine  کے) خرچوں  پر وَقف ہے تو  اس سے مدرسہ بنانا یا مدرسے میں پڑھانے والوں کی تنخواہ(salary) دینا جائز نہیں۔(فتاوٰی رضویہ ج ۱۶، ص۴۸۵،۴۸۶، ماخوذاً)

{3}(۱)   واقف  نے کوئی چیز وقف کردی تو اب اُس کے بعد کوئی نئی  شرط(precondition) نہیں لگا سکتا، عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں:اگر واقف نے مسجد (کی نیّت سے پہلے، اُس مسجد)کے اوپرامام صاحب  کا  کمرہ بنادیا تو جائز ہے کیونکہ یہ مسجد کی ضرورت اور فائدے کے لیےہے، لیکن جب مسجد  مکمل بن گئی (اور نیّت بھی ہوگئی)  اور اب  واقف مسجد کے اوپر امام صاحب کا  کمرہ  بنانا چاتا ہے تو   واقف کو کمرہ  بنانے نہیں  دیا جائے گا(۲)  چاہے وہ کہے کہ  مسجد بنانے سے  پہلے ہی میری نیّت (intention) تھی کہ میں امام صاحب کا کمرہ بناؤنگا، تب  بھی اس کی بات نہیں مانی جائے گی  (۳)جب  واقف  کے لیے یہ حکم ہے توغیر واقف (دیگر لوگوں مثلاً مسجد کمیٹی کے وہ لوگ جنہوں نے مسجد کے لیے جگہ نہ دی ہو)کو ایسا کرنے(مثلاً مسجد کی نیّت ہو جانے کے بعد امام صاحب کا کمرہ بنانے یا کسی قسم کی نئی  تبدیلی کرنے ) کا اختیار (option)  کیسے ہوسکتا ہے؟ (درمختار    کتاب الوقف   مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۷۹ مع تاتارخانیہ مُلخصاً)

{4}   اگرواقف   کی شرطیں (preconditions)  معلوم نہ ہوں تو یہ دیکھا جائے گا کہ  اس(مسجد یا مدرسے) کے مُتَوَلّیوں (کہ جنہیں شرعاً مسجد کے انتظام(managment) وغیرہ کو دیکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہو) کا  شروع  سے کیا عمل رہا ہے؟اگر ہمیشہ سے  ختم شریف میں اِفطاری و  میٹھا  ان (دکانوں وغیرہ  کے کرائے ) سے  کیا جاتا رہا ہو تو  اب بھی ایسا ہی باقی رکھا جائے گا لیکن  اب (اس کرائے کی رقم (amount)سے) نیا مدرسہ بنانابالکل ناجائز ہے ۔ یاد رہے! کہ شروع سے ہونے کے یہ معنیٰ ہیں  کہ معلوم نہ ہو کہ فُلاں کام(مثلاً مسجد کی دکانوں کے کرائے سے  نیاز کرنا) پہلے نہیں تھا، بعد میں ہوا توا ب یہ کام شروع سے ہے ()  اور اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ کام پہلے نہیں تھا، بعد میں ہوا ہے چاہے 100 سال سے یہ کام ہو رہا ہو(مثلاً مسجد کے لیے دکانیں 200 سال سے ملی ہیں اور یہ معلوم ہوا کہ ان دکانوں کے کرائے سے شیرنی 100 سال پہلے  فلاں "چچا جی" نے بانٹنا شروع کی تھی) تو اب اس کام کو بند کرنا لازم ہے کہ یہ شروع سے نہیں ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج ۱۶، ص۴۸۵،۴۸۶،مَاخوذاً) اب ہمارے ہاں! نیاز مسجد کے پیسوں سے نہیں ہوتی، لھذا اب نیاز کرنے والوں کو، نیاز کے لیے الگ سے چندہ کرنا ہوگا۔

{5} نفلی  صَدَقہ(یا چندہ۔donation) جس  کام کے لئے لیا گیا، اس کے علاوہ(other)  کسی اور کام  میں استعمال نہیں کر سکتے۔ اگر وہ کام پورا ہوگیا(اور رقم(amount) بچ گئی)  تو جس  جس نے  چندہ دیا تھا،اُن کو واپس کر دے  ، یا  ()ان سب  کی اجازت سے دوسرے کام میں ، وہ چندہ(donation)خرچ کر سکتے ہیں، بِغیر اجازت خرچ کرناجائز  نہیں ہے۔(فتاوٰی امجدیہ ج۳، ص۳۸، مُلخصاً)

{6}(۱) چندےکا جو روپیہ کام ختم ہوکر بچے لازم ہے کہ چندہ دینے والوں(donors) کو اپنے دیے ہوئے حصّے  کے مطابق(according) واپس دیا جائے (یعنی جس نے جتنا فیصد چندہ دیا تھا،اُسے اتنا فیصد دے دیا جائے مثلاً 8 افراد سےبیس ہزار (20,000)اور ایک سے چالیس ہزار (40,000)لے کر  2 لاکھ روپے میں مسجد كےگیٹ بنانے کا کام شروع کیا (اس کام میں آٹھ (8  )  افراد نے10% پیسے  دیے اور ایک(1) آدمی  نے 20% دیے  ) ، وہ کام ایک لاکھ اسی ہزار (1,80,000) میں مکمل ہو گیا اب بیس ہزار (20,000) روپے دینے والےآٹھ (8  ) افراد کو دو(2)،دو ہزار   واپس کیے جائیں گےاور چالیس ہزار (40,000) روپے دینے والے  ایک آدمی کو4 ہزار روپے واپس کیے جائیں گے  )۔

(۲)اگر چندہ دینے والوں(donors) کا  پتا ہی نہ چل سکے تو  جس طرح کے کام کے لئے چندہ لیا تھا اسی طرح کے

دوسرے کام میں  چندہ(donation)  استِعمال کرلیں۔مَثَلاً مسجد کی تعمیر(construction)   کے لیے چندہ لیا تھااور مسجد تعمیر ہوگئی(اور پیسے بچ گئے) تو باقی بھی کسی (دوسری )مسجد کی تعمیر میں لگا دیں  ،اس طرح کے علاوہ (other)کسی دوسرے کام مَثَلاً  مدرسے کی تعمیر میں استعمال نہیں کر سکتے اور اگر اسی طرح کا دوسرا کام نہ ملے تو  باقی رقم(amount)  فقیروں  میں  بانٹ دیں ۔(فتاوٰی رضویہ ج۱۶، ص۲۰۶، مُلخصاً)

{7} کسی دینی کام کے لئے غیر مسلم  سے چندہ(donation) لینا منع  بلکہ  سخت معیوب (یعنی بہت بُرا) ہے۔(  فتاوٰی رضویہ ج۱۴، ص ۵۶۶،مُلخصاً)

{8}جوچندہ لوگوں سے  بھلائی کے کاموں کے لئے جمع کیا جاتا ہے وہ دینے والوں کی مِلک(ownership) پر باقی رہتا ہے۔(فتاوٰی رضویہ، ج ۱۶ ، ص ۲۴۴،مُلخصاً)

{9}(۱)     اگر چندہ لینے والا (donation receiver) غیرِ مُتَوَلّی ہے (مثلاً کسی عام آدمی نے  اپنے دوست سے مسجد کے لیے چندہ لیا  اور  ابھی   تک مُتَوَلّیں کو نہ دیا ہو) یا () جس چیز کے لئےچندہ لیا گیا ہے اس کا کو ئی مُتَوَلّی نہیں (مثلاً 12 ربیع الاوّل کے لیے چراغاں (lighting)  کرنےکے لیے چندہ(donation) لیا) یا()ابھی مسجد یا مدرَسہ وغیرہ بنانے کی ترکیب ہے اور اس کے لئے  کچھ لوگ چندہ (donation)جمع کر رہے ہیں،تو ایسی صورت میں  کوئی مُتَوَلّی نہیں ہوتا (کیونکہ نہ تو ابھی مسجد بنی ہے اور نہ ابھی مسجد کا پلاٹ خریدا گیا ہے اور نہ کسی نے پلاٹ  مسجد کے لیے  دیا ہے) لہٰذا جب تک چندہ اس کام میں استعمال نہیں ہو جاتا جس کے لئے لیا گیا ہے تو اُس وقت تک چندہ ، چندہ دینے والے کی مِلک (ownership)پر باقی رہے گا۔(چندے کے بارے میں سوال جواب،ص۳۰،مُلخصاً)

(۲) ا س طرح کا چندہ لینے والے نے  چندے کو اپنے ذاتی کام(personal work) میں خرچ کردیا تووہ گناہ گار

ہوگااور اب اس پر واجِب ہے کہ جتنی رقم(amount) اِس نے اپنے ذاتی کام میں خَرچ کی ہے اُتنی ہی رقم چندہ

  دینے والوں کو واپس کرے کہ چندہ ابھی  چندہ دینے والے کی مِلک (ownership)میں باقی ہے۔

(۳)چندے لینے والے (donation receiver) نے اپنے مال میں  چندے کا مال اس طرح ملا دیا کہ چندے کے مال اور اس کے مال میں کوئی فرق باقی نہ رہا تو چندے لینے والے نے چندہ دینے والے کا مال ضائع (waste) کر دیا لھذا اب توان  کو(یعنی جتنی رقم چندہ دینے والے نے دی تھی، اُسے واپس )دے گا۔ (مُلَخَّصًا فتاوٰی رضویہ ج ۲۳، ص ۵۵۴)

(۴) اگر چندے لینے والے نے ،چندہ دینے والوں (donors) کی اجازت کے بغیر(ان کا چندہ اپنے کام میں خرچ کرنے کے بعد) اپنی طرف سے اُس کام میں رقم(amount) خرچ کر دی کہ  جس کام کے لئے چندہ   لیا تھا تب بھی  بَری(free) نہ ہوگا ۔کیوں کہ اِس نےجو رقم  چندے  کے لیےلی تھی وہ تو اپنے کسی کام میں استعمال کر ہی دی ہے، اب جورقم  جیب  سے دینی تھی وہ توچندہ دینے والے کو  واپس کرنی تھی (نہ کہ  اُس کام میں لگانی تھی کہ جس کے لیے چندہ لیا تھا)یا پھر اس سے نئی اجازت لے کہ اپنی رقم لگانا ضَروری  تھا(مگر اُس نے ایسا نہیں کیا تو اب دو باتیں ہیں: پہلی(1st ) اس نے جو رقم (amount)بعد میں جیب سے لگائی تو وہ اس کی طرف سے نیک کام میں خرچ کرنا ہوا۔ اور دوسری (2nd ) یہ کہ چندہ دینے والوں کے پیسے خرچ کر چکا ہے جو   اسےاب بھی واپس کرنا ہونگے۔ ہاں!  چندہ دینے والوں   کو پتا چل گیا اور انہوں نے معاف کر دیا تو  اب رقم واپس کرنا ضروری نہیں)۔

(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۳۰،۳۱مُلخصاً)

(۵)چندے کا روپیہ چندہ دینے والوں کی مِلک رہتاہے جس کام کے لئے وہ دیں، جب اس میں  استعمال  نہ ہو تو فرض ہے کہ انہیں کو واپس دیا جائے یا ()کسی دوسرے کام کے لئےاستِعمال کر لیں جس کی وہ اجازت دیں ()ان چندہ دینے والوں(donors) میں جوزندہ نہ رہا ہو ان کے وارِثوں(یعنی ایسے رشتہ دار وغیرہ کہ جو مرنے والے کے مال کے مالک بن جاتے ہیں ) کو دیا جائے یا ()ان  (وارثوں)میں جو عاقِل بالِغ( wise,  grownup,)   ہیں جس کام میں استعمال  کرنے کی اجازت دیں،اس میں استعمال کریں () ہاں !جو ان  چندہ دینے والوں میں زندہ نہ رہے اور ان کے وارث بھی زندہ نہ رہے یا ()پتا نہیں چلتا  کہ زندہ ہیں یا نہیں  تو اس مال کو کسی مَصرفِ خیر(یعنی ثواب کے

کام)مثلاً مسجِد اور مدرَسۂ اہلِ سنّت وغیرہ میں استعمال کر سکتے ہیں ۔(فتاوی رضویہ ج۲۳،ص۵۶۳،مُلخصاً)

{10}چندے کا حکم مُتَوَلّی (جسے شرعاً مسجد کے انتظام(managment) وغیرہ کو دیکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہو) اور غیر مُتَوَلّی (مثلاً عام لوگوں) کے لئے الگ الگ ہے(۱۲)اگر مسجِد یا مدرَسہ موجود  ہے ، ان کا کوئی مُتَوَلّی بھی ہے اور چندہ (donation) مُتَوَلّی کے پاس جمع ہوتا ہے تو چندہ مُتَوَلّی کے قبضے (مثلاً ہاتھ ) میں آتے ہی مکمَّل ہوجاتا ہے اور چندہ مسجد یا مدرَسے کی مِلک(ownership)  میں آ جاتا ہے اور مالک (donor)   کی مِلک سے نکل جاتا ہے۔

 (۲) اگر مُتَوَلّی (جس کو  مسجد کے انتظام  وغیرہ  سنبھالنے کے لیے دیے گئے ہوں)اس چندے کو اپنے ذاتی کام(personal work)  میں خرچ کریگا تو  گناہ گار ہو گا کہ اس نے مالِ وقف (مثلاً مسجد، مدرسے کے مال) کو اپنے ذاتی کام میں خرچ کیا اور اس پرلازم آئے گا کہ جتنا روپیہ اس نے اپنے ذاتی کام میں خرچ کیا ہے اُتنی رقم (amount)اپنی جیب سے اُسی کام میں لگا دے کہ   جس کام کے لئے چندہ (donation) لیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ توبہ بھی کرے۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۲۹،۳۰مُلخصاً)

(۳)مُتَوَلّی (جسے شرعاً مسجد کے انتظام(managment) وغیرہ کو دیکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہو)کو  جائز نہیں کہ مالِ وقف(مسجد و مدرسے کے چندے کی رقم۔amount) کسی کو قرض (loan) میں دے یا  خود  اپنے لیے  قرض  کے طور پر لےلے۔             (فتاوٰی رضویہ ج ۱۶، ص۵۷۴، مُلخصاً)

{11} صندوق(یا گَلّے یا پیٹی) سے مالِ وَقف(مسجد یا مدرسے وغیرہ  کا پیسہ ) چوری ہوگیا تواگرمُتَوَلّی (جسے شرعاً مسجد کے انتظام(managment) وغیرہ کو دیکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہو)نے کوئی بے اِحتِیاطی (carelessness) نہ کی تو اُس پر تاوان (یعنی چوری ہونے والی رقم اپنی جیب سے دینا لازم)نہیں() اگر وہ(اس بات کی) قَسَم کھا لے گا(کہ نہ  تومیں نے چوری کی ہے اور نہ میں نے کوئی بے احتیاطی کی) تو اُس کی بات مان لی جائیگی اور() اگر بے اِحتِیاطی کی مَثَلاً صندوق(یا پیٹی یا گَلّہ )  کُھلا چھوڑدیا،  یاغیر محفوظ جگہ (insecure) رکھا تو اس پر تاوان (یعنی اتنی رقم اپنی جیب سے دینا لازم )ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱۶، ص ۵۶۹،۵۷۰، مُلَخَّصاً)

{12} مسجِد یامدرَسے کے کولر سے ٹھنڈا پانی بھر کر لے جانا جائز  نہیں ہے۔ مُؤَذِّن  صاحب،خادِم یا امام صاحب بلکہ مُتَوَلّی  بھی کسی کو چندے کی ان چیزوں کےخلافِ شریعت استِعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۵۷، مُلخصاً)

{13}(۱) اگرمسجِد اور مدرَسے کی عمارت (premises)ساتھ ساتھ ہو توایسی صورت میں مسجِدکی دریاں ، ڈیکس، قرآنِ پاک وغیرہ مدرَسے میں اور مدرَسے کی اِسی طرح کی چیزیں  مسجِد میں استعمال  نہیں کر سکتے۔جوچیزیں مدرَسے کے طَلَباء َ کرام کیلئے کسی نے دے دیں تو  وہ طَلَباء ِ کرام ہی کام میں لائیں اور جو مسجِد میں نَمازیوں کیلئے  دے دیں  تو وہ مسجِد کے نَمازی ہی استعمال کریں ۔ ہاں !طَلَباء کرام  بھی اگر مسجِد ہی میں آ کر مسجد  کے قرآنِ پاک میں سے تلاوت کریں تو کوئی حرج نہیں، لیکن  ان پر اپنا نام وپتا نیز سبق وغیرہ کیلئے قلم سے نشانات نہیں لگا سکتے (۲)وہ مدرسے کہ جن کی الگ سے کوئی عمارت وغیرہ نہیں ہوتی بلکہ  وہ مسجِد ہی میں  کسی مخصوص جگہ(specific location) پر لگتے   ہیں جنہیں ''مسجد کا مدرَسہ'' بھی کہا جاتاہے، ان میں اگر مدرَسے کی کوئی  چیزمسجد میں لے جاکر استعمال کی جائے تو حَرَج (یا گناہ)نہیں کیونکہ عُرف(یعنی  معمول۔general routine ) میں ایسی جگہوں کیلئے فرق (distinguish) نہیں کیاجاتا اور استِعمال میں بھی  یہی عُرف (یعنی رواج۔practice) ہوتاہے۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۵۹، مُلخصاً)

{14}جہاں مسجد و مدرَسہ ساتھ ساتھ ہو مگر وہ مدرَسہ '' مسجد کا مدرَسہ ''نہ ہو وہاں مسجِد کے کلامِ پاک پر اِس طرح کی مہر(stamp) لگا لی جائے : وَقف برائے مسجِد ، مدرَسے میں لے جانا منع ہے۔اِسی طرح مدرَسے کے کلامِ پاک پر یہ مُہر لگایئے: وَقف برائے مدرَسۃُ المدینہ ، مسجد میں لیجانا منع ہے۔اگر وَقف کرنے والے سےصاف طور پر  اجازت لے لی ہے کہ مسجِد و مدرَسہ دونوں جگہ استعمال کرنے کا ہر طرح سے اِختیار (option)ہے تویوں مہر لگایئے: وَقف برائے مسجد و مدرسۃ المدینہ۔اِسی طرح دریوں اور دیگر چیزوں  پر نشانیاں لگا دیں  مَثَلاً مدرَسے کی چیزوں پر تارہ٭ اور مسجِد کی  چیزوں  پر چاند بنا دیجئے اور طَلَباء کرام  وغیرہ کو  بھی یہ نشانیاں سمجھا  دیجئے۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۶۰، مُلخصاً)

مسجد کے چندے(donation)   کے کچھ مدنی پھول:

{1}مسجِد میں اپنے لئے مانگنا جائز نہیں اور اسے دینے سے بھی عُلَمائے کِرام نے مَنع فرمایا ہے لیکن کسی دوسرے کیلئے اس طرح  مانگا،  مثلاً مسجِد کے لیے یا کسی  بھی دینی ضَرورت کیلئے چندہ(donation) کرنا جائز اور سنّت سے ثابِت (یعنی حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے بھی چندہ کیا)ہے۔

(فتاوٰی رضویہ ج۱۶، ص ۴۱۸،مُلخصاً)

 {2} اگر چندہ دینے والوں کی طرف سے صَراحۃ ً(واضح طور پر۔clearly)یا دَلالۃً(یعنی معلوم۔ understood)   اجازت ہو تو مسجِد کے چندے کی رقم (amount)سے مسجِد پر جشنِ ولادت(یعنی ربیع الاول ) کے(12) دِنوں میں چَراغاں(lighting)    کرسکتے ہیں ورنہ نہیں ۔صَراحۃً ً(واضح طور پر۔clearly)سے مُراد یہ ہے کہ مسجِد کے لئے چندہ لیتے وقت کہہ دیا کہ ہم آپ کے چندے سے جشنِ ولادت ، گیارہویں شریف، شبِ براءَ ت وغیرہ بڑی راتوں اور  رَمَضانُ المبارَک میں مسجِد میں روشنی بھی کریں گے اور  چندہ دینے والےنے اجازت دیدی ۔ دَلَالۃً (یعنی معلوم ۔under stood) یہ ہے کہ چندہ دینے والے کو معلوم ہے کہ اِس مسجِد پر جشنِ ولادت اور دیگر بڑی راتوں  اور رَمَضانُ المبارَک میں چَراغاں ہوتا (یعنیlighting  ہوتی)    ہے اور اُس میں مسجِد ہی کا چندہ استِعمال کیا جاتا ہے۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۲۱، مُلخصاً)

 {3} مسجد میں آنے والی افطار ی کاعُمُومی عُرف (یعنی  معمول۔general routine )یِہی ہے کہ اگر بچے بھی اسے کھاتے ہیں  تو افطاری بھیجنے والوں کی طرف سے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا لہٰذا بَچّوں کا (مسجد میں آنے والی افطار ی کو)کھانا جائز ہے( چاہے ان کا روزہ نہ بھی  ہو)۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۲۶، مُلخصاً)

{4}   مسجد میں آنے والی افطار ی میں عُرف یہی ہے کہ دینے والے بچی ہوئی(remaining) افطاری واپَس نہیں لیتے لہٰذا مُنتَظِمِین (یعنی افطاری کا نظام دیکھنے والوں)کی  مرضی پر ہے کہ دوسرے دن کے لئے بچانا چاہیں  توبچالیں ، چاہیں تو(اسی دن) خود کھا لیں  یا دوسروں کو کِھلا دیں یا تقسیم(distribute) کر دیں۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۲۶، مُلخصاً)

{5} مسجِد کے نام پر ملا ہوا چندہ(donation) وہاں کے عُرف (یعنی رَواج ،  معمول۔general routine ) کے مطابِق استِعمال کرنا ہو گا مَثَلاً امام صاحب، مُؤَذِّن  صاحب او ر خادِم صاحب  کی تنخواہیں(salaries) ، مسجِد کی بجلی کا بِل ، مسجِدکی عمارت(building) یا اُس کی چیزوں میں ضَرورت کے مطابق  مَرَمَّت(repairing) ،  مسجِد  اور نمازیوں کی ضرورت  پوری کرنے کے لیے چیزیں  لینامَثَلاًلوٹے(lota)، جھاڑو(broom)، پائیدان (doormat)، بتّی،پنکھے،چَٹائی وغیرہ۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۲۶، مُلخصاً)

 {6} مسجِد کی امانت(مثلاً مسجد کے پیسے کسی کے پاس رکھوائے ہوں، تو جس کے پاس رکھوائے ہیں اُس شخص کا ان پیسوں کو) اپنے استعمال   میں لانا (چاہے قرض سمجھ کر ہو) حرام  او ر خِیانت ہے۔ توبہ و اِستِغفار فرض ہے  اور تاوان (یعنی اُس چیز کی رقم مسجد کو دینا)لازِم ہے،  یعنی اُتنی رقم دے دینے سے تاوان  توادا(pay) ہو گیا  لیکن  وہ گنا ہ نہ مٹا جب تک توبہ نہ کرے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱۶، ص۴۸۹، مُلخصاً)

مدرسےکے چندے(donation)کے کچھ مدنی پھول:

{1} مدرَسے کے کسی خاص(specific) کام میں لئے ہوئے چندے(donation)  کے غلط استعمال کی وجہ سے اگر تاوان(یعنی رقم (amount)دینا) لازم آئے تو اس مسئلے کی  کئی صورَتیں(cases) ہیں، جن میں سے  تین(3) یہ ہیں:

 (۱)اگر وہ زکوٰۃ یافطرہ وغیرہ (واجب صدقات یعنی  عام چندہ (donation) نہ ہو  بلکہ) لازم صدقہ ہو مثلاً قسم کے کفّارے کی رقم، قربانی  لازم تھی مگر کر نہ سکے تو وقت گزر جانے کے بعد قربانی)کی رقم (وغیرہ)یا  کوئی چیز ملی تھی (مثلاً زکوۃ میں ملی ہوئی رضائی ۔ blanket) تو  شرعی فقیر ([9]) کو دینے سے پہلے ایسی جگہ استعمال کر دی کہ جہاں (بغیر شرعی حیلے  ([10])کے) استعمال نہیں کر سکتے تھے (مَثَلاًمدرسہ پڑھانے والوں کی تنخواہوں (salaries)  یا  مدرسے  کے تعمیراتی کاموں (construction works)وغیرہ میں استعمال  کر دی ) تو اب  اِس کا تاوان(یعنی  اپنی جیب سے اتنی رقم ) زکوٰۃ یا  فطرہ وغیر (یعنی واجب صدقات) جس نے دیئے تھے اُسی  کو (اپنی جیب سے) واپس دے۔ نوٹ:  مدرسہ چلانے والوں اور اس کے لیے زکوۃ جمع کرنے والوں کو  بہت سے مسائل معلوم ہونا ضروری ہیں ۔یاد رہے کہ مدرسے  کے ہر خرچے میں  زکوۃ   اور واجب صدقات کو شرعی حیلے کے بغیر استعمال نہیں کرسکتے۔

(۲) اگروہ عام نفلی صدقات (عطیات ۔donation) ہیں تو اگر وہ مدرسے کے مُتَوَلّی (جسے شرعاً مسجد کے انتظام(managment) وغیرہ کو دیکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہو) یامُتَولّی کے وَکیل یعنی(جسےمُتَولّی نے چندہ جمع کرنے کی اجازت دی جیسے) ناظِم  صاحب۔ اب وہ چندہ  کمیٹی یا ناظم صاحب کے ہاتھ میں آگیا اور اس کے بعد کسی نے غلط استعمال کر  لیا تو اس کا تاوان(یعنی جتنی رقم  (amount)یا جتنی رقم کا سامان  استعمال کیا، اُتنی رقم اپنی

جیب سے)مدرسہ میں جمع کروائے گا۔

(۳) اگر نفلی صدقہ  (کمیٹی وغیرہ کے علاوہ )  کسی کو دیا تاکہ وہ جا کر مدرسے وغیرہ میں دے دے، مگر اُس شخص

نے مدرسے میں دینے کے بجائے  ، خود استعمال کر لیاتو اب اس کے  تاوان کی رقم(amount) چندہ دینے والے کو دی جائے گی اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں (یعنی ایسے رشتہ داروں  وغیرہ کو کہ جو مرنے والے کے مال وغیرہ کے مالک بنے ہوں) کو  دے دےاور وہ نہ ملیں تو کسی  شرعی فقیر کو دے دے، چاہے وہ فقیر شرعی اسی مدرَسے کا طالبِ علم (مگر بالغ۔ grownup) ہو اور طالبِ علم چاہے تو  وہ رقم  مکمل طور پرلے لینے کے بعد(اپنی طرف سے) مدرَسے کو دے سکتا ہے۔ (چندے کے بارے میں سوال جواب ص۳۵،۳۶ مُلخصاً)

 {2} مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اگر  چندہ لینے یا چندہ خرچ کرنے  والے نے زکوٰۃ یا فِطرہ  شرعی حیلے کے بغیر

ایسی جگہ خرچ کر دیا کہ جہاں خرچ کرنے کی اجازت نہیں تھی  تو اب یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے  معلوم نہیں تھا، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ آپ نے کیوں نہیں سیکھا! اسے یوں سمجھیں کہ ایک آدمی  گاڑی  مکمل چلانا سیکھنے  سے پہلے گاڑی گھر سے لے کر چلا گیا اور بریک کی جگہ ایکسیلیٹر(accelerator) دبا کر ایکسیڈنٹ(accident) کر نے کے بعد کہنےلگا کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ  گاڑی روکنے کے لیے ایکسیلیٹر نہیں بریک دباتے ہیں۔یاد رہے! کہ جس کو چندہ جمع کرنا ہو یا چندہ خرچ کرنا ہو اُس کیلئے  چندے(donation)کے ضَروری مسائل جاننا فرض ہے ۔  نہیں سیکھا تو فرض  چھوڑنے والا اور گنہگار ہوا([11])۔اب اگر کسی نے زکوٰۃ یا فِطرہ  شرعی حیلے کے بغیرایسی جگہ خرچ کر دیا کہ جہاں خرچ کرنے کی اجازت نہیں تھی  تو صرف تاوان ہی نہیں، اس غلطی بلکہ اس ضروری مسئلے کو نہ سیکھنے کی بھی توبہ کرنی ہوگی۔ (چندے کے بارے میں سوال جواب ص۳۸ مَاخوذاً)

 {3} مدرسے میں جتناعرف (یعنی   رواج۔general routine )جاری ہو اُتنی مہمان نوازی (hospitality) کر سکتے ہیں مگر واقِعی مہمان ہونے چا ہئیں جیسا کہ عُلَمائے کِرام ومَشائخ   اہلِ سنّت وغیرہ۔ ان حضرات کے ساتھ خصوصی طور(specially) پر تشریف لائے ہوئے رفقا (friends) کی بھی خیرخواہی(مثلاً کھانا، چائے وغیرہ کی ترکیب ) کر سکتے ہیں () ضَرورتاً میزبانی(hosting) کرنے والے بھی مہمانوں کے ساتھ کھا پی سکتے ہیں۔ یاد رہے! عُرف و عادت(یعنی رواج وغیرہ ) سے ہٹ کر  طلباء وغیرہ کا اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو مدرسے میں  رکوانااور کھلانا پلانا جائز نہیں۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۵۲ مُلخصاً)

{4}  (۱)مدرَسے کی اِنتِظامیہ(administration) کی طرف سے جسے کھانا تقسیم کرنے کی  ذمہ داری دی گئی ، ایسے شخص کاجان بوجھ کر (deliberately) کسی ایسے آدمی کو مدرسے کا کھانا کھلانا گناہ کا کام ہے کہ جسے یہ  کھانا  کھلا نہیں سکتے ہیں۔  کھانا کھلانے والا تو بہ بھی کرے اور تاوان(یعنی اپنی جیب سے اُتنے کھانے کی رقم، مدرسے کو) دے (۲)اگر کھانے والے کو بھی پتا  تھا کہ میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا تھا تو وہ   بھی گنہگار ہوگا(۳) اگر مدرَسے کا کھانا طلباء کرام  میں بانٹا جارہا تھا اور اس میں کوئی ایسا شخص آگیا کہ جو وہ کھانا نہیں کھا سکتا( اور کھلانے والے  نےیہ کھانا اس آدمی کو جان بوجھ کر (deliberately) نہیں دیا بلکہ اُس نے دوسرے کے ساتھ  خود کھالیا) تو اِس صورت میں کھانے والا گناہ گار ہوگا اور تاوان (یعنی کھانے کی رقم (amount)مدرسے کو اپنی جیب سے) دے گا، اس کا تاوان  بانٹنے والے پر نہیں۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۵۲ مَاخوذاً)البتہ جسے طاقت ہو کہ  ایسے شخص کو  (اچھے انداز سے)اُٹھا سکے تو اُس پر لازم ہے کہ وہ ایسے شخص کو مدرسے کے کھانے سے اُٹھائے کہ جو یہ کھانا نہیں کھا سکتا۔

{5}(۱)کچھ  لوگ شادی کی دعوت یا میِّت کے ایصالِ ثواب یا بُزُرگوں کی نیاز کے لیے بہت ساراکھانا  بنا لیتے  پھر بچا ہو کھانابے وقت مدرَسے میں بھجوادیتے ہیں اور طلباء کرام کھانا کھا چکے ہوتے ہیں (۲) طَلَباء کرام  اس میں سے کچھ کھا بھی لیں  تب بھی  بچ  ہی جاتا ہے۔ اگر ضائِع (waste) ہونے کا ڈر ہو توعام مسلمانوں کو دے دیں  (۳)  بہتر  صورت یہ ہے کہ ضَرورت نہ ہو تو مدرسے والے کسی دوسرے سُنی مدرسے کی طرف بھیجنے کی  گزارش کر دیں ، اگر لینا ہی پڑ جائے تو اسے ضائِع ہونے سے بچائیں،ممکِن ہوتو فِرِج (fridge)میں رکھ دیں اور دوسرے دن کام میں لائیں(۴)اِحتیاط (caution)اسی میں ہے کہ ایسا کھانا لیتے ہوئےکھانے کے مالک سے (اگر مالک نے کسی اور کے ہاتھ بھیجا ہو توفون وغیرہ پر مالک ہی سے)کہہ دیں کہ  ہمیں اس بات کی اجازت دے دیں کہ ہم کسی کو بھی کھلادیں یا بانٹ دیں (چندے کے بارے میں سوال جواب ص۵۴ مَاخوذًٓ) ۔ عام طور پر کھانا لانے والے مالک نہیں ہوتے،لھذا اجازت لینے کے لیے مالک سے رابطہ کرئیں۔

 {6} وہ کھاناجومدرسے میں پکایاگیاہواوربچ جائے اور دوسرے وقت طَلَباءِ کرام کو بھی نہ کھلایا جا سکتا ہو کہ خراب ہو جانے کا ڈر  ہو، ایسی صورت (case) میں  یہ کھانا  مَحَلّے میں بانٹ سکتے ہیں۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۵۵ مُلخصاً)  کوشش کر کے مدرسے میں کھانا اتنا ہی بنایا جائے کہ  ایک وقت کھانے میں استعمال  ہونے  کے بعد نہ بچے۔

{7}(۱) مدرسے سے ملی ہوئی مسجد میں   کچھ مذہبی کاموں کا سلسلہ ہے یا مسجد میں کچھ دن کے لیے  چند  عاشقانِ رسول اس سلسلے میں آئے ہیں تو ان کو مدرسے کےباورچی خانے میں کھانا پکا ناجائز نہیں۔ کیوں کہ گیس کا بِل، ماچس، برتن وغیرہ سب پر مدرسے کے چندے کی رقم(amount) لگی  ہے(۲) اگر برتن مدرسے کے لیے وقف ہیں (یعنی برتن دینے والے نے مدرسے  والوں کو دے دیے ہیں ) تو اب یہ برتن مسجد میں آنے والے محترم مہمانوں کے لیے بھی استعمال نہیں ہوسکتے۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۵۵،۵۶ ماخوذاً)(۳) اسی طرح جو ایک مدرسے میں پڑھتا ہے ، وہ دوسرے مدرسے کی مسجد میں گیا تو اب یہ مہمان طلباء کرام بھی ، اُس مدرسے کے برتن استعما ل نہیں کر سکتے بلکہ کوئی طالب العلم  مدرسے کی پڑھائی کچھ عرصے کے لیے چھوڑ کر اپنے مدرسے کی مسجد میں آیا ہو تب بھی اپنے (پرانے) مدرسے کے برتن استعمال نہیں کر سکتا۔

{8} مذہبی کام کرنے والوں کیلئے ضَروری ہے کہ اپنے چولھے برتن وغیرہ کی ترکیب رکھیں، نمک بھی کم پڑنے کی صورت میں مدرَسے سے نہ لیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یوں کہہ کر بھی نہیں لے سکتے کہ چلو ابھی لے لیتے ہیں ، پیسے دیدیں گے یا جتنا لیا ہے اُس سے زیادہ دے دیں گے()   یاد رہے! کہیہ اِحتیاط(prevention) ہر جگہ لازِمی ہے کہ’’ فِنائے مسجِد‘‘بلکہ ’’ خارجِ مسجِد‘‘میں بھی ایسی جگہ کھانا پکائیں جہاں سے مسجِد کے اندر دھواں یابدبو وغیرہ  نہ آئے(جیسے مسجد کے گیٹ سے باہر چپل اُتارنے کی جگہ) ۔کھانا کھانے یادھونے پکانے وغیرہ میں وہاں کی دری یا فرش وغیرہ بالکل بھی خراب  نہیں ہونی چاہیے۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۵۵،۵۶ ماخوذاً)

نوٹ:(۱) ’’ فِنائے مسجِد‘‘  مسجد کی وہ جگہیں کہ جو نماز یا  مسجدسے تَعَلُّق(belonging) رکھنے  والی  ضروری چیزوں  کے لئے  ’’اصلِ مسجد‘‘سے ملی ہوئی ہوں۔ جیسے مسجِد سے ملا ہوا منارہ (minaret)، وُضو خانہ ، اِستنجاخانہ(toilet)،غسل خانہ(bathroom) ،اِمام صاحب ا ور مُؤَذِّن صاحب   کے کمرے وغیرہ۔ (۲)   ’’اصلِ مسجد‘‘  یعنی مسجد کا جو حصّہ جو نماز ہی کی نیّت سے رکھا گیا ہو یعنی اُس جگہ پر ’’اصلِ مسجد‘‘  کی نیّت ہو،

  ’’ فِنائے مسجِد‘‘ کی نیّت نہ ہو۔ (۳) ’’ خارجِ مسجِد ‘‘ مسجِد کی عمارت (building)کا وہ حصّہ(part) کہ جو نہ تو ’’عینِ مسجد(اصلِ مسجد)‘‘ ہو اور نہ’’ فنائے مسجد‘‘ ہو۔ جیسے مسجد کے گیٹ کے باہر بنے ہوئے اِستنجاخانہ (toilet)۔

  {9}(۱) طَلَباء کرام کو دئیے گئے کمبل(blanket) طَلَبہ کے  علاوہ(except) اساتِذہ کرام  ، عملہ(مثلاً باروچی۔ cook) اور مہمان استعمال کر سکتے ہیں(۲)ان کے علاوہ (except) مسجد والے یا مسجد میں آنے والے مہمان  یا عام مسلمان استِعمال نہیں کر سکتے۔ (چندے کے بارے میں سوال جواب ص۵۷، مُلخصاً)

 {10}مدرَسے کے قرآن شریف ، قاعِدے یا درسی کتابوں پر نام نہ لکھے جائیں بلکہ انتِظامیہ (administration)   کی طرف سے نمبر لکھ د یئے جائیں پھر طلباءِ کرام  کو دیے جائیں،اب طالبِ علم ان کو یاد

 کرلیں۔ طلباءِ کرام اپنی طرف سے  بھی اپنا نام وغیرہ کچھ نہ لکھیں۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۶۱، مُلخصاً)

{11}اگر اس کی اپنی غَلَطی سے  مدرَسے کا ڈَیسک  توڑ  دیایا کسی قسم کا بھی نقصان کیا  تو تاوان (یعنی اپنی جیب سے اس کی رقم )دے گا اگر اپنی غلطی سے ایسانہیں ہوا تو اب  گناہ یاتاوان نہیں۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۶۱، مُلخصاً)

{12}(۱)مدرَسے کے ڈَیسک ، دروازے اوردیوار وغیرہ پرکچھ لکھنا  بلکہ  کسی دوسرے کے مکان، دُکان دیوار ، دروازے یاگاڑی اور بس وغیرہ چیزوں پربھی شرعی اجازت کے بغیر  کچھ لکھنا  یااسٹیکر یا اشتہار لگانا منع ہے ۔ نیز اس کااِزالہ بھی کرنا ہوگا(یعنی اس سے جو نقصان ہوا، وہ نقصان ختم کرنا ہوگا)۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۶۱، مُلخصاً) مدرَسے وغیرہ کی دیوار یا ڈیسک پر کچھ لکھا تو   اُس لکھائی کو اِس طرح صاف کرے کہ اُس چیز کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے ۔ مَثَلاً ممکن ہو تو پانی والے کپڑے سے آہِستہ آہِستہ مِٹائے ، اگر رنگ خراب ہو جائے یا دھبّہ پڑ جائے تو جو رنگ پہلے سے لگا ہوا ہے اُسی طرح کا رنگ اِس طرح لگائے کہ جو رنگ خراب ہوا تھا وہ صحیح ہو جائے اورتوبہ بھی کرے(۲)اِزالہ کرنے سے  پہلے  مدرَسے کی انتِظامیہ  وغیرہ کو بھی بتا دے تا کہ کسی قسم کا مسئلہ  نہ ہو۔ یاد رہے!وَقف کے مقامات مَثَلاً مسجِد یا مدرَسے کی انتِظامیہ کامُعاف کر دینا کافی (enough) نہ ہوگا اِزالہ ضَروری ہے ۔ہاں! اگر کسی کی ذاتی دیوار وغیرہ پر لکھا تھا،چاکنگ وغیرہ کی تھی تو اُس کا(چوکیدار یا ملازِم یا کرائے دار وغیرہ نہیں بلکہ اصل) مالِک اگر مُعافی دیدے تو اِزالے کی  ضرورت نہیں۔(چندے کے بارے میں سوال جواب ص۶۲، مُلخصاً)

{13}اگر کوئی کہے کہ میں ہر سال فُلاں سُنّی اِدارے کو کھال دیتا ہوں  اور  جہاں وہ کھال دیتے ہیں ، وہ شریعت  کے مطابق، کھال کی رقم استعمال کرتے ہیں پھر بھی اُس کو یہ سمجھانا  کہ اِس سال ہمارے دینی ادارےکو   دے دیجئے، یہ اُ س ادارے کو محروم کر کے اپنے لئے کھال حاصِل کر نا ہے جو کہ  اُس اِدارے والوں کیلئے تکلیف کا سبب  ہو گا اور اس طرح  آپس میں نفرتیں  پیدا ہو گی لہٰذا ہر اُس کام سے بچنا چاہیے کہ  جس سے مسلمانوں میں نفرت  پیدا ہو (چندے کے بارے میں سوال جواب ص۸۷، مُلخصاً) ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوْا یعنی خوشخبری سناؤ اور( لوگوں کو) نفرت نہ دلاؤ۔ (صَحِیحُ البُخارِیّ ج۱، ص ۴۲، حدیث ۶۹ )

کھال جمع کرنے والوں کے  لیےکچھ مدنی پھول:

{1} ہر حال میں شَریعت کے احکام(حکموں ) پر عمل کرنا لازم ہے۔

{2} کوئی بد اخلاقی کرے تو اُس کے جواب میں اچھے اخلاق سے پیش آئیں۔

{3} کسی بھی  صحیح دینی مقصد (کام)کے لیے، اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ قربانی کے جانور کی کھالیں، شریعت کے احکام کے مطابق(according) جمع کرنا یقیناً ثواب کا کام ہے مگر جس پر جماعت  سے نماز پڑھنا لازم ہو، اُسے  جماعت سے نماز پڑھنی ہوگی۔مشورہ یہ ہے کہ کھال جمع کرنے والے ظہر اور عصر (اورضرورت ہو تو مغرب)کی اذان سے تقریباً آدھا گھنٹہ (30 منٹ) پہلے وقفہ(gape) کر کے ، اپنے گھر جاکر (ہو سکے تو غسل کر کے) کپڑے بدل کر مسجد میں آ کر نماز پڑھیں۔ہاں! یہ بات بھی ضروری ہے کہ کھالوں کی حفاظت رہے ،اس کے لیے پہلے ہی سے ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘سے رہنمائی(guidance) لے لیں کہ ہم کھالیں کہاں جمع کر سکتے ہیں، ان کی  حفاظت  کرنے  کے لیے جماعت کے وقت میں کتنے اسلامی بھائی رُک سکتے ہیں۔ اسی طرح  اجتماعی قربانی کرنے والے، اپنے مکمل طریقہ کار کی شرعی رہنمائی حاصل کر لیں۔

نوٹ: اجتماعی قربانی کرنے والے،’’ اجتماعی قربانی کے مدنی پھول‘‘ پڑھ لیں۔

{4کچھ اسلامی بھائ کھالوں کے  ٹرک (truck) یاگودام  میں  یا  کچھ طلباء کرام مقیم مدرسوں میں ہوتے ہیں،  خاص طور پر (especially) ان اسلامی بھائیوں کے پاس پاک کپڑے، ٹوپی اور عمامے وغیرہ     کاہونا ، کسی بہتر جگہ حفاظت (safety)سے  ان چیزوں کارکھنا اور  اذان سے آدھے گھنٹے پہلے سے وقفہ لے کر اپنے جسم (body)  وغیرہ سے خون اور بد بو دور کرکے  با جماعت نماز پڑھنا  اور کھالوں کی حفاظت کی   مکمل کوشش کرنا چاہیے۔

{5} وُضُو خانے کے گِیلی زمین یا پائیدان(floor mats) وغیرہ پر بھی خون والے پاؤں  نہ رکھیں ،وُضُو کرتے ہوئے  بہت خیال رکھیں  کہیں  خون اور ناپاک پانی کے چِھینٹیں(splashes) دوسروں کو نہ لگیں ۔

نوٹ: مسجد اور مدرسے کے لیے کھالیں جمع کرنے والے ، صفائی اور پاکی کے لیے وہاں کا پانی استعمال کرنے کے تعلق سے ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘ سے رہنمائی (guidance)لے لیں۔

{6}یاد رہے کہ ذَبْح کے وَقْت نکلا ہوا خون ’’نَجَاسَتِ غَلِیْظَہ ‘‘یعنی  پیشاب کی طرح ناپاک ہے اور کھالیں جمع کرنے والوں کے  کپڑوں پر یہ خون لگتا ہی  ہے(اور  بہت زیادہ لگتا ہے)۔ اب اگر پاک کپڑے نہیں ہیں تو پہنے ہوئےکپڑوں کو  ہی پاک کر کے نماز پڑھنی ہوگی۔

{7}خون والے بدبو دار کپڑوں کے ساتھ  مسجِد میں آنے کی اجازت  نہیں۔ بدبو نہ بھی آتی ہو تب بھی ناپاک بدن یا کپڑا یا چیز مسجد میں لے جانا  منع ہے ۔ جسم پر زخم(wound)ہو  یا کپڑوں پر کچھ لگا ہو کہ جس سے بدبو آتی ہو تواب بھی(اس بد بو کے ساتھ) مسجِد  کے اندر آناحرام ہے۔یاد رہے کہ مسجِد کو (بد)بُو سے بچانا واجِب ہے  ،  یہاں تک کہ حدیث میں فرمایا گیا: مسجِد میں کچّا گوشت لے جانا  (بھی)جائز نہیں۔(اِبنِ ما جہ   ج۱ ص۴۱۳ حدیث۷۴۸ ) حالانکہ(although) کچّے گوشْتْ کی(بد) بُو  بہت ہی کم ہوتی ہے۔

{8} مسجِد،گھر،اور مدرسے وغیرہ کی دَرِیّوں ،چٹائیوں ، کارپیٹ،اور دوسری چیزوں  کو خون  لگنے سے بچائیں۔ امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ،  اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: بِلاضَرورت  پاک شے(یعنی چیز) کو ناپاک کرنا ناجائز و گناہ ہے۔(فتاوی رضویہ، ج ۱،ص۷۹۲)

{9}قلم ، رسید بُک ، پیڈ ، گلاس ، چائے کے پیالے وغیرہ پاک چیزوں کو ناپاک خون نہ لگنے دیں۔

{10}قربانی کی کھالیں اورنفلی عطیّات (donation)لیتے ہوئے اس بات کا بہت  خیال رکھیں کہ اگر کھالیں کسی  خاص (specific) کام مثلاً مسجد کے خرچوں کے لیے لیں تو اب  مدرسے کی تعمیر(construction) کے لیے اس رقم کو استعمال نہیں کر سکتے۔

       اگر کوئی تحریک  ،یا  انجمن ، یا کمیٹی )ہے کہ جو مختلف(different) دینی  اور سماجی(social)کام کرتی ہے  ، تو ان کاموں( کے لیے کھالیں جمع کرنے کے الفاظ: آپ کے جانور کی کھال سے ملنے والی رقم کو  ہم کسی بھی جائز، دینی، اصلاحی،  فلاحی (social)، روحانی، خیرخواہی اوربھلائی کے کام میں خرچ کر سکتے ہیں ۔

یاد رہے!  کھال دینے والا ’’ ہاں ‘‘ کہہ دے اور وہ کھال  کا اصل مالِک ہو تو ہی ’’اجازت‘‘ مانی جائے گی۔ لہٰذا  کھال دینے والے سے پوچھ لیا جائے کہ یہ کس کی طرف سے ہے ؟اگر کسی اور کا نام بتائے تو اب اس (نام بتانے والے غیر مالک)کا ’’ ہاں ‘‘ کہہ دینا کافی (enough)  نہیں ہو گا بلکہ  اصل مالِک سے فون وغیرہ کے ذَرِیعے رابطہ(contact) کرے۔(ابلق گھوڑ سوار،ص ۴۱،  تا ۴۵، بالتغیر الکثیر،  ماخوذاً)

  دینی مدرسوں کے طلباء(students)کے کچھ مدنی پھول:

{1}یاد رہے! اپنی ضرورت کے دینی مسائل کاعلم حاصل کرنا ہر عاقل بالغ (wise, grownup)مسلمان پرفرض ہے مثلاً نماز و روزہ وغیرہ کے ضروری مسائل([12])۔اسی طرح مدرسے کے طلباء کے لیے ضروری ہے کہ انہیں مدرسے وغیرہ سے متعلق(related) ضروری مسائل معلوم ہوں۔

{2}مسجِد و مدرَسے وغیرہ کے پانی اور اپنے گھر کے پانی کو استعمال کرنے  میں فَرق  (difference) ہے۔  مسجِد  کے پانی سے وُضو کرتے ہوئے پانی  زِیادہ خَرچ کرنا باِلاِتِّفاق (with the consensus) حرام ہے کیوں کہ اِس میں زِیادہ خَرچ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور مدرسے کا پانی اِسی قسم کا ہوتا ہے جو کہ صرف ان ہی لوگوں کے استعمال  کیلئےہوتا ہے جو شَرْعی وُضو کرتے ہیں ۔(فتاوٰی رضویہ، ج۱،ص۶۵۸،مُلخصاً)

{3} امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ،  اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس  طرح   فرماتے ہیں:  جوفرض چھوڑ کر نفل میں مصروف (busy)  ہو حدیثوں میں اس کی سخت برائی آئی اور اس کا وہ نیک کام مردود(یعنی نامقبول۔ rejected ) ہے تو فرض علم  چھوڑ کر فضول کاموں  میں وقت  گزارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟

       یاد رہے کہ فرض علم، دیگر علوم(اور فنون۔ arts) سے  اہم ترین (more important) اور پہلے ہے، اس(فرض علم)سے غافل ہو (یعنی چھوڑ) کر ریاضی(mathematics) ، ہندسہ(digits) ، طبعیات (physics)یادیگر خرافات ( یعنی بے کار فنون)وفلسفہ(philosophy) پڑھنے پڑھانے میں مصروف (busy) رہنا یقیناً پڑھنے اور پڑھانے والے(دونوں) کے لئے حرام ہے۔ان  فرض  علوم کے بعد پوراعلم دین، فقہ (دینی مسئلوں کا علم)،حدیث، تفسیر(کہ جس میں قرآنِ پاک کی آیت کا مطلب وغیرہ بتایا جائے)،عربی زبان، اس کی صرف(عربی صیغوں،  tenses وغیرہ کا علم)، نحو(عربی گرامر(grammar) کاعلم)، معانی(ایسا علم کہ جس سے پتا چلے کہ کس صورت (condition)میں  کس طرح بات کرنی ہے)، بیان(ایسا علم کہ جس سے پتا چلے کہ کس جگہ کونسے الفاظ سے بات کرنی ہے اور کونسا لفظ نہیں بولنا)، لغت(عربی کے الفاظ معنی کا علم)، ادب(عربی جملوں کا علم) وغیرہا آلات علوم دینیہ(یعنی وہ فن یا علم جسے سیکھ کر قرآن وحدیث سمجھا جاسکے) بطور آلات (کہ قرآن وحدیث سمجھا جاسکے، اتنا)سیکھنا سکھانا فرض کفایہ ہے(یعنی معاشرے (society) میں ایسے لوگ ہونے لازم ہیں  کہ جو  ان چیزوں  کا علم رکھتے ہوں ورنہ سب لوگ گناہ گار ہونگے)۔

(فتاوٰی رضویہ ج ۲۳، ص ۶۲۷،مُلخصاً)

{4} ایک اور مقام پرکچھ یوں فرماتے ہیں : آیتوں ا ور حدیثوں میں جو عُلَمائے کِرام کے فضائل اور علمِ دین حاصل کرنے کی ترغیبیں(emphasis) آئی ہیں ، وہاں  فرض علم کے  علاوہ(except) بہت سے  علم  بھی شامل  ہیں کہ  جن کا سیکھنا فرض کفایہ یا واجب یا مسنون(یعنی سنّت کے درجے(category) پر ) یامستحب  ہو مگر ان  کے بعد  کوئی  جائز علم بھی ہو  تب بھی اس علم کو حاصل کرنے پر آیتوں ا ور حدیثوں میں بتائے ہوئے ثواب نہیں ملیں گے  {5} (۱)علم حاصل کرنے پر ثواب ملنے کا اصول یہ ہے کہ: وہ علم جو آدمی کو اس کے دین میں   براہ راست (direct) فائدہ  دے یا  کسی واسطے یا ذریعے سے(indirect) فائدہ دے، اُس پر ثواب ملتا ہے۔

(۲) وہ علم کہ جو دین کے لیے براہ راست فائدہ دے، اُس کی مثال: فقہ(دینی مسئلوں کا علم) وحدیث وتصوف بے تخلیط(یعنی ایسا باطنی علم جس میں  دل  کی روحانی صفائی  کا علم ہو مگر اس میں کسی قسم کی گمراہ  یا غلط بات نہ ہو بلکہ قرآن و سنّت  کی  باتیں ہوں)، وتفسیر قرآن بے افراط وتفریط(کہ جس میں قرآنِ پاک کی آیت کا مطلب وغیرہ بتایا جائے اور کوئی  غلط روایت یا کوئی غلط بات نہ ہو)۔

(۳)وہ  علم کہ جو   کسی واسطے یا ذریعے سے فائدہ دے، اُس کی مثال: نحو(عربی گرامر(grammar) کاعلم) وصرف (عربی صیغوں،  tenses وغیرہ کا علم)ومعانی (ایسا علم کہ جس سے پتا چلے کہ کس صورت (condition)میں  کس طرح بات کرنی ہے)بیان (ایسا علم کہ جس سے پتا چلے کہ کس جگہ کونسے الفاظ سے بات کرنی ہے اور کونسا لفظ نہیں بولنا) (۴) یہ علم(صرف،نحو وغیرہ) خود دینی (یعنی قرآن و حدیث یا  دینی مسائل کے ) علم نہیں ہیں لیکن قرآن وحدیث  سمجھنے کا ذریعہ (means) ہیں،لھذا انہیں سیکھنا بھی ثواب کا کام ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج ۲۳، ص ۶۲۷،مُلخصاً)

{6}صدرالشریعہ ،مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   ۱۳۶۲ھ (1940ء)میں  لکھی  گئی کتاب ” بہارِشریعت “ میں کچھ اس طرح  فرماتے ہیں:آج کل مدرسوں   میں جو تعلیم ہے ،اسے مکمل پڑھنے والے  بہت کم ہوتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو  مکمل پڑھتے نہیں ہیں مگر کچھ پڑھ ( اور امتحان وغیرہ دے) کر سند(certificate) لے لیتے ہیں اور اگر پورا درس  نظامی بھی پڑھا تو اس پڑھنے کا فائدہ یہ ہوتا  ہے کہ اب اتنی  صلاحیت(ability)  آگئی کہ کتابیں دیکھ کر محنت کر کے علم حاصل کرسکتے ہیں ۔ آج کل درس نظامی مکمل کرنے والوں کوہم  یہ بھلائی کی بات  کہتے ہیں  کہ درس نظامی مکمل کرنے کے بعد فقہ و حدیث و تفسیر  وغیرہ کو بہت پڑھیں ، کوئی دین کا مسئلہ پوچھے تو اگر صحیح طور پر معلوم ہو تو بتا دیں  اور مسئلے  کا جواب نہ آرہا ہو تودوسروں سے پوچھ لیں  کہ علم کی بات پوچھنے میں کبھی شرمانا(shy) نہیں چاہیے۔ (بہارِ شریعت ج۳،ح۱۷، ص ۱۹۹،۲۰۰مُلخصاً)

 

 ’’ نیکی  اور اسلام کی دعوت ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

     میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ اُمّت میں کثیر(یعنی بہت سے) اختلافات disagreements)) دیکھے گا ایسے حالات  میں تم پر لازم ہے کہ میری سنّت اور خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام  لو (یعنی اس پر عمل کرو) ۔ (ابوداؤد، کتاب السنۃ ،  ۴/۲۶۷، حدیث:۴۶۰۷، ملتقطًا)

واقعہ(incident):          سنّت سے محبت کا انعام

    حضرت  اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں ، مجھ سے اللہ کریم کے رسولصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے  فرمایا :اے میرے بیٹے !اگر تو یہ کرسکتا ہے کہ اس حال میں صبح و شام کرے کہ تیرے دل میں کسی کی بد خواہی ( یعنی کینہ وغیرہ ) نہ ہو تو ایسا ہی کر(یعنی اپنے دل  سے  مسلمانوں کاکینہ  ختم کرو)۔ پھر فرمایا: اے میرے بیٹے ! یہ میری سنّت ہے اورجو میری سنّت سے محبّت کرے گاوہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا۔

(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان،  ۱/۵۵، حدیث:۱۷۵)

نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے  کے مسائل :

{1} اللہ کریم   فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اے ایمان والو! تم میں  جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب(soon)اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ محبت فرماتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ،مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہیں ، اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت(curse) کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔(پ ۶، سورۃ المائدۃ، آیت ۵) (ترجمہ کنز العرفان)

{2}    حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں ہم نے اللّٰہ  کریم کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بیعت  کی ( یعنی وعدہ کیا،جس میں یہ بھی ہے کہ) ہم جہاں بھی ہوں حق ہی کہیں، اللّٰہ  کریم  کے بارے میں کسی ملامت کرنے (یعنی بُرا بھلا کہنے)والے  کی ملامت سے  نہ ڈریں (بخاری،ج۹، ص  ۷۷، مُلتقطاً، مطبوعہ بیروت )۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں :یعنی ہم مُدَاہَنَت فِی الدِّیْن (یعنی دین کے معاملے میں ایسی  نرمی جس کی اسلام  اجازت نہیں دیتا) نہ کریں گے ۔ ہر چھوٹے بڑے کے سامنے ہر جگہ ہر وقت سچی بات کہیں گے ۔ ہر مسلمان اپنی  طاقت کے مطابق مُبَلّغ (یعنی نیکی کی دعوت  دینے والا اور بُرائی سے منع کرنے والا)ہے۔(مراۃ جلد۵،ص۵۶۷سوفٹ ائیر،مُلخصاً)

{3} اللہ   کریم  فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اللہ اور اس کارسول اس بات کے زیادہ حقدار (deserving) ہیں کہ لوگ انہیں  راضی (pleased)کریں ،اگر وہ ایمان والے ہیں۔ (پ ۱۰، سورۃ التوبۃ، آیت ۶۲) (ترجمہ کنز العرفان، مُلخصاً)

{4} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: عقل کا نور جن چیزوں کی طرف رہنمائی(guidance) کرتا(یعنی لے جاتا) ہے، ان میں سےاللہ کریم  پر ایمان لانے کے بعد ، سب سے افضل چیزانسانوں سے محبّت کرنا ہے ( شعب الایمان،     حدیث ۸۴۷۵ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت۶/۳۵۱) ۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے  کچھ اس طرح فرمایا:(یہ محبّت اُس وقت تک ہے ) جب تک نہ دین میں مداہنت(یعنی بے جا نرمی ہو اور) نہ اُس(محبّت) کے لئے کسی  قسم کا کوئی گناہ کرنا پڑے۔ (فتاوی رضویہ جلد۴، ص۵۲۷،مُلخصاً)

{5}  مداہنت  کا ایک معنیٰ ہے پلپلا پن یعنی ’’نرم ہو جانا‘‘(مراۃ ج۵،ص۵۷۲سوفٹ ائیر) ۔ شریعت میں اس کا ایک  معنیٰ یہ بھی ہے کہ:دین کے معاملے میں بے جا نرمی  کرنا یعنی  اسلام جس نرمی کی اجازت نہیں دیتا، ایسی نرمی کرنا۔اسی طرح  ناجائزاورگناہوں بھرے کام کو دیکھنے کے بعد(روکنےکی طاقت ہونے کےباوجود ) اسے نہ روکنا اور کسی  دینی معاملے میں کمزوری و کم ہمتی(low confidence) کرتے ہوئے، سامنے والے کی  مدد نہ کرنا یا کسی بھی دنیوی  وجہ سے دینی معاملے میں نرمی یا خاموشی اختیار (adopt)کرنا’’مُدَاہَنَت ‘‘ہے۔

) الحدیقۃ الندیۃ،   ج۲، ص۱۵۴(

{6}جو شخص نماز کے مسائل  نہ جانتا ہو یا جسےقرآن درست پڑھنا نہ آتا ہو، ایسے کو نماز میں امامت کے  لیے کھڑا کر دینے کےبارے میں اعلیحضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایسے شخص کو  نماز میں امام کرنا حالانکہ  نماز  توعمادِ اسلام (یعنی اسلام کا ستون)اورافضلِ اعمال (یعنی بہترین نیکی)ہے،  (مسائل نہ جاننے والے شخص کو اتنی اہم دینی جگہ پر کھڑا کرنا اور امام بنانا)یقیناً بے احتیاطی(careless کام) اورحُکمِ شرعی( یعنی دین کے معاملے)میں مداہنت (یعنی بے جا نرمی کرنا) ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۶،ص۴۴۶)

{7}اگر کسی کو گھٹنا(knee) کھولے ہوئے دیکھے، تو نرمی کیساتھ منع کرے، اگر باز نہ آئے(اور گھٹنے کو نہ چھپائے)، تو اس سے جھگڑا نہ کرے اور اگر ران (thigh) کھولے ہوئے ہے، تو سختی سے منع کرے اور باز نہ آیا(یعنی ران نہ چھپائے)، تب بھی   اُسے مارنے کی اجازت نہیں  ۔(بہار شریعت جلد۱،ح۳،ص۴۸۲،    مسئلہ ۲۹مُلخصاً)

{8} اعمال میں ہدایت (یعنی نیکی کے کاموں کی طرف بلانے میں ) نرمی (سے کام لینا) چاہئے کہ سختی سے ضد(stubbornness) نہ بڑھے۔ (فتاوی رضویہ جلد۷، صفحہ۱۹۴)

    {9}کسی کو گناہ کرتے دیکھے تو بہت  نرمی کے ساتھ اسے منع کرے اور اسے اچھی طرح سمجھائے پھر اگر اس طریقہ   سے کام نہ چلا وہ شخص باز نہ آیا (اور اُسے  مضبوط خیال ہے کہ اگر تھوڑا سختی سے بولوں گا تو سامنے والا گناہ چھوڑ دے گا )تو اب سختی سے پیش آئے، اس کو سخت الفاظ کہے(مثلاً ایسا مت کرو)، مگر گالی نہ دے، نہ فحش (یعنی گندہ)لفظ زبان سے نکالے۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶، ص ۶۱۵، مسئلہ۲،مُلخصاً)

{10} فرمانِ  مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعے روکے، اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے۔

( مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النہی عن  المنكر ... الخ، ص 42،  حدیث: 78)

{11}جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے کی طاقت رکھتا ہو(یعنی مضبوط خیال (strong assumption)  ہو کہ  بُرائی سے منع کروں گا تو سامنے والا  گناہ چھوڑ دے گا تو) اس  شخص پر برائی سے روکنا فرضِ عین (اور لازم) ہوجاتا ہے۔(صراط الجنان۲/ ۲۳ مُلخصاً)

{12} گناہ سے روکنے میں شریعت کی حدود(boundaries) نہیں توڑی جائیں گی (مثلاً گناہ کرنےوالے کو غیر شرعی طریقےسے مارنا)۔ اعلیحضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفِقہ کا ایک اُصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: گناہ کا اِزالہ گناہ سے نہیں ہوتا۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۳، ص ۶۳۹)

{13} مُفتِی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :  بُرائی کو بدلنے کے لیے ہر طبقے(all classes) کو اس کی طاقت کے مطابق ذمہ داری(responsibility) دی  گئی  ہےکیونکہ اسلام میں کسی بھی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ کام کولازم نہیں  کیاگیا۔ حکمران(ruler) ، اساتذہ (teachers)، والدین وغیرہ جو اپنے ماتحتوں (subordinates) کو کنٹرول کرسکتے ہیں وہ قانون پر سختی سے عمل کراکے اور مخالفت (against کرنے)کی صورت میں سزا دے کر برائی کو ختم کرسکتے ہیں۔  عام مسلمان جو  کچھ قدرت نہیں رکھتاوہ دل سے اس برائی کو برا سمجھے ، اگرچہ یہ ایمان کا کمزور ترین  (weakest)مرتبہ ہے لیکن جب (ایک عام آدمی)   خود برائی کے قریب نہیں جائے گا تو اس طرح  بھی معاشرے(society) کے بہت سارے لوگ گناہوں سے بچ جائیں گے۔(مراٰۃ المناجیح ج۶ ص۵۰۲ ،  مکتبہ اسلامیہ ،مُلخصاً)

{14}فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ:خالق (یعنی اللہ   کریم)کی نافرمانی میں مخلوق (creatures) کی اطاعت (یعنی حکم ماننا) جائز نہیں (مسند امام احمد بن حنبل    عن علی        ۱/۱۲۹) ۔  اعلیحضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جو اس حدیث کی وضاحت (explanation)   فرمائی، اُس سے معلوم ہوتا ہے:(۱)فرض، واجب اور سنّت مؤکدّہ کو پورا کیا جائے گا، کسی کے کہنے پر نہیں چھوڑیں گے(۲)کسی کے کہنے پر کوئی گناہ نہ کیا جائے(۳) اگر برادری(community) کی کوئی ایسی رسم(custom) ہے جس کی وجہ سے مستحب (یعنی نفلی کام) چھوٹ رہا ہوتو لوگوں کے دل خوش کرنے کے لیے مستحب (صرف نفلی کام) چھوڑا جائے (فتاوی رضویہ جلد۴،ص۵۲۸ماخوذاً) ۔ مثلاً نکاح مسجد میں  ہونا مستحب ہے(بہارِ شریعت  جلد۱، ح ۷ص۵،مسئلہ۹) لیکن برادری (community)کی رسم (custom)  شادی ہال میں نکاح کروانے کی ہےتو  لوگوں کے دل  خوش کرنے کی نیّت سے شادی  ہال میں نکاح رکھا جائے تو یہ اچھا اور بہتر کام ہے۔

{15}     اَمْرٌبِالْمَعْرُوْف(یعنی نیکی کا حکم  کرنے) کے لیے پانچ (۵)چیزوں کی ضرورت ہے:

(۱): علم،  گناہ سے روکنے کے لیے علم  سے یہ مراد نہیں کہ وہ پورا عالم ہوبلکہ اتنا جانتا ہو کہ یہ چیز گناہ ہے اور  

دوسرے کو بری بھلی بات سمجھانے کا طریقہ بھی جانتاہوکہ  اچھے انداز(good manner) سے سامنے والے کو سمجھا سکے۔جسے بالکل  علم ہی  نہ ہو  وہ اس کام کو  صحیح  طرح  نہیں کر سکتا۔

(۲): نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، اللہ کریم کو راضی (please)  کرنے   اور  اسلام کا پرچم اونچا کرنے (یعنی اسلام کی تعلیمات عام کرنے کے لیے)ہو۔

(۳): جسے نیکی کرنے یا برائی سے بچنے کاحکم دیتا ہے، اسےنرمی سے  کہے۔

(۴):  نیکی کی دعوت دینے  یا برائی سے منع  کرنے والا صابر(patient) اور بردبار(forebearing) ہو۔

(۵): یہ شخص خود اس بات پر عمل بھی کرتا ہو جیسا کہ  قرآن مجید میں ہے: کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہواوراپنے آپ کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں ۔(پ۱،سورۃ البقرۃ، آیت۴۴) (ترجمہ کنز العرفان)(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶، ص ۶۱۵، مسئلہ۶،مُلخصاً) 

برائی سے منع کرنے کی کچھ صورتیں(cases):

 (۱)  اگر مضبوط خیال (strong assumption)  ہو کہ سامنے والا (گناہ سے رکنے والی) بات مان لے گا  اور برائی سے رُک جائےگا تو ایسی صورت میں  گناہ سے روکنے کی کوشش کرنا واجب ہے ،خاموش رہنا جائز نہیں۔

    (۲) اگرمعلوم ہو کہ گناہ سے روکے گا تو وہ  لوگ  اسے  ماریں گے مگر   برائی سے منع کرنے والے کا یہ ذہن بھی ہے  کہ   صبر کرلے گا تو ان لوگوں کو برے کام سے منع کرنے والا یہ شخص’’مجاہد‘‘ہے۔

    (۳) اگرمعلوم ہو کہ گناہ سے روکے گا تو وہ  لوگ  ماریں گے نہیں لیکن اُلٹا سیدھا بولیں گے،گالیاں دیں گے تو اس صورت(case) میں  برائی سے نہ روکنا افضل(اور ثواب کا کام)ہے۔

    (۴) اگر مضبوط خیال (strong assumption)  ہو کہ نصیحت(advice) کرنے پر لوگ بُرا بھلا کہیں گے یا مار پیٹ کریں گےاور  برائی سے روکنے والا صبر نہ کرسکے گا یا اس کی وجہ سے فتنہ و فساد (turbulence)پیدا ہوگا ،آپس میں لڑائی ہو جائے گی تو اب اس وجہ سے برائی سے  نہ روکنا  افضل (اور ثواب کا کام)ہے ۔

    (۵) اگر معلوم ہے کہ وہ مانیں گے تو نہیں مگر نہ ماریں گے اورنہ گالیاں دیں گے تو اسے اختیار(option) ہے اور افضل(یعنی ثواب کاکام) یہ ہے کہ برائی سے روکے۔(بہارِ شریعت ج۳،ح۱۶، ص ۶۱۵، مسئلہ۳،مُلخصاً) 

{17} (۱)اللہ   کریم  کے حکموں کو پورا کرنا اور گناہ سے خود بچنا ہر شخص پر فرض ہے اور دوسرے کو  شریعت پر عمل کرنے کا حکم دینا اور  اپنی طاقت کے مطابق گناہ سے دوسروں کو روکنا ہر اہل(یعنی طاقت  رکھنے والے) پر فرض ہے۔ اب اگریہ صورت حال (situation)ہے   کہ ایک شخص ایک  گناہ  خود کرتا ہے  اور دوسرا بھی وہی گناہ کرتا ہے لیکن پہلا شخص ، دوسرے آدمی کو اُس  گناہ سے روک سکتا ہے تب بھی پہلے شخص پر لازم ہے کہ دوسرے آدمی کو گناہ سے روکے یعنی  ایسا نہیں ہے کہ خود ایک گناہ کر رہا ہے تو دوسرے کو اس گناہ سے نہ روکے کیونکہ طاقت ہونے کے باوجود دوسرے کو گناہ سے  نہ روکنا مزید (more) ایک اور گناہ ہو جائے گا لھذا خود گناہ چھوڑنا بھی لازم مگر نہ چھوڑے تب بھی (طاقت ہو تو)دوسرے کو گناہ سے روکنا لازم  ہی ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۲، صفحہ۴۰۹، ماخوذاً)

  (۲)ہاں ! برائی  سے روکنے کی وجہ سےاگر  فتنہ وفساد(turbulence) وحشت ونفرت(fear and hatred) کا مضبوط خیال (strong assumption)   ہو تو برائی سے نہ روکنےکی اجازت ہے  (۳)اب اگر اس برائی  کے ہونے یا اس برائی کو روکنے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے دل میں غم(grief)  اور افسوس ہے اور اپنے مسلمان بھائی کے لئے دعا  بھی کرتا ہے تو یہ ایمان کی نشانی  (sign)ہے اس پر ثواب بھی  پائے گا۔ (فتاوی رضویہ جلد۲۲، صفحہ۴۰۹، مُلخصاً)

{18}  نماز میں امام صاحب سے ایسی  غلطی ہوئی  جس سے نماز نہیں ٹوٹتی (اور نہ ہی مکروہ تحریمی ہوتی ہے) تو امام صاحب کو بتانا ضروری نہیں  بلکہ اگر ایسی صورت حال(situation)  ہو  کہ امام صاحب کو بتائیں گے تو اُن کا دل تنگ ہوگا یا برا لگے تو اب ایسی غلطی نہ بتانا ضروری ہے، فَاِنَّ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ یَسْقُطُ بِالْاِیْحَاشِ (یعنی نیکی کا حکم، دل میں پیدا ہونی والی وحشت(یعنی تنگی یا پریشانی)  کی وجہ سے  ختم ہوجاتاہے )۔ (فتاوی رضویہ جلد۷، صفحہ۲۸۶، ماخوذاً)

{19}  جو سنّت، سنّت مؤکّدہ نہ ہو  اور اُس  سنّت پر  عمل کرنے کا ایک ہی اندازنہ ہو بلکہ  اُسے پورا کرنے کے  مختلف انداز (different ways)ہوں تواب اگر اُس   سنّت پر عمل  کرنے کے کسی خاص انداز (specific way)سے عوام(علم نہ ہونے  یا کوئی نئی چیز نظر آنے کی وجہ سے)ہنسیں گے تو  ایسی جگہ سنّتِ غیر مؤکّدہ  بلکہ سنّتِ مؤکّدہ کے اس  انداز کو چھوڑنا اچھا ہے  کیونکہ  ایک مُستَحب (اور ثواب کے کام ) کے لئے لوگوں کا دین  خراب   نہیں کرنا چاہیے۔ یاد رہے! سنّت پر ہنسنا مَعَاذَاللہ! (یعنی   اللہ کریم   کی پناہ)  کفر تک لے جاتاہے اور مسلمانوں کو کفر سے بچانا فرض ہے ۔ شملہ یعنی  عمامے کے پیچھے کمر پر  جو کپڑا لٹک رہا ہوتا ہے، اس کے بارے میں عُلَمائے کِرام نےفرمایا کہ جہاں جہاں اس پر ہنستے ہیں اور مَعَاذَاللہ! دُم (tail)کہتے ہوں وہاں عمامے کے پیچھے شملہ نہ نکالا جائے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۲، صفحہ۴۰۹، ماخوذاً)

 

’’کچھ شرعی مسئلے ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

        جو شخص ميری اُمّت تک کوئی اِسلامی بات پہنچائے تا کہ اُس سے سُنَّت قائم کی (یعنی سُنّت پر عمل کیا) جائے يا اُس سے بدمذھبی(یعنی برا عقیدہ۔bad belief یا گمراہی) دُور کی جائے تو وہ جنتَّی ہے۔

 (حِلْيَۃُ الْاَوْلِياء ج۱۰ص۴۵رقم الحديث ۱۴۴۶۶طبعۃ دارالکتب العلميۃ بيروت)

 واقعہ(incident):         کسی کی ادا کو ادا کررہا ہوں(acting upon)

   حضرت عبدُ اللہ  بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا  مکّہ شریف جاتے ہوئے ایک جھڑبیریا (یعنی ایک جنگلی جھاڑی جس میں چھوٹے چھوٹے سرخ بیر لگتے ہیں۔ jujube)کی شاخوں (branches)میں اپنا عمامہ  شریف اُلجھا کر(یعنی اپنا پہنا ہوا عمامہ اُس میں ڈال کر خود ) کچھ آگے بڑھ جاتے پھر واپس ہوتے اور عمامہ شریف  جھاڑی (bush)سے نکالتے۔لوگو ں نے پوچھا یہ کیا   کر رہے ہیں؟تو فرمایا کہ رَسُوْل ُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا عمامہ شریف اس بیرمیں اُلجھ (یعنی پھنس)گیا تھا اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَاتنی دور آگے بڑھ گئے تھے اور واپس ہو کر اپنا عمامہ شریف چھڑایا تھا(تو میں بھی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ادا کو ادا کر رہا ہوں)۔

(نورالایمان بزیارۃآثار حبیب الرّحمٰن ،ص۱۵،مُلخصاً)

تَحَرِّی (سوچنے، مضبوط خیال (strong assumption) کرنے) کے کچھ دینی مسائل:

  {1}  جہاں  حقیقت (reality) معلوم کرنا مُشکل ہو  اور  اس کام کو کرنا بھی ہو تو شریعت (اور دین )کے

  اصولوں  (principles)  پر عمل کرتے ہوئے، مضبوط خیال(strong assumption)   پر عمل کرنے کو

”تَحَرِّی” کہتے ہیں() جس  صورت (case) میں شریعت  نے ” تَحَرِّی” کی اجازت دی ہے، وہاں ” تَحَرِّی”  پر عمل کرنا ،جائز ہے(اور کئی جگہ ” تَحَرِّی”  کرنا لازم ہے)۔

{2} جہاں شریعت نے ” تَحَرِّی” کا حکم دیا ہے، ایسی صورت  (case)میں  دو آدمیوں  نے” تَحَرِّی”کی اور دونوں کے خیال الگ الگ تھے مگر ایک  نے جو مضبوط خیال(strong assumption)  کیا تھا وہ صحیح تھا اور دوسرے  کا صحیح نہیں تھا لیکن دونوں نے ہی  شریعت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے سوچا تھا لھذا دونوں  ہی  نے دین کے حکم پر عمل کر لیا (مثلاً قبلہ رُخ(Qibla direction) معلوم نہیں تھا،  توجس صورت(case)  میں  ” تَحَرِّی”  کا حکم  ہے، اُس  میں دونوں نے سوچا اور نماز پڑھ لی ، ایک  نے تو واقعی(really) قبلہ رُخ(direction)  نماز پڑھی اور دوسرے نے غلط رُخ  (wrong direction)نماز پڑھی مگر دونوں کی نماز ہوگئی کیونکہ دونوں نے ہی شریعت کے حکم پر عمل کیا)  مگر جس کا خیال  صحیح تھا(مثلاً جس نے قبلے ہی کی طرف نماز پڑھ لی تو) اُس کو ثواب زیادہ  ملے گا۔(بہارِ شریعت ح ۱۷ ،ص۶۶۱، مُلخصاً)

{3}(  کوئی آدمی سفر وغیرہ میں ایسی جگہ پہنچا جہاں)قبلہ کی سمت(direction) معلوم نہیں(ہو رہی تھی) تو  وہ کسی مسلمان سے پوچھے  ، یا وہاں مسجدہے تو اس سے قبلہ رُخ(Qibla direction) دیکھ لے()  اگرایسی جگہ پر ہے  جہاں قبلہ رُخ پتا ہی نہیں چل رہا، نہ کوئی ایسا مسلمان ہے جس سے پوچھ کرمعلوم کر سکے(نہ وہاں مسجديں  ہیں) تو ” تَحَرِّی”   کرے یعنی سوچے اور جہاں دل جمے( مضبوط خیال(strong assumption)  ہو جائے)  کہ یہاں قبلہ ہے تو اُسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے۔

نوٹ:

(۱)  جب قبلہ شریف  سامنے نہ ہو تو 45 ڈِگری  (degree)   کے اندر اندر پڑھی جانے والی نماز صحیح ہو جاتی ہے۔بہار شریعت  میں کچھ اس طرح ہے کہ: (نماز میں)قبلے شریف کی  طرف منہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ (جب قبلہ شریف  سامنے نہ ہو تو)پورے چہرے(face ) کا کوئی بھی حصّہ(part) کعبہ شریف کی طرف ہو جائے(تو نماز ہو جائے گی)۔ اس کی حدّ(limit)45 درجے(degree)  ہے(نوٹ:ایک گول دائرے(round circle) میں  360 درجے ہوتے ہیں،اس میں سے کعبۃ اللہ  شریف کے سیدھی طرف والے 45درجے اور اُلٹی طرف والے 45درجے میں پڑھی جانے والی نماز ہو جائے گی([15]))۔ اگر نماز پڑھنے والا 45 درجے(degree) سے بھی زیادہ  پھر گیا (turned) تو نماز نہیں ہوگی۔یاد رہے کہ اگر کوئی  شخص مکّے شریف میں ہے  لیکن اُسے  کعبۃ اللہ شریف    نظر نہیں آ رہا (مثلاً بلنڈگز وغیرہ  سامنے ہونے کی وجہ سے)مگر چھت پر جا کر  کعبۃ اللہ شریف دیکھ سکتا ہے تو اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ   بالکل قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے۔(بہار شریعت   ح۳،ص۴۸۷،مسئلہ ۴۹، ۵۲، مُلخصاً)

(۲) (الف)وہ مَمالک(countries) کہ جن کے(تقریباً) مغرب(west) میں قبلہ شریف ہے(جیسے، پاکستان (Pakistan) کے اکثر(most)شہر ، انڈونیشیا(Indonesia)، بنگلہ دیش(Bangladesh)، ہند(India)، نیپال(Nepal)، چائنہ(China) کے اکثر(most)شہر، جاپان(Japan)، بھوٹان (Bhutan)،تھائی لینڈ(Thailand)،کوریا(Korea)، آسٹریلیا(Australia)) ان ممالک (countries)   میں سورج سے بھی قبلہ رُخ معلوم ہو سکتا ہے، مثلاً  سفر کے دوران  عصر تاخیر سے (late)پڑھ رہے ہیں  تو سورج کی طرف  اپنارخ(direction) کرنے سے آپ قبلہ رُخ  ہو جائیں گے۔

(ب) ان ممالک(countries) میں، نظروں کے سامنے سورج ڈوبا(sunset) اوراسی طرف  مغرب  پڑھ لی تو اکثر(major) جگہوں پر ہو جائے گی  لیکن  پاکستان ا ور چائنہ کے  کچھ  علاقے(شہر  وغیرہ) ایسے بھی ہیں کہ  جہاں گرمی  کے موسم(summer season) میں  ڈوبتے ہوئے سورج(when the sun goes down) کی طرف  (direction پر) نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی ، اس لیے کہ  ان جگہوں میں سورج گرمی کے کچھ دن(اور کچھ جگہ کئی  ہفتے )بالکل قبلہ شریف   کے 45 ڈِگری  (degree)    سے  بھی باہر(مثلاً 46 ڈِگری ،50ڈِگری وغیرہ) پر ڈوبتا ہے۔ جیسے (پاکستان کے علاقے) پشاور، مردان، سوات، دیر، چترال، مانسہرہ، مظفر آباد، وادی نیلم ، گلگت و  بلتستان (وغیرہ) ، (اسی طرح چائنہ کے شہر) Urumqi, Hotan, Kashgar,Korama  e.t.c, میں ڈوبتے سورج کی طرف رُخ کر کے نماز نہ پڑھی جائے۔

 (ج) یاد رہے کہ شرعی اجازت کے بغیر عصر کی نماز کو  مکروہ وقت تک تاخیر سے(late) پڑھنا، ناجائز اور گناہ ہے۔

 (۳) 45 درجے(degree) میں نماز  یا سورج کو دیکھ کر قبلے شریف کی طرف نماز پڑھ لینے کی آسانی  کا یہ مطلب نہیں کہ اس طرح اندازے(guess) سےمسجد ہی  بنا دی جائے، جب مسجد بنانی ہو تو سُنی  عُلمائے توقیت (وہ حضرات کہ جو نماز کے وقتوں اور قبلہ رُخ (Qibla direction) جاننے کے ماہر(expert) ہوں ) سے رہنمائی (guidance)لے کر مکمل صحیح ڈگری(degree)  پر  مسجد بنائی جائے بلکہ اپنے گھر میں پڑھی جانی والی نمازوں میں بھی صحیح قبلہ رُخ کا خیال رکھیں کیونکہ جس شخص کے سامنے قبلہ  نہ ہو اور نہ وہ مکّے میں ایسی جگہ ہو کہ چھت سے کعبے شریف کو دیکھ لے، اُسےکوشش کر کے  بلکل کعبۃُ اللہ کی سیدھ میں نماز پڑھنا مُستحب اور ثواب کا کام ہے۔(فتاوی رضویہ ج۶، ص۱۲۴، مَاخوذاً)

(۴) آج کل موبائل کے ذریعے بھی قبلہ رُخ(Qibla direction) دیکھا جاتا ہے، جہاں   معلوم  نہ  ہو رہا ہو(کہ وہاں نہ مسجد ہو نہ سورج  جیسے عشاء اور فجر کا وقت) اور بتانے والا بھی کوئی نہ ہو، وہاں نیٹ کے ذریعے قبلہ رُخ(Qibla direction) دیکھ کر مضبوط خیال (strong assumption)  ہو سکتا ہے۔یا د رہے کہ  کچھ موبائلز(mobiles) نیٹ(net) کے بغیر ڈگری بتا دیتے ہیں(مگر آہستہ آہستہ ایسی اپلیکشنز (applications) کم ہوتی جا رہی ہیں،  اگر واقعی(really) کسی کے پاس موبائل میں ایسی اپلیکشنز (applications)ہیں)توپاکستان(Pakistan)،ہند(India)،بنگلہ دیش (Bangladesh)، نیپال (Nepal)  بلکہ  اوپر  بتائے ہوئے تمام ممالک (countries)میں دو سو ستر ڈگری (270 degree) دیکھ کر(بغیر نیٹ (net)کے بھی ) قبلے کی طرف نماز پڑھ سکتے ہیں۔

(۵) ان ممالک کی بھی جن جگہوں میں ڈوبتے ہوئے سورج(sunset) کو دیکھ کر نماز نہیں پڑھ سکتے ، وہاں دو سو ستر ڈگری(270 degree) دیکھ کر نماز پڑھیں گے تو  نماز صحیح ہو جائے گی لھذا بہتر یہی ہے کہ  ان ممالک (countries)میں قبلہ رُخ(Qibla direction) دیکھنے کے لیے270 degree دیکھنے کی عادت بنائیں ۔

{4}  اگر مسجد یا محرابیں تھیں (یعنی مسجد کے آگے نکلا ہوا حصّہ جس میں امام صاحب کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے ہیں ، اس سے پتا چل جاتا ہے کہ  قبلہ رُخ(Qibla direction)  کہاں ہے) مگر اُس رُخ(direction)  پر نماز نہ پڑھی ، چاہے” تَحَرِّی”  (یعنی سوچ  ) کر  پڑھی لی، نماز نہ ہوئی ()کوئی مسلمان بتانے والا تھا مگر اُس سے نہ پوچھا اور” تَحَرِّی” کر لی مگر اتفاقاً(coincidentally) قبلے کی طرف نماز پڑھ لی  تو نماز  ہوگئی اور اگر قبلے سے ہٹ کر پڑھی تو نمازنہیں ہوگی () اسی طرح جہاں ” تَحَرِّی”  کرنے کا حکم ہے، وہاں  اُس طرف نماز نہ پڑھی کہ جہاں دل جم رہا   تھا تب بھی نماز نہ ہوئی۔

 {5}ایسی جگہ ” تَحَرِّی”  کرکے (یعنی  قبلہ رُخ(Qibla direction) کے بارے میں مضبوط خیال کر کے)نماز پڑھی کہ جہاں  ” تَحَرِّی”   کرنے کا حکم تھا لیکن بعد میں معلوم ہواکہ قبلے کی طرف نماز نہیں پڑھی،تب بھی وہ نماز ہو گئی یعنی  دوبارہ پڑھنے کی ضرورت  نہیں ()  ایک شخص” تَحَرِّی”  کرکے (یعنی  قبلہ رُخ سوچ کر) نماز پڑھ رہا  تھا، دوسراا آدمی اُسے دیکھ کر بغیر  ” تَحَرِّی” کرے،  اُسی رُخ( direction) نماز پڑھنے لگاتو (اس شخص کی یہ نماز)نہیں ہو گی(ایسی جگہ ) دوسرے کے لئے بھی (الگ سے) ” تَحَرِّی”  کر نے کا حکم ہے ()  ہاں!  اگر بغیر

”تَحَرِّی” کرکے نماز پڑھنے والے کو بعد میں   یقین کے ساتھ معلوم ہو گیا کہ  نماز  قبلہ رُخ   ہی پڑھی تھی ، تو اب نمازہوگئی (بہارِ شریعت ج ۱ ،ص ۴۸۹تا۴۹۱،  مسئلہ ۵۸تا ۶۵ ،مُلخصاً) ۔  کیونکہ اصل حکم تو یہی تھا کہ نماز قبلہ رُخ  ہو اور جہاں قبلہ رُخ معلوم نہ ہو، وہاں ”تَحَرِّی”  کرنا،قبلہ رُخ پڑھنے کا نائب(alternative) تھا۔اس صورت(case) میں  اصل یعنی قبلہ رُخ پڑھنا پایا گیا لھذا ”نائب” (alternative) یعنی ”تَحَرِّی” کرنے کی ضرورت نہ رہی۔

    {6} نماز کے وقت میں شک (doubt)ہوا ، اگر یہ  شک  ہے کہ وقت ہوا یا نہیں تو  رُک  جائے (یعنی ابھی نماز نہ پڑے پھر)  جب وقت ہوجانے کا یقین (sure)ہوجائے  تواُس وقت نماز پڑھے اور () یہ شک ہواکہ نماز کا وقت 

باقی ہے یا ختم ہوگیا تو نماز پڑھے اور نیّت  کرے کہ :آج کی فلاں نماز پڑھتا ہوں۔

  {7} دو کپڑوں میں ایک ناپاک تھا” تَحَرِّی”  کی کہ یہ والا کپڑا پاک ہے پھر اس کپڑے کوپہن  کر ظہر کی نماز پڑھ لی پھر اس کا خیال (assumption)  مضبوط(strong)    ہو گیا کہ  دوسرے کپڑے پاک ہیں اور اب عصر کی نماز دوسرے کپڑے میں پڑھی۔ عصر کی نماز کے بعد کسی طریقے سے  یقین ہوگیا ہے (مثلا  پہلے کپڑے میں  ناپاکی  نظر آنے کی وجہ سے پتا چلا  )کہ پہلے کپڑے ناپاک تھے تو  ظہر کی نماز دوبارہ پڑھے، عصر کی نماز ہوگئی  ()دوسرے کپڑے پاک ہونے  کا یقین نہیں ہوا تھا پھر بھی پہلے کپڑے بدل کر دوسرے پہنے تو عصر کی نماز نہیں ہوئی کیونکہ شریعت  کے اصول  (principle) میں ظہر کی  نماز ہوگئی تھی   تو اس حکم کی وجہ سے پہلا کپڑا پاک اور دوسرا ناپاک طے(fixed)ہوگیا  لھذا اب یہ ماننا ضروری ہے کہ عصر کی نماز نہ ہوئی۔

    {8} جسے زکوٰۃ دینا چاہتا ہے اس کے بارے میں مضبوط خیال(strong assumption) بن گیا کہ  وہ شرعی  فقیر   ہے ، یاخود اس نے اپنا فقیر ہونا بتادیا تھا، یا اس کا لباس  فقیروں والا تھا ،یا یہ فقیروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا  ،یا اُسے مانگتا ہوا دیکھا اور دل میں یہ بات آئی کہ  یہ  شرعی فقیر ہے تو ان سب صورتوں(cases) میں اس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ  پیشہ ور(professional) فقیر کو بھیک(alms)  یا زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔

    {9}  کچھ لوگ سفر میں جا رہے تھے، سب کے برتن آپس میں مل گئے پھر ان میں سے کچھ لوگ (مثلاً اسٹیشن پر)  کہیں چلے گئے ہیں، جو رہ گئے انہیں اپنے  برتن  کی کوئی علامت (sign) معلوم نہیں  تو  جانے والوں کے واپس آنے کا انتظارکریں، یہاں ” تَحَرِّی” کر کے برتن کو استعمال  نہ  کرے() ہاں !اگر استعمال کی ضرورت ہو  کہ وضو کرنا ہے یا پانی پینا ہے اور معلوم نہیں  کہ جانے والے مُسافر(passenger) کب آئیں  گے؟تو  ”تَحَرِّی ” کرکے برتن  استعمال کرلے () اسی طرح  اگر  مل کر کھانا  خریدا ،یابنایا  تھا اور دوسرے  مُسافر چلے گئےاور ایک کو بھوک

 لگی ہے تو اپنے حصّے کے مطابق  کھاناکھا سکتا ہے۔  (بہارِ شریعت ح ۱۷ ،ص۶۶۱،۶۶۲،مسئلہ ۲،۵،۳،۸، مُلخصاً)

کسی کی خبر(news) ماننے یا نہ ماننے کے کچھ دینی مسائل:

{1}(۱)اپنے نوکر کو گوشت لانے کے لیے بھیجا، چاہے وہ نوکر مجوسی(یعنی آگ کی عبادت کرنے والا۔Zoroastrian) یا ہندو (یعنی بُت(idol) کی عبادت کرنے والا)ہو جب  وہ گوشت لایا  تو کہتا ہے کہ مسلمان یا کتابی (مثلاً عیسائی(christian) یا یہودی(jews)) سے خرید کر لایا ہوں تو یہ گوشت کھایا جاسکتا ہے(جبکہ دل اُس کی بات پر جمتا ہو(فتاوی رضویہ ج۲۰،ص۲۸۴،مُلخصاً)) اور() اگر اس نے آکریہ کہا کہ مشرک مثلاً مجوسی یا ہندو سے خرید کر لایا ہوں تو اس گوشت کا کھانا حرام ہے کہ خریدنا بیچنا(buying and selling) معاملات(social matters ) میں سے ہے اور معاملات (social matters ) میں غیر مسلم  کی دی ہوئی  خبر (یعنی اطلاع ۔information) مانی جائے گی۔

 (۲)یاد رہے کہ حلَّت و حرمت ( حلال و حرام ہونے کے مسائل یعنی وہ باتیں جن کا تعلق (relation)اللہ   کریم اور بندے کے درمیان ہے،  جیسے کسی چیز کے پاک ہونے یا ناپاک ہونے کے مسائل) ”دِیَانَات  ” میں سے ہیں اور  ”دِیَانَات  ”  میں غیر مسلم  کی خبر نہیں مانی جائے گی(لیکن یہاں غیر مسلم گوشت کے حلال یا حرام ہونے کی خبر نہیں دے رہا بلکہ  اس بات کو بتا رہا کہ میں یہ کس سے لے کر آیا ہوں تو یہ دینی حکم  نہیں بتا رہا بلکہ ایک دنیاوی کام کی خبر دے رہا ہے اور ہمیں دین کا مسئلہ معلوم ہے کہ عیسائی(christian) یا یہودی(jews) جب اللہ کریم کا نام لے کر جانور ذبح کرےتو جانور حلال اور مجوسی (Zoroastrian) یا ہندو نے  ذبح کیا تو جانور حرام تو ہم نے اُس کی  دنیاوی بات مان  کردین کےمسئلے پر عمل کیا ہے(۔

نوٹ:اس بات کا خیال رکھنا بھی لازم ہے کہ آج کل جنہیں عیسائی کہا جاتا ہے ، اُن میں ایک بڑی تعداد (large number of peoples)،ایسی ہے جو خدا ہی کو نہیں مانتے، وہ دہریے(atheist)ہوتے ہیں،اُن کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا حلال نہیں ہے، صرف اُس کتابی(یعنی عیسائی یا یہودی) کا  ذبح کیا ہوا جانور حلال ہےکہ جو اپنے مذہب(یعنی عیسائیت(Christianity) یا یہودیت(Judaism) )پر ہو اور اللہ کریم کا نام لے کر اس طرح ذبح کرے کہ جانور کے گلے کی اکثر رگیں(یعنی گلے کے اندر موجود نالیاں)  کٹ گئی ہوں

 (۳) جن چیزوں کے بارے میں  اسلام نے بتا دیا کہ یہ ناپاک اور حرام  ہیں ،مثلاً شراب ، پیشاب وغیرہ تو وہ یقیناً

ناپاک  اور حرام ہی ہیں اور  جن چیزوں کے بارے میں اسلام  نے  کہا کہ وہ پاک اور حلال   ہیں  مثلاً عام پانی ، کھانا وغیرہ تو وہ پاک اور حلال ہی  ہیں اور جن چیزوں کے بارے میں  اسلام  نے پاک  و حلال ہونے یا ناپاک  و حرام ہونے کا  نہیں بتایا تو ان تمام چیزوں میں اصل(یعنی قاعدہ اور اصول) یہ ہے کہ  وہ حلال اور پاک ہیں ، جب تک کسی چیز کے بارے میں  یقینی طور پر(surety)  ناپاک یا حرام ہونا معلوم نہ ہو، اُس وقت تک(مثلاً خود آنکھوں  سے دیکھا کہ یہ چیز ناپاک ہوئی  تو ناپاک ہے ورنہ ) پاک اور حلال ہے(کسی قسم کے وسوسے، وہم اور خیال کی وجہ سے کسی چیز کو ناپاک نہیں کہا جاسکتا)،یہ  عام چیزوں کا مسئلہ ہے لیکن ()  گوشت کا مسئلہ الگ ہے، گوشت میں اصل حرام ہونا ہے(یعنی جب گوشت کے حلال ہونے کا پتا نہ ہو تو وہ حرام ہے)، اُس کے حلال ہونے کے لیے  دلیل اور ثبوت (evidence) چاہیے یعنی حلال جانور(مثلاً بکرا)   مسلمان کے سامنے  اللہ   کریم  کا نام لے کر ذبح   ہوا پھر اس   (ذبح کیے گئے جانور)کا گوشت بنانے پھر اس گوشت کو پکانے پھر پکّے ہوئے  گوشت کوکھانے کے لیے  کسی کے سامنے لانے تک مسلمانوں کی نظروں  سے غائب (یعنی  دور) نہ ہوا   کہ کوئی نہ کوئی مسلمان اُسے دیکھ رہا ہو تو اب یہ گوشت حلال ہے۔

(۴) اللہ کریم کا نام لے کر کتابی (people of holy book)نےمسلمان  کے سامنے یا مسلمان ہی نے ذبح کیا پھر مسلمان ہی نے گوشت بنایا یا مسلمان دکاندار  (shopkeeper)کی دکان پر اُس کے  نوکر (چاہے غیر مسلم ہو)نے  گوشت  بنایا پھر مسلمان دکاندار یا اس کے (مسلم یا غیر مسلم)  نوکر نے بیچا پھر مسلمان  گھر لے کر آیا،پکایا  اور کھایا  تو اب ذبح ہونے سے کھانے تک مسلمان کی نگا ہ میں رہا۔  نوٹ: ذبح مسلمان یا کتابی  کے ہاتھ سے، اللہ  کریم کا نام لے کر ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد کھانے تک مسلمان  کی نگاہ کے سامنے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خود مسلمان کے سامنے ہو یا مسلمان کے نوکر کے سامنے ہو، ایسا  گوشت حلال ہے۔ وضاحت(explanation):کافر نوکر مسلمان سیٹھ (boss)کا نائب (deputy)ہے۔(فتاوی رضویہ ، ج۴، ص۵۶۶  ،   ج ۲۰،ص۲۸۴،مَاخوذاً)

(۵) مسلمان ملک (مثلاً پاکستان) میں  گوشت کی دکان عام طور پر مسلمانوں کی ہوتی ، ملازم بھی مسلمان ہوتے اور دیکھا جاتا ہے کہ بِسْمِ اللہ پڑھ کر ذبح کرتے ہیں ، لینے والے، گھر میں پکانے والے بھی مسلمان  ہی ہوتے ہیں تو 

اس طرح بھی  آسانی کے ساتھ ذبح سے لے کر کھانے تک  گوشت مسلمان کی نگاہ کے سامنے ہوتا ہے۔

{2}    معاملات(social matters )  میں  غیر مسلم کی خبر (یعنی اطلاع ۔notification) اُس وقت مانی جائے گی   جب  مضبوط خیال  (strong assumption)ہو کہ یہ  سچ کہہ رہا ہے اور اگر غالب گمان  ہے کہ یہ  جھوٹا ہے   تو اس  کی بات پر عمل نہ کرے۔

 {3}     غیر مسلم یا فاسق ( سب کے سامنے گناہ کرنے والے)نے یہ خبر دی کہ میں فلاں شخص کا اس چیز کے بیچنے میں وکیل(نائب۔deputy) ہوں تواس کی خبر مانی  جاسکتی ہے اور اُس چیز کو خریدسکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر معاملات (social matters )  میں بھی اس کی  بات مانی جا سکتی  ہے جبکہ یہ مضبوط خیال  (strong assumption) ہو کہ یہ  سچ کہہ رہا ہے۔

{4}(۱)     دِیانات میں خبر دینے والےکا عادل ہونا ضروری ہے۔ دیانات سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا تعلق اللہ   کریم اور بندے کے درمیان ہے ۔ مثلاً حلال، حرام، نجاست( یعنی ناپاکی)، طہارت( یعنی پاکی)  وغیرہ  کے مسائل ۔ عادل سے مراد ایسا آدمی ہو جو گناہ کبیرہ  سے بچتا ہو اور  گناہِ صغیرہ پر اصرار(یعنی بےخوفی کے ساتھ) نہ کرتا ہو اور ایسا کام بھی  نہ کرتا ہو جو مروت کے خلاف ہو مثلاً  طاقت ہونے(اور شرعاً منع نہ  ہونے) کے بعد بھی مہمان نوازی(hospitality) نہ کرنا،ان سب باتوں سے بچنے والا آدمی ہو ۔

(۲)کافر غیر کتابی(مثلاً مجوسی یا ہندو) اگر  کہے کہ یہ مسلمان کا ذبح  کیا ہوا جانور ہے، تویہ خبرِدِیَانَت اورحلال وحرام سے ہے اور ان  میں کافرکی خبر بالکل بھی نہیں مانی جائے گی ۔(فتاوی رضویہ ، ج۲۰،ص۲۸۳،مُلخصاً)

{5}(۱)    پانی کے  بارے میں  کسی مسلمان عادل نے یہ خبر دی کہ یہ پانی   ناپاک ہے تو اس سے وضو نہ کرے، یہاں تک  کہ اس  پانی کے علاوہ ، دوسرا(other) پانی  نہ ہو تب بھی صرف  تَیَمُّمْ کرےاور(۲) اگر فاسق( یعنی گناہ کبیرہ کرنے والا) یا مستور (یعنی وہ شخص جس کا عادل یا فاسق ہونا  معلوم  نہ ہو)نے خبر دی کہ پانی  ناپاک ہے توغورکرے اگر دل اس بات پر مطمئن(satisfied) ہو جاتاہے کہ یہ آدمی  سچ کہتا ہے تو وضو نہ کرے  بلکہ پانی  پھینک دے اور تَیَمُّمْ کرے، اور (۳)اگر مضبوط خیال  (strong assumption) یہ ہے کہ جھوٹ کہتا ہے تو وضو کرے اور احتیاط(caution) یہ ہے کہ وضو کے بعد تَیَمُّمْ بھی کرلے اور(۴) اسی طرح اگر  غیر مسلم نے  ناپاکی  کی خبر دی اور مضبوط خیال  (strong assumption)  ہوگیا کہ یہ  سچ کہتا ہےتو  پانی پھینک دے پھر تَیَمُّمْ کرے۔(بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۳۹۵ ، مسئلہ۱،۲،۶،۷،۸ ملخصاً)

تعظیم(respectکرنے) کے کچھ  مسائل:

{1} بوسہ دینا(یعنی کسی  خوبصورت لڑکے یا مرد یا زوجہ کے علاوہ (except) کسی  بھی عورت کو) اگر شہوت (یعنی جنسی خواہش۔sexual desire)   کے ساتھ ہو تو ناجائز ہے اور  تعظیم(respect) کے لیے ہو تو(شرعاً جس کی تعظیم کی جاسکتی ہے،اُس کے ہاتھ وغیرہ چومنا) جائز ہے()  دوسرے کی پیشانی (forehead) کو بھی انھیں شرطوں(preconditions)   کے ساتھ چوم سکتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا یعنی چوم لیا (ابن ماجہ،ج۲،ص۲۸۳، حدیث:۱۶۲۷)اور صحابہِ کرام رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْاور تابعین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ سے بھی بوسہ دینے    (یعنی ایک دوسرے کے ہاتھ وغیرہ چومنے) کا حدیثوں سے پتا چلتا ہے۔(بہارشریعت،ح۱۶،ص۴۷۲،مُلخصاً)

 {2} عالمِ دین اور عادل بادشاہ  کے ہاتھ کو  چومنا   بلکہ پاؤں کا چومنا بھی جائز ہے۔  یہاں تک کہ  اگر کسی نے عالمِ دین سے  کہاکہ آپ اپنا ہاتھ   میری طرف بڑھا  دیجیے تاکہ میں اسے چوم لوں تو عالم صاحب  اپنا ہاتھ  وغیرہ اس کی طرف بڑھا سکتے ہیں ۔

 {3}     عورت  کا عورت کے منہ یا  گال  کو ملاقات کے وقت چومنا،  مکروہ ہے۔

{4} پیر صاحب یا کسی بڑے کے سامنے زمین کو چومنا حرام ہے۔ جس نے ایسا کیا اور جو اس پر راضی(pleased) ہوا، دونوں گنہگار ہوئے۔

{5}    حدیثوں سے پتا چلتا ہے  کہ قرآن مجید کو  صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْ نے چوما ہے ، حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ روزانہ صبح کو  قرآنِ پاک کو چومتے  اور کہتے تھے کہ یہ میرے ربّ کا عہد  (پیغام) اور اس کی کتاب ہے  اور حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہ بھی قرآنِ پاک کو چومتے   اور چہرے  پر لگاتے تھے ۔(درمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج۹،ص۶۳۴)

 {6}  آنے والے ایسے شخص کی تعظیم(respect) کے لیے کھڑا ہونا  کہ  اسلام  جس کی تعظیم کرنے کو پسند کرتا ہو جائز بلکہ مندوب (اور ثواب کا کام)ہے مثلاً عالم ِدین کی تعظیم کو کھڑا ہونا ()کوئی شخص مسجد میں بیٹھا ہے یا قرآن مجید پڑھ رہا ہے اور ایسا شخص آگیا جس کی تعظیم(respect)  کرنی چاہیے تو اس حالت (condition)میں بھی تعظیم کو کھڑا ہوسکتا ہے(یعنی کچھ دیر تلاوت روک دے اور کھڑا ہو جائے)۔

{7}یہ بہت بُری بات ہے کہ کوئی شخص یہ پسند کرے کہ لوگ میرے لیے کھڑے ہوں۔

{8}  جہاں یہ ڈرہو کہ تعظیم (respect)کے لیے اگر کھڑا نہ ہوا تو سامنے والےکے دل میں  نفرت پیدا ہوگی، خصوصاً ایسی جگہ جہاں  کھڑا ہونے کی عادت ہے تو اب کھڑے ہونا چاہیے تاکہ مسلمان کے دل میں نفرت پیدا نہ ہو۔(بہارِ شریعت ح ۱۶، ص ۴۷۲  تا م۴۷۴،مسئلہ۸،۱۰،۱۱،۱۲،۱۴،۱۸،۲۰ مُلخصاً)

 سیّدوں کی تعظیم (respect)کے مدنی پھول:

(۱)  سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم(respect) سے یہ بھی ہے کہ وہ تمام چیزیں جو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نسبت(یا تعلق) رکھتی ہیں ان کی تعظیم کی جائے( اَلشِّفا،الباب الثالث فی تعظیم ، ص۵۲،الجزء:۲ ) بلکہ سیّدوں  کی تعظیم حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہی کی  تعظیم ہے(فتاویٰ رضویہ ،٢٢/٤٢٣  ماخوذا)  کیونکہ سیّد کی تعظیم  حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی رشتہ داری(relationship) کی وجہ سے ہے(۲)تعظیم کے لیے کسی خاص ثبوت (evidence)کی ضرورت نہیں لہٰذا  لوگ  جنہیں سیّد کہتے ہیں،ان کی تعظیم (respect) کرنی چاہیے۔(سادات کرام کی عظمت ص۱۴،مُلخصاً) (۳)اگر کوئی بد مذہب(یعنی جہنّم  میں لے جانے والے عقیدوں(beliefs) یا اس طرح  کے کسی ایک عقیدے پر یقین رکھنے والا)کہے کہ میںسیِّد ہوں  مگر اس کی بدمذہبی (یعنی گمراہی)  کُفر تک  نہ پہنچی  ہو تب بھی اُس کے غلط عقیدے سے دور رہنا بہت زیادہ ضروری ہے، مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ(۴)  سیّد  سے اگر کوئی کُفرِیّہ بات نہ ہوئی ہو، صرف گمراہی کی بات کی ہو تو وہ سَیِّد ہی رہتا ہے اور  سیّد ہونے کی وجہ سے اُس کی تعظیم(respect)  باقی رہتی ہے۔ہاں! اگر کسی سیّد نے صاف صاف کُفریّہ بات کہہ دی یا کُفریّہ کام کر لیا تو اب وہ سیّد ہی نہ رہا، اُ س کی  تعظیم (respect) حرام اور  جہنّم میں لے جانے والے کام ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۹، ص۵۸۸،مُلخصاً) (۵)  یا درہے کہ کسی افسر کی جائز بات پوری کرنا ، کام کرنے والے کی ذمہ داری (responsibility) ہوتی ہے لیکن اس کی ناجائز بات ماننا  گناہ کا کام ہے۔ اسی طرح  کسی کو  دیکھ کر سلام کرنا ایک ادب کی بات ہے مگر اس کی غلط بات ماننا غلطی ہے۔کوئی مولوی  ہو یا داڑھی والا بلکہ کوئی کیسا ہی ہو!!!، اگر گمراہی کی بات کرتا ہے تو اس کی بات نہ مانی جائے گی بلکہ  اُسے سُنی(صحیح اسلامی عقیدے والا) بھی نہ کہیں گے۔ ہم صرف اور صرف عُلَمائے  اہلسنّت کی سنیں گے اور انہی کی باتوں پر عمل کریں گے (۶)حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:بد مذہب سے دور رہو اور ان کو اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔(صحیح مسلم،مقدمة، ص۹،حدیث:۷) (۷)جو سیِّد نہ ہو اورجان بوجھ کر (deliberately) اپنے آپ کو سیّد  کہے تو  وہ ملعون( یعنی اُس پر لعنت کی گئی) ہے، نہ اس کا فرض قبول(accept) ہو گا اور نہ ہی  نفل۔(سادات کرام کی عظمت ، ص۱۶، مُلخصاً) (۸) استاد بھی سیِّد کو نہ مارے(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص۲۸۴، مُلخصاً) (۹)سیّد  صاحب کو ایسے کام پر ملازم(employee) رکھا جا سکتا ہے  جس میں ذِلَّت(humiliation) نہ  ہو لیکن  ذِلَّت والے کاموں میں انہیں ملازم رکھنا جائز نہیں (سادات کرام کی عظمت، ص۱۲) ۔عمومی طور پر یہ کام یعنی کافر کے پاؤں دبانا، اُس کے بَچّوں کی گندگیاں اُٹھانا، گھریا دفتر کا جھاڑو پوچا کرنا ، گند کچرا(garbage) اٹھانا،استنجاء خانے(toilet) اورگندی نالیوں(sewerage lines) کی صفائی ، اُس کی گاڑی کی دُھلائی کرنا وغیرہ ذِلّت (humiliation)والے کام ہیں۔(حلال طریقے سے کمانے کے ۵۰ مدنی پھول ،ص۱۳ مُلخصاً) (۱۰)سیِّد کی سیّد ہونے کی  وجہ سے توہین(insult) کرنا  کُفر ہے۔(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص۲۷۶، مُلخصاً)

سجدہ شکر کے مدنی پھول :

(۱)اَولاد پیدا ہوئی،یا مال مل گیا  یاگُمی ہوئی چیز(lost thing) مل گئی یا مریض نے شِفا پائی یا مُسا فِر واپَس آیا اَلغَرَض(thus) کسی نعمت کے ملنے  پرسَجدۂ شکر کرنا مُستَحَب ہے  (۲)اِسی طرح جب بھی کوئی خوشخبری(good news)  ملے تو سجدۂ شکر کرنا ثواب  کا کام ہے، مَثَلاً  کسی کا مدینے شریف کی  حاضری کے لیے ویزا (visa)لگ گیا  تو سَجدۂ شکر کرے۔ (اسلامی بہنوں کی نماز  ص ۱۳۵، مُلخصاً) (۳)سجدۂ شکر کرنا ان وقتوں میں مکروہ ہے(یعنی مکروہِ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے(نومبر 2022،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مَاخوذاً)) جن میں (نفل) نماز مکروہ ہے ، اس کے علاوہ (other) مکروہ نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ،ج ۵ ،ص ۳۳۰،مُلخصاً) (۴)سجدہ شکرکا طریقہ:    وُہی ہے جو سَجدۂ تِلاوت کا ہے۔([18])  ( عالمگیری ،ج ۱،ص ۱۳۶،رَدُّالْمُحتارج ۲،ص۷۲۰)

 اذان دینا کب مستحب(اور ثواب) ہے؟ :

  (۱)  جب بچّہ پید ا  ہو  (۲) اسی طرح غمگین(sad)(۳)مِرگی والے(epileptic) (۴)غصیلے آدَمی(angry) اور (۵)بد مِزاج جانور(Bad-tempered animal)کے کان میں یا  (۶)جِنّ کی  شرارتوں  کے وَقت یا (۷)میِّت دَفن کرنے کے بعد یا (۸)  زبر دست لڑائی ہو رہی ہو یا (۹)آگ لگی ہو  یا (۱۰)جنگل میں راستہ بھول جائیں اورکوئی بتانے والانہ ہو اُس وقت اذان  دینا مستحب ہے۔( رَدُّالْمُحتار ج۲،ص۶۲، مُلخصاً) نیز (۱۱)وَبا کے وقت  (یعنی جب بیماری پھیل گئی ہو تو) اذان دینا مُسْتَحَب ہے ۔  (بہارِ شریعت ج۱ص۴۶۶،فتاوٰی رضویہ ،ج۵ص۳۷۰، مُلخصاً)

کچھ جائز و ناجائز چیزیں:

 {1} یادداشت (memory) یعنی  بات یاد رکھنے کے لیے کچھ لوگ رومال (handkerchief) میں گرہ (knot) لگالیتے ہیں یا اُنگلی  پر ڈورا باندھ لیتے ہیں یہ جائز ہے اور بلاوجہ ڈورا باندھنامکرو ہ ہے۔

{2}ایسے دسترخوان(dining matte)پر کھانا  نہیں کھانا چاہیئے  کہ جس  پر  عبارت (piece of writing)

 وغیرہ  لکھی ہوئی  ہو۔ کچھ لوگ تکیوں (pillows)پر اشعار لکھتے ہیں ان کا بھی استعمال نہ کیا جائے۔ کیونکہ حروف مفردہ (یعنی الگ الگ لکھے ہوئے حروف مثلاً ۱،ب،ت)کا بھی احترام (respect)  ہے(تو مکمل لفظوں یا

جملوں کا بھی احترام ہے)۔

{3} (۱)بعض کاشت کار(farmers) اپنے کھیتوں میں کپڑا لپیٹ کر کسی لکڑی پر  اس لیے لگادیتے ہیں تاکہ  نظر ِ

 بد  (یعنی بری نظر)سے کھیتوں(fields) کو بچا یا جاسکے،  یہ جائز ہے کیونکہ حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ”نظر“ لگ جاتی ہے۔ اب اگر کوئی کھیت کی طرف نظر کرے گا اور  کھیت کے ساتھ،اس طرح کپڑا لگاہوا ہو گا تو  دیکھنے والے کی نظر پہلے اس کپڑے پر پڑے گی   پھر زراعت (agriculture)پر پڑے گی  تو اس طرح  کھیت ”نظرِ بد“ سے بچ جائے گا۔

(۲)حدیث میں ہے کہ جب اپنی یا کسی مسلمان بھائی کی چیز دیکھے اور پسند آئے تو برکت (blessing) کی دعا کرے(سنن الکبری للنسائی،کتاب الطب،ج۴،ص۳۵۹،حدیث:۷۵۱۱) ۔ عُلَمائے کِرام  فرماتے ہیں، اس طرح کہے: تَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِ (ترجمہ:اللہ  کریم برکت والا(blessed) ، بہترین  تخلیق  فرمانے (یعنی چیزیں بنانے) والا  ہے، اے اللہ   اس چیز میں برکت(blessing)  دے) (رد المحتار،کتاب الحظر والاباحۃ، ج۹، ص۶۰۱)۔   یا اردو میں یہ کہدے کہ” اللہ  کریم برکت(blessing)  دے“  ،اس طرح کہنے سے نظر نہیں لگے گی۔(بہار شریعت،ح۱۶،ص۴۲۰)

{4} (۱)مشرکین (یعنی جھوٹے خدا کی عبادت کرنے والوں)کے برتنوں میں بغیر دھوئے کھانا پینا مکروہ ہے یعنی جب برتن کا نجس(ناپاک) ہونا معلوم نہ ہو اور(۲) اگر معلوم  ہے کہ برتن ناپاک ہے تو اس میں کھانا پینا حرام ہے۔

   {5} (۱)عجیب و غریب قصے کہانی (stories)،تفریح (fun)کے لیے سننا جائز ہے، جبکہ اُن  کہانیوں  کو یقینی طور پر جھوٹا  نہ کہہ سکتے ہوں (۲)جو کہانیاں  یقینًا جھوٹ ہوں (مثلاً  بادشاہ، غلام کی کہانیاں)،ان کو سُننا بھی اس صورت  (case)میں  جائز  ہے، جبکہ کسی چیز کی مثال سمجھانے کے لیے کہانی بنائی ہو یا  لوگوں کی نصیحت (advice) کے لیے بنائی ہوں جیسا کہ مثنوی شریف(ایک بزرگ کی کتاب کا نام) وغیرہ میں، اس طرح کی  بہت سی  کہانیاں ہیں (۳) اسی طرح جانوروں اور پتھروں  وغیرہ کی خیالی  باتیں(fictions)   سُننا یا سنانا بھی جائز ہے، جیسے گلستان( کتاب ) میں حضرت شیخ سعدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے  کہانیاں لکھی ہیں ۔

{6}  تمام زبانوں میں عربی زبان افضل ہے  کیونکہ ہمارے  پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی یہی زبان ہے۔ قرآنِ  پاک  عربی زبان میں نازل ہوا، یہ  جنّتیوں  کی زبان ہے کہ جنّت میں عربی زبان ہی  ہوگی۔ جو اس زبان کو خود سیکھے یا دوسروں کو سکھائے اسے ثواب ملے گا۔نوٹ:یہ جو کہا گیا صرف زبان کے لحاظ سے کہا گیا ورنہ ایک مسلم کو خود سمجھنا چاہیے کہ عربی زبان کا جاننا مسلمانوں کے لیے کتنا ضروری ہے، قرآن و حدیث اور دین کے مسائل اسی زبان سے لیے جاتے ہیں۔

{7}     زلزلے(earthquake)کے وقت  گھر سے نکل کرباہر آجانا ،جائز ہے۔ اسی طرح اگر دیوار(wall)  گر رہی  ہے تو اس کے پاس سے بھاگنا  بھی جائز ہے۔

{8}(۱)     طاعون (ایک بیماری۔disease)جہاں ہو ،وہاں سے بھاگنا جائز نہیں اور دوسری جگہ سے وہاں جانا بھی نہیں چاہیے۔   اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا عقیدہ (belief) کمزور ہو، وہ ایسی جگہ گیا اور بیمار ہوگیا تو اس کے دل میں بات آئے گی  کہ یہاں آنے سے ایسا ہوا، اگر نہ آتے تو کچھ نہ ہوتا ۔ یعنی   یہ  خیال  کرنا  کہ وہاں  گیا تو بیمار ہوا یا  اس شہر میں رہا تو مر گیا، ان خیالات کے ساتھ  مصیبت والے شہر میں نہ جانا یا اپنے شہر سے  بھاگ جانا، یہ  دونوں  باتیں ہی منع ہیں۔

 وضاحت(explanation): کسی قسم کی وباء(contagion)، بلاء(trouble)، بیماری  یامُصیبت سے اچھی نیّت کے ساتھ اپنی حفاظت (protection) کرنا منع نہیں لیکن ان  کے لیے یہ عقیدہ (belief) رکھنا ضروری ہے کہ یہ چیزیں از خود یعنی  اپنی طرف سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں،وہی ہوتا ہے کہ جو  اللہ   کریم چاہتا ہے۔

     (۲) طاعون (pestilence)کے وقت  اگر  کوئی  اس مضبوط عقیدے(strong belief)  کہ”جو کچھ اللہ   کریم چاہے گا وہی ہوگا“ کے ساتھ  اپنے شہر سے چلا جائے یا اُس شہر میں چلا جائے  جس میں طاعون ہے تو اس   میں کوئی  حرج(یا گناہ) نہیں۔

{9}مکان میں پرندے نے گھونسلا(nest) لگایا اور بچے بھی  ہوگئے لیکن بستر یا کپڑوں وغیرہ  پر بیٹ (dung)

گرتی ہے، ایسی حالت(condition) میں گھونسلا  ختم کرنا یا پرندے کو نہیں  بھگا ناچاہیئے، بلکہ اُس وقت کا انتظار کرے  کہ جب  بچے بڑے ہو کر اڑجائیں۔

{10}   فجر کا وقت شروع ہونے سے نماز فجر تک بلکہ سورج نکلنے تک خیر(یعنی بھلائی) کے  علاوہ(other)  دوسری بات نہ کرے۔

{11} چاند جب برج عقرب (نجومیوں(palmists)  کے نزدیک تقریباً 24 اکتوبر سے 23نومبر تک کے وقت)میں ہوتا ہے تو نجومی (ان دنوں میں)سفر کرنے کو منحوس (یعنی  بے برکت(unblessed)یا مُصیبت )بتاتے  ہیں اور  لوگ (ان دنوں میں سفر کو)برا  کہتے ہیں۔اسی  طرح  جب چاند  برج اسد میں ہوتا ہے (نجومیوں(palmists)  کے نزدیک تقریباً 22 جولائی سے 22 اگست تک کے وقت) تو  (ان دِنوں میں)کپڑے  کاٹنے اور سلوانے کو برا جانتے ہیں۔ ایسی باتوں کو  وہم (delusion)کے طور پرہر گز نہ مانا جائے۔

{12} نجومیوں  کی  ایسی باتیں کہ فلاں ستارہ  (یا وقت )آئے  گا تو فلاں بات ہوگی، یہ بھی  غلط ہے۔ حدیث میں ایسی باتوں  پر یقین رکھنے سے سختی کے ساتھ  منع کیا گیا ہے۔(ابوداود،کتاب الطب،ج۴،ص۲۱،حدیث:۳۹۰۶)

 (بہار ِشریعت ج۱،ص۶۵۱ تا ۶۶۰،مسئلہ، ۱،۳،۵،۶،۷،۸،۳۲ ،۳۳،۳۶ ،۳۷،۳۹،۴۰مُلخّصاً)

تعویذ     کےمسائل:

{1}(۱)  گلے میں تعویذ پہننا یا ()بازو (arm)پر تعویذ باندھنا  ()اسی طرح بعض دعاؤں یا آیتوں کو کاغذ پر لکھ کر شفا  حاصل کرنے کے لیے کسی  برتن میں رکھ کر اس پر پانی ڈال کر پی لینا، یہ سب جائز ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج۹،ص۶۰۰، مُلخصاً)

(۲)مرد کا ریشم  (silk)کے کپڑے میں تعویذ سی کر گلے میں لٹکانا یا بازو (arm)پر باندھنا، ناجائز ہے کہ یہ  بھی

لباس پہننے کے حکم  میں ہے(اور مرد کے لیے ریشم پہننا جائز نہیں ہے)()  اسی طرح (مرد کا)سونے اور چاندی میں تعویذ رکھ کر پہننا بھی ناجائز ہے اور()  چاندی یا سونے ہی کے ٹکڑے پر تعویذ لکھنا یا لکھوانا، یہ  بھی بالکل  ناجائز ہے۔ (بہار ِشریعت ح ۱۶،ص۴۱۳، مسئلہ ۲۰،مُلخّصاً)

      (۳) بہت سے لوگ تعویذ کامعاوضہ (یعنی پیسے وغیرہ)لیتے ہیں یہ جائز ہے اس کو اجارہ (contract) نہیں کہیں گے بلکہ یہ   بیع (خریدو فروخت۔buying and selling)سمجھی جائے گی یعنی اتنے پیسوں یا روپے میں یہ تعویذ(کا کاغذ۔paper)  بیچا (بہار ِشریعت ح ۱۴، ص۱۴۷، مسئلہ ۲۷،مُلخّصاً) ۔ جامع مسجد میں تعویذ بیچنا، ناجائز ہے جیسا کہ تعویذ والے کیا کرتے ہیں کہ اس تعویذ کا یہ ہدیہ (یعنی  پیسے)ہے اتنے دےدو اور تعویذ لے جاؤ (یہ ناجائز ہے)(بہار ِشریعت ح ۱۶،ص۴۹۸، مسئلہ۴،مُلخّصاً)  کیونکہ یہ تعویذ بیچا جارہا ہے اور مسجد میں  کسی چیز کابیچنا  بھی جائز نہیں۔ ہاں! اگر مسجد میں فی سَبِیْلِ اللہ!(یعنی مفت) تعویذ دیے جاتے ہیں ،نہ تو  مسجد میں شور ہوتا ہے اور نہ نمازیوں  کے لیے نماز کی جگہ کم ہوتی ہے اور نہ انہیں  پریشانی ہوتی ہے تو مسجد میں  تعویذ دیے جاسکتے ہیں۔

{2}جس پرغُسل فرض ہواُس کوقرآنی آیت کا تعویذ لکھنا ( اس صور ت میں)  حرام ہے(کہ جس میں کاغذ کا چھونا (touchکرنا)پایا جائے) ، اگر کاغذ کو ہاتھ لگائے بغیر لکھا، تو اب  لکھنا جائز ہے۔ (غیر مطبوعہ فتاویٰ اہلسنّت)

{3} بے وضو یا بے غسل شخص کا ایسا تعویذ چُھونایا پہننا بھی  حرام ہے  جس پرآیت یاحُروفِ مُقَطَّعَات (مثلاً : الٓـمّٓ، یٰسٓ، طٰہٰ،حٰمٓ وغیرہ) لکھے ہوں ( بہارِ شریعت ج۱ ص۳۲۶ ) ۔ قرآنی آیت کے ایسے تعویذ  کوپہننا یا پکڑنا جائز ہے کہ  جوموم جامہ(یعنی wax میں packکر کے) یا پلاسٹک میں  لپیٹ کر، کپڑے یا چمڑے وغیرہ میں  سِیا ہوا  ہو (غسل کا طریقہ ص۱۵) ۔   جب تعویذغلاف میں ہو توجنب( یعنی ناپاک  ) اور حیض(یعنی منتھلی کورس۔ menstrual period   ) و نفاس والی(یعنی  جسےبچّہ  پیدا ہونے کے بعد   سے خون آ رہا ہو  اور  چالیس (40)  دن   بھی پورے نہ ہوئے ہوں، یہ سب) بھی تعویذات کو گلے میں پہن سکتے ہیں اور بازو(arm) پر  بھی باندھ سکتے ہیں ۔(بہار ِشریعت ح ۱۶،ص۶۵۲، مسئلہ۲،مُلخّصاً)

 

’’کفن دفن  کا طریقہ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

      جو کسی میت کو نہلائے، کفن پہنائے، خوشبو لگائے، جنازہ اٹھائے، نماز پڑھے اور جو ناقص بات (مثلاً کوئی عیب (fault)وغیرہ) نظر آئے اُسے چھپائے وہ گناہوں   سے ایسے ہی پاک ہو جاتا ہے جیسے پیدائش(birth) کے دن تھا۔       (ابن ماجہ،کتاب الجنائز، ۲ / ۲۰۱،حدیث ۱۴۶۲)

واقعہ(incident):                    باپ کو جلانے کے لئے لکڑیاں لے آؤں

شہر حیدَر آباد(پاکستان)کے ایک اسلامی بھائی  کا کہنا  ہے  کہ2001ء میں ہمارے یہاں ایک  بہت امیر سیٹھ کا انتِقال ہوگیا۔لوگ اُس کے عالیشان بنگلے(luxurious bungalow) میں جمع تھے کہ مرحوم کا 19سالہ بیٹاجوکہ ایک ماڈَرن اسکول میں پڑھتا تھا،کہیں جانے کے لئے  بہت تیزی سے اُٹھا،کسی  کے پوچھنے پر کہنے لگا:میرے والِد صاحِب میرے ساتھ بَہُت مَحَبَّت کرتے تھے،میں نے سوچا کہ آخِری وَقت اپنے ہاتھوں سے ان کی کچھ خدمت کر لوں، لھذا ان کی میِّت کو جلانے کے لئے میں خود لکڑیاں لینے جا رہاہوں۔یہ سُن کر لوگ حیران(amazed) ہوگئے پھر کسی نے اُسے سمجھایا  کہ  آپ کے والد تو مسلمان تھے،پھر اِن کو جلانے کے لئے لکڑیاں کیوں لینے جارہے ہو؟ غور کیا تو اندازہ (guess) ہوا کہ اِس نادان (nonsense)نے غیر مسلموں کی فِلموں میں لاشیں(corpse) جلانے کے مناظِر(scenes) دیکھے ہوں گے تو اِس کے ذِہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہو گی کہ جو بھی مر جائے اُس کو جلانا ہوتا ہے اِس فِلمیں دیکھنے کے شوقین کو یہ پتا ہی نہ ہو گاکہ مسلمانوں کو جَلایا نہیں   جاتا بلکہ زمین میں دَفن  کیا جاتا ہے۔(تجہیز و تکفین کا طریقہ ص۵۸۲ ،  مُلخصاً)

رُوح قبض ہونے کے بعد یہ چھ (6)  کام  کیجئے:

{1}انتقال ہوتے ہی میت کی آنکھیں   بند کر دیجئے{2}ایک چوڑی پٹی جبڑے (jaw)کے نیچے سے سر پر لے جا کر  گرہ(knot) دے دیں   تاکہ منہ کھلا نہ رہے {3} چہرہ قبلہ رُخ(towards Qibla) کر دیجئے{4}میّت کی اُنگلیاں   اور ہاتھ پاؤں   سیدھے کر دیجئے {5} دونوں    پاؤں   کے انگوٹھے ملا کر نرمی سے باندھ دیں   {6}میّت کے پیٹ پرمناسب وَزْن(weight) کی کوئی چیز (مثلاً رَضائی(thick woolen blanket )  یا کمبل (blanket) وغیرہ  ضرورت کے مطابق تہہ(fold) کر کے) رکھ دیں   تاکہ پیٹ پھول (swollen)نہ جائے۔

غسل و کفن کی تیاری کے لیے یہ  تین(3کام  کیجئے:

{1}پانی گرم کرنے کا انتظام (arrange)رکھیے( مگرپانی ابھی گرم نہ کیجئے،غسل کرانے والے آجائیں تو گرم کریں ) {2} میت کے سینے (chest)سے گھٹنے (knee)تک بدن چھپانے کے لیے دو(2) رَنگین موٹے کپڑے لے لیجئے {3}کفن( کی پونے دو گز(1.75) چوڑائی (width)ہو تو سات(7) میٹر کپڑا، ورنہ میت کی جسامت(یعنی قداورجسم۔height and width)کےمطابق کپڑا لیں)،اگربتیاں یا لوبان (frankincense)،  کافور( کی خوشبو)، رُوئی اور غسل کے تختے (board) کا اِنتظام (arrangement) کرلیجئے۔

نوٹ:اگر آپ نے کفن دفن کا عملی طریقہ نہ سیکھا ہو تو صحیح العقیدہ سُنی عالم سے پہلے ہی  سیکھ  لیجئے ۔

غسل میت کے سات ( 7) مراحل(steps):

{1} اِستنجاء کرانا (اِستنجاء کروانے والا اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ لے، نظر کی حفاظت کرے اور موٹی چادر کے اندر ہاتھ ڈال کر استنجاء کرائیں یعنی پیٹ پر ہاتھ پھیرے پھر جو نکلے تو  اس پر اچھی طرح پانی بہا دے){2}وُضو کرانا (یعنی ۳ بارچہرہ اور ۳ بار کہنیوں   سمیت ہاتھ دُھلانا، ایک بار پورے سر کا مسح کرانا، ۳ بار پاؤں   دُھلانا، کیونکہ میّت کے غسل میں  کلی اور ناک میں   پانی ڈالنانہیں ہوتا   لہٰذا رُوئی  گیلی کر کے دانتوں   ، مسوڑھوں (gums)  ، ہونٹوں   اور نتھنو ں(nostrils)   پر پھیریں){3}داڑھی اور سر کے بال دھونا{4}میّت کو اُلٹی کروٹ(roll over left)  پر لٹا کر سیدھی کروٹ دھونا{5} میّت کو سیدھی کروٹ (roll over right) پر لٹا کر اُلٹی کروٹ دھونا{6} پیٹھ(back) سے سہارا(support) دیتے ہوئے بٹھا کر نرمی سے پیٹ کے نچلے حصّے پر ہاتھ پھیرنا( سَتْرکے مقام پر نہ نظر کر سکتے ہیں   نہ بغیر کپڑے کے چھو سکتے ہیں اور نہ سَتْر سے کپڑا ہٹا سکتے ہیں){7} سر سے پاؤں   تک کافور کا پانی بہانا(کافورملے پانی کا ایک مگ کافی ہے ۔A mug is enough)۔

کفن کاٹنے کے سات (7) مراحل(steps):

{1}کفن کے لیے تقریباً پونے دو گز(1.75) چوڑائی کا ،سات(7) میڑ کپڑا لیجئے {2} ایک کپڑا میّت کے قد (height)  سے اتنا زیادہ کاٹئے کہ لپیٹنے کے بعد(after wrapping) سر اور پاؤں   کی طرف سے باندھا جا سکے (اسے لفافہ کہتے ہیں   ) {3}دوسرا کپڑا میّت کے قد برابر کاٹئے (اسے اِزار یا تہبند کہتے ہیں   ) {4}قمیض کے لیے کپڑے کومیّت کی گردن سے گھٹنوں (knees)کے نیچے تک ناپئے (measure کریں )اوراب اسے ڈبل (double) کرکے کاٹئے تاکہ آگے اور پیچھے کی طرف سے لمبائی(Length) ایک ہو اور چوڑائی (widht) دونوں   کندھوں (shoulders)کے برابررکھیے، اس میں   چاک(سینے کی طرف بٹن) اور آستینیں (sleeves) نہیں ہوتیں{5}مردکی قمیض(کفنی) میں   گلا بنانے کے لیے درمیان سے، کندھوں (shoulders)        کی  طرف اور عورت کی قمیض کے لیے سینے (chest)کی  طرف اتنا چیرا (cut) لگائیے کہ قمیض پہناتے وقت گردن  آسانی سے گزر جائے (مرد کے لیے سنّت کے مطابق کفن  میں   یہی تین(3) کپڑے (۱:لفافہ،۲:اِزار،۳:قمیض)ہیں   جبکہ عورت کے لیے (ان تین(3) کے ساتھ)دو (2)کپڑے  زیادہ  ہیں، (۴) سینہ بند اور(۵) اَوڑھنی) {6}سینہ بندکے لیے کپڑے کی لمبائی(length) سینے سے ران(thigh) تک رکھیے {7}اَوڑھنی کے لیے کپڑا لمبائی (length)میں   اتنا کاٹئے کہ آدھی پشت (یعنی کمر) کے نیچے سے بچھا کر سر سے لاتے ہو ئے چہرہ ڈھانپ کر(cover)سینے تک آجائے اور چوڑائی (width) ایک کان کی لو (earlobe)سے دوسرے کان کی لو تک ہو(یہ عموماً ڈیڑھ گز (1.50Yard) ہوتی ہے اسے قمیض کی چوڑائی سے بچنے والے کپڑے سے بنایاجا سکتا ہے)۔

کفن پہنانے کے دس(10)  مراحل(steps):

{1} کفن کو دُھونی دینا (خوشبو والی اگر بتّی جلا کر، اُسے کفن کے اوپر گھمانا تاکہ کفن  خوشبو والا ہو جائے){2} کفن بچھانا (یعنی سب سے پہلے لفافہ (بڑی چادر)پھر ازار (چھوٹی چادر) پھر قمیض بچھانا ،عورت کے کفن میں   سب سے پہلے سینہ بند پھر لفافہ پھراِزارپھر اَوڑھنی اور پھرقمیص ) {3}کفن باندھنے کے لیے دھجیاں   (یعنی کفن کے بچے ہوئے کپڑے  یا کسی بھی کپڑے سے پتلے اور لمبے لمبے ٹکڑے،سر و سینہ و پاؤں کی طرف)رکھنا{4} میت کو کفن پر نرمی سے رکھنا(خیال رہے کہ بے سَتْری نہ ہونے پائے ){5} شہادت کی اُنگلی (index finger یعنی ہاتھ کی وہ اُنگلی جو انگوٹھے کے ساتھ ہوتی ہے)سے سینے پر پہلا کلمہ، دِل پر یَارَسُوْلَ اللّٰہ!(صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) لکھنا،یاد رہے کہ یہ لکھنا روشنائی(ink) سے نہ ہو(بلکہ  صرف انگلی پھیری جائے) {6} قمیض پہنانااور ناف و سینے کے درمیان کفن کے  حصّے پر  بزرگوں کے نام لکھنا (عورت کو قمیض پہناکر اس کے بال دو حصے کرکے سینے پر ڈالنا پھر اَوڑھنی پہنانا){7} جسم کے جن حصّوں (یعنی دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں، پیشانی(forehead) اور گھٹنوں)پر سجدہ کیا جاتا ہے ان  پر کافور کی خوشبو  لگانا(خیال رہے کہ  گھٹنے(knee) سَتْر کا حصّہ ہیں، نہ اسے دیکھ سکتے ہیں اور نہ انہیں بغیر کپڑے وغیرہ کے  چھو(touch  کر)سکتے ہیں لھذا جب  گھٹنوں پر خوشبو لگائیں گے تو پاؤں پر چادر ڈالیں اور کسی رومال وغیرہ پر خوشبو لگا کر ،اُس رومال کو گھٹنوں پر مَل (rub)لیں){8} پیشانی (forehead)پر شہادت کی انگلی(یعنی ہاتھ کی وہ اُنگلی جو انگوٹھے کے ساتھ ہوتی ہے) سے  بِسْمِ اللہ لکھنا {9} لفافہ یعنی بڑی چادر پہلے اُلٹی طرف سے پھر سیدھی طرف سے لپیٹنا (عورت کے کفن میں   بڑی چادر کے بعدسینہ بند پہلے الٹی طرف سے پھر سیدھی طرف سے لپیٹنا) {10} آخر میں دھجیوں کو گرہ(knot) باندھنا  ۔

بالغ  (wise, grownup)کی نمازِ جنازہ سے قبل یہ اعلان کیجئے:

     انتقال کرنے والے کے رشتہ دار اور دوست وغیرہ   توجُّہ فرمائیں   (pay attention) !مرحوم / مرحومہ نے اگر زندگی میں   کبھی آپ کی  دِل آزاری(hurt feeelings) یا حق تلفی(violation of rights) کی ہو ،یا آپ کے مقروض(under debt) ہوں   ،تو ان کو اللہ کریم کی رضا کے لیے معاف کردیجئے،اِنْ شَاءَا للّٰہ   مرحوم کا بھی بھلا ہوگا اور آپ کو بھی ثواب ملے گا۔  جنازے میں موجود اسلامی بھائی  مرحوم/ مرحومہ کے جاننے والی ، آپ کی محرم خواتین سے بھی ان کے حقوق معاف کروا لیں۔

نماز جنازہ کی نیّت اور اس کا طریقہ بھی سن لیجئے:

(۱)سب سے پہلے نیّت کیجیئے کہ” میں   نیّت کرتا ہوں   اِس نماز جنازہ کی اللّٰہ کریم  کے واسطے ، دُعا اِس میّت کے لیے، پیچھےاِس اِمام کے ‘‘۔اگر یہ اَلفاظ یاد نہ رہیں   تو آپ کے دل میں   یہ نیّت ہونی ضروری ہے کہ میں   اس میّت کی نمازِ جنازہ پڑھ رہا ہوں   ۔

(۲) جب اِمام صاحب ’’ اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہیں   تو کانوں   تک ہاتھ اُٹھانے کے بعد’’ اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے(عام نمازوں کی طرح) فوراً ناف (یعنی پیٹ کے سوراخ)کے نیچے باندھ  کر ثناء پڑھئے ۔ثناء میں   ’’ وَتَعَالٰی جَدُّکَ ‘‘کے  بعد

’’وَ جَلَّ ثَنَائُکَ وَلَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘  کا اضافہ(addition) کیجئے(نماز جنازہ کی ثناء نہ آتی ہو تو عام نمازوں میں جو ثنا  (سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ )پڑھی جاتی ہے، وہی پڑھ لیجیئے)۔

(۳)  دوسری بارامام صاحب ’’ اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہیں   تو بغیر ہاتھ اٹھائے  ’’ اَللہُ اَکْبَر‘‘کہئے، پھر نماز والا دُرودِ ابراہیم پڑھئے(یہ درود پاک یاد نہ ہو تو کوئی سابھی درود شریف پڑھیئے، مثلاً صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ)۔

(۴)  تیسری بار امام صاحب ’’ اَللہُ اَکْبَر‘‘کہیں   تو آپ بغیر ہاتھ اٹھائے ’’ اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہئے اور جنازے کی دعا پڑھئے

 نوٹ: بالغ  (wise, grownup)کے  جنازے کی دعا: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاھِدِنَا([21]) ۔،

نابالغ کے  جنازے کی دعا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہُ([22]) ۔:،نابالغہ کے جنازےکی دُعا: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْھَا لَنَا([23]) (اگر یہ دعائیں یاد نہ ہوں تو قرآن و حدیث میں آنے والی  دعائیں یا  وہ  دعائیں  جو نماز میں پڑھتے ہیں ،پڑھ لیجیے۔ جیسے: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً۔ ،یا(یہ دعا پڑھ لیجیے)رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِوغیرہ) ۔

(۵)   جب چوتھی بار امام صاحب ’’ اَللہُ اَکْبَر‘‘کہیں   تو  ’’ اَللہُ اَکْبَر‘‘کہہ کر دونوں   ہاتھوں   کو کھول کر لٹکا دیجئے اور امام صاحب کے ساتھ طریقے کے مطابق سلام پھیر دیجئے۔ (نماز ِجنازہ کا طریقہ،ص۱۹، مُلخصاً)

دفن کرنے کے سترہ ( 17)مراحل(steps):

{1} قبر ستان میں   دفن کے لیے ایسی جگہ لینا جہاں   پہلے قبر نہ ہو{2} قبر کی لمبائی میّت کے قد(height) سے کچھ زیادہ ،چوڑائی (width)آدھے قد(half height) اور گہرائی (depth)بھی  کم سے کم آدھے قد کی ہو اور بہتر یہ کہ گہرائی (depth)بھی قد (height)برابر رکھی جائے{3} قبر میں   اینٹوں(bricks)   کی دیوار بنی ہو تو میّت لانے سے پہلے قبر  کے اندراور (قبر کو بند کرنے کے لیے اوپر لگانی جانے والی)سلیبوں (slabs)  کا اَندرونی حصّہ(inner part) مٹی کے گارے(clay mud) سے اَچھی طرح لیپنا(coat at it){4} اَندرونی تختوں(inner part)    پر یٰسین شریف،سورۃ ُالملک اوردُرودِ تاج پڑھ کر دَم کرنا{5}چہرے کے سامنے دیوارِ قبلہ (یعنی جب میّت کو لٹائیں گے تو اس کے منہ کی سیدھی طرف والی دیوار کیونکہ قبر اسی طرح بنائی جاتی ہے کہ  جب میّت کو لٹایا جائے تو سیدھی طرف قبلہ شریف ہو) میں   طاق بنا کر (hole کر کہ) عہد نامہ ([24]) ،شجرہ  شریف ،  ([25])  وغیرہ  تَبَرُّکات(یعنی برکت والی(blessed)  چیزیں) رکھنا{6} میّت کوقبلے کی طرف سے قبر میں   اُتارنا{7}عورت کی میّت کواُتارنے سے لے کر تختے لگانے تک کسی کپڑے سے چھپائے رکھنا {8}قبر میں   اُتارتے وقت یہ دُعاپڑھنا :  بِسْمِ اللہ وَبِاللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ {9}میّت کو سیدھی کروَٹ لٹانا یا منہ قبلے کی طرف کرنااورکفن کی بندش (یعنی  جن  پتلے لمبے کپڑوں کے ٹکڑوں سے کفن باندھا تھا، اُسے) کھول دینا( میت لانے سے پہلے ہی قبر میں   نرم مٹی کو  کمر کی اُلٹی طرف جمع کر کے  تکیہ سا بنالینا تاکہ  اس پر ٹیک لگا کر میت کو سیدھی کروَٹ لٹایا جاسکے۔ اگر اس طرح نہ کیا تو آسانی کے ساتھ جتنا ہو سکے چہرہ  قبلہ رُخ(towards Qibla) کر نا   ) {10}  دفن کرنے کے بعد، جس طرف  میّت کا  سر ہے، اُس  طرف  سے تین(3) بار مٹی ڈالنا پہلی بار  مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ ، دوسری بار  وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ اور تیسری بار  وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى کہنا  {11} پھر باقی مٹی قبر میں ڈال کر قبر اُونٹ کے کوہان(یعنی اونٹ کی پیٹھ پر  اوپر سے نکلا ہوا حصّہ) کی طرح بنانا اور اُونچائی(height) ایک بالشت(span of palm) یا کچھ زیادہ رکھنا {12}دفن کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا(sprinkle)  {13} قبر پر پھول ڈالنا کہ جب تک تر(wet) رہیں   گے تسبیح کریں   گے اورمیت کادِل  خوش  ہو گا{14}دفن کے بعدسر کی طرف سورۂ بقرہ کی شروع کی آیات الٓمٓ  سے مُفْلِحُوْن تک اور قدموں   کی طرف آخری رکوع کی آیات  اٰمَنَ الرَّسُوْل سے سورت کے آخر  تک پڑھنا{15}تلقین کرنا یعنی قبر کے پاس ، سر کی طرف کھڑے ہو کر تین(۳) مرتبہ یوں   کہنا:یافلاں   بن فلانہ !(مثلاً یا عمادبن شاہینہ،اگر ماں   کا نام معلوم نہ ہو تو اس کی جگہ حضرت حوّا کا نام لے) پھر یہ کہے:  اُذْکُرْ مَا خَرَجْتَ عَلَیْہِ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃَ اَنْ لاَّ ٓاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ (صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) وَاَنَّکَ رَضِیْتَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ نَبِیَّا وَّبِالْقُراٰنِ اِمَامَا۔{16} دُعا اور ایصالِ ثواب کرنا{17} قبر کے پاس سر کی طرف  کھڑے ہوکر اَذان دینا ۔ 

دفن کے بعد  تلاوت سے پہلے یہ اعلان کیجئے:

       اِنْ شَآءَ اللہ !َ  اب قرآنِ کریم کی سورَتیں   پڑھی جائیں   گی انہیں   کان لگا کر خوب توجُّہ (attention) سے سنئے، پھر اَذان دی جائے گی، اس کا جواب دیجئےپھر دُعا مانگی جائے گی۔ مرحوم (  یا مرحومہ) کی قبر کی پہلی رات ہے، یہ سخت  امتحان  کا وقت ہے، شیطان مَردُود (exiled)قبر میں   بھی وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، جب میّت سے سوال ہوتا ہے: مَنْ رَّبُّکَ؟  یعنی تیرا ربّ کون ہے؟ تو شیطان اپنی طرف اِشارہ کرکے کہتا ہے کہ کہہ دے:یہ میرا ربّ ہے(شرح الصدور،باب فتنۃ القبروسؤال الملکین،ص۱۳۹) ۔اس وقت اَذان میّت کے لیے بہت فائدہ مندہوتی ہے کیونکہ اَذان کی برکت(blessing)  سے میّت کو شیطان کے  وسوسوں سے پناہ ملتی ہے، اَذان سے رحمت نازِل ہوتی، میّت کا غم ختم ہوتا، اس کی  پریشانی  دُور ہوتی، آگ کا عذاب (punishment) ٹلتااور قبر کے عذاب سے نجات ملتی ہے نیز منکر نکیر(یعنی قبر میں سوال کرنے والے فرشتوں ) کے سوالات کے جوابات یاد آجاتے ہیں   ۔(تجھیز وتکفین کا طریقہ ص۳۸۷ تا۳۹۰،مُلخصاً)

نوٹ: غسل و کفن وغیرہ کے مسائل کی تفصیل(detail)جاننے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی  کتاب ’’  تجہیز و تکفین کا طریقہ ‘‘ پڑھ لیجئے۔

  

’’کفن دفن وغیرہ کے  کچھ   مسائل اور آداب   ‘‘

پیارے آقا، مدینے والے مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کسی نے پوچھا :

     مومِن جب قَبْر میں  رکھا جاتا ہے تو اُس کو سب سے  پہلا تحفہ کیا دیا جاتا ہے؟ تو  ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اُس کی نَمازِ جنازہ پڑھنے والوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۷ص۸رقم۹۲۵۷)

واقعہ(incident):ولی کے جنازہ میں شرکت کی بَرَکت(blessing of attending the funeral)

    ایک شخص حضرت سَرِی سَقَطی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے جنازہ میں شریک ہوا۔ رات کو خواب میں حضرت  کی زیارت ہوئی تو پوچھا:مَافَعَلَ اللہ ُ بِک یعنی اللہ   کریم نے آپ کے ساتھ کیا معامَلہ فرمایا؟جواب دیا : اللہ  کریم  نے میری اور میرے جنازے میں شریک ہوکرنَمازِجنازہ پڑھنے والوں کی مغفرت فرما دی۔ اُس نے عَرض کی:حضرت! میں نے بھی آپ کے جناز ے میں شریک ہو کرنَمازِ جنازہ پڑھی تھی ۔ تو آپ نے ایک فہرست (index)  نکالی مگر اس شخص کانام  نظر نہ آیا، جب غورسے دیکھا تو اس کا نام حاشِیے(foot note) پر موجود تھا۔  (تاریخ دِمشق لابن عساکِر ج۲۰ص۱۹۸، مُلخصاً)

عیادت کی کچھ سنتیں اور آداب:

(۱)  بیمار کے پاس جاکر اُس کی  طبیعت پوچھنے کو عیادت کہتے ہیں (۲)مریض کی عیادت کرنا سنّت ہے۔ ا گر معلوم ہے کہ عیادت کیلئے جانے سے اُس بیمار کو پریشانی  ہوگی  تو ایسی حالت(condition) میں عیادت کیلئے نہ جایئے(۳) اگر مریض سے آپ کے دل میں ناراضی ہو پھر بھی عیادت کیجئے (۴)سنّت کی نیّت سے عیادت کیجئے اگر صرف اس لیے  عیادت کی کہ آج میں ملنے جا رہا ہوں پھر جب میں بیمار ہونگا تو یہ مجھے ملنے آئے گا ،تو اس نیّت سے عیادت کیلئے جانے پر ثواب نہیں ملے گا(۵)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ اس کی پیشانی(forehead) پر ہاتھ رکھ کر پوچھے کہ مزاج کیسا ہے ؟(جامع الترمذی  ، ج۴، ص۳۳۴ ،الحدیث ۲۷۴۰) عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: جب کوئی شخص کسی بیمار کی مزاج پرسی (یعنی عیادت) کرنے جائے تو اپنا ہاتھ اُس کی پیشانی پر رکھے پھر زَبان سے یہ(یعنی آپ کی طبیعت کیسی ہے؟) کہے، اِس سے بیمار کوتسلی(comfort)  ہوتی ہے، مگر بہت دیر تک ہاتھ نہ رکھے رہے، یہ ہاتھ رکھنا مَحَبَّت ظاہر کرنے کے لیے ہے۔(مراۃ، ج۶، ص۵۱۸، مُلخصاً) (۶)اگر پیشانی پر ہاتھ رکھنے سے مریض کو تکلیف ہوتی ہو تو ہاتھ مت رکھئے ، اور اگر مریض اَمرد ( بلکہ غیرامرد بھی) ہو اور ہاتھ رکھنے سے ’’گندی لذت‘‘ آتی ہو (مَعَاذَاللہ! یعنی   اللہ کریم   ہمیں اس سے بچائے)تو ہاتھ رکھنا گناہ ہے اور اگر دیکھنے سے ایسا ہوتاہو تو دیکھنا بھی حرام ہے(۷)فاسِق (یعنی لوگوں کے سامنے گناہ کرنے والے)کی عِیادت بھی جائز ہے، کیونکہ عیادت اسلام کے حقوق (right) میں سے ہے(یعنی مسلمان  ہونے کی وجہ سے اس کی عیادت کی جائے گی) اور فاسق بھی مسلم ہے (۸)مرتد([27])  اور غیر مسلم کی عیاد ت جائز نہیں  (بلکہ ان کے ساتھ دوستی ، میل جول ، رشتہ داری وغیرہ  بھی نہیں کر سکتے۔ہاں!غیر مسلم کے ساتھ کاروبار یا نوکری  جیسے کام کچھ شرطوں(preconditions)  کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں ([28])) (۹)اگر کوئی بد مذہب(یعنی جہنّم  میں لے جانے والے عقیدوں(beliefs) یا اس طرح  کے کسی ایک عقیدے پر یقین رکھنے والا) ہو اور بیمار ہو جائے تو  اُس کی عیادت کرنامنع ہے ۔(550 سنتیں اور آداب ص۷۳ تا ۷۷ مُلخصاً)

 غسلِ میّت، کفن،نمازِ جنازہ اور دفن :

{1}میّت کو نہلانا فرضِ کفایہ ہے  کہ کچھ  لوگوں   نے غسل دے دیا تو سب  کا فرض پورا ہوگیا۔(بہارِشریعت، ح۴،ص ۸۱۰،مُلخصاً) {2} میّت کو کفن دینا (بھی)فرضِ کفایہ ہے۔(بہارِشریعت، ح۴،ص ۸۱۷،مُلخصاً)اور{3}میّت کی نمازِ جنازہ(بھی) فرضِ کفایہ ہے کہ ایک نے بھی پڑھ لی تو سب کا فرض پورا ہو گیا، اور اگر میّت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی  تو جس جس کو خبر پہنچی تھی، سب  گنہگار ہو نگے۔ (بہارِشریعت،ح۴ ،ص ۸۲۵،مُلخصاً)  {4}میّت کو دفن کرنا(بھی) فرضِ کفایہ ہے اور یہ جائز نہیں   کہ میّت کو زمین پر رکھ دیں   اور چاروں   طرف(four sides) سے دیواریں کھڑی  کر کے بند کر دیں(جیسےزمین کے چاروں طرف دیوار کھڑی کر کےکمرہ بناتے ہیں، اس طرح قبر بنانا جائز نہیں)   ۔ (بہارِشریعت،ح۴۱،ص ۸۴۲،مُلخصاً)

غسلِ میّت کے کچھ مسائل :

{1}میت کے منہ میں سونے  کے نقلی(artifical) دانت جو اس طرح فکس(fixed) ہوں کہ آپریشن  یا میّت کے منہ سے کاٹ پیٹ کے بغیر نہیں نکلے گاتو اسے نہیں نکالیں گے بلکہ اس کے ساتھ ہی میت کو دفن کیا جائے گاکیونکہ دینِ اسلام میں جس طرح زندہ مسلمان کی  عزّت ہے، اُسی طرح مسلمان میّت کی بھی عزّت ہے (جون2022،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً){2} اگر میّت کے جسم کے کسی حصے کی کھال خود جھڑ رہی (یعنی گر رہی )ہو تو اس پر پانی نہ ڈالا جائے اور اس کھال کو میّت کے ساتھ دفن کردیا جائے {3}  اگر میت کے جسم کے زخم پر پٹی لگی ہو، نہ اُکھیڑیں(یعنی کھول کر نہیں اُتر سکتی تو چھوڑ دیں)   {4}   کینولہ(cannula) لگانے کے بعد جو پٹی (bandage)لگائی گئی ہے نیم گرم پانی ڈالنے سے اگر آسانی سے نکل جائے تو نکال دیں   ورنہ چھوڑ دیں   {5} نہلانے کے بعد اگر ناک کان منہ اور دیگر(other) سوراخوں   میں   روئی رکھ دیں   تو حرج نہیں   مگر بہتر یہ ہے کہ نہ رکھیں   ۔ (تجہیز و تکفین کا طریقہ ص ۸۶،۸۷) {6}غُسلِ میت کے بعد میّت کی آنکھوں   میں   سُرمہ لگانا خلافِ سنت ہے{7}بد مذہب کی میّت کو کسی نے غسل دینے کے لیے کہا تو نہ جاناچاہیے کیونکہ بد مذہب کے ساتھ اس طرح کا احسان کرنے کی شرعاً اجازت نہیں   ۔ (دارالافتاء اہلسنّت،تجہیز و تکفین کا طریقہ ص ۸۹،۸۸){8}  اگر میّت کے ناخنوں   پر نیل پالش لگی ہو اور میّت کو تکلیف نہ ہو تو جس قدر ممکن ہوسکے چھڑائیں   ،اس کے لئے ریموور (remover) استعمال کرسکتے ہیں   ۔ (دارالافتاء اہلسنّت،تجہیز و تکفین کا طریقہ ص ۹۰)

کفن کے کچھ مسائل اور آداب:

{1}فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اپنے مردوں کو سفید کفن دو۔

(جامع الترمذی،کتاب الجنائز،الحدیث۹۹۶،ج۲،ص۳۰۱)

{2}مَرْد کا کفن:یہ تین(۳) کپڑے ہیں(۱)لفافہ یعنی چادر (۲)اِزار یعنی تہبند (۳)قمیص یعنی کفنی۔

{3}عورت کیلئے ان تین(3)  کے ساتھ ساتھ مزید(more)  دو (2) یہ ہیں: (۴) اَوڑھنی (۵) سینہ بند۔

()جو نابالغ حدِّ شَہْوَت (sexual urge) کو پہنچ گیا ہو (اندازاً لڑکوں میں(قمری یعنی اسلامی سال کے حساب سے) بارہ (12) سال اور لڑکیوں میں نو (9)سال ہو گیا وہ) بالغ (wise, grownup) کے حکم میں ہے یعنی بالغ کو کفن میں جتنے کپڑے دیے جاتے ہیں اِسے بھی دیے جائیں اور() اس سے چھوٹے لڑکے کو ایک کپڑا اور چھوٹی لڑکی کو دو(2)کپڑے دے سکتے ہیں اور() لڑکے کو بھی دو (2)کپڑے دیے جائیں تو اچھا ہے اور ()بہتر یہ ہے کہ دونوں کو پورا کفن دیں چاہے ایک دن کا بچّہ ہو()صرف عُلَمائے کِرام اور پیر صاحبان  کو عمامے کے ساتھ  دَفن کیا جاسکتاہے، عام لوگوں کی میِّت کوعِمامے کے ساتھ دفن کرنا منع ہے۔

{4} کفن کی تفصیل:(۱) لفافہ: یعنی(چادر) میِّت کے قد سے اتنی بڑی ہوکہ دونوں طرف باندھ سکیں (۲) اِزار (یعنی تہبند ):چوٹی (یعنی سرکے شروع)سے قدم تک یعنی لفافے سے اِتنا چھوٹا جوباندھنے کیلئے زیادہ  ہو (۳)قمیص (یعنی کفنی): گردن سے گھٹنوں کے نیچے تک اور یہ آگے اور پیچھے دونوں طرف برابر ہو اِس میں چاک(یعنی cut ہو) اور آستینیں (sleeves) نہ ہوں۔

{5}مردو عورت کی کفنی میں فرق ہے: مرد کی کفنی کندھوں (shoulders) پر چیریں (یعنی cut لگائیں) اور عورت کیلئے سینے(chest) کی طرف (۴) اوڑھنی : تین(3) ہاتھ یعنی ڈیڑھ گز (1½ yards)کی ہونی چاہئے (۵)  سینہ بند: پستان(nipples) سے ناف (navel)تک اور بہتر یہ ہے کہ ران تک ہو۔

{6}عموماً تیار کفن خریدلیا جاتا ہے اس کا میِّت کے قد(height) میں سنّت کے مطابق  ہونا  مشکل ہی ہوتا ہے، ممکن ہے  اِتنازیادہ ہوکہ اِسراف میں آجائے، لہٰذا اِحتیاط (caution) اِسی میں ہے کہ تھان میں سے ضرورت کے مطابق  کپڑا کاٹاجائے۔ اگر تیار کفن لینا پڑا  تو زیادہ(extra)  کپڑا کاٹ کر رکھ لیں پھر یہ کفن اگر میّت کے مال سے لیا تھا تو زیادہ  کپڑا ورثاء (یعنی ان لوگوں )میں تقسیم ہوگا( جو مرنے والے کے مال کے مالک ہونگے) ()کفن اچھا ہونا چاہیے یعنی مرد عیداور جمعہ کے لیے جیسے کپڑے پہنتا تھا اور عورت جیسے کپڑے پہن کر میکے(یعنی شادی کے بعد اپنی والدہ کے گھر) جاتی تھی اُس قیمت کا ہونا چاہیے ۔(550 سنتیں اور آداب ص۷۷ تا ۷۹ مُلخصاً)

نمازِجنازہ وغیرہ کے کچھ مسائل:

{1}کسی صورت (case)میں میت کوسردخانے(cold storage) میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ تفصیل (detail) اس میں یہ ہے کہ جس چیز سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے اس چیز سے مردہ کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور جس طرح زندہ کو  شَرْعی اجازت کے بغیر تکلیف دینا جائز نہیں ہے اسی طرح مردے(میّت)کوبھی   شَرْعی اجازت کے بغیر  تکلیف دینا جائز نہیں اورسردخانے (cold storage)میں اگر زندہ کو تھوڑی دیر کے لئے رکھا جائے تو اسے بھی سخت تکلیف ہوتی ہے کہ وہاں ٹمپریچر(temperature) مائنس(minus) میں ہوتا ہے لہٰذا اس سے میت کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور کسی قریبی رشتہ دار کو میّت کا چہرہ (face)دکھانا وغیرہ ایسا ضروری کام نہیں کہ جس کی وجہ سےمیّت کو تکلیف دینا جائز ہوسکے۔مزید(more) اس میں میّت کی تجہیزوتدفین(کفن دفن) میں بِلاوجہ تاخیر(late) کرنا بھی ہے  اور یہ کام بھی   شرعاًمنع ہے۔( ربیع الاخر1440،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

{2}نمازِ جنازہ درست ہونے کے لئے ایک شرط(precondition) یہ بھی ہے کہ میّت کا جسم اور کفن پاک ہو۔ بدن پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے غسل دیا گیا ہو یا غسل  دینا ممکن  نہ ہو تو تَیَمُّمْ کرایا گیا ہو۔ اگرکفن  پہنانے سے  پہلے،میّت کے  جسم سے نجاست(یعنی ناپاکی) نکلی ہوتو دھو دی جائے اورکفن پہنانے کےبعدنکلی تو دھونے کی ضرورت نہیں اور کفن پاک ہونے کا یہ مطلب ہے کہ پاک کفن پہنایا جائے اور بعد میں اگر نجاست نکلی اور کفن  نا پاک ہو  گیا تب بھی کوئی  حرج نہیں۔ ( دسمبر2021،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً) البتہ بہتر ہے کہ جہاں   سے خون بہہ (bleed) رہا ہو ،وہاں   زیادہ روئی رکھ دیں   کہ کفن خراب نہ ہو۔ (دارالافتاء اہلسنّت،تجہیز و تکفین کا طریقہ ص ۸۸)

{3}نمازِ جنازہ پڑھنےسے پہلے اور بعد، میت کا چہرہ  دیکھنا  جائز ہے، اس میں کوئی حرج(یا گناہ) نہیں۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ میّت کا چہرہ دیکھنے دکھانے کے معاملات   کی وجہ سے دفن میں دیر نہ ہو کہ دین ِ اسلام میں میّت کے کفن دفن  میں جلدی کرنے کا حکم ہے، اور شرعی ضرورت کے بغیر تاخیر(late) کرنامنع ہے۔ ( جمادی الاولیٰ 1441،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

جنازے کےکچھ مسائل اور آداب:

(۱)حدیث پاک میں ہے: جو جنازہ لے کر چالیس(40) قدم چلے اُس کے چالیس(40) کبیرہ(یعنی بڑے) گناہ مٹا دیئے جائیں گے(المبسوط ج۱جز۲ص۸۸)۔ایک اور حدیث شریف میں ہے :جو جنازے کے چاروں پایوں (یعنی چاروں طرف۔all 4 sides)کو کندھا دے (یعنی کندھے (shoulder)پر اُٹھائے)اللہ کریم اُس کی حتمی(یعنی definite ) مغفرت فر ما دے گا ۔(الجوھرۃ النیرۃج ۱ ص۱۳۹)  (۲)سنّت یہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرے ، یوں چاروں پایوں کو(یعنی چاروں طرف) کندھا دے  اور ہر بار دس (10)دس قدم چلے۔ پوری سنّت یہ ہے کہ پہلے سیدھے سرہانے(یعنی سر کی سیدھی طرف والے حصّے سے) کندھا دے پھر سیدھی پائنتی (یعنی سیدھے پاؤں کی طرف ) پھر اُلٹے سرہا نے پھر اُلٹی پائنتی اور دس (10)دس قدم چلے تو کُل (total)چالیس (40)قدم ہوئے۔  جب جنازہ لے کر جاتے ہیں تو  کچھ لوگ  اس طرح  آوازیں دیتے  ہیں : دو(2) دو قدم چلو! ان کو چاہئے کہ اس طرح اعلان کیا کریں:دس (10) دس قدم چلو!(۳)جنازے کو کندھا دیتے وَقت جان بوجھ کر (deliberately)تکلیف دینے والے انداز (way)میں لوگوں کو دھکے دینا، ناجائز و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے(۴)چھوٹے بچے کا جنازہ اگر ایک شخص ہاتھ پر اُٹھا کر لے چلے تو  بھی کوئی حرج (یا گناہ)نہیں اور لوگ  ایک کے بعد دوسرے  کے ہاتھوں میں لیتے رہیں، تب بھی صحیح ہے۔ عورَتوں کو (بچّہ ہو یا بڑا کسی کے بھی) جنازے کے ساتھ جانا منع اور ناجائز ہے  (۵) جنازے کے ساتھ اونچی آواز سے کلمۂ طیّبہ یا کلمۂ شہادت یا حمد و نعت وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔ (دیکھئے: فتاوٰی رضویہ جلد۹،ص ۱۳۹ تا۱۵۸ ) ۔ (550 سنتیں اور آداب ص۸۲ تا ۸۳ مُلخصاً) (۶) عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانا،ناجائز اورمنع ہے(بہارِ شریعت،ج ۱،ص۸۲۳) ۔عورت جنازہ نہیں اُٹھائے گی، چاہے عورت کی میّت ہو۔(الاشباہ والنظائر،ص۳۵۸) (۷)  ایک شخص مرا جس کا کافر ہونا معلوم تھا، مگر اب ایک مسلمان اس  مرنے والےکے مسلمان ہونے کی شہادت (گواہی۔ testimony)دیتا ہے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی اور   (۸) ایک شخص  مسلمان مرا ، اب  دوسرا آدمی ،مرنے والے کے مرتد ہونے کی شہادت دیتا ہے تو  صرف اس کے کہنے سے اسے مرتد نہیں  کہیں گے اور جنازہ کی نماز  نہیں  چھوڑیں گے۔(بہار شریعت ح۱۶،ص ۶۵۸،مسئلہ۳۵،مُلخصاً) (۹)عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے جب کہ موت سے پہلے یا  مرنے کےبعد کوئی ایسی بات نہ ہوئی  ہو   جس سے اُس کا نکاح ختم ہو جائے (۱۰)  انتقال کرنے والی بیوی کو شوہر غسل نہیں دے سکتا بلکہ  اُسے   بلا حائل (directبغیر کپڑے وغیرہ کے) چُھو(touch)بھی نہیں  سکتا ہے  لیکن اس (کے چہرے  کو) دیکھنا منع  نہیں (۱۱)عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شوہر  اپنی بیوی کے جنازہ کو نہ کندھا دے سکتا ہے، نہ قَبْر میں اُتار سکتا ہے، نہ ہی مُنہ دیکھ سکتا ہے یہ  سب  باتیں غَلَط ہیں۔ صرف نہلانے اور اُس کے بدن کو بلا حائل(مثلاً کپڑے وغیرہ کے بغیر) ہاتھ لگانا منع  ہے۔(بہارِ شریعت ج ۱،ص ۸۱۲،۸۱۳، مُلخصاً)

دفن کرنے کےکچھ مسائل اور آداب:

(۱) قبریں بھی اللہ کریم کی نعمت ہیں  جس میں مردے دَفن کر د ئیے جاتے ہیں تاکہ جانور اور دوسری چیزیں  مسلمان کے جسم کو نقصان نہ  پہنچائیں  (۲) نیک بندوں  کے قریب دفن کرنا چاہئے تاکہ اُن کے پاس رہنےکی برکتیں (blessing)اسے ملیں ، اگر(مَعَاذَ اللہ! یعنی اللہ   کریم کی پناہ) مرنے والا گناہ گار ہو تو وہ شفاعت کرتے ہیں  اورجو رَحمتیں  اُن نیک  لوگوں پر نازل ہوتی ہیں، اُن میں سے  اس(یعنی گنہگار کو)بھی  حصّہ ملتا ہے۔حدیثِ پاک میں ہےنبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَفرماتے ہیں: اپنے اَموات(یعنی مردوں) کو اچھے لوگوں کے ساتھ دفن کرو۔(کنزالعمال،۸/۲۵۴،  الجزء الخامس عشر ،الحدیث :۴۲۳۶۴) (۳)رات کو دَفن کرنے میں کوئی حرج (یا گناہ)نہیں(۴)ایک قبر میں ایک سے زیادہ مردوں کو  بلا ضرورت (یعنی شرعی اجازت کے بغیر)دَفن کرنا ،جائز نہیں اور ضرورت (یعنی شرعی اجازت سے ) ہو تو کر سکتے ہیں (۵)کفن کی گرہ کھولنے والا یہ دعا پڑھے:اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ وَلَاتَفْتِنَا بَعْدَہٗ (ترجمہ:اے اللہ ! ہمیں   اس  (دفنانے)کے اَجر سے محروم (یعنی ثواب ختم) نہ کر اور ہمیں   اس (جانے والے) کے بعد فتنے میں   نہ ڈال) (۶) قبر کے اندرونی حصّے (inner part)میں آگ کی پکی ہوئی اینٹیں لگانا منع ہے لھذا قبر کی دیواروں اور  تختوں(boards) کا وہ حصّہ جو اندر کی طرف  ہوگا،ان پر کچی مِٹّی(clay) لگا دیں۔اللہ   کریم مسلمانوں کو آگ کے اثر (effect) سے محفوظ رکھے(۷) اگر زَمین نرم ہو تو ( لکڑی کے) تختے لگانا بھی جائز ہے (۸) قبر پر دونوں ہاتھوں سے تین (3)بار مٹی ڈالنے کے بعد باقی مٹی پھاؤڑے (shovel)وغیرہ سے ڈال دیں (۹)جتنی مٹی قَبْر سے نکلی ہے اُس سے زیادہ ڈالنا مکروہ ہے(۱۰)ہاتھ میں جو مٹّی لگی ہے، اسے جھاڑ نے ،ہاتھ دھونے کی بھی اجازت ہے(۱۱)قبر ایک بالشت (span of palm)اونچی ہو یا معمولی سی زیادہ(۱۲) دفن کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا بہتر ہے  (۱۳)قبر سے میِّت کی ہڈّیاں باہَر نکل پڑیں تو اُن ہڈّیوں کو دَفن کرنا واجِب ہے۔(550 سنتیں اور آداب ص۸۴ تا ۸۷ مُلخصاً)   (۱۴) میّت کے جسم کا   کوئی حصّہ، اگر بیماری وغیرہ کی وجہ سے (ڈاکٹرز نے)نکال لیا  ہو تو اُسے بھی دفنانا ہوگا (تجہیز و تکفین کا طریقہ ص ۸۶) (۱۵)مسلمان میّت کی قبر کو بِلاضرورت کھودنا یا اس کی جگہ دوسری میّت دفن کرنا ،ناجائز و حرام اورگناہ ہے، لہٰذ قبر کتنی ہی پُرانی ہوجائے اسے کھود کر اس کی جگہ کسی دوسرے مُردےکو دفن کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے ۔( ربیع الثانی 1441،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)

قبرستان  جانےکی کچھ سنتیں اور آداب:

  (۱)قبرستان میں اُس عام راستے سے جائیں،جہاں ماضی (past) میں کبھی بھی مسلمانوں کی قبریں نہ تھیں، جو راستہ نیا بنا ہوا ہو اُس پرنہ چلیں۔’’فتاوٰی شامی‘‘ میں ہے : (قبرستان میں قبریں مٹا کر) جو نیا راستہ نکالا گیا ہو اُس پرچلنا حرام ہے۔  بلکہ نئے راستے کا صرف گمان(یعنی  شک) ہو تب بھی اُس پر چلنا ناجائز و گناہ ہے (۲)  قبر پر بیٹھنا، سونا، چلنا،  پیشاب وغیرہ  کرنا حرام ہے(بہارِشریعت،ح۴ ،ص ۸۴۷، مسئلہ ۳۱،مُلخصاً) (۳)  جب قبرستان جائیں تو ا ِس طرح کھڑے ہوں کہ قبلے کی طرف پیٹھ (back)اورقبر والوں کے چہروں کی طرف منہ ہو، اِس کے بعد کہئے:اَلسّلَامُ عَلیْکُم یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ،یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ،اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّنَحْنُ بِالْاَثَر (۴) اسی طرح جب  کسی قبر کے پاس جانا ہو (مثلاً اپنے والدین یا رشتہ داروں کی قبر پر اور وہاں   پہنچنےتک  کسی دوسری  قبرپر چل کر جانا نہ پڑتا ہو تو )   میّت کے  چہرے  (یعنی قبر کے سیدھی طرف سر)کے سامنے،   اس  طرح جائیں کہ  قبر والے کے قدموں کی طرف سے  ہوتے ہوئے چہرے کے سامنے آکر سلام کریں پھر  فاتحہ و دعا کیجیئے (۵)  قَبْر کے اوپر اگر بتی نہ جلائی  جائے کہ  اس میں  بے ادبی ہے۔ ہاں!اگرآنے والوں کو خوشبو پہنچانے کے لیے جلانا چاہیں تو قَبْر کے پاس خالی جگہ پہ جلائیں کہ اس طرح خوشبو پہنچانا اچھا کام ہے(۶)قَبْرپر چراغ یا  موم بتی(candle) وغیرہ  بھی نہ جلائیں۔ ہاں !رات میں راستہ  چلنے والوں یا تلاوت کرنے والوں کے لیے روشنی کی ضرورت ہو تو قبروں سے ہٹ کر کسی طرف  جلائیں مگر  اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ وہ خالی جگہ ایسی نہ ہو  کہ جہاں پہلے قبر تھی اب ختم کر دی گئی(اس طرح  روشنی کرنے سے بہتر لائٹنگ کا  انتظام، جائز طریقے سے  کرنا ہے )(۷)قبروں کی زیارت کے لیے یہ چار(4) دن بہتر ہیں :(1)پیر(2)جمعرات (3)جمعہ (4) ہفتہ(۸) جمعہ کے دن  فجر کی  نماز کےبعد،  اِسی طرح برکت والے(blessed)  دنوں میں (مثلاً عیدین،10محرم الحرام اورعشرہ ٔذی الحجہ (یعنی ذوالحجہ کے پہلے 10دنوں میں) یعنی پورے  پورے دن میں)اور برکت والی(blessed) راتوں میں  قبروں پر حاضری دینا افضل(اور بہتر) ہے، خصوصاً شب ِ برا ءَت(میں قبرستان کی حاضری افضل ہے)۔ (550 سنتیں اور آداب ص۹۱ تا ۸۸ مُلخصاً)

مزارات پر حاضری کے  کچھ آداب:

(۱)اگرکوئی شَخْص اللہ   کریم کے ولی کے مَزار شریف یا کسی بھی مسلمان کی قَبْر کی زیارت کو جانا چاہے تو مُستَحَب یہ ہے کہ پہلے اپنے مکان پر (غیر مکروہ وقت میں) دو(2)رَکعَت نفل پڑھے، ہر رَکعَت میںسورۃُ الفَاتِحَہکے بعدایک (1)بارآیۃْ الْکُرسیاور تین(3) بار سورۃُ الِاخْلاصپڑھے اور اس نماز کا ثواب  قَبْر والوں کو پہنچائے(یعنی ایصالِ ثواب کرے)، تو اللہ کریم اُس بندے (یعنی انتقال کرنے والے)کی قَبْر میں نور پیدا کرے گا(فتاوی عالمگیری،کتاب الکراہیۃ،ج۵،ص۳۵۰)اور اِس (ثواب پہنچا نے والے)شخص کو بہت زیادہ ثواب عطا فرمائے گا ۔ ( عالمگیری ج۵، ص۳۵۰ )(۲)  اچھی اچھی نیّتیں کرنے کے بعد مَزارات کی طرف جائے (۳) حاضری کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے ، اللہ  کریم کی  رضا کے لئے، ہو سکے تو باوضو مزار شریف  پرحاضری دےاور آتے جاتے ہوئے بھی   ذِکرو دُرُود  میں مصروف(busy)  رہے، فضول باتیں نہ کرے ۔(مزاراتِ اولیا کی حکایات، ص۷،مُلخصاً) (۴)کئی مزاراتِ اولیا پر دیکھا گیا ہے کہ آنے والوں کی آسانی کے لیے  مسلمانوں کی قبریں  توڑ کر  راستہ بنادیاجاتا ہے،ایسی جگہ پر لیٹنا، چلنا، کھڑا ہونا ، تِلاوت اور ذِکر و غیرہ کیلئے بیٹھنا (سب) حرام ہے، دُور ہی سے فاتحہ پڑھ لے(اور اگر مزار شریف کے قریب جانے کا راستہ ہو تو جائے مگر یاد رہے!) (۵)قَبْرکی تعظیم(یعنی respect) کے لیے سجدہ کرنا حرام ہے اور اگر عبادت کی نیِّت ہو تو کفر ہے(لیکن کسی مسلمان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ  وہ قبر کی عبادت کرتا ہوگا) (۶)قَبْر کو نہ چومے، نہ قَبْر پر ہاتھ لگائے   (550 سنتیں اور آداب ص۹۱ تا ۸۸ مُلخصاً) بلکہ مزار پر حاضر ہونے والے کو چاہیے کہ صاحب مزار (یعنی بزرگ)  کے  چہرے   (یعنی قبر شریف کی سیدھی طرف سر)کے سامنے،   اس  طرح جائےکہ   بزرگ کے قدموں(یعنی پاؤں) کی طرف سےہوتے ہوئے چہرے کے سامنے کم از کم چار(4)ہاتھ کے فاصِلے پر کھڑا ہواور درمِیانی آواز میں(اِس طرح)سَلام عَرْض کرے:اَلسّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِیْ وَرَحمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ، (۷)پھر”دُرُودِ غَوْثیہ “تین (3)بار،اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!شریف ایک (1) بار،آیَۃُ الْکُرْسِی ایک  (1)بار،سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص سات(7)بار، پھر ”دُرُوْدِ غَوْثیہ“سات (7)بار پڑھے(دُرُوْدِ غَوْثیہ، یہ ہے:اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَا نَا مُحَمَّدٍ مَعْدَنِ الْجُوْدِوَ الْکَرَمِ وَ اٰلِہٖ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ) (۸)  بہتر یہ ہے کہسُوْرَۂ یٰسٓ اور سورۂ  مُلک بھی پڑھے (۹) پھراللہ کریم سے دُعا کرے کہ اے   اللہ !اِس  تلاوت پر مجھےاتنا ثواب  نہ دے کہ  جتنا میرا عمل ہے بلکہ وہ ثواب دے  جو تیرے کرم کے قابل ہے(یعنی تیری رحمت کی شان کے مطابق ہو) اور  اِسے میری طرف سے  اپنےاِس  مقبول اور نیک بندے کو نَذْر (یعنی تحفہ)پہنچا(یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ  سب سے پہلے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو پھر تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَامکو پھر تما م صحابہ و اہل بیت رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْ کو پھر تمام بزرگوں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْاور مزار شریف والے بزرگ  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ایصالِ ثواب کرے)(۱۰) پھر اپنا جو جائز مطلب، جائز کام، جائز ضرورت  ہو، اُس کے لیے دُعا کرے اوراللہ کریم کی بارگاہ میں ، اِن مزاروالے بزرگ  کواپنا وسیلہ بنائے(۱۱)پھر واپسی میں دوبارہ اُسی طرح سَلام کر کے واپَس آئے۔(فتاوی  رضویہ ج۹،ص۵۲۲، مُلخصا)

عورتوں کا مزار شریف پر جانا:

(۱)پیارے آقا مدینے والے مصطفی ٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے پیارےروضۂ انور (یعنی مزار شریف) کے علاوہ (other)عورتوں کو کسی بھی مزار پر جانے کی اجازت نہيں(۲) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے برکت والے (blessed)روضے کی حاضِر ی  سنّتِ جَلیلہ عظيمہ(یعنی بزرگوں کا پرانا طریقہ) اورقریب بوَاجب (یعنی واجِب کے قریب ) ہے اور قرآنِ  کریم نے اسے گناہوں کی مُعافی کا بہترین طریقہ بتايا۔اللہ   کریم   فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اور اگر جب وہ اپنی جا نو ں پر ظلم کريں تو اے محبوب تمہارے حُضُور حاضِر ہوں اور پھر اللہ (کریم) سے مُعافی چاہيں اور رسول انکی شَفاعت فرمائے توضَروراللہ  کوبَہُت توبہ قَبول کرنے والا مہربان پائيں۔  (پ ۵، سورۃ النساء، آیت۶۴) (ترجمہ کنز الایمان) (۳)  حدیث پاک ميں آتاہے:جو ميری قبر کی زيارت کرے اسکے لئے ميری شَفاعت واجِب  ہوگئی۔( دارقُطنی ج۲ص۳۵۱حدیث۲۶۶۹) (۴)    فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جس نے حج کيا اور ميری زيارت نہ کی اُس نے مجھ پرجَفا کی(یعنی ظلم کیا)۔( الکامل فی ضعفاء الرجال ج۸ص۲۴۸)  (۵)  بے شک پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے  توبہ قَبول(accept) ہوتی اورشَفاعت کی دولت ملتی  ہےاور اس حاضری  میں سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ معاذ اللہ ! جَفا( یعنی ظلم) سے بچنا بھی ہے  (۶) يہ اہم ترین معاملات (most important matters) ايسے ہيں کہ جن کی وجہ سےپیارے آقا  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے  برکت والے(blessed) مزار  پر سب  غلاموں(یعنی مسلمان مردوں) اور سب کنیزوں(یعنی مسلمان عورتوں)  پر  حاضری کو لازم  کر دیا لیکن  یہاں کے  علاوہ   دیگر(other) قبروں اور مزاروں پر جانے کی اجازت نہیں کیونکہ: (پہلی بات)اس طرح کسی مزار پر حاضری کو لازم نہیں کیا گیا۔(دوسری بات)اس جگہ کے علاوہ، دوسری جگہوں پر خرابیوں  کے اِمکانات (possibilities)  موجود ہیں کہ  یہ عورتیں جب رشتہ داروں وغیرہ کی قبروں پر جائیں گی تو  بے صبری کريں گی (جب کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہونے میں ادب زیادہ رہے گا)۔ (تیسری بات) یہ اولياء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کے مزار پر بے ادَبی نہ بھی کريں توجَہالت سے تعظيم(respect)  کرنےميں  شرعی طریقہ کار (Shar’i method) سے ہٹ سکتی ہیں جيسا کہ  دیکھی بھالی بات ہے (جب کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے  مزار کا ادب اُمّت کو معلوم ہے اور اُمّت کا اُس ادب پر عمل بھی ہے)،  لہٰذا ان عورتوں کے لئے سلامتی والا طریقہ یِہی ہے کہ وہ مَزاراتِ اولياء وقبروں پر جانےسے بچيں(اور صرف  سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے برکت والے مزار شریف پر حاضر ہوں اور ضرور حاضر ہوں)۔

 (پردے کے بارے میں سوال جواب ص ۲۰۶ تا ۲۰۸ مُلخصا،فتاوٰی رضويہ ج ۹ص ۵۳۸ ماخوذاً)

تعزیت کے کچھ مسائل اور آداب:

(۱)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جو کسی غمزدہ شخص (sad person)سے تعزیت کر ے گا،اللہ   کریم اُسے تقوٰی(یعنی پرہیزگاری) کا لباس پہنائے گا اور رُوحو ں  کے درمِیان اس کی رُوح پر رَحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ (یعنی جو مصیبت میں ہو)سے تعزیت (یعنی افسوس)کرے گا اللہ   کریم اُسے جنّت کے لباسوں  میں  سے دو(2) ایسے  لباس  پہنائے گا  جن کی قیمت (ساری )دنیا بھی نہیں  ہوسکتی۔( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَطج۶ ص ۴۲۹حدیث ۹۲۹۲) (۲) تعزیت کا معنیٰ ہے :جسے کوئی مصیبت یا تکلیف  پہنچی ہے(مثلاً کسی کے گھر انتقال ہوگیا یا کسی کی کوئی چیز چوری ہوگئی)، اُسے صبر کرنے کا کہنا، اُس  کا غم دور کرنے کی کوشش کرنا(۳) تعزیت میں یہ کہے:اللہ   کریم آپ کو صَبْر عطا فرمائے اور اس مصیبت پر(صبر کرنے کے بدلے)  ثواب عطا فرمائے اور(اگر انتقال ہوا ہے، تو یہ بھی کہے:) اللہ   کریم مرحوم کی مغفرتفرمائے (۴) تعزیت  کرنا  سنّت ہے۔(بہار ِشریعت ج۱ص۸۵۲،مُلخّصاً) (۵)پیارےآقا صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ نے اس طرح تعزیت فرمائی: اِنَّ لِلّٰہِ مَااَخذَ وَلَہُ مَااَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ (ترجمہ:) اللہ   کریم ہی کا ہے جو اُس نے لیا اور جو دیا اور اُس کے نزدیک ہر چیز ایک مقّررہ وقت (fixed time) تک ہے، لہٰذا صبر کرو اور ثواب کی اُمّید(hope) رکھو۔ (بُخاری ج۱ص۴۳۴حدیث۱۲۸۴) (۶) مُفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : تعزیَت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں  جس سے غم دور  ہوجائے،  اگر اس وقت  کربلا والوں کی یاد لائی  جائے  توبَہُت تسلّی (comfort) ہوتی ہے(۷) تمام تعزیتیں  ہی بہتر ہیں  مگر بچّے کی وفات پر(عورتوں یا مَحرِم  مردوں کا اُس کی) ماں  کو تسلی دینا بَہُت ثواب کا کام  ہے(محرم وہ شخص کہ جس سے کبھی بھی  نکاح  نہ  ہو سکتاہو )۔(مراٰۃ المناجیح ج۲ ص ۵۰۷،مُلخصاً) (۸) تعزیت کرنے والانرمی سے  گفتگو کرے بلکہ بات  چیت بھی  کم کرے اور مسکرانے سے بچے کہ اس وقت  مسکرانا  دلوں  میں نفرت  پیدا کرتا ہے ۔ تعزیت کرنے والے کو اگر غم ہو تو  اچھی نیّت سے  افسوس کرے(آدابِ دین ص۳۵، ماخوذاً) ۔ اگر دل میں غم بالکل  بھی نہ ہو تو ہرگز ایسے جملے نہ کہے کہ: بہت افسوس ہوا یا بہت غم ہوا کہ کہیں شیطان ہمیں تعزیت کے نام پر جھوٹ کے گناہ میں نہ ڈال دے۔یاد رکھیں! جھوٹ ناجائز و گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے(۹)اگر دل میں غم  نہ ہو تب بھی تعزیت کرے لیکن اب افسوس کی جگہ دعا کرے، مثلاً یوں کہے :اللہ کریم  مرحوم کی بے حساب مغفرت کرے، اللہ    کریم آپ  کے ہونے والے نقصان کا اچھا بدلا عطا فرمائے (۱۰) جو کافر مرا، اُس کے لیے مغفرت کی دعا کرنا حرام ہے۔(فضائل دعا، ص۲۰۳،مسئلہ ۱۱)

نوحہ کے کچھ مسائل :

 (۱)  نوحہ یہ ہے کہ میّت کے اَوصاف(مثلاً اچھے اخلاق والا ہونا) مبالَغے کے ساتھ(یعنی بڑھا چڑھا کر) بیان کرتے ہوئے آواز سے رونا ،اسے  ’’بَین‘‘ بھی کہتے ہیں۔یہ بِالاِجْمَاع (یعنی عُلَمائے کِرام کے اتفاق سے۔with the consensus of  scholars) حرام ہے۔اسی طرح  واوَیلا وامُصیبتا (یعنی ہائے مصیبت ) کہہ کے چلّانا یا شور مچانا بھی حرام ہے۔(بہار ِشریعت ج ۱ ص ۸۵۴ ،مُلخصاً) (۲) طبیب(doctors) کہتے ہیں  کہ جسے بہت غم ہو مثلاً( اپنے  قریبی  رشتہ دار کی) میِّت پر(پھر) بھی  بالکل نہ روئے تو اس  سے سخت بیماری پیدا ہوجاتی ہے ، آنسو نکلنے سے دل کی گرمی  ختم  ہو جاتی ہے ، اِس لیے( عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ:) اِسے(بغیر نوحہ کے )   رونے سے ہر گز  مَنْعْ نہ کیا جائے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۲ ص۵۰۱،مُلخصاً) (۳) اگر تعزیت کے لئے عورَتیں  جَمْعْ ہوں  کہ نوحہ کریں  تو انہیں  کھانا نہ دیا جائے کہ(انہیں کھانا کھلانا) گناہ پر مدد  کرنا ہے۔ (بہار ِشریعت ج ۱ ص ۸۵۳ ،مُلخصاً)

موت کی تعزیت :

(۱)مستحب یہ ہے کہ میِّت کے تمام رشتہ داروں سے تعزیت  کریں ، چھوٹے بڑے مرد و عورت سب کو مگر عورت سے (عورتیں یا) اُس کے مَحرِم  مرد ہی تعزیت کریں  ۔ (بہار ِشریعت ج ۱ ص ۸۵۲ ،مُلخصاً) (۲)دَفْن سے پہلے بھی تعزیت جائز ہے ، مگر اَفضل یہ ہے کہ دَفْن کے بعد ہو یہ اُس وَقت ہے کہ میّت کے  گھر والے بہت رو  (cry) نہ رہے  ہوں ، ورنہ اُن کی تسلّی(حوصلہ وغیرہ) دینے کے لیے میّت کو  دَفْن کرنے سے  پہلے بھی تعزیت  کر سکتے ہیں۔ (جوہرہ ص۱۴۱) (۳) قَبْر کے قریب تعزیت کرنا مکروہِ (تنزیہی ) ہے۔ ( دُرِّمختار ج۳ ص۱۷۷) (۴)میِّت کے رشتہ دارو ں  کا گھر میں اس لیے  بیٹھنا کہ لوگ اُن کی تعزیت کیلئے آئیں،  اس میں  کوئی حَرَج (یا گناہ)نہیں  اور مکان کے دروازے پر یا عام راستے پر  دری وغیرہ بچھا کر بیٹھنا بُری بات ہے۔ (عالمگیری ج۱ ص ۱۶۷ ، رَدُّالْمُختار ج۳ ص۱۷۷،مُلخصاً) (۵) تعزیت کا وَقْت موت سے تین (3) دن تک ہے، اِس کے بعد مکروہ ہے کہ غم  کی صورت حال(condition) دوبارہ پیدا ہوگی۔ہاں! اگر تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے  وہ  موجود نہیں تھے یا کسی کو انتقال کی  خبر ہی نہیں ہوئی، تو تین (3)دن  کے بعد بھی  تعزیت کی جاسکتی ہے ۔ ( رَدُّالْمُحتار ج ۳ ص۱۷۷،مُلخصاً)   (۶)جو ایک بار تعزیت کر آیا اُسے  دوبارہ تعزیت کے لیے جانا مکروہ ہے (  دُرِّمُختار  ج۳  ص۱۷۷) ۔کچھ جگہ  وفات کے بعد آنے والی پہلی شبِ براء ت یا پہلی عید پر رشتہ دار وغیرہ   میّت کے گھرتعزیت کیلئے آجاتے ہیں  یہ طریقہ  غَلَط ہے۔ ہاں  !جو کسی وجہ سے تعزیت نہ کر سکا تھا وہ عید کے دن تعزیت کرسکتا ہے  (۷) انتقال کے بعد  پہلی بڑی عید پر گھر والے قربانی نہیں کرتےچاہے ان پر قربانی واجب ہی کیوں نہ ہو،اِس طرح   قربانی واجب ہونے کے باوجود جس جس نے قربانی  نہیں کی وہ سب گنہگار ہوں گے (نیک  بننے کا نسخہ ص۲۰،۲۱،مُلخصاً) ۔ ان سب پر لازم ہے کہ ایک بکرے کی قیمت (price)  صدقہ کریں۔

سوگ کے کچھ مسائل:

(۱)  فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏‏کوئی عورت کسی میّت پر تین (3)دن سے زیادہ سوگ نہ کرے، مگر شوہر پر چار (4)مہینے دس (10)دن سوگ کرے۔ (مسلم ،کتاب الطلاق،  ص۷۹۹،حدیث۱۴۹۱) (۲)فرمانِ  مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:جس عورت کا شوہر مر گیا ہے، وہ  نہ زیور پہنے اور نہ مہندی لگائے اور نہ سُرمہ(لگائے) ۔ (ابوداود، کتاب الطلاق،حدیث۲۳۰۴ ، مُلتقظاً) (۳)سوگ کے معنی یہ ہیں    زِینت نہ کرنا (مثلاً زیور پہن کر یا میک اپ کر کے تیارنہ  ہونا) (درالمختار معہ ردالمحتار،کتاب الطلاق، ۵ / ۲۲۱ وبہار شریعت،حصہ۸ ،۲ / ۲۴۲) (۴)سوگ اس عورت پر ہے جو کہ عاقِلہ بالِغہ(wise, grownup) مسلمان ہواور موت یاطلاقِ بائن کی عدت ہو(درالمختار معہ ردالمحتار،کتاب الطلاق، ۵ / ۲۲۰ وبہار شریعت، حصہ۸ ، ۲ / ۲۴۳) ۔یاد رہے کہ  طلاق کی مختلف صورتیں(cases)  ہوتی ہیں:(1) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد نیا نکاح نہیں کرنا ہوتا، مثلاً واضح لفظ(word) سے  ایک طلاق اس طرح دی کہ: ” میں نے تجھے طلاق دی‘‘ اور اس سے پہلے کوئی طلاق نہ دی تھی تو یہ  طلاق رجعی ہے اور اب بھی شوہر چاہے تو کچھ شرطوں (preconditions) کے ساتھ، ایک وقت کے اندر اندر،نکاح باقی رکھ سکتا ہے   ۔ مگر(2) کبھی طلاق اس طرح ہو جاتی ہے جس کے بعد  نیا نکاح  کرنا  ہوتا ہے،اسےطلاقِ بائن کہتے ہیں (ان مسائل میں بہت تفصیل  (detail)ہے۔

(۵)اگر شوہر  کا انتقال ہو جائے توفوت  کی عِدَّت چار(4) ماہ دس (10)دن ہے۔ (جوہرۃ نیرۃ،کتاب العدۃ،الجزء الثانی،ص۹۷،وغیرہا  )(۶) اگر شوہر نے عورت کو طلاق دی ہو اورعورت کو حیض (یعنی منتھلی کورس۔ menstrual period   )آتا ہے تواُس  کی عدت مکمل تین(3) حیضوں کا گزر جانا ہے لیکن  (۷) اگر عورت کو حیض میں طلاق دی ہو تو وہ حیض شمار (count) نہیں ہوگا ،بلکہ اس حیض کے بعد(پاکی کے دن گزار کر)  جونیا حیض آئے گا، وہ پہلا حیض  ہوگا اور اس کے بعد مزید(more)  دو(2)حیض گزار کر تین(3) حیض  مکمل کرنا ضروری ہیں(۸)اگر عورت کو حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا یا عورت اتنی عمر کی ہوچکی ہے کہ حیض آنا بند ہوگیا ہے ،تو ان کی عدت تین(3) مہینے ہے۔ (طلاق کے آسان مسائل ص۲۹،مُلخصاً)

(۹)طلاق ہو یا وفات ،جب عورت اُمید (یعنی حمل۔pregnant) سے ہوتو عِدَّت کی مدّت بچے کی ولادت (birth)ہونے تک ہے  چاہے شوہر کی وفات کے فوراً بعد بچّہ پیدا ہوجائے۔ (جوہرۃ نیرۃ،کتاب العدۃ، الجزء الثانی، ص۹۶ ،بہار شریعت ص۲۳۸،مُلخصاً)    (۱۰)وفات کی عدت تو عورت پرہرصورت (condition)  میں ہے  چاہے عورت چھوٹی عمر کی ہو یا زیادہ عمر کی   ہو(اُسے ۴ ماہ، ۱۰ دن کی عدت کرنی ہوگی یا بچے کے پیدا ہونے تک  عدّت کرنی ہوگی )لیکن    (۱۱)   طلاق کی عدّت اُسی  وقت ہے کہ  جب عورت سے مرد کی خلوت( تنہائی (privacy) یاخاص ملاقات ) ہوئی ہو اگر نہ ہوئی  تو عورت پر  عدّت بھی نہیں۔(طلاق کے آسان مسائل ص۲۹،مُلخصاً)

(۱۲)عورت کواپنی عدت پوری ہونے تک سوگ منانا شرعاً واجب اور اس کا ترک (یعنی سوگ نہ کرنا)حرام ہے۔ یہاں تک  کہ طلاق دینے والے نے سوگ سے منع کیا  تھا یا شوہر نے مرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ سوگ نہ کرنا تب بھی سوگ  کرناواجب ہے۔ (درالمختار معہ ردالمحتار،کتاب الطلاق، ۵ / ۲۲۱) (۱۳) کسی قریبی (رشتہ دار) کے  فوت ہو جانے پر عورت کو تین(3) دن تک سوگ کرنے کی اجازت ہے اس سے زیادہ وقت    کی اجازت نہیں اور عورت  شادی شدہ (married)یعنی شوہر والی ہو تو شوہر اس سے بھی منع کرسکتا ہے۔( بہارِ شریعت ، ح۸،ص۲۴۳، مسئلہ۸،مُلخصاً)

سوگ  میں یہ کام منع  ہیں:

(۱) ہر قسم کاسنگھار(adornment) عِدَّت  مکمل ہونےتک منع ہے۔(فتاویٰ رضویہ،جلد ۱۳ ،ص ۳۳۱،مُلخصاً)  (۲) جو عورت عِدَّت میں ہو وہ کسی قسم کازیوریہاں   تک کہ انگوٹھی، چھلّا (ring)اور کانچ کی چوڑیاں   و غیرہ بھی  نہ پہنے(۳) کسی بھی رنگ کا ریشمی کپڑا(pure silk) نہ پہنے(۴) سرمہ نہ لگائے(۵) کنگھی نہ کرے (۶) ہر طرح کی زیب وزینت(مثلاً فیشن) ،ہار، پھول، مہندی، خوشبو وغیرہ کااستعمال نہ کرے ( البتہ یہ ضروری نہیں   کہ سوگ  میں سفید  کپڑے ہی  پہنے بلکہ سادہ اور ممکن ہوتو پرانا لباس  پہنے) (۷) شرعی اجازت کے بغیر گھر سے ہرگز نہ نکلے یہاں تک کہ قرآن خوانیوں،   میلاد کی محفلوں یا   بیانات و تقریروں کے جلسوں وغیرہ میں  بھی  نہیں جاسکتی(۸) کسی رشتہ دار  کاانتقال ہوجائے تو عدت  کے دنوں میں،اس کے گھر بھی نہیں   جاسکتی البتہ بعض صورتوں (cases)میں اجازت ہے  لھذا سخت ضرورت میں ’’دارُالاِفتاء اَہلسنّت‘‘ سے رہنمائی (guidance)لے لیں (۹)  عدت کے وقت، جشن ولادت (ربیع الاوّل)کے دنوں  میں دلی طور پر خوش ہونے میں کوئی   حرج (یا گناہ)نہیں   ۔لیکن اس خوشی کے لیے بھی اچھے لباس او رزیورات (jewellery)وغیرہ نہیں   پہن سکتی۔ ہاں!   پردے کے ساتھ،گھر میں   جھنڈے اور لائٹیں   وغیرہ لگو ا سکتی اور نیاز بھی  دلوا سکتی ہے   ۔

 (۱۰)شوہر کے مرنے پر عِدَّت  مکمل ہونےتک  پر فیوم(perfume) یا باڈی اسپرے(body spray) استعمال کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ خوشبو لگا نا بھی زینت  سے ہے اور اس وقت عورت کے لیے کسی طرح کی زینت بھی جائز نہیں۔ اگر پسینے کی وجہ سے  جسم میں بد بو ہو جاتی ہو تو کسی جائز طریقے (یعنی جو زینت نہ  ہو، اُ س)سے  بد بو دور کرے مثلاً غسل کر لے یا بغیر خوشبو والے کیمیکل(chemical) سے   بد بو دور کر لے(۱۱) شیمپو (shampoo) چاہے خوشبو والا ہو یا بغیر خوشبو والا، ایسی عورت استعمال نہیں کر سکتی  کیونکہ خوشبو میں زینت  ہے اور بغیر خوشبو شیمپو سے بھی بالوں میں چمک اور خوبصورتی ملتی ہے(۱۲)   بلکہ جو چیز بھی بالوں کو نرم کرے، یہ عورت اُسے استعمال نہیں کر سکتی (۱۳)  اسی طرح  بیوٹی سوپ یا وائٹنگ سوپ(beauty soap or whitening soap)  جنہیں لگانے سے چہرہ  خوبصورت ہو جاتا ہے، اسکا استعمال بھی اس عورت کو منع ہے(۱۴)    بلکہ جو  چیز  بھی چہرے کو خوبصورت کرے، یہ عورت  اُسے استعمال نہیں کر سکتی (۱۵)   اس  وقت میں   اسے لال رنگ کا کپڑا  پہننا  گناہ  ہے۔ اسی طرح   ہر قسم کے خوبصورت  کپڑے بھی نہ پہنے، البتہ جس کپڑے کا رنگ پرانا ہوگیا( کہ دیکھ کر  کوئی  یہ نہیں کہتا کہ  بہت خوبصورت کپڑے پہنے ہیں) تو اب  یہ کپڑے پہن سکتی ہے۔ اسی طرح  ریشم (silk)کے علاوہ(other)  کالا کپڑا (   جو بہت چمک والا  نہ ہو) بھی پہن سکتی ہے۔(زینت کے شرعی  احکام ص  ۱۴۸تا ۱۵۲، مُلخصاً)

سوگ  میں ان کاموں کی اجازت ہے:

(۱)جو عورت عدّت میں ہو،اُس کے بال اُلجھ جائیں   یاسر میں درد ہو تو  کنگھا کرسکتی ہے مگر کنگھے کے موٹے دندانوں   (thick teeth of comb)والی طرف سے کنگھاکر کے صرف اپنے بال صحیح کرلے، زینت(یعنی خوبصورتی حاصل کرنے) کی نیّت نہ ہو۔(فتاویٰ رضویہ،جلد ۱۳ ،ص ۳۳۱ ،مُلخصاً)(۲) عدّت میں چارپائی پر سونا(۳)  بچھونا(bed sheet)بچھانا  ،جائز ہے،چاہے سونے کے لئے ہویابیٹھنے کے لئے ۔(فتاویٰ رضویہ، ۱۳ ،ص ۳۳۱ ،ملخصاً)(۴) جو عورت عِدَّت میں ہو اس کے لیےغسل کرنا، صاف ستھرااور سادہ لباس پہننا جائز ہے(۵)سردَرْد کی وجہ سے سرمیں   تیل کااستعمال کرنا ،جائز ہے۔  کوشش کرے  کہ  تیل رات  کو لگائے اور زینت(یعنی خوبصورتی) کی نیّت سے نہ کرے(۶) آنکھوں   میں   درد کی وجہ سے سرمہ لگاسکتی ہے ممکن ہوتو رات میں  سونے سے پہلے لگائے (۷) جس مر ض کاعلاج گھر میں   نہیں   ہوسکتا تو شرعی رہنمائی(guidance) لے کرباہر جاسکتی ہے لیکن رات کا اکثر حصّہ شوہر کے مکان میں   ہی گزارے اور اگر اِسی مکان میں   علاج ممکن ہوتو اَب باہر  نکلناحرام ہے(۸) ضرورت پڑنے پرفون پر  بات  کرسکتی ہے(۹) عِدَّت کے دن ختم ہونے پر عورت کومسجد میں   جانایامسجد کو دیکھنے جانا، کسی رشتے دار وغیرہ کے بلانے  پر جانا،  صبح یاشام کسی مخصوص وقت(specific time) عدّت کوختم کرنایااُس دن گھر سے ضرور نکلناان تمام باتوں   کی شرعاً کوئی اصل نہیں  (یعنی نہ تو یہ لازم ہے اور نہ ثواب کے کام ہیں) ہاں !   عدت  ختم ہونے پراُسی دن گھر سے رشتے دار وغیرہ کے گھر جانے کے لئے نکلنے میں   کوئی حر َج (یا گناہ)بھی نہیں   اور شکرانے کے نفل پڑھنے میں   (بھی)کوئی حرج ہے(بلکہ  نفل پڑھنے پر ثواب ملے گا، اِنْ شَاءَ اللہ! یعنی    اللہ کریم    نے چاہا تو)۔ البتہ عدّت کو ختم کرنے کے لئے یہ سب کام ضروری نہیں ہیں (دارالافتاء اہلسنّت،غیر مطبوعہ ،مُلخصاً)۔ یاد رہے کہ جو جائز  کام کیا جائے ، اس میں پردےاور دیگر(other) شرعی مسائل کا خیال رکھنا ضروری ہے (۱۰) عدت  ختم ہونے پرشوہر کی قبر پر نہ جائے بلکہ گھر سے اس کے لئے فاتحہ پڑھ کر دعائے مغفرت کرے۔(تجہیز و تکفین کا طریقہ ص۲۰۳ تا ۲۰۶، مُلخصاً)(۱۱) سوگ کے دن گزر جانے کے بعد، آنے والی عید پر میِّت کا سوگ (یعنی غم) کرنا  یا سوگ کی وجہ سے  اچھے کپڑےوغیرہ نہ پہننا،ناجائز و گناہ ہے۔ہاں! اگر کسی اور وجہ سے (مثلاً اس مرتبہ عید پر کپڑے بنانے کی گنجائش (capacity)نہ تھی  یا عید کے دن سخت بیمار ہونے کی وجہ سے) کوئی اچھے کپڑے نہ پہنے تو گناہ نہیں۔ (نیک  بننے کا نسخہ ص۲۱،مُلخصاً)

سوگ کے کچھ اور مسائل :

   {1}سوگ میں  سینہ کوبی (beating the chest)  کرنایعنی  اتنے زور زور سے  اپنےسینے(chest)پر ہاتھ وغیرہ مارنا کہ ورم (swelling) آجائے(یعنی سوج جائے)یا سینہ سرخ(یعنی لال)ہوجائےیا سینے (chest)   پر زنجیریں (chains)اور چھریاں مارنا یا کچھ مار کر سینے سے خون نکالنا، اسی طرح  غم کے نغمے پڑھنا، جھوٹے واقعات (false incidents) سنانا، یہ سب ناجائز وحرام  اور  جہنّم میں لے جانے والےکام ہیں۔

   {2}  غم   ظاہر کرنےکے لیے سر کے بال بکھیرنا(یعنی کھول دینا یا خراب کرنا)، کپڑے پھاڑنا یا سر پر مٹی  ڈالنا، یہ سب  بھی ناجائز اور جاہلیت کے کام ہیں، ان سے بچنا  بہت ضروری ہے۔ حدیثوں میں اس طرح کرنے سے سختی سے منع کیا گیاہے (بخاری،ج۱،ص۴۳۹،حدیث:۱۲۶۹،۱۲۹۷) ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہر اُس کام سے بچیں  جو اللہ  و رسول(عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)   کوناراض کرنے والا ہو۔

   {3} بعض جگہ  سوگ  میں  عجیب سے بُت (idols)  بناتے ہیں کہ کچھ حصّہ (part)انسانی شکل کا ہوتا ہے اور کچھ

حصّہ جانور جیسا، کہیں دلدل (decorated horse) بنا دیتے ہیں ، کہیں بڑی بڑی قبریں۔ کچھ جگہ آدمی ریچھ(bear) ، بندر (monkey) ، لنگور(ایک قسم کابندرجس کامنہ کالا اوردُم لمبی ہوتی ہے ،یہ عام بندروں سے زیادہ طاقتور ہوتاہے۔ baboon)بنتے ہیں اور  اُچھلتےکودتے  ہیں، یہ   سب حرکتیں ایسی ہیں کہ جسے کوئی انسان اچھا نہیں  سمجھتا اور ایسی بری حرکت ،اسلام میں  ہرگز جائز نہیں  کہ  اصل میں یہ کھیل تماشہ(یعنی  فضول کام)   ہے۔  یاد رہے کہ انسان یا جانور کی شکل کے بُت بنانا ، جائز نہیں ہے۔

    {4}  سوگ میں یا کسی اور وقت جمع ہونے والوں میں   لنگر لٹانا یعنی روٹیاں یا بسکٹ یا اور کوئی چیز اونچی جگہ سے  اس طرح پھینکنا کہ یہ چیزیں  نالیوں میں بھی گریں یا لوگوں  کے پاؤں کے نیچے  آئیں، یہ جائز نہیں  ہے کہ یہ رزق کی سخت بے حرمتی(dishonour)  ہے()اگر یہ چیزیں  ایصالِ  ثواب([30]) کے لیے ہوں تو اچھے انداز(good manners)  سے فقیروں  میں  تقسیم کی جائیں تاکہ رزق  کا ادب  بھی رہے اور جن کو دیا جائے انھیں فائدہ بھی پہنچے۔ (بہار ِشریعت ج ۱۶ ،ص ۶۴۷،۶۴۸ ، مسئلہ۸،۹،۱۰ مُلخصاً)

 

’’ایصال ثواب اور قضا نمازوں کا فدیہ ‘‘

فرمانِ آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

     جب تم میں سے کوئی کچھ نَفل خیرات کرے تو چاہئے کہ اسے اپنے ماں باپ کی طرف سے کرے کہ اس کا ثواب انہیں(یعنی والدین کو) ملے گا اور اس کے (یعنی خیرات کرنے والے کے)  ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی۔(شُعَبُ الْاِیْمَان ج۶ ص۲۰۵ حدیث۷۹۱۱)

واقعہ(incident):                    اُمِّ سَعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمَا کیلئے کُنواں

    حضرت سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عَرْض کی: یَا رَسُوْلَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! میری ماں انتِقال کرگئی ہیں (میں اُن کی طرف سے صَدَقہ (یعنی خیرات)کرنا چاہتا ہوں ) کون سا صَدَقہ افضل(اور زیادہ ثواب والا) رہے گا؟سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’پانی‘‘(کہ ان دنوں پانی کی ضرورت تھی(حاشیۃ السندی علی مسند الامام الاحمد،ج۱۴،ص۸۷،تحت الحدیث:۱۰۱۴۸))۔تو اُنہوں نے ایک کُنواں کھدوایا(dig) اور کہا: ھٰذہ لاُمِّ سَعْد (ترجمہ)یہ(کنواں) اُمِّ سَعد رَضِیَ اللہُ عَنْہَا (کے ایصالِ ثواب) کیلئے ہے۔ ( اَبودَاوٗد ج۲ص۱۸۰حدیث۱۶۸۱)

ایصالِ ثواب کے  مدنی پھول :

{1}ایصالِ ثواب کے لفظی مَعنیٰ ہیں : ’’ثواب پہچانا‘‘ اِ س کو’’ثواب بخشنا‘‘ بھی کہتے ہیں۔امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: حُضُور، نبی کریم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  کے لیے یا کسی بھی نبی  بلکہ کسی ولی کے لیے  یہ نہ کہا جائے کہ ’’ثواب بخشا‘‘ ۔  ان حضرات  کے لیے یہ کہنابے ادَبی ہے،کیونکہ   بڑا چھوٹے  کوبخشتا ہے (چھوٹا بڑے کو نہیں بخشتا) لھذا ان حضرات کے لیے یوں کہے  کہ’’ نَذر کیا ‘‘ یا’’ ہدِیَّہ کیا ‘‘۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۶،ص ۶۰۹،مُلخصاً)

{2}فرض، واجب ، سنّت ،نَفْل، نَماز، روزہ، زکوٰۃ، حج،تلاوت،اللہ   کریم کا ذکر،نعت شریف،  دُرُودشریف ، بیان کرنا،علمِ دین حاصل کرنا، الغرض  ہر نیک کام کا ایصالِ ثواب کر(یعنی یہ ثواب کسی مسلمان  کو بھیج )سکتے ہیں ۔

{3}جتنوں کو بھی ایصالِ ثواب کریں گے، اللہ کریم کی رَحْمت سے اُمّید(hope) ہے کہ سب کو پورا ملے گا ، یہ نہیں کہ ثواب تقسیم (divide) ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ملے گا بلکہ ایصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی بھی  کمی نہیں ہو گی ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: بلکہ یہ ثواب  جتنوں کو ایصال کیا، ان کی تعداد (numbers) کے مطابق زیادہ ہوگا۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جو قبرستان میں گیارہ بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص  پڑھ کر مُردوں(یعنی مرنے والوں) کو اس کا ایصالِ ثواب کرے تو مُردوں کی تعدادکے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کواس کا اَجْر(یعنی ثواب) ملے گا۔(جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۷ ص۲۸۵حدیث۲۳۱۵۲) (فتاوٰی رضویہ ج۲۶،ص ۶۲۹،مُلخصاً)

{4} میِّت کا تیجا(یعنی  انتقال کے تیسرے (3rd )دن کی قرآن خوانی وغیرہ)، دسواں ،چالیسواں اور برسی(یعنی سالانہ فاتحہ) کرنا بہت اچّھے کام ہیں کہ یہ ایصال ثواب ہی کی صورتیں(forms) ہیں ۔قرآنِ پاک کی کسی بھی آیت یا کسی بھی حدیث شریف  یا  شریعت  کے کسی بھی حکم سے  تیجے وغیرہ کےناجائزہونے کی کوئی  دلیل (evidence)  نہیں ملتی لھذاتیجہ وغیرہ کرنا  بالکل جائز ہے کیونکہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ ہر وہ کام جائز ہے  جس کے ناجائز ہونے کی دلیل ، دین و شریعت سے نہ ملے۔ جب  تیجے کے خلاف(against) شریعت کی کوئی دلیل (evidence)نہیں تو یہ تیجے کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔

{5} میِّت کیلئے زندوں کا دعا کرناقرآنِ کریم سے پتا چلتا  ہے جو کہ’’ ایصالِ ثواب ‘‘کی اَصْل(یعنی ایصال ثواب کرنے کی دلیل۔evidence) ہے ۔ اللہ    کریم  فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اوران کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں، اے ہمارے ربّ! ہمیں  اورہمارے ان بھائیوں  کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ (پارہ ۲۸،سُوْرَۃُ الْحَشْر،آیت ۱۰) (ترجمہ کنز العرفان)

{6}تیجے(یعنی سویم) وغیرہ کا کھانا صِرْف اِسی صورت(condition) میں میِّت(یعنی انتقال کرنے والے) کے چھوڑے ہوئے مال سے کرسکتے  ہیں جبکہ سارے وُرَثا (انتقال کے بعد جن لوگوں کو میّت کا مال ملتا ہے)عاقل  (یعنی پاگل نہ ہو) اور بالِغ  (wise, grownup) ہوں اور سب کے سب اجازت بھی دیں  ()اگر ایک بھی وارِث نابالِغ ہے تو(تیجے وغیرہ کا کھانا، میّت کی چھوڑی ہوئی رقم سے کرنا)سخت حرام ہے۔ ہاں! بالِغ اپنے حصّے سے کرسکتا ہے (بہار شریعت ج۱ حصہ۴  ص۸۲۲،مُلخصاً) ۔ یاد رہے کہ اگر بالغ نے اپنے حصّے سے صدقہ وخیرات کی اجازت دی، تو جتنی اجازت  دی، صرف  اُتنی رقم  تیجے (تیسرے دن کے ایصالِ ثواب)وغیرہ میں خرچ کر سکتے ہیں۔

 انتقال  کے بعد جو کھانا کھلایا جاتا ہے، اُس کی تین(3) صورتیں ہیں:

۱) پہلی صورت(1st case):  انتقال کے بعد سے تین (3)دن کے اندر اندر(انتقال کرنے والےکے رشتہ داروں  ،یا دوستوں ،یا پڑوسیوں کا) دعوت کی  طرح  کھانا کِھلانا، منع اور ناجائز ہے۔ اس لیے کہ شریعت نے دعوت کو خوشی میں رکھا ہے ،غم میں دعوت کرنے کی اجازت نہیں دی، اغنیاء (مالداروں۔wealthy people )کو یہ کھانا جائز نہیں۔ بہار شریعت میں ہے: میّت کے گھر والوں کا  تیجے  (یعنی انتقال کے تیسرے  دن۔ 3rd day)دعوت کرنا، ناجائز اور بری بدعت ([32]) ہے۔ ہاں!  اگر فقیروں    ([33])کو یہ کھانا  کھلائیں تو  یہ اچھی بات  ہے۔ (بہار شریعت ج۱، ص ۸۵۳،مُلخصاً)

۲)  دوسری صورت(2nd case): تین(3) دن (یعنی سوگ اور غم)کے بعد بھی میِّت کے کھانے (مثلاً  دسواں،چالیسواں، برسی (سالانہ فاتحہ یا سالانہ ایصال ِثواب)وغیرہ ) کا کھانا بھی  فقیروں کو کھلایا جائے ، اَغْنِیا (یعنی جوشرعی طور پر فقیرنہ ہوں )  اس کھانے سے بھی  بچیں (یہ  کھانااگر غنی کھائیں تو منع بھی نہیں(دارالافتاء اہلسنّت، غیر مطبوعہ، pin-6195 ،مُلخصاً))۔

۳) تیسری  صورت( 3rd  case):   وہ کھانا کہ جو انبیاء کرام(عَلَیْہِمُ السَّلَام) ،صحابہ کرام، اہل بیت (رَضِیَ اللّٰہُ  عَنْھُمْ) اور اولیاء کرام(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کےایصالِ ثواب کے لیے بنایا جاتا،یہ کھانا امیر و غریب سب کو تَبَرُّک(یعنی برکتیں (blessings)لینے) کے لیے کھلایا جاتا ہے۔ یہ کھانا امیر و غریب سب کو کھانا جائز  ہے کیونکہ یہ کھانا برکت والا (blessed)ہے کہ اس کی نسبت(یعنی اس کھانے کا ایصالِ ثواب) بزرگوں کی طرف ہے اور جس چیز پر  برکت والے(blessed) لوگوں کا نام لیا جاتا ہے، اُس چیز میں برکت (blessing)آ جاتی ہے نیز مسلمان اس کھانے کی  تعظیم(respect)  بھی کرتے ہیں (لھذا اگر امیر اُسے کھائے گا تو  یہ برکت   والا (blessed)کھانا ہے) (فتاوی رضویہ ج۹،ص۶۱۴،مُلخصاً) ۔اگر کسی کا انتقال ہوا اور ابھی سوگ کے(یعنی پہلے تین) دن چل رہے ہوں، یا  بعد میں مثلاً چالیسواں، یا برسی(یعنی سالانہ فاتحہ یا سالانہ ایصال ِثواب)   ہو اور اُس میں بزرگوں کے ایصالِ ثواب کی نیّت کر لی جائے تو یہ کھانا بھی برکت والا (blessed)ہو جائے گا،اب امیر و غریب سب اسے کھا سکتے ہیں۔(دارالافتاء اہلسنّت، غیر مطبوعہ، pin-6195 ،مُلخصاً)

()ہمارے ہاں تیجے (یعنی انتقال کے  تیسرے دن کے ایصالِ ثواب ) میں عام طور پر رسم (یعنی رواج، عادت) پوری کرنے لے لیےکھانا کھلایا جاتا ہے۔ تو اسے کھانے والے اس بات کا خیال رکھیں کہ جس نے اس کھانے کا خرچا اُٹھایا ہے، اُس نے   بزرگوں  کے ایصا ل ِثواب (مثلاً غوثِ پاک، شیخ  سیّدعبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی گیارہوں یا خواجہ سیّد غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی چھٹی) کی نیّت  کر لی ہے!!!۔تیجے کے کھانے کا خرچا  اُٹھانے والے کو چاہیے کہ  دعا سے پہلے اس طرح کا اعلان  ضرور  کروائے کہ ابھی دعا کے بعد گیارہوں شریف   کےکھانے کا انتظام (arrangment)ہے([34])۔

یاد رہے کہ جب یہ   معلو م  نہ ہو کہ تیجے میں کھانے کا خرچہ اُٹھانے والے نے ، اس کھانے میں  بزرگوں کی نیاز (یعنی ان کے ایصالِ ثواب  ) کی نیّت کی  ہے یا نہیں !!! تو دو(2)،چار (4) کھانے والوں  کا مل کر  ایصالِ ثواب کی نیّت کر لینا صحیح نہیں اور اس طرح  غنی(یعنی مالدار۔ rich man)  یہ کھانا نہیں کھا سکتے۔

{7} چہلُم (یعنی انتقال کے  چالیسویں دن 40th day)یا برسی(یعنی  انتقال کے ایک سال  ہونے ) پر کھانا بغیر ایصالِ ثواب  کی نیَّتِ  کے صرف   رَسم(ritual) پوری کرنے کے لیے کھلانا اور  برادری(یعنی خاندان) میں بانٹنا ،  ثواب نہیں ، اس طرح کی رسم سے بچنا چاہیے(فتاوٰی رضویہ، ج۹ ،ص۶۷۱ ، مُلخصاً) بلکہ یہ کھانا بھی  ایصالِ ثواب اور  مزید (more)   اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ ہی  ہونا چاہیے  (البتہ یہ کھانا تیجے (یعنی انتقال کے  تیسرے دن) کا نہیں ہے، لھذا یہ کھانا امیر اور غریب سب کھا سکتے ہیں)۔

{8} کہا جاتا ہے: طَعَامُ الْمَیِّتِ یُمِیْتُ الْقَلْبَ (یعنی میّت کا کھانا دل کو مردہ کر دیتا ہے)،یہ تجربے (experience) کی بات ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ خواہش رکھتا ہو کہ میّت کا کھانا ملے(یعنی کسی کے انتقال کی خبر ملے تو میں وہاں جا کر کھانا کھاؤں یا وہاں سے میرے لیے کھانا آیا کرے)، ایسے(شخص ) کا دل مر جاتا ہے۔ وہاللہ    کریم کے ذِکرا ور اس کی ا طاعت(یعنی فرمانبرداری۔ obedience ) کے لئےچُست (active) نہیں رہتاکیونکہ وہ اپنے پیٹ کے لُقمے کے لئے مسلمان کی  موت کا  انتظار  کرتا ہے اور کھانا کھاتے وقت اپنی  موت کو بھول کر،اُس کھانے کا مزہ اُڑاتا ہے (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ  ج۹ص۶۶۷،مُلخصاً) ۔ یاد رہے!اولیاء کرام  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کی نیاز میّت  کا (یعنی کسی کے انتقال کی وجہ سے ہونے والا)کھانا  نہیں(ہے) بلکہ  وہ تو تبرُّک (یعنی برکت والا(blessed) کھانا) ہے  جو کہ فقیر وغنی سب کھا سکتے ہیں۔  (فتاوٰی رضویہ ج ۹،ص ۶۱۵،مُلخصاً)

() سوم  (یعنی انتقال کے تیسرے دن ہونے والے ایصالِ ثواب)کے چنے فقیر ہی کھائے، غنی  (یعنی جوشرعی

 طور  پر فقیر نہ ہو، وہ) نہ کھائےچاہے (وہ غنی ) بچّہ ہو یا بڑا۔ غنی بَچّوں کو ان کے والدین (یہ چنے کھانے سے) منع کریں۔(فتاوٰی رضویہ ج ۹،ص ۶۱۵،مُلخصاً)

{9}  اَنبیا ء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اورفرشتوں اورمسلمان جِنّات کو بھی ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں ۔ 

{10} رَجَبی شریف (یعنی15 رجب المرجّب کو   اہلِ بیت مُصطفی ٰ، شیخ سلسلہ قادریہ ، سیّد امام جعفرِ صادِق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے کونڈے کرنا)، گیارہویں شریف(یعنی غوث پاک ، پیرانِ پیر ،شیخ  سیّد عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ثواب پہنچانے کے لیے نیاز کرنا)، چھٹی شریف(یعنی  غریب  نواز،خواجہ مُعِینُ الدِّین ،سیّدحَسَن چشتی اَجمیریرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی فاتحہ کرنا) بلکہ کسی بھی بزرگ  کی نیاز کرنا ،جائز ہے۔

() رجب کی نیاز میں  کونڈے(یعنی  مٹی کے برتن )ہی میں کِھیرکھلانا ضَروری نہیں دوسرے برتن میں بھی کِھلا سکتے ہیں ، کھیر کے علاوہ بھی کسی اور چیز کا ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں اور اس کو گھر سے باہَر بھی لے جاسکتے ہیں ۔

{11} داستانِ عجیب، شہزادے کا سر ، دس بیبیوں کی کہانی اور جنابِ سیِّدہ کی کہانی وغیرہ سب  جھوٹی باتیں  ہیں ، انہیں ہرگز نہ پڑھا جائے ۔ اسی طرح ایک پمفلٹ بنام ’’وصیّت نامہ‘‘ لوگ  بانٹتے  ہیں جس میں کسی ’’شیخ احمد‘‘کا خواب  لکھا  ہے، یہ بھی    غلط ہے ،اس میں  اسے چھپواکر(printed) بانٹنے کی فضیلت اور تقسیم(distribute)  نہ  کرنے کے نقصانات وغیرہ لکھے  ہیں لیکن یہ  سچی باتیں نہیں ہیں  ۔

() کونڈے کی نیاز میں  جو’’کہانی‘‘ پڑھی جاتی ہے وہ بالکل غلط ہے، اس کی جگہ(اور اوپر بتائی ہوئی دوسری کہانیوں کی جگہ)’’ یٰسٓ شریف   ‘‘پڑھ لی جائے  کہ  ایک مرتبہ’’ سورۃ  یٰسٓ‘‘   پڑھنے سے دس (10)مرتبہ قرآنِ کریم ختم کرنے کا ثواب  ملتا ہے، کونڈوں کی نیاز  کے ساتھ ساتھ’’ یٰسٓ شریف‘‘ کا بھی ایصالِ ثواب کردیجئے۔

{12}ایصالِ ثواب صِرْف مسلمان کو کرسکتے ہیں ۔ کافر یا مُر تَد کو ایصالِ ثواب کرنا یا اُس کو’’ مرحوم‘‘  یا ’’جنَّتی‘‘ کہنا کُفر ہے۔(فاتحہ اور ایصالِ ثواب کا طریقہ ص۱۲ تا ۱۸،مُلخصاً)

دینی مدرسوں میں ہونے والی پڑھائی کو ایصالِ ثواب کرنے کا طریقہ:

اعلان:تمام  بچّے توجُّہ فرمائیں(Pay attention)   ! ہم نے جو اس ہفتے میں   پڑھا، یا پڑھایا اس کا ایصالِ ثواب کرتے(یعنی دوسرے کو اس کا ثواب بھیجتے) ہیں   ۔ پھر ان الفاظ میں   دعا کیجئے:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ() وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ()

     یَااللہُالْکَرِیْم!اس ہفتے میں   جو ہم نے پڑھا، یا پڑھایا  اُسے قبول(accept) فرما اوراِس  پر  ہمیں اتنا ثواب  نہ دے کہ  جتنا ہمارا عمل ہے بلکہ وہ ثواب دے  جو تیرے کرم  اور رحمت کے  مطابق (according) ہے ۔ یَااللہُ  الْکَرِیْم!ُس پرتیری رحمت سے ملنے والے ثواب کو ہم تیرے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے صَدقے، انہیں  اور  تمام نبیوں، رسولوں  ، آخری نبی کے سب صحابیوں، خاص طور پر (especially)  بڑے چار صحابیوں، پیارے نبی کے گھر والوں اور پاک بیبیوں یعنی مؤمنوں کی ماؤں،پاک نبی کے پیارے نواسوں  اور  کربلا کے میدان میں تیرے راستے میں قتل (murder)ہونے والے شہیدوں ، کربلا سے واپس ہونے والے قیدیوں، صحابہ کو ایمان کی نظر سے دیکھنے والےتابعیوں اور تابعیوں  کو ایمان کی نظر سے دیکھنے والے تبع تابعیوں، دنیا بھر کے ولیوں، قرآن وحدیث سے مسائل بتانے والے مُجْتَہِدُوْں، خصوصاً(specially) ان میں سے چار(۴) مشہور (famous)عالموں،  ان کے بتائے ہوئے مسائل پر چلنے والے مُقَلِّدوں، قرآن کے معنی اور مطلب بتانے والے مُفسِّروں، حدیثوں کو پھیلانے والے مُحدِّثوں، اسلامی  تعلیمات (Islamic education) عام کرنے والے عالموں،دین کے مسائل بتانے والےمُفْتِیوں،مرید بنانے والے صحیح  پیروں ، خصوصاً (specially) چار(۴) مشہور (famous) سلسلوں کے بزرگوں اور ان  کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والے مریدوں ، نیکی کی دعوت دینے والے مُبَلِّغوں، فرشتوں، مسلمان جنّوں اور مسلمان مردوں ،عورتوں  کو پہنچا۔

     خاص طور(especially) امامِ اعظم حضرت نعمان بن ثابت، غوث ِ اعظم حضرت شیخ عبدُ القادر،امام   العقائدابو منصورمُحَمَّد ما تریدی حَنَفی، اِمامُ الْقِرَائَۃ حضرت عاصم،  داتا صاحب علی ہجویری حنفی، خواجہ صاحب حضرت مُعین الدین چشتی ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ اور امیرِ اہلسنّت  مولانا الیاس قادری صاحب کو پہنچا۔ ان بزرگوں کے صَدقےتمام  مؤمنات و مؤمنین بالخصوص  مرحومین کو پہنچا۔ خصوصاً(specially) اُن انتقال کرنے والوں کو پہنچاکہ جن کے جانے والوں نے دعا کے لیے کہا ۔یَااللہُ  الْکَرِیْم! ان  فوت ہونے والے مسلمانوں  کی مغفرت فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  ((اےاللہ! اس دعا کو)قبول(accept) فرما(ہمارے) امانت دار (غیب اور چھپی ہوئی باتوں کی خبر دینے والے)نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی عزّت و شان کے صَدْقے میں) (تجھیز و تکفین کا طریقہ ص ۲۸۴، ۲۸۵،بالتغیر)

مرحوم کی طرف سے اس کی نمازوں کا فدیہ :

)۱) اگر معلوم ہے کہ  مرحوم  نےکتنے  سال  نمازیں نہ پڑھیں اور روزے نہ رکھے تو  ان کا حساب لگائیں (مثلاًپانچ (5) سال  نماز نہیں پڑھی نہ روزے رکھے)۔

)۲) اگر یہ معلوم نہ ہو تومیِّت کی  کُل عمر (total age)معلوم کریں، پھر اگر عورت ہو تواس کی عمر میں   سے نو(9) اور مرد ہوتوبارہ (12)  سال ، کم کردیں(مثلاً میّت کی عمر باسٹھ( 62)سال  تھی ()اگر عورت کا انتقال ہوا تو نو(9)سال کم کر کے تریپن( 53) سال کی نمازیں بنیں()اگر مرد کا انتقال ہوا تو بارہ (12)  سال کم کر کے پچاس( 50)سال کی نمازیں بنیں)۔

)۳)  اب (مثلاًپچاس( 50)  سال  کے) دن نکالیں(18250 = 365 * 50) پھر ہر دن کی نمازوں سے  ضرب (multiple) دیں  ( یاد رہے کہ ایک دن کی چھ (6)نَمازوں کا فدیہ   دینا ہوتا ہے،  پانچ(5) فرض اور ایک(1) وتر واجب) ، مثلاً  اگر50 سال  کی نمازیں قضا ہیں تو کُل نمازیں(18,250 = 6*)ایک لاکھ نو ہزار پانچ سو(1,09,500 ) بنیں۔

)۴) اگر میّت نے روزے بھی  نہیں رکھے تو ہر سال کے 30  روزے،کُل نمازوں  (total Salahs) کے ساتھ شمار (count)  کریں گے تو کُل فدیے بن جائیں گے،مثلاً 50سال  کی نمازوں (1,09,500) میں 50 سال کے روزے(1,500=50*30) جمع (add)کر لیں  تو(1,09,500  = 1500+) 1,11,000 فدیے بنے۔

نوٹ:  آسانی اس میں ہے کہ یہ سمجھ لیں کہ ایک سال کی نماز وں کے(= 365 * 6)2190 اور روزوں کے30 فدیے  اور نماز و روزے کو ملا کر(= 30 + 2190) 2,220 فدیےبنتے ہیں۔اب میّت پر جتنے  سال کی نمازیں  اور روزے  ہیں، اُس کے مطابق حساب کر لیں۔

)۵) ایک صَدَقۂ فِطر کی مقدار 2کلو سے80گرام کم گیہوں یا اس کا آٹا یا اس کی رقم ہے (عام طور پر   چھوٹی عید سے پہلےرمضان المبارک میں  عُلَمائے اہلسنّت اس   کی رقم (amount)کا اعلان فرما دیتے ہیں۔اگر انہی دنوں میں فدیہ دینا ہے یا اُس اعلان کے بعد آٹے وغیرہ کے دام(rate)میں فرق نہیں آیا تو اُسی اعلان کی رقم  کے مطابق فدیہ دیں) ۔

)۶) مَثَلاً   2کلو سے80گرام کم گیہوں کی رقم 200روپے ہو تو ایک سال کی نماز اور روزے کے فدیے کی رقم

( (=200*2,220     چار لاکھ چوالیس ہزار(       4,44,000) بنی اور 50  سال کے فدیوں کی رقم (50 * 4,44,000)دو کروڑ بائیس لاکھ (     2,22,00,000)       بنی(یہ حساب اس صورت میں ہے کہ جب فدیے کی رقم 200 روپے  ہو،یاد رہے! جب فدیہ دیا جائے گا تو اُس وقت کی رقم اپنے مُلک یا شہر کے حساب سے دیکھی جائے گی) ۔

)۷) ظاہِر ہے ہر شخص اِتنی رقم خیرات کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، لھذا عُلَمائے کِرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ نے شریعت کے اصولوں(principles) کے مطابق نمازوں کا فدیہ دینے کاشَرعی حِیلہ بتایا ہے ۔

حساب کرنے کی ایک آسان صورت یہ ہے کہ جتنے سالوں کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینا ہے،اُن سالوں کو2,220 سے ضرب(multiply) دے کرکُل نمازیں  اور روزےنکال لیں (مثلاً 1,11,000=50 * 2,220)  پھر انہیں  موجودہ  فدیے کی رقم سے ضرب (multiply)  دے دیں(مثلاً  فدیے کی رقم 200روپے ہو تو50سال کے نماز و روزے کے فدیے کی رقم(= 200 * 1,11,000) دو کروڑ بائیس لاکھ (     2,22,00,000)ہوگی) ، اب جتنی رقم  کوحیلے کے بعد  فدیے میں خیرات  کرنا چاہتے ہیں ، اُس رقم سے  کُل رقم کو تقسیم (divide)کر دیں(مثلاً ایک لاکھ روپے سے حیلہ کر کے فدیہ دینے چاہتے ہیں تو دو کروڑ بائیس لاکھ (2,22,00,000) کو ایک لاکھ (1,00,000) سے تقسیم کر دیں)، اب جوعدد(digit) بنا  ( مثلاً

222 = 1,00,000 /2,22,00,000 ) اتنی مرتبہ شَرعی حِیلہ   کیا جائے گا(شَرعی حِیلہ   کا طریقہ آگے آرہا ہے) ۔

)۸)دوسری صورت یہ ہے کہمَثَلاً  تیس (30)دن کی تمام نَمازوں  (180 = 6 *30)کے فدیے کی نیّت سے( * 180مثلاً = 200  ) چھتیس ہزار(36,000) روپے( جبکہ فدیے کی رقم200روپے ہو،یاد رہے! جب فدیہ دیا جائے گا تو اُس وقت کی رقم اپنے مُلک یا شہر  کے حساب سے دیکھی جائے گی) کسی  شرعی  فقیرکے ہاتھ میں دے دیں، یہ30دن کی نَمازوں  کا فِدیہ ادا(paid) ہو گیا ۔

)۹)  اب وہ فقیر  رقم لینے کے بعد، جس نے رقم دی ہے، اسکو  تحفے میں وہی رقم واپس کر دے()رقم دینے  والا، تحفے  میں واپس ملنے  رقم اپنے ہاتھ میں لے لے() پھر 30 دن کی نَمازوں  کے فِدیے کی نیّت سے فقیر کے ہاتھ میں وہی رقم  دے دے، اس طرح ایک اور مہینے کا فدیہ ادا  ہوگیا۔ نوٹ:  مشورہ یہ ہے کہ رقم دینے والا جب جب رقم دے تو بولے”فدیہ ‘‘اور  فقیر جب رقم واپس دے تو بولے”تحفہ ‘‘ تاکہ  نیّتوں کی طرف بھی توجّہ(attention)رہے()اب  پھروہ فقیر  رقم لینے کے بعد، جس نے رقم دی ہے، اسی کو تحفے میں واپس کردے۔

خلاصہ(conclusion): ایک  (1) مہینے کے فدیے کی رقم(amount) سے ایک (1)سال کی نمازوں کا فدیہ دینے کے لیے بارہ(12)مرتبہ فقیر کو اسی طرح رقم دینی ہوگی اور پچاس( 50)  سال کی نمازوں کا فدیہ دینے کے لیے(=12*50) چھ سو(600)مرتبہ فقیر کو اسی طرح رقم دینی ہوگی۔

نوٹ: جب شَرعی حِیلہ میں آخری  مرتبہ فقیر کو رقم دی جائے تو اب فقیر وہ رقم حیلہ کرنے والے کو تحفہ نہ کرےبلکہ اب خود بھی رکھ سکتا ہے اور چاہے تو کسی مسجد  یا مدرسے یا کسی  بھی مذہبی و دینی کام کے لیے دے سکتا ہے(کیونکہ شرعی فقیر اس رقم کا مالک ہو جاتا ہے)۔

۱۰)اِسی طرح فی روزہ بھی ایک صَدَقۂ فطر ہے۔ ایک سال کے تیس(30)روزوں کے فدیے کی رقم بالفرض(suppose) (*30مثلاً=200)چھ ہزار(6,000) روپے ہو(جبکہ فدیے کی رقم200روپے ہو)  تو اب جتنے سال کے روزوں کا فدیہ دینا ہے، اتنی مرتبہ اس  رقم  کو اُسی  طرح شرعی فقیر کو دیا جائے گا۔

۱۱) غریب و امیر سبھی فِدیے کا حیلہ کر سکتے ہیں۔ اگر وارثین(یعنی وہ لوگ  جو مرنے والے  کے بعد، اُس کے مال کے مالک(owner)بن جاتے ہیں) اپنے مرحُوم(یعنی مرنے والے) کیلئے یہ عمل کریں  تو یہ میِّت کی  بہترین مدد ہو گی، اِس طرح مرنے والا بھی اِنْ شَآءَ اللہ !   فرض کے بوجھ سے آزاد ہو گا اور وارثین کو بھی بہت  ثواب   ملے گا۔

نوٹ:

( ۱)بعض لوگ مسجِد وغیرہ میں  ایک قرآنِ پاک دے کر سمجھتے ہیں   کہ ہم نے مرحوم کی تمام نَمازوں  کا فِدیہ دے دیا، ایسا سمجھنا     غَلَط  ہے(تفصیل کیلئے دیکھئے فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۱۶۷) صحیح طریقہ اوپر بتا دیا گیا ہے۔

(۲ ) نماز اور روزے  کے فدیے میں بھی اُس جگہ کو دیکھا  جائے گا کہ جہاںوہ رہتا تھا یعنی اگر کوئی شخص مدینے شریف میں رہتا تھا اوراس کی نمازوں  کا فدیہ (رشتہ دار وغیرہ) پاکستان میں دینا چاہتے ہیں  تو ( اب چاہے وہ رقم   مدینے پاک کی  کرنسی میں دی جائے  یاپاکستانی کرنسی میں دی جائے) مدینے شریف کے صَدَقۂ فِطْر کی رقم کا حساب لگایا جائے گا۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں، ص۳۵،مُلخصاً)

(۳)    اس لیے حیلہ کرنا تاکہ زکوۃ فرض نہ ہو، شرعاً اس حیلے کی اجازت نہیں ۔(اپریل، 2023،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، اسلامی بہنوں کے مسائل ،مُلخصاً)

مرحومہ کے فِدیے کا ایک مسئلہ:

      عورت کی عادتِ حیض(یعنی منتھلی کورس۔ menstrual period   ) اگر معلوم ہو تو اُتنے دن اور نہ معلوم ہو تو ہر مہینے سے تین(3) دن نو (9)سال  کی عمر  کے بعد سے  منھا (minus) کرسکتےہیں لیکن  جتنی مرتبہ  حمل  (pregnancy)رہا  اُن مہینوں کے یہ دن کم نہیں کریں گے() نِفاس(یعنی بچّہ پیدا ہونے کے بعد آنے والے خون )  میں اگر عورت کی عادت(ruten) معلوم ہوتو ہرحَمل (pregnancy)کے بعد اُتنے دن کم کرلیں() اور اگر عادت (ruten) معلوم نہ ہوتو کچھ بھی  کم  نہیں کیا جائے گا کیونکہ شریعت نے کم سے کم  نِفاس  کا وقت  کچھ لازم نہیں کیا  کیونکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ  ایک(1) ہی مِنَٹ آ کر فوراً پاک ہو جائے    ( فتاوٰی رضویہ، ج۸، ص۱۵۴ ،ماخوذاَ) ۔  جو اپنے حساب میں یہ دن کم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے مگر کم کرنا ضروری نہیں بلکہ کم نہ ہی کیے جائے تاکہ  زیادہ سے زیادہ نمازوں ، روزوں کا فدیہ دیا جاسکے اور فدیے کا حساب (calculation)کرنا بھی آسان رہے۔

سیّد صاحبان  کو نماز کا فِدیہ نہیں  دے سکتے:

               اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہسے سیّدوں  ا ورغیر مسلموں  کونَماز کا فدیہ دینے  کے بارے میں پوچھا  تو کچھ اس طرح فرمایا:یہ صَدَقہ( یعنی نماز کافِدیہ)  سیّد صاحبان  کی بارگاہ میں حاضر کرنے کے قابل نہیں اور غیر مسلم اس صدقے کے قابل نہیں ، اس لیے ان دونوں  کو دینے کی بالکل  بھی اجازت نہیں  اور()   اگر کوئی    ان (یعنی  سیّد صاحبان یا غیر مسلموں) کو نماز کا فدیہ (یا زکوۃ یا فطرہ یا عُشر  ([35])) دے گا تو یہ صدقہ ادا  (pay)نہیں ہوگا() مسلمین مساکین ذَوِالقربیٰ غیر ہاشِمین(یعنی اپنے مسکین مسلمان رشتے دار جو ہاشمی خاندان سے نہ ہوں) کو دینا دُونا(یعنی دُگنا) اَجر (اور ثواب)ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ ، ج۸ص۱۶۶،مُلخصاً)

( قضاء نمازوں کا  طریقہ ص۲۳ تا ۲۴)۔

(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)