’’غیبت وگیرہ کی تبکریاں’’

’’ غیبت وغیرہ کی تباہ کاریاں ‘‘

(01): ’’ غیبت کی تباہ کاریاں ایک نظر میں ‘‘

بَہُت سارے پرہیز گار نظر آنے والے لوگ بھی بِلا تکلُّف غیبت سنتے،سناتے،مسکراتے اور تائید میں سر نظر آتے ہیں، چُونکہ غیبت بَہُت زیادہ عام ہے اِ س لئے عُمُوماً کسی کی اِس طرف توجُّہ ہی نہیں ہوتی کہ ہلاتے غیبت کرنے والا نیک پرہیز گار نہیں بلکہ فاسِق وگنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہوتا ہے۔قراٰن و حدیث اور اقوالِ بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین سے منتخب کردہ غیبت کی 20 تباہ کاریوں پر ایک سرسری نظر ڈالئے، شاید خائفین کے بدن میں جُھر جھری کی لہر دوڑ جائے!جگر تھام کر مُلاحَظہ فرمایئے:غیبت ایمان کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے غیبت بُرے خاتمے کا سبب ہےبکثرت غیبت کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی غیبت سے نَماز روزے کی نورانیَّت چلی جاتی ہے غیبت سے نیکیاں برباد ہوتی ہیںغیبت نیکیاں جلا دیتی ہےغیبت کرنے والا توبہ کر بھی لے تب بھی سب سے آخِرمیں جنَّت میں داخِل ہوگا، اَلغَرض غیبت گناہِ کبیرہ، قطعی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام ہےغیبت زنا سے سخت تر ہےمسلمان کی غیبت کرنے والا سُود سے بھی بڑے گناہ میں گرفتار ہےغیبت کو اگر سمندر میں ڈال دیا جائے تو سارا سمندر بدبُو دار ہو جائےغیبت کرنے والے کو جہنَّم میں مُردار کھانا پڑے گا غیبت مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مُترادِف ہےغیبت کرنے والا عذابِ قبر میں گرفتار ہو گا! غیبت کرنے والاتانبے کے ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینے کو بار بار چھیل رہا تھا غیبت کرنے والے کو اُس کے پہلوؤں سے گوشت کاٹ کاٹ کر کِھلایا جا رہا تھاغیبت کرنے والا قیامت میں کتّے کی شکل میں اٹھے گا غیبت کرنے والا جہنَّم کا بندر ہو گاغیبت کرنے والے کو دوزخ میں خود اپنا ہی گوشت کھانا پڑے گاغیبت کرنے والا جہنَّم کے کھولتے ہوئے پانی اور آگ کے درمیان موت مانگتا دوڑرہا ہو گا اور اس سے جہنَّمی بھی بیزار ہوں گے غیبت کرنے والا سب سے پہلے جہنَّم میں جائے گا۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

تُوبُوا اِلَی اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(02): ’’ عورتوں میں کی جانے والی غیبت ‘‘

افسوس صدکروڑ افسوس جب یہ مل کر بیٹھتی ہیں تو عُمُوماً غیر موجود اسلامی بہن کی خیر نہیں رہتی ، ان کی آپس میں غیبت کی 23مِثالیں کچھ اِس طرح ہیں:وہ طلاقن (یعنی طلاڑی )ہےاُس کی سوا گز کی زَبان ہےاپنے میاں کو کبھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا اپنے میاں کے سامنے بَہُت زَبان چلاتی ہےہاں بھئی !پھر میاں کے ہاتھوں پٹتی بھی ہےجی!جی! پھر بھی اِس کی ناک کہاں ہےلگتا ہے طلاق لے گی تب سیدھی بیٹھے گی اُس نے اپنی بہو کے ناک میں دم کر رکھا ہے بہو سے نوکرانی کی طرح کام کرواتی ہےارے بھئی !بہو کو اپنے ہاتھ سے مارتی ہے بہو کو روٹی کہاں دیتی ہے! بہو بے چاری بیمار ہے تب بھی آرام نہیں کرنے دیتی پڑوسنوں سے لڑتی رہتی ہےچڑ چڑی بَہُت ہے میاں کے ہاتھ میں دو پیسے آ گئے ہیں تو مزاج آسمان پر پہنچ گیا ہے بچّوں پر چیختی بَہُت ہےایسی کنجوس ہے کہ چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائےخالی غریب بنتی ہے کافی سونادبا رکھا ہےبچّی بَہُت شریف ہے مگر اِس کی ماں کی وجہ سے بے چاری کی منگنی ٹوٹی ہے عمر کافی ہوگئی ہے مگر اِس کو کہاں کوئی لیتا ہے بیٹی جوان ہو گئی ہے مگر گھر میں نہیں بٹھاتی دو دو بیٹیوں کی شادی کی مگر پڑوس میں کسی کو جھوٹے منہ بھی دعوت نہ دی وہ تو سُسرال میں جھگڑ کرمیکے آ بیٹھی ہے۔ (غیبت کی تباہ کاریاں ص۴۲)

(03): ’’ نابالغ کی غیبت ‘‘

جس طرح بچّے کے ساتھ جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں اِسی طرح اُس کی غیبت کی بھی مُمانَعَت ہے۔ خواہ ایک ہی دن کا بچّہ ہو،بِلا مَصلَحتِ شَرعی اُس کی بھی بُرائی بیان نہ کی جائے۔ماں باپ اور گھر کے دیگر افراد کیلئے لمحہ فکریہ ہے ان کوچاہئے کہ بِلا ضَرورت اپنے بچّوں کو پیچھے سے(اور منہ پر بھی)ضِدّی، شرارتی،ماں باپ کانافرمان وغیرہ نہ کہا کریں۔

كس بچّے كی غیبت جائزہے اور كس كی ناجائز؟

حضرتِ علامہ عبد الحیی لکھنوی علیہ رَ حمۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں:حضرتِ علامہ سیِّدُنا ابنِ عابِدین شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی نے امامِ ابنِ حَجَرعلیہ رَحمَۃُ اللہِ الاکبر سے نَقل کیا ہے:''جس طرح بالِغ کی غیبت حرا م ہے اُسی طرح نابالِغ اورمَجنون (یعنی پاگل)کی غیبت بھی حرام ہے۔ '' (رَدُّالْمُحتار ج۶ص۶۷۶) لیکن راقِمُ الحُرُوف (یعنی مولیٰنا عبد الحیی صاحِب)کے نزدیک تفصیل بہتر ہے:(1)ایسا نابالِغ بچّہ جو فِی الْجُملہ (یعنی تھوڑی بَہُت)سمجھ رکھتا ہو کہ اپنی تعریف پر خوش اور اپنی بُرائی سے ناخوش ہوتا ہو جیسا کہ مَعْتُوہ(یعنی آدھا پاگل بھی اپنی تعریف اور مذمّت کی سمجھ رکھتا ہے)تو ایسے نابالِغ (بچّے)کی غیبت جائز نہیں اِسی طرح نیم پاگل کی بھی ناجائز ہے (2)ایسے ناسمجھ بچّے (مَثَلا دُودھ پیتے بچّے)اور پاگل کی بھی غیبت جائز نہیں جن کا کوئی والی وارِث ہے ،بے شک وہ بچّہ یا پاگل اپنی تعریف یا بُرائی سمجھنے کی تمیز نہیں رکھتا تا ہم ان کے عیب بیان کرنے سے ان کے ماں باپ وغیرہ کو بُرا لگے گا (3)ایسا لاوارِث بچّہ یا لاوارِث پاگل جو اپنی تعریف و غیبت سے خوش اور ناخوش ہونے کی صلاحیّت نہیں رکھتا اُس کی غیبت جائز ہے مگر زَبان کو ایسوں کی غیبت سے بھی روکنا ہی بہتر ہے(کیوں کہ بعض فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام نے مُطلَقاً یعنی ایک دن کے بچّے اور مکمَّل پاگل کی غیبت کو بھی حرام قرار دیا ہے)(ماخوذاز: غیبت کیا ہے ص ۲۰،۲۱)

چھوٹے بچّے كی غیبت كی 17مثالیں

بَہَر حال پاگل ہو یا سمجھدار، بالِغ ہو یا نابالِغ ، بوڑھا ہو یا دودھ پیتا بچّہ ہر ایک کی غیبت سے بچنا چاہئے ، بچّوں کی غیبتوں کی بے شمار مثالیں ہو سکتی ہیں، کیوں کہ ان کی غیبت کے گناہ ہونے کی طرف بَہُت کم لوگوں کی توجُّہ ہے، جو مُنہ میں آیا بولدیا جاتا ہے۔ یہاں نُمُونتاً صرف 17مثالیں پیش کی جاتی ہیں جو کئی صورتوں میں غیبت میں داخِل ہوسکتی ہیں: بستر گندا کردیتا ہے اتنا بڑا ہوگیا مگر تمیز نہیں آئی اِس کو جھوٹ کی عادت پڑ گئی ہے چھوٹی بہن کو نوچتا ہے چھوٹے منّے کوگود میں لو تو بڑا منّا حسد کرتا ہے دونوں منّے ایک دوسرے کی چُغلیاں کھاتے رہتے ہیں چھوٹا پڑھائی میں بَہُت ذِہین ہے مگر بڑا 8سال کا ہوا ابھی تک کُند ذِہن ہے ماں کو بَہُت تنگ کرتا ہے مُنّی رات کو بَہُت چیختی ہے نہ سوتی ہے نہ کسی کوسونے دیتی ہےمُنّے نے غصّے میں لات مار کر پانی کاکولر اُلَٹ دیا بَہُت چِڑچِڑا ہو گیا ہے بات بات پر روٹھ جاتا ہے روزانہ کھانے کے وقت جھگڑتا ہے پڑھنے میں کمزور ہے بڑی بچّی نے چھوٹی والی کو بال کھینچ کر گرا دیا بس لڑتا ہی رہتا ہے صبح اٹھا اٹھا کر تھک جاتے ہیں مگر جواب نہیں دیتا وغیرہ ۔

بچّوں كو غیبت مت كرنے دیجئے

عُمُوماً بچّے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور دیگر گھر والوں کی اپنی تُتلی زَبان میں یا اشاروں سے غیبتیں کرتے رہتے ہیں اور گھر والے ہنس ہنس کر داد دیتے ہیں، کبھی کسی کو لنگڑا تا دیکھ لیتے ہیں تو خود بھی اِس کی نَقل اُتارتے ہوئے لنگڑا کر چلتے ہیں اور گھر والوں سے داد وُصول کرتے ہیں حالانکہ کسی مُعَیَّن و معلوم مَعذور کی اِس طرح کی نَقّالی بھی غیبت ہے۔ باپ جب کام کاج سے شام کو لوٹتا ہے تو عام طور پر بچّہ یا بچی دن بھر کی''کارکردَگی ''سناتے ہیں ، اِس سے لطف تو بَہُت آتا ہے مگر اُس کارکردگی میں غیبتوں کی بھی اچّھی خاصی بھر مار ہوتی ہے!بچّوں کو تو گناہ نہیں ہوتا مگراولاد کی صحیح تربیّت کرنا چُونکہ والِدَین کی ذمّے داری ہے اور یوں بچّوں کی زَبانی غیبتیں سننے سے اولاد کی غَلَط تربیت ہوتی ہے لہٰذا اولاد کی غَلَط تربیَّت کا وَبال ماں باپ کے سر آجاتا ہے،یقینا بچّوں کے غیبت کرنے پر ہنس پڑنے سے اُن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ گویا اِس طرح غیبت کی تربیَّت حاصِل کرتے رہتے اور بے چارے بالِغ ہونے کے بعد اکثر غیبت کے گناہ میں پکّے ہو چکے ہوتے ہیں۔لہٰذا جب بھی بچّہ غیبت کرے،چُغلی کھائے یا جھوٹ بولے تو اُس کی تُتلی زَبان سے محظوظ یعنی لُطف اندوز ہوتے ہوئے شیطان کے بہکاوے میں آ کر ہنسا مت کیجئے، ایسے موقع پر ایک دم سنجیدہ ہو جایئے اُ س بات پر اُس کی حوصلہ شکنی کیجئے اور مناسِب انداز میں اُس کو سمجھایئے،جب بار بار اُس کو سمجھاتے رہیں گے اور اس کو گھر کاکوئی بھی فرد غیبت وغیرہ پراُسے داد نہیں دیگا تو اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ خود بھی غیبت وغیرہ سننے کی آفتوں گناہوں سے بچے رہیں گے اور مُنّا بھی بڑا ہو کر اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ نیک بندہ بنے گا اور غیبت وغیرہ سے نفرت ر کھے گا۔

بچّوں كی فریاد رسی كیجئے

ہاں اگر مُنّا محض بولنے کی خاطر نہیں بول رہابلکہ آپ سے فریاد کر کے انصاف طلب کر رہا ہے تو بے شک اُس کی فریاد سنئے اورامداد کیجئے ۔ مَثَلاً مُنّا کہنے لگا کہ مُنّی نے میرا کھلونا چھین کر کہیں چُھپا دیا ہے تو یہ غیبت نہیں، کیوں کہ مُنّا ماں باپ سے فریاد نہیں کریگا تو کس سے کریگا !لہٰذا آپ مُنّی سے اُس کاکھلونا دلا دیجئے ۔ اب اگر کھلونا مل جانے کے بعد مُنّا اِسی بات کو مُنّی کی غیر موجودَگی میں مَثَلاً اپنی امّی سے ذِکر کرتا ہے کہ ''مُنّی نے میر اکھلونا چھین کر چُھپا دیا تھا تو اَبّو نے مُنّی کو ڈانٹ پلائی اور مجھے میرا کھلونا واپس دلایا''تو یہ بہرحال غیبت ہے اگرچِہ بچوں کو اس کا گناہ نہ ہو۔عُمُوماً بچّے جن لوگوں سے مانوس ہوتے ہیں ان کو فریاد کرتے رہتے ہیں تو اگر کسی سے مذکورہ مثال کی مانند فریاد کی اور وہ فریاد رسی یعنی امداد نہیں کر سکتا ۔ تو اب غیبت پر مبنی فریاد نہ سنے بلکہ حتَّی الاِمکان اچّھے انداز میں بچّے کو ٹال دے ۔

بچّوں سے صادِر ہونے والی غیبت کی 22مثالیں

میر اکِھلونا توڑ دیا ہے میری ٹافی چِھین کر کھالی میری آئسکریم گِراد ی مجھے پیچھے سے ''ہاؤ '' کر کے ڈرا دیتا ہے، شریر کہیں کا مجھ پر بلّی کا بچّہ ڈالدیا مجھے ''گندا بچّہ''کہہ کر چِڑاتا ہے میر ی نوٹ بُک پھاڑ دی مجھے دھکّا دے کر گرا دیامیرے کپڑے گندے کر دیئے اپنی بابا سائیکل میرے پاؤں پر چڑھا دی اپنے کپڑے گندے کر دیتا ہے وہ گندابچّہ ہے امّی کے پاس میری چُغلیاں لگاتا ہے جھوٹ بول کراستادسے مجھے مار کھلائی تھی اَمّی مدرَسے کا بولتی ہے تو روتا ہے مُنّی امّی کو مارتی ہے اُستاد نے اُس کو کل '' مُرغا ''بنایا تھا اتنا بڑا ہو گیا مگر نِپَّل چُوستا ہےہر وَقت اُس کی ناک بہتی رہتی ہےروز روزپِنسل گُما دیتا ہے اُس دن اَبّو کی جیب سے پیسے چُرا لئے تھے اُس دن امّی نے اُس کی خوب پٹائی لگائی تھی۔

بچّوں كو جھوٹے بہلاوے مت دیجئے

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفَحات پر مشتمل کتاب ، ''بہارِ شریعت''حصّہ 16 صَفْحَہ 159تا160پر ہے:ابو داو،دو بَیہقی نے عبداﷲبن عامِر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہتے ہیں: رسولُ اﷲصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم ہمارے مکان میں تشریف فرما تھے۔ میری ماں نے مجھے بلایا کہ آؤ تمہیں دوں گی۔ حُضُور (صلی اﷲ تعالیٰ عليہ وسلم)نے فرمایا: کیا چیز دینے کا ارادہ ہے؟ انھوں نے کہا، کھجور دوں گی۔ ارشاد فرمایا:''اگر تو کچھ نہیں دیتی تو یہ تیرے ذِمّے جھوٹ لکھا جاتا۔''(سُنَنِابوداو،د ج۴ ص۳۸۷حديث ۴۹۹۱) دیکھا آپ نے !بچوں کے ساتھ بھی جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں، افسوس ! آج کل بچّوں کوبہلانے کیلئے اکثر لوگ جھوٹ موٹ اس طرح کہہ دیاکرتے ہیں کہ تمہارے لئے کھلونے لائیں گے ، ہوائی جہاز لا کر دیں گے وغیرہ۔ اِسی طرح ڈرانے کیلئے اکثر مائیں بھی جھوٹ بولدیا کرتی ہیں کہ وہ بلّی آئی ، کُتّا آیا وغیرہ ۔ جن لوگوں نے ایسا کیا اُن کو چاہئے کہ سچّی توبہ کریں ۔(غیبت کی تباہ کاریاں ص۵۲ تا ۵۶)

(04): ’’ غیبت سے رکنا اور علماء پر اعتراض نہ کرنا ‘‘

غیبت سے روکنے کے چار فضائل

مسلمان کی غیبت کرنے والے کو روکنے کی قدرت ہونے کی صورت میں روک دینا واجِب ہے، روکنا ثوابِ عظیم اور نہ روکنا باعِث عذابِ الیم (یعنی درد ناک عذاب کاباعث)ہے اس ضِمْن میں چار فَرامینِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُلاحَظہ فرمایئے :

(1)جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس کی مدد پر قادِر ہو اور مدد کرے، اﷲ تعالیٰ دنیا اور آخِرت میں اس کی مدد کریگا اور اگر باوُجُودِ قدرت اس کی مدد نہیں کی تو اﷲ تعالیٰ دنیا اورآخِرت میں اسے پکڑے گا۔ (مُصَنَّف عَبد الرَّزّاق ج۱۰ ص۱۸۸ رقم ۲۰۴۲۶) (2)جو شخص اپنے بھائی کے گوشت سے اس کی غیبت (عدم موجودگی)میں روکے(یعنی مسلمان کی غیبت کی جارہی تھی اس نے روکا )تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اُسے جہنَّم سے آزاد کر دے ۔ (مِشْکاۃُ الْمَصابِیح ج ۳ص ۷۰ حدیث ۴۹۸۱) (3)جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو سے روکے( یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نے منع کیا) تواللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اس کو جہنَّم کی آگ سے بچائے۔ اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:۔ وَکَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿۴۷﴾ (ترجَمہ کنزالایمان:اور ہمارے ذمہ کرم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا۔ (پ۲۱ الروم:47) (شرحُ السنّۃ ج۶ ص۴۹۴ حدیث ۳۴۲۲) (4)جہاں مردِ مسلم کی ہَتکِ حُرمت(یعنی بے عزَّتی)کی جاتی ہو اور اس کی آبروریزی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اُس کی مدد نہ کی(یعنی یہ خاموش سنتا رہا اور اُن کومَنع نہ کیا)تو اﷲتعالیٰ اس کی مدد نہیں کرے گا جہاں اِسے پسند ہو کہ مدد کی جائے اور جو شخص مردِ مسلم کی مدد کرے گا ایسے موقع پر جہاں اُس کی ہتکِ حُرمت (یعنی بے عزّتی)اور آبرو ریزی کی جارہی ہو، اﷲتعالیٰ اُس کی مدد فرمائے گا ایسے موقع پر جہاں اسے محبوب (یعنی پسند)ہے کہ مدد کی جائے۔ (سُنَنِ ابوداو،د ج۴ ص۳۵۵حدیث ۴۸۸۴)

غیبت کرنے والے کے سامنے تعریف

ہمارے اَسلاف رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی کسی سے مسلمان کی غیبت سنتے تو اُسے فوراً ٹوکتے اور ان کاانداز بھی کتنا حَسین ہوتا ! چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مبارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں ایک شخص نے سیِّدُناامام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیبت کی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:اے شخص !تُو امام کے عیب کیوں بیان کرتا ہے!ان کی شان تویہ تھی کہ پینتالیس سال تک ایک وُضو سے پانچوں وقت کی نماز ادا کرتے رہے۔ (اَ لْخَیْراتُ ا لْحِسان لِلْہَیْتَمِی ص۱۱۷،رَدُّالْمُحتار ج۱ص۱۵۰)

غیبت کرنے والے سے پیچھا چھڑانے کا طریقہ

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المبین کا گناہوں بھری غیبت سننے سے بچنے کاجذبہ مرحبا!کاش!صدکروڑ کاش! ہمارا یہ ذِہن بن جائے کہ جُوں ہی کسی مسلمان کا مَنفی(NEGATIVE)تذکِرہ نکلے فوراً خبردار ہو جائیے اور غور کیجئے،اگر وہ تذکِرہ غیبت پر مبنی یا غیبت کی طرف لے جانے والاہو تو فوراً اِس سے باز آجایئے ،اگرکوئی اورآدَمی یہ گفتگو کرنے لگا ہو تو اُس کو مناسِب طریقے پر روک دیجئے، اگر وہ باز نہ آئے تو وہاں سے اُٹھ جایئے ، اگر اُسے روکنا یا اپنا وہاں سے ہٹنا ممکن نہ ہو تو دل میں بُرا جانیئے، ترکیب سے بات بدل دیجئے اُس گفتگو میں دلچسپی مت لیجئے،مَثَلاً اِدھر اُدھر دیکھنے لگ جایئے ، منہ پر بیزاری کے آثار لایئے،بار بار گھڑی دیکھ کر اُکتاہٹ کا اِظہار فرمایئے، ممکن ہوتو استنجا خانے کا کہہ کرہی اٹھ جایئے اور پھرآپ کا کہا جھوٹ نہ ہو جائے اس لئے استنجا بھی کرلیجئے۔''غیبت گاہ''میں حاضِر رہنے کے بجائے مجبوراً استنجا خانے میں وقت گزارنا بَہُت مناسِب عمل ہے اِنْ شَاءَاللہ عَزَّوَجَلَّ اس پر بھی ثواب ملیگا۔

اَخلاق ہوں اچّھے مِرا کردار ہو ستھرا

محبوب کے صدقے میں مجھے نیک بنادے

غیبت کرنے والے کو اشارے سے نہیں زبان سے روکئے

حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کے فرمانِ والا شان کا خُلاصہ ہے:جہاں غیبت ہو رہی ہو اور یہ(مُرُوَّت میں نہیں بلکہ)ڈر کے سبب زَبان سے روک نہیں سکتا تو دل میں بُرا جانے تو اب اِسے گناہ نہیں ہوگا، اگر وہاں سے اُٹھ کر جاسکتا ہے یا گفتگو کا رُخ بدل سکتا ہے مگر ایسا نہیں کرتا تو گنہگارہے، اگر زبان سے کہہ بھی دیتا ہے کہ''خاموش ہو جاؤ''مگر دل سے سننا چاہتا ہے تو یہ مُنافَقَت ہے اور جب تک دل سے بُرا نہ جانے گناہ سے باہَر نہ ہوگا،فَقَط ہاتھ یا اپنے اَبرو یا پیشانی کے اِشارے سے چُپ کرانا کافی نہ ہوگا کیوں کہ یہ سُستی ہے اور غیبت جیسے گناہ کو معمولی سمجھنے کی علامت ہے،(اگر فساد کااندیشہ نہ ہو تو)غیبت کرنے والے کو سختی سے واضح الفاظ میں روکے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۱۸۰) تاجدارِ مدینہ منوّرہ، سلطانِ مکّہ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:جس شخص کے پاس کسی مومن کو ذلیل کیا جارہا ہو اور وہ طاقت (رکھنے )کے باوُجُود اس کی مدد نہ کرے اللہ تعالیٰ قِیامت کے دن لوگوں کے سامنے اسے رُسواکریگا۔ (مُسندِ اِمام احمد ج۵ ص۴۱۲ حدیث۱۵۹۸۵)

علَماء کو عوام نہ ٹوکیں

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غیبت سے روکنے والے کیلئے اتنی معلومات ہونا ضَروری ہے کہ وہ گناہوں بھری غیبت کی پہچان رکھتا ہو نیز روکتے وَقت اپنی بات کا وَزن دیکھنا بھی بَہُت ضَروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی کومَنع کریں اور کوئی فِتنہ کھڑا ہو جائے یہ بات بھی ذِہن میں رکھئے کہ بعض اوقات بالخصوص اہلِ علم حضرات کی کوئی بات سرسری طور پر سننے والے کو غیبت لگتی ہے مگر درحقیقت وہ گناہوں بھری غیبت نہیں ہوتی کیوں کہ غیبت کی جائز صورَتیں بھی موجود ہیں،مُحاورہ ہے: خَطائے بُزُرگان گرِفْتَن خَطا اَسْت یعنی ''بُزُرگوں پر اعتراض کرنا ان کی خطا پکڑنا خود خطا ہے ۔''لہٰذا علمائے کرام کو عوام ہرگز نہ ٹوکیں اور ان کے لئے دل میں مَیل بھی نہ لائیں۔ہاں اگر آپ کو غیبت کے بارے میں معلومات ہوں اور وہ عالم صاحب واقِعی صریح غیبت کر رہے ہوں تو وہاں سے اُٹھ جایئے ، ممکن ہو تو بات کا رُخ بد ل دیجئے اگر ہٹنا یا بات بدلنا اور کسی طرح سے غیبت سننے سے بچنا ممکن نہ ہو تو دل میں بُرا جانتے ہوئے حتَّی المقدور بے توجُّہی برتئے ۔ اگر ''ہاں''میں سر ہلا ئیں گے یا دلچسپی اور تعجب کا اظہار کریں گے ، تائید میں ''اچھا''جی،اوہو''وغیرہ آوازیں نکالیں گے تو گنہگار ہوں گے۔

عالم کو ٹوکنے کے متعلّق فرمانِ اعلیٰ حضرت

میرے آقا اعلٰیحضرت،اِمامِ اَہلسنّت، ولئ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظیم المَرْتَبت،پروانہ شمعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِئ سنّت ، ماحِئ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت ، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علامہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 23 صَفْحَہ 708 پر لکھتے ہیں:علماء پرعوام کو (حقِّ)اعتراض نہیں پہنچتا اور جو مشہوربمعرفت ہو اُس کا مُعامَلہ زیادہ نازُک ہے ہرعامی مسلمان کے لئے حکم ہے کہ اُس کے(یعنی اُس عام مسلمان کے بھی)ہرقول وفعل کے لئے ستّر(70)مَحملِ حَسَن(یعنی اچھے اِحتمالات اور جائز تاویلات)تلاش کرو، (ان عوام پر بھی بدگمانی مت کرو)نہ کہ عُلماء ومشائخ جن پراعتِراض کا عوام کو کوئی حق (ہی حاصِل)نہیں!یہاں تک کہ کُتُبِ دِینیہ میں تَصریح (یعنی صاف لکھا )ہے اگرصَراحَۃً نَماز کاوَقت جارہاہے اور عالِم نہیں اُٹھتا توجاہل کایہ کہناگُستاخی ہے کہ''نَماز کوچلئے''، وہ (یعنی عالم)اِس (یعنی غیرِ عالم)کے لئے ہادِی (یعنی رہنما)بنایاگیا ہے نہ کہ یہ(جاہل)اُس(عالم)کے لئے۔ واﷲتعالیٰ اعلم (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۷۰۸)

سنوں نہ فحش کلامی نہ غیبت و چغلی تری پسند کی باتیں فقط سنا یا رب

کریں نہ تنگ خیالاتِ بد کبھی کر دے شُعُور وفکر کو پاکیزگی عطا یا رب

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(05): ’’ کچھ کہونگا تو غیبت ہو جائے گی ‘‘

بند الفاظ میں غیبت

تَعرِیض یعنی بند الفاظ میں بھی غیبت ہو سکتی ہے مَثَلاً کسی کی برائی کا تذکِرہ ہوا تو کہا: اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں ''ایسا''نہیں ہوں، یہ غیبت ہے کیوں کہ یہ بھی بُرائی کرنے کا ہی ایک انداز ہے اس کا صاف مطلب یہی ہو ا کہ وہ''ایسا''ہے۔

کچھ کہوں گا تو غیبت ہو جائیگی

کسی مسلمان کے بارے میں بات چلی تو کہا :''چھوڑو یار! میں اس کو جانتا ہوں، اگر کچھ کہوں گا تو غیبت ہو جائے گی۔''ایسا کہنے والا غیبت کر چکا کہ اُس نے اِس انداز میں اُس کی بُرائی کر ڈالی ! اسی طرح کی غیبت پر مبنی مزید 14جملے بس جی اللہ مُعاف کرے، اس کے بارے میں آپ کو کیا بتاؤں بس بھائی کیا کہوں اُس کیلئے تو دعا ہی کی جا سکتی ہے یار! اس کو سمجھانا اپنے بس کی بات نہیں، جب اِس کی سُوئی اٹکتی ہے تو پھر کسی کی نہیں سنتا آج کل اس کی گھومی ہوئی ہے بھئی ! میں تو اِس سے باز آیا میری سنتا ہی کب ہے جب مطلب ہوتا ہے تو '' ہاں جی ہاں جی'' کرتا ہے اس کے بعد لِفٹ بھی نہیں کراتا اچھا اچھا دروازے پر فُلاں کھڑا ہوا ہے اِس کا کوئی مطلب پڑا ہو گا اُس سے جان چھڑانے کی بڑی کوشش کی مگروہ تو بالکل ہی ''چِپک'' گیا تھا میں نے تو اُسے ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر ٹس سے مس نہیں ہوا یار !وہ کہاں کسی کو گھاس ڈالتا ہے اُف !وہ مَنحوس کہاں آگیا !وہ تو نادان دوست نکلا اس کا کام نہیں وہ تو ''سیدھاآدمی''ہے (عُموماً ''سیدھا آدمی''کہہ کر بے وقوف یا نادان یا کم عَقل مراد لیتے ہیں) کیسا میٹھا میٹھابن رہا تھا!

عیب پوشی کیلئے جھوٹ جائز ہونے کی ایک صورت غیبت میں ایک بَہُت بڑی آفت یہ بھی ہے

غیبت میں ایک بَہُت بڑی آفت یہ بھی ہے کہ جب''ایک فرد''کی غیبت دوسرے کے سامنے کی جاتی ہے تو بعض اوقات وہ''ایک فرد''دوسرے کی نظر سے گر جاتا ہے اور شریعت کو یہ قَطعاًنا گوارہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی نظروں میں ذلیل وخوار (DEGRADE)ہو حتّٰی کہ مسلمان کی عزّت بچانے کی نیّت سے بعض صورَت میں جھوٹ بولنے کی بھی اِجازت ہے کیونکہ مسلمان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی شریعت میں نہایت ہی اہمیت ہے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ''بہارِ شریعت''حصّہ 16 صَفْحَہ 161پر ہے :''کسی نے چھپ کر بے حیائی کا کام کیا ہے، اس سے دریافت کیا گیا کہ تو نے یہ کام کیا؟ وہ انکار کرسکتا ہے کیونکہ ایسے کام کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردینا یہ دوسرا گناہ ہوگا۔ اسی طرح اگر اپنے مسلم بھائی کے بھید پرمُطَّلع ہو تو اس کے بیان کرنے سے بھی انکارکرسکتا ہے۔ '' (رَدُّالْمُحتارج۹ ص۷۰۵)

شرف حج کا دیدے چلے قافِلہ پھر مِرا کاش! سوئے حرم یاالٰہی

دکھا دے مدینے کی گلیاں دکھادے دکھا دے نبی کا حرم یاالٰہی

خود کو ذِلّت پر پیش کرنا جائز نہیں

مسلمان کی عزَّت کی بَہُت اَھَمِّیَّت ہے ۔ خود اپنے ہاتھوں اپنی عزَّت خراب کرنے کی بھی شرعاً مُمانعت ہے ، لہٰذا ایسے مُلکی قوانین پرعمل کرنا شرعاً ضَروری ہے جو کہ قرآن وسنّت سے نہ ٹکراتے ہوں اور ان پر عمل نہ کرنے میں ذلّت ومعصیَت کا خطرہ ہو ۔مَثَلاً ڈرائیونگ لائسنس کے بِغیر اسکوٹر ، کا ر وغیرہ چلانے کی اجازت نہیں کیوں کہ چلائی اور پکڑا گیا تو بے عزّتی کے ساتھ ساتھ جھوٹ ، رشوت اور وعدہ خِلافی وغیرہ گناہوں میں پڑنے کا قوی امکان موجود ہے لہٰذا کئی گناہوں اور جہنَّم میں لے جانے والے کاموں سے بچنے کے لئے ڈرائیونگ لائسنس ہی بنوا لیا جائے اور گاڑی چلاتے وقت لازماً اپنے ساتھ رکھا جائے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 21 صَفْحَہ183 پر فرماتے ہیں:محض بلاوجہِ شرعی بلکہ بر خلافِ وجہِ شرعی ایک گناہ پر اصرار کیلئے اپنے نفس کو سزا و ذلّت پر پیش کیا اور یہ بھی بحکمِ حدیث حرام ہے۔ جلد 29صَفْحَہ 93 ، 94 پر فرماتے ہیں:حدیث میں ہے:جو شخص بِغیر کسی مجبوری کے اپنے آپ کو بخوشی ذلّت پر پیش کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج۱ ص۱۴۷ حدیث ۴۷۱) بَہَرحال اپنی عزّت کی حفاظت ضَروری ہے۔

مجھے نارِ دوزخ سے ڈر لگ رہا ہے ہو مجھ ناتُواں پر کرم یاالٰہی

سدا کیلئے ہو جا راضی خدا یا ہمیشہ ہو لطف و کرم یاالٰہی

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

تُوبُوا اِلَی اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(06): ’’ غیبت کی ۱۲ جائز صورتیں ‘‘

(1)بد مذہب کی بد عقیدَگی کا بیان (2)جس کی بُرائی سے نقصان پہنچنے کا خَدشہ ہو تو دوسروں کواُس سے بچانے کیلئے بَقَدَرِ ضَرورت صِرف اُسی بُرائی کا تذکِرہ مَثَلاً جوتا جِردھوکے سے ملاوٹ والا مال بیچتا ہو اُس سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے اُس کے اُ س ناقِص مال کی نشاندہی کرنا۔فرمانِ مصَطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:کیا فاجِر کے ذکر سے بچتے ہو اس کو لوگ کب پہچانیں گے!فاجِر کا ذکر اس چیز کے ساتھ کرو جو اس میں ہے تاکہ لوگ اس سے بچیں۔ (اَلسّنَنُ الکُبری ج۱۰ ص۳۵۴ حدیث ۲۰۹۱۴) (3)مَثَلاً کاروباری، شراکت داری یا شادی وغیرہ کیلئے مشورہ مانگنے پر جس کے بارے میں مشورہ مانگا گیا ہے اُس کے اگر ایسے عُیُوب معلوم ہیں جس سے نقصان پہنچ سکتا ہے تو ضَرورتاً صرف وُہی عُیُوب بتانا (4)قاضی (یا پولیس )سے انصاف کے حُصُول کیلئے فریاد کرتے وَقت کہ فُلاں نے چوری کی ، ظلم کیا وغیرہ (5)جو اِصلاح کر سکتا ہو اُس سے صِرف اِصلاح کی نیّت سے شکایت کی جا سکتی ہے مَثَلاً مُرید کی پیر سے، بیٹے کی باپ سے،بیوی کی شوہرسے، رعایاکی بادشاہ سے،شاگرد کی استاذسے شکایت کی جا سکتی ہے(6)فتویٰ لینے کیلئے نام لیکر بُرائی بیان کر سکتا ہے مگر بہتر یہ ہے کہ مفتی سے بھی اشارۃً یعنی زید بکر میں دریافت کرے ۔ (بہارِشریعت حصّہ ۱۶ص ۱۷۷۔۱۷۸ مُلَخَّصاً)

(7)پہچان کیلئے ضَرورتاً گونگابہرا وغیرہ کہنا

کسی کے جِسمانی عَیب مَثَلاً اندھا ، موٹاوغیرہ صِرف پہچان کیلئے کہنا جب کہ وہ اس علامت سے معروف(یعنی پہچانا جاتا)ہواگر بِغیر عیب ظاہر کئے بھی پہچان ہو سکتی ہے تو بہتر یہ ہے کہ نام کے ساتھ عیب کا تذکِرہ نہ کرے ۔ مَثَلاً زید موٹا ہے مگر نام مع ولدیت بتانے یا کسی اور علامت سے ترکیب بن سکتی ہے تو اب موٹا کہنے سے بچے۔چُنانچِہ ''رِیاضُ الصَّالِحین''میں ہے:مَثَلاً کوئی شخص اَعرَج (لنگڑے)اَصَم(بہرے)، اَعمٰی(اندھے)، اَحوَل(بھینگے) کے لقب سے مشہور ہے تُو اس کی معرفت و شناخت (یعنی پہچان)کے لیے ان اَوصاف و علامات کے ساتھ ذکر کرنا جائز ہے مگرتَنقیص (یعنی خامی بیان کرنے)کے ارادے سے ان اَوصاف کے ساتھ تذکِرہ جائز نہیں ۔ اگر(خامی بھرے)لقب کے بِغیر پہچان ہو سکتی ہو توبہتر یہ ہے کہ لقب بیان نہ کرے۔ (رِیاضُ الصّالِحین لِلنَّوَوی ص ۴۰۴) دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ''بہارِ شریعت''حصّہ 16 صَفْحَہ178پر ہے: بعض مرتبہ محض پہچاننے کے لیے کسی کو اندھا یا کانا یا ٹھگنا یا لمبا کہا جاتا ہے، یہ غیبت میں داخِل نہیں۔

جو کھلّم کُھلّا بُرائی کرتا ہو اُس کی غیبت

(8)کُھلّم کُھلّالوگوں سے مال چھین لینے، علَی الاعلان شراب پینے، داڑھی مُنڈانے یا ایک مٹّھی سے گھٹانے وغیرہ وغیرہ عَلانیہ گناہ کرنے والے کہ جن کوان گناہوں کے مُعاملے میں لوگوں سے حیانہ رہی ہو اُن کی صِرف اُن باتوں کا تذکِرہ کرنا(9)ظالم حاکِم کے اُن مظالم کا بیان کرنا بھی جائز ہے جو کھلَّم کُھلّا کرتا ہو،ہاں ظالم بھی جوبُرا عمل چُھپ کر کرتا ہو اُس کابیان غیبت ہے ۔ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ''بہارِ شریعت ''حصّہ 16 صَفْحَہ177پر ہے:جو شخص علانیہ بُرا کام کرتا ہے اور اس کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ لوگ اسے کیا کہیں گے، اس کی اس بُری حرکت کا بیان کرنا غیبت نہیں، مگر اس کی دوسری باتیں جو ظاہر نہیں ہیں ان کو ذکر کرنا غیبت میں داخِل ہے۔ حدیث میں ہے کہ ــجس نے حیا کا حجاب اپنے چِہرے سے ہٹا دیا، اس کی غیبت نہیں۔ (بہارِشریعت) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرتِ علامہ سیّد مُرتضٰی زَبیدی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں:یاد رہے!اس سے(یعنی علی الاعلان جُرم کرنے والے کے اُس جُرم کے تذکرے سے) صرف لوگوں کی خیر خواہی مقصود ہو ،ہاں جس شخص نے اپنا غصّہ(یا بھڑاس)نکالنے یا اپنے نفس کا انتِقام لینے کے لیے فاسِقِ مُعلِن کی مذموم صِفات کو بیان کیا وہ گناہ گار ہے۔ (اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی ج ۹ ص ۳۳۲ )

(10) بطورِ افسو س کسی کی بُرائی بیان کرنا

کسی نے اپنے مسلمان بھائی کی برائی افسوس کے طور پر(بیان)کی کہ مجھے نہایت افسوس ہے کہ وہ ایسے کام کرتا ہے یہ غیبت نہیں ، کیونکہ جس کی بُرائی کی اگر اسے خبر بھی ہو گئی تو اس صورت میں وہ بُرا نہ مانے گا، بُرا اُس وَقت مانے گا جب اسے معلوم ہو کہ اس کہنے والے کا مقصود ہی بُرائی کرنا ہے، مگر یہ ضَرور ہے کہ اس چیز کا اظہار اس نے حسرت و افسوس ہی کی وجہ سے کیا ہو ورنہ یہ غیبت ہے بلکہ ایک قسم کانِفاق اور ریا اور اپنی مَدح سَرائی (یعنی اپنے منہ اپنی تعریف)ہے، کیونکہ اس نے مسلمان بھائی کی بُرائی بیان کی اور ظاہِر یہ کیا کہ بُرائی مقصود نہیں یہ نِفاق ہوا اور لوگوں پر یہ ظاہر کیا کہ یہ کام میں اپنے لئے اور دوسروں کے لئے بُرا جانتا ہوں یہ رِیا ہے اورچُونکہ غیبت کو غیبت کے طور پر نہیں کیا ، لہٰذا اپنے کوصُلَحا(نیک بندوں)میں سے ہونا بتایا یہ تزکیہ نفس اور خودسِتائی(اپنے منہ اپنی تعری ف) ہوئی ۔ (بہارِشریعت حصّہ ۱۶ص ۱۷۶،دُرِّمُختار،رَدُّالْمُحتار ج ۹ص ۶۷۳) اِس جُزیئے کا یہ مَدَنی پھول قابلِ غور ہے کہ بیان کرنے میں اظہارِ افسوس کاانداز ایسا ہوکہ جس کی غیبت کی گئی اُس کو پتا چل بھی جائے تو وہ یہ سمجھے کہ یہ بے چارہ میری کوتاہی کی وجہ سے غمزدہ ہوا، اِس لئے اِس نے محض افسوس کے طور پر یہ بات کی ہے میری بُرائی کرنا مقصود نہیں۔ بَہُت سوچ سمجھ کر زبان کھولنے کی ضَرورت ہے ،محض زبردستی کے افسوس کی کی فیت پیدا کر لینا کافی نہیں۔ آہ! غیبت کا عذاب سہانہ جا سکے گا!

بطورِ افسوس غیبت کرنے سے بچنے ہی میں عافیت ہے

حقیقت یِہی ہے کہ غیبت جائز ہونے کی افسوس والی صورت میں غیبت کے گناہ میں جا پڑنے کا خطرہ بِہُت زیادہ ہے کہ عام آدمی کیلئے''حقیقی افسوس ''او ر ''اصل غیبت''میں فرق کرنابے حد مشکِل ہے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا اسمٰعیل حقّی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں:بعض مُتَکَلِّمِین رَحِمَہُمُ اللہُ المبین(یعنی علمِ کلام کے ماہرین عُلما)فرماتے ہیں کہ کسی ایسی چیز کا ذِکر کرنا جس سے سامنے والے کی تَخفی ف(یعنی تحقیر وتَذلیل )ہو تی ہو یہ اُس وَقت غیبت ہو گی جب کہ اس سے(اُس کی عزّت کو)نقصان پہنچانے اوربُرائی بیان کرنے کا ارادہ کرے اور(ہاں)اس کا اس (کے عیب)کو افسوس کے طور پر ذکر کرنا غیبت نہیں کہلائے گا۔یہ لکھنے کے بعد حضرتِ سیِّدُنا اسمعٰیل حقّی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی مزیدفرماتے ہیں کہ(اِس ضِمن میں )امام سَمرقندی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی اپنی''تفسیر''میں فرماتے ہیں:میں کہتا ہوں جو اُن علَماءِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام نے بیان فرمایا ہے اس میں عظیم خطرہ ہے کیونکہ اس میں (یعنی میں تو بطورِافسوس غیبت کر رہا ہوں میں)اس بات کاگمان ہے کہ لوگوں کا ا س طرح کرنا(یعنی اپنے خیال میں افسوس کے لئے غیبت کرتا ہوں سمجھنابے احتیاطی کی صورت میں)ان کو ا س بات کی طرف لے جائے گا جو محض(گناہ بھری) غیبت ہے لہٰذا اس کا بالکل ترک کر دینا(یعنی بطورِ افسوس کسی کی غیبت نہ کرنا)تقویٰ کے زیادہ قریب اور زیادہ احتیاط پر مبنی ہے ۔ (تفسیر روحُ البیان ج۹ص۸۹) (11)حدیث کے راویوں ، مُقدّمے کے گواہوں اورمُصَنِّفِین پر جرح (یعنی ان کے عُیُوب کو ظاہر)کرنا (رَدُّالْمُحتار ج۹ ص ۶۷۵) (12)مُرتد اورکافِرِ حَربی کی بُرائی بیان کرنا (اب دنیا میں تمام کافِر حربی ہیں )۔یہ بیان کردہ تمام صورَتیں بظاہِر غیبت ہیں اور حقیقت میں گناہوں بھری غیبت نہیں اور ان عُیوب کا بیان کرنا جائز ہے بلکہ بعض صورَتوں میں واجِب ہے۔

صبح ہوتی ہے شام ہو تی ہے عُمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

غیبتیں چغلیاں ہے کرواتی جب زباں بے لگام ہوتی ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

تُوبُوا اِلَی اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(07): ’’ مذہبی طبقے کی غیبتوں کی مثالیں ‘‘

نعت خوانوں کے مابین ہونے والی غیبتوں کی40مثالیں

''نعت خوانی ''نہایت عمدہ عبادت ہے ، سُریلی آوازبے شک ربُّ العزَّت عَزَّوَجَلَّ کی عنایت ہے مگر اس میں امتحان بہت سخت ہے ،جسے اِخلاص مل گیا وُہی کامیاب ہے۔بعض نعت خوان ماشاء اللہ عَزَّوَجَلَّ زبردست عاشقِ رسول ہوتے ہیں جو کہ بِغیر کسی دُنیوی لالچ کے آنکھیں بند کئے عشقِ رسول میں ڈوب کر نعت شریف پڑھتے ہیں اور سامِعین کے دلوں کو تڑپا کررکھ دیتے ہیں جبکہ بعض لا اُبالی چَنچَل اور انتِہائی غیر سنجیدہ ہوتے ہیں ،اِس طرح کے نعت خوانوں میں جن بدنصیبوں کا دل خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے خالی ہوتا ہے، وہ پیچھے سے ایک دوسرے پر جی بھر کر تنقیدیں کرتے، خوب خوب غیبتیں کرتے ، آوازوں کی نقلیں اُتار کرٹھیک ٹھاک مذاق اُڑاتے اوراوپر سے زور دار قہقہے لگاتے ہیں۔اللہُ رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ حقیقی مدنی نعت خوان حضرت سیِّدُنا حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدقے انہیں بھی عشقِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں رونے رُلانے والا مخلص نعت خوان بنائے۔ امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔ ایسے نعت خوانوں کی اصلاح کے جذبے کے تحت ان کے درمیان ہونے والی مُتَوقَّع غیبتوں کی 40مثالیں عرض کرتا ہوں:پتا نہیں یہ مولوی مائیک پر کہاں سے آ گیا کہ اتنی لمبی تقریر شروع کر دی ہے! لوگ اُکتا کر اُٹھ اُٹھ کر جا رہے ہیں مگر یہ ہے کہ مائیک ہی نہیں چھوڑتا بانئ محفل نے لائٹ کا اِنتظام ٹھیک نہیں کروایا منچ(اسٹیج)پر ڈیکوریشن کم تھیاس نے نعت خوانوں کو گرمی میں مار دِیا ایک پیڈسٹل فین ہی رکھ دِیا ہوتا یار !یہ ساؤنڈوالا بھی بالکل بیکار ساؤنڈ لایا ہے کارڈ لیس(Cordless)مائیک کی ترکیب بھی ٹھیک نہیں تھیاُس نعت خوان نے سارا وقت لے لیا ہماری باری ہی نہیں آنے دی مجھے تاخیر سے موقع دِیا مجھے کم وقت دِیا یار! یہ نعت خوان مائیک پر نہیں آنا چاہے تھا، اس نے رُلانے والی نعت پڑھ کر محفل کا رُ ہی بدل ڈالا، لوگ تو جھومانے والی طرز پر نوٹیں لٹایاکرتے ہیں!یار!اس نعت خوان نے نیا کلام سنا کر بڑی چالاکی سے جیبیں خالی کروا لی ہیں ہمارے لئے کچھ نہیں بچا!ارے!اِ س کو مائیک کہاں دے دیا !ایک تو آواز بے سُری ہے اور اوپر سے لمبی کرتا ہے لوگ اٹھ جاتے ہیں ، ہم کس کے سامنے نعت پڑھیں گے؟ اعلیٰ حضرت کا کلام پڑھنا نہیں آتا پُرانی طرزمیں پڑھتا ہے پُر سوز طرزیں ٹھیک سے نہیں پڑھ پاتا اس کو جھومانے والے کلام پڑھنے نہیں آتے عربی کلام نہیں پڑھ پاتا یہ نعت خوان طرزیں بگاڑ کر پڑھتا ہے فُلاں نعت خوان جہاں مال زیادہ ہو وہیں جاتا اور وہاں کے حساب سے کلام پڑھتا ہے وہ جب نعت پڑھتا ہے تو اس کامنہ کیسا بن جاتا ہے!ارے اُس کے نعت پڑھنے کا انداز دیکھا ہے ایسا ٹیڑھا منہ کر کے گلا پھاڑ کر سُر بناتا ہے کہ ہنسی روکنا مشکِل ہو جاتا ہےبانئ محفل بڑاکنجوس ہے، جیب میں ہاتھ ہی نہیں ڈالتا تھافُلاں کی آواز ذرا اچّھی ہے تو مغرور ہو گیا ہے وہ تو بھئی بَہُت بڑا نعت خوان ہے، ہم جیسے چھوٹے نعت خوانوں کوتو لفٹ بھی نہیں کرواتا منچ(اسٹیج) پر مالداروں کو بِٹھا رکھا تھااس کے نخرے بہت ہو گئے ہیں طرزکلام کے مطابق نہیں تھیاِیکو ساؤنڈ پر اِس کا گلا زِیادہ کام کرتا ہے اِس کو نذرانے ملنے پرکیسا جوش چڑھتا ہے زیادہ لوگوں میں زِیادہ کُھلتا ہے فُلاں نعت خوان چُونکہ فارِغ ہے ، اس لیے نئی نئی طرزیں بناتا رہتا ہے بھئی !وہ تو جیسے بَہُت بڑا نعت خوان نہ ہو محفل میں اپنی باری کے وقت ہی آتا اور کلا م پڑھ کر چلا جاتاہےاِس اور اُس نعت خوان کی جوڑی ہے یہ دونوں کسی کو گھاس نہیں ڈالتےبار بار ایک ہی کلام پڑھتا ہے فُلاں نعت خوان کی نقّالی کرتا ہےنہ جانے کس شاعر کا کلام اُٹھا لایا تھا بانئ محفل نے ثنا خوانوں کی کوئی خدمت ہی نہیں کی بانئ محفل نے مجھے ٹیکسی کا کرایہ تک نہیں دیا،بَہُت کنجوس نکلاگلا پھاڑ پھاڑ کر کھانا سارا ہضم ہو گیا ، بعد کو معلوم ہو اکہ بانئ محفل نے ثنا خوانوں کیلئے کھانے کا کوئی انتظام ہی نہیں کیا تھا کل جس کے یہاں محفل تھی وہ بڑا دلیر تھا، کور کھولا تو 1200روپے تھے! مگر آج والا بانئ محفل کنجوس ہے 100روپلّی تھما دی!۔

''غیبت نقصان دہِ ہے ''کے تیرہ حُرُوف کی نسبت سے ایکوساؤنڈوالوں اورکیمرہ مین کے مُتَعَلِّق غیبتوں کی 13مثالیں

اس کا ایکو ساؤنڈ پرانا ہے آواز کی مکسنگ ٹھیک طرح نہیں کرتا ایکو کم کھولتا ہے ٹھیک طرح چلانا نہیں آتا آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساؤنڈ کی آوا زکم یا زیادہ نہیں کرتا بچے کو بھیج دیا اور خود کہیں اور چلا گیا پیڈل پہ کام چلا دیا مکسر جان بوجھ کر نہیں لایا اسپیکر چھوٹے اور پرانے ہیںا سٹینڈ زنگ آلود تھے نعت خواں کو مزا نہیں آیا مُووی والاجان بوجھ کر دیر سے آیا تھا اچھا کیمرہ نہیں لایااسے تو کیمرہ پکڑناٹھیک طرح نہیں آتا ، مووی خاک بنائے گا!

''غیبت نہ کریں ''کے دس حُرُوف کی نسبت سے مُبلِّغین ومقررین کے مُتَعَلِّق غیبتوں کی 10مثالیں

بیان کے لئے وقت دیتے وقت نخرے بہت کرتا ہے خوامخواہ اپنی ویلیو بڑھاتا ہے فُلاں مولیٰنا بَہُت پیسے لیتا ہے اس لئے ہماری پہنچ سے باہر ہے بِغیررقم لئے خطاب ہی نہیں کرتا،سواری کا مطالبہ الگ کرتا ہے بیان کی تیاری کر کے نہیں آتا رسالہ پڑھ کے سنا دیا بیان میں اپنے اوصاف ضرور بتائے گا نگران کی اجازت کے بغیر بیان کرنے چلا جاتا ہے نگران کو تو کچھ سمجھتا ہی نہیں بناوٹی سوز اور رقت پیدا کرتا ہے۔

''سُن لو !غیبت کرنے والا سب سے پہلے جہنَّم میں جائے گا ''کے سینتیس حُرُوف کی نسبت سے امام وخطیب کے بارے میں کی جانے والی مَتَوَقَّع غیبتوں کی 37مثالیں

امام صاحب کی شکل اچھی نہیں ہے۔ کیا تمہیں کوئی دوسرا امام نہیں ملا تھا جو اِسے اُٹھا لائے!امام صاحب ماڈرن ذہن کے ہیں سادہ لباس نہیں پہنتے امام صاحِب کے بال بڑے عجیب لگتے ہیں سر کے بالوں اور داڑھی میں تیل تک نہیں لگاتے امام صاحب کو ڈھنگ سے عمامہ باندھنا بھی نہیں آتااکثر نماز میں ٹائم پر نہیں پہنچتے آپ ٹائم پر آتے ہیں آپ سے پہلے والے فُلاں امام صاحِب شاید ہی کسی نماز میں ٹائم پر پہنچے ہوں تکبیر کہتے وقت امام صاحب ٹھیک طرح سے ہاتھ سیدھے نہیں کرتے تکبیر کہنے کے بعد ہاتھ نیچے لٹکا کر پھر باندھتے ہیں، سنّت کے مطابِق ہاتھ باندھنا بھی نہیں آتا امام صاحِب کی قِراء ت مزیدار نہیں فجر میں بہت لمبی قِراء ت کر جاتے ہیں قراء ت میں اکثر بھول جاتے ہیں اُس دن الٹی ترتیب سے سورتیں پڑھ ڈالیں،ان کا حافظہ کمزور ہے ان کی آواز میں گونج نہیں ہے امام صاحِب نَماز پڑھاتے وقت سر اونچا رکھتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے چاند کو دیکھ رہے ہوں نماز پڑھتے وقت آنکھیں گھما کر ادھر ادھر دیکھتے ہیں دورانِ قیام نظر سجدے کی جگہ پر نہیں رکھتےرکوع میں جاتے وقت ٹھیک طرح جھکتے نہیںامام صاحِب کو پتا نہیں کیا جوانی چڑھی ہے بَہت جلدنَماز ختم کر دیتے ہیں امام صاحِب نَماز پڑھا کر حجرے میں جابیٹھتے ہیں نمازیوں سے ملنے کیلئے نہیں رکتے پتا ہے آج فجر کی نماز مؤذِّن نے پڑھائی ، نَماز کے بعد میں حجرے میں گیا تو امام صاحِب سوئے پڑے تھے ،میں نے اٹھا دیا ورنہ شاید آج ان کی فجر ہی قضا ہوجاتی ان کا ذہن مَدَنی نہیں مَدَنی کاموں میں بالکل تعاوُن نہیں کرتے آج امام صاحِب بِغیر عمامے کے گھوم رہے تھے یہ کیسے دعوت اسلامی والے ہیں! اجتماع میں حلقے میں نہیں آتے مَدَنی قافلے میں کبھی سفر نہیں کیااندازِ گفتگو دعوت اسلامی والا نہیں نمازیوں کے نام تک یاد نہیں رکھتے اتنے دبلے پتلے ہیں کہ منبر پر بیٹھے ہو ئے بڑے عجیب دکھتے ہیں بہت موٹے تازے ہیںپیٹ نکلا ہو اہے پردے میں پردہ نہیں کرتے بہت دیر سے بیان شروع کرتے ہیں انداز بیان بس ایسا ہی ہے جوشیلا بیان نہیں کرتے بجلی چلے جانے کی وجہ سے اسپیکر بند ہو توان کا گلا بیٹھجاتا ہے۔

''اُف اہلِ مسجِد کی غیبت!!''کے پندرہ حُرُوف کی نسبت سے مسجد انتظامیہ کے متعلق کی جانے والی غیبتوں کی 15 مثالیں

یہ تو بس نام کا صدر ہے اصل حکم کسی اور کا چلتا ہے ایسا صدر ہو گا تو مسجد کا یہی حال ہو گا خود تو چندہ کرتا نہیں مجھے ہی کہتا رہتا ہے امام کو تو تنخواہ پہلے دے دیتا ہے میرے(یعنی مؤذِّن کے)ساتھ پتا نہیں کیا دشمنی ہے اپنی بات ثابت کرنے کے لئے دلائل دینا شروع کر دیتا ہے کسی اور کی سننا تو گوارا ہی نہیں کرتا اس کا دماغ ابھی بچکانہ ہے سوچ سمجھ کر بات نہیں کرتا بس جو منہ میں آیا بول دیتا ہے کسی کی پریشانی کا احساس ہی نہیں کرتا ہوں!200 روپے خیرخواہی کے پکڑا دئیے اس سے میرا کیا بنے گا خادم اس کا دوست ہے نا اسی لئے اس سے کام کی پوچھ گچھ نہیں کرتا میں (مؤذِّن)ایک بار غیر حاضِر ہو جاؤں تو پکڑ لیتا ہے خود اپنا گھر اتنے پیسوں میں چلا کے دکھائے دیکھتا ہوں عقل ٹھکانے آتی ہے یانہیں اتنے سالوں سے یہاں ہوں ایک پل میں بول دیا کہ تم یہاں کیوں پِس رہے ہو کوئی اور کام کر لو بڑا صدر بنا پھرتا ہے فجر میں تو آتا نہیں کسی امام یا خطیب کو ٹکنے نہیں دیتا اس مسجدکا مُتولّی بڑا اڑیل آدمی ہے۔

''خبردار!غیبت کرنے والا عذابِ قبر میں گرفتار ہوگا اور اُس کو جہنَّم میں مُردار بھی کھانا پڑے گا ''کے اڑسٹھ حُرُوف کی نسبت سے مذہبی طبقے میں کی جانے والی غیبتوں کی 68 مثالیں

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں شیطٰنِ عیّار ومَکّار سے ہر دم پناہ میں رکھے ،یہ دیندار طبقے کو بھی خوب خوب غیبتیں کرواتا اور گناہوں کے گہرے غار میں گراتا ہے، اِس مردود نے مذہبی لوگوں میں غیبت کے ایسے ایسے الفاظ رائج کردیئے ہیں کہ یہ اکثرغیبت کرجاتے ہیں اور انہیں کانوں کان اسکی خبر بھی نہیں ہوتی!اس ضِمن میں68 مثالیں عرض کرنے کی کوشِش کرتا ہوں جن کا بلا اجازتِ شرعی استعمال یا تو غیبت ہے یا تہمت یا بدگمانی یا چغلی وغیرہ ۔ فُلاں کا ذِہن مذہبی نہیں ہے وہ شرع شریعت میں کہاں سمجھتا ہے ہماری مسجد کے امام کی کیا بات کرتے ہو وہ تو تنخواہ دار مولوی ہے ہمارا مؤذن (یا فُلاں)پیسے والوں سے ترکیبیں بناتا رہتا ہے وہ بے عمل ہے دینی معلومات سے کورا ہے اُس کو نماز بھی نہیں آتی اس سے تو فُلاں زیادہ با عمل ہے دنیا کو نصیحت کرتا ہے اور گھر والوں کو چھوڑ رکھا ہے جبھی تو اس کی بیٹی یابہن یا بیوی بے پردہ گھومتی ہے اس سے تو اچھے اچھے پڑے ہیں ''میں میں''کرتا ہے اپنے منہ میاں مِٹّھو بنتا ہے اپنی تعریف سننے کا بڑا شوق ہے اپنے نام کی پڑی ہے نام کیلئے کرتاہے اپنی واہ واہ چاہتا ہے خوشامد پسندہے بَہُت پَھیل گیا ہے آگے آگے بیٹھنے کا بڑا شوق ہے اُس کومُووی میں آنے کا بَہُت جذبہ ہے چُغُل خور دورُخا دوغلادھوکے بازوعدہ خِلاف ہے اس نے غیبت کی تہمت لگائیبدگمانی کی جھوٹ بولا غَلط کام کیا لوفر جُواری شرابی نَشَئِی چرسی بھنگڑیہیروئنچی اَفیونی بدچلن بدمست سانڈ زانی اِغلام باز ہے لڑکیوں کو تاڑتا ہے اس کی ذہنیت گندی ہے۔میرا باپ حلال حرام روزی کی پرواہ نہیں کرتا بڑا بھائی بے نمازی ہے بہن بے پردہ ہے میرے والدین آپس میں لڑتے رہتے ہیں گھر میں کوئی بھی قراٰن نہیں پڑھا ہوا چھوٹا بھائی فلمیں ڈِرامے دیکھتا ہے باتیں تو بڑی صوفیانہ کرتا ہے نماز ایک نہیں پڑھتا پارٹیوں کے آگے پیچھے گھومتا ہے کل تک تو اس کے پاس چائے پینے کے پیسے نہیں ہوتے تھے آج اس کے پاس مہنگی گاڑی نہ جانے کہاں سے آ گئی ! ضرورمسجِد (یا مدرسے )کے چندے پر ہاتھ مارا ہوگا ! مفت کا مال کھا کھا کر پیٹ بڑھا رکھا ہے تقریر میں پہلے اپنے قصیدے پڑھے گا پھر موضوع پر آئے گا یہ تو دوسرے مقررین کا وقت بھی کھا جاتا ہے بڑے جلسے(یااجتماع)میں تو خوب گرجتا برستا ہے ، اپنی مسجد میں اس کی آواز نہیں نکلتی کوئی اس کے ہاتھ نہ چُومے تو ناراض ہوجاتا ہے اس کو نذرانہ نہ دیایا کھانا اچھا نہ کھلایا تو اگلی مرتبہ نہیں آئے گا یہ انہی کا یار ہے جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ،جو ذرا اِختلاف کرے اسے جوتی کی نوک پر رکھتا ہے خوشامد پسند ہے چار تقریریں رٹ رکھی ہیں جہاں جاتا یہی بیان کرتا ہے خود کو بڑا علامہ سمجھتا ہے فُلاں بھی کوئی عالم ہے! اس کے مدرسے میں وہی مفتی رہ سکتا ہے جو اس کے من پسند فتوے دے چار کتابیں پڑھ لی ہیں تواس کا دماغ آسمان پر چڑھ گیا ہے جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے تنظیم میں شامل ہوئے اور ہمیں نصیحتیں کرنا شروع کردی ہیں !

''غیبت میں ایسی بُو ہوتی ہے کہ اگر سمندر میں ڈال دی جائے تو اُسے بھی بدبُودار کر دے گی ''کے سا ٹھ حُرُوف کی نسبت سے غیبت کی مُتَفَرَّق60مثا لیں

دنیادار نفس کابندہ ہےبیوی پرظلم کرتاہے قرضہ دبالیاہےچور خائنبددِیانت گھپلے بازلے بھاگُوپیسے کھا گیا ہے خشک مزاج سخت دلبے وفا اس کا تو مالِ مفت دل بے رحم والا حساب ہے احسان فراموش ہے فٹیچر بھگوڑا باؤلا پگلا گھن چکّر عقل کا اندھاہے اس کی عقل گھاس چرنے گئی ہےاس کے دماغ میں بُھوسا بھرا ہوا ہے شکّی مزاجوَسوَسِیَہ ہے ڈیوٹی پوری نہیں دیتا حرام کا مال کھاتا ہے مغرور اکڑ فُوں ہے اِس کا دماغ ہر وقت آسمان پر رہتا ہے لالچی حریصبخیل اس کی تو بھئی!چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائے کنجوس مکھی چوس ہے کسی کی چلنے نہیں دیتا کسی کو آگے نہیں آنے دیتااپنی لیڈری چمکا تا ہےاپنے نمبر بناتا ہےچودھراہٹ جما رکھی ہے نخرے باز''گلے پَڑُو''ڈھیٹ چلتا پُرزہ بِکاؤ مال جدھر پیسہ دیکھتا ہے اُدھر لڑھک جاتا ہے لارڈ صاحب یانواب صاحب ہےمال سے مَحَبَّت کرتا ہے غریبوں کو گھاس بھی نہیں ڈالتا پیٹ کابندہ ہے مَسکے باز چاپلوسبَٹَر پالش کرنے والا خوشامدی ہے ہر معاملے میں ٹانگ اَڑاتا ہے بڑا بے حیا ہے ،آج پھر نماز میں اس کا موبائل بج رہا تھا خود کو بڑا عقل مند سمجھتا ہے پکّا مطلبی ہے مَفاد پرست ہے۔

''چُپ رہو سلامت رہو گے''کے پندرہ حُرُوف کی نسبت سے وقف کے اجیروں کے مُتَعَلِّق غیبتوں کی 15مثالیں

لیٹ آتاہے مگر پیسے بچانے کے لئے حاضِری بروقت آنے کی لگاتا ہے اِجارے کے وقت اِدھر اُدھر کی باتوں میں وقت زیادہ ضائِع کرتا ہے عُرف کے خلاف ذاتی کام کرنے کے باوُجُودبھی کٹوتی نہیں کرواتا شعبہ ذمے دار کا چہیتا ہے تبھی وہ اسے کچھ نہیں کہتا میری ترقّی کی راہ میں رکاوٹ ہے مجھے ذمہ داری مل جانی تھی اس نے نہیں ملنے دی یہ قابلیت میں مجھ سے بہت کم ہے پر تنخواہ میرے برابر کی لے رہا ہے شعبہ ذمے دار بس ایوئیں ہے اسے قابلیت اور صلاحیت کے مطابق کام لینا نہیں آتا اسے کام نہ دینا ،لٹکا دے گا اسے ٹھیک سے پڑھانا نہیں آتا کام میں غلطیاں بہت کرتا ہے حوالے نکالنے میں بَہُت دیر لگا دیتا ہے ردّی ترجمہ کرتا ہے کام مکمل کرنے میں بہت دن لگا دیتا ہے تھوڑا سا کام تھا اتنے دن لگا دئیے۔ (غیبت کی تباہ کاریاں ص۴۱۰ تا ۴۱۷)

(08): ’’طلباء، اساتذہ اور دوسروں کی غیبتوں کی مثالیں ‘‘

''یارب !علم کی برکتوں سے محروم نہ کر ''کے چھبیس حُروف کی نسبت سےطَلَبہ میں کی جانے والی غیبتوں کی26مثالیں

فُلاں پڑھائی میں کمزور ہے اس کے تلفُّظ غَلَط ہوتے ہیں اس کے مخارِج دُرُست نہیں اس کا حافِظہ کمزور ہے ٹھوٹ کُندذِہن جاہل ان پڑ ھ ہےبات ذرا دیر سے سمجھتا ہے اس کی عقل موٹی ہے غُلّے مارتا ہے نقلیں مارکر رشوت دیکر سورس لگا کرامتحان پاس کیا ہےمیں نے بہت محنت سے تیّاری کی تھی ،فُلاں ممْتَحِن(یعنی امتحان لینے والے)نے ناانصافی کی کہ فُلاں جو کہ پڑھائی میں مجھ سے کمزور ہے اُس کو زیادہ نمبر دے دئیے! مدرَسے کی انتِظامیہ کا صدریا فُلاں رُکن خوشامد پسند (یا ناانصاف یا ظالم)ہے اُس لڑکے کا قُصور زیادہ تھا مگر میرا نام خارِج کردیا اس بے چارے کو بے قُصُور نکالدیاہے ہماری انتظامیہ کے فُلاں رکن نے تو بالکل اندھی چلا رکھی ہے۔ ناظم باروچی کو چیز یں بھی برابر نہیں دیتا تو کھانا کہاں سے اچھا بنے گا ناظم صاحب کو جب دیکھو اپنے کمرے میں بیٹھے رہتے ہیں ، کبھی ہمارے کمرے میں آکر ہماری خَستہ حالی تو دیکھیں انتظامیہ(یامجلس )کو خالی چندہ جمع کرنے سے مطلب ہے ہم پر خرچ کرنے کا کوئی خیال نہیں! اتنا بدمزہ کھانا! ہمارا باورچی بھی چولہے پر کھانا رکھ کر سو جاتاہے ! افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ناظم بھی اس کو کچھ نہیں کہتا ! سرپرست صاحب نے چندے کے مال سے گھر بنالیا ،گاڑی خرید لی ۔مگرہمارے کمرے کے پنکھے تک ٹھیک کروا کر نہیں دئیےمدرَسے(یاجامِعہ )میں آنے والے بکرے اس طرح ناظمِ اعلیٰ کے گھر پہنچا دئیے جاتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ہمارے مُحافظِ کُتُب (یعنی لائبریرین )کے دماغ میں لگتا ہے بُھس بھرا ہوا ہے جس کتاب کے بارے میں پوچھو اِنکار میں سر ہلا دیتے ہیں فُلاں اتنی لمبی چُھٹّی کر کے آیا اُس کو تو دَرَجے میں بٹھا لیا ،میں نے دو دن چُھٹّی کی تو مدرَسے سے نام خارج کردیا ،آخِر انصاف بھی کوئی چیز ہوتی ہے !

''اُستاذ تو رُوحانی باپ ہوتا ہے''کے بائیس حُرُوف کی نسبت سے اساتذہ کی غیبتوں کی 22مثالیں

علمِ دین پڑھانے والا استاذ انتہائی قابلِ احترام ہوتا ہے مگر بعض نادان طلبہ اپنے اساتذہ کے نام بگاڑتے ، مذاق اڑاتے ہوئے نقلیں اُتارتے ، تہمتیں لگاتے ، بدگمانیاں اور غیبتیں کرتے ہیں، ان کی اصلاح کی خاطِر اساتذہ کی غیبتوں کی 22مثالیں حاضِر کی ہیں: آج استاذ صاحِب کا موڈ آف ہے لگتا ہے گھر سے لڑ کر آئے ہیں یہ فُلاں مدرسے میں پڑھاتے تھے وہاں تنخواہ کم تھی ، زیادہ تنخواہ کیلئے ہمارے مدرسے میں تشریف لائے ہیں توبہ!توبہ ! ہمارے استاذ(یا قاری صاحِب)بالغات کو ٹیوشن پڑھانے ان کے گھر جاتے ہیںاُستاذ صاحب پڑھانے میں مجھ غریب پر کم مگر فُلاں مالدار کے لڑکے پر زیادہ توجُّہ دیتے ہیں ہمارے اُستاذ صاحِب جب دیکھو مجھے ذلیل کرتے رہتے ہیں طلَبہ پر بِلاوجہ سختی کرتے ہیں پڑھانا آتا نہیں ،اُستاذ بن بیٹھے ہیں! دیکھا !آج اُستاذ صاحب میرے سُوال پر کیسے پھنسے! استاذ صاحب کوکتاب کے حاشئے سے مُتعلِّق کوئی سُوال پوچھ لو تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں اُستاذ صاحِب نے اس سُوال کا جواب غَلَط دیا ہے ،آؤ میں تمہیں کتاب دکھاتا ہوںاستاذ صاحب کو خود عبارت پڑھنی نہیں آتی اس لئے ہم سے پڑھواتے ہیں اُستاذ صاحب کو تو ڈھنگ سے ترجَمہ کرنا بھی نہیں آتا اُستاذ صاحب سبق کو خوامخواہ لمبا کردیتے ہیں فُلاں اُستاذ سے تو میں مجبوراً پڑھ رہا ہوں ،میرا بس چلے تو ان سے پیریڈ(یاسبق)لے کر کسی اور کو دے دوں یا انہیں مدرَسے ہی سے نکال دوں فلاں اُستاذ تو ''بابائے اُردو شُرُوحات''ہیں،اردو شرح سے تیّاری کر کے آتے ہیں ، جب تک اردو شرح نہ پڑھ لیں سبق نہیں پڑھا سکتے آج استاذ صاحب سبق تیارکر کے نہیں آئے تھے اسی لئے اِدھر اُدھر کی باتوں میں وقت گزار دیا جب یہ زیرِ تعلیم تھے توپڑھائی میں اتنے کمزور تھے کہ روزانہ اپنے اُستاذ سے ڈانٹ کھاتے تھے میں حیران ہوں کہ فُلاں طالب علم کی پوزیشن کیسے آگئی !ضَرور اُستاذ صاحِب نے اس کو پرچے کے سُوالات بتائے ہوں گے فلاں اُستاذ (یاقاری صاحِب)کا ذِہن مَدَنی نہیں ہے انہوں نے کبھی دَرَجے میں مَدَنی کاموں کے بارے میں ایک لفظ نہیں بولا فُلاں فُلاں اُستاذ کی آپس میں بنتی نہیں جب دیکھو ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتے رہتے ہیں ہمارے اُستاذ(یا قاری صاحِب)آج کل فُلاں اَمرد میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں۔

''دعوتِ اسلامی کا مَدَنی مقصد ہے ،''مجھے اپنی اور ساری دُنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ''کے سڑسٹھ حُرُوف کی نسبت سے مَدَنی ماحول میں کی جانے والی غیبت کی67 مثالیں

مکّہ مکرَّمہ ومدینہ منوَّرہ زادَھُمَا اللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً ، مسجِدینِ کریمین ،مِنیٰ،مُزدَلِفہ اور عَرَفات وغیرہ وغیرہ مقدّس مقامات پر بھی شیطان گناہ کروا دیتا ہے ، نہ حج والوں کو چھوڑتا ہے نہ عمرے والوں کو ،اسی طرح دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے مُنسلِک اسلامی بھائی او ر اسلامی بہنیں بھی'' گناہ پروف''نہیں، ان کو بھی اس طرح غیبتیں کرواتا ہے کہ انہیں کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی لہٰذا خاص مَدَنی ماحول میں کی جانے والی غیبتوں کی67 مثالیں پیش کی جاتی ہیں تا کہ ان سے اور ان جیسے دیگر کلمات و فِقرات سے بچنے کی ترکیب کی جاسکے وہ مَدَنی مرکز کی اطاعت نہیں کرتا اُس کا تنقیدی ذہن ہے اس کا ابھی تک ذہن نہیں بنا وہ ذمّہ داران سے اُلجھتا رہتا ہے وہ بات بات پر اعتِراض کرتا ہے مَدَنی کام باِلکل نہیں کرتا مگر آگے آگے آنے کا بہت شوق ہے کل رکنِ شوریٰ کے سامنے ٹائٹ عمامہ باندھ کر آ گیاتھا سارا دن عمامہ نہیں باندھتابَہُت منّتیں کی مگر وہ اُ س کو تو عِمامہ باندھنا بھی نہیں آتا فُلاں سے بندھواتا ہے وہ کیا درس دے گا پہلے درس سننے تو بیٹھےوہ اجتِماع میں دیر سے آنے کا عادی ہےاُس نے تو آج تک مَدَنی قافِلے میں سفر ہی نہیں کیا لاکھ سمجھایا مگر وہ مَدَنی اِنعامات کا رسالہ جمع نہیں کرواتا وہ اِشراق چاشت کے نوافِل نہیں پڑھتا الحمد للہ ہمارے عَلاقے کی مسجِد میں تہجُّد باجماعت ہوتی ہے مگر ہمارا ذَیلی نگران تعاوُن نہیں کرتا اُس کا بیان تنظیمی نہیں ہوتا اُس کا بیان تو مولویوں والا ہوتا ہے، (معاذ اللہ عَزَّوَجَلَّ) وہ تو اُردو نہیں پڑھا ہوا درس کہاں سے دیگاوہ صدائے مدینہ کیا لگائے گا پہلے یہ تو پوچھو کہ فجر میں اُٹھتا بھی ہے یا نہیں! ہما رے نگران نے بس ایک سے جوڑی بنا رکھی ہے اور اُسی کی سنتا ہے وہ زَبان(یا آنکھوں یا پیٹ )کا قفلِ مدینہ نہیں لگاتا وہ دیوانہ نہیں سیانا ہے اُس کا مَدَنی ذِہن کہاں ہے میرا باپ یا بڑا بھائی (یا فُلاں)دنیا دار ہےمجھے اجتماع میں نہیں آنے دیتا سنّتوں بھرے بیان کی کیسٹیں بھی نہیں سننے دیتا اس کو سنّتوں کا جذبہ نہیں اس کے بیان میں کہاں دم ہے! اِس سے تو فُلاں اسلامی بھائی اچّھا مبلِّغ ہے اس کے بیان میں مزا نہیں آیا بیان میں لمبی بہت کرتا ہے اپنے بیان پر خود تو عمل کرتا نہیں ہے رِیا کار ہے سب کو دکھانے کیلئے روتا ہے آنسو نکالنے کیلئے زور زور سے آنکھیں بِھیچتا ہے دُعا (مناجات یا نعت )میں جان بوجھ کر رونے جیسی آواز نکالتا ہے ڈھونگ کرتا ہےڈِرامہ باز ہےایکٹنگ کرتا ہے لوگوں کے سامنے ہی اس کو''وجد''آتا ہے !چھپ چھپ کر فلمیں ڈرامے دیکھتا ہے گانے باجے کا شوقین ہےاَمْرَدوں سے دوستی کرتاہے اس کو لوگوں کی لائن لگوا کر ملاقات کرنے کا بڑا شوق ہے ہمارا نگران ہر دوسرے اجتماع میں خود بیان کرنے کھڑا ہوجاتا ہے مجھے بیان نہیں دیتا کہ کہیں آگے نہ نکل جاؤں نگران نے بڑی رات کے ''اجتماعِ ذکرونعت ''میں بے سُرے نعت خوانوں کو بٹھا دیا ہم جیسے تجرِبہ کاروں کومَنچ پر قدم تک نہیں رکھنے دیا ہمارا نگران اپنی شخصیّت بناتا ہے اسلامی بھائیوں کو مَدَنی مرکز کی مَحَبَّت یا اطاعت کا ذہن نہیں دیتا نگران نے فرینڈ سرکل بنا رکھا ہے ،نئے اسلامی بھائیوں پر توجُّہ نہیں دیتا کسی کو آگے نہیں بڑھنے دیتا پرانے اسلامی بھائیوں کو سائڈ پر کر رہاہے فُلاں نے نگران کی غلَطی نکالی تو نگران نے تو انتقاماً بے چارے کا پتّا ہی کاٹ دیا آج دُعا کروانے والا مبلِّغ لگتا ہے گھڑی دیکھنا بھول گیا تھا جبھی اتنی لمبی دعا کروائی، ہمارے تو ہاتھ تھک گئے آج پھر اعلانات کرنے والے اسلامی بھائی نے جلدی جان نہیں چھوڑی بھئی !سارے اُصول ہمارے لئے ہیں یہ جو چاہے کرے ہماری شہر مُشاوَرت کا نگران میری صلاحیتوں سے خوفزدہ ہے جبھی تومجھے اجتماع میں بیان کا کبھی موقع نہیں دیا اس کی نگرانِ پاک سے ترکیب ہے اس لئے بڑی رات کا بیان اسے ملا ،مجھے پوچھا تک نہیں جہاں کوئی نہیں جاتا وہاں بیان کے لئے مجھے بھیج دیتا ہے ہمیں کہتا ہے کہ اجتماع کی رات اعتکاف کیا کرو اور خود صلوٰۃ وسلام کے بعد گھر نکل جاتا ہے یہ خود پہلے داڑھی مُنڈا تھا،میری ہی اِنفرادی کوشِش سے مَدَنی ماحول میں آیا ،آج مجھے لفٹ ہی نہیں کرواتا فُلاں اسلامی بھائی نے کبھی عَلاقے میں مَدَنی کاموں میں کوئی تعاون نہیں کیا ویسے بڑا ذمّے دار بنتا ہے آج تو مَدَنی مرکز کا بڑا وفادار بنتا ہے جب لات پڑے گی پھر دیکھوں گا مُرشِد کا گستاخ ہے کل تک مَدَنی مرکز پر تنقید کرتا تھا ،آج ذمّے داری مل گئی تو مرکز مرکز کی گردان کرتا ہے سُنا ہے فُلاں کو ذِمّے دار ی سے ہٹا دیا گیا ہے اس نے ضَرور کوئی گڑبڑ کی ہو گی مَدَنی عطیّات میں ترکیب ''آؤٹ''کی ہوگی ۔

''غیبت کر کے بَرَکتوں سے محروم نہ ہوں ''کے چھبیس حُرُوف کی نسبت سےمَدَ نی قافلے کے متعلق کی جانے والی غیبت کی26 مثالیں

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے تحت سنّتوں کی تربیّت کے لئے سفر کرنے والے عاشقِانِ رسول کے مَدَنی قافِلوں میں نہ جانے کتنوں کی بگڑی بن جاتی ،نَماز نہ پڑھنے والے نَمازی اور طرح طرح کے جرائم پیشہ افراد سنّتوں کے عادی بن جاتے ہیں ۔ تاہم شیطان جو کہ مسجِد تو مسجِد عین کعبے میں بھی مسلمان کا پیچھا نہیں چھوڑتا!تو پھر مَدَنی قافِلوں کے مسافروں کو بھلا کیوں چھوڑے گا!!لہٰذابعض نادان اسلامی بھائی بھی شیطان کے ہتّھے چڑھ ہی جاتے اور غیبتوں میں پڑ ہی جاتے ہیں لہٰذا ایسوں کو خبردار کرنے کیلئے مُتَوَقِّع غیبت کی 26مثالیں پیش کی جاتی ہیں: ماشاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ امیرِقافِلہ فُلاں امیرِ قافلہ سے زیادہ ملنسار ہے اس کے تو اَخلاق ہی صحیح نہیں تھے اُس کے ساتھ جب سفر کیا تھا بِالکل مزا نہیں آیا تھاوہ اسلامی بھائی جَدوَل کی پابندی نہیں کرتا جب دیکھو سویا رہتا ہےوہ نیکی کی دعوت میں غائب ہو گیا تھا مگر کھانے کے وقت جلدی جلدی آ کر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا اب کی بار کے قافلے میں جس کو پکانے کی ذمّے داری ملی ہے اس کو پکانا کہاں آتا ہے ! پچھلی بار پکانے والا اِس کے مقابلے میں غنیمت تھاداعی نیکی کی دعوت میں گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ غلطیاں کر گیا تھاوہ دکاندار بڑا سخت دل ہے ہم نیکی کی دعوت دینے جاتے ہیں تو لفٹ ہی نہیں کرواتا اس مسجِد کے امام کا منہ ہم سے ''پھولا ''رہتا ہے اور خاربازی کی وجہ سے درس وبیان میں بھی نہیں بیٹھتاہاں یار! پچھلی بار تم نہیں تھے اِس امام نے تو مبلِّغ کو خوامخواہ جھاڑ دیا تھااِس مسجِدکا مُتَوَلّی بھی بس ایسا ہی ہے مَدَنی قافِلہ آتا ہے تو خوش نہیں ہوتا بتّیاں پنکھے چلائیں تو کُڑ کُڑ کرتا ہےدریاں رکھنے بچھانے اور دیگر مُعامَلات میں ٹوکتا رہتا ہے یہ تو فُلاں سے ہماری ترکیب اچھی ہے اور مُتَوَلّی اُس کے رعب میں ہے ورنہ ہمیں یہاں قافِلہ ٹھہرانے بھی نہ دیتافُلاں یوں تو ہر تیس دن میں تین دن مَدَنی قافِلے میں سفر کرتا ہے مگر باقی دنوں میں دعوتِ اسلامی کا کوئی کام نہیں کرتا بلکہ نَماز کے مُعامَلے میں بھی کمزور ہے دراصل اس کا سیٹھ دعوتِ اسلامی کا چاہنے والا ہے، وہ اِس کو مَدَنی قافِلے میں سفر کے اَخراجات بھی دیتا ہے اور تنخواہ بھی نہیں کاٹتا تو بھائی بس مالِ مفت دلِ بے رحم والامُعامَلہ ہے فُلاں نے بھی مَدَنی قافلے میں سفر کرنا تھامگرعین وَقت پر بہانہ کر کے جان چُھڑا لی فُلاں کو مسجد میں آنے کی دعوت دی تھی تو کیسے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر جھکا کر وعدہ کیا تھا مگر وعدہ خِلافی کرگیا اور نہیں آیا آج فُلاں مبلِّغ نے بیان بَہُت لمبا کردیا تھا اس عَلاقے کے فُلاں فُلاں آدَمی بَہُت خشک ہیں کتنی ہی دعوت دو مسجد کا رُخ نہیں کرتے ۔

مَدَنی ماحول سے روٹھے ہوئے کو منانے کے غیبتوں بھرے انداز کا فرضی خاکہ

جب کوئی اسلامی بھائی روٹھ جائے یا کسی وجہ سے مَدَنی ماحول سے دور ہو جائے تو اِس مُعامَلے میں بھلائی چاہنے والوں کو بھی شیطان نہیں چھوڑتا، وہ ہمدردی ہی ہمدردی میں غیبتوں کے کیچڑ میں سرتاپا لت پت ہو جاتے ہیں اور انہیں کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی!ایسے موقع پرمُتَوَقَّع غیبتوں بھری گفتگو کا فرضی خاکہ:(غیبتوں کوواوَین ڈال کر واضح کیا ہے )زید نے بکر سے پوچھا: آج کل ولید اجتماع میں نظر نہیں آ رہا خیریت تو ہے ؟ بکر نے جواب دیتے ہوئے کہا: آپ کو معلوم نہیں آس نے ہمارے نگرانِ پاک سے ''گُستاخانہ گفتگو''کی تھی اور''غصّے'' میں''چیختا ''تھا!زیداچھا اچھا یہ بات ہے جبھی میں نے پرسوں سلام کیا تو اُس نے ''جواب نہیں دیا''اُس کا ''منہ پھولا ہوا تھا''واقِعی بندہ ہے ''بڑا اَڑیل۔''مگر یار اس کو ضائِع نہیں کرنا چاہے ۔ بکر : میرے سے تو''سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا''پتا نہیں ''اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے!''زید: میں مانتا ہوں کہ ''بَہُت وائڑا(یعنی ٹیڑھا)ہے''''بات کرنے کی بھی تمیز نہیں''سمجھتا بھی ذرا دیر میں ہے''اِس کی ایک وجہ یہ بھی کہ ''ان پڑھ ''ہے ۔ کچھ بھی ہے اِس کو بچا لینا چاہے ورنہ نمازیں چھوڑدیگا داڑھی منڈوادیگا اور فلمیں ڈرامے دیکھنے لگے گا ۔ آؤ یار دونوں چلتے ہیں ، اِس کو سمجھاتے ہیں۔

افسوس ! ہمیں بات کرنی ہی نہیں آتی

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے!شیطان دین کا کام کرنے والوں سے کس طرح کھیلتا ہے !!!زید و بکر صاحِبان ہمدردی کی رو میں بہہ کر 13عددغیبتیں اور آخر میں تین بدگمانیاں کر کے گناہوں کا گٹھڑ گردن پرلاد کر ولید کو''مدنی ماحول''میں دوبارہ لانے کیلئے چلے!!!!یہ تو ہلکی سی جھلک پیش کرنے کی سعی کی ہے ورنہ یہ 13غیبتیں اور تین بدگمانیاں بَہُت کم ہیں اگر آج کل کی جانے والی صِرف پانچ مِنَٹ کی غیر محتاط گفتگو کاکوئی '' مَدَنی الٹراساؤنڈ ''کرنے والا ہو تو شاید اُس میں سے کتنی ہی مُنافَقتیں، غیبتیں ، تہمتیں،جھوٹے مبالَغے، دل آزارفِقرے ، بدگمانیاں ، عیب دریاں،ریاکاریاں ،اور نہ جانے کیا کیا ظاہر کر کے رکھ دے!افسوس!ہماری زندگی گزر گئی مگر بات کرنے کا ڈھنگ نہ آیا۔ کاش!صد کروڑ کاش!!!ہمیں حقیقی معنوں میں زَبان کا قفلِ مدینہ نصیب ہو جاتا!آہ!کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری عبادتیں اور ریاضتیں دھری کی دھری رہ جائیں اور زَبان کی کارستانیاں جہنَّم میں پہنچا دیں۔ اے اللہ تجھ سے تیری رحمت کاسُوال ہے!

بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل نام رحمن ہے ترا یارب!

عیب میرے نہ کھول محشر میں نام ستّار ہے ترا یارب

ناجائز گفتگو جہنَّم میں گرائے گی

حضرت سیِّدُنا مُعاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی :''اے اللہ کے نبی عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!ہم لوگ زبان سے جو باتیں کرتے ہیں اس پر ہماری گرفت ہو گی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''اے مُعاذ!تیری ماں تجھ پر روئے،لوگوں کو ان کے منہ کے بل آگ میں گرانے والی اسی زبان کی باتیں ہوں گی۔'' (سُنَنِ تِرمِذی ج۴ص۲۸۰ حدیث ۲۶۲۵) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :زبان سے کفر ،شرک، غیبت ،چغلی، بہتان سب کچھ ہوتے ہیں جو دوزخ میں ذلّت و خواری کے ساتھ پھینکے جانے کا ذریعہ ہیں۔(مراٰۃ ج اص۵۳)

مُعاف فضل و کرم سے ہو ہر خطا یارب ہو مغفِر ت پئے سلطانِ انبیا یا رب

بِلا حساب ہو جنت میں داخِلہ یا رب پڑوس خلد میں سرور کا ہوعطا یا رب

پہلے اجتماع میں آتا تھا اب نہیں آتا اسے سمجھانے کے مُتَعَلِّق مُتَوَقَّع 14 گناہوں بھرے جملے اورغیبتیں

کوئی اسلامی بھائی پہلے سنّتوں بھرے اجتماع میں آتا تھا مگر اب کم آتا ہے یا نہیں آتا اُس کی ہمدردی کرنے والوں کو بھی شیطان بسااوقات وہ گُل کِھلاتا ہے کہ اَلامان وَالْحفیظ! ایسے موقع پرمُتَوَقَّع گناہوں بھری گفتگو کافرضی خاکہ :(غیبتوں وغیرہ کوواوَیں ڈال کر واضح کردیا ہے)زید و بکر باہم کچھ یوں گفتگو کرتے ہیں، زید پوچھتا ہے: آج کل ولید اجتماع وغیرہ میں کم نظر آتا ہے کیا مسئلہ ہے ؟ بکر جواب دیتا ہے:''ذرا مال کھینچنے کے چکّر میں پڑ گیا ہے۔ ''منگنی کی بھی ترکیب بن رہی ہے مجھ سے ''ڈرتے ڈرتے ''کہہ رہا تھاکہ گھر والے داڑھی کٹوانے کا کہہ رہے ہیں ''کیوں کہ لڑکی والوں کا ''داڑھی صاف کروانے''اور''میوزیکل فنکشن رکھوانے کا مُطالَبہ ہے،'' یار!''میرا بھی وہیں شادی کرنے کادل ہے ہو سکتا ہے ان کے مُطالَبے پورے کرنے پڑجائیں!''زید:ہاں یار! میرا بھی یہی خیال تھا کہ''ولید تھوڑا پیسوں کا لالچی ہو گیا ہے''یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ''کسی لڑکی کے چکر میں پڑ گیا ہے''آپ کی باتوں سے بھی تصدیق ہو رہی ہے ۔اور ہاں''یہ بھی سنا تھا کہ چُھپ چُھپ کر گھر میں T.V.پر فلمیں بھی دیکھنے لگا ہے ۔زید نے مزید بیان جاری رکھتے ہوئے کہا:ایک اسلامی بھائی بتا رہے تھے کہ ولید نے اُس دن ہیڈ فون لگایا ہوا تھا میں نے پوچھا تو ''جھوٹ موٹ کہدیا کہ نعتیں سن رہا ہوں''مگر میں نے ترکیب سے اُس کاہیڈ فون کھینچ کر اپنے کانوں پر لگالیا !خدا کی پناہ!توبہ!توبہ!''بَہُت گندا گانا بج رہا تھا!''ولید میری اِس حرکت پر سخت ناراض ہواا ور ''اُس کے منہ سے گالیاں نکل گئیں'' خیر میں نے اُس کو ٹھنڈا کر لیا۔ زید: یار ! بات تو تشویش ناک ہے۔ مگر بندہ کام کا ہے، اس کا مَدَنی ماحول میں رہنا ہمارے لئے مفید ہے، آؤ دونوں چل کر اس کو سمجھاتے ہیں، اُس کو بولیں گے ، بھائی !بھلے داڑھی منڈوادو، شادی کے بعد رکھ لیناشادی میں میوزیکل'' فنکشن بھیO.K.کر دو گھر والوں کے جائز ناجائز سب مُطالبے پورے کر لو مگر مَدَنی ماحول مت چھوڑنا کیوں کہ ہم کو پتا ہے کہ مدنی ماحول سے جو الگ ہو جاتا ہے وہ بَہُت گناہوں میں پڑ جاتا ہے! آؤ چلتے ہیں اور سمجھاتے ہیں یہ کہہ کر غیبتوں،بدگمانیوں، عیب دریوں اورخِیانتوں کے گناہوں کے ٹوکرے سر پر رکھ کر داڑھی مُنڈوانے ، میوزیکل فنکشن کرنے اور گھر والوں کے ناجائز مطالَبات مان لینے کے مشورے دینے کی بُری بُری نیّتوں کے ساتھ دونوں اسلامی بھائی ولید کو سمجھانے کی نیکی کمانے کیلئے روانہ ہوتے ہیں ۔ (غیبت کی تباہ کاریاں ص۴۱۸ تا ۴۲۷)

(09): ’’ غیبت کے بارے میں سوال جواب ‘‘

غیبت کے بارے میں سوال جواب اور دیگر اہم معلومات دُرُود شریف کی فضیلت

اللہ کے مَحبوب ، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے:تمہارے دِنوں میں سب سے افضل دن جُمُعہ ہے، اسی دن حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللہ پیدا ہوئے ، اِسی میں ان کی روحِ مبارکہ قبض کی گئی ، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن ہلاکت طاری ہوگی لہٰذا اس دن مجھ پر دُرُودِ پاک کی کثر ت کیاکرو کیونکہ تمہارادُرُود پا ک مجھ تک پہنچا یا جا تا ہے ۔صحا بہ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوان نے عر ض کی:یا رسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !آپ کے وِصال کے بعد دُرُودپاک آپ تک کیسے پہنچا یا جائے گا؟ارشا د فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انبیائے کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے اجسام کو کھا نا زمین پر حرام فرمایاہے ۔ (سُنَنِ ابوداو،دج۱ص۳۹۱حدیث ۱۰۴۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

سُوال: غیبت کیا ہے ؟

جواب:کسی کے بارے میں اُس کی غیر موجودَگی میں ایسی بات کہنا کہ اگر وہ سُن لے یا اُس کو پہنچ جائے تو اُسے ناگوار معلوم ہو۔

سُوال: اگر وہ بات اُس میں موجود ہو تو؟

جواب: جبھی تو غیبت ہے اگر موجود نہ ہو پھر بھی ایسی بات اُس کی طرف منسوب کر دی تب تو یہ غیبت سے بھی بڑا گناہ ہو گیا جس کو بہتان (الزام۔تہمت)کہتے ہیں۔

سُوال: چغلی کسے کہتے ہیں؟

جواب:لوگوں میں فساد کروانے کے لئے اُن کی باتیں ایک دوسرے تک پہنچانا چغلی ہے ۔ (شرح مُسلِم لِلنّووی ج۲ ص۱۱۲) شارح بخاری حضرت علامہ بدرالدین عینی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں کہ جمہور اسی تعریف کے قائل ہیں۔ (عُمدۃُ القاری ج۱۵ص۲۰۹)

سُوال: کسی پر ''عیب کھولنا ''کب کہلائے گا؟

جواب: کسی کا عیب ایسے شخص کو بتانا جس کو پہلے سے معلوم نہ ہو ۔

سُوال: جو پہلے ہی سے آگاہ ہو اُس کے آگے اُسی عیب کا تذکِرہ کرنے میں کوئی حَرَج تو نہیں؟

جواب: کیوں حَرَج نہیں!بلا اجازت شرعی تذکِرہ کیا گیا تویہ بھی غیبت میں شمار ہو گا ! یہ تھوڑے ہی ہے کہ جس کی ایک بار کسی مُعامَلے میں غیبت کر لی بس اب زندگی بھر چھٹّی ہو گئی اور آئندہ کیلئے اُس بات میں اس کی غیبت کرنا جائز ہو گیا!

سُوال: دو افراد نے آپس میں کسی کی غیبت کی اب اُس خامی کا آپس میں آئندہ دوبارہ تذکِرہ کریں تو کیا وہ بھی غیبت ہے؟

جواب: کیوں نہیں !اگر ایک ہی بُرائی کا دونوں آپس میں ہزار بار تذکِرہ کریں گے تو یہ ایک ہزار غیبتیں ہوں گی۔

غیبت کے جائز ناجائز ہونے کا کیسے پتا چلے؟

سُوال: غیبت سے بچنا سن نے کے مقابلے میں آسان لگتا ہے۔کیوں کہ غیبت کی جائز صورَتیں بھی ہیں، پتا کیسے چلے کہ سامنے والا جائز غیبت کر رہا ہے یا ناجائز ؟

جواب: اکثریت کا حال یہ ہے کہ صِرف بولنے کی خاطر بولتی ہے اور اَغلب یعنی غالِب ترین مُعاملات ایسے ہیں کہ جن میں سامنے والا محض بُرائی بیان کرنے کیلئے ہی غیبت کر رہا ہوتا ہے۔ پھر بھی جب تک یقینی کیفیت نہ ہو اُس وقت تک فیصلہ نہ سنا دیا جائے، اگر کبھی دورانِ گفتگو غیبت کی ابتِدا ہو اور آپ کی بات سنی جاتی ہو تو مُتَکَلِّم(یعنی بولنے والے)سے نرمی کے ساتھ پوچھ لیجئے کہ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جو بات آپ کرنے لگے ہیں وہ غیبت کی طر ف جا رہی ہے اگر آپ کے نزدیک اس غیبت کرنے کا کوئی صحیح مقصد ہے تو بتا دیجئے!اس سوال کے بعد اِنْ شَاءاللہ عَزَّوَجَلَّ بات واضِح ہو جائے گی۔

کیا غیبت سنتے ہی سامنے والے کو گنہگار سمجھ لیا جائے

سُوال: کیا کسی کو غیبت کرتا دیکھ کرفوراً اُس کو گنہگار سمجھ لیا جائے کہ بس اب تو یہ فاسِق ہو گیا ۔

جواب: چونکہ غیبت کے جواز کی بھی صورَتیں موجود ہیں لہٰذا جب تک غیبت کی واضِح صورت مُتَعَیَّن نہ ہو جائے اُس وقت تک مُتَکَلِّم (یعنی کلام کرنے والے )کوگنہگار نہیں ٹھہرا سکتے۔ جس کی بات سنی جاتی ہو وہ ایسے موقع پر اَحسن انداز میں اُسی سے اُس کی جانے والی غیبت کا سبب دریافت کر لے، اِنْ شَاءاللہ عَزَّوَجَلَّ بات واضِح ہو جائے گی ، اگر جائز ناجائز کی صورت طے نہ ہو پا رہی ہو تو یوں کہہ دیا جائے کہ چُونکہ آپ کی بات کے اندر گناہ بھری غیبت میں جا پڑنے کا خدشہ ہے لہٰذا اِس سے احتیاطاً توبہ کر لیتے ہیں اور پھر توبہ کر لیجئے ،بات بدل دیجئے۔

جائز سمجھ کر سن لے پھر پتا چلے کہ یہ ناجائز غیبت تھی تو۔۔۔؟

سوال: کسی نے غیبت شُروع کی اور سن نے والا سمجھا کہ یہ جائز صورت ہے لہٰذا وہ توجُّہ سے سنتا رہا مگربعد کو پتا چلا کہ وہ تو یوں ہی ''بھڑاس ''نکال رہا تھا، یعنی وہ گناہ بھری غیبت تھی کیا سن نے والا بھی گنہگار ہوگیا؟

جواب: اگر قرائن و سِیاقِ گفتگو یعنی بات چیت کے انداز وغیرہ سے ''جائز غیبت ''ہونا سمجھ میں آ رہا تھا اِ س لئے سُن لی تھی تب تو سن نے والا گنہگار نہیں اور اگر قرائن سے گناہ بھری غیبت ہونا ظاہر تھا مگر سنتا رہا تو گنہگار ہے، اور اگر جائز ناجائز کا فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا تب بھی سننا مُمنوع کہ آج کل بات چیت میں کی جانے والی غیبتوں کا راجح یعنی غالب پہلو گناہوں بھرا ہی ہوتا ہے ۔تو یا تو یہ صورت بنے گی کہ کچھ غیبتیں جائز والی ہوں گی اور کچھ ناجائز والی تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ گنہگار بہر حال ہوجائیں گے اور یا ''شک''کی صورت بنے گی یعنی یا جائز ہے یا ناجائز ہے یوں دونوں طرف برابر برابرذِہن جا رہا ہو گا ،بَہَر حال جہاں جائز وناجائز کا فیصلہ نہ ہو پا رہا ہو وہاں بھی غیبت سننا ممنوع ہی رہے گاکہ یہاں کم سے کم دَرَجہ مُشتَبِہات(مُش۔تَبِ۔ہات یعنی مشکوک چیزوں) کا بنتاہے اور حدیثِ پاک میں اس سے بھی بچنے کا حکم فرمایا گیا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو مُشتَبِہات(یعنی شبہے والی چیزوں)سے بچالیا اس نے اپنی عزّت اور دین کو بچالیا۔

عوام جائز وناجائزغیبت میں کیسے تمیزکریں؟

سُوال: اکثر عوام کے پاس اتنا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ''جائز وناجائز''غیبت میں تمیز کر سکیں، ایسے میں کیا کیا جائے؟

جواب: آسان اور محتاط طریقہ سمجھانے کی میں نے کوشش کی ہے اور میں یہی کرسکتا ہوں ،غیبت کے سارے اَحکام گھول کر پِلا نہیں سکتا،دنیا کا ہر فن سیکھنے سے آتا ہے لوگ جب کوشش کرتے ہیں تو مشکل سے مشکل فن بھی سیکھ ہی لیتے ہیں اور ان کو سیکھنے کیلئے ملک بہ ملک کا سفر بھی کرنا پڑے تو کرتے ہیں تو وہ غیبت جس کے ضَروری

احکام سیکھنا فرض ہے اس کے لئے بھی خوب کوشش کرنی ہوگی، اگر فیضانِ سنّت جلد2 کاباب'' غیبت کی تباہ کاریاں''بار بار غور سے پڑھیں گے تو اِنْ شَاءاللہ عَزَّوَجَلَّ کافی حد تک اِس''فرض علم ''کو بھی حاصل کر لیں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے چاہا تو پھر''جائز وناجائز ''غیبت میں تمیز کرنا بھی آجائیگا۔

گھر میں غیبت سے کس طرح بچے؟

سُوال: آ ج کل گھروں کا ماحول کون نہیں جانتا ،بَہُت کم گھر ایسے ہونگے جہاں غیبتیں نہ ہوتی ہوں اور ہر اسلامی بھائی کی بات کا اپنے گھر میں اتنا وزن بھی نہیں ہوتا کہ وہ گھر والوں کو غیبتوں سے روک سکے، ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

جواب: واقِعی حالات ناگُفتہ بِہ ہیں، بِالفرض دوسروں کو بچانا ممکن نہیں تب بھی خود کو تو بچا نے کی ترکیب کی جاسکتی ہے، گھر میں غیبتیں ہو رہی ہیں اِس لئے مجبوری سمجھ کر دلچسپی کے ساتھ خود بھی شریک ہو گیا تو گنہگار ہو گا۔ لہٰذا جو روکنے پر قادِر ہو اُس کے لئے ضَروری ہے کہ روکے اور جو قدرت نہیں رکھتا ،وہ ایسے موقع پر وہاں سے ہٹ جائے ، اگر کبھی ایسا پھنس گیا کہ ہٹ بھی نہیں سکتا تو بات بدلنے کی کوشش کرے، اِس کی بھی ترکیب ممکن نہیں اور بھی کوئی صورت خَلاصی کی نظر نہیں آتی تو دل میں بُرا جانے اور غیبتوں کی طرف سے توجُّہ ہٹانے کی بھر پور کوشش کرے۔ گھر میں مَدَنی ماحول بنانے کیلئےفیضانِ سنّت جلد2 کے باب''غیبت کی تباہ کاریاں ''کے درس کا سلسلہ اِنْ شَاءاللہ عَزَّوَجَلَّ بے حد مفید رہے گا۔ جب گھر والے غیبت کی تباہ کاریوں سے باخبر ہوں گے تو اِنْ شَاءاللہ عَزَّوَجَلَّ بچنے کا ذِہن بنے گا اور اس طرح ایک نہیں ہزار فتنوں سے اِنْ شَاءاللہ عَزَّوَجَلَّ محفوظ ہو کر گھر اَمن کا گہوارہ بن جائیگا۔

دعوتِ اسلامی کو جاہِلوں کا ٹولہ کہنا کیسا؟

سُوال: ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ دعوت اسلامی میں مت جاؤ یہ جاہِلوں کا ٹولہ ہے!اس شخص نے یہ کہہ کر غیبت کی یا نہیں؟

جواب: غیبت مُتَعَیَّن ومعلوم شخص یا اشخاص میں موجود عیب یا برائی کو پیٹھ پیچھے بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ لہٰذا مذکورہ جملہ غیبت نہیں کہلائے گا کیونکہ اس میں مُعَیَّن فرد یا افراد کا تذکرہ نہیں ہے ۔ہاں اگر قائل کی نیّت دعوت اسلامی کے ہر فرد کو جاہل کہنے کی ہے تو البتّہ غیبت ہوئی اورایک فرد کی نہیں ان تمام مسلمانوں کی ہوئی جو جاہل ہیں اور اس میں شامل ہیں۔چونکہ ہر ہر فرد کو جاہل کہا گیا ہے اور فی الحقیقت دعوتِ اسلامی جاہلوں کا ٹولہ نہیں ہے کہ اس میں ہزاروں علماء کرام کَثَّرَھُمُ اللہُ تَعَالٰی (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسوں کی کثرت فرمائے۔اٰمین)بھی شامل ہیں تو اگر اُس نے یہ جانتے ہوئے بھی ہر ہر فرد کو جاہل کہنے کی نیّت سے دعوت اسلامی کو جاہِلوں کا ٹولہ کہا ہے تو ان عُلَماءِ کرام کی توہین بھی ہوئی اور ان پر جَہالت کی تُہمت بھی ۔شخصِ مذکور کا یہ کہنا کہ دعوتِ اسلامی میں مت جاؤ اگر بلا کسی مصلحتِ شرعی ہے تویہ نیکی سے روکنا ہے اورروکنے والا اس حُکمِ قرانی: مَّنَّاعٍ لِّلْخَیۡرِ مُعْتَدٍ اَثِیۡـمٍ ﴿ۙ۱۲﴾ (پ ۲۹ القَلَم:۱۲)

(ترجَمہَ کنز الایمان:بھلائی سے بڑا روکنے والا حد سے بڑھنے والا گنہگار )میں داخل ہے۔

بہت سارے مسلمانوں کی اکٹھی ایذاء

سُوال: دعوتِ اسلامی کو جاہلوں کا ٹولہ کہنے والے کی نیّت اگر معلوم نہ ہو کہ آیا اُس نے ایک ایک فرد کو جاہل کہا ہے یا کیا ، اور اگر اُس پر غیبت کا حکم نہیں لگے گا تو کیا اِس طرح کا جُملہ کہنا جائز ہے؟

جواب: غیبت کی ایک مخصوص تعریف ہے لہٰذا جو کلمہ یا اشارہ وغیرہ اُس تعریف کے تحت داخل ہو وُہی غیبت ہے مگرجوبات غیبت نہیں ہے اِس کا بے غُبار ہونا ضَروری بھی نہیں۔ مذکورہ جُملے میں ایذائے مسلم کا پہلو نُمایاں ہے مگر اس کی بعض صورَتیں ہیں مَثَلاً (۱)اگر دعوتِ اسلامی کے دو مخالِفین یا دعوتِ اسلامی سے غیر مُتَعَلِّقہ دو افراد آپس میں بیٹھے یہ جملہ کہتے ہیں تو یہاں ایذاء رسانی کا گناہ نہیں ہو گا لیکن اس میں باعمل مسلمانوں کے ایک بَہُت بڑے طبقے کے بارے میں جھوٹ یا تُہمت یا تحقیر و اِستہزاء (یعنی ان کو حقیر سمجھنے اور اُن کا مذاق اُڑانے) کا پہلو بھی موجود ہے اور یہ سب اُمُور حرام او رجہنَّم میں لیجانے والے کام ہیں لہٰذا یہ جُملہ یا اس سے مِلتے جُلتے جملے کہنے والے اور سن کر تائید کرنے والے اپنی آخِرت کی ضَرورضَرورضَرور فکر کریں(۲)کوئی دعوتِ اسلامی والا یا دعوتِ اسلامی کامُحِبّ(یعنی اہلِ محبت)موجود ہے اور اس کے سامنے کہا کہ دعوتِ اسلامی جاہلوں کا ٹولہ ہے تو یہ اُس دعوتِ اسلامی والے یا اہلِ محبت کی دل آزاری ہے اور (۳)اگر دس اسلامی بھائی یا سو اسلامی بھائی بیٹھے ہوئے تھے اور ان سے یہ جملہ کہا اور سب کو اطِّلاع ہوئی تو سب کی اِیذاء رسانی اور دل آزاری کا گناہ ہوا اوربے شک مسلمان کی تَحقیر(یعنی اُس کو حقیر جاننا)یا اُس کا مذاق اُڑانا اور دل دُکھانا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔بَحروبَر کے بادشاہ ، دو عا لم کے شَہَنْشاہ ، صاحِبِ مَجدو جاہ، اُمّت کے خیر خواہ، آمِنہ کے مہر و ماہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم و رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ عبرت نشان ہے: مَنْ اٰذَی مُسْلِمًا فَقَدْاٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْاٰذَی اللہ۔ یعنی جس نے (بِلاوجہ ِشَرعی )کسی مسلمان کو اِیذاء دی اُس نے مجھے اِیذاء دی اور جس نے مجھے اِیذاء دی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو اِیذاء دی ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج ۲ص ۳۸۶ حدیث ۳۶۰۷ )

اجتماعی دل آزاریوں کے 12جملوں کی مثالیں

بیان کردہ صورَتوں کی روشنی میں ایک یا بہت سارے مسلمانوں کیلئے ایذاء کا باعث بن سکنے والے جُملوں کی 12مثالیں مُلاحَظہ ہوں:پولیس والے رِشوت خور ہوتے ہیںپولیس والے اپنے باپ کو بھی نہیں بخشتےفُلاں قبیلے والوں کا پیشہ ہی چوریاں کرنا ہےفُلاں ذات کے لوگ سود خور ہوتے ہیں فُلاں خاندان کے افراد نیچ (یعنی کمینے) ہوتے ہیںفُلاں برادری والے بزدِل ہوتے ہیں مَدنی چینل بس ایسا ہی ہےفُلاں مدرَسے یا فُلاں ادارے کے مدارِس کا مِعیارِ تعلیم صحیح نہیںفُلاں قبیلے کے لوگ جھگڑالوہوتے ہیںانکم ٹیکس آفیسرز رشوت کے بِغیر قابو نہیں آتےفُلاں قوم والوں سے تعلُّقات مت بڑھانا یہ فراڈی ہوتے ہیں مارواڑ(ہند)کے باشندے کنجوس ہوتے ہیں جبھی تو یہ محاورہ بنا:''فلاں کنجوس مارواڑی ہے''

سُوال کرنے والے کے بھولنے پر ہنسنا

سُوال: مَدَنی مذاکَرے یا مدرَسے کے دَرَجے میں ایک اسلامی بھائی سُوال پوچھنے کیلئے کھڑے ہوئے مگر گھبرا گئے اور سُوال کا کچھ حصّہ بھول گئے اس پر بعضوں کو ہنسی آنے لگی مگر انہوں نے ایک دم خود پر قابو پا لیا، بعض بے اختیار ہنس پڑے، بعض ہنس ہنس کر لطف اندوز ہو رہے تھے، اور سائل کے پیچھے بیٹھنے والوں میں سے ایک نے مسکرا کر دوسرے کی طرف دیکھا اور سائل کی طرف کچھ اس طرح آنکھوں سے اشارہ کیا کہ دیکھو تو کیسا پریشان ہو رہا ہے !اِس پر دوسرے نے بھی مسکرا کر اسی طرح کا اشارہ کیا۔ان سب کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: جنہوں نے ہنسی روکی وہ بَہُت اچھے رہے، جو بے اختیار ہنس پڑے وہ بھی بے قُصورہیں، قصداً ہنسنے اور لطف اندوز ہونے والے جان بوجھ کر سائل کی دل آزاری کا باعِث بنے اور پیچھے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں طنزیہ اشارے کرنے والوں نے غیبت کا ارتِکاب کیا۔ جان بوجھ کر دل آزاری کا باعِث بن نے والے توبہ کے ساتھ ساتھ سائل سے مُعاف بھی کروائیں ، غیبت کرنے والے توبہ کریں اور اگر توبہ سے پہلے ہی سائل کو پتا چل گیا ہو تو اُس سے مُعاف بھی کروائیں۔

اس کتاب کے بارے میں وَسوسہ

سُوال: بکثرت لوگ گناہوں ا وربُرائیوں سے اس خوف کی وجہ سے بچ جاتے ہیں کہ دیکھنے والا کیا کہے گا یا یہ کسی اور کو جاکر بتادے گا ،یا لوگوں میں یہ بات پھیل جائے گی تومیری بے عزَّتی ہو گی۔فیضانِ سنَّت جلد 2کاباب ''غیبت کی تباہ کاریاں''عام ہو جانے میں کہیں ایسا نہ ہو کہ چُھپ کر گناہ کرنے والوں کادل کُھل جائے کہ میرے گناہ پر مُطَّلع ہونے والااب تو کسی سے جاکر میری غیبت کریگا ہی نہیں اور یوں وہ اُس گناہ کو مستِقلاً اِختِیار نہ کر لیں یا اپنی اصلاح کی کوشِش میں سُستی نہ کریں یا سِرے سے کوشِش ہی تَرک نہ کردیں ، کیا اِس طرح گناہوں میں دلیری بڑھ نہیں جائے گی ؟مَثَلاً اگر کوئی اپنی زوجہ کوبِغیر اجازتِ شرعی مارنے پیٹنے کا عادی ہو اور وہ اسلامی بہن غیبت کے ڈر سے کسی سے تذکِر ہ نہ کرے تو کیا یہ شوہر ''ظالِم ''سے''اَظلَم''(یعنی بَہُت زیادہ ظُلم کرنے والا)نہیں بن جائے گا؟یا کوئی اسلامی بھائی جماعت واجِب ہونے کے باوُجُود گھر میں نَماز پڑھ لیتا ہو اور اُسے یہ پتا ہو کہ میرا بھائی کسی اور کے سامنے میرا عیب نہیں کھولے گا تو کیا وہ گھر پرنَماز پڑھنے ہی کو اپنی عادتِ ثانیہ نہیں بنا لے گا؟

جواب: اوّل تو یہ بات ذِہن میں رکھئے کہ''غیبت کی مذَمّت ''دعوتِ اسلامی والوں کی ایجاد نہیں، اِس کی تو پچھلی شریعتوں میں بھی مُمانَعَت تھی نیز قراٰنِ کریم و احادیثِ مبارَکہ میں بھی اِس کی مخالَفَت بَشدّت موجود ہے، غیبت کے ضَروری احکام جاننا ہر عاقِل بالِغ مسلمان پر فرضِ عین ہے ،جو نہیں جانتا وہ گنہگار اورنارِ دوزخ کا حقدار ہے۔ غیبت کے مسائل میں کافی تفصیل ہے ۔ مُطلَقاً یعنی کسی بھی صورت میں کسی کا عیب کھول ہی نہیں سکتے ایسا نہیں ، غیبت کی جائز صُورَتیں بھی موجود ہیں جن کا پیچھے بیان گز ر چکا ۔کہیں عیب اورعیبی کی نوعیت کا اعتبار ہے تو کہیں عیب کھولنے والے کی نیّت پر حکمِ شرعی کا انحصار ہے۔ اب مَثَلاً شوہر واقِعی ظُلْم کرتا ہے اور بیوی اِس سے نَجات پانے کی نیَّت سے صِرف ایسے فرد سے اُس ظُلم کا تذکِرہ کرتی ہے جو اُسے ظُلْم سے چُھڑا سکتا ہے تو یہ''جائز غیبت''ہے۔ اِسی طرح بلا عُذربِغیر جماعت نَماز پڑھنے والے کا بھائی اگر اُسے سمجھانے پر قادِر نہیں اور کسی قدرت رکھنے والے سے اس نیّت سے ذِکر کرتا ہے کہ وہ اِس کو سمجھائے یا اِس نیّت سے کسی پر اظہار کرتا ہے تا کہ بھائی شرمندہ ہو کر ترکِ جماعت کے گناہ سے باز آ جائے تو یہ بھی''جائز غیبت ''بلکہ ثواب کا حقدار بنانے والی غیبت ہے۔

بدگُمانی مت کیجئے

باقی رہی یہ بات کہ غیبت نہ کرنے والے کی وجہ سے بعض لوگ گناہوں پر دلیر ہو جائینگے تویہ شیطانی وسوسہ ہی ہے اور اِس کی وجہ سے شرعی اَحکام سے مسلمانوں کو جاہِل نہیں رکھا جا سکتا بلکہ مُعَیَّن مسلمانوں کے بارے میں قَرائنِ واضِحہ (یعنی صاف صاف علامات)نہ ہونے کے باوُجُود اگر یہ ذِہن بنا لیا کہ فُلاں فُلاں اب گناہوں پر دِلیر ہو جائے گا تو یہ بد گُمانی ہے جو کہ حرام ہے۔

فتاوٰی رضویہ میں ایک وسواسی کی گوشمالی

میرے آقا اعلٰیحضرت،اِمامِ اَہلسنّت، ولئ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظیم المَرْتَبت،پروانہِ شمعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامِئ سنّت ، ماحِئ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعت ، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علامہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن کی بارگاہِ عالی شان میں ایک ایسے شخص کے بارے میں سُوال ہو اجو کہ کہتا تھا کہ میں توآج کل کی دعوتوں میں نہیں جاتا کیونکہ اکثر دعوتیں دِکھاوے اور ریاکاری کی ہوتی ہیں اورلوگ رزق یعنی کھانے کی بھی کافی بے حُرمتی کرتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اِس سُوال کاجو کچھ جواب ارشاد فرمایا اُس کا لُبِّ لُباب ہے: قَبولِ دعوت سنَّت ہے۔ کسی مُعَیَّن یعنی مخصوص مسلمان کیلئے بِغیر قرائنِ واضِحہ کے (یعنی صاف صاف علامتوں کے بِغیر)یہ سمجھ لینا کہ اِس نے ناموری اور رِیا کیلئے یہ دعوت کی ہے ایسی بد گمانی حرامِ قَطْعی ہے۔ اگر کہیں حُبُوبِ طعام(یعنی کھانے کے دانوں اور غذا کے اجزاء)کی بے ادَبی ہوتی بھی ہے تو اِس شخص کو چاہے کہ بے ادَبی کرنے والوں کو سمجھائے اگر وہ لوگ نہ مانیں توو بال اُنہیں لوگوں پر ہے ۔ حضرتِ سیِّدُنا امام ابو القاسِم صَفار علیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں:''میں اج کل دعوت میں جانے کی کوئی نیّت نہیں کر پاتا سوائے اس کے کہ نمک دانی روٹی پر سے اٹھا ؤں گا۔''اعلیٰ حضرت ''فتاویٰ ہندیہ''کے حوالے سے مزید فرماتے ہیں:روٹی اور چَپاتی پر پیالوں کا رکھنا دُرُست(یعنی مناسب)نہیں الخ مزید فرماتے ہیں:اگر یہ شخص نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر یعنی بُرائی سے منع کرنے کی نیّت سے جائے گا تو ثواب پائے گا ۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے فتاوٰی رضویہ ج۲۱ ص ۶۷۲تا ۶۷۴)

دعوت میں جانے کیلئے اچھّی اچھّی نیّتیں کر لینی چاہیں

روٹی پر سے نمک دانی اٹھا نے کی نیّت سے جانے والے بُزُرگ کے عمل سے یہ سیکھنے کو ملا کہ دعوت میں جانے کیلئے اِس طرح کی اچّھی اچّھی نیّتیں کی جا سکتی ہیں کہ وہاں اگر کسی کو کھانا ضائع کرتا یا کوئی کام خلافِ سنَّت کرتا پاؤں گا تو نیکی کی دعوت دینے کا ثواب کماؤں گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ روٹی پر نمک دانی، چاٹ مَصالَحے کی شیشی ، سالن یا رائتے کا پیالہ یا اچارچٹنی کی پیالی رکھنی مناسب نہیں ۔ دعوت میں جانے نہ جانے کی بعض صورَتیں بھی ہیں مَثَلاً معلوم ہے کہ وہاں گانے باجے ہوں گے اور اس کے جانے سے نہ یہ بند ہوں گے نہ ہی یہ ان کو روک سکتا ہے تو اب دعوت میں جانے کی شریعت میں اجازت نہیں۔ (تفصیلات جان نے کیلئے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ''بہارِ شریعت''حصّہ 16 صَفْحَہ31تا38پر ''ولیمہ اور ضیافت کا بیان''پڑھ لیجئے یا کم از کم صَفحہ 35سے مسئلہ نمبر ۱ ۔ ۲ ۔ ۳ مُلاحَظہ فرما لیجئے) (غیبت کی تباہ کاریاں ص۴۳۸ تا ۴۴۸)

(10): ’’ ریکاری کی 80مثالیں ‘‘

(جو مثالیں پیش کی جارہی ہیں وہ اگر چِہ رِیاکاری ہی کی ہیں تا ہم کئی جگہ نیّت کے فرق سے اَحکام میں تبدیلی ہو سکتی ہے)

نَماز کے مُتَعلّق رِیاکاری کی11مثالیں

نَماز کے مُتَعلّق رِیاکاری کی11مثالیں

(1)کسی شخص کا اس لئے پابندی سے نماز پڑھنا کہ لوگ اس کو پکّا نمازی کہیں۔

(2)کسی حافظ کا تراویح میں اِس لئے’’ مُصلّٰی سنانا ‘‘ یعنی قراٰنِ کریم پڑھناکہ پیسے ملیں گے۔

(3)اپنی شادی والے دن یا گھر میں میِّت کے موقع پرسنّتوں بھرے اجتِماع میں حاضِری دینایاباجماعت نَماز کی پابندی کرنایا صدائے مدینہ لگانا(یعنی مسلمانوں کو نَمازِ فجر کیلئے جگانے کیلئے گھر سے نکلنا)تاکہ لوگ اَش اَش کریں کہ واہ بھئی! ایسے موقع پربھی اِس نے ان نیک کاموں کی چُھٹی نہیں کی !(خواہ اس کے علاوہ بلا تکلُّف ناغے ہوتے ہوں!)

(4)لوگوں کو مُتأَثِّرکرنے کیلئے اُن کے سامنے اطمینان اور خُشُوع وخُضُوع کے ساتھ نَماز پڑھنا۔

(5)اگر بڑی رات کے اجتِماعِ ذِکرو نعت میں شب بیداری کرنے یا کسی رات تہجُّد پڑھنے کا موقع ملے تو دن میں لوگوں کے سامنے اِس لئے آنکھیں مَلنا یا انگڑائیاں وغیرہ لینا کہ سب کو پتا چل جائے کہ یہ رات سویا نہیں بلکہ نیکیوں کیلئے جاگتا رہا ہے۔

(6)دوسروں کی موجودَگی میں اس لئے اِشراق و چاشت اوراوَّابین و تہجُّد ادا کرناتا کہ لوگ نفلیں پڑھنے والا تسلیم کریں۔

(7)کسی کیلئے لوگوں کا حسنِ ظن ہو کہ یہ تہجُّد گزار اورنفل روزوں کا عادی ہے۔جبکہ حقیقتًا ایسا نہ ہو مگراسکے سامنے کوئی ان خصوصیّات کے ساتھ تعارف کروائے تو یہ اِس نیّت کے ساتھ مسکرا کر سر جھکالے کہ ان پر میری نیکو کار ی کا تَأَثُّر(تَ۔اَث۔ثُر)قائم رہے۔

۔(8)تہجُّد میں اٹھنے کی سعادت ملنے پر اس لئے زور زور سے کھانسنا یا ایسے معاملات کرنا کہ زوجہ یا گھر کے دیگر افراد جاگ جائیں اور دیکھ کرمُتأَثِّر(مُ۔تَ۔اَث۔ثِر)ہوں کہ اَوہو! یہ تہجُّد کے لئے اٹھا ہے!

(9)نَماز کے بعد مسجِد میں اس لئے دیر تک ٹھہرا رہنا کہ لوگ نیک آدمی قراردیں۔

(10)نَما ز میں پہلی صَف کا اِس لئے اہتمام کرنا کہ لوگ مُتأَثِّر ہوں،تعریف کریں۔

(11)اپنی پہلی صَف یا جماعت رہ جانے پر لوگوں کے سامنے اظہارِ افسوس کرنا تا کہ لوگ مُتأَثِّر ہوں اور اِس کو پہلی صف اور جماعت کا حریص سمجھیں۔

مُبَلِّغین کے لئے رِیاکاری کی 18مثالیں

مُبَلِّغین کے لئے رِیاکاری کی 18مثالیں

(1)اِجتماع وغیرہ میں اس لئے بیان کرنا کہ لوگ اِس کے بیان کی تعریف کریں اور اچّھا مبلِّغ کہیں۔

(2)مبلِّغ کا بیان کے دَوران دل پر چوٹ کرنے والے جُملے گرجدار آواز میں بولنا یا پُر جوش انداز میں اشعار پڑھنا تا کہ سامِعین تعریفی انداز میں نعرہ لگائیں،بلند آواز سے سبحٰن اللہ کہیں،واہ واہ! مرحبا! کہکر داد دیں،بیان کی تعریف کریں،شُعلہ بیان مبلِّغ کہیں۔

(3)بیان میں اِس لئے عمدہ جُملے،دقیق الفاظ،عَرَبی و انگریزی مَقولے وغیرہ شامِل کرنا کہ لوگ پڑھا لکھا سمجھیں اور اِس سے مُتأَثِّر ہوں۔

(4)سُننے والے اُسے راہِ خداعزوجل میں قربانیاں دینے والا تصوُّر کریں اس لئے بیان کے آغاز میں مبلِّغ کا مَثَلًااِس طرح کے کلمات کہنا:میں 6 دن سے مسلسل سفر پر ہوں،اس وقت بھی 13گھنٹے کا سفر کر کے یہاں پہنچا ہوں،بَہُت تھکا ہوا ہوں،ابھی کھانا بھی نہیں کھایا مگر بیان کرنے حاضِر ہو گیا ہوں وغیرھا۔

(5)اسلامی بھائیوں کو مَثَلًا اِس طرح کہنا:میں تو 25ماہ سے مَدَنی قافِلے کا مسافِر ہوں،وقفِ مدینہ ہوں،اِسی روز سے روزانہ بیان کر رہاہوں،آج کل کئی روز سے مسلسل مَدَنی مشوروں کی ترکیب ہے،ہر ماہ دو(یا چار)مَدَنی قافِلوں میں تین تین دن کیلئے سفر کر رہاہوں،اتنے برس سے ہر ماہ تین روزہ مَدَنی قافِلے میں سفر کی ترکیب ہے اور اِن باتوں کا سبب لوگوں میں عزّت بنانا ہو کہ خوب شاباش ملے،اسلامی بھائی اِس کی مثالیں دیں،دین کیلئے خوب قربانیاں دینے والا کہیں۔

(6)جوش میں آ کر ایک ہی دن میں فیضانِ سنَّت سے پچاس یا سو بار درس دے ڈالنا تا کہ خوب واہ واہ ہو،حوصَلہ افزائی کے نام پر تعریف ہو،دعوتِ اسلامی کے بڑے ذمّے داران سے پیٹھ تھپکوانے اور تحفے پانے کی ترکیب ہو۔

(7)کسی بڑی شخصیَّت کے سامنے سنّتوں بھرا بیان کرنے کا موقع ملے تو خوب بناسنوار کرعُمدَگی سے بیان کرنا تاکہ وہ اس سے مُتأَثِّر ہو،اِس کی تعریف کرے۔

(8)مبلِّغ کا سیاسی،حُکومتی یا دُنیوی شخصیّات کے ساتھ مُراسِم رکھنا تا کہ لوگوں کو معلوم ہو یا خود بتا سکے کہ فُلاں فُلاں شخصیَّت مجھ سے مُتَأَثِّرہے،یہ لوگ مجھے دعاؤں کا کہتے ہیں،فُلاں نے تو میرے ہاتھ چوم لئے،ان کے یہاں میرا بڑا احتِرام ہے۔

(9)کسی مبلِّغ کا ترکیبیں بناناکہ کسی طرح کوئی افسر یا وزیر وغیرہ اُن کے گھر آ جائے تا کہ لوگوں پر ظاہِر ہو کہ بھئی! بڑے بڑے لوگ اِس کے عقید ت مند ہیں اِس سے دعا کروانے یا بَرَکت حاصِل کرنے کیلئے حاضِر ہوتے ہیں۔

(10)کسی دُنیوی بڑی شخصیَّت کو اِس لئے اصلاح کی بات کہنایا خطا پرٹوکناکہ لوگوں پر یہ اثر پڑے کہ واہ بھئی واہ! یہ تو بڑے بڑوں سے مَرعُوب نہیں ہوتااور حکمِ شریعت بیان کرنے میں کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتا۔

(11)کسی بڑے آدَمی کو داڑھی رکھوا دی یا بدنام شخص کو توبہ پر آمادہ کر لیا تو اپنی ذات سے مُتأَثِّر کرنے کیلئے بیان میں یا اسلامی بھائیوں میں اپنے اِس کارنامے(یا مَدَنی بہار) کا تذکِرہ کرنا۔(12)لوگوں میں بیٹھے ہوئے یا دورانِ بیان یا گفتگو کرتے ہوئے اِس لئے نگاہیں نیچی رکھنا کہ دیکھنے والے مُتأَثِّر ہوں،حیا سے نظریں جھکانے والا اور آنکھوں کا قفلِ مدینہ لگانے والا کہیں۔(خواہ جب لوگوں سے جُدا ہو تو آنکھیں ہرطرف گھومتی،پھرتی اور خوب بھٹکتی ہوں)

(13)تنہائی میں خاشِعانہ نَماز پڑھنے یا نگاہیں نیچی رکھنے کی مَشق کرناتا کہ دوسروں کی موجودگی میں بھی نَماز میں خُشوع قائم رہے،نگاہیں نیچی رکھ سکے اور لوگوں کے دلوں میں مقام بنا سکے۔(یہ دُونی رِیا ہے یعنی تنہائی والی مَشق بھی رِیا ہے کہ اِس کا مقصود رِضائے الٰہی نہیں،بندوں پر اپنی پارسائی کا سکّہ جمانا ہے)

(14)پابندی سے فکرِ مدینہ کرتے ہوئے مَدَنی اِنعامات کی خانہ پُری کرنے اور دوسر وں پر مَدَنی انعامات پر عمل کی تعداد ظاہر کرنے سے مقصود یہ ہو کہ اِس کی تعریف ہو،مثال دی جائے کہ فُلاں مَدَنی انعامات کا پکا عامل ہے،اُس کا اتنے اتنے مَدَنی انعامات پر عمل ہے۔

(15)کسی کااِس لئے دین کی خدمت کرنا،مَدَنی قافِلوں میں سفر کرنا،دینی کاموں کیلئے خوب وَقت دینا اور اس کی خاطِرمَشَقَّتیں برداشت کرنا کہ لوگ اِس کی قربانیوں کی واہ واہ کریں،دینی کاموں کیلئے اِس کو خوب مُتحرک(مُ۔تَ۔حَر۔رِ ک، ACTIVE)تصوُّر کریں۔

(16)دُنیا کے مختلف مَمالِک کے اندر راہِ خدا میں اس نیَّت سے سفر کرنا کہ اسلامی بھائی اِس کی قربانیوں کی داد دیں،اِس کی مثالیں بیان کریں،اس کو بینَ الاقوامی مبلِّغ کہیں۔

(17)اِس لئے پابندی سے صدائے مدینہ لگانا یعنی لوگوں کو نَمازِ فجر کے لئے جگانے کیلئے گھر سے نکلناکہ اس کی تعریف ہو کہ یہ نہ اندھیرے سے گھبراتا ہے،نہ کتّوں کے بھونکنے سے ڈرتا ہے،نہ ہی سردی اور بارِش کی پرواہ کرتا ہے نیز رات سونے میں چاہے کتنی ہی تاخیر ہو جائے یہ پھر بھی صدائے مدینہ کا ناغہ نہیں کرتا۔

(18)کسی کو نیکی کی دعوت اِس نیَّت سے دینا کہ لوگ اسے مسلمانوں کا عظیم خیر خواہ تصوُّر کریں یا کسی کو بُرائی سے اس لئے مَنع کرنا کہ لوگ اس سے مُتأَثِّرہوں کہ ’’بڑا غیرت مند شخص ہے،بُرائی دیکھ کر بالکل خاموش نہیں رہ سکتا۔‘‘(کاش! اپنے گھر میں ہونے والی برائی دیکھ کر بھی غیرت آیا کرے،دل جلا کرے اور اِصلاح کی سعادت کی کوشِش نصیب ہو)

نعت شریف پڑھنے،سننے والوں کے لئے رِیاکاری کی 16مثالیں

نعت شریف پڑھنے،سننے والوں کے لئے رِیاکاری کی 16مثالیں

(1)اجتِماع وغیرہ میں اِس غَرَض سے تلاوت کرنا،نعت شریف پڑھنا کہ لوگ نوٹیں چلائیں،اسے کھانا کھلائیں،لفافہ پیش کریں،سُوٹ پیس حاضِر کریں،آواز و انداز وغیرہ کی داد دیں،تلفُّظ کی ادائیگی کے اُسلُوب اور پڑھے گئے کلام کی تعریف کریں۔

(2)نعت شریف پڑھتے ہوئے مختلف اَشعار پر حدائقِ بخشش شریف وغیرہ کے بکثرت اَشعار اس لئے ملانا کہ لوگ کہیں:واہ واہ ! اِس کو تو بَہُت سارے اور کیسے مشکل مشکل اَشعار یاد ہیں!

(3)کتاب سے دیکھے بِغیر اِس لئے نعتیں پڑھنا کہ سننے والے کہیں واہ بھئی وا ہ! اِس کو بَہُت سی نعتیں زَبانی یادہیں!

(4)نعت خوان(یا مبلِّغ )کا کسی مشکِل شِعر کی اِ س لئے شَرح بیان کرناتا کہ لوگ اِسے ذہین سمجھیں اوراِس کی معلومات کی داد دیں۔

(5)نایاب کلام تلاش کر کے یا کسی کلام کی نئی طرز بنا کر(یا چُرا کر)چُھپا کر رکھ کر بڑی رات وغیرہ کسی خاص موقع پر کثیر اجتماع میں نعت خواں کااِس لئے پڑھنا کہ سامِعین جھوم اٹھیں اور زور زور سےسبحٰن اللہ کہہ کر داد دیں،خوب نعرے لگائیں اور دوسرے نعت خوان بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوں۔

(6)نعت خوانی،تلاوتِ قراٰن،بیان وغیرہ پر بَیک وَقت اِس لئے عُبُور حاصل کرنا کہ لوگ اس کو ’’ہرفن مولا ‘‘کہیں۔

(7)مالداروں کے یہاں رغبت کے ساتھ جانا،ان کی یاکسی بھی دینی و دُنیوی شخصیت کی موجودگی میں اس لئے نعت شریف پڑھنا کہ مالدار’’ نوٹیں‘‘ چلائے،شخصیت کی صدائے دادو تحسین سے نفس ’’ لذّت‘‘ پائے۔

(8)بَیرونی مَمالِک میں عزّت و شہرت یا نذرانوں کی خواہِش پر نعت پڑھنے جانا نیز اِس سے یہ بھی مقصود ہو کہ اپنے نام کے ساتھ’’ بین الاقوامی شُہرت یافتہ نعت خواں‘‘ کہا اور اشتِہارات میں لکھا جائے۔

(9)T.V. چینل پر اِس لئے نعت پڑھنا(یا بیان کرنا)کہ خوب شہر ت ملے،لوگ راستے میں روک کر عزّت سے ملیں،اپنے یہاں محافِل میں مدعو کر کے آؤ بھگت کریں،میڈیا،یا فُلاں چینل کا مشہور ومعروف نعت خواں(یا مبلغ)کہیں یا اشتہارات میں لکھیں،V.C.Dجاری ہو کہ جس سے خوب نام چمکے۔

(10)نعت خواں(یا مبلّغ)کاشہرت اور واہ واہ! کیلئےc.d.یا v.c.dجاری کروانا۔

(11)بیان کرتے یا سُنتے ہوئے یا دعا کرتے یا دُعا کرواتے،یا مُناجات یا نعت شریف پڑھتے یا سنتے ہوئے اِس لئے رونے جیسی آواز نکالنا،رونی صورت بنانا،آنکھیں پَٹ پٹا کریا زور سے میچ کر زبردستی آنسو چھلکانایابار بار آنکھیں پُونچھنا کہ لوگ اِس کی طر ف مُتَوجِّہ ہوں اور اِسے بَنگاہِ تَحسین(یعنی تعریفی نظر سے)دیکھیں۔

(12)اجتماعِ ذِکرو نعت میں اِس لئے آگے آگے بیٹھنا،نعتیں سُن کر خوب جھومنا،بُلند آواز سے واہ واہ !سبحٰن اللہ کہنا،نعرے لگانا کہ لوگ عاشقِ رسول سمجھیں۔

(13)مُناجات یا نعت شریف سُن کر چیخ و پکار اور اُچھل کود کرکے حاضِرین کی توجُّہ چاہنا،اگر رقّت طاری ہو گئی تھی اور جوش میں کھڑا ہو گیا تھا،مگراب کیفیت سے باہَر آجانے کے باوُجُود اِس لئے کھڑے کھڑے ہاتھ پیر ہِلانے کا سلسلہ جاری رکھناکہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ ارے اتنی جلدی یہ نارمل ہو گیا !یا اِس لئے زمین پر گرناتڑپنا کہ لوگ پکڑیں سَہلائیں،ہوش میں لانے کیلئے جتن کریں،پانی پلائیں اور یہ’’ ھُو ھُو‘‘ کرتا ہو ا آہستہ آہستہ ہوش میں آنے کا انداز اختیار کرے اور یوں لوگوں کی نظر میں خود کو عُشّاق میں کھپا لے۔

۔ (14)نعت وغیرہ سُن کراِس لئے فِراقِ مدینہ میں آہیں بھرنا بار بار مدینہ مدینہ کہنا تا کہ لوگ’’ مدینے کا دیوانہ‘‘ سمجھیں۔

(15)اجتماعِ ذکر و نعت میں صِرف بریانی یاکھچڑاوغیرہ کھانے کے لئے شرکت کرنا۔

(16)مُناجات،نعت و مَنقبَت وغیرہ لکھنے والے کا اِس کے مَقْطَع میں اپنا تخلُّص اِس لئے ڈالناکہ نیک نامی ہو،داد ملے،لوگوں پر چھاپ پڑے کہ واہ بھئی واہ!یہ تو بَہُت اچّھا شاعِر ہے۔

راہِ خدا میں خَرْچ کرنے والوں کے لئے رِیاکاری کی 3مثالیں

(1)دینی کاموں میں اِس لئے چندہ دینا کہ لوگ سخی کہیں۔

(2)اِس لئے غریبوں میں خیرات بانٹنا کہ وہ اِس کے گِرد حاجی صاحِب!سیٹھ صاحِب! کہہ کر ہجوم کریں،اِس کی مِنّت سماجت کریں،اس کے سامنے گِڑ گِڑائیں۔

(3)مریضوں،دُکھیاروں اور سیلاب زدوں وغیرہ کی خدمت کیلئے اِس لئے بھاگ دوڑ کرے کہ لو گ مصیبت زدوں کا خیر خواہ یا بہترین سماجی کارکُن کہیں۔

رِیاکاری کے مُتَعلّق مُتَفرّق32 مثالیں

(1)فنِّ قِرا ء ت اس لئے سیکھنا کہ لوگ’’قاری صاحِب‘‘ کہیں۔

(2)قاری صاحِب کا اجتماعات میں حاضِرین کی مقدار کے مطابِق(اورامام صاحِب کاجَہری نَمازوں میں مقتدیوں کی قِلّت وکثرت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے)تجویدکے قَواعِد کی رعایت اور آواز کے اتار چڑھاؤ میں کمی بیشی کرنے سے مقصود حاضِرین کی خوشنودی ہو۔(کاش!اللہ عزوجل کی رضا کیلئے سِرّی نَمازوں میں بھی حسبِ ضرورت تجوید کے قواعِد کی رعایت کی عادت بنے)

(3)اپنے لئے عاجِزی کے الفاظ مَثَلًا فقیر،گنہگار،ناکارہ وغیرہ اس لئے بولنا یا لکھنا کہ لوگ مُنکسِرُ المزاج سمجھیں، عاجِزی کی تعریف کریں۔(دل کی تائیدکے بِغیر اپنے لئے ایسے الفاظ کی ادائیگی مَنافَقَت بھی ہے)

(4)لوگوں سے اِس لئے پُرتپاک طریقے سے ملنا کہ ملنساراور بااَخلاق کہلائے۔

(5)دعا وغیرہ میں سب کے سامنے رونا آجائے تو اِس لئے آنسو پونچھتے رہنا کہ لوگوں پر یہ تَأَثُّر قائم ہوکہ یہ رِیا کاری سے بچنے کیلئے جلدی جلدی آنسو پُونچھ لیتا ہے۔

(6)لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کیلئے اِس طرح کے جملے کہنا:مجھے گناہوں سے بڑا ڈر لگتا ہے،مجھے بُرے خاتمے کا خوف رہتا ہے،ہائے !اندھیری قبر میں کیا ہو گا! آہ ! قِیامت میں حساب کیسے دوں گا!

(7)لوگوں پر اپنی دنیا سے لا تعلُّقی اور پارسائی کی چھاپ ڈالنے کیلئے کہنا:میں تو مالداروں اور شخصیَّات سے ملنے سے بچتا ہوں(اگریہ فِقرہ مالدار وغیرہ کو اپنے سے حقیر سمجھ کر کہہ رہا ہے تو تکبُّر کی آفت میں بھی پھنسا)

(8)کسی کی مصیبت کا سُن کر اِس لئے منہ بنانا یا ہمدردانہ جملے کہناکہ لوگ رَحم دل کہیں۔(البتّہ دُکھیارے مسلمان کی دلجوئی کی نیّت سے رضائے الٰہی کیلئے اُس کے سامنے ایسا کرنا عبادت اور باعِث ثواب ِآخِرت ہے) (9)ہاتھ میں اِس لئے تسبیح رکھنا،اور نمایاں کرنا،یا لوگوں کے سامنے اِس لئے ہونٹ ہِلاہِلا کر یا انہیں آواز پہنچے اِس طرح دُرُودو اَذکار پڑھنا کہ نیک سمجھا جائے۔

(10)جَلوَت میں(یعنی لوگوں کے سامنے)کھاتے پیتے،اُٹھتے بیٹھتے وغیرہ وغیرہ مَواقِع پر سنّتوں کا اچھی طرح خیال رکھناتا کہ لوگ سنَّتوں پر عمل کرنے والا قرار دیں۔(کاش! ا کیلے میں بھی کھانے پینے اور دیگر افعال میں خوب سنّتیں اپنانے کا ذہن بن جائے)

(11)دعوت میں یا دوسروں کی موجودَگی میں اِس لئے کم کھانا کہ دیکھنے والے اسے مُتَّبِعِ سنّت(یعنی سنّت کی پَیروی کرنے والا)اورقَلِیْلُ الْغِذاء(یعنی کم کھانے والا)تصوُّر کریں۔(افسوس !یہ رِیاکار جب گھر میں یا بے تکلُّف دوستوں کے درمیان ہو تو دوسروں کا حصّہ بھی چَٹ کرجائے )

(12)کسی کو اپنے نیک کام بتا کر یہ کہنا کہ ’’آپ کسی اور کو مت بتانا۔‘‘ تاکہ سامنے والا مُتأَثِّرہو کہ بہت مخلص شخص ہے کہ کسی پر اپنا نیک عمل ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔

(13)اپنے نام کے ساتھ حافِظ بولنے یا لکھنے کااس لئے اہتمام کرنا کہ لوگ بنظرِ تحسین دیکھیں ماشاء اللہ بولیں،احتِرامًا حافِظ صاحِب یا حافِظ جی کہیں،دعاؤں کی التجائیں کریں۔(اگر رِیا کی نیّت نہ ہو تو حافظ کا اپنے منہ سے خود کو حافظ بولنا لکھنا منع نہیں)

(14)رَمَضانُ المبارَک کا اعتِکاف کرنا یاسب کے سامنے اس لئے تِلاوت کرنا،یا خوب گڑ گڑاکر دعائیں مانگنا کہ لوگ نیک آدمی سمجھیں۔

(15)رَمَضانُ المبارَک کا اِس لئے اعتِکاف کرنا کہ مفت میں سحری اور افطاری کی ترکیب بن جائے۔

(16)موت میِّت کے موقع پر بھاگ دوڑکرنا نیز جنازے کے جلوس اور تدفین وغیرہ میں آگے آگے رہنا تا کہ لوگوں میں نمایاں ہو،اہلِ میِّت مُتأَثِّرہوں،ان کی نظر میں اچھا انسان بنے۔

(17)نیک کاموں میں خوب بڑھ چڑھ کر حصّہ لینا تا کہ لوگ نیکیوں کاحریص سمجھیں۔

(18)اپنے دینی کارنامے اس لئے بیان کرناکہ سُننے والے اِسے دین کا بہت بڑا خادِم تصوُّر کریں اوراس کی عظمتوں کے مُعترِف ہوں۔مَثَلًااپنے فضائل کا قائل کرنے کیلئے یوں کہنا:مجھے تو 15سال ہوگئے نیکی کی دعوت عام کرتے ہوئے،میں اتنے عرصے تک دعوتِ اسلامی کی فُلاں فُلاں ذِمّے داری پر فائز رہا،میں نے اِتنے عَلاقوں بلکہ مُلکوں میں جاکرمَدَنی کام کیا،میں نے سینکڑوں کو داڑھی رکھوائی،عمامے سجوائے،مَدَنی کام کرنے پر آمادہ کیا،ان کی تربیَّت کی،فُلاں فُلاں ذمّے داران کو بھی میں مَدَنی ماحول میں لایا ہوں وغیرہ وغیرہ۔

(19)مُطالَعے(مُطا۔لَ۔عے)کے دَوران کوئی حکمت بھرا عمدہ مَدَنی پھول مل گیا تو دوسروں سے پوشیدہ رکھ کر بڑے اجتماع میں اِس لئے بیان کرنا تا کہ واہ واہ سبحٰن اللہ کاشور ہو،کثیر افراد پر اپنی کثرتِ معلومات کا سکّہ بیٹھے اور تعریف ہو۔

(20)اپنی فِی سَبِیلِ اللہ امامت یا دینی تدریس کا اِس لئے دوسروں سے تذکرہ کرنا کہ لوگ اِس سے مُتأَثِّر ہوں،قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔

(21)بڑی رات یا اجتماعات وغیرہ میں اِس لئے خوب لہجے کے ساتھ اذان دینا کہ لوگ آواز وانداز کی واہ واہ کریں۔

(22)خریداری کرتے وقت یا اُجرت پر کسی سے کوئی کام کرواتے وَقت اپنے دینی منصب مَثَلًا دینی طالبِ علم یا حافظِ قراٰن یا امام مسجِد یا مؤَذِّن یا مبلِّغ وغیرہ ہونے کا اس لئے اظہار کرنا کہ وہ رعایت کردے یا پھر پیسے ہی نہ لے۔

(23)کتاب یا رِسالہ لکھتے وقت اِس نیَّت سے عبرت انگیز روایات و خوب دلچسپ حکایات اورعمدہ عمدہ مَدَنی پھول شامل کرنا کہ پڑھنے والے داد و تحسین دینے پر مجبور ہوجائیں۔

(24)اپنے حج وعُمرے کی تعداد،تلاوتِ قراٰن کی یومیہ مقدار،رَجَبُ المُرجَّب و شعبانُ المعظَّم کے مکمَّل اور دیگر نفلی روزوں،نوافِل،دُرُود شریف کی کثرت وغیرہ کااِس لئے اظہار کرنا کہ واہ واہ ہو اور لوگوں کے دلوں میں احتِرام پیدا ہو۔

(25)چھوٹی بڑی دینی کتابوں کے ناموں کے ساتھ یابِغیر نام بتائے اپنے کثرتِ مُطالَعَہ کا اظہار کرنا تا کہ اسلامی بھائی علمِ دین کا شیدائی سمجھیں،دوسروں کو اِس کی مثال دیں۔

(26)اِس لئے حج کرنا یا اپنے حج کا اظہار کرناکہ لوگ حاجی کہیں،ملاقات کیلئے حاضِر ہوں،گِڑگڑاکر دعاؤں کی التجائیں کریں،گجرا پہنائیں،تحائف وغیرہ پیش کریں۔(اگر اپنی عزّت کروانا یا تحفے وغیرہ حاصِل کرنا مقصود نہ ہو بلکہ تحدیثِ نعمت وغیرہ اچھی اچھی نیتیں ہوں توحج و عمرے کااظہار کرنے عزیزوں اور رشتے داروں کو جمع کرنے،’’محفلِ مدینہ‘‘ سجانے کی مُمانَعت نہیں بلکہ کارِ ثوابِ آخِرت ہے)

(27)ساداتِ کرام کااس لئے احترام بجا لائے،دست بوسی وغیرہ کرے کہ سیّدوں کے دلوں میں عزّت پیدا ہو یا لوگ مُحبِّ اہلبیت کہیں۔

(28)مزارات کی اِس لئے بکثرت زیارَتیں کرے،ہر جگہ عُرسوں میں پیش پیش رہے کہ لوگ اولیائے کرام رحمھم اللہ السلام کا عاشق کہیں۔

(29)سرکارِ غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کا اِس لئے بار بار تذکرہ کرے یا گیارہویں شریف کی نیاز کرے یا آپ کی منقبت میں خوب جھومے کہ لوگ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کادیوانہ سمجھیں۔

(30)اپنے پیر کی اِس لئے خوب خدمت کرے،لوگوں کے سامنے اِن خدمات کا تذکِرہ کرے،ان کے قریب نظر آئے تاکہ اسے لوگ اپنے مُرشِد کامُقَرَّب،منظورِ نظر اور خادِمِ خاص سمجھیں،عزّت کریں،ہاتھ چومیں،نُمایاں جگہ پر بٹھائیں،دعاؤں کی التجائیں کریں،تحفے نذرانے پیش کریں،پیر صاحِب کیلئے سفارشی بنائیں۔

(31)پیر ومرشِد کی بچی ہوئی چیز دوسروں کی موجودَگی میں اس لئے جھٹ پٹ کھائے کہ لوگ ’’ تبرُّک کا حریص‘‘ تصوُّر کریں۔(اور اگر کوئی دیکھتا نہ ہو تو تبرُّک کو ہاتھ بھی نہ لگائے یا دوسروں کی طرف سَرکادے)

(32)دوسروں کی موجودَگی میں اِس لئے چُپ چاپ رہنا یا اشارے سے یا لکھ کر گفتگو کرنا کہ لوگ سنجیدہ،خاموش طبیعت اورزَبان کا قفلِ مدینہ لگا نے والا تصوُّر کریں۔(خواہ گھر میں اور بے تکلُّف دوستوں میں خوب قہقہے لگاتا اور شیرِ بَبَر کی طرح دَہاڑتا یعنی چیختا ہو)

ریا کی تعریف کے تحت مذکورہ مثالوں پر غور کیجئے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ مثالوں کو ذِہن میں رکھتے ہوئے رِیا کاری کی تعریف پر ایک بار پھر نظر ڈال لیجئے جیسا کہ بہارِ شریعت جلد 3صَفحَہ 629پر ہے:’’ رِیایعنی دِکھاوے کیلئے(نیک)کام کرنا اور ’’ سُمعَہ‘‘ یعنی اِس لئے(نیک)کام کرنا کہ لوگ سنیں گے اور اچّھا جانیں گے،یہ دونوں چیزیں بَہُت بُری ہیں،اِن کی وجہ سے عبادت کا ثواب نہیں ملتا بلکہ گناہ ہوتا ہے اور یہ شخص مُستحقِ عذاب ہوتا ہے۔‘‘ رِیا کاری کی تعریف میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگوں پر اپنی عبادت گزاری کی دھاک بِٹھانا،اپنی تعریف،واہ واہ اور عزّت چاہنا یا اُ س نیک کام سے سُوٹ پیس،یا رقم کالفافہ یا کھانا یا مٹھائی یا کسی قسم کے نذرانے کا حُصول مقصود ہونا۔نیز پیش کردہ مثالوں میں’’حُبِّ جاہ ‘‘ یعنی ’’عزّت و شُہرت کی مَحبَّت‘‘ بھی موجود ہے۔کیوں کہ رِیاکاری کا ایک بَہُت بڑا سبب ’’ حُبِّ جاہ ‘‘ ہے۔

ریاکاری کی مثالوں کے بارے میں ایک ضروری وضاحت

یاد رہے! رِیا کاری کی یہ تمام مثالیں پڑھنے سننے والے کے اپنے آپ میں رِیاکاری تلاش کرنے کے لئے ہیں،کسی دوسرے کو رِیاکار قرار دینے کے لئے نہیں کیونکہ رِیاکاری کا تعلّق دل سے ہے اور کسی کے دل کے حالات پرہر کوئی مُطَّلع نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اِن مثالوں پر قِیاس کر تے ہوئے کسی مسلمان پر بدگمانی نہ کی جائے،بدگمانی حرام اور جہنَّم میں لیجانے والا کام ہے اوراِسی طرح کسی کے بارے میں تجسُّس(یعنی گناہ کی تلاش)کرنا،اس کی پردہ دری کرنا(یعنی عیب کھولنا)اوراس میں یہ(یعنی رِیاکاری کی)علامات تلاش کرناتاکہ اس کوبدنام کیاجائے یہ بھی حرام ہے۔

خود کو ریاکاری کے عذاب سے ڈرایئے!

برائے کرم! اپنی نیکیوں کوٹَٹولئے کہ کہیں اس میں رِیا تو چُھپی ہوئی نہیں! کیوں کہ رِیا چِیونٹی کی چال سے بھی باریک چال کے ذَرِیعے عملِ خیر میں داخِل ہو جاتی ہے،حقیقت یہ ہے کہ ’’ رِیا‘‘ میں جو’’ لذّت‘‘ ہے وہ نہ عمدہ غذاؤں میں ہے نہ ہی مال و دولت کی کثرت میں،اِس سے بچنا بَہُت بَہُت بَہُت ضروری ہے کہ یہ ’’لذّت‘‘ جہنَّم میں پہنچانے والی ہے لہٰذا اگراپنے کسی نیک عمل میں رِیا کاشائبہ(یعنی شک)بھی پائیں تو توبہ کریں اور اپنے آپ کو ڈرائیں کہ فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہے:’’بے شک جہنَّم میں ایک وادی ہے جس سے جہنَّم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتا ہے،اللہ عزوجل نے یہ وادی اُمّتِ محمدیہ علٰی صاحِبِہَا الصلوٰۃ ُوا لسّلام کے اُن رِیاکاروں کے لئے تیّار کی ہے جو قراٰنِ پاک کے حافِظ،غیرُ اللہ کے لئے صَدَقہ کرنے والے،اللہ عزوجل کے گھر کے حاجی اور راہ خدا عزوجل میں نکلنے والے ہوں گے۔‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیرج۱۲ص۱۳۶حدیث ۱۲۸۰۳) اگر کوئی اسلامی بھائی یا اسلامی بہن خود میں مذکورہ مثالوں میں سے کوئی مثال پائے تو لازمًا رِیاکاری کا علاج کرے مگر یہ نہ ہو کہ اصل نیکیوں اور سعادت مندیوں ہی کو چھوڑ دے کیونکہ ناک پر مکّھی بیٹھ جائے تو مکّھی کو اُڑایا جاتا ہے ناک نہیں کاٹی جاتی۔

بچا لے رِیا سے بچا یا الٰہی

تُو اِخلاص کر دے عطا یاالٰہی

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم

(تفصیلی معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 166 صَفحات پر مشتمل کتاب ’’رِیاکاری‘‘ کا مُطالَعَہ فرمایئے)

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد

تُوبُوا اِلَی اللہ استغفر اللہُ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد

(11): ’’ عیب ڈھونڈے کی ۵۹ مثالیں ‘‘

یہاں جو مثالیں دی جا رہی ہیں ان میں عیبوں کی ٹٹول(یعنی عیبوں کی تلاش)کے ساتھ ساتھ ضِمنًا غیبتیں،تہمتیں اور بد گمانیاں وغیرہ بھی شامل ہیں۔اکثر ایسی مثالیں ہیں جن میں نیّت کے ساتھ اَحکام مُرتَّب ہوں گے مَثَلًا نوکر رکھنے،شِراکت داری(یعنی پارٹنر شپ کرنے)یا کہیں شادی کا ارادہ ہے تو حسبِ ضَرورت معلومات کرنا گناہ نہیں بلکہ اس طرح کے معاملے میں جس سے پوچھا گیا اُس پر واجِب ہے کہ دُرُست بات بتائے اور اگر اس قسم کے مُعامَلات کی وجہ سے سُوال نہ کیا گیا ہو تو غیبتوں اور تہمتوں کے ذَرِیعے اپنے لئے جہنَّم میں جانے کا سامان کرنے کے بجائے عیب پوشی سے کام لیکر جنَّت کا حقدار بنے۔مگرعُمُومًا طرح طرح کے سُوالات کے ذَرِیعے عَیبوں کی ٹٹول(یعنی عُیوب کی معلومات اور کُرید)میں یہ نیّت نہیں ہوتی،بس لوگ پوچھنے کی خاطر پوچھتے رہتے ہیں اور بسا اوقات خود بھی گناہوں میں پڑتے اور بار ہا جواب دینے والے کو بھی گنہگار کر دیتے ہیں۔

کسی نے مکان کرائے پر لیا تو پوچھنا:مکان مالِک کیسا ہے؟یہ سُوال فی نفسہٖ گناہ نہ سہی مگر کئی گناہوں کا سبب بن سکتا ہے،مَثَلًا کرائے دارنے جوابًا کہا:مُعامَلات کا صاف نہیں،بَہُت بد اَخلاق اور کنجوس ہے،اِس طرح تین عیب کھولے وہ بھی اگر اُس میں موجود ہوں تو ہی عیب کہلائیں گے اور اب یہ بتانا تین غیبتیں ہوئیں ورنہ تہمتیں۔اور اگر صِرف اِس لئے پوچھا کہ مکان مالِک کے عیوب معلوم ہوں تو اب یہ ’’ عیب ڈھونڈنا ‘‘ ہوا جو کہ گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔

کسی نے مکان کرائے پر لیا تو پوچھنا:مکان مالِک کیسا ہے؟یہ سُوال فی نفسہٖ گناہ نہ سہی مگر کئی گناہوں کا سبب بن سکتا ہے،مَثَلًا کرائے دارنے جوابًا کہا:مُعامَلات کا صاف نہیں،بَہُت بد اَخلاق اور کنجوس ہے،اِس طرح تین عیب کھولے وہ بھی اگر اُس میں موجود ہوں تو ہی عیب کہلائیں گے اور اب یہ بتانا تین غیبتیں ہوئیں ورنہ تہمتیں۔اور اگر صِرف اِس لئے پوچھا کہ مکان مالِک کے عیوب معلوم ہوں تو اب یہ ’’ عیب ڈھونڈنا ‘‘ ہوا جو کہ گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔

رات دیر تک جاگتے رہتے ہو،فجر بھی پڑھتے ہویانہیں؟

آپ نَماز پڑھتے ہیں یانہیں ؟ آپ کے والِد صاحِب نمازی ہیں یا نہیں

ختم نے ابھی تک نئے کپڑے نہیں پہنے !عید کی نماز بھی پڑھی یا نہیں؟

رَمَضان کے مہینے میں کسی سے پوچھنا:واہ بھئی!آج بڑے فریش((freshیعنی تازہ دم)لگ رہے ہو! روزہ بھی رکھا ہے یا نہیں ؟

اِس بار رَمضانُ المبارَک میں آپ نے کتنے روزے رکھے؟ کوئی تراویح چھوڑی تو نہیں؟

تم پوری زکوٰۃ نکالتے ہویا نہیں؟

ٓپ کی بیوی شریف تو ہے نا؟ لڑتی تو نہیں ؟(یہی سوالات عورتوں میں ’’شوہر‘‘ کے بارے میں عیبوں کی ٹَٹَول والے ہیں)

شادی شُدہ بیٹی کی ماں سے پوچھنا:آپ کی بیٹی کی ساس اچّھی ہے یا نہیں؟ لڑاکی تو نہیں؟ روٹی دیتی ہے یا نہیں؟ بیٹی کو ستاتی تو نہیں ؟ اپنے بیٹے کے کان تو نہیں بھرتی؟ وہ جو اُس کی طَلَاقڑی نند گھر میں بیٹھی ہے وہ مسائل تو نہیں کھڑے کرتی؟

بیٹے کی شادی کے بعد اُس کی ماں سے پوچھنا:اب بیٹا آپ کا خیال رکھتا ہے یا نہیں؟ پہلے کی طرح تنخواہ لاکر آپ کے ہاتھ میں دیتا ہے یا اپنی جَورُو کے حوالے کر دیتا ہے؟ بہو نے کالا علم کرا کے اُسے اپنی طرف تو نہیں کر لیا؟بہو اچّھی ہے یا نہیں؟ تعویذ گنڈے تو نہیں کرتی؟ زبان دراز تو نہیں؟ آپ کی عزّت کرتی ہے یا نہیں؟

اُس دن فُلاں کے گھر سے تیز گفتگوکی آواز آ رہی تھی کو ن کون لڑ رہے تھے؟

ہاں بھئی! اُس کا شوہر بڑا ظالم ہے کہیں بچاری کی بے قُصُور پٹائی تو نہیں لگاتا؟

دولہا سے پوچھنا:سُسر صاحِب نے جہیزدینے میں بُخل سے تو کام نہیں لیا؟

اُس دن خوب بن ٹھن کر سُسرال پہنچے تھے،سُسرصاحِب نے لفٹ بھی کرائی کہ نہیں ؟ صحیح طریقے پر آؤ بھگت کی یا نہیں؟

شادی شُدہ اسلامی بھائی سے سُوال کرنا:آپ کے بچّوں کی امّی پانچ وقت کی نَمازی ہے یا نہیں؟ آپ کے بھائیوں سے پردہ کرتی ہے یا نہیں؟ بے پردہ تو نہیں گھومتی؟

آپ کا باس((BOSS۔سیٹھ)صحیح آدمی ہے یا نہیں؟ کنجوس تو نہیں؟* بد اخلاق تو نہیں؟ * ملازموں کوگالیاں تو نہیں نکالتا؟* طلبہ سے بِلاحاجت پوچھنا:آپ کے فُلاں استاذ صاحب کیسا پڑھاتے ہیں؟ اُن کا پڑھانا کچھ سمجھ میں بھی آتا ہے یا نہیں؟ کسی کا مہمان بننے والے سے پوچھنا:ہاں بھئی! ان کی میزبانی کا لُطف آرہا ہے یا نہیں؟ انہیں مہمان نواز پایا یا نہیں؟

دعوتِ اسلامی کے فُلاں حلقے کی مشاوَرت کا نیا نگران آپ کو کیسا لگا؟ اسلامی بھائیوں کو جھاڑتا تو نہیں؟

نگران سے پوچھنا:فُلاں مبلِّغ آپ کی اطاعت کرتا ہے یا اپنی چلاتا ہے؟

فُلاں کو تنظیمی ذِمے داری سے ہٹادیا،کیا اس کا کردار کمزور تھا فُلاں مدرّس یاناظم کو فارِغ کر دیا،اُس نے کیا گڑبڑکی تھی؟

کسی مبلِّغ سے پوچھنا:سچ سچ بتائیے گا کہ آپ نے آج کا بیان اپنی واہ واہ کروانے کے لئے کیا یا رضائے الٰہی کی خاطر؟

کسی محفلِ نعت میں غیر حاضِر رہنے والے نعت خواں سے پوچھنا:فُلاں جگہ تم نعت خوانی میں اِس لئے نہیں آئے تھے نا کہ یہاں’’ کچھ‘‘ ملے گا نہیں؟

آپ صرف مَدَنی چینل ہی دیکھتے ہیں یا دوسرے چینلز پر گناہوں بھرے پروگرام بھی دیکھ لیتے ہیں؟ فلمیں ڈرامے تو نہیں دیکھتے؟

فُلاں افسر نے آپ کا کام فری((freeیعنی مفت)میں ہی کیا ہے نا! پیسے ویسے تو نہیں مانگے؟

فُلاں کی گاڑی سے ٹکرا کر آپ زخمی ہوئے،قصور اس کا تھا یا آپ کا ؟

فلاں ڈاکٹر نے صحیح طرح چیک بھی کیا یا مفت میں فیس وصول کرلی؟

طلاق دینے والے دوست سے پوچھنا:یار! تم نے اسے کیوں طلاق دے دی؟(اِس سوال پر عُمُومًا ٹھیک ٹھاک گناہوں کا دروازہ کھلتا ہے)

(خواہ مخواہ پوچھنا)وہ دکاندار کیسا ہے؟ * ٹھگ تو نہیں؟ * لُوٹتا تو نہیں؟(یعنی بَہُت مہنگا مال تو نہیں بیچتا؟)

وہ دیکھنے میں تو بڑاشریف لگتا ہے،آپ کو معلوم ہو گا،کہیں پھڈّے باز تو نہیں ؟

ٓپ کا نیا پڑوسی کیسا ہے؟بچ کر رہنا مجھے تو صحیح آدمی نہیں لگتا!

کسی کی خامیاں دیکھیں نہ میری آنکھیں اور

سنیں نہ کان بھی عَیبوں کا تذکِرہ یا ربّ(وسائلِ بخشش ص۹۹)

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد

(12): ’’ داڑھی منڈے کی ۳۰ شامتیں ‘‘

فتاوٰی رضویہ جلد 22میں داڑھی منڈانے اور ایک مُٹھی سے گھٹانے کی مذمَّت میں ’’لَمْعَۃُ الضُّحٰی فِی اِعفَاءِ اللُّحٰی‘‘ نامی ایک رِسالہ ہے اور اُس رسالے کے اِختِتام پر یعنی فتاوٰی رضویہ جلد 22صَفْحَہ 675تا676 پر داڑھی مُنڈانے اور ایک مُٹّھی سے گھٹانے والوں کے مُتَعلِّق قراٰن و حدیث کی روشنی میں 30سزاؤں،وَعیدوں اور مَذَمَّتوں کی فہرس دَرج فرمائی ہے:(بخوفِ طَوالت حوالے حَذف کر دیئے ہیں،جنہیں دیکھناہو وہ وہیں سے دیکھ لیں)*داڑھی منڈانے والے اللہ و رسول کے نافرمان ہیں جَلَّ جَلا لُہٗ وَ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم * شیطانِ لعین کے محکوم(یعنی ماتَحت)ہیں * سخت احمق ہیں *اللہ(عزوجل)ان سے بیزار ہے* صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بیزار ہیں * رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو ایسی صورت دیکھنے سے کَراہَت آتی ہے * یہودی صورت ہیں * نصرانی وَضع ہیں فرنگیوں سے مُشابہ(یعنی مِلتے جُلتے)ہیں * مجوس(آتش پرستوں)کے پَیرو(یعنی نقشِ قدم پر)ہیں * ہندوؤں کی صورت،مشرِکین کی سیرت ہیں * مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے گُرَوہ سے نہیں * اُنھیں(اُن ہی)اپنے ہم صورَتوں نصاریٰ ویہود ومَجُوس وہُنُودکے گُروہ سے ہیں * واجِبُ التَّعزیر(یعنی لائقِ سزا)ہیں شہر بَدَر کرنے کے قابِل ہیں * مُبَدِّلِینِ فِطرت(یعنی فِطرت بدلنے والے)ہیں مغَیِّرِخَلقِ اللّٰہ(یعنی اللہ کے بنائے ہوئے کو بگاڑنے والے)ہیں * زَنانے مُخَنَّث(یعنی ہیجڑے)ہیں *خدا کے عَہد شِکَن(وعدہ خلاف)ہیں * ذلیل وخوار ہیں *گھِنَونے قابلِ نفرت ہیں * مردودُ الشَّہادۃ(یعنی گواہی کیلئے نالائق)ہیں * پورے اسلام میں داخِل نہ ہوئے * ہَلاکت میں ہیں،مستحقِ بربادی ہیں * دین میں بے بَہرہ(محروم)آخِرت میں بے نصیب ہیں * عذابِ الٰہی کے منتظر* اللہ عزوجل کو سخت دشمن ومَبغُوض ہیں * صبح ہیں تو اللہ عزوجل کے غَضَب میں،شام ہیں تو اللہ کے غَضَب میں * قِیامت کے دن ان کی صورَتیں بگاڑی جائیں گی * اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ملعون ہیں،دُنیا وآخِرت میں ملعون(لعنت کئے گئے)ہیں،الہ وملائکہ وبَشَر(انسان)سب کی اُن پر لعنت ہے،فِرِشتوں نے ان کے لعنتی ہو نے پر اٰمین کہی * اللہ تعالیٰ ان پرنَظَرِ رَحمت نہ فرمائے گا خوہ بہشت(یعنی جنَّت)میں نہ جائیں گی* اللہ عزوجل انھیں جہنَّم میں ڈالے گا۔وَالعِیاذُ بِاللّٰہِ تعالٰی(یعنی اور(اس سے)اللہ تعالیٰ کی پناہ)

مکرِشیطاں میں مت آؤ بھائیو! رخ پہ تم داڑھی سجاؤ بھائیو!

چھوڑو فیشن مان جاؤ بھائیو! خود کو دوزخ سے بچاؤ بھائیو!

بالیقیں دنیا بڑی ہے بیوفا اِس سے تم مت دل لگاؤ بھائیو!