’’ دینی کاموں کے مدنی پھول ‘‘
(01): ’’ دعوتِ اسلامی کے ۸ مدنی پھول ‘‘
از: شيخ طريقت امير اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الياس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العاليہ مدینہ ۱: دعوتِ اسلامی کا بنیادی مقصد اِسلامِیّات کو دنیا کے لوگوں تک اِس طرح پہنچانا کہ مُبلِّغِین خود بھی سنّتوں سے آراستہ رہیں، اور مُناظِرانہ ردّ کو ماہرِ فن عُلَماءِ اہلسنّت پر چھوڑ کر تبلیغ و اشاعت کا کام کرتے رہیں۔ مدینہ ۲:اسلامیّات سے مُراد شَہَنْشاہِ خوش خِصال، سلطانِ شیریں مقال، پیکرِ حُسن و جمال ،مَخزنِ عظمت و کمال ، دافعِ رنج و ملال، صاحبِ جُودو نَوال ، رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال، محبوبِ ذُوالْجَلال عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے وہ اَقوال و اَفعال ہیں جن پر حضرت سیدُنا امامِ اعظم ابوحنیفہ، حضرتِ سیِّدُنا امامِ مالِک ،حضرتِ سیِّدُنا امامِ شافِعی، حضرتِ سیِّدُنا امامِ احمد بن حَنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہم قائم رہے۔سیِّدُنا امام اَبوالْحسن اشعری ،سیِّدُنا امام ابومَنصور ماتُرِیدی رضی اللہ عنہما جن کی تعلیم دیتے رہے۔ سرکار ِ بغداد حُضُورِ غوثِ پاک حضرتِ سیِّدُناشیخ عبدُالقادِرجِیلانی، سرکارِ غریب نواز حُضُورسیِّدُناخواجہ مُعینُ الحقِّ وَالدّین چِشتی،حُضُورسیِّدُنا شیخ شہابُ الحقِّ وَالدّین سُہروَردی ، حُضُورسیِّدُناشیخ بہاؤ الحقِّ وَالدّین نَقْشْبندی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین جن کے عامل رہے۔ عُلَماءِ اہلسنّت مَثَلاً صاحِب ردُّالمُحْتار، خاتِمُ الْفُقَھاء سیِّدُنا شیخ سیِّد محمد امینُ الدّین ابنِ عابِد ین شامی قدِّس سرُّہُ السّامی ،سیِّدُنا شاہ مُلّا جِیوَن ہِندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، سیِّدُنا شاہ عبدُالعزیز مُحَدِّث دِہلوی (علیہ رحمۃ القَوی) وغیرہُم جنکے قائل رہے، خُصُوصًا میرے ولئِ نِعمت، اعلٰی حضرت، اِمامِ اَہلِسُنّت، عظیمُ البَرَکت ، عظیمُ المَرتَبَت، پروانۂِ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلِّت ،حامیئ سنّت ،ماحِیئ بِدعت ،عالِمِ شَرِیعت ،پیرِ طریقت، باعثِ خَیرو بَرَکت، حضرتِ علامہ مولیٰنا اَلحاج اَلحافظ اَلقاری شاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کہ جنہوں نے انکی تَصرِیحات کو اپنی تصانیفِ مبارَکہ میں بیان کردیا اور اس کو اَلمُعتَمَدُالمُستَنَد، تَمھِیدُ الِایمَان اورحُسَّامُ الحَرَمَین وغیرہ کُتُبِ مُفید ہ میں واضح فرمادیا ہے۔ مدینہ۳:تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں مَسلکِ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مضبوطی سے قائم رہیں، اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک وہی ہے جو صَحابۂ کِرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور سلف صالحینِ عِظام رحمھم اللہ تعالیٰ کا مسلک تھا، یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایک مان کر اُسی کی بندگی اور شَہَنْشَاہِ مدینہ ، سلطانِ باقرینہ، سُرورِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ ، صاحِبِ مُعَطَّر پسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کا بھیجا ہوا سچّا اور آخِری رسول ماننا، نیز اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مَحَبَّت و عظمت کی مُکمَّل پاسداری کرنا، ضَروریاتِ دین میں سے کسی کا بھی انکار نہ کرنا، نیز اللہ و رسول و صَحابۂ کِرام عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہُم کی تَوہین و تَنقِیص سے مکمّل دُور اور گستاخوں سے دُور و نُفُور رہنا، وغیرہ وغیرہ ۔ مدینہ ۴: اسلام میں عُلَماءِ حق کی بہت زیادہ اَہَمِّیَّت ہے اور وہ عِلمِ دین کے باعِث عوام سے افضل ہوتے ہیں، غیرِ عالِم کے مقابلے میں عالِم کو عبادت کا ثواب بھی زیادہ ملتا ہے، چنانچہ حضرتِ محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےمَروی ہے، '' عالِم کی دو رکعت غیرِ عالم کی ستَّر رَکْعَت سے افضل ہے۔'' (کنزالعمال ج ۱۰ ص ۸۷) لہذا دعوتِ اسلامی کے تمام وابَستگان بلکہ ہر مسلمان کے لیے ضَروری ہے کہ وہ عُلَماء اہلسنّت سے ہر گز نہ ٹکرائیں ان کے ادب و احترام میں کوتاہی نہ کریں، علماء اہلسنّت کی تَحقیر سے قَطعًا گُرَیز کریں۔ بِلا اجازتِ شَرعی ان کے کردار اور عمل پر تنقید کرکے غیبت کا گناہِ کبیرہ حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام نہ کریں، حضرت سیِّدُنا ابوالحَفص الکبیر علیہ رحمۃ القدیر فرماتے ہیں،'' جس نے کسی عالِم کی غیبت کی تو قِیامت کے روز اس کے چہرے پر لکھا ہوگا، یہ اللہ کی رَحمت سے مایوس ہے۔'' ( مکاشفۃ القلوب ، فی بیان الغیبۃ، ص ۷۱) حضرتِ سیِّدُنا ابوذرّ غِفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، ''عالِم زمین میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی دلیل و حُجَّت ہیں تو جس نے عالم میں عیب نِکالا وہ ہلاک ہوگیا۔ '' (کنزُالعمال ج ۱۰ ص ۷۷) میرے آقا اعلیٰ حضرت مولیٰناشاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں، ''اُس کی ( یعنی عالم کی) خَطاگِیری ( یعنی بھول نکالنا) اور اُس پر اعتِراض حرام ہے اور اِس کے سبب رہنمائے دین سے کَنارہ کَش ہونا اور اِستِفادَۂ مسائل چھوڑ دینا اِس کے حق میں زَہر ہے۔'' (فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص ۷۱۱ ) اُن نادان لوگوں کو ڈر جانا چاہیے جو بات بات پر عُلَمائے کِرام کے بارے میں تَوہین آمَیز کلِمات بک دیا کرتے ہیں مَثلاً بھئی ذرا بچ کر رہناکہ ''عَلّامہ صاحِب '' ہیں ، عُلَما لالچی ہوتے ہیں، ہم سے جَلتے ہیں، ہماری وجہ سے اب ان کا کوئی بھاؤ نہیں پوچھتا، چھوڑو چھوڑو یہ تَو مولوی ہے ، ( معاذَ اللہ عالِم کو بعض لوگ حَقارت سے کہہ دیتے ہیں ) ''یہ مُلّا لوگ!''، عُلَما نے ( مَعاذَ اللہ) سُنّیت کا کوئی کام نہیں کیا ( بعض اوقات ناپسندیدَگی کا اِظہارکرتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے) فُلاں کا اندازِ بیان تو مَولَویوں والاہے وغیرہ وغیرہ۔ عالِمِ کی تَوہین کی صورَتیں اور ان کے بارے میں حکمِ شَرعی بیان کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: '' اگر عالِمِ دین کو اس لیے بُرا کہتا ہے کہ وہ ''عالِم'' ہے جب تو صَریح کافِر ہے اور اگر بوجہِ عِلم اُس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کِسی دُنیوی خُصُومت ( یعنی دشمنی) کے باعِث بُرا کہتا ہے، گالی دیتا ہے اور تَحقیر کرتا ہے تو سخت فاسِق و فاجِر ہے اور اگر بے سبب ( یعنی بِلاوجہ) رنج ( بُغض) رکھتا ہے تو مَرِیضُ القَلبِ وَخَبیثُ البَاطِن ( یعنی دل کا مریض اور ناپاک باطِن والا) ہے اور اُس ( یعنی خواہ مخواہ بُغض رکھنے والے) کے کفر کا اندیشہ ہے، ''خُلاصہ،، میں ہے مَن اَبغَضَ عَالِماً مِّن غَیْرِ سَبَبٍ ظَاھِرٍ خِیْفَ عَلَیْہِ الْکُفْرُ ( یعنی جو بِلا کسی ظاہِری وجہ کے عالِمِ دین سے بُغض رکھے اُس پر کُفر کا خوف ہے '') ( فتاویٰ رضویہ ج ۱۰ ص ۱۴۰ مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی) شَرِیعَت و عُلَمائے دین کی تَحقیر کے بعض کُفریہ کلِمات وانداز کی مِثالیں پیش کی جاتی ہیں ، اگر مَعاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ کسی نے ماضی میں اپنے قول یا فِعل سے عالِم کی بسببِ علمِ دین توہین کر ڈالی ہو تو وہ توبہ و تَجدیدِ ایمان کرلے اور اگر شادی شدہ ہو تو تجدیدِ نکاح اورکسی کا مُرید ہو تو تَجدیدِ بَیعَت بھی کرلے۔
شَرِیعَت کی توہین کرنا کُفر ہے مَثَلاًکہا: میں شَرع وَرع نہیں جانتا یا جس کو کسی مُحتاط عالمِ دین کا فتویٰ پیش کیا گیا اُس نے کہا: میں فتویٰ نہیں مانتا یا فتویٰ زمین پر پٹک دیا۔ (ماخوذ از بہارِ شَرِیعَت حصہ ۹ ص ۱۷۲)
'' مولوی لوگ کیا جانتے ہیں، '' اس ( جملے) سے ضَرور عُلَما کی تَحقیر نکلتی ہے اور عُلَماءِ دین کی تَحقیر کُفر ہے (فتاویٰ رضویہ ج ۶ ص ۲۴ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی) جو کہے مولَوی سب بدمَعاش ہیں یعنی سب عُلَما کوبُرا کہے اُس پر حکمِ کُفر ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ ج ۴ ص ۴۵۴)
''عالم لوگوں نے دیس خراب کردیا، ''کلمہ کُفر ہے ( ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ج ۶ ص ۱۱۵ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی) یہ کہنا بھی کُفر ہے کہ مولویوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔
یہ کہنا کہ ''دین اللہ تعالیٰ نے تو آسان اُتارا تھا مولویوں نے مشکِل کردیا'' کفر ہے کیونکہ اَلْاِ سْتِخْفَافُ بِالاَشرَافِ وَالعُلَمَاءِ کُفر'' ( یعنی سادات و عُلَما کی تخفیف و تَحقیر کُفر ہے) ( مجمعُ الانھٰر ج ۲ ص ۵۰۹)
جوکہے: عُلَما جو عِلم سکھاتے ہیں مَحض قصّے کہانیاں ہیں یا خواہِشات ہیں یا مَحض دھوکہ ہیں یا کہا، میں حِیلوں کے عِلم کا منکِر ہوں یعنی شَرِیعَت کو حِیلہ کہا یہ تمام اقوال کُفر ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری ج ۲ ص ۲۷۰)
جو کہے:'' عِلم کا کیا کروں گا جیب میں روپے ہونے چاہیں'' ایسا کہنے والے پر حُکمِ کُفر ہے ۔ کسی نے عالِمِ سے کہا: '' جا اور عِلم کو کسی برتن میں سنبھال کر رکھ ۔'' یہ کُفر ہے ( فتاویٰ عالمگیری ج ۲ ص ۲۷۱)
یاد رہے ! تعظيم صِرف عُلَمائے اہلسنّت ہی کی کی جائے گی، رہے بدمذہب عُلَما ( یعنی عُلَماءِ سُوء ) تو اُن کے سائے سے بھی بھاگے کہ ان کی تعظیم حرام، اُن کا بیان سننا ان کی کُتُب کا مُطَالَعہ کرنا اور انکی صُحبت اختیار کرنا حرام اور ایمان کے لیے زہرِ ہَلا ہَل ہے۔
مدینہ ۵: معمولاتِ اہلسنّت ہماری پہچان ہے لہٰذا ان کی بجا آوَری میں کوتاہی نہ فرمایئے۔ مَثَلاً (الف) ربیعُ النُّور شریف میں دھوم دھام سے جشنِ وِلادت منائیے، اپنے مکان اور دُکان وغیرہ پر ابتِدائی ۱۲ دن چَراغاں اور سارا مہینہ ( گاڑیوں پر بھی) سبز سبز پرچم لہرائیے ۔ اپنی مسجِد اور مَحَلّے وغیرہ کو بھی بَرقی قُمقُموں اور سبز سبز پرچموں سے خوب سجائیے، شب ِ وِلادت ( ربیعُ النُّور شریف کی ۱۲ ویں رات) اجتِماعِ ذِکر و نعت میں گزارنے کے بعد ہاتھوں میں سبز پرچم اُٹھائے کھڑے ہو کر عَین صبحِ صادِق کے وقت صلٰوۃ وسلام پڑھتے ہوئے صبحِ بہاراں کا استِقبال کیجئے، ۱۲ ربیعُ النُّور شریف یعنی عیدِ مِیلادُ النَّبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دن مرحبا کی دھومیں مچاتا ہوا جُلوسِ مِیلاد نکالئے۔
( ب) عیدِ مِعراجُ النَّبی علیٰ صاحبہا الصّلٰوۃُ والسلام۔ ایّامِ خُلَفَائے راشِدین علیہم الرضوان۔ سالانہ گیارھویں شریف اور یومِ رضاؔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلسلے میں ۲۵ صَفَر المُظفَّر کو اجتماعِ ذِکر و نعت کا اِنعِقاد فرمایئے۔ (ج) اَعراس کے مواقِع پر مَزاراتِ اولیاء رَحِمَھُمُ اللہُ تَعالیٰ سے مُلحِقَہ مساجِد میں مَدَنی قافِلے ٹھہرائیے، اپنے جَدوَل کے مطابِق وہاں زائرین میں نیکی کی دعوت کی دُھومیں مچائیے اور صاحِبِ عُرس کی خوب بَرَکتیں لوٹیے۔
مدینہ ۶: تمام دعوتِ اسلامی والوں کو چاہیے کہ مرکزی مجلسِ شوریٰ، اپنے ملک کی انتِظامی کابینہ اور اپنے یہاں کی مجلسِ مُشَاوَرت حتیّٰ کہ اپنے یہاں کی مشاورت کے ذَیلی نگران کی شرِیعَتِ مُطَہَّرہ کے دائِرے میں رَہ کر اطاعت کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کا مَدَنی کام کرتے رہیں۔
مدینہ ۷: شیطان غیبتیں کروا کر دین کے کام کا بُہَت نقصان کرواتا ہے۔ لہذا اگر آپ کسی اسلامی بھائی میں بُرائی پائیں توبلا اجازتِ شرعی دوسروں پر اظہار کرکے غیبت کا کبیرہ گناہ کرنے کے بجائے ممکنہ صورت میں براہِ راست اُسی کو نرمی کے ساتھ اکیلے میں سمجھائیے اگر ناکامی ہو تو خاموشی اختیار فرمائيے اور اُس کے لیے دعا کیجئے۔ اگر دینی نقصان کا اندیشہ ہو تو تنہائی میں یا لکھ کر اپنے یہاں کی مُشاوَرت کے ''ذَیلی نگران'' کا تعاوُن حاصِل کیجئے جب کہ وہ مسئلہ(مَسْ۔ءَ۔لَہ) حل کرسکتا ہو۔ ورنہ شَرِیعَت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مزید آگے مَثلاً اپنی مُشاوَرت کے ''حلقہ نگران'' اگر یہ بھی نہ کرسکے تو عَلاقائی مشاوَرت کے نگران ،پھر تحصیل مُشاوَرت کے نگران، پھر شہر مُشاوَرت کے نگران ، پھر ڈویژن کی مُشاوَرت کے نگران، پھر صُوبے کی مشاوَرت کے نگران، پھر مُلک کی انتِظامی کا بینہ کے نگران سے رُجُوع کیجئے، یاد رکھیئے ! اگر آپ نے شَرعی مَصلِحت کے بِغیر کسی ایک سے بھی خواہ وہ کتنا ہی بڑا ذمّے دار ہو اُس اسلامی بھائی کی بُرائی بیان کی تو یہ گناہ کا کام ہوگا۔اور اگر آپ کی وجہ سے بات عام ہوگئی اور عَلاقے میں تنظیمی مسائل کھڑے ہوگئے اور سنّتوں کے مَدَنی کام کو نقصان پہنچا تو آپ کی گردن پر دین کے کام میں فساد برپا کرنے کا الزام اور درد ناک عذاب کا اِستِحقاق ہوگا۔
مدینہ ۸: سنّتوں بھرے اِجتماعات وغیرہ میں بیان کی دو صورَتیں ہوں گی۔
(الف) وہ مُبَلِّغِین جو علم و عمل میں مُمتاز ہوں گے اور تبلیغِ دین کی بھرپور صَلاحِیَّت رکھتے ہوں گے ( مَثلاً درسِ نظامی کرلیا ہو نیز مُطالعَہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ حافِظہ بھی قَوی ہو اور شَرعی غَلَطیاں نہ کرتے ہوں) ان کو زَبانی بیان کرنے کی اجازت ہوگی۔
( ب) وہ مُبَلِّغِین جو علم میں مُمتاز نہ ہوں گے وہ علمائے اہلسنّت کی کُتُب سے حسبِ ضَرورت فوٹو کاپیاں کروا کر اپنی ڈائِری میں چَسپاں کرکے اُنہیں دیکھ کر مِن وعَن بیان کریں گے۔
اے ربِّ محمد بہرِرضا، عطارؔ کی ہو مقبول دعا
ہر''دعوتِ اسلامی والا ''سنّت کا علم لہراتا رہے
(02): ’’ مدنی قافلے کی 44نیتیں ‘‘
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کئے جانے والے سُوال کے ذَرِیعے یہ بھی معلوم ہوا کہ نَمازوں کا جذبہ رکھنے والے اُس دور کے مسلمان بھی نیکی کی دعوت کیلئے قافِلے میں سفر کیا کرتے تھے اور اب تو فیضانِ رضا سے اِس مَدَنی کام کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی مَدَنی تحریک،دعوتِ اسلامی بھی قائم ہو گئی ہے۔جس کا مَدَنی پیغام تادمِ تحریر کم و بیش دنیا کے150 مُلکوں میں پہنچ چُکا ہے! سنّتوں کی تربیَّت کے مَدَنی قافِلے کے مسافِروں کے تو بس وارے ہی نیارے ہوجاتے اور نیکیوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں،اس مَدَنی سفر میں جس قَدَر اچّھی اچّھی نیّتیں کریں گےان شاء اللہ عزوجل اُسی قَدَر ثواب بھی بڑھتا چلا جائے گا۔مَثَلًا حسبِ حال ان میں یہ نیّتیں کی جاسکتی ہیں:*اگر شَرعی مِقدار کا سفر ہو ا توگھر میں روانگیٔ سفر کی دو رَکعت نَفل ادا کروں گا* اپنے ذاتی خَرچ پر سفر کروں گا* پلّے سے کھاؤں گا *ہر بار سُواری کی دُعا پڑھوں گا اور موقع ملا تو پڑھاؤں گا* اگر کسی اسلامی بھائی کو جگہ نہیں ملے گی تو اپنی نِشَست ترک کرکے اُس پر اُس کوبَاِصرار بٹھاؤں گا* بس یا ریل گاڑی میں کوئی بوڑھا یا بیمار مسلمان نظر آ ئے گاتو اُس کیلئے نِشَست خالی کردوں گا * مَدَنی قافِلے والوں کی خدمت کروں گا * امیر قافِلہ کی اطاعت کروں گا * زَبان،آنکھوں اور پیٹ کا قفلِ مدینہ لگاؤں گا یعنی فُضُول گوئی،فُضُول نگاہی سے بچوں گا اور خواہِش سے کم کھاؤں گا* سفر میں بھی ہرموقع پر ’’مَدَنی اِنعامات‘‘ پر عمل جاری رکھوں گا * وُضُو،نَماز اور قراٰنِ پاک پڑھنے میں جوغَلَطیاں ہوں گی وہ عاشِقانِ رسول کی صُحبت میں رہ کر دُرُست کروں گا۔(جو جانتا ہووہ یہ نیّت کرے کہ سکھاؤں گا)* سنّتیں اور دعائیں سیکھوں گا اور *دوسروں کو سکھاؤں گا اور* ان پر زندَگی بھر عمل کرتا رہوں گا * تمام فَرض نَمازیں مسجِد کی پہلی صَف میں تکبیرِ اُولیٰ کے ساتھ با جماعت ادا کروں گا * تَہجُّد،اِشراق،چاشت اوراَوّابین کی نَمازیں پڑھوں گا* ایک لمحہ بھی ضائِع نہیں ہونے دوں گا،فارِغ اوقات ملے تو اللہ اللہ کرتا رہوں گا،دُرُود شریف پڑھتا رہوں گا۔(دورانِ درس و بیان وغیرہ بِغیرکچھ پڑھے خاموشی سے سننا ہوتا ہے)*’’ صدائے مدینہ‘‘ لگاؤں گا یعنی نَمازِ فَجر کے لئے مسلمانوں کو جگاؤں گا* راستے میں جب جب مسجِد نظر آ ئے گی تو بُلند آوازسے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! کہہ کر صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد کہوں گا اور کہلواؤں گا *بازارمیں جانا پڑا تو بِالخُصوص نیچی نِگاہیں کئے گزرتے ہوئے بازار کی دُعا پڑھوں گااور موقع ملا تو پڑھاؤں گا*مسلمانوں سے پُر تپاک طریقے پر ملاقات کروں گا * خوب انفرادی کوشِش کروں گا * ہاتھوں ہاتھ مَدَنی قافِلے میں سفر کیلئے مسلمانوں کو تیّار کروں گا* نیکی کی دعوت دوں گا*درس دُو ں گا * موقع ملا تو سنّتوں بھرا بیان کروں گا *جہاں قافِلہ جا ئے گاوہاں کے کسی بُزُرگ کے مزار شریف پر مَدَنی قافِلے کے ہمراہ حاضِری دوں گا* سُنّی عالم کی زیارت کروں گا*اگر مَدَنی قافِلے کا کوئی مسافِر بیمار ہو گیا تو تیمارداری کروں گا*اگر کسی مسافِر کے پاس خرچ خَتم ہوگیا تو امیرِ قافِلہ کے مشورے سے اُس کی مالی امداد کروں گا * سفر میں اپنے لئے،گھر والوں کیلئے اور امّتِ مسلمہ کیلئے دُعائے خیر کروں گا * جس مسجِد میں قِیام ہوگا وہاں وُضو خانے اور مسجِد کی صفائی کروں گا * اگر کسی نے بِلاوجہ سختی کی تب بھی صَبْر کروں گا * تھکن وغیرہ کے سبب غصّہ آ گیا تو زَبان کا قفلِ مدینہ لگاتے ہوئے ضَبط کروں گا * اگر مسجِد میں مَدَنی قافِلے کو قِیام کی اجازت نہ ملی تو کسی سے اُلجھنے کے بجائے اِس کو اپنے اِخلاص کی کمی تصوُّر کروں گا اور مدنی قافِلے کے ساتھ ہاتھ اُٹھا کر دعائے خیر کرتا ہوا پلٹوں گا* اگر کوئی جھگڑا کرے گا تو حق پر ہونے کے باوُجُود اُس سے جھگڑا نہ کر کے حدیثِ پاک میں دی ہوئی اِس بِشارت کاحقدار بنوں گا،جس میں نبیِّ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں:جو حق پر ہونے کے باوُجُود جھگڑا نہیں کر تامیں اُس کیلئے جنّت کے(اندرُونی )کَنارے میں ایک گھر کا ضامِن ہوں۔ (ابوداوٗدج۴ ص ۳۳۲حدیث ۴۸۰۰) * اگر کسی نے ظُلمًا مارا بھی توجوابی کاروائی کرنے کے بجائے شُکر ادا کروں گا کہ راہِ خدا عزوجل میں مار کھانی کے باوجود دین پر ڈٹے رہنے والی ’’ سنّتِ بلالی ‘‘ادا ہوئی* اگر میری وجہ سے کسی مسلمان کی دل آزاری ہو گئی تو اُسی وَقت عاجِزی کے ساتھ مُعافی مانگوں گا*چُونکہ ہر وقت ساتھ رہنے میں حق تلفیوں کا اِمکان زیادہ رہتا ہے لہٰذا واپَسی پر ہر ایک سے فردًا فردًا انتِہائی لَجاجَت کے ساتھ مُعافی تَلافی کروں گا*(شرعی)سفرسے واپَسی پر گھر والوں کیلئے تُحفہ لے جانے کی سنّت ادا کروں گا *(سفر اگر شَرعی ہوا تو)مسجِد میں آ کر غیر مکروہ وَقت میں واپسیٔ سفرکے دو نفل پڑھوں گا۔
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(03): ’’ انفرادی کوشش کی ۱۵ نیتیں ‘‘
اِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے حسبِ حال یعنی موقع کی مُناسَبَت سے بے شُمار نیتیں کی جاسکتی ہیں،ان میں سے 15پیش کی جاتی ہیں:
(1)اللہ عزوجل کی رِضا کیلئے نیکی کی دعوت دینے کیلئے انفِرادی کوشِش کرتا ہوں(2)سلام و جوابِ سلام کے بعدگرم جوشی سے ہاتھ ملا ؤں گا(3) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! کہہ کر دُرُود شریف پڑھاؤں گا اور پڑھوں گا(4)چُونکہ سامنے والے کے چِہرے پر نظریں گاڑ کر گفتگو کرنا سنّت نہیں لہٰذا حتَّی الامکان نیچی نگاہیں کئے بات چیت کروں گا (نیچی نگاہیں کر کے انفرادی کوشِش کرنے سے نیکی کی دعوت کا فائدہ ان شاء اللہ عزوجل کئی گُنا بڑھ جائے گا)(5)سنّت پر عمل کی نیّت سے مُسکرا کر بات کروں گا(6)طنز بازی اور غیر سنجیدہ گفتگو سے بچوں گا(7)سامنے والے کی نفسیّات کے مطابِق گفتگو کی کوشِش کروں گا(8)گہرے مسائل چھیڑ کر اُس کو تشویش میں نہیں ڈالوں گا(9)بِلا ضَرورت موجودہ سِیاست اور دَہشت گردی وغیرہ کے تذکرے نہیں کروں گا(10تا12)سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت،مَدَنی قافِلے میں سفر اورمَدَنی اِنعامات پر عمل کا ذِہن دینے کی سعی کروں گا(13)نئے اسلامی بھائی کو ایک دم سے داڑھی رکھنے اورعمامہ شریف پہننے کی تلقین کے بجائے نَماز کی فضیلت وغیرہ بتاؤں گا۔(ہاں جس سے بات کر رہے ہیں وہ’’ شَیوڈ‘‘ ہے اورظنِّ غالب ہے کہ اِس کو داڑھی بڑھانے کا کہیں گے تو مان جائے گا تب تو اُس کو داڑھی مُنڈانے سے منع کرنا واجِب ہو جائے گا،مگر عُمُومًا نئے اسلامی بھائی پر’’ ظنِّ غالِب‘‘ ہونا دشوار ہوتا ہے،عمل کے جذبے کی کمی کا دَورہے،نئے اسلامی بھائی کو داڑھی رکھنے کا اصرار کرنے پر ہو سکتا ہے آیَندہ آپ کے سامنے آنے ہی سے کترائے)(14)سامنے والے کا لہجہ اگر ناگوار یا طنز بھرا ہوا تو سمجھ جانے کے باوُجُود اِس کااُس پر اظہار کئے بِغیرصَبْر اور نرمی کے ساتھ عاجِزانہ انداز میں بات جاری رکھوں گا(15)اگر انفِرادی کوشش کا اچّھانتیجہ سامنے آیا تو اللہ عزوجل کا کرم سمجھوں گا اور شکرِ الٰہی بجالاؤں گا،اور اگر کوئی ناخوشگوار بات پیش آئی تو سامنے والے کو سخت دل وغیرہ سمجھنے کے بجائے اِسے اپنے اِخلاص کی کمی تصوُّر کروں گا۔ (نیکی کی دعوت۳۳۲ تا۳۳۳)
(04): ’’ انفرادی کوشش کا غلط انداز ‘‘
اِنفرادی کوشِش کرنے میں سُوالات سے پرہیز کرنا بَہُت مناسِب ہے کیوں کہ بعض سُوالات سامنے والے کو مُروَّت میں جھوٹ بُلواسکتے ہیں ، ''انفرادی کوشش''کے غَلَط انداز کو فرضی مکالمے کی صورت میں پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں :بابُ المدینہ کے کسی مبلِّغ اور زید کی ملاقات ہوئی ، سلام دعا کے بعد مبلِّغ نے اِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے سُوال کیا:ہفتہ وار اجتِماع میں آتے ہیں یا نہیں؟ زید نے شرکت سے محرومی کے باوُجُود یہ سوچتے ہوئے کہ باب المدینہ میں ہونے والے ہزاروں کے اجتماع میں میرے آنے نہ آنے کا اس''مبلّغ''کو پتا چلنے سے رہا لہٰذا مُروَّت میں کہدیا :جی ہاں۔ مبلِّغ نے اپنے زُعم (یعنی خیال )میں کام پکّا کرنے کیلئے پوچھا :کیا پابندی سے آتے ہیں؟ زید جو کہ ایک بار جھوٹ بول چکا تھا اُس سے انکار نہ بن پڑا اس لئے کہدیا :کیوں نہیں۔ مبلِّغ:اچّھا جلدی آجاتے ہیں یاد یر سے؟ زید جو کہ پہلی بار جھوٹ بول کر پھنس چکا تھا اور دوسری بار بھی جھوٹ بولدیا تھا یُوں دل بھی جھوٹ کے حوالے سے کُھلنے لگا تھا لہٰذ بو ل اٹھا :میں تو جلدی جلدی آکر بیٹھ جاتا ہوں۔ مبلِّغ :ماشاء اللہ !اچّھا یہ تو بتایئے ساری رات رُکتے ہیں یا نہیں؟ تہجُّد کیلئے اٹھتے ہیں یا نہیں ؟وہیں باجماعت نَمازِ فجرا دا کرتے ہیں یا نہیں؟ پھر مَدَنی حلقے میں شرکت کرتے ہیں یا نہیں ؟ اشراق و چاشت کے نوافِل اور اختِتامی صلوٰۃ و سلام پڑھ کر ہی گھر جاتے ہیں نا؟ زید نے مُروَّت میں:ہاں ہاں،کیوں نہیں، جی، بے شک کہتے ہوئے ہر ُسوال کی توثیق کر دی اورجان چُھڑانے کیلئے جُوں ہی پلٹا کہ مبلِّغ نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: اچّھا یہ تو بتاتے جایئے!اِس سال تین روزہ اجتِماع میں ملتان شریف بھی آئے تھے نا؟ زید جو کہ بالکل نیا اسلامی بھائی تھا اس نے سوچا کہ اگر ''نا''کہوں گا تو یہ مبلِّغ ناراض ہو جائے گا اور لیکچر سنائے گا ، لاکھوں کے اجتماع میں کس کو پتا کہ کون آیا تھا اور کون نہیں لہٰذا یہاں بھی جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اُس نے کہدیا : آیا تھا۔ مبلِّغ :پہلے دن آئے تھے یا آخِری دن؟ زید:پہلے ہی دن سے آ گیا تھا۔ مبلِّغ :اچّھا یہ تو بتائیے کہ اکیلے آئے تھے یا دوستوں کو بھی ساتھ لائے تھے ۔ زید:ہم چار دوست مل کر آئے تھے۔ مبلِّغ:بھائی!وہاں سے آپ چاروں نے ہاتھوں ہاتھ مَدَنی قافِلوں میں سفر بھی کیا یا نہیں؟ زید :جی ہاں ،کیوں نہیں ۔ اچّھا میں چلتا ہوں۔۔۔۔ مبلِّغ:ارے بھائی ذرا ٹھہریئے! یہ تو بتایئے کہ مَدَنی چینل دیکھتے ہیں یا نہیں؟ زید نے مُرُوَّت میں یہاں بھی جھوٹ موٹ ''ہاں''کہکر جان چھڑائی۔ (مگر ابھی جان کہاں چھوٹی تھی مبلّغ نے مزید ایک اور سُوال جڑ دیا) مبلِّغ:اچّھا یہ تو بتائیے دوسروں کو مدنی چینل دیکھنے کی دعوت بھی دیتے ہیں یا نہیں؟ زید :(جو کہ13 عدد جھوٹ بول چکا تھا، یہاں بھی اُس نے جھوٹ بول دیا)کیوں نہیں میں نے تو سارے خاندان والوں میں مَدَنی چینل کی تشہیر کر دی ہے ۔اچّھا مجھے اجازت دیجئے۔ دیکھا آپ نے !مبلِّغ اگر چِہ مذکورہ سُوالات کر کے گنہگار نہ ہوا تاہم اس کے انفِرادی کوشِش کے غَلَط اندازکے سبب زید جھوٹ کے 15عدد گناہوں میں پھنسا ۔بے شک زید ہی گنہگار ہوا کہ یہاں کوئی اِکراہ کی صورت نہ تھی یعنی سچ بولنے میں جان چلی جانے یا شدید پٹائی ہونے یا کسی عُضو کے بے کار کر دیئے جانے وغیرہ کا اندیشہ نہیں تھااور نہ ہی جھوٹ کی اجازت کا کوئی دوسرا سبب پایا جارہا تھا، مُرُوَّت میں جھوٹ بولے تھے جن کی شریعت میں اجازت نہ تھی۔ (غیبت کی تباہ کاریاں ص۴۵۶ تا ۴۵۸)
(05): ’’ ذمہ داران کے لیے ۱۹ مدنی پھول ‘‘
(۱) مُشکلات اِنسان کو تباہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ بنانے کے لئے آتی ہیں ۔
(۲) مسائل میں اُلجھنے اورخوفزدہ ہونے کے بجائے اُن کے حل کے لئے وسائل کو بہتر طور پر استعمال کیجئے۔
(۳) وقت ایک نِعْمت ہے جو ہر اِنسان کو برابر ،برابر دی گئی ہے ۔
(۴) بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا سارا وقت ضروری کاموں میں صرف کرے۔
(۵) کو شِش ہماری مَتَاع (سرمایہ)ہے ۔
(۶) ہِمّت ہارنا اپنی ڈِکشنری سے نکال دیں۔(امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ)
(۷) مُشکل کاموں سے جی چُرانے کے بجائے چیلنیجز کو قبول کریں ۔
(۸) یکسوئی کے تصّور کو سمجھئے اور حاصل کرنے کی کو شش کیجئے ۔
(۹) ناکامی سے مایوس نہ ہوں۔مشہور فاتح تیمورلنگ چیونٹی کی بار بار ناکامی کی بدولت کامیابی کے راز سے آشنا ہوا تھا ۔
(۱۰) کمرہ امتحان میں جو کام ہم تین(3) گھنٹے میں کرلیتے ہیں وہ عام طور پر 3 دن میں بھی مشکل ہے اس کی وجہ وقت کی تعیین(تع۔یِین)یعنی مخصوص کرنا ہے۔
(۱۱) ہر کام کے لئے وقت کی حدودمُعَیَّن(مُ۔عی۔یَنْ)یعنی مقرر کیجئے۔
(۱۲) کسی چھوٹی سی کامیابی کے بعد خرگوش کی طرح مت ہو جائیے ورنہ کچھوا اپنے عمل ِ مسلسل سے آگے نکل جائے گا۔
(۱۳) جو کام بھی کریں اس میں توازُن،تَواتُراور تَسلسُل ضرور برقرار رکھیں ۔
(۱۴) تَسَاہُل(غفلت وسُستی)ایک بیماری اور اِنتہائی نُقْصان دَہ نشہ ہے ۔
(۱۵) تَساہُل،سُست روی،اورتاخیراور''پھر کبھی''ہمارے دشمن ہیں۔
(۱۶) ذِمّہ دار کی شخصیت کا غیر منظم ہونا بھی مُعاملات میں اُلجھاؤ اور فیصلوں میں تاخیر کا باعِث ہوتا ہے۔
(۱۷) اپنے پرائم ٹائم(خصوصی اوقات) میں اپنے پرائم کام(خصوصی کاموں) کا تعین کیجئے ۔
(۱۸) ''کل کریں گے''یہ ایک دھوکا ہے ۔
(۱۹) پیر پر اِعتراض،مُرید کی صَلاحیتوں کا دُشمن ہے ۔
(06): ’’ نگران کے لیے دس مدنی پھول ‘‘
دس فِکر انگیز فَرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
{۱}تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کے ماتَحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (اَلْمُعْجَم الصَّغِیر لِلطّبَرانی ج۱ص۱۶۱)
{۲}جو نگران اپنے ماتَحتوں سے خِیانت کرے وہ جہنَّم میں جائے گا۔ (مسند امام احمد بن حنبل ج۷ص۲۸۴حدیث۲۰۳۱۱)
{۳}جس شخص کو اللہ تَعَالٰی نے کسی رعایا کا نگران بنایا پھر اُس نے ان کی خیر خواہی کا خیال نہ رکھا تووہ جنَّت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا۔ ( بُخاری ج۴ص۴۵۶حدیث۷۱۵۱)
{۴}اِنصاف کرنے والے قاضی پر قِیامت کے دن ایک ساعَت ایسی آئے گی وہ تمنّا کرے گا کہ کاش ! وہ دو آدمیوں کے درمیان ایک کھجور کے بارے میں بھی فیصلہ نہ کرتا۔ (مَجمعُ الزَّوائد ج۴ص۳۴۸حدیث۶۹۸۶)
{۵} جو شخص دس آدمیوں پر بھی نگران ہو قیامت کے دن اسے اس طرح لایا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن سے بندھا ہوا ہو گا۔اب یا تو اس کا عدل اسے چھُڑائے گا یا اس کا ظُلم اسے عذاب میں مبتَلاکرے گا۔ (اَلسّنَنُ الکُبرٰی لِلْبَیہَقِی ج ۳ ص ۱۸۴ حدیث ۵۳۴۵)
{۶} (دعائے مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) اے اللہ! جو شخص میری اُمّت کے کسی مُعامَلے کا نگران ہے پس وہ ان پر سختی کرے تو تُو بھی اس پر سختی فرما۔ اور ان سے نرمی برتے تو تُو بھی اس سے نرمی فرما ۔ (مُسلم ص۱۰۱۶حدیث۱۸۲۸)
{۷} اللہ تَعَالٰی جس کو مسلمانوں کے اُمُور میں سے کسی مُعامَلے کا نگران بنائے پس اگر وہ ان کی حاجتوں ، مفلِسی اور فَقْرکے درمیان رُکاوٹ کھڑی کر دے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی اس کی حاجت ، مفلِسی اور فَقْر کے سامنے رُکاوٹ کھڑی کرے گا۔ (ابو داود ج ۳ ص۱۸۹حدیث۲۹۴۸) ( آہ! آہ! آہ! جو ماتحتوں کی حاجتوں کو ارادۃً پورانہیں کرتا اللہ تَعَالٰی بھی اس کی حاجتیں پوری نہیں کرے گا)
{۸} اللہ تَعَالٰی اُس پر رَحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رَحم نہیں کرتا۔ (بُخاری ج ۴ ص ۵۳۲ حدیث ۷۳۷۶)
{۹} ’’ بے شک تم عَنْقریب حُکمرانی کی خواہِش کرو گے لیکن قِیامت کے دن وہ پَشَیمانی کا باعِث ہو گی۔ ‘‘ دوسری روایت میں ہے : ’’ میں اس اَمْر (یعنی حُکمرانی ) پر کسی ایسے شخص کو مقرَّر نہیں کرتا جو اس کا سُوال کر ے یا اس کی حِرص رکھتا ہو ۔ ‘‘ (بُخاری ج ۴ ص۴۵۶حدیث۷۱۴۸ ، ۷۱۴۹) (جو وزارت ، عہدہ اور نگرانی وغیرہ کیلئے بھاگ دوڑ کرتا اور عُہدے سے مَعْزُولی کی صورت میں فَساد کرتا ہے اس کیلئے عبرت ہی عبرت ہے)
{۱۰}انصاف کرنے والے نور کے مِنبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں ، گھروالوں اورجن کے نگران بنتے ہیں ان کے بارے میں عَدل سے کام لیتے ہیں ۔ (سُنَنِ نَسائی ص۸۵۱حدیث۵۳۸۹) (مردے کے صدمے ص۳۰ تا ۳۲)
’’امیرِ اہلسنّت‘‘ کے دس حروف کی نسبت سے فیصلہ کرنے کے دس مدنی پھول
{1} علمائے کرام کی خدمت میں حاضر ہوں۔
{2} جو اہل ہو وہی فیصلہ کرے۔
{3} حَکَم بننے کی خواہش نہیں کرنا چاہئے۔
{4} فریقین میں صلح کرا دیجئے۔
{5} فریقین سے برابری کا سلوک کیجئے۔
{6} ہر فریق کی بات توجہ سے سنئے۔
{7} فیصلہ میں جلدبازی نہ کیجئے۔
{8} خوب تحقیق سے کام لیجئے۔
{9} غصے میں فیصلہ نہ کیجئے۔
{10} کسی فریق کا حق ضائع نہ ہو۔
(08): ’’ مدنی عطیات لیے ملاقات کرنے والوں کے لیے مدنی پھول ‘‘
مدنی عَطیّات کے لئے مُلاقات کے مدنی پھول
ذِمّہ داران کو چاہئے کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی عَطیّات کے لئے خوش عقید ہ شخصیّات و مُخیّر حضرات سے پیشگی وقت لے کر اُن سے ملاقات کی ترکیب بنائیں ۔ بہتریہ ہے کہ ملاقات کے لئے دو یاتین اسلامی بھائی مل کر جائیں اسلامی بہنیں بھی اسی طرح کریں۔ دورانِ ملاقات شخصیّات و مخیر حضرات کو دعوتِ اسلامی کے مختلف مدنی کاموں اور شعبہ جات مثلاً مدرسۃُ المدینہ، جامعۃُ المدینہ، دارُ المدینہ اسکول سسٹم، مساجد کی تعمیرات، مدنی قافلہ، مدنی چینل، شعبۂ تعلیم، مجلسِ آئی ٹی، دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ (www.dawateislami.net)، مجلسِ خصوصی اسلامی بھائی، مجلسِ اِصلاح برائے قیدیان وغیرہ کا تعارف کروائیںنیز شیخِ طریقت امیرِاہلسنّت بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی دینی خدمات سے بھی آگاہ کیجئے ۔ دعوت ِاسلامی کے مدنی کاموں پر صَرف ہونے والے اَخراجات بتا کر دعوتِ اسلامی کے ہر نیک وجائز کام میں خرْچ کی نِیَّت سے ماہانہ مدنی عَطیّات دینے کا ذہن بنائیے۔ ممکن ہو توشخصیات کے یہاں مجلس ’’مدنی عطیات بکس‘‘کی مُشاوَرت واجازت سے مدنی پھولوں کے مطابق مدنی عَطیّات بکس(Box) رکھنے کی بھی ترکیب بنائیے ۔ دورانِ ملاقات اِختلافی مسائل، فُضول گفتگو اور سیاسی مُعامَلات پر کلام کرنے سے مکمل اِجتناب کیجئے۔ اِنفرادی کوشش کرتے ہوئے خوفِ خدا (عَزَّوَجَلَّ)،عشقِ مصطفیٰ(صَلَّی اللّٰہُ تَعالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم )، اِخلاص اور اَخلاقِ حَسَنہ سے متعلق گفتگو کیجئے، نیز انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاماور صحابہ و اولیاء عَلَیْہِمُ الرِّضْوان کی اسلام کی خاطر قربانیوں اور اصلاحِ اُمّت کے لئے دعوتِ اسلامی اور بانیِ دعوتِ اسلامی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے کردارِ باصفا جیسے عُنوانات ہی کو موضوعِ سُخن بنائیے۔ حدیثِ پاک میں ہے :’’ تَھَادَوْا تَحَابُّوا‘‘ یعنی ایک دوسرے کو تحفہ دوآپس میں محبت بڑھے گی۔(مؤطا امام مالک،کتاب حسن الخلق،باب ماجاء فی المھاجرۃ، ۲/۴۰۷، حدیث: ۱۷۳۱)اس حدیثِ پاک پر عمل کی نِیَّت سے ذاتی طور پر حسبِ اِسْتِطاعَت مدنی عَطیّات دینے والی شخصیّات کو مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کُتُب و رسائل مثلاً’’دعوتِ اسلامی کی جھلکیاں‘‘ رِسالہ اور VCD's وغیرہ بھی تحفۃً پیش کریں۔ یاد رہے !کہ مدنی عَطیّات سے تحفہ دینے کی اجازت نہیں نیز ذاتی تعلُّقات بنانے کے بجائے رِضائے الٰہی اور تنظیمی کاموں میں ترقی کی نِیَّت ہی سے تحفہ دیا جائے۔ شخصیات و مخیر حضرات کو مدنی چینل دیکھنے نیز ہفتہ وارسنتوں بھرے اجتماع اور مدنی مذاکرے میں شرکت کی ترغیب بھی دلائیں۔ مدنی عَطیّات کے مہینوں (یعنی رَجَب،شَعْبان اور رَمضان )کے علاوہ بھی شخصیات و مخیر حضرات سے ملاقات اور رابطے کی ترکیب رکھتے ہوئے انہیں مدنی ماحول سے وابستہ کرنے کے لئے انفرادی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھئے۔(چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں ص ۱۲ تا ۱۴)
(09): ’’ مدنی عطیات لیے بستہ لگانے والوں کے لیے مدنی پھول ‘‘
مدنی عَطیّات کے بستوں پر ذِمّہ دارمقرر کئے جائیں اور ان کی تَرْبِیَت کا اِہتمام بھی کیا جائے۔ مدنی عَطیّات کے بستوں کے لئے میز، کرسی وغیرہ کا اہتمام کیجئے، ممکنہ صورتوں میں کرائے پر لینے کے بجائے اپنے یا کسی اہلِ محبت کے گھر سے ترکیب بنا لیجئے اگر یہ ممکن نہ ہو تو اَخراجات کے لئے اپنے متعلقہ ذِمّہ دار کے ذریعے مالیات ذِمّہ دار یامالیات مکتب سے رابطہ فرمائیے۔ ممکن ہو تو مدنی عَطیّات کے بستوں پر میگا فون کا اہتمام بھی کیجئے مگر اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آواز اس قدر بُلند نہ ہو کہ اُس سے لوگوں کو تکلیف پہنچے۔ مدنی عَطیّات کے بستوں پر مُناسب روشنی کا بھی اہتمام فرمائیں،لیکن اِس کے لئے مسجد یا مدرسے سے بجلی ہرگز ہرگز نہ لی جائے کہ شرعًا اس کی اجازت نہیں۔ مدنی عَطیّات کے بستوں پر کھلے پیسے بھی رکھے جائیں تاکہ عَطیّات کی وُصولی میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو، اس کا مُناسب طریقہ یہ ہے کہ مَدّاتِ واجِبہ اور نافِلہ میں سے کچھ بڑے نوٹوں کو کھلا کرواکر الگ الگ رکھ لیجئے اور بقایا رقم کی واپسی اُسی مَد کی رقم سے کیجئے۔ اپنی جیب سے اگر کھلے پیسے لیں تو کسی کو گواہ بنالیجئے اور رجسٹر یا کاپی میں بھی لازمی طور پر لکھ لیجئے تاکہ عَطیّات کے اِنْدِراج اور ادائیگی میں کسی قسم کی آزمائش اور پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ بستوں پر مُناسب تعداد میں رسید بُک رکھنے کا بھی اہتمام کیجئے تاکہ عَطیّات دینے والے کو بَروَقْت رسید پیش کی جاسکے۔ رسید بُک انتہائی حفاظت سے رکھئے تاکہ کسی غلط ہاتھ میں نہ جاسکے۔ مدنی عَطیّات کے بستوں پر ڈائری ،کاپی ،رجسٹریا مدنی پیڈ وغیرہ نیز قلم رکھنے کا بھی اہتمام فرمائیں اور ہاتھوں ہاتھ رسید بُک پر اِنْدِراج کے ساتھ ساتھ ڈائری وغیرہ میں بھی اِنْدِراج فرماتے رہئے تاکہ مَدّات میں کسی قسم کی غلَطی کا اندیشہ نہ رہے۔ جس ڈائری یا مدنی پیڈ وغیرہ پر عَطیّات کا اِنْدِراج فرمائیں اُسے بھی حفاظت سے رکھیں تاکہ بوقتِ ضرورت اس کے ذریعے درپیش مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ مدنی عَطیّات کے ہر بستے پر ’’دعوتِ اسلامی کے خدمتِ دِین کے 102شعبہ جات ‘‘والا پمفلٹ اور رسالہ ’’اصلاحِ اُمّت میں دعوت ِ اسلامی کا کردار‘‘اور ’’دعوتِ اسلامی کی جھلکیاں‘‘ مُناسب تعداد میں رکھے جائیں، حدیثِ پاک میں ہے : ’’تَھَادَوْا تَحَابُّوا‘‘ یعنی ایک دوسرے کو تحفہ دوآپس میں محبت بڑھے گی۔(مؤطا امام مالک،کتاب حسن الخلق،باب ماجاء فی المھاجرۃ،۲/۴۰۷، حدیث:۱۷۳۱)اس حدیثِ پاک پر عمل کی نِیَّت سیذاتی طور پر حسبِ استطاعت مدنی عَطیّات دینے والی شخصیات اوربستے پر آنے والوں کو تحفۃً پیش کئے جائیں۔ یاد رہے کہ مدنی عَطیّات سے مدنی تحفہ دینے کی اجازت نہیں، نیز ذاتی تعلّقات بنانے کے لئے تحفہ دینے کی نِیَّت نہیں ہونی چاہئے۔ مدنی عَطیّات کے بستوں پر جمع شُدہ مدنی عَطیّات کی حفاظت کا بھی اہتمام فرمائیے اِس کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جیسے جیسے مدنی عَطیّات کیش یا چیک کی صورت میں جمع ہوتے جائیں وقتاً فوقتاًیعنی ایک یا دو دن سے زیادہ اپنے پاس رکھنے کے بجائے تنظیمی ترکیب کے مطابق اپنے متعلقہ ذِمّہ داریا مالیات مکتب میں مَدّات کی وضاحت اور مکمل تفصیل کے ساتھ مدنی عَطیّات جمع کروا کر ’’مدنی عطیات رسید برائے ذمہ داران‘‘ یا’’ رسید برائے مکتب‘‘ ضرور حاصل فرمائیں۔ مدنی عَطیّات کے بستوں پر بینر بھی آویزاں کیجئے جس کا نمونہ درج ذیل ہے:
بینر کا نمونہ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّابَعْدُ فَاَ عُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
زکٰوۃ و فطرہ، صَدَقات و خَیرات
وغیرہ تبلیغِ قرآن و سُنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، ’’دعوتِ اسلامی‘‘کو دیجئے۔ بستے یکم رَمضان تا نماز ِ عید روزانہ لگائیے جن کا دورانیہ کم و بیش 2گھنٹے یا زائدہو۔ خصوصاً آخری عشرے کی ہر رات میں نُمایاں،بارونق اور محفوظ مقامات پر بستے لگانے کا لازمی اہتمام کیجئے۔ نماز جمعہ سے قَبْل لگائے جانے والے مدنی عَطیّات کے بستے جمعہ کی اذانِ اوّل شروع ہونے سے پہلے بند کر کے عَطیّات، مَدّات، ریکارڈ اور بستے کا دیگر سامان بحفاظت رکھ لیا جائے اور پھربیان و خُطبہ اور نماز میں شرکت کی جائے۔ جن نمازوں سے پہلے مدنی عَطیّات کے بستے لگائے جائیں وہاں خصوصاً سنتِ قَبْلِیّہ اور نمازِ باجماعت کا اِہتمام فرمائیے۔یونہی فرائض سے فارغ ہو کر سنتِ بَعْدِیّہ ادا کرنے کے بعد ہی بستہ لگائیے کیونکہ نمازوں کا اِہتمام ہر حال میں ضروری ہے۔ رَمَضانُ المبارک کی ستائیسویں شب سے ہر نماز کے بعد مساجد کے اندر یا باہر (جہاں اجازت ہو) اِسی طرح عید ُالفِطْرکے دن عید گاہ اور قبرستان کے راستوں اور داخلی اور خارجی دروازوں پر بھی ’’مدنی عَطیّات‘‘ کے بستے لگائے جائیں۔ جن جگہوں پر اِختلافی صورت کا اندیشہ ہو وہاں حکمتِ عَمَلی کے تحت کچھ فاصلے پر بستے لگائے جائیں تاکہ کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ ہو ۔ (چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں ص تا ۱۷۱۴)
(10): ’’ نفلی عطیّات کے مدنی پھول ‘‘
عَطیّات دینے والے سے اگر براہِ راست نفلی عَطیّات کی وُصولی کی ترکیب بن رہی ہو تو حتّی الامکان ترغیب دلاکر ’’دعوتِ اسلامی کے ہر نیک وجائز کام میں خرچ کرنے ‘‘ کی اجازت کے ساتھ وُصول فرمائیے کیونکہ بعض ’’مَدّاتِ مخصوصہ‘‘ کے اَخراجات محدود یعنی کم ہوتے ہیں اور بچ جانے والی رقم عرصۂ دراز تک رُکی رہتی ہے، مثلاً مخصوص مسجد، مخصوص جامعہ،مخصوص مَدْرَسہ یا مخصوص تعمیرات وغیرہ کے لئے دئیے گئے عَطیّات، جبکہ ہر نیک و جائز کام میں خرچ کی اجازت سے لئے گئے ’’ عَطیّاتِ نافِلہ ‘‘دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات میں سے کسی بھی شعبے میں شرعی رہنمائی کے ساتھ خرچ کئے جاسکتے ہیں۔ اگر کوئی اسلامی بھائی مَدّاتِ مخصوصہ کے لئے ہی عَطیّات دیناچاہے توبھی وُصول کئے جاسکتے ہیں لیکن’’مَدّاتِ مخصوصہ‘‘ کی آمْدن کا حساب ہر مَد کے اعتبار سے الگ الگ تیار کیا جائے۔ بعض اسلامی بھائی زکوٰۃ کسی خاص کام یا خاص مقصد مثلاً جامعہ، مَدْرَسہ وغیرہ کے لئے بھی دیتے ہیں تو ایسی صورت میں رسید اور ریکارڈ دونوں میں مَد اور مقصد دُرُست اور واضح طور پر درج فرمائیے۔ اگر کوئی اسلامی بھائی نیاز کے لئے رقم دینا چاہیں تو اُن کو یہ ذہن دیجئے کہ’’ نیاز کا مقصد ایصالِ ثواب ہے لہٰذا آپ جن بُزُرْگ کی نیاز دلانا چاہتے ہیں اُن کے اِیصالِ ثواب کے لئے لنگرِ رَضویّہ کی مَد میں دے دیجئے یاپھر دعوتِ اسلامی کے ہر نیک وجائز کام میں خرچ کرنے کی اِجازت کے ساتھ دے دیجئے ، دعوتِ اسلامی کے جن جن نیک کاموں میں اِن عَطیّات کو خرچ کیا جائے گا اُس کا ثواب اِنْ شَائَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُن بُزُرْگ کو پہنچتا رہے گا۔ ‘‘لنگررضویہ کی تعریف والفاظ اگلے مدنی پھول میں ملاحظہ فرمائیں۔ لنگرِ گیارہویں، لنگرِبارہویں، لنگرِ 15رجب(کونڈوں کی نیاز)، شبِ معراج، شبِ براءت اور شبِ قدر کی مَد میں بھی عَطیّات لئے جاسکتے ہیں،لیکن بہتر یہ ہے کہ لنگرِ رَضویہ کی مَدمیں عَطیّات وُصول کئے جائیں اور عَطیّات دینے والے سے اِن الفاظ کے ساتھ عَطیّات لئے جائیں’’ آپ اپنی یہ رقم رَمَضانُ الْمُبارَککی سحری و اِفطاری، بڑی راتوں اور دیگر مواقع پر غریب و امیر، معتکف و غیر معتکف، روزہ دار و بے روزہ دار سبھی کو کھانا کھلانے اور اِن میں اشیائے خورد و نوش تقسیم کرنے، دریاں، تھال اور ڈیکوریشن کا سامان خریدنے یا کرائے پر لینے نیز ان کے علاوہ ہر طرح کے نیک اور جائز کاموں میں خرچ کرنے کی دعوتِ اسلامی کو مکمل اِجازت دے دیجئے۔‘‘ لنگرِ رَضویہ کے لئے صرف اور صرف صَدَقاتِ نافِلہ ہی وُصول کیجئے کیونکہ لنگرِ رَضویہ میں امیرو غریب سبھی شریک ہوتے ہیں لہٰذا اِس کے لئے زکوٰۃ ، فِدیہ بلکہ صَدَقاتِ واجِبہ کی بیان کردہ اَقْسام میں سے کوئی بھی قِسم ہرگز ہرگز وُصول نہ کیجئے اور نہ ہی کسی کو اِس کی ترغیب دیجئے۔ یونہی تقسیمِ رسائل اور دارُالمدینہ کے لئے بھی عَطیّاتِ واجِبہ کی ترغیب نہ دلائیے بلکہ دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات کی تفصیلات بتاکر اُن کا ذہن بنائیے اور دعوتِ اسلامی کیلئے وُصول فرمائیے ،اگر کوئی مذکورہ مَدّات یعنی لنگرِ رَضویہ، تقسیمِ رسائل یا دارُالمدینہ کے لئے ہی عَطیّات دینا چاہے تو اس کے مخصوص کردہ اَلفاظ کے مُطابق اِجازت کے ساتھ صرف اور صرف عَطیّاتِ نافِلہ ہی وُصول کیجئے۔ اسی طرح مساجِد و مدارِس کی تعمیرات وغیرہ کے لئے بھی زکوٰۃ یا کسی اور صَدَقۂ واجبہ کی ترغیب نہ دلائیے،اگرپھر بھی کوئی زکوٰۃ مذکورہ مَدات میں ہی دینا چاہے تو رسید پر مکمل تفصیل درج کرکے رقم وصول فرمائیں۔ اگر صَدَقاتِ واجِبہ دینے والے نے فقیرمُتعیّن کردیا(مثلاًسیلاب زَدَگان یاجامعہ کے طَلَبہ یا پھر مَدْرَسے کے طَلَبہ وغیر ہ کیلئے )تو رسید پر مقصد کے کالَم میں اُسے لازمی درج کیجئے۔ مَدّاتِ مخصوصہ ،مَدّاتِ واجِبہ اور مَدّاتِ نافِلہ میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہی رکھئے اور اِن کے ریکارڈ بھی الگ الگ ہی ترتیب دیجئے تاکہ آپس میں مَدّات مِل جانے کااندیشہ ہی نہ رہے۔ عَطیّاتِ واجِبہ مثلاً قَسَم کے کَفّارے ، نماز کے فِدیے ، روزے کے فِدیے اور مَنّت وغیرہ میں سے کوئی مَد وُصول ہو تو اُس کی مکمل تفصیلات ضرور معلوم کیجئے مثلاً کتنی قَسَموں کے کفارے ہیں؟کتنی نمازوں یا روزوں کے فِدیے ہیں؟ اسی طرح مَنّت کے مکمل اَلفاظ وغیرہ بھی معلوم کرکے رسید پر اس کا بھی اِنْدِراج کیجئے، نیزرقم دینے والے کافون نمبر رسید پر ضرور درج فرمائیے تاکہ اگر مزید تفصیلات معلوم کرنے کی ضرورت ہو تو رابطہ کیا جاسکے۔ (چندہ کرنے کی شرعی احتیاطیں ص ۱۸ تا ۲۰)
(11): ’’ مقدس کاغذ ٹھنڈا کرنے کے مدنی پھول ‘‘
{۱}اگرمُصْحَف(یعنی قراٰن) شریف پُرانا ہوگیا ،اس قابِل نہ رہاکہ اس میں تِلاوت کی جائے اوریہ اَندیشہ ہے کہ اِس کے اَوراق مُنْتَشِرہوکرضائِع ہوں گے توکسی پاک کپڑے میں لَپیٹ کراحتِیا ط کی جگہ دَفْنکیا جائے اور دَفْن کرنے میں اس کیلئے لَحَدبنائی جائے (یعنی گڑھاکھود کر جانِبِ قِبلہ کی دیوار کو اِتنا کھودیں کہ سارے مُقَدَّس اَوراق سما جائیں ) تاکہ اس پرمِٹّی نہ پڑے یا (گڑھے میں رکھ کر) اُس پرتَخْتہ لگاکرچَھت بناکرمِٹّی ڈالیں کہ اس پرمِٹّی نہ پڑے، مُصْحَف شریف پُرانا ہوجائے تواُس کوجَلایا نہ جائے۔( بہارِ شریعتحصّہ ۱۶ ص۱۳۸ مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی){۲} مُقَدَّس اَوْرَاقکم گہرے سَمُندر،دریا یا نہرمیں نہ ڈالے جائیں کہ عُمُوماً بہ کر کَنارے پر آجاتے اور سخت بے ادبیا ں ہوتی ہیں ۔ٹھنڈا کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ کسی تھیلی یا خالی بوری میں بھر کر اُس میں وَزنی پتّھر ڈالدیا جائے نیز تَھیلی یا بوری پرچند جگہ اس طرح چِیرے لگائے جائیں کہ اُس میں فوراً پانی بھر جائے اور وہ تہ میں چلی جائے ورنہ پانی اَندر نہ جانے کی صُورت میں بعض اَوقات مِیلوں تک تَیرتی ہوئی کَنارے پَہُنچ جاتی ہے اور کبھی گنوار یا کُفّار خالی بوری حاصِل کرنے کے لالَچ میں مُقَدَّس اَوراق کَنارے ہی پر ڈھیرکر دیتے ہیں اور پھراِتنی سخْت بے اَدَبِیا ں ہوتی ہیں کہ سُن کر عُشّاق کا کلیجہ کانپ اُٹھے! مُقَدَّس اَوراق کی بوری گہرے پانی تک پَہُنچانے کیلئے مسلمان کشتی والے سے بھی تعاوُن حاصِل کیا جاسکتا ہے مگر بوری میں چِیرے ہر حال میں ڈالنے ہوں گے۔
میں ادب قراٰن کا ہر حال میں کرتا رہوں
میں ادب قراٰن کا ہر حال میں کرتا رہوں
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(12): ’’ تحفہ یا رشوت ‘‘
سیبوں کے طباق
اِس روایت کی شرح کرتے ہوئے حضرتِ عَلّامہ بدرُالدّین عَینی حَنَفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرتِ سیِّدُنافُرات بن مسلِم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی سند سے روایت بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیِّدُناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسیب کھانے کی خواہِش ہوئی مگرگھرمیں کوئی ایسی چیزنہ ملی جس کے بدلے سیب خرید سکیں ۔ چُنانچِہ ہم ان کے ساتھ سُوارہوکرنکلے ۔ دیہات کی جانب کچھ لڑکے ملے جنھوں نے سَیبوں کے طَباق (تحفۃً پیش کرنے کیلئے)اُٹھائے ہوئے تھے۔ سیِّدُناعمربن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک طَباق اٹھاکر سُونگھا اور پھر واپَس کردیا۔ میں نے ان سے اس بارے میں عَرض کی تو فرمایا ، مجھے اِس کی حاجت نہیں ۔میں نے عرض کی، کیاسیِّدُنارسولُ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰ لہٖ وسلم ، سیِّدُناابوبکرصِدّیقِ اکبر اور سیِّدُنا عمرفاروقِ اعظمرضی اللہ تعالیٰ عنہما تُحفہ قَبو ل نہیں فرمایا کرتے تھے ؟ ارشادفرمایا ، بِلاشُبہ یہ اُن کے لئے تَحائف ہی تھے مگران کے بعدکے عُمّال(یعنی حُکاّم یا ان کے نُمائندوں) کے لئے رِشوت ہيں۔ (عمدۃ ُالقاری ج ۹ص ۴۱۸)
کون کس کا تحفہ نہ لے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھاآ پ نے! حضرت سیِّدُناعمربن عبدُالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تُحفے کے سیب قَبول فرمانے سے اِنکار کر دیا ۔ کیوں کہ آپ جانتے تھے کہ یہ تُحفہ بحیثیتِ خلیفہ وَقت دیا جارہا ہے اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو کوئی کیوں دیتا؟ اور یہ بات تو ہر ذی شُعُور آدَمی سمجھ سکتا ہے کہ وُزَراء ، قومی وصُوبائی اِسمبلی کے ممبران یا دیگر حُکومَتی افسران و منتخب نُمائندگان نیز جج صاحِبان حتّٰی کہ پولیس وغیرہ کو لوگ کیوں تُحفہ دیتے ہیں اور ان کی کس سبب سے خصوصی دعوتیں کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے یا تو ''کام'' نکلوانا مقصود ہوتا ہے یا یہ ذِہن ہوتا ہے کہ آئِندہ اس کی ضَرورت پڑنے کی صُورت میں آسانی سے ترکیب بن جائے گی ۔ ان دونوں وُجوہات کی بناپر ایسے لوگوں کو تُحفہ دینا اور ان کی خُصُوصی دعوت کرنا رِشوت کے حکم میں ہے اور رِشوت دینے اور لینے والا جہنَّم کا حقدار ہے ۔ایسے موقع پر عیدی، مٹھائی، چائے پانی یا خوشی سے پیش کر رہا ہوں،مَحَبَّت میں دے رہا ہوں وغیرہ خوبصورت الفاظ رِشوت کے گناہ سے نہیں بچا سکتے ۔ اگر چِہ واقِعی اخلاص کے ساتھ پیش کیا گیا ہو اوررشوت کی کوئی صورت نہ بنتی ہوتب بھی ایسوں کا اپنے ماتَحتوں سے تُحفہ یاخُصُوصی دعوت قَبول کرنا '' مَظِنَّہ تُہمت '' یعنی تُہمت کی جگہ کھڑا ہونا ہے،جبکہ سردارِ مکّہ مکرّمہ ،سلطانِ مدینہ منوّرہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کافرمانِ حفاظت نشان ہے، جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ تہمت کی جگہ کھڑا نہ ہو ( کشف الخفاء ج۲ص۲۲۷حدیث۲۴۹۹) اس لئے یہاں مَظِنَّہ تُہمت سے بچنا واجِب ہے لہٰذا دینا بھی ناجائز اور لینا بھی نا جائز ۔ ہاں اگر عُہدہ ملنے سے قَبل ہی آپس میں تُحفوں کے لین دین اورخُصُوصی دعوت کی ترکیب تھی تواب حرج نہیں مگر پہلے کم تھا اور اب مقِدار بڑھا دی توزائد حصّہ ناجائز ہو جائیگا۔ اگر دینے والا پہلے کی نسبت مالدار ہو گیا ہے اور اُس نے اس وجہ سے بڑھایا ہے تو لینے میں حرج نہیں۔ اسی طرح پہلے کے مقابلے میں اب جلدی جلدی خُصُوصی دعوت ہونے لگی ہے تب بھی ناجائز ہے ۔اگر دینے والا ذَوِ الْاَر حام یعنی خونی رِشتے والوں میں سے ہے تو دینے لینے میں حرج نہیں ۔ (والِدَین ، بھائی ، بہن، نانا، نانی، دادا، دادی، بیٹا، بیٹی، چچا،ماموں، خالہ، پھوپھی، وغيرہ مَحرم رشتے دار ہیں جبکہ پھوپھا، بہنوئی ، چچی، تائی، مُمانی، بھابھی، چچا زاد،پھوپھی زاد،خالہ زاد،ماموں زاد وغيرہ ذی رِحم یعنی مَحْرَم رشتہ داروں سے خارِج ہيں)مَثَلاً بیٹا یا بھتیجاجج ہے اس کو والِد یا چچا نے تُحفہ دیا یا خُصُوصی دعوت دی تو قَبول کرنا جائز ہے ۔ ہاں بِالفرض باپ کا مقدّمہ جج بیٹے کے یہاں چل رہا ہو تو اب مَظِنَّہ تُہمت کی وجہ سے ناجائز ہے۔بیان کردہ اَحکام صِرف حُکومَتی افراد کیلئے ہی نہیں ہر سماجی ،سیاسی اور مذہبی لیڈر وقائد کیلئے بھی ہیں ۔ حتّٰی کے دعوتِ اسلامی کی تمام تنظیمی مجالِس کے جملہ نگران و ذمّہ داران بھی اپنے اپنے ماتحتوں سے تُحفہ یا خُصُوصی دعوت قَبول نہیں کر سکتے۔ چھوٹا ذمّہ دار اپنے سے بڑے ذمّہ دار سے قَبول کر سکتا ہے۔ مَثَلاً دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کا رکن، نگرانِ شوریٰ سے قَبول سکتا ہے مگر دیگر دعوتِ اسلامی والوں سے قَبول نہیں کر سکتا اور نگرانِ شوریٰ اپنے کسی بھی ماتحت دعوتِ اسلامی والے کا تحفہ نہیں لے سکتا ۔مدرِّس اپنے شاگِردوں یا اُس کے سرپرست کا بِلا اجازتِ شرعی تحفہ نہیں لے سکتا۔ ہاں تعلیم سے فراغت کے بعد اگر شاگِرد تُحفہ یا خُصُوصی د عوت دے تو قَبول کر سکتا ہے۔ وہ عُلَماء و مشائخ جن کو لوگ علم و فضل کی تعظیم کے سبب نذرانے پیش کرتے ہیں اور وہ قَبول بھی کرتے ہیں اور لوگ ان پر رشوت کی تُہمت بھی نہیں لگاتے چُنانچِہ ایسے حضرات کا تُحفہ قَبول کرنا مَظنَّہ تُہمت سے خارج ہونے کی وجہ سے جائز ہے۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! تحفے اور رشوت کے متعلق اہم سوالات و جوابات حاضِر ہیں۔ہو سکے تو ان کو کم از کم تین مرتبہ غور سے پڑھ یا سُن لیجئے۔
سوال:
کیا تحفہ قبول کرنا سنّت نہیں؟
جواب:
بے شک تحفہ قَبول کرنا سنّت ہے مگر اس کی صورتیں ہیں چُنانچِہ حضرت عَلَّامہ بَدْرُالدین عَیْنِی حَنَفِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،'' نبیِّ رحمت، شفيعِ اُمَّت، مالکِ جنَّت، قاسِمِ نعمت، مُصْطَفٰی جانِ رَحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم کا یہ فرمان الفت نشان،'' تُحفے کا آپَس میں تَبَادُلَہ کرو مَحَبّت بڑھے گی '' (مجمع الزوائد ج ۴ ص۲۶۰حدیث ۶۷۱۶) اُس کے حق میں ہے جسے مُسلمانوں پر عُہدہ دار نہ بنادیا گیا ہو اور جسے مسلمانوں پر عُہدہ دیدیا گیا ہو جیسے قاضی یا والی تواب اسے تُحفہ قَبُول کرنے سے بچنا ضَروری ہے خُصُوصاً اُسے جسے پہلے تُحفے نہ پیش کیے جاتے ہوں کیونکہ اس کے لیے اب یہ تُحفہ رِشوت و ناپاکی کی قِسْم سے ہے ۔(اَلْبِنَایَۃ شَرحُ الْھِدَایَۃ ج۸ ص ۲۴۴ )
سوال:
عارِضی طور پر اسکوٹر لینا
عہد یدار اپنے ما تحت سے بطورِ قرض کوئی رقم یا عارِضی طور پر استِعمال کیلئے کار، اسکوٹر یا سائیکل وغیرہ لے سکتا ہے یا نہیں ؟ نیز یہ بھی ارشاد فرمایئے کہ اپنے ماتحت سے کوئی چیز کسی حیلے سے سستی خرید سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب:
عُہدیدار اپنے ماتَحت سے نہ قرض لے سکتا ہے، نہ عُرف وعادت سے ہٹ کر خریدو فروخت کر سکتا ہے، نہ ہی عارِضی طور پر استِعمال کیلئے چیزیں لے سکتا ہے ، ماتحت خود آفر کرے تب بھی نہیں لے سکتا۔ چُنانچِہ حضرتِ عَلَّامہ شامِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرما تے ہیں ،'' عُہدہ دار کو جس جس کا تُحفہ قَبول کرنا حرام ہے اُس سے قَرْض اور کوئی چیز عَارِیۃً طَلَب کرنا(یعنی کچھ مدّت کیلئے کوئی چیز مانگنا)بھی حرام ہے۔'' (ردُّ المحتار علی الدُّرُّالمختارج۸ص۴۸)
سوال:
کیاتحفوں کے بارے میں اعلیٰحضرت رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ نے بھی کچھ رھنمائی فرمائی ہے؟
جواب:
میرے آقا اعلیٰحضرت،اِمامِ اَہلسنّت، ولئ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظيمُ المَرْتَبت،پروانہِ شمعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِئ سنّت ، ماحِیِئ بِدعت، عالِمِ شَرِيْعَت ، پيرِ طريقت،باعثِ خَيْر وبَرَکت، حضرتِ علامہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہيں''ميں کہتا ہوں ان کی مثال ديہاتوں اور اَہلِ حِرفت وغيرھم کے چودھريوں کی سی ہے جن کو اپنے ماتحتوں پر تَسلُط اورغَلَبہ ہوتا ہے کيونکہ ان چودھريوں کے شَر کے خوف يا رَواج کی وجہ سے ان کو ہدئيے (یعنی تحائف )ملتے ہيں''
دعوتوں کی دو قسمیں
سوال:
''خُصوصی دعوت '' کسے کہتے ہیں ؟
جواب:
خُصوصی دعوت یعنی وہ دعوت جوکسی خاص فرد کیلئے رکھی جائے کہ اگر وہ آنے سے انکار کر دے تو وہ دعوت مُنْعَقِد ہی نہ ہو۔
سوال:
اور ''عُمومی دعوت '' کا مطلب بھی ارشاد فرما دیجئے!
جواب:
عُمُومی دعوت یعنی وہ دعوت جو کسی خاص فرد کیلئے نہ ہو کہ فُلاں نہ آتا ہو تو وہ دعوت ہی نہ رکّھی جا تی ۔
سوال:
اگر ماتَحت نے عُہدیدار کو خُصُوصی دعوت دی اور گیارھویں شریف کی نیّت کر لی تو کیا اب بھی نا جائز ہے؟
جواب :
جی ہاں۔ کیوں کہ یہ طے ہے کہ عُہدیدار شرکت کی حامی نہ بھرے تو گیارھویں شریف کی نیاز نہیں کی جائے گی ۔ ہاں اگر نیاز رکھی ہے اور اُس میں عُہدیدار کو بھی دعوت دی ہے اور یہ طے ہے کہ وہ آئے یا نہ آئے نیاز کا سلسلہ رہے گا تو ایسی دعوت جائز ہے کیوں کہ یہ ''عُمومی دعوت ''کہلاتی ہے۔ البتّہ عمومی دعوت میں بھی عُہدیدار کو اگر دوسروں کے مقابلے میں عمدہ غذائیں دیں تو نا جائز ہے مَثَلاً عام مہمانوں کو تندوری روٹی اور گائے کا سالن دیا جائے مگر عُہدیدارکی خدمت میں شِیر مال اور بکرے کا قورمہ حاضِر کیا جائے تو ایسا کرنا ناجائز ہے۔
سوال:
افسر سے اُس کا ماتَحت تُحفہ قَبول کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
قَبول کرسکتا ہے۔ میرے آقا اعلیٰحضرت،اِمامِ اَہلسنّت، ولئ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظيمُ المَرْتَبت،پروانہِ شمعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِئ سنّت ، ماحِیِئ بِدعت، عالِمِ شَرِيْعَت ، پيرِ طريقت،باعثِ خَير وبَرَکت، حضرتِ علامہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن کے جاری کردہ اس مبارَک فتوے کو اگر کم ازکم تین بار غور سے پڑھ یا سُن لیں گے تَو ان شا ءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ تحفے اور رشوت کا فرق سمجھ میں آجائیگا کہ کون کس کس سے تحفہ قَبول کرسکتا ہے اور کس کس سے نہیں۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰحضرت رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں ''جو شخْص بذاتِ خُود خَواہ ازْ جانِبِ حاکِم کسی طر ح کا قَہْر وتَسلُّط(یعنی غَلَبہ )رکھتا ہو جس کے سبب لوگوں پر اِسکا کُچھ دَباؤ ہو اگرچِہ وہ فِیْ نَفْسِہٖ(یعنی ذاتی طور پر)ان پر جبر وتَعَدِّی(یعنی زيادَتی) نہ کرے، دباؤ نہ ڈالے اگرچہ وہ کسی فيصلہ قَطْعِی بلکہ غَيْرِقَطْعِی کا بھی مَجَاز(يعنی بااختیار)نہ ہو جيسے کوتوال ،تھانہ دار،جَمَعْدار يا دَہقانوں کے لئے زَمِيندار، مُقَدَّم یعنی (گاؤں کا نمبردار )پَٹواری يہاں تک کہ پنچايتی قَوموں يا پيشوں کے لئے انکے چودھری ،ان سب کوکِسی قِسْم کے تُحفے لينے يا دَعْوت خَاصّہ (يعنی خصوصی دعوت جو کہ ِاسی کے لئے رکھی گئی ہو اور اگر يہ شرِيک نہ ہوتو دعوت ہی نہ ہو ) قَبُول کرنے کی اَصْلاً(یعنی بالکل)اِجازَت نہيں مگر تِين صُورَتوں ميں ،اَوَّل اَفْسر(یعنی اپنے سے بڑے عُہدیدار )سے جس پر اِسکا دباؤ نہيں ،نہ وَہاں يہ خِيال کيا جاتا ہے کہ اِسکی طَرَف سے يہ ہَدِیّہ ودعوت اپنے مُعَامَلاَت ميں رِعايت کرانے کے لئے ہے ۔دُوُم ايسے شخْص سے جو اِسکے مَنْصَب(عُہدے)سے پہلے بھی اسے ہَدِیّہ (یعنی تحفہ)ديتا ہو يا دعوت کرتا تھا بشرطيکہ اب سے اُسی مِقْدار پر ہے، ورنہ زِيادَت(یعنی اِضافہ)رَوا(جائز)نہ ہوگی مَثَلاً پہلے ہَدِیّہ ودعوت ميں جِس قِيمت کی چيز ہوتی تھی اب اس سے گِراں(قیمتی)پُر تَکَلُّف ہوتی ہے يا تعداد ميں بڑھ گئی يا جَلْد جَلْد ہونے لگی کہ ان سب صُورَتوں ميں زِيادَت(اِضافہ)مَوجُود اور جَواز مَفْقُود(يعنی جائز ہونے کی صورت نہيں )مگر جبکہ اِس شخْص کا مال پہلے سے اس زِيادَت کے مُنَاسِب زائِد ہوگيا ہو(یعنی دینے والا اب مزید مالدار ہو گیا ہو )جس سے سمجھا جائے کہ يہ زِيادَت اُس شخْص کے مَنْصَب(یعنی عہدہ)کے سبب نہيں بلکہ اپنی ثَرْوَت (دولت)بڑھنے کے باعِث ہے ۔ سِوُم اپنے قريبی مَحَارِم سے ،جيسے ماں باپ ،اولاد، بَہن بَھائی (مگر)نہ چچاماموں خالہ پھوپھی کے بيٹے کہ يہ مَحَارِم نہيں اگرچِہ عُرفاً انہيں بھی بھائی کہيں۔''مزيد فرماتے ہيں ''پھر جہاں جہاں مُمَانَعَت ہے اسکی بِنا(بنياد) صِرْف تُہْمَت وانديشہِ رِعايت پر ہے ، حقِيقۃً وُجُودِ رِعايت ضَرُور(یعنی لازمی)نہيں کہ اُسکا اپنے عَمَل ميں کُچھ تَغَيُّر(ردّوبدل)نہ کرنا يا اسکا عادتِ بے لَوثی(یعنی مخلصا نہ عادتوں)سے آگاہ ہونا مُفِيد جواز ہو سکے ۔ دُنيا کے کام اُمِّید ہی پر چلتے ہيں ،جب يہ دَعوت وہَدَايا قَبُول کيا کریگا تو ضَرُور خيال جائیگا کہ شايد اب کی بار کُچھ اَثَر پڑے کہ مُفْت مال دينے کی تَاثِير مُجَرَّب ومُشَاہَد(یعنی دیکھی بھالی )ہے اُس بار نہ ہوئی اِس بار ہوگی، اِس بار نہ ہوئی پھر کبھی ہوگی ۔اور يہ حِيلہ کہ اِسکا ہَدِیّہ ودعوت بَربِنائے اَخلاقِ اِنسانِيت ہے نہ بلِحاظِ مَنْصب،اِسکا رَدْ خُود حُضُورِ اَقْدس سَيد الْمُرْسَلِين صلی اللہ تعالیٰ عليہ واٰلہ وسلم فرماچکے ہيں ،جب ايک صاحِب کو تَحصيل زکوٰۃ(زکوٰۃ وُصول کرنے)پر مُقرَّر فرماکر بھيجا تھا، اُنہوں نے اَموالِ زکوٰۃ حاضِر کئے اور کُچھ مال جُدا رکھے کہ يہ مجھے مِلے ہيں۔ فرمايا، اپنی ماں کے گھر بيٹھ کر ديکھا ہوتا کہ اب کتنے تُحفے مِلتے ہيں! يعنی يہ ہَدَايا صِرْف اِسی مَنْصب کی بِنا پر ہيں اگر گھر بيٹھا ہوتا تو کون آکر دے جاتا ؟'' (صحیح مسلم ص۱۰۱۹ حدیث ۱۸۳۲،فتاویٰ رضويہ ج۱۸ ص۱۷۰۔۱۷۱)
سوال:
اگر شاگِرد اپنے اُستادکو تُحفہ پيش کرے تو قَبُول کرے يا نہيں؟
جواب:
قُرآنِ پاک یا دَرْسِ نِظَامِی یا دِیگر عُلُوم پڑھانے والوں کو بھی طالِبِ عِلْم کی طرف سے دئیے جانے والے تحائِف قَبُول کرنے میں نِہایَت اِحتِیاط کی ضَرُورت ہے کیونکہ مُدرِّس بھی بعض مُسلمانوں(مَثَلاًطُلَباء)کے اُمُور پر''والی ''(یعنی حکمران)ہوتے ہیں۔ عُہدہ دار کی وَضاحَت کرتے ہوئے حضرتِ علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ، ''اور عُہدہ داروں میں بازاروں اور شہروں کے عُہدہ دار، اَوقاف کے مُعَامَلَات چلانے والے اور ہر وہ شخْص شامِل ہے جو کسی ایسے مُعامَلے میں عُہدہ دار ہو جو مُسلمانوں سے مُتَعَلِّق ہو۔'' (رَدُّالْمُحْتَار ج۸ ص ۵۰) مذکورہ عبارت کی روشنی ميں اُستاذ بھی ایک طرح سے عُہدہ دار ہے کُیونکہ طُلباء کا مَدرَسے میں داخِلہ برقَرار رہنا اَکْثَر اُستاذ ہی کے رَحْم و کَرَم پر ہوتا ہے،اُستاذ اس کی بے قاعِدَگِیوں پردرَجہ سے نِکال سکتا ہے، بلکہ بعض اَوقات داخِلہ بھی مَنْسُوخ کرواسکتا ہے یا مَنسُوخ کردینے کی سِفارِش کرسکتاہے ۔یُونہی اِمتحانات میں کئے جانے والے سُوالات کے پرچوں کوقَبل اَزوَقت ظاہِرکرنا، اِمتحانات کے نَتَائِج میں اچّھے نَمبَر دینا یا ناکام (FAIL) کر دینا بھی اُستاذ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ کئی طُلَباء ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں حُصُولِ عِلْم کا شَو ق کم ہوتا ہے جبکہ وہ بداَخلاقیوں اور بے قاعِدَگِيوں ميں پیش پیش ہوتے ہیں ، چُونکہ اپنی تعلیمی صَلاحِیَّتوں سے استاذ کو خُوش نہیں کر پاتے لہٰذا وَقتافَوَقتاً تُحفے پیش کرتے اور دعوتیں کِھلاتے ہیں تاکہ نہ انہیں مَدرَسے سے نِکالا جائے اور نہ ہی ناکام (FAIL)کیا جائے۔ لِہٰذا اَسَاتِذَہ کو چاہیے کہ اس قِسْم کے طُلَباء کے تحائِف اور دعوتيں قَبُول نہ کريں اور اگر معلوم ہوجائے کہ یہ تُحفہ يا دعوت خاص اِسی لیے کی گئی ہے کہ مذکورہ قسم کے طُلبَاء کا کام بنے اور یہ واقِعی اس کا کام بناسکتے ہیں یا کام بنانے کاذَرِیْعہ بن سکتے ہیں تو اب قَبُول کرناحرام اور جہنَّم میں لیجانے والا کام ہے۔''شامی''میں ہے '' اسی طرح عالِم کو جب سِفارِش یا ظُلْم کو دُور کرنے کے لیے ھَدِیّہ دیا جائے تو وہ رشوت ہے۔ جو حُکْم مُدَرِّس کا بیان ہوا وُہی ہر مُنْتَظِم کا ہے خواہ کسی ادارے کا ہو یا جماعت کا ،خواہ خالِصتاً مذہبی جماعَت ہو یا سیاسی کہ کسی نہ کسی اِعتِبار سے یہ بھی مسلمانوں کے کئی اُمُور پر عُہدہ دار ہوتے ہیں اور ان کی جنبِشِ قَلَم یا زَبان چلا دینے سے بُہتیرے لوگوں کو فائِدہ و نُقصان پُہنچتاہے لہٰذا ان لوگوں کو بھی قَبُولِ ہَدِیّہ و دَعْوت میں نہایت اِحتِیاط کی ضَرُورت ہے''۔ (رَدُّالْمُحْتَار ج۹ ص ۶۰۷ )
تحفہ لوٹانے کی دو حکایات
(۱)حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی سے منقول ہے،حضرت سیِّدُنا شقیق بلخی رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ،میں نے حضرتِ سیِّدُنا سفیان ثَوری رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ کو بطورِ تحفہ کپڑا پیش کیا تو اُنہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا، میں نے عرض کی ، یاسیِّدی! میں آپ کا شاگِرد نہیں ہوں، فرمایا ،مجھے معلوم ہے مگر آپ کے بھائی نے تو مجھ سے حدیثِ پاک سنی ہے، مجھے خوف ہے کہیں میرا دل تمھارے بھائی کے لئے دوسروں کی نسبت زیادہ نرم نہ ہوجائے۔
(حلیۃ الاولیاء ج۷ ص ۳ حدیث ۹۳۰۲)
(۲)ایک بار حضرتِ سیِّدُنا سفیان ثَوری رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ کے دوست کے فرزند نے حاضِر ہو کر کچھ نَذْرانہ پیش کیا ، قَبول کر لیا ۔ مگر کچھ ہی دیر کے بعد اُس کو بُلابھیجا اور بَاِصرار اُس کا وہ تحفہ لوٹا دیا ۔ یہ اِس لئے کیا کہ آپ کی دوستی اﷲعَزَّوَجَلَّ کیلئے تھی لھٰذا آپ کو خوف لا حِق ہو ا کہ یہ تحفہ کہیں فی سبیلِ اﷲ دوستی کا مُعاوَضہ نہ ہو جائے ! آپ کے شہزادے سیِدُنا مبارَک رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ، میں نے عرض کی ،بابا جان! آپ کو کیا ہو گیا ہے! آپ نے جب لے ہی لیا تھا تو ہماری خاطر رکھ بھی لیتے ! فرمایا، اے مبارَک ! تم توخوشی خوشی اِس کواستِعمال کرو گے مگر قِیامت کے روزسُوال مجھ سے ہو گا۔
(اِحیا ءُ العُلُوم ج ۳ ص ۴۰۸ )
سُوال:
عہدیدار کو اگر کسی ماتحت نے مدینے شریف کی کھجوریں یا آبِ زم زم شریف پیش کیا تو لے یا نہ لے؟
جواب:
قَبول کر لے کہ اِس میں رشوت کی تہمت کا امکان نہیں نیز رسائل ، بیانا ت کی کیسیٹیں وغیرہ تبلیغی مواد یا،نعلِ پاک کے کارڈز، بہت ہی کم قیمت تسبیح یا سستے دام والا مثلاً دو یا تین روپے والا قلم وغیرہ قَبول کرنے میں حَرَج نہیں کہ یہ اِس طرح کے تحائف نہیں جو مَظِنَّہ تُہمت بنیں۔نیز حج یا سفرِ مدینہ یا شادی یا بچہ کی ولادت کے مواقع پر تحائف دینے کا رَواج ہے، ایسے تحائف بھی عہدیدار اپنے ماتحتوں سے لے سکتا ہے ۔ ہاں اگر عُرف سے زائد کا تحفہ دیا تو نہیں لے سکتا مَثَلاً 100روپے دینے کا عُرف ہے اور 500 یا 1200روپے کا تحفہ دے دیا یا اسی قدر نوٹوں کاہار پہنایا تو مَظِنَّہ تُہمت کے باعِث ناجائز ہوجائے گا۔ ان احکامات کی تفصیلی معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کیطرف سے جاری کردہ مَدَنی مذاکرہ نمبر ۷۱تا۷۴ کی کیسیٹیں سَماعت فرمایئے۔ مجلس مکتبۃ المدینہ (آداب طعام، ص۵۴۱ تا۵۵۴)