سورۃ المائدۃ
سورۂ مائدہ کا تعارف
مقامِ نزول: سورہ ٔمائدہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے،البتہ یہ آیت ’’ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ‘‘ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے دن مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ میں اس آیت کی تلاوت فرمائی۔(خازن، تفسیر سورۃ المائدۃ، ۱ / ۴۵۸)
رکوع اورآیات کی تعداد: اس سورت میں 16 رکوع اور 120 آیتیں ہیں۔ مائدہ،نام رکھے جانے کی وجہ: عربی میں دستر خوان کو ’’مائدہ ‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر 112 تا 115 میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے آسمان سے مائدہ یعنی کھانے کے ایک دستر خوان کے نزول کا مطالبہ کیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے مائدہ کے نازل ہونے کی دعا کی، اس واقعے کی مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ مائدہ‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ مائدہ کے فضائل:
(1) …اس سورت کی ایک آیتِ مبارکہ کے بارے میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا ’’اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ اپنی کتاب میں ایک آیت کی تلاوت کرتے ہیں ، اگر وہ آیت ہم یہودیوں کے گروہ پر نازل ہوئی ہوتی تو (جس دن یہ نازل ہوتی) ہم ا س دن کو عید بناتے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’وہ کون سی آیت ہے؟ اس یہود ی نے عرض کی(وہ یہ آیت ہے:) اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(مائدہ:۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ہم اس دن اور اس جگہ کو بھی جانتے ہیں جس میں نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی، (جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت) حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جمعہ کے دن عرفات کے میدان میں مقیم تھے (اور جمعہ و عرفہ دونوں مسلمانوں کی عید کے دن ہیں۔)(بخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۱ / ۲۸، الحدیث: ۴۵)
(2) …حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سورۂ مائدہ نازل ہوئی اور اس وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی سواری پر سوار تھے تو سواری میں آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رہی اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سواری سے نیچے تشریف لے آئے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما، ۲ / ۵۸۹، الحدیث: ۶۶۵۴)
(3) …حضرت مجاہدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم اپنے مَردوں کو سورۂ مائدہ اور عورتوں کو سورۂ نور سکھاؤ۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲ / ۴۶۹، الحدیث: ۲۴۲۸) علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’سورۂ مائدہ میں چونکہ مردوں کے لئے بہت (زَجر وتَوبیخ) ڈانٹ ڈپٹ ہے اس لئے انہیں سورہ مائدہ سکھانے کا حکم دیاگیا اور سورۂ نور میں عورتوں کے لئے بہت (زجرو توبیخ) ڈانٹ ڈپٹ ہے کہ اس میں واقعہ اِفک اور زینت کے مقام ظاہر کرنے کی حرمت وغیرہ ان چیزوں کا بیان ہے جو عورتوں سے متعلق ہیں ، اس لئے انہیں سورۂ نور سکھانے کا حکم دیا گیا۔ (فیض القدیر، حرف العین، ۴ / ۴۳۳، تحت الحدیث: ۵۴۸۲)
سورۂ مائدہ کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں یہودیوں اور عیسائیوں کے باطل عقائد و نظریات ذکر کر کے ان کا رد کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) … مسلمانوں کو تمام جائز معاہدے پورا کرنے کا حکم دیاگیا اور ان جانوروں کے بارے میں بتایاگیا جو مسلمانوں پر حرام ہیں اور جو مسلمانوں کے لئے حلال ہیں۔
(2) … وضو ،غسل اور تیمم کے احکام بیان کئے گئے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے اور ناانصافی کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا۔
(3) … بنی اسرائیل سے عہد لینے ،ان کے عہد کی خلاف وزری کرنے اور اس کے انجام کو بیان کیا گیا۔
(4) …بنی اسرائیل کا جَبّارین سے جہاد نہ کرنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(5) …چوری کرنے اور ڈاکہ ڈالنے کی سزا کا بیان، شراب اور جوئے کی حرمت کا بیان، قسم کے کَفّارے کا بیان، احرام کی حالت میں شکار کے احکام۔ قرآن کے احکامات پر عمل کو ترک کرنے کی وعید، یہودیوں ، عیسائیوں ، منافقوں اور مشرکوں سے ہونے والی بحث کا بیان ہے۔
(6) …مسلمانوں کو اپنی اصلاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اصلاح کا طریقہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کی جائے اور گناہ و سرکشی کے کاموں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون حرام ہے، کفار کے ساتھ دوستی کرنا حرام ہے نیز گواہی کے متعلق فرمایا کہ گواہی دینے والا عادل ہو اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے اور مسلمانوں کے درمیان مساوات قائم کی جائے۔
(7) …اللہ تعالیٰ کا دین ایک ہی ہے اگرچہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت اور ان کے طریقے مختلف تھے۔
(8) …نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پوری مخلوق کو عام ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عام تبلیغ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(9) …عبرت اور نصیحت کے لئے اس سورت میں یہ تین واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ (1) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور بنی اسرائیل کا واقعہ۔ (2) حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل کا واقعہ۔ (3) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے معجزے ’’کھانے کے دستر خوان‘‘ کے نازل ہونے کا واقعہ۔
سورۂ نساء کے ساتھ مناسبت:
سورہ مائدہ کی اپنے سے ماقبل سورت’’ نساء‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ نساء میں مختلف صریح اور ضمنی معاہدے بیان کئے گئے تھے جیسے نکاح اور مہر کے معاہدے،وصیت ،امانت،وکالت، عارِیَت،اجارہ وغیرہ کے معاہدے اور سورۂ مائدہ میں ان معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ (تناسق الدرر، سورۃ المائدۃ، ص۸۱)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمۂ کنزالایمان: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ-اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ(۱)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنے قول پورے کرو تمہارے لئے حلال ہوئے بے زبان مویشی مگر وہ جو آگے سنایا جائے گا تم کو لیکن شکار حلال نہ سمجھو جب تم احرام میں ہو بیشک اللہ حکم فرماتا ہے جو چاہے۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمام عہد پورے کیا کرو۔ تمہارے لئے چوپائے جانور حلال کردیے گئے سوائے ان کے جو (آگے) تمہارے سامنے بیان کئے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار حلال نہ سمجھو۔ بیشک اللہ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے۔
{اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ: تمام عہد پورے کرو۔} عُقود کا معنیٰ عہد ہیں ، انہیں پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے مراد کون سے عہد ہیں اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں :
(1)… امام ابن جریج رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ یہاں اہلِ کتاب کو خطاب فرمایا گیا ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ اے اہلِ کتاب کے مومنو! میں نے گزشتہ کتابوں میں سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کے متعلق جو تم سے عہد لئے ہیں وہ پورے کرو۔
(2)… بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں خطاب مؤمنین کو ہے، انہیں اپنے عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(3)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ان عقود یعنی عہدوں سے مراد ایمان اور وہ عہد ہیں جو حرام و حلال کے متعلق قرآنِ پاک میں لئے گئے۔
(4)…بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس میں مؤمنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۴۵۸)
{اُحِلَّتْ لَكُمْ: تمہارے لئے حلال کردئیے گئے۔} یہاں سے حلال جانوروں کابیان کیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا کہ جن کی حرمت شریعت میں بیان ہوئی ہے ان کے سوا تمام چوپائے تمہارے لئے حلال کئے گئے۔ اس میں ان کفار کا رد ہے جو بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جا نور بَحِیرہ، سائبہ وغیر ہ کو حرام سمجھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حرام صرف وہ ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حرام فرما دیں۔ حلال کے لئے خا ص دلیل کی ضرورت نہیں ، کسی چیز کا حرام نہ ہو نا ہی حلا ل کی دلیل ہے جس طرح اس آیت میں واضح طور پر فرما دیا گیا۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو مسلمانوں کے پاکیزہ کھانوں کو حیلے بہانوں سے حرام بلکہ شرک قرار دیتے رہتے ہیں۔
وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ: اور تم حالت ِ احرام میں ہو۔} احرام کی حالت میں خشکی کا شکار کر نا حرام ہے جبکہ دریا ئی شکار جائز ہے۔(بدائع الصنائع، کتاب الحج، فصل واما بیان انواعہ، ۲ / ۴۲۷)
خیال رہے کہ مُحْرِمْ (یعنی احرام والے) کا شکار کیا ہو ا نہ مُحْرِمْ کو حلال ہے نہ غیر کو، احرام خواہ حج کا ہو یا عمرہ کا۔ اس سورۃ کے آخر میں بھی مُحْرِمْ کے شکار کے مسائل کا بیان آئے گا۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىٕدَ وَ لَاۤ ﰰ مِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًاؕ-وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْاؕ-وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْاۘ-وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۲)
ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو حلال نہ ٹھہرا لو اللہ کے نشان اور نہ ادب والے مہینے اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ جن کے گلے میں علامتیں آویزاں اور نہ ان کا مال آبرو جو عزت والے گھر کا قصد کرکے آئیں اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی چاہتے اور جب احرام سے نکلو تو شکار کرسکتے ہو اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجدِ حرام سے روکا تھا زیادتی کرنے پر نہ ابھارے اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اوراللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی نشانیاں حلال نہ ٹھہرالو اور نہ ادب والے مہینے اور نہ حرم کو بھیجی گئی قربانیاں اور نہ( حرم میں لائے جانے والے وہ جانور) جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ ادب والے گھر کا قصد کرکے آنے والوں (کے مال و عزت) کوجو اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے ہیں اور جب احرام سے باہر جاؤ تو شکار کرسکتے ہو اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے زیادتی کرنے پر نہ ابھارے کہ انہوں نے تمہیں مسجدِ حرام سے روکا تھا اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔ {لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ:اللہ کی نشانیاں حلال نہ ٹھہرالو۔} اس آیت میں دین کی نشانیوں کی قدر کرنے کا حکم فرمایا ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ جو چیزیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرض کیں اور جو منع فرمائیں سب کی حرمت کا لحاظ رکھو۔ نیز جو چیزیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیاں قرار پاجائیں ان کا احترام کرنا بہت ضروری ہے لہٰذا دینی عظمت والی چیزوں کا احترام کیا جائے گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشادفرماتا ہے:
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ (الحج:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جواللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔
{وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ: اور نہ حرمت والے مہینوں کو۔} فرمایا گیا کہ حرمت والے مہینوں کو حلال نہ ٹھہرالو۔ محترم مہینے چار ہیں ، رجب، ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی کفا ر ان کا ادب کر تے تھے اور اسلا م نے بھی ان کا احترام باقی رکھا۔ یاد رہے کہ اولاً اسلام میں ان مہینو ں میں جنگ حرام تھی، اب ہر وقت جہاد ہوسکتا ہے، لیکن ان کا احترام بدستور باقی ہے۔ اس کی تفصیل سورۂ توبہ، آیت نمبر 36میں آئے گی۔ {وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىٕدَ: اور نہ حرم کی قربانیاں اور نہ علامتی پٹے والی قربانیاں۔} عرب کے لوگ قربانیوں کے گلے میں حرم شریف کے درختوں کی چھال وغیرہ سے ہار بُن کر ڈالتے تھے تاکہ دیکھنے والے جان لیں کہ یہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں ہیں اور ان سے چھیڑ خوانی نہ کریں۔ حرم شریف کی اُن قربانیوں کے احترام کا حکم دیا گیا ہے۔ {وَ لَاۤ ﰰ مِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ:اور نہ ادب والے گھر کا قصد کرکے آنے والوں (کے مال و عزت) کو۔} ادب والے گھر کا قصد کرکے آنے والوں سے مراد حج و عمرہ کرنے کے لئے آنے والے ہیں۔ آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ شُریح بن ہند ایک مشہور بدبخت تھا وہ مدینہ طیبہ میں آیا اور سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مخلوقِ خدا کو کیا دعوت دیتے ہیں ؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے اور اپنی رسالت کی تصدیق کرنے اور نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ دینے کی دعوت دیتا ہوں۔ وہ کہنے لگا، بہت اچھی دعوت ہے، میں اپنے سرداروں سے رائے لے لوں تو میں بھی اسلام لاؤں گا اور انہیں بھی لاؤں گا۔ یہ کہہ کروہ چلا گیا۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے آنے سے پہلے ہی اپنے اصحاب کو خبر دے دی تھی کہ قبیلہ ربیعہ کا ایک شخص آنے والا ہے جو شیطانی زبان بولے گا۔ اس کے چلے جانے کے بعد حضورِ ۱قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ کافر کا چہرہ لے کر آیا اور غدار وبدعہد کی طرح پیٹھ پھیر کر گیا، یہ اسلام لانے والا نہیں۔ چنانچہ اس نے فریب کیا اور مدینہ شریف سے نکلتے ہوئے وہاں کے مویشی اور اموال لے گیا۔ اگلے سال وہ یمامہ کے حاجیوں کے ساتھ تجارت کا کثیر سامان اور حج کی قَلادَہ پوش یعنی مخصوص ہار والی قربانیاں لے کر حج کے ارادہ سے نکلا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے ،راستے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اسی شُریح کو دیکھا اور چاہا کہ مویشی اس سے واپس لے لیں لیکن نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منع فرما دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۴۵۹) اور حکم دیا گیا کہ جو حج کے ارادے سے نکلا ہو اسے کچھ نہ کہاجائے
{وَ اِذَا حَلَلْتُمْ:اور جب تم احرام سے فارغ ہوجاؤ۔} احرام سے فارغ ہونے کے بعدحرم شریف سے باہر شکار کرنے کی اجازت ہے ۔ یہ حکم درحقیقت ایک اجازت ہے مگر یہ اِباحت (جائز ہونا) ایسی قطعی ہے کہ اس کا منکر کافر ہے ۔ {وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ: اور تمہیں برانگیختہ نہ کرے۔} مراد یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حدیبیہ کے دن عمرہ کرنے سے روکا لیکن تم ان کے اس معاندانہ فعل کا انتقام نہ لو۔ البتہ یہ یاد رہے کہ اب کافر کومسجد ِ حرام سے روکا جائے گا کیونکہ بعد میں ممانعت کا حکم نازل ہوگیا تھا، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (التوبہ:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: مشرک نرے ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں۔ {وَ تَعَاوَنُوْا: اورایک دوسرے کی مدد کرو۔} اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے (1) نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ بِرسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اِثْم سے مراد گناہ ہے اور عُدْوَانسے مراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۹۴)
ایک قول یہ ہے کہ اِثْم سے مراد کفر ہے اور عُدْوَان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۴۶۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے۔(صاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۴۶۹)
حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: نیکی حسنِ اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی البرّ والاثم، ۴ / ۱۷۳، الحدیث: ۲۳۹۶)
نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم:
یہ انتہائی جامع آیتِ مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ میں ان کی تمام اَنواع واَقسام داخل ہیں اور اِثْم اور عُدْوَان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زُمرے میں آتی ہو۔ علمِ دین کی اشاعت میں وقت ،مال ، درس و تدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا، دینِ اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا ،نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہے۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے ۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔ سُبْحَانَ اللہ! قرآنِ پاک کی تعلیمات کتنی عمدہ اور اعلیٰ ہیں ، اس کا ہر حکم دل کی گہرائیوں میں اترنے والا، اس کی ہر آیت گمراہوں اور گمراہ گروں کے لئے روشنی کا ایک مینار ہے۔ اس کی تعلیمات سے صحیح فائدہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ان پر عمل بھی کیا جائے۔ افسوس، فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد عملی طور پر قرآنی تعلیمات سے بہت دور جا چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ سبھی مسلمانوں کو قرآن کے احکامات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ- وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِؕ-ذٰلِكُمْ فِسْقٌؕ-اَلْیَوْمَ یَىٕسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِؕ-اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳)
ترجمۂ کنزالایمان: تم پر حرام ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیرِ خدا کا نام پکارا گیا اور وہ جو گلا گھونٹنے سے مرے اور بے دھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھاگیا مگر جنہیں تم ذبح کرلو اور جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کا م ہے، آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس ٹوٹ گئی تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم پر حرام کردیا گیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس کے ذبح کے وقت غیرُاللہ کا نام پکارا گیا ہو اور وہ جو گلا گھونٹنے سے مرے اور وہ جوبغیر دھاری دار چیز (کی چوٹ) سے مارا جائے اور جو بلندی سے گر کر مرا ہو اور جو کسی جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور وہ جسے کسی درندے نے کھا لیا ہو مگر (درندوں کا شکار کیا ہوا) وہ جانور جنہیں تم نے (زندہ پاکر) ذبح کرلیا ہو اور جو کسی بت کے آستانے پر ذبح کیا گیا ہو اور (حرام ہے ) کہ پانسے ڈال کر قسمت معلوم کرو یہ گناہ کا کا م ہے۔ آج تمہارے دین کی طرف سے کافر ناامید ہوگئے تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا تو جو بھوک پیاس کی شدت میں مجبور ہواس حال میں کہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو (تو وہ کھا سکتا ہے۔) تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ {حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ: تم پر حرام کردیا گیا ہے۔} سورت کی پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ تم پر چوپائے حلال ہیں سوائے ان چوپایوں کے جو آگے بیان کئے جائیں گے۔ یہاں انہیں کا بیان ہے اور گیارہ چیزوں کے حرام ہونے کا ذکر کیا گیا ہے:
(1)… مردار یعنی جس جانور کے لیے شریعت میں ذبح کا حکم ہو اور وہ بے ذبح مرجائے ۔
(2)…بہنے والا خون۔
(3)… سور کا گوشت اور اس کے تمام اجزاء۔
(4)…وہ جانور جس کے ذبح کے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ بتوں کے نا م پر ذبح کرتے تھے اور جس جانور کو ذبح تو صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر کیا گیا ہو مگر دوسرے اوقات میں وہ غیرِ خدا کی طرف منسوب رہا ہو وہ حرام نہیں جیسا کہ عبداللہ کی گائے، عقیقے کا بکرا ،ولیمہ کا جانور یا وہ جانور جن سے اولیاء کی ارواح کو ثواب پہنچانا منظور ہو اُن کو ذبح کے وقت کے علاوہ اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے ناموں کے ساتھ نامزد کیا جائے مگر ذبح اُن کا فقط اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ہو، اس وقت کسی دوسرے کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیّب ہیں۔اس آیت میں صرف اسی کو حرام فرمایا گیا ہے جس کو ذبح کرتے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو ،جو لوگ ذبح کی قید نہیں لگاتے وہ آیت کے معنیٰ میں غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول تمام معتبرتفاسیراور خود مفہومِ قرآن کے خلاف ہے۔
(5)… گلا گھونٹ کر مارا ہو ا جانور۔
(6)…وہ جانور جو لاٹھی پتھر ،ڈھیلے، گولی چھرے یعنی بغیر دھار دار چیز سے مارا گیا ہو۔
(7)…جو گر کر مرا ہو خواہ پہاڑ سے یا کنوئیں وغیرہ میں۔
(8)…وہ جانور جسے دوسرے جانور نے سینگ مارا ہو اور وہ اس کے صدمے سے مر گیا ہو۔
(9)…وہ جسے کسی درندہ نے تھوڑا سا کھایا ہو اور وہ اس کے زخم کی تکلیف سے مرگیا ہو لیکن اگر یہ جانور مر نہ گئے ہوں اور ایسے واقعات کے بعد زندہ بچ گئے ہوں پھر تم انہیں باقاعدہ ذبح کرلو تو وہ حلال ہیں۔
(10)…وہ جوکسی بت کے تھان پر بطورِ عبادت کے ذبح کیا گیا ہو جیسا کہ اہلِ جاہلیت نے کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ پتھر نَصب کئے تھے جن کی وہ عبادت کرتے اور ان کے لیے ذبح کرتے تھے اور اس ذبح سے اُن کی تعظیم و تقرب کی نیت کرتے تھے ۔اس صورت کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ طریقہ بطورِ خاص ان میں رائج تھا۔
(11)… کسی کام وغیرہ کا حکم معلوم کرنے کے لئے پانسہ ڈالنا ،زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کو جب سفر یا جنگ یا تجارت یا نکاح وغیرہ کام درپیش ہوتے تو وہ تین تیروں سے پانسے ڈالتے اور جو’’ہاں ‘‘یا ’’نہ‘‘ نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے اور اس کو حکمِ الہٰی جانتے ۔ان سب کی ممانعت فرمائی گئی۔
{اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ:آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیا۔} تکمیلِ دین سے متعلق یہ آیتِ مبارکہ حجۃ الوداع میں عرفہ کے روز، جمعہ کے دن ،عصر کے بعد نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ حرام و حلال کے جو احکام ہیں وہ اور قِیاس کے قانون سب مکمل کردیئے ،اسی لئے اس آیت کے نزول کے بعد بیانِ حلال و حرام کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی اگرچہ ’’وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ‘‘ نازل ہوئی جووعظ و نصیحت پر مشتمل ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ دین کامل کرنے کے معنی اسلام کو غالب کرنا ہے جس کا یہ اثر ہے کہ حجۃ الوداع میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو کوئی مشرک مسلمانوں کے ساتھ حج میں شریک نہ ہوسکا ۔ایک قول یہ ہے کہ آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ میں نے تمہیں دشمن سے امن دی، ایک قول یہ ہے کہ دین کا اِکمال یعنی مکمل کرنایہ ہے کہ وہ پچھلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۴۶۴)
دینی کامیابی کے دن خوشی منانا جائز ہے:
اس آیت کے متعلق بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا، اے امیرالمومنین ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے ،اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے کے دن عید مناتے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے فرمایا ’’ کون سی آیت؟ اس یہودی نے یہی آیت ’’اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ‘‘ پڑھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے نازل ہونے کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں ، وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۱ / ۲۸، الحدیث: ۴۵، مسلم، کتاب التفسیر، ص۱۶۰۹، الحدیث: ۵(۳۰۱۷))
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے۔ نیز ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں ، جمعہ اور عرفہ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۳، الحدیث: ۳۰۵۵)
اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کامیابی کے دن کو خوشی کا دن منانا جائز اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ثابت ہے ورنہ حضرت عمر اور عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم صاف فرما دیتے کہ جس دن کوئی خوشی کا واقعہ ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانا ہم بدعت جانتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ عید میلاد منانا جائز ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سب سے عظیم نعمت کی یادگار و شکر گزاری ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کامیابی کے دن کو خوشی کا دن منانا جائز اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ثابت ہے ورنہ حضرت عمر اور عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم صاف فرما دیتے کہ جس دن کوئی خوشی کا واقعہ ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانا ہم بدعت جانتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ عید میلاد منانا جائز ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سب سے عظیم نعمت کی یادگار و شکر گزاری ہے۔
{وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا:اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔} یعنی میں نے تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کرلیا کہ اس کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں۔
آیت:وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاسے معلوم ہونے والے احکام: اس آیت سے کئی احکام معلوم ہوئے:
پہلا یہ کہ صرف اسلام اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پسند ہے یعنی جو اَب دین محمدی کی صورت میں ہے، باقی سب دین اب ناقابلِ قبول ہیں۔
دوسرا یہ کہ اس آیت کے نزول کے بعد قیامت تک اسلام کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا۔
تیسرا یہ کہ اصولِ دین میں زیادتی کمی نہیں ہو سکتی۔ اجتہادی فروعی مسئلے ہمیشہ نکلتے رہیں گے۔
چوتھا یہ کہ سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا کیونکہ دین کامل ہو چکا، سورج نکل آنے پر چراغ کی ضرورت نہیں ، لہٰذا قادیانی جھوٹے ،بے دین اور خدا عَزَّوَجَلَّ کے کلام اور دین کو ناقص سمجھنے والے ہیں۔
پانچواں یہ کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی لاکھوں نیکیاں کرے خدا عَزَّوَجَلَّ کو پیارا نہیں کیونکہ اسلام جڑ ہے اور اعمال شاخیں اور پتے اور جڑ کٹ جانے کے بعد شاخوں اور پتوں کو پانی دینا بے کار ہے۔
{فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ: تو جو بھوک پیاس کی شدت میں مجبور ہو۔} اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اوپر حرام چیزوں کا بیان کردیا گیا ہے لیکن جب کھانے پینے کو کوئی حلال چیز مُیَسَّر ہی نہ آئے اور بھوک پیاس کی شدت سے جان پر بن جائے اس وقت جان بچانے کے لئے بقدرِ ضرورت کھانے پینے کی اجازت ہے اس طرح کہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو یعنی ضرورت سے زیادہ نہ کھائے اور ضرورت اسی قدر کھانے سے رفع ہوجاتی ہے جس سے خطرۂ جان جاتا رہے۔
ترجمۂ کنزالایمان: اے محبوب تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لئے کیا حلال ہوا تم فرمادو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں اور جو شکاری جانور تم نے سدھالیے انہیں شکار پر دوڑاتے جو علم تمہیں خدا نے دیا اس میں سے انہیں سکھاتے تو کھاؤ اس میں سے جو وہ مار کر تمہارے لیے رہنے دیں اور اس پراللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کو حساب کرتے دیر نہیں لگتی۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے حبیب! تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لئے کیا حلال ہوا ؟تم فرمادو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں اور ان شکاری جانور وں (کا شکار) جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے شکار کرنا سکھا دیا ہے۔ تم انہیں وہ سکھاتے ہو جس کی اللہ نے تمہیں تعلیم دی ہے تواس میں سے کھاؤ جو وہ شکار کرکے تمہارے لئے روک دیں اور (شکاری جانور کو چھوڑتے وقت) اس پراللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
{مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ:ان کے لئے کیاحلال ہوا؟} یہ آیت حضرت عدی بن حاتم اور حضرت زید بن مہلہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں نازل ہوئی جن کا نام سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ’’زَیْدُ الْخَیرْ‘‘ رکھا تھا۔ ان دونوں صاحبوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ہم لوگ کتے اور باز کے ذریعے سے شکار کرتے ہیں تو کیا ہمارے لئے حلال ہے ؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔(بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴،۲ / ۸)
آیت میں ’’طَیِّبٰتُ‘‘کو حلال فرمایا گیا ہے اور’’طَیِّبٰتُ‘‘ وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت قرآن و حدیث اور اِجماع و قِیاس میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ طَیِّبٰتُ وہ چیزیں ہیں جن کو سلیم الطبع لوگ پسند کرتے ہیں اور خبیث وہ چیزیں ہیں جن سے سلیم طبیعتیں نفرت کرتی ہیں۔(بیضاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۲۹۵)
اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کی حرمت پر دلیل نہ ہونا بھی اس کی حلت کے لئے کافی ہے۔ {اَلْجَوَارِحِ: شکاری جانور۔} شکاری جانوروں سے کیا ہوا شکار بھی حلال ہے خواہ وہ شکاری جانور درندوں میں سے ہوں جیسے کتے اور چیتے کے شکار یا شکاری جانور کا تعلق پرندوں سے ہو جیسے شکرے، باز، شاہین وغیرہ کے شکار ۔جب اس طرح سدھا کر ان کی تربیت کردی جائے کہ وہ جو شکار کریں اس میں سے نہ کھائیں اور جب شکاری ان کو چھوڑے تب شکار پر جائیں اور جب بلائے واپس آجائیں ایسے شکاری جانوروں کو معلَّم (یعنی سکھایا ہوا) کہتے ہیں۔ {مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ: جو وہ شکار کرکے تمہارے لئے روک دیں۔} یعنی تمہارے سدھائے ہوئے شکاری کتے یا جانور جب شکار کرکے لائیں اور اُس میں سے خود کچھ نہ کھائیں تو اگرچہ جانور مر گیا ہو،تب بھی حلال ہے اور اگر کتے نے کچھ کھا لیا ہو تو حرام ہے کہ یہ اس نے اپنے لئے شکار کیا، تمہارے لئے نہیں۔
آیت کا خلاصہ: آیت سے جو معلوم ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے کتا یا شکرہ وغیرہ کوئی شکاری جانور شکار پر چھوڑا تو اس کا شکار چند شرطوں سے حلال ہے۔
(1)… شکاری جانور مسلمان یا کتابی کا ہو اور سکھایا ہوا ہو ۔
(2)… اس نے شکار کو زخم لگاکر مارا ہو۔
(3)…شکاری جانور بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ کہہ کر چھوڑا گیا ہو۔
(4)… اگر شکاری کے پاس شکار زندہ پہنچا ہو تو اس کوبِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ کہہ کر ذبح کرے اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی تو حلال نہ ہوگا۔ مثلاً اگر شکاری جانور مُعَلَّم (یعنی سکھایا ہوا) نہ ہو یا اس نے زخم نہ کیا ہو یا شکار پر چھوڑتے وقت جان بوجھ کر بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ نہ پڑھا ہو یا شکار زندہ پہنچا ہو اور اس کو ذبح نہ کیا ہو یا مُعَلَّم( یعنی سکھائے ہوئے جانور) کے ساتھ غیر مُعَلَّم( یعنی نہ سکھایا ہوا جانور) شکار میں شریک ہوگیا ہو یا ایسا شکاری جانور شریک ہوگیا ہو جس کو چھوڑتے وقت بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ نہ پڑھا گیا ہو یا وہ شکاری جانور مجوسی کافر کا ہو، ان سب صورتوں میں وہ شکار حرام ہے۔
شکار کے دوسرے طریقے کا شرعی حکم:
تیرسے شکار کرنے کا بھی یہی حکم ہے اگر بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ کہہ کر تیر مارا اور اس سے شکار مجروح (یعنی زخمی) ہو کر مر گیا تو حلال ہے اور اگر نہ مرا تو دوبارہ اس کو بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْپڑھ کر ذبح کرے اگر اس پر بِسْمِ اللہْ نہ پڑھی یا تیر کا زخم اس کو نہ لگایا زندہ پانے کے بعد اس کو ذبح نہ کیا ان سب صورتوں میں حرام ہے۔ نوٹ: شکار کے مسائل کی مزید تفصیل کیلئے بہار شریعت حصہ 17کا مطالعہ فرمائیں۔
اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُؕ-وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۪-وَ طَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ٘-وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَ لَا مُتَّخِذِیْۤ اَخْدَانٍؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ٘-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۠(۵)
ترجمۂ کنزالایمان: آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پارسا عورتیں مسلمان اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے نہ مستی نکالتے اور نہ آشنا بناتے اور جو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت میں زیاں کار ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پاکدامن مسلمان عورتیں اورجن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان کی پاکدامن عورتیں (تمہارے لئے حلال کردی گئیں ) جبکہ تم ان سے نکاح کرتے ہوئے انہیں ان کے مہر دو، نہ زنا کرتے ہوئے اور نہ انہیں پوشیدہ آشنا بناتے ہوئے اور جو ایمان سے پھرکر کافر ہوجائے تو اس کا ہر عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہوگا۔
{اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ: آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئیں۔} اہلِ کتاب کا ذبح کیا ہوا جانور بھی مسلمانوں کیلئے حلال ہے خواہ یہودی ذبح کرے یا عیسائی، یونہی مرد ذبح کرے یا عورت یا سمجھدار بچہ۔ لیکن یہ یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ اُن اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے جو واقعی اہلِ کتاب ہوں ، موجودہ زمانے میں عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد دہریہ اور خدا کے منکر ہو چکے ہیں لہٰذا نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ عورتیں۔
اہلِ کتاب سے نکاح کے چند اہم مسائل:
(1)…اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح حلال ہے لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ واقعی اہلِ کتاب ہوں ،دہریہ نہ ہوں جیسے آج کل بہت سے ایسے بھی ہیں۔
(2)…یہ اجازت بھی دارُالاسلام میں رہنے والی ذِمِّیَہ اہلِ کتاب عورت کے ساتھ ہے۔ موجودہ زمانے میں جو اہلِ کتاب ہیں یہ حربی ہیں اور حربیہ اہلِ کتاب کے ساتھ نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
(3)…ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ اجازت صرف مسلمان مردوں کو ہے مسلمان عورت کا نکاح کتابی مرد سے قطعی حرام ہے۔
(4)… اہلِ کتاب عورتوں میں سے اچھے کردار والی سے نکاح کیا جائے یہ حکم مستحب ہے۔
(5)…اہلِ کتاب عورت سے ازدواجی تعلقات نکاح کے ذریعے ہی قائم کئے جائیں ، پوشیدہ دوستیاں لگانایا پوشیدہ یا اعلانیہ بدکاری کرنا ان کے ساتھ بھی حرام ہے۔
(6)…اہلِ کتاب عورت کو بھی مہر دیا جائے گا۔ {غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ: نہ کہ مستی نکالتے ہوئے۔} ناجائز طریقہ پرمستی نکالنے سے بے دھڑک زنا کرنا اور آشنا بنانے سے پوشیدہ زنا مراد ہے۔
{وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِالْاِیْمَانِ: اور جو ایمان سے پھرکر کافر ہوجائے۔} آیتِ مبارکہ کے آخر میں مُرتَد کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے تمام نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔ آخرت میں اس کیلئے کوئی اجر وثواب باقی نہیں رہتا۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕ-وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْاؕ-وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُؕ-مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۶)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنے منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤ ں دھوؤ اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو خوب ستھرے ہولو اور اگر تم بیمار یا سفر میں ہو یا تم میں کوئی قضائے حاجت سے آیا یا تم نے عورتوں سے صحبت کی اور ان صورتوں میں پانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو، اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے ہاں یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خوب ستھرا کردے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردے کہ کہیں تم احسان مانو۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جب تم نماز کی طرف کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤ ں دھولو اور اگر تم بے غسل ہو تو خوب پاک ہوجاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیتُ الخلاء سے آیا ہویا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہواور ان صورتوں میں پانی نہ پاؤ توپاک مٹی سے تیمم کرلو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرلو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خوب پاک کردے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ {اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ: جب نماز کی طرف کھڑے ہونے لگو۔} آیتِ مبارکہ میں وضو اور تیمم کا طریقہ اور ان کی حاجت کب ہوتی ہے اس کا بیان کیا گیا ہے۔
وضو کے فرائض : وضو کے چار فرض ہیں : (1) چہرہ دھونا۔ (2) کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا دھونا۔ (3)چوتھائی سر کا مسح کرنا۔ (4) ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا۔
وضو کے چند احکام: (1)… جتنا دھونے کا حکم ہے اس سے کچھ زیادہ دھو لینا مستحب ہے کہ جہاں تک اَعضائے وضو کو دھویا جائے گا قیامت کے دن وہاں تک اعضاء روشن ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الوضو ء، باب فضل الوضوء والغرّ المحجّلون۔۔۔ الخ، ۱ / ۷۱، الحدیث: ۱۳۶)
(2)… رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہر نماز کے لئے تازہ وضو فرمایا کرتے جبکہ اکثر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جب تک وضو ٹوٹ نہ جاتا اسی وضو سے ایک سے زیادہ نمازیں ادا فرماتے، ایک وضو سے زیادہ نمازیں ادا کرنے کا عمل تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بھی ثابت ہے۔(بخاری، کتاب الوضو ء، باب الوضوء من غیر حدث، ۱ / ۹۵، الحدیث: ۲۱۴-۲۱۵، عمدۃ القاری، کتاب الوضو ء، باب الوضوء من غیر حدث، ۲ / ۵۹۰، تحت الحدیث: ۲۱۴)
(3)…اگرچہ ایک وضو سے بھی بہت سی نمازیں فرائض و نوافل درست ہیں مگر ہر نماز کے لئے جداگانہ وضو کرنا زیادہ برکت و ثواب کا ذریعہ ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ابتدائے اسلام میں ہر نماز کے لئے جداگانہ وضو فرض تھا بعد میں منسوخ کیا گیا( اور جب تک بے وضو کرنے والی کوئی چیز واقع نہ ہو ایک ہی وضو سے فرائض و نوافل سب کا ادا کرنا جائز ہوگیا۔) (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶، ص۲۷۴)
(4)…یاد رہے کہ جہاں دھونے کا حکم ہے وہاں دھونا ہی ضروری ہے وہاں مسح نہیں کرسکتے جیسے پاؤں کو دھونا ہی ضروری ہے مسح کرنے کی اجازت نہیں ، ہاں اگر موزے پہنے ہوں تو اس کی شرائط پائے جانے کی صورت میں موزوں پر مسح کرسکتے ہیں کہ یہ احادیث ِ مشہورہ سے ثابت ہے۔ {وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا:اوراگر تم حالت ِ جنابت میں ہو۔} جنابت کاعام فہم مطلب یہ ہے کہ شہوت کے ساتھ منی کا خارج ہونا۔
جنابت کے اسباب اور ان کا شرعی حکم:
جنابت کے کئی اسباب ہیں : (1) جاگتے میں شہوت کے ساتھ اچھل کر منی کاخارج ہونا۔ (2) سوتے میں احتلام ہو جانا۔ (3) ہم بستری کرنا اگرچہ منی خارج نہ ہو۔ اس کاحکم یہ ہے کہ غسل کئے بغیر نماز پڑھنا، تلاوتِ قرآن کرنا، قرآنِ پاک کو چھونا اور مسجد میں داخل ہونا ناجائز ہے۔ جو کام جنابت کی حالت میں منع ہیں حَیض و نِفاس کی حالت میں بھی منع ہوں گے لیکن جب تک عورت حائضہ یا نفاس کی حالت میں ہے غسل کرنے سے پاک نہ ہو گی جبکہ جُنُبی غسل کرنے سے پاک ہو جاتا ہے، اسی طرح حیض و نفاس کی حالت میں بیوی سے صحبت کرنا بھی منع ہے جبکہ جنابت کی حالت میں صحبت کرنا منع نہیں۔(احکام القرآن، سورۃ المائدۃ، باب الغسل من الجنابۃ، ۲ / ۴۵۷)
حیض و نفاس سے بھی غسل لازم ہو جاتا ہے۔ حیض کا مسئلہ سورۂ بقرہ آیت نمبر 222میں گزر گیا اور نفاس سے غسل لازم ہونا اجماع سے ثابت ہے اور تیمم کا بیان سورۂ نساء آیت نمبر 43میں تفصیل سے گزر چکا۔ مزید تفصیل جاننے کیلئے فقہی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖۤۙ-اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا٘-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۷)
ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اللہ کا احسان اپنے اوپر اور وہ عہد جو اس نے تم سے لیا جبکہ تم نے کہا ہم نے سنا اور مانا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ دلوں کی بات جانتا ہے ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اوراپنے اوپر اللہ کا احسان اور اس کا وہ عہد یاد کرو جو اس نے تم سے لیا تھا جب تم نے کہا: ہم نے سنا اور مانا اور اللہ سے ڈرو۔ بیشک اللہ دلوں کی بات جانتا ہے۔
{وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ: اوراپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو۔} اس آیت میں بیعتِ عقبہ یا بیعت ِرضوان کی طرف اشارہ ہے۔(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۲۷۶) مجموعی طور پر آیت ِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اے صحابہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کا اپنے اوپر احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں مسلمان بنایا اور تمہارے لئے آسان احکام بھیجے، ساری زمین کو مسجد اور پاک کرنے والا بنایا۔ نیز اس میثاق و معاہدے کو یاد کرو جو تم نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیعت کرتے وقت بیعتِ عقبہ کی رات اور بیعتِ رضوان میں کیا۔ اس معاہدے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا تھا کہ ہم تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہر حکم ہرحال میں سنیں گے اور مانیں گے۔
آیت ’’وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے چندمسائل معلو م ہوئے:
(1)… انسان ہر نیکی رب عَزَّوَجَلَّ کی توفیق سے کرتا ہے لہٰذااس پر فخرنہ کرے بلکہ ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرے۔
(2) …بیعتِ عقبہ اور بیعتِ رضوان والے سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے اور مقبول بندے ہیں جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُس بیعت کا شرف بخشا ۔اُسی بیعت کو یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت قرار دیا گیاہے۔
(3)… ان سارے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ان بیعتوں کے سارے وعدے پورے کئے اور صحابہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم وعدے کے سچے تھے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہاں ان کے وعدے بغیر تردید ذکر فرمائے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ (ز)وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ (ط)اِعْدِلُوْا (قف) هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى (ز) وَ اتَّقُوا اللہ (ط)اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۸)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے اوراللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو (بلکہ) انصاف کرو، یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔ {كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ: انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ۔} آیتِ مبارکہ میں عدل و انصاف کا حکم فرمایا گیا ہے اور واضح فرمادیا کہ کسی قسم کی قرابت یا عداوت کا کوئی اثر تمہیں عدل سے نہ ہٹا سکے۔
عدل و انصاف کے دو اعلٰی نمونے:
یہاں عدل و انصاف کے دو اعلیٰ نمونے پیش خدمت ہیں جس سے اسلام کی تعلیمات کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ (1)…ملک غَسَّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا، کچھ دنوں بعد امیرُ المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حج کے ارادے سے نکلے تو جبلہ بن ایہم بھی اس قافلے میں شریک ہو گیا۔ مکۂ مکرمہ پہنچنے کے بعد ایک دن دورانِ طواف کسی دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کی چادر پر پڑ گیا تو چادر کندھے سے اتر گئی۔ جبلہ بن ایہم نے اس سے پوچھا: تو نے میری چادر پر قدم کیوں رکھا؟ اس نے کہا: میں نے جان بوجھ کر قدم نہیں رکھا غلطی سے پڑ گیا تھا۔ یہ سن کر جبلہ نے ایک زور دار تھپڑ ان کے چہرے پر رسید کر دیا، تھپڑ کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے اور ناک بھی زخمی ہو گئی۔ یہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جبلہ بن ایہم کے سلوک کی شکایت کی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جبلہ بن ایہم کو طلب فرمایا اور پوچھا :کیا تو نے اس دیہاتی کو تھپڑ مارا ہے؟ جبلہ نے کہا: ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے، اگر اس حرم کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اے جبلہ ! تو نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے، اب یا تو تو اس دیہاتی سے معافی مانگ یا میں تم سے اس کا قصاص لوں گا۔ جبلہ نے حیران ہو کر کہا: کیا آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس غریب دیہاتی کی وجہ سے مجھ سے قصاص لیں گے حالانکہ میں تو بادشاہ ہوں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو۔ جبلہ نے عرض کی : مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے پھر مجھ سے قصاص لے لیجئے گا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس دیہاتی سے دریافت فرمایا :کیا تم اسے مہلت دیتے ہو؟ دیہاتی نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے مہلت دے دی، مہلت ملنے کے بعد راتوں رات جبلہ بن ایہم غسانی ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔(فتوح الشام، ذکر فتح حمص، ص۱۰۰، الجزء الاول)
(2)…ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہوا، دونوں نے یہ طے کیا کہ ہمارے معاملے کا فیصلہ حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کریں۔ چنانچہ یہ فیصلے کے لئے حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر پہنچے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا: ہم تمہارے پا س اس لئے آئے ہیں تاکہ تم ہمارے معاملے کا فیصلہ کر دو۔ حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بستر کے درمیان سے جگہ خالی کرتے ہوئے عرض کی :اے امیر المومنین! یہاں تشریف رکھئے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: یہ تمہارا پہلا ظلم ہے جو تم نے فیصلے کے لئے مقرر ہونے کے بعد کیا، میں تو اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا۔ یہ فرما کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے بیٹھ گئے۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی، حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعویٰ کیا اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا انکار کیا (حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ پیش نہ کر سکے تو اب شرعی اصول کے مطابق حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر قسم کھانا لازم آتا تھا ) حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے (حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شخصیت اور رتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے) حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا: آپ امیر المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے قسم لینے سے در گزر کیجئے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فوراً حلف اٹھالیا اور قسم کھاتے ہوئے فرمایا: زید اس وقت تک منصبِ قضاء (یعنی جج بننے) کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عمر(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) اور ایک عام شخص اس کے نزدیک (مقدمے کے معاملے میں ) برابر نہیں ہو جاتے۔ (ابن عساکر، ذکر من اسمہ زید، زید بن ثابت بن الضحاک۔۔۔ الخ، ۱۹ / ۳۱۹) وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۹)وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے نیکو کاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔اور وہ جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتیں جھٹلائیں وہی دوزخ والے ہیں۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ نے ایمان والوں اور اچھے عمل کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایاوہی دوزخ والے ہیں۔ {وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور انہوں نے اچھے عمل کئے۔} اچھے اعمال سے مراد ہر وہ عمل ہے جو رضائے الہٰی کا سبب بنے۔ اس میں فرائض و واجبات، سنتیں ، مستحبات، جانی ومالی عبادتیں ، حقوق اللہ، حقوق العباد وغیرہ سب داخل ہیں۔
نیک اعمال کی ترغیب:
ترغیب کیلئے ایک حدیثِ مبارک پیش کی جاتی ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں ایک سفر میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ تھا، ایک روز چلتے چلتے میں آپ کے قریب ہو گیا اور عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جو مجھے جنت میں داخل کرے اور جہنم سے دور رکھے۔ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا: تو نے مجھ سے ایک بہت بڑی بات کا سوال کیا البتہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان فرما دے اس کے لئے آسان ہے، تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو ، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیتُ اللہ شریف کا حج کرو۔ پھر ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں نیکی کے دروازے نہ بتاؤں ؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو ایسے بجھا (یعنی مٹا) دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا تا ہے اور رات کے درمیانی حصے میں انسان کا نماز پڑھنا (بھی گناہوں کو مٹا دیتا ہے) پھر یہ آیت ’’تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ‘‘ (ترجمہ: ان کی کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں ) سے لے کر’’یَعْمَلُوْنَ ‘‘ تک تلاوت فرمائی۔ پھر ارشاد فرمایاـ: میں تمہیں ساری چیزوں کاسر، ستون اور کوہان کی بلندی نہ بتادوں ؟ میں نے عرض کی :ہاں یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ارشاد فرمایا: تمام چیزوں کا سر اسلام ہے اور اس کا ستون نماز اور کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ پھر ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ان سب کے اصل کی خبر نہ دے دوں۔ میں نے عرض کی: کیوں نہیں یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا: ’’ اسے روکو۔ میں نے عرض کی :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے نبی! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کیا زبانی گفتگو پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’تیری ماں تجھے روئے! لوگوں کو اوندھے منہ جہنم میں ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتی ( یعنی گفتگو) گراتی ہے(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی حرمۃ الصلاۃ، ۴ / ۲۸۰، الحدیث: ۲۶۲۵)۔
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور جنہوں نے کفر کیا۔}اس آیت سے معلوم ہوا کہ دائمی جہنمی صرف کافر ہیں جبکہ مسلمان ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہ رہیں گے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠(۱۱)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب ایک قوم نے چاہا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ تم پر سے روک دیئے اور اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کواللہ ہی پر بھروسہ چاہئے ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جب ایک قوم نے ارادہ کیا کہ تمہاری طرف اپنے ہاتھ دراز کریں تو اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر سے روک دئیے اور اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
{اِذْ هَمَّ قَوْمٌ: جب ایک قوم نے ارادہ کیا۔} اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک منزل میں قیام فرمایا، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جدا جدا درختوں کے سائے میں آرام کرنے لگے۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی تلوار ایک درخت پرلٹکادی ۔ایک اَعرابی موقع پا کر آیا اور چھپ کر اس نے تلوار لی اور تلوار کھینچ کر حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہنے لگا ،آپ کومجھ سے کون بچائے گا ؟ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ‘‘۔ اس اعرابی نے دو یا تین مرتبہ یہ کہا کہ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا، ہر بار اسے یہی جواب ملا کہ ’’اللہ‘‘ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اس کے ہاتھ سے تلوار گرا دی اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے پکڑ کر فرمایا ’’اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے عرض کی ’’مجھے کوئی نہیں بچا سکتا۔ نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بلوایا اور انہیں (اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے ) اس اعرابی کی حرکت کے بارے میں خبر دی، پھررحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے معاف فرما دیا۔ (تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱،۴ / ۳۲۲)
وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ-وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًاؕ-وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْؕ-لَىٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(۱۲)
ترجمۂ کنزالایمان: اور بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے اور اللہ نے فرمایا بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں ضرور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو توبیشک میں تمہارے گناہ اتار دوں گا اور ضرور تمہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ، پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے وہ ضرور سیدھی راہ سے بہکا ۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے اور اللہ نے فرمایا: بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو توبیشک میں تم سے تمہارے گناہ مٹا دوں گا اور ضرور تمہیں ان باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں تو اس (عہد) کے بعد تم میں سے جس نے کفر کیا تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔
{وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ: اور بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔} آیت کا مفہوم سمجھنے کے لئے یہ واقعہ سمجھ لینا مفید ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے وعدہ فرمایا تھا کہ انہیں اور ان کی قوم کو مقدس سرزمین یعنی شام کا وارث بنائے گا جس میں کنعانی جَبّار رہتے تھے۔ فرعون کے ہلاک ہونے کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حکمِ الہٰی ہوا کہ بنی اسرائیل کو اَرضِ مُقَدَّسہ (بیتُ المقدس) کی طرف لے جائیں ، میں نے اس کو تمہارے لئے رہائش بنایا ہے ،تو وہاں جاؤ اور جو دشمن وہاں ہیں اُن سے جہاد کرو، میں تمہاری مدد فرماؤں گا اور اے موسیٰ! تم اپنی قوم کے ہرہر گروہ میں سے ایک ایک سردار بناؤ، اس طرح بارہ سردار مقرر کرو جن میں سے ہر ایک اپنی قوم کے حکم ماننے اور عہد پورا کرنے کا ذمہ دار ہو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بارہ سردار منتخب کرکے بنی اسرائیل کو لے کر روانہ ہوئے۔ جب اَرِیحاء کے قریب پہنچے تو ان نقیبوں (سرداروں ) کو دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا، وہاں انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ بہت عظیمُ الْجُثَّہ(عظیم جسامت والے)، نہایت قوی و توانا اور صاحب ِہیبت و شوکت ہیں ، یہ ان سے ہیبت زدہ ہو کر واپس آئے اور آکر انہوں نے اپنی قوم سے سب حال بیان کردیا حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا لیکن سب نے عہد شکنی کی سوائے دو آدمیوں کے ایک:کالب بن یوقنا اور دوسرے یوشع بن نون۔ یہ دونوں عہد پر قائم رہے۔(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۲۷۷)
اس سیاق و سباق کو سامنے رکھ کر آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بنی اسرائیل سے عہد لیاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور توریت کے احکام کی پیروی کریں۔ پھر قوم جَبّارین سے جہاد کیلئے ان میں بارہ سردار بنائے گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور میں تمہاری مدد کروں گا اور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کو قرضِ حَسَن دو یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو تو میں تم سے تمہارے گناہ معاف کردوں گا اور تمہیں جنت میں داخل کروں گا۔ آیت میں رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ان کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم اہم ترین فرائض میں سے ہے۔
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةًۚ-یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖۙ-وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖۚ-وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآىٕنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۳)
ترجمۂ کنزالایمان: تو ان کی کیسی بد عہدیوں پر ہم نے انہیں لعنت کی اور ان کے دل سخت کردیئے اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں اور بُھلا بیٹھے بڑا حصہ ان نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں اور تم ہمیشہ ان کی ایک نہ ایک دغا پر مطلع ہوتے رہو گے سوا تھوڑوں کے تو انہیں معاف کردو اور ان سے درگزروبیشک احسان والے اللہ کو محبوب ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردئیے ۔ وہ اللہ کی باتوں کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور انہوں نے ان نصیحتوں کا بڑا حصہ بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں اور تم ان میں سے چند ایک کے علاوہ سب کی کسی نہ کسی خیانت پر مطلع ہوتے رہو گے تو انہیں معاف کردو اور ان سے درگزکرو بیشک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
گناہوں کی وجہ سے دل سخت ہو جاتے ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ بداعمالیوں کی وجہ سے بھی دل سخت ہوجاتے ہیں۔ حضرت یحیٰ بن مُعاذ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :آنسو دلوں کی سختی کی وجہ سے خشک ہوتے ہیں اور دلوں کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے اور عیب زیادہ ہونے کی وجہ سے گناہ کثیر ہوتے ہیں۔(شعب الایمان، السابع والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی الطبع علی القلب او الرین، ۵ / ۴۴۶، الحدیث: ۷۲۲۱)
اور حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سخت دل آدمی اللہ تعالیٰ سے بہت دور رہتا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲-باب منہ، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں دل کی سختی سے محفوظ فرمائے۔اٰمین
{وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ: اور آپ ہمیشہ مطلع ہوتے رہیں گے۔} سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہمیشہ ان لوگوں کی خیانتوں پر مطلع ہوتے رہیں گے کیونکہ دغابازی، خیانت ،عہد توڑنا اور رسولوں کے ساتھ بدعہدی اُن کی اور اُن کے آباء و اجداد کی قدیم عادت ہے۔ ہاں ان میں سے جو ایمان لانے والوں کی تھوڑی سی تعداد ہے یہ خائن نہیں ہیں اور ان لوگوں سے جو کچھ پہلے سرزد ہوا اس پر گرفت نہ کرو۔ (بیضاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۳۰۶)
بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس قوم کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے پہلے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عہد کیا پھر توڑ دیا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس پر مطلع فرمایا اور یہ آیت نازل کی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱ / ۴۷۶) اس صورت میں معنیٰ یہ ہیں کہ اُن کی اس عہد شکنی سے درگزر کیجئے جب تک کہ وہ جنگ سے باز رہیں اور جزیہ ادا کرنے سے منع نہ کریں۔
وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ۪-فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِؕ-وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۱۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے ان سے عہد لیا تو وہ بھلا بیٹھے بڑا حصہ ان نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں تو ہم نے ان کے آپس میں قیامت کے دن تک بَیرا ور بغض ڈال دیا اور عنقریب اللہ انہیں بتا دے گا جو کچھ کرتے تھے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ ہیں ان سے ہم نے عہد لیا تو وہ ان نصیحتوں کا بڑا حصہ بھلا بیٹھے جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لئے دشمنی اور بغض ڈال دیا اور عنقریب اللہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔
{وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى: اور جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔}یہودیوں کے بعد اب عیسائیوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ یعنی دینِ خدا کے مددگار ہیں ان سے بھی ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کاعہد لیا لیکن وہ بھی انجیل میں دی گئی نصیحتوں کا بڑا حصہ بھلا بیٹھے اور اُنہوں نے بھی عہد شکنی کی تو ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لئے دشمنی اور بغض ڈال دیا چنانچہ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ جب نصاریٰ نے کتابِ الہٰی (انجیل) پر عمل کرنا ترک کیا اور رسولوں کی نافرمانی کی، فرائض ادا نہ کئے اورحدود ِ الہٰی کی پرواہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان عداوت ڈال دی۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۱ / ۴۷۷)
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ فرقوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کو تباہ کرنے لگے چنانچہ دو عالمی عظیم جنگیں اور ان کی تباہیاں انہی صاحبان کی برکت سے ہوئیں۔
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)
ترجمۂ کنزالایمان: اے کتاب والو بیشک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی وہ چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرماتے ہیں بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے رسول تشریف لائے، وہ تم پر بہت سی وہ چیزیں ظاہر فرماتے ہیں جو تم نے (اللہ کی) کتاب سے چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرما دیتے ہیں ،بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔
{یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: اے اہلِ کتاب۔}یہاں یہودیوں اور عیسائیوں سب سے خطاب ہے۔ فرمایا گیا کہ اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے ، وہ تم پر بہت سی وہ چیزیں ظاہر فرماتے ہیں جو تم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے چھپا ڈالی تھیں جیسے رَجَم کی آیات اورسرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف جو تم نے چھپا دئیے تھے لیکن حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیان فرمادئیے اور یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ ہے۔ تمہاری چھپائی ہوئی چیزیں بیان کرنے کے ساتھ بہت سی باتیں یہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ معاف فرما دیتے ہیں اور ان کا ذکر بھی نہیں کرتے اور نہ ان پر مؤاخذہ فرماتے ہیں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی چیز کا ذکر فرماتے ہیں جس میں مَصلحت ہو۔ یہ سب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کا بیان ہے۔
{قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا۔} اس آیت ِمبارکہ میں نور سے کیا مراد ہے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات والا صفات ہے۔
فقیہ ابو اللیث سمرقندی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ وَھُوَ مُحَمَّدٌ صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم وَالْقُرْآنُ‘‘ یعنی نور سے مراد محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن ہیں۔(سمرقندی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۴۲۴) امام ابو محمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ’’ یَعْنِیْ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَقِیْلَ اَ لْاِسْلَامُ ‘‘ یعنی نور سے مراد محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ،اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے۔(تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۱۷)
علامہ خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یَعْنِیْ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم اِنَّمَا سَمَّاہُ اللہُ نُوْرًا لِاَنَّہٗ یُھْتَدٰی بِہٖ کَمَا یُھْتَدٰی بِالنُّوْرِ فِیْ الظُّلَامِ ‘‘ یعنی نور سے مراد محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نور اس لیے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۴۷۷)
علامہ صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’وَ سُمِّیَ نُوْرًا لِاَنَّہٗ یُنَوِّرُ الْبَصَائِرَ وَ یَھْدِیْھَا لِلرَّشَادِ وَ لِاَنَّہٗ اَصْلُ کُلِّ نُوْرٍ حِسِّیٍّ وَ مَعْنَوِیٍّ‘‘یعنی حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا اس لیے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بصیرتوں کو روشن کرتے ہیں اور انہیں رُشد و ہدایت فرماتے ہیں اور اس لیے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر نور حِسّی (وہ نور جسے دیکھا جا سکے ) اور مَعْنَوِ ی (جیسے علم وہدایت )کی اصل ہیں۔(تفسیر صاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۴۸۶) امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اَلنُّوْرُ وَالْکِتَابُ ھُوَ الْقُرْآنُ، وَھٰذَا ضَعِیْفٌ لِاَنَّ الْعَطْفَ یُوْجِبُ الْمُغَایَرَۃَ بَیْنَ الْمَعْطُوْفِ وَالْمَعْطُوْفِ عَلَیْہِ‘‘ یعنی یہ قول کہ نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن ہے یہ ضعیف ہے کیونکہ حرف عَطف مَعطوف و معطوف عَلیہ میں مُغایَرت (یعنی ایک دوسرے کاغیر ہونے ) کو مُسْتَلْزِم ہے ۔ (تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۳۲۷) علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ وَھُوَ نُوْرُ الْاَنْوَارِ وَالنَّبِیُّ الْمُخْتَارُصلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم‘‘ یعنی اس نور سے مراد تمام نوروں کے نور، نبی مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ہے۔ (روح المعانی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۵ / ۳۶۷)
علامہ ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’وَ اَیُّ مَانِعٍ مِنْ اَنْ یُجْعَلَ النَّعْتَانِ لِلرَّسُوْلِ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم فَاِنَّہٗ نُوْرٌعَظِیْمٌ لِکَمَالِ ظُھُوْرِہٖ بَیْنَ الْاَنْوَارِ وَ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ حَیْثُ اَنَّہٗ جَامِعٌ لِجَمِیْعِ الْاَسْرَارِ وَمُظْھِرٌ لِلْاَحْکَامِ وَالْاَحْوَالِ وَالْاَخْبَارِ‘‘ یعنی اور کون سی رکاوٹ ہے اس بات سے کہ دونوں نعتیں یعنی نور اور کتابِ مبین رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے ہوں بے شک حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نورِ عظیم ہیں انوارمیں ان کے کمال ظہور کی وجہ سے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کتاب مبین ہیں اس حیثیت سے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جمیع اسرار کے جامع ہیں اور احکام و احوال و اخبار کے مُظْہِر ہیں۔(شرح شفا، القسم الاول، الباب الاول فی ثناء اللہ تعالٰی علیہ۔۔۔ الخ، الفصل الاول، ۱ / ۵۱)
بلکہ خود رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا نور ہونا بیان فرمایا، چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم کے استاذ کے استاذ امام عبد الرزاق رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں ’’قَالَ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم عَنْ اَوَّلِ شَیْئٍ خَلَقَہُ اللہُ تَعَالٰی؟ فَقَالَ ھُوَ نُوْرُ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ خَلَقَہُ اللہُ‘‘ یعنی حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا فرمایا؟ ارشاد فرمایا ’’ اے جابر! وہ تیرے نبی کا نور ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔(الجزء المفقود من المصنف عبد الرزاق، کتاب الایمان، باب فی تخلیق نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ص۶۳، الحدیث: ۱۸ ) یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۶) ترجمۂ کنزالایمان: اللہ اس سے ہدایت دیتا ہے اسے جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے راستے اور انہیں اندھیریوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اپنے حکم سے اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ اس کے ذریعے اسے سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے جو اللہ کی مرضی کا تابع ہوجائے اور انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ {یَهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ: اللہ اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے۔} یہاں قرآن کی شان کا بیان ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن کے ذریعے اسے ہدایت عطا فرماتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہوجاتا ہے اور جو اپنے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں لگا دیتا ہے تواللہ تعالیٰ اسے کفر و شرک اور مَعاصی کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور اعمالِ صالحہ کے نور میں داخل فرما دیتا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’بِهٖ‘‘کی ضمیر سے سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی مراد ہیں۔ اس اعتبار سے معنیٰ بنے گا کہ اللہ تعالیٰ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ہدایت عطا فرماتا ہے۔ مَعنَوِی اعتبار سے یہ بات قطعاً درست ہے۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّهْلِكَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاؕ-وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۷)
ترجمۂ کنزالایمان: بیشک کافر ہوئے وہ جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح بن مریم ہی ہے تم فرما دو پھر اللہ کا کوئی کیا کرسکتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کردے مسیح بن مریم اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو اوراللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی جو چاہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح بن مریم ہے۔ تم فرما دو: اگر اللہ مسیح بن مریم کواور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرمالے تو کون ہے جو اللہ سے بچانے کی طاقت رکھتا ہے؟ اور آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادرہے۔
{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا: بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ نجران کے عیسائیوں نے یہ بات کہی ہے اور نصرانیوں کے فرقہ یعقوبیہ وملکانیہ کا یہی مذہب ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو اللہ بتاتے ہیں کیونکہ وہ حُلُول کے قائل ہیں اور ان کا اعتقاد ِباطل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حلول کیا ہوا ہے جیسے پھول میں خوشبو اور آگ میں گرمی نے، مَعَاذَ اللہ ثُمَّ مَعَاذَاللہ ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکمِ کفر دیا اور اس کے بعد اُن کے مذہب کا فساد بیان فرمایا۔
حضرت عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُلُوہِیَّت کی تردید:
اس آیت میں حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی الوہیت کی کئی طرح تردید ہے۔
(1)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو موت آسکتی ہے، اور جسے موت آ سکتی ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔
(2)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ماں کے شکم سے پیدا ہوئے، اور جس میں یہ صفات ہوں وہ اللہ نہیں ہو سکتا ۔
(3)… اللہ تعالیٰ تمام آسمانی اور زمینی چیزوں کا مالک ہے اور ہر چیز رب عَزَّوَجَلَّ کا بندہ ہے، اگرکسی میں اللہ تعالیٰ نے حلول کیا ہوتا تووہ اللہ کا بندہ نہ ہوتا حالانکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود ا س بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ اللہتعالیٰ کے بندے ہیں۔
(4)… اللہ تعالیٰ از خود خالق ہے، اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں اُلُوہیت ہوتی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی از خود خالق ہوتے۔
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗؕ-قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَؕ-یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا٘-وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(۱۸)
ترجمۂ کنزالایمان: اور یہودی اور نصرانی بولے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں تم فرما دو پھر تمہیں کیوں تمہارے گناہوں پر عذاب فرماتا ہے بلکہ تم آدمی ہو اس کی مخلوقات سے جسے چاہے بخشتا ہے اور جسے چاہے سزا دیتا ہے اور اللہ ہی کے لئے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین اور اس کے درمیان کی اور اسی کی طرف پھرنا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اے حبیب! تم فرما دو: (اگر ایسا ہے تو) پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں پر عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم (بھی) اس کی مخلوق میں سے (عام) آدمی ہو۔ وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کی سلطنت اللہ ہی کے لئے ہے اور اسی کی طرف پھرنا ہے۔
{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى: یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس اہلِ کتاب آئے اور انہوں نے دین کے معاملہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو شروع کی ۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں اسلام کی دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے اس کے عذاب کا خوف دلایا تو وہ کہنے لگے کہ اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) آپ ہمیں کیا ڈراتے ہیں ہم تو اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱ / ۴۷۸)
یہودیوں کے قول کا مطلب یہ تھا کہ ہم خدا عَزَّوَجَلَّ کو ایسے پیارے ہیں جیسے بیٹا باپ کو کیونکہ بیٹا کتنا ہی برا ہو مگر باپ کو پیارا ہوتا ہے، ایسے ہی ہم ہیں۔ یہاں بیٹے سے مراد اولاد نہیں کیونکہ وہ لوگ اپنے کو اس معنی میں خدا کا بیٹا نہ کہتے تھے۔
خود کو اعمال سے مُستَغنی جاننا عیسائیوں کا عقیدہ ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو اعمال سے مُستَغنی جاننا عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ آج کل بعض اہلِ بیت سے محبت کے دعوے دار حضرات اور بعض جاہل فقیروں کا یہی عقیدہ ہے ۔ ایسا عقیدہ کفر ہے کیونکہ قرآنِ کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کا ذکر فرمایا۔
{فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْؕ:پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں پر عذاب کیوں دیتا ہے ؟} یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہم چالیس دن دوزخ میں رہیں گے یعنی بچھڑے کی پوجا کی مدت کے برابر۔ اس آیت میں فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم بیٹوں کی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پیارے ہو تو تمہیں یہ سزا بھی کیوں ملے گی یعنی اس بات کا تمہیں بھی اقرار ہے کہ گنتی کے دن تم جہنّم میں رہو گے تو سوچو کوئی باپ اپنے بیٹے کو یا کوئی شخص اپنے پیارے کو آگ میں جلاتا ہے! جب ایسا نہیں تو تمہارے دعوے کا جھوٹا اور باطل ہونا تمہارے اقرار سے ثابت ہے۔
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ٘-فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۱۹)
ترجمۂ کنزالایمان: اے کتاب والو بیشک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ہمارے احکام ظاہر فرماتے ہیں بعد اس کے کہ رسولوں کا آنا مدتوں بند رہا تھا کہ تم کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشی اور ڈر سنانے والا نہ آیا تو یہ خوشی اور ڈر سنانے والے تمہارے پاس تشریف لائے ہیں اور اللہ کو سب قدرت ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے کتاب والو! بیشک تمہارے پاس ہمارے رسول تشریف لائے ، وہ رسولوں کی تشریف آوری بند ہوجانے کے عرصہ بعد تم پر ہمارے احکام ظاہر فرمارہے ہیں تا کہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس توکوئی خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والاآیا ہی نہیں تو بیشک تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والاتشریف لاچکا اوراللہ ہرشے پر قادر ہے۔
{یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: اے اہلِ کتاب!} اس آیت میں اللہ تعالیٰ اہلِ کتاب کو اپنے عظیم ترین احسان کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ تک پانچ سو انہتر (569) برس کی مدت کسی بھی نبی کی تشریف آوری سے خالی رہی، اس کے بعد سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری تو ایسی نعمت ہے جیسے شدید پیاس میں خوشگوار، جاں بخش ٹھنڈا پانی یا شدید گرمی ، تپش اور حَبْس میں خوشگوار بارش، تو ایسی انتہائی حاجت کے وقت تم پر اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت بھیجی گئی تو تمہیں اس کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ اب تو تمہارے پاس یہ کہنے کا موقع بھی نہیں رہا کہ ہمارے پاس کوئی تَنْبِیہ کرنے والے تشریف نہیں لائے تھے۔
زمانہ فِتْرَت سے کیا مراد ہے ؟
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیانی زمانے کا نام’’ زمانۂ فترت‘‘ ہے، اس زمانہ کے لوگوں کو صرف عقیدہِ توحید کافی تھا جیسے حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے والدَین کریمَیْن۔
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ﳓ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۰)
ترجمۂ کنزالایمان: اور جب موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے اے میری قوم اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو کہ تم میں سے پیغمبر کیے اور تمہیں بادشاہ کیا اور تمہیں وہ دیا جو آج سارے جہان میں کسی کو نہ دیا۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب اس نے تم میں سے انبیاء پیدا فرمائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ عطا فرمایا جو سارے جہان میں کسی کو نہ دیا۔
{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیَٰ کا شکر اداکرنے کی تلقین فرمائی اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کا ذکر فرمایا اور بطورِ خاص تین نعمتیں یہاں بیان فرمائیں :
(1)…بنی اسرائیل میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے۔
(2)…بنی اسرائیل کو حکومت و سلطنت سے نوازا گیا۔ بنی اسرائیل آزاد ہوئے اور فرعونیوں کے ہاتھوں میں قید ہونے کے بعد اُن کی غلامی سے نجات پائی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مُلُوک یعنی بادشاہ سے مراد ہے خادموں اور سواریوں کا مالک ہونا۔ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں جو کوئی خادم اور عورت اور سواری رکھتا وہ مَلِک کہلایا جاتا ہے۔(در منثور، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲۰،۳ / ۴۶)
(3)…بنی اسرائیل کو وہ نعمتیں ملیں جو کسی دوسری قوم کو نہ ملیں جیسے من و سلویٰ اترنا، دریا کا پھٹ جانا، پانی سے چشموں کا جاری ہوجانا وغیرہا۔
میلاد منانے کا ثبوت:
اس آیت میں بیان کی گئی پہلی نعمت سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کی تشریف آوری نعمت ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اس کے ذکر کرنے کا حکم دیا کہ وہ بَرَکات و ثمرات کا سبب ہے۔ اس سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کامیلاد مبارک منانے اور اس کا ذکر کرنے کی واضح طور پر دلیل ملتی ہے کہ جب انبیاءِ بنی اسرائیل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری نعمت ہے اور اسے یاد کرنے کا حکم ہے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری تو اس سے بڑھ کر نعمت ہے کہ اسے تو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا(آل عمران :۱۶۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب ان میں عظیم رسول مبعوث فرمایا۔ لہٰذا اسے یاد کرنے کا حکم بدرجہ اولیٰ ہوگا۔
اِقتِدار ملنے پر اللہ تعالٰی کا شکر اد اکرنے کا بہترین طریقہ:
اس آیت میں بیان کی گئی دوسری نعمت سے معلوم ہوا کہ حکومت و سلطنت اور اقتدار بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کے شکر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حکومت و سلطنت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلائی جائے، غریبوں کی مدد کی جائے، لوگوں کے حقوق ادا کئے جائیں ، ظلم کا خاتمہ کیا جائے اور ملک کے باشندوں کو امن وسکون کی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔
حکمرانوں کے لئے نصیحت آموز4 اَحادیث:
یہاں حکمرانی کرنے والوں کے لئے نصیحت آموز 4احادیث ملاحظہ ہوں۔
(1)…حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، ۴ / ۴۵۶، الحدیث: ۷۱۵۰)
(2)…حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی مروی ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مسلمانوں کو جس والی کی رعایا بنایا جائے، پھر وہ والی ایسی حالت میں مرے کہ اس نے مسلمانوں کے حقوق غصب کئے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دیتا ہے۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، ۴ / ۴۵۶، الحدیث: ۷۱۵۱)
(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ،میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبۃ الجائر۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۶، الحدیث: ۱۹(۱۸۲۸))
(4)…حضرت ابومریم ازدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :جسے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے کسی کام کا والی بنائے اور وہ ان کی حاجت مندی، بے کسی اور غریبی میں ان سے کنارہ کشی کرے تواللہ تعالیٰ اس کی حاجت مندی، بے کسی اور غریبی میں اسے چھوڑ دے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الخراج والفیء والامارۃ، باب فیما یلزم الامام من امر الرعیّۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۸۸، الحدیث: ۲۹۴۸)
اقتدار کے بوجھ سے اَشکْبار:
حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں :جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مرتبۂ خلافت پر فائز ہوئے تو گھر آ کر مصلے پر بیٹھ کر رونے لگے اور اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ یہ دیکھ کر میں نے عرض کی: اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :میری گردن پر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کابوجھ ڈال دیاگیا ہے اور جب میں نے بھوکے فقیروں ، مریضوں ، مظلوم قیدیوں ، مسافروں ، بوڑھوں ، بچوں اور عیالداروں ، الغرض پوری سلطنت کے مصیبت زدوں کی خبر گیری کے بارے میں غور کیا اور مجھے معلوم ہے کہ میرا ربعَزَّوَجَلَّقیامت کے دن ان کے بارے مجھ سے باز پُرس فرمائے گا تو مجھے اس بات سے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے ان کے بارے میں جواب نہ بن پڑے! (بس اس بھاری ذمہ داری اور اس کے بارے میں باز پُرس کی فکر کی وجہ سے ) میں رو رہا ہوں۔ (تاریخ الخلفائ، عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ، ص۱۸۹)
یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ(۲۱)
ترجمۂ کنزالایمان: اے قوم اس پاک زمین میں داخل ہو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے اور پیچھے نہ پلٹو کہ نقصان پر پلٹو گے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (موسیٰ نے فرمایا:) اے میری قوم !اس پاک سرزمین میں داخل ہو جاؤجو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اوراپنے پیٹھ پیچھے نہ پھروکہ تم نقصان اٹھاتے ہوئے پلٹوگے۔
{یٰقَوْمِ: اے میری قوم!۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلانے کے بعد ان کو اپنے دشمنوں پر جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اے قوم! مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ۔ اِس زمین کو مقدس اِس لئے کہا گیا کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَسکَن (رہائش گاہ) تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سُکونَت سے زمینوں کو بھی شرف حاصل ہوتا ہے اور دوسروں کے لئے باعثِ برکت ہوتی ہے۔ کلبی سے منقول ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوہِ لبنان پر چڑھے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا گیا :دیکھئے جہاں تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نظر پہنچے وہ جگہ مقدس ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کی میراث ہے، یہ سرزمین طُور اور اس کے گردو پیش کی تھی اور ایک قول یہ ہے کہ تمام ملک شام اس میں داخل ہے۔ (بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲۱،۲ / ۱۹)
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ ﳓ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى یَخْرُجُوْا مِنْهَاۚ-فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ(۲۲)
ترجمۂ کنزالایمان: بولے اے موسیٰ اس میں تو بڑے زبردست لوگ ہیں اور ہم اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہاں وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم وہاں جائیں گے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (قوم نے) کہا : اے موسیٰ! اس ( سرزمین) میں تو بڑے زبردست لوگ ہیں اور ہم اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ، تو اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم (شہر میں ) داخل ہوں گے۔
{اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ: بیشک اس میں تو بڑے زبردست لوگ ہیں۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو شہر میں داخلے کا حکم دیا تو قوم نے بزدلی کا مظاہرہ شروع کردیا ۔ اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیات میں اسی کا بیان ہے۔
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَۚ-فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ ﳛ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۳)
ترجمۂ کنزالایمان: دو مرد کہ اللہ سے ڈرنے والوں میں تھے اللہ نے انہیں نوازا بولے کہ زبردستی دروازے میں ان پر داخل ہو اگر تم دروازے میں داخل ہوگئے تو تمہارا ہی غلبہ ہے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ سے ڈرنے والوں میں سے وہ دومرد جن پر اللہ نے احسان کیا تھا انہوں نے کہا : ( شہر کے) دروازے سے ان پر داخل ہوجاؤ توجب تم دروازے میں داخل ہوجاؤگے تو تم ہی غالب ہوگے اور اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرو۔
{قَالَ رَجُلٰنِ: دو آدمیوں نے کہا۔} بنی اسرائیل نے بزدلی دکھا دی تھی مگر دو حضرات کالب بن یوقنا اور یوشع بن نون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا۔ یہ دونوں حضرات اُن سرداروں میں سے تھے جنہیں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جَبّارین قوم کا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا تھا اور انہوں نے حالات معلوم کرنے کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرمان کے مطابق جبارین کا حال صرف حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیاتھا اور دوسروں کو نہ بتایا تھا۔ ان دونوں حضرات نے قوم کو جوش دلانے کیلئے فرمایا کہ اے لوگو! شہر کے دروازے سے ان جبارین پر داخل ہوجاؤ، اگر تم ہمت کرکے دروازے میں داخل ہوجاؤ تو تم ہی غالب ہوگے اور اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مدد کا وعدہ کیا ہے اور اس کا وعدہ ضرور پورا ہوناہے۔ تم جبار ین کے بڑے بڑے جسموں سے خوف نہ کھاؤ، ہم نے اُنہیں دیکھا ہے اُن کے جسم بڑے ہیں اور دِل کمزور ہیں ان دونوں نے جب یہ کہا تو بنی اسرائیل بہت برہم ہوئے اور بجائے جوش میں آنے کے اُلٹا انہی کے خلاف ہوگئے اور انہوں نے چاہا کہ ان پرپتھر برسادیں۔
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴)
ترجمۂ کنزالایمان: بولے اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (پھر قوم نے ) کہا: اے موسیٰ! بیشک ہم تو وہاں ہرگز کبھی نہیں جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ اور آپ کا رب دونوں جاؤ اور لڑو ،ہم تویہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔
{اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا: بیشک ہم تو وہاں ہرگزکبھی نہیں جائیں گے۔} بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ جہاد میں جانے سے صاف انکار کردیا۔
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی افضلیت:
اس سے معلوم ہوا کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ والوں سے کہیں افضل ہیں کیونکہ ان حضرات نے کسی سخت موقعہ پر بھی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ایسا رُوکھا جواب نہ دیا بلکہ اپنا سب کچھ حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قربان کر دیا جیسے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام نبیوں کے سردار ہیں ایسے ہی حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمتمام نبیوں کے صحابہ کے سردار ہیں۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی جانثاری کے بارے میں جاننے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ جنگِ بدر کے موقع پر سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ فرمایا تو حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہماری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں ، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم ارشاد فرمائیں تو ہم اس میں کود جائیں گے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ البدر، ص۹۸۱، الحدیث: ۸۳(۱۷۷۹))
انصار کے ایک معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ َکا خدا عَزَّوَجَلَّ جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دائیں سے، بائیں سے،آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ یہ سن کر رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرۂ انور خوشی سے چمک اٹھا۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قول اللہ تعالٰی: اذ تستغیثون ربکم۔۔۔ الخ، ۳ / ۵، الحدیث: ۳۹۵۲)
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَاوَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۵)
ترجمۂ کنزالایمان: موسیٰ نے عرض کی کہ اے رب میرے مجھے اختیار نہیں مگر اپنا اور اپنے بھائی کا تو تو ہم کو ان بے حکموں سے جدا رکھ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: موسیٰ نے عرض کی : اے میرے رب! مجھے صرف اپنی جان اور اپنے بھائی کا اختیار ہے تو تو ہمارے اور نافرمان قوم کے درمیان جدائی ڈال دے۔
{قَالَ رَبِّ: موسیٰ نے عرض کی : اے میرے رب!} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کے جواب سے غمزدہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی کہ ’’ مولا! مجھے صرف اپنی جان اور اپنے بھائی ہارون کا اختیار ہے، تو تو ہمارے اور نافرمان قوم کے درمیان جدائی ڈال دے اور ہمیں ان کی صحبت اور قرب سے بچا اوریہ کہ ہمارے اوراُن کے درمیان فیصلہ فرمادے۔
آیت ’’قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 3 مسئلے معلوم ہوئے:
(1)… بروں سے علیحدگی اچھی چیز ہے جس کی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی۔
(2)… بروں کی برائی سے نیک بھی بعض اوقات مشقت میں پڑ جاتے ہیں جیسا کہ ان نافرمانوں کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی مقامِ تیہ میں قیام فرمانا پڑا اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیلئے سہولت مُیَسَّر فرما دی تھی۔
(3)… اچھوں کی صحبت سے برے بھی فیض حاصل کرلیتے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برکت سے بنی اسرائیل کو مقامِ تیہ میں مَن و سَلْویٰ ملا، پتھر سے پانی کے بارہ چشمے ملے اور وہ لباس عطا ہوا جو اتنے عرصہ تک نہ گلانہ میلا ہوا۔
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةًۚ-یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۶)
ترجمۂ کنزالایمان: فرمایا تو وہ زمین ان پر حرام ہے چالیس برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں تو تم ان بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اللہ نے) فرمایا: پس چالیس سال تک وہ زمین ان پر حرام ہے یہ زمین میں بھٹکتے پھریں گے تو (اے موسیٰ!) تم (اس) نافرمان قوم پر افسردہ نہ ہو۔
{فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً: پس چالیس سال تک وہ زمین ان پر حرام ہے۔} بنی اسرائیل کی بزدلی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم پر عمل نہ کرنے کی سزا بنی اسرائیل کو یہ ملی کہ ان پر مقدس سرزمین چالیس سال تک کیلئے حرام کردی گئی، یعنی بنی اسرائیل اب مقدس سرزمین میں نہ داخل ہوسکیں گے۔ وہ زمین جس میں یہ لوگ بھٹکتے پھرے تقریباً ستائیس میل تھی اور قوم کئی لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔وہ سب اپنے سامان لئے تمام دن چلتے تھے، جب شام ہوتی تو اپنے کو وہیں پاتے جہاں سے چلے تھے۔یہ اُن پر سزاتھی سوائے حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون، حضرت یوشع اور حضرت کالب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کہ اُن پر اللہ تعالیٰ نے آسانی فرمائی اور ان کی مدد فرمائی جیسا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے آگ کو سرد اور سلامتی والابنایا اور اتنی بڑی جماعتِ عظیمہ کا اتنے چھوٹے حصہ زمین میں چالیس برس آوارہ و حیران پھرنا اور کسی کا وہاں سے نکل نہ سکنا خلافِ عادات میں سے ہے ۔جب بنی اسرائیل نے اس جنگل میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کھانے پینے وغیرہ ضروریات اور تکالیف کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دُعا سے اُن کو آسمانی غذا’’ مَنّ وسَلوٰی‘‘ عطا فرمایا اور لباس خود اُن کے بدن پر پیدا کیا جو جسم کے ساتھ بڑھتا تھا اور ایک سفید پتھر کوہِ طور کا عنایت کیا کہ جب رخت ِسفر اُتارتے اور کسی وقت ٹھہرتے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس پتھر پر عصا مارتے ، اس سے بنی اسرائیل کے بارہ گروہوں کے لئے بارہ چشمے جاری ہوجاتے اور سایہ کرنے کیلئے ایک بادل بھیجا اور میدانِ تیہ میں جتنے لوگ داخل ہوئے تھے ان میں سے جو بیس سال سے زیادہ عمر کے تھے سب وہیں مر گئے سوائے یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا کے اور جن لوگوں نے ارضِ مقدسہ میں داخل ہونے سے انکار کیا ان میں سے کوئی بھی داخل نہ ہوسکا اور کہا گیا ہے کہ تیہ میں ہی حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ہوئی ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے چالیس برس بعد حضرت یوشع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطا کی گئی اور جبارین پر جہاد کا حکم دیا گیا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام باقی ماندہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر گئے اور جبارین پر جہاد کیا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۴۸۲، بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲۶،۲ / ۲۲، ملتقطاً)
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّۘ-اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِؕ-قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَؕ-قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷)لَىٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸)اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِۚ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۹)
ترجمۂ کنزالایمان: اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر جب دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ قبول ہوئی بولا قسم ہے میں تجھے قتل کردوں گا کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے، جسے ڈر ہے۔ بیشک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک سارے جہان کا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوز خی ہوجائے اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے حبیب!) انہیں آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر پڑھ کر سناؤ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی طرف سے قبول کرلی گئی اور دوسرے کی طرف سے قبول نہ کی گئی، تو(وہ دوسرا) بولا: میں ضرور تجھے قتل کردوں گا۔ (پہلے نے) کہا : اللہ صرف ڈرنے والوں سے قبول فرماتا ہے۔ بیشک اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ تیری طرف نہیں بڑھاؤں گا۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہانوں کا مالک ہے ۔میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے اوپر ہی پڑجائیں تو تو دوز خی ہوجائے اور ظلم کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔
{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ:اور انہیں آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر پڑھ کر سناؤ۔}حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اِن دوبیٹوں کا نام ہابیل اور قابیل تھا۔ اس واقعہ کو سنانے سے مقصد یہ ہے کہ حسد کی برائی معلوم ہو اورسرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حسد کرنے والوں کو اس سے سبق حاصل کرنے کا موقع ملے ۔
ہابیل اور قابیل کا واقعہ:
تاریخ کے علماء کا بیان ہے کہ حضرت حوا رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ہر حمل میں ایک لڑکا اورایک لڑکی پیدا ہوتے تھے اور ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی کے ساتھ نکاح کیا جاتا تھا اور چونکہ انسان صرف حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں مُنْحَصِر تھے توآپس میں نکاح کرنے کے علاوہ اور کوئی صورت ہی نہ تھی۔ اسی دستور کے مطابق حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ’’قابیل ‘‘کا نکاح’’ لیودا‘‘ سے جو’’ ہابیل ‘‘کے ساتھ پیدا ہوئی تھی اور ہابیل کا اقلیما سے جو قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کرنا چاہا۔ قابیل اس پر راضی نہ ہوا اور چونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لئے اس کا طلبگار ہوا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ کیونکہ وہ تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے لہٰذا وہ تیری بہن ہے، اس کے ساتھ تیرا نکاح حلال نہیں۔ قابیل کہنے لگا ’’یہ تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رائے ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا :اگر تم یہ سمجھتے ہو تو تم دونوں قربانیاں لاؤ ،جس کی قربانی مقبول ہوجائے وہی اقلیما کا حقدار ہے۔ اس زمانہ میں جو قربانی مقبول ہوتی تھی آسمان سے ایک آگ اتر کر اس کو کھالیا کرتی تھی۔ قابیل نے ایک انبار گندم اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لیے پیش کی۔ آسمانی آگ نے ہابیل کی قربانی کو لے لیا اور قابیل کی گندم کو چھوڑ دیا۔ اس پر قابیل کے دل میں بہت بغض و حسد پیدا ہوا اور جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے توقابیل نے ہابیل سے کہا کہ’’ میں تجھے قتل کردوں گا۔ ہابیل نے کہا: کیوں ؟ قابیل نے کہا: اس لئے کہ تیری قربانی مقبول ہوئی اور میری قبول نہ ہوئی اور تو اقلیما کا مستحق ٹھہرا ،اس میں میری ذلت ہے۔ ہابیل نے جواب دیا کہ’’ اللہ تعالیٰ صرف ڈرنے والوں کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ ہابیل کے اس مقولہ کا یہ مطلب ہے کہ ’’قربانی کو قبول کرنااللہ عَزَّوَجَلَّکا کام ہے وہ متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے، تو متقی ہوتا تو تیری قربانی قبول ہوتی ،یہ خود تیرے افعال کا نتیجہ ہے اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ تیری طرف نہیں بڑھاؤں گا، کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میر ی طرف سے ابتدا ہو حالانکہ میں تجھ سے قوی و توانا ہوں یہ صرف اس لئے کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا یعنی میرے قتل کرنے کا گناہ اور تیرا گناہ یعنی جو اس سے پہلے تو نے کیا کہ والد کی نافرمانی کی، حسد کیا اور خدائی فیصلہ کو نہ مانا یہ دونوں قسم کے گناہ تیرے اوپر ہی پڑجائیں توتو دوز خی ہوجائے۔
فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۳۰)فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِؕ-قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْۚ-فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ(۳۱)ﮊ
ترجمۂ کنزالایمان: تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا تو اسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔ تو اللہنے ایک کوا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے دکھائے کیونکر اپنے بھائی کی لاش چھپائے بولا ہائے خرابی میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپاتا تو پچتاتا رہ گیا۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر راضی کرلیا تو اس نے اسے قتل کردیا پھر وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔ پھراللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کرید رہا تھا تا کہ وہ اسے دکھا دے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے ۔ (کوے کا واقعہ دیکھ کر قاتل نے) کہا: ہائے افسوس، میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپالیتا تو وہ پچھتانے والوں میں سے ہوگیا۔
{فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْه ِ: تو اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر راضی کرلیا۔} قابیل تمام گفتگو کے بعد بھی ہابیل کو قتل کرنے کے ارادے پر ڈٹا رہا اور اس کے نفس نے اسے اِس ارادے پر راضی کرلیا، چنانچہ قابیل نے ہابیل کوکسی طریقے سے قتل کردیا لیکن پھر حیران ہوا کہ اس لاش کو کیا کرے! کیونکہ اس وقت تک کوئی انسان مرا ہی نہ تھا ۔ مدت تک لاش کو پشت پر لادے پھرتا رہا۔ پھر جب اسے لاش چھپانے کا کوئی طریقہ سمجھ نہ آیا تواللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کوکرید رہا تھا، چنانچہ یوں ہوا کہ دو کوے آپس میں لڑے، ان میں سے ایک نے دوسرے کو مار ڈالا، پھر زندہ کوے نے اپنی مِنْقَار یعنی چونچ اور پنجوں سے زمین کرید کر گڑھا کھودا، اس میں مرے ہوئے کوے کو ڈال کر مٹی سے دبا دیا۔ یہ دیکھ کر قابیل کو معلوم ہوا کہ مردے کی لاش کو دفن کرنا چاہئے چنانچہ اس نے زمین کھود کر دفن کردیا۔ (جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۹۸، مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۲۸۲، ملتقطاً)
ہابیل اور قابیل کے واقعہ سے حاصل ہونے والے اَسباق
یہ واقعہ بہت سی عبرتوں اور نصیحتوں پر مشتمل ہے ،ان میں سے ایک یہ کہ انسان نے جو سب سے پہلے جرائم کئے ان میں ایک قتل تھا ،اوردوسر ی یہ ہے کہ حسد بڑی بری چیز ہے، حسد ہی نے شیطان کو برباد کیا اور حسد ہی نے دنیا میں قابیل کو تباہ کیا۔
حسد ،قتل اور حُسن پرستی کی مذمت:
اس واقعے سے تین چیزوں کی مذمت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
(1)…حسد۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۵۶-باب، ۴ / ۲۲۸، الحدیث: ۲۵۱۸)
(2)…قتل۔ حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ’’ناحق حرام خون بہانا ہلاک کرنے والے اُن اُمور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن یقتل مؤمناً۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۶، الحدیث: ۶۸۶۳)
(3)…حسن پرستی۔ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عورت کے محاسن کی طرف نظر کرنا ابلیس کے زہر میں بجھے ہوئے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ (نوادر الاصول، الاصل الرابع والثلاثون، ۱ / ۱۴۷، الحدیث: ۲۱۳)
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِنَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ٘-ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ(۳۲)
ترجمۂ کنزالایمان: اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلالیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے پھر بیشک ان میں بہت اس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے سبب ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے پھر بیشک ان میں سے بہت سے لوگ اس کے بعد (بھی) زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں۔
{مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اس کے سبب ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا۔} بنی اسرائیل کو یہ فرمایا گیا اور یہی فرمان ہمارے لئے بھی ہے کیونکہ گزشتہ امتوں کے جو احکام بغیر تردید کے ہم تک پہنچے ہیں وہ ہمارے لئے بھی ہیں۔ بہرحال بنی اسرائیل پر لکھ دیا گیا کہ جس نے بلا اجازتِ شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حق، بندوں کے حق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کردیا اور جس نے کسی کی زندگی بچا لی جیسے کسی کو قتل ہونے یا ڈوبنے یا جلنے یا بھوک سے مرنے وغیرہ اَسباب ِہلاکت سے بچالیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو بچالیا۔
قتل ناحق کی 2 وعیدیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے ۔ (ترمذی، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدماء، ۳ / ۱۰۰، الحدیث: ۱۴۰۳)
(2)…حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، ۳ / ۲۶۱، الحدیث: ۲۶۱۹)
امن و سلامتی کا مذہب:
یہ آیت ِ مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔
قتل کی جائز صورتیں :
قتل کی شدید ممانعت کے ساتھ چند صورتوں کو اس سے جدا رکھا ہے اورآیتِ مبارکہ میں بیان کردہ وہ صورتیں یہ ہیں :
(1)…قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جائز ہے۔
(2)…زمین میں فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا جائز ہے اس کی تفصیل اگلی آیت میں موجودہے۔
اس کے علاوہ مزید چند صورتوں میں شریعت نے قتل کی اجازت دی ہے۔
(1)شادی شدہ مرد یا عورت کو زنا کرنے پر بطورِ حد رجم کرنا، (2) مرتد کو قتل کرنا۔ (3) باغی کو قتل کرنا۔
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِؕ-ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ(۳۳)
ترجمۂ کنزالایمان: وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کردیے جائیں یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں خوب قتل کیا جائے یا انہیں سولی دیدی جائے یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دئیے جائیں یا (ملک کی سر) زمین سے (جلا وطن کر کے) دور کردئیے جائیں۔ یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ {اَلَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ:جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں۔} اس سے پچھلی آیات میں قتل کی ایک نَوعِیَّت یعنی ناجائز قتلوں کا ذکر کیا گیا اب دوسری نوعیت یعنی جائز قتلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ شانِ نزول : عُرَینہ قبیلے کے کچھ لوگ مدینۂ منورہ میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، انہیں وہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا: صدقہ کی اونٹنیوں کی چراگاہ میں جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو، انہوں نے اسی طرح کیا تو تندرست ہو گئے۔ پھر وہ مرتد ہو گئے، چرواہوں پرحملہ کر کے انہیں قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگ گئے۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس واقعے کی خبر پہنچی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے پیچھے لوگوں کو بھیجا جو انہیں گرفتار کر کے لے آئے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے ہاتھ پاؤں کٹوا دئیے،ا ن کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں پھر انہیں تپتے ہوئے میدان میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قصۃ عکل وعرینۃ، ۳ / ۷۸، الحدیث: ۴۱۹۲، تفسیرات احمدیہ، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۳۵۰)
ڈاکو کی سز اکی شرائط:
اس آیتِ کریمہ میں راہزن یعنی ڈاکو کی سز اکا بیان ہے۔ راہزن جس کے لئے شریعت کی جانب سے سزا مقرر ہے اس میں چند شرطیں ہیں :
(1)… ان میں اتنی طاقت ہو کہ راہ گیر ان کا مقابلہ نہ کرسکیں اب چاہے ہتھیار کے ساتھ ڈاکہ ڈالا یا لاٹھی لے کر یا پتھر وغیرہ سے۔
(2)… بیرونِ شہر راہزنی کی ہو یا شہر میں رات کے وقت ہتھیار سے ڈاکہ ڈالا۔
(3)… دارُ الاسلام میں ہو۔
(4)… چوری کی سب شرائط پائی جائیں۔
(5)… توبہ کرنے اور مال واپس کرنے سے پہلے بادشاہِ اسلام نے ان کو گرفتار کرلیا ہو۔(عالمگیری، کتاب السرقۃ، الباب الرابع فی قطاع الطریق، ۲ / ۱۸۶)
ڈاکو کی 4سزائیں :
جن میں یہ سب شرطیں پائی جائیں ان کے لئے قرآنِ پاک میں چار سزائیں بیان کی گئی ہیں
(1)…انہیں قتل کر دیا جائے۔
(2)…سولی چڑھا دیا جائے۔
(3)…دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔
(4)… جلا وطن کر دیا جائے، ہمارے ہاں اس سے مراد قید کر لینا ہے۔
اس سزا کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ڈاکوؤں نے کسی مسلمان یا ذمی کو قتل کیا اور مال نہ لیا تو انہیں قتل کیا جائے ۔ اگر قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹا تو بادشاہِ اسلام کو اختیار ہے کہ ہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کر ڈالے یا سولی دیدے یاہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کرے پھر اس کی لاش کو سولی پر چڑھا دے یا صرف قتل کردے یا قتل کرکے سولی پر چڑھا دے یا فقط سولی دیدے۔ اگر قتل نہیں کیا صرف مال لوٹا تو ان کا دایاں ہاتھ ا ور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اگر نہ مال لوٹا نہ قتل کیا صرف ڈرایا دھمکایا تو اس صورت میں انہیں قید کر لیا جائے یہاں تک کہ صحیح توبہ کر لے ۔(عالمگیری، کتاب السرقۃ، الباب الرابع فی قطاع الطریق، ۲ / ۱۸۶، در مختار، کتاب السرقۃ، باب قطع الطریق، ۶ / ۱۸۱-۱۸۳، ملخصاً)
اسلامی سزاؤں کی حکمت:
اسلا م نے ہر جرم کی سزا اس کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف رکھی ہے، چھوٹے جرم کی سزا ہلکی اور بڑے کی اس کی حیثیت کے مطابق سخت سزا نافذ کی ہے تاکہ زمین میں امن قائم ہو اور لوگ بے خوف ہوکر سکون اور چین کی زندگی بسر کرسکیں۔ ا س کے علاوہ اور بھی بے شمار حکمتیں ہیں۔ ایک اس ڈاکہ زنی کی سزا ہی کو لے لیجئے کہ جب تک اس پر عمل رہا تو تجارتی قافلے اپنے قیمتی سازو سامان کے ساتھ بے خوف و خطر سفر کرتے تھے جس کی وجہ سے تجارت کو بے حد فروغ ملا اور لوگ معاشی اعتبار سے بہت مضبوط ہو گئے اور جب سے اس سزا پر عمل نہیں ہو رہا تب سے تجارتی سر گرمیاں سب کے سامنے ہیں ، جس ملک میں تجارتی ساز و سامان کی نَقل و حَمل کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام نہیں وہاں کی بَرآمدات اور دَرآمدات انتہائی کم ہیں جس کی وجہ سے ان کی معیشت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اب تو حالات اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ بینک سے کوئی پیسے لے کر نکلا تو راستے میں لٹ جاتا ہے، کوئی پیدل جا رہا ہے تو اس کی نقدی اور موبائل چھن جاتا ہے، کوئی بس کا مسافر ہے تو وہاں بھی محفوظ نہیں ،کوئی اپنی سواری پر ہے تو وہ خود کو زیادہ خطرے میں محسوس کرتا ہے، سرکاری اور غیر سرکاری اَملاک ڈاکوؤں کی دست بُرد سے محفوظ نہیں۔ اگر ڈاکہ زنی کی بیان کردہ سزا پر صحیح طریقے سے عمل ہو تو ان سب کا دماغ چند دنوں میں ٹھکانے پر آ جائے گا اور ہر انسان پر امن ماحول میں زندگی بسر کرنا شروع کر دے گا۔
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهِمْۚ-فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۳۴)
ترجمۂ کنزالایمان: مگر وہ جنہوں نے توبہ کرلی اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پاؤ تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: مگر وہ کہ جنہوں نے توبہ کرلی اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پاؤ تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا:مگر وہ جنہوں نے توبہ کرلی۔} گرفتاری سے پہلے اگر ڈاکو توبہ اور ا س کے تقاضے پورے کر لے تو ڈاکہ زنی کی سزا اورآخرت کی رسوائی سے بچ جائے گا لیکن لوٹے ہوئے مال کی واپسی اور قصاص کا تعلق چونکہ بندوں کے حقوق سے ہے اس لئے ان کا تقاضا باقی رہے گا۔ اب اس کے اولیاء چاہیں تومعاف کر دیں ، چاہیں تو اس کا تقاضا کر لیں۔(تفسیرات احمدیہ، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۳۵۲)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔
{وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ: اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔} آیت میں وسیلہ کا معنی یہ ہے کہ ’’جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادات چاہے فرض ہوں یا نفل، ان کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو ۔اور اگر تقویٰ سے مراد فرائض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا مراد لیا جائے اور وسیلہ تلاش کرنے سے مُطْلَقاً ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے تو بھی درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے محبت، صدقات کی ادائیگی، اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی زیارت، دعا کی کثرت، رشتہ داروں سے صِلہ رَحمی کرنا اور بکثرت ذِکْرُ اللہ عَزَّوَجَلَّمیں مشغول رہنا وغیرہ بھی اسی عموم میں شامل ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے قریب کر دے اسے لازم پکڑ لو اور جو بارگاہِ الہٰی سے دور کرے اسے چھوڑ دو۔ (صاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۴۹۷)
نیک بندوں کو وسیلہ بنانا جائز ہے:
یاد رکھئے! رب تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے نیک بندوں کو وسیلہ بنانا، ان کے وسیلے سے دعائیں کرنا، ان کے تَوَسُّل سے بارگاہِ ربِّ قدیر عَزَّوَجَلَّ میں اپنی جائز حاجات کی تکمیل کے لئے اِلتجائیں کرنا نہ صرف جائز بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا طریقہ رہا ہے۔ چنانچہ اس سے متعلق یہاں 3 روایات ملاحظہ ہوں :
(1)… صحیح بخاری میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہو جاتے تو حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عباس بن عبدُالمطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے وسیلے سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتاتھا اور ا ب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا جان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوو سیلہ بناتے ہیں کہ ہم پر بارش برسا۔ تو لوگ سیراب کیے جاتے تھے۔ (بخاری، کتاب الاستسقاء، باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، ۱ / ۳۴۶، الحدیث: ۱۰۱۰)
(2)…حضرت اوس بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مدینۂ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہاسے ا س کی شکایت کی ۔ آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا: رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور کی طرف غور کرو ،اس کے اوپر (چھت میں ) ایک طاق آسمان کی طرف بنادو حتّٰی کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ رہے ۔ لوگوں نے ایسا کیا تو ہم پر اتنی بارش برسی کہ چارہ اُگ گیا اور اونٹ موٹے ہوگئے حتّٰی کہ چربی سے گویا پھٹ پڑے، تو اس سال کا نام عَامُ الْفَتْق یعنی پھٹن کا سال رکھا گیا۔(سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالٰی نبیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۹۲)
(3)…بلکہ خود رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی تعلیم ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دی، چنانچہ حضرت عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے توان کو یہ دعا ارشاد فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ہَذِہٖ لِتُقْضٰی اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں ، اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، میرے لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرما۔(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲ / ۱۵۶، الحدیث: ۱۳۸۵)
نوٹ: جو شخص اس حدیثِ پاک میں مذکور دعا پڑھنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس دعا میں ان الفاظ’’یَا مُحَمَّدُ‘‘ کی جگہ ’’یَا نَبِیَّ اللہ ‘‘یا ’’ یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ پڑھے۔ اس بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ فاتحہ کی آیت نمبر 4 کی تفسیر میں مذکور کلام ملاحظہ فرمائیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لِیَفْتَدُوْا بِهٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۳۶)یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْهَا٘-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۷)
ترجمۂ کنزالایمان: بیشک وہ جو کافر ہوئے جو کچھ زمین میں سب اور اس کی برابر اور اگر ان کی ملک ہو کہ اسے دے کر قیامت کے عذاب سے اپنی جان چھڑائیں تو ان سے نہ لیا جائے گا اور ان کے لئے دکھ کا عذاب ہے۔ دوزخ سے نکلنا چاہیں گے اور وہ اس سے نہ نکلیں گے اور ان کو دوامی سزا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اگر کافر لوگ جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اور اس کے برابر اتنا ہی اور اس کے ساتھ (ملاکر) قیامت کے دن کے عذاب سے چھٹکارے کے لئے دیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وہ دوزخ سے نکلنا چاہیں گے اور وہ اس سے نکل نہ سکیں گے اور ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے۔
{لِیَفْتَدُوْا بِهٖ: تاکہ فدیہ دے کر جان چھڑائیں۔} یعنی اگر کافر دنیا کا مالک ہو اور اس کے ساتھ اس کے برابر دوسری دنیا کا مالک ہو اور یہ سب کچھ اپنی جان کو قیامت کے دن کے عذاب سے چھڑانے کے لئے فدیہ کر دے تو ا س کا یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور قیامت کے دن کافروں کو عذاب ضرور ہو گا، اس دن ان کے پاس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہو گی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱ / ۴۹۱)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن جب کافر کو پیش کیا جائے گا تو ا س سے کہا جائے گا کہ اگر تیرے پاس اتنا سونا ہو کہ اس سے زمین بھر جائے تو کیا تو اسے اپنے بدلے میں دینے کوتیار ہو جاتا؟ وہ اِثبات میں جواب دے گا تو اس سے کہا جائے گا: تم سے اس کی نسبت بہت ہی آسان چیز کا مطالبہ کیا گیا تھا (یعنی ایمان کا)۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب من نوقش الحساب عذّب، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۶۵۳۸) حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص سے فرمائے گا جسے جہنم میں سب سے کم عذاب ہو گا کہ اگر تیرے پاس زمین کی ساری چیزیں ہوں تو کیا تو انہیں اپنے بدلے میں دے دیتا۔ وہ جواب دے گا :جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا :میں نے اس سے بھی آسان چیز تجھ سے چاہی تھی جب کہ تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا تو تو نے انکار کیا اور میرے ساتھ شرک کرتا رہا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۱، الحدیث: ۶۵۵۷)
ایمان کی حفاظت کی فکر کرنا بہت ضروری ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ایمان ہوگا تو ہی قیامت کے دن اعمال کا اجر ملے گا، تبھی شفاعت کا فائدہ ہوگا، تبھی رحمت ِ الہٰی متوجہ ہوگی اور تبھی جہنم سے چھٹکارا ملے گا، اس لئے ایمان کی حفاظت کی فکر کرنا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے بزرگانِ دین نیک اعمال کی کثرت کے باوجود ہمیشہ برے خاتمے سے ڈرتے رہتے تھے ،چنانچہ : جب حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ بے حد بے قرار اور مُضْطَرب ہوئے اور زار وقطار رونے لگے۔ لوگوں نے عرض کی :حضور! ایسی گریہ و زاری نہ کریں ، اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مغفرت آپ کے گناہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے جواب دیا:مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ میرا خاتمہ بالخیر ہوگا، اگر یہ پتا چل جائے کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو گا تو مجھے پہاڑوں کے برابر گناہوں کی بھی پرواہ نہ ہو گی۔
حضرت امام حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا گیا: آپ کا کیا حال ہے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:جس شخص کی کشتی دریا کے درمیان جا کر ٹوٹ جائے ،اس کے تختے بکھر جائیں اور ہر شخص ہچکولے کھاتے تختوں پر نظر آئے تو اس کاکیا حال ہو گا؟ عرض کی گئی: بے حد پریشان کُن۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :میرا بھی یہی حال ہے۔
ایک بار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایسے دل گرفتہ ہوئے کہ کئی سال تک ہنسی نہ آئی۔ لوگ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایسے دیکھتے جیسے کوئی قید ِتنہائی میں ہے اور اسے سزائے موت سنائی جانے والی ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس غم و حزن کاسبب دریافت کیاگیا کہ آپ اتنی عبادت و ریاضت اور مجاہدات کے باوجود فکرمند کیوں رہتے ہیں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’مجھے ہر وقت یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جائے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے اور وہ فرما دے کہ ’’تم جو چاہے کرو مگر میری رحمت تمہارے شامل حال نہ ہو گی۔ بس اسی وجہ سے میں اپنی جان پگھلا رہا ہوں(کیمیاء سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل سیم در خوف ورجا، ۲ / ۸۲۵-۸۳۲)۔
ایمان پہ موت بہتر او نفس تیری ناپاک زندگی سے
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۳۸)
ترجمۂ کنزالایمان: اور جو مرد یا عورت چور ہو تو ان کا ہاتھ کاٹو ان کے کیے کا بدلہ اللہ کی طرف سے سزااور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو مرد یا عورت چور ہو تواللہ کی طرف سے سزا کے طور پران کے عمل کے بدلے میں ان کے ہاتھ کاٹ دو اوراللہ غالب حکمت والا ہے۔
{فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا:تو ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔} اس آیت میں چور کی سزا بیان کی گئی ہے کہ شرعی اعتبار سے جب چوری ثابت ہوجائے تو چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
چوری کرنے کا شرعی حکم اور ا س کی وعیدیں :
چوری گناہِ کبیرہ ہے اور چور کے لئے شریعت میں سخت وعیدیں ہیں، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : چور چوری کرتے وقت مؤمن نہیں رہتا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی۔۔۔ الخ، ص۴۸، الحدیث: ۱۰۰(۵۷)) انہی سے روایت ہے، حضورِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اگر اس نے ایسا کیا (یعنی چوری کی) تو بے شک اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے اُتار دیا پھر اگر اس نے تو بہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی تو بہ قبول فرما لے گا۔(نسائی، کتاب قطع السارق، تعظیم السرقۃ، ص۷۸۳، الحدیث: ۴۸۸۲)
چوری کی تعریف:
سَرِقَہْ یعنی چوری کا لغوی معنی ہے خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اٹھا لینا۔ (ہدایہ، کتاب السرقۃ، ۱ / ۳۶۲)
جبکہ شرعی تعریف یہ ہے کہ عاقل بالغ شخص کا کسی ایسی محفوظ جگہ سے کہ جس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ہو دس درہم یا اتنی مالیت (یا اس سے زیادہ) کی کوئی ایسی چیز جو جلدی خراب ہونے والی نہ ہو چھپ کر کسی شبہ و تاویل کے بغیر اٹھا لینا۔ (فتح القدیر، کتاب السرقۃ، ۵ / ۱۲۰)
چوری سے متعلق2شرعی مسائل:
(1)…چوری کے ثبوت کے دو طریقے ہیں (1) چور خود اقرار کر لے اگرچہ ایک بار ہی ہو۔ (2) دو مرد گواہی دیں ، اگر ایک مرد اور دو عورتوں نے گواہی دی تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
(2)…قاضی گواہوں سے چند باتوں کا سوال کرے ،کس طرح چوری کی، اور کہاں کی، اور کتنے کی کی، اور کس کی چیز چرائی؟ جب گواہ ان امور کا جواب دیں اور ہاتھ کاٹنے کی تمام شرائط پائی جائیں توہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔
تنبیہ: حدود و تعزیر کے مسائل میں عوامُ النّاس کو قانون ہاتھ میں لینے کی شرعاً اجازت نہیں۔ چوری کے مسائل کی تفصیلی معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 9کا مطالعہ کیجئے۔
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو جو اپنے ظلم کے بعد توبہ کرے اور سنور جائے تو اللہ اپنی مہر سے اس پر رجوع فرمائے گا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو جو اپنے ظلم کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہاپنی مہربانی سے اس پر رجوع فرمائے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{فَمَنْ تَابَ: تو جو توبہ کرلے۔} توبہ نہایت نفیس شے ہے ۔ کتنا ہی بڑا گناہ ہو اگر اس سے توبہ کرلی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنا حق معاف فرما دیتا ہے اور تو بہ کرنے والے کو عذابِ آخرت سے نجات دے دیتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ جس گناہ میں کسی بندے کا حق بھی شامل ہووہاں توبہ کیلئے ضروری ہے کہ اس بندے کے حق کی ادائیگی بھی ہوجائے۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۴۰)
ترجمۂ کنزالایمان: کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی سزا دیتا ہے جسے چاہے اور بخشتا ہے جسے چاہے اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تجھے معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادرہے۔
{یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ: جسے چاہے سزا دیتا ہے۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ عذاب کرنا اور رحمت فرمانا اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر ہے ،وہ مالک ہے جو چاہے کرے کسی کو اعتراض کرنے کی مجال نہیں۔اس سے قَدرِیَہ( یعنی تقدیر کے منکر) اور معتزلہ فرقے کا رد ہوگیا جونیک پر رحمت اور گناہگار پر عذاب کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب کہتے ہیں کیونکہ واجب ہونا مشیت کے منافی ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۱ / ۴۹۴)
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْاۚۛ-سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَۙ-لَمْ یَاْتُوْكَؕ-یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖۚ-یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْاؕ-وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـاؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ۚۖ-وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۴۱)
ترجمۂ کنزالایمان: اے رسول تمہیں غمگین نہ کریں وہ جو کفر پر دوڑتے ہیں کچھ وہ جواپنے منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور ان کے دل مسلمان نہیں اور کچھ یہودی جھوٹ خوب سنتے ہیں اور لوگوں کی خوب سنتے ہیں جو تمہارے پاس حاضر نہ ہوئے اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں کے بعد بدل دیتے ہیں کہتے ہیں یہ حکم تمہیں ملے تو مانو اور یہ نہ ملے تو بچو اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو ہرگز تو اللہ سے اس کا کچھ بنا نہ سکے گا وہ ہیں کہ اللہ نے ان کا دل پاک کرنا نہ چاہا انہیں دنیا میں رسوائی ہے، اور انہیں آخرت میں بڑا عذاب۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسول! جو کفر میں دوڑے جاتے ہیں تمہیں غمگین نہ کریں (یہ وہ ہیں ) جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دل مسلمان نہیں اور کچھ یہودی بہت جھوٹ سنتے ہیں ، اُن دوسرے لوگوں کی (بھی) خوب سنتے ہیں جو آپ کی بارگاہ میں نہیں آئے۔ یہ اللہ کے کلام کو اس کے مقامات کے بعد بدل دیتے ہیں۔ یہ (آپس میں ) کہتے ہیں : اگر تمہیں یہ (تحریف والا) حکم ملے تو اسے لے لینا اور اگر تمہیں یہ نہ ملے تو بچنا اور جسے اللہگمراہ کرنا چاہے تو ( اے مخاطب!) تو ہرگز اسے اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنے کا اللہ نے ارادہ نہیں فرمایا۔ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
{لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ:جو کفر میں دوڑے جاتے ہیں تمہیں غمگین نہ کریں۔} یہاں سے منافقین کی حرکتوں کا بیان ہے ۔سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ‘‘ کے مبارک خطاب سے عزت عطا فرمائی اور حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکینِ قلب کا سامان مہیا فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، میں آپ کا ناصر و معین (یعنی مددگار) ہوں۔ منافقین کے کفر میں جلدی کرنے یعنی اُن کے کفر ظاہر کرنے اور کفار کے ساتھ دوستیاں کرلینے سے آپ رنجیدہ نہ ہوں۔پھر منافقین کی منافقت کا بیان فرمایا کہ صرف زبان سے کلمہ پڑھتے ہیں اور دل سے ایمان نہیں لاتے۔
{وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْاۚۛ-سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ:اور کچھ یہودی بہت جھوٹ سنتے ہیں۔} یہاں سے یہودیوں کا کردار بیان کیا گیا کہ وہ اپنے سرداروں کا جھوٹ خوب سنتے ہیں اور ان کے اِفتراؤں کو قبول کرتے ہیں اور اس کے ساتھ دوسرے لوگوں یعنی خیبر کے یہودیوں کی باتوں کو بھی خوب مانتے ہیں جن کے حالات آیت میں آگے بیان ہورہے ہیں۔
{یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ: یہ اللہ کے کلام کو اس کے مقامات کے بعد بدل دیتے ہیں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ خیبر کے معزز شمار کئے جانے والے یہودیوں میں سے ایک شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت نے زنا کیا۔ اس کی سزا توریت میں سنگسار کرنا تھی، یہ انہیں گوارا نہ تھا اس لئے انہوں نے چاہا کہ اس مقدمے کا فیصلہ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کرائیں ، چنانچہ اُن دونوں مجرموں کو ایک جماعت کے ساتھ مدینہ طیبہ بھیجا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ اگر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حد یعنی کوڑے مارنے کا حکم دیں تو مان لینا اور سنگسار کرنے کا حکم دیں تو نہ ماننا۔ وہ لوگ بنی قریظہ اور بنی نضیرکے یہودیوں کے پاس آئے اور سمجھے کہ یہ حضورِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہم وطن ہیں اور اُن کے ساتھ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صلح بھی ہے لہٰذا اُن کی سفارش سے کام بن جائے گا، چنانچہ یہود ی سرداروں میں سے کعب بن اشرف ، کعب بن اسد ،سعید بن عمرو، مالک بن صیف اور کنانہ بن ابی الحقیق وغیرہا انہیں لے کر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسئلہ دریافت کیا۔ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’کیا میرا فیصلہ مانو گے؟ ‘‘انہوں نے اقرار کیا۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رجم یعنی سنگسار کرنے کا حکم دیدیا۔ یہودیوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا تو حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ تم میں ایک نوجوان اِبنِ صوریا ہے، کیاتم اس کو جانتے ہو؟ کہنے لگے، ہاں۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ وہ کیسا آدمی ہے؟ یہودی کہنے لگے کہ آج روئے زمین پریہودیوں میں اس کے پائے کا کوئی عالم نہیں ، توریت کایکتا ماہر ہے۔ ارشاد فرمایا ’’ اس کو بلاؤ۔ چنانچہ اسے بلایا گیا۔ جب وہ حاضر ہوا تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا، کیا تو ابن صوریا ہے؟ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا، کیا یہودیوں میں سب سے بڑا عالم تو ہی ہے؟ اس نے عر ض کی: لوگ تو ایسا ہی کہتے ہیں۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہودیوں سے فرمایا ’’کیا اس معاملہ میں تم اس کی بات مانو گے؟ سب نے اقرار کیا۔ تب سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ابنِ صوریا سے فرمایا ’’ میں تجھے اُس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم دیتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،جس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر توریت نازل فرمائی اور تم لوگوں کو مصر سے نکالا اور تمہارے لئے دریامیں راہیں بنائیں اور تمہیں نجات دی، فرعونیوں کو غرق کیا اور تمہارے لئے بادل کو سائبان بنایا ،’’ منّ و سلوٰی ‘‘ نازل فرمایا اور اپنی کتاب نازل فرمائی جس میں حلال و حرام کا بیان ہے، کیا تمہاری کتاب میں شادی شدہ مرد و عورت کے لیے سنگسار کرنے کا حکم ہے؟ ابنِ صوریا نے عرض کی: بے شک یہ حکم توریت میں ہے، اسی کی قسم جس کا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ذکر کیا۔ اگر مجھے عذاب نازل ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اقرار نہ کرتا اور جھوٹ بول دیتا ،مگر یہ فرمائیے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کتاب میں اس کا کیا حکم ہے؟ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب چار عادل اور معتبر گواہوں کی گواہی سے زنا صراحت کے ساتھ ثابت ہوجائے تو سنگسار کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ ابنِ صوریا نے عرض کی: خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم، بالکل ایسا ہی توریت میں ہے۔ پھر حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ابنِ صوریا سے دریافت فرمایا کہ: حکمِ الہٰی میں تبدیلی کس طرح واقع ہوئی؟ اس نے عرض کیا کہ’’ ہمارا دستور یہ تھا کہ ہم کسی امیر کو پکڑتے تو چھوڑ دیتے اور غریب آدمی پر حد قائم کرتے ،اس طرزِ عمل سے امراء میں زنا کی بہت کثرت ہوگئی یہاں تک کہ ایک مرتبہ بادشاہ کے چچازاد بھائی نے زنا کیا تو ہم نے اس کو سنگسار نہ کیا، پھر ایک دوسرے شخص نے اپنی قوم کی عورت سے زنا کیا تو بادشاہ نے اس کو سنگسار کرنا چاہا، اس کی قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور انہوں نے کہا جب تک بادشاہ کے بھائی کو سنگسار نہ کیا جائے اس وقت تک اس کو ہر گز سنگسار نہ کیا جائے گا۔ تب ہم نے جمع ہو کر غریب اورامیر سب کے لیے بجائے سنگسار کرنے کے یہ سزا نکالی کہ چالیس کوڑے مارے جائیں اور منہ کالا کرکے گدھے پر الٹا بٹھا کر شہر میں گشت کرایا جائے ۔ یہ سن کر یہودی بہت بگڑے اور ابنِ صوریا سے کہنے لگے’’ تو نے انہیں یعنی نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بڑی جلدی خبر دیدی اور ہم نے جتنی تیری تعریف کی تھی تو اس کا مستحق نہیں۔ ابنِ صوریا نے کہا کہ’’ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے توریت کی قسم دلائی، اگر مجھے عذاب کے نازل ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر نہ دیتا ۔ اس کے بعد رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم سے ان دونوں زنا کاروں کو سنگسار کیا گیا اور یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۱ / ۴۹۴-۴۹۵)
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِؕ-فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْۚ-وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(۴۲)
ترجمۂ کنزالایمان: بڑے جھوٹ سننے والے بڑے حرام خور تو اگر تمہارے حضور حاضر ہوں تو ان میں فیصلہ فرماؤ یا ان سے منہ پھیرلو اور اگر تم ان سے منہ پھیرلو گے تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے اور اگر ان میں فیصلہ فرماؤ تو انصاف سے فیصلہ کرو بیشک انصاف والے اللہ کو پسند ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بہت جھوٹ سننے والے ،بڑے حرام خورہیں تو اگریہ تمہارے حضور حاضر ہوں تو ان میں فیصلہ فرماؤ یا ان سے منہ پھیرلو (دونوں کا آپ کو اختیار ہے) اور اگر آپ ان سے منہ پھیرلو گے تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اور اگر آپ ان میں فیصلہ فرمائیں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیں۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
{سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ:بہت جھوٹ سننے والے۔} سابقہ آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی عوام تھی جو پادریوں اور سرداروں کے جھوٹ سن کر اس پر عمل کرتے تھے اور اِس آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی حکمران اور پادری ہیں جو رشوتیں لے کر حرام کو حلال کرتے اور شریعت کے احکام کو بدل دیتے تھے۔
رشوت کا شرعی حکم اور ا س کی وعیدیں :
رشوت کا لینا دینا دونوں حرام ہیں اور لینے دینے والے دونوں جہنمی ہیں ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’رشوت لینا مطلقًا حرام ہے ،جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے (وہ) رشوت ہے یونہی جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے لیکن اپنے اوپر سے دفعِ ظلم (یعنی ظلم دور کرنے) کے لئے جو کچھ دیاجائے (وہ) دینے والے کے حق میں رشوت نہیں ،یہ دے سکتا ہے، لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام۔(فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۹۷)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’رشوت لینا مطلقاً گناہِ کبیرہ ہے ،لینے والا حرام خوار ہے، مستحقِ سخت عذابِ نار ہے، دینا اگر بمجبوری اپنے اوپر سے دفعِ ظلم کو ہو تو حرج نہیں اور اپنا آتا وصول کرنے کو ہو تو حرام ہے اور لینے دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور دوسرے کا حق دبانے یا اور کسی طرح ظلم کرنے کے لئے دے تو سخت تر حرام اور مستحق اَشَد غضب و اِنتقام ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۸ / ۴۶۹)
اَحادیث میں رشوت لینے ،دینے والے کے لئے شدید وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابوحمید ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کو بنی سُلَیم سے زکوٰۃ وصول کرنے پر عامل مقرر کیا جسے اِبْنِ لُتْبِیَہ کہا جاتا تھا۔ جب اس نے آ کر حساب دیا تو کہا : یہ آپ کا مال ہے اور یہ میرا تحفہ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اچھا! تم اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھے رہتے اور دیکھتے کہ تمہارے لئے (وہاں سے) کتنے تحفے آتے ہیں اور تم اپنے بیان میں کتنے سچے ہو۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم سے خطاب کیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا ’’جب میں تم میں سے کسی کو کسی جگہ کا عامل بناتا ہوں جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے تو وہ میرے پاس ا ٓکر کہتا ہے :یہ آپ کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے تحفۃً دیا گیا ہے۔ یہ کیوں نہ کیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہتا یہاں تک کہ ا س کے پاس تحفے آتے۔ خدا کی قسم! تم میں سے جو کوئی بغیر حق کے کسی چیز کو لے گا وہ اسے اٹھا ئے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔ میں اچھی طرح پہچانتا ہوں کہ جب تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا تو ا س نے اونٹ اٹھایا ہو ا ہو گا جو بلبلاتا ہو گا یا گائے جو ڈگراتی ہو گی یا بکری جو ممیاتی ہو گی۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دستِ مبارک بلند فرمایا یہاں تک کہ بغل کی سفیدی نظر آنے لگی اور کہنے لگے :اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، کیا میں نے (تیرا حکم) پہنچا دیا ؟ (بخاری، کتاب الحیل، باب احتیال العامل لیہدی لہ، ۴ / ۳۹۸، الحدیث: ۶۹۷۹)
(2)… حضرت عبداللہ بن عمر و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۵۵۰، الحدیث: ۲۰۲۶)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو گوشت سُحت سے پلا بڑھا تو آگ اس کی زیادہ حق دار ہے۔ عرض کی گئی :سُحت سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا: فیصلہ کرنے میں رشوت لینا۔(جمع الجوامع، قسم الاقوال، حرف الکاف، ۵ / ۳۹۱، الحدیث: ۱۵۹۰۴)
رشوت سے حاصل کئے ہوئے مال کا شرعی حکم:
جس نے کوئی مال رشوت سے حاصل کیا ہو تو اس پر فرض ہے کہ جس جس سے وہ مال لیا انہیں واپس کر دے، اگر وہ لوگ زندہ نہ رہے ہوں توان کے وارثوں کو وہ مال دیدے، اگر دینے والوں کا یا ان کے وارثوں کا پتا نہ چلے تو وہ مال فقیروں پر صدقہ کر دے ۔ خرید و فروخت وغیرہ میں ا س مال کو لگانا حرامِ قطعی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ مالِ رشوت کے وبال سے سبکدوش ہونے کانہیں ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۵۱، ملخصاً) یہاں چونکہ رشوت پر کچھ تفصیلی کلام کیا ہے لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے کچھ مزید فقہی وضاحت کردی جائے چونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ رشوت شاید وہی ہے جو سرکاری محکموں میں دی جاتی ہے یا جو غلط کام کروانے کیلئے دی جاتی ہے یا جو رشوت کا نام لے کر دی جائے حالانکہ مذکورہ بالا صورتیں اور ان کے علاوہ بھی بہت سی صورتیں رشوت میں ہی داخل ہیں خواہ رشوت کا نام لیا جائے یا نہیں۔ ایک آدھ صورت مُسْتَثنیٰ ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ رشوت کے بارے میں اسی طرح کی غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے یہاں فتاویٰ رضویہ سے ایک اہم فتویٰ نقل کیا جاتا ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو شخص بذاتِ خود خواہ از جانب حاکم کسی طرح کا قَہر وتَسلُّط (دوسروں پر اختیار) رکھتا ہو جس کے سبب لوگوں پر اس کا کچھ بھی دباؤ ہواگرچہ وہ فی نَفسہ ان پر جَبر وتعدی نہ کرے دباؤ نہ ڈالے اگرچہ وہ کسی فیصلہ قطعی بلکہ غیر قطعی کا بھی مجاز نہ ہو جیسے کو توال، تھانہ دار، جمعدار یا دہقانیوں کے لئے زمیندار مقدم پٹواری یہاں تک کہ پنچایتی قوموں یا پیشوں کے لئے ان کا چودھری، ان سب کو کسی قسم کے تحفہ لینے یا دعوتِ خاصہ (یعنی وہ دعوت کہ خاص اسی کی غرض سے کی گئی ہو کہ اگر یہ شریک نہ ہو تو دعوت ہی نہ ہو) قبول کرنے کی اصلاً اجازت نہیں مگر تین صورتوں میں ، اول اپنے افسر سے جس پر اس کا دباؤ نہیں ، نہ وہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی طرف سے یہ ہدیہ ودعوت اپنے معاملات میں رعایت کرانے کے لئے ہے۔ دوم ایسے شخص سے جو اس کے اس منصب سے پہلے بھی اسے ہدیہ دیتا یا دعوت کرتا تھا بشرطیکہ اب سے اسی مقدار پر ہے ورنہ زیادت روا (جائز) نہ ہوگی مثلاً پہلے ہدیہ ودعوت میں جس قیمت کی چیز ہوتی تھی اب اس سے گراں قیمت (زیادہ قیمتی)، پر تکلف ہوتی ہے یا تعداد میں بڑھ گئی یا جلد جلد ہونے لگی کہ ان سب صورتوں میں زیادت موجود اور جواز مفقود، مگر جبکہ اس شخص کا مال پہلے سے اس زیادت کے مناسب زائد ہوگیا ہو جس سے سمجھا جائے کہ یہ زیادت اس شخص کے منصب کے سبب نہیں بلکہ اپنی ثروت بڑھنے کے باعث ہے۔ سوم اپنے قریب محارم سے، جیسے ماں باپ اولاد بہن بھائی نہ چچا ماموں خالہ پھوپھی کے بیٹے کہ یہ محارم نہیں اگرچہ عرفاً انہیں بھی بھائی کہیں۔ محارم سے مطلقاً اجازت ظاہر عبارت قدوری پر ہے ورنہ امام سغناقی نے نہایہ پھر امام محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اسے بھی صورت دوم ہی میں داخل فرمایا کہ محارم سے بھی ہدیہ ودعوت کا قبول اسی شرط سے مشروط کہ پیش از حصولِ منصب بھی وہ ا س کے ساتھ یہ برتاؤ برتتے ہوں مگر یہ کہ اسے یہ منصب ملنے سے پہلے وہ فقراتھے اب صاحبِ مال ہوگئے کہ اس تقدیر پر پیش ازمنصب عدمِ ہدیہ ودعوت بربنائے فقر سمجھا جائے گا اور فی الواقع اظہر من حیث الدلیل یہی نظر آتا ہے کہ جب باوصف قدرت پیش از منصب عدم یا قلت وبعد منصب شروع باکثرت بربنائے منصب ہی سمجھی جائے گی اس تقدیر پر صرف دو ہی صورتیں مستثنیٰ رہیں پھر بہرحال جو صورت مستثنیٰ ہوگی وہ اسی حال میں حکم جوا ز پاسکتی ہے جب اس وقت اس شخص کا کوئی کام اس سے متعلق نہیں ورنہ خاص کام پڑنے غرض متعلق ہونے کے وقت اصلاً اجازت نہیں خواہ وہ افسر ہو یا بھائی یا پہلے سے ہدیہ وغیرہا دینے والا بلکہ ایسے وقت عام دعوت میں شریک ہونا بھی نہ چاہئے نہ کہ خاص، پھر جہاں جہاں ممانعت ہے اس کی بنا صرف تہمت و اندیشہ رعایت پر ہے حقیقۃً وجود رعایت ضرور نہیں کہ اس کاا پنے عمل میں کچھ تغیر نہ کرنا یا اس کا اس کی عادت بے لوثی سے آگاہ ہونا مفید جواز ہوسکے۔ دنیا کے کام امید ہی پر چلتے ہیں ، جب یہ دعوت و ہدایا قبول کیا کرے گا تو ضرور خیال جائے گا کہ شاید اب کی بار کچھ اثر پڑے کہ مفت مال دینے کی تاثیر مجرب ومشاہد ہے اس بار نہ ہوئی اس بار ہوگی، اس بار نہ ہوئی پھر کبھی ہوگی، اور یہ حیلہ کہ اس کا ہدیہ و دعوت بربنائے اخلاق انسانیت ہے نہ بلحاظ منصب، اس کا رد خود حضورِ اقدس سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماچکے ہیں ، جب ایک صاحب کو تحصیل زکوٰۃ پر مقرر فرما کر بھیجا تھا انہوں نے اموالِ زکوٰۃ حاضر کئے اور کچھ مال جدا رکھے کہ یہ مجھے ملے ہیں فرمایا اپنی ماں کے گھر بیٹھ کر دیکھا ہوتا کہ اب کتنے تحفے ملتے ہیں یعنی یہ ہدایا صرف اسی منصب کی بنا پر ہیں اگر گھر بیٹھا ہوتا تو کون آکر دے جاتا، اس مسئلہ کی تفاصیل میں اگرچہ کلام بہت طویل ہے مگر یہاں جو کچھ مذکور ہوابعونہ تعالیٰ خلاصہ تنقیح وصالح تحویل ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۸ / ۱۷۰-۱۷۱)
{فَاِنْ جَآءُوْكَ: تو اگر وہ تمہارے پاس آئیں۔} یہاں سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کواختیار دیا گیا کہ اہلِ کتاب آپ کے پاس کوئی مقدمہ لائیں تو آپ کو اختیار ہے فیصلہ فرمائیں یا نہ فرمائیں۔
وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِیْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَؕ-وَ مَاۤ اُولٰٓىٕكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۠(۴۳)
ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ تم سے کیونکر فیصلہ چاہیں گے، حالانکہ ان کے پاس توریت ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے بایں ہَمہ اسی سے منہ پھیرتے ہیں اور وہ ایمان لانے والے نہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ آپ کو کیسے حاکم بنائیں گے حالانکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے ۔ اس کے باوجود یہ منہ پھیرتے ہیں اور یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
{وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ: اور یہ آپ کو کیسے حاکم بنائیں گے۔} ارشاد فرمایا گیا کہ شادی شدہ مرد اورشادی شدہ عورت کے زنا کی سزا رجم یعنی سنگسار کرنا ہے اور یہ حکم تورات میں موجود ہے اور یہ لوگ توریت پر ایمان لانے کے دعوے دار بھی ہیں اور اُنہیں یہ بھی معلوم ہے کہ توریت میں رجم کا حکم ہے اُس حکم کو نہ ماننا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے منکر ہوتے ہوئے بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فیصلہ چاہنا نہایت تعجب کی بات ہے۔
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌۚ-یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَۚ-فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ(۴۴)
ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ہم نے توریت اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے، اس کے مطابق یہود کو حکم دیتے تھے ہمارے فرمانبردار نبی اور عالم اور فقیہ کہ ان سے کتابُ اللہ کی حفاظت چاہی گئی تھی اور وہ اس پر گواہ تھے تو لوگوں سے خوف نہ کرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے ذلیل قیمت نہ لو اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے وہی لوگ کافر ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور ہے، فرمانبردار نبی اور ربانی علماء اور فقہاء یہودیوں کو اسی کے مطابق حکم دیتے تھے کیونکہ انہیں (اللہ کی اس) کتاب کا محافظ بنایا گیا تھااور وہ اس کے خودگواہ تھے۔ تو لوگوں سے خوف نہ کرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی ذلیل قیمت نہ لو اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا تو وہی لوگ کافر ہیں۔
{اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ: بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی۔} اس آیت ِمبارکہ میں توریت شریف کی عظمت اور اس کے مطابق انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فیصلہ فرمانا اور اسی کے مطابق سچے علماء و فقہاء کا فیصلہ کرنا بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد دورِ رسالت اور اس کے بعد کے یہودیوں کو اصلی توریت پر عمل کرتے ہوئے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، چنانچہ فرمایا گیا کہ بیشک ہم نے توریت کو نازل فرمایا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بعد کے کثیر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علماء و فقہاء توریت کے مطابق ہی فیصلے کرتے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سے تورات کے متعلق یہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ اسے اپنے سینوں میں محفوظ رکھیں اور اس کے درس میں مشغول رہیں تاکہ وہ کتاب فراموش نہ ہو اور اس کے احکام ضائع نہ ہوں۔(ابو سعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۲ / ۴۵، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۴۹۸، ملتقطاً)
تو اے یہودیو! تم تورات میں مذکور حضور سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت اور رجم کا حکم ظاہر کرنے میں لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ مراد یہ ہے کہ احکامِ الہٰیہ کی تبدیلی بہر صورت ممنوع ہے خواہ لوگوں کے خوف اور اُن کی ناراضی کے اندیشہ سے ہو یا مال و جاہ اور رشوت کی لالچ میں ہو۔ اس آیت میں علماء کیلئے بھی ایک حکم موجود ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کی حفاظت کریں اور اس کی آیات کے بدلے دنیا کی ذلیل دولت حاصل نہ کریں اور لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔
پہلی شریعتوں کے بیان کئے گئے احکام سے متعلق اہم مسئلہ:
توریت کے مطابق انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حکم دینا جو اس آیت میں مذکور ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم سے پہلی شریعتوں کے جو احکام اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیان فرمائے ہوں اور ان کے ترک کا حکم ہمیں نہ دیا ہو اور نہ وہ منسوخ کئے گئے ہوں وہ ہم پر لازم ہوتے ہیں۔(ابو سعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۲ / ۴۵، ملخصاً)
وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِۙ-وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّۙ-وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌؕ-فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۵)
ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے پھر جو دل کی خوشی سے بدلہ کراوے تو وہ اس کا گناہ اتار دے گا اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تورات میں ان پرلازم کردیاتھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت (کا قصاص لیا جائے گا) اور تمام زخموں کا قصاص ہوگا پھر جو دل کی خوشی سے (خود کو) قصاص کے لئے پیش کر دے تویہ اس کا کفارہ بن جائے گا اور جواس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
{وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ: اور ہم نے ان پر لازم کردیا تھا۔} اس آیت میں اگرچہ یہ بیان ہے کہ توریت میں یہودیوں پر قصاص کے یہ احکام تھے لیکن چونکہ ہمیں اُن کے ترک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اس لئے ہم پر بھی یہ احکام لازم رہیں گے کیونکہ سابقہ شریعتوں کے جو احکام اللہ تعالیٰ ا و رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بیان سے ہم تک پہنچے اور مَنسوخ نہ ہوئے ہوں وہ ہم پر لازم ہوا کرتے ہیں جیسا کہ اُوپر کی آیت سے ثابت ہوا۔ آیت میں زخموں کے ، اعضاء کے اور جان کے قصاص کا حکم بیان فرمایا گیا ،اَعضاء اور زخموں کے قصاص میں کافی تفصیل ہے جس کیلئے فقہی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے اور جان کے قصاص کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی کو قتل کیا تو اس کی جان مقتول کے بدلے میں لی جائے گی خواہ وہ مقتول مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، مسلم ہو یا ذمّی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہ کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۲۸۷)
{فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ: تو جو خود کوقصاص کے لئے پیش کردے۔} یعنی جو قاتل یا جرم کرنے والا اپنے جرم پر نادم ہو کر گناہ کے وبال سے بچنے کے لئے بخوشی اپنے اوپر حکم شرعی جاری کرائے تو قصاص اس کے جرم کا کفارہ ہوجائے گا اور آخرت میں اُس پر عذاب نہ ہوگا۔ (جمل مع جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۲ / ۲۲۸)
بعض مفسرین نے اس کے معنیٰ یہ بیان کئے ہیں کہ جو صاحبِ حق قصاص کومعاف کردے تو یہ معافی اس کے لئے کفارہ ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۲۸۷)
دونوں تفسیروں کے اعتبار سے ترجمہ مختلف ہوجائے گا۔ تفسیراحمدی میں ہے یہ تمام قصاص جب ہی واجب ہونگے جب کہ صاحبِ حق معاف نہ کرے اگروہ معاف کردے تو قصاص ساقط ہو جائے گا۔(تفسیر احمدی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۳۵۹)
وَ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ۪-وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ فِیْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌۙ-وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَؕ(۴۶)
ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم ان نبیوں کے پیچھے ان کے نشانِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو لائے تصدیق کرتا ہوا توریت کی جو اس سے پہلے تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تصدیق فرماتی ہے توریت کی کہ اس سے پہلی تھی اور ہدایت اور نصیحت پرہیزگاروں کو۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے ان نبیوں کے پیچھے ان کے نقشِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اُس تورات کی تصدیق کرتے ہوئے جو اس سے پہلے موجود تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ (انجیل) اس سے پہلے موجود تورات کی تصدیق فرمانے والی تھی اور پرہیز گاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت تھی۔ {وَ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ: اور ہم نے ان نبیوں کے پیچھے ان کے نقشِ قدم پر بھیجا ۔} توریت کے احکام بیان کرنے کے بعد انجیل کے احکام کا ذکر شروع ہوا اور بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توریت کی تصدیق فرمانے والے تھے کہ تورات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نازل کردہ کتاب ہے اور توریت کے منسوخ ہونے سے پہلے اس پر عمل واجب تھا، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت میں توریت کے بعض احکام منسوخ کردئیے گئے۔ اس کے بعد انجیل کی شان بیان فرمائی گئی کہ اس میں ہدایت اور نور تھا اور ہدایت اور نصیحت تھی ۔ پہلی جگہ ہدایت سے مراد ضلالت و جہالت سے بچانے کے لیے رہنمائی کرنا ہے اور دوسری جگہ ہدایت سے سیدُ الانبیاء، حبیب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کی بشارت مراد ہے جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کا سبب ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۱ / ۵۰۰)
وَ لْیَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فِیْهِؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۴۷)
ترجمۂ کنزالایمان: اور چاہئے کہ انجیل والے حکم کریں اس پر جو اللہ نے اس میں اتارا اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کریں تو وہی لوگ فاسق ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انجیل والوں کو بھی اسی کے مطابق حکم کرنا چاہیے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا تووہی لوگ نافرمان ہیں۔
{وَ لْیَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِیْلِ: اور انجیل والوں کو حکم کرنا چاہیے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ انجیل والوں کو بھی اسی کے مطابق حکم کرنا چاہیے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انجیل میں نازل فرمایا ہے یعنی سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانا چاہیے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی تصدیق کرنی چاہیے کیونکہ انجیل میں اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب ہم نے عیسائیوں کو انجیل عطا کی تواس وقت ان کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ان احکام پر عمل کریں جو انجیل میں مذکور ہیں۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۱ / ۵۰۰، ملخصاً)
انجیل پر عمل کرنے سے متعلق ایک اعتراض کا جواب:
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قرآنِ مجید کے نزول کے بعد انجیل پر عمل کرنے کے حکم کی کیا تَوجِیہ ہو گی ؟ تواس کے چند جوابات ہیں :
(1)…انجیل میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے جو دلائل موجود ہیں اہلِ انجیل کو چاہئے کہ وہ ان دلائل کے مطابق ایمان لے آئیں۔
(2)…اہلِ انجیل ان احکام پر عمل کریں جن کوقرآن نے منسوخ نہیں کیا۔
(3)…انجیل کے احکام پر عمل کرنے سے مراد یہ ہے کہ انجیل میں تحریف نہ کریں جس طرح یہود یوں نے تورات میں تحریف کر دی تھی۔(تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۳۷۱)
لیکن تحقیق یہی ہے کہ یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے انجیل کو نازل کیا تھا اور نزولِ قرآن کے بعد قرآنِ مجید کے علاوہ کسی آسمانی کتاب پر عمل جائز نہیں ہے،اور اسلام کے علاوہ کوئی اور دین مقبول نہیں ہے۔
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِـعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّؕ-لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِؕ-اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَۙ(۴۸)
ترجمۂ کنزالایمان: اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی اور ان پر محافظ و گواہ تو ان میں فیصلہ کرو اللہ کے اتارے سے اور اے سننے والے ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کر ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کردیتا مگر منظور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے تو بھلائیوں کی طرف سبقت چاہو، تم سب کا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے تو وہ تمہیں بتادے گا جس بات میں تم جھگڑتے تھے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے حبیب !ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری جو پہلی کتابوں کی تصدیق فرمانے والی اور ان پر نگہبان ہے تو ان (اہلِ کتاب) میں اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرو اور اے سننے والے ! اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کران کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا۔ ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ بنایا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر (اس نے ایسا نہیں کیا) تا کہ جو (شریعتیں ) اس نے تمہیں دی ہیں ان میں تمہیں آزمائے تو نیکیوں کی طرف دوسروں سے آگے بڑھ جاؤ، تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے تو وہ تمہیں بتادے گا وہ بات جس میں تم جھگڑتے تھے۔
{وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ: اور ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی۔} تورات و انجیل کا تذکرہ کرنے کے بعد اب قرآنِ عظیم کا تذکرہ ہورہا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری جوسابقہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہونے والی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان پر نگہبان ہے تو جب اہلِ کتاب اپنے مُقَدَّمات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف رجوع کریں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآنِ پاک کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں۔ {لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا:ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ بنایا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ بنایا ہے یعنی فروعی اعمال ہر ایک کے خاص اور جدا جدا ہیں جیسے نمازوں ، روزوں کی تعداد اور اس طرح کے احکام جدا جدا ہیں لیکن اصل دین سب کا ایک ہے یعنی توحید و رسالت، عقیدہ آخرت، یونہی بنیادی اَخلاقیات سب کی مشترک ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ ایمان حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ سے یہی ہے کہ ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ‘‘ کی شہادت اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے آیا اس کا اقرار کرنا جبکہ شریعت ہر اُمت کی خاص ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱ / ۵۰۱)
{وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً: اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنادیتا۔} ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنادیتا مگر اس نے ایسا نہیں کیاتا کہ جو شریعتیں اس نے تمہیں دی ہیں ان میں تمہیں آزمائے اور امتحان میں ڈالے تاکہ ظاہر ہوجائے کہ ہر زمانہ کے مناسب جو احکام دیئے کیا تم اُن پر اس یقین و اعتقاد کے ساتھ عمل کرتے ہو کہ ان کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت(مرضی) سے ہے اور اس میں بہت سی حکمتیں اور دنیاوی اور اُخروی فوائد و منافع ہیں اور یا تم حق کو چھوڑ کر نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہو۔ (ابو سعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۲ / ۵۱)
{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ: تو نیکیوں کی طرف دوسروں سے آگے بڑھ جاؤ۔} قرآنِ پاک کا حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی دنیا و آخرت کا کوئی قابلِ قبول فائدہ متعلق نہیں ہے ان میں بحث و مقابلہ کرنے کی بجائے انہیں رضائے الہٰی اور بھلائی کے کاموں میں مقابلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی اسی انداز کی ایک جھلک ہے کہ شریعتوں کے اختلاف کی وجوہات میں فلسفیانہ بحثیں کرنے اور بال کی کھال اتارنے کی بجائے نیکیوں کی طرف آنے کی دعوت دی۔ اس میں ہماری بہت سی چیزوں کی اصلاح ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ ہر محاذ اور میدان میں فضولیات پر بحث و مباحثہ اور پانی سے مکھن نکالنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں اور کرنے کے کاموں کی طرف توجہ کم ہی ہوتی ہے۔ خواہ مخواہ کی باریکیاں نکالنے کو مہارت اور قابلیت شمار کیا جاتا ہے اگرچہ عملی طور پر ایسے آدمی کی حالت نہایت گری ہوئی ہو۔ بحث وہاں کی جائے جہاں اس سے کوئی فائدہ نظر آئے، صرف وقت گزاری، لوگوں کو متوجہ رکھنے، طلب ِ شہرت اور قابلیت دکھانے کیلئے اپنا اور لوگوں کا وقت ضائع کرنااور عملی دنیا میں تنکا تک نہ توڑنا عقل، دین اور اسلام سب کے منافی ہے۔ اس نصیحت کی روشنی میں بہت سے لوگوں کو اپنے طرزِ عمل پر نظر کرنے کی حاجت ہے۔ سمجھنے کیلئے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک فرمان ہی کافی ہے’’مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَایَعْنِیْہِ‘‘ آدمی کے اسلام کے حسن سے ہے کہ وہ فضول چیزوں کو چھوڑ دے۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۴)
{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ: تو نیکیوں کی طرف دوسروں سے آگے بڑھ جاؤ۔} قرآنِ پاک کا حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی دنیا و آخرت کا کوئی قابلِ قبول فائدہ متعلق نہیں ہے ان میں بحث و مقابلہ کرنے کی بجائے انہیں رضائے الہٰی اور بھلائی کے کاموں میں مقابلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی اسی انداز کی ایک جھلک ہے کہ شریعتوں کے اختلاف کی وجوہات میں فلسفیانہ بحثیں کرنے اور بال کی کھال اتارنے کی بجائے نیکیوں کی طرف آنے کی دعوت دی۔ اس میں ہماری بہت سی چیزوں کی اصلاح ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ ہر محاذ اور میدان میں فضولیات پر بحث و مباحثہ اور پانی سے مکھن نکالنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں اور کرنے کے کاموں کی طرف توجہ کم ہی ہوتی ہے۔ خواہ مخواہ کی باریکیاں نکالنے کو مہارت اور قابلیت شمار کیا جاتا ہے اگرچہ عملی طور پر ایسے آدمی کی حالت نہایت گری ہوئی ہو۔ بحث وہاں کی جائے جہاں اس سے کوئی فائدہ نظر آئے، صرف وقت گزاری، لوگوں کو متوجہ رکھنے، طلب ِ شہرت اور قابلیت دکھانے کیلئے اپنا اور لوگوں کا وقت ضائع کرنااور عملی دنیا میں تنکا تک نہ توڑنا عقل، دین اور اسلام سب کے منافی ہے۔ اس نصیحت کی روشنی میں بہت سے لوگوں کو اپنے طرزِ عمل پر نظر کرنے کی حاجت ہے۔ سمجھنے کیلئے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک فرمان ہی کافی ہے’’مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَایَعْنِیْہِ‘‘ آدمی کے اسلام کے حسن سے ہے کہ وہ فضول چیزوں کو چھوڑ دے۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اور یہ کہ اے مسلمان اللہ کے اتارے پر حکم کر اور ان کی خواہشوں پر نہ چل اور ان سے بچتا رہ کہ کہیں تجھے لغزش نہ دے دیں کسی حکم میں جو تیری طرف اترا پھر اگر وہ منہ پھیریں تو جان لو کہ اللہ ان کے بعض گناہوں کی سزا ان کو پہنچایا چاہتا ہے اور بیشک بہت آدمی بے حکم ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ( اے مسلمان! ) یہ کہ ان (لوگوں ) کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو اور ان سے بچتے رہو کہ کہیں وہ تمہیں اس کے بعض احکام سے ہٹانہ دیں جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کیا ہے۔ پھر اگر وہ منہ پھیریں تو جان لو کہ اللہ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا پہنچانا چاہتا ہے اور بیشک بہت سے لوگ نافرمان ہیں۔
{وَ اَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ: اور یہ کہ اے مسلمان ان (لوگوں ) کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل فرمایا ہے۔} یہاں مسلمان فیصلہ کرنے والوں کو فرمایا کہ اہلِ کتاب کے درمیا ن اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نازل فرمائے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ کرو اور اس بات سے بچتے رہو کہ یہ لوگ تمہیں کسی غلطی کے مُرْتَکِب نہ کروادیں اور اگر یہ اہلِ کتاب لوگ قرآن سے اِعراض کریں تو سمجھ جاؤ کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے جو دنیا میں قتل و گرفتاری اور جلاوطنی کے ساتھ ہوگی ۔ جبکہ ویسے تمام گناہوں کی سزا آخرت میں دے گا۔
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠(۵۰)
ترجمۂ کنزالایمان: تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے لیے۔
ترجمۂ کنزالایمان: تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے لیے۔
{اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ: تو کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں۔} اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ بنی نَضِیْر اور بنی قریظہ یہودیوں کے دو قبیلے تھے، ان میں آپس میں قتل و غارتگری جاری رہتی تھی ۔ جب نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے تو یہ لوگ اپنا مقدمہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں لائے اور بنی قریظہ نے کہا کہ’’ بنی نَضِیْر ہمارے بھائی ہیں ہم وہ ایک نسل سے ہیں ، ایک دین رکھتے ہیں اور ایک کتاب (توریت کو) مانتے ہیں لیکن اگر بنی نضیر ہم میں سے کسی کو قتل کریں تو وہ اس کے خون بہا میں ہمیں ستر وَسْق (ایک بڑا وزن) کھجوریں دیتے ہیں اور اگر ہم میں سے کوئی اُن کے کسی آدمی کو قتل کرے تو ہم سے اس کے خون بہا میں ایک سو چالیس وسق لیتے ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کا فیصلہ فرما دیں۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ میں حکم دیتا ہوں کہ دونوں قبیلوں کے افراد کا خون برابر ہے ،کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں۔ اس پر بنی نضیر بہت برہم ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے راضی نہیں ، آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے دشمن ہیں ، ہمیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۱ / ۵۰۲)
اور فرمایا گیا کہ کیا جاہلیت کی گمراہی اور ظلم کا حکم چاہتے ہیں۔ جو حکم حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بڑھ کر کس کا حکم اچھا ہوسکتا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۱)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ:اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔} یہ آیت مشہور صحابی حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور مشہور منافق عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی جو منافقین کا سردار تھا۔ حضرت عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ یہودیوں میں میرے بہت بڑی تعداد میں دوست ہیں جو بڑی شوکت و قوت والے ہیں ،اب میں اُن کی دوستی سے بیزار ہوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا میرے دل میں اور کسی کی محبت کی کوئی گنجائش نہیں۔اِس پر عبداللہ بن اُبی نے کہا کہ میں تو یہودیوں کی دوستی سے بیزار نہیں ہوسکتا، مجھے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اندیشہ ہے اور مجھے اُن کے ساتھ تعلقات رکھنا ضروری ہے۔ حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا کہ:یہ یہودیوں کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے ،عبادہ کا یہ کام نہیں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۵۰۳)
کفار سے دوستی و موالات کا شرعی حکم : کامل مسلمان کا نمونہ:
اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا، اُن سے مدد چاہنااور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں( اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ)کفر ایک ملت ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۸۹)
لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود ونصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہرمخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۸۹، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۵۰۳، ملتقطاً)
اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِیْبَنَا دَآىٕرَةٌؕ-فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَؕ(۵۲)
ترجمۂ کنزالایمان: اب تم انہیں دیکھو گے جن کے دلوں میں آزار ہے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑتے ہیں کہتے ہیں ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر کوئی گردش آجائے تو نزدیک ہے کہ اللہ فتح لائے یا اپنی طرف سے کوئی حکم پھر اس پر جو اپنے دلوں میں چھپایا تھا پچتاتے رہ جائیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو جن کے دلوں میں مرض ہے تم انہیں دیکھو گے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر گردش آنے کا ڈر ہے تو قریب ہے کہ اللہ فتح یا اپنی طرف سے کوئی خاص حکم لے آئے پھر یہ لوگ اس پر پچھتائیں گے جو اپنے دلوں میں چھپاتے تھے۔
{فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ: تو جن کے دلوں میں مرض ہے تم انہیں دیکھو گے۔} مسلمانوں کو تو فرمادیا گیا کہ یہودونصاریٰ سے دوستی نہ کرو لیکن منافقین کے بارے میں فرما دیا کہ ان کی یہودونصاریٰ سے دوستیاں بڑی مستحکم ہیں کیونکہ یہ دل کے مریض ہیں اور تم انہیں دیکھو گے کہ یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے میں دوڑے جاتے ہیں اور ان لوگوں کی نظر میں اُن سے دوستی کرنے کا فائدہ یہ ہے اور اپنی زبان سے بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر کبھی حالات بدل جائیں ، مسلمان مغلوب اور کافر غالب ہوجائیں تو کفار سے دوستی لگانا انہیں اس وقت فائدہ دے گا۔ لیکن یہ سب منافقت کی وجہ سے تھا کیونکہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسلام کے غلبے کی جو باتیں فرماتے تھے انہیں اس پر یقین نہیں تھا ورنہ اگر ان باتوں پر یقین ہوتا تو ڈٹ کر اسلام کی حمایت کرتے۔ اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے کہ قریب ہے کہ وہ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے اور اپنے رسول، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کامیاب و کامران فرمائے اور اُن کے دین کو تمام دینوں پر غالب کردے اور مسلمانوں کو اُن کے دشمن یہود و نصاریٰ و غیرہ کفار پر غلبہ دیدے چنانچہ یہ خبر سچ ثابت ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے مکہ مکرمہ اور یہودیوں کے علاقے فتح ہوئے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱ / ۵۰۳)
اس آیت میں پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ فتح لے آئے اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی خاص حکم لے آئے جیسے سرزمینِ حجاز کو یہود یوں سے پاک کرنا اور وہاں اُن کا نام و نشان باقی نہ رکھنا یا منافقین کے راز کھول کر انہیں رسوا کرنا۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱ / ۵۰۳-۵۰۴، جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۱۰۲، ملتقطاً)
تو جب اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا اس وقت منافقین اپنی منافقت پر یا اس خیال پر نادم ہوجائیں گے کہ سرورِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کفار کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہوں گے۔
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْۙ-اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْؕ-حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ(۵۳)
ترجمۂ کنزالایمان: اور ایمان والے کہتے ہیں کیا یہی ہیں جنہوں نے اللہ کی قسم کھائی تھی اپنے حلف میں پوری کوشش سے کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں ان کا کیا دھرا سب اکارت گیا تو رہ گئے نقصان میں۔
ترجمۂ کنزالایمان: اور ایمان والے کہتے ہیں کیا یہی ہیں جنہوں نے اللہ کی قسم کھائی تھی اپنے حلف میں پوری کوشش سے کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں ان کا کیا دھرا سب اکارت گیا تو رہ گئے نقصان میں۔
{ وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور ایمان والے کہیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ جب منافقین کا پردہ کھل جائے گا اور ان کی منافقت آشکار ہوجائے گی تو اس وقت مسلمان تعجب کرتے ہوئے کہیں گے کہ کیا یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بڑی پکی قسمیں کھائی تھیں کہ وہ دل سے مسلمانوں کے ساتھ ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ {حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ:تو ان کے تمام اعمال برباد ہوگئے۔} یعنی ان کے نفاق اور یہودیوں سے دوستی کی وجہ سے ان کے تمام نیک اعمال برباد ہو گئے اور انہوں نے دنیا میں اپنی ذلت و رسوائی کی وجہ سے نقصان اٹھایا اور آخرت میں اپنے اعمال کے ثواب سے محروم ہونے اور جہنم کا دائمی عذاب پانے کے سبب نقصان اٹھائیں گے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۳، ۱ / ۵۰۴)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۵۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ محبت فرماتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہیں ، اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔ یہ (اچھی سیرت) اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اوراللہ وسعت والا، علم والا ہے۔
{مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ:تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا۔} کفار کے ساتھ دوستی یاری اورمحبت و قلبی تعلق چونکہ بعض اوقات بے دینی اور اِرتِداد کا سبب بن جاتا ہے ، اس لئے کفار سے دوستی کی ممانعت کے بعد مُرتَدّین کا ذکر فرمایا اور مرتد ہونے سے پہلے لوگوں کے مرتد ہونے کی خبر دی چنانچہ یہ خبرسچ ثابت ہوئی اور بہت سے لوگ مرتد ہوئے۔
{فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ: تو عنقریب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ محبت فرماتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! تم میں سے اگر کچھ لوگ مرتد بھی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ صفت بندے پھر بھی موجود ہوں گے اوروہ عظیم صفات کے حامل ہوں گے۔ اس آیت میں ان کی چند صفات بیان فرمائی گئیں :
(1)…وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔
(2)…وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرتے ہیں۔
(3)…مسلمانوں کے ساتھ نرمی و شفقت کا سلوک کرنے والے ہیں۔
(4)…کافروں سے سختی سے پیش آنے والے ہیں۔
(5)…راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔
(6)…حق بیان کرنے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ حق گو اور حق گوئی میں بیباک ہیں۔
یہ صفات جن حضرات کی ہیں وہ کون ہیں ، اس میں کئی اقوال ہیں۔
(1)…حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خداکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم، امام حسن بصری اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کہا کہ یہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاور ان کے وہ ساتھی ہیں جنہوں نے نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد مرتد ہونے والوں اور زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔
(2)… حضرت عیاض بن غنم اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو موسیٰ اَشْعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نسبت فرمایا کہ یہ اُن کی قوم ہے۔
(3)… ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگ اہلِ یمن ہیں جن کی تعریف بخاری و مسلم کی حدیثوں میں آئی ہے۔
(4)… مفسر سدی کا قول ہے کہ یہ لوگ انصار ہیں جنہوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت کی۔ ان تمام اقوال میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ بیان کردہ سب حضرات کا ان صفات کے ساتھ متصف ہونا صحیح ہے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۴، ۱ / ۵۰۴-۵۰۵)
کامل مسلمان کا نمونہ
اس آیت میں مسلمانوں کے سامنے ایک کامل مسلمان کا نمونہ بھی پیش کردیا گیا کہ کامل مسلمان کیسا ہوتا ہے؟ ہمیں بھی اوپر بیان کردہ صفات کی روشنی میں اپنے اوپر غور کرلینا چاہیے۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کے حوالے سے یہ واقعہ ایک عظیم مثال ہے:
حضرت شیخ ابو عبداللہ خیاط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس ایک آتَش پرست کپڑے سلواتا اور ہر بار اجرت میں ایک کھوٹا سکہ دے جاتا، آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کو لے لیتے۔ ایک بار آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی غیر موجودگی میں شاگرد نے آتَش پرست سے کھوٹا سکہ نہ لیا۔ جب حضرت شیخ ابو عبداللہ خیاط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ واپس تشریف لائے اور ان کو یہ معلوم ہوا تو شاگرد سے فرمایا: تو نے کھوٹا درہم کیوں نہیں لیا؟ کئی سال سے وہ مجھے کھوٹا سکہ ہی دیتا رہا ہے اور میں بھی چپ چاپ لے لیتا ہوں تاکہ یہ کسی دوسرے مسلمان کو نہ دے آئے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس وتہذیب الاخلاق۔۔۔ الخ، بیان علامات حسن الخلق، ۳ / ۸۷-۸۸)
اور حق گوئی میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے کے متعلق یہ حکایت ملاحظہ فرمائیں : قاضی ابو حَازِم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ انصاف کے معاملہ میں بہت سخت تھے۔ آپ ہمیشہ حق بات کہتے اوردرست فیصلے فرماتے۔ ایک مرتبہ خلیفۂ وقت ’’مُعْتَضِد باللہ‘‘ نے آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی طرف پیغام بھیجا: فلاں تاجر نے ہم سے مال خریدا ہے اور نقد رقم ادا نہیں کی ۔وہ میرے علاوہ دوسروں کا بھی مقروض ہے، مجھے خبر پہنچی ہے کہ دوسرے قرضخواہوں نے آپ کے پاس گواہ پیش کئے تو آپ نے اس تاجر کا مال ان میں تقسیم کر دیا ہے ۔ مجھے اس مال سے کچھ بھی نہیں ملا حالانکہ جس طر ح وہ دوسروں کا مقروض تھا اسی طرح میرا بھی تھا، لہٰذامیرا حصہ بھی دیا جائے ۔پیغام پاکر قاضی ابو حَازِم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے قاصد سے کہا: خلیفہ سے کہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز فرمائے، وہ وقت یاد کرو جب آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نے فیصلوں کی ذمہ داری کا بوجھ اپنی گردن سے اُتار کر تمہارے گلے میں ڈال دیا ہے ۔ اے خلیفہ! اب میں فیصلہ کرنے کا مختار ہوں اور میرے لئے جائز نہیں کہ گواہوں کے بغیر کسی مُدَّعی کے حق میں فیصلہ کروں۔ قاصد نے قاضی صاحب کاپیغام سنایا توخلیفہ نے کہا: جاؤ ! قاضی صاحب سے کہوکہ میرے پاس بہت معتبر اور معزز گواہ موجود ہیں۔ جب قاضی صاحب کو یہ پیغام ملا تو فرمایا: گواہ میرے سامنے آکر گواہی دیں ،میں ان سے پوچھ گچھ کروں گا، شہادت کے تقاضوں پر پورے اُتر ے تو ان کی گواہی قبول کرلوں گا ورنہ وہی فیصلہ قابلِ عمل رہے گا جو میں کر چکا ہوں۔ جب گواہوں کو قاضی صاحب کا یہ پیغام پہنچا تو انہوں نے آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے خوف کھاتے ہوئے عدالت آنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا قاضی صاحب نے خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کا دعویٰ رد کرتے ہوئے اسے کچھ بھی نہ بھجوایا۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ السادسۃ والثمانون بعد المائتین، ص۲۶۱-۲۶۲)
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ(۵۵)وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۠(۵۶)
ترجمۂ کنزالایمان: تمہارے دوست نہیں مگر اللہاور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے تو بیشک اللہ ہی کا گروہ غالب ہے ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تمہارے دوست صرف اللہاور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے تو بیشک اللہ ہی کا گروہ غالب ہے۔
{اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا: تمہارے دوست صرف اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں۔} گزشتہ آیات میں ان لوگوں کا بیان ہوا جن کے ساتھ دلی دوستیاں لگانا حرام ہے، ان کا ذکر فرمانے کے بعد اب ان کا بیان فرمایا جن کے ساتھ مُوالات واجب ہے۔ اس آیتِ مبارکہ کے متعلق حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی، انہوں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی ،یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ہماری قوم نے ہمیں چھوڑ دیا اور قسمیں کھالیں کہ وہ ہمارے پاس نہیں بیٹھا کریں گے اور دوری کی وجہ سے ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب کی صحبت میں بھی نہیں بیٹھ سکتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور ایمان والے تمہارے دوست ہیں تو حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا ’’ اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر اور مؤمنین کے دوست ہونے پر ہم راضی ہیں۔(قرطبی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۳۱، الجزء السادس)
آیتِ مبارکہ میں بیان کردہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے سب ایک دوسرے کے دوست اور محب ہیں۔
{وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ: اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔} عربی گرامر کے اعتبار سے آیتِ مبارکہ کے اس جملے کے چار معنی بیان کئے گئے ہیں :
(1)…پہلا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکا ہوا ہونا مومنوں کی ایک مزید صفت ہے۔(جمل، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۲۴۲)
(2)…دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ مومنین نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کے دونوں کام خشوع اور تواضع کے ساتھ کرتے ہیں۔(ابو سعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۵۹)
(3)…تیسرا معنی یہ ہے کہ وہ تواضع اور عاجزی کے ساتھ زکوٰۃ دیتے ہیں۔(جمل، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۲۴۲)
(4)… چوتھا معنیٰ یہ ہے کہ وہ حالت ِ رکوع میں راہِ خدا میں دیتے ہیں۔
پہلا معنیٰ سب سے قوی اور چوتھا معنیٰ سب سے کمزور ہے بلکہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفسیر کبیر میں اس کا بہت شدو مد سے رد کیا ہے اور اس کے بطلان پر بہت سے دلائل قائم کئے ہیں۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۵۷)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے وہ جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور کافر ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اورکھیل بنالیا ہے انہیں اور کافر وں کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اگر ایمان رکھتے ہوتواللہ سے ڈرتے رہو۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اورکھیل بنالیا ہے انہیں اور کافر وں کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اگر ایمان رکھتے ہوتواللہ سے ڈرتے رہو۔
وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ(۵۸)
ترجمۂ کنزالایمان: اور جب تم نماز کے لئے اذان دو تو اسے ہنسی کھیل بناتے ہیں یہ اس لئے کہ وہ نرے بے عقل لوگ ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تویہ اس کو ہنسی مذاق اورکھیل بنالیتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ بالکل بے عقل لوگ ہیں۔
{وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ: اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو۔} اس آیت کے بارے میں کلبی کا قول ہے کہ جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مُؤذن نماز کے لئے اذان کہتا اور مسلمان اٹھتے تو یہود ی ہنستے اور تمسخر کرتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مفسر سدی نے بیان کیا کہ مدینہ طیبہ میں جب مؤذن اذان میں اَشْہَدُاَنْ لآَّاِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ اور’’اَشْہَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ ‘‘ کہتا تو ایک نصرانی یہ کہا کرتا کہ ’’جل جائے جھوٹا ‘‘ایک رات اس کا خادم آگ لایا وہ اور اس کے گھر کے لوگ سورہے تھے آگ سے ایک شرارہ اُڑا اور وہ نصرانی اور اس کے گھر کے لوگ اور تمام گھر جل گیا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ۱ / ۵۰۷)
آیت’’وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 3 مسئلے معلوم ہوئے :
(1)… نماز پنج گانہ کے لئے اذان ہونی چاہیے، اذان کا ثبوت اس آیت سے بھی ہے۔
(2)… دین کی کسی چیز کا مذاق اڑانا کفر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اذان کا مذاق اڑانے والوں کو کافر قرار دیاہے۔ ایسے ہی عالم ، مسجد، خانہ کعبہ، نماز، روزہ وغیرہا میں سے کسی کا مذاق اڑانا کفر ہے۔
(3) دینی چیزوں کا مذاق اڑانے والے احمق و بے عقل ہیں جو ایسے سَفِیہانہ اور جاہلانہ حرکات کرتے ہیں۔
دینی چیزوں کا مذاق اڑانے والوں کا رد:
اس آیت میں دینی چیزوں کا مذاق اڑانے والوں کا کتنا شدید رد ہے ۔ افسوس کہ جو کام یہودی اور منافق کیا کرتے تھے وہی کام مسلمان کہلانے والوں میں آتے جارہے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، فرشتے، جنت، حوریں ، دوزخ، اس کے عذاب، قرآنی آیات، احادیث ِ نَبوی، دینی کتابوں ، دینی شَعائر، عمامہ، داڑھی، مسجد، مدرسے، دیندار آدمی، دینی لباس، دینی جملے، مقدس کلمات الغرض وہ کونسی مذہبی چیز ہے کہ جس کا اِس زمانے میں کھلے عام فلموں ، ڈراموں ، خصوصاً مزاحیہ ڈراموں ، عام بول چال، دوستوں کی مجلسوں ، دنیاوی تقریروں ، ہنسی مذاق کی نشستوں اور باہمی گپ شپ میں مذاق نہیں اُڑایا جاتا۔ افسوس کہ مسلمان کہلانے والے اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مسلمان کہلانے والوں کو داڑھی، عمامہ، مذہبی حُلیے سے نفرت ہے۔ مسلمان کہلانے والے کو اذان سن کر تکلیف ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث کی باتیں اسے پرانی باتیں لگتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ دینی شَعائِر کا مذاق اڑانا کفر ہے اوردین کا مذاق اڑانے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْــٴَـاﰳ اتَّخَذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ (الجاثیہ :۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ہماری آیتوں میں سے کسی پر اطلاع پائے تواسے مذاق بناتا ہے ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
اور فرماتا ہے:
وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ-قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ(۶۵)لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ(التوبہ:۶۵، ۶۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو ۔بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر۔
اور فرماتا ہے:
وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا( انعام:۷۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور چھوڑ دے ان کو جنہوں نے اپنا دین ہنسی کھیل بنالیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے فریب دیا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حالت پر غور کرنے اور اپنی اس روش کو تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُۙ-وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ(۵۹)
ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اے کتابیو تمہیں ہمارا کیا برا لگا یہی نہ کہ ہم ایمان لائے اللہپر اور اس پر جو ہماری طرف اترا اور اس پر جو پہلے اترا اور یہ کہ تم میں اکثر بے حکم ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ : اے اہلِ کتاب! تمہیں ہماری طرف سے یہی برا لگا ہے کہ ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا اس پر اور جو پہلے نازل کیا گیا اس پر ایمان لائے ہیں اور بیشک تمہارے اکثر لوگ فاسق ہیں۔
{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ:تم فرماؤ : اے اہلِ کتاب!۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت فرمایا کہ آپ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں سے کس کس کو مانتے ہیں ؟ اس سوال سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ مانیں تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں لیکن حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں اور جو اُس نے ہم پر نازل فرمایا اور جو حضرت ابراہیم ،حضرت اسمٰعیل ،حضرت اسحق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی اولاد پر نازل فرمایا اور جو حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو دیا گیا یعنی توریت و انجیل اور جواور نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے دیا گیا سب کو مانتا ہوں۔ہم انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں فرق نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں۔جب یہودیوں کو معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کو بھی مانتے ہیں تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مانے ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۹،۲ / ۳۹) اور فرمایا گیا کہ اے کتابیو! ہم تمہارے تمام پیغمبروں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تمہاری تمام کتابوں کو حق مانتے ہیں تو کیا تمہیں یہی برا لگ رہا ہے ۔ اس چیز کی وجہ سے تو تمہیں ہمارے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ ہمارے خلاف۔ قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَؕ-اُولٰٓىٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ(۶۰)
ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا میں بتادوں جو اللہ کے یہاں اس سے بدتر درجہ میں ہیں وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پرغضب فرمایا اور ان میں سے کردیے بندر اور سؤر اور شیطان کے پجاری ان کا ٹھکانا زیادہ برا ہے اور یہ سیدھی راہ سے زیادہ بہکے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے محبوب! تم فرماؤ: کیا میں تمہیں وہ لوگ بتاؤں جو اللہ کے ہاں اس سے بدتر درجہ کے ہیں ، یہ وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب فرمایا اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو بندر اور سور بنادیا اور جنہوں نے شیطان کی عبادت کی، یہ لوگ بدترین مقام والے اور سیدھے راستے سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔
{قُلْ: اے محبوب! تم فرماؤ۔} یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تمہارے دین سے بدتر کوئی دین ہم نہیں جانتے۔ اس پر فرمایا گیا کہ مسلمانوں کو تو تم صرف اپنے بغض و کینہ اور دشمنی کی وجہ سے ہی برا کہتے ہو جبکہ حقیقت میں اصل بدتر تو تم لوگ ہو اور ذرا اپنے حالات دیکھ کر خود فیصلہ کر لو کہ تم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہو یا مردود؟ پچھلے زمانہ میں صورتیں تمہاری مَسخ ہوئیں ، سور، بندر تم بنائے گئے ،بچھڑے کوتم نے پوجا ، اللہ تعالیٰ کی لعنت تم پر ہوئی، غضب ِ الہٰی کے مستحق تم ہوئے تو حقیقی بدنصیب اور بدتر تو تم ہواور تم ہی بدترین مقام یعنی جہنم میں جاؤ گے۔
وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ قَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖؕ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا یَكْتُمُوْنَ(۶۱)
ترجمۂ کنزالایمان:اور جب تمہارے پاس آئیں تو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اور وہ آتے وقت بھی کافر تھے اور جاتے وقت بھی کافر اوراللہ خوب جانتا ہے جو چھپا رہے ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں حالانکہ وہ آتے وقت بھی کافر تھے اور جاتے وقت بھی کافرہی تھے اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ چھپا رہے ہیں۔
{وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا: اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں۔} یہ آیت یہودیوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے سرورِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ایمان و اخلاص کا اظہار کیا اور کفر و گمراہی کو چھپائے رکھا ۔اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اُن کے حال کی خبر دی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۱، ۱ / ۵۰۸)
منافق بداعتقادی کے ساتھ آتے تھے تو جیسے آتے ویسے ہی جاتے اور صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عقیدت و محبت کے ساتھ آتے تو فیض کے دریا سمیٹ کر جاتے تھے۔اس سے معلوم ہو اکہ بداعتقادی کے ساتھ کسی کے پاس جانے والا کبھی اس سے فیض نہیں اٹھا سکتا۔ وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۶۲)
ترجمۂ کنزالایمان: اور ان میں تم بہتوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور زیادتی اور حرام خوری پر دوڑتے ہیں بیشک بہت ہی برے کام کرتے ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور زیادتی اور حرام خوری کے کاموں میں دوڑے جاتے ہیں۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے ہیں۔
یہودیوں کی صفات اور مسلمانوں کی حالت زار
ویسے ’’اِثْم‘‘ہر گناہ اور نافرمانی کوشامل ہے اور یہاں یہودیوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان پر غور کرنے کی حاجت ہے کہ ظاہری لفظی معنیٰ کے اعتبار سے گناہ ، زیادتی اور حرام خوری کے کاموں میں بھاگ کر جانا ان کی صفت بیان کی گئی ہے لیکن اب ہمارے ہاں کتنے ایسے لوگ ہیں کہ نیکی کے کام میں تو تاخیر بلکہ ترک کریں گے لیکن گناہ کے کام میں جلدی کریں گے۔ کسی کی مدد کرنے اور اسے ظلم سے بچانے میں کَنی کترا کر گزر جائیں گے لیکن ظلم و زیادتی میں اپنی قوم یا علاقے یا تحریک کے جھنڈے نیچے تَعَصُّب کے ساتھ موجود ہوں گے۔ حلال تو ان کے گلے میں اَٹکے گا لیکن جہاں حرام کی توقع ہوگی، رشوت ملے گی، سود ملے گا، خوب ناجائز تجارت کا فائدہ نظر آئے گا وہاں بھاگ کر جائیں گے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تَمَدُّن میں ہنود یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود اور اپنی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرو کہ
کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار؟ مَصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟ کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟ ہوگئی کس کی نِگہ طرزِ سَلف سے بیزار؟
اوراب تمہارا حال یہ ہے کہ قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۶۳)
ترجمۂ کنزالایمان: انہیں کیوں نہیں منع کرتے ان کے پادری اور درویش گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے، بیشک بہت ہی برے کام کررہے ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان کے درویش اور علماء انہیں گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے ۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کررہے ہیں۔
علماء پر برائی سے منع کرنا ضروری ہے
یہاں یہودی درویشوں اور علماء کے متعلق فرمایا گیا کہ انہوں نے اپنی قوم کو گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے کیوں نہ روکا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ دین کی اس بات پر بھی پکڑ ہوگی کہ وہ گناہ ہوتے ہوئے دیکھیں اور قدرت کے باوجود منع نہ کریں کیونکہ ایسا عالم گناہ کرنے والے کی طرح ہے۔ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :گناہ روحانی مرض ہے اور ا س کا علاج اللہ تعالیٰ کی، اس کی صفات کی اور ا س کے احکام کی معرفت ہے اور یہ علم حاصل ہونے کے باوجود گناہ ختم نہ ہوں تو یہ اس مرض کی طرح ہے جو کسی شخص کو ہو اور دوائی کھانے کے باوجود وہ مرض ختم نہ ہو اور عالم کا گناہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا یہ قلبی مرض انتہائی شدید ہے۔ (تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۳۹۳)
عالم پر واجب ہے کہ خود بھی سنبھلے اور دوسروں کو بھی سنبھالے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : قرآنِ پاک میں (علماء کے لئے) اس آیت سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ والی کوئی آیت نہیں۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۳، ۱ / ۵۰۹)
اور فرماتے ہیں : قرآنِ پاک میں یہ آیت (علماء کے بارے میں ) بہت سخت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے برائی سے منع کرنا چھوڑ دینے والے کو برائی کرنے والے کی وعید میں داخل فرمایا ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۲۹۲-۲۹۳)
ترجمۂ کنزالایمان: اور یہودی بولے اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے انھیں کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان پر اس کہنے سے لعنت ہے بلکہ اس کے ہاتھ کشادہ ہیں عطا فرماتا ہے جیسے چاہے اور اے محبوب یہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا اس سے ان میں بہتوں کو شرارت اور کفر میں ترقی ہوگی اور ان میں ہم نے قیامت تک آپس میں دشمنی اور بیر ڈال دیا جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہاسے بجھا دیتا ہے اور زمین میں فساد کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں ، اور اللہ فسادیوں کو نہیں چاہتا۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہودیوں نے کہا: اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان پر اس کہنے کی وجہ سے لعنت ہے بلکہ اللہ کے ہاتھ کشادہ ہیں جیسے چاہتا ہے خرچ فرماتا ہے اور اے حبیب! یہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے یہ ان میں سے بہت سے لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کرے گا اور ہم نے قیامت تک ان میں دشمنی اور بغض ڈال دیا۔جب کبھی یہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تواللہ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ زمین میں فساد پھیلانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ: اور یہودیوں نے کہا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہودی بہت خوش حال اور نہایت دولت مند تھے۔ جب انہوں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب و مخالفت کی تو اُن کی روزی کم ہوگئی۔ اس وقت فنحاص یہودی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بندھا ہے یعنی مَعَاذَاللہ وہ رزق دینے اور خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے ۔اُس کے اِس قول پر کسی یہودی نے منع نہ کیا بلکہ راضی رہے، اسی لئے یہ سب کا مَقولہ قرار دیا گیا اور یہ آیت اُن کے بارے میں نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۵۰۹، مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۹۳)
اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تو جواد و کریم ہے ، ہاں ان یہودیوں کے ہاتھ باندھے جائیں۔اِس ارشاد کا یہ اثر ہوا کہ یہودی دنیا میں سب سے زیادہ بخیل ہوگئے یا اِس جملے کا یہ معنیٰ ہے کہ اُن کی اس بے ہودہ گوئی اور گستاخی کی سزا میں اُن کے ہاتھ جہنم میں باندھے جائیں اور اس طرح انہیں آتش دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کشادہ ہونے سے مراد بے حد کرم اور مہربانی ہے کہ دوستوں کو بھی نوازے اور دشمنوں کو بھی محروم نہ کرے ورنہ اللہ تعالیٰ جسمانی ہاتھ اور ہاتھ کے کھلنے سے پاک ہے۔ اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے موافق جیسے اور جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اس میں کسی کواعتراض کرنے کی مجال نہیں۔ وہ کسی کو امیر اور کسی کو غریب کرتا ہے لیکن اس وجہ سے نہیں کہ اس کے خزانے میں کچھ کمی یا کرم میں کچھ نقصان ہے بلکہ بندوں کے حالات کا تقاضا ہی یہ ہے اور اس میں ہزارہا مصلحتیں ہیں۔
وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ: اورضرور ان میں سے بہت سے لوگوں (کی سرکشی اور کفر) میں اضافہ کرے گا۔} ارشاد فرمایا کہ جتنا قرآنِ پاک اُترتا جائے گا اتنا ہی یہودیوں کا حسد و عِناد بڑھتا جائے گا اور وہ اس کے ساتھ کفرو سرکشی میں بڑھتے رہیں گے جیسے مُقَوِّی غذا کمزور معدے والے کو بیمار کر دیتی ہے، اس میں غذا کا قصور نہیں بلکہ مریض کے معدے کا قصور ہے یا جیسے سورج کی روشنی چمگادڑ کو اندھا کر دیتی ہے تو اس میں سورج کا نہیں بلکہ چمگادڑ کی آنکھ کا قصور ہے۔
آیت ’’وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل: اس سے دو چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… جس کے دل میں سرورِکائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت نہ ہو اس کے لئے قرآن و حدیث کفر کی زیادتی کا سبب ہیں جیسے آج کل بہت سے بے دینوں کو دیکھا جارہا ہے۔یاد رہے کہ دین کی عظمت ،دین لانے والے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت سے ہے۔
(2)… کفر میں زیادتی کمی ہوتی ہے یعنی کوئی کم شدید کافر ہوتا ہے اور کوئی زیادہ شدید۔ کمی زیادتی کسی مقدار کے اعتبار سے نہیں ہوتی، یہ ایسے ہی ہے جیسے ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے یعنی کوئی زیادہ مضبوط ایمان والا اور کوئی کمزور ایمان والا ہوتا ہے۔
{وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ: اور ہم نے قیامت تک ان میں دشمنی اور بغض ڈال دیا ۔} یعنی وہ ہمیشہ باہم مختلف رہیں گے اور اُن کے دِل کبھی نہ ملیں گے اگرچہ اوپر سے کبھی کبھار مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجائیں۔
{كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ: جب کبھی یہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں۔} جب بھی یہودیوں نے فساد ،شر انگیزی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی ایسے شخص کو ان پر مُسَلَّط کر دیا جس نے انہیں ہلاکت اور بربادی سے دوچار کردیا، پہلے جب انہوں نے فتنہ و فساد شروع کیا اور تورات کے احکام کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کو ان کی طرف بھیج دیا جس نے ان کو تباہ کر کے رکھ دیا، کچھ عرصے بعد پھر جب انہوں نے سر اٹھایا تو طیطوس رومی نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب انہوں شر انگیزی شروع کی تو فارسی مجوسیوں نے ان کا حشر نشر کردیا، پھر کچھ عرصے بعد جب فساد کا بازار گرم کیا تواللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان پر تَسلُّط اور غلبہ عطا فرمادیا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۵۱۰-۵۱۱)
ایک قول یہ ہے کہ جب بھی یہودی نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف جنگ کاا رادہ کرتے ہوئے اس کے اسباب تیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے منصوبے ناکام بنا دے گا۔ (ابوسعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۶۶)
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۶۵)
ترجمۂ کنزالایمان: اور اگر کتاب والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ضرور ہم ان کے گناہ اتار دیتے اور ضرور انہیں چین کے باغوں میں لے جاتے ۔
{وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا:اور اگر اہلِ کتاب ایمان لاتے۔} اہلِ کتاب کے متعلق فرمایا کہ اگر یہ ایمان لے آتے تو ان کے گناہ بخش دئیے جاتے اور یہ جنت کے مستحق قرار پاتے۔ اِس آیت میں ایمان لانے کی اُخروی جزا کا بیان ہے اور اگلی آیت میں ایمان لانے کی دنیوی جزا کا بیان کیا گیا ہے۔
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْؕ-مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌؕ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ۠(۶۶) ترجمۂ کنزالایمان: اور اگر قائم رکھتے توریت اور انجیل اور جو کچھ ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے اترا تو انہیں رزق ملتا اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ان میں کوئی گروہ اعتدال پر ہے اور ان میں اکثر بہت ہی برے کام کررہے ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر وہ تورات اور انجیل اور جو کچھ ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا اسے قائم کرلیتے تو انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے قدموں کے نیچے سے رزق ملتا۔ ان میں ایک گروہ اعتدال کی راہ والا ہے اور ان میں اکثر بہت ہی برے کام کررہے ہیں۔
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ:اور اگر وہ تورات اور انجیل کوقائم کرلیتے۔} ارشاد فرمایا کہ اور اگر وہ تورات اور انجیل اور دیگر کتابوں پر عمل کرتے اس طرح کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کرتے کیونکہ توریت و انجیل میں اسی کا حکم دیا گیاہے اور دیگر تمام کتابیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائیں سب میں امامُ الانبیاءصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کا حکم ہے تو اگر وہ اس حکم پر عمل کرلیتے تو انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے قدموں کے نیچے سے رزق ملتا یعنی رزق کی کثرت ہوتی اور ہر طرف سے انہیں رزق پہنچتا۔
دین کی پابندی اوراللہ تعالٰی کی اطاعت وُسْعَتِ رزق کا ذریعہ ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین کی پابندی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری سے رزق میں وُسعت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت ابو اسحاق ہمدانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے عمر میں اضافہ ہونا اور رزق میں زیادتی ہونا پسند ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔(شعب الایمان ، السادس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۱۹، الحدیث: ۷۹۴۷) اور حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے لوگو! جو چیز تمہیں جنت کے قریب اور جہنم سے دور کر سکتی ہے ا س کا میں نے تمہیں حکم دے دیا اور جو چیز تمہیں جہنم کے قریب اور جنت سے دور کر سکتی ہے اس سے میں نے تمہیں منع کر دیا۔بے شک رُوْحُ الْاَمین عَلَیْہِ السَّلَام نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی جان اس وقت تک مرے گی نہیں جب تک وہ اپنا رزق پورا نہ کر لے لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے رزق طلب کرو۔ رزق کا آہستہ پانا تمہیں اس بات پر نہ ابھا رے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ذریعے رزق طلب کرنے لگو کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ اس کی اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔(شرح السنہ، کتاب الرقاق، باب التوکل علی اللہ عزوجل، ۷ / ۳۲۹، الحدیث: ۴۰۰۶)
{مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ: ان میں ایک گروہ اعتدال کی راہ والا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ سارے اہلِ کتاب یکساں نہیں ہیں بلکہ بعض اعتدال پسند ہیں اور وہ حد سے تجاوز نہیں کرتے ،یہ یہودیوں میں سے وہ لوگ ہیں جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ جبکہ بقیہ اکثریت نافرمان ہے جو کفرپر جمے ہوئے ہیں۔
ٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۶۷)
ترجمۂ کنزالایمان: اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایا اور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بیشک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا اس کی تبلیغ فرما دیں اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اُس کا کوئی پیغام بھی نہ پہنچایا اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ بیشک اللہ کافروں کوہدایت نہیں دیتا۔
{یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ:اے رسول۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رسول کے لقب سے خطاب فرمایا، یہ سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیت ہے ورنہ دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے اسماءِ مبارکہ سے خطاب فرمایا گیا ہے۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پیغامات لوگوں تک پہنچائیں اور کسی قسم کا کوئی اندیشہ نہ فرمائیں، اللہ تعالیٰ ان کفار سے آپ کی حفاظت فرمائے گا جو آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس خطرے کی وجہ سے دورانِ سفر رات کے وقت سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حفاظت کیلئے پہرہ دیا جاتا تھا، جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی توپہرہ ہٹا دیا گیا اور حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہرے داروں سے فرمایا کہ تم لوگ چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا فرمادیا ہے۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۵، الحدیث: ۳۰۵۷)
حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حفاظت کے لئے پہرہ دینے کا شرف جنہیں سب سے پہلے حاصل ہو اوہ حضرت سعد بن ابی وقا ص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے ،چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ آتے وقت ایک رات بے خواب رہے ،پھر فرمایا کاش کوئی نیک شخص ہماری حفاظت کرتا۔ اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا ’’یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: میں سعد ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’ تمہیں کیا چیز یہاں لائی ہے؟ عرض کی: میرے دل میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر خطرہ گزرا تو میں ان کی حفاظت کرنے آیا ۔ ان کے لیے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کی، پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سوگئے۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم، باب فی فضل سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۴، الحدیث: ۴۰(۲۴۱۰)) قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ-فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ(۶۸)
ترجمۂ کنزالایمان: تم فرمادو اے کتابیو تم کچھ بھی نہیں ہو جب تک نہ قائم کرو توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا اور بیشک اے محبوب وہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا اس سے ان میں بہتوں کو شرارت اور کفر کی اور ترقی ہوگی تو تم کافروں کا کچھ غم نہ کھاؤ۔
{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ:تم فرمادو اے کتابیو!} اہلِ کتاب سے فرمایا گیا کہ جب تک تم نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں لے آتے تب تک تم کسی دین و ملت پر نہیں ہو کیونکہ اگر حقیقی طور پر تم تورات و انجیل پرعمل کرو تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بھی ایمان لے آؤ کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کا حکم تورات و انجیل میں موجود ہے۔
{مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ: اے حبیب! یہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جو قرآن آپ کی طرف آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، یہ اہلِ کتاب کے علماء اور سرداروں کی پرانی سرکشی اور کفر میں اضافہ کرے گا کیونکہ آپ پر جب قرآنِ مجید کی کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو یہ اس کا انکار کر دیتے ہیں اور اس طرح یہ اپنے کفروسرکشی میں اور زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اس لئے اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جو یہودی آپ کی نبوت کاانکار کر رہے اور آپ پر ایمان نہیں لا رہے ان کی وجہ سے آپ غمزدہ نہ ہوں کیونکہ ان کے اس کفرکا وبال انہی پر پڑے گا۔(روح البیان، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۸، ۲ / ۴۱۹، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۸، ۱ / ۵۱۱-۵۱۳، ملتقطاً)
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِــٴُـوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۶۹)
ترجمۂ کنزالایمان: بیشک وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اسی طرح یہودی اور ستارہ پرست اور نصرانی ان میں جو کوئی سچے دل سے اللہ وقیامت پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے توان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک (وہ جو اپنے آپ کو ) مسلمان ( کہتے ہیں ) اور یہودی اور ستاروں کی پوجا کرنے والے اور عیسائی (ان میں سے) جو (سچے دل سے ) اللہ اور قیامت پر ایمان لائے اور اچھے عمل کرے توان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اہلِ کتاب اس وقت تک کسی دین و ملت پر نہیں جب تک وہ ایمان نہیں لاتے اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ یہ حکم صرف اہلِ کتاب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر ملت والا ا س حکم میں داخل ہے اور کسی کو بھی تب تک کوئی فضیلت اور منقبت حاصل نہیں جب تک وہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ پراور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا اور ایسے نیک اعمال نہیں کرتا جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور نیک عمل میں سے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانا بھی ہے کیونکہ جب تک کوئی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں لاتا توا س کا ایمان مکمل نہیں ہو گا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱ / ۵۱۳)
اس آیت کی تفسیر کے بارے میں مزید معلومات کے لئے سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر 62کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمْ رُسُلًاؕ-كُلَّمَا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُهُمْۙ-فَرِیْقًا كَذَّبُوْا وَ فَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَۗ(۷۰) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے، جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول وہ بات لے کر آیا جو ان کے نفس کی خواہش نہ تھی ایک گروہ کو جھٹلایا اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے (تو) جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول وہ بات لے کر آیا جو ان کے نفس کو پسند نہ تھی تو انہوں نے (انبیاء کے) ایک گروہ کو جھٹلایا اور ایک گروہ کو شہید کرتے رہے۔
{لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔} اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے توریت میں یہ عہد لیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اور حکمِ الہٰی کے مطابق عمل کریں لیکن انہوں نے یہ کیا کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہشات کے برخلاف حکم لے کر آتے توانبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کسی گروہ کو تو یہ جھٹلاتے اور کسی کو شہید کردیتے ۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب میں تو یہودو نصارٰی سب شریک ہیں مگر قتل کرنا یہ خاص یہودیوں کا کام ہے، اُنہوں نے بہت سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو شہید کیا جن میں سے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی ہیں۔ یہ خیال رہے کہ کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام جہاد میں کافروں کے ہاتھوں شہید نہیں ہوئے۔
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ(۷۱)
ترجمۂ کنزالایمان: اور اس گمان میں رہے کہ کوئی سزا نہ ہوگی تو اندھے اور بہرے ہوگئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی پھر ان میں بہتیرے اندھے اور بہرے ہوگئے اور اللہ ان کے کام دیکھ رہا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ انہیں کوئی سزا نہ ہوگی تو یہ اندھے اور بہرے ہوگئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے اور اللہ ان کے کام دیکھ رہا ہے۔ {وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ: اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ (انہیں اس پر) کوئی سزا نہ ہوگی۔} یہودو نصاریٰ اتنے سنگین جَرائم کیمُرتَکِب ہوئے کہ دونوں نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو جھٹلایا اور بطورِ خاص یہودیوں نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو شہید بھی کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے یہ گمان کیا کہ ایسے شدید جرموں پر بھی انہیں عذاب نہیں دیا جائے گا تو یہ اندھے اور بہرے ہوگئے یعنی حق دیکھنے سے اندھے اور حق سننے سے بہرے ہوگئے اور ویسے بھی وہ عقل و شعور سے اندھے بہرے تھے کہ ایسے جرائم کے باوجود بھی خود کو سزا سے محفوظ سمجھتے رہے۔ پھر جب اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد توبہ کی تواللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی لیکن پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے اور اسی سابقہ روش پر چل پڑے۔ دو مرتبہ اندھاا ور بہرہ ہونے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں :
(1)…یہودی حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے زمانے میں عقل کے اعتبار سے اندھے اور بہرے ہوگئے پھر ان میں سے بعض کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی کہ انہیں انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کی توفیق دی ۔پھر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ ٔمبارکہ میں ان کی نبوت و رسالت کا انکار کر کے بہت سے یہودی دل کے اندھے اور بہرے ہو گئے۔
(2)… پہلی مرتبہ تب دل کے اندھے اور بہرے ہوئے جب انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی پھر اس سے انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی پھر دوسری مرتبہ ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے تب ہوئے جب انہوں نے فرشتوں کے نزول اور رویَتِ باری تعالیٰ کا مطالبہ کیا۔
(3)… دو مرتبہ بصیرت کے اندھے اور بہرے ہونے کی تفسیر سورۂ بنی اسرائیل کی 4سے لے کر7تک وہ آیات ہیں جن میں یہ خبر دی گئی کہ یہودی دو مرتبہ زمین میں فساد کریں گے۔ (تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۱، ۴ / ۴۰۷)
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۷۲)
ترجمۂ کنزالایمان:بیشک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے اور مسیح نے تو یہ کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب اور تمہارا رب بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے حالانکہ مسیح نے تو یہ کہا تھا: اے بنی اسرائیل !اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا:بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا۔} عیسائیوں کے بہت سے فرقے ہیں :ان میں سے یعقوبیہ اور ملکانیہ کہتے تھے کہ مریم نے اِلٰہ یعنی معبود کوجنا اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ الٰہ یعنی معبود نے عیسیٰ کی ذات میں حُلول کرلیا اور وہ اُن کے ساتھ مُتَّحِد ہوگیا تو عیسیٰ الٰہ (معبود) ہو گئے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۱ / ۵۱۴)
مَعَاذَ اللہ ثُمَّ مَعَاذَاللہ۔ عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
بھی توہین کی کہ وہ تو اپنے کو رب عَزَّوَجَلَّکا بندہ کہتے تھے اور یہ انہیں جھٹلا کر انہی کو رب کہنے لگے۔ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ-وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳)اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَهٗؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۷۴)
ترجمۂ کنزالایمان: بیشک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور خدا تو نہیں مگر ایک خدا اور اگر اپنی بات سے باز نہ آئے تو جو ان میں کافر مریں گے ان کو ضرور دردناک عذاب پہونچے گا۔ تو کیوں نہیں رجوع کرتے اللہ کی طرف اور اس سے بخشش مانگتے اور اللہ بخشنے والا مہربان۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا : بیشک اللہ تین (معبودوں ) میں سے تیسرا ہے حالانکہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی معبود ہے اور اگریہ لوگ اس سے باز نہ آئے جو یہ کہہ رہے ہیں تو جو اِن میں کافر رہیں گے ان کو ضرور دردناک عذاب پہنچے گا۔ تو یہ کیوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ نہیں کرتے اورکیوں اس سے مغفرت طلب نہیں کرتے؟ حالانکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا: بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا۔} عیسائیوں میں فرقہ مرقوسیہ اور نسطوریہ کا عقیدہ یہ ہے کہ الٰہ تین ہیں،باپ بیٹا روحُ القدس، اللہ تعالیٰ کو باپ اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا بیٹا اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو رُوْحُ الْقُدُس کہتے ہیں۔علم کلام کے ماہر علماء فرماتے ہیں کہ نصاریٰ کہتے ہیں کہ باپ بیٹا روح ُالقدس یہ تینوں ایک الٰہ ہیں۔مَعَاذَاللہ ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کا کوئی ثانی ہے نہ ثالِث۔ وہ وحدانیت کے ساتھ مَوصوف ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں ، باپ بیٹے بیوی سب سے پاک ہے۔ اگر یہ کفار اس عقیدے سے باز نہ آئے اور تثلیث(تین خدا ماننے) کے معتقدر ہے اور توحید اختیار نہ کی تو آخرت میں دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے۔
مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ-وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌؕ-كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَؕ-اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۷۵)
ترجمۂ کنزالایمان: مسیح ابن مریم نہیں مگر ایک رسول اس سے پہلے بہت رسول ہو گزرے اور اس کی ماں صدیقہ ہے دونوں کھانا کھاتے تھے دیکھو تو ہم کیسی صاف نشانیاں ان کے لئے بیان کرتے ہیں پھر دیکھو وہ کیسے اوندھے جاتے ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: مسیح بن مریم تو صرف ایک رسول ہے۔ اس سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں اور اس کی ماں صدیقہ (بہت سچی) ہے ۔وہ دونوں کھانا کھاتے تھے دیکھو تو ہم ان کے لئے کیسی صاف نشانیاں بیان کرتے ہیں پھر دیکھو وہ کیسے پھرے جاتے ہیں ؟
{مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ: مَسیح بن مریم تو صرف ایک رسول ہیں۔} یہاں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خدا نہ ہونے کی دلیل بیان کی ہے چنانچہ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک رسول ہے۔خدا نہیں ہے لہٰذا اُن کو خدا ماننا غلط ،باطل اور کفرہے۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں اور وہ رسول بھی معجزات رکھتے تھے، یہ معجزات اُن کی نبوت کی صداقت کی دلیل تھے نہ کہ خدا ہونے کی، اِسی طرح حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی رسول ہیں اُن کے معجزات بھی ان کی نبوت کی دلیل ہیں نہ کہ خدا ہونے کی، لہٰذا اُنہیں رسول ہی ماننا چاہئے اور جب دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو معجزات کی بنا پر خدا نہیں مانتے تواِن کو بھی خدا نہ مانو۔
{وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌ: اور اس کی ماں صدیقہ ہے۔} یعنی حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا بہت سچی ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہیں تو تم بھی ان کی پیروی کرو۔ نیز حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی والدہ دونوں کھانا کھاتے تھے جبکہ معبود کھانے سے پاک ہوتا ہے اور کھانا کھانا بھی معبود نہ ہونے کی دلیل ہے کیونکہ معبود غذا کا محتاج نہیں ہوسکتا تو جو غذا کھائے، جسم رکھے اوراُس جسم میں تَحلیل واقع ہو ،غذا اس کا بدل بنے وہ کیسے معبود ہوسکتا ہے؟
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًاؕ-وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۷۶)
ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو تمہارے نقصان کا مالک نہ نفع کا اور اللہ ہی سنتا جانتا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ، کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے نقصان کا مالک ہے اور نہ نفع کا اور اللہ ہی سننے والا،جاننے والا ہے۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت میں شرک کو باطل کرنے کی ایک اور دلیل بیان کی گئی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مستحق عبادت وہی ہوسکتا ہے جو نفع نقصان وغیرہ ہر چیز پر ذاتی قدرت و اختیار رکھتا ہو اورجو ایسا نہ ہو وہ مستحق عبادت نہیں ہوسکتا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نفع و ضَرَر کے بِالذّات مالک نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے مالک کرنے سے مالک ہوئے تو اُن کی نسبت اُلُوہِیَّت کا اعتقاد باطل ہے۔(ابو سعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۶، ۲ / ۷۶)
اسی لئے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاں مردے زندہ کرنے، بیماروں کو شفایاب کرنے، اندھوں کو بینا کرنے اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں ہر جگہ یہ فرمایا کہ میں یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اِذن یعنی اجازت سے کرتا ہوں۔
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۠(۷۷)
ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اے کتاب والو اپنے دین میں ناحق زیادتی نہ کرو اور ایسے لوگوں کی خواہش پر نہ چلو جو پہلے گمراہ ہوچکے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ بہک گئے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرماؤ، اے کتاب والو! اپنے دین میں ناحق غلو (زیادتی) نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات پر نہ چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوچکے ہیں اور بہت سے دوسرے لوگوں کوبھی گمراہ کرچکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹک چکے ہیں۔
{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: تم فرماؤ، اے کتاب والو!} یہاں تمام اہلِ کتاب کو ناحق زیادتی کرنے سے منع فرمایا ۔ یہودیوں کی زیادتی تو یہ تھی کہ وہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت ہی نہیں مانتے تھے اور نصاریٰ کی زیادتی یہ تھی کہ وہ انہیں معبود ٹھہراتے ہیں۔ ان سب سے فرمایا گیا کہ دین میں زیادتی نہ کرو اور گمراہ لوگوں کی پیروی نہ کرو یعنی اپنے بددین باپ دادا وغیرہ کے پیچھے نہ چلو بلکہ حق کی پیروی کرو۔
اولیاءِ کرام اور ان کے مزارات کے حوالے سے غُلُوّ:
اولیاء کرام کی تعظیم کرنا اور فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے ان کے مزارات پر حاضری دینا جائز اور پسندیدہ عمل ہے کیونکہ اولیاءِ کرام اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ہیں اور ان کے مزارات رحمتِ الہٰی اترنے کے مقامات ہیں لیکن فی زمانہ اولیاءِ کرام اور ان کے مزارات کے حوالے سے انتہائی غلو سے کام لیاجاتا ہے کہ بعض حضرات ان کی جائز تعظیم کو ناجائز و حرام کہتے اور ان کے مزارات پر حاضری کو شرک و بت پرستی سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض نادان ان کی تعظیم کرنے میں شرعی حد پار کر جاتے اوران کے مزارات پر ایسے امور سر انجام دیتے ہیں جو شرعاً ناجائز و حرام ہیں جیسے تعظیم کے طور پر مزار کاطواف کرنا اور صاحبِ مزار کو سجدہ تعظیمی کرنا، مزارات پر مزامیر کے ساتھ قوالیاں پڑھنا، عورتوں کا مزارات پر مخلوط حاضر ہونا اور عرس وغیرہ کے موقع پر لہوو لعب کا اہتمام کرنا وغیرہ۔ تعظیمِ اولیاء کو ناجائز و حرام کہنے والوں اور مزارات پر حاضری کو شرک و بت پرستی سمجھنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حالت پر غور کریں اور شرعاً جائز عمل کو اپنی طرف سے ناجائز و حرام کہہ کر دین میں زیادتی نہ کریں بلکہ حق کی پیروی کریں اور مزارات پر ناجائز و حرام کام کرنے والوں کو چاہئے وہ بھی اپنے ان افعال سے باز آ جائیں تاکہ دشمنانِ اولیاء ان کی نادانیوں کی وجہ سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے دور کرنے کی سعی نہ کر سکیں۔
لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان: لعنت کیے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں داوداور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بنی اسرائیل میں سے کفر کرنے والوں پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پرسے لعنت کی گئی۔ یہ لعنت اس وجہ سے تھی کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ سرکشی کرتے رہتے تھے۔
{لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کفر کرنے والوں پر لعنت کی گئی۔} ایلہ کے رہنے والوں کو ہفتہ کے دن شکار کرنا منع تھا، انہوں نے جب اس حکم کی مخالفت کی اور شکار کرنے سے باز نہ آئے تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن پر لعنت کی اور اُن کے خلاف دعا فرمائی چنانچہ ان سب کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مَسخ کردیا گیا ۔سورہ ٔاعراف میں اس قصے کی تفصیل مذکور ہے اور اصحابِ مائدہ نے جب نازل شدہ دسترخوان کی نعمتیں کھانے کے بعد ممانعت کے باوجود انہیں ذخیرہ کیا اور ایمان نہ لائے تو حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن کے خلاف دعا فرمائی تو وہ خنزیر اور بندر بن گئے، ا س وقت اُن کی تعداد پانچ ہزار تھی۔(جمل، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۲ / ۲۶۰-۲۶۱)
بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہود ی اپنے آباء واَجداد پر فخر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ہم انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں۔ اس آیت میں انہیں بتا دیا گیا کہ اُن انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے توان پر لعنت کی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جلوہ افروزی کی بشارت دی اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لانے اور کفر کرنے والوں پر لعنت کی تھی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۱ / ۵۱۶)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے منہ سے نکلی ہوئی نقصان کی دعا دنیا و آخرت میں رسوائی اور بربادی کا سبب بن سکتی ہے،لہٰذا ایسے کاموں سے بچتے رہنا چاہئے جو ان کی ناراضی کا سبب بنیں۔ {ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ:یہ (لعنت) ان کی نافرمانی اور سرکشی کا بدلہ ہے۔} اس میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان یہودیوں کی سرکشی سے غمزدہ نہ ہوں ، یہ لوگ تو عادی مجرم اور پرانے سرکش ہیں ، حتّٰی کہ اس سر کشی کی سزا میں بندر اور سور بھی بن چکے ہیں ، اس وقت ان کا امن میں رہنا صرف اس وجہ سے ہے کہ تم تمام عالَمین کے لئے رحمت ہو، تمہاری موجودگی میں عذاب نہ آئے گا۔
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹) ترجمۂ کنزالایمان: جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے تھے۔
{كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ:وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے ۔}یہودیوں کی ایک سر کشی یہ تھی کہ انہوں نے برائی ہوتی دیکھ کر ایک دوسرے کو اس سے منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو اُن کے علماء نے پہلے تو انہیں منع کیا، جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ علماء بھی اُن سے مل گئے اور کھانے پینے اُٹھنے بیٹھنے میں اُن کے ساتھ شامل ہوگئے اُن کی اسی نافرمانی اور سرکشی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اورحضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان سے اُن پر لعنت اُتاری۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۵، الحدیث: ۳۰۵۸)
گناہ سے روکنا واجب اور منع کرنے سے باز رہنا گناہ ہے
اس سے معلوم ہوا کہ برائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور گناہ سے منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے۔ اس سے ان علماء کو اور بطورِ خاص ان پیروں کواپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی حاجت ہے کہ جواپنے ماننے والوں میں یا مریدین و معتقدین میں اِعلانِیَہ گناہ ہوتے دیکھ کر اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے منع کرنے سے لوگ گناہ سے باز آ جائیں گے پھر بھی ’’یا شیخ اپنی اپنی دیکھ ‘‘کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔
حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن عذری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اس علم کو ہر پچھلی جماعت میں سے پرہیز گار لوگ اٹھاتے رہیں گے اور وہ غُلُوّ کرنے والوں کی تحریفیں ، اہلِ باطل کے جھوٹے دعوؤں اور جاہلوں کی غلط تاویل و تشریح کو دین سے دور کرتے رہیں گے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الشہادات، باب الرجل من اہل الفقہ۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۲۵۳، الحدیث: ۲۰۹۱۱)
مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس میں غیبی بشارت ہے کہ تاقیامت میرے دین میں علماءے خیر پیدا ہوتے رہیں گے ۔ جو علمِ دین کو پڑھتے پڑھاتے اور تبلیغ کرتے رہیں گے۔ خیال رہے کہ گزشتہ صالحین کو سَلف اور پچھلوں کو خَلف کہا جاتا ہے لہٰذا ہر جماعت ِصالحین اگلوں کے لحاظ سے خلف اور پچھلوں کے لحاظ سے سلف ہے۔ حدیثِ پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یعنی مسلمانوں میں بعض جاہل علماء کی شکل میں نمودار ہو کر قرآن و حدیث کی غلط تاویلیں اور مَعنوی تحریفیں کردیں گے ،وہ مقبول جماعت ان تمام چیزوں کو دفع کرے گی ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!آج تک ایسا ہورہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوگا ،دیکھ لو علماءے دین کی سرپرستی نہ حکومت کرتی ہے نہ قوم لیکن پھر بھی یہ جماعت پیدا ہو رہی ہے اور خدمتِ دین برابر کررہی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، کتاب العلم، الفصل الثانی، ۱ / ۲۰۱، تحت الحدیث: ۲۳۰)
تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(۸۰)
ترجمۂ کنزالایمان: ان میں تم بہت کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں ، کیا ہی بری چیز اپنے لیے خود آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں توان کی جانوں نے ان کے لئے کتنی بری چیز آگے بھیجی کہ ان پراللہ نے غضب کیا اور یہ لوگ ہمیشہ عذاب میں ہی رہیں گے۔
یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔} پچھلی آیات میں گزشتہ زمانے کے یہودیوں کی مذموم صفات اور ان کے عُیوب و نَقائص کا بیان تھا اب حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانۂ مبارکہ کے یہودیوں کی برائیوں اور سازشوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ شانِ نزول: کعب بن اشرف یہودی اور اس کے ساتھی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے بغض و عناد کی وجہ سے مشرکینِ مکہ کے پاس پہنچے اور انہیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کرنے پر ابھارا، لیکن یہ لوگ اپنی اس کوشش میں ناکام و نامراد ہوئے، اس واقعے سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منافقین میں سے بہت سوں کو دیکھیں گے کہ وہ یہودیوں سے دوستی کرتے ہیں۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۱ / ۵۱۷) کفار سے دوستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوااور آخرت میں دائمی عذاب کے مستحق ٹھہرے۔
کفار سے دوستی کا دم بھرنے والے مسلمانوں کے لئے تازیانۂ عبرت
معلوم ہوا کے کفار سے دوستی اور مُوالا ت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ یہ آیتِ مبارکہ ان مسلمانوں کے لئے تازیانۂ عبرت ہے جو کفار کی مسلمانوں سے کھلی دشمنی اپنی روشن آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ، صرف اپنے منصب کی بَقا کی خاطران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے،ان کی ہاں میں ہاں ملاتے اور ان کی ناراضی سے خوف کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ لَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النَّبِیِّ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(۸۱)
ترجمۂ کنزالایمان:اور اگر وہ ایمان لاتے اللہ اور ان نبی پر اور اس پر جو ان کی طرف اترا تو کافروں سے دوستی نہ کرتے مگر ان میں تو بہتیرے فاسق ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر یہ اللہ اور نبی پر اور اُس پر جو نبی کی طرف نازل کیا گیا ہے ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں بہت زیادہ فاسق ہیں۔
{وَ لَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النَّبِیِّ:اور اگر یہ اللہ اور نبی پر ایمان لاتے۔} کفار و مشرکین سے دوستی اور محبت کا رشتہ اُستُوار کرنے والے یہودی اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کی نازل کردہ کتاب قرآنِ پاک پر صدق و اخلاص کے ساتھ ایمان لائے ہوتے تو کسی صورت بھی ان کے ساتھ دوستی کا سلسلہ قائم نہ کرتے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان میں بہت زیادہ فاسق ہیں۔ ان آیات کے پسِ منظر پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کا اصل مقصود ریاست کی حکمرانی اور منصب کا حصول تھا اور اس کے لئے انہیں کوئی بھی طریقہ اپنانا پڑا، کسی بھی ذریعے کو اختیار کرنا پڑا وہ کر گزرے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال فی زمانہ ہم مسلمانوں میں عام ہو چکی ہے۔اپنی کرسی کوبچانے کے چکر میں کفار کے سامنے گھٹنے ٹیکتے اورایڑیاں گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ا نہیں عقل سلیم عطا فرمائے۔
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَهُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚ-وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰىؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ(۸۲)
ترجمۂ کنزالایمان: ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ غرور نہیں کرتے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ضرور تم مسلمانوں کا سب سے زیادہ شدید دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے :ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ ان میں علماء اور عبادت گزار موجود ہیں اور یہ تکبر نہیں کرتے۔
{وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے ۔} اس آیتِ کریمہ میں اُن عیسائیوں کی تعریف بیان کی گئی ہے جوحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانۂ اقدس تک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین پر قائم رہے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثت معلوم ہونے کے بعدسرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے۔
شانِ نزول: ابتدائے اسلام میں جب کفارِ قریش نے مسلمانوں کو بہت ایذائیں دیں تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے گیارہ مرد اور چار عورتوں نے سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، یہ تمام حضرات اعلانِ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینے میں بَحری سفر کرکے حبشہ پہنچے۔ اس ہجرت کو ہجرتِ اُولیٰ کہتے ہیں۔ اُن کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ گئے پھر اور مسلمان روانہ ہوتے رہے یہاں تک کہ بچوں اور عورتوں کے علاوہ مہاجرین کی تعداد بیاسی (82) مَردوں تک پہنچ گئی، جب قریش کو اس ہجرت کا علم ہوا تو انہوں نے چند افراد کوتحفہ تحائف دے کر نجاشی بادشاہ کے پاس بھیجا، ان لوگوں نے دربارِ شاہی میں باریابی حاصل کرکے بادشاہ سے کہا : ہمارے ملک میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور لوگوں کو نادان بنا ڈالا ہے اُن کی جماعت جو آپ کے ملک میں آئی ہے وہ یہاں فساد انگیزی کرے گی اور آپ کی رعایا کو باغی بنائے گی، ہم آپ کو خبردینے کے لئے آئے ہیں اور ہماری قوم درخواست کرتی ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کیجئے، نجاشی بادشاہ نے کہا :پہلے ہم ان لوگوں سے گفتگو کرلیں باقی بات بعد میں دیکھیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے مسلمانوں کو طلب کیا اور ان سے دریافت کیا کہ’’ تم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول، کَلِمَۃُ اللہ اور روحُ اللہ ہیں اور حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہاکنواری پاک ہیں۔ یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھا کر کہا خدا عَزَّوَجَلَّکی قسم تمہارے آقا نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کلام میں اتنا بھی نہیں بڑھایا جتنی یہ لکڑی، (یعنی حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد کلامِ عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بالکل مطابق ہے) یہ دیکھ کر مشرکینِ مکہ کے چہرے اتر گئے۔ پھر نجاشی نے قرآن شریف سننے کی خواہش کی تو حضرت جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سورۂ مریم تلاوت کی، اس وقت دربار میں نصرانی عالم اور درویش موجود تھے، قرآنِ پاک سن کر بے اختیار رونے لگے ۔ پھر نجاشی نے مسلمانوں سے کہا: تمہارے لئے میری سلطنت میں کوئی خطرہ نہیں مشرکینِ مکہ اپنے مقصد میں ناکام ہو کر واپس پلٹے اور مسلمان نجاشی کے پاس بہت عزت و آسائش کے ساتھ رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نجاشی کو دولتِ ایمان کا شرف حاصل ہوا ۔اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۲،۱ / ۵۱۸)
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(۸۳)
ترجمۂ کنزالایمان: اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے ابل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب یہ سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف نازل کیا گیا تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ابل پڑتی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے ۔ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے پس تو ہمیں (حق کے) گواہوں کے ساتھ لکھ دے۔
{ وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ:اور جب یہ لوگ اُس کو سنتے ہیں جو رسول کی طرف نازل کیا گیا۔} جب حبشہ کی طر ف ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نجاشی کے دربار میں جمع تھے اور مشرکینِ مکہ کا وفد بھی وہاں موجود تھا تو اس وقت نجاشی نے حضرت جعفر طیاررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی: کیا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی کتاب میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکا ذکر ہے ؟حضرت جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: قرآنِ پاک میں ایک مکمل سورت حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی طرف منسوب ہے، پھر سورۂ مریم اور سورۂ طٰہٰ کی چند آیات تلاوت فرمائیں تو نجاشی کی آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہو گیا۔ اسی طرح جب پھر حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں 70 آدمی تھے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے سورۂ یٰسین کی تلاوت فرمائی تو اسے سن کر وہ لوگ بھی زار و قطار رونے لگے۔ اس آیت میں ان واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۲۹۹) انہی سب کے متعلق فرمایا گیا کہ جب یہ لوگ اُس کو سنتے ہیں جو رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف نازل کیا گیا تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ابل پڑتی ہیں کیونکہ وہ حق کو پہچان گئے اور وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پرایمان لائے اور ہم نے اُن کے برحق ہونے کی شہادت دی، پس تو ہمیں حق کی گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ دے اور ہمیں اُس حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت میں داخل فرما جو روزِقیامت تمام اُمتوں کے گواہ ہوں گے۔ (اوریہ بات انہیں انجیل سے معلوم ہوچکی تھی۔) اِس آیت سے معلوم ہوا کہ ذکرِ الہٰی کے وقت عشق و محبت میں رونا اعلیٰ عبادت ہے۔ اسی طرح عذابِ الہٰی کے خوف اور رحمتِ الہٰی کی امید میں رونا بھی عبادت ہے ۔بہت سے عاشقانِ قرآن، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے جھومتے ہیں ، یہ قرآن کریم سے لذت و سُرور حاصل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ صبح کی خوشگوار ہوا سے نرم شاخیں حرکت کرتی ہیں اور تلاوت کرنے والا رحمتِ الہٰی کی نسیم سے ہلتا ہے۔
تلاوتِ قرآن کے2 فضائل:
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو مومن قرآن پڑھتا ہے، اس کی مثال ترنج کی سی ہے کہ خوشبو بھی اچھی ہے اور مزہ بھی اچھا ہے اور جو مومن قرآن نہیں پڑھتا، وہ کھجور کی مثل ہے کہ اس میں خوشبو نہیں مگر مزہ شیریں ہے ۔اور جو منافق قرآن پڑھتا ہے، وہ پھول کی مثل ہے کہ اس میں خوشبو ہے مگر مزہ کڑوااور جو منافق قرآن نہیں پڑھتا، وہ اندرائن کی مثل ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں ہے اور مزہ کڑوا ہے۔(بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب ذکر الطعام، ۳ / ۵۳۵، الحدیث: ۵۴۲۷)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے مروی ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو قرآن پڑھنے میں ماہر ہے، وہ کراماً کاتبین کے ساتھ ہے اور جو شخص رک رک کر قرآن پڑھتا ہے اور وہ اُس پر شاق ہے یعنی اُس کی زبان آسانی سے نہیں چلتی، تکلیف کے ساتھ ادا کرتا ہے، اُس کے لیے دو اجر ہیں(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل الماہر بالقرآن والذی یتتعتع فیہ، ص۴۰۰، الحدیث: ۲۴۴(۷۹۸))۔
تلاوتِ قرآن کے وقت رونے کی ترغیب
تلاوتِ قرآن کے وقت رونا مستحب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے جلیلُ القدر بندوں کا طریقہ ہے کہ بلند مراتب پر پہنچنے کے باوجودبھی ان کی دلی کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے کلامِ الہٰی کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو انہیں سن کر وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے لگتے ہیں جیسا کہ سورۂ مریم کی آیت نمبر 58 میں بیان ہوا، اسی طرح ان کی ایک اور کیفیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰارشاد فرماتا ہے:
’’ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ‘‘ (زمر: ۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ نے سب سے اچھی کتاب اتاری کہ ساری ایک جیسی ہے، باربار دہرائی جاتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کے بدن پر بال کھڑے ہوتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل اللہ کی یاد کی طرف نرم پڑجاتے ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷)
حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قرآن کو غم کے ساتھ پڑھو کیونکہ یہ غم کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۹۰۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب تم سورۂ سبحان میں سجدہ کی آیت پڑھو تو سجدہ کرنے میں جلدی نہ کرو یہاں تک کہ تم روؤ اور اگر تم میں سے کسی کی آنکھ نہ روئے تو دل کو رونا چاہئے (اور تکلف کے ساتھ رونے کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں حزن و ملال کو حاضر کرے کیونکہ ا س سے رونا پیدا ہوتا ہے)۔( تفسیر کبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۵۸، ۷ / ۵۵۱)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’غم ظاہر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کے ڈرانے، وعدہ اور عہد و پیمان کو یاد کرے پھر سوچے کہ اِس نے اُس کے احکامات اور ممنوعات میں کتنی کوتاہی کی ہے تو اس طرح وہ ضرور غمگین ہو گا اور روئے گا اور اگر غم اور رونا ظاہر نہ ہو جس طرح صاف دل والے لوگ روتے ہیں تو اس غم اور رونے کے نہ پائے جانے پر روئے کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب آداب تلاوۃ القرآن، الباب الثانی فی ظاہر آداب التلاوۃ، ۱ / ۳۶۸)
وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَا جَآءَنَا مِنَ الْحَقِّۙ-وَ نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ(۸۴)فَاَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ(۸۵)وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۠(۸۶)
ترجمۂ کنزالایمان: اور ہمیں کیا ہوا کہ ہم ایمان نہ لائیں اللہ پر اور اس حق پر کہ ہمارے پاس آیا اور ہم طمع کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارا رب نیک لوگوں کے ساتھ داخل کرے۔ تو اللہ نے ان کے اس کہنے کے بدلے انہیں باغ دئیے جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے یہ بدلہ ہے نیکوں کا۔اور وہ جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتیں جھٹلائیں وہ ہیں دوزخ والے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہمیں کیاہے کہ ہم اللہ پر اور اس حق پر ایمان نہ لائیں جوہمارے پاس آیا اور ہم طمع کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارا رب نیک لوگوں کے ساتھ (جنت میں ) داخل کردے۔ تو اللہ نے اُن کے اِس کہنے کے بدلے انہیں وہ باغات عطا فرمائے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ نیک لوگوں کی جزا ہے۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو وہ دوزخ والے ہیں۔
{ وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ:اور ہمیں کیاہے کہ ہم اللہ پر ایمان نہ لائیں۔} جب حبشہ کا وفد اسلام سے مشرف ہو کر واپس گیا تو یہودیوں نے اُنہیں اِس پر ملامت کی۔ اس کے جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ جب حق واضح ہوگیا تو ہم کیوں ایمان نہ لاتے (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۴، ۱ / ۵۲۰) یعنی ایسی حالت میں ایمان نہ لانا قابلِ ملامت ہے نہ کہ ایمان لانا کیونکہ ایمان لانا تو فلاحِ دارَین کا سبب ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(۸۷)وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(۸۸)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والوحرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ نے تمہارے لیے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو بیشک حد سے بڑھنے والے اللہ کو ناپسند ہیں۔ اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے جس پر تمہیں ایمان ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہنے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔ بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ اور جو کچھ تمہیں اللہ نے حلال پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اس اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو۔
{ لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ:پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔} اس آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی ایک جماعت سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا وعظ سن کر ایک روز حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاں جمع ہوئی اور اُنہوں نے آپس میں ترک ِدنیا کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا کہ وہ ٹاٹ پہنیں گے اور ہمیشہ دن میں روزے رکھیں گے اور ساری رات عبادتِ الہٰی میں گزارا کریں گے، بستر پر نہ لیٹیں گے اور گوشت اور چکنائی نہ کھائیں گے اور عورتوں سے جدا رہیں گے نیز خوشبو نہ لگائیں گے ۔اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اس ارادہ سے روک دیا گیا۔ (تفسیر قرطبی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۱۵۶، الجزء السادس)
اعمال میں اِعتدال کا حکم:
احادیث ِ مبارکہ میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اعتدال کا حکم فرمایا اور عبادت کرنے میں خود کو بہت زیادہ تکلیف میں ڈالنے سے منع فرمایا ۔ اس کے لئے درج ذیل 3 احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(1)… اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا فرماتی ہیں ’’رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف فرما تھے،اس وقت حضرت حولاء بنتِ تُوَیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا ان کے پاس سے گزریں۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی:’’یہ حولاء بنت تُوَیت (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا) ہیں ، لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھر نہیں سوتیں۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: رات بھر نہیں سوتیں ! اتنا عمل کیا کرو جتنا آسانی سے کر سکو، بخدا! اللہتعالیٰ نہیں اکتائے گا لیکن تم اکتا جاؤ گے۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضیلۃ العمل الدائم من قیام اللیل وغیرہ، ص۳۹۴، الحدیث: ۲۱۹(۷۸۴))
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رحمت ِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف لائے، اس وقت مسجد کے دو ستونوں کے درمیان رسی تانی ہوئی تھی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یہ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کی رسی ہے وہ نماز پڑھتی ہیں اور جب ان پر تھکن یا سستی طاری ہوتی ہے تو اس رسی کو پکڑ لیتی ہیں۔ حضور سیدُ المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس رسی کو کھول دو، تم میں سے ہر شخص اس وقت تک نماز پڑھے جب تک وہ آسانی سے نماز پڑھ سکے اور جب اس پر تھکن یا سستی طاری ہو تو وہ بیٹھ جایا کرے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضیلۃ العمل الدائم من قیام اللیل وغیرہ، ص۳۹۴، الحدیث: ۲۲۰(۷۸۵))
(3)… حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں ہمیشہ روزے رکھتا تھا اورہر رات قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا تھا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سامنے میرا ذکر کیا گیا تو آپ نے مجھے بلوایا، میں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ہر رات قرآنِ مجید پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں ، یا رسول اللہ ! لیکن میں نے اس عبادت سے صرف خیر کا ارادہ کیا ہے۔ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے لئے یہ کافی ہے کہ تم مہینے میں صرف تین دن روزے رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، میں ا س سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے رکھو کیونکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔ میں نے عرض کی :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے نبی! حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کے روزے کس طرح تھے؟ ارشاد فرمایا ’’ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ اور فرمایا ’’ہر ماہ میں ایک قرآنِ پاک ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: ’’ پھر بیس دن میں ایک قرآنِ پاک ختم کر لو۔ میں نے عرض کی: میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ارشاد فرمایا ’’ پھر دس دن میں ایک قرآنِ پاک ختم کر لو۔میں نے عرض کی: میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’ پھر سات دن میں قرآنِ پاک ختم کر لو اور اس سے زیادہ اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالو کیونکہ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ (مسلم، کتاب الصیام، باب النہی عن صوم الدہر۔۔۔ الخ، ص۵۸۵، الحدیث: ۱۸۲(۱۱۵۹))
حلال چیزوں کو ترک کرنے کاشرعی حکم :
حلال چیزوں کو ترک کرنا جائز ہوتا ہے کہ ان کا کرنا کوئی فرض و واجب نہیں ہوتا لیکن جس طرح حرام کو گناہ و نافرمانی سمجھ کر ترک کیا جاتا ہے اس طرح حلال چیزوں کو ترک کرنے کی اجازت نہیں۔ نیز کسی حلال چیز کے متعلق بطورِ مبالغہ یہ کہنے کی اجازت نہیں کہ ہم نے اس کو اپنے اُوپر حرام کرلیا ہے۔ صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے جو بہت سی چیزوں کو ترک کرنے کے واقعات ملتے ہیں وہ بطورِ علاج ہیں یعنی جس طرح بیمار آدمی بہت سی غذاؤں کو حلال سمجھنے کے باوجود اپنی صحت کی خاطر پرہیز کرتے ہوئے کئی چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے اسی طرح صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نفس کے علاج کیلئے بعض حلال چیزوں کو حلال سمجھنے کے باوجود ترک کردیتے ہیں ، لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حلال چیزوں کو ترک کرنے کی اجازت تو ہے لیکن یہ اجازت نہیں کہ ان کے ساتھ حرام جیسا سلوک کیا جائے۔
حلال چیزوں کو حرام قرار دینے کے بارے میں ایک اہم مسئلہ
اس آیت ِ مبارکہ میں پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار دینے سے منع فرمایا، اس سے ان لوگوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ جو مقبولانِ بارگاہ ِ الہٰی کی طرف منسوب ہر چیز پر حرام کے فتوے دینے پر لگے رہتے ہیں اور ہرچیز میں انہیں شرک ہی سوجھتاہے۔
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَۚ-فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍؕ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍؕ-ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْؕ-وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۸۹)
ترجمۂ کنزالایمان: اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پرہاں ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے یا انہیں کپڑے دینا یا ایک بردہ آزاد کرنا تو جو ان میں سے کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے یہ بدلہ ہے تمہاری قسموں کا جب قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرواسی طرح اللہ تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم احسان مانو۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ تمہیں تمہاری فضول قسموں پرنہیں پکڑے گا البتہ ان قسموں پر گرفت فرمائے گا جنہیں تم مضبوط کر لو تو ایسی قسم کاکفارہ دس مسکینوں کو اس طرح کا درمیانے درجے کا کھانا دینا ہے جوتم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا اُن دس کوکپڑے دینا ہے یا ایک مملوک (غلام یا لونڈی) آزاد کرناہے تو جو نہ پائے تو تین دن کے روزے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر گزار ہوجاؤ۔
{ لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ:اللہ تمہیں تمہاری فضول قسموں پرنہیں پکڑے گا ۔}اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت نے کھانے پینے کی چند حلال چیزیں اور کچھ لباس اپنے اوپر حرام کر لئے اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی، مزید یہ کہ اس پر انہوں نے قسمیں بھی کھا لیں۔جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز سے منع کیا تو انہوں نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، اب ہم اپنی قسموں کا کیا کریں ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں قسم کے احکام بیان کئے گئے۔ (تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۴ / ۴۱۸-۴۱۹)
قسم کی اقسام
(1)…یمینِ لَغْو یعنی غلط فہمی کی قسم، یہ وہ قسم ہے کہ آدمی کسی واقعہ کو اپنے خیال میں صحیح جان کر قسم کھالے اور حقیقت میں وہ ایسا نہ ہو، ایسی قسم پر کفارہ نہیں۔
(2)…یمینِ غَموس یعنی جھوٹی قسم ،کسی گزشتہ واقعے کے متعلق جان بوجھ کرجھوٹی قسم کھانا، یہ حرام ہے۔
(3)… یمینِ مُنعقدہ، جو کسی آئندہ کے معاملے پر اسے پورا کرنے یا پورا نہ کرنے کیلئے کھائی جائے، کسی صحیح معاملے پر کھائی گئی ایسی قسم توڑنا منع بھی ہے اور اس پر کفارہ بھی لازم ہے۔ قسم کی تیسری صورت پر ہی کفارہ لازم آتا ہے ۔
قسم کا کفارہ
یہاں آیت ِ مبارکہ میں قسم کا کفارہ بیان کیا گیا ہے اور قسم کا کفارہ یہ ہے کہ اگر کوئی قسم توڑے تو ایک غلام آزاد کرے یا دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر درمیانے درجے کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے ۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنے کی اجازت ہے اور اگر تینوں میں سے کسی کی بھی طاقت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنا کفارہ ہے۔
قسم کے کفارے کے چند مسائل
قسم کے کفارے سے متعلق چند مسائل یاد رکھیں :
(1)…مسکینوں کو کھانا کھلانے کی بجائے انہیں صدقہ فطر کی مقدار بھی دے سکتا ہے۔
(2)…یہ بھی جائز ہے کہ ایک مسکین کو دس روز دیدے یا کھلادیا کرے۔
(3)…بہت گھٹیا قسم کا کھانا کھلانے کی اجازت نہیں ، درمیانے درجے کا ہونا چاہیے۔
(4)…مسکینوں کو کپڑے پہنائے تو وہ بھی درمیانے درجے کے ہونے چاہئیں اور درمیانے درجے کے وہ ہیں جن سے اکثر بدن ڈھک سکے اور درمیانے درجے کے لوگ پہنتے ہوں یعنی سوٹ بہت گھٹیا نہ ہو اور تین مہینے تک چل سکتا ہو۔
(5)… روزہ سے کفارہ جب ہی اداہو سکتا ہے جب کہ کھانا کھلانے، کپڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی قدرت نہ ہو۔
(6)…روزے رکھنے کی صورت میں ضروری ہے کہ یہ روزے مسلسل رکھے جائیں۔
(7)… کفارہ قسم توڑنے سے پہلے دینا درست نہیں۔
مشورہ:قسم کے بارے میں کچھ کلام سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر 224 اور 225 کے تحت تفسیر میں گزر چکا ہے وہاں سے اس کا مطالعہ فرمائیں ، نیز قسم اور اس کے کفارے کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کیلئے بہارِ شریعت حصہ9 سے ’’قسم کا بیان‘‘مطالعہ فرمائیں۔
{ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ: اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔} قسم کی حفاظت کا حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ انہیں پورا کرو اگر اس میں شرعاً کوئی حرج نہ ہو اور یہ بھی حفاظت ہے کہ قسم کھانے کی عادت ترک کی جائے(تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۵۱)۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والوشراب اور جُوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
{رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ: ناپاک شیطانی کام ہیں۔} اس آیتِ مبارکہ میں چار چیزوں کے نجاست و خباثت اور ان کا شیطانی کام ہونے کے بارے میں بیان فرمایا اور ان سے بچنے کا حکم دیاگیا ہے۔وہ چار چیزیں یہ ہیں : (1) شراب۔ (2) جوا۔(3) اَنصاب یعنی بت ۔(4) اَزلام یعنی پانسے ڈالنا۔ ہم یہاں بالترتیب ان چاروں چیزوں کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہیں۔
(1)… شراب۔ صدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شراب پینا حرام ہے اور ا س کی وجہ سے بہت سے گناہ پیدا ہوتے ہیں ، لہٰذا اگر اس کو معاصی (یعنی گناہوں ) اور بے حیائیوں کی اصل کہا جائے تو بجا ہے۔(بہار شریعت، حصہ نہم، شراب پینے کی حد کا بیان، ۲ / ۳۸۵)
حضرت معاذرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ شراب ہر گز نہ پیو کہ یہ ہر بدکاری کی اصل ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث معاذ بن جبل، ۸ / ۲۴۹، الحدیث: ۲۲۱۳۶)
شراب پینے کی وعیدیں :
احادیث میں شراب پینے کی انتہائی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے شراب کے بارے میں دس شخصوں پر لعنت کی
(1) شراب بنانے والے پر۔
(2) شراب بنوانے والے پر۔
(3) شراب پینے والے پر
(4) شراب اٹھانے والے پر
(5) جس کے پاس شراب اٹھا کر لائی گئی اس پر
(6) شراب پلانے والے پر۔ (7) شراب بیچنے والے پر
(7) شراب بیچنے والے پر
(8) شراب کی قیمت کھانے والے پر
(9) شراب خریدنے والے پر
(10) جس کے لئے شراب خریدی گئی اس پر۔
(ترمذی، کتاب البیوع، باب النہی ان یتخذ الخمر خلاً، ۳ / ۴۷، الحدیث: ۱۲۹۹)
(2)…حضرت ابومالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور ا س کا نام بدل کر کچھ اور رکھیں گے، ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے کچھ لوگوں کو بندر اور سور بنا دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۸، الحدیث: ۴۰۲۰)
(3)…حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’قسم ہے میری عزت کی! میرا جو بندہ شراب کی ایک گھونٹ بھی پئے گا میں اس کو اُتنی ہی پیپ پلاؤں گا اور جو بندہ میرے خوف سے اُسے چھوڑے گامیں اس کو حوض قدس سے پلاؤں گا۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی، ۸ / ۲۸۶، الحدیث: ۲۲۲۸۱)
شراب حرام ہونے کا 10انداز میں بیان
شراب نوشی کے نتائج
یہاں ہم شراب نوشی کے چند وہ نتائج ذکر کرتے ہیں جوپوری دنیا میں نظر آ رہے ہیں تاکہ مسلمان ان سے عبرت حاصل کریں اور جو مسلمان شراب نوشی میں مبتلا ہیں وہ اپنے اس برے عمل سے باز آ جائیں۔
(1)…شراب نوشی کی وجہ سے کروڑوں افراد مختلف مُہلک اور خطرناک امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
(2)… لاکھوں افراد شراب نوشی کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
(3)…زیادہ تر سڑک حادثات شراب پی کر گاڑی چلانے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔
(4)…ہزاروں افراد شرابیوں کے ہاتھوں بے قصور قتل وغارت گری کا نشانہ بن رہے ہیں۔
(5)…لاکھوں عورتیں شرابی شوہروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہیں۔
(6)…لاکھوں عورتیں شرابی مردوں کی طرف سے جنسی حملوں کا شکار ہو رہی ہیں۔
(7)…والدین کی شراب نوشی کی وجہ سے زندگی کی توانائیوں سے عاری اور مختلف امراض میں مبتلا بچے پیدا ہو رہے ہیں۔
(8)… لاکھوں بچے شرابی والدین کی وجہ سے یتیمی اور اسیری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
(9)…شرابی شخص کے گھر والے اور اہل و عیال ا س کی ہمدردی اور پیار و محبت سے محروم ہو رہے ہیں۔
(10)…ان نقصانات کے علاوہ شراب کے اقتصادی نقصانات بھی بہت ہیں کہ اگر شراب کی خرید و فروخت اور امپورٹ ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والی رقم اور ان اخراجات کا موازنہ کیا جائے جو شراب کے برے اثرات کی روک تھام پر ہوتے ہیں تو سب پرواضح ہو جائے گا کہ شراب سے حاصل ہونے والی آمدنی ان ا خراجات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو اس کے برے نتائج کودور کرنے پر ہو رہے ہیں ،مثال کے طور پر شراب نوشی کی وجہ سے ہونے والی نفسیاتی اور دیگر بیماریوں کے علاج، نشے کی حالت میں ڈرائیورنگ سے ہونے والے حادثات، پولیس کی گرفتاریاں اور زحمتیں ، شرابیوں کی اولاد کے لئے پرورش گاہیں اور ہسپتال، شراب سے متعلقہ جرائم کے لئے عدالتوں کی مصروفیات، شرابیوں کے لئے قید خانے وغیرہ امور پر ہونے والے اخراجات دیکھے جائیں تو یہ شراب سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کہیں زیادہ نظر آئیں گے اور ا س کے علاوہ کچھ نقصانات تو ایسے ہیں کہ جن کاموازنہ مال و دولت سے کیا ہی نہیں جا سکتا جیسے پاک نسلوں کی تباہی، سستی، بے راہ روی، ثقافت و تمدن کی پسماندگی، احساسات کی موت، گھروں کی تباہی، آرزوؤں کی بربادی اور صاحبانِ فکر افراد کی دماغی صلاحیتوں کا نقصان، یہ وہ نقصانات ہیں جن کی تلافی روپے پیسے سے کسی صورت ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے اور شراب نوشی کی آفتِ بد سے نجات عطا فرمائے۔
(2)…جوا ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۱۹ / ۶۴۶)
جوئے کی مذمت میں 2احادیث
جوئے کے دنیوی نقصانات
دینِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر اس عمل اور عادت سے روکا ہے جس سے ان کا مالی اور جسمانی نقصان وابستہ ہو اور وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردے۔ ایسی بے شمار چیزوں میں سے ایک چیز جو ا بازی ہے جو کہ معاشرتی امن و سکون اور باہمی محبت و یکانگت کے لئے زہرِ قاتل سے بڑھ کر ہے اور قرآن و حدیث میں مختلف انداز سے مسلمانوں کو اس شیطانی عمل سے روکا گیا ہے لیکن افسوس کہ فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد اس خبیث ترین عمل میں مبتلا نظر آ رہی ہے اور یہ لوگ دنیا و آخرت کے لئے حقیقی طور پر مفیدکاموں کو چھوڑ کر اپنے شب و روز کو اسی عمل میں لگائے ہوئے ہیں اور ان کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ ان مسلمانوں کی نہ تودنیوی پَسماندگی دور ہو رہی ہے اور نہ ہی وہ اپنی اخروی کامیابی کے لیے کچھ کر پا رہے ہیں۔ہم یہاں جوئے بازی کے 3 دنیوی نقصانات ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمان انہیں پڑھ کر اپنی حالت پر کچھ رحم کریں اورجوئے سے باز آ جائیں۔
(1)… جوئے کی وجہ سے جوئے بازوں میں بغض، عداوت اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے اور بسا اوقات قتل و غارت گری تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
(2)… جوئے بازی کی وجہ سے مالدار انسان لمحوں میں غربت و افلاس کا شکار ہو جاتا ہے، خوشحال گھر بدحالی کا نظار ہ پیش کر نے لگتے ہیں ، اچھا خاصا آدمی کھانے پینے تک کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے ، معاشرے میں اس کا بنا ہو اوقار ختم ہو جاتا ہے اور سماج میں اس کی کوئی قدرو قیمت اور عزت باقی نہیں رہتی۔
(3)… جوئے باز نفع کے لالچ میں بکثرت قرض لینے اور کبھی کبھی سودی قرض لینے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے اور جب وہ قرض ادا نہیں کر پاتا یا اسے قرض نہیں ملتا تو وہ ڈاکہ زنی اور چوری وغیرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے حتّٰی کہ جوئے باز چاروں جانب سے مصیبتوں میں ایسا گھر جاتا ہے کہ بالآخر وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور انہیں اس شیطانی عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(3)… جوئے باز نفع کے لالچ میں بکثرت قرض لینے اور کبھی کبھی سودی قرض لینے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے اور جب وہ قرض ادا نہیں کر پاتا یا اسے قرض نہیں ملتا تو وہ ڈاکہ زنی اور چوری وغیرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے حتّٰی کہ جوئے باز چاروں جانب سے مصیبتوں میں ایسا گھر جاتا ہے کہ بالآخر وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور انہیں اس شیطانی عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نصب کر کے ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۳۰۲)
علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اگر انصاب سے مراد وہ پتھر ہوں جن کے پاس کفار اپنے جانور ذبح یا نَحر کرتے تھے تو ان پتھروں کوناپاک ا س لئے کہا گیا تاکہ کمزور ایمان والے مسلمانوں کے دلوں میں اگر ان کی کوئی عظمت باقی ہے تو وہ بھی نکل جائے، اور اگر انصاب سے مراد وہ بت ہوں جن کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے(ان کے پاس جانور ذبح کئے جاتے ہوں یا نہیں ) تو انہیں ناپاک ا س لئے کہا گیا تاکہ سب پر اچھی طرح واضح ہو جائے کہ جس طرح اصنام سے بچنا واجب ہے اسی طرح انصاب سے بچنا بھی واجب ہے۔ (البحر المحیط، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۴ / ۱۶)
(4)… ازلام۔ زمانۂ جاہلیت میں کفار نے تین تیر بنائے ہوئے تھے، ان میں سے ایک پر لکھا تھا ’’ہاں ‘‘ دوسرے پر لکھا تھا ’’نہیں ‘‘ اور تیسرا خالی تھا ۔ وہ لوگ ان تیروں کی بہت تعظیم کرتے تھے اور یہ تیر کاہنوں کے پاس ہوتے اور کعبہ معظمہ میں کفارِ قریش کے پاس ہوتے تھے(جب انہیں کوئی سفر یا اہم کام درپیش ہوتا تو وہ ان تیروں سے پانسے ڈالتے اور جو ان پر لکھا ہوتا اس کے مطابق عمل کرتے تھے) ۔پرندوں سے اور وحشی جانوروں سے برا شگون لینا اور کتابوں سے فال نکالنا وغیرہ بھی اسی میں داخل ہے۔(البحر المحیط، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۴ / ۱۶)
کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جانے کی مذمت آیت’’ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے
(1)… صرف نیک اعمال کرنے سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی بلکہ برے اعمال سے بچنا بھی ضروری ہے۔ یہ دونوں تقویٰ کے دو پر ہیں ، پرندہ ایک پر سے نہیں اڑتا۔
(2)… نیکیاں کرنا اور برائیوں سے بچنا دنیا اور دکھلاوے کے لئے نہ ہونا چاہئے بلکہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہونا چاہئے۔
اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱)
ترجمۂ کنزالایمان: شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا وے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: شیطان تویہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض وکینہ ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم باز آتے ہو؟
اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ:بیشک شیطان تو چاہتا ہے ۔} اس آیت میں شراب اور جوئے کے نتائج اور وبال بیان فرمائے گئے کہ شراب خوری اور جوئے بازی کا ظاہری دنیوی وبال تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں بغض اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں جبکہ ظاہری دینی وبال یہ ہے کہ جوشخص اِن برائیوں میں مبتلا ہو وہ ذکرِ الہٰی اور نماز کے اوقات کی پابندی سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر اور نماز سے روکے ، وہ بری ہے اور چھوڑنے کے قابل ہے، اسی لئے جمعہ کی اذان کے بعد تجارت حرام ہے۔
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْاۚ-فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۹۲)
ترجمۂ کنزالایمان: اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ہوشیار رہو پھر اگر تم پھر جاؤ تو جان لو کہ ہمارے رسول کا ذمہ صرف واضح طور پر حکم پہنچا دینا ہے۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانواور ہوشیار رہوپھر اگر تم پھر جاؤ تو جان لو کہ ہمارے رسول پر تو صرف واضح طور پرتبلیغ فرمادینا لازم ہے۔
{ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ:اوراللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو۔} یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جس کام کا تمہیں حکم دیا اور جس کام سے منع کیا اس میں ان کا حکم مانو اور احکامات اور ممنوعات میں اللہتعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مخالفت کرنے سے ڈرو،پھر اگر تم اُس سے منہ موڑ لو جس کا تمہیں حکم دیا گیا اور جس سے منع کیا گیا تو جان لو کہ اس سے ہمارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ ہمارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر تو صرف واضح طور پرتبلیغ فرمادینا لازم ہے، بلکہ اس میں تمہارا اپنا نقصان ہے کہ تم اپنے اعراض کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب کے مستحق ٹھہرو گے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۵۲۵، مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۳۰۲، ملتقطاً)
لَیْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْۤا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠(۹۳) ترجمۂ کنزالایمان:جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ان پر کچھ گناہ نہیں ہے جو کچھ انہوں نے چکھا جب کہ ڈریں اور ایمان رکھیں اور نیکیاں کریں پھر ڈریں اور ایمان رکھیں پھر ڈریں اور نیک رہیں اور اللہ نیکوں کو دوست رکھتا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان پر کھانے میں کوئی گناہ نہیں جب کہ ڈریں اور ایمان رکھیں اور اچھے عمل کریں پھر ڈریں اور ایمان رکھیں پھر ڈریں اور نیکیاں کریں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
{ لَیْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ : جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان پرکوئی گناہ نہیں۔} یہ آیتِ مبارکہ اُن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے حق میں نازل ہوئی جو شراب حرام کئے جانے سے پہلے وفات پاچکے تھے اور چونکہ شراب حرام نہ تھی تو وہ پی لیا کرتے تھے۔ جب اُن کے بعد شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اُن کی فکر ہوئی کہ اُن سے شراب کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی یا نہیں ؟( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۸، الحدیث: ۳۰۶۲) نیز جوصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ دیگر شہروں میں موجود ہیں اور انہیں اس بات کا علم ابھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب حرام قرار دے دی ہے ،اگر وہ اِس لاعلمی کے کچھ عرصہ میں شراب پی لیں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اُن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے جن نیک ایمانداروں نے کچھ کھایا پیا وہ گنہگار نہیں ، اسی طرح جنہیں حرمت کا حکم نازل ہو جانے کا علم نہیں ان پر بھی حکم کی معلومات ہونے سے پہلے شراب پی لینے کی صورت میں کچھ گناہ نہیں۔
اِس آیتِ مبارکہ میں لفظ ’’اتَّقَوْا‘‘جس کے معنیٰ ڈرنے اور پرہیز کرنے کے ہیں ، تین مرتبہ آیا ہے: پہلے سے مراد شرک سے بچنا، دوسرے سے مراد تمام حرام کاموں اور گناہوں سے بچنا اور تیسرے سے مراد شبہات کا ترک کر دینا ہے۔(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۳۰۲)
بعض مفسرین نے فرمایا کہ پہلے سے مراد تمام حرام چیزوں سے بچنا اور دوسرے سے اُس پر قائم رہنا اور تیسرے سے مراد وحی کے نازل ہونے کے زمانے میں یا اُس کے بعد جو چیزیں منع کی جائیں اُن کو چھوڑ دینا ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ۱ / ۵۲۵، مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۳۰۳، جمل، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۲۷۳)
بعض مفسرین نے یہ معنیٰ بیان کیا کہ پہلے بھی گناہوں سے بچتے رہے ہوں اور اب بھی بچتے رہیں اور آئندہ بھی بچتے رہیں۔(تفسیرکبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ۴ / ۴۲۷)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِۚ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۹۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو ضرور اللہ تمہیں آزمائے گا ایسے بعض شکار سے جس تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہونچیں کہ اللہ پہچان کرا دے ان کی جو اس سے بن دیکھے ڈرتے ہیں پھر اس کے بعد جو حد سے بڑھے اس کے لئے دردناک سزا ہے۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ضرور اللہ ان شکاروں کے ذریعے جن تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچ سکیں گے تمہارا امتحان کرے گا تاکہ اللہ ان لوگوں کی پہچان کرادے جو اس سے بن دیکھے ڈرتے ہیں پھر اس (ممانعت) کے بعد جو حد سے بڑھے تواس کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
{ لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ:ضرور اللہ تمہیں آزمائے گا۔} 6 ہجری جس میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، اس سال مسلمان حالت ِ احرام میں تھے۔اُس حالت میں وہ اِس آزمائش میں ڈالے گئے کہ شکار کئے جانے والے جانور اور پرندے بڑی کثرت سے آئے اور اُن کی سواریوں پر چھا گئے۔ اتنی کثرت تھی کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکیلئے انہیں ہتھیار سے شکار کرلینا بلکہ ہاتھ سے پکڑ لینا بالکل اختیا رمیں تھا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۱ / ۵۲۵)لیکن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمحکمِ الہٰی کی پابندی میں ثابت قدم رہے اور حالت ِ احرام میں شکار نہ کیا۔ اس سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت بھی ظاہر ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی گناہ کے اسباب و مواقع جس قدر کثرت سے موجود ہوں ان سے بچنے میں اتنا ہی زیادہ ثواب ہے، جیسے نوجوان کو تقویٰ و پرہیزگاری اور پارسائی کا ثواب بوڑھے کی بَنِسبت زیادہ ہے۔ یونہی جو برے لوگوں کے درمیان بھی نیک رہے وہ نیکوں کے درمیان نیک رہنے والے سے بہتر ہے۔ حضرت سیدنا یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام اور زلیخا کا واقعہ بھی اِس بات کی قوی دلیل ہے لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ اِن باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ برے دوستوں کی صحبت میں رہ کریا گناہ کی جگہ جاکر نیک بننے کی کوشش کرے تاکہ زیادہ بڑا متقی بنے بلکہ حتی الامکان ایسی صحبت اور مقام سے بچنا ہی چاہیے کہ زیادہ تقویٰ کی امید پر کہیں اصل ہی سے نہ جاتے رہیں۔
{ لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ:ضرور اللہ تمہیں آزمائے گا۔} 6 ہجری جس میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، اس سال مسلمان حالت ِ احرام میں تھے۔اُس حالت میں وہ اِس آزمائش میں ڈالے گئے کہ شکار کئے جانے والے جانور اور پرندے بڑی کثرت سے آئے اور اُن کی سواریوں پر چھا گئے۔ اتنی کثرت تھی کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکیلئے انہیں ہتھیار سے شکار کرلینا بلکہ ہاتھ سے پکڑ لینا بالکل اختیا رمیں تھا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۱ / ۵۲۵)لیکن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمحکمِ الہٰی کی پابندی میں ثابت قدم رہے اور حالت ِ احرام میں شکار نہ کیا۔ اس سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت بھی ظاہر ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی گناہ کے اسباب و مواقع جس قدر کثرت سے موجود ہوں ان سے بچنے میں اتنا ہی زیادہ ثواب ہے، جیسے نوجوان کو تقویٰ و پرہیزگاری اور پارسائی کا ثواب بوڑھے کی بَنِسبت زیادہ ہے۔ یونہی جو برے لوگوں کے درمیان بھی نیک رہے وہ نیکوں کے درمیان نیک رہنے والے سے بہتر ہے۔ حضرت سیدنا یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام اور زلیخا کا واقعہ بھی اِس بات کی قوی دلیل ہے لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ اِن باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ برے دوستوں کی صحبت میں رہ کریا گناہ کی جگہ جاکر نیک بننے کی کوشش کرے تاکہ زیادہ بڑا متقی بنے بلکہ حتی الامکان ایسی صحبت اور مقام سے بچنا ہی چاہیے کہ زیادہ تقویٰ کی امید پر کہیں اصل ہی سے نہ جاتے رہیں۔
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو شکار نہ مارو جب تم احرام میں ہواور تم میں جو اسے قصداً قتل کرے تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ ویسا ہی جانور مویشی سے دے تم میں کے دو ثقہ آدمی اس کا حکم کریں یہ قربانی ہو کعبہ کو پہونچتی یا کفارہ دے چند مسکینوں کا کھانا یا اس کے برابر روزے کہ اپنے کام کا وبال چکھے اللہ نے معاف کیا جو ہو گزرا اور جو اَب کرے گا اللہاس سے بدلہ لے گا اور اللہ غالب ہے بدلہ لینے والا۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! حالت ِاحرام میں شکار کو قتل نہ کرو اور تم میں جو اسے قصداً قتل کرے تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ مویشیوں میں سے اسی طرح کا وہ جانور دیدے جس کے شکار کی مثل ہونے کا تم میں سے دومعتبر آدمی فیصلہ کریں ، یہ کعبہ کو پہنچتی ہوئی قربانی ہو یا چند مسکینوں کا کھانا کفارے میں دے یا اس کے برابر روزے تاکہ وہ اپنے کام کا وبال چکھے۔ اللہ نے پہلے جو کچھ گزرا اسے معاف فرمادیا اور جودوبارہ کرے گاتو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ غالب ہے ،بدلہ لینے والاہے۔
{لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ: حالتِ احرام میں شکار کو قتل نہ کرو۔}اس آیتِ مبارکہ میں حالت ِ احرام میں شکار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ یہاں اِس کے چند مسائل بیان کئے جاتے ہیں۔
حالتِ احرام میں شکار کرنے کے شرعی مسائل
(1)… مُحْرِم یعنی احرام والے پر شکار یعنی خشکی کے کسی وحشی جانور کو مارنا حرام ہے۔
(2)… جانور کی طرف شکار کرنے کے لئے اشارہ کرنا یاکسی طرح بتانا بھی شکار میں داخل اور ممنوع ہے۔
(3)…حالتِ احرام میں ہر وحشی جانور کا شکار ممنوع ہے خواہ وہ حلال ہو یا نہ ہو ۔
(4)… کاٹنے والا کتا، کوا، بچھو، چیل، چوہا، بھیڑیا اور سانپ ان جانوروں کو احادیث میں فَوَاسِق فرمایا گیا ہے اور ان کے قتل کی اجازت دی گئی ہے ۔
(5)…مچھر، پِسُّو، چیونٹی، مکھی اور حشراتُ الارض اور حملہ آور درندوں کو مارنا معاف ہے۔ (تفسیر احمدی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ص ۳۷۲-۳۷۷)
(6)… حالتِ احرام میں جن جانوروں کا مارنا ممنوع ہے وہ ہر حال میں ممنوع ہے جان بوجھ کر ہو یاغلطی سے۔ جان بوجھ کر مارنے کا حکم تو اس آیت میں موجود ہے غلطی سے مارنے کا حکم حدیث شریف سے ثابت ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۳۰۳)
حالتِ احرام میں شکار کے کفارے کی تفصیل:
حالت ِ احرام میں شکار کے کفاروں سے متعلق یہ تفصیل ہے۔
(1)… خشکی کا وحشی جانور شکار کرنا یا اس کی طرف شکار کرنے کو اشارہ کرنا یا اور کسی طرح بتانا یہ سب کام حرام ہیں اور سب میں کفارہ واجب اگرچہ اُس کے کھانے میں مجبور ہو یعنی بھوک سے مرا جاتا ہو اور کفارہ اس کی قیمت ہے یعنی دو عادل وہاں کے حساب سے جو قیمت بتا دیں وہ دینی ہوگی اور اگر وہاں اُس کی کوئی قیمت نہ ہو تو وہاں سے قریب جگہ میں جو قیمت ہو وہ ہے اور اگر ایک ہی عادل نے بتادیا جب بھی کافی ہے ۔
(2)… شکار کی قیمت میں اختیار ہے کہ اس سے بھیڑ بکری وغیرہ اگر خرید سکتا ہے تو خرید کر حرم میں ذبح کرکے فقراء کو تقسیم کردے یا اُس کا غلہ خرید کر مسا کین پر تَصَدُّق کردے، اتنی مقدار دے کہ ہر مسکین کو صدقۂ فطر کی مقدار پہنچ جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس قیمت کے غلہ میں جتنے صدقے ہو سکتے ہوں ہر صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھے اور اگر کچھ غلہ بچ جائے جو پورا صدقہ نہیں تو اختیار ہے وہ کسی مسکین کو دیدے یا اس کے عوض ایک روزہ رکھے اور اگر پوری قیمت ایک صدقہ کے لائق بھی نہیں تو بھی اختیار ہے کہ اتنے کا غلہ خرید کر ایک مسکین کو دیدے یا اس کے بدلے ایک روزہ رکھے۔
(3)…کفارہ کا جانور حرم کے باہر ذبح کیا تو کفارہ ادا نہ ہو گا اور اگر اس میں سے خود بھی کھایا تو اتنے کا تاوان دے۔(بہارِ شریعت، حصہ ششم، جرم اور ان کے کفارے کا بیان، ۱ / ۱۱۷۹-۱۱۸۰)
اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِۚ-وَ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًاؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(۹۶)
ترجمۂ کنزالایمان: حلال ہے تمہارے لیے دریا کا شکار اور اس کا کھانا تمہارے اور مسافروں کے فائدے کو اور تم پر حرام ہے خشکی کا شکارجب تک تم احرام میں ہو اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف تمہیں اٹھنا ہے۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لئے تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا اور جب تک تم احرام کی حالت میں ہوتب تک تم پرخشکی کا شکار حرام کردیا گیا اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف تمہیں اٹھایا جائے گا۔
{ اُحِلَّ لَكُمْ:تمہارے لئے حلال کردیا گیا۔} اس آیت میں یہ مسئلہ بیان فرمایا گیا کہ محرم کے لئے دریا کا شکار حلال ہے اور خشکی کا حرام ۔ دریا کا شکار وہ ہے جس کی پیدائش دریامیں ہو اور خشکی کا وہ جس کی پیدائش خشکی میں ہو۔( بحر الرائق، کتاب الحج، فصل ان قتل محرم صیداً۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۷)
حرام شکاروں کا بیان
یاد رہے کہ دو شکار حرام ہیں : محرم کاکیا ہوا اور حرم کا۔ حرم شریف میں رہنے والے شکارکئے جانے والے جانور کو نہ وہ آدمی شکار کر سکتا ہے جو حالتِ احرام میں ہو اور نہ بغیر احرام والا، وہ اللہ تعالیٰ کی امان میں ہیں۔ یہاں احرام کے شکار کی حرمت کا ذکر ہے جو احرام ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے مگر حرم کا شکار ہمیشہ ہر شخص کے لئے حرام ہے خواہ وہ شخص احرام میں ہو یا احرام سے فارغ بلکہ حرم کے شکار کو اس کی جگہ سے اٹھانا بھی منع ہے۔
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ الْهَدْیَ وَ الْقَلَآىٕدَؕ-ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۹۷)
ترجمۂ کنزالایمان: اللہ نے ادب والے گھر کعبہ کو لوگوں کے قیام کا باعث کیا اور حرمت والے مہینے اور حرم کی قربانی اور گلے میں علامت آویزاں جانوروں کو یہ اس لیے کہ تم یقین کرو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور یہ کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ نے ادب والے گھر کعبہ کواور حرمت والے مہینے کو اور حرم کی طرف لیجائے جانے والی قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں (حج کی قربانی ہونے کی) نشانی لٹکائی ہوئی ہو (ان سب کو) لوگوں کے قیام کا ذریعہ بنادیا ۔یہ اس لیے ہیں تاکہ تم یقین کرلو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور یقین کرلو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
{ جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ:اللہ نے ادب والے گھر کعبہ کو لوگوں کے قیام کا ذریعہ بنادیا ۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کیلئے قیام کا باعث بنایا کہ وہاں دینی اوردنیوی اُمور کا قیام ہوتا ہے، خوفزدہ وہاں پناہ لیتا ہے، ضعیفوں کو وہاں امن ملتا ہے، تاجر وہاں نفع پاتے ہیں اور حج و عمرہ کرنے والے وہاں حاضر ہو کر مناسک ادا کرتے ہیں لہٰذا یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بڑی نعمت ہے۔ یونہی ذی الحجہ جس میں حج کیا جاتا ہے اور ہَدی کے جانور ان سب کے ساتھ بھی دینی اور دنیاوی امور وابستہ ہیں کہ اس کے گوشت سے غریبوں اور امیروں کا گزارہ ہوتا ہے اور اس سے ایک رکنِ اسلامی ادا ہوتا ہے۔
اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَ اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌؕ(۹۸)
ترجمۂ کنزالایمان:جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور اللہ بخشنے والا، مہربان بھی ہے۔
{ اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ : جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا بھی ہے۔} ارشاد فرمایا گیا کہ جان رکھو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور اللہ تعالٰی بخشنے والا، مہربان بھی ہے،تو حرم اور احرام کی حرمت کا لحاظ رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد اپنی صفت ’’شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘ ذکر فرمائی تاکہ خوف و امید سے ایمان کی تکمیل ہو ،اس کے بعد صفت’’غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ بیان فرما کر اپنی وسعت ِرحمت کا اظہار فرمایا۔
مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ(۹۹)
ترجمۂ کنزالایمان: رسول پر نہیں مگر حکم پہونچانا اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: رسول پر صرف تبلیغ لازم ہے اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو۔ { مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ:رسول پر صرف تبلیغ لازم ہے۔}ارشاد فرمایا کہ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر صرف تبلیغ لازم ہے تو جب میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ حکم پہنچا کر فارغ ہوگئے تو تم پر اطاعت لازم ہوگئی اور حجت قائم ہوگئی اور تمہارے لئے عذر کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بے نیازی بھی مذکور ہے کہ وہ تمہارے حاجت مند نہیں بلکہ تم ان کے محتاج ہو۔ اگر کوئی بھی ان کی اطاعت نہ کرے تو ان کا کچھ نہ بگڑے گا کیونکہ وہ تبلیغ فرما چکے ،جیسے سورج سے اگر کوئی نو ر نہ لے تو سورج کو کوئی نقصان نہیں بلکہ نقصان اسی کا ہے جو سورج سے نور نہیں لے رہا۔
{ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ:اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو۔}یعنی تمہارے ظاہری اور باطنی احوال میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ہے لہٰذا جیسے تمہارے اعمال ہوں گے اللہ تعالیٰ ویسی تمہیں جزا دے گا۔
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠(۱۰۰)
ترجمۂ کنزالایمان: تم فرمادو کہ ستھرا اور گندہ برابر نہیں اگرچہ تجھے گندے کی کثرت بھائے تو اللہ سے ڈرتے رہو اے عقل والوکہ تم فلاح پاؤ۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرمادو کہ گندا اور پاکیزہ برابر نہیں ہیں اگرچہ گندے لوگوں کی کثرت تمہیں تعجب میں ڈالے تو اے عقل والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
{ قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ: تم فرمادو کہ گندا اور پاکیزہ برابر نہیں ہیں۔}اس آیت میں فرمایا گیا کہ حلال و حرام، نیک و بد،مسلم و کافر اور کھرا کھوٹا ایک درجہ میں نہیں ہوسکتے بلکہ حرام کی جگہ حلال، بد کی جگہ نیک، کافر کی جگہ مسلمان اور کھوٹے کی جگہ کھرا ہی مقبول ہے۔
{ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ:اگرچہ گندے کی کثرت تمہیں تعجب میں ڈالے۔}اس کا معنی یہ ہے کہ دنیا داروں کو مال و دولت کی کثرت اور دنیا کی زیب و زینت بھاتی ہے حالانکہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ سب سے اچھی اور سب سے زیادہ باقی رہنے والی ہیں کیونکہ دنیا کی زینت و آرائش اور اس کی نعمتیں ختم ہو جائیں گی جبکہ وہ نعمتیں ہمیشہ باقی رہیں گی جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۵۳۰)
دنیا کی مذمت
اس سے معلوم ہو اکہ دنیا کے مال و دولت کی چاہت،ا س کی نعمتوں اور آسائشوں کی خواہشات اور اس کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کی تمنا میں لگے رہنا اور اپنی آخرت کی تیاری سے غافل رہنا انتہائی مذموم ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ‘‘(اٰل عمران:۱۴)ترجمۂ کنزُالعِرفان:لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کردیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اورمویشیوں اور کھیتیوں کو( ان کے لئے آراستہ کردیا گیا۔) یہ سب دنیوی زندگی کا سازوسامان ہے اور صرف اللہ کے پاس اچھا ٹھکاناہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَاۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهٖ مِنْهَاؕ-وَ سَنَجْزِی الشّٰكِرِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۱۴۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے دنیا کا کچھ انعام دیدیں گے اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے آخرت کا انعام عطافرمائیں گے اورعنقریب ہم شکر ادا کرنے والوں کو صلہ عطا کریں گے۔
حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص ہمیشہ دنیا کی فکر میں مبتلارہے گا (اور دین کی پرواہ نہ کرے گا )تو اللہ تعالیٰ ا س کے تمام کام پریشان کر دے گا اور ا س کی مفلسی ہمیشہ اس کے سامنے رہے گی اور اسے دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور جس کی نیت آخرت کی جانب ہو گی تو اللہ تعالیٰ اس کی دل جمعی کے لئے ا س کے تمام کام درست فرما دے گا اور ا س کے دل میں دنیا کی بے پروائی ڈال دے گا اور دنیا اس کے پاس خودبخود آئے گی۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الہم بالدنیا، ۴ / ۴۲۴، الحدیث: ۴۱۰۵)
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دنیا اس کا گھر ہے جس کا (آخرت میں ) کوئی گھر نہیں اور اس کا مال ہے جس کا دوسرا کوئی مال نہیں اور دنیا کے لئے وہ آدمی جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہیں۔(شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، فصل فیما بلغنا عن الصحابۃ۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۷۵، الحدیث: ۱۰۶۳۸)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے اپنی دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے اپنی آخرت سے محبت کی ا س نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا، پس تم فنا ہونے والی (دنیا) پر باقی رہنے والی (آخرت ) کو ترجیح دو۔(مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷ / ۱۶۵، الحدیث: ۱۹۷۱۷)
اللہتعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنی دنیوی بہتری کے ساتھ ساتھ اپنی اخروی تیاری کی طرف بھی توجہ کرنے اور اس کے لئے بھر پور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ- وَ اِنْ تَسْــٴَـلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ-عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ(۱۰۱)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والوایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرما چکا ہے اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر تم انہیں اس وقت پوچھو گے جبکہ قرآن نازل کیا جارہا ہے تو تم پروہ چیزیں ظاہر کردی جائیں گی اور اللہ ان کو معاف کرچکا ہے اور اللہ بخشنے والا ،حلم والا ہے۔
{ لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ: ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔} اس آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک روز سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ’’ جس کو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرے ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’ حذافہ۔ پھر فرمایا ’’اور پوچھو، تو حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُٹھ کر ایمان و رسالت کا اقرار کرکے معذرت پیش کی۔(بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱ / ۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰)
امام ابنِ شہاب زہری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن حذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی والدہ نے اُن سے شکایت کی اور کہا کہ ’’تو بہت نالائق بیٹا ہے ،تجھے کیا معلوم کہ زمانۂ جاہلیت کی عورتوں کا کیا حال تھا؟ خدانخواستہ ،تیری ماں سے کوئی قصور ہوا ہوتا تو آج وہ کیسی رسوا ہوتی۔ اس پرحضرت عبداللہ بن حذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ اگر سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کسی حبشی غلام کو میرا باپ بتادیتے تو میں یقین کے ساتھ مان لیتا۔(تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۵۷)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ’’ لوگ بطریقِ اِستہزاء اس قسم کے سوا ل کیا کرتے تھے، کوئی کہتا میرا باپ کون ہے ؟کوئی پوچھتا کہ میری اونٹنی گم ہوگئی ہے، وہ کہاں ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لا تسألوا عن اشیاء ان تبد لکم تسؤکم، ۳ / ۲۱۸، الحدیث: ۴۶۲۲) مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا۔ اس پر ایک شخص نے کہا، کیا ہر سال فرض ہے؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے سکوت فرمایا۔ سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ’’ جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا اور تم نہ کرسکتے۔ (مسلم، کتاب الحج۔، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، ص ۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷))
آیت’’ لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ ‘‘ اوراس کی تفسیرمیں مذکورروایات سے معلوم ہونے والی اہم باتیں
اس آیت اور ا س کی تفسیر میں جو روایات ذکر ہوئیں ان سے چار اہم باتیں معلوم ہوئیں
(1)…حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا علم غیب:ان روایات سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیب کا علم رکھتے ہیں کیونکہ کسی کا حقیقی باپ کون ہے؟ اس کا تعلق غیب سے ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کلی علم عطا فرمایا گیا ورنہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ یہ نہ فرماتے کہ جو چاہو پوچھو بلکہ فرماتے کہ فلاں فلاں شعبے کے متعلق پوچھ لو یا فرماتے کہ صرف شریعت کے متعلق جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ سرورِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بغیر کسی قید کے فرمانا کہ جوپوچھنا ہے پوچھو اور پوچھنے والوں کا بھی ہر طرح کی بات پوچھ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سب کچھ جانتے ہیں اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم یہی عقیدہ رکھتے تھے۔
(2)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اختیارات: آخری روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اختیار دیا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جس چیز کو فرض فرمادیں وہ فرض ہوجائے۔
(3)… نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت پر شفقت: آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنی امت پر نہایت شفیق ہیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اگر ایک مرتبہ ہاں فرمادیتے تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا لیکن تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے امت پر آسانی فرمائی اور ہاں نہیں فرمایا۔
نوٹ: سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کے متعلق فتاویٰ رضویہ کی
29ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی درج ذیل کتابوں کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔ (1)خَالِصُ الْاِعْتِقَادْ(علم غیب سے متعلق 120دلائل پر مشتمل ایک عظیم کتا
کتاب)(2)اَنْبَاءُالْمُصْطَفٰی بِحَالِ سِرٍّ وَاَخْفٰی(حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کومَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ کاعلم دیئے جانے کا ثبوت)(3)اِزَاحَۃُ الْعَیْبِ بِسَیْفِ الْغَیْبِ (علم غیب کے مسئلے سے متعلق دلائل اوربدمذہبوں کا رد)۔اور سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے کائنات اور شریعت دونوں کے متعلق اختیارات جاننے کیلئے فتاوی رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظیم تصنیف اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ البلاء (مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والاکہنے والوں کے لئے انعامات) کا مطالعہ فرمائیں۔
(4)… حلت و حرمت کا اہم اصول: اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس امر کی شریعت میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح و جائز ہے۔ حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں ہے ،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’حلال وہ ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اورحرام وہ ہے جس کو اُس نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا تووہ معاف ہے۔(ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲)
قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ(۱۰۲)
ترجمۂ کنزالایمان: تم سے اگلی ایک قوم نے انہیں پوچھا پھر ان سے منکر ہو بیٹھے ۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تم سے پہلے ایک قوم نے ان اشیاء کے بارے میں سوال کیا تھا پھر اس کا انکار کرنے والے ہوگئے۔
{ قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ: بیشک تم سے پہلے ایک قوم نے ان اشیاء کے بارے میں سوال کیا تھا۔} مسلمانوں کو ایک حکم دینے کے بعد سابقہ امتوں کے واقعات سے سمجھایا کہ تم سے پہلی قوموں نے بھی اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بے ضرورت سوالات کئے اور جب حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے احکام بیان فرما دیئے تو وہ ان احکام کو بجانہ لاسکے۔تو تم سوالات کرنے ہی سے بچو کیونکہ اگر تمہیں تمہارے ہر سوال کا جواب دے دیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ کسی سوال کا جواب تمہیں برا لگے۔
بے ضرورت سوالات کرنے کی مذمت
احادیث میں بے ضرورت سوالات کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے،اس سے متعلق 3احادیث درج ذیل ہیں ، چنانچہ
(1)…حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمانوں میں سب سے بڑ امجرم وہ ہے جس نے ایسی چیز کے بارے میں سوا ل کیا جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کے باعث حرام کر دی گئی۔ (بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۰۲، الحدیث: ۷۲۸۹)
(2)…حضرت ابو ثعلبہ خُشَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے کچھ حدیں مقرر کی ہیں تو ان سے آگے نہ بڑھو، کچھ فرائض لازم فرمائے ہیں تو انہیں ضائع نہ کرو، کچھ چیزیں حرام کی ہیں تو ان کی حرمت نہ توڑو اورتم پر رحمت فرماتے ہوئے کچھ چیزوں سے بغیر بھولے سکوت فرمایا ہے تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو۔(مستدرک، کتاب الاطعمۃ، شان نزول ما احل اللہ فہو حلال، ۵ / ۱۵۷، الحدیث: ۷۱۹۶)
(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میں تمہیں جس کام سے روکوں اس سے اجتناب کرو اور جس کام کا تمہیں حکم دوں اسے اپنی استطاعت کے مطابق کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ بکثرت سوالات کرنے اور اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔(مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، ص۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷))
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآىٕبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍۙ- وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَؕ-وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۱۰۳)
ترجمۂ کنزالایمان: اللہ نے مقرر نہیں کیا ہے کان چِرا ہوا اور نہ بجار اور نہ وصیلہ اور نہ حامی ہاں کافر لوگ اللہ پر جھوٹا افترا باندھتے ہیں اور ان میں اکثر نرے بے عقل ہیں۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ نے بحیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو مقرر نہیں کیا لیکن کافر لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان لگاتے ہیں اور ان میں اکثر بے عقل ہیں۔
{ مَا جَعَلَ اللّٰهُ : اللہ نے مقرر نہیں کیا۔} زمانۂ جاہلیت میں کفار کا یہ دستور تھا کہ جو اونٹنی پانچ مرتبہ بچے جنتی اور آخری مرتبہ اس کے نر ہوتا تواس کا کان چیر دیتے پھر نہ اس پر سواری کرتے اور نہ اس کو ذبح کرتے اور نہ پانی اور چارے پر سے ہنکاتے، اس کو بَحِیۡرَہ کہتے۔ اور جب سفر درپیش ہوتا یا کوئی بیمار ہوتا تو یہ نذر کرتے کہ اگر میں سفر سے بخیریت واپس آؤں یا تندرست ہوجاؤں تو میری اونٹنی سائِبَہ ہے اور اس اونٹنی سے بھی نفع اُٹھانا بَحِیۡرَہ کی طرح حرام جانتے اور اس کو آزاد چھوڑ دیتے اور بکری جب سات مرتبہ بچے جن دیتی تو اگر ساتواں بچہ نر ہوتا توا س کو مرد کھاتے اور اگر مادہ ہوتا تو بکریوں میں چھوڑ دیتے اور ایسے ہی اگر نر، مادہ دونوں ہوتے تو کہتے کہ یہ اپنے بھائی سے مل گئی، اس کو وَصِیْلَہ کہتے اور جب نراونٹ سے دس مرتبہ اونٹنی کو گابھن کروالیا جاتا تو اس کو چھوڑ دیتے، نہ اس پر سواری کرتے، نہ اس سے کام لیتے اور نہ اس کو چارے پانی سے روکتے، اس کو اَلْحَامِیْ کہتے ۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۳۰۶)
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ بحیرہ وہ ہے جس کا دودھ بتوں کے لئے روکتے تھے ،کوئی اس جانور کا دودھ نہ نکالتا اور سائبہ وہ جس کو اپنے بتوں کے لئے چھوڑ دیتے تھے کوئی ان سے کام نہ لیتا۔( بخاری، کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۲ / ۴۸۰، الحدیث: ۳۵۲۱، مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب النار یدخلہا الجبارون۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۸، الحدیث: ۵۱(۲۸۵۶)) یہ رسمیں زمانۂ جاہلیت سے ابتدائے عہدِاسلام تک چلی آرہی تھیں اس آیت میں ان کو باطل کیا گیا اور فرمایا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مقرر نہیں کئے بلکہ کفار اللہ عَزَّوَجَلَّپر جھوٹ باندھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو حرام نہیں کیا اُس کی طرف اِس کی نسبت غلط ہے۔یہ لوگ بیوقوف ہیں کہ جو اپنے سرداروں کے کہنے سے ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور اتنا شعور نہیں رکھتے کہ جو چیز اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسُول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حرام نہ کی اس کو کوئی حرام نہیں کرسکتا۔
مذکورروایات سے معلوم ہونے والی اہم باتیں : بے ضرورت سوالات کرنے کی مذمت
احادیث میں بے ضرورت سوالات کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے،اس سے متعلق 3احادیث درج ذیل ہیں ، چنانچہ
(1)…حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمانوں میں سب سے بڑ امجرم وہ ہے جس نے ایسی چیز کے بارے میں سوا ل کیا جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کے باعث حرام کر دی گئی۔ (بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۰۲، الحدیث: ۷۲۸۹)
(2)…حضرت ابو ثعلبہ خُشَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے کچھ حدیں مقرر کی ہیں تو ان سے آگے نہ بڑھو، کچھ فرائض لازم فرمائے ہیں تو انہیں ضائع نہ کرو، کچھ چیزیں حرام کی ہیں تو ان کی حرمت نہ توڑو اورتم پر رحمت فرماتے ہوئے کچھ چیزوں سے بغیر بھولے سکوت فرمایا ہے تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو۔(مستدرک، کتاب الاطعمۃ، شان نزول ما احل اللہ فہو حلال، ۵ / ۱۵۷، الحدیث: ۷۱۹۶)
(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میں تمہیں جس کام سے روکوں اس سے اجتناب کرو اور جس کام کا تمہیں حکم دوں اسے اپنی استطاعت کے مطابق کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ بکثرت سوالات کرنے اور اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔(مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، ص۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷))
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآىٕبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍۙ- وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَؕ-وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۱۰۳)
ترجمۂ کنزالایمان: اللہ نے مقرر نہیں کیا ہے کان چِرا ہوا اور نہ بجار اور نہ وصیلہ اور نہ حامی ہاں کافر لوگ اللہ پر جھوٹا افترا باندھتے ہیں اور ان میں اکثر نرے بے عقل ہیں۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ نے بحیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو مقرر نہیں کیا لیکن کافر لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان لگاتے ہیں اور ان میں اکثر بے عقل ہیں۔
{ مَا جَعَلَ اللّٰهُ : اللہ نے مقرر نہیں کیا۔} زمانۂ جاہلیت میں کفار کا یہ دستور تھا کہ جو اونٹنی پانچ مرتبہ بچے جنتی اور آخری مرتبہ اس کے نر ہوتا تواس کا کان چیر دیتے پھر نہ اس پر سواری کرتے اور نہ اس کو ذبح کرتے اور نہ پانی اور چارے پر سے ہنکاتے، اس کو بَحِیۡرَہ کہتے۔ اور جب سفر درپیش ہوتا یا کوئی بیمار ہوتا تو یہ نذر کرتے کہ اگر میں سفر سے بخیریت واپس آؤں یا تندرست ہوجاؤں تو میری اونٹنی سائِبَہ ہے اور اس اونٹنی سے بھی نفع اُٹھانا بَحِیۡرَہ کی طرح حرام جانتے اور اس کو آزاد چھوڑ دیتے اور بکری جب سات مرتبہ بچے جن دیتی تو اگر ساتواں بچہ نر ہوتا توا س کو مرد کھاتے اور اگر مادہ ہوتا تو بکریوں میں چھوڑ دیتے اور ایسے ہی اگر نر، مادہ دونوں ہوتے تو کہتے کہ یہ اپنے بھائی سے مل گئی، اس کو وَصِیْلَہ کہتے اور جب نراونٹ سے دس مرتبہ اونٹنی کو گابھن کروالیا جاتا تو اس کو چھوڑ دیتے، نہ اس پر سواری کرتے، نہ اس سے کام لیتے اور نہ اس کو چارے پانی سے روکتے، اس کو اَلْحَامِیْ کہتے ۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۳۰۶)
جانور پر کسی کا نام پکارنے سے متعلق اہم مسئلہ
آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جانور کی زندگی میں اس پر کسی کا نام پکارنا اسے حرام نہیں کر دیتا۔ ہاں ذبح کے وقت غیرِ خدا کا نام پکارنا حرام کر دے گا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جو جانور حلال ہو اسے خواہ مخواہ حرام کہنا مشرکین کا طریقہ اور سراسر جہالت ہے۔
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَاؕ-اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ(۱۰۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ان سے کہا جائے آؤ اس طرف جو اللہ نے اُتارا اور رسول کی طرف کہیں ہمیں وہ بہت ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانیں نہ راہ پر ہوں۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ان سے کہا جائے کہ جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤتو کہتے ہیں کہ ہمیں وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانتے ہوں اور نہ انہیں ہدایت ہو۔
{ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ:اور جب انہیں کہا جائے} مشرکوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پیروی کرو تو وہ کہتے کہ ہمارے لئے ہمارے باپ دادا کا دین کافی ہے۔ اس پر فرمایا کہ باپ دادا کی اتباع تب درست ہوتی جب وہ علم رکھتے اور سیدھی راہ پر ہوتے۔
آباؤ اَجداد کی ناجائز رسمیں پوری کرنے کی مذمت
اللہتعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پیروی کی دعوت ملنے پرکفار نے جو جواب دیا اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے مقابلے میں جاہل باپ دادوں کی رسم اختیار کرنا کفار کا طریقہ ہے۔اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو خوشی کی تقریبات میں اور غمی کے مواقع پر ناجائز و حرام رسمیں کرتے ہیں اور ان رسموں میں شامل نہ ہونے والے کو برا بھلا کہتے ہیں اور ان رسموں سے منع کرنے والے سے کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں یہ رسمیں عرصۂ دراز سے چلی آ رہی ہیں ،ہم انہیں نہیں چھوڑ سکتے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ اٰمین
نیک لوگوں کی پیروی ضروری ہے:
آیت کے آخری حصے سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی اتباع اور ان کی پیروی کرنی ضروری ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰارشاد فرماتا ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ‘‘(توبہ:۱۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والواللہسے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشا د ہے:ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کی صورت دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے، جن کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کا شوق دلائے۔(جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع فی آداب العالم والمتعلم، ص۱۷۲)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْؕ-اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۱۰۵)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو تم اپنی فکر رکھو تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا جو گمراہ ہوا جب کہ تم راہ پر ہو تم سب کی رجوع اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا جو تم کرتے تھے۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو جب تم ہدایت پر ہو تو گمراہ ہونے والا تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا جو تم کرتے تھے۔
{ عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ: تم اپنی فکر کرو۔}مسلمان کفار کی اسلام سے محرومی پر افسوس کرتے تھے اور انہیں رنج ہوتا تھا کہ کفار عناد میں مبتلا ہو کر دولتِ اسلام سے محروم رہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن کی تسلی فرما دی کہ اس میں تمہارا کچھ ضرر نہیں ، اَمْر بِالْمَعْرُوفِ وَ نَہْی عَنِ الْمُنْکَرکا فرض ادا کرکے تم بری الذمہ ہوچکے ہو،تم اپنی نیکی کی جزا پاؤ گے ۔
حضرت عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: اس آیت میں اَمْر بِالْمَعْرُوف وَ نَہْی عَنِ الْمُنْکَر کے وجوب کی بہت تاکید کی ہے، کیونکہ اپنی فکر رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ:ایک دوسرے کی خبر گیری کرے، نیکیوں کی رغبت دلائے اور بدیوں سے روکے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۱ / ۵۳۴)
اور مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے کتنی پیاری بات ارشاد فرمائی جس کا خلاصہ ہے کہ تم اپنی فکر کرو یعنی عقائد درست کرکے ، نیک اعمال کر کے اپنی فکر کرو، اعمال میں تبلیغ بھی شامل ہے لہٰذا جو قدرت کے باوجود تبلیغ نہ کرے وہ راہ پر ہی نہیں۔(نور العرفان، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۱۹۸)
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے بارے میں احادیث
یہاں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کاذکر ہوا، اس کی مناسبت سے ہم یہاں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے بارے 3 احادیث ذکر کرتے ہیں :
(1)…حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ)اور میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے ) دیکھیں اور اسے (ظلم سے) نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہتعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلاء کر دے۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی نزول العذاب اذا لم یغیّر المنکر، ۴ / ۶۹، الحدیث: ۲۱۷۵)
(2)…اور ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :اے لوگو تم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان( عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ )کو پڑھ کر دھوکے میں مبتلا نہ ہو جانا کہ تم میں سے کوئی کہنے لگے (میں تو بس اپنی جان کی فکر کروں گا)اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے ورنہ تم پر تمہارے شریر لوگ حکمران بن جائیں گے جو تمہیں بڑی سخت تکلیفیں پہنچائیں گے، پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے بھی توان کی دعا قبول نہ کی جائے گی۔( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الافعال، الامر بامعروف والنہی عن المنکر، ۲ / ۲۷۱، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۴۴۲، تفسیر طبری، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۵ / ۹۸-۹۹)
(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اے لوگو! تمہیں لازمی طور پر نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہو گا ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر ظالم حکمران مُسلَّط کر دے گا جو تمہارے بڑوں کی بزرگی کا خیال نہیں رکھے گا اور تمہارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرے گا، تمہارے نیک لوگ ا س کے خلاف دعا مانگیں گے لیکن ان کی دعا قبول نہ ہو گی اور تم مدد مانگو گے لیکن تمہیں مدد نہ ملے گی(احیاءعلوم الدین، کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الباب الاول فی وجوب الامر بالمعروف۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۳)۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِؕ-تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰىۙ-وَ لَا نَكْتُمُ شَهَادَةَۙ-اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ(۱۰۶)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو تمہاری آپس کی گواہی جب تم میں کسی کو موت آئے وصیت کرتے وقت تم میں کے دو معتبر شخص ہیں یا غیروں میں کے دو جب تم ملک میں سفر کو جاؤ پھر تمہیں موت کا حادثہ پہونچے ان دونوں کو نماز کے بعد روکو وہ اللہ کی قسم کھائیں اگر تمہیں کچھ شک پڑے ہم حلف کے بدلے کچھ مال نہ خریدیں گے اگرچہ قریب کا رشتہ دار ہو اور اللہ کی گواہی نہ چھپائیں گے ایسا کریں تو ہم ضرور گنہگاروں میں ہیں۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جب تم میں کسی کو موت آنے لگے تو وصیت کرتے وقت تمہاری آپس کی گواہی (دینے والے) تم میں سے دو معتبر شخص ہوں یا اگر تم زمین میں سفر کر رہے ہو پھر تمہیں موت کا حادثہ آپہنچے تو تمہارے غیروں میں سے دو آدمی (گواہ ہوں ) ۔ تم ان دونوں گواہوں کو نماز کے بعد روک لو پھر اگر تمہیں کچھ شک ہو تو وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم قسم کے بدلے کوئی مال نہ لیں گے اگرچہ قریبی رشتے دار ہو اور ہم اللہ کی گواہی نہ چھپائیں گے ۔ (اگر ہم ایسا کریں تو) اس وقت ہم ضرور گنہگاروں میں ہوں گے۔
{شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ:تمہاری آپس کی گواہی۔} آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ مہاجرین میں سے ایک صاحب جن کا نام بُدَیْلْ تھا وہ تجارت کے ارادے سے دو عیسائیوں کے ساتھ ملک ِشام کی طرف روانہ ہوئے۔ اُن عیسائیوں میں سے ایک کانام تمیم بن اَوْسْ داری تھا اور دوسرے کاعدی بن بداء ۔شام پہنچتے ہی بُدَیْلْ بیمار ہوگئے اور انہوں نے اپنے تمام سامان کی ایک فہرست لکھ کر سامان میں ڈال دی اور ہمراہیوں کو اس کی اطلاع نہ دی۔ جب مرض کی شدت ہوئی تو بدیل نے تمیم اور عدی دونوں کو وصیت کی کہ ان کا تمام سرمایہ مدینہ شریف پہنچ کر اُن کے گھروالوں کے حوالے کردیا جائے۔ پھربُدَیْلْ کی وفات ہوگئی ان دونوں نے اُن کی موت کے بعد ان کا سامان دیکھا تواس میں ایک چاندی کا جام تھا جس پر سونے کا کام کیا ہوا تھا، اس میں تین سو مثقال چاندی تھی، بُدَیْلْ یہ جام بادشاہ کو نذر کرنے کے قصد سے لائے تھے، ان کی وفات کے بعد ان کے دونوں ساتھیوں نے اس جام کو غائب کردیا اور اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد جب یہ لوگ مدینہ طیبہ پہنچے تو انہوں نے بُدَیْلْ کا سامان ان کے گھر والوں کے سپرد کردیا، سامان کھولنے پر فہرست ان کے ہاتھ آگئی جس میں تمام سامان کی تفصیل تھی۔ سامان کو اس فہرست کے مطابق کیا لیکن جام نہ ملا۔ اب وہ تمیم اور عدی کے پاس پہنچے اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا بدیل نے کچھ سامان بیچا بھی تھا ؟انہوں نے کہا: نہیں۔ گھر والوں نے پوچھا کہ کیا کوئی تجارتی معاملہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ پھر گھر والوں نے دریافت کیا کہ کیا بُدَیْلْ بہت عرصہ بیمار رہے اور انہوں نے اپنے علاج میں کچھ خرچ کیا تھا؟ انہوں نے کہا’’ نہیں ‘‘۔ وہ تو شہر پہنچتے ہی بیمار ہوگئے اور جلد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ان کے سامان میں ایک فہرست ملی ہے اس میں چاندی کا ایک جام سونے سے مُنَقَّش کیا ہوا جس میں تین سو مثقال چاندی ہے یہ بھی لکھا ہے لیکن وہ موجود نہیں ہے۔ تمیم وعدی نے کہا، ہمیں نہیں معلوم، ہمیں تو جو وصیت کی تھی اس کے مطابق سامان ہم نے تمہیں دے دیا، جام کی ہمیں خبر بھی نہیں۔ یہ مقدمہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دربار میں پیش ہوا۔ تمیم وعدی وہاں بھی انکار پر جمے رہے اور قسم کھالی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۵۳۴)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی روایت میں ہے کہ پھر وہ جام مکہ مکرمہ میں پکڑا گیا، جس شخص کے پاس تھا اُس نے کہا کہ میں نے یہ جام تمیم وعدی سے خریدا ہے۔ جام کے مالک کے گھروالوں میں سے دو شخصوں نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ قبول کی جانے کی مستحق ہے، یہ جام ہمارے فوت ہونے والے شخص کا ہے اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۴۴، الحدیث: ۳۰۷۱)
آیت میں یہ حکم فرمایا گیا کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آئے اور زندگی کی اُمید نہ رہے، موت کے آثار و علامات ظاہر ہوں تو اپنوں میں سے دو آدمیوں کو وصیت کا گواہ بنالو اور سفر وغیرہ میں ہو اور اپنے آدمی یعنی مسلمان نہ ملیں توغیر مسلموں کوگواہ بنا لو۔
{ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ:تم ان دونوں گواہوں کو نماز کے بعد روک لو۔}اس سے پہلے وصیت پر گواہ بنانے کا طریقہ بتایا گیا اب قرائن اور علامات کی روشنی میں گواہی میں جھوٹ کا عنصر نمایاں ہوتا نظر آئے تو اس صورت میں گواہی لینے کا طریقہ بتایا گیا کہ جب میت کے ورثا کو وصیت کی گواہی میں شک گزرے تو وہ عصر کی نماز کے بعد گواہوں سے اس طرح گواہی لیں : دونوں گواہ یہ اقرار کرتے ہوئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھائیں کہ ہم گواہی کے بدلے کسی سے کوئی مال نہ لیں گے اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم گواہی چھپائیں گے یعنی جھوٹی قسم نہ کھائیں گے اور نہ کسی کی خاطر ایسا کریں گے، اگر ہم ایسا کریں تو اس وقت ہم ضرور گنہگاروں میں سے ہوں گے۔آیت میں نماز سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ سب لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی دین اور مذہب سے ہو اس وقت کی تعظیم کرتے تھے اور اس وقت میں جھوٹی قسم کھانے سے بچتے تھے۔(تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۲ / ۶۰-۶۱)
فَاِنْ عُثِرَ عَلٰۤى اَنَّهُمَا اسْتَحَقَّاۤ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْهِمُ الْاَوْلَیٰنِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ لَشَهَادَتُنَاۤ اَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَ مَا اعْتَدَیْنَاۤ ﳲ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۱۰۷)
ترجمۂ کنزالایمان: پھر اگر پتا چلے کہ وہ کسی گناہ کے سزاوار ہوئے تو ان کی جگہ دو اور کھڑے ہوں ان میں سے کہ اس گناہ یعنی جھوٹی گواہی نے ان کا حق لے کر ان کو نقصان پہونچایا جو میت سے زیادہ قریب ہوں تو اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی زیادہ ٹھیک ہے ان دو کی گواہی سے اور ہم حد سے نہ بڑھے ایسا ہو تو ہم ظالموں میں ہوں۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر اگر اس بات پر اطلاع ملے کہ وہ دونوں گواہ( گواہی میں جھوٹ بول کر) کسی گناہ کے مستحق ہوئے ہیں تو ان کی جگہ ان لوگوں میں سے جن کا حق دبایا گیا میت کے زیادہ قریبی دو (آدمی قسم کھانے کے لئے) کھڑے ہوجائیں پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی (یعنی ہماری قسم) ان کی گواہی سے زیادہ درست ہے اور ہم حد سے نہیں بڑھے (اور اگر ایساکریں تو) اس وقت ہم ظالموں میں ہوں گے۔
{ فَاِنْ عُثِرَ عَلٰۤى اَنَّهُمَا اسْتَحَقَّاۤ اِثْمًا :پھر اگر پتا چلے کہ وہ کسی گناہ کے سزاوار ہوئے۔}وصیت کے گواہوں کا جھوٹ ثابت ہو جائے جیسا کہ یہاں تمیم اور عدی کا جھوٹ ثابت ہوا کہ پیالہ مکہ معظمہ میں پکڑا گیا تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ میت کے وارثوں میں سے دو آدمی قسم کھا کر کہیں کہ یہ دونوں امین جھوٹے ہیں ، ہماری گواہی یعنی قسم ان دونوں کی گواہی سے زیادہ درست ہے اور ہم حد سے نہیں بڑھے ،اگر ہم ایسا کریں گے تواس وقت ہم ظالموں میں ہوں گے۔ چنانچہ بدیل کے واقعہ میں جب اُن کے دونوں ہمراہیوں کی خیانت ظاہر ہوئی تو بدیل کے ورثاء میں سے دو شخص کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ یہ جام ہمارے مُورِث کا ہے اور ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ ٹھیک ہے۔اس کے بعد پیالے کا فیصلہ ان کے حق میں کر دیا گیا۔
ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰى وَجْهِهَاۤ اَوْ یَخَافُوْۤا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌۢ بَعْدَ اَیْمَانِهِمْؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۱۰۸)
ترجمۂ کنزالایمان: یہ قریب تر ہے اس سے کہ گواہی جیسی چاہیے ادا کریں یا ڈریں کہ کچھ قسمیں رد کردی جائیں ان کی قسموں کے بعد اور اللہ سے ڈرو اور حکم سنو اور اللہ بے حکموں کو راہ نہیں دیتا۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ گواہ صحیح طریقے سے گواہی ادا کریں یا وہ اس بات سے ڈریں کہ ان کی قسموں کے بعد قسموں کو ( ورثاء کی طرف) لوٹا دیا جائے گا اور اللہ سے ڈرو اور حکم سنو اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
{ ذٰلِكَ اَدْنٰى:یہ قریب تر ہے۔} عدی اور تمیم کے واقعے میں گواہی اور قسم کا جو قانون بیان ہوا یعنی جن کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا قسمیں کھانے کے بعد ان کا جھوٹ ثابت ہو جائے تو اب میت کے ورثا میں سے دو شخص قسمیں کھائیں ،اس کی حکمت بتائی جا رہی ہے کہ لوگ اس واقعہ سے عبرت پکڑیں اور شہادتوں میں راہِ حق و صواب نہ چھوڑیں اور اس بات سے ڈرتے رہیں کہ جھوٹی گواہی کا انجام شرمندگی و رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹی گواہی دینے کی مذمت
فی زمانہ لوگوں کی حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ان کے نزدیک جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی گواہی دینا، جھوٹے مقدمات میں پھنسوا کر اپنے مسلمان بھائی کی عزت تار تار کر دینا، لوہے کی سنگین سلاخوں کے پیچھے لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دینا، اپنے مسلمان بھائی کا ناحق مال ہڑپ کر جانا گویا کہ جرائم کی فہرست میں داخل ہی نہیں۔ اس دنیا کی فانی زندگی کو حرف ِآخر سمجھ بیٹھنا عقلمندی نہیں نادانی اور بیوقوفی کی انتہا ہے، انہیں چاہئے کہ اِن قرآنی آیات اور ان احادیث کو بغور پڑھ کر عبرت حاصل کریں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے جھوٹی قسم پر حلف اٹھایا تاکہ اس کے ذریعے اپنے مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرلے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہو گا۔(بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب عہد اللہ عزّوجل، ۴ / ۲۹۰، الحدیث: ۶۶۵۹)
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۳)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اُس نے (اپنے اوپر) جہنم کو واجب کر لیا۔( معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۷۲، الحدیث: ۱۱۵۴۱)
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْؕ-قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ(۱۰۹)
ترجمۂ کنزالایمان: جس دن اللہ جمع فرمائے گا رسولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیا جواب ملا عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا خوب جاننے والا۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن اللہ رسولوں کو جمع فرمائے گا پھر فرمائے گا :تمہیں کیا جواب دیا گیا؟ وہ عرض کریں گے ، ہمیں کچھ علم نہیں۔ بیشک تو ہی سب غیبوں کا جاننے والاہے۔
{ یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ:جس دن اللہ رسولوں کو جمع فرمائے گا۔} یہاں سے قیامت کے دن کے کچھ معاملات کو بیان فرمایا جارہا ہے ،اس آیت کاخلاصۂ کلام یہ ہے کہ قیامت کے دن تمام انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سوال کیا جائے گا کہ جب تم نے اپنی اُمتوں کو ایمان کی دعوت دی تھی تو اُنہوں نے تمہیں کیا جواب دیا تھا ؟ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جواب دیں گے: ہمیں کچھ علم نہیں۔ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ جواب اُن کے کمالِ ادب کی شان ظاہر کرتا ہے کہ وہ علمِ الہٰی کے حضور اپنے علم کو بالکل نظر میں نہ لائیں گے اور قابلِ ذکر قرار نہ دیں گے اور معاملہ اللہ تعالیٰ کے علم و عدل کے سپرد فرمادیں گے ورنہ حقیقت میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یقیناً جانتے ہوں گے کیونکہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی امتوں کی گواہی دیں گے۔
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَ عَلٰى وَ الِدَتِكَۘ-اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ- تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًاۚ-وَ اِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ-وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْۚ-وَ اِذْ تُخْرِ جُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِیْۚ-وَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۱۱۰)
ترجمۂ کنزالایمان: جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ یاد کر میرا احسان اپنے اوپر اور اپنی ماں پر جب میں نےپاک روح سے تیری مدد کی تو لوگوں سے باتیں کرتا پالنے میں اور پکی عمرکا ہوکر اور جب میں نے تجھے سکھائی کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل اور جب تو مٹی سے پرند کی سی مورت میرے حکم سے بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتی اور تو مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے شفا دیتا اور جب تو مُردوں کو میرے حکم سے زندہ نکالتا اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا جب تو ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آیا تو ان میں کے کافر بولے کہ یہ تو نہیں مگر کھلا جادو۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جب اللہ فرمائے گا :اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! اپنے اوپر اور اپنی والدہ پر میرا وہ احسان یاد کر، جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی ۔تو گہوارے میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے باتیں کرتا تھا اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائی اور جب تو میرے حکم سے مٹی سے پرند ے جیسی صورت بناکر اس میں پھونک مارتا تھا تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی اور تو میرے حکم سے پیدائشی نابینا اور سفید داغ کے مریض کوشفا دیتا تھااور جب تو میرے حکم سے مردوں کو زندہ کر کے نکالتااور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے روک دیا۔ جب تو ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آیا تو ان میں سے کافروں نے کہا: یہ تو کھلا جادو ہے۔ { اِذْ قَالَ اللّٰهُ : جب اللہ فرمائے گا۔} اس آیت میں بھی قیامت کے دن کا ایک معاملہ بیان فرمایا گیا ،گویا کہ ارشاد فرمایا ’’آپ یاد کریں جس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع فرمائے گا اورجب اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس طرح فرمائے گا۔(قرطبی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۲۲۴، الجزء السادس) یاد رہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں جو احسانات ذکر کئے گئے ان کی مفصل تفسیر سورۂ آلِ عمران آیت نمبر 37تا49 میں گزر چکی ہے۔
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْۚ-قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ(۱۱۱)
ترجمہ کنزالایمان: اور جب میں نے حواریوں کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ بولے ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا :ہم ایمان لائے اور (اے عیسیٰ!) آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ { وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ:اور جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی۔} حواری حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مخصوص اور مخلص حضرات کو کہا جاتا ہے۔ ان کے متعلق فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے دلوں میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کی بات ڈال دی۔
’’وحی‘‘ کا ایک معنی
یاد رہے کہ اس آیت میں لفظ ’’وحی‘‘ کی نسبت غیرِ انبیاء کی طرف ہے اورجب وحی کی نسبت غیرِ نبی کی طرف ہو تو اس سے مراد دل میں بات ڈالنا ہوتا ہے جیسے سورۂ قصص کی آیت نمبر 7میں ہے
’’ وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوْسٰی ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے موسیٰ کی ماں کے دل میں بات ڈال دی۔
’’ وَ اَوْحٰی رَبُّكَ اِلَی النَّحْلِ ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی۔
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۱۲)
ترجمۂ کنزالایمان: جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کروجب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اُتار دے ؟ فرمایا :اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کروجب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اُتار دے ؟ فرمایا :اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔
قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَىٕنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ(۱۱۳)
ترجمۂ کنزالایمان: بولے ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل ٹھہریں اور ہم آنکھوں دیکھ لیں کہ آپ نے ہم سے سچ فرمایا اور ہم اس پر گواہ ہوجائیں۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: (حواریوں نے) کہا: ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں اور ہم آنکھوں سے دیکھ لیں کہ آپ نے ہم سے سچ فرمایا ہے اور ہم اس پر گواہ ہوجائیں۔
ترجمۂ کنزالایمان: بولے ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل ٹھہریں اور ہم آنکھوں دیکھ لیں کہ آپ نے ہم سے سچ فرمایا اور ہم اس پر گواہ ہوجائیں۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: (حواریوں نے) کہا: ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں اور ہم آنکھوں سے دیکھ لیں کہ آپ نے ہم سے سچ فرمایا ہے اور ہم اس پر گواہ ہوجائیں۔
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱۴)
ترجمۂ کنزالایمان: عیسیٰ ابن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: عیسیٰ بن مریم نے عرض کی: اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے لئے اور ہمارے بعد میں آنے والوں کے لئے عید اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
{ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ: عیسیٰ بن مریم نے عرض کی۔} حواریوں نے جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرمان کے مطابق عمل کیا تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: اے اللہ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے موجودہ لوگوں کیلئے اور ہمارے بعد میں آنے والوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کی دلیل ہوجائے اور سب کیلئے عیدہوجائے یعنی ہم اس کے اترنے کے دن کو عید بنائیں ، اس کی تعظیم کریں ،خوشیاں منائیں ،تیری عبادت کریں اورشکر بجالائیں۔
نزولِ رحمت کے دن کو عید بنانا صالحین کا طریقہ ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو اُس دن کو عید بنانا، خوشیاں منانا، عبادتیں کرنا اور شکرِ الہٰی بجالانا صالحین کا طریقہ ہے اور بیشک تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری یقیناً قطعاً حتماً اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے۔ اس لئے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ولادتِ مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکرِ الہٰی بجالانا اور فرحت و سُرور کا اظہار کرنا مستحسَن و محمود اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا’’ یہ کیا ہے؟ یہودیوں نے عرض کی:یہ اچھا دن ہے۔ اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا روزہ رکھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تمہاری نسبت میرا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تعلق زیادہ ہے چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، ۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴)
ترمذی شریف میں ہے، حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ایک یہودی کی موجودگی میں یہ آیت پڑھی
’’ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔‘‘
یہ آیت سن کر اس یہودی نے کہا: اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اسے عید بنالیتے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا : یہ آیت ہماری دو عیدوں کے دن میں اتری یعنی جمعہ اور عرفہ کے دن۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۳، الحدیث: ۳۰۵۵)
اس کی شرح میں مفسرِ شہیر، حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں : ’’اس سے معلوم ہوا کہ جن تاریخوں میں اللہ کی نعمت ملے انہیں عید بنانا شرعاً اچھا ہے۔(مراٰۃالمناجیح، جمعہ کا باب، تیسری فصل، ۲ / ۳۱۴، تحت الحدیث: ۱۲۸۸)
نوٹ: میلاد شریف کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے علامہ اسماعیل نبہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’جواہرُ البحار ‘‘ کی تیسری جلد کا مطالعہ فرمائیں۔
قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْۚ-فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۠(۱۱۵)
ترجمۂ کنزالایمان: اللہ نے فرمایا کہ میں اسے تم پر اُتارتا ہوں پھر اب جو تم میں کفر کرے گا تو بیشک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی پر نہ کروں گا۔ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ نے فرمایا: بیشک میں وہ تم پر اُتارتا ہوں پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا تو بیشک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی کو نہ دوں گا۔
{ قَالَ اللّٰهُ : اللہ نے فرمایا۔} حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی درخواست کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ میں وہ دسترخوان اتارتا ہوں لیکن اس کے نازل ہونے کے بعدجو کفر کرے گا تو بیشک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی کو نہ دوں گا،چنانچہ آسمان سے خوان نازل ہوا ،اس کے بعد جنہوں نے ان میں سے کفر کیا وہ صورتیں مَسخ کرکے خنزیر بنادیئے گئے اور تین روز میں سب ہلاک ہوگئے۔ (تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۶۶)
وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْۗ-بِحَقٍّ ﳳ-اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗؕ-تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَؕ-اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ(۱۱۶)
ترجمۂ کنزالایمان: اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو خدا بنالو اللہ کے سوا عرض کرے گا پاکی ہے تجھے مجھے روا نہیں کہ وہ بات کہوں جو مجھے نہیں پہونچتی اگر میں نے ایسا کہا ہو تو ضرور تجھے معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا خوب جاننے والا۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب اللہ فرمائے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو؟ تووہ عرض کریں گے: (اے اللہ!) تو پاک ہے۔ میرے لئے ہرگز جائز نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی توتجھے ضرور معلوم ہوتی۔تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔ بیشک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔
{وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ:اور جب اللہ فرمائے گا۔} یہ بھی قیامت کے واقعے کا بیان ہے کہ بروزِ قیامت عیسائیوں کی سرزنش کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمائے گا کہ’’ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ!کیاتم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو؟ اس خطاب کو سن کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کانپ جائیں گے اورعرض کریں گے: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ تو تمام نَقائص و عُیوب سے پاک ہے اور اس سے بھی کہ کوئی تیرا شریک ہوسکے ۔ میرے لئے ہرگز جائز نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں یعنی جب کوئی تیرا شریک نہیں ہوسکتا تو میں یہ لوگوں سے کیسے کہہ سکتا تھا؟ اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی توتجھے ضرور معلوم ہوتی۔ تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔ بیشک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔ یہاں علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنا اور معاملہ اس کے سپرد کردینا اور عظمت ِالہٰی کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرنا یہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شانِ ادب ہے۔
مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْۚ-وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْۚ-فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْؕ-وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(۱۱۷)
ترجمۂ کنزالایمان: میں نے تو ان سے نہ کہا مگر وہی جو مجھے تو نے حکم دیا تھا کہ اللہ کو پوجو جو میرا بھی رب اور تمھا را بھی رب اور میں ان پر مطلع تھا جب تک میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تُو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھا اور ہر چیز تیرے سامنے حاضر ہے ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں نے تو ان سے وہی کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہا ر ا بھی رب ہے اور میں ان پر مطلع رہا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تُو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھااور تو ہرشے پر گواہ ہے۔
{ مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖ:میں نے تو ان سے وہی کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا۔}حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلے تو عرض کریں گے کہ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو سب جانتا ہے، پھر عرض کریں گے کہ ’’میں نے تو ان سے وہی کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ’’ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہا ر ارب ہے اور میں ان پر مطلع رہا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تُو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھااور تو ہرشے پر گواہ ہے۔
حضرت عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے متعلق قادیانیوں کے نظریے کا رد
آیتِ مبارکہ میں ’’تَوَفَّیْتَنِیْ ‘‘ کے لفظ سے قادیانی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات پر اِستِدلال کرتے ہیں اور یہ استدلال بالکل غلط ہے کیونکہ اوّل تو لفظ ’’تَوَفّٰى‘‘ موت کے لئے خاص نہیں بلکہ کسی شے کو پورے طور پر لینے کو کہتے ہیں خواہ وہ بغیر موت کے ہو جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا:
’’ اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا‘‘(الزمر۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے سوتے میں۔ دوسرا یہ کہ جب یہ سوال و جواب روزِ قیامت کا ہے تو اگر لفظ ’’تَوَفّٰى‘‘ موت کے معنی میں بھی فرض کرلیا جائے جب بھی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے زمین پر تشریف لانے سے پہلے وفات پانا اِس سے ثابت نہ ہوسکے گا۔ اس مسئلے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی15ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی کتاب’’اَلجُرَازُ الدَّیَّانِیْ عَلَی الْمُرْتَدِّالْقَادِیَانِیْ(مرتدقادیانی کے رد پر رسالہ ) کا مطالعہ فرمائیں۔
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸)
ترجمۂ کنزالایمان: اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا، حکمت والا ہے۔
{ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ : اگر تو انہیں عذاب دے۔}حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معلوم ہوگا کہ قوم میں بعض لوگ کفر پر مصر رہے، بعض شرفِ ایمان سے مشّرف ہوئے اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ میں یہ عرض ہے کہ’’ ان میں سے جو کفرپر قائم رہے اُن پر تو عذاب فرمائے تو بالکل حق و بجا اور عدل وانصاف ہے کیونکہ انہوں نے حجت تمام ہونے کے بعد کفراختیار کیا اور جو ایمان لائے انہیں تو بخشے تو تیرا فضل وکرم ہے اور تیرا ہر کام حکمت ہے۔
امتِ مرحوم کے حق میں دعا:
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے بھی اس آیتِ مبارکہ کو پڑھ کراللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی امت کیلئے دعا فرمائی چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے قرآن پاک میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی ’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ- فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ۔۔۔الآیہ ‘‘ اے میرے رب!ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، جو شخص میری پیروی کرے گا وہ میرے راستہ پر ہے۔‘‘ اور وہ آیت پڑھی جس میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ قول ہے’’اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ- وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ‘‘ اے اللہ! اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔پھر نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے دست ِدعا بلند کر دئیے اور روتے ہوئے عرض کرنے لگے :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میری امت ، میری امت۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرئیل! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے معلوم کرو (حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) کہ ان پر اس قدر گریہ کیوں طاری ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حضرت جبرئیلعَلَیْہِ السَّلَام حاضر ہوئے اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے معلوم کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب عرض کردیا (حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) اللہ تعالیٰ نے جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا:اے جبرائیل! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم لامتہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہونے والی باتیں
اس حدیث پاک سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنی امت پر کمال درجے کے شفیق ومہربان تھے اور امت کی بھلائی اور بہتری میں کوشاں رہتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی امت کے لئے کسی شرط اور قید کے بغیر بخشش کی دعا مانگی۔
(2)…اس امت مرحوم کے لئے عظیم بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کی بخشش کے معاملے میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو راضی فرمائے گا ۔
(3)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا مقام بہت بلند ہے کہ سب کچھ جاننے والا ہونے کے باوجود حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھیجا اور اس سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظمت اور شرف کوظاہر فرمایا۔
(4)…نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبولیت کے اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عظمتوں کو ظاہر فرماتا اور آپ کو راضی فرماتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفتن، باب الحوض والشفاعۃ، الفصل الاول، ۹ / ۵۳۰، تحت الحدیث: ۵۵۷۷، ملخصاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بارگاہِ الہٰی میں عرض کرتے ہیں اور انہی کے الفاظ میں ہم بھی عرض گزار ہیں کہ :
ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امّت میں بنایا انھیں رحمت بھیجا یوں نہ فرما کہ ترا رحم میں دعویٰ کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے
قَالَ اللّٰهُ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْؕ-لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۱۹)
ترجمۂ کنزالایمان: اللہ نے فرمایا کہ یہ ہے وہ دن جس میں سچوں کو ان کا سچ کام آئے گا ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہسے راضی یہ ہے بڑی کامیابی۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ نے فرمایا: یہ (قیامت) وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، وہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
{ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ:یہ (قیامت) وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا۔}اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جنہوں نے دنیا میں سچ بولا تھا ان کا سچ قیامت کے دن انہیں کام آئے گا اور انہیں نفع دے گا کیونکہ عمل کا مقام دنیا ہے آخرت نہیں کہ آخرت تو جز املنے کا دن ہے۔
سچائی کی برکت
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن سچ نفع دے گا تو جھوٹ اور ریاکاری کسی صورت نفع نہ دے گی لہٰذا عقلمند انسان کو چاہئے کہ سچائی کے راستے پر چلنے کی خوب کوشش کرے کیونکہ ایمان کے بعد سچائی کو اختیار کرنا بندے کو نیک اعمال کی طرف راغب کرتا ہے۔ (روح البیان، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۴۶۷-۴۶۸)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سچائی کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ص۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))
اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے ،سچائی کے راستے کو اختیار کرنے اورجھوٹ بولنے سے بچتے رہنے کی توفیق عطاء فرمائے ، اٰمین۔
لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا فِیْهِنَّؕ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۱۲۰)
ترجمۂ کنزالایمان:اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کی سلطنت اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کی سلطنت اللہ ہی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
{ لِلّٰهِ:اللہ ہی کے لئے ہے۔}اس آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو خدا کہنے والے عیسائیوں کا رد بھی ہے کہ جب آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اوریہ دونوں حضرات بھی اللہ تعالیٰ کی مِلک میں اور ا س کے بندے ہیں تو یہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں کیونکہ جو کسی کی ملک میں اور عبد ہو وہ خدا ہر گز نہیں ہو سکتا۔