’’اسلامی مہنے، نفل روزے، عید اور فضول باتوں سے بچنے کے مدنی پھول’’

’’ اسلامی مہینوں، نفل روزوں، عید اور فضول باتوں سے بچنے کے مدنی پھول ‘‘

(01): ’’ نفل روزے کے ۱۳ مدنی پھول ‘‘

(1)جنت کا انوکھا درخت:

جس نے ایک نفل روزہ رکھا اُس کیلئے جنت میں ایک دَرَخت لگا دیا جائے گا جس کا پھل اَنار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور خوش ذائِقہ ہوگا، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّبروزِ قیامت روزہ دار کو اُس دَرَخت کا پھل کھلا ئے گا۔ (مُعْجَم کَبِیْر ج۱۸ص۳۶۶حدیث۹۳۵)

(2)40 سال کا فاصِلہ دوزخ سے دُوری:

جس نے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے ایک نفْل روزہ رکھااللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُسے دوزخ سے چالیس سال (کی مسافت کے برابر) دُور فرمادے گا۔ (جَمعُ الجَوامع ج۷ص۱۹۰حدیث۲۲۲۵۱)

(3)دوزَخ سے 50 سال کی مسافت تک دُ وری:

جس نے رِضائے الٰہیعَزَّوَجَلَّکیلئے ایک دن کا نفل روزہ رکھا تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُسکے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوارکی پچاس سالہ مسافت(یعنی فاصلے) تک دور فرمادے گا۔(کَنز العُمّال ج۸ ص۲۵۵ حدیث ۲۴۱۴۹)

(4)زمین بھر سونے سے بھی زیادہ ثواب:

اگر کسی نے ایک دِن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونا اُسے دیا جائے جب بھی اِس کا ثواب پورا نہ ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دِن ملے گا۔ ( اَبو یَعْلٰی ج۵ص۳۵۳حدیث۶۱۰۴)

(5)جہنم سے بہت زیادہ دُوری:

جس نےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں ایک دن کا فرض روزہ رکھا، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا ساتوں زمینوں اور آسمانوں کے مابین (یعنی درمیان) فاصلہ ہے۔اور جس نے ایک دن کا نفل روزہ رکھااللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا زمین و آسمان کا درمیانی فاصِلہ ہے۔ (مَجْمَعُ الزَّوائِد ج۳ص۴۴۵حدیث۵۱۷۷)

6) کوا بچپن تا بڑھاپا اُڑتا رہے یہاں تک کہ:

جس نے ایک دن کا روزہاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا حاصل کرنے کیلئے رکھااللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا کہ ایک کوا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہوکرمرجائے۔( اَبو یَعْلٰی ج۱ ص۳۸۳ حدیث ۹۱۷)

(7) روزے جیسا کوئی عمل نہیں:

حضرتسیِّدُناابواُمامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجھے ایسا عمل بتایئے جس کے سبب جنت میں داخل ہو جاؤں ۔‘‘ فرمایا : ’’ روزے کو خود پر لازم کر لوکیونکہ اس کی مثل کوئی عمل نہیں ۔‘‘ راوی کہتے ہیں :’’ حضرتِ سیِّدُناابو اُمامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر دن کے وَقت مہمان کی آمد کے علاوہ کبھی دُھواں نہ دیکھا گیا( یعنی آپ دن کو کھانا کھاتے ہی نہ تھے روزہ رکھتے تھے)۔‘‘(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج ۵ص ۱۷۹حدیث ۳۴۱۶)

(8) روزہ رکھو تندرست ہو جاؤ گے:

صُوْمُوْا تَصِحُّوا۔یعنی روزہ رکھوتَندُرُست ہو جاؤ گے۔ (مُعْجَم اَوْسَط ج۶ص۱۴۶حدیث۸۳۱۲)

(9)محشر میں روزہ داروں کے مزے:

قیامت کے دن جب روزے دار قبروں سے نکلیں گے تو وہ روزے کی بو سے پہچانے جائیں گے،ان کے لئے دسترخوان لگایا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا:’’ کھاؤ !کل تم بھوکے تھے، پیو ! کل تم پیاسے تھے، آرام کرو!کل تم تھکے ہوئے تھے۔‘‘ پس وہ کھائیں گے پئیں گے اور آرام کریں گے حالانکہ لوگ حساب کی مَشَقَّت اور پیاس میں مُبتَلاہوں گے۔ (جَمْعُ الْجَوامِع ج۱ص۳۳۴حدیث۲۴۶۲)

(10)تو وہ جنت میں داخل ہو گا:

جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہتے ہوئے انتقال کر گیاتو وہ جنت میں داخل ہوگا۔اور جس نے کسی دِ ناللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے روزہ رکھا ، اسی پر اس کا خاتمہ ہوا تو وہ داخِلِ جنت ہوگا۔اورجس نےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے صَدَقہ کیا ، اسی پر اس کا خاتمہ ہوا تو وہ داخلِ جنت ہوگا۔ (مُسند امام احمد ج۹ ص۹۰حدیث۲۳۳۸۴)

(11)جب تک روزے دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے:

حضرت سَیِّدَتنا اُمِّ عمارَہ بنت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : سلطانِ دو جہان، شہنشاہِ کون و مکان، رحمتِ عالمیانصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے یہاں تشریف لائے، میں نے کھاناپیش کیا تو ارشاد فرمایا: ’’تم بھی کھاؤ!‘‘ میں نے عرض کی: ’’ میں روزے سے ہوں ۔‘‘ تو فرمایا: ’’ جب تک روزے دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے فرشتے اُس روزہ دار کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔‘‘ (تِرمذی ج۲ص۲۰۵حدیث۷۸۵ )

(12)ہڈ یاں تسبیح کرتی ہیں :

سرکارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرتِ بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ارشاد فرمایا:’’اے بلال!( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) آؤناشتہ کریں ۔ ‘‘ تو(حضرتِ سیِّدُنا) بِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:’’ میں روزے سے ہوں ۔‘‘تو رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ ہم اپنا رِزق کھا رہے ہیں اور بلال (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کا رِزق جنت میں بڑھ رہا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے بلال ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جتنی دیر تک روزہ دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اُس کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں ، اسے فرشتے دُعائیں دیتے ہیں ۔‘‘ ( ابنِ ماجہ ج۲ ص ۳۴۸ حدیث ۱۷۴۹)

’’جو روزے کی حالت میں مَرا ، اللّٰہ تَعَالٰی قِیامت تک کیلئے اُس کے حساب میں روزے لِکھ دے گا۔ ‘‘ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۳ ص۵۰۴حدیث ۵۵۵۷) (فیضانِ رمضان ص ۳۱۳ تا ۳۳۰)

(02): ’’ نفل روزے کے مختلف مدنی پھول ‘‘

ایامِ بیض کے روزے:

{۱}اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا حفصہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے رِوایت ہے،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چار چیزیں نہیں چھوڑتے تھے، عاشور۱ کا روزہ اور عشرئہ ذُوالْحِجَّہ کے روزے اور ہر مہینے میں تین۳ دن کے روزے اورفجر(کے فرض ) سے پہلے دو۲ رَکْعَتَیں (یعنی دوسُنَّتیں ) ۔ (نَسَائی ص۳۹۵ حدیث۲۴۱۳) حدیثِ پاک کے اس حصے’’ عشرئہ ذُوالْحِجَّہ کے روزے‘‘ سے مراد ذُوالْحِجَّہکے ابتدائی نو۹ دنوں کے روزے ہیں ،ورنہ دسذُوالْحِجَّہ کو روزہ رکھنا حرام ہے۔ (ماخوذ ازمراٰۃ المناجیح ج۳ ص۱۹۵) {۲} حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے رِوایت ہے کہ طبیبوں کے طبیب ، اللّٰہ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَیّامِ بِیْض میں بغیر روزہ کے نہ ہوتے نہ سفر میں نہ حضر(یعنی قیام) میں ۔ (نَسَائی ص۳۸۶ حدیث۲۳۴۲) {۳}اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رِوایت فرماتی ہیں : ’’انبیا کے سرتاج ، صاحبِ معراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک مہینے میں ہفتہ ، اتوار اور پیر کا جبکہ دوسرے ماہ منگل ، بدھ اور جُمعرات کا روزہ رکھا کرتے۔‘‘ (تِرْمِذِی ج۲ص۱۸۶حدیث۷۴۶)

ایامِ بیض کے روزوں کے بارے میں 5فرامین مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

{۱}’’ جس طرح تم میں سے کسی کے پاس لڑائی میں بچاؤ کے لئے ڈھال ہوتی ہے اسی طرح روزہ جہنَّم سے تمہاری ڈھال ہے اور ہر ماہ تین دن روزے رکھنا بہترین روزے ہیں ۔‘‘ (ابنِ خُزَیْمہ ج۳ص۳۰۱حدیث۲۱۲۵) {۲} ہر مہینے میں تین د ن کے روزے ایسے ہیں جیسے دَہر ( یعنی ہمیشہ) کے روزے۔ ( بخارِی ج۱ص۶۴۹حدیث۱۹۷۵){۳}رَمضان کے روزے اور ہر مہینے میں تین دن کے روزے سینے کی خرابی(یعنی جیسے نفاق)دُور کرتے ہیں ۔ (مُسنَد اِمَام اَحْمَد ج۹ص۳۶حدیث۲۳۱۳۲){۴}جس سے ہوسکے ہر مہینے میں تین روزے رکھے کہ ہر روزہ دس گناہ مٹاتا اور گناہ سے ایسا پاک کردیتا ہے جیسا پانی کپڑے کو۔(مُعْجَم کَبِیْر ج۲۵ص۳۵حدیث۶۰) {۵} جب مہینے میں تین روزے رکھنے ہوں تو 13،14اور15 کو رکھو۔ (نَسَائی ص۳۹۶حدیث۲۴۱۷)

مرنے کی دعائیں مانگتے تھے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ایّامِ بیض کے روزوں ، نیکیوں اور سنتوں کا ذِہن بنانے کیلئے تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کا مَدَنی ماحول اپنا لیجئے ،صرف دُور دُور سے دیکھنے سے بات نہیں بنے گی، سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر کیجئے ، رَمَضانُ الْمُبارَک کا اِجتماعی اعتکاف بھی فرمائیے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّوہ قلبی سکون میسر آئے گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔(فیضانِ رمضان ص ۳۵۹ تا ۳۶۰)

پیرشریف اور جمعرات کے روزوں کے متعلق 5 روایات

{۱}حضرتِ سَیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : پیر اور جُمعرات کو اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اُس وَقت پیش ہوکہ میں روزہ دار ہوں ۔ (تِرْمِذِی ج ۲ ص ۱۸۷ حدیث۷۴۷)تاکہ روزے کی برکت سے رحمتِ الٰہی کا دریا جوش مارے۔ ( مراٰۃ ج۳ ص ۱۸۸)

{۲}اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پِیر شریف اور جُمعرات کو روزے رکھا کرتے تھے، اِس کے بارے میں عرض کی گئی تو فرمایا : ان دونوں دنوں میں اللّٰہ تَعَالٰی ہر مسلمان کی مغفرت فرماتا ہے مگر وہ دو شخص جنہوں نے باہم(یعنی آپس میں ) جدائی کرلی ہے ان کی نسبت ملائکہ سے فرماتا ہے انہیں چھوڑدو یہاں تک کہ صلح کرلیں ۔ (ابنِ ماجہ ج۲ص۳۴۴حدیث۱۷۴۰)

مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت مراٰۃ جلد3 صفحہ196 پر فرماتے ہیں : سُبْحٰنَ اللہِ! یہ دونوں دن بڑی عظمت اور برکت والے ہیں کیوں نہ ہوں کہ انہیں عظمت والوں سے نسبت ہے، ’’جمعرا ت ‘‘تو جمعہ کا پڑوسی ہے اور حضرتِ آمنہ خاتون کے حاملہ ہونے کا دن ہے، اور’’ پیر‘‘ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کا دن بھی ہے اور نزولِ قراٰن کریم کا بھی۔

{۳}اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رِوایَت فرماتی ہیں :نبیوں کے سرتاج، صاحبِ معراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص خیال رکھتے تھے۔ (تِرْمِذِی ج۲ص۱۸۶حدیث۷۴۵)

{۴}حضرت سَیِّدُنا ابوقتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار ،رسولوں کے سالار، نبیوں کے سردار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پیر شریف کے روزے کا سبب دریافت کیاگیا تو فرمایا: اِسی میں میری وِلادت ہوئی، اِسی میں مجھ پر وَحی نازِل ہوئی ۔ (مُسلِم ص۵۹۱ حدیث۱۹۸۔۱۱۶۲)

{۵}حضرت سیِّدُنا اُسامہ بن زَید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے: فرماتے ہیں کہ سَیِّدُنا اُسامہ بن زَیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سفر میں بھی پیر اور جمعرات کا روزہ ترک نہیں فرماتے تھے۔میں نے ان کی بارگاہ میں عرض کی: کیا وجہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اِس بڑی عمر میں بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں ؟ فرمایا: رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔میں نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! کیا وجہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں ؟ تو ارشاد فرمایا: لوگوں کے اَعمال پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں ۔ (شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۹۲حدیث۳۸۵۹)

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’جَنَّت‘‘کے تین حُرُوف کی نسبت سے بدھ اور جمعرات کے روزوں کے 3 فضائل

{۱}حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللّٰہ ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے رِوایت ہے اللّٰہ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمنہ کے گلشن کے مہکتے پھول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ بشارت نشان ہے: جو بدھ اور جمعرات کے روزے رکھے اُس کے لئے جہنَّم سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔ (اَبو یَعْلٰی ج۵ص۱۱۵حدیث۵۶۱۰)

{۲}حضرتِ سَیِّدُنا مسلم بن عُبَیْدُ اللّٰہ قرشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والدمکرَّم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں یا تو خود عرض کی یا کسی اور نے دریافت کیا : یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہمیشہ روزہ رکھوں ؟ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش رہے، پھر دوسری مرتبہ عرض کی ،پھر خاموشی اختیار فرمائی ۔ تیسری بار پوچھنے پر اِستفسار فرمایاکہ روزے کے مُتَعَلِّقکس نے سوال کیا ؟ عرض کی، میں نے یا نبیَّ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! تو جواباً ارشاد فرمایا :بے شک تجھ پر تیرے گھر والوں کا حق ہے تو رَمضان اور اس سے متَّصل مہینے (شوال) اور ہر بدھ اور جمعرات کے روزے رکھ کہ اگر توایسا کرے گاتو گویا تو نے ہمیشہ کے روزے رکھے۔ (شُعَبُ الایمان ج۳ص۳۹۵حدیث۳۸۶۸)

{۳}فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’جس نے رَمضان ،شوال ،بدھ اور جُمعرات کا روزہ رکھا تو وہ داخلِ جنت ہوگا۔‘‘ (اَلسُّنَنُ الْکُبْریٰ لِلنَّسَائی ج۲ص۱۴۷حدیث۲۷۷۸)

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’مصطفٰے‘‘ کے پانچ حُرُوف کی نسبت سے پیر ’’کرم‘‘ کے تین حُرُوف کی نسبت سےبدھ، جمعرات اور جمعہ کے روزوں کے فضائل پرمشتمل 3 فرامین مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

{۱}جس نے بدھ ،جمعرات و جُمُعہ کا روزہ رکھا اللّٰہ تَعَالٰی اُس کیلئے جنت میں ایک مکان بنائے گا جس کا باہر کا حصّہ اندر سے دکھائی د ے گا اور اندر کا باہر سے۔ (مُعْجَمُ اَ وْسَط ج۱ص۸۷حدیث ۲۵۳)

{۲}جس نے بدھ، جمعرات و جُمُعہ کا روزہ رکھا اللّٰہ تَعَالٰی اُس کیلئے جنت میں موتی اور یاقوت و زَبرجد کا مَحَلبنائے گا اور اُس کیلئے دوزخ سے برائَ ت (یعنی آزادی) لکھ دی جائے گی۔ (شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۹۷حدیث۳۸۷۳)

{۳} جس نے بدھ، جمعرات و جُمُعہ کا روزہ رکھا پھر جُمُعہ کو تھوڑا یا زیادہ تصدق (یعنی خیرات) کرے تو جو گناہ کئے ہیں بخش دیئے جائیں گے اور ایسا ہوجا ئے گا جیسے اُس دِن کہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ (ایضاًحدیث۳۸۷۲)

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’جُمُعہ‘‘ کے حُرُوف کی نسبت سے جُمُعہ کے روزے کے متعلق4فرامین مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

{۱} ’’جس نے جُمُعہ کا روزہ رکھا تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّاسے آخرت کے دس دِنوں کے برابر اَجرعطا فرمائے گااور وہ ایام(اپنی مقدار میں ) اَیامِ دنیا کی طرح نہیں ہیں ۔‘‘ (شُعَبُ ا لْایمان ج ۳ ص ۳۹۳ حدیث ۳۸۶۲) فتاوٰی رضویہ جلد10صفحہ653پر ہے: روزۂ جمعہ یعنی جب اِس کے ساتھ پنج شنبہ یا شنبہ (یعنی جمعرات یا ہفتے کا روزہ) بھی شامل ہو مروی ہوا کہ دس ہزار برس کے روزوں کے برابر ہے۔

{۲} ’’جس نے جُمُعہ ادا کیا اوراِس دِن کا روزہ رکھا اور مریض کی عیادت کی اور جنازے کے ساتھ گیا اور نکاح میں حاضر ہوا تو اُس کیلئے جنت واجب ہوگئی ۔‘‘ (مُعْجَم کَبِیْر ج۸ص۹۷حدیث۷۴۸۴)

{۳}’’ جس نے روزے کی حالت میں یومِ جُمُعہکی صبح کی اور مریض کی عیادت کی اور جنازے کے ساتھ گیا اور صَدَقہ کیا تو اُس نے اپنے لئے جنت واجب کرلی۔ ‘‘(شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۹۳حدیث۳۸۶۴)

{۴} جس نے بروزِجُمُعہ روزہ رکھا اور مریض کی عیادت کی اور مِسکین کو کھانا کھلایا اور جنازے کے ہمراہ چلا تو اُسے چالیس سال کے گناہ لاحق نہ ہوں گے۔ (ایضاًص۳۹۴حدیث۳۸۶۵) حدیثِ پاک کے اس حصّے’’ اُسے چالیس سال کے گناہ لاحق نہ ہوں گے‘‘ سے مراد یا تو اُسے نیکی ہی کی توفیق ملے گی یا گناہ صادر ہوئے تو ایسی توبہ کی توفیق مل جائے گی جو اس کے گناہوں کو مٹا دے گی۔

حضرت سَیِّدُنا عبد اللّٰہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بَہُت کم جُمُعہ کا روزہ ترک فرماتے تھے۔ (اَیضاً) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس طرح عاشوراکے روزے کے پہلے یا بعد میں ایک روزہ رکھنا ہے اِسی طرح جُمُعہ میں بھی کرنا ہے ، کیوں کہ خصو صیت کے ساتھ تنہا جُمُعہ (اس مسئلے کا خلاصہ آگے آرہا ہے)یا صِرفہفتے کا روزہ رکھنا مکروہِ تَنزِیہی (یعنی ناپسندید ہ )ہے۔ہاں اگر کسی مخصوص تاریخ کو جُمُعہ یا ہفتہ آگیا توتنہا جُمُعہ یا ہفتے کا روزہ رکھنے میں کراہت نہیں ۔مَثَلاً 15شَعبا نُ الْمُعظَّم،27 رَجَبُ الْمُرجَّب وغیرہ۔

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’فَضل‘‘کے تین حُرُوف کی نسبت سے تنہا جمعہ کا روزہ رکھنے

کی ممانعت پر 3 فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ {۱} شبِ جُمُعہ کو دیگر راتوں میں شب بیداری کیلئے خاص نہ کرو اور نہ ہی یومِ جُمُعہ کو دیگر دنوں میں روزے کے ساتھ خاص کرو مگر یہ کہ تم ایسے روزے میں ہو جو تمہیں رکھنا ہو۔ (مُسلِم ص۵۷۶حدیث۱۱۴۴)

مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراٰۃ جلد 3 صفحہ 187 پر ’’شبِ جمعہ کو دیگر راتوں میں شب بیداری کیلئے خاص نہ کرو۔ ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی جمعہ کی رات میں عبادت کرنا منع نہیں ، بلکہ اور راتوں میں بالکل عبادت نہ کرنا مناسب نہیں کہ یہ غفلت کی دلیل ہے چونکہ جمعہ کی رات ہی زیادہ عظمت والی ہے ، اندیشہ تھا کہ لوگ اس کو نفلی عبادتوں سے خاص کرلیں گے اس لیے اسی رات کا نام لیا گیا۔

{۲}تم میں سے کوئی ہرگز جُمُعہ کاروزہ نہ رکھے مگر یہ کہ اس کے پہلے یا بعد میں ایک دن ملا لے۔ (بُخارِی ج۱ص۶۵۳حدیث۱۹۸۵)

{۳}جُمُعہ کا دِن تمہارے لئے عید ہے اِس دن روزہ مت رکھو مگر یہ کہ اس سے پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھو۔

(التَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۲ص۸۱حدیث۱۱)

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تنہا جُمُعہ کا روزہ نہ رکھنا چاہئے مگر یہ ممانعت صرف اُسی صورت میں ہے جبکہ خصوصیت کے ساتھ جمعہ ہی کا روزہ رکھا جائے اگر خصوصیَّت نہ ہو مَثَلاً جمعہ کے روز چھٹی تھی اِس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزہ رکھ لیا تو کراہت نہیں ۔ مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراٰۃ جلد 3 صفحہ 187 پر فرماتے ہیں : مَثَلاً کوئی شخص ہر گیارہویں یا بارہویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے اس دن جمعہ آجائے تو رکھ لے، اب خلافِ اولیٰ بھی نہیں ۔

روزۂ جمعہ کے متعلق ایک فتویٰ:

اِس ضمن میں فتاوٰی رضویہ (مُخَرَّجَہ) جلد 10 صَفحَہ 559 سے معلوماتی سُوال جواب ملاحظہ ہوں : سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اِس مسئلے میں کہ جمعہ کا روزۂ نفل رکھنا کیسا ہے؟ ایک شخص نے جمعہ کا روزہ رکھا دوسرے نے اُس سے کہا جمعہ عیدُ الْمؤمنین ہے ،روزہ رکھنا اس دن میں مکروہ ہے اور باصرار بعد دوپہر کے روزہ تڑوادیا اور کتاب ’’سِرُّالْقُلُوب‘‘ میں مکروہ ہونا لکھا ہے دکھلادیا۔ ایسی صورت میں روزہ توڑنے والے کے ذمے کفارہ ہے یا نہیں ؟ اورتڑوانے والے کوکوئی الزام ہے یانہیں ؟۔ الجواب:جمعہ کا روزہ خاص اس نیت سے (رکھنا) کہ آج جمعہ ہے اس کا روزہ بِالتَّخصیص(یعنی خصوصیت سے رکھنا) چاہئے ،مکروہ ہے، مگر نہ وہ کراہت کہ توڑنا لازم ہوا، اور اگر خاص بہ نیت تخصیص نہ تھی تو اصلاً کراہت بھی نہیں ، اُس دوسرے شخص کو اگر نیتِ مکروہہ پر اطلاع نہ تھی جب تواعتراض ہی سرے سے حماقت ہوا اور روزہ توڑوا دینا شرع پر سخت جرأت ،اور اگر اطلاع بھی ہوئی جب بھی مسئلہ بتا دینا کافی تھا نہ کہ روزہ تڑوانا اور وُہ بھی بعد دوپہر کے، جس کا اختیار نفل روزے میں والدین کے سوا کسی کو نہیں ، توڑنے والا اور تڑوانے والا دونوں گنہ گار ہوئے، توڑنے والے پر قضا لازم ہے کفارہ اصلاً (یعنی بالکل ) نہیں ۔ وَاللّٰہ تعالٰی اَعلَم۔

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ہفتہ اور اتوار کے روزے:

حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہے کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہفتے اور اتوار کا روزہ رکھا کرتے اور فرماتے: ’’یہ دونوں (یعنی ہفتہ اور اتوار)مشرکین کی عید کے دِن ہیں اور میں چاہتاہوں کہ ان کی مخالفت کروں ۔‘‘ (ابنِ خُزَیْمہ ج۳ص۳۱۸حدیث۲۱۶۷) تنہا ہفتے کا روزہ رکھنا منع ہے۔ چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللّٰہ بن بسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی بہن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے رِوایت کرتے ہیں کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہفتے کے دن کا روزہ فرض روزوں کے علاوہ مت رکھو۔‘‘ حضرتِ سَیِّدُنا امام ابو عیسٰی ترمذی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور یہاں ممانعت سے مراد کسی شخص کا ہفتے کے روزے کو خاص کرلینا ہے کہ یہودی اِس دن کی تعظیم کرتے ہیں ۔ (تِرْمِذِی ج۲ص۱۸۶حدیث۷۴۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’اے شہنشاہِ مدینہ‘‘کے تیرہ حُرُوف کی نسبت سے روزۂ نَفْل کے 13مَدَنی پھول

ماں باپ اگر بیٹے کو نفل روزے سے اِس لئے منع کریں کہ بیماری کا اندیشہ ہے تو والدین کی اطاعت کرے۔ (رَدُّالْمُحتارج۳ص۴۷۸)

شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۷۷)

نفل روزہ قصد اً شروع کرنے سے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے اگر توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔ (ایضاًص۴۷۳)

نفل روزہ جان بوجھ کر نہیں توڑا بلکہ بلا اختیار ٹوٹ گیا مَثَلاً عورت کوروزے کے دَوران حیض آگیا تو روزہ ٹوٹ گیا مگر قضا واجب ہے۔ (ایضاًص۴۷۴)

نفل روزہ بلاعذر توڑنا ،ناجائز ہے ۔مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اُسے یعنی مہمان کونا گوار گزرے گا ۔ یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کواَذِیت ہوگی تو نفل روزہ توڑنے کیلئے یہ عذر ہے بشرطیکہ یہ بھروساہو کہ اس کی قضا رکھ لیگااور یہ بھی شرط ہے کہ ضَحْوۂِ کُبْر یٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں ۔(دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحْتار ج ۳ ص۴۷۵-۴۷۶)

والدین کی ناراضی کے سبب عصر سے پہلے تک نفل روزہ توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔ (ایضاًص۴۷۷)

اگر کسی اسلامی بھائی نے دعوت کی تو ضَحْوۂِ کُبریٰسے قبل نفل روزہ توڑسکتا ہے مگر قضا واجب ہے۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۴۷۷،۴۷۳)

ملازِم یا مزدور اگرنفل روزہ رکھیں توکام پورا نہیں کرسکتے تو ’’مسْتاجر ‘‘(یعنی جس نے ملازَمت یا مزدوری پر رکھا ہے)کی اجازت ضروری ہے۔اور اگر کام پورا کرسکتے ہیں تواجازت کی ضرورت نہیں ۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص ۴۷۸)

طالبِ علمِ دین اگر نفل روزہ رکھتا ہے تو کمزوری ہوتی، نیند چڑھتی اور سستی کے سبب طلبِ علمِ دین میں رکاوٹ کھڑی ہوتی ہے تو افضل یہ ہے نفل روزہ نہ رکھے۔

حضرت سَیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھتے تھے۔اس طرح روزے رکھنا’’صَومِ داو‘دی ‘‘کہلاتا ہے اور ہمارے لئے یہ افضل ہے۔ جیسا کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’افضل روزہ میرے بھائی داوٗد(عَلَیْہِ السَّلام) کا روزہ ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دِ ن نہ رکھتے اور دشمن کے مقابلے سے فِرار نہ ہوتے تھے۔‘‘ ( تِرمذی ج۲ص۱۹۷حدیث۷۷۰)

حضرت سَیِّدُناسلیمان عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام تین۳ دن مہینے کے شروع میں ، تین۳ دن وَسط(یعنی بیچ )میں اور تین۳ دن آخر میں روزہ رکھا کرتے تھے اور اس طرح مہینے کے اَوائل، اَوَاسط اوراَواخر میں روزہ دار رہتے تھے۔(ابن عساکر ج۲۴ص۴۸)

صومِ دہر(یعنی ہمیشہ روزے رکھناسوا ان پانچ دنوں یعنی شوال کی یکم اور ذِی الحجہ کی دسویں تا تیرھویں کے جن میں روزہ رکھنا حرام ہے) مکروہِ تنزیہی ہے۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۳۹۱)

ہمیشہ روزہ رکھنا:

ہمیشہ کے روزوں سے ممانعت پر ’’بخاری شریف‘‘ کی یہ حدیث بھی ہے اور اس کا مفہوم بھی علما نے تاویل کے ساتھ بیان فرمایا ہے

چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الدَّہْرَ۔یعنی جو ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزے رکھے ہی نہیں ۔ (بُخاری ج۱ص۶۵۱حدیث۹۱۷۹)

شارِحِ بخاری حضرتِ علَّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیاِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : اگر اس خبر کو’’ نَہْی‘‘ کے معنی میں مانیں (یعنی اگر اس حدیث کا یہ معنیٰ لیں کہ ہمیشہ روزے رکھنا منع ہے اور جو رکھے گا تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا) تو (اس صورت میں حدیث کا)یہ ارشاد ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کا ظنِّ غالب ہو کہ اتنے کمزور ہوجائیں گے کہ جو حقوق ان پر واجب ہیں اُن کو ادا نہیں کر پائیں گے خواہ وہ حقوق دینی ہوں یا دُنْیوی، مَثَلاً نماز، جہاد، بچّوں کی پرورش کے لیے کمائی، اور (پہلی صورت سے ہٹ کر دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ)اگر مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے (اگر)ان (روزہ داروں )کا ظنِّ غالب ہو کہ حقوقِ واجبہ تو کما حَقُّہٗ (یعنی مکمَّل طور پر) ادا کرلیں گے مگر حقو قِ غیر واجبہ اد اکرنے کی قوت نہیں رہے گی، ان کے لیے روزہ مکروہ یا خلافِ اَولیٰ ہے اور جنہیں اس کا ظنِّ غالب ہو کہ صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ )رکھنے کے باوجود تمام حقوقِ واجبہ، مسنونہ، مُسْتَحبّہ کما حَقُّہٗ (یعنی مکمَّل طور پر) ادا کرلیں گے ان کے لیے کراہت بھی نہیں ۔ بعض صحابۂ کرام جیسے ابوطلحہ انصاری اور حمزہ بن عمرو اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ ) رکھتے تھے اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں منع نہیں فرمایا، اسی طرح بہت سے تابعین اور اولیائِ کرام سے بھی صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ ) رکھنا منقول ہے۔ [ اشعۃ اللمعات جلد ثانی ص ۱۰۰] (نزہۃ القاری ج۳ص۳۸۶ مُلَخّصاً)

شارِحِ بخاری حضرتِ علَّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیاِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : اگر اس خبر کو’’ نَہْی‘‘ کے معنی میں مانیں (یعنی اگر اس حدیث کا یہ معنیٰ لیں کہ ہمیشہ روزے رکھنا منع ہے اور جو رکھے گا تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا) تو (اس صورت میں حدیث کا)یہ ارشاد ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کا ظنِّ غالب ہو کہ اتنے کمزور ہوجائیں گے کہ جو حقوق ان پر واجب ہیں اُن کو ادا نہیں کر پائیں گے خواہ وہ حقوق دینی ہوں یا دُنْیوی، مَثَلاً نماز، جہاد، بچّوں کی پرورش کے لیے کمائی، اور (پہلی صورت سے ہٹ کر دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ)اگر مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے (اگر)ان (روزہ داروں )کا ظنِّ غالب ہو کہ حقوقِ واجبہ تو کما حَقُّہٗ (یعنی مکمَّل طور پر) ادا کرلیں گے مگر حقو قِ غیر واجبہ اد اکرنے کی قوت نہیں رہے گی، ان کے لیے روزہ مکروہ یا خلافِ اَولیٰ ہے اور جنہیں اس کا ظنِّ غالب ہو کہ صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ )رکھنے کے باوجود تمام حقوقِ واجبہ، مسنونہ، مُسْتَحبّہ کما حَقُّہٗ (یعنی مکمَّل طور پر) ادا کرلیں گے ان کے لیے کراہت بھی نہیں ۔ بعض صحابۂ کرام جیسے ابوطلحہ انصاری اور حمزہ بن عمرو اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ ) رکھتے تھے اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں منع نہیں فرمایا، اسی طرح بہت سے تابعین اور اولیائِ کرام سے بھی صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ ) رکھنا منقول ہے۔ [ اشعۃ اللمعات جلد ثانی ص ۱۰۰] (نزہۃ القاری ج۳ص۳۸۶ مُلَخّصاً)

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(03): ’’ عاشورہ کے فضائل و واقعات ‘‘

{۱}عاشورا (یعنی 10 محرَّمُ الْحرام) کے دن حضرتِ سیِّدُنا نوحعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری{۲} اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی لغزش کی توبہ قبول ہوئی {۳}اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونسعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی قوم کی توبہ قبول ہوئی{۴} اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پیدا ہوئے {۵}اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پیدا کئے گئے {۶} اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور اُن کی قوم کو نجات ملی اور فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا {۷} اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یوسفعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکو قید خانے سے رہائی ملی {۸} اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے {۹}سیِّدُنا امامِ حسین عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو مع شہزادگان و رُفقا تین دن بھوکا پیا سارکھنے کے بعد اِسی عاشورا کے روز دشتِ کربلا میں نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا۔

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’یاحُسَین‘‘ کے چھ حُرُوف کی نسبت سے مُحرَّمُ الحَرام اورعاشورا کے روزوں کے 6فضائل

’’یاحُسَین‘‘ کے چھ حُرُوف کی نسبت سے مُحرَّمُ الحَرام اورعاشورا کے روزوں کے 6فضائل

{۲}طبیبوں کے طبیب ، اللّٰہ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ رَحمت نشان ہے: مُحرَّم کے ہر دن کا روزہ ایک مہینے کے روزوں کے برابر ہے۔ (مُعجَم صغیر ج ۲ ص ۷۱)

یوم موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام:

{۳}حضرت سَیِّدُنا عبد اللّٰہ ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا ارشاد ِگرامی ہے ، رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب مدینۃُ الْمُنَوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں تشریف لائے، یہو د کو عاشورے کے دن روزہ دار پایا تو ارشاد فرمایا: یہ کیا دن ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟عر ض کی:یہ عظمت والا دن ہے کہ اِس میں موسیٰ عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اوراُن کی قوم کو اللّٰہ تَعَالٰی نے نجات دی اور فرعون اور اُس کی قوم کو ڈُبو دیا، لہٰذا موسٰیعَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بطورِشکرانہ اِس دن کا روزہ رکھا، تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں ۔ارشاد فرمایا : موسیٰعَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمہارے ہم زیادہ حق دار اور زیادہ قریب ہیں ۔ تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بھی روزہ رکھا اور اِس کا حکم بھی فرمایا۔ (مسلم ص۵۷۲حدیث۱۱۳۰) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ جس روزاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکوئی خاص نعمت عطا فرمائے اُس کی یادگار قائم کرنا دُرُست و محبوب ہے کہ اس طرح اُس نعمتِ عُظمٰی کی یاد تازہ ہوگی اوراُس کا شکر ادا کرنے کا سبب بھی ہوگا خود قراٰنِ عظیم میں ارشاد فرمایا : وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِؕ- (پ۱۳،ابرٰھیم:۵) ترجَمۂ کنزالایمان:اور انھیں اللّٰہ کے دن یاددلا۔ صدرُ الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ’’ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ‘‘ سے وہ دن مراد ہیں جن میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ا پنے بندوں پر انعام کئے جیسے کہ بنی اسرائیل کے لئے مَنّ و سَلْویٰ اُتارنے کا دن، حضر ت سیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن۔ ان اَیّام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سیِّدِ عا لمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وِلادت ومعراج کے دن ہیں ان کی یاد قائم کرنا بھی اِس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ (خزائنُ العِرفان ص۴۷۹مُلَخّصاً

عید میلاد النبی اور دعوتِ اسلامی:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سُلطانِ مدینۂ منوَّرہ ، شَہَنْشاہِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یوم ولادت سے بڑھ کرکون سا دن’’ یومِ اِنعام‘‘ ہوگا؟ بے شک تمام نعمتیں آپ ہی کے طفیل ہیں اورآپ کا یومِ ولادت تو عیدوں کی بھی عید ہے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کی طرف سے دنیا میں لاتعداد مقامات پر ہر سال عیدِ مِیلادُ النَّبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شاندار طریقے پر منائی جاتی ہے ۔ ربیع الاوّل شریف کی 12ویں شب کو عظیم ُ الشان اِجتماع میلاد کا اِنعقاد ہوتا ہے اور بِالخُصُوص میرے حسنِ ظن کے مطابق اُس رات دنیا کا سب سے بڑا’’ اجتماعِ میلاد ‘‘بابُ المدینہ کراچی میں منعقد ہوتا اور مدنی چینل پربراہِ راست(Live) ٹیلے کاسٹ کیا جاتا ہے۔ عید کے روز مرحبا یا مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دُھومیں مچاتے ہوئے بے شمار جلوسِ میلاد نکالے جاتے ہیں جن میں لاکھوں عاشقانِ رسول شریک ہوتے ہیں ۔

عید میلادُ النَّبی تو عید کی بھی عید ہے

با لیقیں ہے عید عیداں عیدِ میلاد النَّبی

عاشورا کا روزہ

{۴}سَیِّدُنا عبداللّٰہ ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں :’’میں نے سلطانِ دوجہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کسی دن کے روز ے کو اور دن پر فضیلت د ے کرجستجو (رغبت)فرماتے نہ دیکھا مگر یہ کہ عاشورے کا دن اور یہ کہ رَمضان کا مہینا۔‘‘( بُخارِی ج۱ص۶۵۷حدیث۲۰۰۶)

یہودیوں کی مخالفت کرو:

{۵}نبیِّ رَحمت ،شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: یومِ عاشورا کا روزہ رکھو اور اِس میں یہودیوں کی مخالفت کرو، اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک دن کا روزہ رکھو۔ (مُسْنَد اِمَام اَحْمَد ج۱ص۵۱۸ حدیث۲۱۵۴) عاشورے کا روزہ جب بھی رکھیں تو ساتھ ہی نویں ۹ یا گیارہویں ۱۱مُحرَّمُ الحرامکا روزہ بھی رکھ لینا بہتر ہے۔

{۶}حضرتِ سیِّدُنا ابوقتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ بخشش نشان ہے: مجھے اللّٰہ پر گمان ہے کہ عاشورے کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹادیتاہے۔ (مُسلِم ص۵۹۰حدیث۱۱۶۲)

سارا سال گھر میں برکت:

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 166 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ اسلامی زندگی‘‘ صَفْحَہ 131 پر مُفَسّرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں : مُحرَّم کی نو۹یں اور دسو۱۰یں کو روزہ رکھے تو بہت ثواب پائے گا ، بال بچوں کیلئے دسو۱۰یں مُحرَّمکو خوب اچھے اچھے کھانے پکائے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ سال بھر تک گھر میں بَرکت رہے گی۔بہتر ہے کہکھچڑا پکا کر حضرتِ شہید کربلا سیِّدُناامامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فاتحہ کرے بہت مجرب (یعنی فائدہ مند، مؤثِّر وآزمودہ) ہے۔ (اسلامی زندگی ص ۱۳۱)

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(04): ’’ رجب اور اس کے روزوں کے فضائل ‘‘

ایک جنتی نہر کا نام رجب ہے:

حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں ایک نہر ہے جسے ’’رجب‘‘ کہا جا تا ہے، وہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے ،تو جو کوئی رجب کا ایک روزہ رکھے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاسے اس نہر سے پلائے گا۔‘‘(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۷حدیث۳۸۰۰)

ایک روزے کی فضیلت:

حضرت علّامہ شیخ عبدالحق محدث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نقل کرتے ہیں کہ سلطانِ مدینہ، قرارِ قلبِ و سینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ باقرینہ ہے:ماہِ رجب حرمت والے مہینوں میں سے ہے، اور چھٹے آسمان کے دروازے پر اِس مہینے کے دن لکھے ہوئے ہیں ۔اگر کوئی شخص رجب میں ایک روزہ رکھے اور اُسے پرہیزگاری سے پورا کرے تو وہ دروازہ اور وہ(روزے والا)دن اس بندے کیلئےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّسے مغفِرت طلب کریں گے اور عرض کریں گے:’’یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!اِ س بندے کو بخش دے۔‘‘ اور اگر وہ شخص بغیر پرہیزگا ر ی کے روزہ گزارتا ہے تو پھر وہ دروازہ اور دن اُس کی بخشِش کی درخواست نہیں کرتے اور اُس شخص سے کہتے ہیں : ’’اے بندے !تیرے نفس نے تجھے دھوکا دیا۔‘‘ (مَاثَبَتَ بِالسُّنۃ ص۲۳۴،فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب لِلخَلّال ص ۵۶) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا کہ روزے کا مقصودِ اصلی تقویٰ اور پرہیز گاری اور اپنے اعضائِ بدن کو گناہوں سے بچانا ہے، اگر روزہ رکھنے کے باوجود بھی نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر بڑی محرومی کی بات ہے۔

کشتی نوح میں رجب کے روزے کی بہار:

حضرت سَیِّدُنااَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہرَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جس نے رجب کاایک روزہ رکھا تو وہ ایک سال کے روزے رکھنے والوں کی طرح ہوگا،جس نے سات روزے رکھے اُس پر جہنَّم کے ساتوں دروازے بند کرد ئیے جا ئیں گے ، جس نے آٹھ روزے رکھے اُس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے، جس نے دس روزے رکھے وہاللّٰہ عَزَّوَجَلَّسے جو کچھ مانگے گا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُسے عطا فرما ئے گااور جو کوئی پندرہ روزے رکھتا ہے تو آسمان سے ایک منادی ندا(یعنی اعلان کرنے والااعلان) کرتا ہے کہ تیرے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے پس تو ازسر نوعمل شروع کر کہ تیری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں ۔اور جو زائد کرے تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُسے زیادہ دے ۔اور’’ رَجب‘‘میں نوح (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)کشتی میں سوار ہوئے توخود بھی روزہ رکھا اور ہمراہیوں کو بھی روزے کا حکم دیا۔ان کی کشتی دس محرم تک چھ ماہ برسر سفر رہی۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۸حدیث۳۸۰۱)

سوسال کے روزوں کا ثواب:

ستّائیسویں رَجَبُ الْمُرَجَّب کی عظمتوں کے کیا کہنے !اِسی تاریخ میں ہمارے پیارے پیارے، میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معراج شریف کاعظیم الشان معجز ہ عطا ہوا۔(شَرحُ الزَّرقانی عَلَی المَواہِبِ اللَّدُنِّیۃ ج۸ص۱۸) 27ویں رَجب شریف کے روزے کی بڑی فضیلت ہے جیسا کہحضرت ِسیِّدُناسلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب ، دانائے غُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ ذِیشان ہے: ’’رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات قیام (عبادت)کرے تو گویا اُس نے سو سال کے روزے رکھے ، سو برس کی شب بیداری کی اور یہ رَجب کی ستائیس(ست۔تا۔ئیس) تاریخ ہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیْمَان ج۳ص۳۷۴حدیث ۳۸۱۱ )

27 ویں شب کے12 نوافل کی فضیلت:

حضرت سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہرَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے۔ جو اس میں بارہ رَکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رَکعت میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃ اورکوئی سی ایک سورت اور ہر دو رَکعت پر اَلتَّحِیّاتُ (درود ِ ابراھیم اور دعا) پڑھے اور بارہ پوری ہونے پر سلام پھیرے ، اس کے بعد100بار یہ پڑھے: سُبْحٰنَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاللہُ اَکْبَر ، اِستغفار 100 بار ،دُرُود شریف 100بارپڑھے اوراپنی دنیاوآخرت سے جس چیز کی چاہے دُعامانگے اور صبح کو روزہ رکھے تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّاس کی سب دُعائیں قَبو ل فرمائے سوائے اُس دُعا کے جوگناہ کے لئے ہو۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۷۴حدیث۳۸۱۲،فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ ص۶۴۸)

60 مہینوں کے روزوں کا ثواب

حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’جو کوئی ستّائیسویں رجب کا ر وزہ رکھے ، اللّٰہ تَعَالٰی اُس کیلئے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھے۔‘‘ (فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ص۱۰)

تو گویاسوسال کے روزے رکھے:

حضرت ِسیِّدُناسلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے : اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب ، دانائے غُیُوب،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ ذِیشان ہے:’’رَجَب میں ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قِیام (عبادت )کرے تو گویا اُس نے سو سال کے روزے رکھے اور یہ رَجَب کی ستائیس تاریخ ہے۔(شُعَبُ الایمان ج۳ ص۳۷۴ حدیث۳۸۱۱) (فیضانِ رمضان ص ۳۳۱ تا ۳۲۹)

(05): ’’ شعبان اور اس کے روزوں کے فضائل ‘‘

تعظیم رَمضان کے لیے شعبان کے روزے:

سرکار مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ،صاحِبِ مُعطّر پسینہ،باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: ’’رَمضان کے بعد سب سے افضل شعبان کے روزے ہیں ، تعظیمِ رَمضان کیلئے۔ ‘‘ ( شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۷۷حدیث۳۸۱۹)

آقا شعبان کے اکثر روزے رکھتے تھے:

بخاری شریف میں ہے:حضرتِ سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیتے اور فرمایا کرتے: اپنی اِستطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُس وَقت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اُکتا نہ جاؤ ۔ (بُخاری ج۱ ص۶۴۸ حدیث۱۹۷۰)

حدیث پاک کی شرح:

شارِحِ بخاری حضرتِ علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : مراد یہ ہے کہ شعبان میں اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے تَغْلِیباً (تَغ۔لی۔باً یعنی غلبے اور زِیادت کے لحاظ سے) کل (یعنی سارے مہینے کے روزے رکھنے) سے تعبیر کردیا ۔جیسے کہتے ہیں : ’’فلاں نے پوری رات عبادت کی‘‘ جب کہ اس نے رات میں کھانا بھی کھایا ہو اورضروریات سے فراغت بھی کی ہو، یہاں تَغْلِیباًاکثر کو ’’کل‘‘ کہہ دیا۔ مزید فرماتے ہیں : اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھے ۔البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رَمضان کے روزوں پر اثر پڑے گا،یہیمَحْمَل (مَح۔مَل یعنی مرادو مقصد) ہے ان احادیث(مَثَلاً ترمذی، حدیث 738 وغیرہ ) کا جن میں فرمایا گیا :’’ نصف(یعنی آدھے) شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو ۔‘‘ [ ترمذی حدیث۷۳۸] (نزہۃ القاری ج۳ص۳۷۷،۳۸۰ )

مرنے والوں کی فہرس بنانے کا مہینا:

حضرت سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں :تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے ۔ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی : یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! کیا سب مہینوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان کے روزے رکھنا ہے ؟ تو محبوبِ ربُّ العبادصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور مجھے یہ پسند ہے کہ میرا وَقتِ رُخصت آئے اور میں روزہ دار ہوں ۔ (اَبو یَعْلٰی ج۴ص۲۷۷حدیث۴۸۹۰ )

نفل روزوں کا پسندیدہ مہینا:

حضرت سیِّدُنا عبد اللّٰہ بن ابی قیسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے امُّ المؤمنین سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو فرماتے سنا: انبیا کے سرتاج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پسندیدہ مہینا شعبانُ المُعَظَّم تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے پھر اسے رَمَضانُ الْمبارَک سے ملادیتے۔ ( ابوداوٗد ج۲ص۴۷۶حدیث ۲۴۳۱)

لوگ اس سے غافل ہیں:

حضرت سَیِّدُنا اُسامہ بن زَید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’میں نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ !میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان میں (نفل) روزے رکھتے ہیں اِس طرح کسی بھی مہینے میں نہیں رکھتے!‘‘ فرمایا:رَجب اور رَمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے ،لوگ اِس سے غافل ہیں ،اِس میں لوگوں کے اَعمال اللّٰہ ربُّ العٰلَمین عَزَّوَجَلَّکی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اِس حال میں اُاٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں ۔ (نَسائی ص ۳۸۷ حدیث ۲۳۵۴)

طاقت کے مطابق عمل کیجئے:

اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہارِوایت فرماتی ہیں : رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرتے تھے کہ پورے شعبان کے ہی روزے رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے :’’ اپنی اِستطاعت کے مطابق عمل کروکہاللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُس وَقت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اُکتا نہ جاؤ،بے شک اُس کے نزدیک پسندیدہ (نفل) نماز وہ ہے کہ جس پر ہمیشگی اِختیار کی جائے اگرچہ کم ہو۔‘‘ تو جب آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوئی نَماز (نفل) پڑھتے تو اُس پر ہمیشگی اختیار فرماتے۔(بُخاری ج۱ص۶۴۸حدیث۱۹۷۰) (فیضانِ رمضان ص ۳۳۷ تا ۳۳۹)

نازُک فیصلے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!پندرہ شَعْبانُ الْمُعَظّم کی رات کتنی نازُک ہے! نہ جانے کس کی قِسْمت میں کیا لکھ دیا جائے! بعض اوقات بندہ غفلت میں پڑا رَہ جاتا ہے اور اُس کے بارے میں کچھ کا کچھ طے ہوچکا ہوتا ہے ۔’’ غُنْیَۃُ الطّالِبِین‘‘ میں ہے: ’’بہت سے کفن دُھل کر تیار رکھے ہوتے ہیں مگرکفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں ، کافی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی قبریں کھودی جاچکی ہوتی ہیں مگر اُن میں دَفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں ، بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ اُن کی موت کا وَقت قریب آچکا ہوتا ہے۔کئی مکانات کی تعمیر ات کا کام پورا ہو گیا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی ان کے مالکان کی زندگی کا وَقت بھی پورا ہوچکا ہوتا ہے۔‘‘ (غُنْیَۃُ الطّا لِبین ج۱ص۳۴۸ )

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

فائدے کی بات:

شبِ بَرَاءَ ت میں نامۂ اعمال تبدیل ہوتے ہیں لہٰذا ممکن ہو تو 14 شَعبانُ الْمُعَظَّم کوبھی روزہ رکھ لیا جائے تاکہ اَعمال نامے کے آخری دن میں بھی روزہ ہو۔14 شعبان کوعصر کی نمازباجماعت پڑھ کر وَہیں نفل اعتکاف کر لیا جائے اور نمازِ مغرب کے انتظار کی نیّت سے مسجِد ہی میں ٹھہرا جائے تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہو نے کے آخر ی لمحات میں مسجِد کی حاضری، اعتکاف اور انتظارِ نماز وغیرہ کا ثواب لکھا جائے ۔ بلکہ زہے نصیب! ساری ہی رات عبادت میں گزاری جائے۔

مغرب کے بعد چھ نوافل:

معمولات اولیا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام سے ہے کہ مغرب کے فرض وسنَّت وغیرہ کے بعد چھ رَکعت نفل(نَفْ۔لْ) دو دو رَکعت کر کے ادا کئے جائیں ۔ پہلی دو رَکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے: ’’یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے درازیِ عمر بالخیر عطا فرما۔‘‘دوسری دو رَکعتوں میں یہ نیت فرمایئے: ’’ یا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!ان دو رَکعتوں کی برکت سے بلاؤں سے میری حفاظت فرما۔‘‘ تیسری دو رَکعتوں کیلئے یہ نیت کیجئے: ’’ یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔‘‘ ان 6رَکعتوں میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہکے بعد جو چاہیں وہ سورَتیں پڑھ سکتے ہیں ، چاہیں توہر رَکعت (رَکْ ۔عَت) میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہکے بعد تین تین بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ لیجئے۔ ہر دو رَکعت کے بعداِکیس بار قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ (پوری سورت) یا ایک بار سورۂ یٰسٓشریف پڑھئے بلکہ ہو سکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک اسلامی بھائی بلند آواز سے یٰسٓشریف پڑھیں اور دوسرے خاموشی سے خوب کان لگا کر سنیں ۔ اس میں یہ خیال رہے کہ سننے والا اِس دَوران زَبان سے یٰسٓشریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے اور یہ مسئلہ خوب یاد رکھئے کہ جب قراٰنِ کریم بلند آواز سے پڑھا جائے تو جو لوگ سننے کیلئے حاضر ہیں اُن پر فرضِ عین ہے کہ چپ چاپ خوب کان لگا کر سنیں ۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ رات شروع ہوتے ہی ثواب کا اَنبار(اَمْ۔بار)لگ جائے گا۔ ہر بار یٰس شریف کے بعد’’ دُعائے نصف شعبان ‘‘بھی پڑھئے۔ (فیضانِ رمضان ص ۳۴۷ تا ۳۴۸)

(06): ’’ پندرہ شعبان ‘‘

پندرھویں شب میں تجلی:

اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے رِوایت ہے، تاجدارِ رِسالت ،سراپا رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ شعبان کی پندَرَہو۱۵یں شب میں تجلی فرماتا ہے ۔ اِستغفار (یعنی توبہ) کرنے والوں کو بخش دیتا اور طالب رَحمت پر رَحم فرماتا اور عداوت والوں کو جس حال پر ہیں اُسی پر چھوڑ د یتا ہے۔ ‘‘ (شُعَبُ الایمان ج۳ص۳۸۲حدیث۳۸۳۵)

عداوت والے کی شامت:

حضرتِ سَیِّدُنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے، سلطانِ مدینۂ منوَّرہ، شہنشاہِ مَکّۂ مُکرَّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’ شعبان کی پندرَھو۱۵یں شب میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور سب کوبخش دیتا ہے مگر کافر اور عداوت والے کو(نہیں بخشتا)۔‘‘ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حِبّان ج ۷ ص ۴۷۰ حدیث ۵۶۳۶)

ڈھیروں گناہگاروں کی مغفرت ہوتی ہے مگر

حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے رِوایت ہے، حضور سراپا نور، فیض گنجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) آئے اور کہا: یہ شَعبان کی پندرَہویں رات ہے، اس میں اللّٰہ تَعَالٰی جہنَّم سے اِتنوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگر کافراور عداوت والے اور رِشتہ کاٹنے والے اورکپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر رَحمت نہیں فرماتا۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۸۴ حدیث ۳۸۳۷)(حدیثِ پاک میں ’’ کپڑا لٹکانے والے‘‘ کا جو بیان ہے، اِس سے مراد وہ لو گ ہیں جو تکبُّر کے ساتھٹَخنوں کے نیچے تہبند یا پاجامہ یا پتلون یا ثوب یعنی لمبا عربی کرتاوغیرہ لٹکاتے ہیں ) کروڑوں حنبلیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللّٰہ اِبنِ عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے جورِوایت نقل کی اُس میں قاتل کا بھی ذِکر ہے ۔ (مُسندِ اِمام احمد ج۲ص۵۸۹حدیث ۶۶۵۳) حضرت سَیِّدُنا کثیربن مرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت ، سراپا رَحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ شعبان کی پندرَہویں شب میں تمام زمین والوں کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور عداوت والے کے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص۳۸۱ حدیث۳۸۳۰)

حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے رِوایت ہے، حضور سراپا نور، فیض گنجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) آئے اور کہا: یہ شَعبان کی پندرَہویں رات ہے، اس میں اللّٰہ تَعَالٰی جہنَّم سے اِتنوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگر کافراور عداوت والے اور رِشتہ کاٹنے والے اورکپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر رَحمت نہیں فرماتا۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۸۴ حدیث ۳۸۳۷)(حدیثِ پاک میں ’’ کپڑا لٹکانے والے‘‘ کا جو بیان ہے، اِس سے مراد وہ لو گ ہیں جو تکبُّر کے ساتھٹَخنوں کے نیچے تہبند یا پاجامہ یا پتلون یا ثوب یعنی لمبا عربی کرتاوغیرہ لٹکاتے ہیں ) کروڑوں حنبلیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللّٰہ اِبنِ عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے جورِوایت نقل کی اُس میں قاتل کا بھی ذِکر ہے ۔ (مُسندِ اِمام احمد ج۲ص۵۸۹حدیث ۶۶۵۳) حضرت سَیِّدُنا کثیربن مرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت ، سراپا رَحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ شعبان کی پندرَہویں شب میں تمام زمین والوں کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور عداوت والے کے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص۳۸۱ حدیث۳۸۳۰)

ہر خطا تو درگزر کر بیکس و مجبور کی

ہوالٰہی! مغفرت ہر بیکس و مجبور کی

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

محروم لوگ:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!شبِ بَرَائَ ت بے حد اَہم رات ہے، کسی صورت سے بھی اسے غفلت میں نہ گزارا جائے، اِس رات رَحمتوں کی خوب برسات ہوتی ہے۔ اِس مبارَک شب میں اللّٰہ تبارَک وَتعالیٰ ’’بنی کلب ‘ ‘ کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو جہنَّم سے آزاد فرماتا ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے: ’’قبیلۂِ بنی کلب ‘‘قبائلِ عرب میں سب سے زیادہ بکریاں پالتا تھا(1)۔‘‘آہ ! کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن پر شبِ بَرَائَ ت یعنی چھٹکارا پانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وَعید ہے۔حضرتِ سیِّدُنا امام بَیْہَقِی شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی’’فَضائِلُ الْاَوقات‘‘ میں نقل کرتے ہیں : رسولِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:چھ آدمیوں کی اس رات(یعنی شبِ براء ت میں ) بھی بخشش نہیں ہوگی: {۱}شراب کا عادی {۲}ماں باپ کا نافرمان {۳} زِناکا عادی {۴}قطع تعلق کرنے والا {۵}تصویر بنانے والا اور{۶}چغل خور۔ (فضائل الاوقات ج۱ص۱۳۰حدیث۲۷) اِسی طرح کاہن، جادوگر،تکبر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکانے والے اور کسی مسلمان سے بلااجازتِ شرعی بغض و کینہ رکھنے والے پر بھی اِس رات مغفرت کی سعادت سے محرومی کی وعید ہے،چنانچہ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ مُتَذَکَّرہ (یعنی بیان کردہ)گناہوں میں سے اگر مَعَاذَ اللہ کسی گناہ میں ملوث ہوں تو وہ بالخصوص اُس گناہ سے اور بالعموم ہر گناہ سے شبِ بَرَائَ ت کے آنے سے پہلے بلکہ آج اور ابھی سچی توبہ کرلیں ، اور اگربندوں کی حق تلفیاں کی ہیں توتوبہ کے ساتھ ساتھ ان کی معافی تلافی کی ترکیب بھی فرما لیں ۔

امامِ اہل سنت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا پیام تمام مسلمانوں کے نام:

میر ے آقا اعلی حضرت ، اِمامِ اَہْلِسُنّت، ولیِ نِعمت،عظیمُ الْبَرَکَت، عظیمُ الْمَرْتَبت،پروانۂِ شَمْعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِ سنّت ، ماحِیِ بِدعت، پیرِ طریقت، باعِثِ خَیْر وبَرَکت، حنفی مذہب کے عظیم عالِم و مفتی حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے اپنے ایک اِرادتمند (یعنی معتقد)کو شبِ برائَ ت سے قبل توبہ اور معافی تَلافی کے تعلق سے ایک مکتوب شریف ارسال فرمایا جو کہ اُس کی اِفادِیت کے پیش نظر حاضر خدمت ہے چنانچہ ’’ کُلِّیات مکاتیب رضا ‘‘ جلد اوّل صَفْحَہ 356 تا 357 پر ہے : شبِ برائَ ت قریب ہے، اِس رات تمام بندوں کے اَعمال حضرتِ عزت میں پیش ہوتے ہیں ۔ مولا عَزَّوَجَلَّ بطفیل حضورِ پر نور ،شافع یومُ النشور عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْم مسلمانوں کے ذُنوب (یعنی گناہ) معاف فرماتا ہے مگر چند ، ان میں وہ دو مسلمان جو باہم دُنیوی وجہ سے رَنْجِش رکھتے ہیں ، فرماتا ہے : ’’اِن کورہنے دو، جب تک آپس میں صلح نہ کرلیں ۔‘‘لہٰذا اہلِ سنت کو چاہئے کہحتَّی الْوَسْع قبلِ غروبِ آفتاب 14 شعبان باہم ایک دوسرے سے صفائی کر لیں ، ایک دوسرے کے حقوق ادا کردیں یا معاف کرالیں کہ بِاِذْنِہٖ تَعَالٰی حُقُوقُ الْعِباد سے صحائف اَعمال (یعنی اعمال نامے) خالی ہو کر بارگاہِ عزت میں پیش ہوں ۔حقوقِ مولیٰ تعالیٰ کے لئے توبۂ صادِقہ(یعنی سچی توبہ) کافی ہے۔ (حدیثِ پاک میں ہے:)اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ (یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں (ابن ماجہ حدیث۴۲۵۰)) ایسی حالت میں بِاِذْنِہٖ تَعَالٰیضرور اِس شب میں اُمید مغفرتِ تامہ(تامْ۔مَہْ یعنی مکمَّل مغفرت کی اُمید) ہے بشرطِ صحت عقیدہ۔(یعنی عقیدہ دُرُست ہونا شرط ہے)وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْم۔(اور وہ گناہ مٹانے والارحمت فرمانے والا ہے) یہ سب مصالحت اِخوان (یعنی بھائیوں میں صلح کروانا)و معافیِ حقوق بِحَمْدِہٖ تعالٰی یہاں سالہائے دراز (یعنی کافی برسوں ) سے جاری ہے، اُمیدہے کہ آپ بھی وہاں کے مسلمانوں میں اس کا اِجرا کرکے مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُھَا وَاَجْرُمَنْ عَمِلَ بِھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا یَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِ ہِمْ شَیٌٔ (یعنی جو اسلام میں اچھی راہ نکالے اُس کیلئے اِس کا ثواب ہے اور قیامت تک جو اس پر عمل کریں ان سب کا ثواب ہمیشہ اسکے نامۂ اعمال میں لکھا جائے بغیر اس کے کہ اُن کے ثوابوں میں کچھ کمی آئے ) کے مِصداق ہوں اور اِس فقیر کیلئے عفو وعافیتِ دارَین کی دُعا فرمائیں ۔فقیر آپ کے لئے دُعا کرتا ہے اور کرے گا۔ سب مسلمانوں کو سمجھادیا جائے کہ وَہاں (یعنی بارگاہِ الٰہی میں )نہ خالی زَبان دیکھی جاتی ہے نہ نفاق پسند ہے،صلح ومعافی سب سچّے دل سے ہو۔ وَالسَّلام۔ فقیراحمد رضا قادِری عُفِیَ عَنْہُ، از:بریلی

شب براء ت کی تعظیم:

شامی تابعین رَحمَہُمُ اللہُ الْمُبِینشبِ بَرائَ ت کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس میں خوب عبادت بجا لاتے، انہی سے دیگر مسلمانوں نے اس رات کی تعظیم سیکھی ۔ بعض علماء ِ شام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے فرمایا: شبِ براء َت میں مسجِد کے اندر اجتماعی عبادت کرنا مستحب ہے، حضرت سیِّدانا خالد ولقمان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما اور دیگر تابعین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام اس رات ( کی تعظیم کیلئے) بہترین کپڑے زَیب تن فرماتے ، سرمہ اور خوشبو لگاتے ، مسجد میں (نفل) نماز یں ادا فرماتے۔ ( لطائف المعارف ص ۲۶۳)

بھلائیوں والی چار راتیں :

اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : میں نے نبی کریم، رء وفٌ رَّحیم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْم کو فرماتے سنا : اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ (خاص طور پر)چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے: {۱}بقر عید کی رات{۲}عیدالفطر کی (چاند)رات {۳} شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رِزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں {۴} عرفے کی (یعنی 8اور9 ذُوالحجّہ کی درمیانی) رات اذانِ (فجر) تک۔ (تفسیردُرِّمَنثورج۷ص۴۰۲)

دولہا کا نام مُردوں کی فہرس میں !:

سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے :’’(لوگوں کی) زندگیاں ایک شعبان سے دوسرے شعبان میں مُنْقَطِع ہوتی ہیں حتی کہ ایک آدمی نکاح کرتا ہے اور اس کی اولاد ہوتی ہے حالانکہ اس کا نام مردوں میں لکھا ہوتا ہے۔‘‘ (کَنْزُ الْعُمّال ج۱۵ص۲۹۲حدیث۴۲۷۷۳)

تو خوشی کے پھول لے گا کب تلک!

تو یہاں زندہ رہے گا کب تلک!

مکان بنانے والا مردوں کی فہرس میں :

حضرت سیِّدُناامام ابنِ ابی الدنیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حضرتِ سیّدُنا عطا بن یسار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسے روایت کرتے ہیں کہ جب نصف شعبان کی رات (یعنی شبِ بَرَائَ ت) آتی ہے تو ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو ایک صَحِیفَہ (صَ۔ حِیْ۔ فَہ یعنی رِسالہ) دیا جاتا اور کہا جاتا ہے : یہ صَحِیفَہ پکڑ لو ، ایک بندہ بستر پر لیٹا ہوگا اور عورَتوں سے نکاح کرے گا اور گھر بنائے گا جبکہ اس کا نام مردوں میں لکھا جاچکا ہوگا ۔ (تفسیرِ دُرِّمنثورج۷ص۴۰۲)

سال بھر کے معاملات کی تقسیم:

حضرتسیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :’’ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ مردوں میں اُٹھایا ہوا ہوتا ہے ۔ ‘‘ پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پارہ 25 سُوْرَۃُ الدُّخَان کی آیت نمبر 3 اور 4 تلاوت کی : اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ(۳)فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴) ترجَمۂ کنزالایمان : بے شک ہم نے اسے بَرَکت والی رات میں اُتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں ۔ اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ پھر فرمایا : اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے مُعامَلات کی تقسیم کی جاتی ہے ۔ (تفسیرِطَبَری ج۱۱ص۲۲۳) مُفَسِّرِشہیر ،حکیمُ الْاُمَّت، حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانمذکورہ آیاتِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’اِس رات سے مراد یا شبِ قَدر ہے ستائیسو۲۷یں رات یا شبِ بَراءَت پندرھو۱۵یں شعبان، اس رات میں پورا قراٰن لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیاکی طرف اُتارا گیا پھر وہاں سے تیئس۲۳ سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اُترا۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس رات میں قراٰن اُترا وہ مبارَک ہے، تو جس رات میں صاحبِ قراٰنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا میں تشریف لائے وہ بھی مبارَک ہے۔ اس رات میں سال بھر کے رِزق، موت، زندگی، عزت و ذلت، غرض تمام انتِظامی اُمور لوحِ محفوظ سے فرشتوں کے صَحِیفوں میں نقل کر کے ہر صَحِیفَہ (یعنی رسالہ ) اس محکمے کے فرشتوں کو دے دیا جاتا ہے جیسے ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو تمام مرنے والوں کی فہرست وغیرہ۔‘‘ (نورُالعِرفان ص۷۹۰) (فیضانِ رمضان ص ۳۴۱ تا ۳۴۷)

(07): ’’ شش عید کے روزے ‘‘

نومولود کی طرح گناہوں سے پاک:

{۱}’’جس نے رَمَضان کے روزے رکھے پھر چھ دن شَوّال میں رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔‘‘ (مَجْمَعُ الزَّوَائِد ج۳ص۴۲۵حدیث۵۱۰۲)

گویا عمر بھر کا روزہ رکھا:

{۲}’’جس نے رَمَضان کے روزے رکھے پھران کے بعد چھ دن شوال میں رکھے، توایسا ہے جیسے دَہْر کا (یعنی عمر بھرکیلئے)روزہ رکھا۔‘‘ (مُسلِم ص۵۹۲حدیث۱۱۶۴)

سال بھر روزے رکّھے:

{۳} ’’جس نے عیدُالْفِطْر کے بعد(شوال میں ) چھ روزے رکھ لئے تو اُس نے پورے سال کے روزے رکھے کہ جو ایک نیکی لائے گا اُسے دس ملیں گی۔ تو ماہِ رمضان کا روزہ دس مہینے کے برابر ہے اور ان چھ دنوں کے بدلے میں دومہینے تو پورے سال کے روزے ہوگئے۔‘‘ (اَلسّنَنُ الکُبریلِلنَسائی ج۲ ص۱۶۲،۱۶۳حدیث۲۸۶۰،۲۸۶۱)

شش عید کے روزے کب رکھے جائیں ؟:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی’’ بہار شریعت‘‘ کے حاشیے میں فرماتے ہیں : ’’بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق (مُ۔تَ۔فَر۔رِق یعنی جدا جدا)رکھے جائیں اور عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ رکھ لیے، جب بھی حرج نہیں ۔‘‘ (دُرِّمُختارج۳ ص۴۸۵،بہارِ شریعت ج۱ص۱۰۱۰) خلیلِ ملّت حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد خلیل خان قادِری برکاتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیفرماتے ہیں : یہ روزے عید کے بعد لگاتار رکھے جائیں تب بھی مضایقہ نہیں اور بہتر یہ ہے کہ مُتَفَرِّق (یعنی جدا جدا ) رکھے جائیں یعنی(جیسے) ہر ہفتے میں دو روزے اور عید الفطر کے دوسرے روز ایک روزہ رکھ لے اور پورے ماہ میں رکھے تو اوربھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ (سنی بہشتی زیور ص۳۴۷) اَلْغَرَض عیدُ الْفِطْرکا دن چھوڑ کر سارے مہینے میں جب چاہیں شش عید کے روزے رکھ سکتے ہیں ۔

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(08): ’’ ذوالحجۃ کے مدنی پھول ‘‘

{۱}’’ان دس دنوں سے زیادہ کسی دن کا نیک عملاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو محبوب نہیں ۔‘‘ صحا بۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور نہ راہِ خداعَزَّوَجَلَّمیں جہاد ؟ ‘‘فرمایا : ’’اور نہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں جہاد ،مگر وہ کہ اپنے جا ن ومال لے کر نکلے پھر ان میں سے کچھ واپس نہ لائے۔‘‘ (یعنی صرف وہ مجاہد افضل ہوگاجو جان ومال قربان کرنے میں کامیاب ہوگیا) (بُخارِی ج۱ص۳۳۳حدیث۹۶۹)

{۲}’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو عَشَرَۂ ذُوالْحجَّہسے زیادہ کسی دن میں اپنی عبادت کیا جانا پسندیدہ نہیں اِس کے ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہرشب کاقیام شبِ قدر کے برابر ہے۔‘‘ ( تِرْمِذِی ج۲ص۱۹۲حدیث۷۵۸)

{۳}’’مجھے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّپر گمان ہے کہ عرفہ (یعنی9 ذُو الحِجَّۃِ الْحرام) کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعدکے گناہ مٹادیتا ہے۔‘‘ ( مُسلِم ص۵۹۰حدیث۱۱۶۲)

{۴} عرفہ ( یعنی ۹ ذوالحِجَّۃِ الحرام) کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے۔(شُعَبُ الْاِیْمَان ج۳ ص۳۵۷حدیث۳۷۶۴) (مگر عرفات میں حاجی کو عرفے کا روزہ مکروہ ہے،) حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرماتے ہیں : سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عر فے کے دِن ( یعنی ۹ ذُوالحِجَّۃِ الحرامکے روزحاجی کو ) عرفات میں روزہ ر کھنے سے منع فرمایا۔ ( ابْنُ خُزَیْمَۃ ج۳ص۲۹۲حدیث۲۱۰۱)

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(09): ’’ عید کے دن کے ۲۰ مدنی پھول ‘‘

عید کے دِن یہ اُمُور مُسْتَحَب ہیں : حجامت بنوانا(مگر زُلفیں بنوایئے نہ کہ اَنگریزی بال)ناخن ترشوانا غسل کرنا مسواک کرنا(یہ اُس کے علاوہ ہے جو وُضو میں کی جاتی ہے ) اچھے کپڑے پہننا ، نئے ہوں تو نئے ورنہ دُھلے ہوئی خوشبو لگانا انگوٹھی پہننا (جب کبھی انگوٹھی پہنئے تو اِس بات کا خاص خیال رکھئے کہ صِرف ساڑھے چار ماشے( یعنی چار گرام 374ملی گرام)سے کم وَزن چاندی کی ایک ہی انگوٹھی پہنئے ، ایک سے زیادہ نہ پہنئے اور اُس ایک انگوٹھی میں بھی نگینہ ایک ہی ہو، ایک سے زیادہ نگینے نہ ہوں ، بغیر نگینے کی بھی مت پہنئے، نگینے کے وَزن کی کوئی قید نہیں ، چاند ی کا چھلا یا چاندی کے بیان کردہ وَزن وغیرہ کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی یا چھلا مرد نہیں پہن سکتا) نَمازِ فَجْر مسجِد محلہ میں پڑھنا عیدُ الْفِطْر کی نَماز کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھا لینا، تین ، پانچ ، سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں ۔کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھا لے۔ اگر نَماز سے پہلے کچھ بھی نہ کھایا تو گناہ نہ ہوا مگر عشا تک نہ کھایا تو عتاب (یعنی ملامت) کیا جائے گا نَمازِ عید ، عیدگاہ میں ادا کرنا عید گاہ پیدل چلناسواری پر بھی جانے میں حرج نہیں مگر جس کو پیدل جانے پرقدرت ہو اُس کیلئے پیدل جانا اَفضل ہے اور واپسی پر سُواری پر آنے میں حرج نہیں نَمازِ عید کیلئے عید گاہ جلد چلے جانا اور ایک راستے سے جانا اوردوسرے راستے سے واپس آناعید کی نماز سے پہلے صَدَقَۂ فِطر ادا کرنا خوشی ظاہرکرناکثرت سے صَدَقہ دینا عید گاہ کو اِطمینان و وَقار اور نیچی نگاہ کئے جاناآپس میں مبارک باد دینا بعدنماز عید مصافحہ ( یعنی ہاتھ ملانا) اور معانقہ (یعنی گلے ملنا) جیسا کہ عموماً مسلمانوں میں رائج ہے بہتر ہے کہ اِس میں اِظہارِمسرت ہے، مگر اَمْرَد (یعنی خوبصورت لڑکے) سے گلے ملنا مَحَلِّ فِتنہ ہی عِیدُ الْفِطْر کی نماز کیلئے جاتے ہوئے راستے میں آہستہ سے تکبیر کہئے اورنمازِ عید اَضحٰی کیلئے جاتے ہوئے راستے میں بلند آواز سے تکبیر کہئے۔ تکبیریہ ہے: اَللہُ اَکْبَرُ ؕ اَللہُ اَکْبَرُ ؕ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ ؕ اَللہُ اَکْبَر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ؕ۔ ترجمہ :اللّٰہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے ،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّہی کے لئے تمام خوبیاں ہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹تا۷۸۱، عالمگیری ج۱ص۱۴۹،۱۵۰ وغیرہ

بقر عید کا ایک مستحب:

عیدِ اَضْحٰی ( یعنی بقر عید) تمام اَحکام میں عیدُ الْفِطْر ( یعنی میٹھی عید) کی طرح ہے۔ صِرف بعض باتوں میں فَرق ہے، مَثَلاً اِس میں ( یعنی بَقَر عید میں ) مُسْتَحَب یہ ہے کہ نَماز سے پہلے کچھ نہ کھائے چاہے قُربانی کرے یا نہ کرے اور اگر کھا لیا تو کراہت بھی نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ ص۱۵۲) (فیضانِ رمضان ص ۳۰۵ تا ۳۰۶)

(10): ’’ تکبیر تشریق کے 8مدنی پھول ‘‘

نویں ذوالحجۃ الحرامکی فَجر سے تیرھویں کی عصر تک پانچوں وقت کی فرض نمازیں جو مسجد کی جماعتِ مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئیں ان میں ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب ہے اور تین بار افضل اسے تکبیرِ تشریق کہتے ہیں۔اور وہ یہ ہے: اللہُ اَکْبَرُُ ط اللہ ُاَکْبَرُط لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ ط اللہُ اَکْبَرُط وَلِلّٰہِ الْحَمْد (بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹تا۷۸۵، تَنوِیرُ الْاَبصار ج۳ص۷۱) تکبیرِ تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراًکہنا واجِب ہے ۔ یعنی جب تک کوئی ایسافِعل نہ کیا ہو کہ اُس پر نَماز کی بِنا نہ کر سکے مَثَلاًاگر مسجِدسے باہَر ہو گیا یاقَصداً وضو توڑ دیا یا چاہے بھُول کر ہی کلام کیا تو تکبیر ساقِط ہو گئی اوربِلاقَصد وُضو ٹوٹ گیا تو کہہ لے۔ (دُرِّمُتار ورَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۳ دارالمعرفۃ بیروت) تکبیرِ تشریق اُس پر واجِب ہے جو شہر میں مُقیم ہو یا جس نے اِس مقیم کی اِقتِدا کی۔ وہ اِقتِدا کرنے والا چاہے مسافِر ہو یا گاؤں کا رَہنے والا اور اگر اس کی اِقتِدا نہ کریں تو ان پر (یعنی مسافر اور گاؤں کے رَہنے والے پر) واجِب نہیں۔ (دُرِّمُتار ج۳ص۷۴) مُقیم نے اگر مسافر کی اِقتِدا کی تو مُقیم پر واجِب ہے اگرچِہ اس مسافر امام پر واجِب نہیں۔ (دُرِّمُتار ورَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۴) نَفل، سنّت اور وِتر کے بعد تکبیر واجِب نہیں۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۵،رَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۳) جُمُعہکے بعد واجِب ہے اورنَمازِ ( بَقَر)عید کے بعد بھی کہہ لے۔ (اَیْضاً) مَسبُوق ( جس کی ایک یا زائد رَکْعَتیں فوت ہوئی ہوں ) پر تکبیر واجِب ہے مگر جب ود سلام پھیرے اُس وقت کہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۶) مُنفرد( یعنی تنہا نَماز پڑھنے والے ) پر واجِب نہیں (اَلْجَوْہَرَۃُ النَّیِّرَۃ ص۱۲۲) مگر کہہ لے کہ صاحبین( یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی)کے نزدیک اس پر بھی واجِب ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۶)(فیضانِ عید ص ۸ تا ۹)

(12): ’’ فضول ‘‘

فُضُول بات کی تعریف

بات کرنے میں جہاں ایک لفظ سے کام چل سکتا ہو وہاں مزید دوسرا لفظ بھی شامل کیا تو یہ دوسرا لَفظ'' فُضُول ''ہے۔چُنانچِہ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد غَزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی ''اِحیاءُ الْعُلُوم'' میں فرماتے ہیں:اگر ایک کلمے ( یعنی لفظ) سے اِس (بات کرنے والے) کا مقصود حاصِل ہو سکتا ہو اور وہ دو کلمے استِعمال کرے تودوسرا کلمہ فُضُول ہو گا۔ یعنی حاجت سے زیادہ ہو گا اور جو لفظ حاجت سے زائد ہے وہ مذموم ہے۔ (اِحْیاءُ الْعُلُوم ج۳ ص۱۴۱) اگر ایک لفظ سے مقصود حاصِل نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں دویا حسبِ ضَرورت جتنے بھی الفاظ بولے گئے وہ فُضُول نہیں۔بَہر حال فُضُول بات اُس کلام کو کہا جائے گا جو بے فائدہ ہو۔ ضَرورت ، حاجت یا مَنفَعَت ان تینوں دَرجوں میں سے کسی بھی '' دَرَجے'' کے مطابِق جو بات کی گئی وہ فُضُول نہیں اور بعض اوقات زینت کے دَرَجے میں کی جانے والی گفتگو بھی فُضُول نہیں ہوتی مَثَلاًاَشعار، بیان یا مضمون میں تحسینِ کلام (یعنی بات میں حُسن پیدا کرنے )کیلئے حسبِ ضَرورت مُقَفّٰی و مَسَجَّع (یعنی قافیے دار) الفاظ استِعمال کئے جاتے ہیں یہ بھی فُضُول نہیں کہلاتے ۔ کبھی ماطَب (یعنی جس سے بات کی جارہی ہے اُس کے) تَفَہُّم ( تَ۔فَہْ۔ہُم)یعنی سمجھنے کی صلاحیّت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بھی ضَرورتاً الفاظ کی کمی اور زیادَتی کی صورت بنتی ہے ۔ جو کہ فُضُول نہیں تَفْہِیم (تَفْ۔ہِیم) یعنی سمجھانے کے اعتِبار سے لوگوں کی تین قِسمیں کی جا سکتی ہیں(1) انتہائی ذِہین(2) مُتَوَسِّط یعنی درمیانے دَرَجے کا ذِہین (3) غَبی یعنی کُند ذِہن۔ جو'' اِنتہائی ذِہین'' ہو تا ہے وہ بعض اوقات صِرف ایک لفظ میں بات کی تہ تک جا پہنچتا ہے جبکہ درمیانے دَرَجے کی سمجھ رکھنے والے کو بِغیر ُلاصے کے سمجھنا دُشوار ہوتا ہے ، رہا کُندذِہن تو اس کو بَسا اوقات دس بار سمجھایا جائے تب بھی کچھ پلّے نہیں پڑتا ۔ مُاطَبِین کی اِس تقسیم کے مطابِق یہ بات ذِہن نشین فرما لیجئے کہ جو ایک لَفظ میں بات سمجھ گیا اُس کو اگر اُسی بات کیلئے دوسرا لفظ بھی کہا تو یہ دوسرا لفظ فُضُول قرار پائے گا، اِسی طرح درمِیانی عَقل والا اگر 12الفاظ میں سمجھ پاتا ہے تو اُس کے سمجھ جانے کے باوُجُوداُسی بات کا 13واں یا اِس سے زائد جو لفظ بِلامَصلحت بولا گیا وہ فُضُول ٹھہرے گا اور رہا کُند ذِہن کہ اگر 100الفاظ کے بِغیر بات اِس کے ذِہن میں نہیں بیٹھتی تو یہ 100 الفاظ بھی چُونکہ ضَرورت کی وجہ سے بولے گئے لہٰذا فُضُول گوئی نہیں کہلائیں گے۔ بَہرحال جتنے الفاظ میں مقصود حاصِل ہو جاتا ہے اُس سے اگر ایک لَفظ بھی زائِد بولا گیا تو وہ فُضُول ہے۔ ہاں وہ کلام جو کہ جائز حق ہے مگر بے فائدہ ہے اُس کا'' ایک لفظ'' بولنا بھی فُضُول ہی ٹھہرے گا اوراگر وہ بات ناجائز ہے تو اس کا''ایک لفظ '' بولنا بھی ناجائز و گناہ قرار پائیگا۔

جو اللہ و آرت پر ایمان رکھتا ہو

یہ تفصیل سُن کر ہو سکتا ہے کہ ذہن میں آئے کہ فُضُول بات سے بچنا بے حد دُشوار ہے۔ ہمّت مت ہاریئے، کوشِش جاری رکھئے زبان کا قفلِ مدینہ لگانے(یعنی اموشی) لگانے کی عادت بنانے کیلئے ممکنہ صورت میں کچھ نہ کچھ اشارے سے یا لکھ کر بات کرنے کی ترکیب بنایئے کہ نیّت صاف منزل آسان۔ مَقولہ ہے: اَلسَّعْیُ مِنّیْ وَالاْتْمَامُ مِنَ اللہ یعنی کوشش کرنا میرا کام اور پورا کرنے والا اللہ عزوجل ہے۔اموشی کی عادت بنانے کیلئے باری شریف کی حدیثِ پاک کو حِفظ کر لیجئے اِن شاءَ اللہ عزوجل کافی سَہولت رہے گی۔وہ حدیثِ مبارکہ یہ ہے :مدینے کے سلطان ،سرکارِ دو جہان،رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ''جو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور آِرت پر ایمان رکھتا ہو اُسے چاہئے کہ بھلائی کی بات کرے یا اموش رہے۔'' (صَحِیحُ البُارِیّ ج۴ ص۱۰۵حدیث ۶۰۱۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت) (اموش شہزادہ ص۳۶ تا ۴۰)

(11): ’’ فضول باتوں کی مثالیں ‘‘

فُضُول جملوں کی14 مثالیں

افسوس صدا فسوس! آج کل اچّھی صحبتیں کمیاب ہیں۔ کئی اچھے نظر آنے والے بھی بد قسمتی سے بھلائی کی باتیں کرنے کے بجائے فُضُول باتوں میں مشغول نظر آرہے ہیں۔ کاش! ہم صرف ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ ہی کی اطر لوگو ں سے ملاقات کریں اور ہماراملنا صِرف ضَرورت کی بات کرنے کی حد تک ہو۔ یاد رہے !''بے فائدہ باتوں میں مصروف ہونایا فائدہ مند گفتگو میں ضرورت سے زیادہ الفاظ ملا لینا حرام یا گناہ نہیں البتّہ اسے چھوڑنا بَہُت بہتر ہے۔'' ( اِحْیاءُ الْعُلُوم ج ۳ ص ۱۴۳ دار صادر بیروت ) غیرضَروری باتیں کرتے کرتے '' گناہوں بھری '' باتوں میں جا پڑنے کا قوی امکان رہتا ہے لہٰذا اموشی ہی میں بھلائی ہے۔ ہمارے مُعاشرے میں آج کل بِلا حاجت ایسے ایسے سُوالات بھی کئے جاتے ہیں کہ سامنے والا شرمندہ ہو جاتا ہے اور اگر جواب میں احتیاط سے کام نہ لے تو جھوٹ کے گناہ میں بھی پڑ سکتا ہے۔ بسا اوقات اِس طرح کے سُوالات ضرورتاً بھی کئے جاتے ہیں اگر ایسا ہے تو فُضُول نہ ہوئے۔ اس طرح کے سُوالات کی مثالیں پیشِ دمت ہیں اگر ضرورت ہے توٹھیک اور اِس کے بِغیر کام چل سکتا ہے تو مسلمانوں کو شرمندَگی یا گناہوں کے َدشات سے بچایئے۔مَثَلاً(1)ہاں بھئی کیا ہو رہا ہے ! (2)یار! آج کل دُعا وُعا نہیں کرتے! (3)ارے بھائی ! ناراض ہو کیا ؟ (4)یار!لگتا ہے آپ کو مزا نہیں آیا!(5) یہ گاڑی کتنے میں ریدی ؟(6) کس سال کا ماڈَل ہے؟ (7) آپ کے عَلاقے میں مکان کا کیا بھاؤ چل رہا ہے؟ (8)یار!مہنگائی بَہُت زیادہ ہے(9) فُلا ں جگہ پر موسِم کیسا ہے؟ (10) اُف ! اتنی گرمی ! (11) آج کل تو کڑ کڑاتی سر دی ہے(12) نہ جانے یہ بارش اب رُکے گی بھی یا نہیں!(13)ذرا بارش آئی کہ بجلی گئی! (14)آپ کے یہاں بجلی تھی یا نہیں؟ وغیرہ وغیر ہ۔عُمُوماً مُتَذَکَّرہ (مُ۔تَ۔ذَک۔کَرَہ) کلمات اور اس طرح کے بے شمار فِقرات بِلا ضَرورت بولے جاتے ہیں۔تاہم اس طرح کے جملے بولنے والے کے مُتَعلِّق کوئی بُری رائے قائم نہ کی جائے،بلکہ حسنِ ظن ہی سے کام لیا جائے کہ ہو سکتا ہے جو بات فضول لگ رہی ہے اِس میں قائل کی کوئی مصلحت ہو جو میں نہیں سمجھ سکا۔بِالفرض وہ سُوال یا جملہ فُضُول بھی ہو تب بھی قائِل گنہگار نہیں ۔

حج سے لوٹنے والے سے فُضُول سُوالات کی 13مثالیں

سفرِ مدینہ سے لوٹنے والے حاجیوں سے بھی اکثر دوست اَحباب طرح طرح کے غیر ضَروری سُوالات کرتے ہیں ان کی 13 مثالیں مُلاحَظہ فرمائیے: (1)سفر میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟(2)بھیڑ توبَہُت ہوگی! (3) مہنگائی تو نہیں تھی؟ (4)مکان صحیح ملایا نہیں؟ (5)گھر حَرَم سے دور تھا یا قریب ؟ (6) وہاں موسِم کیسا تھا؟(7)زِیادہ گرمی تو نہیں تھی؟(8)روزانہ کتنے طواف کرتے تھے؟ (9)کتنے عُمرے کئے؟( 10)مکّے میں میرے لئے وب دعائیں مانگی یا نہیں ؟(11)مِنیٰ میں آپ کا یمہ جَمرات سے قریب تھا یا دور؟ (12)مدینے میں کتنے دن ملے؟(13)مدینے میں میرا نام لیکرسلام کہا یا نہیں؟ جن سوالات کی مثالیں دی گئیں وہ اگر چِہ ناجائز نہیں تاہم پوچھنے سے پہلے اس کی مصلحت پر غور کرلیجئے ،اگر حاجت نہ ہو تو نہ پوچھئے کیوں کہ ان میں بعض سُوالات حاجی کو شرمندہ کرنے والے، بعض تَرَدُّد میں ڈالنے والے اور بعض کے جوابات میں اگر اِحتیاط نہ کی گئی تو جھوٹ کے گُناہ میں پھنسانے والے ہیں۔ لہٰذ ا'' ایک چُپ ہزار سکھ''

بُرے یاگناہوں بھرے بکواسوں کی چار مثالیں

بعض باتونی لوگ بِلا تحقیق گناہوں اور تہمتوں بھرے جُملے بولنے سے بھی گریز نہیں کرتے، اس کی چار مثالیں سنئے:(1)ہمارا سارا ہی اندان (یا سارا گاؤں) بدمذہب ہو گیا ہے ایک میں ہی بچا ہوا ہوں (حالانکہ عموماً ایسا نہیں ہوتا، بڑے بوڑھے ،واتین اور بچّے اکثر محفوظ ہوتے ہیں) (2) ہمارے سارے ہی سرکاری افسر رِشوَت ورہیں(3)الیکڑک سپلائی والے سب کے سب بد معاش ہیں (معاذاللہ ) (4)حکومت میں سب کے سب چور بھرے ہیں وغیرہ۔

بَقر عید پر کئے جانے والے فُضُول سُوالات کی 19 مِثالیں

بقرعید کے موقع پر بِغیر لینے دینے کے کئے جانے والے فُضول سُوالات کی مثالیں مُلاحَظہ فرمائیے: (1)ہاگائے لینے کب جائیں گے؟(2)آج کل تو مَنڈی تیز ہوگئی ہو گی!(3)ہاں بھئی ! گائے کتنے میں لائے؟ (4) یار! گائے ہے تو بڑی جاندار! (5)کتنے دانت کی ہے؟ (6) ٹکّر تو نہیں مارتی؟ (7)چلا کرلائے یاسُوزُوکی میں؟ (8)سُوزُوکی والے نے کتنا کرایہ لیا؟ (9)کب کٹے گی؟(10)قصّاب وقت پر آیا یا نہیں؟ (11)قصاب چُھری پھیر کر چلاگیا پھر بڑی دیر سے آیا (12)ہاں یار! قَصّاب لوگ لٹکادیتے ہیں(13) فُلاں کی گائے قَصّاب کے ہاتھ سے چُھوٹ کربھاگ کھڑی ہوئی، بڑا مزا آیا! (14) ہاں یار! قَصّاب اَناڑی تھا!(اِس جملے میں غیبت ، تہمت،دل آزاری،بدگمانی اور بداَلقابی وغیرہ گناہوں کی بدبو ہے البتّہ اگر واقِعی وہ قصاب اَناڑی ہو اور جس کو کہا اس کو اس سے بچانا مقصود ہو تو اِس جملے میں حَرَج نہیں) (15)آپ کا بکر اکتنے دانت کا ہے؟ (16) کتنے میں ملا؟(17)اوہو! بڑا مہنگا ملا(18)چلتا بھی ہے یا نہیں؟ (19) کتنی کٹائی لگی؟ وغیرہ وغیرہ۔

فون پر کی جانے والی فُضول باتوں کی 5مثالیں

فون پر بھی اکثر غیر ضَروری سُوالات کی ترکیب رہتی ہے، پانچ مثالیں حاضرِ دمت ہیں:(1)کیا کر رہے ہو؟(2)کہاں ہو؟(3)گاڑی میں فون آیا تو سامنے سے سُوال ہو گا اس وقت آپ کے پاس کون کون ہے؟(4)کدھر سے گزر رہے ہو؟ (5)کہاں تک پہنچے؟وغیرہ۔ہاں جوجو سُوال ضرورتاً کیاجائے وہ فُضُول نہیں کہلائے گا مگربعض سُوالات آدمی کو شرمندہ کر کے جھوٹ پر مجبور کر سکتے ہیں مَثَلاً ہو سکتا ہے کہ سوال نمبر 3-2-1کا جواب وہ دُرُست نہ دے پائے کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ کسی کو پتا چلے کہ کیا کررہا ہے یا کہاں ہے یا اُس کے پاس کون کون ہے۔ بس کام کی بات وہ بھی حسبِ ضرورت کرنے ہی میں دونوں جہاں کی عافیّت ہے۔

جھوٹ پر مجبور کرنے والے سُوالات کی14 مثالیں

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بعض اوقات لوگ ایسے سُوالات کر دیتے ہیں کہ جواب دینے میں بے احتیاطی اور مُرُوَّت کی وجہ سے آدمی کے منہ سے جھوٹ نکل سکتا ہے اگر چِہ سوال کرنے والا گنہگار نہیں تاہم مسلمانوں کو گناہوں سے بچانے کیلئے بِلاضَرورت اِس طرح کے سُوالات سے اِجتناب (یعنی پرہیز) کرنا مناسب ہے۔ سُوالات کی 14مثالیں حاضِر ہیں: (1) ہمارا گھر ڈھونڈنے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟(2)ہمارے گھر کا کھانا پسند آیا ؟ (3)میرے ہاتھ کی چائے کیسی تھی؟ (4)ہمارا گھر آپ کو اچّھا لگا؟ (5) میرے لئے دُعا کرتے ہیں یا نہیں؟ (6)میں نے ابھی جو بیان کیا آپ کو کیسا لگا ؟(7) میں نے جو نعت شریف پڑھی تھی اس میں آپ کو میر ی آواز کیسی لگی ؟(8) میری بات آپ کو بُری تو نہیں لگی ؟(9) میرے آنے سے آپ کو تکلیف تو نہیں ہوئی ؟(10)میری وجہ سے آپ کو بوریت تو نہیں ہو رہی؟ (11) میں آکر آپ کی باتوں میں کہیں مُِل تو نہیں ہو گیا؟(12)آپ مجھ سے ناراض تو نہیں؟(13)آپ مجھ سے وش ہیں نا؟(14)میرے بارے میں آپ کا دل تو صاف ہے نا؟وغیرہ۔

سب سے طرناک ابو الفُضُول

بعض لوگ تو بڑے ہی عجیب ہوتے ہیں ،بات بات پر وامواہ اس طر ح تائیدطلب کرتے ہیں:(1) ہاں بھئی کیا سمجھے؟(2)میری بات کا مطلب سمجھ گئے نا؟ (البتّہ ضرورتاً شاگردوں یا ماتحتوں سے استاذ یا بزرگوں وغیرہ کاپوچھنا کبھی مُفید بھی ہو تا ہے تا کہ کسی کو سمجھ میں نہ آیا ہو تو سمجھایا جا سکے۔ایسے موقع پر سمجھ میں نہ آنے کی صورت میں سامنے والے کو چاہئے کہ جھوٹ موٹ ہاں میں ہاں نہ ملائے)(3) کیوں بھئی ! ٹھیک ہے نا ! '' (4) ''میں غَلَط تو نہیں کہہ رہا!'' (5) ''کیا یال ہے آپ کا؟''اب بات لاکھ ناقابلِ قبول ہو مگرمُرُوَّ ت میں ہاں میں ہاں ملا کر بار ہا جھوٹ بولنے کا گناہ کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے با تونی لوگوں کی اصلاح کی ہمّت نہ پڑتی ہو تو پھر ان سے کو سو ں دوررہنے ہی میں عافیت ہے کہ ان کی گناہوں بھری باتوں میں بھی ہاں میں ہاں ملانا کہیں جہنَّم میں نہ پہنچا دے! یہاں تک دیکھا ہے کہ اس طر ح کے بکواسی لوگ کبھی تو گمراہی کی باتیں بلکہ مَعا ذَ اللہ عزوجل کفریات بک کر بھی حسبِ عادت تائید حاصل کرنے کیلئے: ''کیوں جی ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟'' کہہ کر سامنے والے سے ہاں کہلوا کر بعض اوقات اس کابھی ایمان برباد کروا دیتے ہیں۔ کیوں کہ ہوش وحواس کے ساتھ کفر کی تائیدبھی کفر ہے ۔ اَلعِیاذُ بِاللہ عزوجل

اے کاش! ضرورت کے سوا کچھ بھی نہ بولوں

اﷲ زَباں کا ہو عطا قفل مدینہ