’’مدنی حلقوں کے مدنی پھول’’

’’ مدنی حلقوں کے مدنی پھول ‘‘

(01): ’’ تعظیم سادات کے مدنی پھول‘‘

سرکارِ مدینہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم وتوقیر میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تمام چیزیں جو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے نسبت رکھتی ہیں ان کی تعظیم کی جائے ۔( اَلشِّفا،الباب الثالث فی تعظیم امرہ،فصل ومن اِعظامہ...الخ، ص۵۲،الجزء:۲ )۔ (سادات کرام کی عظمت، ص۸)تعظیم کے لیے نہ یقین دَرْکارہے اور نہ ہی کسی خاص سند کی حاجت لہٰذا جو لوگ سادات کہلاتے ہیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے۔(سادات کرام کی عظمت ص۱۴)اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگز اس کی تعظیم نہ کی جائے گی۔(سادات کرام کی عظمت، ص۱۷)جو واقع میں سیِّد نہ ہو اورجان بوجھ کر سید بنتا ہو وہ ملعون(لعنت کیا گیا) ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل۔(سادات کرام کی عظمت ، ص۱۶)سادات کی تعظیم حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم ہے۔(فتاویٰ رضویہ ،٢٢/٤٢٣ ماخوذا)۔(سادات کرام کی عظمت، ص۸) استاد بھی سیِّد کو مارنے سے پرہیز کرے۔(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص۲۸۴) ساداتِ کرام کو ایسے کام پر ملازم رکھا جا سکتا ہے جس میں ذِلَّت نہ پائی جاتی ہو البتہ ذِلَّت والے کاموں میں انہیں ملازم رکھنا جائز نہیں۔(سادات کرام کی عظمت، ص۱۲)سیِّد کی بطورِ سیِّد یعنی وہ سیِّد ہے اِس لئے توہین کرنا کُفر ہے۔(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص۲۷۶) (17-05-2018 ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(02): ’’ مُطالَعَہ کرنے کے مَدَنی پھول ‘‘

مُطالَعَہ کرنے سے عقل میں اضافہ ہوتا ہے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۱۹) مُطالَعَہ انسان کی دینی و دنیاوی دونوں ترقیوں کا سبب بنتا ہے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟، ص۱۹) مُطالَعَہ طبیعت میں چُستی،نگاہوں میں تیزی اور ذہن و دماغ کو تازگی عطا کرتا ہے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۱۹ملخصاً)ایسی کتب،رسائل اور اخبارات سے ہمیشہ دور رہیے جو ایمان کے لئے زہرِ قاتل،حیا ختم کرنے اور اخلاق تباہ کرنے ہوں۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص ۲۹)اپنے بزرگوں کےحالات جاننے اور ان کی پیروی کرنے کے لئے ان کی سیرت پر مُشْتَمِل کتب کا مُطالَعَہ بھی ضروری ہے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۳۳)امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:جب تم کوئی عِلْم حاصل کرنے لگو یا مُطالَعَہ کرنا چاہو تو بہتر ہے کہ تمہارا عِلْم و مُطالَعَہ نفس کو پاک کرنے اور دل کی اصلاح کا باعث ہو۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۳۲)قوتِ حافظہ کے لئے جہاں اور دوائیں استعمال اور وظائف کئے جاتے ہیں وہیں ایک دوا مُطالَعَہ بھی ہے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۳۶)کوشش کیجئے کہ کتاب ہر وَقْتساتھ رہے کہ جہاں موقع ملے کچھ نہ کچھ مُطالَعَہ کرلیا جائےاور کتاب کی صحبت بھی ملے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۳۶)مُطالَعَہ کرنے کے بعدتمام مطالعے کو اِبتداسے اِنتہا تک سرسری نظر سے دیکھا جائے اور اس کا ایک خلاصہ اپنے ذہن میں نقش کرلیا جائے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۱۱۲)اپنا اِحْتِساب کرنا بھی فائدہ مند ہے کہ مجھے اس مطالعے سے کیا حاصل ہوا اور کون سا مواد ذہن نشین ہوا اور کون سا نہیں۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۱۱۲)کسی بات کو یاد کرنے کے لیے آنکھیں بندکرکے یادداشت پر زوردینا مفید ہے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۱۱۷)جومُطالَعَہ کریں اُسے اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے بیان کریں اس طرح بھی معلومات کا ذخیرہ کافی مدّت تک دماغ میں محفوظ رہے گا۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۱۱۲)جو کچھ پڑھیں اس کی دہرائی(Repeat)کرتےرہئے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۱۱۲)امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ مدَنی مذاکروں میں عِلْمِ دین کے رنگ برنگے مَدَنی پھول ارشاد فرماتے ہیں،ان مَدَنی مذاکروں کی بَرَکت سے اپنے عِلْم پر عمل کرنے ،اسے دوسروں تک پہنچانےاور مزید مُطالَعَہ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔(مطالعہ کیا،کیوں اور کیسے؟،ص۱۱۵)(13 جون 2019ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(03): ’’ حدیثِ پاک کے متعلق مَدَنی پھول ‘‘

ہرانسان پرحُضور عَلَیْہِ السَّلَام کی اِطاعت فَرْض ہے اور یہ اِطاعت بغیرحدیث و سُنّت جانے ناممکن ہے۔(مرآۃ المناجیح ،۱/۹)اَحادیث سے اِنکار کے بعد قرآن پر اِیمان کا دعویٰ باطِلِ محض ہے۔(نزہۃ القاری ،۱/۶ ۳)جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ یہ واقعی حدیث مبارَکہ ہے،اُس وَقْت تک بَیان نہ کریں۔(فیضانِ فاروق اعظم ،۲/۴۵۱)آقا عَلَیْہِ السَّلَام کا فرمان ہے:جب تک تمہیں یقینی عِلْم نہ ہو میری طرف سے حدیث بیان کرنے سے بچو،جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا اُسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ،باب ماجاء فی الذی۔۔۔الخ،۴/۴۳۹،حدیث:۲۹۶۰)ایس ایم ایس(SMS)کے ذریعے بغیر حوالے کے کوئی بھی حدیث آگے نہ بھیجیں جب تک کسی سُنّی درست عقیدے والے مفتی صاحب یا کسی سُنّی عالِمِ دین سے تصدیق نہ کروالیں۔(فیضان فاروق اعظم،۲/۴۴۰) (30مئی2019ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(04): ’’ علم سیکھنے والے کیلئے مدنی پھول‘‘

عِلْم خزانہ ہے اور سُوال کرنا اس کی چابی ہے۔(فردوس الاخبار،۲ /۸۰، حدیث:۴۰۱۱) عِلْم سیکھنے کے لئے سُوال پوچھنے سے شرمانا نہیں چاہئے۔(اعرابی کے سوالات اور عربی آقا کے جوابات، ص۸) خوشامد کرنا مؤمن کے اخلاق میں سے نہیں ہے مگر عِلْم حاصل کرنے کے لئے خوشامد کر سکتا ہے۔(شعب الایمان ،باب فی حفظ اللسان،۴/۲۲۴ ،حدیث: ۴۸۶۳)ایسے سُوالات کرنے سے بھی بچا جائے جس کا دنیاوی یا اُخروی فائدہ نہ ہو۔(اعرابی کے سوالات اور عربی آقا کے جوابات ،ص۹) عِلْم حاصل کرنے کے بعد اسے بیان نہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جوخزانہ جمع کرتاہے پھراس میں سے کچھ بھی خرچ نہیں کرتا۔(معجم اوسط،۱/۲۰۴،حدیث ۶۸۹) جب کسی عالِمِ دین سے کوئی سُوال کرنا ہوتو ادباً اس سے سُوال پوچھنے کی اجازت طلب کرلی جائے۔(اعرابی کےسوالات اورعربی آقا کے جوابات،ص۶)عِلْم میں زیادتی تلاش سے اورآگاہی سُوال سے ہوتی ہے توجس کا تمہیں عِلْم نہیں اس کے بارے میں جانو اور جو کچھ جانتے ہو ا س پر عمل کرو۔(جامع بیان العلم وفضلہ،۱/۱۲۲،حدیث:۴۰۲)عِلْم حاصل کرنے کیلئے بہترین وَقْت ابتدائی جوانی،سَحَری کا وَقْت اورمغرب وعشاء کے درمیان کا وَقْت ہے۔ لیکن یہ بات تو افضلیت کی تھی مگر ایک طالبِ عِلْمِ دین کو تو ہر وَقْت تحصیلِ عِلْم میں مشغول رہنا چاہیے۔(راہِ علم ،ص۷۳) طالبِ عِلْم کو لڑائی جھگڑے سے بھی گریز کرنا چاہیے کیونکہ جھگڑا اورفساد وَقْت کو ضائع کر کے رکھ دیتاہے۔(راہ ِعلم، ص ۷۴)طالبِ عِلْم کو راہِ عِلْمِ دین میں آنے والی مصیبتوں اورذلتوں کو بھی ہنسی خوشی برداشت کرنا چاہیے۔(ایضاً، ص۸۰)طالبِ عِلْم جتنا زیادہ پرہیزگار ہوتاہے اس کا عِلْم بھی اسی قدر فائدہ دینے والاہوتاہے۔( ایضاً ،ص ۸۱)طالبِ عِلْم کو چاہیے کہ ہروَقْت کتابیں اپنے ساتھ رکھے تاکہ وَقْتِ فُرصت ان کا مطالعہ کیا جاسکے ۔( ایضاً، ص۸۵)(20 جون 2019ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(05): ’’ مَزارات پر حاضری کے آداب‘‘

(اگرکوئی شَخْص اللہ پاک کے ولی کے مَزار شریف یا)کسی بھی مُسَلمان کی قَبْر کی زِیارَت کو جانا چاہے تو مُستَحَب یہ ہے کہ پہلے اپنے مَکان پر (غَیر مکروہ وَقْت میں) دو(2) رَکْعَت نَفْل پڑھے، ہر رَکْعَت میں سُوْرَۃُالْفَاتِحَہ کے بعد ایک بار اٰیَۃُ الْکُرْسِی اورتین(3) بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھے اور اس نَماز کا ثَواب صاحبِ قَبْرکو پہنچائے ،اللہ کریم اُس فَوت شُدہ بندے کی قَبْر میں نُور پیدا کرے گا اور اِس (ثَواب پہنچانے والے) شَخْص کو بَہُت زِیادہ ثَواب عَطا فرمائے گا۔(فتاویٰ عالمگیری،۵/۳۵۰)پھر اچھی اچھی نیتیں کرنے کے بعد مَزارات کی طرف روانہ ہو اور (زائر یعنی زِیارت کرنے والے کو چاہیے کہ اولیائے کِرام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہم اجمعین کے) مَزاراتِ طیِّبات پرحاضِر ہونے میں پائنتی(پا۔ ئِنْ ۔ تی ۔ یعنی قدموں) کی طرف سے جائے اورکم از کم چار(4)ہاتھ کے فاصِلہ پر مُواجَہہ میں(یعنی چِہرے کے سامنے)کھڑا ہواورمُتَوَسِّط(یعنی درمِیانی) آواز میں(اِس طرح)سَلام عَرْض کرے:اَلسّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِیْ وَرَحمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، پھر”دُرُودِ غَوْثیہ “تین(3)بار،اَلْحَمْد شریف ایک بار،اٰیَۃُ الْکُرْسِی ایک بار،سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص سات(7)بار، پھر ”دُرُوْدِ غَوْثیہ“سات (7)بار ، اور وَقْت فُرْصت دے توسُوْرَۂ یٰسٓ اور سورۂ مُلک بھی پڑھ کراللہ کریم سے دُعا کرے کہ الٰہی!اِس قِراءَ ت پر مجھے اِتنا ثَواب دے جو تیرے کرم کے قابِل ہے، نہ اُتنا جو میرے عَمَل کے قابِل ہے او راِسے میری طرف سے اِس بندۂ مَقبول کو نَذْر پہنچا۔ پھر اپنا جو مطلب، جائز (اور) شرعِی ہو، اُس کے لیے دُعا کرے اورصاحبِ مَزار کی رُوح کواللہ پاک کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قَراردے،پھر اُسی طرح سَلام کر کے واپَس آئے۔(فتاویٰ رضویہ،ص۹ /۵۲۲)حاضری کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے رضائے الٰہی کے لئے مزار پرحاضری دیجئے حَتَّی المَقْدُور با وُضو رہئےحاضری کے لئے جاتے ہوئے با وضو ہو کر جائیے اور ذِکرو دُرُود سے اپنی زبان تَر رکھئے۔(مزاراتِ اولیا کی حکایات، ص۷)(27ستمبر 2018ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(06): ’’ سفر کرنے کی سنتیں اور آداب‘‘

آئینہ،سُرمہ،کنگھا،مسواک ساتھ رکھے کہ سُنّت ہے۔(بہارشریعت،حصہ۶،۱/۱۰۵۱) راستے کی چڑھائی کی طرف یا سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے،بس وغیرہ جب سڑک کی اُونچی جانِب جارہی ہوتو’’اَللّٰہُ اَکْبَر‘‘اورسیڑھیوں یا نیچے کی طرف اُترتے ہوئےسُبْحٰنَ اللہ کہئےمنزِل پر اُترتے وَقْت یہ پڑھئے:اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّمَا خَلَق ترجَمہ:میں اللہ کریم کے کامِل کلمات کےواسطے سے ساری مخلوق کے شَر سے پناہ مانگتا ہوں۔ اِنْ شَآءَ اللہ ہر نقصان سے بچے گا۔(الحِصنُ الحَصین، ص۸۲)دورانِ سفر بھی نَماز میں ہرگزکوتاہی نہ ہو،راستے میں بس خراب ہوجائے تو ڈرائیوریا مالِکان بس وغیرہ کو کوسنے اور بَک بَک کرکے اپنی آخِرت داؤپر لگانے کے بجائے صَبرسے کام لیجئے اور جنَّت کی طلب میں ذِکر و دُرُود میں مشغول ہوجائیےرَش کے موقع پر کسی کمزوریا مریض کو دیکھیں تو ثواب کی نِیَّت سے اُس کو بس وغیرہ میں اِصرار کرکے اپنی سِیٹ پر بٹھادیجئے۔ (18اپریل2019ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(07): ’’ اچھی صحبت سے متعلق بقیہ فوائد اوراس کی برکات‘‘

حدیث شریف میں فرمایا گیا :بڑوں کی صحبت میں بیٹھا کرو اور عُلَما سے باتیں پوچھا کرو اور عقلمندوں سے میل جول رکھو۔(معجم کبیر،۲۲/۱۲۵،حدیث:۳۲۴)اچھا ساتھی وہ ہےجس کے دیکھنے سے تمہیں خدا پاک یاد آئے اور اس کی گفتگو سے تمہارے عمل میں زیادتی ہو اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔(جامع صغیر، حرف الخاء،حدیث:۴۰۶۳،ص۲۴۷)اچھے دوست کا ساتھ نہ صرف دنیا میں فائدہ دیتا ہے بلکہ قبر میں بھی نیک شخص کی صحبت فائدہ پہنچاتی ہے۔(اچھے ماحول کی برکتیں، ص۳۳)عمل کرنے کا وہ اعلیٰ جذبہ جو ایک پاکیزہ ماحول کی صحبت سے ملتا ہے وہ دوسری طرح نا ممکن نہیں تومشکل ضرور ہے۔(ایضا،ص۲۱)ایسا ماحول بنانا چاہیے، جس میں شریک تمام اسلامی بھائیوں کا اُٹھنا بیٹھنا آپس میں ملاقات کرنا اور ایک دوسرے سے مَحَبَّت رکھنا صرف اللہ پاک کی رضا کے لئے ہو۔(ایضا،ص۲۵) اچھے ماحول سے اچھی صُحبت نصیب ہوتی ہے۔(ایضا،ص۱۶)اچھے ماحول سے وابستہ ہونے پر ظاہر و باطن کی اصلاح ہوتی ہے۔(ایضا،ص۱۶)بُرے ماحول کواپنانے والے افراد اپنی عزت اور حیثیت کو کھودیتے ہیں۔(ایضا،ص۲۶)حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:جس بھائی یا ساتھی کی صحبت تمہیں دینی فائدہ نہ پہنچائے تم اس کی صحبت سے بچو تاکہ تم محفوظ و سلامت رہو۔(کشف المحجوب،باب الصحبۃ ومایتعلق بہا،ص ۳۷۴)عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریکدعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول عبادات و معاملات کی نگرانی اور سُنّتوں کی حفاظت کا جذبہ پیدا کرنے والی تحریک ہے، دعوتِ اسلامی کے پاکیزہ اور نیک ماحول سے وابستہ ہونا دنیا و آخرت کی سعادت کا ذریعہ ہے۔ (5ستمبر2019ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(08): ’’ خوشبو لگانے کی سُنّتیں اور آداب‘‘

نَماز میں ربّ کریم سے مُناجات ہے تو اس کے لئے زینت کرنا عطر لگانا مُستَحب ہے۔(نیکی کی دعوت، ص۲۰۷)آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیشہ عمدہ خوشبو استعمال کرتے اور اسی کی دوسرے لوگو ں کو بھی تلقین فرماتے۔(سنتیں اور آداب ص۸۳)ناخوشگوار بو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ناپسند فرماتے ۔(سنتیں اور آداب ص۸۳)مَردوں کو اپنے لباس پر ایسی خوشبو استعمال کرنی چاہيے جس کی خوشبو پھیلے مگر رنگ کے دھبے وغیرہ نظر نہ آئیں۔(سنتیں اور آداب ص۸۵)عورتوں کے لئے مہک کی ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ وہ خوشبو اجنبی مردوں تک پہنچے،اگر وہ گھر میں عطر لگائیں جس کی خوشبو خاوند، اولادیاماں باپ تک ہی پہنچے تو حرج نہیں۔(سنتیں اور آداب ص۸۵)اسلامی بہنوں کو ایسی خوشبو نہیں لگانی چاہيے جس کی خوشبو اُڑ کر غیر مردوں تک پہنچ جائے۔(سنتیں اور آداب ص۸۶)سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عادتِ کریمہ تھی کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم’’مشک‘‘سرِ اقدس کے مقدس بالوں اور داڑھی مبارک میں لگاتے۔(سنتیں اور آداب ص۸۳)ائیرفریشنرکے استعمال سے اجتناب کرنا چاہيے ۔(سنتیں اور آداب ص۸۴) (28نومبر2019ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(09): ’’ نام رکھنے کے آداب اوراس کی برکات‘‘

عَبْدُالْمُصْطَفیٰ،عَبْدُالنَّبِیاورعَبْدُالرَّسُول نام رکھنا بالکل جائز ہے کہ اس سے شرف ِ نسبت (نسبت سے بَرَکت حاصل کرنا) مقصود ہے۔ عبد کے دو معانی ہیں،بندہ اور غلام،اس لئے یہ نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔غلام محمد،غلام صِدِّیق،غلام فاروق،غلام علی،غلام حُسَیْن وغیرہ نام رکھنا جن میں غلام کی نسبت انبیاء(عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)وصالحین(نیک بندوں)کی طرف کی گئی ہو، بالکل جائزہے ۔ (بہارِشریعت،حصہ۱۶،ص۲۱۳،ماخوذًا) محمدبخش، احمدبخش،پیربخش اور اسی قسم کے دوسرے نام رکھنا جس میں نبی یا ولی کے نام کے ساتھ بخش کا لفظ ملا یا گیا ہو،بالکل جائز ہے۔ (بہارِ شریعت ، حصہ۱۶ ،ص۲۱۴)طہٰ،یٰسین نام بھی نہ رکھے جائیں کہ یہ الفاظ مُقَطَّعَاتِ قُرآنیہ میں سے ہیں جن کے معانی معلوم نہیں۔(بہارِ شریعت ، حصہ۱۶ ،ص۲۱۳)جو نام برُے ہوں انہیں بدل کر اچھے نام رکھنے چا ہئیں۔(بہارِ شریعت ، حصہ۱۶ ،ص۲۱۳)(24اکتوبر2019ءہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(10): ’’ عقیقے کی سنتیں اور آداب‘‘

لڑکے کے عقیقے میں دو بکرے اور لڑکی میں ایک بکری ذَبح کی جائے یعنی لڑکے میں نَر جانور اور لڑکی میں مادَہ مُناسِب ہے۔ اور لڑکے کے عقیقے میں بکریاں اور لڑکی میں بکرا کیا جب بھی حَرَج نہیں(بہار شریعت،۳/۳۵۷)قربانی کے اُونٹ وغیرہ میں عقیقے کی شرکت ہوسکتی ہے۔عقیقہ فرض یا واجب نہیں ہے صرف سنّتِ مستحبَّہ ہے،(اگر گنجائش ہو تو ضرور کرناچاہئے، نہ کرے تو گناہ نہیں البتّہ عقیقے کے ثواب سے محرومی ہے)غریب آدمی کو ہر گز جائز نہیں کہ سُودی قرضہ لے کرعَقیقہ کرے۔( اسلامی زندگی ص۲۷)بچّہ اگر ساتویں دن سے پہلے ہی مرگیا تو اُس کا عقیقہ نہ کرنے سے کوئی اثر اُس کی شَفاعت وغیرہ پرنہیں کہ وہ وقتِ عَقیقہ آنے سے پہلے ہی گزر گیا۔ ہاں جس بچّے نے عقیقے کا وَقت پایا یعنی سات دن کا ہوگیا او ربِلا عُذر با وَصف ِ استِطاعت (یعنی طاقت ہونے کے باوُجُود) اُس کا عقیقہ نہ کیا اُس کے لیے یہ آیا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی شَفاعت نہ کرنے پائے گا۔(فتاویٰ رضویہ ج۲۰ص ۵۹۶)عقیقہ ولادت کے ساتویں روز سنّت ہے اوریِہی افضل ہے،ورنہ چودھویں ،ورنہ اکّیسویں دن۔( فتاویٰ رضویہ ج۲۰ ص ۵۸۶)عقیقے کا جانور اُنھیں شرائط کے ساتھ ہونا چاہیے جیسا قربانی کے لیے ہوتا ہے۔ اُس کا گوشت فُقَرا اور عزیز و قریب دوست و اَحباب کو کچّا تقسیم کر دیا جائے یا پکا کر دیا جائے یا اُن کو بطورِ ضِیافت و دعوت کِھلایا جائے یہ سب صورَتیں جائز ہیں۔(بہارِ شریعت ج۳ص۳۵۷)اگر ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں ، سنّت ادا ہوجائے گی۔(بہارِ شریعت ج۳ص۳۵۶ ) جس کا عقیقہ نہ ہوا ہو وہ جوانی، بُڑھاپے میں بھی اپنا عقیقہ کرسکتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ ج۲۰ص ۵۸۸)رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اعلانِ نبوت کے بعد خود اپنا عقیقہ کیا۔(مُصَنَّف عبد الرزاق ج ۴ ص۲۵۴ حدیث ۲۱۷۴) (25اکتوبر2018ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(11): ’’ تعزیت کرنے کےمدنی پھول‘‘

تعزیت کا وقت موت سے تین دن تک ہے، اس کے بعد مکروہ ہے کہ غم تازہ ہوگا مگر جب تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے وہاں موجود نہ ہو یا موجود ہے مگر اُسے علم نہیں تو بعد میں حرج نہیں۔(جوہرۃ نيرۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۴۱)مستحب یہ ہے کہ میّت کے تمام اقارب(قریبی رشتے داروں)سے تعزیت کریں،چھوٹے بڑے مرد و عورت سب سےمگرعورت سے اُس کے محارم ہی تعزیت کریں۔(بہار شریعت،۱/۸۵۲) تعزیت میں یہ کہے، اللہ پاک آپ کو صَبْرِ جمیل عطا فرمائے اور اس مصیبت پر(صبر کرنے کے بدلے) اجرِعظیم عطا فرمائے اور اللہ پاک مرحوم کی مغفرتفرمائے۔سوگ کے ایام گزرجانے کے باوجود عید آنے پر میت کا سوگ(غم کرنا)یا سوگ کے سبب عمدہ لباس نہ پہنناناجائز و گناہ ہے۔البتہ ویسے ہی کوئی عمدہ لباس نہ پہنے تو گناہ نہیں۔نوحہ یعنی میت کے اوصاف مبالغے کے ساتھ (یعنی بڑھاچڑھا کر)بیان کرکے آواز سے رونا جس کو”بَیْن“کہتے ہیں،حرام ہے۔(بہار شریعت،۱ /۸۵۴ ملتقطا)اَطِبَّاء(یعنی طبیب حضرات)کہتے ہیں کہ(جو اپنے عزیز کی موت پر سخت صدمے سے دوچار ہو اس کے)میت پر بالکل نہ رونے سے سخت بیماری پیدا ہوجاتی ہے،آنسو بہنے سے دل کی گرمی نکل جاتی ہے،اس لئے اس (بغیرنوحہ) رونے سے ہرگز منع نہ کیا جائے۔(مرآۃ المناجیح ،۲/۵۰۱) (8نومبر2018ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)

(12): ’’ اذان دینےکے فضائل‘‘

اگرکوئی شخص شَہرکے اندر گھرمیں نَمازپڑھے تووہاں کی مسجِدکی اذا ن اس کیلئے کافی ہے مگراذان کہہ لینا مُسْتَحَب ہے۔(رَدُّالْمُحتار،۲/۶۲،۷۸)وَقْت شُروع ہونے کے بعد اذان کہئے،اگر وَقْت سے پہلے کہہ دی یا وَقْت سے پہلے شُروع کی اوردورانِ اذان وَقْت آگیا تودونوں صورَتوں میں اذان دوبارہ کہئے۔ (ہدایۃ،۱/ ۴۵)خواتین اپنی نَمازاداپڑھتی ہوں یاقضااس میں ان کیلئے اذان واِقامت کہنامکروہ ہے ۔(دُرِّمُختار ،۲/ ۷۲)سمجھداربچّہ بھی اذان دے سکتا ہے۔(دُرِّمُختار،۲/ ۷۵)بے وُضُوکی اذان صحیح ہے مگربے وُضُوکااذان کہنامکروہ ہے۔(قانون شریعت،ص۱۵۸)اذان میں اُنگلیاں کان میں رکھنا مسنون و مُسْتَحَب ہے مگر ہِلانا اور گھمانا حرکتِ فُضول ہے۔( فتاویٰ رضویہ،۵/ ۳۷۳)فَجْرکی اذان میں حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کے بعد اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم کہنا مُسْتَحَب ہے۔(دُرِّمُختار،۲/ ۶۷)اگرنہ کہاجب بھی اذان ہوجا ئے گی۔ (قانونِ شریعت ص ۱۵۷)

(19دسمبر2019ء ہفتہ وار اجتماع -بیرون ملک)