’’ اہم مدنی پھول ‘‘
(01): ’’ حساب نعمت کے تعلق سے ۹ مدنی پھول ‘‘
فانی لذّتوں سے اپنے آپ کو بچانے کا جذبہ بڑھانے اور دُنیوی نعمتوں کے سبب ہونے والے حسابِ آخِرت سے خود کو ڈرانے کیلئے دل ہلا دینے والے9 فرامینِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم مُلاحَظہ ہوں:
(1)جب قِیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو بُلاکر اپنے سامنے کھڑا کر دے گا اور اُس سے اُس کے جاہ و مرتبے کے مُتَعَلِّق اِسی طرح سُوال کرے گا جس طرح اس کے مال کے بارے میں سُوال فرمائے گا۔(المعجم الاوسط ج۱ ص۱۴۰ حدیث ۴۴۸)
(2)بندہ کوئی بھی قدم اٹھاتا ہے توقِیامت میں اُس سے سُوال ہو گا کہ وہ قدم کس لئے اُٹھایا تھا؟(تاریخ دمشق ج۶ ص ۵۴)
(3)قِیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے یہ سُوال ہو گا کہ کیا میں نے تیراجسم تندُرُست نہیں رکھا تھا؟ کیا میں نے تجھے ٹھنڈے پانی سے سَیراب نہ کیا تھا؟(تُو نے ان کے حُقُوق ادا کئے یا نہیں؟)(المستدرک ج۵ ص۱۹۱ حدیث ۷۲۸۵)
(4)مالِک اورمَملُوک(یعنی غلام)کواور زَوج(یعنی شوہر)اورزَوجہ کو لایا جائے گا پھران سے حساب ہوگا،یہاں تک کہ مَردسے کہا جائے گا تُو نے فُلاں فُلاں دن لذّت کے ساتھ پانی پِیا اور شوہرسے کہا جائے گاکہ فُلاں عورت سے نکاح کے اور بھی طلبگار تھے لیکن تُو نے اُس کا نکاح چاہا تو میں نے ان سب کو چھوڑ کر اس کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا۔(کیا تُو نے اِن نعمتوں کا حق ادا کیا؟)(مجمع الزوائد ج۱۰ ص۶۳۳ حدیث۱۸۳۹۰)
(5)قِیامت میں مؤمِن سے ہر عمل کا سُوال ہو گا یہاں تک کہ اس سے اپنی آنکھوں میں سُرمہ ڈالنے کے مُتَعلِّق بھی سُوال کیا جائے گا(حلیۃُ الاولیاء ج ۱۰ص۳۱)
(6)بندہ جو خُطبہ پڑھتا(یعنی وَعظ اور بیان کرتا)ہے اِس کے بارے میں بھی اُس سے سُوال ہو گا کہ اِس سے تیرا کیا ارادہ تھا ؟(الصمت مع موسوعہ ابن ابی الدنیا ج۷ ص۲۹۴ حدیث ۵۱۴)(مُبَلِّغین و مقرِّرین غور فرما ئیں کہ بیان کا مقصود نیکی کی دعوت تھی یا بیان کی تعریف اور واہ واہ کی طلب یاحُصولِ شہرت یا دولت؟)
(7) جو شخص کسی شئے کی جانب بُلائے گا قِیامت کے دن اسے اُس کی دعوت(یعنی بُلانے)کے ساتھ کھڑا کیاجائے گا،خواہ ایک ہی آدَمی کو دعوت کیوں نہ دی ہو!(ابن ماجہ ج۱ ص۱۳۷ حدیث۲۰۸) (اِس روایت میں خُلوص کی طرف اشارہ ہے مَثَلًا نیکی کی دعوت محض رِضائے الٰہی کیلئے دی تھی یا کوئی اور مقصد تھا!انفِرادی کوشِش کرنے والے مبلغین بھی غور فرما ئیں)
(8)قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قُدرت میں میری جان ہے،تم جس نعمت کے مُتعلِّق قِیامت میں سُوال کئے جاؤ گے وہ ٹھنڈا سایہ اور عمدہ کھجور اور ٹھنڈا پانی ہے۔(ترمذی ج۴ ص۱۶۳ حدیث۲۳۷۶)) (9)قِیامت میں ہر غنی و فقیر(یعنی ہر امیر و غریب)آرزو کرے گاکہ کاش! دنیا میں اِس کے پاس صِرف قُوت ہوتا(ابن ماجہ ج۴ ص۴۴۲ حدیث۴۱۴۰)( قُوت یعنی صِرف اتنا کھاناہوتا جس سے زندَگی بچ سکے اور بس) (نیکی کی دعوت۳۴۹ تا۳۵۱)
(02): ’’ اسراف کی11 تعریفات ‘‘
فضول خرچوں کو قراٰنِ پاک میں شیطانوں کا بھائی قراردیا ہے۔چنانچہ پارہ سُوْرَۃُ بَنِیْ اِسْرَآءِیْل کی آیت نمبر26 اور27 میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)
ترجَمۂ کنزالایمان:اور فُضُول نہ اُڑابے شک اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بڑاناشکرا ہے۔
مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ’’ تفسیرِ صِراطُ الْجِنان‘‘ جلد5صفحہ447تا 448 پراِن آیاتِ مبارک کے تحت ہے : { وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)اور فضول خرچی نہ کرو۔} یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے’’تبذ یر ‘‘کے متعلق سوال کیا گیا تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک دِرہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن ج ۳ص۱۷۲)
اِسرا ف کی گیارہ تعریفات:
اِسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجائز ہے اور علمائِ کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں ،ان میں سے11تعریفات درج ذیل ہیں : {۱}غیرحق میں صرف کرنا{۲} اللّٰہ تَعَالٰی کے حکم کی حد سے بڑھنا {۳}ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مطہر یا مروت کے خلاف ہو ،اوَّل(یعنی خلافِ شریعت خرچ کرنا) حرام ہے اور ثانی(یعنی خلافِ مروت خرچ کرنا) مکروہِ تنزیہی ۔ {۴}طاعت الٰہی کے غیر میں صرف کرنا {۵}شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا {۶}غیر طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا {۷} دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا {۸}ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا {۹} حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا {۱۰}لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا {۱۱}بے فائدہ خرچ کر نا ۔
اِسراف کی واضح تر تعریف:غیر حق میں مال خرچ کرنا:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان تعریفات کو ذِکر کرنے اور ان کی تحقیق و تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ہمارے کلام کا ناظر (یعنی نظر کرنے والا)خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں سب سے جامع ومانع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اُس عبد اللّٰہ کی تعریف ہے جسے رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ علم کی گٹھڑی فرماتے اور جو خلفائے اَربعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بعد تمام جہان سے علم میں زائد ہے اور ابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مورثِ عِلْم ہے رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُ وَعَنْہُمْ اَجْمَعِیْن۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱(ب)ص۹۳۷)
تبذیر اوراِ سراف میں فرق:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے’’تبذیر‘‘اور ’’اِسراف‘‘ میں فرق سے متعلق جو کلام ذِکر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے بارے میں علما ئِ کرام کے دو قول ہیں :
(1)…تبذیر اور اِسراف دونوں کے معنیٰ ’’ناحق صَرف کرنا ‘‘ ہیں ۔ یہی صحیح ہے کہ یہی قول حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود اور حضرت عبد اللّٰہ بن عباس اور عام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ہے
۔ (2)…تبذیر اور اِسراف میں فرق ہے، تبذیر خاص گناہوں میں مال برباد کرنے کا نام ہے۔ اس صورت میں اِسراف تبذیر سے عام ہوگا کہ ناحق صرف کرنا عبث میں صرف کرنے کو بھی شامل ہے اور عبث مطلقاً گناہ نہیں توچونکہ اِسراف ناجائز ہے ا س لئے یہ خرچ کرنا معصیت ہوگا مگر جس میں خرچ کیا وہ خود معصیت نہ تھا۔ اور عبارت ’’لَاتُعْطِ فِی الْمَعَاصِیْ‘‘ (اس کی نافرمانی میں مت دے) کا ظاہر یہی ہے کہ وہ کام خود ہی معصیت ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے مقصود اور حکم دونوں معصیت ہیں اور اِسراف کو صرف حکم میں معصیت لازم ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱(ب)ص۹۳۷ تا۹۳۹ ملخّصاً)
(03): ’’ بجلی استعمال کرنے کے69 مدنی پھول ‘‘
مسلمانوں کی خیرخواہی اورنَفْع رسانی کی نیّت سے بجلی استِعمال کرنے کے69مَدَنی پھول پیش کرتا ہوں ، خود کو اِسراف اورتَضْیِیْعِ مال (یعنی مال ضائِع کرنے) سے بچانے کی اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ پڑھ سمجھ کر ان کے مطابِق عمل کیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّدنیا وآخِرت کی ڈھیروں بھلائیاں حاصل ہوں گی ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّبجلی کی بچت کی بَرَکت سے آپ کا بِل (BILL) بھی کم آئے گا ۔
بچت | استعمال شدہ یونٹ | واٹ | تعداد | برقی آلہ |
- | 42 | 400 | 4 | بلب |
57% | 18 | 160 | 4 | ٹیوب لائٹ |
80% | 9 | 80 | 4 | انرجی سیور |
اچھّی کمپنی کا ـ’’اِنَرجی سَیور‘‘ لینا چاہئے تا کہ ٹیوب لائٹ کی طرح آنکھوں کو ٹھنڈا محسوس ہو، ایسا گھٹیا نہ لیا جائے جو کہ آنکھوں کو چُبھے اور نظر کے لئے مُضِر ثابِت ہو۔
بجلی کی وائرنگ ہمیشہ معیاری کیبل سے کروائیے۔
درو دیوار اور چھت پر ہلکا رنگ جیسے سفیدیاآف وائٹ(Off white) وغیرہ کروائیے ، ہلکے رنگ والاکمرہ کم بتّیوں میں بھی روشن رہے گا۔
اپنے زیادہ تَر کام دن کی روشنی میں مکمَّل کرلیجئے ،یِہی کام رات کو کریں گے تو بتّی جلانی پڑے گی اور بجلی خَرْچ ہو گی۔
دن کے وَقْت دروازوں اورکِھڑکیوں سے پردے (اگر ہوں تو)ہٹادیجئے اور بے پَردَگی کا اندیشہ نہ ہو یا آپ کی نظر کسی کے گھر میں نہ پڑتی ہو تو دروازے اورکھڑکیاں بھی کھول دیجئے تاکہ صحّت بخش تازہ ہوا کے ساتھ ساتھ جراثیم کُش روشنی بلکہ تندُرُستی دینے کیلئے دھوپ بھی آئے اور بتّی کے بِغیر کام بھی چلتا رہے ۔
بَلْب یا ٹیوب لائٹ دیوار پر نَصْب (فِٹFit) کروانے کے بجائے آنکھوں پر براہِ راست روشنی نہ پڑے اس طرح چھت سے لٹکا لیجئے ، نیچے کی طرف جتنی قریب ہو گی اُتنی زیادہ روشنی ملے گی ۔
ہر کمرے میں اُتنے ہی بَلْب روشن کیجئے جتنی ضَرورت ہے ،اگر ایک بَلْب سے کام چل سکتا ہے تو دوسرا نہ جلایا جائے ۔
ٓج کل خوبصورتی کیلئے مختلف بَلْب اور ٹیوب لائٹیں پلاسٹک کور میں بند(Grill Light) لگائی جاتی ہیں ، اِس سے بچنا چاہئے کہ بجلی زیادہ خَرْچ ہونے کے باوُجُود روشنی کم ملتی ہے۔
شاپنگ مالز میں برقی زینہ کم سے کم چلائیے ۔
صنعتوں میں کم بجلی خرچ کرنے والی مشینری استعمال کیجئے۔
کہاں کتنی روشنی کی ضَرورت ہے ،اس کا اِنحِصار مکان کی تنگی وکُشادَگی ،کمرے کے چھوٹے بڑے ہونے اور لوگوں کی قِلّت وکثرت پر ہوتا ہے ، الیکٹریشن کی صَوا بدید پر چھوڑنے کے بجائے اچّھی طرح غور کر لیجئے کہ آپ کو کس جگہ کتنا اُجالا چاہئے پھر اِس کے مطابِق ترکیب بنائیے۔
جس جگہ زیادہ روشنی کی ضَرورت ہو وہاں دو یا تین کے بجائے ایک بڑابَلْب لگانابہتر ہے لیکن ساتھ میں ایک چھوٹا بلب لگا لینا بہتر ہے تاکہ جب زیادہ روشنی کی حاجت نہ ہوتو اُسی سے کام چلایا جاسکے۔
صِرْف اُسی جگہ روشنی کیجئے جہاں آپ مُطالَعَہ وغیرہ کررہے ہیں ۔
روشنی بڑھانے کیلئے ماہانہ کم از کم ایک بار ہربَلْب و ٹیوب لائٹ سے گَرد صاف کر لینا مُناسِب ہے۔ ٭کمرے سے باہَر جاتے ہوئے بلب وپنکھاوغیرہ بند(Off) کرنا نہ بھولیے۔
گھر کے تمام اَفرادخُصُوصاً مَدَنی مُنّوں اور مَدَنی مُنّیوں کی تربیَّت کیجئے کہ وہ غیرضَروری بتّی نہ جلائیں اور ضَرورت خَتم ہونے پر فوراً بُجھا دیں ۔یِہی ترکیب دُکان، دفتر اور کارخانے وغیرہ میں بھی بنا لیجئے ۔ ٭عُمُوماًاِستِنجاخانوں (Toilets)کی بتّیاں بِلاضَرورت جلتی رَہتی ہیں ، ہر شخص کو چاہئے کہ بعدِ فراغت خود ہی بُجھا دیا کرے۔
بعض اسلامی بھائی سرِشام ہی گھر یا دُکان کی تمام بتیّاں روشن کردیتے ہیں ،اندھیرا محسوس ہونے کے بعد صِرْف حسبِ حاجت بَلب روشن کیجئے۔
اگر مجبوری نہ ہو توسونے سے پہلے کمرے کا بَلْب بند کر دیجئے یا پھر ضَرورتاً زِیرو کا بَلْب استِعمال کیجئے،نیزگھر کی تمام غیرضَروری بتّیاں بُجھانا نہ بھولئے۔
رات بھر اندھیرے میں پڑا رہنا!
مکان، رات اندھیرے میں ڈوبا ہوا رکھنا اہلِ خانہ اور خُصوصاً بچّوں کیلئے باعثِ وَحشت ہے، اس میں چوروں نیز حَشْراتُ الاْرض ( کیڑے مکوڑوں ،چوہوں ، چھپکلیوں وغیرہ)کیلئے سَہولَت ہے۔ لال بیگ اور بعض طرح کے کیڑے اُجالے میں کم نکلتے ہیں ۔صاف صفائی والی پختہ عمارتوں میں کیڑے مکوڑوں کا سلسلہ کم ہوتا ہے۔بَہَرحال رات جب گھر میں لوگ موجود ہوں تو کچھ نہ کچھ روشنی ہونی مُناسِب ہے۔
مغرِب کے وَقت جبکہ ابھی کافی اُجالا باقی ہوتا ہے اکثر لوگ گھروں کی بَہُت ساری بتیاں جلا دیتے ہیں ، ایسی جلدبازی نہ کیجئے صِرف ضَرورت کے مطابِق روشنی کیجئے۔
راہگیروں کی سَہولت کیلئے بعض حضرات اپنے گھر کے باہَرساری رات بَلْب روشن رکھتے ہیں یہ کارِ ثواب ہے مگر صبح کا اُجالا پھیلتے ہی بتّی بند کر دیجئے۔
کوٹھیوں کے لان وگیراج میں کسی بھی وَقت غیرضَروری بتّیاں روشن نہ رہیں اِس کا خیال رکھئے ۔
آمدورفت نہ ہونے کے باوُجُود بعض مکانات کی سیڑھیوں کی بتّی ساری رات جلتی رہتی ہے، اِس کا حل یہ ہے کہ ’’ٹُووے‘‘ کی ترکیب بنا لیجئے یعنی ایک بٹن سیڑھی کی ابتِدا پر اور ایک انتِہا (یعنی ختم) پر اس طرح لگوایئے کہ دونوں طرف سے بتّی جلائی بجھائی جا سکے۔(بجلی استعمال کرنے کے مدنی پھول ص ۱۱تا ۱۵)
مختلف برقی آلات کے بارے میں 14مَدَنی پھول کمپیوٹر، ٹَیپ ریکارڈر،موبائل چارجر وغیرہ
کمپیوٹر، مانیٹر (Monitor)،کاپئیر، پرنٹر،ٹَیپ ریکارڈر،موبائل چارجروغیرہ جب استِعمال میں نہ ہوں تو بند کردیجئے ۔اِسٹَینڈ بائی(Standby) رکھنے کی صورت میں بھی یہ بجلی خَرْچ کرتے ہیں ۔ بجلی بچانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ برقی آلات جس وَقت استِعمال میں نہ ہوں اُنہیں ’’پاور ساکِٹ‘‘ سے نکال دیاجائے ،تاکہ نکتے کے برابر چھوٹا سے بَلب روشن رہتا ہے وہ بھی بند ہو جائے اِس طرح کرنے میں بجلی کی بچت کے ساتھ ساتھ آپ کے بَرقی آلات کی بھی حفاظت ہے۔
مانیٹرکی جگہ LCDیا LEDاستعمال کرنے سے بجلی کم خَرچ ہوتی ہے ۔
مَدَنی چینل اُسی صورت میں چلایئے جب کوئی دیکھنے والا ہو
گناہوں بھرے چینلز کے ناجائز سلسلے دیکھنے سے اپنی جان چُھڑا کر سچّی توبہ کرلیجئے اورصِرْف وصِرْف 100فیصد شَرْعی مَدَنی چینل دیکھنے کا معمول بنا یئے ،مگرایسا نہ ہو کہ مَدَنی چینل لگانے کے بعد آپ بات چیت وغیرہ میں لگ کر غافِل ہوجائیں یا گھر بھر میں یہاں وہاں گھومتے رہیں ، اگر کوئی ایک فرد بھی فائدہ نہ اُٹھا رہا ہو گا تو بجلی بے کار خَرْچ ہوتی رہے گی اور جان بوجھ کر ایسا کرنے کی صورت میں بعض صورَتوں میں آپ تَضْیِیْعِ مال (یعنی مال ضائِع کرنے) کے گناہ میں گِرِفتار اور عذابِ نار کے حقدار ہو سکتے ہیں ۔
ایگزاسٹ فین (Exhaust Fan)خواہ مَطْبَخ (کچنKitchen)میں ہویا کمرے میں یاکہ اِستنجا خانے میں ضَرورت پوری ہوجانے کے بعد بندکر دیجئے۔
پانی کا بے جااستِعمال نہ کیجئے ،موٹر زیادہ چلے گی تو بجلی بھی زیادہ خَرْچ ہوگی ۔
بیٹھنے یا سونے کی ترکیب یوں بنائیے کہ کم پنکھوں میں زیادہ افراد مُسْتفِید ہوسکیں ۔
ایک پنکھے سے کئی اَفراد استِفادہ کر سکتے ہیں
مدارِس و جامِعات کے اساتِذہ وطَلَبہ نیز دعوتِ اسلامی کے سنّتوں کی تربیّت کے مَدَنی قافِلوں کے مسافِر مساجِد میں بجلی کے استِعمال میں خوب محتاط رہیں کہ چندے کا مُعامَلہ بڑا سخت ہے۔ ناظِمین و امیرِ قافِلہ خاص کڑی نظر رکھا کریں ایسا نہ ہو کہ فی پنکھا ایک اسلامی بھائی سو یا پڑا ہو۔گھر کے کمرے میں جب ایک پنکھے کے نیچے کئی افراد سو سکتے ہیں تو آخِر مساجِد و مدارِس میں کیوں نہیں سو سکتے؟
الیکٹرک اَوْوَن(Oven)600تا1500واٹ کا ہوتا ہے ،اس میں کافی بجلی خَرْچ ہوتی ہے بِلا سخت ضَرورت اِستِعمال نہ کیجئے ۔
.بَہُت زیادہ بجلی کھاتا ہے
یوپی ایس(U.P.S) کا استعمال کم سے کم کرنا چاہئے کیونکہ اس کی’’ بیٹری ‘‘رِی چارج (Recharge) کرنے میں 300تا400واٹ کے حساب سے بجلی خَرْچ ہوتی ہے،لہٰذا دن کے وَقت UPSبند رکھ کر کافی ساری بجلی کی بچت کی جاسکتی ہے۔
سردیوں میں استِعمال کیاجانے والا بجلی کا ہیٹر(Heater)اَوسطاً 1800واٹ کا ہوتا ہے، اِس میں بے تحاشابجلی خَرْچ ہوتی ہے۔کم سے کم استِعمال کیجئے۔
اِستری بے دردی سے بجلی کھاتی ہے
اِستری 800تا 1200واٹ کی (یعنی 10تا 15چھت کے پنکھوں کے برابر) ہوتی ہے، نہایت بے دردی سے بجلی کھاتی اور خوب BILLبڑھاتی ہے، سَخْت حاجت میں ہی اِستِعمال کیجئے۔اگر ممکِن ہوتو بِغیر اِستری کے کپڑے پہن لیجئے ، انمول وَقت کے ساتھ ساتھ پیسوں کی بھی ٹھیک ٹھاک بچت ہو گی۔
لِفٹ (Lift) اچّھی خاصی بجلی کھاتی ہے، اسے کم سے کم اِستعمال کیجئے ،سیڑھیوں کے ذَرِیْعے آناجانا ایک ورزِش ہے اور بدن کیلئے طِباً مفید ہے۔
گھر سے باہَر جانے سے پہلے بجلی کا ہر سوِچ(SWITCH) ـ چیک کرلیجئے کہ کہیں کوئی ًبَلْب ، جل اورپنکھا وغیرہ چل تو نہیں رہا !
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ باہَر جائیں تب بھی خالی گھر کابَلْب خواہ مخواہ روشن رکھتے ہیں ، بِلا حاجت ایسا نہ کریں،ہاں اس لیے روشن رکھا کہ واپسی میں روشنی ملے یا چور وغیرہ سے حفاظت رہے کہ سمجھیں کہ گھر میں کوئی ہے تو حرج نہیں۔
فریج وڈیپ فریزر کے بارے میں 13مدنی پھول
فریج وڈیپ فریزر (18کیوبِک فُٹ(FOOT) کے اَوسطاً 500واٹ کے ہوتے ہیں یہ) آپ کے گھر میں ہوں تو تقریباً25 فی صد بجلی استعمال کرتے ہیں ۔
بعض اوقات اپنی ضَرورت سے بڑا فریج لے لیا جاتا ہے ،یاد رکھئے! خالی فریج زیادہ بجلی کھینچتا ہے ، اگر رکھنے کو زیادہ چیزیں نہ ہوں تو پانی ہی بھر کر رکھ دیجئے اور ٹھنڈا ہونے پر ثواب کی نیّت سے مسلمانوں کو پلا دیجئے۔
فریج میں ایک آلہ تھرمو اسٹیٹ (Thermostat)لگا ہوتا ہے جس سے اس کی ٹھنڈک (Cooling) کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے ،زیادہ ٹھنڈک پر زیادہ بجلی صَرْف ہوتی ہے ،اس لئے فریج کی ٹھنڈک کو موسِم اور ضَرورت کے مطابِق رکھئے ۔
فریج یا ڈیپ فریزر کو دیوار سے لگا کر نہ رکھئے پچھلے حصّے کی طرف ہوا کا راستہ کُھلا رہے۔
فریج ایسی جگہ نہ رکھئے جہاں دُھوپ آتی ہو بلکہ کوشش کر کے اسے گھر میں سب سے ٹھنڈی جگہ پررکھئے ۔
فریج کا دروازہ بار بار کھولنے سے اس کی ٹھنڈک میں کمی آتی اور بجلی زیادہ خَرْچ ہوتی ہے ۔
زیادہ دیر دروازہ کُھلا رکھنے سے بھی بجلی زیادہ خَرچ ہوتی ہے ،لہٰذا کیا کیا نکالنا ہے یہ ذہن بنانے کے بعد ہی فریج کھولئے اور چیز نکالنے کے بعد دروازہ اچّھی طرح بند کر دیجئے۔
بار بار فریج نہ کُھلے اس کے لئے پانی کے کُولر کا استِعمال کیجئے ۔
فریج میں گَرْما گَرْم غذا وغیرہ رکھنے سے اندر کا دَرَجۂ حرارت بڑھ جاتا اور بجلی زیا دہ خَرْ چ ہوتی ہے۔
ریفریجریٹر کے پیچھے ننھے مُنّے پائپوں کی ایک جالی ہوتی ہے جس پرمِٹّی اورگَرد پڑتی رہتی ہے،اس سے فریج کی کارکردَگی پر اثر پڑتا ہے، ہفتے پندرہ دن میں ’’پاوَر ساکِٹ‘‘ سے نکال کر اسے صاف کرلینا مفید ہے۔
وہ فریج اور فریزر جوکہ خود بَرْف پگھلا دینے کی صلاحیّت رکھتے ہیں جنہیں ’’نوفراسٹ‘‘ ( No frost) کہا جاتا ہے وہ نسبتاً زیادہ بجلی کھاتے ہیں ۔
فریج سے زائد برف نکالنے کا طریقہ
اپنے فریج اور فریزر میں ایک چوتھائی(4/1) انچ سے زیادہ بَرْف نہ جمنے دیجئے،بَرْف اُتارنے کے لئے تھوڑی دیر بند (OFF) کرکے اس کا دروازہ کھول دیجئے اور ہاتھوں سے صاف کیجئے ،حسبِ ضَرورت پلاسٹک کا چَمَّچ استِعمال کیجئے ،لوہے کیچَمَّچ یاچُھری چاقو کے استعمال سے فریج خراب ہوسکتا ہے ۔
اگر چند دنوں کے لیے گھر سے باہَر جانا ہو توفریج خالی کرکے بند کردیجئے، اگر اس میں ضَروری اشیاء موجود ہوں تو کم سے کم کُولنگ (Cooling)پر ترکیب بنادیجئے۔
واشِنگ مشین کے بارے میں 3مَدَنی پھول
واشِنگ مشین(Washing Machine) آپ کے استِعمال کی تقریباً 20فی صد بجلی استِعمال کرتی ہے ۔
واشِنگ مشین پر کپڑے دھونے سے بجلی کے ساتھ کئی لیٹر پانی بھی استِعمال ہوتا ہے، اگرزیادہ کپڑے دھونے ہوں تو ہی اِستِعمال کیجئے، ایک یا دو کپڑے ہوں تو ہاتھوں سے دھولیجئے۔
کئی گھروں میں واشنگ مشین کے ساتھ کپڑے سُکھانے والاڈرائیر (Dryer)بھی استِعمال ہوتا ہے جس سے بجلی کاخَرْچ بڑھ جاتا ہے، اگر کُھلی جگہ اور دھوپ مُیَسَّرہوتو کپڑے بِغیر ڈرائیر کے سُکھا لیجئے۔
A.C.کا استِعمال چونکہ جائز ہے لہٰذا اِس کے بھی مَدَنی پھول قبول فرمایئے:
ڈیڑھ ٹن کا ایک اے۔سی(Air conditioner) ڈبل بارہ(24) پنکھوں سے زیادہ بجلی استِعمال کرتا ہے ۔
. A.C سائے میں رکھئے،کُھلی دھوپ میں رکھنے سے پانچ فی صد بجلی زیادہ خَرچ ہوگی ۔
جب تک پنکھے سے گُزارا ہوسکتا ہو ،اے سی(. A.C)نہ چلائیے۔
اپنے اے۔ سی کا تھرمو سٹیٹ(Thermostat) 16کے بجائے 26ڈگری سینٹی گریڈ پر مقرَّر (Set)کیجئے،اس سے آپ کے ماہانہ بل میں 30فی صد کمی ہوسکتی ہے ۔
جب . A.C چلائیں تو اسے شُروع ہی سے کم ٹھنڈک (کُولنگCooling)پر سیٹ نہ کریں کہ یہ آہِستہ آہِستہ ٹھنڈا کرے گا اور بجلی زیادہ خَرچ ہوگی ۔
بار بار کمرے کا دروازہ کُھلنے سے بھی . A.Cپر بوجھ بڑھتا ہے اور بجلی زیادہ خَرچ ہوتی ہے ۔
بار بار کمرے کا دروازہ کُھلنے سے بھی . A.Cپر بوجھ بڑھتا ہے اور بجلی زیادہ خَرچ ہوتی ہے ۔
ہر ماہ اس کا فِلٹر (Filter)صاف کرنا مفیدہے ۔(بجلی استعمال کرنے کے مدنی پھول ص ۲۶تا ۲۵)
(04): ’’ تنگدستی کے 44 اسباب ‘‘
(۱)بِغیرہاتھ دھوئے کھانا
(۲)ننگے سر کھانا
(۳)اندھیرے میں کھانا
(۴)دروازے پر بیٹھ کر کھانا پینا
(۵) میّت کے قریب بیٹھ کر کھانا
(۶)جَنابت (یعنی جِماع یا احتِلام کے بعد غُسل سے قَبل)کھانا کھانا
(۷)نکلا ہوا کھانا کھانے میں دیر کرنا
(۸)چارپائی پر بِغیر دسترخوان بچھائے کھانا(۹)چارپائی پر خود سرہانے بیٹھنا اور کھانا پائِنتی (یعنی جس طرف پاؤں کئے جاتے ہیں اُس حصے)کی جانِب رکھنا (۱۰)دانتوں سے روٹی کترنا( برگر وغیرہ کھانے والے بھی احتِیاط فرمائیں) (۱۱)چینی یا مِٹّی کے ٹوٹے ہوئے برتن استِعمال میں رکھنا خواہ اِس میں پانی پینا(برتن یا کپ کے ٹوٹے ہوئے حصّے کی طرف سے پانی ، چائے وغیرہ پینا مکروہ ہے، مِٹّی کے دراڑوالے یا ایسے برتن جن کے اندرونی حصّہ سے تھوڑی سی بھی مِٹّی اُکھڑی ہوئی ہو اُس میں کھانانہ کھایئے کہ مَیل کچیل اور جراثیم پیٹ میں جا کر بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں)
(۱۲)کھائے ہوئے برتن صاف نہ کرنا (۱۳)جس برتن میں کھانا کھایا ہے اُسی میں ہاتھ دھونا
(۱۴)خِلال کرتے وَقت جو ریشہ نکلے اسے پھر منہ میں رکھ لینا(۱۵)کھانے پینے کے برتن کُھلے چھوڑ دینا۔ کھانے پینے کے برتن بسم اللہ کہہ کر ڈھانک دینے چاہئیں کہ بلائیں اُترتی ہیں اور خراب کر دیتی ہیں پھر وہ کھانا اور مُشروب بیماریاں لاتا ہے
(۱۶)روٹی کو خوار رکھنا کہ بے ادَبی ہو اور پاؤں میں آئے۔ (مُلَخَّصاًسُنّی بہشتی زیور ص ۵۹۵ تا ۶۰۱) حضرتِ سیِّدناامام بُرہانُ الدّین زَر نُو جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تنگدستی کے جو اسباب بیان فرمائے ہیں اُن میں یہ بھی ہیں
(۱۷)زیادہ سونے کی عادت (اس سے جہالت بھی پیدا ہوتی ہے) (۱۸)ننگے سونا
(۱۹) بے حیائی کے ساتھ پیشاب کرنا (لوگوں کے سامنے عام راستوں پربلا تکلُّف پیشاب کرنے والے غور فرمائیں)
(۲۰)دسترخوان پر گرے ہوئے دانے اور کھانے کے ذرّے وغیرہ اٹھانے میں سُستی کرنا(۲۱)پیاز اور لہسن کے چھلکے جلانا
(۲۲)گھر میں کپڑے سے جھاڑو نکالنا
(۲۳)رات کو جھاڑو دینا (۲۴)کُوڑا گھر ہی میں چھوڑدینا(۲۵)مَشائخ کے آگے چلنا
(۲۶)والِدَین کو انکے نام سے پکارنا
(۲۷) ہاتھوں کو گارے یا مِٹّی سے دھونا(۲۸)دروازے کے ایک حصّے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہونا(۲۹)بیتُ الخَلاء میں وُضو کرنا
(۳۰)بدن ہی پر کپڑا وغیرہ سی لینا(۳۱)چہرہ لباس سے خشک کرلینا
(۳۲)گھر میں مکڑی کے جالے لگے رہنے دینا(۳۳)نَماز میں سُستی کرنا(۳۴)نَمازِ فَجر کے بعد مسجِد سے جلدی نکل جانا
(۳۵)صبح سویرے بازار جانا(۳۶) دیر گئے بازار سے آنا (۳۷)اپنی اولادکو''کو سَنیں'' (یعنی بد دعائیں )دینا(اکثر عورَتیں بات بات پر اپنے بچّوں کو بد دعا ئیں دیتی ہیں اور پھر تنگدستی کے رونے بھی روتی ہیں!)
(۳۸)گناہ کرنا خُصُوصاً جھوٹ بولنا (۳۹)چَراغ پھونک مار کربُجھا دینا(۴۰)ٹُوٹی ہوئی کنگھی استِعمال کرنا
(۴۱)ماں باپ کیلئے دعائے خیر نہ کرنا(۴۲)عِمامہ بیٹھ کر باندھنا اور(۴۳)پاجامہ یا شلوار کھڑے کھڑے پہننا(۴۴)نیک اعمال میں ٹالَمْ ٹول( ٹا لَمْ۔ ٹول) کرنا۔ (تَعْلِیْمُ الْمُتَعَلِّمِ طَرِیْقُ التَّعَلُّمِ ۷۳تا۷۶بابُ
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد
(05): ’’ مال جمع کرنے نہ کرنے کی صورتیں ‘‘
مال جَمْعْ کرنے نہ کرنے کی صورَتیں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مال جمع کرنے نہ کرنے کی صورتوں کے متعلّق بارگاہِ رضویت میں ہونے والے ’’ سُوال وجواب‘‘ کے مختلف اِقتباسات پیش کرتا ہوں ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ
وَجَلَّآپ کی معلومات میں بے حد اِضافہ ہوگا: سُوال: ایک شخص جو اَہل و عِیال (یعنی بال بچّے) رکھتا ہے اپنی ماہانہ یا سالانہ آمدنی سے بِلا اِفراط وتَفرِیط (یعنی بِغیر کمی وزِیادَتی کے) اپنے بال بچّوں پرخَرچ کر کے بقایا خدا کی راہ میں دیتا ہے آئِند ہ کو اَہل وعِیال کے واسِطے کچھ نہیں رکھتا ، دوسرا اپنی آمدنی سے بچّوں پرایک حصّہ خَرچ کرکے دوسرا حصّہ خیرات کرتا اور تیسرا حصّہ آئندہ انکی ضَرورتوں میں کام آنے کی غَرَض سے رکھ چھوڑنے کو اچّھا جانتا ہے، ان دونوں میں افضل کون ہے؟
الجواب: حُسنِ نیّت ( یعنی اچّھی نیّت ) سے دونوں صورَتیں مَحمود (بَہُت خوب) ہیں ، اور بَاِختِلافِ اَحوال (یعنی حالات مختلِف ہونے کی وجہ سے ) ہر ایک (کبھی) افضل ، کبھی واجِب، وَلہٰذا اس بارے میں احادیث بھی مختلف آئیں اور سَلَفِ صالِح (یعنی بزرگانِ دین ) کا عمل بھی مختلِف رہا۔
اَقُول ُوَبِاللّٰہِ التَّوْفِیق (اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی توفیق سے میں کہتا ہوں ) اس میں قَولِ مُوْجَزْ و جَامِع (یعنی مختصر وجامِع قول) اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ یہ ہے کہ آدَمی دو قسم (کے) ہیں : (۱) مُنْفَرِد کہ تنہا ہو اور (۲) مُعِیْلکہ عِیال (یعنی بال بچّے وغیرہ) رکھتا ہو، سُوال اگر چِہ مُعِیْلسیمُتَعلِّق ہے مگر ہرمُعِیْل اپنے حقِّ نفس (یعنی خود اپنے بارے) میں مُنْفَرِد اور اس پر اپنے نفس (یعنی اپنی ذات) کے لحاظ سے وُہی اَحکام ہیں جو مُنْفَرِد پر ہیں لہٰذا دونوں کے اَحکام سے بَحث درکار۔
{1}وہ اَہلِاِنْقِطَاعوَ تَبَتُّل اِلَی اللّٰہاَصْحابِ تَجْرِیْد وَتَفْرِیْد (یعنی ایسے لوگ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خاطِر دنیا سے کَنارہ کَشی اختیار کر لی ہو اور ان پر اہل وعِیال کی ذمّے داری نہ ہو یا انکے اہل و عِیال ہی نہ ہوں ) جنھوں نے اپنے رب سے کچھ (مال) نہ رکھنے کا عَہد باندھا (وعدہ کیا ) ان پر اپنے عَہْد کے سبب تَرکِ اِدّ ِخار (یعنی مال جمع نہ کرنا ) لازِم ہوتا ہے اگرکچھ بچارکھیں تونَقْضِ عَہْد (یعنی وعدہ خِلافی) ہے اور بعدِ عہد پھر جَمع کرنا ضَرور ضُعفِ یقین سے نَاشِیٔ (یعنی یقین کی کمزوری کی وجہ سے ہے ) یا اُس کامُوْہِمْ ( یعنی وہم ڈالنے والا ) ہوگا، ایسے (حَضرات ) اگر کچھ بھی ذَخیرہ کریں مستِحقِ عِقاب ( یعنی سزاکے حق دار) ہوں ۔
{2}فَقر و توکُّل ظاہِر کرکے صَدَقات لینے والا اگر یہ حالت مُستَمِر (مُسْ۔ ت َ۔ مِرْ یعنی برقرار) رکھنا چاہے تو اُن صَدَقات میں سے کچھ جمع کر رکھنااُسے ناجائز ہوگا کہ یہ دھوکا ہوگا اور اب جوصَدَقہ لے گا حرام و خبیث ہوگا۔
{3}جسے اپنی حالت معلوم ہو کہ حاجت سے زائد جو کچھ بچا کررکھتا ہے نَفس اُسے طُغیان وعِصیان (یعنی سرکشی ونافرمانی) پر حامِل ہوتا (یعنی اُبھارتا ) ، یاکسی مَعصِیَت (یعنی نافرمانی) کی عادت پڑی ہے اُس میں خَرچ کرتا ہے تو اُس پرمَعصِیَت سے بچنا فرض ہے اور جب اُس کایِہی طریقہ مُعَیَّن (م ُ۔ عَیْ۔ یَنْ یعنی مُقرَّر) ہو کہ باقی مال اپنے پاس نہ رکھے تو اِس حالت میں اس پر حاجت سے زائد سب آمَدَنی کو مَصارِفِ خَیر (یعنی بھلا ئی کے کاموں ) میں صَرف کر دینا لازِم ہوگا۔
{4} جو ایسا بے صَبرا ہوکہ اگر اُسے فاقہ پہنچے تو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ رب عَزَّوَجَلَّ کی شکایت کرنے لگے اگر چِہ صِرف دل میں ، نہ زَبان سے، یا طُرُقِ ناجائزہ (یعنی ناجائز طریقوں ) مِثلِ سَرِقہ (سَ ۔ رِ۔ قَہ یعنی چوری) یا بھیک وغیرہ کا مرتکِب ہو، اس پر لازِم ہے کہ حاجت کے قَدَرجَمع رکھے، اگر پیشہ وَر ہے کہ َروزکارَوزکھاتا ہے، تو ایک دن کا، اور ملازِم ہے کہ ماہوار ملتا ہے یا مکانوں دکانوں کے کرائے پر بسر ہے کہ (کرایہ) مہینہ پیچھے آتا ہے، تو ایک مہینے کا اور زمیندار ہے کہ فصل (چھ ماہ) یا سال پر پاتا ہے تو چھ مہینے یا سال بھر کااور اصل ذَرِیعۂ مَعاش مَثَلاً آلاتِ حرفَت ( یعنی کام کے اَوزار) یا دکان مکان دیہات بَقَدرِ کِفایت کا باقی رکھنا تو مُطلَقاً اس پر لازِم ہے۔
{5}جو عالمِ دین مُفتِیِٔ شَرع یا مُدافِعِ بِدع (بد مذ ہبیت کوروکنے والا) ہو اور بیتُ المال سے رِزق نہیں پاتا، جیسا (کہ اب) یہاں ہے، اور وہاں اس کا غیر (یعنی کوئی دوسرا) ان مَناصبِ دِینیہ (یعنی دینی مَنصَبوں ) پرقِیام نہ کرسکے کہ اِفتا ( فتویٰ دینے) یا دَفعِ بِدعات میں اپنے اَوقات کا صَرف کرنا اس پر فرضِ عَین ہو اور وہ مال و جائداد رکھتا ہے جس کے باعث اُسے غَنا (مالی طور پر مضبوطی ) اور ان فرائضِ دِینیہ کے لیے فارِغُ البالی ہے (یعنی روزگار وغیرہ سے بے فکری ہے) کہ اگر (سارا ہی مال) خَرچ کر دے مُحتاجِ کَسب (یعنی کام کاج کرنے کا محتاج ) ہو اور ان اُمُور (یعنی ان دینی فریضوں کی ادائیگی) میں خَلَل پڑے، اس پر بھی اَصل ذَرِیعے کا اِبقا (یعنی باقی رکھنا) اور آمَدَنی کا بَقَدرِ مذکور جَمع رکھنا واجِب ہے ۔
{6}اگر وہاں اور بھی عالِم یہ کام کرسکتے ہوں تو اِبقاء وجمعِ مذکور (حسبِ ضَروت مال جمع کرنا اور مال کے ذرائِع باقی رکھنا) اگر چِہ واجِب نہیں مگر اَہَم و مُؤَکَّدْ (سخت تاکید کیا ہوا) بیشک ہے کہ علمِ دین و حمایتِ دین کے لیے فَراغ بال ( یعنی خوشحالی) ، کَسبِ مال ( یعنی مال کمانے) میں اِشتِغال ( یعنی مشغول ہونے) سے لاکھوں درجے افضل ہے مَعہٰذا (یعنی اسی کے ساتھ ) ایک سے دو اور دوسے چاربھلے ہوتے ہیں ، ایک (عالم) کی نظر کبھی خطا کرے تو دوسرے (عُلَماء) اُسے صَو اب (یعنی صحیح بات) کی طرف پھیر دیں گے، ایک (عالم) کو مرض وغیرہ کے باعث کچھ عُذر پیش آئے تو جب اور (عُلماء) موجود ہیں کام بند نہ رہے گا لہٰذا تَعَدُّدِ عُلَمائے دین (علمائے دین کی کثرت) کی طرف ضَرور حاجت ہے۔
{7} عالم نہیں مگر طلبِ علمِ دین میں مشغول ہے اورکَسب میں اِشتِغال ( مال کمانے میں مشغول ہونا ) اُس (یعنی علمِ دین کی طلب) سے مانِع (یعنی روکنے والا) ہوگا تو اس پر بھی اُسی طرح اِبقاء و جمع مَسطُور آکد واَہَم ہے۔ (یعنی اس کے لئے بھی حسبِ ضَرورت مال جمع کرنا اور مال کے ذارئِع کو باقی رکھنابَہُت اَہَم وضَروری ہے )
{8}تین صورَتوں میں جَمع مَنع ہُوئی، دومیں واجِب ، دو میں مُؤَکَّدْ (یعنی تاکیدی اور ) جو ان آٹھ (قِسموں ) سے خارِج ہو، وہ اپنی حالت پر نظر کرے اگر جَمع نہ رکھنے میں اس کاقَلب پریشان ہو، تو جُّہ بَعبادت و ذِکرِ الہٰی میں خَلَل پڑے تو بمعنیٔ مذکوربَقَدرِ حاجت جَمع رکھنا ہی افضل ہے اور اکثر لوگ اِسی قسم کے ہیں ۔
{9}اگرجَمع رکھنے میں اس کا دل مُتَفَرِّق (یعنی مُنتَشِر) اور مال کے حفِظ (یعنی حفاظت) یا اس کی طرف مَیلان (جُھکاؤ) سے مُتَعلِّقہوتوجمع نہ رکھنا ہی افضل ہے کہ اَصل مقصود ذِکرِ الہٰی کے لیے فَراغ بال (فارِغ ہونا) ہے جو اُس میں مُخِل ( خلل ڈالنے والا) ہو وُہی ممنوع ہے۔
{10}جواصحاب نُفُوسِ مُطْمَئِنَّہ (یعنی اہلِ اطمینان) ہوں ، (کہ) نہ عَدَمِ مال (مال نہ ہونے ) سے اُن کا دل پریشان (ہو) نہ وُجُودِ مال (یعنی مال ہونے ) سے اُن کی نظر (پریشان ہو ) ، وہ مُختار ہیں ( یعنی با اختیار ہیں کہ چاہیں تو بقیہ مال صَدَقہ وخیرات کر دیں یا اپنے پاس ہی رکھیں ) ۔
{11}حاجت سے زیادہ کا مَصارِفِ خیر (یعنی اچّھی جگہوں ) میں صَرف (خَرچ) کردینا اور جَمع نہ رکھنا صورتِ سِوُم میں تو واجب تھا باقی جُملہ صُوَر (یعنی دیگر تمام صورَتوں ) میں ضَرور مطلوب (یعنی پسندیدہ) ، اور جوڑ کر (یعنی جمع) رکھنا اس کے حق میں ناپسند ومَعیوب کہمُنْفَرِد کو اس کا جوڑنا طولِ اَمَلَ (یعنی لمبی اُمّید ) یا حُبِّ دُنیا (یعنی دنیا کی مَحَبَّت ) ہی سے ناشِی (یعنی پیدا ) ہوگا۔ (مطلب یہ کہ مال جمع کرنا لمبی اُمّید یا دُنیا سے مَحَبَّت ہی کی وجہ سے ہوگا اور یہ دونوں صورتیں اچّھی نہیں ہیں ) ۔(خزانے کے انبار ص۲۹ تا ۳۴)
(06): ’’ مال دار وں کے جھوٹ کی 16مثالیں ‘‘
آج کل مالداری کے سبب بے شمار گناہ کئے جا رہے ہیں ، انہیں گناہوں میں یہ بھی ہے کہ بعض مالدار کئی مواقِع پر مال کے تعلُّق سے جھوٹ بولتے سنائی دیتے ہیں : اس کی
16مثالیں مُلاحَظہ ہوں لیکن کسی بات کوگناہ بھراجھوٹ اُسی صورت میں کہا جائے گا جبکہ وہ بات سچ کی اُلٹ ہو اور جان بوجھ کر کہی گئی ہواور اس میں شَرْعی اجازت ورخصت کی بھی کوئی صورت نہ ہو مَثَلاً{۱}مجھے مال سے کوئی مَحَبَّت نہیں {۲} میں تو صرف بچّوں کیلئے کماتا ہوں {۳} میں تو صرف اس لئے کماتا ہوں کہ ہر سال مدینے جا سکوں {۴} میں تو راہِ خدا میں لٹانے کیلئے کماتا ہوں ( حالانکہ سالانہ فقط ڈھائی فیصد زکوٰۃ نکالنے کو بھی جی نہیں چاہتا، غریبوں کو خوب دھکّے کھلائے جارہے ہوتے ہیں ){۵}چوری ہونے، ڈاکا پڑنے،آتَش زدَگی یا کسی بھی سبب سے مالی نقصان ہو جانے پر کہنا ـ : ’’مجھے اِس کاکوئی غم نہیں ‘‘ (حالانکہ واویلا بھی جاری ہو تا ہے)
{۶} شاندار کوٹھی( بنگلا) بنا کر یانئے ماڈل کی بہترین کار حاصل کر نے کے بعد کہنا: ’’یار! اپنا کیا ہے! یہ تو بس بچّوں کا شوق پورا کیا ہے۔‘‘ (حالانکہ خود اپنا دل خوب آسائش پسند ہوتا ہے)
{۷}اِتنا کمالیا ہے کہ بس اب جی بھر گیا ہے(حالانکہ کہنے والا بڑے جذبے کے ساتھ کمانے کا سلسلہ جاری رکھتا اور نئے نئے کاروبار شروع کئے جارہا ہوتا ہے )
{۸} میں بالکل فُضول خرچی نہیں کرتا (جب کہ جینے کااندازکچھ اور ہی داستان سنا رہا ہوتاہے!){۹}اللہ نے بَہُت کچھ دیا ہے لیکن ہم سادگی پسند ہیں (حالانکہ تن کے کپڑے ،کھانے کے برتن وغیرہ بہ بانگِ دُہُل ’’سادَگی‘‘ کا منہ چِڑارہے ہوتے ہیں )
{۱۰}میں نے اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی بَہُت سادَگی سے کی ہے (حالانکہ جتنا شاہی خرچ اس شادی پر ہوا ہوتا ہے اُس رقم میں غریب گھرانے کی شاید 100شادیاں ہو جائیں )
{۱۱} بس جی ! سب کچھ بچوں کے حوالے کردیا ہے ،کاروبار سے اپنا کوئی لینا دینا ہی نہیں !(یہ بات کہنے والے کو کوئی اس وقت دیکھے جب یہ اپنی اولاد سے کاروبار کا باقاعدہ حساب لے رہے ہوتے اور ان کے کان کھینچ رہے ہوتے ہیں )
{۱۲}مالداری کی وجہ سے کبھی تکبُّر نہیں کیا ( ایسا کہنے والے کو کوئی اُس وقت دیکھے جب یہ کسی غریب رشتے دار کوحقارت سے دھتکار رہے ہوں ،اس سے ہاتھ ملانا اپنی کسرِشان قرار دے رہے ہوں ،یا اپنے ملازمین پر برس رہے ہوں )
{۱۳}جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینے جابسوں (واقعی جی چاہتا ہو تو مرحبا! ورنہ جھوٹ)
{۱۴}کبھی کسی پر اپنی مالداری کا رعب نہیں ڈالا ( کسی کے یہاں شادی بیاہ وغیرہ کی تقریب میں حسبِ منشا آؤبھگت نہ ہونے کی صورت میں ان کے منہ سے جھڑنے والے پھولوں کو کوئی دیکھے یا کسی جگہ یہ اپنا تعارُف خود کرواتے دکھائی دیں کہ مابدولت اتنی اتنی فیکٹریوں کے مالک ہیں وغیرہ وغیرہ تو اس جملے کی حقیقت سامنے آجائے گی )
{۱۵}یہ مالداری توبس ظاہِری ہے، دل کاتومیں فقیر ہوں (ان کاروحانی سی ٹی اسکین کریں تو شاید حرص ولالچ سرفہرست ہوں)
{۱۶}ہم اپنے ملازِموں کو نوکر نہیں گھر کا فرد سمجھتے ہیں (اُن کے ملازموں کا دل ٹٹولا جائے توڈھول کاپول سامنے آجائے گا کہ ان بے چاروں کے ساتھ کس طرح کتّوں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہوتا ہے ) ۔(چڑیا اور اندھا سانپ ص۲۳)
(07): ’’ رستہ گھیرنے کے تعلق سے ‘‘
بعض لوگ شارِعِ عام پر بِلا حاجت راستہ گھیر لیتے ہیں جن میں کئی صورتیں لوگوں کیلئے سخت تکلیف کا باعِث بنتی ہیں،مَثَلًا(۱)بَقَر عید کے دنوں میں قربانی کے جانور بیچنے یا کرائے پر رکھنے یا ذَبح کرنے کیلئے بعض جگہ بِلاضرورت پوری پوری گلیاں گھیر لیتے ہیں(۲)راستے میں تکلیف دِہ حد تک کچرا یا مَلبہ ڈالتے،تعمیرات کیلئے غیر ضَروری طور پربَجری اور سَریوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں اور یونہی تعمیرات کے بعد مہینوں تک بچا ہوا سامان و ملبہ پڑا رہتا ہے(۳)شادی و غمی کی تقریبوں،نیازوں وغیرہ کے موقَعَوں پر گلیوں میں دیگیں پکاتے ہیں جن سے بعض اوقات زمین پر گڑھے پڑ جاتے ہیں پھر ان میں کیچڑ اورگندے پانی کے ذخیرے کے ذَرِیعے مچّھر پیدا ہوتے اور بیماریاں پھیلتی ہیں(۴)عام راستوں میں کُھدائی کروا دیتے ہیں مگر ضَرورت پوری ہوجانے کے باوُجُود بھروا کر حسبِ سابِق ہموار نہیں کرتے(۵)رِہائش یاکاروبار کیلئے ناجائز قبضہ جما کر اِس طرح جگہ گھیر لیتے ہیں کہ لوگوں کا راستہ تنگ ہو جاتا ہے۔ان سب کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 853 صَفحات پر مشتمل کتاب،’’جہنَّم میں لے جانے والے اعمال(جلد اوّل)‘‘ صَفْحَہ816 پر امام ابنِ حَجَر مکّی شافِعی علیہ رحمۃ اللہ القوی کبیرہ گناہ نمبر 215 میں اِس فِعل(یعنی کام)کو گناہِ کبیرہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ شارِعِ عام میں غیر شَرعی تَصَرُّف(مُداخلت)کرنا یعنی ایسا تَصَرُّف(یعنی دخل دینایا عمل اختیار)کرنا جس سے گزرنے والوں کو سخت نقصان پہنچے ‘‘ اس کا سبب بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ اس میں لوگوں کی اِیذا رَسانی اورظُلمًا اُن کے حُقُوق کا دبانا پایا جا رہا ہے۔فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم:’’جس نے ایک بالشت زمین ظلم کے طور پر لے لی قِیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اتنا حصّہ طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ (صَحیح بُخاری ج ۲ص۳۷۷حدیث۳۱۹۸)(نیکی کی دعوت ص۱۶۷ تا ۱۶۷)
(08): ’’ ناسمجھ عورتوں کے لیے سات مدنی پھول ‘‘
غیر محرم سے ہنر یا فَن سیکھنا سکھانا کیسا؟
سُوال: غیر محرم سے کوئی ہنر یا فن سیکھنا یا انہیں سکھانا کیسا ہے؟
جواب: پانچ سات سال کے بچے اور بچیاں ہوں تو ان کے سیکھنے میں کوئی مُضایقہ نہیں اَلبتہ جَوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک دوسرے کے پاس سیکھنے سکھانے میں بہت زیادہ خطرات ہیں ۔ عموماً یہ سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بےپردگی اور بے تکلفی کے ساتھ ہوتا ہے جو کہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ اگر یہ ایک دوسرے کو نہ بھی چھوئیں تب بھی بَدنگاہی سے اپنے آپ کو بچانا اِنتہائی مشکل ہے ۔ غیرت مند مسلمان کبھی بھی اپنے بچوں اور بچیوں کے ایسے ماحول میں سیکھنے سکھانے کا اِہتمام نہیں کر سکتے ۔ غیرمحرم سے پَردہ ہی پَردہ ہے ، بِلااِجازتِ شَرعی کسی کی رِعایت نہیں ۔ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنَّت ، مُجدِّدِ دِین و مِلَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 639 پر فرماتے ہیں: ” رہا پَردہ اس ميں اُستاذ وغَیرِ اُستاذ ، عالِم و غَیرِ عالم ، پِیر سب برابر ہيں ۔ “
طالبات کو نوجوان اُستاد سے پڑھنے کی ممانعت
ہنر یا فن سیکھنا سکھانا تو دُور کی بات ، علمِ دِین پڑھنا ہو اور پڑھنے والی طالبات باپَردہ بھی ہوں مگر پڑھانے والا اُستاد جَوان ہے تب بھی طالبات کو اس کے پاس جانے اور پڑھنے کی شرعاً اِجازت نہیں کہ پَردے کے باوُجُود پڑھنے والیاں لگی بندھی اور جانی پہچانی ہوتی ہیں لہٰذا خَطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّت نے اِسی بِنا پر پَردے کی تمام تَر پابندی کے باوُجُود عورت کو علمِ دِین سیکھنے کے لیے جَوان پِیر کے پاس جانے کی اِجازت نہیں دی چُنانچِہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: اگر بدن موٹے اور ڈِھیلے کپڑوں سے ڈَھکا ہے ، نہ ایسے باریک (کپڑے ) کہ بدن یا بالوں کی رَنگت چمکے نہ ایسے تنگ (کپڑے)کہ بدن کی حالت (یعنی کسی عضو کی گولائی یا اُبھار وغیرہ) دِکھائیں اور جانا تنہائی میں نہ ہو اور پیر جَوان نہ ہو ، غَرَض کوئی فتنہ نہ فی الحال ہو نہ (آئندہ کے لیے) اس کا اَندیشہ ہو تو علمِ دِین (اور) اُمُورِ راہِ خُدا سیکھنے کے لئے جانے اور بُلانے میں(کوئی)حَرَج نہیں ۔ (فتاویٰ رضويہ ، ۲۲/۲۴۰) اس سے وہ لوگ دَرسِ عِبرت حاصِل کریں جو بےپردگی کے ماحول میں کوئی فن یا کام سیکھتے یا سکھاتے ہیں
پَردے میں سُنّی عالمِ دِین کا بیان سُننا جائز ہے
ہاں پَردے کی حالت میں سُنی عالمِ دِین کا بیان سننا جائز ہے کہ بیان سننے اور پڑھنے میں بہت فرق ہے ۔ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّتفرماتے ہيں: عورَتیں نَمازِ مسجِد سے ممنوع ہيں اور واعِظ ( یعنی وعظ کہنے والا)يا مِيلاد خواں اگر عالِم سُنّی صحيحُ العقیدہ ہو اور اُس کا وَعظ و بيان صحيح و مُطابِقِ شَرع ہو اور (عورت کے آنے ) جانے ميں پوری اِحتياط اور کامِل پَردہ ہو اور کوئی اِحتمالِ فتنہ( یعنی فتنے کا خوف) نہ ہو اور مجلسِ رِجال (یعنی مَردوں کی بيٹھک ) سے دُور (جہاں ایک دوسرے پر نظر نہ پڑتی ہو) ان کی نشست ہو تو حَرَج نہيں ۔ (فتاویٰ رضويہ ، ۲۲/۲۳۹)
بےپَردہ ماحول کے نُقصانات
سُوال: غیر محارم کے آپس میں بے پَردہ اور دوستانہ ماحول رکھنے کے کیا نُقصانات ہیں؟
جواب: غیر محارم کا آپس میں بے پَردہ اور دوستانہ ماحول رکھنا سَراسر ناجائز و حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے ۔ ان بے پردگیوں اوربے تکلفیوں کے دُنیوی و اُخرَوی نُقصانات ہر غیرت مند مسلمان باخوبی سمجھ سکتا ہے ۔ اِسی مخلوط ماحول کے کرشمے ہیں کہ آج نوجوان لڑکیوں کے گھروں سے بھاگنے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں جس سے والدین اور پورے خاندان کی بَدنامی ہوتی ہے ۔ اس کے مجرم خود والدین بھی ہوتے ہیں کہ اگر وہ اپنی اولاد کی شریعت کے مُطابق تعلیم و تَربیت کا اِہتمام کرتے تو آج انہیں رُسوائی کے دِن نہ دیکھنے پڑتے ۔ شَریعت ِ مطہرہ نے عورتوں کو گھروں میں ٹھہرنے ، باپَردہ رہنے اور غیر مَرد سے بِلاضَرورت گفتگو کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے ، اگر ضَرورتاً غیر مَرد سے بات کرنی بھی پڑے تب بھی انہیں لہجے میں نزاکت اور بات میں نَرمی پیدا کرنے سے منع کیا ہے چنانچہ اِرشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ(۳۲) وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ۲۲ ، الاحزاب: ۳۲-۳۳)
ترجمۂ کنزالایمان: اگر اللّٰہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نَرمی نہ کرو کہ دِل کا روگی(مریض) کچھ لالچ کرے ، ہاں اچھی بات کہو اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پَردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پَردگی ۔
اِس آیتِ مُبارَکہ کے تحت صَدرُ الاَفاضِل علَّامہ سَیِّد محمد نعیمُ الدِّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں: اِس میں تعلیمِ آداب ہے کہ اگر بہ ضرورت غیر مَرد سے پسِ پَردہ گفتگو کرنی پڑے تو قصد کرو کہ لہجہ میں نَزاکت نہ آنے پائے اور بات میں لوچ (یعنی نَرمی) نہ ہو ، بات نہایت سادگی سے کی جائے ، عِفَّت مآب خواتین کے لئے یہی شایاں ہے ۔ دِین و اِسلام کی اور نیکی کی تعلیم اور پند و نصیحت کی اگر ضَرورت پیش آئے (تو بات کرو) مگر بےلوچ لہجہ سے ۔ اگلی جاہلیت سے مُراد قبلِ اِسلام کا زمانہ ہے اس زمانہ میں عورتیں اِتراتی نکلتی تھیں ، اپنی زینت و مَحاسِن کا اِظہار کرتی تھیں کہ غیر مَرد دیکھیں ، لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اَعضاء اچھی طرح نہ ڈھکیں اور پچھلی جاہلیت سے اَخیرِ زمانہ مُراد ہے جس میں لوگوں کے اَفعال پہلوں کی مِثل ہو جائیں گے ۔
عورتوں کے لیے چادر اور چار دِیواری کا حکم
سُوال: کیا چادر اور چار دِیواری عورتوں کی تَرقی میں رُکاوٹ کا سبب ہے؟
جواب: چادر اور چار دِیواری عورتوں کی تَرقی میں رُکاوٹ کا سبب نہیں بلکہ ان کے لیے دُنیا و آخرت کی تَرقی و کامیابی کا سبب ہے کیونکہ چادر(یعنی پَردہ کرنے) اور چار دِیواری (یعنی گھر میں رہنے) کا حکم اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دیا ہے جیسا کہ خُدائے رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے) وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ ((پ۲۲ ، الاحزاب: ۳۳) ترجمۂ کنزالایمان: ”اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پَردہ نہ رہو ۔ “ رسولِ کريم صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے ، جب وہ اپنے گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے اور عورت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر میں ہوتی ہے ۔
۔ (صحیح ابن خزیمة ، کتاب الامامة فی الصلاة ، باب اختیار صلاة المرأةِ فِی بيتها...الخ ، ۳/۹۳ ، حدیث: ۱۶۸۵ المکتب الاسلامی بیروت) یقیناً اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے اَحکامات کی بجا آوری میں ہی تَرقی اور دُنیا و آخرت کی کامیابی ہے ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی نافرمانی کر کے کوئی بظاہر دُنیا میں کتنی ہی ترقی کر لے بالآخر وہ ناکام و نامُراد ہی ہے کیونکہ دُنیا کی زندگی فانی اور دھوکے کا مال ہے ۔ حقیقی تَرقی و کامیابی تو یہ ہے کہ اِنسان اپنی زندگی شریعت کے اَحکام کے مُطابق گزارنے ، جہنم کی آگ سے خود كو بچانے اور جنَّت میں داخِل ہو جانے میں کامیاب ہو جائے جیسا کہ خُدائے رَحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۱۸۵) (پ۴ ، اٰل عمران: ۱۸۵)
ترجمۂ کنز الایمان: جو آگ سے بچا کر جنَّت میں داخِل کیا گیا وہ مُراد کو پہونچا اور دُنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عورت کا معنیٰ ہی چھپانے کی چیز ہے لہٰذا عورتوں کو بِلاضَرورت گھروں سے باہر نہ جانے دیا جائے اسی میں ان کی حفاظت اور عافیت ہے ۔ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اَحکامات اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکےمُقَدَّس فَرامین کی خِلاف ورزی کر کے دُنیا ترقی کر کے آگے بڑھتی ہے تو ہمیں پیچھے رہ جانا ہی منظور ہے ۔ ہم شَریعتِ مطہرہ کے اَحکامات پرعمل کر کے اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اپنے میٹھے میٹھےآقا ، مکی مَدَنی مصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پیچھے پیچھے سیدھے جنَّت میں چلے جائیں گے ۔
باغِ جنَّت میں محمد مسکراتے جائیں گے
پھول رَحمت کے جَھڑیں گے ہم اُٹھاتے جائیں گے
(09): ’’ پردے کے تعلق سے ۳۱ مدنی پھول ‘‘
مُریدَنی پیر صاحب کا ہاتھ نہیں چوم سکتی
{1} ہمارے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عورت کا ہاتھ، ہاتھ میں لئے بِغیرفَقَط زَبان سے بَیْعَت لیتے تھے۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۳ ص۴۴۶)
{2} عورت کا اپنے پِیر ومرشِد سے بھی اِسی طرح پردہ ہے جس طرح دیگر نامَحرموں سے ۔ عورت اپنے پِیر کا ہاتھ نہیں چُوم سکتی، اپنے سر پر ہاتھ نہ پِھروائے،پِیر صاحِب کے ہاتھ پاؤں بھی نہ دابے ۔
مرد و عورت مُصافحَہ نہیں کر سکتے
{3} مردو عورت آپَس میں ہاتھ نہیں ملاسکتے ۔
فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :’’تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل ٹھونک دی جاتی اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چُھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ۔‘‘(مُعْجَم کبیرج۲۰ص۲۱۱حدیث۴۸۶ )
{4}عورت اجنبی مَرْد کے جِسْم کے کسی بھی حصّے کو نہ چُھوئے جبکہ دونوں میں سے کوئی بھی جوان ہو اس کوشَہْوت ہوسکتی ہو۔اگرچِہ اس بات کا دونوں کو اطمینان ہو کہ شَہوَت پیدا نہیں ہوگی۔(عالمگیری ج۵ص۳۲۷،بہارِ شریعت ج۳ص۴۴۳)
مَرْد سے چُوڑیاں پہننا
{5} نامَحرم کے ہاتھ سے عورت کا چُوڑیاں پہننا گناہ ہے ۔ دونوں گنہگار ہیں۔
چھوٹے بچّے کا کون سا حصّہ چُھپائے
{6} بَہُت چھوٹے بچّے کے لیے عورت(یعنی چُھپانے کا عُضْو) نہیں اس کے بدن کے کسی حصّے کو چُھپانا فرض نہیں، پھر جب کچھ بڑا ہوگیا تو اس کے آگے اورپیچھے کا مقام چُھپانا ضَروری ہے ۔ دس برس سے بڑا ہوجائے تو اس کے لیے بالِغ کا ساحکم ہے ۔ ( رَدُّالْمُحتَارج۹ص۶۰۲،،بہارِ شریعت ج۳ص۴۴۲)
مَحارِم کے جِسْم کی طرف دیکھنے کے اَحکام
{7}مَرد اپنی مَحارِم (یعنی وہ خواتین جن سے رِشتے کے لحاظ سے ہمیشہ کے لیے نِکاح حرام ہو مَثَلاً والِدہ، بہن ، خالہ ، پھوپھی وغیرہ )کے سر ،چہرہ ، کان، کندھا ، بازو ، کلائی ، پنڈلی اورقدم کی طرف نظر کرسکتاہے جب کہ دونوں میں سے کسی کو شَہوَ ت کا اندیشہ نہ ہو ۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۳ص۴۴۴،۴۴۵)
{8}مَرْد کے لیے مَحارِم کے پیٹ ، کروٹ ، پیٹھ ، ران اورگُھٹنے کی طرف نظر کرنا جائز نہیں۔ (ایضاًص۴۴۵) (یہ حکم اس وقت ہے جب جسم کے ان حصوں پر کوئی کپڑا نہ ہو اور اگر یہ تمام اعضا موٹے کپڑے سے چھپے ہوئے ہوں تو وہاں نظر کرنے میں حرج نہیں)
{9} مَحارِ م کے جن اَعضا کو دیکھنا جائز ہے ان کو چُھونا بھی جائز ہے جبکہ دونوں میں سے کسی کو شَہوَت کا اندیشہ نہ ہو۔(بہارِ شریعت ج۳ص۴۴۵)
ماں کے پاؤں دبانا
{10}مرد اپنی ماں کے پاؤں دبا سکتاہے ۔ مگر ران اُس وَقْت دبا سکتاہے جب کہ کپڑے سے چُھپی ہوئی ہو ۔ ماں کی ران کو بھی بِلا حائل چُھونا جائزنہیں۔ (مُلَخَّص بہارِ شریعت ج۳ص۴۴۵)
ماں کی قدم بوسی کی فضیلت
{11} والِدہ کے قدم کو بوسہ بھی دے سکتاہے ۔ حدیثِ پاک میں ہے: ’’جس نے اپنی ماں کا پاؤں چُوما تو ایسا ہے جیسے جنَّت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا۔ ‘‘(اَلْمَبْسُوط لِلسَّرَخْسِی ج۵ص۱۵۶)
اِن رِشتے داروں سے پردہ ہے
{12} تایا زاد،چچا زاد ، ماموں زاد ، پھوپھی زاد ، خالہ زاد ، سالی اوربہنوئی ، بھابی اور دیور،جیٹھ ، چچی ، تائی ،مُمانی، خالو، پھوپھا ، لے پالک بچہ جس کو ایّامِ رَضاعت میں دودھ نہ پلایا ہو اوراب مردوعورت کے معاملا ت سمجھنے لگا ہومنہ بولے بھائی بہن ، منہ بولے ماں بیٹے،منہ بولے باپ بیٹی، پیر اورمُریدَنی الغرض جن کی آپس میں شادی جائز ہے ان کا آپس میں پردہ ہے ۔ ہاں ایسی بڑھیا جو نہایت ہی بدشکل ہوکہ جس کو دیکھنے سے بِالکل شَہوَت کا شائبہ نہ ہو اس سے مرد کا پردہ نہیں۔ اس کے علاوہ کسی عورت کو دیکھنے سے شَہوَت ہو یا نہ ہو مرد بلا اجازتِ شَرعی نہیں دیکھ سکتا ۔ جن سے ہمیشہ کے لیے نِکاح حرام ہے ان سے پردہ نہیں۔ ’’بہارِشریعت ‘‘ میں ہے کہ عورت کو شَہْوَت کا شُبہ بھی ہو تو اجنبی مَرد کی طرف ہر گز نظر نہ کرے۔(بہارِ شریعت ص ۴۴۳)
یاد رہے ! بچّے کو ( ہجری سَن کے حساب سے) دو سال کی عُمر تک دودھ پلایا جائے ۔ اس کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں مگر ڈھائی سال کی عُمر کے اندر اندر عورت اگر اپنا دودھ پلا دے تو حُرمت ِ نِکاح ثابت ہو جائےگی یعنی اب یہ رَضاعی بیٹا ہے اس سے پردہ نہیں ۔
ساس سُسَر سے پردہ؟
{13} حُرمَتِ مُصاہَرت کے سبب مرد کو اپنی ساس سے اور عورت کو اپنے سُسرسے پردے کے مُعامَلے میں رِعایت حاصِل ہوجاتی ہے۔ ہاں دونوں میں سے کوئی ایک اگر جوان ہے تو پردہ کرنا چاہئے یہی مناسب ہے۔ (حُر مَتِ مُصاہَرت کی تفصیلی معلومات کیلئے بہارِشریعت حصّہ 7 سے ’’محرمات کا بیان ‘‘مُلاحَظہ فرمالیجئے بلکہ نِکاح ،طلاق ، عدّت ،بچّوں کی پرورش وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصِل کرنے کیلئے شادی سے قبل ہی اور نہیں پڑھا تو شادی کے بعد ہی سہی بہارِ شریعت حصّہ 7اور8ضَرور ضَرور ضَرور پڑھ لیجئے۔)
عورَت کا چہرہ دیکھنا
{14} عورت کا چِہر ہ اگر چِہ عورَت نہیں مگر فتنے کے خوف کے سبب غیرمَحرَم کے سامنے مُنہ کھولنا مَنْع ہے ۔ اسی طرح اس کی طرف نظر کرنا غیرمَحرم کے لیے جائز نہیں اورچھُونا تو اوربھی زِیادہ مَنْع ہے ۔ (دُرِّمُختارج۲ص۹۷،بہارِ شریعت ج۱ص۴۸۴)
باریک پاجامہ مت پہنئے
{15}بعض لوگ باریک کپڑے کا پاجامہ پہنتے ہیں جس سے ران کی جِلد کا رنگ چمکتا ہے ،اسے پہن کرنَماز نہیں ہوتی ایسا پاجامہ بلا مقصدِ شرعی پہننا حرام ہے۔
دوسرے کے کُھلے ہوئے گھٹنے دیکھنا گناہ ہے
{16} بعض لوگ دوسروں کے سامنے گھٹنے بلکہ رانیں کھولے رہتے ہیں یہ حرام ہے ۔
(مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ص۴۸۱) ان کی کھلی ہوئی ران یا گُھٹنے کی طرف نظر کرنا بھی جائز نہیں ۔ لہٰذا نیکر
پہن کر کھیلنے اورورزِش کرنے اورایسوں کو دیکھنے سے بچنا ضَروری ہے ۔
تنہائی میں بے ضَرورت ستر کھولنا کیسا؟
{17} سَتْرِ عورت ہر حال میں واجِب ہے بِغیر کسی صحیح وجہ کے تنہائی میں کھولنا بھی جائز نہیں لوگوں کے سامنے اورنمَاز میں تو سَتْر بِالاِجْماع فرض ہے ۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۲ص۹۳ ،بہارِ شریعت ج۱ص۴۷۹ مُلَخَّصاً)
اِستنجا کے وَقْت سَتْر کب کھولے؟
{18} اِستنجا کرتے وَقْت جب زمین سے قریب ہوجائیں اُس وَقْت سَتْر کھولنا چاہئے اورضَرورت سے زِیادہ حصّہ نہ کھولیں۔( ماخوذ ازبہارِ شریعت ج۱ص۴۰۹) ا گر پاجامے میں زِپ(zip)ڈلوالی جائے تو پیشاب کرنے میں بے حدسَہُولت ہوسکتی ہے کہ اس طرح بہت کم سَتْر کھُولنے کی ضَرورت پڑے گی۔ مگر پانی سے اِستنجا کرنے میں سخت اِحتِیاط کرنی ہوگی ۔زِپ باریک والی سب سے زِیادہ کامیاب ہے ۔
{19} مرددوسرے مرد کے ناف سے لے کر گھٹنے تک کا کوئی حصہ نہیں دیکھ سکتا اورعورَت بھی دوسری عورت کے ناف سے گھٹنے تک کا کوئی حصّہ نہیں دیکھ سکتی۔ عورت عورت کے باقی اَعضاء پر نظر کرسکتی ہے جب کہ شَہوَت کا اندیشہ نہ ہو
پردے کے بال دوسروں کی نظر سے بچائیے
{20} موئے زیر ناف مونڈ کر ایسی جگہ پھینکنا دُرُست نہیں جہاں دوسرے کی نظر پڑے۔
عورَت کی کنگھی کے بال
{21} عورَتوں کے لیے لازِم ہے کہ کنگھا کرنے یا سر دھونے میں جو بال نکلیں انہیں کہیں چھپادیں کہ غیر مَرد کی ان پر نظر نہ پڑے۔ (ایضاًص۴۴۹)
{22} حیض کا لتّا ایسی جگہ ہر گز نہ پھینکیں جہاں دوسروں کی نظر پڑے۔
عورت کے پاؤں کی جھانجھن کی آواز
{23} حدیث شریف میں ہے :’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس قوم کی دُعا نہیں قَبول فرماتا جن کی عورَتیں جھانجھن پہنتی ہوں ۔ ‘‘ (التفسیرات الاحمدیہ، ص۵۶۵) حدیثِ پاک میں جس باجے دار جھانجھن پہننے کی ممانعت کی گئی اس سے مراد گھنگرو والا زیور ہے۔ اس سے سمجھناچاہئے کہ جب زیور کی آوازعَدَم قَبولِ دُعا (یعنی دعاقَبول نہ ہونے ) کا سبب ہے تو خاص عورَت کی(اپنی) آواز(کا بِلااجازتِ شَرعی غیر مردوں تک پہنچنا) اور اسکی بے پردگی کیسی مُوجِبِ غَضَبِ الٰہی ہوگی،پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بجنے والے زیور کے استِعمال کےمُتَعَلِّق فرماتے ہیں : بجنے والا زیور عورت کے لئے اس حالت میں جائز ہے کہ نامحرموںمَثَلاً خالہ ماموں چچا پھوپھی کے بیٹوں ،جیٹھ ، دَیور ،بہنوئی کے سامنے نہ آتی ہو نہ اس کے زیور کی جھنکار (یعنی بجنے کی آواز) نا محرم تک پہنچے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے: وَ لَا یُبْدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ
(تَرجَمۂ کنزالایمان:اور اپنا سنگارظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر۔۔۔اِلخ) (پ ۱۸ ، النور : ۳۱ ) اور فرماتا ہے : وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ
(تَرجَمۂ کنزالایمان:زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار ) (پ۱۸، النور :۳۱ )فائدہ: یہ آیتِ کریمہ جس طرح نامَحرم کو گہنے (یعنی زیور)کی آواز پہنچنا مَنْع فرماتی ہے یونہی جب آواز نہ پہنچے(تو) اس کا پہننا عورَتوں کے لئے جائز بتاتی ہے کہ دھمک کر پاؤں رکھنے کو منع فرمایا نہ کہ پہننے کو۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۲ ص۱۲۸ مُلَخَّصاً )
اس سے وہ اسلامی بہنیں در سِ عبرت حاصل کریں جو خریداری ،محلّہ داری وغیرہ میں غیر مردوں سے بے تکلُّفی کے ساتھ گُفْتْگُو (گُفْت ۔ گُو)کرتی ہیں۔ انہیں تو گھر کی چار دیواری میں بھی آہستہ آواز نکالنی چاہیے تاکہ دروازے کے باہَر والے لوگ یا پڑوسی و غیرہ آواز نہ سننے پائیں ۔ بچّوں پر بھی گرجتے برستے وقت یہی احتیاط رکھیں ۔
عورت پوری آستین کا کرتا پہنے
{24} عورت پردے سے ہاتھ بڑھا کر غیر مرد کو اس طرح کوئی چیز نہ دے کہ اس کی کلائی (ہتھیلی اورکہنی کے درمیان کا حصہ کلائی کہلاتا ہے ) ننگی ہو۔ (آج کل عموماً ایسا ہی ہوتاہے ۔ اگر مرد نے قصداً کلائی کی طرف نظر کی تو وہ بھی گنہگار ہے ۔ لہٰذا ایسے موقع پر کلائی کسی موٹے کپڑے سے چھپاناضروری ہے)اسلامی بہنیں پوری آستین کا کرتا پہنیں نیزدستانے اورجرابیں بھی استعمال فرمائیں ۔
شَرعی پردہ والی کو دیکھنا کیسا؟
{25} بیان کردہ شَرعی پردے میں ملبوس خاتون کو اگر مردبِلا شَہوَت دیکھے تو مُضایَقہ نہیں کہ یہاں عورت کو دیکھنا نہیں ہو ابلکہ یہ ان کپڑوںکو دیکھنا ہوا۔ ہاں اگر چُست کپڑے پہنے ہوں کہ بدن کا نقشہ کھنچ جاتاہو مَثَلاً چُست پاجامے میں پِنڈلی اورران وغیرہ کی ہَیئت نظر آتی ہو تو اس صور ت میں نظر کرنا جائز نہیں ۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۳ص۴۴۸)
عورت کے بالوں کو دیکھنا حرام ہے
{26} اگر عورت نے کسی باریک کپڑے کا دوپٹّا پہنا ہے جس سے بال یا بالوں کی سیاہی کان یا گردن نظر آتی ہو تو اس کی طرف نظر کرنا حرام ہے ۔ (ایضاً) اس طرح کے باریک دوپٹّے میں عورت کی نَماز بھی نہیں ہوتی۔
{27}آج کل مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ عورَتیں کھلے بالوں کے ساتھ باہَر نکلتیں کلائیاں اوربال کھولے گاڑیاں چلاتیں اوراسکوٹر کے پیچھے اپنی چُٹیا لہراتی ہوئی بیٹھتی ہیں ۔ ان کے بالوں یا کلائیوں پراچانک پہلی نظر مُعاف ہے ۔ جب کہ فوراًپھیرلی اورقَصْداً اس طرف دیکھنا یا نظر نہ ہٹانا حرام ہے۔
حکایت
مفتی دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مفتی محمد فاروق عطّاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِینے اِس خوف سے اپنی اسکوٹر بیچ ڈالی کہ راستے میں بے پردہ عورَتیں بکثرت ہوتی ہیں ،ڈرائیونگ میں نگاہوں کی حِفاظت ممکن نہیں کیوں کہ نہ دیکھے تو حادِثے کا خطرہ اور دیکھنا تو گوارا نہیں ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدْقے ہماری بے حِساب مغفِرت ہو۔
{28}مرد اَجنَبِیَّہ عورت کے کسی بھی حصّے کو بِلا اجازتِ شَرعی نہ دیکھے ۔
مرد سے عورت کب عِلاج کرواسکتی ہے؟
{29} اگر کوئی طبِیبہ نہ ملے توبامْرِ مجبوری عورت طبیب کو حسبِ ضَرورت اپنے جسم کا بیماری و الا حصّہ دکھا سکتی ہے اوراب طبیب ضَرورتاًچھُو بھی سکتاہے ۔ ضَرورت سے زِیادہ جسم ہر گز نہ کھولے۔
غیر عورت کے ساتھ تنہائی
{30} غیر مرد اورغَیر عورت کا ایک مکان میں تنہا ہونا حرام ہے ۔ ہاں ایسی بدصورت بڑھیا کہ جو شَہْوَت کے قابل نہ ہو اس کو دیکھنا اور اس کے ساتھ تنہائی جائز ہے ۔
اَمْرد کے ساتھ تنہائی
{31}مرد کا ’’اَمْرَد‘‘کو شَہْوَت کی نظر سے دیکھنا حرام ہے ۔شَہْوَت آتی ہو تو اس کے ساتھ ا یک مکان میں تنہائی ناجائز ہے ۔ بوسہ لینے یا چپٹا لینے کی خواہش پیدا ہونا شَہْوَت کی علامات میں سے ہے۔
(10): ’’ لڑکوں کے لیے احتیاط کے مدنی پھول ‘‘
{۱} داڑھی والا ہو یا بے رِیش بلکہ جانور کو دیکھ کر بھی شَہوَت آتی ہو تو اُس کی طرف دیکھنا حرام ہے
{۲} مَویشیوں ، جانوروں اور پَرِندوں کی شَرم گاہوں اور ان کی جُفْتیوں یعنی ’’مِلاپوں ‘‘ بلکہ مکّھیوں اور کیڑے مکوڑوں کے ’’ مِلَن‘‘ کے مناظِر بھی گندی لذّتوں کے ساتھ دیکھنا ناجائز و گناہ ہے ، ایسے مَواقِع پر فوراً نظر ہٹا لے بلکہ جُوں ہی اِس کے ’’ آثار‘‘ محسوس ہوں فوراً وہاں سے ہٹ جائے
{۳}جو لوگ مویشی یا پرندے اور مرغیاں بیچتے یا پالتے ہیں اُن کو اس حوالے سے بَہُت محتاط رہنے کی ضَرورت ہے
{۴} اگر شَہوَت آتی ہو تو نَماز میں بھی صَف کے اندر اَ مرَد کے برابر نہ کھڑے ہوں {۵} دَرس و اجتِماع وغیرہ میں بھی اَمرَد کے قریب نہ بیٹھئے
{۶} اجتِماع یا نَماز کی صَف میں اَ مرَد قریب آجائے اور ابھی آپ نے نَماز نہ شروع کی ہو اور اندیشۂ شَہوَت ہو تو اُس کو نہ ہٹایئے ، آپ خود وہاں سے ہٹ جایئے
{۷} اَ مرَدکو دیکھنے سے جسے شَہوَت آتی ہو اُسے اَ مرَدسے نظر کی حفاظت واجِب ہے اور ایسی جگہ سے بھی بچنا چاہئے جہاں اَ مرَدہوتے ہوں
{۸} سائیکل پر آگے یا پیچھے کسی غیر اَ مرَد کو بھی اس طرح بٹھانا کہ اس کی ران وغیرہ سے گُھٹنا ٹکرائے مناسِب نہیں
{۹}شَہوَت کے باوُجُود دوسرے کو آگے یا پیچھے اسکوٹر یا سائیکل پر بٹھانا حرام ہے
{۱۰}احتیاط اِسی میں ہے کہ ڈَبل سُواری کے دوران موٹی چادروغیرہ اِس طرح بیچ میں حائل کر دی جائے کہ دو۲نوں کے جسم کا ہر حصّہ ایک دوسرے سے اِس طرح جدا رہے کہ ایک کے بدن کی گرمی دوسرے کو نہ پہنچے ، اس کے باوُجُود اگر کسی کوشَہوَت آئے تو فوراً اسکوٹر روک کر جُدا ہو جائے ورنہ گنہگار ہوگا
{۱۱} اسکوٹر پر تین سُواریوں کا چپک کر بیٹھنا سخت ناپسند یدہ فعل ہے نیز حادِثے کا خطرہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں قانوناً بھی جُرم ہے
{۱۲} ایسی بِھیڑ یا قِطار میں قَصداً شامل ہونے سے بچیں جس میں آدَمی ایک دوسرے کے پیچھے چپکتے ہیں اور اگرشَہوَت آتی ہو تو حرام ہے ۔ یاد رکھئے ! اپنے آپ کو جو شیطان سے محفوظ سمجھے ، بس سمجھو اُس پر شیطان کامیاب ہوچُکا ۔
(11): ’’ مردوں کے لیے احتیاطیں ‘‘
لڑکے کے لئے عافیت اِسی میں ہے کہ اپنے سے بڑی عمر والے سے دُور رہے ۔ بَہُت نازُک دُور ہے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّآج کل بعض اوقات’’ باپ بیٹی‘‘ نیز چھوٹے اور بڑے سگے بھائیوں کے ’’ آپَسی گندے مُعامَلات‘‘ کی لرزہ خیز خبریں بھی سُنی جاتی ہیں ٭یقینا ہر بڑا فرد چھوٹے فردکے حق میں ’’ بُرا‘‘ نہیں ہوتا، تاہم آپ کسی ’’بڑے ‘‘ سے دوستی گانٹھ کر اُس کو اور خود کو بربادی کے خطرے میں مت ڈالئی٭بالِغ اَمرَ دبھی آپَس میں بے تکلُّف ہو کر ایک دوسرے کو دَبوچنے ، اُٹھانے ، پٹخنے ، گلے میں ہاتھ ڈال کر چپٹانے وغیرہ حرکتیں کر کے شیطان کا کِھلونا نہ بنیں ۔ شَہوَت کے ساتھ اَ مرَد کا بھی اِس طرح کی حَرَکتیں کرنا حرام ہی٭بِلامَصلَحتِ شَرعی اپنے سے بڑوں کے ساتھ’’ بَہُت زیادہ ملنساری ‘‘ کا مُظاہَرہ نہ فرمائیں ، ورنہ’’ آزمائش ‘‘میں پڑسکتے ہیں ٭ اگر کسی ’’بڑے ‘‘ کو خواہ وہ استاذ ہی کیوں نہ ہو اپنے اندر غیر ضَروری دلچسپی لیتا، بار بار تحفے دیتا، بے جا تعریفیں کرتا اور اِسی ضِمن میں آپ کو ’’چھوٹا بھائی‘‘ کہتا پائیں توخوب محتاط ہو جائیے ٭اَمرَد کو(یعنی 22سال سے چھوٹے کو اور اگر 25سال یا اِس زائد عمر کے باوُجُوداَ مرَدِ حسین ہو تو اُس کو بھی )مَدَنی قافِلے میں سفر کی اِجازت نہیں ، اگر کوئی بڑا اسلامی بھائی اپنے ساتھ سفر کرنے کے لئے اِصرار کرے اور سفر کا خَرچ بھی پیش کرے تو مَدَنی مرکز کے حکمِ مُمانَعَت کی طرف اُس کی توجُّہ دلادے پھر بھی اگر مُصِرہو(یعنی اصرار کرے ) تو اُس’’ بڑے ‘‘سے خوب محتاط ہو جائیے ٭ بڑے اسلامی بھائیوں سے بے شک الگ تھلگ رہئے ، مگر خواہ مخواہ کسی پر بد گُمانی کرکے ، غیبتوں ، تہمتوں اور مَدَنی ماحول کو خراب کرنے والی حرکتوں میں پڑ کر اپنی آخِرت داؤ پر نہ لگائیے ٭عید کے دن بھی لوگوں سے گلے ملنے سے بچئے ، مگر کسی کو جِھڑکئے نہیں ۔ حکمتِ عملی کے ساتھ کَترا کر آگے پیچھے ہوجائیے ، اَمرَد بھی ایک دوسرے سے گلے نہ ملیں ٭والِدَین اور ناناداداوغیرہ خاندان کے بُزُرگوں کے علاوہ کسی کے سَر یا پاؤں وغیرہ مت دَبائیں نیز کسی اسلامی بھائی کو اپنا سر یا پاؤں دبانے دیں نہ ہاتھ چُومنے دیں ٭کوئی پرہیزگار، خواہ رشتے دار بلکہ اُستاذہی کیوں نہ ہو احتیاط اِسی میں ہے کہ ہر بڑے کے ساتھ بلکہ اَمرَدبھی اَمرَدکے ساتھ تنہائی سے بچے ۔ ہاں والِد، سگے بھائی وغیرہ کے ساتھ کوئی مانِع نہ ہو توتنہائی میں مُضایَقہ نہیں ٭مدرَسے وغیرہ میں کئی افراد جب ایک کمرے میں سوئیں تو اَمرَد وغیر اَمرَدسبھی کو چاہئے کہ پاجامے کے اوپر تہبندباندھ لیں نہ ہوتو کوئی چادر لپیٹ کر پردے میں پردہ کرکے ، ہر دو کے درمِیان مُناسِب فاصِلہ رکھیں اور ممکن ہو توبیچ میں کوئی تکیہ یابیگ وغیرہ بڑی چیز آڑ بنا لیں ۔ گھر میں بلکہ اکیلے میں بھی پردے میں پردہ کرکے سونے کی عادت بنائیں ، مَدَنی قافلے اور اجتِماع وغیرہ میں بھی سوتے وَقت اِسی طرح کریں ٭جب بھی بیٹھیں پردے میں پردہ لازِمی کیجئے ٭بنے سنورے رہنے سے اِجتِناب فرمایئے ۔ اِسی رسالے کے صَفحہ 25تا26پردی ہوئی امام اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی حکایت کی روشنی میں اَمرَدکا حَلق کرواتے (یعنی سر مُنڈواتے )رَہنا بھی مناسِب ہے اور اگر سنّت کی نیّت سے زلفیں رکھنی ہوں تو آدھے کان سے زائد نہ رکھے ٭ گوٹا کَناری والے جاذبِ نظر بڑے عمامے کے بجائے سستے کپڑے کا سادہ سا چھوٹا عمامہ شریف اور وہ بھی خوبصورت انداز میں باندھنے کے بجائے قدرے ڈِھیلا سا باندھئے ٭ عمامہ شریف پر نقشِ نعلِ پاک وغیرہ نہ لگایئے کہ اِس طرح لوگوں کی نگاہیں اٹھتیں اور بعضوں کے لئے ’’ بدنِگاہی ‘‘ کا سامان ہوتا ہے ٭ چہرے پر Cream یا پاؤڈرہرگز ہرگز مت لگایئے ٭ ضَرورت ہو تو حتَّی الامکان سستے والا سادہ ساعینک استعمال کیجئے ، دھات کی خوبصورت فریم لگا کر دوسروں کیلئے بدنگاہی کے گناہ کا سبب مت بنئے ٭ بدبو سے بچنا ہی چاہئے ، لہٰذاعِطربے شک لگایئے مگر وہ کہ جس کی خوشبو نہ پھیلے ٭ اپنے لباس و انداز میں ہر اُس مُباح چیز (یعنی جائز چیز جس کا کرنا ثواب ہو نہ گناہ مَثَلاً اِستری کئے ہوئے کپڑے وغیرہ) سے بھی بچنے کی کوشش فرمایئے جس سے لوگ مُتَوَجِّہہو کر مَعَاذَ اللہ بدنگاہی کے گناہ میں پڑسکتے ہوں ۔ (امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے اَمرَد شاگرد کیلئے سر منڈوانے اور پُرانا لباس پہنانے کا حُکم فرمایا اسے خوب ذہن میں رکھئے ) مَدَنی التجا : والِدَین اور اساتِذہ وغیرہ کو بھی چاہئے کہ مذکورہ مَدَنی پھولوں کی روشنی میں اَمرَدوں کوہر طرح کی ’’ ٹِپ ٹاپ ‘‘ سے بچنے کا ذِہن دیں ۔(قومِ لوط کی تباہ کاریاں ص۲۸ تا ۳۱)
(12): ’’ نگاہ کے تعلق سے مدنی پھول ‘‘
نظر پھیر لو
(1)حضرتِ سیِّدُنا جَریر بن عبدُ اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں:میں نے سرکارِ دو عالم،نُورِ مُجَسَّم،شاہِ بنی آدم،رسولِ مُحتَشَم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے مُتَعلِّق دریافت کیا:تو ارشاد فرمایا:اپنی نگاہ پھیر لو۔ (صَحِیح مُسلِم ص ۱۱۹۰ حدیث ۲۱۵۹)
جان بوجھ کرنظر مت ڈالو
(2) سرکارِ مدینۂ منوَّرہ،سردارِ مکّۂ مکرَّمہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرتِ علیُّ المُرتَضٰی شیرِخدا کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم سے فرمایا:ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ کرو(یعنی اگر اچانک بِلا قصدکسی عورت پر نظر پڑی تو فورًا نظر ہٹا لے اور دوبارہ نظر نہ کرے)کہ پہلی نظر جائز ہے اور دوسری نظر جائز نہیں۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج ۲ ص ۳۵۸ حدیث ۲۱۴۹ )
نظر کی حفاظت کی فضیلت
(3)تاجدارِ مدینہ،قرارِ قلب وسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمانِ فرحت نشان ہے:جو مسلمان کسی عورت کی خوبیوں کی طرف پہلی بار نظر کرے(یعنی بے خیالی میں نظر پڑ جائے )پھر اپنی آنکھ نیچی کرلے اللہ عزوجل اُسے ایسی عبادت عطا فرمائے گاجس کی وہ لذَّت پائے گا۔
ابلیس کا زہریلا تیر
(4)اللہ کے مَحبوب،دانائے غُیُوب،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمانِ حَلاوَت نشان ہے کہ حدیثِ قُدسی(یعنی فرمانِ خدائے رحمن عزوجل )ہے:نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک زَہر میں بُجھاہواتِیر ہے پَس جو شخص میرے خوف سے اِسے ترک کر دے تو میں اُسے ایسا ایمان عطا کروں گاجس کی حَلاوت(یعنی مٹھاس )وہ اپنے دل میں پائے گا۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیْرلِلطَّبَرانِی ج۱۰ص۱۷۳حدیث۱۰۳۶۲)
عورت کی چادر بھی مت دیکھوحضرتِ سیِّدُنا عَلاء بن زِیادعلیہ رحمۃ اللہ الجواد فرماتے ہیں:اپنی نظر کو عورت کی چادر پربھی نہ ڈالو کیونکہ نظر دل میں شَہوت پیدا کرتی ہے۔(حِلیۃُ الاولیاء ج۲ ص ۲۷۷ )
گفتگو میں نگاہ کہاں ہو؟سُوال:کیا گفتگو کرتے ہوئے نظر نیچی رکھنی ضَروری ہے؟ جواب:اِس کی صورَتیں ہیں مَثَلًا مَرد کا مُخاطَب(یعنی جس سے بات کر رہے ہیں وہ) اَمْرَد ہو اور اُس کو دیکھنے سے شَہوت آتی ہو(یا اجازتِ شَرعی سے مردکسی اَجنَبِیّہ سے یا عورت کسی اجنبی مَرد سے بات کر رہی ہو )تو نظراِس طرح نیچی رکھ کر گفتگو کر ے کہ اُس کے چِہرے بلکہ بدن کے کسی عُضو حتّٰی کہ لباس پر بھی نہ پڑے۔اگر کوئی مانعِ شَرعی(یعنی شرعی رُکاوٹ) نہ ہو تو مُخاطَب(یعنی جس سے بات کررہے ہیں اُس)کے چِہرے کی طرف دیکھ کر بھی گفتگو کرنے میں شَرعًاکوئی حَرَج نہیں۔اگر نگاہوں کی حفاظت کی عادت بنانے کی نیّت سے ہر ایک سے نیچی نظر کئے بات کرنے کا معمول بنائے تو بَہُت ہی اچّھی بات ہے کیوں کہ مُشَاہَدَہ یِہی ہے کہ فی زمانہ جس کی نیچی نگاہیں رکھ کر گفتگو کرنے کی عادت نہیں ہوتی اُسے جب اَمرد یا اَجْنَبِیَّہ سے بات کرنے کی نوبت آتی ہے اُس وَقت نیچی نگاہیں رکھنا اُس کیلئے سخت دُشوار ہوتا ہے۔ (نیکی کی دعوت۳۱۶ تا۳۱۷)
نگاہِ مصطَفٰے کی ادائیںسُوال:سرکارِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نظر فرمانے کے مختلف انداز بتا دیجئے۔
جواب:(۱)کسی کے چِہرے پر نظریں نہ گاڑتے تھے(۲)کسی چیز کی طرف نہ دیکھنے کی حالت میں نگاہیں نیچی رکھتے (۳)آپ کی نظریں آسمان کی نِسبت زمین کی طرف اکثر رہتی تھیں۔مُراد یہ ہے کہ اکثر خاموشی کے وقت مبارَک نگاہیں جھکی ہوتیں(۴)اکثر گوشۂ چشم(یعنی آنکھوں کے وہ کنارے جو کنپٹّی سے ملے ہوتے ہیں )سے دیکھتے۔مطلب یہ ہے کہ حد دَرَجہ شَرم وحیا کی وجہ سے پوری آنکھ بھر کر نہ دیکھتے تھے(۵)جب کسی طرف توجُّہ فرماتے تو پوری مُتَوَجِّہ ہوتے،یعنی نظرچُراتے نہیں تھے اور بعض نے یہ فرمایاکہ صرف گردن پھیرکر کسی کی طرف مُتَوَجِّہ نہ ہوتے بلکہ پورے بدن مبارَک سے پھر کر مُتَوَجِّہ ہوتے۔ (مُلَخَّص ازجمع الوسائل فی شرح الشمائل للقاری ص۵۲،۵۳،احیاء العلوم ج۲ص۴۴۲)
جس طرف اُٹھ گئی دم میں دم آ گیا
اُس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام
شرحِ کلامِ رضا ۱؎ :میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن اِس شعر میں فرماتے ہیں:ہمارے پیار ے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی نگاہِ کرم دنیا و آخِرت میں جس طرف اُٹھی مُردہ جسموں میں جان اور روحوں میں تازَگی آ گئی،ہمارے مکّی مَدَنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی رَحمتوں اور عنایتوں بھری پاکیزہ نظر پر لاکھوں سلام ہوں۔اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن کے شِعر پر حضرت مولانا اختر الحامدی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے کیا خوب تضمین(تَض۔مِین)باندھی ہے: ؎
پڑ گئی جس پہ محشر میں بخشا گیا دیکھا جس سَمت ابرِ کرم چھا گیا
رُخ جدھر ہو گیا زندَگی پا گیا جس طرف اُٹھ گئی دم میں دم آ گیا
اُس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد