(01): ’’ نیّت ‘‘
ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے
قراٰنِ کریم کے بعد سب سے زیادہ مُعتبر کتاب بخاری شریف ہے،اِس کی سب سے پہلی حدیثِ پاک ہے: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ یعنی اَعمال کا دارومدار نیَّتوں پر ہے۔ (بُخاری ج۱ ص۶حدیث۱) اِس حدیثِ پاک کے بارے میں شارِحِ بخاری حضرت مفتی شریف الحق اَمجدی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں:اِس حدیث کا یہ مطلب ہوا کہ اعمال کا ثواب نیّت ہی پر ہے،بِغیر نیّت کسی ثواب کا اِستِحقاق(یعنی حَقدار)نہیں۔ (نزھۃُ القاری ج ۱ ص ۱۷۲)
اچّھی نیتوں کے متعلق 2 فرامینِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ و سلم
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ853 صَفحات پر مشتمل کتاب،’’جہنَّم میں لے جانے والے اعمال‘‘ صَفْحَہ173تا174سے اچّھی نیّتوں کے فضائل پر دو فرامینِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ملاحَظہ فرمایئے:(1)سچّی نیّت سب سے افضل عمل ہے۔ (اَ لْجَامِعُ الصَّغِیر ص۸۱حدیث ۱۲۸۴)(2)اچّھی نیّت بندے کو جنّت میں داخِل کرے گی۔ (اَ لْجَامِعُ الصَّغِیر ص۵۵۷ حدیث ۹۳۲۶ )
نیت کسے کہتے ہیں
نیّت،دل کے پُختہ اِرادے کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی چیز کا ہو۔اور شریعت میں(نیّت)عبادت کے اِرادے کوکہتے ہیں۔ (نُزہۃُ القاری ج۱ص۱۶۹)
مُباح کام اچّھی نیت سے عبادت ہو جاتا ہے
بَہُت سارے کام مُباح ہیں،مُباح اُس جائز عمل یافِعل(یعنی کام)کو بولتے ہیں جس کا کرنا نہ کرنا یکساں ہو یعنی ایسا کام کرنے سے نہ ثواب ملے نہ گناہ۔مَثَلًا کھانا پینا،سونا،ٹہلنا،دولت اِکٹّھی کرنا،تحفہ دینا،عمدہ یا زائد لباس پہننا وغیرہ کام مُباح ہیں۔اگر تھوڑی سی توجُّہ دی جائے تو مُباح کام کو عبادت بنا کر اُس پر ثواب کمایا جاسکتا ہے،اِس کا طریقہ بیان کرتے ہوئے میرے آقااعلیٰ حضرت،امامِ اہلِسنّت،مجدِّدِ دین وملّت،مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:ہرمُباح(یعنی ایسا جائز عمل جس کا کرنا نہ کرنا یکساں ہو)نیّتِ حَسَن(یعنی اچّھی نیّت)سے مُستَحَب ہو جاتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ج ۸ ص ۴۵۲) فُقَہائے کرام رحمھم اللہ السلام فرماتے ہیں:مُباحات(یعنی ایسے جائز کام جن پر نہ ثوا ب ہو نہ گناہ ان)کاحُکم الگ الگ نیّتوں کے اِعتِبار سے مختلف ہوجاتاہے،اس لئے جب اس سے(یعنی کسی مباح سے )طاعات(یعنی عبادات)پر قُوَّت حاصِل کرنا یاطاعات(یعنی عبادات )تک پہنچنا مقصود ہو تو یہ(مُباحات یعنی جائز چیزیں بھی )عبادات ہوں گی مَثَلًا کھانا پینا،سونا،حُصولِ مال اور وَطی کرنا۔ (اَیضًا ج۷،ص۱۸۹،رَدُّالْمُحتار ج۴ ص۷۵)
مُباح کام میں اچّھی نیتیں نہ کرنے والے نقصان میں ہیں
اگر کوئی مُباح کام بُری نیّت سے کیا جائے تو بُرا ہو جائے گا اور اچّھی نیَّت سے کیا جائے تو اچّھا اور کچھ بھی نیّت نہ ہو تو مُباح رہے گا اور قِیامت کے حساب کی دُشواری دَر پیش ہو گی۔لہٰذا عقلمند وُہی ہے کہ ہر مُباح کام میں کم از کم ایک آدھ اچّھی نیّت کرہی لیا کرے،ہو سکے تو زیادہ نیتیں کرے کہ جتنی اچّھی نیّتیں زیادہ ہوں گی اُتنا ہی ثواب زیادہ ملے گا۔نیّت کا یہ بھی فائدہ ہے کہ نیّت کرنے کے بعد اگروہ کام کسی وجہ سے نہ کر سکا تب بھی نیّت کا ثواب مل جا ئے گا جیسا کہ فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہے: نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ یعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہترہے۔
(اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۶ ص۱۸۵حدیث ۵۹۴۲)
نِیّت نہ کرنے کے نقصان اور کرنے کے فائدے کی رِوایت
مُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق،خاتِمُ المُحَدِّثین،حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:روایت میں آیا ہے،جب فرِشتے بندوں کے اعمال ناموں کو آسمانوں پر لے کر جاتے اور دربارِ الٰہی میں پیش کرتے ہیں تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلْقِ تِلْكَ الصَّحِیْفَۃَ اَلْقِ تِلْكَ الصَّحِیْفَۃَ یعنی ’’ اِس نامۂ اعمال کو پھینک دو،اِس نامۂ اعمال کو پھینک دو۔‘‘فرِشتے عَرض کرتے ہیں:یا اللہ !تیرے اِس بندے نے جو نیک اَعمال کیے ہیں ان کو ہم نے دیکھ کر اورسُن کر لکھا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ لَمْ یُرِدْ وَجْھِیْ یعنی ’’ اِس بندے نے ان اعمال میں میری رِضا کی نیّت نہیں کی تھی،‘‘ اِس لیے یہ میرے دربار میں مقبول نہیں۔پھر ایک دوسرے فرِشتے کواللہ تعالیٰ یہ حُکم فرماتا ہے کہ اُکْتُبْ لِفُلَانٍ کَذَا وَکَذَا یعنی ’’ فُلاں بندے کے نامۂ اعمال میں فُلاں فُلاں عمل لکھ دے۔‘‘فِرِشتہ عَرض کرتا ہے:’’ یا اللہ ! یہ عمل تو اس بندے نے نہیں کِیا!‘‘اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:گو اس نے یہ عمل نہیں کیا مگر اِس کی نیّت تو اِس عمل کے کرنے کی تھی اس لیے میں اس کی نیّت پر اس کو اس عمل کا اَجر دوں گا۔ (حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۲ص۳۵۶ رقم ۲۵۴۸ وغیرہ) حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبد الحق مُحدِّث دِہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی مزید فرماتے ہیں:حدیث ِ مبارَکہ میں یہ بھی آیا ہے، نِیَّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ یعنی’’ مومِن کی نیّت اُس کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۶ ص۱۸۵حدیث ۵۹۴۲) ظاہِر ہے کہ نیک عمل پر تو ثواب اُسی وقت ملے گا جب کہ نیّت اچّھی ہو اور اگر نیّت بُری ہو تو نیک عمل پر کوئی ثواب ہی نہیں،مگر اچّھی نیّت پر تو بَہَرحال ثواب ملے گا خواہ عمل کرے یا نہ کرے۔اس لیے کہ مومِن کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔اسی لیے بعض بُزُرگانِ دین رحمھم اللہ المبین نے فرمایا ہے
ہر کرا اندر عمل اِخلاص نَیست
در جہاں از بندگانِ خاص نَیست
یعنی جس کے عمل میں اِخلاص نہیں وہ دُنیا میں اللہ عزوجل کے خاص بندوں میں سے نہیں ہے ؎
ہر کرا کار از برائے حق بُوَد
کارِ اُو پَیوَستَہ بارَونق بُوَد
یعنی جس کا عمل رِضائے ربِّ لَم یَزَل کے لیے ہوتا ہے ہمیشہ اُس کا عمل بارونق رہا کرتا ہے۔ (اشعۃُ اللمعات ج۱ ص ۳۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اچّھی نیّت اچّھا اور بُری نیّت بُرا پھل لاتی ہے۔بلکہ بَسا اوقات بُری نیّت کا بُرا پھل ہاتھوں ہاتھ ظاہِر ہو جاتا ہے۔اس ضِمن میں دو حکایات پیشِ خدمت ہیں چُنانچِہ
انوکھی گائے
حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں:ایک بادشاہ ایک بار اپنی سلطنت کے دَورے پر نکلا۔اِس دَوران ایک شخص کے پاس اُس کا قِیام ہوا،(مَیزبان بادشاہ کو جانتا نہ تھا)میزبان نے شام کو اپنی گائے کو دَوہا تو بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اُس سے 30 گایوں کے برابر دودھ نکلا! اُس نے دل ہی دل میں وہ انوکھی گائے چھین لینے کی بُری نیّت کر لی۔دوسرے روز شام کو اُس گائے سے آدھادودھ نکلا،بادشاہ نے جب تَعَجُّب کا اظہار کیا تو میزبان کہنے لگا:’’ بادشاہ نے اپنی رِعا یا کے ساتھ ظلم کی نیّت کی ہے جس کی نُحُوست سے آج دودھ آدھا ہو گیا ہے کہ جب بادشاہ ظالِم ہو تو بَرَکت ختم ہو جاتی ہے ‘‘ یہ حیرت اِنگیز اِنکِشاف سُن کر بادشاہ نے انوکھی گائے ظُلمًا چِھین لینے کی نیّت ختم کر دی۔چُنانچِہ دوسرے دن گائے نے پھر اُتنا ہی دودھ دیا جتنا پہلے دیا تھا۔اِس واقِعے سے بادشاہ کو بَہُت عبرت حاصِل ہوئی اور اُس نے اپنی رِعایا پر ظُلم کرنا بند کر دیا۔ (مُلَخَّص ازشُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۵۳رقم۷۴۷۵)
گنّے کا ٹھنڈا میٹھا رس
ایران کے بادشاہوں کا لقب پہلے ’’کِسریٰ‘‘ ہوا کرتا تھا جس طرح مِصر کے تمام بادشاہ’’ فرعون‘‘ کہلاتے تھے۔ایک بار ایک بادشاہِ کسریٰ اپنے لشکر سے بچھڑ کر کسی باغ کے دروازے پر جا پہنچا،اُس نے پینے کیلئے پانی مانگا تو ایک بچّی گنّے کا ٹھنڈا میٹھا رس لے آئی۔بادشاہ نے پیا تو بَہُت لذیذ تھا،اُس نے بچّی سے اِستِفسار کیا(یعنی پوچھا):کیسے بناتی ہو؟ اُس نے بتایا کہ اِس باغ میں بَہُت اعلیٰ قسم کے گنّوں کی پیداوار ہوتی ہے،ہم اپنے ہاتھوں سے گنّے نِچوڑ کر رس نکال لیتے ہیں! بادشاہ نے ایک اور گلاس کی فرمائش کی،وہ لینے گئی،اِس دَوران بادشاہ کی نیّت خراب ہو گئی اور اس نے طے کر لیا کہ میں یہ باغ زبردستی لے کر دوسرا باغ ان کو دیدوں گا۔اِتنے میں وہ بچّی روتی ہوئی آئی اور کہنے لگی:ہمارے بادشاہ کی نیّت خراب ہو گئی ہے۔بادشاہ بولا:تمہیں اِس کاکیسے عِلم ہوا؟ کہنے لگی:’’ پہلے بآسانی رس نِچُڑ جاتا تھا لیکن اب کی بارخوب زور لگانے کے باوُجُود بھی میں رس نہ نکال سکی۔‘‘ بادشاہ نے فورًا باغ چھیننے کی بُری نیّت تَرک کر دی اور کہا:ایک بار پھر جاؤ اورکوشِش کرو۔چُنانچِہ وہ گئی اور بآسانی رس نکال کر لانے میں کامیاب ہو گئی۔ (حیاۃ الحیوان الکبریٰ ج۱ص۲۱۶،المنتظم فی تاریخ الملوک والامم لابن الجوزی ج۱۶ ص۳۱۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب بھی کسی سنّت وغیرہ پر عمل کرنے کا موقع ہو اُس وقت دل میں نیّت حاضِر ہونی ضَروری ہے۔مَثَلًاکپڑے پہنتے وَقت پہلے سیدھی آستین میں ہاتھ ڈالا،یا اُتارتے وَقت اُلٹی آستین سے پَہَل کی،اِسی طرح جوتے پہننے اُتارنے میں حسبِ عادت یِہی ترکیب بنی یہ سب سنّتیں ہیں مگر عمل کرتے وَقت سُنَّت پر عمل کی بِالکل ہی نیّت دل میں نہیں تھی تو یہ عمل’’عبادت‘‘ نہیں،’’ عادت‘‘ کہلائے گا سنَّت کاثواب نہیں ملے گا۔
نیت کے متعلق ایک معلوماتی فتویٰ
دعوتِ اسلامی کے ماتحت چلنے والے ’’ دارُالافتاء اہلسنَّت‘‘ کا نیّت کے مُتَعَلِّق ایک معلوماتی فتویٰ مُلاحَظہ فرمایئے:بے شک بِغیر نیّت کے کسی عملِ خیر کاثواب نہیں ملتا بلکہ اس طرح یہ(بِلا نیّت کی جانے والی)عبادَتیں ’’عادَتیں‘‘ بن جا تی ہیں۔کسی عملِ خیر میں نیَّت کا مطلب یہ ہے کہ جوعمل کیا جا رہاہے دل اس کی طرف مُتَوَجِّہ ہو اور وہ عمل اللہ تعالیٰ کی رِضا کے لئے کیاجا رہا ہو،اس نیَّت سے عبادت اورعادت میں فرق کرنا مقصود ہوتا ہے۔اس سے پتا چلا کہ دل کا مُتَوَجِّہ ہونا اوراللہ تعالیٰ کی رِضا پیشِ نظر ہونا ہی نیَّت ہے اور اِسی سے عبادت اور عادت میں فرق ہوتا ہے لہٰذا اگر عبادت میں نیّت کرلی جائے تو ثواب ملتا ہے اور اگر نیَّت نہ کی جائے تو عمل عادت بن جاتا ہے اور اس پر ثواب بھی نہیں ملتا جیسا کہ حضرت علّامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: اَلنِّیَّۃُ لُغَۃً:اَلْقَصْدُ وَشَرْعًا تَوَجُّہُ الْقَلْبِ نَحْوَالْفِعْلِ ابْتِغَاءً لِّوَجْہِ اللّٰہِ وَالْقَصْدُ بِھَا تَمْیِیْزُالْعِبَادَۃِ عَنِ الْعَادَۃِ۔ یعنی نیّت کے لُغوی معنیٰ ہیں:’’قصدوارادہ‘‘ اورشرعی معنیٰ ہیں:جو عمل کرنے لگے ہیں، دل کو اُس کی طرف مُتَوَجِّہ کرنا اور وہ عمل اللہ عزوجل کی رِضا کے لئے کیاجا رہا ہو اور نیَّت سے’’ عبادت ‘‘ اور ’’ عادت‘‘ میں فرق کرنا مقصود ہوتا ہے۔ (مِرقاۃُ المفاتیح ج ۱ ص ۹۴) لیکن اس کے ساتھ یہ یاد رہے کہ بَہُت سے اعمال ایسے ہیں کہ جن میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ محض عادت کے طور پر کر رہے ہیں حالانکہ اِس میں بھی ’’عبادت کی نیَّت‘‘ موجود ہوتی ہے اور اس کا اِحساس اِس لئے کم ہو تا ہے کہ ابتِداء ًیا بطور ِ خاص جس قَدَر توجُّہ دی جاتی ہے وہ بارہا عمل کرنے کی وجہ سے برقرار نہیں رہتی۔ہاں اگر اَصلًا(یعنی بِالکل )ہی نیَّت کچھ نہ ہو تو اُس پر واقِعی کوئی ثواب نہیں۔وَاللّٰہُ تَعالٰی وَرَسُولُہٗ اَعلَم! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
اچّھی نیتوں کی توفیق کسے ملتی ہے
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابو حامد محمدبن محمد بن محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں:ہر مُباح کام(یعنی جائز کام جس کے کرنے میں نہ ثواب ہو نہ گناہ)ایک یا زیادہ نیتوں کا اِحتِمال(یعنی امکان)رکھتا ہے جس کے ذَرِیعے وہ مُباح کام عمدہ عبادات میں سے ہو جاتا ہے اور اس کے ذَرِیعے بُلند دَرَجات حاصِل ہوتے ہیں۔وہ انسان کتنے بڑے نقصان میں ہے جو مُباح کاموں کو اچّھی نیتوں کے ذَرِیعے ثواب والے کام بنانے کے بجائے جانوروں کی طرح غفلت سے بجالاتا اور خود کو ثوابوں سے محروم رکھتاہے۔بندے کے لیے مناسِب نہیں کہ کسی خطرے(یعنی ذِہن میں آنے والے خیال)لَحظے(لَح۔ظے یعنی لمحے)اوراُٹھائے جانے والے قدم کو حقیر یعنی غیر اَہَم جانے،کیوں کہ ان تمام کاموں کے بارے میں قیامت کے دن سُوال ہو گا کہ کیوں کیا تھا؟ اور اس سے مقصود کیا تھا؟یہ بات(یعنی مُباح کا اچّھی نیّت کے ذَرِیعے عبادت بن جانا )صِرف اُن مُباح اُمُور کے بار ے میں ہے جن میں کراہَت نہ ہو۔اِسی لیے نبیِّ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: حَلالُھَا حِسَابٌ وَّ حَرَامُھَا عَذَابٌ۔ یعنی اِس کے حلال میں حساب ہے اور حرام میں عذاب۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخطّاب ج۵ ص۲۸۳ حدیث ۸۱۹۲) مزید فرماتے ہیں:جس کے دل میں آخِرت کی بھلائیاں اکٹھّی کرنے کا جذبہ ہوتا ہے اُس کیلئے اِس طرح کی نِیّتیں کرنا آسان ہوتاہے البتّہ جس کے دل میں دنیوی نعمتوں کا غلَبہ ہو اُس کے دل میں اِس طرح کی نِیّتیں نہیں آتیں بلکہ کوئی یاد دلائے تب بھی اُس کے اندر اِس قسم کی نیّتوں کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا اور اگر نیّت ہو بھی تو مَحض ایک خیال سا ہوتا ہے حقیقی نیّت سے اِس کا کوئی تعلُّق نہیں ہوتا! (اِحیاءُ الْعُلوم ج ۵ ص ۹۸)
واش روم جانے میں بھی نیتیں کرنی چاہئیں
بیتُ الخلا جانے میں بھی نیتیں کرنی چاہئیں ایک بُزُرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:میں ہر کام میں نیّت پسند کرتا ہوں حتّٰی کہ کھانے،پینے،سونے اور بیتُ الخلا(یعنی لیٹرین )میں داخِل ہونے کیلئے بھی۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج ۵ ص۹۸)
ایک صاحِب چھت پر بال بنا رہے تھے،اُنہوں نے اپنی بیوی کو آواز دی کہ میری کنگھی لانا۔عورَت نے پوچھا:کیا آئینہ بھی لیتی آؤں؟ وہ تھوڑی دیر خاموش رہے۔پھرفرمایا:ہاں۔کسی سُننے والے نے جواب فورًا نہ دینے کی وجہ دریافت کی توفرمایا:میں نے ایک نیّت کے ساتھ اپنی زوجہ کو کنگھی لانے کے لیے کہا تھا،جب اُنہوں نے آئینہ لانے کا پوچھا تو اُس وقت آئینے کے سلسلے میں میری کوئی نیّت نہ تھی لہٰذا میں نے نیّت بنانے کیلئے غوروفکر کیا،حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ تنے مجھے نیّت عنایت فرمائی اس پر میں نے کہدیا:ہاں۔وہ بھی لے آیئے۔ (قُوتُ القلُوب ج ۲ ص۲۷۴)
پہلے کے مسلمان باقاعدہ علمِ نیت سیکھتے تھے
حضرتِ سیِّدُناسُفیان ثَوری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا:’’ جیسے سَلَف(یعنی پہلے کے مسلمان)عِلم حاصِل کرتے تھے اسی طرح عمل کیلئے علمِ نیّت بھی سیکھتے تھے۔‘‘ (ایضًا ص۲۶۸) حضرتِ سیِّدُنا سَرِی سَقَطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:’’ خلوصِ نیّت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھناتیرے لیے ستّر احادیث لکھنے سے بہتر ہے۔‘‘ یا یہ فرمایاکہ’’ سات سو احادیث لکھنے سے بہتر ہے۔‘‘ (ایضًاص۲۷۶) حضرتِ سیِّدُنا ابنِ مبارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:’’ کئی چھوٹے عمل ایسے ہیں جن کو نیّت بڑا عمل بنا دیتی ہے۔‘‘ (ایضًاص۲۷۵)
غار کا عابد
لوگوں کو دکھانے اورواہ واہ کروانے کی نیّت سے کئے جانے والے پہاڑ جتنے بڑے بڑے اَعمال بھی نامقبول ہوتے ہیں چُنانچِہ منقول ہے:بنی اسرائیل کے ایک عابِد(یعنی عبادت کرنے والے)نے ایک غار میں چالیس برس تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی۔فرِشتے اُس کے اعمال لے کر آسمانوں پر جاتے اور وُہ قَبول نہ کیے جاتے۔فرِشتوں نے عرض کی:’’اے ہمارے پَروَردَگار تیری عزّت کی قسم ! ہم نے تیری طرف صحیح(اعمال)اُٹھائے ہیں۔‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے:اے میرے فرِشتوں ! تم نے سچ کہا،مگر(عبادت میں اُس کی نیّت بُری ہوتی ہے)وہ چاہتا ہے کہ اِس کامقام(سب کو)معلوم ہوجائے(یعنی رِیا وشہرت کا طلبگار ہے) (ایضًاص۲۶۴)
نیت کی بَرَکت سے مغفرت کی دلچسپ حِکایت
منقول ہے کہ ایک عَجَمی(یعنی غیر عَرَبی شخص)چند آدمیوں(عَرَبیوں )کے پاس سے گزرا جو بیٹھے مذاق اور چَھیڑ چھاڑ میں مصروف تھے۔(عَرَبی کے جملے سُن کر)وہ غریب سمجھا کہ یہ لوگ ذِکرُ اللہ عزوجل کر رہے ہیں،اس نے حُسنِ نیّت کے مطابِق(یعنی اچّھی نیّت کے ساتھ)اُن کی طرح کہنا شروع کر دیا۔کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اچّھی نیّت کی وجہ سے اُس عَجَمی کو بخش دیا۔ (ایضًاص ۲۶۳)
اچّھی نیتیں دشوار ہیں،اِس سے تو پیٹھ پر کوڑے کھانا آسان ہے
اچّھی اچّھی نیّتیں کرنے کیلئے ضَروری ہے کہ ذِہن حاضِر رہے،جو اچّھی نیّتوں کا عادی نہیں ہے اُسے شُروع میں بہ تَکلُّف اس کی عادت بنانی پڑے گی لہٰذا اِبتِداء ً اِ س کیلئے سر جُھکائے،آنکھیں بند کر کے ذِہن کو مختلف خیالات سے خالی کر کے یکسُو ہوجانا مُفید ہے۔اِدھر اُدھر نظریں گُھماتے ہوئے،بدن سہلاتے کُھجاتے ہوئے،کوئی چیز رکھتے اٹھاتے ہوئے یا جلد بازی کے ساتھ نیّتیں کرنا چاہیں گے تو شاید ہو نہیں پائیں گی۔نیتوں کی عادت بنانے کیلئے اِن کی اَھمِّیَّت پر نظر رکھتے ہوئے آپ کو سنجیدَگی کے ساتھ پہلے اپناذِہن بنانا پڑے گا۔حضرتِ سیِّدُنا نُعَیم بن حَمّاد علیہ رحمۃ اللہ الجواد فرماتے ہیں:’’ ہماری پیٹھ کا کوڑے کھانا اچّھی نیّت کے مقابلے میں آسان ہے۔‘‘ (تَنبیہُ المُغتَرِّین ص ۲۵)
دُنیوی نعمتوں کے سبب آخِرت کی نعمتوں میں کمی آئے گی
حُجَّۃُ الاسلام حضرتِ سیِّدُنا امام ابو حامد محمدبن محمدبن محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کا ارشادِ عالی ہے:’’اللہ عزوجل کی نعمتوں سے لُطف اندوز ہونا گناہ نہیں ہے،لیکن اِس سے سُوال ضَرور ہوگا اور جس سے حساب میں پوچھ گچھ ہوئی وہ ہلاک ہو جائے گا اور جو آدَمی دُنیا میں مُباح چیزوں کو استِعمال کرتا ہے اگرچِہ اِسے قِیامت میں اس پر عذاب نہیں ہوگا لیکن اِسی مقدار میں آخِرت کی نعمتیں کم ہوجائیں گی،غور تو کیجئے !کتنے بڑے نقصان کی بات ہے کہ انسان فانی نعمتوں کے حُصول میں بَہُت جلدی کرے اور اِس کے بدلے اُخرَوی(اُخ۔رَ۔وی)نعمتوں میں کمی کے ذَرِیعے نقصان اُٹھا ئے۔‘‘ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۵ص۹۸)
دُنیوی لذّات کا دل سے مٹا دے شوق تُو
کر عطا اپنی عِبادت کا الٰہی ذوق تُو
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
(نیکی کی دعوت ص۱۰۹ تا ۱۱۷)
(02): ’’ بسم اللہ شریف کے مدنی پھول ‘‘
(ابتدائی دس مَدَنی پھول تفسیر نعیمی پارہ اول صفحہ نمبر۴۴ سے لئے گئے ہیں)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم (۱) قراٰنِ پاک کی پوری آیت ہے مگر کسی سورت کا جُزْو نہیں بلکہ سُورتوں میں فاصِلہ کرنے کے لئے اُتاری گئی ہے اِسی لئے نَماز میں اِس کو آہِستہ ہی پڑھتے ہیں ہاں جو حافِظ تَراوِیح میں پورا قراٰنِ پاک ختْم کرے وہ ضَرور کسی نہ کسی سورت کے ساتھ ایک بار بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم زور سے پڑھے۔
(۲) سورہ توبہ کے علاوہ باقی ہر سورت بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سے شروع کیجئے اگر سورہ توبہ سے ہی تِلاوت شروع کریں تو تِلاوت کے لئے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ لیجئے۔
(۳) شامی میں ہے کہ حُقّہ پیتے وَقْت اور بدبو دار چیزیں (کچّی پیازو، لہسن وغیرہ)کھاتے وَقْت بسم اﷲ نہ پڑھنا بہتر ہے۔
(۴) استِنجاء خانہ میں پَہُنچ کر بسم اﷲ پڑھنا منع ہے۔
(۵) نَمازی نماز میں جب کوئی سورت پڑھے تو پہلے آ ہستہ سے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنا مُسْتَحب ہے ۔
(۶)جو صاحِبِ شان کام بِغیربسم اﷲ کے شروع کیا جائے گا اُس میں بَرَکت نہ ہو گی ۔
(۷)جب مُرد ہ کوقَبْر میں اُتارا جائے تو اُتارنے والے یہ پڑھتے جائیں
بسمِ اللہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ اﷲ۔(عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وا ٰلہٖ و سلَّم )
(ابتدائی دس مَدَنی پھول تفسیر نعیمی پارہ اول صفحہ نمبر۴۴ سے لئے گئے ہیں)
(۸) جُمُعہ ،عِیدَین ، نِکاح وغیرہ کاخُطبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ سے شروع کیا جائے یعنی (ابتداءً)بسمِ اﷲآہِستہ پڑھی جائے پھر جب قراٰنِ پاک کی آیت آئے تب خطیب بُلند آواز سے بسم اﷲپڑھے۔
(۹) جانور کو ذَبح کرتے وَقْت بسم اﷲ پڑھنا (یعنی اللہ کا نام لینا)واجِب ہے کہ اگر جان بوجھ کر چھوڑ دیا(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نام نہ لیا) توجانور مُردار ہو گا اگر بھولے سے چُھوٹ گئی تو جانور حلال ہے۔
(۱۰) (ذَبحِ اضطِراری مَثَلاً)شکاری تیریا بھالا وغیرہ دھار دار چیز سے شِکار کرے اور یہ چیزیں پھینکتے وَقْت بسم اﷲ پڑھ لے تو اگر جانور اس کے پاس پہنچتے پہنچتے مر بھی گیا تب بھی حلال ہو گا۔یونہی اگر پالتو جانور قبضے سے نکل گیا مَثَلاً گائے کنوئیں میں گِر گئی یا اونٹ بھا گ گیا تو بسم اﷲ کہہ کرتیر یا بھالایا تلوار ماردی گئی تو جانور حلال ہے۔(بسم اللہ پڑھ کر ڈنڈا یا پتّھر مارنے یابندوق سے گولی یا چھرّا چلانے سے وحشی جانور یا پرندہ مر گیا تو حرام ہے کیوں کہ یہ خون بہنے کے سبب نہیں بلکہ چوٹ سے مراہے۔ ہاں اگر زخمی حالت میں ہاتھ آگیا تو ذَبحِ شَرْعی سے حلال ہو جائے گا۔جو وحشی جانور یا پرندہ قبضے میں ہے اس کے حلال ہونے کیلئے ذَبحِ اِختیاری ضَروری ہے۔ یعنی اللہ کا نام لیکر اُس کوقاعدے کے مطابِق ذَبح کرنا ہو گا)
(۱۱)حضرت سیِّدُناشیخ ابوالعباّس احمدبن علی بونی رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،جو بِلاناغہ سات دن تک بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 786 بار ( اوّل آخِر ایک بار دُرُود شریف)پڑھے اِن شاءَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ اس کی ہر حاجت پوری ہو۔اب وہ حاجت خواہ کسی بھلائی کے پانے کی ہو یا برائی دورہونے کی یاکاروبارچلنے کی۔ (شمسُ المعارف مترجَم ص ۷۳)
(۱۲)جوکوئی سوتے وَقت بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 21بار(اوّل آخِرایک بار دُرُود شریف) پڑھ لے اِن شاءَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ اُس رات شیطان ، چوری ،اچانک موت اور ہر طرح کی آفت وبلاسے محفوظ رہے۔
(اَیضاًص ۷۳)
(۱۳) جوکسی ظالم کے سامنے بسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 50 بار(اوّل آخِر ایک بار دُرُود شریف)پڑھے اُس ظالم کے دل میں پڑھنے والے کی ہَیبت پیداہواوراس کے شَرسے بچارہے۔ (اَیضاًص۷۳ )
(۱۴)جوشخص طُلُوعِ آفتاب کے وَقْت سورج کیطرف رُخ کرکے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 300بار اوردُرُودشریف300 بار پڑھے اﷲعَزَّوَجَلَّ اُس کوایسی جگہ سے رِزْق عطافرمائیگاجہاں اس کاگمان بھی نہ ہوگااور(روزانہ پڑھنے سے) اِن شاءَ اﷲعَزَّوَجَلَّ ایک سال کے اندراندرامیروکبیرہوجائے گا۔ (اَیضاً ص ۷۳)
ایک سال کے اندراندرامیروکبیرہوجائے گا۔ (اَیضاً ص ۷۳) (۱۵)کُند ذِہن اگر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 786 بار(اوّل آخِر ایک بار دُرُود شریف)پڑھ کرپانی پر دَم کرکے پی لے تو اِن شاءَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ اس کاحافِظہ مضبوط ہوجائے اور جوبات سنے یادرہے۔
(۱۶)اگرقَحْط سالی ہو تو
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 61 بار ( اوّل آخِر ایک بار دُرُود شریف)پڑھیں (پھر دعاء کریں) اِن شاءَ اﷲعَزَّوَجَلَّ بارِش ہو گی ۔ (اَیضاً۷۳ )
(۱۷) بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کاغذپر35 بار(اول آخِر ایک بار دُرُود شریف )لکھ کرگھرمیں لٹکادیں اِن شاءَ اﷲعَزَّوَجَلَّ شيطان کاگُزرنہ ہواورخوب بَرَکت ہو ۔ اگردُکان میں لٹکائیں تو اِن شاءَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ کاروبارخوب چمکے۔ (اَیضاً ص۷۳،۷۴)
(۱۸) یَکُم محرَّمُ الحرام کو بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 130 بار لکھ کر(یا لکھوا کر)جو کوئی اپنے پاس رکھے(یاپلاسٹک کوٹنگ کروا کر کپڑے ، ریگزین یاچمڑے میں سِلوا کرپہن لے، دھات کی ڈبیہ میں کسی قسم کاتعویذنہ پہنیں اِ س کا مسئلہ ص ۶۹ پر گزرا) اِن شاءَ اﷲعَزَّوَجَلَّ عمربھراس کویااس کے گھرمیں کسی کوکوئی بُرائی نہ پہنچے ۔ (ایضاً ص۷۴ )
(۱۹) جس عورت کے بچے زندہ نہ رہتے ہوں وہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 61 بارلکھ کر(یالکھواکر)اپنے پاس رکھے(چاہے توموم جامہ یاپلاسٹک کوٹنگ کرکے کپڑے ، ریگزین یاچمڑے میں سی کرگلے میں پہن لے یابازومیں باندھ لے ۔ ) اِن شاءَ اﷲعَزَّوَجَلَّ بچّے زندہ رہیں گے۔ (اَیضاًص۷۴)
(۲۰) بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 70 بارلکھ کرمیِّت کے کفن میں رکھ دیجئے ۔ اِن شاءَ اﷲعَزَّوَجَلَّ مُنکَرنَکیرکامعامَلہ آسان ہو جائیگا ۔ (بہتریہ ہے کہ میِّت کے چِہرے کے سامنے دیوارِقبلہ میں محراب نُماطاق بنا کر اُس میں رکھئے ساتھ ہی عہدنامہ اورمیِّت کے پیرصاحِب کاشَجرہ ہ غیرہ بھی رکھ دیجئے ۔) (اَیْضاًص۸۴)
(۲۱) بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کسی قاری یاعالم کوپڑھ کرسنادیجئے اگر حُروف صحیح مخارِج سے ادا نہ ہوتے ہوں تو سیکھ لیجئے ورنہ فائدے کے بدلے نقصان کا اندیشہ ہے۔
(۲۲) لکھنے میں اِعراب لگانے کی ضَرورت نہیں۔جب بھی پہننے،پینے یا لٹکانے کیلئے بطورِ تعویذ کوئی آیت یا عبارت لکھیں تودائرے والے حُرُوف کے دائرے کُھلے رکھنے ہونگے مَثَلًا''اﷲ''میں'' ہ'' کا اور رحْمٰن،اور رحیم دونوں میں ''م'' کا دائِرہ کُھلاہو۔
(۲۳) کپڑے اُتارتے وَقْت بسم اﷲ پڑھ لینے سے جِنّات سِتْر نہیں دیکھ سکتے۔ (عَمَلُ الْیَوْمِ واللیلۃ لا بن سُنّی ص۸) کمرے کا دروازہ ، کھڑکیاں،الماری کی درازیں جتنی بار بھی کھول بند کریں نیز لباس ، برتن وغیرہ ہر چیز رکھتے اٹھاتے ہر بار بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنے کی عادت بنا لیجئے ۔ اِن شاءَ اﷲعَزَّوَجَلَّ سر کش جنّات آپ کے گھر میں داخِلے، چوری اور آپ کی چیزیں استِعمال کرنے سے باز رہیں گے۔
سُواری (گاڑی)پِھسلے ، یا اس کو جَھٹکا لگے تو بسم اﷲ کہے۔ (۲۴) سر میں تیل ڈالنے سے قَبل بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ لیجئے ورنہ 70شیطان سر میں تیل ڈالنے میں شریک ہو جاتے ہیں۔
(۲۵) گھر کا دروازہ بند کرتے وَقْت یاد کرکے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ لیجئے اِن شاءَ اﷲعَزَّوَجَلَّ شیطان اور سر کش جِنّات گھر میں داخِل نہ ہوسکیں گے۔ (صحیح بخاری ج۶ ص ۳۱۲)
(۲۷) رات کو کھانے پینے کے برتن بسم اﷲ شریف پڑھ کر ڈھک دیجئے، اگر ڈھکنے کیلئے کوئی چیز نہ ہو تو بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کہہ کر برتن کے منہ پر تنکا وغیرہ رکھ دیجئے۔ (اَیضاً ) مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے، سال میں ایک رات ایسی آتی ہے کہ اس میں وبا اترتی ہے جو برتن چُھپا ہوا نہیں ہے یا مشک کا منہ بندھا ہوا نہیں ہے اگر وہاں سے وہ وبا گزرتی ہے تو اُس میں اُتر جاتی ہے۔ (مسلم ص ۱۱۱۵ رقم الحدیث ۲۱۱۴)
(۲۸)سونے سے قَبل بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر تین بار بستر جھاڑ لیجئے ، اِن شاءَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ مُوْذِیّات (یعنی ایذا ء دینے والی چیزوں )سے پناہ حاصل ہو گی۔
(۲۹) کاروبار میں جائزلَین دَین کے وَقْت یعنی جب کسی سے لیں تو بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھیں اور جب کسی کو دیں تو بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کہیں اِن شاءَ اﷲعَزَّوَجَلَّ خوب بَرَکت ہوگی۔
یاربِّ مصطَفٰے!عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کی بَرَکتوں سے مالامال فرمااورہرنیک وجائزکام کی ابتِداء میں بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنے کی توفیق عطا فرما۔
امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد
(فیضانِ سنّت جلد۱، ص۱۳۲ تا ۱۳۸)
(03): ’’ حسن سلوک کے مدنی پھول ‘‘
حسن سلوک کے 7 حروف کی نسبت سے صلۂ رحمی کے سات مدنی پھول
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1197 صَفحات پر مشتمل کتاب،’’بہارِ شریعت‘‘ جلد3 صَفْحَہ 559تا560پرسے ’’حُسنِ سُلوک‘‘ کے سات حُرُوف کی نسبت سے سات مَدَنی پھول قبول فرمایئے:
(۱)کس رشتے دار سے کیا برتاؤ کرے
احادیث میں مطلَقًا(یعنی بِغیر کسی قید کے)رشتے والوں کے ساتھ صِلہ(یعنی سُلوک) کرنے کا حکم آتا ہے،قرآنِ مجید میں مُطلَقًا(یعنی بِلا قید)ذوِی القُربیٰ(یعنی قَرابَت والے)فرمایا گیا مگر یہ بات ضَرور ہے کہ رِشتے میں چُونکہ مختلف دَرَجات ہیں(اسی طرح)صِلَۂ رِحم(یعنی رشتے داروں سے حُسنِ سُلوک)کے دَرَجات میں بھی تفاوُت(یعنی فرق)ہوتا ہے۔والِدَین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے،ان کے بعد ذُورِحم مَحرم کا،(یعنی وہ رشتے دار جن سے نسبی رشتہ ہونے کی وجہ سے نکاح ہمیشہ کیلئے حرام ہو) ان کے بعد بَقِیَّہ رشتے والوں کا علیٰ قَدَر ِمَراتِب۔(یعنی رشتے میں نزدیکی کی ترتیب کے مطابِق) (رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۷۸)
(۲)رشتے دار سے سُلوک کی صورتیں
صِلَۂ رِحم(یعنی رِشتے داروں کے ساتھ سُلوک)کی مختلف صورَتیں ہیں،اِن کو ہَدِیّہ و تحفہ دینا اور اگر ان کو کسی بات میں تمہاری اِعانت(یعنی امداد)درکار ہو تو اِس کا م میں ان کی مدد کرنا،انہیں سلام کرنا،ان کی ملاقات کو جانا،ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا،ان سے بات چیت کرنا،ان کے ساتھ لُطف و مہربانی سے پیش آنا۔ (دُرَر،ج۱ ص۳۲۳)
(۳)پردیس ہو تو خط بھیجا کرے
اگر یہ شخص پردیس میں ہے تو رشتے والوں کے پاس خط بھیجا کرے،ان سے خط وکِتابت جاری رکھے تاکہ بے تعلُّقی پیدا نہ ہونے پائے اور ہوسکے تو وطن آئے اور رشتے داروں سے تعلُّقات تازہ کرلے،اِس طرح کرنے سے مَحَبَّت میں اِضافہ ہوگا۔ (رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۷۸) (فون یا انٹرنیٹ کے ذَرِیعے بھی رابِطے کی ترکیب مُفید ہے)
(۴)پردیس میں ماں باپ ہو ماں باپ بلائیں تو آنا پڑے گا
یہ پردیس میں ہے والِدَین اِسے بُلاتے ہیں تو آنا ہی ہوگا،خط لکھنا کافی نہیں ہے۔یوہیں والِدَین کو اس کی خدمت کی حاجت ہو تو آئے اور ان کی خدمت کرے،باپ کے بعد دادا اور بڑے بھائی کا مرتبہ ہے کہ بڑا بھائی بَمَنزِلہ باپ کے ہوتا ہے،بڑی بہن اور خالہ ماں کی جگہ پر ہیں،بعض عُلَما نے چچا کو باپ کی مِثل بتایا اور حدیث: عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ اَبِیْہِ (یعنی آدمی کا چچا باپ کی مِثل ہوتا ہے)سے بھی یِہی مُستَفاد ہوتا(یعنی نتیجہ نکلتا)ہے۔ان کے عِلاوہ اَورَوں کے پاس خط بھیجنا یا ہَدِیّہ(یعنی تحفہ)بھیجنا کِفایت کرتا ہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۷۸)
(۵)کس کس رشتے دار سے کب کب ملے
رشتے داروں سے ناغہ دے کر ملتا رہے یعنی ایک دن ملنے کو جائے دوسرے دن نہ جائے وعلٰی ھٰذَا القِیاس(یعنی اسی پر اندازہ لگا کر)کہ اس سے مَحَبَّت و الفت زیادہ ہوتی ہے،بلکہ اَقرِبا(یعنی قَرابَت داروں)سے جُمعہ جُمعہ ملتا رہے یا مہینے میں ایک باراور تمام قبیلہ اور خاندان کو ایک(یعنی مُتَّحد)ہونا چاہیے،جب حق ا ن کے ساتھ ہو(یعنی وہ حق پر ہوں)تو دوسروں سے مقابَلہ(مُقا۔بَ۔لہ)اور اظہارِ حق میں سب مُتَّحِد ہو کر کام کریں۔ (دُرَر،ج۱ ص۳۲۳)
(6)رشتے دار حاجت پیش کرے تو ردّ کرد ینا گناہ ہے
جب اپنا کوئی رشتے دار کوئی حاجت پیش کرے تو اُس کی حاجت روائی کرے،اس کو رَد کردینا قَطعِ رِحم(یعنی رِشتہ توڑنا)ہے۔(ایضًا)(یاد رہے! صِلَۂ رِحم واجِب ہے اور قطع رِحم حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے)
(۷)صِلَۂ رِحم یہ ہے کہ وہ توڑے تب بھی تم جوڑو
صِلَۂ رِحمی(رشتے داروں کے ساتھ اچّھا سُلوک)اِسی کا نام نہیں کہ وہ سُلوک کرے تو تم بھی کرو،یہ چیز تو حقیقت میں مُکافاۃ یعنی اَدلا بَدلا کرنا ہے کہ اُس نے تمہارے پاس چیز بھیج دی تم نے اُس کے پاس بھیج دی،وہ تمہارے یہاں آیا تم اُس کے پاس چلے گئے۔حقیقتًا صِلَۂ رِحم(یعنی رشتے داروں سے حُسنِ سُلوک)یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو،وہ تم سے جُدا ہونا چاہتا ہے،بے اِعتنائی (بے۔اِع۔تَ۔نائی۔یعنی لاپرواہی)کرتا ہے اور تم اُس کے ساتھ رشتے کے حُقُوق کی مُراعات(یعنی لحاظ ورعایت)کرو۔ (رَدُّالْمُحتارج۹ص۶۷۸)
حُسنِ ظن رکھنے کا طریقہ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! مذکورہ ساتوں مَدَنی پھول نہایت توجُّہ کے قابل ہیں،بالخُصُوص ساتویں مَدَنی پھول جس میں ’’ ادلے بدلے‘‘ کا ذِکر ہے اس کے بارے میں عرض ہے کہ آج کل عُمُومًا یِہی ’’ ادلا بَدلا ‘‘ہورہا ہے۔ایک رشتے دار اگر اِس کو شادی کی دعوت دیتا ہے جبھی یہ اُس کو دیتا ہے اگر وہ نہ دے تو یہ بھی نہیں دیتا۔اگر اُس ایک نے اِس کو زیادہ افراد کی دعوت دی اور یہ اگر اُس کو کم افراد کی دعوت دے تو اِس کا ٹھیک ٹھاک نوٹِس لیا جاتا،خوب تنقیدیں اورغیبتیں کی جاتی ہیں۔اِسی طرح جو رِشتے دار اِس کے یہاں کسی تقریب میں شرکت نہیں کرتا تویہ اُس کے یہاں ہونے والی تقریب کابائیکاٹ کر دیتاہے اوریوں فاصِلے مزید بڑھائے جاتے ہیں۔حالانکہ کوئی ہمارے یہاں شریک نہ ہوا ہو تو اُس کے بارے میں اچّھا گمان رکھنے کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں،مَثَلًا وہ نہ آنے والا بیمار ہو گیا ہو گا،بھول گیا ہو گا،ضَروری کام آپڑ اہو گا،یا کوئی سخت مجبوری ہو گی جس کی وضاحت اس کے لئے دشوار ہو گی وغیرہ۔وہ اپنی غیر حاضِری کا سبب بتائے یا نہ بتائے،ہمیں حسنِ ظن رکھ کر ثواب کمانا اور جنّت میں جانے کا سامان کرتے رہنا چاہئے۔چُنانچِہ فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم: حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَۃِ یعنی حُسنِ ظَن عُمدہ عبادت سے ہے۔ (ابوداوٗد ج۴ ص۳۸۸ حدیث ۴۹۹۳) مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان اِس حدیثِ پاک کے مختلف مَطالِب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:یعنی مسلمانوں سے اچّھا گُمان کرنا،ان پر بدگُمانی نہ کرنا یہ بھی اچّھی عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔ (مِراٰۃُ المَناجِیح ج۶ ص ۶۲۱)
جنت کا مَحَل اس کو ملے گا جو
بِالفرض ہمارا رشتے دار سُستی کے سبب یا کسی بھی وجہ سے جان بوجھ کر ہمارے یہاں نہیں آیا یا ہمیں اپنے یہا ں مَدعو نہیں کیا بلکہ اس نے کُھلَّم کُھلّا ہمارے ساتھ بد سُلوکی کی تب بھی ہمیں بڑا حوصلہ رکھتے ہوئے تعلُّقات برقرار رکھنے چاہئیں،حضرت سیِّدُنا اُبَی بِن کَعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سلطانِ دوجہان،شَہَنشاہِ کون ومکان،رَحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمانِ عظیم الشان ہے: جسے یہ پسند ہوکہ اُس کے لیے(جنّت میں)مَحَل بنایا جائے اوراُس کے دَرَجات بُلند کیے جائیں،اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظُلم کرے یہ اُسے مُعاف کرے اورجو اُسے محروم کرے یہ اُسے عطا کرے اورجو اُس سے قَطعِ تَعلُّق کرے یہ اُس سے ناطہ(یعنی تعلُّق)جوڑے۔ (اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۳ ص۱۲حدیث ۳۲۱۵)
دشمنی چھپانے والے رشتے دار کو صَدَقہ دینا افضل ترین ہے
بَہَر حال کوئی ہمارے ساتھ حُسنِ سُلوک کرے یا نہ کرے ہمیں حُسنِ سُلوک جاری رکھنا چاہئے۔’’مُسندِ اِمام احمد‘‘ کی حدیثِ پاک میں ہے: اِنَّ اَفْضَلَ الصَّدَقَۃِ الصَّدَقَۃُ عَلٰی ذِی الرَّحِمِ الْکَاشِح بے شک افضل ترین صَدقہ وہ ہے جو دشمنی چھپانے والے رشتے دار پر کیا جائے۔ (مُسندِ اِمام احمد ج۹ص۱۳۸حدیث۲۳۵۸۹)
(نیکی کی دعوت ص۱۵۹ تا ۱۵۸)
(04): ’’ اخلاقِ مُصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی پھول ‘‘
اُسوۂ حَسَنَہ
احترام مسلمبجالانے کیلئے ہمیں اپنے پیارے پیارے آقا، مد ینے والے مصطَفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اُسوئہ حسنہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کی پیروی کرنی ہوگی ۔ پارہ21 سُوْرَۃُ الْاَحْزَابآیت نمبر 21 میں ارشاد ہوتا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیۡ رَسُوۡلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ
ترجمہ کنزالایمان: بے شک تمہیں رسولُ اللہ کی پیروی بہتر ہے۔
اَخلاقِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جھلکیاں
میٹھے میٹھے آقا،مکّے مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یقیناتمام مخلوقات میں سب سے زیادہ مکرم ، معظم اورمحترم ہیں اور ہر حال میں آپ کا احترام کرنا ہم پر فرض اعظم ہے ۔اب آپ حضرات کی خدمت میں سیّدُ المرسلین، جناب رحمۃ اللعالمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَخلاقِ حسنہ کی چند جھلکیاں پیش کرنے کی کوشش کروں گا جو بالخصوص احترام مسلم کیلئے ہماری رہنما ہیں۔
خسلطانِ دو جہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر وقت اپنی زبان کی حفاظت فرماتے اور صرف کام ہی کی بات کرتیخآنے والوں کو مَحبت دیتے، ایسی کوئی بات یاکام نہ کرتے جس سے نفرت پیدا ہوخقوم کے معزز فرد کالحاظ فرماتے اور اُس کو قوم کا سردار مقرر فرما دیتے خ لوگوں کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے خوف کی تلقین فرماتیخصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی خبر گیری فرماتے خلوگوں کی اچھی باتوں کی اچھائی بیان کرتے اور ا س کی تقویت فرماتے،بری چیز کو بری بتاتے اور اُس پر عمل سے روکتے خ ہر معاملے میں اِعتدال (یعنی میانہ روی)سے کام لیتے خلوگوں کی اِصلاح سے کبھی بھی غفلت نہ فرماتے خ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اٹھتے بیٹھتے (یعنی ہر وقت ) ذکرُ اللہ کرتے رہتے خ جب کہیں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ مل جاتی وَہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کوبھی اسی کی تلقین فرماتے خ اپنے پاس بیٹھنے والے کے حقوق کا لحاظ رکھتے خآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر رہنے والے ہر فرد کو یہی محسوس ہوتا کہ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے سب سے زِیادہ چاہتے ہیں خ خد متِ بابرکت میں حاضر ہوکر گفتگو کرنے والے کے ساتھ اُس وَقت تک تشریف فرما رہتے جب تک وہ خود نہ چلا جائے خجب کسی سے مصافحہ فرماتے(یعنی ہاتھ ملاتے)تواپناہاتھ کھینچنے میں پہل نہ فرماتے خ سائل (یعنی مانگنے والے) کو عطا فرماتے خآ پ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سخاوت وخوش خُلقی ہر ایک کے لئے عام تھیخآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس علم ، بردباری،حیا،صبر اور اَمانت کی مجلس تھیخ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں شوروغل ہوتا نہ کسی کی تذلیل(یعنی بے عزتی) خآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں اگر کسی سے کوئی بھول ہوجاتی تو اُس کوشہرت نہ دی جاتیخجب کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو مکمل توجہ فرماتےخ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی کے چہرے پر نظریں نہ گاڑتے تھے خآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے خ سلام میں پہل فرماتے خبچوں کو بھی سلام کرتے خ جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پکارتا، جواب میں ’’ لَبَّیک‘‘(یعنی میں حاضرہوں ) فرماتے خاہل مجلس کی طرف پاؤں نہ پھیلاتے خاکثر قبلہ رو بیٹھتے خاپنی ذات کیلئے کبھی کسی سے بدلہ نہ لیتے خ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے معاف فرما دیا کرتے خراہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کے سوا کبھی کسی کو اپنے مبارَک ہاتھ سے نہ مارا، نہ کسی غلام کو نہ ہی کسی عورت(یعنی زَوجہ وغیرہ) کومارا خ گفتگو میں نرمی ہوتی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اللہ تعَالٰی کے نزدیک بروزِ قیامت لوگوں میں سب سے براوہ ہے جس کو اُس کی بدکلامی کی وجہ سے لوگ چھوڑدیں ‘‘ خآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بات کرتے تو (اِس قدر ٹھہراؤ ہوتا کہ) لفظوں کو گننے والا گن سکتا تھا خ طبیعت میں نرمی تھی اور ہشاش بشاش رہتے خ نہ چلاتے خ سخت گفتگو نہ فرماتے خ کسی کو عیب نہ لگاتے خ بخل نہ فرماتے خ اپنی ذاتِ والا کو بالخصوص تین چیزوں ، جھگڑ ے ، تکبر اور بے کار باتوں سے بچا کر رکھتی کسی کا عیب تلاش نہ کر تے خصرف وہی بات کرتے جو(آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حق میں)باعث ثواب ہو خمسافریا اجنبی آدَمی کے سخت کلامی بھرے سوال پربھی صبر فرما تیخکسی کی بات کو نہ کاٹتے البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز کرنے لگتا تواُس کو منع فرماتے یا وَہاں سے اُٹھ جاتے خ سادَگی کا عالم یہ تھا کہ بیٹھنے کیلئے کوئی مخصوص جگہ بھی نہ رکھی تھی ؎خک بھی چٹائی پر توکبھی یوں ہی زمین پربھی آرام فرما لیتے خک بھی قہقہہ (یعنی اتنی آواز سے ہنسنا کہ دوسرے لوگ ہوں تو سُن لیں )نہ لگاتے خصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان فرماتے ہیں : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے(یعنی موقع کی مناسبت سے ) حضرت عبدُ اللہ بن حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے زیادہ مسکرانے والاکوئی نہیں دیکھا۔
یا الٰہی! جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
اُن تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(احترامِ مسلم ص۲۷ تا ۳۰)
(05): ’’ گھر میں مدنی ماحول بنانے کے مدنی پھول ‘‘
(1)گھر میں آتے جاتے بلند آواز سے سلام کیجئے۔
(2)والِدہ یا والِدصاحِب کو آتے دیکھ کرتعظیمًا کھڑے ہو جایئے۔
(3)دن میں کم از کم ایک بار اسلامی بھائی والِدصاحِب کے اور اسلامی بہنیں ماں کے ہاتھ اور پاؤں چوما کریں۔
(4)والِدَین کے سامنے آواز دھیمی رکھئے،ان سے آنکھیں ہرگز نہ ملائیے،نیچی نگاہیں رکھ کر ہی بات چیت کیجئے۔
(5)ان کا سونپا ہوا ہر وہ کام جو خِلافِ شَرع نہ ہو فورا ًکر ڈالئے۔(6)سنجیدگی اپنایئے۔گھر میں تُو تُکار،اَبے تَبے اور مذاق مسخری کرنے،بات بات پر غصّے ہو جانے،کھانے میں عیب نکالنے،چھوٹے بھائی بہنوں کو جھاڑنے،مارنے،گھرکے بڑوں سے اُلجھنے،بحثیں کرتے رہنے کی اگر آپ کی عادَتیں ہوں تو اپنا رَوَیّہ یکسر تبدیل کر دیجئے،ہر ایک سے مُعافی تَلافی کر لیجئے۔
(7)گھر میں اور باہر ہر جگہ آپ سنجیدہ ہو جائیں گے تو ان شاء اللہ عزوجل گھر کے اندر بھی ضَرور اِس کی بَرَکتیں ظاہِر ہوں گی۔
(8)ماں بلکہ بچّوں کی امّی ہو تو اُسے نیز گھر(اور باہَر)کے ایک دن کے بچّے کو بھی’’ آپ ‘‘کہہ کر ہی مخاطِب ہوں۔
(9)اپنے مَحَلّے کی مسجِدمیں عشاء کی جماعَت کے وَقت سے لے کر دوگھنٹے کے اندر اندر سو جایئے۔کاش !تہجُّد میں آنکھ کُھل جائے ورنہ کم از کم نَماز ِفجر تو بآسانی(مسجِد کی پہلی صَف میں باجماعت)مُیَسَّر آئے اور پھر کا م کاج میں بھی سُستی نہ ہو۔
(10)گھرکے افراد میں اگر نَمازوں کی سُستی،بے پردَگی،فلموں ڈِراموں اور گانے باجوں کا سلسلہ ہو اور آپ اگر سرپرست نہیں ہیں،نیز ظنِّ غالب ہے کہ آپ کی نہیں سُنی جا ئے گی تو بار بار ٹَوکاٹَوک کے بجائے،سب کو نَرمی کے ساتھ مکتبۃُ المدینہ سے جاری شُدہ سنّتوں بھر ے بیانا ت کی آڈیو/وِڈیو کیسٹیں سنایئے،مَدَنی چینل دکھایئے۔ان شاء اللہ عزوجل ’’مَدَنی نتا ئج‘‘ برآمد ہوں گے۔
(11)گھر میں کتنی ہی ڈانٹ بلکہ ما ر بھی پڑے،صَبرصَبراور صَبر کیجئے۔اگر آپ زَبان چلائیں گے تو ’’مَدَنی ماحول ‘‘ بننے کی کوئی اُمّید نہیں بلکہ مزید بِگاڑ پیدا ہو سکتا ہے کہ بے جا سختی کرنے سے بسا اوقات شیطان لوگو ں کوضِدّی بنا دیتا ہے۔
(12)مَدَنی ماحول بنانے کا ایک بہترین ذَرِیعہ یہ بھی ہے کہ گھر میں روزانہ فیضانِ سنَّت کا دَرس ضَرورضَرورضَرور دیجئے یا سنئے۔
(13)اپنے گھر والوں کی دنیا و آخِرت کی بہتری کے لئے دل سوزی کے ساتھ دعا بھی کر تے رہئے کہ فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہے:
اَلدُّعاءُ سِلَاحُ المُؤْ مِنِ یعنی دُعا مومِن کا ہتھیار ہے۔ (اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۲ ص ۱۶۲ حدیث۱۸۵۵) (14) سُسرال میں رہنے والیا ں جہاں گھر کا ذِکر ہے وہاں سسرال اور جہاں والِدَین کاذِکر ہے وہاں ساس اورسُسَر کے ساتھ وُہی حُسنِ سُلو ک بجا لائیں جبکہ کوئی مانِعِ شَرعی نہ ہو۔ہاں یہ احتیاط ضروری ہے کہ بہو سسر کے ہاتھ پاؤں نہ چومے،یونہی داماد ساس کے۔
(15)مسائلُ القُر اٰن صَفحَہ290پر ہے:ہر نَماز کے بعد یہ دُعا اوّل وآخِر دُرود شریف کے ساتھ ایک بار پڑھ لیجئے،ان شاء اللہ عزوجل بال بچے سنّتوں کے پابند بنیں گے اور گھر میں مَدَنی ماحول قائم ہو گا۔(دعا یہ ہے:) (اَللّٰھُمَّ) رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوٰجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۴﴾ (پ ۱۹،الفرقان ۷۴) (’’اَللّٰھُمَّ ‘‘ آیتِ قراٰنی کا حصّہ نہیں)
(16)نافرمان بچّہ یا بڑا جب سویا ہوتو 11یا21دن تک اُس کے سِرہانے کھڑے ہو کر یہ آیاتِ مبارکہ صرف ایک بار اتنی آواز سے پڑھئے کہ اُس کی آنکھ نہ کُھلے: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ؕ بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾ فِیۡ لَوْحٍ مَّحْفُوۡظٍ ﴿٪۲۲﴾ (پ ۳۰،البروج:۲۱،۲۲)
(اوّل،آخِر،ایک مرتبہ دُرُود شریف)یاد رہے! بڑا نافرمان ہو تو سوتے سوتے سرہانے وظیفہ پڑھنے میں اس کے جاگنے کا اندیشہ ہے خصوصًا جب کہ اس کی نیند گہری نہ ہو،یہ پتا چلنا مشکل ہے کہ صرف آنکھیں بندہیں یا سور ہا ہے لہٰذا جہاں فتنے کا خوف ہو وہاں یہ عمل نہ کیا جائے خاص کر بیوی اپنے شوہر پر یہ عمل نہ کرے۔ (17)نیز نافرمان اولاد کو فرماں بردار بنانے کے لیے تاحُصُولِ مُرادنَمازِ فَجر کے بعد آسمان کی طرف رُخ کر کے ’’ یَاشَھِیْدُ‘‘ 21بار پڑھئے۔(اوّل وآخِر،ایک بار درود شریف)۔
(18)مَدَنی اِنعامات کے مطابِق عمل کی عادت بنایئے اورگھر کے جن افراد کے اندرنَرم گوشہ پائیں اُن میں اور آپ اگر باپ ہیں تو اَولاد میں نرمی اور حکمتِ عملی کے ساتھ مَدَنی اِنعامات کا نِفاذ کیجئے،اللہ عزوجل کی رَحمت سے گھر میں مدَنی انقِلاب برپا ہو جائیگا۔
(19)پابندی سے ہر ماہ کم از کم تین دن کے مَدَنی قافِلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرا سفر کر کے گھر والوں کیلئے بھی دعا کیجئے۔مَدَنی قافِلے میں سفر کی بَرَکت سے بھی گھروں میں مَدَنی ماحول بننے کی ’’مَدَنی بہاریں‘‘ سننے کو ملتی ہیں۔
رَوَیّے سے تیرے ہیں گھر والے بد ظن تو کیسے بنے گا بھلا مَدَنی ماحول
تُو کرنا نہ گھر میں لڑائی بِھڑائی وگرنہ نہ بن پائے گا مَدَنی ماحول
تُو بک بک نہ کر، لب پہ قفلِ مدینہ لگا گھر میں بن جائے گا مَدَنی ماحول
تُو نرمی و حکمت کو اپنالے بھائی! تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
نہ کر مسخری خوب سنجیدہ ہو جا تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
جو اَخلاق سے تیرے ماں باپ ہیں خوش تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
تو نظریں جھکا کرکے کر بات سب سے تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
تُو گھر میں سبھی کو دکھا مَدَنی چینل تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
سد ا گھر میں دے درسِ فیضانِ سنّت تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
تُو ماں باپ کی دست بوسی کیا کر تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
تُو چھوٹوں پہ شفقت بڑوں کا ادب کر تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
پڑے ڈانٹ کیسی ہی تُو سہ لیا کر تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
اگر ہو پِٹائی نہ کر لب کُشائی تِرے گھر میں بن جائیگا مَدَنی ماحول
دُعا کر یہ شام و سَحَرگِڑ گڑا کر
بنے میرے گھر میں خدا مَدَنی ماحول
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(نیکی کی دعوت ص۱۹۲ تا ۱۹۵)
(06): ’’ وقت کی اہمیت کے مدنی پھول ‘‘
(1)امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں: ''یہ ایّام تمہاری زندگی کے صَفَحات ہیں ان کو اچّھے اَعمال سے زِینت بخشو۔''
(2)حضرتِ سیِّدُنا عبداﷲ ابنِ مسعود رضی اﷲتعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ''میں اپنی زندَگی کے گزرے ہوئے اس دن کے مقابلے میں کسی چیز پر نادِم نہیں ہوتا جودن میرا نیک اعمال میں اضافے سے خالی ہو''۔
(3)حضرتَ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: روزانہ تمہاری عمر مسلسل کم ہوتی جارہی ہے تو پھر نیکیوں میں کیوں سستی کرتے ہو؟ ایک مرتبہ کسی نے عرض کی: یا امیرَ المومنین ''یہ کام آپ کل پر مُؤَخَّر (مُ۔اَخ۔خَر) کردیجئے ارشاد فرمایا: '' میں روزانہ کا کام ایک دن میں بمشکل مکمل کرپاتا ہوں اگرآج کا کام بھی کل پرچھوڑدوں گا تو پھر دو دن کا کام ایک دن میں کیونکر کر سکوں گا؟''آج کا کام کل پر مت ڈالو کل دوسرا کام ہوگا ۔
(4)حضرت سیِّدُنا حسنِ بصری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ۔اے آدمی !تو ایّام ہی کا مجموعہ ہے ، جب ایک روز گزر جائے تو یوں سمجھ کہ تیری زندگی کا ایک حصّہ بھی گزر گیا۔ (الطبقات الکبری للمناوی ج۱ ص۲۵۹ دار صادر بیروت)
(5)حضرت سیِّدُنا امام شافعی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں ایک مدت تک اہلُ اﷲ کی صحبت سے فیضیاب رہا ان کی صحبت سے مجھے دو اَہَم باتیں سیکھنے کو ملیں۔ (1) وقت تلوار کی طرح ہے تم اس کو (نیک اعمال کے ذریعے) کاٹو ورنہ (فضولیات میں مشغول کرکے) یہ تم کو کاٹ دیگا (2) اپنے نفس کی حفاظت کرو اگر تم نے اس کو اچھے کام میں مشغول نہ رکھا تو یہ تم کو کسی بُرے کام میں مشغول کر دیگا۔
(6) امام رازی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''خدا عزوجل کی قسم! کھانا کھاتے وَقت عِلمی مَشغلہ (تحریری یا مُطالَعہ) ترک ہوجانے کا مجھے بَہُت افسوس ہوتا ہے کہ وَقت نہایت ہی قیمتی دولت ہے۔''
عجب چیز احساس ہے زندگی کا
(7) آٹھویں صَدی کے مشہور شافِعی عالم سیِّدُنا شمس الدّین اَصبہانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی کے بارے میں حافِظ ابنِ حَجَر رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اس خوف سے کھانا کم تناوُل فرما تے تھے کہ زیادہ کھانے سے بَول وبَراز کی ضَرورت بڑھے گی اور بار باربیت الخلاء جاکر وَقت صَرف ہوگا!(الدررالکامنۃ للعسقلانی ج۴ ص۳۲۸ داراحیاء التراث العربی بیروت)
(8)حضرتِ علامہ ذہبی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ ''تذکِرۃُ الحُفَّاظ'' میں خطیبِ بغدادی علیہ رَحْمَۃُ اللہِ الھادی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :''آپ راہ چلتے بھی مطالَعَہ جاری رکھتے۔'' (تاکہ آنے جانے کا وقت بے کار نہ گزرے)(تذکرۃ الحفاظ ج۳ ص۲۲۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(9)حضرتِ جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی وقتِ نَزْع قرآنِ پاک پڑھ رہے تھے، ان سے اِستفسار کیا گیا :اس وَقت میں بھی تلاوت؟ اِرشاد فرمایا: میرا نامہ اَعمال لپیٹا جارہا ہے تو جلدی جلدی اس میں اِضافہ کررہا ہوں۔ (صید الخاطر لابن الجوزی ص۲۲۷ ،مکتبہ نزار مصطفٰے الباز)
نظامُ الاوقات کی ترکیب بنا لیجئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہو سکے تو اپنا یومیہ نظام ُالاوقات تر تیب دے لینا چاہئے۔ اوّلاً عشاء کی نَماز پڑھ کر حتَّی الامکان دو گھنٹے کے اندر اندر سو جایئے ۔رات کوفُضول چو پال لگانا ، ہوٹلوں کی رونق بڑھانا اور دوستوں کی مجلسوں میں وقت گنوانا( جبکہ کوئی دینی مصلحت نہ ہو) بہت بڑا نقصان ہے۔ تفسیر روحُ البیان جلد4 صَفحَہ نمبر166 پر ہے :''قوم ِلوط کی تباہ کاریوں میں سے یہ بھی تھا کہ وہ چوراہوں پر بیٹھ کر لوگوں سے ٹھٹّھا مسخری کرتے تھے۔'' پیارے اسلامی بھائیو!خوف خداوندی سے لرز اٹھئے! دوست بظاہر کیسے ہی نیک صورت ہو ں ان کی دل آزار اور خدائے غفّارسے غافل کردینے والی محفلوں سے توبہ کرلیجئے ۔ رات کو دینی مشاغل سے فارغ ہوکر جلد سوجایئے کہ رات کا آرام دن کے آرام کے مقابلے میں زیادہ صحت بخش ہے اور عین فطرت کا تقاضا بھی ۔ چُنانچِہ پارہ 20سورۃُ الْقَصَص آیت نمبر73میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ مِنۡ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ لِتَسْکُنُوۡا فِیۡہِ وَ لِتَبْتَغُوۡا مِنۡ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ﴿۷۳﴾
ترجَمہ کنزالایمان: اور اس نے اپنی مِہر (رحمت) سے تمہارے لئے رات اور دن بنائے کہ رات میں آرام کرو اور دن میں اس کا فضل ڈھونڈو (یعنی کسب ِ معاش کرو) اور اس لئے کہ تم حق مانو۔
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان ''نور العرفان'' صَفْحَہ629پراِس کے تحت فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہواکہ کمائی کے لیے دن اور آرام کے لیے رات مقرر کرنی بہتر ہے۔ رات کو بلاوجہ نہ جاگے ،دن میں بیکار نہ رہے اگرمعذوری(مجبوری) کی وجہ سے دن میں سوئے اور رات کو کمائے تو حرج نہیں جیسے رات کی نوکریوں والے ملازم وغیرہ۔
صُبح کی فضیلت
نظامُ الاوقات متعیّن کرتے ہوئے کام کی نوعیت اورکیفیت کو پیش نظر رکھنا مناسب ہے ۔مَثَلاً جو اسلامی بھائی رات کو جلدی سوجاتے ہیں صبح کے وقت وہ تروتازہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا علمی مشاغل کیلئے صبح کا وَقت بَہُت مناسب ہے ۔ سرکارِنامدارصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یہ دعا ''ترمذی '' نے نقل کی ہے :''اےاللہ عَزَّوَجَل ! میری اُمّت کیلئے صبح کے اوقات میں بَرَکت عطا فرما۔'' (ترمذی ج۳ ص۶حدیث ۱۲۱۶)
چُنانچِہ مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی (یااﷲ عزوجل ! )میری اُمّت کے تمام ان دینی ودنیاوی کاموں میں بَرَکت دے جو وہ صبح سویرے کیا کریں۔ جیسے سفر،طلبِ علم،تجارت وغیرہ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۵ ص۴۹۱)
کوشش کیجئے کہ صبح اٹھنے کے بعد سے لیکر رات سونے تک سارے کاموں کے اوقات مقرَّر ہوں مَثَلاً اتنے بجے تہجد،علمی مشاغل ، مسجد میں تکبیر ُاولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز فجر (اسی طرح دیگر نمازیں بھی ) اشراق ، چاشت ،ناشتہ ، کسبِ معاش ، دوپہر کا کھانا ، گھریلو معاملات ، شام کے مشاغِل ، اچھی صحبت ، ( اگر یہ مُیَسَّر نہ ہو توتنہائی بدر جہابہتر ہے ) ،اسلامی بھائیوں سے دینی ضروریات کے تحت ملاقات ، وغیرہ کے اوقات متعین کر لئے جائیں جو اس کے عادی نہیں ہیں ان کیلئے ہو سکتا ہے شروع میں کچھ دشواری پیش آئے ۔ پھر جب عادت پڑجائے گی تو اس کی برکتیں بھی خود ہی ظاہر ہوجائیں گی۔ اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ
دن لہو میں کَھونا تُجھے شب صُبح تک سونا تجھے رِزق خدا کھایا کیا فرمانِ حق ٹالا کیا
شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں شکرِ کرم ترسِ سزا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
(نہر کی صدائیں ص۱۶ تا ۲۲)
(07): ’’ قبلہ رخ بیٹھنے کے ۱۳ مدنی پھول ‘‘
سرکارِ مدینہ ، سُلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ، صاحِبِ مُعطَّر پسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عُمُوماً قِبلہ رُو ہوکر بیٹھتے تھے ۔
تین فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
(۱)مجالِس میں سب سے مُکرّم (یعنی عزّت والی ) مجلس(یعنی بیٹھک ) وہ ہے جس میں قبلے کی طرف مُنہ کیا جائے ۔
(۲)ہر شے کے لئے شَرَف (یعنی بُزُرگی) ہے اور مجلس (یعنی بیٹھنے ) کا شَرَف یہ ہے کہ اس میں قِبلے کو مُنہ کیا جائے۔
(۳) ہر شَے کیلئے سرداری ہے اور مجالِس کی سرداری اس میں قِبلے کو مُنہ کرنا ہے
خمُبلِّغ اور مُدرِّس کیلئے دورانِ بیان و تَدریس سُنّت یہ ہے کہ پیٹھ قِبلے کی طرف رکھیں تاکہ ان سے عِلم کی باتیں سننے والوں کا رُخ جانبِ قبلہ ہوسکے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا علّامہ حافِظ سَخاوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ قِبلے کو اس لئے پیٹھ فرمایا کرتے تھے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنہیں عِلم سکھارہے ہیں یا وعظ فرمارہے ہیں اُن کا رُخ قبلے کی طرف رہے ۔
حضرتِ سیِّدُناعبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اکثر قِبلے کومُنہ کرکے بیٹھتے تھے۔
خقراٰنِ پاک نیز درسِ نظامی کے مُدرِّسین کوچاہئے کہ پڑھاتے وقت بہ نیّتِ اِتِّباعِ سنّت اپنی پیٹھ جانبِ قِبلہ رکھیں تاکہ مُمکِنہ صورت میں طَلَبہ کا رُ خ قِبلہ شریف کی طرف رَہ سکے اور طلبہ کو قِبلہ رُخ بیٹھنے کی سنّت، حکمت اور نیّت بھی بتائیں اور ثواب کے حقدار بنیں۔ جب پڑھا چکیں تو اب قِبلہ رُو بیٹھنے کی کوشِش فرمائیں ۔
دینی طَلَبہ اسی صورت میں قِبلہ رُو بیٹھیں کہ اُستاذ کی طرف بھی رُخ رہے ورنہ عِلم کی باتیں سمجھنے میں دُشواری ہوسکتی ہے ۔
خخطیب کیلئے خُطبہ دیتے وقت کعبے کو پیٹھ کرنا سنّت ہے اور مُستحَب یہ ہے کہ سامِعین کا رُخ خطیب کی طرف ہو۔
خباِلخُصُوص ،تِلاوت ،دِینی مُطالَعَہ ،فتاوٰی نَوِیسی ،تصنیف و تالیف ،دُعا و اَذکار اور دُرُود وسلام وغیرہ کے مواقِع پر اور باِلعُمُوم جب جب بیٹھیں یا کھڑے ہو ں اور کوئی رکاوٹ نہ ہوتو اپنا چِہرہ قِبلہ رُخ کرنے کی عادت بناکر آخِر ت کیلئے ثواب کا ذخیرہ اکٹھّا کیجئے ۔ (قبلہ کی دائِیں یا بائِیں جانب 45ڈگری کے زاوِیے(یعنی اینگل) کے اندر اندرہوں توقِبلہ رُخ ہی شُمار ہوگا)۔ خ ممکن ہو تو میز کُرسی وغیر ہ اس طرح رکھئے کہ جب بھی بیٹھیں آپ کا مُنہجانبِ قِبلہ رہے۔
خاگر اتِّفاق سے کعبہ رُخ بیٹھ گئے اور حُصولِ ثواب کی نیّت نہ ہو تو اَجْر نہیں ملے گا لہٰذا اچھّی اچھّی نیّتیں کرلینی چاہئیں مَثَلاً یہ نیّتیں :
{۱ } ثوابِ آخِر ت {۲} ادائے سنّت اور{۳} تعظیمِ کعبہ شریف کی نیّت سے قِبلہ رُو بیٹھتا ہوں ۔دِینی کُتُب اور اسلامی اسباق پڑھتے وقت یہ بھی نیّت شامل کی جاسکتی ہے کہ قِبلہ رُو بیٹھنے کی سنّت کے ذَرِیعے علمِ دین کی بَرَکت حاصِل کروں گا۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
خپاک و ہند نیز نیپال،بنگال اور سی لنکا وغیرہ میں جب کعبے کی طرف مُنہ کیاجا ئے تو ضِمناً مدینۂ منوّرہ کی طرف بھی رُخ ہوجاتا ہے لہٰذایہ نیّت بھی بڑھا دیجئے کہ تعظیماً مدینۂ منوّرہ کی طرف رُخ کرتا ہوں ۔
بیٹھنے کا حسیں قرینہ ہے رُخ اُدھر ہے جِدھر مدینہ ہے
دونوں عالم کا جو نگینہ ہے میرے آقا کا وہ مدینہ ہے
رُو بَرُو میرے خانۂ کعبہ اور اَفکار میں مدینہ ہے
(جنات کا بادشاہ ص ۱۵تا ۱۷)
(08): ’’ دانت صاف رکھنے کے مدنی پھول ‘‘
مَیلے کچیلے دانت دوسروں کیلئے کراہت اور گِھن کا باعِث ہوتے ہیں ٭ملاقاتی وغیرہ پر میلے دانت والے کی شخصیَّت کا اثر اچّھا نہیں پڑتا٭بکثرت پان گُٹکے وغیرہ کھانے والے گویا پیسے دے کر اپنے دانتوں کا حُسن تباہ کرتے، منہ کا چھالا اور کینسر خریدتے ہیں ٭مسواک سنَّت کے مطابق اچھی طرح رگڑ رگڑ کر کیجئی٭کھانے کے بعد دانتوں میں خِلال کرنے کا معمول بنا لیجئی٭جب بھی کچھ کھائیں یا چائے وغیرہ پئیں ،کُلّی بھرکر چند مِنَٹ تک منہ میں پانی ہِلاتے رہیں اِس طرح منہ کا اندرونی حصّہ اور دانت کسی حد تک دُھل جائیں گی٭ سوتے وَقت حلق اور دانت اچھی طرح صاف ہونے چاہئیں ، ورنہ گلے میں تکلیف اور دانتوں پرمَیل کی تہ مضبوطی سے جمے گی ، بند منہ کے اندر غذائی اجزا سڑ نے سے منہ میں بدبُو ہو گی اور جراثیم پیٹ میں جانے سے طرح طرح کی بیماریاں جَنَم لے سکتی ہیں ٭ سونے میں پیٹ کی گندی ہوائیں اوپر کو اٹھتی ہیں لہٰذا منہ بدبُودار ہو جاتاہے، اُٹھ کرفوراًہاتھ دھو کر مسواک کرکے کُلّیاں کر لیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ منہ کی بدبُو جاتی رہے گی۔
بہترین منجن
مناسِب مقدار میں کھانے کا سوڈا اور اُتنا ہی نمک ملا کر بوتل میں ڈال لیجئے، بہترین منجن تیار ہے۔اگر مُوافِق ہو توروزانہ اِس سے دانت مانجھئے ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ہاتھوں ہاتھ دانتوں کامَیل اُتر تا دیکھیں گے۔بالفرض مَسُوڑھے یا منہ میں کسی جگہ جلن وغیرہ محسوس فرمائیں تو مقدار کم کر کے دیکھ لیجئے ، اب بھی تکلیف ہو تو صفائی کی کوئی اور تدبیر کیجئے، دانت بَہرحال صاف ہونے چاہئیں ۔ مَدَنی پھول:ہر طرح کی صفائی سنّت اور مطلوبِ شریعت ہے۔
بدبو نہ دَہَن میں ہو، دانتوں کی صفائی ہو
مہکائی دُرُودوں کی مُنہ میں ترے بھائی ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(مسجدیں خوشبو دار رکھیں ص۲۱ تا ۲۳)
(09): ’’ ایصالِ ثواب کے 19 مدنی پھول ‘‘
{1}ایصالِ ثواب کے لفظی مَعنیٰ ہیں : ’’ثواب پہچانا‘‘ اِ س کو’’ثواب بخشنا‘‘ بھی کہتے ہیں مگر بُزُرگوں کیلئے ’’ثواب بخشنا‘‘ کہنا مُناسِب نہیں ،’’ثواب نَذْر کرنا‘‘ کہنا ادب کے زیادہ قریب ہے۔امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: حُضُورِاقدس عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْمخواہ اورنبی یاولی کو ’’ثواب بخشنا ‘‘کہنابے ادَبی ہے بخشنابڑے کی طرف سے چھوٹے کوہوتاہے بلکہ نَذر کرنایاہدِیَّہ کرناکہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۶ص ۶۰۹)
{2}فرض، واجب ، سنّت ،نَفْل، نَماز، روزہ، زکوٰۃ، حج،تلاوت،نعت شریف، ذکرُ اللہ ، دُرُودشریف ، بیان، دَرس،مَدَنی قافِلے میں سفر، مَدَنی اِنْعامات،عَلاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت،دینی کتاب کا مُطالَعَہ، مَدَنی کاموں کیلئے انفِرادی کوشِش وغیرہ ہر نیک کام کا ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں ۔
{2}فرض، واجب ، سنّت ،نَفْل، نَماز، روزہ، زکوٰۃ، حج،تلاوت،نعت شریف، ذکرُ اللہ ، دُرُودشریف ، بیان، دَرس،مَدَنی قافِلے میں سفر، مَدَنی اِنْعامات،عَلاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت،دینی کتاب کا مُطالَعَہ، مَدَنی کاموں کیلئے انفِرادی کوشِش وغیرہ ہر نیک کام کا ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں ۔
الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ
ترجمہ کنز الایمان:اور وہ جوان کے بعد آئے عَرْض کرتے ہیں : اے ہمارے رب(عَزَّوَجَلَّ)! ہمیں بَخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔
{4}تیجے وغیرہ کا کھانا صِرْف اِسی صورت میں میِّت کے چھوڑے ہوئے مال سے کرسکتے ہیں جبکہ سارے وُرَثا بالِغ ہوں اور سب کے سب اجازت بھی دیں اگر ایک بھی وارِث نابالِغ ہے توسخت حرام ہے۔ ہاں بالِغ اپنے حصّے سے کرسکتا ہے۔ (مُلَخَّص از بہار شریعت ج۱ حصہ۴ ص۸۲۲)
{5} تیجے کا کھاناچونکہ عُمُوماً دعوت کی صورت میں ہوتا ہے اِس لئے اَغْنِیا کے لئے جائز نہیں صِرْف غُرَبا ء و مساکِین کھائیں ، تین دن کے بعد بھی میِّت کے کھانے سے اَغْنِیا (یعنی جو فقیر نہ ہوں اُن) کوبچنا چاہئے ۔ فتاوٰی رضویہ جلد9 صفحہ667سے میِّت کے کھانے سے متعلق ایک مُفید سُوال جواب ملاحَظہ ہوں ، سُوال : مقولہ طَعَامُ الْمَیِّتِ یَمِیْتُ الْقَلْب (میّت کا کھانا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ ) مُسْتَنَد قول ہے، اگر مُسْتَنَد ہے تو اس کے کیا معنٰی ہیں ؟
جواب : یہ تجربہ کی بات ہے اور اس کے معنٰی یہ ہیں کہ جو طعامِ میّت کے متمنّی رہتے ہیں ان کا دل مر جاتا ہے، ذِکر و طاعتِ اِلٰہی کے لئے حیات وچُستی اس میں نہیں کہ وہ اپنے پیٹ کے لُقمے کے لئے موتِ مُسْلِمِین کے مُنْتَظِر رہتے ہیں اور کھانا کھاتے وقت موت سے غافل اور اس کی لذّت میں شاغل۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۹ص۶۶۷)
{6} میِّت کے گھر والے اگر تیجے کا کھانا پکائیں تو (مالدار نہ کھائیں ) صِرْف فُقَرا کو کھلائیں جیسا کہ مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہبہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ853پر ہے : میّت کے گھر والے تیجہ وغیرہ کے دن دعوت کریں تو ناجائز وبدعتِ قَبِیحہ ہے کہ دعوت تو خوشی کے وَقت مَشرُوع (یعنی شرع کے موافِق) ہے نہ کہ غم کے وقت اور اگر فقرا کو کھلائیں تو بہتر ہے۔ (اَیضاً ص ۸۵۳)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ’’یونہی چہلُم یا برسی یا شَشماہی پر کھانا بے نیَّتِ ایصالِ ثواب مَحض ایک رَسمی طور پر پکاتے اور’’ شادیوں کی بھاجی ‘‘ کی طرح برادری میں بانٹتے ہیں ، وہ بھی بے اَصْل ہے ، جس سے اِحْتِراز (یعنی اِحْتیاط کرنیچاہئے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ مُخرَّجہ ج۹ ص۶۷۱ ) بلکہ یہ کھانا ایصالِ ثواب اور دیگر اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ ہونا چاہیے اور اگر کوئی ایصالِ ثواب کیلئے کھانے کا اہتِمام نہ بھی کرے تب بھی کوئی حَرَج نہیں ۔
{8}ایک دن کے بچّے کو بھی ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں ، اُس کاتیجا وغیرہ بھی کرنے میں حَرَج نہیں ۔اور جو زندہ ہیں ان کو بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔
{9} اَنبیا و مُرسلین عَلَیْہمُ الصَّلٰوۃُ والتَّسْلِیْم اورفرشتوں اورمسلمان جِنّات کو بھی ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں ۔
{10}گیارھویں شریف اوررَجَبی شریف (یعنی22 رجب المرجّب کو سَیِّدُنا امام جعفرِ صادِقرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کونڈے کرنا) وغیرہ جائز ہے۔ کونڈے ہی میں کِھیرکھلانا ضَروری نہیں دوسرے برتن میں بھی کِھلا سکتے ہیں ، اس کو گھر سے باہَر بھی لے جاسکتے ہیں ، اس موقع پر جو’’کہانی‘‘ پڑھی جاتی ہے وہ بے اَصْل ہے، یٰسٓ شریف پڑھ کر 10قراٰنِ کریم ختم کرنے کا ثواب کمایئے اور کونڈوں کے ساتھ ساتھ اِس کا بھی ایصالِ ثواب کردیجئے۔
{11} داستانِ عجیب، شہزادے کا سر ، دس بیبیوں کی کہانی اور جنابِ سیِّدہ کی کہانی وغیرہ سب من گھڑت قِصّے ہیں ، انہیں ہرگز نہ پڑھا کریں ۔ اسی طرح ایک پمفلٹ بنام ’’وصیّت نامہ‘‘ لوگ تقسیم کرتے ہیں جس میں کسی ’’شیخ احمد‘‘ کا خواب دَرْج ہے یہ بھی جعلی(یعنی نقلی) ہے اس کے نیچے مخصوص تعداد میں چھپواکر بانٹنے کی فضیلت اور نہ تقسیم کرنے کے نقصانات وغیرہ لکھے ہیں ان کا بھی اعتبارمت کیجئے ۔
{11} داستانِ عجیب، شہزادے کا سر ، دس بیبیوں کی کہانی اور جنابِ سیِّدہ کی کہانی وغیرہ سب من گھڑت قِصّے ہیں ، انہیں ہرگز نہ پڑھا کریں ۔ اسی طرح ایک پمفلٹ بنام ’’وصیّت نامہ‘‘ لوگ تقسیم کرتے ہیں جس میں کسی ’’شیخ احمد‘‘ کا خواب دَرْج ہے یہ بھی جعلی(یعنی نقلی) ہے اس کے نیچے مخصوص تعداد میں چھپواکر بانٹنے کی فضیلت اور نہ تقسیم کرنے کے نقصانات وغیرہ لکھے ہیں ان کا بھی اعتبارمت کیجئے ۔
{13} نیاز اورایصالِ ثواب کے کھانے پر فاتحہ پڑھانے کیلئے کسی کوبُلوانا یا باہر کے مہمان کو کِھلانا شرط نہیں ، گھر کے افراد اگر خود ہی فاتحہ پڑھ کر کھالیں جب بھی کوئی حَرَج نہیں ۔
{14} روزانہ جتنی باربھی کھاناحسبِ حال اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ کھائیں ، اُس میں اگر کسی نہ کسی بُزُرْگ کے ایصالِ ثواب کی نیّت کرلیں توخوب ہے۔ مَثَلاً ناشتے میں نیّت کیجئے:آج کے ناشتے کا ثواب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے ذَرِیْعے تمام انبیا ئے کرامعَلَیْہمُ السَّلَام کو پہنچے۔دوپَہَر کو نیّت کیجئے:ابھی جو کھانا کھائیں گے(یا کھایا) اُس کا ثواب سرکارِ غوثِ اعظم اور تمام اولیائے کِرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کو پہنچے،رات کو نیّت کیجئے:ابھی جو کھائیں گے اُس کا ثواب امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اورہر مسلمان مردوعورت کو پہنچے یا ہر بار سبھی کو ایصالِ ثواب کیا جائے اور یہی اَنْسَب (یعنی زیادہ مناسب) ہے۔یاد رہے! ایصالِ ثواب صِرف اُسی صورت میں ہو سکے گا جبکہ وہ کھانا کسی اچّھی نیّت سے کھایا جائے مَثَلاً عبادت پر قوّت حاصِل کرنے کی نیّت سے کھایا تو یہ کھانا کھانا کارِ ثواب ہوا اور اُس کا ایصالِ ثواب ہوسکتا ہے ۔ اگر ایک بھی اچّھی نیّت نہ ہو تو کھانا کھانا مُباح کہ اِس پر نہ ثواب نہ گناہ ، تو جب ثواب ہی نہ ملا تو ایصالِ ثواب کیسا!البتّہ دوسروں کو بہ نیّتِ ثواب کھلایا ہو تو اُس کِھلانے کا ثواب ایصال ہو سکتا ہے۔
{15}اچّھی اچّھی نیتوں کے ساتھ کھائے جانے والے کھانے سے پہلے ایصالِ ثواب کریں یا کھانے کے بعد ،دونوں طرح دُرُست ہے۔
{16}ہوسکے تو ہر روز( نَفْع پر نہیں بلکہ) اپنی بِکری(Sale) کا چوتھائی فیصد(یعنی چار سو روپے پر ایک روپیہ) اورمُلازَمت کرنے والے تنخواہ کا ماہانہ کم ازکم ایک فیصدسرکارِ غوثِ اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی نیاز کیلئے نکال لیا کریں ،ایصالِ ثواب کی نیّت سے اِس رقم سے دینی کتابیں تقسیم کریں یا کسی بھی نیک کام میں خرچ کریں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّاِس کی برکتیں خود ہی دیکھ لیں گے۔
{16}ہوسکے تو ہر روز( نَفْع پر نہیں بلکہ) اپنی بِکری(Sale) کا چوتھائی فیصد(یعنی چار سو روپے پر ایک روپیہ) اورمُلازَمت کرنے والے تنخواہ کا ماہانہ کم ازکم ایک فیصدسرکارِ غوثِ اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی نیاز کیلئے نکال لیا کریں ،ایصالِ ثواب کی نیّت سے اِس رقم سے دینی کتابیں تقسیم کریں یا کسی بھی نیک کام میں خرچ کریں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّاِس کی برکتیں خود ہی دیکھ لیں گے۔
{18}جتنوں کو بھی ایصالِ ثواب کریںاللہ عَزَّ وَجَلَّکی رَحْمت سے اُمّید ہے کہ سب کو پورا ملے گا ، یہ نہیں کہ ثواب تقسیم ہوکر ٹکرے ٹکرے ملے۔ایصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقِع نہیں ہوتی بلکہ یہ اُمّید ہے کہ اُس نے جتنوں کو ایصالِ ثواب کیا اُن سب کے مجموعے کے برابر اِس (ایصالِ ثواب کرنے والے) کو ثواب ملے۔ مثلاً کوئی نیک کام کیا جس پر اس کو دس نیکیاں ملیں اب اس نے دس مُردوں کو ایصالِ ثواب کیا تو ہر ایک کودس دس نیکیاں پہنچیں گی جبکہ ایصالِ ثواب کرنے والے کو ایک سو دس اور اگر ایک ہزار کو ایصالِ ثواب کیا تو اس کو دس ہزار دس۔ وَ عَلٰی ھٰذَا الْقِیاس۔(اور اسی قیاس پر) (بہارشریعت ج۱حصہ۴ ص۸۵۰)
{19}ایصالِ ثواب صِرْف مسلمان کو کرسکتے ہیں ۔ کافر یا مُر تَد کو ایصالِ ثواب کرنا یا اُس کو’’ مرحوم،‘‘ جنَّتی ، خُلد آشیاں ،بِیکنٹھ باسی، سَوَرگ باسی کہنا کُفر ہے۔(فاتحہ اور ایصالِ ثواب کا طریقہ ص۱۲ تا ۱۸)
(10): ’’ جشنِ والادت کے ۱۲ مدنی پھول ‘‘
[1]:جشنِ ولادت کی خوشی میں مسجِدوں ، گھروں ، دکانوں اورسُواریوں پرنیزاپنے مَحَلّے میں بھی سبز سبز پرچم لہرایئے، خوب چَراغاں کیجئے ، اپنے گھرپر کم ازکم بارہ بَلْب تو ضَرور روشن کیجئے۔ ربیع النور شریف کی بارھویں رات حُصُولِ ثواب کی نیّت سے اجتِماعِ ذِکر و نعت میں شرکت کیجئے اور صُبحِ صادِق کے وَقت سبز سبز پرچم اُٹھائے دُرُودوسلام پڑھتے ہوئے اشکبار آنکھو ں کے ساتھصبحِ بہاراں کا اِستِقبال کیجئے۔ 12ربیعُ النُّور شریف کے دن ہو سکے تو روزہ رکھ لیجئے کہ ہمارے پیارے آقا مکّی مَدَنی مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیر شریف کو روزہ رکھ کر اپنا یومِ وِلادت مناتے تھے جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا اَبُو قَتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں پِیر کے روزے کے بارے میں دریافت کیاگیا توارشاد فرمایا:’’ اِسی دن میری وِلادت ہوئی اور اسی روز مجھ پر وَحی نازِ ل ہوئی۔‘‘ (صَحیح مُسلِمص۵۹۱ حدیث۱۹۸۔(۱۱۶۲))شارِح صحیح بُخاری حضرت سیِّدُنا امام قسطلانی رَحْمَۃُ اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’اور ولادت باسعادت کے ایّام میں محفلِ میلاد کرنے کے خواص سے یہ اَمْرمُجرَّب(یعنی تجرِبہ شدہ) ہے کہ اس سال اَمْن و اَمان رہتا ہے اور ہر مُراد پانے میں جلدی آنے والی خوشخبری ہوتی ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس شخص پر رَحمت نازِل فرمائے جس نے ماہِ ولادت کی راتوں کو عید بنا لیا۔‘‘ (مواہِبُ لَّدُنیَّہ ج۱ ص۱۴۸ )
[2]:کعبۃُ اللہ شریف کے نقشے (MODEL)میں مَعَاذَ اللہ کہیں کہیں گُڑیوں کا طواف دکھایا جاتا ہے،یہ گناہ ہے۔زمانۂ جاہلیَّت میں کعبۃُُ اللّٰہ شریفمیں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے ، ہمارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فتحِ مکّہ کے بعد کعبۃُ الْمُشَرَّفہکو بُتوں سے پاک فرمادیا لہٰذا نقشے میں بھی بُت (گُڑیاں ) نہیں ہونے چاہئیں ،اس کی جگہ پلاسٹک کے پُھول رکھے جاسکتے ہیں۔(طوافِ کعبہ کے منظر کی تصویر جس میں چہرے واضِح نظر نہیں آتے اُس کو مسجِد یا گھر وغیرہ میں لگانا جائز ہے،ہاں جس تصویر کو زَمین پر رکھ کر کھڑے کھڑے دیکھنے سے چِہرہ واضِح نظر آئے اُسکا آویزاں کرنا ناجائز وگناہ ہے)
[3]:ایسے ’’باب‘‘(GATE)لگانا جائز نہیں جن میں مَور وغیرہ بنے ہوئے ہوں۔ جانداروں کی تصاویر کی مَذَمَّت میں دو احادیثِ مبارَکہ پڑھئے اور خوفِ خُداوندی سے لرزئیے :{۱}(رَحمت کے ) فِرِشتے اُس گھر میں داخِل نہیں ہوتے جس گھر میں کُتّا یا تصویر ہو۔ ( بُخاری ج۲ ص ۴۰۹ حدیث ۳۳۲۲) {۲}جو کوئی (جاندارکی)تصویر بنائے گا اللہ تَعَالٰی اُس کو اُس وقت تک عذاب دیتا رہے گا جب تک اُس تصویر میں رُوح نہ پُھونک دے اور وہ اُس میں کبھی بھی رُوح نہ پُھونک سکے گا۔(صَحیح بُخاری ج۲ ص ۵۱ حدیث ۲۲۲۵)
[4]: جشنِ ولادت کی خوشی میں بعض جگہ گانے باجے بجائے جاتے ہیں ایسا کرنا شَرْعاً گناہ ہے۔ اِس سلسلے میں دو رِوایات پیشِ خدمت ہیں:{۱} سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’مجھے ڈھول اور بانسری توڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘(فِردَوسُ الاخبار ج۱ ص۴۸۳ حدیث۱۶۱۲){۲}حضرتِ سیِّدُنا ضَحاک رَحْمَۃُ اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہ سے روایت ہے:گانا دل کو خراب اور ربّ تَبارَک وتعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہے۔
[5]:نعتِ پاک کی کیسٹیں بے شک چَلایئے مگر دھیمی آواز میں اوراِس احتیاط کے ساتھ کہ کسی عبادت کرنے والے، سوتے ہوئے یا مریض وغیرہ کو تکلیف نہ ہو نیز اذان و اوقاتِ نَماز کی بھی رِعایت کیجئے۔(عورت کی آواز میں نعت کی کیسٹ مت چلایئے )
[6]: گلی یا سڑک وغیرہ کی زمین پر اِس طرح سجاوٹ کرنا ،پرچم گاڑناجس سے راستہ چلنے اور گاڑی چلانے والے مسلمانوں کو تکلیف ہو، ناجائز ہے۔
[7]: چَراغاں دیکھنے کیلئے عورتوں کااَجنبی مردوں میں بے پردہ نکلنا حرام و شَرمناک نیز باپردہ عورتوں کا بھی مُروَّجہ انداز میں مَردوں میں اختِلاط(یعنی خَلط مَلط ہونا) انتِہائی افسوس ناک ہے۔نیز بجلی کی چوری بھی ناجائز ہے۔لہٰذا اس سلسلے میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے سے رابِطہ کر کے جائزذرائِع سے چَراغاں کی ترکیب بنایئے۔
[8]:جُلوسِ میلاد میں حتَّی الْامکان باوُضو رہئے، نَمازِ باجماعت کی پابندی کا خیال رکھئے۔ عاشِقانِ رسول نَماز کی جماعت ترک کرنے والے نہیں ہوا کرتے۔
[9]:جُلوسِ مِیلاد میں گھوڑا گاڑی اور اُونٹ گاڑی مت لایئے کیوں کہ گھوڑے اور اُونٹ کے پَیشاب اور لِیدسے عاشِقان رسول کے کپڑے وغیرہ پلید ہونے کا اندیشہ رہتاہے۔
[10]:جُلوس میں ’’لنگرِ رسائل ‘‘چلایئے یعنی مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ رسالے اور مَدَنی پھولوں کے مختلف پمفلٹ نیز سنّتوں بھرے بیانات کی V.C.Ds وغیرہ خوب تقسیم کیجئے نیز پھل اور اناج وغیرہ تقسیم کرنے میں بھی پھینکنے کے بجائے لوگوں کے ہاتھوں میں دیجئے ،زمین پر گرنے بِکھرنے اور قدموں تلے کُچلنے سے ان کی بے حُرمتی ہوتی ہے۔
[11]:اشتِعال انگیز نعرہ بازی پُروقار جُلوسِ میلاد کومُنتَشِر کرسکتی ہے ،پُر اَمن رہنے میں آپ کی اپنی بھلائی ہے۔
[12]: خدانخواستہ اگر کہیں ہلکا پُھلکا پتھراؤ ہوبھی جائے تب بھی جذبات میں آکر جوابی کاروائی پر نہ اُترآئیں کہ اس طرح آپ کا جلوسِ میلاد تِتّر بِتّر اور دشمن کی مُراد بارآور۔۔۔۔۔
غُنچے چَٹکے،پُھول مہکے ہر طرف آئی بہار
ہو گئی صبحِ بَہْاراں عید ِ میلادُ النّبی
(وسائلِ بخشش ص۴۶۵) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(11): ’’ دیدارِ مُصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وظیفہ ‘‘
عرض : حبیبِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارتِ شریفہ حاصل ہونے کا کیا طریقہ ہے ؟
ا رشاد : دُرُود شریف کی کثرت شب میں اور سوتے وقت کے علاوہ ہر وقت تکثیر (یعنی کثرت)رکھے بالخصوص اِس دُرُود شریف کو بعد عشا ء سو با ر یا جتنی بار پڑھ سکے پڑھے ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا اَمَرْتَنَا اَنْ نُّصَلِّیَ عَلَیْہ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا ھُوَ اَھْلُہ ٗ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَما تُحِبُّ وَ تَرْضٰی لَہ ٗ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی رُوْحِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِی الْاَرْوَاحِ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی جَسَدِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِی الْاَجْسَادِ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی قَبْرِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِی الْقُبُوْرِ صَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلٰنا مُحَمَّدٍ ؕ
حُصولِ زیارتِ اقدس(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)کے لئے اس سے بہتر صِیغہ نہیں مگر خالِص تعظیمِ شانِ اقدس (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)کے لئے پڑھے اس نیَّت کو بھی جگہ نہ دے کہ مجھے زِیارت عطا ہو، آگے اُن کا کرم بے حد وبے انتہاہے ۔
فِراق ووَصل چہ خَواہی رِضائے دوست طَلَب
کہ حَیْف باشَد اَز و غیرِ اُو تمنّائی
(یعنی نزدیکی ودُوری سے کیا مطلب !دوست کی خوشنودی طلب کر کہ اِس کے علاوہ دوست سے کسی اور شے کی آرزو کرنا قابلِ افسوس ہے )
جلوہ یار ادھر بھی کوئی پھیرا تیرا
حسرتیں آٹھ پَہَر تکتی ہیں رستہ تیرا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
(غیبت کی تباہ کاریاں ص۱۶۲،۱۶۳)
(12): ’’ مسلمانوں کی مدد کرنے اور ان سے مدد حاصل کرنے کے مدنی پھول ‘‘
وہ مقامات جہاں مدد مانگنا واجِب ہے
(۱) اگر(لباس پاس نہیں اور ایسی صورت ہے کہ ننگے نماز پڑھے گا اور)دوسرے کے پاس کپڑا ہے اور غالِب گمان ہے کہ مانگنے سے دے دے گا، تو(بصورتِ لباس مدد) مانگنا واجب ہے۔(بہار شریعت ج ۱ ص۴۸۵)
(۲) اگر اپنے ساتھی کے پاس پانی ہے اور یہ گمان ہے کہ (بصورتِ پانی مدد)مانگنے سے دیدے گا تو مانگنے سے پہلی تَیَمُّم جائز نہیں پھر اگر نہیں مانگا اورتَیَمُّم کرکے نَماز پڑھ لی اور بعد نَماز مانگا اور اس نے دیدیا یا بے مانگے اس نے خود دیدیا تو وُضو کرکے نماز کا اِعادہ(یعنی دوبارہ پڑھنا) لازِم ہے اور اگر مانگا اور نہ دیا تو نَماز ہو گئی اور اگر بعد کو بھی نہ مانگا جس سے دینے نہ دینے کا حال کُھلتا اور نہ اُس نے خود دیا تو نماز ہوگئی اور اگر دینے کا غالِب گمان نہیں اورتَیَمُّم کر کے نَماز پڑھ لی جب بھی یِہی صورَتیں ہیں کہ بعد کو پانی دے دیا تو وُضو کرکے نَماز کا اعادہ کرے ورنہ ہوگئی۔ (ایضاً ص۳۴۸)
وہ مقامات جہاں مدد کرنا واجب ہے
(۱)کوئی مصیبت زدہ فریاد کر رہا ہو، اُسی نَمازی کو پُکار رہا ہو یا مُطلَقاً کسی شخص کو پُکارتا ہو یا کوئی ڈوب رہا ہو یا آگ سے جل جائے گا یا اندھا راہ گیر کوئیں میں گرا چاہتا ہو، ان سب صورتوں میں (نَماز) توڑ دینا واجب ہے، جب کہ یہ(نمازی) اس کے بچانے پر قادر (یعنی قدرت رکھتا)ہو۔ (ایضاً ص۶۳۷)
سب ’’اُصول‘‘ کہلاتے ہیں)کے مَحض بُلانے سے نماز قَطع کرنا (یعنی توڑنا) جائز نہیں ، البتّہ اگر ان کا پُکارنا بھی کسی بڑی مصیبت کے لیے ہو، جیسے اوپر مذکور ہوا تو توڑ دے(اور ان کی مددکو پہنچے)، یہ حُکم فرض(رکعتوں )کا ہے اور اگر نَفل نماز ہے اور ان کو معلوم ہے کہ نماز پڑھتا ہے تو ان کے معمولی پُکارنے سے نماز نہ توڑے اور اس کا (نفلی)نَماز پڑھنا انھیں معلوم نہ ہو اور پُکارا تو توڑ دے اور جواب دے، اگرچِہ معمولی طور سے بلائیں۔ (ایضاً ص۶۳۸)
(۳)کوئی سو رہا ہے یا نماز پڑھنا بھول گیا تو جسے معلوم ہو اس پر واجب ہے کہ(اُس کی اِس طرح مددکرے کہ) سوتے کو جگا دے اور بُھولے ہوئے کو یاد دلادے۔ (ایضاًص۷۰۱)(۴)بھول کر کھایا یا پیا یا جِماع کیا روزہ فاسِد نہ ہواخواہ وہ روزہ فرض ہو یا نَفل ۔اورروزہ کی نیّت سے پہلے یہ چیزیں پائی گئیں یا بعد میں ، مگر جب یاد دلانے پر بھی یاد نہ آیا کہ روزہ دار ہے تو اب فاسد ہو جائے گا، بشرطیکہ یاد دلانے کے بعد یہ افعال واقِع ہوئے ہوں مگراس صورت میں کَفّارہ لازم نہیں۔
۔(۵) کسی روزہ دارکو ان افعال میں دیکھے تو یاد دلانا واجب ہے، (اُس کی اِس طرح مدد نہ کی یعنی)یاد نہ دلایا تو گنہگار ہوا، مگر جب کہ وہ روزہ دار بہت کمزور ہو کہ یاد دلائے گا تو وہ کھانا چھوڑ دے گا اور کمزوری اتنی بڑھ جائے گی کہ روزہ رکھنا دشوار ہوگا اور کھا لے گا تو روزہ بھی اچھی طرح پورا کر لے گا اور دیگر عبادتیں بھی بخوبی ادا کر لے گا تو اس صورت میں یاد نہ دلانا بہتر ہے۔ (ایضاًص۹۸۱)
(۶)جو شخص(قراٰن کریم ) غَلَط پڑھتا ہو تو سُننے والے پر (اِس اندازمیں مدد کرنا ) واجب ہے کہ بتا دے، بشرطیکہ بتانے کی وجہ سے کینہ و حسد پیدا نہ ہو۔ اسی طرح اگر کسی کا مُصْحَف شریف (قراٰنِ پاک)اپنے پاس عارِیت(یعنی کچھ وقت کیلئے)ہے،اگر اس میں کِتابت (لکھائی) کی غلطی دیکھے، بتا دینا(کہ یہ بھی ایک مددہی کی صورت ہے جوکہ) واجِب ہے۔ (ایضاً ص۵۵۳)
ہے انتظامِ دنیا امدادِ باہَمی سے
آجائے گی خرابی امداد کی کمی سے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد