’’ نماز اور شفاعت وغیرہ کے مدنی پھول ‘‘
(01): ’’ نماز کے مختلف25 فضائل ‘‘
اللہ پاک کی خوش نودی کا سبب نماز ہےمکی مَدَنی آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہےانبیائے کرام علَیہمُ السّلام کی سنّت نماز ہےنماز اندھیری قبرکا چَراغ ہےنماز عذابِ قبر سے بچاتی ہےنماز قیامت کی دھوپ میں سایہ ہےنماز پُل صراط کے لیے آسانی ہے نماز نور ہےنماز جنت کی کنجی ہےنماز جَہَنَّمکے عذاب سے بچاتی ہے نماز سے رَحمت نازل ہوتی ہے اللہ پاک بروزِ محشر نمازی سے راضی ہوگا نماز دین کا ستون ہے٭نماز سے گناہ مُعاف ہوتے ہیں نماز دُعاؤں کی قبولیت کا سبب ہےنماز بیماریوں سے بچاتی ہے نماز سے بدن کو راحت ملتی ہے نماز سے روزی میں بَرَکت ہوتی ہے نماز بے حیائی اور برے کاموں سے بچاتی ہے نماز شیطان کو ناپسند ہےنماز قبر کے اندھیرے میں تنہائی کی ساتھی ہے نماز نیکیوں کے پلڑے کووزنی بنادیتی ہےنماز مومن کی معراج ہے نماز کا وقت پر ادا کرنا تمام اعمال سے افضل ہے نمازی کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اُسے بَروزِ قیامت اللہ پاک کا دیدار ہوگا۔ (فیضانِ نماز ص۸)
(02): ’’ جماعت سے نماز پڑھنے کی 11 حکمتیں ‘‘
حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ سُوال قائم کرتے ہیں کہ نمازجماعت سے کیوں پڑھی جاتی ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ مسجد میں حاضری کیوں دی جاتی ہے؟ پھر اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : جماعت میں دینی و دُنیوی بہت سی حکمتیں ہیں ، دنیاوی حکمتیں تو یہ ہیں کہ جماعت کی بَرَکت سے قوم میں تنظیم(Discipline) رہتی ہے کہ مسلمان اپنے ہر کام کے لیے امام کی طرح صدر اور امیر چن لیا کریں ، پھر امیر کی ایسی اِطاعت کریں جیسے مقتدی امام کی(کرتا ہے) جماعت سے آپس کا اتفاق بڑھتا ہے روزانہ پانچ بار کی ملاقات اور دعا سلام دل کی عداوت (یعنی دشمنی) دُور کرتا ہے قوم میں پابندیِ اوقات کی عادت پڑ جاتی ہے کہ سب لوگ وقت ِ جماعت پر دوڑتے(یعنی جلدی جلدی) آتے ہیں جماعت سے مُتَکبِّرین (یعنی مغروروں ) کا غرور ٹوٹتا ہے کہ یہاں بادشاہ کو فقیر کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتاہے، نیز مسجد ہماری کمیٹی، گھر یا دارُالشوری ہے، جہاں جمع ہو کر مسلمان اَہَم(دِینی) مشورہ کرسکتے ہیں ،گویا مسجد میں روزانہ محلے کی پانچ کانفرنسیں ہوتی ہیں ، مسجد نبوی سے ہی اسلامی فوج نکل کر جہاد وغیرہ کرتی تھی۔ دینی فائدے یہ ہیں کہ اگر جماعت میں ایک کی نماز قبول ہوگئی تو سب کی قبول ہے جماعت میں گویا مسلمانوں کا وَفد بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ حاکم کے یہاں تنہا (شخص)کے مقابل وفد کا زیادہ احترام ہوتا ہے جماعت میں انسان رب کی کچہری میں وکیل یعنی امام کے ذریعے عرض معروض (یعنی درخواستیں ) کراتا ہے، جس سے بات کا وَزن بڑھ جاتا ہے مسجد کی طرف آنے جانے میں ہر قدم پر دس نیکیاں ملتی ہیں جماعت سے آدمی کو دینی پیشوا علما صوفیا کا ادب سکھایا جاتا ہے۔ (اسرار الاحکام مع رسائل نعیمیہ ص۲۸۸)
خدا سب نمازیں پڑھوں باجماعت
کرم ہو پئے تاجدارِ رسالت
(03): ’’ باجماعت فرض نماز ایک نظر میں ‘‘
فرض نماز جماعت سے ادا کرنے میں اللہ پاک اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر عمل ہے ایمان والا ہونے کی گواہی ہے اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتاہے نمازِ باجماعت تنہا (یعنی اکیلے) پڑھنے سے 27دَرجے افضل ہے اللہ پاک اور اُس کے فرشتے باجماعت نماز پڑھنے والوں پر دُرُود بھیجتے ہیں باجماعت عشا کی نماز پڑھنا گویا آدھی رات قیام(یعنی عبادت) کرنا ہے فجر کی نماز باجماعت پڑھنا گویا پوری رات قِیام(یعنی عبادت) کرنا ہے باجماعت نماز پڑھنے والاپُلْ صراط سے سب سے پہلے بجلی کی مانند گزرے گا باجماعت نماز ادا کرنے والوں کی شان و شوکت دیکھ کر اَہل مَحْشَر رَشک کریں گے اس کے گناہ بخشے جائیں گے آنے والے کو ہر قدم کے بدلے ثواب ملے گا مسجد کی طرف جانے والے کے ہر قدم پر ایک درَجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے اللہ کریم اس کے لیے صبح و شام جنت میں مہمانی کا اہتمام فرمائے گا نماز کے لیے اُٹھنے والاہر قدم صدَقہ ہے جب تک نماز کا انتظار کرتے رہو گے خیر(یعنی بھلائی) پر رہوگے اللہ پاک کی حفاظت میں رہے گا اللہ پاک کی خوش نودی کا ذریعہ ہے شیطان سے محفوظ رہے گا بروزِ قیامت عرش کا سایہ نصیب ہوگا جہنم، منافقت اور غفلت سے نجات نصیب ہوگی آپس میں محبت بڑھے گی باجماعت نماز کی تکبیر اُولیٰ پانا سو اُونٹنیاں پانے سے بہتر ہے ۔
خدا! سب نمازیں پڑھوں باجماعت
کرم ہو پئے تاجدارِ رسالت
اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
(04): ’’ نمازِ باجماعت کی ۳۰ نیتیں ‘‘
فتاوٰی رضویہ جلد5صفحہ673تا675پر دی ہوئی 40نیتوں سے مدد لے کر آسان لفظوں کے انتخاب کی کوشش کی گئی ہے نیز بعض نیتیں خارج اور بعض نئی شامل بھی کی ہیں ۔ اپنی کیفیت کے مطابق ان میں سے جتنی ممکن ہوں اُتنی نیتیں کر لیجئے، اِنْ شَآءَاللہ ہر نیت پر جدا جدا 10نیکیاں ملیں گی۔
{۱} اللہ پاک کی طرف بلانے والے مُؤَذِّن صاحب کابلانا قبول کرتا ہوں
{۲}باجماعت نماز پڑھنے جاتا ہوں
{۳}تَحِیۃُ الْمسجِد پڑھنے جاتا ہوں
{۴}نفل اعتکاف کرنے جاتا ہوں
{۵}مسجد کی زیارت کروں گا
{۶}مسجد نظر آنے پر دُرُود ِپاک پڑھوں گا
{۷}راستے میں جو لکھا ہوا کاغذ پاؤں گا، اُٹھا کر ادب کی جگہ رکھ دوں گا
{۸}جو راہ بھولا ہوگا اُسے راستہ بتاؤں گا
{۹}نابینا کا ہاتھ پکڑ کراُسے چلنے میں مدد کروں گا
{۱۰}مسجد میں داخل ہوتے وقت سیدھے پاؤں سے اور
{۱۱}باہَر نکلتے وقت الٹے پاؤں سے پہل کروں گا {۱۲۔۱۳}دونوں بار دعائیں پڑھوں گا
{۱۴}نمازِ باجماعت میں مسلمانوں کی برکتیں حاصل کروں گا
{۱۵}مسلمانوں کو سلام کروں گا
{۱۶}کسی نے سلام کیا تو جواب دوں گا
{۱۷} مسلمانوں سے مسکر اکرہاتھ ملاؤں گا
{۱۸}جو رشتے دار ملیں گے اُن سے خوش دلی کے ساتھ اچھے انداز سے مل کر صلۂ رِحمی کے ثواب کا حقدار بنوں گا
{۱۹}علمائے دین اورنیک مسلمانوں کا دیدار کروں گا
{۲۰}جس مسلمان کو چھینک آئی اور اس نے اَلْحَمْدُلِلّٰہکہا تو اُسے جواب میں یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہوں گا
{۲۱}مریض ملا تو عیادت
{۲۲}غمزدہ ملا تو تعزیت کروں گا
{۲۳}جائزخوشی پانے والا ملا تو مبارکباد دوں گا
{۲۴}وہاں علم والا ملے گا تو مسائل سیکھوں گا
{۲۵}(علم والا یہ نیت کر سکتا ہے) جو نہیں جانتے ہوں گے اُن کو مسائل بتاؤں گا، دین سکھاؤں گا
{۲۶}نیکی کی دعوت دوں گا
{۲۷}برائی سے منع کروں گا
{۲۸}دو مسلمانوں میں جھگڑا ہوا تو حتی الامکان صلح کراؤں گا
{۲۹}جنازہ ملا تو نمازِ جنازہ پڑھوں گا
{۲۹}جنازہ ملا تو نمازِ جنازہ پڑھوں گا
(05): ’’ تہجد یا فجر کے لیے اٹھنے کے مدنی پھول ‘‘
نمازِ تہجُّد یا فجر میں اُٹھنے کے لئے سوتے وقت پارہ 16، سُوْرَۃُ الْکَھْفکی آخری 4 آیتیں پڑھ لیجئے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(۱۰۷) خٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا(۱۰۸) قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا(۱۰۹) قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰) اور نیّت کیجئے کہ ’’مجھے اِتنے بجے اُٹھنا ہے۔‘‘ اِنْ شَآءَاللہ آیاتِ مبارَکہ پڑھنے کی بَرَکت سے آنکھ کُھل جائے گی۔ اگر شُروع میں آنکھ نہ بھی کھلے تومایوس نہ ہوں ،وظیفہ جاری رکھئے۔ اِنْ شَآءَاللہ آہستہ آہستہ ترکیب بن جائے گی۔
جاگنے کیلئے اَلارمSetکر لیجئے
مقررہ وقت پربیدارہونے کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک بلکہ تین گھڑیوں پر اَلارم (Alarm) لگاکر سوئیں تاکہ کسی وجہ سے ایک بند ہو جائے تو دو گھڑیاں جگانے کیلئے موجود رہیں ۔ موبائل فون میں بھی اَلارم کی سہولت ہوتی ہے۔ اگر رات دیر سے سونے کی وجہ سے نمازِفجر کے لئے آنکھ نہیں کھلتی اور نہ کوئی جگانے والا موجود ہے تو ضَروری ہے کہ جلدی سوئیں کہ فُقَہائے کرام رَحْمۃُ اللہِ علیہِم فرماتے ہیں : ’’جب یہ اَندیشہ ہو کہ صبح کی نماز جاتی رہے گی تو بِلاضَرورتِ شَرْعِیَّہ اسے رات دیر تک جاگنا ممنوع ہے۔‘‘ ( ردالمحتار ج۲ص۳۳)
نیند میں کمی لانے کے طریقے
میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمۃُ اللہِ علیہنمازِ ظہر کی جماعت سے قبل سونے والے کو مَدَنی پھول دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :’’اچھا ٹھیک دوپہر کے وقت سو ، مگر نہ اتنا کہ وقتِ جماعت آ جائے، تھوڑی سی دیر قیلولہ کافی ہے۔ اگر لمبی نیند سے خوف کرتا ہے تکیہ نہ رکھ، بچھونا نہ بچھا، کہ بے تکیہ وبے بستر سونا بھی مسنون(یعنی سنت) ہے۔ سوتے وقت دِل کو خیالِ جماعت سے خوب لگا ہوا رکھ کہ فکر (Tension) کی نیند غافِل نہیں ہونے دیتی، کھانا جس قدر ہو سکے صبح سویرے کھا کہ سونے کے وقت تک کھانے کے سبب اُٹھنے والی گرمی دور ہو جائے اور لمبی نیند کا سبب نہ بنے۔ سب سے بہتر علاج کم کھانا ہے۔ سوتے وقت اللہ پاک سے توفیق جماعت کی دعا اور اس پرسچا توکل (یعنی بھروسا) رکھ۔ اللہ کریم جب تیری اچھی نیت اورسچا ارادہ دیکھے گا (تو)ضرور تیری مدد فرمائے گا۔‘‘ ایک جگہ فرماتے ہیں : پیٹ بھر کر رات کی عبادت کا شوق رکھنا بانجھ (یعنی جو عورت بچہ نہیں جنتی اُس ) سے بچہ مانگنا ہے، جو بہت کھائے گا (وہ) بہت پئے گا، جو بہت پئے گا (وہ) بہت سوئے گا، جو بہت سوئے گا(وہ) آپ ہی یہ بھلائیاں اور برکتیں کھوئے گا۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۷ص۸۸تا۹۰ تسہیلاً)
شب بھر سونے ہی سے غرض تھی تاروں نے ہزار دانت پیسے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
(فیضانِ نماز ص۹۱،۹۲)
(06): ’’ نماز میں خشوع لانے کے ۲۷ مدنی پھول ‘‘
{۱}بھوک پیاس ہو تو مٹا لیجئے {۲}پیشاب وغیرہ {۳}ضَروری بات چیت اور {۴}فون کرنے سننے سے فارغ ہو لیجئے {۵}موبائل فون سائلنٹ کر دیجئے {۶}بچوں سے دور رہئے {۷}شوروغل کی آوازسے بچنے کی تدبیر کیجئے {۸}جو انتظار میں ہو اُس کو فارغ کر دیجئے {۹}سامنے والی دیوار پر نقش و نگارہو یاسامنے شیشہ (Mirror) وغیرہ ہو اور دھیان بٹتا ہو تو جگہ بدل دیجئے {۱۰}اگر گرمی خشوع میں رکاوٹ بنتی ہو تو پنکھے یا ممکن ہو تو A.C کی ترکیب رکھئے {۱۱}سردی لگتی ہو تو نماز میں گرم لباس اور ہیٹر وغیرہ استعمال کیجئے {۱۲}لباس، عمامہ، چادر وغیرہ میں سے کوئی چیز یکسوئی میں رکاوٹ نہ بنے، اس کا خیال رکھئے، مَثَلًا لباس تنگ نہ ہو، اس کی چبھن محسوس نہ ہوتی ہو، وغیرہ {۱۳}پاؤں پر مچھر کاٹتے ہوں تو موزے پہن لیجئے {۱۴}عمامہ یا اس کے اوپر کی چادر سجدے میں سرکتے اُترتے رہنا یا گرمی لگنے یا گھٹن وغیرہ کا باعث ہوناوغیرہ خشوع میں رکاوٹیں ہیں {۱۵}جیب میں موجود اشیا کا بوجھ رکاوٹ بنتا ہو تو نکالدیجئے {۱۶}نقش و نگار والے مصلّے پر نماز پڑھنے سے بچئے {۱۷}مصلّٰی یا کارپیٹ وغیرہ خشوع میں کمی کا باعث بنتے ہوں تو ہٹا دیجئے یا خود ہٹ جایئے {۱۸}جو بھی شے خشوع میں خلل ڈالتی ہو ممکنہ صورت میں اُسے دُور کر دیجئے {۱۹}خشوع میں وسوسے رکاوٹ بنتے ہوں تو نماز شروع کرنے سے پہلے دوسرے نہ دیکھیں اِس طرح اُلٹے کندھے کی طرف تین بار تھو تھو کیجئے پھر لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِّی الْعَظِیْم پڑھئے، قیام میں سجدے کی جگہ ، رکوع میں قدموں پر ، سجدے میں ناک پر اور قعدے میں گود میں نظر رکھئے اِنْ شَآءَ اللہ وسوسوں سے بچت ہوگی {۲۰}جو نماز ادا کر رہے ہیں اسے اپنی زندگی کی آخری نماز تصور کیجئے {۲۱}یہ ذہن بنائے رکھئے کہ مجھے اللّٰہ پاک دیکھ رہا ہے {۲۲}مختلف نمازوں میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے علاوہ پڑھی جانے والی سُورتیں بدل بدل کر پڑھئے {۲۳}دورانِ نماز تلاوت میں تجوید کے ضَروری قواعد پر عمل کیجئے {۲۴}آیات و اذکار کا ایک ایک حَرف دُرست اَدا کیجئے اور {۲۵}نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں اُس کے معنٰی پر نظر رکھئے {۲۶}نماز کے فرائض، واجبات، سنن و مستحبات اچھی طرح بجا لایئے {۲۷} جلد جلد نہیں بلکہ اطمینان سے نماز پڑھئے۔
خشوع اے خدا! تو نمازوں میں دیدے
اِجابَت کرم سے دُعاؤں میں دیدے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
( فیضان ِنمازص۴۲۱،۴۲۲)
(07): ’’ بے نماز ی کی ۱۵ سزائیں ‘‘
اللہ پاک کے آخِری نبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے :’’ جو نماز کی پابندی کرے گا، اللہ پاک پانچ باتوں کے ساتھ اُس کا اکرام (یعنی عزت )فرمائے گا: (۱)اس سے تنگی اور (۲) قبر کا عذاب دور فرمائے گا(۳ ) اللہ پاک نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دے گا (۴)وہ پل صراط سے بجلی کی سی تیزی سے گزر جائے گا اور (۵)جنت میں بغیر حساب داخل ہوگا۔ اور جو سُستی کی وجہ سے نماز چھوڑے گا، اللہ پاک اسے’’15 سزائیں ‘‘دے گا: پانچ دنیا میں ، تین موت کے وقت، تین قبر میں اورتین قبر سے نکلتے وقت۔دنیا میں ملنے والی 5سزائیں : (۱)اس کی عمر سے برکت ختم کر دی جائے گی (۲)اس کے چہرے سے نیک بندوں کی نشانی مٹا دی جائے گی (۳) اللہ پاک اسے کسی عمل پر ثواب نہ دے گا (۴)اس کی کوئی دعا آسمان تک نہ پہنچے گی اور (۵)نیک بندوں کی دعاؤں میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا ۔موت کے وقت دی جانے والی3 سزائیں : (۱) وہ ذلیل ہو کر مرے گا (۲)بھوکا مرے گا اور (۳)پیاسا مرے گا اگر اسے دنیا بھر کے سمندر پلا دئیے جائیں پھر بھی اس کی پیاس نہ بجھے گی ۔ قبر میں دی جانے والی3 سزائیں : (۱)اس کی قبر کو اتنا تنگ کر دیا جائے گا کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں داخِل ہو جائیں گی (۲)اس کی قبر میں آگ بھڑکا دی جائے گی پھر وہ دن رات انگاروں پر اُلٹ پلٹ ہوتا رہے گا اور (۳)قبر میں اس پرایک اَژدَھا(یعنی بہت بڑا سانپ) مُسَلَّط کر دیا جائے گا جس کا نام اَلشُّجَاعُ الْاَقْرَع(یعنی گنجا سانپ) ہے، اس کی آنکھیں آگ کی ہوں گی، جبکہ ناخن لوہے کے ہوں گے، ہر ناخن کی لمبائی ایک دن کی مسافت(یعنی فاصلے) تک ہو گی، وہ میِّت سے کلام (یعنی بات )کرتے ہوئے کہے گا: ’’میں اَلشُّجَاعُ الْاَقْرَع (یعنی گنجا سانپ) ہوں ۔‘‘ اس کی آواز کڑک دار بجلی کی سی ہو گی، وہ کہے گا : ’’میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ نمازِ فجر ضائع کرنے پرطلوعِ آفتاب(یعنی سورج نکلنے) تک مارتا رہوں اور نمازِ ظہر ضائع کرنے پر عصر تک مارتارہوں اور نمازِ عصر ضائع کرنے پر مغرب تک مارتا رہوں اور نمازِ مغرب ضائع کرنے پر عشا تک مارتا رہوں اور نمازِ عشا ضائع کرنے پر فجر تک مارتا رہوں ۔‘‘ جب بھی وہ اسے (یعنی مردے کو)مارے گا تو وہ 70ہاتھ تک زمین میں دھنس جائے گا اور وہ (نماز ترک کرنے والا ) قیامت تک اس عذاب میں مبتلا رہے گا ۔ قیامت میں ملنے والی3 سزائیں : (۱)وہ حساب کی سختی (۲)ربِّ قہار کی ناراضی اور (۳)جہنم میں داخلہ ہیں۔‘‘(کتاب الکبائرللامام الحافظ الذہبی ص ۲۴)
وضاحت: بیان کردہ حدیث ِ پاک میں 15سزاؤں کا تذکرہ ہے مگر تفصیل 14سزاؤں کی بیان ہوئی ہے شاید راوی پندرہویں سزا بھول گئے۔البتہ فقیہ ابو للیث سمر قندی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کی نقل کردہ روایت میں مکمَّل15سزاؤں کا تذکرہ ہے جن میں یہ شامل کر لیں تو15کا عدد پورا ہو جاتا ہے۔ ’’دنیا میں اِس سے مخلوق نفرت کرے گی۔‘‘(نیکیوں کی جزائیں او ر گناہوں کی سزائیں ص۱۴( رجب المرجب1428 ھ کا نسخہ))(قرۃ العیون مع روض الفائق ص۳۸۳)
(08): ’’ سجدہ شکر کے مدنی پھول ‘‘
اَولاد پیدا ہوئی،یا مال پایا یاگُمی ہوئی چیز مل گئی یا مریض نے شِفا پائی یا مُسا فِر واپَس آیا اَلغَرَض کسی نعمت کے حُصول پرسَجدۂ شکر کرنا مُستَحَب ہے اِس کا طریقہ وُہی ہے جو سَجدۂ تِلاوت کا ہے۔( عالمگیری ،ج 1 ،ص 136،رَدُّالْمُحتارج 2ص720)
اِسی طرح جب بھی کوئی خوشخبری یا نعمت ملے تو سجدۂ شکر کرنا کارِ ثواب ہے مَثَلاً مدینۂ منوَّرہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً کا ویزا لگ گیا ،کسی پر اِنفرادی کوشِش کا میاب ہوئی اور وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہوگئی،مُبارک خواب نظر آیا ، آفت ٹلی یا کوئی دشمنِ اسلام مَرا وغیرہ وغیرہ۔(اسلامی بہنوں کی نماز ص ۱۳۵)
(09): ’’ نوافل کا بیان یعنی مُختلف قسم کے نوافل ‘‘
اللہ کا پیارا بننے کا نُسخہ
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سَیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا اور میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میراقُرب چاہتاہے ان میں مجھے سب سے زیادہ فرائض محبوب ہيں اور نوافل کے ذَرِیعے قُرب حاصل کرتارہتاہے یہاں تک کہ میں اسے اپنامحبوب بنا لیتا ہوں اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو اسے ضَروردوں گا اور پناہ مانگے تو اسے ضَرورپناہ دوں گا۔''
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
صلٰوۃُ اللَّيل
رات میں بعد نمازِ عشا ء جو نوافِل پڑھے جائیں ان کو صلاۃُ اللَّیل کہتے ہیں اور رات کے نوافل دن کے نوافل سے افضل ہیں کہ صحیح مسلم شریف میں ہے: سیِّدُ المُبَلِّغین،رَحمۃٌ لِّلْعٰلمِین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشادفرمایا : ''فرضوں کے بعد افضل نَماز رات کی نماز ہے۔'' (صَحِیح مُسلِم،ص۵۹۱ حدیث۱۱۶۳)
تَہَجُّد اور رات میں نَماز پڑھنے کا ثواب
اللہ تبارَکَ وَ تَعالٰی پارہ 21 سورۃالسَّجدہ آیت نمبر16 اور17 میں ارشاد فرماتا ہے:
تَتَجَافٰی جُنُوۡبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوۡنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ۫ وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَاکَانُوۡایَعْمَلُوۡنَ ﴿۱۷﴾
ترجَمۂ کنزالایمان : ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے اوراپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اورامید کرتے اور ہمارے دیئے ہوئے سے کچھ خیرات کرتے ہیں تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لئے چھپارکھی ہے صلہ ان کے کاموں کا۔ صلٰوۃُاللَّیل کی ایک قسم تَہَجُّدہے کہ عشاکے بعدرات میں سو کر اٹھیں اور نوافِل پڑھیں،سونے سے قبل جوکچھ پڑھیں وہ تَہَجُّدنہیں۔کم سے کم تَہَجُّدکی دو رَکعَتَیں ہیں اورحُضُورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے آٹھ تک ثابِت۔ (بہارِشريعت حصّہ۴ص۲۶،۲۷) اِس میں قِراءَ ت کا اِختیار ہے کہ جو چاہيں پڑھيں، بہتر یہ ہے کہ جتنا قرآن یاد ہے وہ تمام پڑھ لیجئے ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر رَکعَت میں سورۂ فاتِحہ کے بعد تین تین بار سورَۃُالْاِخلاص پڑھ لیجئے کہ اِس طرح ہر رَکعَت میں قرآنِ کریم ختم کرنے کا ثواب ملے گا،ایسا کرنا بہتر ہے، بَہَرحال سورۂ فاتِحہ کے بعد کوئی سی بھی سورت پڑھ سکتے ہیں۔(مُلَخَّص از فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ،ج۷،ص۴۴۷)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
تَہَجُّد گزار کیلئے جنّت کے عالی شان بالاخانے
امیرُالْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ سیِّدُ المُبَلِّغین،رَحمۃٌ لِّلْعٰلمِین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ دلنشین ہے : جنَّت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا باہَر اندرسے اور اندر باہَر سے دیکھا جاتاہے۔ ایک اَعرابی نے اٹھ کرعرض کی:یارسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ! یہ کس کے لیے ہیں ؟ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشادفرمایا: یہ اس کے لیے ہیں جونَرم گفتگوکرے، کھانا کھلائے،مُتواتِرروزے رکھے ،اور رات کو اٹھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے نماز پڑھے جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔(سُنَنُ التِّرْمِذِیّ ج۴ ص۲۳۷ حدیث۲۵۳۵،شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۰۴، حدیث۳۸۹۲) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان مِراۃ المناجیح جلد2 صَفْحَہ260 پر اِس حصّۂ حدیث'' وَتَابَعَ الصِّیامَ '' یعنی مُتواتِر روزے رکھے '' کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:یعنی ہمیشہ روزے رکھیں سوا ان پانچ دنوں کے جن میں روزہ حرام ہے یعنی شوال کی یکم اور ذی الحجہ کی دسویں تا تیرھویں یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو ہمیشہ روزے رکھتے ہیں بعض نے فرمایا کہ اس کے معنیٰ ہیں ہر مہینے میں مسلسل تین روزے رکھے۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
''تہجد گزار'' کے آٹھ حُروف کی نسبت سے نیک بندوں اور بندیوں کی 8حکایت (۱)ساری رات نَماز پڑھتے رہتے
''تہجد گزار'' کے آٹھ حُروف کی نسبت سے نیک بندوں اور بندیوں کی 8حکایت (۱)ساری رات نَماز پڑھتے رہتے
اٌٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
بالیقین ایسے مسلمان ہیں بے حد نادان
جو کہ رنگینیٔ دنیا پہ مرا کرتے ہیں
(2)شہد کی مکّھی کی بِھنبِھناہٹ کی سی آواز!
مشہور صحابی حضرتِ سیِّدُناعبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب لوگوں کے سوجانے کے بعد اُٹھ کر قِیام (یعنی عبادت)فرمایا کرتے تو ان سے صبح تک شہد کی مکھی کی سی بھنبھناہٹ سُنائی دیتی۔ ( اِحْیَاءُ الْعُلُوْم، ج۱ص۴۶۷)اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
اٌٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محبت میں اپنی گما یا الہٰی
نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الہٰی
(3)میں جنَّت کیسے مانگوں!
حضرتِ سیِّدُناصِلَہ بن اَشْیَم علیہ رَحْمَۃُ اللہِ الاکرم ساری رات نَماز پڑھتے ۔ جب سحری کاوقت ہوتا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کرتے ،الہٰی ! میرے جیسا آدمی جنّت نہیں مانگ سکتا لیکن تو اپنی رَحمت سے مجھے جہنَّم سے پناہ عطا فرما۔'' (اِحْیَاءُ الْعُلُوْم،ج۱ص۴۶۷)اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ترے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ
میں تھر تھر رہوں کانپتا یا الہٰی
(4) تمہارا باپ ناگہانی عذاب سے ڈرتا ہے!
حضرتِ سیِّدناربیع بن خُثَیم رحمۃ للہ تعالیٰ علیہ کی بیٹی نے آپ رحمۃ للہ تعالیٰ علیہ سے عر ض کی:''ابّا جان! کیا وجہ ہے کہ لوگ سو جاتے ہیں اورآپ نہیں سوتے ؟ '' تو ارشاد فرمایا:'' بیٹی !تمہارا باپ ناگہانی عذاب سے ڈرتا ہے جو اچانک رات کو آجائے۔ '' (شُعَبُ الْاِیمان ج۱ ص ۵۴۳،رقم ۹۸۴ )اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
گرتُو ناراض ہوا میری ہلاکت ہو گی
ہائے!میں نارِجہنَّم میں جلوں گا یا رب!
(5)عبا دت کیلئے جاگنے کا عجیب انداز
حضرتِ سیِّدُنا صَفْوان بن سُلَیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پنڈلیاں نماز میں زیادہ دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے سوج گئی تھیں ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس قدر کثرت سے عبادت کیا کرتے تھے کہ بالفرض آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہہ دیا جاتا کہ کل قِیامت ہے تو بھی اپنی عبادت میں کچھ اضافہ نہ کر سکتے(یعنی ان کے پاس عبادت میں اضافہ کرنے کے لئے وقت کی گنجائش ہی نہ تھی)۔ جب سردی کا موسم آتا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مکان کی چھت پر سویا کرتے تاکہ سردی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو جگائے رکھے اورجب گرمیوں کا موسم آتا تو کمرے کے اندر آرام فرماتے تاکہ گرمی اورتکلیف کے سبب سونہ سکیں(کیوں کہ A.C.کُجا ان دنوں بجلی کا پنکھا بھی نہ ہوتا تھا!)۔ سجدہ کی حالت میں ہی آپ کا انتقال ہوا۔ آپ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میں تیری ملاقات کو پسند کرتا ہوں توبھی میری ملاقات کو پسند فرما ۔ '' (اتحاف السادۃ المتقین بشرح احیاء علوم الدین ج۱۳ ص۲۴۷،۲۴۸)اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عفو کر اور سدا کیلئے راضی ہو جا
گر کرم کر دے تو جنّت میں رہوں گا یا رب!
(6)روتے روتے نابینا ہوجانے والی خاتون
حضرتِ سیِّدنا خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم رحلہ عابِدہ کے پاس گئے۔یہ بکثرت روزے رکھتی تھیں اوراتنا روتیں کہ ان کی بینائی جاتی رہی اوراتنی کثرت سے نمازیں پڑھتی کہ کھڑی نہ ہوسکتی تھیں ،لہٰذا بیٹھ کر ہی نماز پڑھتی تھیں۔ ہم نے انہیں سلام کیا پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عَفو وکرم کا تذکِرہ کیا تاکہ ان پر معاملہ آسان ہو جائے۔ انہوں نے یہ بات سن کر ایک چیخ ماری اورفرمایا:'' میرے نفس کا حال مجھے معلوم ہے اور اس نے میرے دل کوزخمی کردیا ہے اور جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے، خدا کی قسم! میں چاہتی ہوں کہ کاش !اللہ عزَّوَجَلّ نے مجھے پیداہی نہ کیا ہوتا اورمیں کوئی قابلِ ذکر شے نہ ہوتی ۔'' یہ فرما کر دوبارہ نَماز میں مشغول ہو گئیں ۔ (اِحْیَاءُ الْعُلُوْم،ج۵ ص۱۵۲ملخصاً)
اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
آہ سلبِ ایماں کا خوف کھائے جاتا ہے
کاش! میری ماں نے ہی مجھ کو نہ جنا ہوتا
(7)موت کی یاد میں بھوکی رہنے والی خاتون
حضرتِ سیِّدتُنا مُعَاذَ ہ عَدَوِیَّہ رحمۃُ اللہ علیھا روزانہ صبح کے وَقت فرماتیں: ''(شاید) یہ وہ دن ہے جس میں مجھے مرنا ہے۔'' پھر شام تک کچھ نہ کھاتیں پھر جب رات ہوتی توکہتیں ،''(شاید) یہ و ہ رات ہے جس میں مجھے مرنا ہے۔'' پھر صبح تک نَماز پڑھتی رہتیں۔(ایضاًص۱۵۱ )اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مِرا دل کانپ اٹھتا ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے
کرم یا رب اندھیرا قبر کاجب یاد آتا ہے
(8)گریہ وزاری کرنے والا خاندان
حضرتِ سیِّدنا قاسم بن راشد شیبانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی کہتے ہیں کہ حضرتِ سیدنا زَمعہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مُحَصَّب میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ اوربیٹیاں بھی ہمراہ تھیں ۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ رات کو اٹھے اوردیر تک نَماز پڑھتے رہے۔ جب سَحری کا وقت ہوا تو بُلندآواز سے پکارنے لگے:'' اے رات میں پڑاؤ کرنے والے قافِلے کے مسافِرو !کیا ساری رات سوتے رہوگے ؟ کیا اٹھ کرسفر نہیں کروگے ؟'' تو وہ لوگ جلدی سے اٹھ گئے اورکہیں سے رونے کی آواز آنے لگی اورکہیں سے دعا مانگنے کی، ایک جانب سے قرآنِ پاک پڑھنے کی آواز سنائی دی تو دوسری جانب کوئی وُضو کر رہا ہوتا۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بلند آواز سے پکارا : '' لوگ صبح کے وقت چلنے کو اچھا سمجھتے ہیں۔''(کتابُ التہجُّد وقیام اللّیل مَع موسُوعَہ امام ابنِ اَبِی الدُّنیا ، ج ۱،ص۲۶۱ رقم۷۲)
اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ
انہیں خلد میں بسانا مدنی مدینے والے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد
نمازِاِشراق
دو فرامَینِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :(۱)جونَمازِ فجر با جماعت ادا کرکے ذکرُاللہ کرتا رہے یہاں تک کہ آفتاب بُلند ہوگیا پھر دو رکعتیں پڑھیں تو اسے پورے حج و عمرہ کاثواب ملیگا۔ (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ، ج۲، ص۱۰۰، حدیث۵۸۶)
(۲) جو شخص نمازِ فجر سے فارغ ہونے کے بعد اپنے مُصلّے میں( یعنی جہاں نماز پڑھی وہیں) بیٹھا رہا حتّٰی کہ اِشراق کے نفل پڑھ لے صرف خیر ہی بولے تو اُس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اگر چِہ سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاو،د ج۲ص۴۱حديث ۱۲۸۷ )
حدیثِ پاک کے اس حصّے '' اپنے مصلّے میں بیٹھا رہے'' کی وضاحت کرتے ہو ئے حضرتِ سیِّدُنا مُلا علی قاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الباری فرماتے ہیں: یعنی مسجد یا گھر میں اِس حال میں رہے کہ ذِکر یا غوروفکرکرنے یا علمِ دین سیکھنے سکھانے یا '' بیتُ اللہ کے طواف میں مشغول رہے'' نیز '' صرف خیر ہی بولے'' کے بارے میں فرماتے ہیں:'' یعنی فجر اور اشراق کے درمیان خیر یعنی بھلائی کے سوا کوئی گفتگو نہ کرے کیونکہ یہ وہ بات ہے جس پر ثواب مُرتَّب ہوتا ہے۔ (مرقاۃج۳ ص۳۹۶ تحت الحدیث۱۳۱۷)
''نمازِ اِشراق کا وقت:سورَج طُلُوع ہونے کے کم از کم بیس یا پچیس مِنَٹ بعد سے لے کر ضحو ہ ٔ کُبریٰ تک نَمازِ اِشراق کا وَقت رہتا ہے۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
نمازِ چاشت کی فضیلت
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حُضُورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا:'' جو چاشت کی دو رَکعتیں پابندی سے اداکرتارہے اس کے گناہ مُعاف کردئیے جاتے ہیں اگر چِہ سمند رکی جھاگ کے برابر ہوں۔ '' (سُنَن ابن ماجہ،ج۲ص۱۵۳،۱۵۴حدیث۱۳۸۲) نَمازِچاشت کاوَقت:اس کاوَقت آفتاب بُلندہونے سے زَوال یعنی نصفُ النَّہار شرعی تک ہے اوربہتریہ ہے کہ چوتھائی دن چڑھے پڑھے۔ (بہار شریعت ، حصہ۴ص۲۵) نمازِ اِشراق کے فوراً بعد بھی چاہیں تو نمازِ چاشت پڑھ سکتے ہیں۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
صَلٰوۃُ التَّسْبِیْح
اس نماز کا بے انتہا ثواب ہے ،شَہَنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نَوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لا ل صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے چچا جان حضرتِ سیِّدُنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے میرے چچا! اگر ہو سکے توصَلٰوۃُ التَّسبِیح ہر روز ایک بار پڑھئے اور اگر روزانہ نہ ہو سکے تو ہرجُمُعہ کو ایک بار پڑھ لیجئے اور یہ بھی نہ ہوسکے تو ہر مہینے میں ایک بار اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک بار اور یہ بھی نہ ہوسکے تو عمر میں ایک بار۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاو،د ج۲ص۴۴،۴۵حديث ۱۲۹۷ )
صَلٰوۃُ التَّسْبِیْح پڑھنے کا طریقہ
اِس نَماز کی ترکیب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے: ''سُبْحٰنَ اﷲِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَر'' پھر اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم اور بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سورۂ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر رکوع سے پہلے دس باریہی تسبیح پڑھے پھر رکوع کرے اور رکوع میں سُبْحٰنَ رَبِیَ العَظِیْم تین مرتبہ پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر رکوع سے سر اٹھائے اور سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد پڑھ کر پھر کھڑے کھڑے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ میں جائے اور تین مرتبہ سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ سے سر اٹھائے اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر دوسرے سجدہ میں جائے اور سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی تین مرتبہ پڑھے پھر اس کےبعدیہی تسبیح دس مرتبہ پڑھے اسی طرح چار رکعت پڑھے اور خیا ل رہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے پندرہ مرتبہ اورباقی سب جگہ یہ تسبیح دس دس بارپڑھے یوں ہر رکعت میں75 مرتبہ تسبیح پڑھی جائے گی اور چار رکعتوں میں تسبیح کی گنتی تین سو مرتبہ ہوگی۔ (بہارشریعت حصہ ۴ ص۳۲) تسبیح انگلیوں پرنہ گنے بلکہ ہوسکے تودل میں شمارکرے ورنہ انگلیاں دباکر۔ (ایضاًص۳۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
اِسْتِخَارہ
حضرتِ سیِّدُنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم نُورِ مُجَسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم کو تمام اُمور میں استخارہ تعلیم فرماتے جیسے قرآن کی سُورت تعلیم فرماتے تھے، فرماتے ہیں: ''جب کوئی کسی امر کا قصد کرے تو دو رکعت نفل پڑھے پھر کہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ
وَاَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُوَلَا اَقْدِرُ
وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ
تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَخَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ
اَمْرِیْ اَوْقَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ فَاقْدِرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ
لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ
لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ اَوْ قَالَ عَاجِلِ
اَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ
لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہٖ.
اے اللہ(عَزَّوَجَلَّ ) میں تیرے علم کے ساتھ تجھ سے خیر طلب کرتا(کرتی) ہوں اور تیری قدرت کے ذریعہ سے طلبِ قدرت کرتا(کرتی) ہوں اورتجھ سے تیرافضل عظیم مانگتا (مانگتی)ہوں کیونکہ توقدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا (رکھتی )تو سب کچھ جانتا ہے اورمیں نہیں جانتا (جانتی) اور توتمام پوشیدہ باتوں کو خوب جانتا ہے اے اللہ(عَزَّوَجَلَّ ) اگر تیرے علم میں یہ امر (جس کا میں قصد وارادہ رکھتا(رکھتی) ہوں) میرے دین و ایمان اور میری زندگی اور میرے انجام کار میں دنیا و آخرت میں میرے ليے بہتر ہے تو اس کو میرے ليے مقدر کردے اور میرے ليے آسان کردے پھر اس میں میرے واسطے برکت کردے ۔اے اللہ(عَزَّوَجَلَّ ) اگرتیرے علم میں یہ کام میرے ليے بُرا ہے میرے دین وایمان میری زندگی اور میرے انجام کار دنیا وآخرت میں تو اس کومجھ سے اور مجھ کو اس سے پھیر دے اور جہاں کہیں بہتری ہو میرے ليے مقدر کرپھر اس سے مجھے راضی کردے۔ (صَحِیحُ البُخارِیّ،ج۱ ص۳۹۳حدیث۱۱۶۲، رَدُّالْمُحتار،ج۲ص۵۶۹)
اَوْ قَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ میں '' اَوْ ''شکِ راوی ہے، فقہا ء فرماتے ہیں کہ جمع کرے یعنی یوں کہے۔ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ وَعَاجِلِ اَمْرِی وَاٰجِلِہٖ۔(غُنْیہ ، ص۴۳۱)
مسئلہ: حج اور جہاد اور دیگر نیک کاموں میں نفسِ فعل کے ليے استخارہ نہیں ہوسکتا، ہاں تعیینِ وقت(یعنی وقت مقرّر کرنے) کے ليے کرسکتے ہیں۔ (ایضاً)
نمازِ اِستِخارہ میں کون سی سُورَتیں پڑھیں
مُستحب یہ ہے کہ اس دُعا کے اوّل آخر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور درود شریف پڑھے اور پہلی رَکعت میں قُلْ یٰاَ یُّھَا الْکَافِرُوْنَ اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللہُ پڑھے اور بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ پہلی میں وَ رَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ ؕ مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ؕ سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوۡنَ ﴿۶۸﴾وَرَبُّکَ یَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوۡرُھُمْ وَمَا یُعْلِنُوۡنَ ﴿۶۹﴾
اوردوسری میں وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمْرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ؕ وَمَنۡ یَّعْصِ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿۳۶﴾ (پ۲۲،الاحزاب:۳۶) پڑھے۔(رَدُّالْمُحتَار،ج۲ص۵۷۰)
بہتر یہ ہے کہ سات بار استخارہ کرے کہ ایک حدیث میں ہے: ''اے انس! جب تو کسی کام کا قصد کرے تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اس میں سات بار استخارہ کر پھر نظر کر تیرے دل میں کیا گزرا کہ بیشک اُسی میں خیر ہے۔'' (ایضاً) اور بعض مشائخِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام سے منقول ہے کہ دُعائے مذکور پڑھ کر باطہارت قبلہ رُو سو رہے اگر خواب میں سفیدی یا سبزی دیکھے تو وہ کام بہتر ہے اور سیاہی یا سُرخی دیکھے تو بُرا ہے اس سے بچے۔ (ایضاً) استخارہ کا وقت اس وقت تک ہے کہ ایک طرف رائے پوری جم نہ چکی ہو۔(بہارشریعت حصہ ۴ص۳۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْن کی فضیلت
حضرتِ سیِّدُناابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانیت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا: ''جو مغرب کے بعدچھ رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ ان کے درمیان کو ئی بری بات نہ کہے تو یہ چھ رکعتیں بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں گی۔ '' (سنن ابن ماجہ،ج ۲ ص ۴۵حدیث۱۱۶۷)
صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْن کی فضیلت
مغرب کی تین رکعت فرض پڑھنے کے بعد چھ رکعت ایک ہی نیّت سے پڑھئے، ہر دو رکعت پر قعدہ کیجئے اور اس میں التحیات ، درودِابراھیم اور دعا پڑھئے، پہلی ، تیسری اور پانچویں رکعت کی ابتداء میں ثنا ، تعوذ و تسمیہ ( یعنی اعوذ اور بسم اللہ) بھی پڑھئے۔ چھٹی رکعت کے قعدے کے بعد سلام پھیر دیجئے۔ پہلی دو رکعتیں سُنَّتِ مُؤَکَّدہ ہوئیں اور باقی چار نوافِل۔یہ ہے اوّابین ( یعنی توبہ کرنے والوں ) کی نماز۔ (الوظیفۃ الکریمۃ ص۲۴ مُلَخَّصاً ) چاہیں تو دو دو رکعت کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں۔بہارِشریعت حصّہ 4 صَفْحَہ 15اور16پر ہے: بعد مغرب چھ رَکعتیں مُستحب ہیں ان کو صلوٰۃُ الاوّابین کہتے ہیں، خواہ ایک سلام سے سب پڑھے یا دو سے یا تین سے اور تین سلام سے یعنی ہر دو رَکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔(دُرِّمُختَار، رَدُّالْمُحتَارج۲، ص۵۴۷)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
تَحِیَّۃُ الْوُضُو
وُضو کے بعد اعضا خشک ہونے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے۔ (دُرِّمُختَار،ج۲، ص۵۶۳) حضرتِ سیِّدُنا عُقبہ بن عامِررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم،رء وفٌ رَّحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ''جو شخص وُضو کرے اور اچّھا وُضو کرے اور ظاہِر و باطن کے ساتھ مُتَوَجِّہ ہو کر دو رَکعت پڑھے، اس کے ليے جنّت واجب ہو جاتی ہے۔'' (صَحِیح مُسلِم،ص۱۴۴ حدیث ۲۳۴) غسل کے بعد بھی دو رَکعت نَمازمُستَحَب هے۔ وُضو کے بعد فرض وغیرہ پڑھے تو قائم مقام تَحِیۃُ الوضُو کے ہوجائیں گے۔ (رَدُّالْمُحتَار،ج۲ص۵۶۳) مکروہ وَقت میں تَحِیۃُ الوضُو اور غسل کے بعد والی دو رَکعتیں نہیں پڑھ سکتے۔
صَلٰوۃُالْاَسْرَار
دعاؤں کی مقبولیت اور حاجتوں کے پورا ہونے کے لئے ایک مجرَّب (یعنی آزمودہ) نمازصَلٰوۃُالْاَسْرَاربھی ہے جس کو امام ابوالحسن نورُ الدَّین علی بن جَریر لخمی شطنوفی نے بہجۃُ الْاَسرَار میں اورحضرتِ ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الباری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہِ القوی نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے۔ اِس کی ترکیب یہ ہے کہ بعد نماز مغرِب سنّتیں پڑھ کر دو رَکعت نَماز نفل پڑھے اور بہتر یہ ہے کہ اَلحمد کے بعدہررَکعت میں گیارہ گیارہ مرتبہ قُل ھُواللہ پڑھے سلام کے بعد اللہ عزَّوَجَلَّ کی حمد وثنا کرے (مَثَلاً حمد و ثنا کی نیّت سے سورۃ الفاتحہ پڑھ لے )پھر نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر گیارہ بار درودو سلام عرض کرے اور گیارہ بار یہ کہے: یَارَسُوْلَ اﷲِ یَانَبِیَّ اﷲِاَغِثْنِیْ وَامْدُدْنِیْ فِیْ قَضَاءِ حَاجَتِیْ یَا قَاضِیَ الْحَاجَات. ترجمہ: اے اللہ عزَّوَجَلَّ کے رسول!
اے اللہ عزَّوَجَلَّ کے نبی! میری فریاد کو پہنچئے اور میری مدد کیجيے، میری حاجت پوری ہونے میں، اے تمام حاجتوں کے پورا کرنے والے۔پھر عراق کی جانب گیارہ قدم چلے اور ہر قدم پر یہ کہے: یَاغَوْثَ الثَّقَلَیْنِ یَا کَرِیْمَ الطَّرَفَیْنِ اَغِثْنِیْ وَامْدُدْنِیْ فِیْ قَضَاءِ حَاجَتِیْ یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ۔ (ترجمہ: اے جِنّ و اِنس کے فریاد رس اور اے دونوں طرف (یعنی ماں باپ دونوں ہی کی جانب )سے بُزُرگ! میری فریاد کو پہنچئے اور میری مدد کیجيے میری حاجت پوری ہونے میں، اے حاجتوں کے پورا کرنے والے۔ ) پھرحُضُورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو وَسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت کے لئے دعا مانگے۔ (عَرَبی دعا ؤں کے ساتھ ترجَمہ پڑھنا ضروری نہیں)(بہارشریعت حصہ۴،ص۳۵،بہجۃ الاسرار،ص۱۹۷)
حُسنِ نیّت ہو، خطا تو کبھی کرتا ہی نہیں
آزمایا ہے یگانہ ہے دُوگانہ تیرا
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد
صَلٰوۃُ الْحَاجَات
حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ''جب حُضُورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم،رسولِ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کوئی امرِ اَہم پیش آتا تو نَماز پڑھتے۔'' (سُنَنِ اَ بُو دَاو،د ، حدیث ۱۳۱۹ ج۲ص۵۲) اِس کے ليے دو یا چاررَ کعت پڑھے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''پہلی رَکعت میں سورۂ فاتِحہ اور تین بار آیۃُ الکُرسی پڑھے اور باقی تین رَکعتوں میں سورۂ فاتِحہ اور قُلْ ھُوَ اللہُ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ایک ايك بار پڑھے، تو یہ ایسی ہیں جیسے شب ِ قَدر میں چار رکعتیں پڑھیں۔'' (بہار شریعت ، حصہ ۴ ص۳۴) مشائخِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام فرماتے ہیں: کہ ہم نے یہ نَماز پڑھی اور ہماری حاجتیں پوری ہوئیں۔ (ایضاً) حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حُضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: جس کی کوئی حاجت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہو یا کسی بنی آدم(یعنی انسان) کی طرف تو اچھی طرح وُضو کرے پھر دو رَکعت نماز پڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ثنا کرے اورنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پر دُرُود بھیجے پھر یہ پڑھے:
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ
الْعَظِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن اَسْأ لُکَ مُوْجِبَاتِ
رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ
وَّالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَّا تَدَعْ لِیْ ذَنبًا اِلَّا غَفَرْتَہٗ وَلَا
ھَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہٗ وَلَا حَاجَۃً ھِیَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَھَا
یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ. (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ،حدیث۴۷۸ج۲ص۲۱)
ترجمہ: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں جو حلیم و کریم ہے، پاک ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ مالک ہے عرشِ عظیم کا، حمد ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ليے جورب ہے تمام جہاں کا، میں تجھ سے تیری رحمت کے اسباب مانگتا (مانگتی )ہوں اور طلب کرتا( کرتی) ہوں تیری بخشش کے ذرائع اور ہر نیکی سے غنیمت اور ہر گناہ سے سلامتی کو، میرے ليے کوئی گناہ بغیر مغفرت نہ چھوڑ اور ہر غم کو دور کر دے اور جو حاجت تیری رضا کے موافق ہے اسے پورا کر دے اے سب مہربانوں سے زیادہ مہربان۔
نابینا کو آنکھیں مل گئیں
حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن حُنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوکر عرض کی:اللہ عزَّوَجَلَّ سے دُعاکيجيے کہ مجھے عافیت دے۔ ارشاد فرمایا: ''اگر تو چاہے تو دُعا کروں اور چاہے تو صبرکر اور یہ تیرے ليے بہتر ہے۔'' انہوں نے عرض کی :حضور!دعا فرمادیجئے۔ انھيں حکم فرمایا: کہ وضو کرو اوراچھا وضو کرو اور دو رَکعت نَماز پڑھ کر یہ دُعا پڑھو:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَ تَوَسَّلُ وَاَ تَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ
مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا رَسُوْلَ اللہِ ۱؎ اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ
اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ
(حدیثِ پاک میں اس جگہ ''یا محمد'' (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہے۔ مگر مجدِّدِ اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عليہ رحمۃ الرحمن نے ''یا محمد'' (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کہنے کے بجائے، يا رسولَ اللہ (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم) کہنے کی تعليم دی ہے۔)
ترجمہ:ا ے اللہ عَزَّوَجَلّ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور توسل کرتا ہوں اور تیری طرف مُتَوَجِّہ ہوتا ہوں تیرے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذَرِیعے سے جو نبیِّ رحمت ہیں ۔یا رسولَ اللہ !(عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم) میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذَرِیعے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اِس حاجت کے بارے میں مُتَوَجِّہ ہوتا ہوں، تاکہ میری حاجت پوری ہو۔ ''الٰہی! ان کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔''
سیِّدُناعثمان بن حُنیَف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ''خدا کی قسم! ہم اٹھنے بھی نہ پائے تھے، باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہ ہمارے پاس آئے، گویا کبھی اندھے تھے ہی نہیں۔'' (سنن ابن ماجہ،ج۲ ص۱۵۶حدیث ۱۳۸۵،سنن الترمذي، ص۳۳۶ ج۵حدیث ۳۵۸۹،المعجم الکبیر، ج۹ص۳۰حدیث۸۳۱۱ ، بہار شریعت،حصہ ۴ص۳۴
اسلامی بہنو! شیطان جو یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ صرف'' یا اللہ'' کہنا چاہئے '' یارسول اللہ ''نہیں کہناچاہئے ، اَلْحَمدُ لِلّٰہ عزَّوَجَلَّ اِس حدیثِ مبارک نے شیطان کے اس انتہائی خطرناک وسوسے کو بھی جڑ سے اُ کھاڑ دیا کہ اگر '' یارسولَ اللہ '' کہنا جائز نہ ہوتا تو خود ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِس کی کیوں تعلیم دیتے؟ بس جھوم جھوم کر '' یارسولَ اللہ '' کے نعرے لگاتے جائیے۔
یارسول اللہ کے نعرے سے ہم کو پیار ہے
جس نے یہ نعرہ لگایا اُس کا بیڑا پار ہے
جس نے یہ نعرہ لگایا اُس کا بیڑا پار ہے
گَہَن کی نَماز
حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی کہ شَہَنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،، دافِعِ رنج و مَلال، صاحِب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰ لہٖ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہاکے عَہدِ کریم (یعنی مبارک زمانے ) میں ایک مرتبہ آفتاب میں گَہَن لگا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علىه واٰلہٖ وسلم مسجِد میں تشریف لائے اوربَہُت طویل قِیام و رُکوع و سجود کے ساتھ نَماز پڑھی کہ میں نے کبھی ایسا کرتے نہ دیکھا اور یہ فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کی موت و حیات کے سبب اپنی یہ نشانیاں ظاہِر نہیں فرماتا،بلکہ ان سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا جب ان میں سے کچھ دیکھو تو ذکر و دُعا و اِستِغفار کی طرف گھبرا کر اٹھو۔
(صَحِیحُ البُخارِیّ ،ج۱ ص۳۶۳حدیث ۱۰۵۹)
سورج گہن کی نماز سُنَّتِ مُؤَکَّدہ اور چاند گہن کی نمازمُستَحَب ہے ۔( دُرِّمُختار،ج۳ص۸۰)
گَہَن کی نَماز پڑھنے کا طریقہ
یہ نَمازاورنوافِل کی طرح دو رَکعت پڑھیں یعنی ہررَکعت میں ایک رُکوع اور دو سجدے کریں نہ اس میں اذان ہے ،نہ اقامت ،نہ بُلند آواز سے قراءَ ت، اورنَمازکے بعددُعاکریں یہاں تک کہ آفتاب کھل جائے اوردورَکعت سے زیادہ بھی پڑھ سکتے ہیں خواہ دو،دورَکعت پرسلام پھیریں یاچارپر۔ (بہارشریعت،حصہ ۴ص۱۳۶) ایسے وقت گَہَن لگا کہ اس وَقت نَماز پڑھناممنوع ہے تو نَماز نہ پڑھیں، بلکہ دُعا میں مشغول رہیں اور اِسی حالت میں ڈوب جائے تو دُعا ختم کر دیں اور مغرب کی نَماز پڑھیں۔ ( الجوہرۃ النیرۃ،ص۱۲۴، رَدُّالْمُحتَار، ج۳ ص۷۸) تیز آندھی آئے یا دن میں سخت تاریکی چھا جائے یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگاتار کثرت سے مينھ برسے یا بکثرت اولے پڑیں یا آسمان سُرخ ہو جائے یا بجلیاں گریں يا بکثرت تارے ٹوٹیں یا طاعون وغیرہ وبا پھیلے یا زلزلے آئیں یا دشمن کا خوف ہو یا اور کوئی دہشت ناک امر پایا جائے ان سب کے ليے دو رَکعت نَما زمُستَحَب ہے۔ (عالمگیری،ج۱ ص۱۵۳، دُرِّمُختار،ج۳ص۸۰،وغیرہما)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
نَمازِ توبہ
حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدِّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حُضُورِ پاک، صاحِبِ لَولاک، سَیّاحِ اَفلاک صلی اللہ تعالیٰ عليہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: ''جب کوئی بندہ گناہ کرے پھر وُضو کر کے نَماز پڑھے پھر اِستغفار کرے، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا۔'' پھر یہ آیت پڑھی: وَالَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوۡۤا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوۡا لِذُنُوۡبِھِمْ ۪ وَمَنۡ یَّغْفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللہُ ۪۟ وَلَمْ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَھُمْ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۱۳۵﴾
ترجَمۂ کنز الایمان:اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یااپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ(عَزَّوَجَلَّ) کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ(عَزَّوَجَلَّ) کے؟ اوراپنے کيے پر جان بوجھ کر اَڑنہ جائیں ۔ (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ، ج۱ص۴۱۵حدیث۴۰۶)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
عشاء کے بعد دو نفل کا ثواب
حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جو عشا ء کے بعد دو رَکعَت پڑھے گا اور ہر رَکعت میں سورۂ فاتِحہ کے بعد پندرہ بار قُل ھُوَاللہُ اَحَد پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنّت میں دوایسے محل تعمیر کریگا جسے اہلِ جنّت دیکھیں گے۔( تفسیردرمنثور ج۸ ص ۶۸۱ )
سنّتِِ عصر کے بارے میں دو فرامَینِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (۱)جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے بدن کو آگ پر حرام فرمادے گا۔''(اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْرلِلطَّبَرَانِیّ،ج۲۳ص ۲۸۱حديث۶۱۱ )
(۲) ''جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے، اُسے آگ نہ چُھوئے گی۔'' (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطَّبَرَانِیّ،ج ۲ ص ۷۷حديث۲۵۸۰ )
ظُہْر کے آخِری دو نفل کے بھی کیا کہنے
ظُہْر کے بعد چار رَکْعَت پڑھنامُستَحَب ہے کہ حدیثِ پاک میں فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر مُحافَظَت کی اللہ تعالیٰ اُس پر آگ حر ا م فرمادے گا۔(سُنَنُ النَّسَائی ص ۳۱۰حديث۱۸۱۳)۔
علامہ سیِّد طحطاوی علیہ رحمۃ القوی فرماتے ہیں : سِرے سے آگ میں داخِل ہی نہ ہوگا اور اُس کے گناہ مٹادئیے جائیں گے اور اس پر (حقوق العباد یعنی بندوں کی حق تلفیوں کے)جو مُطالبات ہیں اللہ تعالیٰ اُس کے فریق کو راضی کردے گا یا یہ مطلب ہے کہ ایسے کاموں کی توفیق دے گا جن پر سزا نہ ہو۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر ج ۱ ص۲۸۴)
اور علّامہ شامی قُدِّسَ سرُّہُ السّامی فرماتے ہیں: اُس کیلئے بِشارت یہ ہے کہ سعادَت پر اُس کاخاتمہ ہوگا اور دوزخ میں نہ جائے گا ۔( رَدُّالْمُحتَار ج ۲ ص ۵۴۷)
اسلامی بہنو!اَلْحَمدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ جہاں ظُہْرکی دس رَکْعَت نَماز پڑھ لیتے ہیں وہاں آخِر میں مزید دو رَکْعَت نفل پڑھکر بارھویں شریف کی نسبت سے12 رَکعَت کرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے ! استِقامت کے ساتھ دو نفل پڑھنے کی نیّت فرما لیجئے۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
(10): ’’ اذان دینے کے مستحب مواقع ‘‘
{۱}بچّے {۲}مغموم {۳}مِرگی والے {۴}غضبناک اوربدمزاج آدَمی اور {۵}بد مِزاج جانورکے کان میں {۶}لڑائی کی شدّت کے وقت{۷}آتَش زَدَگی (آگ لگنے ) کے وقت{۸}میِّت دَفن کرنے کے بعد{۹}جِنّ کی سرکشی کے وَقت (مَثَلاً کسی پر جِنّ سُوار ہو) {۱۰}جنگل میں راستہ بھول جائیں اورکوئی بتانے والانہ ہو اُس وقت۔(بہارِ شریعت ج۱ص۴۶۶، رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۲) نیز {۱۱} وَبا کے زمانے میں بھی اذان دینا مُسْتَحَب ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۴۶۶،فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۵ص۳۷۰)
(11): ’’ نماز اور لباس کے مدنی پھول ‘‘
دَورانِ نَماز لباس پہننا
(۱) دَورانِ نَماز کُرتا یاپاجامہ پہننے یاتہبندباندھنے سے نَماز ٹوٹ جاتی ہے۔ (غُنْیَہ ص۴۵۲ وغیرہا) (۲)دَورانِ نَمازسَترکُھل جانے اوراسی حالت میں کوئی رُکن اداکرنے یاتین بارسُبْحٰنَ اللہ کہنے کی مقداروَقفہ گزر جانے سے بھی نَماز فاسِدہو(یعنی ٹوٹ)جاتی ہے۔(دُرِّمُختار ج۲ص۴۶۷)
کندھوں پر چادر لٹکانا
(۳)نَماز میں سَدَل یعنی کپڑالٹکانا مکروہِ تحریمی ہے۔مَثَلًاسَریاکندھے پراِس طرح سے چادر یا رومال وغیرہ ڈالنا کہ دونوں کَنارے لٹکتے ہوں۔ہاں،اگرایک کَنارادوسرے کندھے پرڈا ل دیااور دوسرا لٹک رہاہے توحَرَج نہیں۔(۴)آج کل بعض لوگ ایک کندھے پراِس طرح رومال رکھتے ہیں کہ اس کا ایک سِراپَیٹ پرلٹک رہا ہوتاہے اور دوسراپیٹھ پر۔اِس طرح نَماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے(بہارِ شریعت ج۱ص۶۲۴)(۵)دونوں آستینوں میں سے اگرایک آستین بھی آدھی کلائی سے زِیادہ چڑھی ہوئی ہوتو نَمازمکروہِ تحریمی ہوگی۔(ایضًا،دُرِّمُختار ج۲ص۴۹۰)(۶)دوسراکپڑا ہونے کے باوُجُودصِرف پاجامے یاتہبندمیں نَماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔(عالمگیری ج۱ص۱۰۶)(۷)(نَماز میں)کُرتے وغیرہ کے بٹن کُھلے ہونا جس سے سینہ کُھلارہے مکروہِ تحریمی ہے ہاں اگرنیچے کوئی اورکپڑاہے جس سے سینہ نہیں کھلا تو مکروہِ تنزیہی ہے۔(بہارِشریعت ج۱ص۶۳۰)
(۸)جاندارکی تصویر والالباس پہن کرنمازپڑھنامکروہِ تحریمی ہے نَمازکے علاوہ بھی ایسا کپڑاپہننا جائزنہیں۔(ایضًاص ۶۲۷)
مکروہِ تحریمی کی تعریف
یہ واجِب کامُقابِل(یعنی الٹ)ہے اس کے کرنے سے عبادت ناقِص ہو جاتی ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچِہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور چند بار اس کا اِرتِکاب(یعنی عمل میں لانا)کبیرہ(گناہ)ہے۔(بہارِ شریعت جلد اوّل ص۲۸۳)مکروہ ِتحریمی ہوجانے والی نَماز واجِبُ الاِعادہ ہوتی ہے یعنی ایسی نَماز کو نئے سرے سے پڑھنا واجِب ہوتا ہے۔مکروہِ تحریمی کی ایسی صورتیں بھی ہیں جن میں سجدۂ سہو کر لینے سے نَماز دُرُست ہو جاتی ہے۔اِس کی تفصیلی معلومات کیلئے دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 496 صَفحات پر مشتمل کتاب،’’نَماز کے اَحکام‘‘ کا مُطالَعہ کیجئے۔ (۹)دوسرے کپڑے مُیَسَّرہونے کے باوُجُودکام کاج کے لباس میں نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے۔ (شَرْحُ الْوِقایَۃ ج۱ص۱۹۸) (۱۰)اُلٹا کپڑا پہن کریا اَوڑھ کر نَماز مکروہِ تنزیہی ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۷ ص ۳۵۸ تا ۳۶۰) (۱۱)سُستی سے ننگے سر نَماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے۔(دُرِّمُختار ج۲ص۴۹۱)نَمازمیں ٹوپی یا عِمامہ شریف گر پڑا تو اُٹھا لیناافضل ہے جبکہ عملِ کثیر کی حاجت نہ پڑے ورنہ نَمازفاسِدہوجائے گی۔اور بار بار اٹھانا پڑے توچھوڑدیں اورنہ اٹھانے سے خُشُوع وخُضُوع مقصود ہوتونہ اُٹھاناافضل ہے۔ (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج ۲ ص ۴۹۱) (۱۲)اگرکوئی ننگے سر نَماز پڑھ رہاہو یااُس کی ٹوپی گر پڑی ہو تو اُس کو دوسرا شخص ٹوپی نہ پہنائے۔
عملِ کثیرکی تعریف
عملِ کثیرنَماز کوفاسِدکر(یعنی توڑ)دیتا ہے جبکہ نہ نَماز کے اعمال سے ہونہ ہی اصلاحِ نَمازکیلئے کیا گیاہو۔جس کام کے کرنے والے کو دُورسے دیکھنے سے ایسا لگے کہ یہ نَماز میں نہیں ہے بلکہ اگرگُمان غالِب ہوکہ نَمازمیں نہیں تب بھی عملِ کثیرہے۔اور اگردُورسے دیکھنے والے کو شک وشُبہ ہے کہ نَمازمیں ہے یا نہیں توعملِ قَلیل ہے اورنَماز فاسِدنہ ہوگی۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۴۶۴)
ہاف آستین میں نَماز پڑھنا کیسا ؟
(۱۳) آدھی آستین والاکُرتایا قمیص پہن کرنَماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے جبکہ اُس کے پاس دوسرے کپڑے موجود ہوں۔حضرتِ صدرُالشَّریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’جس کے پاس کپڑے موجود ہوں اور صِرف نیم آستین(یعنی آدھی آستین)یابَنیان پہن کرنَمازپڑھتا ہے تو کراہتِ تنزیہی ہے اورکپڑے موجود نہیں تو کراہت بھی نہیں۔‘‘ (فتاوٰی اَمجدِیَّہ ج۱ص۱۹۳) (۱۴)مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت قبلہ مفتی وقارُالدین قادِری رضوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:ہاف آستین والا کُرتا،قمیص یا شَرٹ کام کاج کرنے والے لباس(کے حکم)میں شامِل ہیں(کہ کام کاج والا لباس پہن کر انسان معزّزین کے سامنے جاتے ہوئے کتراتا ہے)اِس لئے جوہاف آستین والاکُرتا پہن کردوسرے لوگوں کے سامنے جانا گوارانہیں کرتے،اُن کی نَمازمکروہِ تنزیہی ہے اورجولوگ ایسا لباس پہن کرسب کے سامنے جانے میں کوئی بُرائی محسوس نہیں کرتے،اُن کی نَمازمکروہ نہیں۔(وَقارُالْفتاوٰی ج ۲ ص۲۴۶)
مکروہِ تنزیہی کی تعریف
جس کا کرنا شَرع کو پسند نہیں مگر نہ اِس حد تک(ناپسند)کہ اس پر وَعیدِ عذاب فرمائے۔یہ سنّتِ غیر مؤ کدہ کے مقابِل ہے۔(بہارِ شریعت جلد اوّل ص ۲۸۴)مکروہِ تنزیہی ہو جانے والی نَماز دوبارہ پڑھ لینا بہتر ہے اگر نہ پڑھی تو گنہگار نہیں
مِرے دل سے دُنیا کی چاہت مٹا کر
کر اُلفت میں اپنی فنا یا الٰہی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد
(12): ’’ شفاعت کی ۸ اقسام ‘‘
دُرُود شریف کی فضیلت کی حِکایت
حضرتِ سیِّدُنا اَبُو المُواہِب شاذِلی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:جنابِ رسالت مَآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مجھے خواب میں اپنے دیدارِ فیض آثار سے مُشرَّف کیا اور فرمایا:’’تم بروزِقِیامت میرے ایک لاکھ اُمّتیوں کی شَفاعت کرو گے۔‘‘میں نے عَرض کی:اے میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم! مجھ پر اِس قَدَر اِنعام وا ِکرام کیسے ہوا؟ ارشاد فرمایا:اِس لیے کہ تم مجھ پردُرُود کا ہَدِیّہ پیش کرتے رہتے ہو۔ (الطبقاتُ الکُبریٰ لِلشَّعرانی،الجزءُ الثّانی ص۱۰۱)
پڑھتے رہو دُرود و سلام بھائیو! مُدام
فضلِ خدا سے دونوں جہاں کے بنیں گے کام
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد
حِکایتِ دُرُود کے ضِمن میں’’ شفاعت‘‘ کے متعلق مَدَنی پھول علَمائے کرام شَفاعت فرمائیں گے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سبحٰن اللہ !دُرودِ پاک پڑھنے کی بھی کیا خوب برکتیں ہیں! اِس حِکایتِ دُرود سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بروزِ قِیامت اہلُ اللّٰہ(یعنی اللہ والے)گنہگاروں کی شَفاعت فرمائیں گے۔ یاد رہے! مُطلَقًا شَفاعت کا انکار حکمِ قراٰنی کا انکار اورکُفر ہے۔موقع کی مناسَبَت سے شَفاعت کے بارے میں نیکی کی دعوت کے کچھ مَدَنی پھول آپ کی طرف بڑھاتا ہوں،قَبول فرما کر اپنے دل کے مَدَنی گلدستے میں سجاتے جایئے،ان شاء اللہ عزوجل ایمان کو تازگی ملنے کے ساتھ ساتھ کئی وَسوَسوں کی کاٹ بھی ہو جا ئے گی۔شَفاعت کے معنیٰ ہیں:’’ گُناہوں سے مُعافی کی سِفارِش۔‘‘ سب سے پہلے عُلَمائے کرام کے شَفاعت کرنے کے مُتَعلِّق ایک ایمان افروز رِوایت سَماعت فرمایئے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا جابِر بن عبدُ اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہخاتَمُ المُرْسَلین،رَحمۃٌ لِّلْعٰلمین،شفیعُ المُذنِبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کاارشاد ِ دلنشین ہے:(میدانِ قیامت میں)عالِم اور عابِد لائے جائیں گے،عابِد(یعنی عبادت گزار)سے کہا جائے گا:جنَّت میں داخِل ہوجا ؤاور عالِم سے کہا جائے گا:تم ابھی ٹھہرو تاکہ لوگوں کی شَفاعت کرو،اِس صلے میں کہ تم نے ان کو ادب سکھایا۔ (شعب الایمان ج ۲ ص ۲۶۸حدیث ۱۷۱۷)
مجھ کو اے عطّارؔ سُنّی عالموں سے پیار ہے
اِن شاءَ اللہ دو جہاں میں میرا بیڑا پار ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد
جن آیات میں شفاعت کاانکار ہے ان کی وَضاحت
قراٰنِ کریم کی جن آیتوں میں شَفاعت کی نفی(یعنی انکار)ہے وہا ں مُراد ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی بھی جبرًا شفاعَت نہیں کرسکتا یا غیر مسلموں کی شَفاعت نہیں یا بُت شَفیع(یعنی شفاعت کرنے والے)نہیں ہیں۔مَثَلًا پارہ 3سورۃ البقرہ آیت نمبر 254 میں ہے: یَوْمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفٰعَۃٌ ؕ (پ۳،البقرۃ:۲۵۴) ترجَمۂ کنزالایمان:وہ دن جس میں نہ خریدفروخت ہے نہ کافروں کے لئے دوستی اور نہ شَفاعت۔ پارہ 29 سورۃ المدثر آیت نمبر 48میں ارشاد ہوتا ہے: فَمَا تَنۡفَعُہُمْ شَفٰعَۃُ الشّٰفِعِیۡنَ ﴿ؕ۴۸﴾ (پ۲۹،المدثر:۴۸) ترجَمۂ کنزالایمان:تو انہیں سِفارشیوں کی سِفارش کام نہ دے گی۔
قراٰن سے شفاعت کا ثُبُوت
جہاں قراٰن شریف میں شفاعت کاثُبُوت ہے وہاں اللہ کے پیاروں کی مومِنوں کے لئے ’’ شَفاعَت بِالْاِذن‘‘مُراد ہے یعنی اللہ عزوجل کے پیارے بندے اپنی مَحبوبیَّت اور وجاہت و مرتبے کی بِنا پر اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مومنوں کو بخشوائیں گے۔مَثَلًا پارہ3 سورۃ البقرہ آیت 255 میں ارشادِ ربُّ العِبادہے: مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ؕ (پ۳،البقرۃ:۲۵۵)
ترجَمۂ کنزالایمان:وہ کون ہے جو اس کے یہاں سِفارش کرے بے اس کے حکم کے۔
پارہ 16سورۂ مریم آیت نمبر 87میں ہے:
لَا یَمْلِکُوۡنَ الشَّفٰعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحْمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۘ۸۷﴾
ترجَمۂ کنزالایمان:لوگ شفاعت کے مالک نہیں مگر وُہی جنہوں نے رحمٰن کے پاس قرارکر رکھا ہے۔
نیکیاں بِالکل نہیں ہیں نامۂ اعمال میں
کیجئے عطّارؔ کی آکر شَفاعت یارسول
(وسائل بخشش ص ۱۴۲)
کون کون شفاعت کرے گا؟
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفحات پر مشتمل کتاب،’’بہارِ شریعت جلد اوّل ‘‘ صَفْحَہ139 تا141 پر قِیامت کی منظر کشی میں شفاعت کے مُتَعلِّق تفصیلی مضمون میں یہ بھی ہے:اَب تمام انبیا اپنی اُمّت کی شَفاعَت فرمائیں گے،اولیائے کرام،شُہَدا(شُ۔ہَ۔دا)،عُلَما،حُفّاظ،حُجّاج بلکہ ہر وہ شخص جس کو کوئی منصبِ دینی عنایت ہوا اپنے اپنے مُتَعَلِّقِین کی شَفاعت کرے گا۔نابالِغ بچّے جو مرگئے ہیں(وہ)اپنے ماں باپ کی شَفاعت کریں گے،یہاں تک کہ عُلَما کے پاس کچھ لوگ آکرعرض کریں گے:ہم نے آپ کے وُضُو کے لیے فُلاں وقت میں پانی بھر دیا تھا،کوئی کہے گا کہ میں نے آپ کو اِستنجے کے لیے ڈَھیلا دیا تھا،عُلَما اُن تک کی شَفاعت کریں گے۔
حِرزِ جاں ذکرِ شَفاعت کیجئے
نار سے بچنے کی صورت کیجئے
(حدائقِ بخشش شریف)
شَرحِ کلامِ رضا:اِس شعر میں میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:اے عاشِقانِ رسول! شَفاعتِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا خوب تذکرہ کرتے رہئے گویا اپنے لئے اسے مثلِ پناہ گاہ بنا لیجئے کہ ’’ ذِکرِشَفاعت‘‘ آخِرت کی بھلائی اور عذابِ جہنَّم سے نجات کا وسیلہ بن جائے۔
تجھ سا سیاہ کار کون اُن سا شَفیع ہے کہاں!
پھر وہ تُجھی کو بھول جائیں دل یہ ترا گمان ہے
(حدائقِ بخشش شریف)
شَرحِ کلامِ رضا:اِس شعر میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ اپنے آپ سے تَواضُعًا(یعنی بطورِ انکساری)فرما رہے ہیں:تُوسب سے بڑا گنہگار ہی سہی مگر تو جس پیارے مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا غلام ہے اُن سے بڑا شَفاعت کرنے والا بھی تو کوئی نہیں۔اس لئے اے میرے غمگین دل! تسلّی رکھ! بروزِحَشر شفیعِ محشر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تجھے ہرگز نہیں بھولیں گے۔ ؎
یارسولَ اللّٰہ! مجرم حاضرِ دربار ہے نیکیاں پلّے نہیں سر پر گُنہ کا بار ہے
تم شہِ ابرار یہ سب سے بڑا عِصیاں شِعار یوں شَفاعت کا یِہی سب سے بڑا حقدار ہے
(وسائلِ بخشش ص ۲۲۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد
شَفاعت کی 8 اَقسام
مُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق،خاتِمُ المُحَدِّثین،حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلَوی علیہ رحمۃ اللہ القوی شفاعت کی قِسمیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(۱)شَفاعت کی پہلی قسم شَفاعَتِ عُظمیٰ ہے جس کا تمام مخلوقات کو نفع ملے گا اوریہ ہماری محترم نبی،مکّی مَدَنی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے یعنی انبِیاءِ کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام میں سے کسی اور نبی کو اِس پرجُرأَت(جُر۔اَت)اور پیش قدمی کی مَجال نہ ہوگی اور یہ شَفاعت لوگوں کو آر ام پہنچانے،میدانِ حَشر میں دیر تک ٹھہرنے سے چُھٹکارا دلانے،اللہ عزوجل کے فیصلے اور حساب کے جلدی کرنے اور قِیامت کے دن کی سختی و پریشانی سے نکالنے کے لئے ہوگی(۲)دوسری قسم کی شَفاعت ایک قوم کو بے حساب جنَّت میں داخِل کروانے کے لئے ہوگی اور یہ شَفاعت بھی ہمارے نبیِّ پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے لیے ثابِت ہے اور بعض عُلَماءِ کرام کے نزدیک یہ شَفاعت حُضُورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے(۳)تیسری قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے بار ے میں ہوگی کہ جن کی نیکیاں اور بُرائیاں برابر برابر ہوں گی اور شَفاعت کی مدد سے جنَّت میں داخِل ہوں گے(۴)چوتھی قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے لئے ہوگی جو کہ دوزخ کے حق دار ہوچکے ہوں گے تو حضورِ پُرنور،شافعِ یومُ النُّشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم شَفاعَت فرما کر اُن کو جنَّت میں لائیں گے(۵)پانچویں قسم کی شَفاعت مرتبے کی بُلندی اور بُزُرگی کی زِیادَتی کے لئے ہوگی(۶)چھٹی قسم کی شَفاعت اُن گنہگاروں کے بارے میں ہوگی جو کہ جہنَّم میں پہُنچ چکے ہوں گے اورشَفاعت کی وجہ سے نکل آئیں گے اور اِس طرح کی شَفَاعت دیگرانبیا ءِ کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام،فِرِشتے،عُلَما اور شُہَدابھی فرمائیں گے(۷)ساتویں قسم کی شَفاعت جنَّت کھولنے کے بارے میں ہوگی(۸)آٹھویں قسم کی شَفاعت خاص کر مدینۂ منَوّرہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما والوں اور مدینے کے تاجور،سلطانِ بَحرو بَر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے روضۂ انور کی زیارت کرنے والوں کے لئے خُصُوصی طریقے پر ہوگی۔ (مُلَخَّص ازاَشِعَّۃُ اللَّمَعَات ج ۴ ص ۴۰۴)
حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے
مُنکِر آج ان سے التجا نہ کرے
(حدائقِ بخشش شریف)
شَرحِ کلامِ رضا:میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اِس شِعر میں فرماتے ہیں:جو لوگ آج دنیا میں اللہ عزوجل کے پیاروں کو ’’بے اختیار‘‘ سمجھتے ہیں،بروزِ محشر ہم بھی ان کا خوب تماشا دیکھیں گے کہ کس طرح بے بسی او ر بے چینی کے ساتھ انبیاءِ کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام کے پاک درباروں میں شَفاعت کی بھیک لینے کیلئے دھکّے کھا رہے ہوں گے! مگر ناکامی کا منہ دیکھیں گے۔جبھی تو کہا جا رہا ہے: ؎
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قِیامت میں اگر مان گیا
(حدائقِ بخشش شریف)
شَرحِ کلامِ رضا:یعنی آج اختیاراتِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا اِعتراف کرلے اور ان کے دامنِ کرم کی پناہ میں آ جا اور اِن سے مدد مانگ۔اگر تُو نے یہ ذہن بنا لیا کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اللہ عزوجل کی عطا سے بھی مدد نہیں کر سکتے تو یاد رکھ! کل بروزِ قِیامت جب اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی شانِ محبوبی ظاہر ہو گی او ر تُو اختیارات تسلیم کر لے گا اور شَفاعت کی صورت میں مدد کی بھیک لینے دوڑے گاتو اُس وَقت سرکارِ نامدار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نہیں ’’ مانیں‘‘ گے کہ دنیا ’’ دارُ العمل ‘‘(یعنی عمل کی جگہ)تھی اگر وَہیں ’’مان لیتا ‘‘ تو کام ہو جاتا،اب’’ماننا ‘‘ کام نہ دے گا کیوں کہ آخِرت دارالعمل نہیں ’’دارُالجَزا‘‘(یعنی دنیا میں جو عمل کیا اُس کا بدلہ ملنے کی جگہ)ہے۔
شَفاعت کی اُمّید پر گناہ کرنے والا کیسا ہے؟
شَفاعت کی اُمّید پر گناہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اچّھا ڈاکٹر مل جانے کی اُمّید پر کوئی زَہر کھالے یا ہڈّیوں کے ماہِر ڈاکٹر کے ملنے کی اُمّید پرگاڑی کے نیچے خود کو گراکر سارے بدن کی ہڈّیاں تُڑوالے۔اور یقینا کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا۔لہٰذا ہر دم گناہوں سے بچتے رہنا ضَروری ہے۔شَفاعت کی اُمید پر اللہ و رسول عزوجل صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی نافرمانیاں کر کے خود کو جہنَّم کے عذاب کیلئے پیش کرتے رہنا نہایت خطرناک ہے۔اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر سے ہر وَقت ڈرتے رہنا چاہئے اگر گناہوں کی نُحوست سے ایمان ہی برباد ہو گیاتو شفاعت کیسی! خدا کی قسم! ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوزخ کی بھڑکتی آگ اور گُونا گُوں عذابوں کاسامنا ہو گا۔وَالعِیاذُبِاللّٰہ(اللہ عزوجل کی پناہ)ہاں بچنے کی لاکھ کوشش کے باوُجُود نہ چاہتے ہوئے بھی بسا اوقات جو آدَمی گناہوں میں پھنس جاتا ہے،اُسے چاہئے کہ توبہ استِغفار بھی کرتا رہے اور شفیعِ روزِ محشر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے شفاعت کی خیرات بھی مانگتا رہے۔
اے شافِعِ اُمَم شہِ ذی جاہ لے خبر لِلّٰہ لے خبر مِری لِلّٰہ لے خبر
مجرم کو بارگاہِ عدالت میں لائے ہیں تکتا ہے بیکسی میں تِری راہ لے خبر
اہلِ عمل کو اُن کے عمل کام آ ئیں گے
میرا ہے کون تیرے سوا آہ! لے خبر
(حدائقِ بخشش شریف)
شَرحِ کلامِ رضا! اے تمام اُمَّتوں کی شَفاعت فرمانے والے عزّت والے شہنشاہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم خدارا!مجھ گنہگار کی خبر لیجئے! اے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم مجرم کی عدالت میں پیشی ہو چکی ہے،گنہگار غلام نہایت بے کسی کے عالم میں شفاعت کی امّید لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تشریف آوَری کا منتظر ہے۔یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بے شک نیک بندوں کیلئے اُن کی نیکیاں کار آمد ہوں گی،آہ! مجھ نیکیوں سے تہی دامن(یعنی بالکل خالی)اور سرتاپا گناہوں سے لِتھڑے ہوئے غلام کا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے سوا کون ہے جو شَفاعت کر کے عذابِ نار سے بچا لے!
تسلّی رکھ تسلّی رکھ نہ گھبرا حشر سے عطّارؔ
تِرا حامی وہاں پر آمِنہ کا لاڈلا ہوگا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالیٰ علٰی محمَّد
(نیکی کی دعوت۴۵۰ تا ۴۵۶)