’’ اللہ پاک سے محبّت ودعا، مکّے، مدینے اور جنّت کے مدنی پھول‘‘
(01): ’’ اللہ پاک سے محبت کے مدنی پھول ‘‘
(1) اللہ تعالیٰ قِیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں جو میرے جلال کی وجہ سے آپس میں مَحَبَّت رکھتے تھے ،آج میں اُن کو اپنے سائے میں رکھوں گا، آج میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہی (2) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جو لوگ میری وجہ سے آپَس میں مَحَبَّت ر کھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور آپس میں ملتے جُلتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں اُن سے میری مَحَبَّت واجِب ہوگئ (3) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو لوگ میرے جلال کی وجہ سے آپَس میں مَحَبَّت رکھتے ہیں اُن کیلئے نُور کے مِنبر ہو نگے ۔ انبیاء و شہداء اُن پر غِبطہ( یعنی رشک ) کریں گے(4)دو شخصوں نےاللہ کے لئے باہم مَحَبَّت کی اور ایک مشرِق میں ہے دوسرا مغرِب میں قِیامت کے دن اللہ تعالیٰ دونوں کو جمع کریگا اور فرمائیگا یہی وہ ہے جس سے تو نے میرے لیے مَحَبَّت کی تھی ( 5 ) جنّت میں یاقوت کے سُتُون ہیں اُن پر زَبَرجَد کے بالا خانے ہیں،ان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، وہ ایسے روشن ہیں جیسے چمکدار ستارے۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ان میں کون رہے گا؟ فرمایا: وہ لوگ جو اللہ کے لئے آپَس میں مَحَبَّت رکھتے ہیں، ایک جگہ بیٹھتے ہیں ،آپس میں ملتے ہیں (6)اللہ کیلئے مَحَبَّت رکھنے والے عرش کے گِرد یا قوت کی کرسی پر ہوں گے (7) جو کسی سےاللہ کے لیے مَحَبَّت رکھےاللہ کے لیے دشمنی رکھے اوراللہ کے لیے دے اوراللہ کے لیے منع کرے اُ س نے اپنا ایمان کامِل کر لیا (8) دو شخص جب اللہ(عزوجل) کے لیے باہم مَحَبَّت رکھتے ہیں، ان کے درمِیان میں جُدائی اُس وَقت ہوتی ہے کہ ان میں سے ایک نے کوئی گناہ کیا۔یعنی اللہ(عزوجل ) کے لیے جومَحَبَّت ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اگر ایک نے گناہ کیا تو دوسرا اس سے جدا ہو جائے۔ (تفصیلی معلومات کیلئے پڑھئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت حصّہ16 صَفْحَہ 217 تا 222 )
(02): ’’ دعا کے فوائد اور مدنی پھول ‘‘
دُعا کے تین فوائد:
سرورِ معصوم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت ہے :دُعا بندے کی ،تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی: {۱}یا اُس کا گناہ بخشا جاتا ہے۔یا {۲}دنیا میں اُسے فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔یا {۳} اُس کے لئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ آخرت میں اپنی دُعاؤں کا ثواب دیکھے گا جو دُنیا میں مستجاب (یعنی مقبول ) نہ ہوئی تھیں تمنا کرے گا:کاش !دُنیا میں میری کوئی دُعا قبول نہ ہوتی اور سب یہیں (یعنی آخرت ) کے واسطے جمع رہتیں ۔ (اَلْمُستَدرَک ج۲ص۱۶۵حدیث۱۸۶۲،احسنُ الوعا ء ص۵۵)
دُعا میں پانچ سعادتیں :
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے!دُعا رائگاں توجاتی ہی نہیں ، اِس کا دُنیا میں اگر اثر ظاہر نہ بھی ہو تب بھی آخرت میں اَجر و ثواب مل ہی جائے گا لہٰذا دُعا میں سستی کرنا مناسب نہیں ۔
’’یاعَفُوّ‘‘ کے پانچ حروف کی نسبت سے 5مَدَنی پھول
{۱} پہلا فائدہ یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کی پیروی ہوتی ہے کہ اُ س کا حکم ہے مجھ سے دُعا مانگا کرو۔چنانچہ پارہ 24 سُوْرَۃُ الْمُؤمِنُوْنآیت 60 میں ارشاد ہے:
اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ- ترجَمۂ کنزالایمان: مجھ سے دُعا کرو میں قَبول کروں گا۔
{۲} دُعا مانگنا سُنَّت ہے کہ ہمارے پیارے پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکثر اَوقات دُعا مانگتے۔ لہٰذا دُعا مانگنے میں اِتّباعِ سُنَّت کا بھی شرف حاصل ہوگا۔
{۳} دُعا مانگنے میں اِطاعت رَسُول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دُعا کی اپنے غلاموں کو تاکِید فرماتے رہتے ۔
{۴} دُعا مانگنے والا عابدوں کے زُمرے (یعنی گروہ)میں داخل ہوتا ہے کہ دُعا بذاتِ خود ایک عبادَت بلکہ عبادَت کا بھی مغز ہے۔جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے:اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ۔ یعنیدُعا عبادَت کا مغزہے ۔ ( تِرمذِی ج۵ص۲۴۳حدیث۳۳۸۲)
{۵} دُعا مانگنے سے یا تو اُس کا گناہ مُعاف کیا جاتا ہے یا دُنیا ہی میں اُس کے مسائل حل ہوتے ہیں یا پھر وہ دُعا اُس کے لئے آخرت کا ذَخیرہ بن جاتی ہے۔
نہ جانے کون سا گناہ ہوگیا ہے:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے؟ دُعا مانگنے میں اللّٰہُ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّاور اُس کے پیارے حبیب ماہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت بھی ہے، دُعا مانگنا سُنَّت بھی ہے، دُعا مانگنے سے عبادَت کا ثواب بھی ملتا ہے نیز دُنیا و آخرت کے مُتَعَدِّد فوائد حاصِل ہوتے ہیں ۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ دُعا کی قبولیت کیلئے بہت جلدی مچاتے بلکہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! باتیں بناتے ہیں کہ ہم تو اتنے عرصے سے دُعائیں مانگ رہے ہیں ، بزرگوں سے بھی دُعائیں کرواتے رہے ہیں ، کوئی پیر فقیر نہیں چھوڑا، یہ وظائف پڑھتے ہیں ، وہ اَوراد پڑھتے ہیں ، فلاں فلاں مزار پر بھی گئے مگر ہماری حاجت پوری ہوتی ہی نہیں ، بلکہ بعض یہ بھی کہتے سنے جاتے ہیں : ’’کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے !جس کی ہم کو سزامل رہی ہے!!‘‘
نماز نہ پڑھنا تو گویا خطا ہی نہیں !!!:
حیرت انگیز تو یہ ہے کہ اس طرح کی’’ بھڑا س ‘‘نکالنے والے بسا اوقات بے نمازی ہوتے ہیں ! گویا نماز نہ پڑھنا تو (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) کوئی گناہ ہی نہیں ہے! چہرہ دیکھو تو دُشمنانِ مصطَفٰے آتش پرستوں جیسایعنی تاجدارِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظیم سُنَّت داڑھی مُبارَک چہرے سے غائب ! نیز جھوٹ ،غیبت ،چغلی ،وَعدہ خلافی ، بدگمانی، بدنگاہی، والدین کی نافرمانی ،فلمیں ڈِرامے،گانے باجے وغیرہ وغیرہ گناہ عادت میں شامل ہونے کے باوجود زَبان پر یہ اَلفاظِ شکوہ کھیل رہے ہوتے ہیں : ’’کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے !جس کی ہم کو سزامل رہی ہے!!‘‘
جس دوست کی بات ہم نہ مانیں :
ذرا سوچئے توسہی !کوئی جِگری دَوست کئی بارکچھ کام بتائے مگر آپ اُس کا کام نہ کریں ۔اتفاق سے کبھی اُسی دَوست سے کام پڑجائے تو آپ پہلے ہی سہمے رہیں گے کہ میں نے تو اُس کا ایک بھی کام نہیں کیا، اب وہ بھلا میرا کام کیسے کرے گا! اگر آپ نے ہمت کرکے بات کی اور اُس نے کام نہ کیا تب بھی آپ شکوہ نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ آپ نے بھی تو اپنے اُس دوست کا کام نہیں کیا تھا۔
اب ذرا ٹھنڈے دِل سے غور کیجئے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے کتنے کتنے کام بتائے ، کیسے کیسے اَحکام جاری فرمائے، مگرہم اُس کے کون کون سے حکم پر عمل کرتے ہیں ؟غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ اُس کے کئی اَحکامات کی بجاآوَری میں ہم نے غفلت سے کام لیا ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکرے بات سمجھ میں آگئی ہو کہ خود تو اپنے پروَرْدگار عَزَّوَجَلَّ کے حکموں پرعمل نہ کریں ، مگروہ کسی بات (یعنی دُعا) کا اثرظاہرنہ فرمائے توشکوہ و شکایت لے کر بیٹھ جائیں ۔ دیکھئے نا!آپ اگر اپنے کسی جگری دَوست کی کوئی بات بار بار ٹالتے رہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے دوستی ہی ختم کر دے ،لیکن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّبندوں پر کس قدر مہربان ہے کہ لاکھ اُس کے فرمانِ عالی کی خلاف وَرزی کریں ،پھر بھی وہ اپنے بندوں کی فہرس سے خارِج نہیں کرتا، لطف وکرم فرماتا ہی رہتا ہے۔ذرا غور تو فرمائیے! جوبندے اِحسان فراموشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اگر وہ بھی بطورِ سزا اپنے اِحسانات ان سے روک لے توان کا کیا بنے ؟یقینا اُس کی عنایت کے بغیر بندہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھاسکتا، ارے! وہ اپنی عظیم الشان نعمت ہوا جو کہ بالکل مفت عطا فرما رکھی ہے اگرچند لمحوں کیلئے روک لے تو لاشوں کے اَنبار لگ جائیں !!
قبولیت دُعا میں تاخیر کا ایک سبب:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!بسا اَوقات قبولیت دُعا کی تاخیر میں کافی مصلحتیں ہوتی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ حضور، سراپا نور، فیض گنجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ پرسرور ہے: جباللّٰہ عَزَّوَجَلَّکا کوئی پیارا دُعا کرتا ہے تو اللّٰہ تَعَالٰی جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) سے ارشاد فرماتا ہے: ’’ٹھہرو! ابھی نہ دو تاکہ پھر مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز پسند ہے۔‘‘اور جب کوئی کافریا فاسق دُعا کرتا ہے ، فرماتا ہے، ’’اے جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام)! اِس کاکام جلدی کردو،تاکہ پھر نہ مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز مکروہ (یعنی ناپسند )ہے۔‘‘(کَنْزُ الْعُمّال ج۲ص۳۹حدیث۳۲۶۱، اَحْسَنُ الْوِعَاء ص۹۹)
نیک بندے کی دعا قبول ہونے میں تاخیر کی حکمت (حکایت):
حضرت سَیِّدُنا یَحْیٰ بن سعید بن قطان(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان) نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکا کو خواب میں دیکھا،عرض کی: اِلٰہیعَزَّوَجَلَّ!میں اکثر دُعا کرتا ہوں اور تو قبول نہیں فرماتا؟حکم ہوا:’’اے یَحْیٰ! میں تیری آواز کو پسند کرتا ہوں ، اِس واسطے تیری دُعا کی قبولیت میں تاخیر کرتا ہوں ۔‘‘ (رسالہ قُشریہ ص۲۹۷، اَحْسَنُ الْوِعَاء ص۹۹)
’’فضائلِ دعا ‘‘صفحہ97 میں آدابِ دُعا بیان کرتے ہوئے حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِین مولانانقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :
جلدی مچانے والے کی دُعا قبول نہیں ہوتی!:
(دعا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ) دُعا کے قبول میں جلدی نہ کرے۔ حدیث شریف میں ہے کہ خدائے تعالیٰ تین آدمیوں کی دُعا قبول نہیں کرتا۔ایک وہ کہ گناہ کی دُعامانگے۔دوسرا وہ کہ ایسی بات چاہے کہ قطع رِحم ہو۔تیسرا وہ کہ قبول میں جلدی کرے کہ میں نے دُعا مانگی اب تک قبول نہیں ہوئی۔ ( مسلم ص۱۴۶۳حدیث۲۷۳۵)
اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ناجائز کام کی دُعا نہ مانگی جائے کہ وہ قبول نہیں ہوتی۔نیز کسی رِشتے دار کا حق ضائع ہوتا ہوایسیدُعا بھی نہ مانگیں اور دُعاکی قبولیت کیلئے جلدی بھی نہ کریں ورنہ دُعا قبول نہیں کی جائے گی۔
اَحسَنُ الْوِعَاءِ لِاٰدابِ الدُّعاءِپر اعلیٰ حضرت ،امامِ اَہلِ سُنَّت ، مو لانا شاہ احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے حاشیہ تحریر فرمایا ہے اور اس کا نام ذَیلُ الْمُدَّعاءِ لِاَحسَن الْوِعاءِ رکھا ہے ۔ مکتبۃُ المدینہ نے تخریج و تسہیل کے ساتھ اِسے ’’فضائلِ دعا‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔اسی کتاب کے حاشیے میں ایک مقام پر دُعا کی قبولیت میں جلدی مچانے والوں کو اپنے مخصوص اور نہایت ہی علمی انداز میں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
اَفسروں کے پاس تو بار بار دھکے کھاتے ہو مگر
سگانِ دُنیا (یعنی دُنیوی اَفسروں ) کے اُمیدواروں (یعنی اُن سے کام نکلوانے کے آرزو مندوں )کو دیکھا جاتا ہے کہ تین تین برس تک اُمیدواری (اور انتظار)میں گزارتے ہیں ،صبح وشام اُن کے دروازوں پر دَوڑتے ہیں ،(دَھکے کھاتے ہیں ) اور وہ (اَفسران)ہیں کہ رُخ نہیں ملاتے، جواب نہیں دیتے، جھڑکتے، دِل تنگ ہوتے، ناک بھوں چڑھاتے ہیں ، اُمیدواری میں لگایا تو بیگار(بے کار محنت) سرپرڈالی، یہ حضرت گرہ (یعنی اُمید وار جیب ) سے کھاتے، گھر سے منگاتے، بیکار بیگار (فضول محنت) کی بلا اُٹھاتے ہیں ، اور وہاں ( یعنی افسروں کے پاس دھکے کھانے میں ) برسوں گزریں ہنوز (یعنی ابھی تک گویا)روزِ اوّل(ہی) ہے، مگر یہ( دنیوی افسروں کے پاس دھکے کھانے والے ) نہ اُمیدتوڑَیں ، نہ (افسروں کا )پیچھا چھوڑَیں ۔ اور اَحْکَمُ الْحَاکِمِین، اَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْن عَزَّ جَلَالُہٗکے دروازے پراَوّل تَو آتا ہی کون ہے! اور آئے بھی تو اُکتاتے ،گھبراتے ،کل کا ہوتا آج ہوجائے،ایک ہفتہ کچھ پڑھتے گزرا اور شکایت ہونے لگی، صاحب! پڑھا تو تھا، کچھ اَثر نہ ہوا!یہ اَحمق اپنے لئے اِجابَت (یعنی قبولیت )کا دروازہ خود بند کرلیتے ہیں ۔ مُحمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : یُسْتَجَابُ لِاَحَدِ کُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ، یَقُوْلُ: دَعَوْتُ فَلَمْ یُسْتَجَبْ لِیْ۔ ترجمہ: ’’تمہاری دُعا قبول ہوتی ہے جب تک جلدی نہ کرو یہ مت کہوکہ میں نے دُعا کی تھی قبول نہ ہوئی۔‘‘ (بُخاری ج۴ص۲۰۰حدیث۶۳۴۰)
بعض تَواِس پر ایسے جامے سے باہر(یعنی بے قابو ) ہوجاتے ہیں کہ اَعمال واَدعیہ (یعنی اَوراد و دُعاؤں)کے اَثر سے بے اِعتقاد ،بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے وَعدئہ کرم سے بے اِ عتماد، وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ الْکَرِیْمِ الْجَوَاد۔ ایسوں سے کہاجائے کہ اَے بے حیا!بے شرمو!!ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈالو۔اگر کوئی تمہارا برابر والا دَوست تم سے ہزار بار کچھ کام اپنے کہے اورتم اُس کا ایک کام نہ کروتو اپنا کام اُس سے کہتے ہوئے اَوّل تَو آپ لجاؤ (شرماؤ)گے،(کہ) ہم نے تواُس کا کہنا کیا ہی نہیں اب کس منہ سے اُس سے کام کو کہیں ؟اور اگر غرض دِیوانی ہوتی ہے(یعنی مطلب پڑا تو) کہہ بھی دیا اور اُس نے (اگر تمہاراکام)نہ کیا تواصلاً محل شکایت نہ جانو گے( یعنی اس بات پر شکایت کروگے ہی نہیں ظاہر ہے خود ہی سمجھتے ہو) کہ ہم نے (اُس کاکام ) کب کیا تھا جو وہ کرتا۔
اب جانچو، کہ تم مالِک عَلَی الْاِطْلَاق عَزَّ جَلَالُہٗ کے کتنے اَحکام بجالاتے ہو؟ اُس کے حکم بجا نہ لانا اور اپنی دَرخواست کا خواہی نخواہی (ہرصورت میں )قبول چاہنا کیسی بے حیائی ہے! او اَحمَق! پھرفرق دیکھ ! اپنے سر سے پاؤں تک نظر غور کر! ایک ایک رُوئیں میں ہر وَقت ہر آن کتنی کتنی ہزار دَر ہزار دَر ہزار صَد ہزار بے شمارنعمتیں ہیں ۔تو سوتا ہے اور اُس کے معصوم بندے (یعنی فرشتے)تیری حفاظت کو پہرا دے رہے ہیں ،تو گناہ کررہا ہے اور (پھربھی) سرسے پاؤں تک صحت و عافیت،بلاؤں سے حفاظت ،کھانے کا ہضم ، فضلات (یعنی جسم کے اندر کی گندگیوں ) کا دَفع ، خون کی رَوانی ، اَعضا میں طاقت، آنکھوں میں روشنی ۔ بے حساب کرم بے مانگے بے چاہے تجھ پر اُتر رہے ہیں ۔ پھر اگر تیری بعض خواہشیں عطا نہ ہوں ،کس منہ سے شکایت کرتا ہے ؟ تو کیا جانے کہ تیرے لئے بھلائی کا ہے میں ہے!تو کیا جانے کیسی سخت بلاآنے والی تھی کہ اِس (بظاہرنہ قبول ہونے والی ) دُعا نے دَفْعْ کی ،تو کیا جانے کہ اِس دُعا کے عوض کیسا ثواب تیرے لئے ذَخیرہ ہورہا ہے ،اُس کا وَعدہ سچا ہے اور قبول کی یہ تینوں صورتیں ہیں جن میں ہر پہلی، پچھلی سے اَعلیٰ ہے۔ ہاں ، بے اِعتقادی آئی تویقین جان کہ ماراگیااور اِبلیسِ لعین نے تجھے اپنا ساکر لیا۔ وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِِ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی ( اور اللّٰہ کی پناہ وہ پاک ہے اورعظمت والا)۔
اَے ذَلیل خاک! اے آبِ ناپاک!اپنا منہ دیکھ اور اِس عظیم شرف پر غور کر کہ اپنی بارگاہ میں حاضر ہونے ، اپنا پاک، متعالی (یعنی بلند) نام لینے، اپنی طرف منہ کرنے، اپنے پکارنے کی تجھے اجازت دیتا ہے۔ لاکھوں مرادیں اِس فضل عظیم پر نثار۔
اوبے صبرے! ذرابھیک مانگنا سیکھ۔اِس آستانِ رَفیع کی خاک پر لَوٹ جا۔ اور لپٹا رہ اور ٹکٹکی بندھی رکھ کہ اب دیتے ہیں ، اب دیتے ہیں !بلکہ پکارنے ، اُس سے مناجات کرنے کی لذت میں ایسا ڈوب جا کہ اِرادہ ومراد کچھ یاد نہ رہے، یقین جان کہ اِس دروازے سے ہرگز محروم نہ پھریگا کہ مَنْ دَقَّ بَابَ الْکَرِیْم انْفَتَحَ (جس نے کریم کے دروازے پر دستک دی تو وہ اس پر کھل گیا) وَبِا للّٰہِِ التَّوْفِیْقُ (اور توفیق اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہے) ۔( فضائلِ دُعا ص۱۰۰ تا ۱۰۴ )
دُعا کی قبولیت میں تاخیر تو کرم ہے:
حضرت سَیِّدُنا مولانا نقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : اَے عزیز! تیرا پروَردگارعَزَّوَجَلَّفرماتا ہے:
اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ- (پ۲،البقرۃ:۱۸۶)
تَرجَمہ: میں دُعا مانگنے والے کی دُعا قبول کرتا ہوں جب مجھ سے دُعا مانگے۔
فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ٘ۖ(۷۵) (پ۲۳،صٰفٰت:۷۵)
تَرجَمہ: ہم کیا اَچھے قبول کرنے والے ہیں ۔
اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ- (پ۲۴،مؤمِن:۶۰)
تَرجَمہ: مجھ سے دُعا مانگو میں قَبول فرماؤں ۔
پس یقین سمجھ کہ وہ تجھے اپنے دَر سے محروم نہیں کرے گااوراپنے وَعدے کو وَفا فرمائے گا۔وہ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرماتا ہے :
وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ(۱۰) (پ۳۰،الضحٰی:۱۰)
تَرجَمہ :سائِل کو نہ جِھڑک ۔
آپ کس طرح اپنے خوانِ کرم سے دُور کرے گا!بلکہ وہ تجھ پر نظر کرم رکھتا ہے کہ تیری دُعا کے قبول کرنے میں دیر کرتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حال۔ (فضائلِ دُعا ص۹۸)
(فیضانِ رمضان ص ۱۱۴ تا ۱۰۷)
(03): ’’ دعا میں یہ باتیں منع ہیں ‘‘
جن باتوں کی دُعا کرنا منع ہے ، ان سے متعلق دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ” فضائل دُعا “ سے چند مدنی پھول پیشِ خدمت ہیں :
. دُعا ميں حد سے نہ بڑھے جیسے اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا مرتبہ مانگنا يا آسمان پر چڑھنے کی تمنّا کرنا نیز دونوں جہاں کی سا ری بھلائیاں اور سب کی سب خوبیاں مانگنابھی مَنْع ہے کہ ان خوبيوں ميں مَراتبِ اَنبيا عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام بھی ہيں جو نہيں مل سکتے ۔ لہٰذا یوں نہیں کہہ سکتے کہ دونوں جہاں کی سا ری بھلائیاں عطا فرما ۔ اَلبتہ یہ دُعا کی جا سکتی ہے کہ ہمیں دِین و دُنیا کی بھلائیاں عطا فرما ۔
جومُحال (یعنی ناممکن)يا قریب بہ مُحال ہو اُس کی دُعا نہ مانگے لہٰذا ہميشہ کے لئے تندرستی و عافیت مانگنا کہ آدَمی عمر بھر کبھی کسی طرح کی تکلیف میں نہ پڑے یہ مُحالِ عادی کی دُعا مانگنا ہے لہٰذا یوں نہیں کہہ سکتے کہ ” کوئی مسلمان کبھی بھی بیمار نہ ہو “ ، اَلبتہ یہ دُعا کی جاسکتی ہے کہ ہمارے بیماروں کو اچھا کر دے ۔ یُونہی لمبے قد کے آدَمی کا چھوٹا قد ہونے يا چھوٹی آنکھ والے کا بڑی آنکھ کی دُعا کرنا ممنوع ہے کہ یہ ایسے اَمر کی دُعا ہے جس پر قلم جاری ہو چکا ہے (یعنی اس کا فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا اَب اس پر صبر کرتے ہوئے دُعا نہ کرے ) ۔ 3. گناہ کی دُعا نہ کرے کہ مجھے پرایا مال مل جائے کہ گناہ کی طلب کرنا بھی گناہ ہے ۔
قطعِ رِحم (یعنی عزیزوں سے تعلّق توڑنے )کی دعانہ کرے ، مثلاً یوں نہ کہے : فلاں وفلاں رشتہ داروں میں لڑائی ہو جائے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے صرف حقیر چيز نہ مانگے کہ پروَردگار عَزَّوَجَلَّ غنی ہے ۔ مثلاً دُنیا حقیر و ذلیل ہے ، ضرورت سے زائد اس کی طلب ناپسندیدہ ہے لہٰذا دعا میں بس مال و دولت کی کثرت کی طلب کرنا اور آخرت کی بہتری کا بالکل بھی سوال نہ کرنا حقیر چیز مانگنا ہے ، جس کی ممانعت ہے ۔
. رنج و مصیبت سے گھبرا کر اپنے مرنے کی دُعا نہ کرے کہ مسلمان کی زندگی اس کے حق میں غنیمت ہے ، اَلبتہ یوں دُعا کی جا سکتی ہے کہ ” خُدایا! مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے حق میں بہتر ہے اور مجھے وفات دے ، جس وقت موت میرے حق میں بہتر ہو “ ، لہٰذا یہ دُعا نہیں کر سکتے کہ ” اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ !
اب تو مولا! اب موت دے کر ان تکالیف سے چھٹکارا دیدے ۔ “
بے غرضِ شَرعی (شرعی اجازت کے بغیر)کسی کے مرنے اور خرابی (بربادی)کی دُعا نہ کرے ، اَلبتہ اگر کسی کافِر کے ايمان نہ لانے پر يقین يا ظنِّ غالِب ہو اور (اس کے )جینے سے دِين کا نقصان ہو يا کسی ظالِم سے توبہ اورظُلْم چھوڑنے کی اُمّیدنہ ہواور اُس کا مرنا، تباہ ہونا مخلوق کے حقّ ميں مُفید ہو تو ایسے شخص پر بددُعا کرنا دُرُست ہے ۔
کسی مسلمان کو يہ بددُعا نہ دے کہ ” تُو کافِر ہو جائے “ کہ بعض عُلَما کے نزديک (ایسی دُعا مانگنا)کُفر ہے اور تحقیق يہ ہے کہ اگرکُفر کو اچّھا يا اسلام کو بُرا جان کر کہے تو بے شک کُفر ہے ورنہ بڑا گناہ ہے کہ مسلمان کی بدخواہی (یعنی بُرا چاہنا)حرام ہے ، خُصُوصاً يہ بدخواہی (کہ فُلاں کا ایمان برباد ہو جائے )توسب بدخواہيوں سے بدترہے ۔
کسی مسلمان پر لعنت نہ کرے اور اسے مَردود و مَلعُون(لعنت کیا گیا) نہ کہے اور جس کافِر کا کُفر پر مرنا يقینی نہيں اُس پر بھی نام لے کر لعنت نہ کرے ۔ یُونہی مچھّر، ہوا، جَمادات (یعنی بے جان چیزوں پتّھر، لوہا وغیرہ)اور حَيوانات پر لعنت ممنوع ہے ۔ اَلبتہ بچھو وغيرہ بعض جانوروں پر حديثِ پاک ميں لعنت آئی ہے ۔
کسی مسلمان کو يہ بد دُعا نہ دے کہ ” تجھ پر خدا کا غضب نازل ہو اورتُو (بھاڑ) آگ يا دوزخ ميں داخِل ہو “ کہ حدیث شريف میں اس کی مُمانَعَت وارِد ہے (یعنی حدیثِ پاک میں اس قسم کی دُعا سے منع کیا گیا ہے ) ۔
. جو کافِر مرا، اُس کے لئے دُعائے مغفِرت حرام و کُفر ہے ۔
یہ دُعا کرنا : ” خدایا! سب مسلمانوں کے سب گناہ بخش دے ۔ “ جائز نہيں کہ اس ميں اُن احاديثِ مبارَکہ کی تکذيب (جھٹلانا)ہے جن ميں بعض مسلمانوں کا دوزخ ميں جانا وارِد ہوا، البتہ يوں دُعا کرنا ” ساری اُمّتِ محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مغفِرت(یعنی بخشش) ہو يا سارے مسلمانوں کی مغفِرت ہو، جائز ہے ۔ “ دونوں دُعاؤں میں فرق یہ ہے کہ پہلی دعا (یعنی سب مسلمانوں کے سب گناہ بخش دیئے جائیں اس )سے لازم آتا ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایک لمحہ کے لیے بھی دوزخ میں نہ جائے حالانکہ بعض مسلمانوں کا اپنے گناہوں کے سبب دوزخ میں جانا طے شُدہ ہے لہٰذا ان الفاظ سے دُعا نہیں مانگ سکتے جبکہ دوسری دعا (ساری اُمّتِ محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مغفِرت (یعنی بخشش) ہو يا سارے مسلمانوں کی مغفِرت ہو) میں یہ قباحت (بُرائی)نہیں کیونکہ اس میں فقط سارے مسلمانوں کے لیے مغفرت مانگی گئی ہے اور یہ تو اَحادیث سے ثابت ہے کہ جہنم میں جانے والے مسلمانوں کی بھی بالآخر مغفرت کر دی جائے گی اور انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا ۔
اپنے لئے اور اپنے دوست اَحباب، اَہل و مال اور اولاد کے لئے بددُعا نہ کرے ، کيا معلوم کہ قَبولیَّت کا وَقت ہو اور بددُعا کا اثر ظاہِر ہونے پر نَدامت(شرمندگی) ہو ۔ 14. جو چيز حاصِل (یعنی اپنے پاس) ہواس کی دُعا نہ کرے مَثَلًا مرد يوں نہ کہے ” يا اللہ عَزَّوَجَلَّ !مجھے مرد کر دے “ کہ اِستہزا (مذاق بنانا) ہے البتہ ایسی دُعا جس ميں شريعت کے حکم کی تعميل(یعنی شرعی حکم پر عمل کرنا) يا عاجزی وبندگی کا اِظہار يا پروردگارعَزَّوَجَلَّ اور مدينے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے مَحَبَّت يا دِين يا اَہلِ دين کی طرف رَغبت يا کُفر و کافِرِين سے نفرت وغيرہ کے فوائد نکلتے ہوں، وہ جائز ہے اگرچِہ اس اَمر کاحُصول يقينی ہو جيسے دُرُود شريف پڑھنا ، (حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے لیے مقامِ) وسیلہ کی دعا کرنا، (مسلمان ہونے کے باوجود اپنے لیے ) صراطِ مستقيم (سیدھے راستے ) کی ، اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دشمنوں پرغَضب و لعنت کی دُعا کرنا ۔
(04): ’’ مکّے کی ۱۹ خصوصیات ‘‘
(مَکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی بے شمار خوبیوں سے یہاں صِرف اُنیس خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے)
نبیِّ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم مَکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں پیدا ہوئے پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ
وَسَلَّم نے دینِ اسلام کی تبلیغ کا آغاز یہیں فرمایا یہیں کعبۂ مُشرَّفہ ہے ،اِسی کا طواف کیا جاتا ہے اور نَماز میں دنیا بھر سے اِسی طرف منہ کیا جاتا ہے مسجِدالحرام شریف یہیں پر ہے جس میں ایک نماز کاثواب ایک لاکھ نَمازکے برابرہے آبِ زم زم کا کنواں حجرِ اَسود ’’ مقامِ ابراہیم ‘‘اور صَفا مروہ یہیں ہیں مِیقات کے باہَر سے آنے والے بِغیر احرام کے مکّے میں داخِل نہیں ہوسکتی دنیا بھر سے مسلمانحج کی سعاد ت پانے کے لئے یہیں حاضِر ہوتے ہیں جو اِس شہرِ مقدس میں داخِل ہوجائے مامُون(اَمْن پانے والا) ہوگا (دن کا کچھ وَقت ) یہاں کی گرمی پر صبرکرلینے والے کو جہنَّم کی آگ سے دُور کیا جاتا ہے یہاں غارِ حِرا ہے جہاں مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر پہلی وحی نازِل ہوئی یہاں پر ہرموسِم کے پھل ملتے ہیں مِعراجُ النبَّی اور چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے مُعجزات اِس شہر میں ظاہِر ہوئے د نیا کا سب سے پہلا پہاڑ جبلِ ابی قُبیس یہیں واقِع ہے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یہاں اپنی حیاتِ ظاہِری کے 53برس گزارے حضرتِ سیِّدُنا امام مَہدی کا ظُہُورمَکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًمیں ہی ہو گا۔
میں مکّے میں جَاکر کروں گا طواف اور
نصیب آبِ زم زم مُجھے ہوگا پینا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(عاشقانِ رسول کی ۱۳۰ حکایات ص ۲۰۰)
(05): ’’ مدینہ پاک کی ۱۷ خصوصیات ‘‘
یوں تو مدینے میں بے شمار خوبیاں ہیں مگر حصولِ بَرَکت کیلئے یہاں صِرف 17بیان کی ہیں روئے زمین کا کوئی ایساشہر نہیں جسکے اسمائے گرامی یعنی مبارَک نام اتنی کثرت کوپہنچے ہوں جتنے مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے نام ہیں ، بعض عُلما ء نے 100تک نام تحریر کئے ہیں مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ایسا شہر ہے جس کیمَحَبَّت اورہِجرو فُرقت میں دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اور سب سے زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے ، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب ، حبیبِ لبیب ، طبیبوں کے طبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف ہجرت کی اور یہیں قیام پذیر رہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اِس کانام طابہ رکھا سرکارِ عالی وقار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب سفر سے واپَس تشریف لاتے تومدینۃُ الْمنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے قریب پہنچ کر زیادتیِ شوق سے اپنی سُواری تیزکردیتے مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلبِ مبارک سُکون پاتا یہاں کاگَردوغبار اپنے چہرۂ انور سے صاف نہ فرماتے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بھی اس سے مَنْع فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ خاکِ مدینہ میں شفاء ہے۔ (جذب القلوب ص ۲۲)حضرتِ سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ تَبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانملے انہوں نے گرد اُڑائی ، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! ’’مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔‘‘ (جامع الاصول للجزری ج۹ص۲۹۷حدیث۶۹۶۲) جب کوئی مسلمان زیارت کی نیّت سے مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً آتا ہے تو فِرِشتے رَحْمت کے تحفوں سے اُس کا استِقبال کرتے ہیں ۔الخ۔(جذب القلوب ص۲۱۱ ) سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں مرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی یہاں مرنے والے کی سرکارِمدینۂ منوّرہ، سردارِمکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شَفاعت فرمائیں گے جو وُضو کرکے آئے اورمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں نَماز ادا کرے اسے حج کا ثواب ملتا ہے حجرہ ٔمبارَکہ اور منبرِ منوّر کے درمیان کی جگہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ (جنّت کی کیاری)ہے مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں ایک نمازپڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے( ابن ماجہ ج۲ ص۱۷۶ حدیث۱۴۱۳) مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی سرزمین پر مزارِ مصطَفٰے ہے جہاں صبح و شام سترستر ہزار فرشتے حاضر ہوتے ہیں یہاں کی زمین کا وہ مبارَک حصّہ جس پررسولِ انور، مدینے کے تاجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جسمِ منوَّر تشریف فرماہے وہ ہر مقام حتّٰی کہ خانۂ کعبہ، بیتُ المعمور ، عرش و کرسی اور جنّت سے بھی افضل ہے دجّال مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں داخل نہیں ہوسکے گااہلِ مدینہ سے بُرائی کا ارادہ کرنے والا عذاب میں گرفتار ہوگا یہاں کا قبرستان جنت البقیع دنیا کے تمام قبرستانوں سے افضل ہے، یہاں تقریباً10 ہزارصحابۂ کرام واَجَلَّہ اہلبیتِ اطہار عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور بے شمار تابعینِ کرام واولیاءِ عِظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام اور دیگر خوش نصیب مسلمان مدفون ہیں ۔
رہیں اُن کے جلوے بسیں اُن کے جلوے
مِرا دل بنے یادگارِ مدینہ (ذوق نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(06): ’’ مسجد الحرام میں نمازِ مُصطفیٰ کے ۱۱ مقامات ‘‘
(۱)بیتُ اللہشریف کے اَندر (۲)مَقامِ ابراہیم کے پیچھے (۳) مَطاف کے کَنارے پر حَجَرِ اَسوَد کی سیدھ میں (۴)حَطِیم اور بابُ الکَعبہ کے دَرمِیان رُکنِ عِراقی کے قریب (۵)مَقامِ حُفْرَہ پر جو بابُ الکعبہ اور حَطِیم کے دَرمِیان دیوارِ کعبہ کی جَڑ میں ہے۔ اِس مَقام کو ’’مَقامِ اِمامتِ جبرائیل ‘‘بھی کہتے ہیں ۔ شَہَنشاہِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اِسی مقام پر سیِّدُنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو پانچ نَمازوں میں اِمامت کا شَرَف بخشا۔ اِسی مُبارَک مَقام پر سیِّدُنا ابراہیم خَلِیْلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے ’’تعمیرِ کعبہ ‘‘کے وَقت مِٹّی کا گارا بنایا تھا (۶)بابُ الکَعبہ کی طرف رُخ کرکے۔ (دروازۂ کعبہ کی سیدھ میں نَماز ادا کرنا تمام اَطراف کی سیدھ سے افضل ہے ) (۷)میزابِ رَحْمت کی طرف رُخ کرکے۔(کہاجاتا ہے کہ مزار ضیا بار میں سرکارِ عالی وَقار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا چہرۂ پُر انوار اِسی جانِب ہے)(۸) تمام حَطِیم میں خُصُوصاً میزابِ رَحْمت کے نیچے (۹ ) رُکنِ اَسوَد اور رُکن یَمانی کے درمِیان (۱۰)رُکنِ شامی کے قریب اِس طرح کہ ’’بابِ عُمرہ‘‘ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی پُشتِ اَقدَس کے پیچھے ہوتا۔ خواہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ’’حَطِیم‘‘ کے اَندر ہو کر نماز ادا فرماتے یاباہَر(۱۱) حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفیُّ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے نَماز پڑھنے کے مقام پر جو کہ رُکنِ یَمانی کے دائِیں یا بائِیں طرف ہے اور ظاہِر تَر یہ ہے کہ مُصَلّٰیِ آدم "مُسْتجَار" پر ہے ۔ (کتا ب الحج ص۲۷۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(عاشقانِ رسول کی ۱۳۰ حکایات ص۲۲۸)
(07): ’’ مکّہ مکرمہ کی زیارتیں ‘‘
ولادت گاہِ سرور عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :
حضرتِ علّامہ قطب الدّین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْمُبِینفرماتے ہیں : حُضُور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت گاہ پر دُعا قبول ہوتی ہے۔ (بلدالامین ص۲۰۱) یہاں پہنچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کوہِ مروَہ کے کسی بھی قریبی دروازے سے باہَر آجایئے۔سامنے نَمازیوں کیلئے بَہُت بڑا اِحاطہ بناہوا ہے ، اِحاطے کے اُس پار یہ مکانِ عالیشان اپنے جلوے لُٹا رہا ہے ، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دُور ہی سے نظر آجائے گا۔ خلیفہ ہارون رشید علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ المجیدکی والِدۂ محترمہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہا نے یہاں مسجِد تعمیر کروائی تھی۔ آجکل اس مکانِ عَظَمت نشان کی جگہ لائبر یری قائم ہے اوراس پر یہ بورڈلگاہواہے: ’’ مَکْتَبَۃُ مَکَّۃَ الْمُکَرَّمَۃ ‘‘
جَبَلِ ابو قبیس:
یہ دُنیا کا سب سے پہلاپہاڑ ہے ، مسجِد الحرام کے باہَر صَفا ومَروہ کے قریب واقِع ہے۔اِس پہاڑ پر دُعاقَبول ہوتی ہے ، اہلِ مکّہ قَحط سالی کے موقع پر اس پر آ کر دُعا مانگتے تھے۔حدیثِ پاک میں ہے کہ حَجرِ اَسوَد جنَّت سے یَہیں نازِل ہُوا تھا (الترغیب والترہیب ، ج۲ ، ص۱۲۵ ، حدیث: ۲۰) اِس پہاڑ کو ’’ اَلاَْمین ‘‘ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ طوفانِ نوح ‘‘ میں حجرِ اسود اِس پہاڑ پربحفاظت تمام تشریف فرما رہا ، کعبۂ مشرَّفہ کی تعمیر کے موقع پراِس پہاڑ نے حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو پکار کر عرض کی: ’’ حجرِ اَسوَد اِدھر ہے۔ ‘‘ (بلدالامین ص۲۰۴بتغیر قلیل) منقول ہے : ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِسی پہاڑ پر جلوہ اَفروز ہو کر چاند کے دو ٹکڑے فرمائے تھے۔ چُونکہ مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًپہاڑوں کے دَرمِیان گھرا ہُوا ہے چُنانچِہ اس پر سے چاند دیکھا جاتا تھاپہلی رات کے چاند کو ہِلال کہتے ہیں لہٰذا اس جگہ پر بَطورِ یادگارمسجدِ ہِلال تعمیر کی گئی۔ بعض لوگ اِسے مسجدِبِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں۔ وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔ پہاڑ پر اب شاہی مَحَل تعمیر کردیا گیا ہے ، اوراب اُس مسجد شریف کی زیارت نہیں ہو سکتی ۔ ۱۴۰۹ ھ کے موسمِ حج میں اِس مَحَل کے قریب بم کے دھماکے ہوئے تھے اور کئی حُجّاجِ کرام نے جامِ شہادت نوش کیا تھا ، اِس لئے اب مَحَل کے گرد سخت پہرا رہتا ہے۔مَحَل کی حفاظت کے پیشِ نظر اِسی پہاڑ کی سُرنگوں میں بنائے ہوئے وُضو خانے بھی خَتْم کر دیئے گئے ہیں ۔ ایک رِوایت کے مطابِق حضرت ِسیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماِسی جَبَلِ ابوقُبَیسپرواقِع ’’ غار الکنز ‘‘ میں مَدفُون ہیں جبکہ ایک مُستند روایت کے مطابِق مسجدِخَیف میں دَفْن ہیں جو کہ مِنٰی شریف میں ہے۔ وَاللّٰہُ تعالٰی اَعْلمُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔
خدیجۃُ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کامکان رحمت نشان: مَکّے مدینے کے سُلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب تک مَکَّہ مکرّمہزَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں رہے اِسی مکانِ عالی شان میں سُکُونَت پذیر رہے۔ سیِّدُنا ابراھیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ تما م اولاد بَشمول شہزادیٔ کونَین بی بی فاطِمہ زَہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی یہیں وِلادت ہوئی۔ سیِّدُنا جبرئیلِ امین عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے بارہا اِس مکانِ عالیشان کے اندر بارگاہِ رسالت میں حاضِری دی ، حُضُورِ اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرکثرت سے نُزولِ وَحی اِسی میں ہوا۔ مسجدِ حرام کے بعد مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں اِس سے بڑھ کر افضل کوئی مقام نہیں ۔ مگر صدکروڑبلکہ اربوں کھربوں افسوس! کہ اب اِس کے نشان تک مٹا دیئے گئے ہیں اور لوگو ں کے چلنے کے لئے یہاں ہموار فَرش بنادیا گیا ہے۔ مروَہ کی پہاڑی کے قریب واقع بابُ الْمَرْوَہ سے نکل کر بائیں طرف (LEFT SIDE) حَسرَت بھری نگاہوں سے صِرْف اِس مکان عرش نشان کی فَضاؤں کی زِیارَت کر لیجئے۔
غارِ جَبَلِ ثَور: یہ غار مُبارَک مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی دائیں جانِب مَحَلَّۂ مَسفَلہ کی طرف کم و بیش چار کلومیٹر پر واقِع ’’ جبلِ ثور ‘‘ میں ہے۔یہ وہ مقدّس غار ہے جس کا ذِکرقراٰنِ کریم میں ہے ، مَکّے مدینے کے تاجوَرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے یارِ غار ویارِ مزار حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ بَوَقتِ ہِجرَت یہاں تین رات قِیام پذیر رہے۔ جب دشمن تلاشتے ہوئے غارِ ثور کے منہ پر آپہنچے تو حضرتِ سیِّدُنا صدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غمزدہ ہو گئے اور عرض کی : یَارَسُولَ اللہ دشمن اتنے قریب آچکے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالیں گے تو ہمیں دیکھ لیں گے ، سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تسلّی دیتے ہوئے فرمایا : لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ ترجَمۂ کنزالایمان: غم نہ کھا بیشک اللہہمارے ساتھ ہے (پ۱۰ ، التوبہ: ۴۰) اِسی جَبَلِ ثَور پر قابیل نے سیِّدُنا ہابیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکوشہید کیا ۔
غارِ حِرا: تاجدارِ رِسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ظُہُورِ رِسالت سے پہلے یہاں ذِکر وفکر میں مشغول رہے ہیں ۔ یہ قبلہ رُخ واقع ہے۔سرکارِ نامدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپرپہلی وَحی اِسی غار میں اُتری ، جو کہ وہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ (۱) سے مَا لَمْ یَعْلَمْتک پانچ آیتیں ہیں ۔یہ غار مُبارَک مسجدُالحرام سے جانِبِ مشرِق تقریباً تین میل پر واقِع ’’ جبلِ حِرا ‘‘ پر واقِع ، اس مبارک پہاڑ کو جَبَلِ نور بھی کہتے ہیں ۔ ’’ غارِحرا ‘‘ غارِثَور سے افضل ہے کیوں کہ غارِ ثور نے تین دن تک سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدم چومے جبکہ غارِ حرا سلطانِ دوسراصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبتِ با بَرَکت سے زیادہ عرصہ مشرَّف ہوا۔
قِسمتِ ثَور و حِرا کی حِرص ہے
چاہتے ہیں دِل میں گہرا غار ہم
دارِ اَرقم : دارِاَرقم کوہِ صَفا کے قریب واقِع تھا۔جب کُفّارِ جفا کار کی طرف سے خطرات بڑھے تو سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِسی میں پوشیدہ طور پر تشریف فرما رہے۔ اِسی مکانِ عالیشان میں کئی صاحِبان مُشَرَّف بہ اسلام ہوئے۔ سیِّدُ الشُّھَدا حضرتِ سیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اورامیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمرِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اِسی مکانِ بَرَکت نشان میں داخلِ اِسلام ہوئے۔ اِسی میں یہ آیتِ مبارکہ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠ (۶۴) نازِل ہوئی۔ خلیفہ ہارون رشید علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ المجید کی والِدۂ محترمہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہانے اِس جگہ پر مسجِد بنوائی۔بعد کے کئی خُلَفاء اپنے اپنے دَور میں اِس کی تَزئِین میں حصّہ لیتے رہے ۔ اب یہ توسیع میں شامِل کر لیا گیاہے اور کوئی علامت نہیں ملتی۔
مَحَلَّۂ مَسفَلہ: یہ مَحَلَّہ بڑا تا ریخی ہے ، حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیلُاللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامیہیں رہا کرتے تھے ، حضراتِ صدِّیق و فاروق وحمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمبھی اِسی مَحَلَّۂ مبارَکہ میں قِیام پذیر تھے۔ یہ مَحَلَّہ خانۂ کعبہ کے حصَّۂ دیوار ’’ مُستجَار ‘‘ کی جانِب واقِع ہے۔
جنّت المعلٰی: جنَّتُ البَقِیع کے بعد جنَّتُ المَعْلٰی دُنیا کا سب سے افضل قبرِستان ہے۔ یہاں اُمُّ المؤمِنین خدیجۃُ الکُبریٰ ، حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن عمراور کئی صَحابہ و تابِعین رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن اور اَولیاء و صالحین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کے مزاراتِ مقدّسہ ہیں ۔ اب اِن کے قُبّے (یعنی گنبد) وغیرہ شہید کر دیئے گئے ہیں ، مزارات مِسمار کرکے اُن پر راستے نکالے گئے ہیں ۔ لہٰذا باہَر رَہ کر دُور ہی سے اِس طرح سلام عرض کیجئے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ سلام ہو آپ پر اے قبروں میں رہنے والو!
الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ ط نَسْئَلُ اللّٰہَ لَنَا وَ لَکُمُ الْعَافِیَۃَط
اپنے لئے اپنے والدَین اور تمام اُمَّت کی مغفِرت کے لئے دُعا مانگئے اور بالخُصُوص اَہلِ جنَّتُ المَعْلٰیکے لئے اِیصال ثواب کیجئے۔اِس قبرِ ستان میں دُعا قَبول ہوتی ہے۔
مسجِدِ جنّ: یہ مسجد جنَّتُ المَعلٰی کے قریب واقِع ہے۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نَمازِ فجر میں قراٰنِ پاک کی تِلاوت سن کر یہاں جنّات مسلمان ہوئے تھے۔
مسجدُ الرَّایہ: یہ مسجدِ جنّ کے قریب ہی سیدھے ہاتھ کی طرف ہے۔ ’’ رایَۃ ‘‘ عَرَبی میں جھنڈے کو کہتے ہیں ۔یہ وہ تاریخی مَقام ہے جہاں فتحِ مَکَّہ کے موقع پر ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا جھنڈاشریف نَصْب فرمایا تھا۔
مسجدِخیف: یہ مِنٰی شریفمیں واقِع ہے۔ حِجَّۃُ الْوَداع کے موقع پر ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہاں نَماز ادا فرمائی ہے۔ رَحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: صَلّٰی فِیْ مَسْجِدِ الْخَیْفِ سَبْعُوْنَ نَبِیًّا مسجدِخیف میں 70انبیاء (عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام) نے نماز ادا فرمائی ۔ (مُعجَم اَوسط ج۴ص۱۱۷حدیث ۵۴۰۷) اور فرمایا: فِی الْمَسْجِدِ الْخَیْفِ قَبْرُسَبْعِینَ نَبِیًّا مسجدِخیف میں 70انبیاء (عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام) کی قبریں ہیں ۔ (مُعجَم کبیر ج۱۲ ص ۳۱۶حدیث ۱۳۵۲۵ ) اب اِس مسجد شریف کی کافی توسیع ہو چکی ہے ۔ زائرینِ کرام کو چاہیے کہ بصد عقیدت واحترام اِ س مسجِد شریف کی زیارت کریں ، انبیا ئے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کی خدمتوں میں اِس طرح سلام عرض کریں : اَ لسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَ نْبِیَاءَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ط پھر ایصالِ ثواب کرکے دُعا مانگیں ۔
مسجدِ جِعِرَّانہ: مکّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے جانِبِ طائف تقریباً 26 کلومیٹر پر واقِع ہے۔ آپ بھی یہاں سے عُمرے کا اِحرام باندھئے کہ فتحِ مکہ کے بعد طائف شریف فتح کر کے واپَسی پر ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہاں سے عُمرے کا اِحرام زیبِ تن فرمایا تھا۔یوسف بن ماہک علیہ رحمۃُ اللّٰہ الخالق فرماتے ہیں : مقامِ جِعِرّانہ سے300انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے عُمرے کا احرام باندھا ہے ، سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جِعِرّانہ پر اپنا عصا مبارک گاڑا جس سے پانی کا چشمہ اُبلا جو نہایت ٹھنڈا اور میٹھا تھا (بلد الامین ص ۲۲۱ ، اخبار مکہ ، جزء ۵ص۶۲ ، ۶۹) مشہور ہے اُس جگہ پر کُنواں ہے۔سیِّدُنا ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے طائف سے واپَسی پر یہاں قِیام کیا اوریَہیں مالِ غنیمت بھی تقسیم فرمایا ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے 28شوالُ المکرم کو یہاں سے عُمرے کا احرام باندھا تھا۔ (بلد الامین ص ۲۲۰ ، ۲۲۱ ) اِس جگہ کی نسبت قُریش کی ایک عورت کی طرف ہے جس کا لقب جِعِرّانہ تھا ۔ (ایضاً ص۱۳۷) عوام اِس مقام کو ’’ بڑا عمرہ ‘‘ بولتے ہیں ۔یہ نہایت ہی پُرسوز مَقام ہے ، حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبد الحقّ مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ’’ اخبارُ الاخیار ‘‘ میں نَقْل کرتے ہیں کہ میرے پیرو مرشدحضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدُ الوہّاب مُتَّقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے مجھے تاکید فرمائی ہے کہ موقع ملنے پر جِعِرّانہ (جِ۔عِرْ۔رانہ) سے ضَرور عُمرے کا احرام باندھنا کہ یہ ایسا مُتَبَرَّک مقام ہے کہ میں نے یہاں ایک رات کے مختصر سے حصّے کے اندر سو سے زائد بار مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خواب میں دیدار کیا ہے اَلحمدُ للّٰہ علٰی اِحْسانِہٖ ۔ حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدُ الوہاب مُتَّقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا معمول تھا کہ عمرے کا احرام باندھنے کیلئے روزہ رکھ کر پیدلجِعِرّانہ جایا کرتے تھے۔ (مُلَخَّص از اخبار الاخیار ص۲۷۸)
مزارِ مَیمُونہ : مدینہ روڈ پر ’’ نَوارِیہ ‘‘ کے قریب واقع ہے۔ تادمِ تحریر یہاں کی حاضِری کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ بس 2A یا13میں سُوار ہوجائیے ، یہ بس مدینہ روڑ پر تَنعِیم یعنی مسجدِ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے ، مسجدُ الحرام سے تقریباً 17 کلومیٹر پر اِس کا آخِری اسٹاپ ’’ نَوارِیہ ‘‘ ہے ، یہاں اُتر جائیے اور پلٹ کر روڈ کے اُسی کَنارے پر مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف چلنا شُروع کیجئے ، دس یا پندرہ منَٹ چلنے کے بعد ایک پولیس چیک پوسٹ (نکتۂ تفتیش) ہے پھر مَوقِفِ حُجّاج بنا ہوا ہے اس سے تھوڑا آگے روڈ کی اُسی جانِب ایک چار دیواری نظر آئے گی ، یہیں اُمُّ المؤمنِین حضرتِ سیِّدَتُنا مَیمُونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا مزار فائضُ الانوار ہے۔ یہ مزار مبارَک سڑک کے بیچ میں ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑک کی تعمیر کیلئے اِس مزار شریف کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی تو ٹریکٹر
(TRACTOR) اُلَٹ جاتا تھا ، ناچار یہاں چار دیواری بنا دی گئی۔ ہماری پیاری پیاری امّی جان سیِّدَتُنا مَیمُونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی کرامت مرحبا!
اَہلِ اِسلام کی مادَرانِ شفیق بانُوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام
(08): ’’ مدینہ منورہ کی زیارتیں ‘‘
رَوضَۃُ الجنّۃ: تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حُجرۂ مُبارَکہ (جس میں سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کامزارِ پُرانوارہے) اور مِنبرِ نور بار (جہاں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خُطبہ اِرشاد فرمایا کرتے تھے) کا درمیانی حصَّہ جس کا طُول (یعنی لمبائی) 22مِیٹر اور عَرْض ( چوڑائی) 15میٹر ہے رَوضَۃُ الجَنَّہ یعنی ’’ جنَّت کی کیاری ‘‘ ہے۔چُنانچِہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے: مَا بَیْنَ بَیْتِی وَمِنبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ۔یعنیمیرے گھر اور مِنبر کی دَرمِیانی جگہ جنَّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ ( بُخاری ج۱ ص ۴۰۲ حدیث ۱۱۹۵) عام بول چال میں لوگ اِسے ’’ رِیاضُ الْجَنَّہ ‘‘ کہتے ہیں مگر اَصْل لفظ ’’ رَوْضَۃُ الْجَنَّہ ‘‘ ہے۔
یہ پیاری پیاری کیاری تِرے خانہ باغ کی
سرد اِس کی آب و تاب سے آتش سَقَر کی ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مسجدِ قُبا : مدینۂطیّبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے تقریباً تین کلومیٹر جُنوب مغرِب کی طرف ’’ قُبا ‘‘ نامی ایک قَدیمی گاؤں ہے جہاں یہ مُتَبَرَّک مسجِد بنی ہوئی ہے ، قراٰنِ کریم اور اَحادیثِ صَحِیحہ میں اِس کے فضائل نہایت اِہتِمام سے بیان فرمائے گئے ہیں ۔ عاشِقانِ رسول مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درمِیانی چال چل کر پیدل تقریباً 40مِنَٹ میں مسجِد قُبا پہنچ سکتے ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے: ’’ حُضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر ہفتے کبھی پَیدل تو کبھی سُواری پر مسجِد قُباتشریف لے جاتے تھے۔ ( بُخاری ج ۱ص۴۰۲حدیث۱۱۹۳)
عُمرے کا ثواب: دوفرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : {۱} مسجِد قُبا میں نَما ز پڑھنا عمرے کے برابر ہے (تِرمذی ج ۱ص۳۴۸حدیث۳۲۴) {۲} جس شخص نے اپنے گھر میں وُضو کیا پھر مسجِد قُبا میں جا کر نَماز پڑھی تو اُسے عمرے کا ثواب ملے گا ۔ (ابنِ ماجہ ج۲ ص۱۷۵حدیث۱۴۱۲)
مزارِ سیِّدُنا حمزہ : آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ غزوۂ اُحُد ( ۳ ھ ) میں شہید ہوئے تھے ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا مزار فائضُ الانوار اُحُد شریف کے قریب واقِع ہے۔ ساتھ ہی حضرتِ سیِّدُنا مُصْعَب بن عُمَیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور حضرتِ سیِّدُنا عَبْدُ اللّٰہ بن جَحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مزارات بھی ہیں ۔ نیز غزوہ ٔ اُحُد میں 70صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے جامِ شہادت نوش کیا تھا اُن میں سے بیشتر شُہَدائے اُحُد بھی ساتھ ہی بنی ہوئی چار دیواری میں ہیں ۔
شُہَدائے اُحُدعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو سلام کرنے کی فضیلت: سیِّدُنا شیخ عبدُالحقّ مُحدِّث دِہلَوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینَقْل کرتے ہیں : جو شخص ان شُہَدائے اُحُدسے گزرے اور ان کو سلام کرے یہ قِیامت تک اُس پر سلام بھیجتے رہتے ہیں ۔ شُہَدائے اُحُد عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاناور بالخُصوص مزارِ سیِّدُالشُّہَداء سیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بارہا جوابِ سلام کی آوازسنی گئی ہے۔ (جذب القلوب البقرۃص۱۷۷)
(09): ’’ روضہ رسول کے بارے میں دلچسپ معلومات ‘‘
سبز سبز گنبد ہر آنکھ کا نور اورہر دل کاسُرور ہے۔ ہر عاشقِ رسول اِس بات کا تمنّائی ہوتا ہے کہ وہ جیتے جی کم از کم ایک بار تو ضَرور سبز سبز گنبد و مینار کے دیدارِ فرحت آثار سے شَرَفْیاب ہو۔مدینۃُ المُنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں سب سے بابَرَکت بلکہ رُوئے زمین کی عظیم ترین زیارت گاہ روضۂ رسول ہے۔ کسی عاشقِ رسول نے کتنا پیارا
شعر رَقَم
اِعزاز یہ حاصل ہے توحاصل ہے زمیں کو
اَفلاک پہ تو گنبدِ خضرا نہیں کوئی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سروَرِ دوجہان کا مکانِ عَرْش نشان: مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں مشرِقی جانب وہ بُقْعَۂ نور واقِع ہے جہاں مدینے کے تاجور، محبوبِ ربِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جلوہ گر ہیں ،یہ وُہی حجرۂ مبارَکہ ہے جسیمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پہلی بارتعمیر کے وقت ہی سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رہائش کے لئے تیّار کیا گیا تھا اوریہیں امُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائِشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاتقریباً 9برس تک اپنے سرتاج ،صاحِبِ معراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدمو ں میں حاضِر رہیں ، اِسی بِنا پر اِسے حُجرۂ عائِشہ بھی کہتے ہیں ۔ گارے اور مِٹّی سے بنی دیواروں اور کَھجور کی ٹہنیوں اور پتّوں کی چھت پر مشتمل مختصر رَقبے کایہ گھر شاید اُس وَقت مدینۂ منوََّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی سادہ ترین عمارت تھی اِس مکانِ عالی شان کی چھت شریف کی بُلندی قدِ آدم یعنی انسانی قد سے ایک ہاتھ (یعنی تقریباً آدھا گز زیادہ بلند)تھی ۔بعد میں اس کے اَطراف میں ایسے ہی حُجُراتِ مبارَکہ دیگر اُمَّہاتُ الْمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکے لئے یکے بعد دیگرے تعمیر کئے گئے ۔حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلَوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :بعض مکانات جَرِیدِنَخْل یعنی کھجور کی صاف ٹہنیوں کے تھے، ان کو کمبل سے ڈھانپا ہوا تھا اور دروازے پر بھی کمبل کے پردے تھے۔ تمام مکانات قبلے کی طرف اور مشرِق و شام کی جانب تھے، مغرِب کی سَمت کوئی مکان نہ تھا۔ بعض مکان شریف کچّی اینٹوں کے بھی تھے ۔ (جذبُ القلوب ص۹۷) جن عاشقان رسول کو اپنے مکان چھوٹے اور تنگ محسوس ہوتے ہیں اُن کو چاہئے کہ سلطانِ دو جہانصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مکانِ عالیشان پر غور کر کے اپنے لئے صبرو تَحَمُّل کا سامان کریں ۔
خُسروِ کون و مکاں اور تواضُع ایسی
ہاتھ تکیہ ہے تِرا خاک بچھونا تیرا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(10): ’’ روضہ انور پر گنبد ِ اَطہر ‘‘
حُجرۂ مُبارَکہ پرپہلے کسی قسم کا گنبد نہ تھا،چھت پر صِرْف نِصْف قدِ آدم (یعنی آدھے انسانی قد)کے برابر چاردیواری تھی تاکہ جو کوئی بھی کسی غَرَض سے مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی چھت پر جائے اُسے احساس رہے کہ وہ نہایت ادب کے مقام پر ہے اور کہیں بھول میں بھی اُس پر نہ چڑھے۔ یہاں یہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ عبّاسی خِلافت کے ابتدائی دَور میں مُقْتَدَرشخصیّات کے مزارات پر گنبد بنانے کاسلسلہ ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بغدادشریف اور دِمَشْق میں گنبددینی شخصیّات کے مَزارات کا باقاعِدہ حصّہ بن گیا۔بغداد شریف میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزارِ فائضُ الانوار پر بھی گنبد سَلْجُوقی سلطان مَلِک شاہ نے پانچویں صَدی میں تعمیر کروایا تھا۔ اس کے بعداس طرز ِتعمیر کو مِصْر میں خوب رواج ملا اور وہاں تھوڑے ہی عرصے میں بہت سے مزارات پر گنبد بن گئے۔جب قَلاوُوْنخاندان کا دَورآیا تو گنبد تقریباً تمام مُسلِم عَلاقوں میں عام ہوچکا تھا۔ مِصْر میں چُونکہ یہ فنِّ تعمیر بَہُت مقبول تھا اِس لیے سلطان منصور قَلاوُوْننے جب روضۂ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر پہلی مرتبہ گنبد بنوانے کا فیصلہ کیا تو مِصری مِعماروں کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے اپنے ہُنَر کو کام میں لاتے ہوئے 678ہجری میں حُجْرئہ مُطَہَّرہ پرلکڑی کے تختوں کی مدد سے خوبصورت گنبد بنایا ۔ روضۂ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت نے اِس گنبدشریف کوایساحُسن بخشا کہ زائرینِ مدینہ کی آنکھوں کا تارابن گیا۔
وسیلہ تجھ کو بوبکر و عمر، عثمان و حیدر کا
الٰہی تُو عطا کر دے ہمیں بھی گھر مدینے میں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بڑے اور چھوٹے گنْبد شریف کی تعمیر
پہلا گنبد شریف تقریبا ً ایک صدی تک عاشِقان رسول کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا رہا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیسہ پلائے ہوئے لکڑی کے تختوں میں سے چند’ تختے’ضعیف‘‘ ہو گئے، چنانچہ سلطانُ النَّاصر حسن بن محمد قَلاوُوْن نے گنْبد شریف کی کچھ خدمت کی ، پھر بعد میں سلطان اشرف شعبان بن حسین بن محمد نے765 ہجری میں مزیدخدمت کی سعادت حاصل کی۔ ابھی ایک صدی اور گزری ہوگی کہ اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ گنبد شریف کی وسیع بنیادوں پر ’’خدمت‘‘ یا تعمیرِ نو کی جائے اور ساتھ ہی اُس پنج گوشہ احاطے کی بھی ’’تعمیری خدمت‘‘ کی جائے جو حضرت ِ سَیِّدُناعمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بنوایا تھا ۔ سلطان اشرف قایِتْبائی نے اوَّلًا اپنے ایک نُمایَندے کو اِس کی تحقیقات پر مامور کیا۔ نُمایَندے کی رپورٹ کے مطابِق حُجرۂ مُطَہَّرہ کی دیواروں کی’’ خدمت‘‘ کی اَشَد ضَرورت تھی اور خاص طور پر پنج گوشہ شریف کی شَرْقی (EAST) دیوار کی بھی کہ اس میں کچھ دَراڑیں پڑنی شروع ہوگئی تھیں ۔چُنانچہِ 14 شَعبانُ المعظم 881 سنِ ہجری کو پنج گوشہ شریف کے مُتأَثِّرہ حصّے نکال لیے گئے، ساتھ ہی ساتھ حُجرۂ مُطَہَّرہ کی پُرانی چھت شریف بھی ہٹالی گئی اور شَرْقی جانِب تقریباً ایک تِہائی حصّے پر چھت ڈال دی گئی جس سے یہ ایک تہ خانے کی مانِند نظر آنے لگا، جب کہ باقی کے دو تِہائی حصّے پر چھت کی ترکیب نہیں کی گئی بلکہ اِس کے اوپرتینوں مبارَک قبروں کے سِرہانوں کی جانب مُنَقَّش پتّھروں سے بناہوا ایک چھوٹا سا مگر عَظَمت میں بَہُت بڑاگنبد حُجرۂ پاک پر تعمیر کردیا گیا اُس کے اوپر سفید سنگِ مرمر لگایا گیا اور پیتل کا ہِلال(چاند) نَصْب کردیا گیا۔ اس کے اوپر مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی چھت کو مزید بُلند کردیا گیا تاکہ یہ چھوٹا گنبد اپنے ہِلال(چاند) سمیت مسجدِکریم کی چھت شریف کے نیچے آجائے ۔پھراس کے اوپر بڑا گنبد شریف تعمیر کیا گیا۔17 شَعبانُ المُعظَّم 881 ہجری کو حُجرۂ مُطَہَّرہ کی ’’خدمت‘‘ اور تعمیرِ نو کا کام شُروع ہوا اور دو ماہ میں مکمَّل ہوا،یہ کام 7 شوّالُ المکرم 881 ہجری کو ختْم ہوا۔سلطان قایتبائی مُؤَرَّخہ 22 ذُوالْحِجّۃِالحرام 881ھ کو مدینۃُ المنورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً حاضِر ہوئے اور اُنہوں نے اُسی مقام سے حاضِری دی جہاں سے عوامُ النّاس کھڑے ہو کر سلام عَرض کرتے ہیں ( یعنی جالی مبارک کے سامنے کھڑے ہو کرمُواجَھَہ شریف کے سامنے سے)۔ جب انہیں جالی مبارَک کے اندر داخِل ہونے کی عَرْض کی گئی تو فرمانے لگے :میں اِس قابل کہاں !اگر ممکن ہوتا تومیں مُواجَھَہ شریف سے بھی دُور کھڑے ہو کر سلام عرض کرتا۔
نہ ہم آنے کے لائق تھے نہ قابِل منہ دکھانے کے
مگر اُن کا کرم بندہ نواز و بندہ پرور ہے (ذوق نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مُؤَذِّن پر دورانِ اذان آسمانی بجلی گری
13 رَمَضان المبارَک 886ہجری کو آسمان ِ مدینہ کا مطْلَع اَبر آلود تھا،مؤذِّن صاحب حسبِ معمول مینارۂ رئیسیہ پر اذان دینے کی غَرَض سے چڑھے ہی تھے کہ اچانک ان پربجلی گری، مؤذِّن صاحِب موقع پر ہی شہید ہوگئے اور مینارۂ رئیسیہ مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جانب گر پڑا، مسجدِکریم میں آگ بھڑک اٹھی، ناگہانی آگ کی لپیٹ میں آکر اور بھگدڑ وغیرہ میں مزید دس آدَمی فوت ہوئے، آگ اور مَنارے کے گرنے سے گنبد شریف کوبھی ’’صدمہ‘‘ پہنچا اور کچھ مَلْبہ حُجْرَۂ مُطَہَّرہ کے اندر بھی حاضِری کے لئے جا پہنچا،تاہم حُجرئہ شریفہ’’صدمے‘‘سے محفوظ رہا، اگرچِہ فوری نوعیت کی’’ تعمیری خدمت‘‘ تو کروادی گئی مگر مکمَّل تفصیلات کے ساتھ سلطان قایِتْبائی کو 16 رَمَضانُ المبارَک کو قاصد کے ذَرِیعے پیغام بھیج دیا گیا۔سلطان نے مِصْر سے ضَروری سامان اور ایک سو سے زیادہ معمار ، کاریگر اور مزدور مدینۃُ المُنّورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً روانہ کردیئے۔کام شروع کردیا گیا، باہَر والا گنبدشریف جس کو بہت زیادہ’’صدمہ‘‘ پہنچا تھا مکمَّل طور پر ہٹالیا گیا، سلطان قایِتْبائیکے حکم سے 892 سن ہجری میں باہَر کی جانب ایک نیا گنْبدشریف تعمیر کیا گیا جو کہ صدیوں تک قائم رہا۔
سبز گنبد کب بنایا
کسی ضَرورت کی وجہ سے ترکی سلطان محمود بن عبدالحمید خان نے سلطان قایِتْبائیکا بنوایا ہوا گنبد شریف شہیدکرواکر 1233 ہجری میں دوبارہ گنبد تعمیر کروادیا۔1253ھ مطابق 1837ء میں اِسے سبز رنگ کردیا گیا اور اس کے سبز رنگ کی وجہ سے اسے گنبدِ خضرا کہا جاتا ہے۔ اِس میں 67 روشن دان ہیں ، جن میں سے کچھ تو گول شکل کے ہیں اور باقی مُستَطِیل(یعنی لَم چَورَس) ہیں ۔
گنبد ِخضرا خدا تجھ کو سلامت رکھے
دیکھ لیتے ہیں تجھے پیاس بجھا لیتے ہیں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دونوں گنْبدوں میں ایک چھوٹا سا سوراخ رکھا گیا
نچلے گنبد شریف کے اوپر ایک ایسا سوراخ رکھا گیا ہے جس سے قبر شریف اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں رہتی، اس پر ایک باریک جالی لگائی گئی ہے تاکہ اس میں کبوتر وغیرہ داخل نہ ہوسکیں ۔ اور بالکل اِسی طرح اس کے عین اوپر گنبدِ خضرا میں جُنوب کی سَمت ہلال(چاند) کے نیچے بھی سوراخ رکھا گیاتھا، جب کبھی قَحْط کا سامنا ہوتااہلِ مدینہ اِس رَوزن(سوراخ شریف) کو کھول دیا کرتے تھے، جونہی دھوپ کی کرنیں حجرہ مُطَہَّرہ کے اندر حاضِری کی سعادت پاتیں ، بادَل پانی لیکر حاضِر ہوجاتے اور اہلِ مدینہ کے لیے خوب بارانِ رحمت برساتے ۔اب اسے بند کردیاگیا ہے۔
بَادَل گھرے ہوئے ہیں بارِش برس رہی ہے
لگتا ہے کیا سُہانا میٹھے نبی کا روضہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
گنْبد شریف کے مختلف رنگ
گنبد شریف کے مختلف اَدوار میں مختلف رنگوں کی وجہ سے اسے ان رنگوں کی نسبت سے شہرت رہی ہے، مثلاً جب اس کا رنگ سفید تھا تو اسے ’’قُبَّۃُ الْبَیْضَاء‘‘کہتے، جب نیلا رنگ ہوا تو اسے ’’قُبَّۃُ الزَّرْقَاء‘‘کہنے لگے، اور پھر 1253 ھ مطابق 1837ء سے اب تک یہ سبز رنگ کی وجہ سے ’’قُبَّۃُ الْخَضْراء‘‘(یعنی سبز گنبد) کے نام سے مشہورہے۔ یہ نہایت دلآویز، بہت ہی پیارااور عاشِقانِ رسول کی آنکھوں کا تا را ہے،دنیا بھر کے عاشِقان رسول اس سے بے حد محبت کرتے ہیں اور اس کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کی بے شمار مسجدوں کے گنبد ’’ گنبد خضرا‘‘ کی یاد میں سبز رنگ کے بنائے جاتے ہیں ۔ بعض مساجِدپر تو گنبدوں کی شکل و شباہت اورسبز رنگت میں کافی مشابہت(یعنی یکسانیت) دیکھی جاتی ہے جس کی ایک مثال بابری چوک باب المدینہ کراچی میں واقِع مسجِد کنزالایمان پر بنا ہوا سبز سبز گنبد ہے ۔
کیسا ہے پیارا پیارا یہ سبز سبز گنبد کتنا ہے میٹھا میٹھا میٹھے نبی کا روضہ (وسائلِ بخشش ص۲۹۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(11): ’’ حج و عمرہ کے دوران دعا قبول ہونے کے 29 مقامات ‘‘
یوں توحَرَمَیْن شَرِیْفَیْن میں ہر جگہ اَنوار و تَجلّیات کی چھَماچھَم برسات برس رہی ہے تاہم ’’ اَحْسَنُ الْوِعَاء لآدابِ الدُّعاء ‘‘ سے بعض دُعا قَبول ہونے کے مخْصوص مَقامات کا ذِکر کیا جاتا ہے۔ تاکہ آپ اُن مَقامات پر مزید دِل جَمعی اور توجُّہ کے ساتھ دُعا کرسکیں ۔
مَکَّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے مَقامات یہ ہیں : {1} مَطاف {2} مُلتَزَم {3} مُسْتَجار {4} بیتُ اللّٰہ کے اَندر {5} میزابِ رَحمت کے نیچے {6} حَطِیْم {7} حَجرِاَسوَد {8} رُکنِ یَمانی خُصوصاً جب دَورانِ طواف وہاں سے گزر ہو {9} مَقامِ اِبراہیم کے پیچھے {10} زَم زَم کے کنویں کے قریب {11} صَفا {12} مروہ {13} مَسعٰی خُصوصاً سبز میلوں کے درمیان {14} عَرَفات خُصوصاً موقِفِ نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نزدیک {15} مزدَلِفہ خُصوصاً مَشْعَرُالحرام {16} مِنٰی {17} تینوں جَمرات کے قریب {18} جب جب کَعْبہ مشَرَّفہ پر نظر پڑے۔مدینہ مُنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے مَقامات یہ ہیں : {19} مسجدِنبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام {20} مُواجَھَہ شریف ، اِمام اِبنُ الجزری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : دُعا یہاں قَبول نہ ہوگی تو کہاں قَبول ہوگی (حصن حصین ص۳۱) {21} منْبرِاطہر کے پاس {22} مسجدِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سُتونوں کے نزدیک {23} مسجدِ قُبا شریف {24} مسجدُ الفتح میں خُصوصاً بدھ کوظہر وعَصر کے دَرمِیان {25} باقی مساجدِ طیِّبہ جن کو سرکارِمدینہ ، سُکونِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت ہے (مَثَلاً مسجدِغَمامہ ، مسجدِ قِبْلَتَین وغیرہ وغیرہ ) {26} وہ مُبارَک کُنویں جنہیں سَروَرِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت ہے {27} جَبَل اُحُد شریف {28} مَشَاہَدِ مُبارَکہ(مَشَاہد جمع ہے مَشہَد کی اور مشہد کا معنیٰ ہے: ’’حاضِر ہونے کی جگہ‘‘یہاں مراد یہ ہے کہ جس جس مقام پر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے گئے وہاں دعا قَبول ہوتی ہے اور خُصُوصاً مکۂ مکرَّمہ اور مدینۂ منوَّرہ زَادَھُمَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں بے شمار مقامات پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہوئے مَثَلاً حضرتِ سیِّدُنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا مقدّس باغ وغیرہ) {29} مزاراتِ بقیع۔تاریخی روایات کے مطابِق جنتُ البقیع میں تقریباً دس ہزار صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانآرام فرما ہیں ۔
افسوس! 1926 میں جنَّتُ البقیع کے مزارات کو شہید کردیا گیااب جگہ جگہ مبارک قبریں مسمار کرکے وہاں راستے نکال دیئے گئے ہیں لہٰذا آج تک سگِ مدینہ عفی عنہ کو جنَّتُ البقیع کے اندر داخِلے کی جُرأَت نہیں ہوئی مَبادا (یعنی کہیں ایسانہ ہو) کسی مزارِ فائض الانوار پر پاؤں پڑ جائے اور مسئلہ بھی یِہی ہے کہ قبرمسلم پر پاؤں رکھنا ، بیٹھنا وغیرہ سب حرام ہے۔ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کا مطبوعہ 48 صَفْحات پر مشتمل رسالہ ، ’’ قبروالوں کی 25 حکایات ‘‘ صَفْحَہ34پر ہے: (قبرِستان میں قبریں مِٹا کر) جونیاراستہ نکالا گیاہو اُس پرچلنا حرام ہے۔ (رَدُّالْمُحتارج ۱ ص ۶۱۲ ) بلکہ نئے راستے کا صِرف گمان ہو تب بھی اُس پر چلنا ناجائز وگناہ ہے۔ (دُرِّمُختارج۳ص۱۸۳ ) لہٰذا عاشقانِ رسول سے درخواست ہے کہ وہ باہَر ہی سے سلام عرض کریں ۔بقیع شریف کے صدر دروازے سے سلام عرض کرناضَروری نہیں ، صحیح طریقہ یہ ہے کہ قبرِستان کے باہَرایسی جگہ کھڑے ہوں جہاں آپ کی قبلے کو پیٹھ ہو کہ اِس طرح مدفونینِ بقیع کے چہروں کی طرف آپ کا رُخ ہو جائیگا۔
ہیں مَعاصی حد سے باہَر پھر بھی زاہِد غم نہیں
رحمتِ عالم کی اُمّت ، بندہ ہوں غفّار کا (سامانِ بخشش )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(12): ’’ جنّت کی ۲۲ جھلکیاں ‘‘
سبحٰنَ اللہ!سبحٰنَ اللہ !سبحٰنَ اللہ! جنَّت کی عظمت کی بھی کیا ہی بات ہے!دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ''بہارِ شریعت''جلد اوّل صَفْحَہ 152 تا 162 پر تحریر کردہ ''جنَّت کا بیان ''میں سے چند جھلکیاں مُلاحَظہ فرمایئے ، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ منہ میں پانی آ جائیگا ۔ اللہ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی رحمت بھری جنَّت کی چاہت میں بے تاب ہو جایئے اور اسے پانے کی جِدو جَہْد تیز تر کر دیجئے چُنانچِہ لکھا ہے:* اگرجنَّت کی کوئی ناخُن بھَر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام آسمان و زمین اُس سے آراستہ ہو جائیں اور* اگرجنَّتی کا کنگن(یعنی کلائی کا ایک زیور)ظاہر ہو تو آفتاب(سورج)کی روشنی مٹادے، جیسے آفتاب ستاروں کی روشنی مٹا دیتا ہے* جنَّت کی اتنی جگہ جس میں کَوڑا (چابُک ، دُرّہ)رکھ سکیں دنیا و مافِیہا (یعنی دنیا اور اس کے اندر جو کچھ ہے اُس )سے بہتر ہے جنَّت کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں اور مُشک کے گارے سے بنی ہیں جنَّتیوں کو جنَّت میں ہر قسم کے لذیذ سے لذیذ کھانے ملیں گے، جو چاہیں گے فوراً ان کے سامنے موجود ہو گا* اگر کسی پرند کو دیکھ کر اس کے گوشت کھانے کو جی ہو تو اُسی وقت بُھنا ہوا اُن کے پاس آجائے گا أ اگر پانی وغیرہ کی خواہش ہو تو کوزے خود ہاتھ میں آجائیں گے، ان میں ٹھیک اندازے کے مُوافِق پانی، دودھ، شراب، شہد ہوگا کہ ان کی خواہش سے ایک قطرہ کم نہ زیادہ، بعد پینے کے خودبخود جہاں سے آئے تھے چلے جائیں گے* وہاں کی شراب دنیا کی سی نہیں جس میں بدبُو اور کڑواہٹ اور نشہ ہوتا ہے اور پینے والے بے عقل ہو جاتے ہیں، آپے سے باہَر ہو کر بیہودہ بکتے ہیں، وہ پاک شراب اِن سب باتوں سے پاک و مُنَزَّہ ہے ؤہاں نَجاست، گندَگی، پاخانہ، پیشاب، تھوک، رینٹھ، کان کا میل، بدن کا میل اَصْلاً(یعنی بِالکل)نہ ہوں گے* ایک خوشبو دارفَرحت بخش ڈکار آئے گی، خوشبو دار فرحت بخش پسینہ نکلے گا* سب کھانا ہضم ہوجائے گا اور* ڈکا ر اور پسینے سے مُشک کی خوشبو نکلے گی ہر وَقت زَبان سے تسبیح و تکبیر بہ قَصد(یعنی ارادۃً)اور بِلاقَصد (یعنی بِلا ارادہ)مِثلِ سانس کے جاری ہوگی کم سے کم ہر شخص کے سِرہانے دس ہزار خادِم کھڑے ہونگے، خادِموں میں ہر ایک کے ایک ہاتھ میں چاندی کا پیالہ ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں سونے کا اور ہرپِیالے میں نئے نئے رنگ کی نعمت ہو گی، جتنا کھاتا جائے گا لذّت میں کمی نہ ہوگی بلکہ زیادَتی ہوگی ، ہر نوالے میں ستَّرمزے ہوں گے، ہر مزہ دوسرے سے مُمتاز، وہ(مزے)مَعاً(یعنی ایک ہی ساتھ )محسوس ہوں گے، ایک کا احساس دوسرے سے مانِع(یعنی روکنے والا)نہ ہو گا * جنَّتیوں کے نہ لباس پُرانے پڑیں گے ، نہ ان کی جوانی فَنا ہوگی*اگر جنَّت کا کپڑا دنیا میں پہنا جائے تو جو دیکھے بے ہوش ہو جائے، اور لوگوں کی نگا ہیں اس کا تحمل (تَ۔حَم۔مُلْ یعنی برداشت)نہ کر سکیں*اگر کوئی حور سمندر میں تھوک دے تو اُس کے تھوک کی شیرینی(مٹھاس)کی وجہ سے سمندر شیریں(میٹھا)ہو جائے اور ایک روایت ہے کہ اگر جنَّت کی عورت سات سمندروں میں تھوکے تو وہ شہد سے زیادہ شیریں (یعنی میٹھے)ہو جائیں* سر کے بال اور پلکوں اور بھَووں کے سوا جنَّتی کے بدن پر کہیں بال نہ ہوں گے، سب بے رِیش ہوں گے، سُر مَگیں(یعنی سُرمہ لگی)آنکھیں، تیس برس کی عُمر کے معلوم ہوں گےکبھی اس سے زیادہ معلوم نہ ہوں گے *پھر لوگ(اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے)ایک بازار میں جائیں گے جسے ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں، اُس میں وہ چیزیں ہوں گی کہ ان کی مثل نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سنی، نہ قُلوب(یعنی دلوں) پر ان کا خطرہ (خیال)گزرا، اس میں سے جو (چیز)چاہیں گے، اُن کے ساتھ کر دی جائے گی اور خریدوفروخت نہ ہوگی اور * جنّتی اس بازار میں باہم ملیں گے، چھوٹے مرتبے والا بڑے مرتبے والے کو دیکھے گا، اس کا لباس پسند کریگا، ہُنُوز(یعنی ابھی)گفتگو ختم بھی نہ ہوگی کہ خیال کریگا، میرا لباس اُس سے اچّھا ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جنت میں کسی کے لیے غم نہیں *جنّتی باہم ملنا چاہیں گے تو ایک کا تخت دوسرے کے پاس چلا جائے گا۔ اور اُن میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک سب میں مُعزَّز وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کے وجہِ کریم کے دیدار سے ہر صبح و شام مُشَرّف ہوگا * جب جنّتی جنَّت میں جا لیں گے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُن سے فرمائے گا: کچھ اور چاہتے ہو جو تم کو دوں؟ عرض کریں گے: تُو نے ہمارے منہ روشن کیے، جنَّت میں داخِل کیا، جہنَّم سے نَجات دی۔ اُس وقت پردہ کہ مخلوق پر تھا اُٹھ جائے گا تو دیدارِ الٰہی سے بڑھ کر انھیں کوئی چیز نہ ملی ہوگی۔ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا زِیَارَۃَ وَجْھِکَ الْکَرِیْمِ بِجَاہِ حَبِیْبِکَ الرَّؤُوفِ الرَّحِیْمِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیمُ، اٰمین! (ترجمہ:یااللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے حبیب رء وفٌ رَّحیم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیم کے صدقے اپنا دیدار نصیب فرما،اٰمین)
ہو نظرِ کرم بہرِ ضِیا سُوئے گنہگار
جنَّت میں پڑوسی مجھے آقا کا بنا دے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
تُوبُوا اِلَی اللہ ! اَسْتَغْفِرُاللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد