’’کھانے اور الاج وجیرہ کے مدنی پھول’’

(01): ’’ کھانے اور مل کر کھانے کی نیتیں ‘‘

کھانے کی 43نیتیں

(۱،۲) کھانے سے قبل اور بعد کا وُضو کروں گا (یعنی ہاتھ مُنہ کا اگلا حصّہ دھوؤں گا اور کُلِّیاں کروں گا) (۳)کھانا کھا کرعبادت(۴)تِلاوت(۵)والِدین کی خدمت(۶) تحصیلِ عِلمِ دین (۷) سنّتوں کی تربی کی خاطِر مَدَنی قافِلے میں سفر (۸) عَلاقا ئی دَورہ برائے نیکی کی دعوت میں شرکت(۹) اُمورِ آخِرت اور (۱۰) حسبِ ضَرورت کسبِ حلال کیلئے بھاگ دوڑ پر قوّت حاصِل کروں گا (یہ نِیتیں اُسی صورت میں مُفید ہوں گی جبکہ بھوک سے کم کھائے۔ خوب ڈٹ کر کھانے سے اُلٹا عبادت میں سُستی پیدا ہوتی گناہوں کی طرف رُجحان بڑھتا اور پیٹ کی خرابیاں جَنَم لیتی ہیں ) (۱۱)زمین پر (۱۲) اِتِّباعِ سنّت میں د سترخوان پر(۱۳)(چادر یا کرتے کے دامن کے ذَرِیعے ) پردے میں پردہ کر کے (۱۴)سنّت کے مطابِق بیٹھ کر (۱۵)کھانے سے قبل بسم اللہ اور(۱۶) دیگر دُعائیں پڑھ کر(۱۷) تین انگلیوں سے(۱۸)چھوٹے چھوٹے نِوالے بنا کر(۱۹) اچھی طرح چبا کر کھاؤں گا (۲۰)ہر لقمہ پریا واجِدُ پڑھوں گا(یا ہر لقمہ کے ختم پر اَلحمد للہ اور ہر لقمہ کے آغاز پریا واجِدُ اور بِسمِ اللہ) (۲۱) جو دانہ وغیرہ گر گیا اٹھا کر کھالوں گا(۲۲) روٹی کا ہرنِوالہ سالن کے برتن کے اوپر کرکے توڑوں گا (تاکہ روٹی کے ذرّات برتن ہی میں گریں)(۲۳)ہڈّی اور گرم مَصالَحَہ وغیرہ اچّھی طرح صاف کرنے اور چاٹنے کے بعد پھینکوں گا (۲۴) بھوک سے کم کھاؤں گا(۲۵) آخِر میں سنّت کی ادائیگی کی نیت سے برتن اور (۲۶)تین بار انگلیاں چاٹوں گا(۲۷)کھانے کے برتن دھو پی کر ایک غلام آزاد کرنے کے ثواب کا حقدار بنوں گا(۲۸) جب تک دسترخوان نہ اُٹھالیا جائے اُس وَقت تک بِلا ضَرورت نہیں اُٹھوں گا(کہ یہ بھی سنّت ہے)(۲۹) کھانے کے بعد بمع اول آخِر دُرُودشریف مسنون دعائیں پڑھوں گا(۳۰) خِلال کروں گا۔

مل کر کھانے کی مزید نیتیں

(۳۱)دستر خوان پر اگر کوئی عالم یا بزرگ موجود ہوئے تو اُن سے پہلے کھانا شروع نہیں کروں گا(۳۲)مسلمانو ں کے قُرب کی بَرَکتیں حاصِل کروں گا (۳۳) ان کو بوٹی ،کدّو شریف ،کھُرچن اور پانی وغیرہ کی پیش کش کرکے اُن کا دل خوش کروں گا ( کسی کی پلیٹ میں اپنے ہاتھ سے اٹھا کر ڈالدینا آداب کے خلاف ہے۔ جو چیز ہم نے ڈالی ہو سکتا ہے اس وَقت اسے اِس کی خواہِش نہ ہو)(۳۴)اُن کے سامنے مسکراکر صدقہ کا ثواب کماؤں گا (۳۵)کسی کو مسکراتا دیکھ کر اِس کی مسنون دُعا پڑھوں گا(مسکراتا دیکھ کر پڑھنے کی دُعا: اَضْحَکَ اللہُ سِنَّکَ یعنی اللہ عزوجل تجھے سدا ہنستا رکھے۔ (صحیح البخاری ج۴ص۴۰۳حدیث۳۲۹۴ ) (۳۶)کھانے کی نییں اور (۳۷)سنّتیں بتاؤں گا(۳۸) موقع ملا تو کھانے سے قبل اور (۳۹)بعد کی دعائیں پڑھاؤں گا (۴۰)غذاکا عمدہ حصّہ مَثَلاً بوٹی وغیرہ حرص سے بچتے ہوئے دوسروں کی خاطر ایثار کروں گا (تاجدارِ مدینہ صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ بخشِش نشان ہے،'' جو شخص اُس چیز کو جس کی خود اِسے حاجت ہو دوسرے کو دے دے اللہ عَزَّوَجَلَّ اِسے بخش دیا ہے ۔ '') (اتحاف السادۃ المتقین ج۹ ص ۷۷۹) (۴۱)ان کوخِلال اور (۴۲)تین اُنگلیوں سے کھانے کی مشق کرنے کیلئے ربڑ بینڈکا تحفہ پیش کروں گا(۴۳) کھانے کے ہر لقمہ پر ہو سکا تو اس نیت کے ساتھ بلند آواز سے یا واجِدُ کہوں گا کہ دوسروں کو بھی یاد آ جا ئے ۔(آداب طعام، ص۱۸۲ تا ۱۸۴)

(02): ’’ کھانے کے ۹۲ مدنی پھول ‘‘

کھانے کی نیّت کر لیجئے

(۱)کھانے سے مقصود حُصولِ لذّت اور خواہِش کی تکمیل نہ ہو بلکہ کھاتے وقْت یہ نیّت کرلیجئے ،''میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی عِبادت پر قوَّت حاصِل کرنے کیلئے کھا رہا ہوں''یاد رہے ! کھانے میں عبادت پر قوّت حاصِل کرنے کی نیَّت اُسی صورت میں سچّی ہو گی جبکہ بھوک سے کم کھانے کا بھی ارادہ ہو ورنہ سِرے سے نیّت ہی جھوٹی ہو جائے گی کیوں کہ خوب ڈَٹ کر کھانے سے عبادت کیلئے قُوَّت حاصل ہونے کے بجائے مزید سُستی پیدا ہوتی ہے۔کھانے کی عظيم سُنَّت یہ ہے کہ بھوک لگی ہوئی ہوکہ بِغير بھوک کے کھانے سے طاقت تو کیا آئے گی اُلٹا صحّت خراب اوردِل بھی سخت ہوجاتا ہے۔حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابو طالب مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، ایک روایت میں ہے،'' سیر ہونے کی حالت میں کھانا برص پیدا کرتا ہے۔( قُوت القلوب ج۲ ص ۳۲۶ مرکز اھلسنت برکاتِ رضا ہند)

(۲)ایسا دسترخوان بچھائیے جس پر کوئی حرف، لفْظ، عِبارت ، شِعریا کمپنی وغیرہ کا نام اُردو،اِنگریزی کسی بھی زَبان میں نہ لکھا ہوا ہو۔

(۳)کھاناکھانے سے پہلے اور بعد دونوں ہاتھ پُہنچوں تک دھونا سنّت ہے، کُلیّاں کرکے مُنہ کا اگلا حصّہ بھی دھولیجئے مگر کھانے سے قَبل دھوئے ہوئے ہاتھ مت پُونچھئے۔سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا،'' کھانے سے پہلے اور بعد میں وُضو کرنا(یعنی ہاتھ مُنہ دھونا)رِزق میں کشادگی کرتا اور شیطٰن کو دُور کرتا ہے۔'' (کنزالعُمّال ۱۵ص۱۰۶حدیث ۴۰۷۵۵)

(۴)اگر کھانے کیلئے کسی نے مُنہ نہ دھویا تو یہ نہیں کہیں گے کہ اِس نے سنّت ترک کر دی ۔(ملخَّص از بہارِ شریعت حصہ ۱۶ ص۱۸مدینۃ المرشد بریلی شریف)

(۵)کھاتے وَقْت اُلٹا پاؤں بچھادیجئے اور سیدھا گُھٹنہ کھڑا رکھئے یا سُرین پر بیٹھ جایئے اور دونوں گُھٹنے کھڑے رکھئے یا دوزانوبیٹھئے،تینوں میں سے جِس طرح بھی بیٹھیں گے سُنّت ادا ہوجائے گی۔

پردے میں پردہ کی عادت بنایئے

(۶)اسلامی بھائی ہو یا اسلامی بہن سبھی چادر یا کُرتے کے دامن کے ذَرِیعے پردے میں پردہ ضَرور کریں ورنہ کپڑے تنگ ہوئے یا کُرتے کادامن اٹھا ہو گا توگھر کے افراد وغیرہ بد نگاہی کے گناہ میں پڑ سکتے ہیں۔ اگر ''پردے میں پردہ ''ممکِن نہ ہو تو دوزانو بیٹھئے کہ سنّت بھی ادا ہو جائے گی اور خود بخود پردہ بھی ہو جائے گا۔کھانے کے علاوہ بھی بیٹھنے میں پردے میں پردہ کی عادت بنایئے۔

(۷)چار زانو یعنی چوکڑی مار کر بیٹھے ہوئے کھانا سنّت نہیں ، اس سے پیٹ باہَر نکلتا ہے۔

(۸)پہلے لقمہ پر بِسمِ اللہ دوسرے سے قبل بِسمِ اللہ الرَّحْمٰن اور تیسرے سے پہلے بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھئے۔ (اِحیاء العُلُوم ج۳ ص ۶)

(۹)بِسمِ اللہ زور سے پڑھئے تاکہ دوسروں کو بھی یاد آجائے۔

(۱۰)شُروع کرنے سے قبل یہ دُعاء پڑھ لی جائے، اگر کھانے پینے میں زَہر بھی ہوگا تو اِن شا ءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اَثَر نہیں کریگا۔دُعا یہ ہے:۔

بِسْمِ اللہِ وَ بِا للہِ الَّذِیْ لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فیِ السَّمَآءِ یَاحَیُّی یَاقَیُّوْم۔ (کنزالعمال ج ۱۵ ص۱۰۹ حدیث ۴۰۷۹۲)

ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے نام سے شُروع کرتا ہوں جسکے نام کی بَرَکت سے زَمین وآسمان کی کوئی چیز نُقصان نہیں پہنچا سکتی، اے ہمیشہ زندہ وقائم رہنے والے۔

(۱۱)اگر شُروع ميں بِسمِ اللہ پڑھنا بھول گئے تو دَورانِ طَعام یا دآنے پر اس طرح کہہ لیجئے؛بِسمِ اللہِ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ

ترجمہ: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام سے کھانے کی ابتداء اور انتہاء ۔

کھاتے ہوئے بھی ذکراللہ جاری رکھئے

(۱۲)یا وَاجِدُجو کوئی کھانا کھاتے وَقْت ہر نوالہ پر پڑھا کریگا اِن شاءَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ وہ کھانا اُس کے پیٹ میں نُور ہوگا اور بیماری دور ہوگی ۔یا

(۱۳)ہر لقمہ سے قبل'' اللہ''یا'' بِسمِ اللہ ''کہتے جائیے تاکہ کھانے کی حرِص ذِکرُ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافِل نہ کردے ۔ہر دو لقمہ کے درمیان اَلحمدُ لِلّٰہ، یا واجِدُ اور بِسمِ اللہ کہتے جایئے، اِس طرح ہر لقمہ کا آغاز بِسمِ اللہ سے، بیچ میں یا واجِدُ اورختم ِ لقمہ پر حَمد کی ترکیب ہو جائے گی۔

(۱۴)مِٹّی کے برتن میں کھانا اَفضل ہے کہ''جو اپنے گھر میں مِٹّی کے برتن بنواتا ہے فِرِشتے اُس گھر کی زِیارت کرنے آتے ہیں۔''( رَدُّالْمُحتَار ج۹ص۴۹۵)

(۱۵)سالن یا چَٹنی کی پیالی روٹی پرمت رکھئے۔ (ایضاً ص ۴۹۰)

(۱۶)ہاتھ یا چُھری کو روٹی سے نہ پُونچھئے۔ (ایضاً)

(۱۷)زمین پر دَسترخوان بچھا کر کھانا سُنَّت ہے۔ٹيک لگا کر ،ننگے سَر یا ایک ہاتھ زمین پر ٹیک کر،جُوتے پہن کر ،لیٹے لیٹے یا چار زانو(یعنی چوکڑی مار کر ) مت کھایئے۔

(۱۸)روٹی اگر دَسترخوان پر آگئی تَو سالن کا اِنْتِظار کئے بِغیر کھانا شُروع فرما دیجئے۔(رَدُّالْمُحتَارج ۹ ص ۴۹۰)

(۱۹)اوّل آخِر نمک یا نمکین کھایئے کہ اِس سے ستَّر بِیماریاں دُور ہوتی ہیں۔(ایضاًص۴۹۱)

(۲۰)روٹی ایک ہاتھ سے نہ توڑیئے کہ مَغْروروں کا طریقہ ہے۔

(۲۱)روٹی اُلٹے ہاتھ میں پکڑ کر سیدھے ہاتھ سے توڑیئے ۔ ہاتھ بڑھا کر تھال یا سالن کے برتن کے عَین بیچ میں اوپر کر کے روٹی اور ڈبل روٹی وغیرہ توڑنے کی عادت بنایئے ۔اِس طرح اَجزاء کھانے ہی میں گریں گے ورنہ دسترخوان پر گر کر ضائِع ہو سکتے ہیں۔

(۲۲)سیدھے ہاتھ سے کھایئے،اُلٹے ہاتھ سے کھانا،پینا، لینا، دینا، شيطان کا طریقہ ہے۔

تین انگلیوں سے کھانے کی عادت ڈالئے

(۲۳)تین اُنگلیوں یعنی بیچ والی ،شہادت کی اور انگوٹھے سے کھانا کھایئے کہ یہ سنّت اَنبِیاء عَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلام ہے۔ عادت بنانے کیلئے اگر چاہیں تو ابتِداء ً سیدھے ہاتھ کی بِنْصَر(چھوٹی اُنگلی کے برابر والی کو بِنصَر کہتے ہیں)کوخم کر کے اس میں ربڑبینڈ پہن لیجئے یا روٹی کا ٹکڑا ان دونوں اُنگلیوں سے ہتھیلی کی طرف دبائے رکھئے یا دونوں عمل ایک ساتھ کر لیجئے، جب عادت ہو جائے گی تو اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ربڑ وغیرہ کی حاجت نہ رہے گی۔ حضرتِ سیِّدُنا مُلّا علی قاری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں،''پانچ اُنگلیوں سے کھانا حریصوں کی نشانی ہے ۔ '' (مرقاۃ ج ۸ ص ۹) اگر چاول کے دانے جدا جُدا ہوں اور تین اُنگلیوں سے نوالہ بننا ممکن نہ ہو تو چار یا پانچ اُنگلیوں سے کھا سکتے ہیں۔

روٹی کا کَنارا توڑنا

(۲۴)روٹی کاکَنارا توڑ کر ڈال دینا اور بیچ کاحصّہ کھا لینا اسراف ہے۔ہاں اگرکَنارے کچّے رہ گئے ہیں، اِس کے کھانے سے نقصان ہو گا تو توڑ سکتا ہے ، اِسی طرح یہ معلوم ہے کہ روٹی کے کَنارے دوسرے لوگ کھا لیں گے ضائع نہ ہوں گے تو توڑنے میں حرج نہیں ، یہی حکم اس کا بھی ہے کہ روٹی میں جو حصّہ پھولا ہوا ہے اُسے کھا لیتا ہے باقی کو چھوڑ دیتا ہے۔ (ملخَّص از بہار شریعت حصہ ۱۶ ص۱۸،۱۹)

دانت کا کام آنت سے مت لیجئے

(۲۵)لقمہ چھوٹا لیجئے اوراس احتیاط کے ساتھ کہ چپڑ چپڑ کی آواز پیدا نہ ہو اور اچّھی طرح چبا کر کھائيے ۔ اگر اچھی طرح چبائے بِغیر نگل جائیں گے تو ہضم کرنے کیلئے مِعدہ کو سخت زَحمت کرنی پڑے گی لہٰذا دانتوں کا کام آنتوں سے مت لیجئے۔

(۲۶)جب تک حلْق سے نیچے نہ اُتر جائے دوسرے لقمے کی طرف ہاتھ بڑھانا یا لقمہ اٹھا لیناکھانے کی حِرص کی علامت ہے۔

(۲۷)روٹی کو دانت سے کاٹ کر کھانا حد درجہ معیوب اور بے برکتی کا باعِث ہے، یوں ہی کھڑے کھڑے کھانا سنّتِ نصاریٰ ہے۔ (سنّی بہشتی زیور ص ۵۶۵)

کھانا کھانے میں پھل پہلے کھانے چاہئیں

(۲۸)ہمارے یہاں پھل آخر میں کھانے کا رَواج ہے جبکہ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں ،''اگر پھل ہوں تو پہلے وہ پیش کئے جائیں کہ طبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے ،یہ جلد ہضم ہوتے ہیں لہٰذا ان کومِعدے کے نچلے حصّے میں ہونا چاہئے اور قراٰنِ پاک سے بھی پھل کے مُقدَّم (یعنی پہلے)ہونے پر آگاہی حاصِل ہوتی ہے چُنانچِہ پارہ ۲۷سورۃُ الواقعہ کی آیت نمبر ۲۰ ،۲۱میں ارشا ہوتا ہے :۔

وَ فَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾ وَ لَحْمِ طَیۡرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوۡنَ ﴿ؕ۲۱﴾

ترجَمہ کنزالایمان:اورمیوے جو پسند کریں اورپرندوں کا گوشت جو چاہیں ۔ (پ ۲۷ الواقِعہ ۲۰،۲۱) (اِحیاءُ العُلُوم ج۲ص ۲۱)

میرے آقا اعلیٰحضرت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن روایت نَقل کرتے ہیں،'' کھانے سے پہلے تربوز کھانا پیٹ کو خوب دھودیتا ہے اور بیماری کوجڑ سے ختم کردیتا ہے۔'' (فتاوٰی رضویہ جدید ج ۵ ص ۴۴۲)

کھانے کو عیب مت لگایئے

(۲۹)کھانے میں کسی قسم کاعیب نہ لگایئے مَثَلًا یہ مت کہئے کہ ٹیسٹی (لذیذ)نہیں، کچّارہ گیا ہے، نمک کم ہے، تیکھا بَہُت ہے یا پھیکا پھیکاہے وغیرہ وغیرہ ۔ پسند ہے تو کھا لیجئے ،ورنہ ہاتھ روک لیجئے۔ ہاں پکانے والے کومِرچ مَصالَحہ کی کمی بیشی کیلئے ھِدایت دینا مقصود ہو تو تنہائی میں رہنُمائی میں مُضایَقہ نہیں۔

پھلوں کو عیب لگانا زیادہ بُرا ہے

(۳۰)پھلوں کو عیب لگانا انسان کے پکائے ہوئے کھانے کے مقابلے میں زیادہ بُرا ہے کہ کھانا پکانے میں انسانی ہاتھوں کا زیادہ دخل ہے جبکہ پھلوں کے مُعاملے میں ایسا نہیں۔

(۳۱) کھانے یا سالن وغیرہ کے بیچ میں سے مت لیجئے کہ بیچ میں بَرَکت نازِل ہوتی ہے۔

(۳۲)اپنی طرف کے کَنارے سے کھایئے، ہر طرف ہاتھ مت ماریئے۔

(۳۳) اگر ایک تھال میں مختلف قسم کی چیز یں ہیں تو دوسری طرف سے بھی اُٹھا سکتے ہیں۔

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد

کھانے کے دَوران اچّھی باتیں کیجئے

کھانے کے دَوران اچّھی باتیں کیجئے

(۳۵)کھانے کے دَوْران اِس قِسم کی گفتگو نہ کیجئے جِس سے لوگو ں کو گِھن آئے مَثَلاًدَست ،پیچش ،قَے وغيرہ کا تذکِرہ۔

(۳۶) کھانا کھانے والے کے لقمے مت تاڑیئے۔

اچّھی اچّھی بوٹیاں ایثار کیجئے

(۳۷)کھانے میں سے اچّھی اچّھی بوٹیاں چھانٹ لینا یا مل کر کھا رہے ہوں تو اس لئے بڑے بڑے نوالے اٹھا کر جلدی جلدی نِگلنا کہ کہیں میں رَہ نہ جاؤں یا اپنی طرف زِیادہ کھانا سمیٹ لینا اَلْغَرَض کسی بھی طریقے سے دوسروں کو محروم کردینا دیکھنے والوں کو بدظن کرتا ہے اور یہ بے مُرُوَّتوں اور حریصوں کا شَیوہ ہے ۔اچھّی اَشیاء اپنے اسلامی بھائیوں یا اہلِ خانہ کیلئے ایثار کی نیّت سے تَرک کریں گے تو اِن شا ءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ثواب پائیں گے۔جیسا کہ سلطانِ دوجہان صلی اﷲتعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ بخشِش نشان ہے، ''جوشخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اس خواہش کو روک کر(دوسروں کو)اپنے اوپر ترجیح دے تواﷲعَزَّوَجَلَّ اسے بخش دیتاہے ۔'' (اتحاف السادۃ المتقین ج۹ص۷۷۹ )

گرے ہوئے دانے کھالینے کے فضائل

(۳۸)کھانے کے دَوران اگر کوئی دانہ یا لقمہ وغيرہ گر جائے تو اُٹھاکرپُونچھ کر کھالیجئے کہ مغفِرت کی بِشارت ہے۔

(۳۹) حدیثِ پاک میں ہے، جو کھانے کے گِرے ہوئے ٹکڑے اُٹھا کر کھائے وہ فَرَاخی(یعنی خوش حالی)کی زندگی گزارتا ہے اور اس کی اولاد اور اولاد کی اولاد میں کم عقلی سے حفاظت رہتی ہے۔ (کنزالعُمّال ج۱۵ ص ۱۱۱ حدیث ۴۰۸۱۵)

(۴۰)حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نَقل فرماتے ہيں ، ''روٹی کے ٹکڑوں اور ریزوں کو چُن لیجئے اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ خوش حالی نصیب ہو گی۔بچے صحيح وسلامت اور بے عَیب ہوں گے اور وہ ٹُکڑے حُوروں کا مہر بنیں گے۔'' (اِحیاءُ الُعُلوم ج۲ص۷)

(۴۱)گِری ہوئی روٹی کو اُٹھا کر چُومنا جائز ہے۔

(۴۲) دَستر خوان پر جو دانے وغيرہ گِر گئے اُنہیں مُرغیوں،چِڑیوں، گائے یا بکری وغيرہ کو کھلادیناجائزہے۔ یا ایسی جگہ احتیاط سے رکھ دیں کہ چِیُونٹیاں کھا لیں۔

کھانے میں پھونک مارنا منع ہے

(۴۳)کھانے اور چائے وغیرہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے پھونک مت ماریئے کہ بے بَرَکتی ہو گی۔زيادہ گرم کھانا مت کھائیے کھانے کے قابِل ہوجانے کا انتِظار فرمالیجئے ۔ ( مُلَخَّصاً رَدُّالْمُحتَار ج۹ ص ۴۹۱)

(۴۴)کھانے کے دَوران بھی سیدھے ہاتھ سے پانی نوش کیجئے۔ یہ نہ ہو کہ ہاتھ آلُودہونے کے سبب اُلٹے ہاتھ ميں گلاس تھام کر سیدھے ہاتھ کی اُنگلی مَس کرکے دل کومنالیا کہ سیدھے ہاتھ سے پی رہا ہوں!

پانی چوس کر پینا سیکھئے

(۴۵)پانی ہو یا کوئی سا مَشروب ہمیشہ بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر چھوٹے چھوٹے گُھونٹ پینا چاہئے مگر چُوسنے میں آواز پیدا نہ ہو، پانی ہو یا کوئی اور مشروب، بڑے بڑے گُھونٹ پینے سے جِگر کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ آخِر میں اَلحمدُ لِلّٰہ کہئے۔افسوس! چُوس چُوس کر پینے والی سنّت پر اب شاید ہی کوئی عمل کرتا ہو، برائے کرم! اِس کیلئے مَشق فرما یئے اور اِس سنّت کو اپنایئے ۔

(۴۶) جب کچھ بھوک باقی رہ جائے کھانا تَرْک کر دیجئے

لذَّت صِرف زَبان کی جڑ تک ہے

(۴۷)ڈٹ کر کھانا سُنّت نہیں، زیادہ کھانے کو جی چاہے تو اپنے آپ کو اِس طرح سمجھا یئے کہ صِرف زَبان کی نوک سے جڑ تک لذَّت رہتی ہے حلْق میں پہنچتے ہی لذَّت ختْم ہو جاتی ہے تو لمحہ بھر کے ذائقے کی خاطِر سنّت کا ثواب چھوڑنا دانشمندی نہیں۔ نیز زیادہ کھانے سے طبیعت بوجھل ہو جاتی ، عبادت میں سستی آتی ،مِعدہ خراب ہوتا اور بعضوں کو موٹا پا آتا ہے۔قَبض، گیس شوگر اور دل وغیرہ کی بیماریوں کا اِمکان بڑھتا ہے۔

(۴۸) فراغت کے بعد پہلے بیچ کی پھر شہادت کی اُنگلی اور آخِر میں انگوٹھا تین تین بارچاٹئے۔ ''سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کھانے کے بعد مبارَک اُنگلیوں کو تین مرتبہ چاٹتے۔ (شمائل ترمذی ص ۶۱ حدیث ۱۳۸)

برتن چاٹ لیجئے

(۴۹)برتن بھی چاٹ لیجئے۔ حدیثِ پاک میں ہے،''کھانے کے بعد جو شخص برتن چاٹتا ہے تو وہ برتن اُس کیلئے دُعاء کرتا ہے اور کہتا ہے ،اللہ تعالیٰ تجھے جہنَّم کی آگ سے آزاد کرے جس طرح تُو نے مجھے شيطان سے آزاد کیا۔'' (کنزالعُمّال ج۱۵ ص ۱۱۱ حدیث ۴۰۸۲۲ ) اور ایک رِوایتَت میں ہے کہ برتن اُس کیلئے اِسْتِغْفَار کرتاہے۔ (ابنِ ماجہ ج۴ ص۱۴ حدیث ۳۲۷۱)

(۵۰)جس برتن میں کھایا اِس کو چاٹنے کے بعد دھو کر پی لیجئے اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملیگا ۔ (اِحیاءُ العُلُوم ج۲ ص ۷ )

دھو کر پینے کا طریقہ

(۵۱)چاٹنا اور دھونا اُسی وَقْت کہلائے گا جب کہ غذا کا کوئی جُز اور شوربے کا اثَر وغیرہ باقی نہ رہے ۔ لہٰذا تھوڑا سا پانی ڈالکر برتن کے اُوپری کَنارے سے لیکر نیچے تک ہر طرف اُنگلی وغیرہ سے اچّھی طرح دھو کر پینا چاہئے۔دو یا تین بار اسی طرح دھو کر پی لیں گے تو اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ برتن خوب صاف ہو جائیگا۔

(۵۲)پینے کے بعد رِکابی یا تھال میں معمولی سا بچا ہوا پانی بھی اُنگلی سے جمع کرکے پی لینا چاہئے ، ایسا نہ ہو کہ مصالحہ کا کوئی ذرّہ ہی کہیں چِپکا رہ جائے اور اسی میں بَرَکت بھی چلی جائے!کہ حدیثِ پا ک میں یہ بھی ہے،''تم نہیں جانتے کہ کھانے کے کس حصّے میں بَرَکت ہے۔'' (صحیح مسلم ص۱۱۱۲۳حدیث ۱۰۲۳)

(۵۳)سالن کے شوربے سے آلُودہ کَٹورے ،چمچ نیز چائے ،لسّی،پھلوں کے رس (JUICES) شربت اور دیگر مشروبات کے آلودہ ،پیالے ، گلاس اور جگ وغيرہ کو دھوپی کر اِسی طرح صاف کرلیجئے۔ کہ غذا کاکوئی ذرہ یا اثر باقی نہ رہے اور یوں خوب بَرَکتیں لوٹئے۔

(۵۴) گلاس میں بچّے ہوئے مسلمان کے صاف ستھرے جھوٹے پانی کو قابلِ استعمال ہونے کے باوُجُود خوامخواہ پھینک کر ضائِع کر دینا اسراف ہے اور اسراف حرام۔( مُلَخصاً سنّی بہشتی زیور ص ۵۶۷ )

(۵۵)آخِر میں اَلحمدُلِلّٰہ کہئے ۔اوّل آخِر ماثور ( یعنی قراٰن و حدیث کی) دعائیں بھی یاد ہوں تو پڑ ھئے ۔

(۵۶)صابون سے اچّھی طرح ہاتھ دھو لیجئے تاکہ بُو اورچِکناہٹ جاتی رہے ۔

کھانے کے بعد مَسح کرنا سنّت ہے

(۵۷)حدیثِ پا ک میں یہ بھی ہے،(کھانے سے فراغت کے بعد )''سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہاتھ دھوئے اور ہاتھوں کی تَری سے منہ اور کلائیوں اورسرِاقدس پرمَسْح کرلیا اور اپنے پیارے صَحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا، ''عِکراش! جس چیز کو آگ نے چُھوا (جو آگ سے پکائی گئی ہو)اُس کے کھانے کے بعد یہ وُضو ہے۔'' (ترمِذی شریف ج ۳ص ۳۳۵ حدیث ۱۸۵۵ ) (۵۸)کھانے کے بعددانتوں کاخِلال کیجیے۔

پچھلے گناہ مُعاف

(۵۹) حُضُور صلی اﷲتعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا،جو شخص کھا نا کھائے اور یہ کلِمات کہے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ مُعاف کر دیئے جاتے ہیں۔دعا کے وہ کلِمات یہ ہیں:۔

''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنِیْ ھَذَا وَ رَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ وَلَاقُوَّ ۃٍ ۔''

ترجَمہ:'' تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کھاناکِھلایا اور میری کسی مَہارت وقُوّت کے بِغیر مجھے یہ رِزق عطا فرمایا ۔'' (ترمذی شریف ج۵ ص ۲۸۴ )

(۶۰)کھانے کے بعد یہ دُعا بھی پڑھئے-:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَاوَجَلَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ۔

ترجَمہ:اے اللہ عَزَّوَجَلَّ !ہمارے لئے اِس میں بَرَکت دے اور ہمیں اِس سے زيادہ عِنایت فرما۔ (۶۴)سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حَلوا،شہد ،سِرکہ،کھجور،تربُوز،ککڑی اور لوکی (کدُّو شریف)بَہُت پسند تھے۔

(۶۵)اللہ کے محبوب عَزَّوَجَلَ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بکرے کے گوشْتْ میں دَسْت(بازُو)گردن اور کمر کا گوشْت مَرغوب تھا ۔

(۶۶)آقائے مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی کبھی کَھجور اور تَربُوز یا کَھجور اور ککڑی یا کَھجوراور روٹی مِلاکر تَناوُل فرماتے تھے۔

(۶۷)کُھرچَن سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پسند تھی۔

(۶۸)ثَرِیْد یعنی سالن کے شَوربے میں بِھگوئی ہوئی روٹی کے ٹکڑے سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بَہُت پسند تھے۔

(۶۹)ایک اُنگلی سے کھانا شیطان کااور دو اُنگلیوں سے کھانا مَغرُوروں کا طریقہ ہے تین انگلیوں سے کھانا سُنَّتِ انبیاء علیھم السلام ہے ۔

کتنا کھائے؟

(۷۰)بُھوک کے تین حِصّے کرنا بہتر ہے ۔ایک حصّہ کھانا،ایک حِصّہ پانی اور ایک حِصّہ ہوا۔مَثَلاً تین روٹی میں سَیر ہوجاتے ہیں تَو ایک روٹی کھایئے ایک روٹی جتنا پانی اور باقی ہوا کیلئے خالی چھوڑدیجئے ۔اگر پَیٹ بھرکر بھی کھا لیا تو مُباح ہے کوئی گُناہ نہیں۔ مگر کم کھانے کی دینی و دُنیوی بَرَکتیں مرحبا! تجرِبہ(تَجْ۔رِ۔بَہ) کر کے دیکھ لیجئے ۔ اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلّ پیٹ ایسا دُرُست ہو جائے گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کو پیٹ کا قفلِ مدینہ نصیب فرمائے ۔ یعنی حرام سے بچنے اور حلال کھانا بھی ضَرورت سے زیادہ کھانے سے بچائے۔

ٰامین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

قَیْلُوْلہ سنّت ہے

(۷۱)دوپہر کے کھانے کے بعد قَیْلُوْلہ کیجئے کہ دوپہر کے وقت لیٹنے کو قَیْلُوْلہ کہتے ہیں اور یہ خُصُوصاً رات کو عبادت کرنے والوں کے لئے سنَّت ہے کہ اس سے رات کی عبادت میں آسانی ہو جاتی ہے۔ شام کو کھانے کے بعد کم ازکم 150 قدم چلئے۔شام کے کھانے کے بعد مطلقاً ٹہلنا بہتر ہے اور یہ ڈیڑھ سو قدم چلنے کا قول اَطِبَّاء کا ہے۔

(۷۲)کھانے کے بعد اَلحمدُلِلّٰہ ضَرور کہئے۔

(۷۳)دسترخوان اٹھائے جانے سے پہلے مت اٹھئے۔

(۷۴)کھانے کے بعد ہاتھ اچّھی طرح دھو کر پونچھ لیجئے۔صابون بھی استِعمال کرسکتے ہیں ۔

(۷۵)کاغَذ سے ہاتھ پُونچھنا مَنْع ہے۔

(۷۶)تَولیہ سے ہاتھ پُونچھ سکتے ہیں،پہنے ہوئے کپڑے سے ہاتھ مت پُونچھئے۔

بَرَکت اُڑانے والے افعال

(۷۷)خلیلُ العُلَماء مفتی محمد خلیل خان برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، '' جس برتن میں کھانا کھایا ہے اُس میں ہاتھ دھونا یا ہاتھ دھو کر کُرتے یا تہبند کے دامن یا آنچل سے پُونچھنا بَرَکت کو اُڑا دیتا ہے۔ ( مُلخصاً سنّی بہشتی زیور ص ۵۷۸ )

(۷۸)کھانا کھانے کے فوراً بعدسخت ورزش کرنا یا زیادہ وزنی چیز اُٹھا نا،گھسیٹنا وغیرہ سخت محنت کے کام سے آنت اُتر جانے، اپنڈکس ہو جانے یا پیٹ بڑھنے کے امراض پیدا ہوسکتے ہیں۔

(۷۹)کھانے کے بعداَلْحَمْدُ لِلّٰہ بُلند آواز سے اُس وَقت کہئے جب سب کھانے سے فارِغ ہو چکے ہوں ورنہ آہستہ کہئے۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۹ ص۴۹۰) کھانے کے بعد دعائیں بھی اُسی وَقت پڑھائی جائیں جب ہر فرد فارِغ ہوچکا ہو ورنہ جو کھا رہا ہے وہ شرمِندہ ہو گا۔

کسی کے درخت کا پھل کھانا کیسا؟

(۸۰)باغ میں پہنچا وہاں پھل گِرے ہوئے ہیں تو جب تک مالِکِ باغ کی اجازت نہ ہو، پھل نہیں کھا سکتا اور اجازت دونوں طرح ہوسکتی ہے۔ یا صَراحۃً اجازت ہو مَثَلاً مالِک نے کہدیا کہ گِرے ہوئے پھلوں کو کھاسکتے ہو یا دَلالۃً اجازت ہویعنی وہاں ایساعُرف وعادت ہے کہ باغ والے گِرے ہوئے پھلوں سے لوگوں کو مَنْعْ نہیں کرتے۔ درختوں سے پھل توڑ کر کھانے کی اجازت نہیں مگر جب کہ پھلوں کی کثرت ہو اور معلوم ہو کہ توڑ کر کھانے میں مالِک کو ناگواری نہیں ہوگی تو توڑ کر بھی کھاسکتا ہے ۔ مگر کسی صورت میں یہ اجازت نہیں کہ وہاں سے پھل اُٹھا لائے (ملخصاً عالمگیری ج۵ ص ۲۲۹) ان سب صورتوں میں عُرف وعادت کا لحاظ ہے اور اگر عُرف وعادت نہ ہو یا معلوم ہو کہ مالِک کو ناگواری ہوگی تو گرے ہوئے پھل بھی کھانا جائز نہیں ۔

بِغیر پوچھے کھانا کیسا؟

(۸۱)دوست کے گھر گیا کوئی چیز پکی ہوئی ملی خودلیکر کھالی یا اُس کے باغ میں گیا اور پھل توڑ کر کھالیے اگر معلوم ہے کہ اُسے ناگوار نہ ہوگا تو کھانا جائز ہے مگر یہاں اچھی طرح غور کرلینے کی ضَرورت ہے، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ سمجھتا ہے کہ اُسے ناگوار نہ ہوگا حالانکہ اُسے ناگوار ہے۔ (مُلَخَّصاً عالمگیری ج۵ ص ۲۲۹ )

(۸۲)ذَبیحہ کا ''حرام مَغْزْ ''کھانا ممنوع ہے لہٰذا پکاتے وَقْت گردن، چانپ اور پیٹھ کی رِیڑھ کی ہڈّی کے گوشت کو اچّھی طرح دیکھ کر حرام مغز الگ کر لیجئے۔

(۸۳)مرغی کا حرام مَغْزباریک ہوتا ہے اور اس کے نکالنے میں حَرَج ہے لہٰذا پکانے میں رَہ گیا تو مُضایَقہ نہیں۔ مگر کھایا نہ جائے ، اسی طرح مرغی کی گردن کے پٹّھے اور کالی ڈوری نُما خون کی رگیں بھی نہ کھائیں۔ (۸۴)ذَبیحہ کا''غُدُود''(یعنی گانٹھ ،گِلٹی )کھانا مکروہ تحریمی ہے لہٰذا پکانے سے قبل ہی اس کو نکال دیجئے۔

مُرغی کا دل

(۸۵)مرغی کا دِل پھینکنا نہیں چاہئے، لمبائی میں چار چیرے ڈال کر یا جس طرح بھی ممکن ہو چِیر کر اس میں سے خون اچّھی طرح صاف کر کے پھر سالن میں ڈالدیجئے۔

پکی ہوئی خُون کی رگیں مت کھایئے

(۸۶)ذَبیحہ کے گوشت کے اندر جو خون رہ گیا وہ پاک ہے مگر اُس خون کا کھانا مکروہ تحریمی ہے۔ لہٰذا گوشت کے وہ حصّے جن میں عمُوماً خون رَہ جاتا ہے اُن کو اچّھی طرح دیکھ لیجئے۔ مَثَلاً مرغی کی گردن ، پَر اور ٹانگ وغیرہ کے اندر سے کالی ڈوریاں نکال لیا کریں کہ یہ خون کی نَسیں ہوتی ہیں، خون پکنے کے بعد کا لا ہو جاتا ہے۔

''بسم اللہ کرو ''کہنا سخت ممنوع ہے

(۸۷)ایک کھانا کھارہا ہے دوسرا آیا پہلے نے اُس سے کہا :'' آؤ کھانا کھا لو '' دوسرے نے کہا: ''بسم اللہ کرو!''یہ بَہُت سخت ممنوع ہے ایسے

موقعے پر دُعائیہ الفاظ کہنے چاہئیں مثلاً کہے،''اللہ عَزَّوَجَلَّ بَرَکت دے۔ ''( مُلَخَّص از بہارِ شریعت حصہ ۱۶ ص۳۲ )

سڑا ہوا گوشت کھانا حرام ہے

(۸۸)گوشت سڑگیا تو اس کا کھانا حرام ہے۔اِسی طرح جو کھانا خراب ہوجاتا ہے وہ بھی نہیں کھاسکتے۔خراب ہونے کی علامت یہ ہے کہ اُس میں پھپھوندی، بدبُو یا کھٹّی بُو پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر شوربہ ہوتو اُس پر جھاگ بھی آجاتا ہے۔دالیں ، کھچڑا اور کھٹائی والا سالن جلد خراب ہوتا ہے۔

ثابِت ہری مرچیں

(۸۹)کھانے کے اندر پکی ہوئی ثابِت ہری یا سُرخ مرچیں کھاتے وَقْت پھینک دینے کے بجائے ممکِن ہو تو پہلے سے چُن کر الگ کرلیجئے اور پیس کر دوبارہ کام میں لایئے۔ اِسی طرح پکے ہوئے گَرم مسالے بھی اگر قابِلِ استِعمال ہوں تو ضائِع نہ کیجئے۔

بچی ہوئی روٹیوں کا کیا کریں؟

(۹۰)بچی ہوئی روٹی اور شوربہ وغيرہ پھینکنا اِسراف ہے ۔ مرغی،بکری یا گائے وغیرہ کو کھلادیں۔چند روز کی بچی ہوئی روٹیوں کے ٹکڑے کر کے شوربے میں پکا لیجئے ۔ اِن شاءَ الِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ بہترین کھانا بن جا ئیگا ۔

کِیکڑا اور جھینگا کھانا کیسا؟

(۹۱)مچھلی کے سِوا دریا کا ہر جانور حرام ہے۔جو مچھلی بِغیرمارے خودہی مر کر پانی میں اُلٹی تیرگئی وہ حرام ہے، کِیکڑا کھانا بھی حرام ہے، جھینگے میں اختِلاف ہے کھانا جائز ہے مگر بچنا افضل۔

(۹۲)ٹِڈّی مری ہوئی بھی حلال ہے ٹِڈّی اور مچھلی دونوں بِغیر ذَبح کے حلال ہیں۔

یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ہماری مغفِرت فرما، ہمیں اتنی بار آدابِ طَعام کا مُطالَعَہ کرنے کی توفیق عطا فر ما کہ کھانے کی سُنّتیں اور آداب یا د ہو جائیں اور ہمیں ان پر عمل کرنے کی بھی توفیق عنایت فرما۔

امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد

تُوبُوا اِلَی اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد

(03): ’’ غذا کے مدنی پھول ‘‘

{۱} چاکلیٹ اور مٹھائیاں زِیادہ کھانے سے دانت خراب ہوجاتے ہیں کیوں کہ چِینی کے ذرّات دانتوں پر چپک کرمخصوص جراثیم کی افزائش کاسبب بنتے ہیں {۲} بچّے چاکلیٹ کے شیدائی ہوتے ہیں ان کو بچانا ضروری ہے۔ چاکلیٹ یا اس کی پنّی پر چند مرتبہ کوئی کڑوی چیز یا مرچیں وغیرہ لگا دی جائیں جس سے ان کو چاکلیٹ سے دلچسپی ختم ہو جائے {۳} پراسیس کردہ ٹِن پیک غذاؤں کومحفوظ کرنے کیلئے ‘’ سوڈیم نائٹرٹ’‘ نامی کیمیکل ڈالا جاتا ہے ، اس کا مسلسل استعمال سرطان کی گانٹھ (CANCER TUMOR) بناتا ہے {۴} آئسکریم کے ایک کپ ( یعنی 210ملی لیٹر) میں 84 ملی گرام کولیسٹرول ہوتا ہے {۵} 250گرام کی بوتل (کو لڈڈرنک) میں تقریباً سات چمّچ چینی ہوتی ہے {۶} اُبلے ہوئے یا بھاپ (STEAM) میں پکائے ہوئے کھانے اور سبزیاں زیادہ مفید اور زود ہضم ہوتے ہیں {۷} بیمار جانور کا گوشت فوڈ پوائزنِنگ (FOOD POISONING) اور بڑی آنت کے کینسرکا ذَرِیعہ بن سکتا ہے {۸} ہاف فرائی انڈا کھانے کے بجائے اچھّی طرح فرائی کرکے کھانا چاہئے اور آملیٹ اُس وقت تک پکایا جائے جب تک خُشک نہ ہوجائے {۹} انڈا اُبالنا ہو تو کم از کم سات مِنَٹ تک اُبالا جائے {۱۰} سیب ، چِیکو، آڑو، آلوچہ ، اَملوک، کھیراوغیرہ پھلوں کو چھیلے بِغیر کھانا مفید ہے کیوں کہ چھلکے میں بہترین غذائی رَیشہ ( فائبر) ہوتا ہے ۔ غذائی رَیشے ٭بلڈ شوگر٭بلڈ کولیسٹرول اور ٭بلڈ پریشر کم کرکے ٭ قبض کھولتے اور ٭ غذا سے زہریلے مادّوں کو لے کر نکل جاتے نیز٭ بڑی آنت کے کینسر سے بچاتے ہیں {۱۱} کدو شریف، شکر قند، چقندر، ٹماٹر، آلو وغیرہ وغیرہ چھلکے سمیت پکانا چاہئیں ، ان کا چھلکا کھالینا مفید ہے {۱۲} کالے چنوں کا استعمال صحّت کیلئے مفید ہے۔ اُبلے ہوئے ہوں یا بھنے ہوئے ان کے چھلکے بھی کھا لینے چاہئیں {۱۳} ایک ہی وقت میں مچھلی اور دودھ کا استعمال نقصان دِہ ہے {۱۴} اینٹی بائیو ٹیک دَوا استعمال کرنے کے بعد دَہی کھالینا چاہئے ۔ جو ضروری بیکٹیریا ختم ہوجاتے ہیں وہ دہی کھانے سے بحال ہوجاتے ہیں ۔ ( ہر علاج تجربہ کار طبیب کے مشورے کے مطابِق کرنا چاہئے) { ۱۵} کھانے کے فوراً بعد چائے یا ٹھنڈی بوتل پینا نظامِ انہِضام کو مُتَأثِّر کرتا ہے، اس سے بد ہضمی اور گیس کی شکایت ہوسکتی ہے۔ ( کھانا کھانے کے تقریباً دو گھنٹے کے بعد ایک دو گلاس پانی پی لینا مفید ہے) {۱۶} چاول کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے کھانسی ہوسکتی ہے {۱۷} گُودے والے پھل (مَثَلاً پپیتا ، امرود، کیلاوغیرہ ) اور رس والے پھل (مثلاً موسمبی، سنگترہ وغیرہ) ایک ساتھ نہیں کھانے چاہئیں {۱۸} پھلوں کے ساتھ چینی یا مٹھائی کا استعمال نقصان کرتاہے۔ ( مختلف پھلوں کی ٹکڑیاں کر کے چاٹ مصالحہ ڈالنے میں حرج نہیں مگر چینی نہ ڈالی جائے) {۱۹} پھل اور سبزیاں ایک ساتھ نہ کھائے جائیں {۲۰} کھیرا ، پپیتا اور تربوز کھانے کے بعد پانی نہ پیا جائے {۲۱} کھانا کھانے کے آدھے گھنٹے پہلے پھل کھالینا چاہئے، کھانے کے فوراً بعد پھل کھانا مُضِرِّ صحّت ہے ( افسوس! آج کل کھانے کے فوراً بعدپھل کھانے کا رواج ہے ) {۲۲} میرے آقا اعلیٰ حضرت، مو لانا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن روایت نَقل کرتے ہیں : ‘’ کھانے سے پہلے تربوز کھانا پیٹ کو خوب دھو دیتا ہے اور بیماری کوجڑ سے ختم کردیتا ہے۔ ’‘ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطیص۱۹۲حدیث۳۲۱۲و فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۵ص۴۴۲) {۲۳} میٹھی ڈِشیں ، مٹھائیاں اور میٹھے مَشروبات کھانے سے کم از کم آدھے گھنٹے قبل استِعمال کئے جائیں ، کھانے کے بعد ان کا اِستِعمال نقصان کرتا ہے۔ (افسوس! میٹھی ڈشیں آج کل کھانے کے بعد کھائی جاتی ہیں ) جوانی ہی سے مٹھاس اورچِکناہٹ کا استِعمال کم کر دیجئے، اگر مزید زندہ رہے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ بُڑ ھاپے میں سَہولت رہے گی {۲۴} اُبلی ہوئی سبزی کھانا بَہُت مفید ہے اور یہ جلدی ہضم ہوتی ہے {۲۵} سبزی اُسی وقت کاٹی جائے جب پکانی ہو ، پہلے سے کاٹ کر رکھ دینے سے اُس کے قوّت بَخش اَجزا رفتہ رفتہ ضائِع ہوجاتے ہیں {۲۶} تازہ سبزیاں وٹامنز ، نمکیات اور معدنیات وغیرہ کے اَہم عَناصِر سے لبریز ہوتی ہیں مگر جتنی دیر تک رکھی رہیں گی اُتنے ہی اُن کے وٹامنز اور مُقَوّی (مُ۔ قَوْ۔ وِی) اَجزا ضائِع ہوتے چلے جائیں گے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ جس دن کھانا ہو اُسی دن تازہ سبزیاں خرید یں {۲۷} سبزیاں پکانے میں پانی کم سے کم ڈالنا چاہئے کیوں کہ پانی سبزیوں کے حیات بخش اَجزاء (وٹامنز) کھینچ لینے کی صلاحیّت رکھتا ہے {۲۸} سبزیاں مَثَلاً آلو، شکرقند ، گاجر، چُقندر وغیرہ اُبالنے کے بعد بچا ہوا پانی ہرگز پھینکا نہ جائے، اُس کو اِستِعمال کرلینا فائدہ مندہے کیوں کہ اُس میں ترکاریوں کے مُقَوّی اجزاء شامل ہوتے ہیں {۲۹} سبزیاں زِیادہ سے زِیادہ 19مِنَٹ میں اُبال لینی چاہئیں ان میں بھی بالخصوص سبز رنگ کی ترکاریاں تو دس مِنَٹ کے اندر اندر چولہے سے اُتارلی جائیں {۳۰} زِیادہ دیر پکانے سے سبزیوں کے حیات بخش اَجزاء ( وٹامنز) ضائع ہونے شروع ہوجاتے ہیں باِ لخصوص وٹامِن سی کافی نازُک ہوتا ہے اس لئے زیادہ دیر پکانے سے یہ باِ لکل ختم ہوجاتا ہے {۳۱} ترکاری یا کسی قسم کی غِذا پکاتے وقت آگ درمیانی ہونی چاہئے ۔ اس سے غذا اندر تک اچھّی طرح پک جائے گی اور لذیذ بھی ہوگی {۳۲} چولھے سے اُتارنے کے بعد ڈھکّن بند رکھنا چاہئے اِس طرح بھاپ کا اندر رہنا پکنے کے عمل کیلئے مُفید ہے {۳۳} کچّی یاپکّی سبزیاں فِرِج میں رکھی جاسکتی ہیں {۳۴} لیموں کی بہترین قسم وہ ہے جس کا رس رقیق (پتلا) اور چھلکا ایک دَم پتلا ہو، عام طور پر اسے کاغذی لیموں کہتے ہیں ۔ لیموں کوآم کی طرح گھولنے کے بعد، چوڑائی میں کاٹنا چاہئے، اس کے کم از کم چار اور اگر ذرا بڑا ہو تو آٹھ ٹکڑے کر لیجئے، اِس طرح نچوڑنے میں آسانی رہے گی۔ لیموں کا ٹکڑا اِس قَدَر نچوڑیں کہ سارا رس نِچڑ جائے یعنی ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے، ادھورا نچوڑ کر پھینک دینا اِسراف ہو سکتاہے {۳۵} فِرِج سے نکال کر ٹھنڈا لیموں باورچی خانہ میں چولھے کے پاس رکھ دیجئے یاگرم پانی میں ڈال دیجئے، کاٹ کر گرم چاولوں کے پتیلے میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اِس طرح نرم ہو جائے گا اور رس بآسانی نکل آئے گا {۳۶} کچّی سبزیاں اور سلاد کھانا مفید ہے کہ یہ وٹامنز سے بھرپور، صحّت بخش اور قبض کُشا ہوتی ہیں ۔ سائنسی تحقیق کے مطابِق پکانے سے اکثر غذائیت ضائِع ہوجاتی ہے {۳۷} تازہ سبزی کا استعمال زِیادہ مُفید ہوتاہے ۔ باسی سبزیاں نقصان کرتیں اور پیٹ میں گیس بھرتی ہیں ، ہاں آلو، پیاز ، لہسن وغیرہ تھوڑے دن رکھنے میں حَرَج نہیں {۳۸} سبزی ، پھل اور اناج میں موجود غذائیت کا ’’ حارِس‘‘ (یعنی محافظ) اُس کا چھلکا ہوتا ہے لہٰذا ان میں سے جوجوچیزچھلکے کے ساتھ بآسانی کھائی جاسکتی ہے، اُس کا چھلکا نہیں اُتارنا چاہئے۔ جس کا چھِلکا سخت ہوتا ہے اور نہیں کھایا جاتا اُس کی بھی صرف ہلکی سی تہ وہ بھی آہِستہ آہِستہ اُتارنی چاہئے۔ چھلکاجس قَدَر موٹا اُتاریں گے اُتنے ہی وٹامنز اور قوّت بخش اَجزا ضائِع ہوں گے {۳۹} پالِش کئے ہوئے گندُم ، چاول اور دالوں کا آج کل استِعمال عام ہے ، آٹا بھی پالِش کئے ہوئے گندُم ہی کا ملتا ہے، پالِش کی وجہ سے اناج کا غذائی رَیشہ اور اس کی اُوپر ی تہ جو وٹامِنز سے بھرپور ہوتی ہے برباد ہو جاتی ہے {۴۰} موسمبی ، سنگترہ وغیرہ کاموٹا چھلکا اتارنے کے بعد بچی ہوئی باریک جِھلّی کھا لیجئے {۴۱} حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ الْمُرتَضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : انار کے دانے اس کی جھلّی ( جو دانوں پر لپٹی ہوتی ہے) کے ساتھ کھاؤ کیونکہ اس سے مِعدے کی صفائی ہوتی ہے ۔ (مسند امام احمدبن حنبل ج ۹ ص ۷۲ حدیث ۲۳۲۹۷) کھانے کی احتیاطوں کی نرالی معلومات کیلئے ‘’ فیضانِ سنّت ‘‘ کا باب ’’پیٹ کا قفلِ مدینہ‘‘ پڑھ لیجئے۔

(04): ’’ مچھلی کھانے کے مدنی پھول ‘‘

مچھلی کی ھڈیا ں کھا سکتے ہیں یا نہیں ؟

سُوال: مچھلی کی ہڈِّیاں کھاسکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب: کھاسکتے ہیں ۔ مچھلی کی ہڈِّیاں عُمُوماًسخت ہوتی ہیں اور کھائی نہیں جا تیں ۔ مگر بعض کی چَبنی یعنی کُرکُری اورمُلائم ہوتی ہیں ۔مثلاً سَمُندر کے پاپلیٹ اور سُرمئی مچھلی وغیرہ کی ہڈِّیاں نرم اور لذیذ ہوتی ہیں ان کو خو ب چبایئے اور اچّھی طرح چوس کر بچا ہوا چُورا پھینک دیجئے۔فتاوٰی رضویہ میں ہے: ’’جانور حلال مذبوح کی ہڈّی کسی قسم کی مَنْع نہیں جب تک اس کے کھانے میں مَضَرَّت(یعنی نقصان) نہ ہو ،اگر ہو تو ضَرَر کی وجہ سے مُمانَعَت ہوگی ،نہ کہ اس لئے کہ ہڈی خود ممنوع ہے۔ ‘‘

مچھلی کی کھال کھانا کیسا؟

جواب:کھا سکتے ہیں ۔عُمُوماً لوگ مچھلی کی کھال پہلے ہی سے یا پکنے کے بعد نکال کر پھینک دیتے ہیں ایسا نہ کیا جائے ،اگر کوئی مجبوری نہ ہو تومچھلی کی کھال بھی کھا لینی چاہئے، کہ یہ بھی اللہ ربُّ العزّت کی نعمت ہے اور بعض مچھلیوں کی کھال تونہایت لذیذ ہوتی ہے۔ہاں کسی مچھلی کی کھال سخت ہو اور چبانے میں نہ آتی ہو تو پھینکنے میں حرج نہیں ۔

مچھلی پکانے کا طریقہ

سُوال:کیا مچھلی پکانے کا کوئی مخصوص طریقہ ہے؟

جواب: مچھلی پکانے کے کئی طریقے ہیں : سب سے بہتر یہ ہے کہ نمک مَسالا چڑھا کر کوئلوں پرسینک لی جائے ،اووَن (OVEN)میں بھی سینک سکتے ہیں ۔ بَہُت زیادہ پکا کر یا تیز آنچ پر تل کر کھانے سے اِس کے فائدے میں کمی آجاتی ہے ۔ہمارے(یعنی سگ مدینہ عفی عنہ کے) گھر میں مچھلی پکانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے چند گھنٹے پانی کے برتن میں بھگو کر رکھ دیتے ہیں ،اِس طرح کرنے سے اِس کی بو میں کافی کمی آجاتی ہے ۔ سالن بنانے میں تیل کے علاوہ صِرْف چار چیزیں یعنی نمک ،مِرْچ ، پسا ہوا لہسن او ر پسا ہوا خشک دھنیا استِعمال کرتے ہیں ،اِس طرح اگر’’فرائی پان‘‘ میں جلا کر مَسالا خشک کر لیں تو مچھلی کی نہایت لذیذ ڈِش بن جاتی ہے۔مَسالا بِغیر خشک کئے بھی کھا سکتے ہیں اور حسبِ ضَرورت پانی ڈال کر شوربا بھی بنایا جاسکتا ہے۔تحریر کردہ کے علاوہ ہمارے یہاں مچھلی پکانے میں عُمُوماً اور کوئی چیز مَثَلاً پیاز ، آلو ، کالی مِرْچ وغیرہ نہیں ڈالتے۔ہاں بُملا نامی ایک نرم مچھلی آتی ہے اُس میں دیکھا ہے مذکورہ مسالے کے علاوہ ٹماٹر بھی ڈالتے ہیں ۔اگرمَسالایا شوربا زیادہ کرنا ہو تو پسا ہوا لہسن اور خشک دھنیا دُگنی تِگنی بلکہ اِس سے بھی زیادہ مقدار میں دل کھول کر ڈال سکتے ہیں ۔ کبھی تجرِبہ کر کے دیکھ لیجئے ،ہو سکتا ہے شُروعات میں صحیح نہ بن پائے ،جب ہاتھ بیٹھ جائے گا تو شاید آپ کو اِ س طریقے کا مچھلی کا سالن بَہُت پسند آئے گا۔(مچھلی کے عجائبات ص ۲۳ تا ۲۱)

(05): ’’ ۲۲ اعضاء ممنوعہ(ذبیجہ کے جو اعضاء نہیں کھا سکتے) ‘‘

فیضانِ سنَّت جلد اوّل اوپر سے صَفَحہ405تا 408پر ہے: میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن فرماتے ہیں :حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں {1}رگوں کا خون {2}پِتّا {3}پُھکنا (یعنی مَثانہ) {4،5} علاماتِ مادہ ونَر {6} بَیضے (یعنی کپورے){7}غُدود {8}حرام مَغز {9}گردن کے دوپٹھے کہ شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں {10}جگر (یعنی کلیجی) کا خون {11}تِلی کا خون {12} گوشْتْ کا خون کہ بعدِ ذَبْح گوشْتْ میں سے نکلتا ہے {13}دل کا خون {14}پِت یعنی وہ زَرد پانی کہ پِتّے میں ہوتاہے {15}ناک کی رَطُوبت کہ بَھیڑ میں اکثر ہوتی ہے {16} پاخانے کا مقام {17}اَوجھڑی {18}آنتیں {19}نُطْفہ(مَنی) {20}وہ نُطْفہ کہ خون ہوگیا {21} وہ (نُطْفہ۱) کہ گوشْتْ کا لوتھڑا ہوگیا {22}وہ کہ(نُطْفہ)پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا یا بے ذَبْح مرگیا۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص ۲۴۰ ¡ ۲۴۱) سمجھدار قَصاب بَعض ممنوعہ چیزیں نِکال دیاکرتے ہیں مگربَعض میں ان کو بھی معلومات نہیں ہوتیں یابے اِحتِیاطی برتتے ہیں۔ لہٰذا آج کل عُمُوماًلاعلمی کی وجہ سے جو چیزیں سالن میں پکائی اور کھائی جاتی ہیں ان میں سے چند کی نِشاندہی کرنے کی کوشِش کرتا ہوں۔

خون

ذَبْح کے وَقْت جو خون نکلتا ہے اُس کو ’’ دَمِ مَسْفُوح ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ناپاک ہوتا ہے اس کا کھانا حرام ہے ۔بعدِ ذَبْح جو خون گوشْتْ میں رَہ جاتا ہے مَثَلاً گردن کے کٹے ہوئے حصّے پر، دل کے اندر، کلیجی اور تلّی میں اور گوشْتْ کے اندر کی چھوٹی چھوٹی رگوں میں یہ اگرچِہ ناپاک نہیں مگر اس خون کا بھی کھانا ممنوع ہے۔ لہٰذا پکانے سے پہلے صَفائی کرلیجئے ۔

گوشْتْ میں کئی جگہ چھوٹی چھوٹی رگوں میں خون ہوتا ہے ان کی نگہداشت کافی مشکِل ہے،پکنے کے بعد وہ رگیں کالی ڈَوری کی طرح ہوجاتی ہیں۔ خاص کر بھیجے، سری پائے اورمُرغی کی ران اورپَر کے گوشْتْ وغیرہ میں باریک کالی ڈوریاں دیکھی جاتی ہیں کھاتے وَقْت ان کو نکال دیا کریں۔مُرغی کا دل بھی ثابِت نہ پکایئے ، لمبائی میں چار چِیر ے کرکے ِاس کا خون پہلے اچھّی طرح صاف کرلیجئے ۔

حرام مغْزْ

یہ سفید ڈورے کی طرح ہوتا ہے جو کہ بھیجے سے شروع ہوکر گردن کے اندر سے گزرتا ہوا پوری ریڑھ کی ہڈی میں آخِر تک جاتا ہے۔ماہِر قصّاب گردن اور رِیڑھ کی ہڈّی کے بیچ سے دو پر کالے یعنی دو ٹکڑے کرکے حرام مَغْزنکال کر پھینک دیتے ہیں۔ مگر بارہا بے احتیاطی کی وجہ سے تھوڑا بَہُت رہ جاتا ہے اور سالن یا بریانی وغیرہ میں پک بھی جاتا ہے۔چُنانچِہ گردن، چانپ اور کمر کا گوشْتْ دھوتے وَقْت حرام مغْزتلاش کرکے نکا ل دیا کریں۔ یہ مُرغی اور دیگر پرندوں کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی میں بھی ہوتا ہے،پکانے سے قبل اس کو نکالنا بَہُت مشکِل ہے لہٰذا کھاتے وَقْت نکا ل دیناچاہئے۔

پٹھے

گردن کی مضبوطی کیلئے اِس کی دونوں طرف پیلے رنگ کے دو لمبے لمبے پٹّھے کندھوں تک کِھچے ہوئے ہوتے ہیں۔ان پٹّھوں کا کھانا ممنوع ہے۔گائے اور بکری کے تو آسانی سے نظر آجاتے ہیں مگر مُرغی اور پرندوں کی گردن کے پٹّھے بآسانی نظر نہیں آتے ، کھاتے وَقْت ڈھونڈ کر یا کسی جاننے والے سے پوچھ کر نکا ل دیجئے۔

غُدُود

گردن کی مضبوطی کیلئے اِس کی دونوں طرف پیلے رنگ کے دو لمبے لمبے پٹّھے کندھوں تک کِھچے ہوئے ہوتے ہیں۔ان پٹّھوں کا کھانا ممنوع ہے۔گائے اور بکری کے تو آسانی سے نظر آجاتے ہیں مگر مُرغی اور پرندوں کی گردن کے پٹّھے بآسانی نظر نہیں آتے ، کھاتے وَقْت ڈھونڈ کر یا کسی جاننے والے سے پوچھ کر نکا ل دیجئے۔

غُدُود

گردن پر ، حَلْق میں اور بعض جگہ چربی وغیرہ میں چھوٹی بڑی کہیں سُرخ اور کہیں مَٹیالے رنگ کی گول گول گانٹھیں ہوتی ہیں ان کو عَرَبی میں غُدَّہ اور اُردو میں غُدُود کہتے ہیں۔ یہ بھی مت کھائیے، پکانے سے پہلے ڈھونڈ کر نکال دیجئے۔ اگر پکے ہوئے گوشْتْ میں بھی نظر آ جائے تو نکا ل دیجئے۔

کپُورا

کپُورے کو خُصیَہ، فَوطہ یا بَیْضَہبھی کہتے ہیں ان کا کھانا مکروہ تحریمی ہے۔ یہ بیل، بکرے وغیرہ (نَر یعنی مُذَکَّر) میں نُمایاں ہوتے ہیں۔مُرغے (نَر)کا پیٹ کھو ل کر آنتیں ہٹائیں گے تو پیٹھ کی اندرونی سطح پرانڈے کی طرح سفید دوچھوٹے چھوٹے بیج نُما نظر آئیں گے یہی کپُورے ہیں۔ ان کو نکا ل دیجئے۔ افسوس! مسلمانوں کی بعض ہوٹلوں میں دل ،کلیجی کے علاوہ بیل،بکرے کے کپُورے بھی توے پر بھون کر پیش کئے جاتے ہیں غالِباً ہوٹل کی زَبان میں اس ڈِش کو ’’کَٹا کَٹ ‘‘کہاجاتا ہے۔(شاید اس کو ’’کَٹاکَٹ‘‘اِ س لئے کہتے ہیں کہ گاہک کے سامنے ہی دِل یا کپُورے وغیرہ ڈال کر تیز آواز سے توے پر کاٹتے اوربُھونتے ہیں اِس سے ’’کَٹاکَٹ ‘ ‘ کی آواز گونجتی ہے)

اَوجھڑی

اَوجھڑی کے اندر غَلاظت بھری ہوتی ہے اِس کا کھانا مکروہِ تحریمی ہے مگر مسلمانوں کی ایک تعداد ہے جو آج کل اِس کو شوق سے کھاتی ہے۔

(06): ’’ کلونجی کے ۱۹ مدنی پھول ‘‘

(1)فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: کالا دانہ( کلونجی) میں موت کے سِوا ہر بیماری کی شِفا ہے۔ ( مِشْکَاۃُ الْمَصَابِیحج۲ص۱۴۳ حدیث۴۵۲۰) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں:ہر مرض سے مراد ہر بلغمی اور رطوبت کے امراض ہیں کیوں کہ کلونجی گرم اور خشک ہوتی ہے لہٰذا مرطوب اور سردی کی بیماریوں میں مفید ہوگی۔( مراٰۃ شرح مشکوٰۃ ج۶ ص ۲۱۶)

(2)روزانہ نہار منہ چٹکی بھر کلونجی تقریباً12 قطرے اصلی شہد میں ملا کر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ؕ پڑھ کر شہادت کی اُنگلی سے چاٹئے اِن شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ بہت سی بیماریاں ختم ہو جائیں گی(3) کلونجی کو جَلا کرکھانا بوا سیر کودُور کرتا ہے(4)کلونجی کھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں(5) کلونجی کو تیل میں جوش دے کر سر میں وہ تیل لگانے سے دردِ سر، نزلہ اور زُکام میں فائدہ ہوتا ہے (6) اگر خشکی کی وجہ سے سرپر پَپڑیاں سی بن گئی ہوں تو کلونجی کھانے سے ختم ہو جاتی ہیں(7) کلونجی کو پانی میں جوش دے کر غرارے کرنے سے دانتوں کادَرد دُور ہوتا ہے(8) پیشاب نہ آنے کی صورت میں کلونجی کے کھانے سے پیشاب کھل کر آجاتا ہے(9)کلونجی میں سِرکہ ملا کر کھانے سے بلغمی وَرم دُور ہوتا ہے(10) زَیتون کے تیل میں کلونجی ڈال کر سُونگنے سے آنکھوں کا دَرد جاتا رہتا ہے(11) کلونجی بلغمی بخار کے لئے مفید ہے (12)کلونجی حَیض کی رکاوٹ کودُور کرتی ہے(13) کلونجی سِرکہ میں ملا کر بَرَص (کوڑھ) پر لگانے سے فائدہ ہو تا ہے(14) فَوطہ کی سُوجن میں کلونجی پیس کر سِرکہ میں ملا کرلگائیں تو فائدہ ہو تا ہے(15) کلونجی پیس کر مہندی میں ملا کر سر میں لگانے سے سرکے بال جھڑنا بند ہوتے ہیں(16)کلونجی کا استِعمال سینے کے دَرداور کھانسی میں مُفید ہے(17)گھر میں کلونجی کی دُھونی دینے سے کھٹمل اور مچھر کاخاتِمہ ہوتا ہے(18)دماغ کی بیماری ہو تو کلونجی کے اکیس دانے کپڑے کی پوٹلی میں باندھ کر پانی میں اُبالئے ۔ پہلے دن سیدھے نتھنے میں دو قطرے اور اُلٹے نتھنے میں ایک قطرہ ۔ دوسرے دن اُلٹے نتھنے میں دو قطرے اور سیدھے نتھنے میں ایک قطرہ ڈالئے۔اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ تین دن میں شفا حاصِل ہو جائے گی(19)کلونجی شہد کے ساتھ کھانے سے (گُردے مثانے کی) پتھری نکل جاتی ہے۔(گھریلو علاج ص۱۱۳تا۱۰۹)

(07): ’’ انجیر کے مدنی پھول ‘‘

(1)امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:اَنجیر میں دیگر تمام پھلوں کے مقابلہ میں بہتر غِذائیت ہے۔(2)اَنجیربواسیر کوختم کر دیتا اور جوڑوں کے دَرد کیلئے مفید ہے(3) اَنجیر نہار منہ کھانے کے عجیب و غریب فوائد ہیں(4) خشک انجیر سخت ہوں تو اُن کو کم و بیش 25 مِنَٹ پانی میں بِھگو دیجئے اور دھو کر چھاؤں میں سکھا دیجئے اِن شاء اللہ عَزَّوَجَلَّنرم ہو جائیں گے۔ سبزیاں ، پھل، خشک میوے وغیرہ ممکنہ صورت میں دھو کر ہی استِعمال کئے جائیں تا کہ جراثیم کُش اَدوِیہ کا اثر دُھل جائے(5) اگر خُونی بواسیر ہو تو پانچ عدد اَنجیر ٹکڑے کرکے پاؤ بھر دودھ میں اُبال کر ٹھنڈا کر کے روزانہ سونے سے پہلے کھا لیجئے ۔ اِن شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ تھوڑے ہی دِنوں میں خون بند ہو جائیگا ۔ یہ عمل مستقل جاری رکھیں تو بَہُت اچھا ہے(6) خشک بواسیر کے سبب بَہُت درد ہوتو پانی میں ایک چَمَّچ شہد ملا کر اس کے ساتھ نَہار منہ یعنی ناشتہ سے قبل اور اگر روزہ ہو تو افطار میں خالی پیٹ پانچ عدد اَنجیر روزانہ کھایئے(7) تازہ اَنجیر کا رَس نچوڑ کر مَسّوں کو لگایا جائے تو مسّے جھڑ جانے کی امّید ہے(8) جن کو بواسیر کی تکلیف کم مگر بد ہَضمی زیادہ ہو وہ ہر کھانے سے قبل تین عدد اَنجیر کھا لیں(9) جن کے پیٹ میں بوجھ ہو جاتا ہو وہ ہر بار کھانا کھانے کے بعد تین عدد اَنجیر کھالیں(10)اَنجیر موٹے پیٹ کو چھوٹا کرتا اور موٹاپادُور کرتا ہے(11) کَمَرکے درد والے روزانہ سات عدد اَنجیر کھا لیا کریں(12)جس کو قبض رہتا ہو وہ روزانہ نَہار منہ5 عدد اَنجیر کھا لیجئے(13) اَنجیر کھانے سے حیض کے خون میں اِضافہ اور دُودھ میں زیادَتی ہو تی ہے(14) اَنجیر میں کھانسی اور دَمے کا علاج ہے(15) اَنجیر چہرے کا رنگ نِکھارنے کیلئے مفید ہے(16) اَنجیر پُرانی بلغمی کھانسی کیلئے نَفْع بَخش ہے(17)اَنجیر بلغم کو پتلا کر کے ہی نکال دیتا ہے (18)اَنجیر پیاس بجھاتا ہے(19) اَنجیر کا گُودا بخار کے دَوران مریض کے منہ کو خشک نہیں ہونے دیتا(20) مَیتھی کے بیج اور اَنجیر پانی میں پکا کر خوب گاڑھا کر کے اس میں شہد ملا کر کھانے سے کھانسی کی شِدّت میں راحَت ہوتی ہے(21) اَنجیر گُردہ اور مَثانہ (یعنی پیشاب کی تھیلی) کی سوزِش کیلئے مفید ہے(22) سفیداَنجیر سب سے بہترین مانا جاتا ہے۔ یہ گُردہ، مَثانہ اور پِتّے کی پتھری کو حل کر کے نکال دیتا ہے(23)اگر کسی کے گُردے فیل ہوں اور وہ طویل مدّت تک اَنجیر استِعمال کرے تو بِفَضلہ تعالیٰ اُس کو صحت مل سکتی ہے(24)اَنجیر پیٹ کی رِیح کو باہر نکالتا ہے(25) انجیر اور بادام ملا کر کھائیں تو پیٹ کی اکثر بیماریاں دُوربھاگتی ہیں(26) اَنجیر حَلق کی سوزِش ،سینہ کے بوجھ اور پھیپھڑوں کی سُوجن میں فائدہ کرتا ہے(27) اَنجیر جِگر او ر تِلّی کو صاف کرتا ہے(28) اَنجیر جِگر او ر پِتّے کے سُدّے یعنی گندی گانٹھوں کو نکالتا ہے(29) اَنجیر چھاتی کی پُرانی سوزِش کیلئے نفع بخش ہے(30)اَنجیر کو جوش دیئے ہوئے پانی کے غَرارے کرنے سے مسوڑوں اور گلے کی سوزِش کم ہوتی ہے(31) خشک اَنجیر کو جَلا کر اُس کی راکھ سے منجن کرنے سے دانت کا مَیل اور دَھبّے دُور ہوتے ہیں (32)جَو شریف کی روٹی اور اَنجیر مِلا کر کھانا مُتَعَدَّددِماغی اَمراض کا علاج ہے(33)اَنجیر بلڈ پریشر (B.P.) اور کولیسٹرول (CHOLESTROL) کے مریض کیلئے مفید ہے۔

(08): ’’ علاج کے مدنی پھول ‘‘

طِب یقینی نہیں ظَنّی ہے

اِس کتاب میں جو بھی طبّی علاج تجویز کئے گئے ہیں وہ یقینی نہیں ہیں بلکہ سارے کا سارا طِبّ ہی ظَنّی یعنی اس میں غلطی کا امکان رہتاہے، ہر دواء ارادۂ الہٰی عَزَّوَجَلّ َکے تابِع ہے ۔ اگر شِفاء مل جائے تو دواء کاکمال نہیں،ربِّ مُتَعال عَزَّوَجَلَّ کا رحم وکرم اور جُود و نَوال ہے۔ اگر شِفاء نہ ہو یا خدا نخواستہ مزید نقصان ہو جائے تب بھی اللہ عَزّ َوَجَلَّ کی رِضا پر راضی رہئيے۔ اکثرنُسخہ جات مختلف کتابوں سے اور بعض اپنے تجرِبات کی روشنی میں تحریر کئے ہیں ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ غَرَض و غایت خدمتِ اُمّت اور اس کے ذَرِیعے حصولِ رِضا ئے ربُّ العزّت جَلَّ جَلا لُہٗ ہے۔اُمّت کی خیر خواہی بڑے ثواب کا کام ہے کہ خَیْرُ النَّاسِ اَنْفَعُھُمْ لِلنَّاسِ یعنی بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ (اَ لْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوْطِیّ ص246 حدیث 4044 دار الکتب العلمیۃ بیروت) اللہ کے پیارے حبیب ، حبیبِ لبیب ، ہم گناہوں کے مریضوں کے طبیب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ مَنفَعَت نشان ہے :جو کوئی تم میں سے اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو تو اُسے نَفع پہنچا نا چاہئے۔ (صَحِیح مُسلِم حدیث 2199،ص1207)

سُنا سُنایا علاج خطرناک ثابِت ہو سکتا ہے

علاج کیلئے کسی ایک طبیب کومُستَقِلاً (مُس۔تَ۔قِلاً)مخصوص کر لینا چاہئے ، وہ آپ کے طَبْعی مِزاج سے واقِف رہے گا تو علاج جلد ہو سکے گا اورمَنفی اثرات کے خطرات بھی کم رہیں گے، ورنہ خواہ مخواہ جدا جدا طبیبوں کے پاس جائیں گے تو وہ نئے نئے نسخے آزمائیں گے ،اِس طرح آپ کا پیسہ اور وقت دونوں برباد ہوتے رہیں گے۔ اِسی طرح کتابوں یا لوگوں کے بتائے ہوئے نُسخوں کے مطابق علاج کرنا بھی خطرناک ثابِت ہو سکتا ہے ،کہ مَثَل(مَ۔ثَل)مشہور ہے''نیم حکیم خطرۂ جان۔''ساتھوں ساتھ یہ بھی خاص تاکید ہے کہ اِس کتاب میں دیا ہوا کوئی بھی نُسخہ اپنے طبیب سے مشورہ کئے بِغیر استِعمال نہ کیاجائے اگر چِہ یہ نُسخہ اُسی بیماری کیلئے ہو جس سے آپ دو چار ہوں ۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی طَبعی(طَب۔عی)کیفیات جُدا جُدا ہوتی ہیں ، ایک ہی دوا کسی کیلئے آبِِ حیات کا کام دکھاتی ہے تو کسی کیلئے موت کا پیام لاتی ہے۔ لہٰذا آپ کی جسمانی کیفیات سے واقِف آپ کا مخصوص طبیب ہی بہتر طے کر سکتا ہے کہ آپ کو کون سانُسخہ مُوافِق ہو سکتا ہے اور کون سا نہیں۔کیوں کہ کتاب میں علاج کے طریقے بیان کرنا اور ہے جبکہ کسی خاص مریض کاعلاج کرنا اور۔

کون سی دوا کس کیلئے نقصان دہِ ہے

میں نے ایلو پیتھک ادویہ کے شعبہ سے وابَستہ اپنے مرحوم بڑے بھائی جان سے سنا تھا کہ جب پِنسلین (PENICILLIN)کا انجکشن نیا نیا ایجاد ہوا تھا تو لوگوں کو اس سے کافی شِفائیں مل رہی تھیں ، مگر بعض مریض اِسی کے منفی اثر (REACTION) کے سبب فوت بھی ہو جاتے تھے۔ شوگر کے مریضوں کیلئے شکر اور میٹھی چیزوں والے ، فِشارُالدَّم(ہائی بلڈ پریشر)والوں کیلئے نمک اور چکناہٹ والے اور دل کے مریضوں کیلئے گھی تیل والی دواؤں کے نسخے نقصان دہِ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اِسی طرح بعضوں کو کھجوروں ، چُھوہاروں سے منہ میں چھالے پڑ جاتے ہیں اورکسی کو دودھ ہَضم نہیں ہوتا۔

کیاہر مریض کیلئے شہد مفید ہے؟

شہد ہی کولے لیجئے حالانکہ اِس میں شِفا ہے:تاہم بعضوں کے وُجُود اِس کوبرداشت نہیں کر پاتے چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 25 صَفْحَہ 88 پر رَدُّالْمُحتار کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:''جن مِزاجوں (یعنی طبیعتوں )پر صَفرا (۱) غالب ہوتا ہے شہد اُنہیں نقصان کرتا ہے بلکہ بارہا بیمار کر دیتا ہے !باآنکہ(یعنی باوُجُود اس کے کہ)وہ(یعنی شہد)بَنَصِّ قراٰنی(دلیلِ قراٰنی سے)شِفا ہے۔''(رَدُّالْمُحتار ج 10 ص 50 دارالمعرفۃ بیروت ) اَخلاطِ اَربَعَہ یعنی چار خِلطَیں(۱) صَفرا( یعنی پِت) (۲) خون(۳) بلغم اور (۴) سَودا( جَلا ہوا سیاہ بلغم) ان چاروں میں سے جن لوگوں کے وُجُود میں صَفرا( پِت) یعنی پیلے رنگ کاکڑوا پانی زائدہو اُس کیلئے شہد کا استِعمال مُضرِّ صحّت ہے۔ اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن صَفَرا ء کی وَضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''وہ زرد پانی کہ پِتّے میں ہوتا ہے جس کو صَفراء کہتے ہیں۔''( فتاوٰی رضویہ ج 20 ص237)مِراٰۃ جلد 6 صَفْحَہ 2۱8 پر دیئے ہوئے مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان کے فرمان کا خُلاصہ ہے:''طِبّ میں شہد کو دست آوَر (یعنی دست لانے والا)مانا گیا ہے لہٰذا دَستوں (یعنی ڈائیریا،لُوز مَوشن)میں شہد استِعمال نہ کیا جائے۔''

کیا حدیث میں بتایا ہوا علاج ہر ایک کر سکتا ہے؟

احادیثِ مبارَکہ میں بیان کردہ علاج بھی اپنی مرضی سے نہیں کرنے چاہئیں۔ بے شک سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامِینِ والا شان حق، حق اور حق ہی ہیں۔ مگر جو علاج نبیوں کے سرتاج ،صاحِبِ معراج صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تجویز فرمائے ہیں ہو سکتا ہے وہ خاص خاص مَوقَعوں موسِموں کی مُناسِبتوں اور مخصوص لوگوں کے مزاجوں اور طبیعتوں کے مُوافِق ہوں جیسا کہ حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اِس حدیثِ پاک فِی الحَبَّۃِالسَّوداءِ شِفاءٌ مِّن کُلِّ داءٍ اِلَّاالسّامَ۔ یعنی کالا دانہ(کلونجی) میں موت کے سِوا ہر بیماری سے شِفاہے'' کے تحت فرماتے ہیں:ہر مرض(میں شِفا)سے مُراد ہر بلغمی اور رطوبت کے اَمراض میں (شفا ہے)، کیونکہ کلونجی گرم اور خشک ہوتی ہے لہٰذا مَرطُوب(یعنی تَری والی)اور سردی کی بیماریوں میں مُفید ہو گی ۔آگے چل کر مزید فرماتے ہیں:یہاں مُراد عرب کی عام بیماریاں ہیں (مِرقات)یعنی کلونجی عرب کی عام بیماریوں میں مفید ہے۔ خیال رہے کہ احادیثِ شریفہ کی دوائیں کسی حاذِق طبیب(یعنی ماہرِطبیب ) کی رائے سے استِعمال کرنی چاہئیں (اہلِ عرب کو تجویز کردہ دوائیں )صِرف (اپنی)رائے سے استِعمال نہ کریں کہ ہمارے (طَبعی )مزاج اہلِ عرب کے(طَبعی )مزاج سے جُداگانہ ہیں۔ (مراٰۃ ج 6 ص 216،217،ضیاء القراٰن پبلی کیشنزمرکز الاولیاء لاہور)

غیرِ طبیب کو علاج میں ہاتھ ڈالنا حرام ہے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !بعض لوگ حقیقی معنوں میں باقاعِدہ ڈاکٹر یا حکیم نہ ہونے کے باوُجُود کلینک یا مَطَب کھول کر مریضوں کا علاج شروع کر دیتے ہیں۔ایسا کرنا قانوناً جُرم ہونے کے ساتھ ساتھ شرعاً بھی ممنوع ہے۔نِیز ایک فن کاماہر دوسرے فن کے طریقِ علاج کے مطابِق مریضوں پر تجرِبات نہ کرے۔ مَثَلاً اَیلو پیتھی یا ہومِیوپَیتھی یا بائیوکِیمی والے ڈاکٹر ز باقاعِدہ سیکھے بغیر ایک دوسرے کے شعبے کی دواؤں سے اور یونانی طِب(حکمت)کے مطابِق علاج نہ فرمائیں۔اسی طرح جوجو حکیم صاحِبان باقاعدہ ڈاکٹر نہیں ہیں وہ بھی جڑی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹری دوائیں مریضوں پر نہ آزمائیں۔ میڈیکل اسٹور والے بھی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق مریضوں کودوائیں نہ دیا کریں۔ اور یوں بھی بِغیر ڈاکٹر کی چِٹّھی کے دوا بیچنا قانوناً جُرم ہے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جہاں کسی مریض سے مُلاقات ہوئی جَھٹ کوئی نہ کوئی دوا یانُسخہ ارشاد فرما دیتے ہیں !یا درکھئے ! جو ماہرِطبیب نہ ہو اُس کومریض کے علاج میں ہاتھ ڈالنا کارِ ثواب نہیں بلکہ حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔اگر کوئی ایسا غیر ماہرِ طبیب کلینک یادو اخانہ کھول کر مریضوں کاعلاج کرنے بیٹھ گیا ہو تو فوراً یہ ناجائز کام بند کرنا فرض ہے اور توبہ کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے۔ ہاں غیرِطبیب نے مطب یا دواخانہ کھول رکھا ہے مگر خود علاج نہیں کرتا بلکہ ماہرِطبیب بٹھا رکھے ہیں تو کوئی مُضایَقہ نہیں۔

ماہرِ طبیب کی تعریف

میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عليه رحمۃُ الرَّحمٰن نے فتاوٰی رضویہ جلد 24صَفْحَہ206پر ایک سُوال کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا اُس کا بعض حصّہ آسان لفظوں میں پیش کرنے کی کوشِش کرتا ہوں:چُنانچِہ فرماتے ہیں:نااہل یعنی جو پورا طبیب نہ ہو اُس کو علاج میں ہاتھ ڈالنا حرام ہے اور اِس کا ترک فرض۔ جس نے فنِّ طِب کے باقاعِدہ اُصول اور طور طریقے سیکھے اور کافی مدّت کسی طبیبِ حاذِق یعنی ماہِر طبیب کے مَطَب(دواخانہ)میں رہ کر کام کیا اور تجرِبہ حاصل ہوا، اکثر مریض اس کے ہاتھ پر شِفا پاتے ہوں اگر چِہ مریضوں کاکم حصّہ شفا پانے میں ناکام بھی رہتا ہو۔ بے علم نا تجرِبہ کار یعنی نیم حکیم جوکہ تَشْخِیْص (تَشْ۔خِیْص)یعنی مرض کی شناخت اورعلاج میں جس طرح کی فاحِش غَلَطیاں یعنی بڑی بڑی خطائیں کیا کرتے ہیں اس طرح کی بُھولیں نہ کرتا ہو وہ لائق طبیب ہے ۔ ایسے ماہرِ طبیب سے بعض اَوقات تَشخیص(یعنی مرض کی شناخت)یا علاج میں غلطی واقِع ہو جائے تو اُس کو نااَہل نہیں کہا جائے گا کہ غلطی سے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام معصوم ہیں وَبس۔ واللہُ تعالٰی اَعلم۔(گھریلو علاج ص۳ تا ۹)

(09): ’’ نیند زیادہ آنے اور نہ آنے کے علاج ‘‘

جس کونیند نہ آتی ہو اُس کیلئے 8علاج

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!نیند آور گولیوں سے حتَّی الامکان دُور رہئے اوراِس کی عادت تو ہرگز مت بنایئے کیوں کہ شروع میں اگر چِہ ان سے نیند آجاتی ہے مگر پھر رفتہ رفتہ ان گولیوں کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے اور بِالآخِر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ چاہے کتنی ہی گولیاں کھا لی جائیں نیند نہیں آتی!اور یہ گولیاں مُضِرِّصحّت بھی ہوتی ہیں لہٰذانیچے دیئے ہوئے علاج فرمایئے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کرم فرمائے گا۔ نیند نہ آتی ہو توسونے سے قبل اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴿۵۶﴾ (پ22الاحزاب56)

پڑھ کر دُرُود شریف پڑھ لیجئےاِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ نیند آجائیگی۔ (1)رات کو سونے سے پہلے یہ دُعا پڑھئے: اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْ تُ وَ احْيٰ ترجمہ:یااللہ عَزَّوَجَلَّ میں تیرے نام سے مرتا اور جیتا ہوں۔ (صَحِیحُ البُخارِی ج4ص192حدیث 6314)

(2)نیندنہ آتی ہو تو پارہ 30 سورۃُ النباء کی آیت نمبر 9 وَّ جَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا ۙ﴿۹﴾ (ترجَمۂ کنزالایمان:اور تمہاری نیند کو آرام کیا)بار بار پڑھے اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جلدی نیند آجائے گی(3)نیندنہ آتی ہو توسونے سے قبل اوّل آخِر دُدود پاک کے ساتھ کم از کم تین بار یہ پڑھئے: لَا اِ لٰہَ اِلّا ھُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْن۔ ''یعنی کوئی معبود نہیں مگر وہ (اللہ ع

عزوجل)سب سے سچّا اور ظاہِر'' (4)نیندنہ آتی ہو توسوتے وَقْت یہ دُعا ء پڑھئے: اَللّھُمَّ غَارَتِ النُّجُوْمُ وھَدَأَتِ الْعُیُوْنُ وَاَنْتَ حَییٌّ قَیومٌ لاَّ تَاْ خُذُکَ سِنَۃٌوَّ لَانَوْمٌ یَاحَیُّی یَا قَیُّوْمُ أَھْدِیئْ لَیْلِیْ وَاَنِمْ عَیْنِیْ۔( عمل الیوم واللیلۃ ،لابن السُنیّ،ص222،رقم749 دارالکتاب العربی بیروت) (اول آخرایک بار

درودشریف)

ترجمہ:''یااللہ عَزَّوَجَلَّ تارے چُھپ گئے اورآنکھیں سونے لگیں اورتُو ہمیشہ زندہ اوردوسروں کو قائم رکھنے والا ہے تجھ کونہ اونگھ آئے نہ نیند اے ہمیشہ زندہ اوردوسروں کو قائم کرنے والے!میری رات کو سکون بخش اور میری آنکھوں کو نیند عطا فرما۔''اِن شاءَ اللہ اس کی بَرَکت سے نیند آ جائے گی(5)بے خوابی (یعنی نیند نہ آنا)بَہُت پرانا مرض ہے زمانۂ قدیم میں اس کا علاج عام طور پر پیاز سے کیا جاتا تھا۔ جس کو نیند نہ آتی ہو وہ یا توکچی پیاز چبا کر کھا لے یا اُبلی ہوئی پیاز گرم دودھ میں ڈال کر استعمال کر ے اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ خوب نیند آئے گی(منہ میں بدبو ہونے کی صورت میں مسجِد کا داخِلہ حرام ہے لہٰذا نمازِ فجر کیلئے جانے سے قَبل خوب اچّھی طرح منہ صاف کرے یہاں تک کہ بدبو ختم ہو جائے )

نیند لانے والا مزیدار شربت

(6)آدھ کلو پانی میں چھ ماشہ (یعنی تقریباً6 گرام)سونف ڈال کر پانی کو چولھے پر جوش دیجئے جب دو چھٹانک (یعنی تقریباً 125گرام)پانی رہ جائے تو اس میں گائے کا دودھ 250گرام اور ایک تولہ(یعنی تقریباً 12 گرام )گائے کا گھی اور حسبِ ضرورت چینی ملا کر استِعمال کیجئےاِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلّ نیند آنے لگے گی(7)ایک درمیانہ پیاز کاٹ کر دَہی(مناسب مقدار)میں ملا کر سونے سے پہلے کھا لیں۔اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ نیند آجائے گی۔

نیند لانے کاسانس کے ذَرِیعے علاج

(8) چٹائی،بچھونے یا پلنگ پر چِت لیٹ جایئے ، دونوں ہاتھ سیدھے کر کے پہلوؤں کے برابر کر لیجئے ، اب6سیکنڈ تک آہِستہ آہِستہ گہرا سانس لیجئے، تین سیکنڈ تک ہوا کو اندر روک لیجئے اورپھر 6سیکنڈمیں آہِستہ آہِستہ منہ سے خارِج کیجئے، اس کے بعد اُلٹی کروٹ لیٹ کر چند باریہ عمل دُہرایئے اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ نیند آ جائے گی۔

نیند زیادہ ہوتی ہو تو

اِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۟ یُغْشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَالنُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالۡاَمْرُ ؕ تَبٰرَکَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۵۴﴾اُدْعُوۡا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾وَ لَا تُفْسِدُوۡا فِی الۡاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا وَادْعُوۡہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾ (پارہ 8سورۃ الاعراف ايت 54تا56)

پڑھ کر یہ دعاء مانگئے ، یااللہ عَزَّوَجَلَّ میٹھے مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا واسِطہ میری غیر ضَروری نیند دُور فرما دے۔اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ فائدہ حاصِل ہو گا۔(اول آخِرایک باردرود شریف)(2)روزانہ صُبح نَہار منہ نیم گرم پانی کے گلاس میں ایک چمچ شہد گھول کر اُس میں آدھا لیموں نچوڑ کر پی لیجئے۔یہ لذیذ شربت پینے کی مستِقل عادت بنائیں تب بھی حَرَج نہیں بلکہ اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلّ فائدہ ہو گا۔جب دَورانِ مُطالعہ وغیرہ نیند چڑھے تو ہو سکے تو وُضو کر لیجئے ورنہ منہ دھو لیجئے، کوئی چیز چبایئے ، کچھ دیر چہل قدمی کر لیجئے یا کچھ دیر کھڑے ہو جایئے اس طرح کی تراکیب سے اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلّ وقتی طور پرکام چل جائے گا۔ (گھریلو علاج ص۲۴ تا ۲۸)

(10): ’’ برے خواب کے علاج ‘‘

بُرے خواب کے 5مدنی علاج

(1)باوُضو سونے کی عادت بنایئے(2)سونے سے قَبْل اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ ط سات بار پڑھ کر دعاکیجئے ،''یااللہ ! میٹھے میٹھے مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا صَدْقہ مجھے بُرے خوابوں سے بچا۔''(اوّل آخِر ایک بار دُرُود شریف)اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بُرا خواب نہیں آئے گا (3)بُرا خواب دیکھ کر آنکھ کھلنے پر ل لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ اور اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ ؕ تین تین بار پڑھ لیجئے(4)بُرا خواب دیکھنے کے بعد بائیں کندھے کی طرف تُھتکار کر کروٹ بدل لیجئے اور تین بار پڑھئے:ا اعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ ؕ (5)یا مُتَکَبِّرُ21 بار(سونے سے قبل) پڑھ لیجئے۔ اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ خواب میں نہیں ڈریں گے۔(مذکورہ تمام مدنی علاج اچّھی اچھی نیّتوں کے ساتھ عمر بھر جاری رکھئے اور شفاکے ساتھ ساتھ ثواب بھی کمایئے)(گھریلو علاج ص۶۰)

(11): ’’ گرمی سے حفاظت ‘‘

گرمی سے بچنے کیلئے رنگ برنگے 25مَدَنی پھول

{۱}جتنا ہو سکے اپنی بھنویں (یعنی اَبرو۔Eyebrow) پانی سے تررکھئے۔( اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے لُو ، گرمی ، پیاس کی شدّت ،ٹینشن، ڈپریشن اور سردرد سے حفاظت ہو گی){۲}چولھے وغیرہ کااستِعمال کم کر دیجئے{۳}سفید یا ہلکے رنگ کا سُوتی ( Cottonکا)ڈھیلا لباس پہنئے۔(زہے نصیب! اسلامی بھائی سنّتوں بھرا سفید لباس زیبِ تن فرمائیں ){۴}ہر وقت چھوٹا سا تولیا(Towel) ساتھ رکھئے تاکہ گرمی محسوس ہونے پر ٹھنڈے پانی میں گیلا کر کے سر پر رکھا جا سکے{۵}مَشَقَّت والے کام سے بچنا بہتر ہے، مجبوری کا لحاظ بیماری نہیں کیا کرتی۔{۶}دن میں دو مرتبہ نہانامفید تر ہے {۷}دھوپ میں نکلتے وقت سن گلاسز کا استعمال آنکھوں کو گرمی سیمُتَاَثِّرہونے سے بچاتا ہے{۸}گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں پیاز کا ٹکڑا ہاتھ یا جیب میں رکھئے ، بچّوں کے گلے میں ڈال دیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ لُو سے حفاظت ہو گی{۹}خود پربراہِ راست دھوپ نہ پڑے اس کا خیال رکھئے اور خُصُوصاً دن کے گرم ترین اوقات 11تا3بجے کے دوران سائے میں وقت گزاریئے ، نمازِ ظہر کیلئے دھوپ میں نکلنے والے اسلامی بھائی سر اور گردن ڈھانک کر اور ہو سکے تو چھتری کے ساتھ نکلیں ۔(اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّعمامہ شریف کی سنّت ادا کرنے والوں کاسر ڈھک جاتا ہے اور گردن بھی چُھپ سکتی ہے، سر پر سفید چادر ہو تو فوائد مزید بڑھ سکتے ہیں ){۱۰}لوڈ شیڈنگ کے دوران سر پر گیلا تولیا رکھئے، ہاتھ کا پنکھا استعمال کیجئے اور بدن پر پانی ڈالتے رہئے{۱۱}پیاس لگے یا نہ لگے روزانہ کم از کم 12 بلکہ ہو سکے تو14گلاس پانی پئیں ۔(اس مقدار میں غذائوں کے اندر موجود پانی بھی شامل ہے مثلاً 10گلاس پانی پینے کے علاوہ پھلوں اور دیگر غذائوں کے ذریعے دو گلاس جتنا پانی پیٹ میں گیا تو 12 گلاس ہو گئے){۱۲}بدن کے پانی اورنمکیات کا توازُن برقرار رکھنے کیلئے O.R.S. کا استعمال کیجئے۔( ہائی بلڈ پریشر کے مریض ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق عمل کریں ) {۱۳} ستو کا شربت ،کھیرے کا جوس ، ناریل کاپانی ،گنّے کا خالص رس،شہد ملاپانی، لیمو پانی اورنمکین چھاچھ استِعمال کیجئے{۱۴}چھاچھ میں کالا نمک اور پِسی ہوئی اجوائن ملا کر پینے سے گرمی کم لگتی اور وزن بھی کم ہوتاہے{۱۵}چائے، کافی ،ابلے ہوئے انڈے،زیادہ میٹھے شربت، خوب میٹھی ڈشوں ، کولڈ ڈرنکس ، زیادہ گھی تیل والے کھانوں اور دیر میں ہضم ہونے والی غذائوں نیز کیفین (Caffeine) والی اشیا مَثلاً چاکلیٹ وغیرہ کا استعمال کم سے کم کیجئے {۱۶}بازاری شربتوں اور گولے گنڈوں کا استِعمال پیسے دے کر بیماریاں خریدنے کے مترادِف ہے{۱۷}تیز دھوپ سے آتے ہی پسینے سے شرابور ٹھنڈا پانی پینا نقصان دِہ ہے{۱۸}کدو شریف ، بینگن،چُقَندر ،مُولی وغیرہ سبزیوں کا استعمال خوب بڑھا دیجئے{۱۹}سحری و اِفطاری میں پانی اور دہی کا استعمال زیادہ کیجئے{۲۰}گرمیوں میں آم،آڑو، خوبانی ، امرود ،خربوزہ، تربوز ، جسم کو توانائی بخشنے کے ساتھ ساتھ جگر (Liver)اور معدے کی گرمی بھی دور کرتے ہیں نیز موسم کے دیگر پھلوں کا بھی خوب استعمال کیجئے {۲۱}سادہ اورہلکی غذا استعمال فرمایئے، کَھجْلا پھینی ،(پھے ۔نی) کباب، سموسوں ، پکوڑوں وغیرہ تلی ہوئی چیزوں کا استعمال بہت کم کیجئے،بلکہ ان سے دُورہی رہئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّخود ہی فائدہ دیکھ لیں طگے اور رمضان المبارک کے روزوں اوردیگر عبادتوں میں آسانی حاصِل ہو گی{۲۲}سحری و افطار میں کھانا کم کھایئے{۲۳}فوم کے گدیلے پر سونے سے بچئے{۲۴}چھوٹے بچوں اور بزرگوں کو گرمی سے بچانے کی زیادہ ضرورت ہے {۲۵} رحم کھاتے ہوئے اپنے مویشیوں اور مرغیوں وغیرہ کو بھی گرمی سے بچانے کی تدبیر کیجئے۔(گرمی سے بچنے کے مدنی پھول ص ۱۰ تا ۱۲)

(12): ’’ بیماری اور جھوٹ ‘‘

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! صدکروڑ افسوس!بڑا نازک دور ہے، ’’جھوٹ ‘‘بولنے جیسے حرام اور جہنَّم میں لے جانے والے کام سے بچنے کا ذہن بہت کم رہ گیا ہے، نہ خوفِ خدا ہے نہ شرمِ مصطَفٰے ، نہ عذابِ قبر کا دھڑکا ہے نہ دوزخ کا کھٹکا!ہر طرف گویا! جھوٹ !جھوٹ ! اوربس جھوٹ کا راج ہے!یقین مانئے! بیمار ہو یا تیمار دار ، مریض ہو یا مزاج پُرسی کرنے والا رشتے دار،دوست دار یا محلّے دارجسے دیکھو! بے دھڑک جھوٹ بولتا دکھائی دے رہا ہے۔ چونکہ یہ رسالہ بیماری کے متعلق ہے لہٰذا اُمّت کی خیر خواہی کے لئے’’بیماری ‘‘کے چند جُدا جُدا عنوانات کے تحت بولے جانے والے جھوٹ کی کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں :

معمولی بیماری کو سخت بیماری کہنے کے متعلق جھوٹ کی 6مثالیں جس قسم کے مُبالغے (مُبا۔لَ۔غَے)کا عادۃً رواج ہے لوگ اسے مبالغے ہی پر محمول(یعنی گمان ) کرتے ہیں اس کے حقیقی معنی مراد نہیں لیتے وہ جھوٹ میں داخِل نہیں ، مَثَلاً یہ کہا کہ میں تمھارے پاس ہزار مرتبہ آیا یا ہزار مرتبہ میں نے تم سے یہ کہا۔ یہاں ہزار کا عدد مراد نہیں بلکہ کئی مرتبہ آنا اور کہنا مراد ہے، یہ لفظ ایسے موقع پر نہیں بولا جائے گا کہ ایک ہی مرتبہ آیا ہو یا ایک ہی مرتبہ کہا ہو اور اگر ایک مرتبہ آیا اور یہ کہہ دیا کہ ہزار مرتبہ آیا تو جھوٹا ہے۔ (رَدُّالمحتارج۹ص۷۰۵){۱} بعض اوقات بیماری کا تذکرہ کرنے میں ایسا مبالغہ کیا جاتا ہے کہ عرف و رواج میں لوگ اس حد کی بیماری کو بیان کرنے کیلئے مبالغے کے ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے ،مَثَلاً: کسی کو معمولی سی بیماری ہو اُس کے بارے میں کہنا:’’ اس کی طبیعت بہت سخت ناساز ہے‘‘ یہ جھوٹ ہے{۲} اجتماع وغیرہ میں حقیقت میں کسی اور وجہ سے شرکت نہ کی اوراتِّفاق سے کوئی معمولی سی بیماری بھی تھی مگر غیر حاضِری کا سبب بیماری نہ ہونے کے باوُجُود کہنا:’’ میں سخت بیمار تھا اِس لئے نہ آ سکا۔‘‘ اس جُملے میں گناہ بھرے دو جھوٹ ہیں ! (الف) معمولی سی بیماری کو’’ سخت بیماری‘‘ کہا (ب) بیماری کو غیر حاضِری کا سبب قرار دیاحالانکہ سبب کچھ اور تھا{۳} اسی طرح معمولی بخار ہو اور کہنا:’’ مجھے اتنا تیز بخار تھا کہ ساری رات سو نہیں سکا‘‘{۴}کام کے لئے بولیں تو معمولی تھکاوٹ ہونے کے باوُجُود جان چھڑانے کے لئے کہنا:’’ میں بہت تھکا ہوا ہوں کسی اور سے کام کا کہہ دیں ‘‘ہاں صرف اتنا کہا: ’’تھکا ہوا ہوں ‘‘ تو جھوٹ نہیں ۔ یا {۵} معمولی سا درد ہو تب بھی بولنا: میری ٹانگوں میں شدید درد ہے{۶} یونہی کورٹ کچہری میں پیشی وغیرہ سے بچنے کے لئے معمولی بیماری کو بڑا بنا کر پیش کرنا مَثَلاًکہنا: ان کے دل کی شِریان(VEIN) بند ہے ،دل کا دَورہ پڑ سکتا ہے وغیرہ ۔

دُکھوں کے باوُجُود نیکیوں بھرے جوابات کی مثالیں

مزاج پُرسی کرنے میں اکثر رسمی سُوالات کی تکرار ہوتی ہے مَثلاً: کیا حال ہے؟ خیریت ہے؟ عافیت ہے؟کیسے ہیں آپ؟صحت کیسی ہے؟ اور سنائو طبیعت اچھّی ہے؟ ٹھیک ٹھاک ہیں نا؟کوئی پریشانی تو نہیں ؟وغیرہ وغیرہ ۔تجرِبہ یِہی ہے کہ عُمُوماً سائل (یعنی پوچھنے والا)صِرف بولنے کی خاطر بول رہا ہوتا ہے، حقیقت میں مخاطَب(یعنی جس کی مزاج پُرسی کر رہا ہے اُس) کی طبیعت سے اُسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔اب اگر مَسْئول (مَس۔اُوْل) یعنی جس سے سُوال کیا گیا وہ شخص بیمار،ٹینشن کا شکار،قَرض دار اور مشکِلات سے دو چار ہو اور اپنے اَمراض اور دُکھوں کی فائل کھولدے اور پریشانیوں کی فہرِس بیان کرناشروع کر دے تو خود سائل یعنی مزاج پُرسی کرنے والا امتحان میں پڑ جائے! لہٰذاجس سے طبیعت پوچھی گئی وہ چاہے تو بہ نیّتِ شکرِ الٰہی مختلف نعمتوں مَثَلاً : ایمان کی دولت ملنے ،دامنِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ میں ہونے کا تصوُّر باندھ کر اس طرح کے جوابات دیکر ثواب کما سکتا ہے : {۱} اَلحَمدُ لِلّٰہ {۲} اَلحَمدُ لِلّٰہ علٰی کُلِّ حال(یعنی ہر حال میںاللہ کا شکر ہے ) {۳} مالک کا بہت کرم ہے{۴}اللہ تعالٰی کی رحمت ہے وغیرہ۔ اِسی طرح اللہ تعالٰیکی عطا کردہ دیگر نعمتوں کے مقابلے میں اپنی تکلیفوں کو کم تر تصوُّر کرتے ہوئے بھی شکرِ الٰہی کی نیّت سے یا رحمتِ الٰہی کی اُمّیدپربیان کردہ چار جوابات میں سے کوئی سا جواب دے سکتا ہے ۔یاد رہے! اگر بیماری پر توجُّہ ہے لیکن اس کے باوجودبغیر شرعی رُخصت کے اَلحَمدُ للّٰہ، اَلحَمدُ للّٰہ علٰی کُلِّ حال، مالک کا کرم ہے یا اسی طرح کاکوئی جملہ کہنا جس سے بیمار ہونے کے باوُجوداسی مرض کے متعلق صحت بہتر بتانا مقصود ہوجس کے بارے میں پوچھا جارہا ہے تو یہ گناہ بھرا جھوٹ ہے۔

مزاج پُرسی کے جواب میں جھوٹ بولنے کی9مثالیں

جب کسی سے پوچھا جاتا ہے: آپ کی طبیعت کیسی ہے؟تو طبیعت ناساز ہونے کے باوجود بسااوقات اس طرح کے جوابات ملتے ہیں :{۱} ٹھیک ہوں {۲} بہت ٹھیک ہوں {۳} بالکل ٹھیک ہوں {۴} طبیعت فرسٹ کلاس ہے{۵} اے ون طبیعت ہے {۶}کسی قسم کی تکلیف نہیں {۷} مزے میں ہوں {۸} ذرّہ برابر بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے {۹}ایک دَم فِٹ ہوں ۔ مریض کی طرف سے دیئے جانے والے مذکورہ 9 جوابات گناہ بھرے جھوٹ ہیں ۔

البتہ مریض کی جواب دینے میں کوئی صحیح تاویل(یعنی بچائو کی سچّی دلیل) یا دُرُست نیّت ہو تو گناہ سے بچت ممکن ہے مگر عُمُوماً بِغیر کسی نیّت کے ہی مذکورہ اور اس سے ملتے جلتے جھوٹے جوابات دے دیئے جاتے ہیں ۔ اگر بیماری ذِہن میں نہ ہو، جیسے عارِضی یعنی وقتی طور پر ہو جانے والے آرام پر بسا اوقات انسان اپنی بیماری بھول جاتا ہے، تو ایسی حالت میں ’’ٹھیک ہوں ‘‘ وغیرہ کہہ دیا تو گناہ نہیں نیزمعمولی مَرَض میں بیماری کو ناقابلِ ذکر سمجھتے ہوئے یا اکثر مَرَض ٹھیک ہو جانے اور معمولی سا رہ جانے کی صورت میں بھی’’ ٹھیک ہوں ‘‘کہنے میں حَرَج نہیں البتّہ ایسے موقع پر بالکل ٹھیک ہوں ، فرسٹ کلاس طبیعت ہے،اے ون ہوں ، ذرَّہ برابر بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اِسی معنیٰ کے دیگر الفاظ کہنا گناہ بھرا جھوٹ شُمار ہوں گے۔

اَلحَمدُ لِلّٰہ علٰی کُلِّ حالکہنے کی ایک نیّت کسی نے طبیعت پوچھی اور مریض کے منہ سے بِغیر کسی نیّت کے بے اختیار نکلا : ’’اَلحَمدُ لِلّٰہ ‘‘ تو اس میں حرج نہیں ۔ یا بیماری کی طرف توجُّہ ہونے کے باوُجُود’’ ٹھیک ہوں ‘‘کے معنیٰ میں نہیں بلکہ ہر حال میں شکرِ الٰہی بجالانے کی نیّت سے کہا: ’’اَلحَمدُ لِلّٰہ علٰی کُلِّ حال‘‘(یعنی ہر حال میں اللہ کا شکر ہے ) تو اس صورت میں بھی جھوٹ نہیں ۔

مریض کو تسلی دینے کیلئے بولے جانے والے جھوٹ کی13 مثالیں

(جو بات سچ کا الٹ ہے وہ جھوٹ ہے)

ذیل میں جو جملے دئیے جارہے ہیں یہ جھوٹ بھی ہو سکتے ہیں اور نہیں بھی ،یونہی اِن کے بولنے میں رخصت کی صورت بھی ہو سکتی ہے اور نہیں بھی، لہٰذا اگر کوئی دوسرا شخص یہ جملے بولے تو ہم اُس کے بارے میں گناہ گار ہونے کی بدگمانی نہ کریں البتّہ اپنی حد تک اِس طرح کے جملے بولتے وقت بات کی صداقت اور اپنی نیّت کا خیال رکھیں ۔سمجھانے کے لئے ایک مثال عرض ہے کہ جیسے ایک آدَمی نے ہمارے سامنے مُرَغّن(یعنی تیل گھی والا) کھانا کھایااور کسی دوسرے شخص سے کہا کہ میں پرہیز کر رہا ہوں تو ضَروری نہیں یہ کہنا جھوٹ ہو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر نے مہینے میں ایک مرتبہ اِس طرح کھانے کی اجازت دی ہو یا یہ جملہ کہتے وَقت قائل کی (یعنی کہنے والے کی) توجّہ اپنے کھانے کی طرف نہ رہی ہو۔اسی طرح بقیہ جملوں میں بھی بَہُت سے اِحتمالات وقِیاسات ہو سکتے ہیں ۔

{۱}آپ تو مَاشَآءَ اللہبہت صبر (یا ہمت ) والے ہیں {۲} آپ نے تو بڑے بڑے دُکھ اٹھائے ہیں مگر کبھی ’’اُف‘‘ تک نہیں کیا{۳}آپ نے تو ہمیشہ صبر ہی کیا ہے {۴} واہ! بھئی ! واہ!آپ کے چہرے پر تو ’’پانی‘‘ آ گیاہے{۵}مَاشَآءَ اللہ اب توآپ بالکل ٹھیک ہو چکے ہیں! {۶} آپ تو بیمار لگ ہی نہیں رہے!{۷} آپ کی بیماری بھاگ گئی ہے! {۸} نہیں ! نہیں ! آپ کو تو کچھ بھی نہیں ہوا ہے{۹} مبارک ہو!آپ کی ساری رپورٹیں کلئیر آئی ہیں {۱۰} تشویشناک مرض پر مطّلع ہونے کے باوُجُود کہنا:’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں ،ڈاکٹر تو خوامخواہ ہی ڈرا دیتے ہیں ‘‘ {۱۱}فُلاں کو بھی یہ مرض ہوا تھا دو دن میں ٹھیک ہوگیا تھا تم بھی جلدی ٹھیک ہوجاؤ گے (جس مریض کا حوالہ دے رہے ہوتے ہیں اس کا حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود نہیں ہوتا ){۱۲} بُخار ُوخار نہیں ہے‘‘{۱۳}دل کی تائید نہ ہونے کے باوُجُود محض تسلی دینے کیلئے سخت بیمار سے کہنا:’’بھائی! تم تو چھوٹی سی بیماری میں دل ہار بیٹھے !‘‘

مریض کے جھوٹ بولنے کی13مثالیں

(جو بات سچ کا الٹ ہے وہ جھوٹ ہے)

مجھے اپنی بیماری کی کوئی پروا نہیں’{۱}کینسر وغیرہ کے اندیشے کے موقع پر کہنا: بس چھوٹے چھوٹے بچّوں کی فکر ہے {۲}میرے پاس بالکل گنجائش نہیں ، میں علاج کا خرچ برداشت کر ہی نہیں سکتا(حالانکہ اچھی خاصی رقم جمع کرکے رکھی ہوتی ہے) {۳}گنجائش ہونے کے باوُجُود لوگوں کی ہمدردیاں لینے کیلئے کہنا: میرے پاس کھانے کو پیسے نہیں ہیں علاج کیلئے کہاں سے لاؤں !{۴}میں فل پرہیزی کر رہا ہوں ( حالانکہ کہیں دعوت ہو تو"جناب" سب سے پہلے جا پہنچتے ہیں){۵} ڈاکٹر صاحب! بالکل ٹائم ٹُوٹا ئم دوا پی رہا ہوں ( حالانکہ خوب ناغے کر رہے ہوتے ہیں) {۶}شوگر کے مریض کاکہنا: میں مٹھائی تو چکھتا تک نہیں ( جب کہ بے چارے مٹھائی کھانے سے باز نہیں رہ پارہے ہوتے ){۷}کسی بھاری بھر کم شخص کو وزن کم کرنے کا ہمدردانہ مشورہ ملنے پر جواب : میں کھانے پینے میں کافی احتیاط کر رہا ہوں ( حالانکہ کڑھائی گوشت ہویا فرائی گوشت، شربت ہو یا ٹھنڈی بوتل،قورمہ ہویا بریانی ، کباب ہو یاسموسہ جو بھی ان کے سامنے آتا ہے بچ کر نہیں جاتا!){۸} مَرَض کی طرف توجُّہ ہونے کے باوُجُود کہنا:بھلا چنگا ہوں {۹} میں بیمار تھوڑی ہوں {۱۰}گلے شکوے کا انبار لگانے کے بعد کہنا : میں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا(یہ گناہ بھرا جھوٹ اُسی صورت ہو گا جبکہ بولتے وقت صبر کی تعریف کی طرف توجُّہ ہو) {۱۱} تکلیف کی شدّت کے باوُجُود کہنا :نہیں !نہیں !مجھے کوئی تکلیف نہیں ہورہی!{۱۲}مجھے بیماری کا غم نہیں اپنے وقت کے ضائع ہونے کا افسوس ہورہا ہے {۱۳} خیراتی شفاخانے میں مفت علاج کروانے کے باوُجُود کہنا:علاج کے سارے اَخراجات میں نے خود برداشت کئے ہیں کسی نے جھوٹے منہ بھی تعاون کی پیش کش نہیں کی ۔(بیمار عابدص۱۸ تا ۲۴)