باطنی اخلاق ، باطنی بیماریاں اور ظاہری گناہ) (part 01a)

01 ’’اللہ پاک کی رضا ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

(1) (ترجمہ Translation :)’’اور اللہ کی رضا سب سے بڑی ہے‘‘۔ (ترجمہ کنزالعرفان) (پ۱۰، التوبۃ :آیت ۷۲)علماء فرماتے ہیں: یعنی جنّت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اللہ پاک جنّتیوں سے راضی ہو گا ،کبھی نا راض نہ ہوگا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۱)علماء فرماتے ہیں: یہ نعمت تمام نعمتوں سے بڑی ہے اور اللہ پاک سے محبّت رکھنے والوں کی سب سے بڑی خواہش(desire) ہے۔ اللہ پاک کی رضا اور اللہ پاک کا دیدار(یعنی جنّتیوں کا اللہ پاک کو دیکھنا) کسی عمل کے بد لے میں نہ ہو گا بلکہ یہ خاص(special) اللہ پاک کا فضل و انعام ہو گا۔ ( صراط الجنان، جلد۴، ص۱۷۷ماخوذاً)

(2) (ترجمہ Translation :)’’تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے ،سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا، اللہ کا فضل و رضا چاہتے‘‘۔ (پ۲۶، الفتح،آیت۲۹)علماء فرماتے ہیں: یعنی صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کثرت سے(یعنی بہت زیادہ) اور پابندی کے ساتھ (regularly) نمازیں پڑھتے ہیں اسی لئے کبھی تم انہیں رکوع کرتے اور کبھی سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے اوراتنی زیادہ عبادت سے ان کامقصد(aim) صرف اللہ پاک کی رضا (اور خوشی)حاصل کرنا ہے۔ ( خازن ، الفتح ، تحت الآیۃ: ۲۹ ، ۴ / ۱۶۲ ، روح البیان ، الفتح ، تحت الآیۃ: ۲۹ ، ۹ / ۵۷ ، ملتقطاً)

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
اللہ پاک جنّتیوں پر تجلی فرمائے گا ( یعنی دیدار کرائے گاجیسا کہ اُس کی شان کے لائق ہے)اور ان سے کہےگا: مجھ سے مانگو۔جنّتی کہیں گے: یا اللہ ! ہم تجھے سے تیری رضا کاسوال کرتے ہیں ۔

(حلیۃ الاولیاء، الفضل الرقاشی، ۶ / ۲۲۶، حدیث: ۸۳۸۴ )

اَحادیثِ مُبارکہ :
(1)حضرت ابوقحافہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنے بیٹے حضرت ابوبکر صدّیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرمایا : میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ کمزور غلاموں کو آزاد کرتے ہو۔کاش ! تم تندرست اور طاقت ور غلام آزاد کرتے (پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔ تو ابوبکررَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا ؛ ابو جی !میں تو صر ف اللہ پاک کی رضا (اور خوشی) چاہتا ہوں تو قرآنِ پاک کی یہ آیت نازل ہوئی (ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء ۱/ ۳۰۱ ) ترجمہ (Translation) : تو بہر حال وہ جس نے دیا اور پرہیزگار بنا ۔(پ۳۰، اللیل:آیت ۵) (ترجمہ کنزالعرفان)

(2)ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے دیکھا کہ اُمیّہ نے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو گرم زمین پر ڈال کرگرم پتھر ان کے سینے(chest) پر رکھے ہیں اور اس حال میں بھی وہ ایمان کا کلمہ پڑھ رہے ہیں تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے اُمیّہ سے فرمایا:اے بدنصیب! توایک ایمان والے پر ایسی سختیاں کر رہا ہے۔ اُس نے کہا: آپ کو اس کی تکلیف(trouble) نا پسند ہے تو اسے خرید (buy کر)لیجئے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے مہنگی قیمت پر اُن کو خرید کر آزاد کردیا(یعنی اب آپ کسی کے غلام نہ رہے)۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (جس کا ترجمہ اوپر لکھا ہے )۔

(تفسیر بغوی ، اللّیل ، تحت الآیۃ: ۴ ، ۴ / ۴۶۲، روح البیان ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۱۰ / ۴۵۱، خزائن العرفان، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۱۰۷)

اللہ پاک کی رضا کسے کہتے ہیں؟:‏
” اللہ پاک کی رضا ‘‘ کا لفظ کبھی” اخلاص ‘‘ کے لیے بولا جاتا ہےیعنی عبادت صرف اللہ کے لیے ہو، لوگوں کو دکھانے کے لیے نہ ہو۔مگر یہاں ” ا اللہ پاک کی رضا ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد (aim) اللہ پاک کو اس طرح راضی کرنا ہو کہ دین کے حکموں پر عمل کرے اور جس بات سے رُکنے کا حکم دین نے دیا،اُس سے رُک جانا۔ (مفردات،ص ۱۹۷ماخوذاً) رضا حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی سنّت ہے۔ کیونکہ آپ نے اللہ پاک کی رضا کے لیے اپنی جان بھی پیش کر دی۔(قوت القلوب ص۱۸ مُلخصاً)

اللہ پاک کی رضا پانے کی کچھ نشانیاں (signs)اور اللہ پاک سےمحبّت کی کچھ مثالیں:‏‏
” نرم بستر چھوڑ کر اللہ پاک کو سجدہ کرنا، اللہ پاک کی یاد میں رونا، سردیوں کی لمبی راتوں میں عبادت اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے ، اللہ پاک کے لئے کسی سے محبت کرنا، اللہ پاک کے لئے کسی سے دشمنی رکھنا، اللہ پاک کے لئے کسی کو کچھ دینا اور اللہ پاک کے لئے کسی سے روک لینا، نعمت پر شکر کرنا، مصیبت میں صبرکرنا، ہر حال میں اللہ پاک پر بھروسہ(trust) کرنا، اپنے ہر معاملے کو اللہ پاک کے سپرد کردینا(یعنی اللہ پاک کی طرف سے جو کچھ ہو،اُس اپنے لیے بہتر سمجھنا)، اللہ پاک کے حکم پر عمل کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہنا، دل کو غیر کی محبّت سے پاک رکھنا، اللہ پاک کے محبوبوں سے محبّت اور اللہ پاک کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ پاک کے پیاروں کی عزّت کرنا، اللہ پاک کے سب سے پیارے رسول اور محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دل و جان سے زیادہ محبوب (یعنی پسند) رکھنا، اللہ پاک کے کلام (یعنی قرآن شریف)کی تلاوت کرنا ، یہ تمام کام اور ان کے علاوہ بہت سارے کام ایسے ہیں جو اللہ پاک کی رضا پانے کی نشانی(sign) اور اللہ پاک سےمحبّت کی مثالیں ہیں ۔)صراط الجنان، پ۲، البقرہ، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۱ / ۲۶۴ ماخوذاً)

اللہ پاک کی رضا پانےکی کوشش کرنا ضروری ہے:‏

(1) مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ پاک کی رضا والے کام کرے اور اس کی ناراضی والے کاموں سے بچے۔

(2)کسی شخص کو اس نیّت سے تحفہ دینا کہ وہ مجھے اس سے زیادہ دے گا، یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ عمل اللہ پاک کی رضا کے لیے نہیں ہوا۔(پ ۲۱، سورۃ الروم،آیت ۳۹، تفسیر خزائن العرفان، صفحہ ۷۵۴، ماخوذاً)

(2)کسی شخص کو اس نیّت سے تحفہ دینا کہ وہ مجھے اس سے زیادہ دے گا، یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ عمل اللہ پاک کی رضا کے لیے نہیں ہوا۔(پ ۲۱، سورۃ الروم،آیت ۳۹، تفسیر خزائن العرفان، صفحہ ۷۵۴، ماخوذاً)

(3)عبادت صرف اللہ پاک کی رضا کے لئے ہونی چاہیے، کبھی اپنے اَعمال پر فخر(pride) اور نازنہ ہو کہ کسی کے زندگی بھر کے نیک اعمال، اللہ پاک کی کسی ایک(1) نعمت کا بدلہ بھی نہیں ہوسکتے۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ،ص ۲۸۱ماخوذاً) یاد رہے! اللہ پاک کی ہر نعمت ،اُس نے اپنی رحمت سے عطا فرمائی ہے(اس میں ہمارا کوئی بھی کمال نہیں) وہ نعمت جسمانی ہو یا روحانی، چاہے وہ نعمتیں ہماری کمائی سے ملیں ، جیسے دولت ، سلطنت وغیرہ یا جن کو حاصل کرنے میں ہماری کوئی کوشش نہ ہو جیسے چاند ، سورج وغیرہ (یہ سب اللہ پاک کی رحمت سے ہی ہمیں ملی ہیں)۔(تفسیرِ نورُ العِرفان ، پارہ ۳۰ سُوْرَۃُ التَّکاَثُر ،آیَت ۸ماخوذاً)

اللہ پاک کی رضا سے دور کرنے والی کچھ چیزیں :‏‏

(1)زندگی کا مقصد (aim)پیش نظر نہ ہونا(یعنی اللہ پاک نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا، اس اہم بات کی طرف توجّہ (attention)نہ دینا)

(2) بُرےدوستوں کے ساتھ رہنا ۔ایک شخص نے حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے کہا کہ عبادت میں میرا دل نہیں لگ رہا۔ آپ نے جواب دیا: شاید تونے کسی ایسے شخص کو دیکھ لیا ہے جو اللہ پاک سے نہیں ڈرتا۔عبادت کے آداب میں سےیہ بھی ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے ہر اُس چیز کو چھوڑ دے کہ جو عبادت کرنے سے روکے۔(مکاشفۃ القلوب(مترجم) ص۴۶ ملخصاً)

اللہ پاک کی رضا پانے کے کچھ طریقے:‏‏

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : رات کی نماز (یعنی تہجّد) ضرور ادا کیا کرو! کیونکہ یہ تمہارے ربّ کی رضا کا سبب (reason) ہے ۔ (جامع الترمذی، کتاب الدعوات، الحديث: ۳۵۴۹، ص۲۰۱۷) مسواک کرنا پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پیاری سنّت ہے ، اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ پاک کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ (ماخوذ ازسنتیں اور آداب ، بہار شریعت ) اللہ پاک کی رضاپا نے کے لئے بزرگانِ دِین کے واقعات کو پڑھیں ۔ حضرت امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اللہ پاکنے تین(3) چیزیں تین (3)چیزوں میں چھپا کررکھی ہیں اپنی رضا کو اپنی اطاعت(فرمانبرداری۔obedience) میں تو کسی نیکی کوچھوٹا نہ سمجھو، ممکن ہے کہ اللہ پاک کی رضا (اور خوشی) اسی میں ہو اور اللہ پاک نے اپنے غضب کو اپنی نافرمانی میں چھپا کر رکھا ہے تو کسی گناہ کو ہلکا نہ جانو ممکن ہے کہ اللہ پاک کا غضب اسی میں ہو اوراللہ پاک نے اپنی ولایت کو اپنے بندوں میں چھپا رکھا ہے تو کسی مسلمان کو حقیر اور گھٹیا (کم تر) نہ جانو ممکن ہے وہ اللہ پاککا ولی ہو(یاد رہے! ”ولی “شریعت (یعنی دین)پر عمل کرنے والا ہوتا ہے)۔ (احیاء العلوم جلد۴،ص۱۴۹(مترجم)ماخوذاً)
نوٹ: ‏‏
اللہ پاک کی رضا کی تفصیل جاننے کے لئے”احیاء العلوم جلد۵“ کو پڑھ لیجئے۔

02 ’’ا للہ پاک کا خوف‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’ اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو‘‘۔ (پ۴، آل عمران: ۱۷۵) (ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں:کیونکہ ایمان کا تقاضہ(requirement of faith) یہ ہی ہے کہ بندے کو اللہ پاک کا خوف ہو۔(خزائن العرفان مُلخصاً)

اَحادیثِ مُبارکہ :

(1 فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم:جو اپنی عمرمیں اضافہ اور رزق میں کشادگی (یعنی زیادہ ہونا)اور بری موت سے حفاظت(safety) چاہتا ہے تو وہ اللہ پاک سے ڈرے اور صلہ رحمی(یعنی رشتہ داروں سے اچھا سلوک) کرے۔ مسند احمد ، مسند علی بن ابی طالب، ج۱، ص ۳۰۲، حدیث: ۱۲۱۲

(2 فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد بھی اللہ پاک سے بہت ڈرتے رہنا۔( احیاء العلوم، ۴ / ۴۷۲،مترجم)

اللہ پاک کا خوف کسے کہتے ہیں؟:‏

(خوف سے مراد دل کی وہ کیفیت (condition)ہے جو کسی ناپسندیدہ بات کی وجہ سےپیدا ہو، مثلاً پھل کا

(1) جواب دیجئے:

س۱) اللہ پاک کی رضا کسے کہتے ہیں؟

س۲) اللہ پاک کی رضا اپنانے کا طریقہ کیا ہے؟

کاٹتے ہوئے چھری (knife)سے ہاتھ کے زخمی(injured) ہوجانے کا ڈر۔جبکہ اللہ پاک کے خوفکا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی (کہ اُسے کسی کی ضرورت نہیں)، اس کی ناراضی، اس کی گرفت(یعنی پکڑ) اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں (punishments)کا سوچ کر انسان کا دل گھبرا (یعنی پریشان ہو)جائے۔ )احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، ۴ / ۱۹۰ ماخوذا) اللہ پاک کے خوف میں کمی کو قلتِ خشیت کہتے ہیں

اللہ پاک کے خوف کے درجے(levels):‏‏

خوف کے تین (3)درجات (conditions)ہیں:

(۱) کمزور : مثلاً جہنّم کی سزاؤں(punishments) کو سن کرکچھ پریشان ہونا اور پھرگناہوں میں مصروف (busy) جانا۔

(۲) درمیانی : مثلاً دوزخ کاعذاب سن کر گناہوں سے بچنے کے لیے عملی کوشش کرنا اور اللہ پاک کی رحمت پر اُمید(hope)بھی رکھنا۔

(۳) بہت زیادہ: مثلاً اللہ پاک کے عذاب وغیرہ کا سن کر اپنی مغفرت اور معافی سے نااُمید(hopeless) ہوجانا۔

اِن سب میں بہتر درجہ ’’ درمیانی درجہ ‘‘ ہے کیونکہ خوف اُس کوڑے(whip) کی طرح ہے جو کسی جانور کو تیز چلانے کے لیے مارا جاتا ہے۔’’ کمزور درجہ ‘‘ ایسا کمزورکوڑا(whip) ہےکہ جس سے جانور کی رفتار(speed) میں کچھ بھی اضافہ (increase)نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔’’ بہت زیادہ کا درجہ ‘‘ایسا کوڑا(whip) ہےکہ جو جانور پر اتنی زور سے لگے کہ جانور ہی زخمی ہو جائے تو اِ س سے جانور کی رفتار(speed) میں اضافہ بلکل نہیں ہوگا بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ چلنا ہی چھوڑ دے۔)احیاء العلوم، ۴ / ۴۵۷ماخوذاً)

اللہ پاک کے خوف کی ایک مثال:‏‏‏
کبھی کچھ لوگ رو رہے ہوتے ہیں تو بندہ ان کو دیکھ کر روتا ہے تویہ اللہ پاک ہی کے خوف سے رونا ہے، یہ ریاکاری نہیں ہے اگر چہ وہ جب اکیلے(alone) قرآنِ پاک کی تلاوت سنتے تو اسے رونا نہیں آتا،لوگوں کے سامنے رونا نیک لوگوں کی برکت ہے کہ اس کا دل نرم(soft) ہو گیا ہے۔ اس میں سچائی کی علامت(symbol of truth) یہ ہے کہ اس بات پر غور کرے کہ اگر میں صرف ان کے رونے کی آواز سن رہا ہوتا اور وہ مجھے دیکھ نہ رہے ہوتے تو کیا اس وقت بھی میں روتا ؟ اگر اپنے اندر یہ کیفیت(condition) نہیں پاتا تو اسے چاہئے کہ نہ روئے کیونکہ اب اس کارونا صرف اس خوف سے ہے کہ لوگ کہیں گے یہ بہت سخت دل ہے ۔(احیاء العلوم جلد۳،ص۹۷۴ ماخوذاً)

اللہ پاک کا خوف کم ہونے کی ایک نشانی(sign) :‏‏‏‏
اللہ پاک سے ڈرنے کا کہا جائے تب بھی نہ ڈرنا۔حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں :بندے کے گناہ گار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب اس سے کہا جائے کہ اللہ پاک سے ڈرو تو وہ کہے” تم صرف اپنی فکر کرو“۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر ،۱؍۱۵۱)

اللہ پاک کے خوف سے دور رہنےکے کچھ اسباب(reasons):‏‏‏‏‏‏

(1) اللہ پاک کے حقوق اور آخرت کے عذاب کو بھول جانا

(2) اپنےنفس (یعنی دل ) کی ہر بات پوری کرنے کی کوشش

(3) دنیا اور مخلوق(مثلاً بیوی، بچوں، رشتہ داروں، دوستوں وغیرہ) کی بے جا (یعنی نا مناسب)محبّت

(4)بُرے دوست۔وغیرہ

اللہ پاک کا خوف اپنانے کے کچھ طریقے:‏‏‏‏‏‏‏

(1) خوفِ خدا کے بارے میں بزرگانِ دِین کےواقعات کو پڑھیں: حضرت ابراہیم عَلَیہِ السَّلَام جب نَماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ پاک کے خوف سے اتنا روتےکہ ایک مِیل (one mile)کے فاصِلے (distances)سے ان کے سِینے (chest)سے آنے والی آواز سنائی دیتی۔ (اِحیاءُ الْعُلوم، ۴/۲۲۶ مُلخصاً)

(2) اللہ پاک کا خوف ہر بھلائی (یعنی اچھائی۔goodness) کی طرف لے جانے والا ہے: حضرتِ فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جو شخص اللہ پاک سے ڈرتا ہے تو یہ خوف ہر بھلائی کی طرف اس کی راہنمائی(guidance) کرتا ہے ۔(احیاء العلوم ، کتاب الخوف والرجاء ج ۴، ص۱۹۸ )

(3) جہنّم کے عذابات پر غور کیجئے: دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہوگا اسے آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے اس کا دماغ کھولنے (یعنی پکنے)لگے گا۔ (صحیح مسلم ،کتاب الایمان ، باب اھون اھل النار عذابا ،رقم ۴۶۷ ، ص ۱۳۴) اور وہ سمجھے گا کہ جہنّم میں سب سے زیادہ عذاب مجھے ہی ہورہاہے۔(مراۃ جلد۷،ص ۴۹۹ مُلخصاً)

(4) اپنے اعمال کا جائزہ لیجئے

(5)سچّی توبہ کرلیجئے

(6) اللہ پاک سے دعا بھی کیجئے۔وغیرہ

اللہ پاک کے خوف کی تفصیل جاننے کے لئے کتاب”خوف خدا“ کو پڑھ لیجئے۔‏‏‏‏‏‏‏

03 ’’بے پردگی ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے:

(1) (ترجمہ Translation :)’’اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی ‘‘۔ (پ٢٢،الاحزاب:٣٣) (ترجمہ کنز العرفان) یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ازاواج! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو (اور شرعی ضرورت کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلو) ۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۷ / ۱۷۰) علماء فرماتے ہیں: یاد رہے کہ اس آیت میں خطاب(بات) اگرچہ ازواجِ مُطَہَّرات( یعنی اُمُّھات المؤمنین) رَضِیَ اللہ عَنْہُنَّ سےہے لیکن یہ حکم سب مسلمان عورتوں کے لیے بھی ہے ۔ (صراط الجنان۸/۱۵ مُلخصاً)

(2) (ترجمہ Translation :)’’اور زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتا چل جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے‘‘۔ (پ۱۸النور ۳۱) (ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں: عورَتيں گھر کے اندر چلنے پھرنے ميں بھی پاؤں اِتنےآہِستہ رکھيں کہ ان کے زَيور(jewelry) کی جَھنکار(آواز) نہ سُنی جائے۔ اِسی لئے چاہئے کہ عورَتيں باجے دار جھانجھن(ایک قسم کا پاؤں کا زیور(A kind of foot

(2) جواب دیجئے:

س۱) خوفِ خدا کسے کہتے ہیں؟

س۲) خوفِ خدا اپنانے کا طریقہ کیا ہے؟

(jewelry) کہ چلنے میں جس کی آواز آتی ہے نہ پہنيں۔حديث شريف ميں ہے: اللہ پاک اُس قوم کی دُعا نہيں قَبول فرماتا جن کی عورَتيں جھانجھن پہنتی ہوں ۔ (تَفسیرات اَحمدِیہ ص۵۶۵) اس سے سمجھناچاہئے کہ جب زيور کی آواز دعاقَبول نہ ہونے کا سبب (reason) ہے تو خودعورَت کی اپنی آوازکا بِلااجازتِ شَرعی غیر مردوں تک پہنچنا اور اسکی بے پردَگی اللہ پاک کے غضب کا کتنا بڑا سبب(reason) ہوگی۔ ( خزائنُ الْعِرفان ص ۵۶۶ مُلخصاً) (پارہ۱۸ سورۂ نُور، آیت۳۱)

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏

( شَرْعِی پردہ نہ کرنا بے پَرْدَگی ہے۔ خالہ زاد ، ماموں زاد، پھُوپھی زاد، چَچا زاد،تایازاد(cousins)، دیور و جیٹھ( شوہر کا بڑا چھوٹا بھائی)، خالو، پھوپھا(uncles)، بہنوئی(brother in law) بلکہ اپنے نامحرم پیرو مرشِد سے بھی پردہ کیجئے ۔ نیز مرد کا بھی اپنی مُمانی،چچی،تائی(aunts)،بھابھی(بھائی کی بیوی) اور اپنی زوجہ کی بہن(sister in law)وغیرہ رشتے داروں سے پردہ ہے۔ مُنہ بولے(یعنی کسی غیر کو بول کر بنا لینا) بھائی بہن،منہ بولے ماں بیٹے، اورمنہ بولے باپ بیٹی میں بھی پردہ ہے یہاں تک کہ کسی اور سے لیا ہوا بچہ (جب مرد و عورت کے مُعامَلات سمجھنے لگےتو) اس سے بھی پردہ ہے۔(کربلا کا خونی منظر ص۳۳،۳۴مُلخصاً)

بے پردگی کی کچھ مثالیں:‏‏

”اَعْضَاءِ سَتْر“ یعنی جسم کے جن حصّوں کا چُھپانا شرعاً ضروری ہے ان کو نہ چُھپانا جیسے بعض لوگ ایسی چھوٹی نیکر (half paint)پہنتے ہیں جس سے گھٹنے (knees)کُھلے ہوتے ہیں، یاد رکھئے! مرد کے لئے ناف (پیٹ کے سوراخ)سے لے کر گھٹنوں تک کا حصّہ عورت ہے یعنی اس کا چُھپانا فَرْض ہے، گھٹنے (knees)بھی اس میں داخِل ہیں لہٰذا مرد کو ایسا لِبَاس پہننا جس سے گھٹنے کُھلے ہوں یہ بےپردگی ہے اور عورت کے لئے سر سے لے کر پاؤں کے گِٹوں (foot joints)کے نیچے تک جسم کا کوئی حِصَّہ بھی مثلاً سر کے بال یا بازو (arm)یا کلائی(wrist) یا گلا (throat)یا پیٹ یا پنڈلی(shin) وغیرہ اجنبی مرد (یعنی جس سے شادی ہمیشہ کے لئے حرام نہ ہو) پر شرعی اِجازَت کے بغیرظاہِر کرنا یا ایسا باریک لِبَاس پہننا جس سے بدن کی رنگت(body color) نظر آئے یا ایسا چست لِبَاس (tight dress)پہننا جس سے جسم کے کسی حصّے کی ہیئت (یعنی شکل وصورت یا اُبھار وغیرہ) ظاہِر ہو یا اتنا باریک (thin)دوپٹہ پہننا کہ بالوں کی سیاہی (color)چمکے یہ سب بھی بےپردگی ہے۔ (گناہوں کے عذابات ص۶۵,۶۶)

بے پردگی کی تفصیل( یعنی وضاحت ۔ (explanation):‏‏

(1) بے پَرْدَگی حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔(.الحديقة الندية، ٥/١٤٤و المبسوط، كتاب الاشربة، ٢٤/٣٧)

(2) جو جسم کے پردے کا مُطْلَقاً(totally) انکار کرے اور کہے کہ ''صِرْف دل کا پردہ ہونا چاہیے'' اُس کا ایمان جاتا رہا(وہ کافر ہوگیا)۔ ( پردے کے بارے میں سوال جواب ص۱۹۴)

(3) َعوْرَت کا ہَر اجنبی بالغ مَرد سے پَرْدہ ہے۔( پردے کے بارے میں سوال جواب، ص۴۴)

(4) اس میں استادا ور غیر استاد، عالم اور غیر عالم، پیر اور فقیر سب برابر ہیں۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۳/۶۳۹مُلخصاً)

(5) لوگوں کے سامنے یا نَماز میں تو سَتْرچھپانافرض ہے۔ (بہارِ شريعت ج ۱ حصّہ ۳ ص۴۷۹ مُلخصاً)

بے پردگی اور پردہ:‏‏‏

(1) مسلمان(عورت) کی بے پردگی کافرہ (Non Muslim Women)کی بے پردگی سے ہزاردرجے سخت ترہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۴،ص۱۴۳)

(2) پیر سے علم حاصل کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: اگر بدن موٹے اور ڈِھیلے کپڑوں سےچھپا ہوا ہو، نہ ایسے باریک کپڑے ہوں کہ بدن یا بالوں کی رَنگت (color) نظر آئے نہ ایسے تنگ کپڑے(tight clothes)کہ بدن کی حالت (یعنی جسم کے کسی حصّےکی شکل و صورت وغیرہ) نظر آئے اور جانا اکیلے (alone) میں نہ ہو اور پیر صاحب جَوان(young) بھی نہ ہوں ، یعنی کوئی فتنہ(مثلاً پردے کے لیے کسی قسم کی بھی آزمائش) نہ ابھی ہو نہ آئندہ (next time)کے لیے کسی قسم کے فتنےکا خوف ہو تو علمِ دِین سیکھنے کے لئے جانے اور بُلانے میں کوئی حَرَج نہیں۔( فتاویٰ رضويہ ، ۲۲/ ۲۴۰ مُلخصاً)

(3) پَردے(مثلاً عورتوں کا پورشن الگ ہونے) کی حالت میں سُنی عالمِ دِین کا بیان سننا جائز ہے ۔( فتاویٰ رضويہ ، ۲۲/۲۳۹ ماخوذاً)

(4)جن عام محفلوں(programs) میں مرد وعورت ساتھ ساتھ ہوں(mixed gathering) ایسی جگہ نہ جایا جائے، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: مساجِد سے بہتر عام محفِل کہاں ہو گی ! اور شروع میں جب عورتوں کو مسجد آنے کی اجازت تھی تو مسجِد کی نَماز میں پردے کیلئے ترتیب (sequence)بھی کیسی زبردست ہوتی تھی کہ نَماز کے دَوران مَردوں کی عورتوں کی طرف پیٹھ ہوتی تھی کہ وہ عورَتوں کی طرف مُنہ نہیں کر سکتے تھے مزید مَردوں کو یہ بھی حکم تھاکہ سلام کے بعد جب تک عورَتیں مسجِد سے باہَر نہ نکل جائیں، مرد نہیں اُٹھیں گے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور بے پردَگی عام ہو گئ تو علماء کرام نے مسجِد میں نَماز کیلئے عورَتوں کی حاضِری کومکمَّل طور پر منع فرمادیا ۔ ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۲ ص ۲۲۹ ماخوذاً) تو جب مسجد میں اجازت نہ رہی تو دیگر جگہوں کی اجازت کیسے ہو؟

(5) عورت کو مُلازَمت(job) کی پانچ(5) شرطوں(conditions)کے ساتھ اجازت ہے ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: يہاں پانچ(5) شرطيں ہيں(1) کپڑے باريک نہ ہوں جن سے سر کے بال يا کلائی (wrist)وغيرہ کا کوئی حصّہ نظر نہ آئے(2) کپڑے تنگ (tight clothes)نہ ہوں کہ جو بدن کی حالت (یعنی جسم کے کسی حصّےکی شکل و صورت وغیرہ) ظاہِرکريں (3)بالوں يا گلے (throat)يا پيٹ ياکلائی يا پنڈلی (shin) کا کوئی حصّہ نظر نہ آئے (4) کبھی نامَحْرَم کے ساتھ تھوڑی سی دير کے لئے بھی تنہائی(اکیلےمیں ) نہ ہوتی ہو(5)اُس کے وہاں رہنے يا باہَر آنے جانے ميں کوئی فتنے (یعنی پردے کے لیے کسی قسم کی بھی آزمائش)کا گمان(یعنی خیال) بھی نہ ہو۔يہ پانچوں شرطيں (five conditions)اگر جَمْع ہيں تو نوکری کر سکتی ہے اور ان ميں ايک بھی کم ہے تومُلازَمت وغيرہ حرام ہے۔ (فتاوی رضويہ ج۲۲ ص ۲۴۸ ماخوذاً)

(6) اگر ضَرورتاً غیر مَرد سے بات کرنی بھی پڑے تب بھی بولنے میں نزاکت (یعنی باریک اور خوبصورت آواز)اور بات میں نَرمی پیدا کرنا منع ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں، ترجمہ (Translation) : اگرتم اللہ سے ڈرتی ہو تو بات کرنے میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا مریض آدمی کچھ لالچ کرے (پ۲۲ ، الاحزاب: ۳۲-۳۳) (ترجمہ کنز العرفان) (خزائن العرفان مُلخصاً)

(7)مسلمان عورت کا کافِرہ عورَت سے بھی اُسی طرح پردہ ہے جس طرح غیر مرد سے۔( پردے کے بارے میں سوال جواب ص۷۳)

(8) چھت پر چڑھنے میں دوسروں کے گھروں میں نظر پہنچتی ہے تو وہ لوگ چھت پر چڑھنے سے منع کرسکتے ہیں۔ (بہارِ شریعت ح۱۶،ص۵۶۸، مسئلہ۱ مُلخصاً)

(9) کبوتر (pigeon)پالنا اگر اڑانے کے لیے نہ ہو تو جائز ہے اور اگر کبوتروں کو اڑاتا ہے تو ناجائز کہ یہ بھی ایک قسم کا لہو (کھیل)ہے اور اگر کبوتر اڑانے کے لیے چھت پر چڑھتا ہے جس سے لوگوں کی بے پردگی ہوتی ہے یا اڑانے میں کنکریاں پھینکتا ہے جن سے لوگوں کے برتن ٹوٹنے کا خوف ہے، تو اس کو سختی سے منع کیا جائے گا ۔ (بہارِ شریعت ح۱۶،ص۵۱۲، مسئلہ۷ مُلتقتاً)

بے پردگی کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏‏‏‏
(1) غیر شرعی انداز پر شادی کا ہونا

(2)فیشن ایبل(fashionable) اور دین سے دور لوگوں کے ساتھ میل جول

3)خاندان، برادری اور قومی رسم و رواج (custom)

(4) نوجوانوں کی کم عمر لڑکوں سے دوستی

(5)کاروبار ، دوستی ،شاگردی یا منہ بولے رشتے کے نام پر ملاقاتیں۔

بے پردگی سے بچنے کے کچھ طریقے:‏‏‏‏‏

بےپردگی سے معاشرے (society) میں ہونے والے نقصانات کی معلومات حاصل کریں۔ بے پَرْدَگی کی وجہ سے قَبْر و آخرت میں ہونے والے عَذابات جانیں۔ ایسے بیانات سننا جن میں بے پَرْدَگی کے دینی و دنیاوی نقصانات بیان کیے جائیں۔

نوٹ: ‏‏‏‏‏

بے پردگی کے تفصیلی مسائل جاننے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ”پردے کے بارے میں سوال جواب“ کو پڑھ لیجئے۔

04 ’’ عاجزی ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے اور صبر کرنے والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے رکھنے والے اور روزے رکھنے والیاں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے‘‘۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۲۲، الاحزاب:۳۵)علماء فرماتے ہیں:اس آیت میں عاجزی کا مطلب، دل سے اللہ پاک کا حکم ماننا اور اپنے جسم سے اُس کی عبادت کرنا ہے۔ (خزائن العرفان ماخوذاً)

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
جو شخص اللہ پاک کے لئے عاجزی کرتا ہے اللہ پاک اُسے بلندی عطا فرماتا ہے۔ (مسلم، ص ۱۰۷۱، حدیث:۶۵۹۲) حضرت قتادہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جس شخص کو مال، خوبصورتی، لباس یا علم دیا گیا پھر اس نے اس میں عاجزی نہ کی تو یہ نعمتیں قیامت کے دن اس کے لیے وبال (یعنی مُصیبت)ہوں گی۔(احیاء العلوم، جلد۳، ص ۱۰۰۴)

عاجزی کسے کہتے ہیں؟:
لوگوں کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے (according to rank) اُن کےلئے نرمی کرنا اور اپنے آپ کو چھوٹا سمجھنا عاجزی کہلاتا ہے۔ (فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۱/۵۹۹، تحت الحدیث:۹۲۵ ماخوذاً) حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: عاجزی یہ ہے کہ تم حق(اور سچ) کے سامنے جھک جاؤ (یعنی مان لو)اور اس کی پیروی (follow) کرو اور اگر بچے یا کسی بڑے جاہل سے بھی حق (اور سچ) بات سنو تو اسے قبول(accept) کرو۔(احیاء العلوم، جلد۳، ص ۱۰۰۲)

عاجزی کب حرام ہے؟:
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے والد صاحب کچھ اس طرح فرماتے ہیں:کسی کے مال و دولت کی وجہ سےاس کے سامنے عاجزی کرنا، یہ عاجزی اللہ پاک کی رضا کے لیے نہیں بلکہ غَیْرُ اللہ (یعنی اللہ پاک کے علاوہ کسی کو خوش کرنے ) کے لیے ( ہے)اور(کسی کے مال و دولت کی وجہ سے عاجزی کرنا) حرام ہے۔البتہ علمِ دین کی وجہ سے(کسی عالم وغیرہ کے سامنے) عاجزی، یہ اللہ پاک کی رضا (اور خوشی) حاصل کرنے کے لیے عاجزی کرنا ہے اور اصل میں یہ اللہ پاک کے لیے عاجزی کرنا ہے۔(فضائل دعا،ص ۶۶مفھوماً)

عاجزی کی تفصیل( یعنی وضاحت explanation:
امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں: عاجزی(یعنی دوسرے کے لیے نرمی) کے تین(3) درجے ہیں(۱) بالکل نہ کرنا(۲) بہت زیادہ عاجزی کرنا (۳) درمیانی کیفیت(medium condition)۔ پہلا درجہ : عاجزی بالکل نہ کرنا، یہ بات تکبُّر(arrogance) کی طرف لے جانے والی ہے۔ دوسرا درجہ : اتنی زیادہ عاجزی کرنا کہ اپنا وقار(یعنی عزّت) باقی نہ رہے اور بندہ ذلیل کام (humiliation)کرےیا خوشامد(یعنی جھوٹی تعریف) تک پہنچ جائے۔ یہ دونوں صورتیں منع ہیں۔ تیسرا درجہ : درمیانی کیفیت(medium condition) کا ہونا یہ ہے کہ نہ تکبُّر کی طرف جائے نہ ذلّت(humiliation) کی طرف جائے۔ اپنے ہم مرتبہ (same level)اور کم مرتبہ(low level) سے بھی عاجزی کرے تاکہ عاجزی کی اچھی طرح عادت بن جائے۔(احیاء العلوم، جلد۳، ص ۱۰۹۰ مفہوماً)

عاجزی کرنے والا کون ہے؟ :
اگر عاجزی کرنا مشکل ہےمگر پھر بھی عاجزی کرتاہے تووہ عاجزی کرنے والا نہیں بلکہ عاجزی کی کوشش کرنے والا ہے کیونکہ عادت اسے کہاجاتاہے جو کام انسان بآسانی کرسکے۔ جب عاجزی کرنا اس کے لئے آسان ہوجائے گاتو وہ عاجزی کرنے والا کہلائے گا (احیاء العلوم، جلد۳، ص ۱۰۹۰ مفہوماً)

عاجزی کرنے والا کون ہے؟ :
اپنے ہاتھ سے اپنا کام کرنا، اگر کوئی(رُتبے میں کم) آدمی قریب بیٹھے تو اُس سےنفرت نہ کرنا، گھر کا سامان خود لانا،سستے کپڑوں پر راضی رہنا وغیرہ۔(احیاء العلوم، جلد۳، ص ۱۰۴۸،۴۹،۵۰،۵۲ماخوذ۱ً)

عاجزی کی ایک نشانی(sign):
میزبان اگر مہمان کی خدمت صحیح طرح نہ کرے(مثلاً اسے کچھ بھی نہ کھلائے) پھر بھی مہمان کا خوشی خوشی واپس جانا یہ حسن اخلاق اور عاجزی کی علامت(پہچان۔symbol) ہے۔ (احیاء العلوم، جلد۲، ص ۶۳مُلخصاً)

عاجزی سے دور رکھنے والی کچھ چیزیں:
ہر وہ بات جس سے تکبُّر (arrogance)آ جاتا ہے، وہ عاجزی سے دور کرنے والی ہے مثلاً(1) مال و دولت کا زیادہ ہونا(2) خوبصورت ہونا(3)طاقت ور(powerful) ہونا (4)ذہین(intelligent) ہونا۔وغیرہ نوٹ: مال، دولت، خوبصورتی اور طاقت سے عاجزی چلی ہی جائے گی، ایسا لازم نہیں ہے مگر ان چیزوں پہ تکبُّر (arrogance) کرنے سے عاجزی چلی جائے گی۔

عاجزی کے کچھ فائدے:
عاجزی سے تکبُّر (arrogance)دور ہوتا ہے عاجزی سے احترامِ مسلم(Muslims respect ) پیدا ہوتی ہے عاجزی سےانسان کے لیے نعمتوں کی کمی (lack of blessings)پر صبر (patience)آسان ہوجاتا ہے عاجزی سے مُصیبت(trouble) پر صبر آسان ہوجاتا ہے۔ وغیرہ

عاجزی کی عادت بنانے کے کچھ طریقے:
امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : بھوکا رہنے کا یہ فائدہ بھی ہے کہ اس سے عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ (احیاء العلوم، جلد۳، ص ۲۵۸) اپنی کمزوری اور اللہ پاک کی قدرت کے بارے میں غور کرے تو دل میں عاجزی پیدا ہوگی۔ اپنی ان عادتوں(habits) کے بارے میں غورکرےجن کی وجہ سے سامنے والے کمتر (یعنی حقیر اور چھوٹے)لگتے ہیں اب اگر وہ کام شرعاً ضروری نہیں(مثلاً اچھے کپڑے پہننا) تو اللہ کی رضا کے لیے یہ چھوڑ دے اور اگر وہ کام شرعاً پسندیدہ ہو(مثلاً مرد کا عمامہ یا عورت کا بُرقعہ پہننا) تو یہ کام کرے اور وسوسوں پرتوجّہ (attention) نہ دے۔ جونیک لوگ عاجزی کرتے ہیں،ان کی عادتیں نوٹ کرے کہ وہ عاجزی کرنے کے کیا کیا طریقے اپناتے(adopts کرتے) ہیں، اور ان طریقوں کو اختیار(adopt) کرے،امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :آہستہ آہستہ یہ اخلاق اس کی طبیعت(nature) کا حصّہ بن جائیں گے اور یہی عاجزی حاصل کرنے کا صحیح طریقہ ہے۔(احیاء العلوم، جلد۳، ص۲ ۱۸ماخوذاً)جتنے بھی اَخلاق شریعت کو پسندہیں وہ اسی طریقے سے(یعنی بزرگوں کی عادتوں کو اپنانے(adopt کرنے) سے) حاصل ہوتے ہیں۔(احیاء العلوم، جلد۳، ص۱۷۸مُلخصاً) نوٹ: عاجزی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’نجات دلانے والے اعمال کی معلومات‘‘ صفحہ 81 تا 89 کو پڑھ لیجیئے۔

05 ’’ اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہونا‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اللہ پاک اسے اس کی خواہش (desire)کے مطابق عطا فرماتاہے حالانکہ وہ اپنے گناہ پر قائم ہے تو یہ اللہ پاک کی طرف سے ڈھیل( یعنی دنیا میں چھوٹ) ہے۔پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: (ترجمہTranslation:)’’ پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا پس اب وہ مایوس ہیں‘‘ ۔(کنزالعرفان، الانعام ۷/۴۴) (معجم اوسط، ۶/ ۴۲۲، حدیث:۹۲۷۲) ایک طویل حدیثِ پاک میں یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: اولاد آدم مختلف طبقات(classes) پر پیدا کی گئی ان میں سے کچھ مومن پیدا ہوئے ،ایمان پر زندہ رہے اور مومن ہی مریں گے، کچھ کافر پیدا ہوئے کفر پر زندہ رہے اور کافِر ہی مریں گے جبکہ کچھ مومِن پیدا ہوئے مومِنوں جیسی زندگی گزاری اور کفر پر مرے ۔ کچھ کافِر پیدا ہوئے ،کافِر زندہ رہے اور مومِن ہو کر مرئیں گے۔ (ترمذی،کتاب الفتن، ۴/۸۱ ،حدیث: ۲۱۹۸ )

(4) جواب دیجئے:

س۱) عاجزی کسے کہتے ہیں؟

س۲) عاجزی کی عادت کیسے بنے؟

اللہ پاک کی خفیہ تدبیرکسے کہتے ہیں؟:
اللہ پاک کے پوشیدہ اَفعال(یعنی ایسے کام جو ہم پر ظاہر نہیں، ہم جانتے نہیں، ان میں) سے واقع ہونے والے کچھ اَفعال( یعنی ایسی کسی بات کے ظاہر ہو جانے) کو اس کی خفیہ تدبیر کہتے ہیں اور اس سے ڈرنا اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا کہلاتا ہے۔(احیاء العلوم، ۴/ ۵۰۴، ۵۰۵ماخوذا)

اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا ضروری ہے:
اللہ پاک کی رحمت پر بھروسہ(trust) کرتے ہوئے گناہ کرتے رہنا اور اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہونا کبیرہ گناہ ہے۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، ۱/ ۱۸۵) یعنی اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا واجب اور لازم ہے۔

تفصیل یعنی وضاحت explanation:
امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں ، جس کا خلاصہ ہے کہ:گناہ گار مومن ا س طرح دھوکے میں پڑ جاتےہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں”اللہ پاک کریم ہے اور مجھے اس سے بخشش(اور معافی) کی اُمید(hope)ہے،پھر اس بات پر بھروسہ(trust) کر کے(نیک) اعمال سے دورہوجاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اللہ پاک کی نعمتیں (blessings)بہت ہیں اور رحمت و کرم بہت زیادہ ہے، اس کی رحمت کے سمندر کے سامنے بندوں کے گناہ کچھ بھی نہیں ہیں ۔ ہم اللہ پاک کو ماننے والے مومن ہیں اور ایمان کے وسیلے سے اس کی رحمت کی اُمید (hope)رکھتے ہیں۔یہ بھی اللہ پاک کی ذات پر دھوکہ ہے کیونکہ اللہ پاک نیک لوگوں کو پسند فرماتا اور گناہگار کو نا پسند فرماتا ہے ۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الغرور، ۳ / ۴۷۱-۴۷۲، ملتقطاً) امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: سرمایہ داروں وغیرہ کے ساتھ ساتھ بیماروں اور مصیبت کے ماروں کو بھی اللہ پاک کی خفیہ تدبیرسے ڈرنا لازمی ہے کہ ہو سکتا ہے ان آفتوں (یعنی مشکلوں)کے ذریعے آزمائش (یعنی امتحان)میں ڈالاگیا ہو اور نا جائز گِلہ شکوہ (یعنی شکایت)، غیرشرعی بے صبری اور غربت و مصیبت کو ناجائز طریقوں سے ختم کرنے کی کوششیں آخرت کی تباہی کا سبب(reason) بن سکتی ہے۔( پیٹ کا قفل مدینہ،ص۶۸۳ مُلخصاً)

اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے بےخوف رہنے کی نشانی(sign) :
امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں ، جس کا خلاصہ ہے کہ:گناہ گار مومن خود کو کسی سے افضل( یعنی بہتر) سمجھنا جہالت اور اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے بے خوفی کی علامت (پہچان۔symbol) ہے۔(احیاء العلوم، ۳/ ۰۳۴ا)

اللہ پاک کی خفیہ تدبیر کےخوف سے دور کرنے والی کچھ چیزیں:‏
(1) تکبُّر(arrogance): لوگوں کو وہی حقیر(یعنی گھٹیا اور کمتر) سمجھتا ہے کہ جو اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہوتا ہے (احیاء العلوم جلد۳،ص۱۰۳۱مُلخصاً)شیطان نے ہزاروں سال عبادت کی، اپنے علم اور عبادت کی وجہ سے فرشتو ں کا اُستاد بن گیا تھا لیکن اس بدبخت (بُرے نصیب والے)کو تکبُّر لے ڈوبا اور وہ کافِر ہوگیا ۔(برے خاتمے کے اسباب ص ۱۸ مُلخصاً)

(2) خودپسندی (self-regard): خود پسند( یعنی اپنی خوبیوں کو اپنا کمال سمجھنے اور ان کے چلے جانے کا ڈر نہ رکھنے والا) شخص اللہ پاک کی خفیہ تدبیر اور اس کے عذاب سے بےخوف ہوتا ہے۔(احیاء العلوم جلد۳، ص۱۰۹۵ مُلخصاً)

(3) نعمتیں زیادہ ہونا: حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اللہ پاک جس پر وسعت فرمائے(یعنی نعمتیں زیادہ کرے) اوروہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ اللہ پاک کی خفیہ تدبیر ہے تو وہ بالکل بے عقل ہے۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، ۱/ ۱۸۵)بہت ساری نعمتیں دیکھ کر وہ سوچتا ہے کہ وہ اللہ پاک کےنزدیک بہت عزّت والا ہےحالانکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دنیاوی نعمتیں اس کی ذِلَّت(humiliation) و رُسوائی کی علامت(symbol) ہوں ۔(احیاء العلوم جلد۳،ص۱۱۴۳ مُلخصاً)

(4) گناہوں کے راستوں کا آسان ہونا: اللہ پاک گناہوں کے باوجود اگر کسی کی پکڑ نہیں فرماتا تو بندہ دنیا میں ملنے والی چھوٹ سے آخرت کو بھول جاتا ہے یہ بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ ڈھیل سزا ہو تاکہ وہ گناہ میں مزید بڑھتا چلاجائے۔گناہ کے راستے آسان ہونے کی وجہ سے گناہوں میں مصروف(busy) رہنا ، اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے بےخبر اور بےخوف ہونے کی وجہ سے ہے۔(احیاء العلوم جلد۴،ص۹۷ماخوذاً)

اللہ پاک کی خفیہ تدبیر کا خوف رکھنے کے کچھ طریقے:‏
بزرگانِ دین کے واقعات پڑھیں: عام طور پر ہم لوگ اللہ پاک کے خوف سے دور رہتے ہیں تو ہمارے لیے ایسے اسباب حاصل کرنا(مثلاً بزرگانِ دین کے خوفِ خدا کے واقعات پڑھنا، سننا) اللہ پاک کی خفیہ تدبیر کے خوف میں اضافے کا سبب (reason) ہے (احیاء العلوم جلد۴،ص۴۸۲ ماخوذاً)

(1)حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ایک مرتبہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس روتے ہوئے حاضر ہوئے تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے پوچھا:اے جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام! تمہیں کس چیز نے رلا دیا؟ انہوں نے عرض کی: جب سے اللہ پاک نے جہنّم کو پیدا فرمایا ہے ، میری آنکھیں اُس وقت سے کبھی اس خوف کی وجہ سے خشک نہیں ہوئیں کہ کہیں مجھ سے کوئی نافرمانی نہ ہوجائے اور میں جہنّم میں ڈال دیا جاؤں۔(شعب الایمان، ۱ / ۵۲۱، الحدیث: ۹۱۵)

(2)…جب ابلیس (یعنی شیطان) کے برباد ہونے کا واقعہ ہوا تو حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت میکائیل عَلَیْہِ السَّلَام رونے لگے تو اللہ پاک نے پوچھا(حالانکہ وہ سب جانتا ہے) تم کیوں روتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: اے ربّ ! ہم تیری خفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں ہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا: تم اسی حالت پر رہنا (یعنی کبھی مجھ سے بے خوف مت ہونا)۔( احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، ۴ / ۲۲۳)

(3)… حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ چالیس(40) سال تک نہیں ہنسے ، جب ان کو بیٹھے ہوئے دیکھا جاتا تو ایسا لگتا کہ جیسے ایک قیدی(prisoner) ہیں جسے گردن اڑانے (یعنی قتل کرنے )کے لئے لایا گیا ہو، اور جب بات کرتے تو انداز(style) ایسا ہوتا جیسے آخرت کو آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر بتا رہے ہیں ، اور جب خاموش رہتے تو ایسا لگتا کہ جیسے ان کی آنکھوں میں آگ ہے ، جب اُن سے اتنا ڈرنے کی وجہ پوچھی گئ تو فرمایا:مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر اللہ پاک نے میرے بعض ناپسندیدہ اعمال کو دیکھ کر مجھ پر غضب فرمایا اور یہ فرما دیا کہ جاؤ! میں تمہیں نہیں بخشتا تو میرا کیا بنے گا؟ (احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، ۴ / ۲۳۱ مُلخصاً)

علماء کے بیانات:مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ،امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا: ایک شخص اپنے گھر سے اس حال میں نکلتا ہے کہ اس پر تہامہ (ایک بہت بڑے)پہاڑ کے برابر گناہ ہوتے ہیں ، جب وہ کسی عالم (کے بیان)کو سنتا ہے تو اللّٰہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرتا اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور اس حال میں گھر واپس آتاہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا تم علما کی مجالس سے دور نہ رہو کرو کیونکہ اللّٰہ پاک نے زمین پر علما کی مجلس سے زیادہ عزّت والی کوئی جگہ نہیں بنائی۔ (احیاء العلوم جلد۱،ص۱۰۳۹) اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے غافل نہ ہونا: ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ موت کے قریب تھے، شیطان آیا اور ان سے کہنے لگا:تم مجھ سے بچ کر نکل گئے۔ فرمایا :ابھی نہیں(کیونکہ ابھی بھی میں زندہ ہوں اور تو وسوسہ ڈال سکتا ہے)۔اسی وجہ سے کہا گیا ہےکہ باعَمل مُخلص (کہ جن کا عمل اللہ پاک کے لیے ہی ہوتا ہے، ایسے) عُلَماء کے علاوہ سب لوگ ہلاکت (یعنی تباہی)میں ہیں اور ان کےلئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے۔(احیاء العلوم جلد۳،ص۱۲۳۳) نوٹ: اللہ پاک کی خفیہ تدبیرکے بارے میں مزید جاننے کے لئے ’’احیاء العلوم جلد۳‘‘ کو پڑھ لیجئے۔

06 ’’ اسراف ‘‘

(5) جواب دیجئے:

س۱) اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے کیا مراد ہے؟

س۲) اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے خوف کا ذہن کیسے بنے؟

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’اور فضول خرچی نہ کرو بیشک وہ( یعنی اللہ) فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ ۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ٨، الانعام: ١٤١ ) علماء کرام فضول خرچی کی مُختلف صورتیں(different cases) بیان فرماتے ہیں:

( 1 ) اگر سب مال خرچ کر ڈالا اور اپنے گھروالوں کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو یہ خرچ بے جا ہے۔

( 2 ) اگر صدقہ(زکوۃ وغیرہ) دینے ہی سے ہاتھ روک لیا (اور دوسری جگہ خرچ کرتا رہا)تو یہ بھی بے جا خرچ اور اسراف میں داخل ہے ۔

( 3 ) اللہ پاک کی اطاعت (obedience) کے علاوہ کسی اور کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ تھوڑابھی ہو تو اسراف ہے(یعنی گناہ کے کاموں میں تھوڑا سا خرچ کرنا بھی اسراف ہے) ۔

(4 ) اللہ پاک کے حق میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابو قبیس (مکّہ شریف کا ایک)پہاڑ برابر سونا ہو اور اس تمام کو اللہ پاک کی راہ میں خرچ کر دو تو اسراف نہ ہوگا اور ایک درہم گناہ میں خرچ کرو تو وہ اسراف ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۱، ۲ / ۶۲-۶۳،مُلخصاً)

فرامینِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :

( 1 ) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :قِیامت کے دِن اِنسان کے قدم نہ ہٹیں گے حتی کہ اُس سے پانچ(5)چیزوں کے بارے میں سُوال کیا جائے گا:

( ۱ ): اس کی عُمْر کے بارے میں کہ کِن کاموں میں گزاری

( ۲ ): اس کی جوانی کے بارے میں سوال ہوگاکہ کس طرح گُزَاری

( ۳،۴ ): اس کے مال کے حوالے سے کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور

( ۵): اپنے عِلْم پر کتنا عَمَل کیا ۔(ترمذى ، ص٥٧٤ ، حديث: ٢٤١٦)

( 2 ) اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے پاس سےگزرے تو وہ وُضو کررہے تھے۔ فرمایا، یہ اسراف کیسا؟ عَرض کی، کیا وضو میں بھی اِسراف ہے؟ فرمایا:ہاں اگرچہ تم جاری( یعنی بہتی ہوئی) نَہر (canal)پر ہو۔ (سُنَنِ اِبن ماجہ ج۱ص۲۵۴حدیث۴۲۵)

تفصیل یعنی وضاحت ۔explanation:
علماء کرام وضو میں اسراف کی مُختلف صورتیں (different cases)بتائی ہیں:

( 1 ) یہ سمجھتے ہوئے تین (3)سے زیادہ مرتبہ جسم(منہ یاہاتھ یا پاؤں) دھونا کہ سنّت زیادہ دھونے ہی سے ادا ہوگی۔ ظاہرہے کہ اس نیّت سے نہر(canal) نہیں سمندر(sea) میں سے ایک چلو(ہاتھ کی مُٹھی میں) پانی لینا ہی نہیں بلکہ ایک قطرہ(drop) زیادہ لینااسراف و گناہ و ناجائز ہوگاکہ اصل گناہ اس نیّت میں ہے، گناہ کی نیّت سے جو کچھ کرے گا سب گناہ ہوگا۔( فتاویٰ رضویہ،جلد ۱، ص ۹۸۹مُلخصاً)

( 2 ) جان بوجھ کر، کسی صحیح ا ورجائز مقصد(کام) کیلئے تین(3) مرتبہ سے زیادہ دھونااسراف نہیں جیسے منہ سے بدبو دور کرنے یا پان یا چھالیہ کےذرّے نکالنے کے لیے زیادہ کُلِیاں کرنا، یا ایک نماز کے بعد اگلی نماز کے لیےوضو پر وضو کرنایا جسم سے میل یا گرمی دور کرنے کے لیے تین(3) سے زیادہ مرتبہ مُنہ دھونا، اسراف نہیں بلکہ جائز ہے۔( فتاویٰ رضویہ،جلد ۱، ص۹۹۰ مُلخصاً)

( 3 ) وضو کرنے والے کو یاد نہیں کہ تین (3)بار پانی ڈالا یادو(2) بار تو اب شریعت اس بات کو پسند کرتی ہے کہ وہ ایک مرتبہ مزید (one more time)دھوئے۔ اسی طرح اسے یہ تو یاد ہے کہ تین (3)بار دھویا ہے مگر یہ یاد نہیں کہ ہر مرتبہ مکمل دھویا ہے یا نہیں تو اب بھی ایک مرتبہ مزید دھو ئے۔

( 4 ) وضو کرنے والے کو یاد ہے کہ تین (3)بار پانی ڈالا ہے اور مکمل دھویا ہے مگر اُسے شک ہے تو یہ شک شیطانی وسوسہ ہے، اس صورت میں مزید دھونے اور اس کے لیے پانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ۔) فتاویٰ رضویہ،جلد ۱، ص ۶۲۳ماخوذاً(

( 5 ) شریعت کی اجازت کے بغیر اجازت تین(3) مرتبہ سے زیادہ دھونے میں اگر پانی ضائع(waste) ہو جائے تو اب یہ مکروہ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے چاہے تین (3)سے زیادہ مرتبہ دھونے کو سنّت نہ بھی سمجھے تب بھی گناہ گار ہے۔

(6 ) اگر تین(3) مرتبہ سے زیادہ دھونے میں نہ سنّت کی نیّت ہو اور کوئی ضرورت بھی نہ ہو لیکن وہ پانی ضائع (waste)نہیں ہوتا(مثلاً بلا وجہ چوتھی بار(fourth time) پانی اس طرح ڈالے کہ نہر (canal) میں گرے یا کسی درخت پر گرے کہ جس درخت پر پانی ڈالنا ہو یا کسی برتن میں جس کا پانی جانوروں کو پلایا جائے گا یا اُس سے (mud)گارا بنایا جائےگا یا زمین ہی پرگرا مگر گرمی کا موسم ہے اور زمین پر پانی ڈالنے کی ضرورت ہے وغیرہ) تو اس طرح تین (3) سے زیادہ مرتبہ دھونا ادب کے خلاف ہےاور اگر اس کی عادت بنالی تو یہ عادت مکروہ تنزیہی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،جلد ۱(ب)، ص۱۰۳۰،۹۹۰ مُلخصاً)

اسراف کسے کہتے ہیں؟:‏
جس جگہ شرعاً ، عادۃً (common habit) یا مروۃً (common practice اچھے اخلاق کے تقاضے(requirement) کو پوراکرتے ہوئے)خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا( مثلاً گناہ پر خرچ کرنا، دوستوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے بچوں کے لیے بھی نہ بچانا) اِسراف کہلاتاہے۔( الحدیقۃ الندیۃ،ج۲، ص۲۸ مُلخصاً)صرف دو (2)صورتوں میں اِسراف ناجائز و گناہ ہوتا ہے ایک(۱) یہ کہ مال کو کسی گناہ میں استعمال کرنا یا (۲)مال ضائع(waste) کرنا۔(فتاویٰ رضویہ،جلد ۱، ص۹۴۰ ماخوذاً)

اسراف کی کچھ مثالیں:‏‏
( 1 ) جس کام کے لیے چْلّو(ہاتھ کی مُٹھی میں) میں پانی لیں اْس کا اندازہ رکھیں ضرورت سے زیادہ نہ لیں مثلاً ناک میں پانی ڈالنے کے لیے آدھا چْلّو کافی ہے تو پورا چْلّو نہ لے(اسی طرح لوٹوں میں وضو کا پانی بچا ہوا ہوتا ہے اسے نہ پھینکے) ورنہ اِسراف ہوگا۔( بہارِ شریعت،ح ۲ ، صفحہ۳۰۲،مسئلہ ۸۵ مع ح۱۶،ص۳۸۷، مسئلہ ۴)

( 2 ) روٹی کاکَنارا توڑ کر ڈال دینا (کہ کوئی استعمال نہ کرے)اور بیچ کاحصّہ کھا لینا (یا لقمہ چھوٹ کر دسترخوان پر گرگیا، اسے چھوڑ دینا) اسراف ہے۔ہاں اگرکَنارے کچّے رہ گئے ہیں، اِس کے کھانے سے نقصان ہو گا تو توڑ سکتا ہے ۔ (بہار شریعت ح۱۶،ص،۳۷۷ پوائنٹ۱۶ ،۱۹مُلخصاً)

( 3 ) ایک قسم کا کھانا ہو گاتو اپنی بھوک کے مطابق نہ کھاسکے گا طبیعت گھبراجائے گی، لہٰذا کئی قسم کے کھانے تیار کراتا ہے کہ سب میں سے کچھ کچھ کھا کر ضرورت پوری کرلے گا ،اس لیےکئی قسم کے کھانے بنوانے میں حرج نہیں یا لوگوں کی مہمان نوازی کے لیے بنوانا کہ وہ سب کھانے استعمال ہوجائیں گے تو اس میں بھی حرج نہیں اور اگر سب کھانے استعمال نہیں ہوتے، ضائع(waste)بھی ہو جاتے ہیں تو اسراف ہے۔ (بہار شریعت ح۱۶،ص۳۷۶، مسئلہ ۱۳ مُلخصاً)

(4 ) آتشبازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے۔

(5 ) کھانے کااس طرح لُٹانا(کہ جو لوٹنے والوں کے پَیروں میں بہت سارا خراب ہوکر مٹی میں مل گیا)بے ادبی، محرومی ،مال کا ضائع(waste) کرنااور حرام ہے۔

(6 ) بہت زیادہ روشنی کرنا اگر اُس کا شرعی مقصد(یعنی شرعی اجازت) نہ ہو تو وہ بھی اسراف ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۲۴،ص۱۱۳مُلخصاً)

اسراف میں بھلائی(goodness) نہیں:‏
( 1 )اگر وقف(مسجد، مدرسے کے) پانی سے وضو کیا تو زیادہ خرچ کرنا حرام ہے اور مدارس کا پانی اسی قسم کا ہوتا ہے جو کہ صرف ان ہی لوگوں کیلئے وقف ہوتا ہے جو شرعی(اصولوں کے مطابق) وضو کرتے ہیں۔) فتاویٰ رضویہ،جلد ۱، ص ۶۵۸مُلخصاً) گھر میں خوب مَشق(practice) کرکے شَرعی وُضو سیکھ لیجیے تاکہ مسجِد کے پانی کا اِسراف کرکے گناہ گار نہ ہوں۔(وضو کا طریقہ ص۴۵ ُملخصاً)

( 2 ) اسراف میں جب شریعت کے خلاف خرچ کیا جائے(مثلاً فلمیں وغیرہ دیکھنے میں رقم خرچ کرنا) تو حرام ہے اور اسراف میں جب مُروّت کے خلاف (یعنی اچھے اخلاق کے تقاضے(requirement) کو چھوڑ کر) خرچ کیا جائے( جیسے بچوں کو روزانہ ایک ہی طرح کا کھانا کھلانا لیکن دوستوں کو بار بار طرح طرح کے کھانے کھالانا تاکہ ان کی طرف سے ہونے والی دعوت میں بھی اچھا کھانے کو ملے)تو یہ مکروہ تنزیہی اور ناپسندیدہ ہے ۔( الحدیقۃ الندیۃ،ج۲، ص۲۸، ماخوذاً)

( 3 )بھلائی کے کاموں میں خَرْچ کرنا مثلاً عیدِ میلاد النبی پر گھروں، گلیوں اور محلوں کو سجانا، چَراغاں کرنا اِسراف نہیں ۔ عُلَما فرماتے ہیں: لَا خَیْرَ فِی الْاِسْـرَافِ وَلَا اِسْـرَافَ فِی الْخَیْر یعنی اِسراف میں کوئی بھلائی(goodness) نہیں اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اِسراف نہیں ۔( ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص۱۷۴) نوٹ: شادی یا جشنِ ولادت کی خوشی میں گھروں وغیرہ کو سجانے کے لیے، چوری کی بجلی استعمال کرنا ناجائز و گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔

اسراف کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏‏

( 1 ) عِلْمِ دِین سے دُوری

( 2 ) غُرُور وتَکَبُّر

( 3 ): اپنی واہ واہ کی خَواہِش (desire)

( 4 ): غَفْلَت (لاپرواہی۔carelessness)

{4} پی لینے کے بعد گلاس میں بچا ہوا پانی پھینک دینے کے بجائے دوسرے کو پلا دیجئے یا کسی اور استعمال میں لیجئے۔(وضو کا طریقہ ص۴۶،۴۷)

اسراف کی طرف لے کر جانے والی چیزوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ غور وفکر کیجئے کہ کیا چیز زیادہ استعمال ہو رہی ہے اور اُسے کیسے کم کیا جائے:

1} وُضو کر نے سے پہلے پانی جسم پر چپڑ(یعنی مَل) لیں اور وضو کے دوران نل (faucet)احتِیاط سے کھولئے کہ ایک ہاتھ نل کے اوپر رکھئے اور ضَرورت پوری ہونے پر بار بار نل بند کرتے رہئے ۔

{2} باِلخصوص سردیوں میں وُضو یاغسل کرنے نیز برتن اور کپڑے وغیرہ دھونے کیلئے گرم پانی حاصل کرنے کے لیے نل کھول کر پائپ میں جمع شُدہ ٹھنڈاپانی یوں ہی پھینک دینے کے بجائے کسی برتن میں پہلے نکال لیں۔

{3}ہاتھ یا منہ دھونے کیلئے صابون کا جھاگ بنانے کیلئے چُلّو میں پانی کے تھوڑے قطرے(drops) ڈال کر صابون لیکر جھاگ بنایا جاسکتا ہے اگر پہلے سے صابون ہاتھ میں لے کر پانی ڈالیں گے تو پانی زِیادہ خرچ ہوسکتا ہے۔اسی طرح استِعمال کے بعد ایسی صابون دانی (soap dish)میں صابون رکھئے جس میں پانی بالکل نہ ہو تا کہ پانی کی وجہ سے صابن جلدی ختم نہ ہو جائے۔

{4} پی لینے کے بعد گلاس میں بچا ہوا پانی پھینک دینے کے بجائے دوسرے کو پلا دیجئے یا کسی اور استعمال میں لیجئے۔(وضو کا طریقہ ص۴۶،۴۷)

نوٹ: ‏‏
اِسراف کی بَعْض صورتوں کی مَعْلُومات حاصل کرنے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابوبِلال محمد اِلیاس عطار قادِری دَامَتْ بَـرَکَاتُہُمُ الْعَالِـیَہ کا رِسالہ بجلی اِسْتِعْمال کرنے کے مدنی پھول اور وُضو کا طریقہ، صفحہ 37 تا 48 کو پڑھ لیجئے ۔

07 ’’ایثار‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’ اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح(priority) دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت(یعنی ضرورت) ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۲۸، الحشر:۹)عُلَما فرماتے ہیں: اِس آیت میں انصار(یعنی جو پہلے ہی سے مدینے پاک میں رہتے تھے، اُن) صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے، ان کا حال (condition)یہ ہے کہ وہ اپنی طرف ( مکّہ شریف چھوڑ کر مدینہ پاک میں آنے والوں یعنی) ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور اپنے گھروں میں انہیں جگہ دیتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے آدھامال دیتے ہیں اور اپنے گھر ایثار(یعنی ضرورت ہونے کے باوجودانہیں دے) کرکے مہاجرین (یعنی ہجرت کر کے آنے والوں)کو اپنی جانوں سے زیادہ اہمیّت (importance)دیتے ہیں۔ (ماخوذ از صراط الجنان، ۱۰/۷۴)

ا حادیثِ مُبارکہ :
(1)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏جو شخص کسی چیز کی خواہش (desire)رکھتا ہو پھر وہ اپنی خواہش چھوڑ دے اور دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح(اہمیّت) دے تو اللہ پاک اُس کی بخشش فرمادے گا۔(تاریخ دمشق، ۳۱/۱۴۲)

(2)ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایک مقام سے دو(2) مسواکیں حاصل کیں جن میں سے ایک(1) کچھ جھکی ہوئی(یعنی ٹیڑھی) تھی اور دوسری

(6) جواب دیجئے:

س۱) اسراف کسے کہتے ہیں؟اور اس کا حکم کیا ہے؟

س۲) اسراف کی مثالیں بیان کریں۔

سیدھی۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے سیدھی مسواک صحابی کو دے دی اور جھکی ہوئی اپنے لئے رکھ لی۔ ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی:یَارَسُوْلَ اللہ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ !) اللہ پاک کی قسم!آپ سیدھی مسواک کے زیادہ حقدار(entitled) ہیں ۔ فرمایا:جب بھی کوئی شخص کسی کی رَفاقت (یعنی ساتھ )اختیار کرتا ہے اگر چہ دِن کی ایک ساعت ( یعنی گھڑی بھر) ہو،تو قیامت کے دن اُس کے بارے میں سُوال کیا جائے گا۔ (احیاء العلوم،کتاب آداب الالفة والاخوة،۲/۲۱۸دار صادر بیروت)

ایثار کسے کہتے ہیں؟:
فائدہ حاصل کرنے یا نقصان سے بچنے میں اپنے آپ پر کسی اور کو اہمیّت (importance)دینا ایثار کہلاتا ہے۔(کتاب التعریفات، باب الالف، ص۳۱) شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہاپنے رسالے ’’مدینے کی مچھلی‘‘ کے صفحہ 3 پر فرماتے ہیں: ایثار کا معنی ہے: دوسروں کی خواہش(desire) اور حاجت (یعنی ضرورت)کو اپنی خواہش و حاجت پر ترجیح (اہمیّت)دینا۔

ایثار کی ایک مثال:‏
حضرت عبد اللہ بن عمر ر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے تحفے میں ایک صحابی کے گھر بکری کاسر بھیجا، انہوں نے کسی دوسرے صحابی کو اپنے سے زیادہ ضرورت مند(needy)سمجھتے ہوئے وہ سر ان کے گھر بھیج دیا،ان صحابی نے کسی اور صحابی کو اپنے سے زیادہ ضرورت مند(needy) سمجھتے ہوئے وہ سر ان کے گھر بھیج دیا، اس طرح وہ سر کئی گھروں سے ہوتے ہوئےانہی پہلے صحابی کے گھر پہنچ گیا کہ جہاں سے بھیجا گیا تھا۔ (مستدرک،تفسیر سورة الحشر،قصة ایثار الصحابة،۳/۲۹۹،حدیث:۳۸۵۲دارالمعرفة بیروت)

ایثار کے لیے ضروری ہے:‏
ایک مرتبہ حضرت ابوعبدُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے کسی بھائی کی اہم ضرورت پوری کی تو بعد میں وہ تحفہ لے کر آپ کے پاس حاضر ہوئے، حضرت ابوعبدُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پوچھا:یہ کیا ہے؟اس نے کہا:اُس احسان(favor) کا بدلہ جو آپ نے مجھ پر کیا ہے۔تو فرمایا:اپنا مال اپنے پاس رکھو اللہ پاک تمہاری مغفرت فرمائے۔ جب تم اپنے بھائی کو اپنی ضرورت بتاؤ اوروہ اسے پورا کرنے کی کوشش نہ کرے تو وضو کرو اور اس پر چار تکبیرات (یعنی نماز جنازہ)پڑھو اور اسے مردہ شمار کرو۔ (احیاء العلوم،جلد۲، ص ۶۳۵) امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرحفرماتے ہیں:انسان کو چاہئے اپنے دوست کی ضرورت کو اپنی ضرورت کی طرح سمجھے یا اس سے بھی اہم(important) اور ضرورت کے وقت اس کی خیریت پوچھے، اس کے حالت(condition) سے باخبر(informed) رہے جیساکہ اپنے حالت سے باخبر رہتا ہے، اسے کچھ مانگنے یا اپنی ضرورت بتانے سے پہلے اس کا کام کر دے، اپنی طرف سے کچھ دینے کو اتنا چھپائے جیسےخودکوبھی علم نہیں (کہ میں نے اس کی مدد کی ہے)، اس مدد کو دوست پر احسان(favor) نہ سمجھے بلکہ اپنی خدمت (تحفہ وغیرہ)قبول کرنے پر اس کا شکریہ ادا کرے اور صرف اس کی ضرورت ہی پوری نہ کرے بلکہ اس سے بہت عزّت اوراحترام (respect) سے پیش آئے، ایثار کرے(یعنی ضرورت ہونے کے باوجود انہیں مال دے) اور اپنے رشتہ داروں اور اولادسے زیادہ اہمیّت (importance)دے۔(احیاء العلوم،جلد۲، ص ۶۳۶،۶۳۷مُلخصا)

ایثار سے دور کرنے والی کچھ چیزیں:‏
(1) حرص اور لالچ(greed)

(2)دنیا کی محبّت

(3)مال کم ہو جانے کا ڈر

(4)بُخل اور کنجوسی(stinginess)۔ وغیرہ

ایثار کے کچھ فائدے:‏
ایثار کی عادت سےاحترامِ مسلم(Muslims respect ) میں اضافہ ہوتا ہے ایثار کی عادت سے صدقہ و خیرات کرنا آسان ہوجاتا ہے ایثار کی عادت سےلوگوں کے دلوں میں محبّت پیدا ہوتی ہےایثار کی عادت سےمال و دولت کی محبّت میں کمی آتی ہے۔وغیرہ

ایثار کی عادت بنانے کے کچھ طریقے:‏
یہ ذہن بنائیں کہ ایثار کرنا جنّت میں لے جانے والا کام ہے، اگر کسی اور کو اپنے اوپر اہمیّت(importance) دے کر کوئی چیز دیں گے اور ہماری بخشش (یعنی معافی) ہوجائے تو یقیناً یہ بات فائدے والی ہے(یاد رہے! چھوٹے بچے اپنی چیزیں کسی کو نہیں دے سکتے) اچھا مسلمان وہی ہوتا ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرے وہی دوسرے مسلمان کے لیے بھی پسند کرے تو اچھا مسلمان بننے کے لیے ایثار کرنا چاہیے یوں ذِہْن بنائیے کہ میں اگر اپنی پسندیدہ چیز(favorite thing) دوسرےکو دوں گا تو یہ بھلائی(goodness) حاصل کرنے والی بات ہےاور قرآن پاک نےبھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے،ترجمہ (Translation) : تم ہرگز بھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔ (پ۴، سورۃ آل عمران،آیت ۹۲) اللہ پاک کی رضا اور خوشی حاصل کرنے کے لیے، اللہ پاک کا دیا ہوا مال،ضرورت ہونےکے باوجود اپنے دینی بھائی کو دئیں کہ یہ مال بھی تو اللہ پاک ہی نے دیا ہے اِس طرح بھی سوچئے کہ ایثار در حقیقت ایک انویسٹمنٹ (investment)ہے جس کا فائدہ مجھے آخرت میں بہت زیادہ بڑھا کر دیاجائے گا، تو آج موقع(opportunity) ہے، ہمیں ایثار کرنا چاہئے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور بُزرگوں کے واقعات پڑھیں گے تو اِنْ شَاء اللہ ایثار کرنے کا ذہن بنے گا کنجوس لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا چھوڑ کر ایثار کرنے والے عاشقانِ رسول کے ساتھ رہیں، اِنْ شَاء اللہ فائدہ ہوگا۔

نوٹ: ‏
ایثار کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابوبِلال محمد اِلیاس عطار قادِری دَامَتْ بَـرَکَاتُہُمُ الْعَالِـیَہ کے رسالے’’مدینے کی مچھلی‘‘ کو پڑھیں۔ ( )

(7) جواب دیجئے:

س۱) ایثار کسے کہتے ہیں؟

س۲) ایثار اپنانے کا طریقہ کیا ہے؟

08 ’’دل کی سختی اور نرمی ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ہیں اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں(rivers) بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں کہ جب پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے ہرگز بے خبر نہیں‘‘۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ۱، البقرۃ: ۷۴) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود یہودیوں سے فرمایا گیا کہ اپنے باپوں کے عبرت (lesson)والےواقعات سننے کے بعد تمہارے دل حق(اور سچی) بات کو قبول کرنے کے معاملے میں سخت ہوگئے اور سختی میں پتھروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ہیں کیونکہ پتھر بھی اثر قبول کرتے ہیں (accept the effect) کہ کچھ پتھروں سے ندیاں (rivers) جاری ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ جب پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ پاک کے ڈر سے اوپر سے نیچے گر پڑتے ہیں جبکہ تمہارے دل اللہ پاک کا حکم ماننے کے لئے نہ جھکتے ہیں نہ نرم ہوتے ہیں ، نہ اللہ پاک سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی وہ کام کرتے ہیں جس کا حکم دیا جاتا ہے اور یاد رکھو کہ اللہ پاک تمہارے اعمال سے ہرگز بے خبر(unaware) نہیں بلکہ وہ تمہیں ایک خاص وقت تک کے لئے مہلت(time) دے رہا ہے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۱ / ۱۶۳-۱۶۴، جلالین، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۱۲، ملتقطاً)

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏
شرم و حیا ایمان سے ہے ا ور ایمان جنّت میں ہے اور فحش گوئی (بے حیائ کی باتیں) سخت دلی سے ہے اور سخت دلی آگ میں ہے۔ ( ترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، ۳ / ۴۰۶ ، الحدیث: ۲۰۱۶)

دل کی نرمی کسے کہتے ہیں؟:‏‏
دل کا خوفِ خدا کی وجہ سے اِس طرح نرم ہونا کہ بندہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے اور نیکیوں میں مصروف (busy)کرلے، نصیحت اُس کے دل پر اَثر (affect)کرے، گناہوں سے دورہو اور جو پہلے ہوئے ہیں اُن پر شرمندگی (embarrassing)ہو، بندہ توبہ کی طرف توجّہ(attention) رکھے، شریعت نے اس پر جو جو حقوق (rights)لازم کیے ہیں ان کو اچھے طریقے سے پورا کرنے کے لیے تیار ہو، اپنے گھر والوں، رشتہ داروں ا ور اللہ پاک کی مخلوق پر شفقت ،رحم او رنرمی کرے، مجموعی طور پر(overall) اس کیفیت کو ’’دل کی نرمی ‘‘ کہا جاتا ہے۔(نجات دلانے والے اعمال ص۱۳۱)

دل کی سیاہی (یعنی کالا ہونے)کی ایک نشانی(sign) :‏‏‏‏
امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : دل کی سیاہی (گناہوں وغیرہ کی وجہ سے دل کا کالا ہونے)کی علامت (پہچان۔symbol) یہ ہے کہ تمہیں گناہوں سے کوئی پریشانی نہ ہو، نیکیاں نہ کر پائے اور نصیحت سے بھی کوئی فائدہ نہ ملے۔ خبردار! کسی گناہ کو چھوٹا مت سمجھیں اور کبیرہ گناہوں کرتے رہنے کے باوجود خود کو توبہ کرنے والا مت سمجھیں ۔(منہاج العابدین ص۵۴)

دل کی سختی کی ایک نشانی(sign) :‏‏‏‏
نصیحت کرنے والے کے خلاف باتیں کرنا اور اس کی بُرائیاں کرنا۔ اس طرح کی بُرائیاں کرنے کی وجہ دل کی سختی ہے اور اس دل کی سختی کی وجہ سے گناہوں میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے ۔(احیاء العلوم جلد۳،ص۱۹۶ ماخوذاً)

دل کی سختی کے نقصانات :‏‏‏‏
دل کی سختی کے باعث دل اور ذکر کے اثر کے درمیان گویا ایک پردہ حائل ہو جاتاہے۔(احیاء العلوم، ج۳،ص۲۵۷) گناہ کی ابتداء، دل کی سختی سے ہوتی ہے۔(منہاج العابدین ص۵۳) دنیا میں بد بختی کی ایک علامت (پہچان۔symbol) دل کی سختی ہےاور دنیا میں بھی سعادت (یعنی خوش نصیبی) کی ایک پہچان دل کی نرمی ہے۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۴ / ۱۸۷، ملخصاً)

نرم دلی کی ایک نشانی(sign) :‏‏‏‏
حضرت مَکْحُول دِمَشقی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:لوگوں میں سب سے زیادہ نرم دل وہ شخص ہوتا ہے جس کے گناہ سب سے کم ہوں۔ (الزھدللامام احمد بن حنبل ، ص۳۸۲، رقم : ۲۲۸۳)

دل کی سختی کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏‏‏‏‏
(1) لمبی اُمیدیں(long hope)، دل سخت کر دیتی ہیں۔ اللہ پاک فرماتا ہے: (Translation:)پھر ان پر مدّت دراز (یعنی لمبی)ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے(پ ۲۷، سورۃ الحدید،آیت۱۶ ) (ترجمہ کنز العرفان )

(2) حدیث مبارکہ میں ہے: اپنے کھانے کو ذکر اور نماز کے ذریعے ہضم (digest)کرو اور کھانا کھا کرسو نہ جاؤ کہ اس طرح تمہارے دل سخت ہوجائیں گے۔(المعجم الاوسط،۳/ ۴۰۴،حديث:۴۹۵۲) (احیاء العلوم جلد۳،ص۲۹۲)

(3) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم:زیادہ کھا پی کراپنے دل کو مردہ مت کرو کیونکہ دل مردہ ہوجاتا ہے جس طرح کھیتی پر پانی زیادہ ہو جائے تو تباہ ہو جاتی ہے۔(عمدۃ القاری،۳۸۵/۱۴، حدیث۵۳۷۴ )

(4) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: ذکرُ اللہ کے بغیر زیادہ کلام نہ کرو کیونکہ ذکرُا اللہ کے بغیر زیادہ کلام دل کی سختی ہے اور سخت دل لوگ اللہ پاک (کی رحمت ) سے سب سے زیادہ دور ہیں ۔(ترمذی، کتاب الزھد، ۴ / ۱۸۴، حدیث: ۲۴۱۹)

(5) حضرت علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں: جو شخص چالیس( 40) دن تک گوشت کھانا چھوڑدے اس کی طبیعت و مزاج میں خرابی و بِگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور جو چالیس( 40) دن تک مسلسل گوشت کھاتا رہے اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ (احیاء العلوم جلد۳،ص۲۹۲)

(6) گناہوں کی عادت(احیاء العلوم جلد۳،ص۱۰۶۱) جو گناہ بالخصوص دل پر اثر کرتا ہے وہ حرام کا لقمہ کھانا ہے جبکہ حلال کا لقمہ کھانا دل کی صفائی کرتااور دل کو بھلائی (goodness) کی طرف لے کر جانےمیں اتنا اثر (effect)کرتا ہے کہ کوئی اورچیز اتنا اثر نہیں کرتی۔(ص۱۰۶۲)

(7)عبادت کی توفیق نہ ملنا(منہاج العابدین ص۴۲) بے نمازیوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

دل میں نرمی پیدا کرنے کے کچھ طریقے:‏
فرمانِآخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: کم ہنسنے اور کم کھانے کے ذریعے اپنے دلوں کو زندہ کرو اور بھوکا رہنے کے ذریعے انہیں پاک کرو تویہ صاف اور نرم ہو جائیں گے۔(تذکرة الموضوعات،ص۱۵۱) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، اب تم قبر وں کی زیارت کیا کرو کیو نکہ زیارتِ قبور دل کی نرمی ، اَشک باری (یعنی رونے کا سبب)اور آخرت کی یاد دلانے والی ہے۔ (مسند امام احمد، مسند انس بن مالک، ۴ / ۴۷۳، حدیث: ۱۳۴۸۷) ایک شخص نےپیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دل سخت ہونے کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: اگر تو دل کی نرمی چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم (orphan)کے سر پر ہاتھ پھیر۔ (ا لبر والصلۃ لابن جوزی، ص۲۳۳، حدیث : ۴۰۳)حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے ایک خاتون نے دِل کے سخت ہونے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: موت کو کثرت سے(یعنی بہت زیادہ) یاد کیا کر تیرا دِل نرم ہو جائے گا۔جب اس عورت نے ایسا کیا تو اس کا دِل نرم ہو گیاتواس نے اُمُّ المؤمِنین حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا شکریہ ادا کیا۔ (اَلرَّوْضُ الْفَائِق ص۲۳)جس طرح بارش سے زمین کو زندگی حاصل ہوتی ہے ایسے ہی اللہ پاک کے ذکر سے دِل زندہ ہوتے ہیں ۔ ( خازن ، الحدید ، تحت الآیۃ: ۱۷ ، ۴ / ۲۳۰ ، مدارک ، الحدید ، تحت الآیۃ: ۱۷ ، ص۱۲۱۰ ، ملتقطاً)ایک شخص نے حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَـیْہ سے دل سخت ہونے کی شکایت کی توآپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَـیْہ نے فرمایا: (اللہ پاک کے)ذکر کی مجلسوں میں حاضر ہوا کرو۔(احیاء العلوم، ج۱،ص۱۰۳۹)جنازوں کو عبرت (lesson)کی نگاہ سے دیکھنادل کی سختی کو دور کرتا ہے۔ بندہ جب بھی کسی جنازےکو دیکھے تو خود کو اس میں خیا ل کرے کیونکہ عنقریب (soon)اس کا بھی جنازہ اٹھے گا یا توآج یاہوسکتا ہےکل یا پھر پرسوں(احیاء العلوم، ج۵،ص ۵۸۴ماخوذاً)تَہَجُّد اور رات عبادت کے ذریعے(احیاء العلوم، ج۵،ص ۴۰۲ ماخوذاً)خوف خدا رکھنے والوں کے واقعات کو سننے سے اُمید (hope) ہے کہ دل کی سختی بہت زیادہ دور ہوجائے گی۔(احیاء العلوم، ج۴،ص ۵۳۰ ماخوذاً) نوٹ: دل کی سختی اور نرمی کی تفصیل جاننے کے لئے”احیاء العلوم جلد ۳“ اور”جلد۴“ کو پڑھ لیجئے۔

09 ’’بے جا مذاق‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ‘‘۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ۱۸،سورۃ المؤمنین،آیت۱ تا ۳)علماء فرماتے ہیں کہ: کامیاب مومن میں ایک بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ لغو سےبچتا ہے۔علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :لغو سے مراد ہر وہ بات، ناپسندیدہ کام یا جائز کام ہے کہ جس کا مسلمان کودینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری وغیرہ۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۱۳۵۶-۱۳۵۷مُلخصاً)

فرامینِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏
(1)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو،نہ اس سے مذاق کرو اور اس سے وعدہ کرو تو اس کی خلاف ورزی نہ کرو۔(جامع الترمذی، الحدیث۱۹۹۵، ص۱۸۵۲)

(8) جواب دیجئے:

س۱) دل کی نرمی اور سختی کسے کہتے ہیں؟

س۲) دل کی سختی کے اسباب اور دل کی نرمی اپنانے کا طریقہ کیا ہے؟

(2)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : میں مزاح کرتاہوں ،لیکن حق بات کے علاوہ کچھ نہیں کہتا۔ (أخلاق النبی لابی الشیخ الاصبہانی ،الحدیث۱۷۴،ج۱،ص۱۸۶)

تفصیل یعنی وضاحت ۔explanation:‏
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان یہ تھی کہ مزاح بھی فرماتے اور جھوٹ بھی نہ ہوتا جبکہ دیگر لوگ جب مزاح شروع کرتے ہیں تو ان کا مقصد(aim) لوگوں کو ہنسانا ہو تا ہے خواہ کیسے بھی ہو۔پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:ایک شخص کوئی ایسی(جھوٹی) بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ہنساتا ہے ، لیکن وہ اسے آسمان اور زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ فاصلے تک(یعنی اتنا دور )جہنّم میں لے جائے گی ۔ (مجمع الزوائد ، ج۸،ص۱۷۹، رقم:۱۳۱۴۹ ) (احیاء العلوم ج ۳، ص۲۸۳ )

مزاق اور مِزاح کسے کہتے ہیں؟:‏
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان یہ تھی کہ مزاح بھی فرماتے اور جھوٹ بھی نہ ہوتا جبکہ دیگر لوگ جب مزاح شروع کرتے ہیں تو ان کا مقصد(aim) لوگوں کو ہنسانا ہو تا ہے خواہ کیسے بھی ہو۔پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:ایک شخص کوئی ایسی(جھوٹی) بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ہنساتا ہے ، لیکن وہ اسے آسمان اور زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ فاصلے تک(یعنی اتنا دور )جہنّم میں لے جائے گی ۔ (مجمع الزوائد ، ج۸،ص۱۷۹، رقم:۱۳۱۴۹ ) (احیاء العلوم ج ۳، ص۲۸۳ )

تفصیل( یعنی وضاحت ۔explanation ):
جن احادیث میں ہے کہ حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مِزاح سے منع فرمایا وہاں سَخَرِیَّہ مراد ہے یا ہمیشہ دل لگی کرتے رہنا، ہنستے ہنساتے رہنا کہ اس سے دل مردہ ہوتا ہے غفلت (لاپرواہی۔carelessness) آجاتی ہے۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کبھی کبھی خوش طبعی(یعنی مزاح) کرنا ثابت ہے اسی لیے علماءکرام فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت مُسْتَحَبَّہ(اور ثواب) ہے۔(مراۃ جلد۶،ص۷۱۴ مُلخصاً)حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا مِزاح( یعنی خوش طبعی کی باتیں کرنا)بھی دین(کا حصّہ) تھیں کیونکہ یہ میں بھی تبلیغ تھی(یعنی اُمت کو مِزاح کا جائز طریقہ سکھانا تھا اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا یہ سکھاناثواب کا کام ہی تھا)۔(مراۃ جلد۶،ص۹۲ مُلخصاً)

مزاح کی ایک مثال:‏
حضرت اُسَید بِن حضیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ باتیں کررہے تھے اور ان کی عادت میں مِزاح تھا، یہ لوگوں کو ہنسارہے تھے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے لکڑی ان کے پہلو (side)میں چبھوئی، انھوں نے عرض کی: مجھے بدلہ دیجئے۔ فرمایا: لے لو۔عرض کی: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تو کرتا پہنے ہیں اور میرا کُرتا تو ہٹا ہوا تھا(جب آپ نے لکڑی میرے جسم میں لگائی تھی)۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے کرتا اٹھادیا توانھوں نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پہلو(side) کوبوسہ دیا(یعنی چومنے لگے) پھر عرض کی: یا رسول اللہ! میں یہی چاہتاتھا۔ ( سنن ابی داؤد ، ۲/ ۳۵۳مُلخصاً)

مذاق کی تفصیل( یعنی وضاحت ۔explanation )اورمثال:‏‏
مذاق حرام اس صورت میں ہوگا جب دوسرے کو حقیر(یعنی گھٹیا) سمجھتےہوئے اس کا مذاق اڑایا جائےجس کی وجہ سے اسے تکلیف ہو کیو نکہ ایسی صورت میں اسے ذلیل کرنا پایا جاتا ہے۔مثلاً:کسی کی تحریر (writing) یااس کےپیشے (profession)پر ہنسنا یا کسی کی شکل و صورت پر ہنسنا یا کسی کے چھوٹے قد یا جسم کے عیب(یعنی آنکھ کی کمزوری یا لنگڑا وغیرہ ہونے) پر ہنسنا،تو ان تمام با توں پر ہنسنا منع ہے کہ یہ مذاق ہے۔(احیاء العلوم ج ۳، ص۴۰۱ ملتقطاً)

مذاق کے کچھ نقصان:‏‏‏
مذاق سےہنسی زیادہ ہوتی ہے اور پھر دِل مُردہ ہو جاتا ہے۔(لباب الاحیاء،ص۲۳۹) مذاق مسخری وہی شخص کرتا ہے جو احمق (idiot)یا تکبر کرنے والا (arrogant)ہو ۔(لباب الاحیاءص۳۲۵) قراٰنِ مجید کی کسی آیت کا مذاق اُڑانا کفر ہے (مِنَحُ الرَّوض الازھرللقاری ص۴۵۷) گانوں اور چٹکلوں میں طرح طرح کے مسائل ہیں، ان میں حکم شرعی کا مذاق اُڑانا بھی ہے جو شخص اللہ پاک کے احکام میں سے کسی حکم کا مذاق اُڑائے تو اُس کو کافر قرار دیا جائے گا (فتاوٰی تاتارخانیہ ، ج ۵ص ۴۶۱مُلتقتاً) شریعت کا مذاق اُڑانا یا توہین کرنا کفر ہے(بہارِشریعت حصہ۹، ص۱۸۳ ،فتاوٰی خیریہ ج۱، ص۱۰۵ ) جو اذان کا مذاق اُڑائے وہ کافر ہے (فتاوٰی رضویہ ج ۵،ص۱۰۲) داڑھی کو بُرش کہنا یا داڑھی والے کا مذاق اُڑاتے ہوئے اُس کو داڑھی والا بکرا کہنا دونوں کفریات ہیں(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب ص ۴۲۲) مذاق میں کلمۂ کفر بکنا بھی کفر ہے (اَلْبَحْرُ الرَّائِق ج ۵، ص ۲۰۲) جو مذاق مسخری میں کفر کریگا ،اُس کا اسلام ختم ہوجائے گا اگر چِہ کہتا ہے کہ میرا ایسا عقیدہ نہیں ہے (بہارِ شریعت حصّہ ۹، ص ۱۷۳،دُرِّمُختَار ج ۶،ص۳۴۳ ) ياد رہے! کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے اسلام کے خلاف کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔

ہنسی مذاق کے بعض اسباب:‏‏‏‏
(1) ہنسی مزاق کی عادت (2) بُرےدوستوں کے ساتھ رہنا (3) لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنانے(یعنی اپنی واہ واہ) کی خواہش(desire)۔ وغیرہ

ہنسی مذاق سے بچنے کے کچھ طریقے:‏ ‏‏‏‏
ہنسی مذاق سے بچنے کے لئے اُن دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مصروف(busy) ہو جائیں جو شریعت نے ہم پر لازم کی ہیں(فرض علوم سیکھنا ، قرآن پاک صحیح طرح سے پڑھنا سیکھنا، والدین کی خدمت (یعنی ان کے کام کرنا، ان پر مال خرچ کرنا)، زوجہ اور گھرکی لازم ضروریات کو پورا کرنا، اولاد کی دینی تربیت وغیرہ)۔ اگر بندے کو واقعی اس کا علم اور احساس ہو تو پھر فضول باتوں کے لیے وقت (time)ہی نہیں ملے گا دوسروں کا مذاق اُڑانے سے اس طرح سوچ کربچے کہ اگر یہ دوسرےلوگوں کو ایذا(یعنی تکلیف) پہنچائے گا تو وہ لوگ بھی اُسے تکلیف دیں گے ۔ اپنے نفس (یعنی اپنے دل)کو سمجھائے کہ دوسروں کا مذاق اُڑائے گا تو لوگ تیرا بھی مذاق اُڑائیں گے۔(احیاء العلوم ج ۳، ص۵۲۵ ماخوذاً) حضرت ابو یعقوب یوسف بن حسین رازی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا: اللہ پاک نےآپ کےساتھ کیامعاملہ فرمایا؟کہنے لگے: اللہ پاک نےمیری مغفرت فرمادی۔پوچھا گیا: کس وجہ سے؟ فرمایا:میں سنجیدہ(serious) بات میں مذاق شامل نہ کرتاتھا۔(احیاء العلوم ج۵،ص۶۵۴)

ہنسی مذاق ہوگیا تو اب کیا کریں؟:‏‏ ‏‏‏‏
جو آدمی غلطی سے کسی مجلس میں مذاق یا شور وغُل کربیٹھے وہ اٹھنے سے پہلے اﷲ پاک کا ذکر کرے کہ نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :جو آدمی کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں اس نے بہت سی فضول باتیں کی ہوں تو وہ اٹھنے سے پہلے یہ کلمات پڑھ لے اس سے مجلس میں کی گئی غلط باتوں کی بخشش (یعنی معافی) ہوجائے گی۔ وہ کلمات یہ ہیں:سُبْحَانَکَ اللَّھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ انْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ (جامع الترمذی ص ۴۹۵' ابواب الدعوات)(لباب الاحیاءص۳۲۵) ہاں! اگر ایسا ہنسی مذاق ہے کہ جس میں سامنے والے کادل بھی دکھایا ہو تو اب معافی مانگنا کے ساتھ ساتھ دیگرشرعی تقاضے(requirements) پورے کرنے ہونگے۔

نوٹ: ‏‏ ‏‏‏‏
مذاق کی تفصیل جاننے کے لئے ”احیاء العلوم جلد۳“ کو پڑھ لیجئے۔

10 ’’ اخلاص‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’اور ان لوگوں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے، ہر باطل (یعنی جوحق نہ ہو)سے جدا (یعنی الگ)ہو کر(رہیں) اور نَماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور یہ سیدھا دین ہے‘‘۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۳۰، البینۃ:۵)علماء فرماتے ہیں:ا س آیت سے معلوم ہوا کہ وہی عمل اللہ پاک کی بارگاہ میں قبول کیا جائےگا جو اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے کیا گیا ہوگا۔ (صراط الجنان، ۱۰/۷۸۴ملخصاً)

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
اِخلاص کے ساتھ عمل کرو کہ اخلاص کے ساتھ کیا گیا تھوڑا عمل بھی کافی ہوتا ہے۔ (نوادر الاصول، ۱/۴۴، حدیث:۴۵)

اخلاص کسے کہتے ہیں ؟:
کوئی بھی نیک عمل صرف اللہ پاک کو خوش کرنے کے لئے کرنا اخلاص

(9) جواب دیجئے:

س۱) مذاق اور مذاح کسے کہتے ہیں؟ کیا ہم مذاق کر سکتے ہیں؟

س۲) بے جا مذاق کی عادت سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

اخلاص کی ایک مثال:
حضرتِ ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ رسولِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایاکہ جب بندہ علانیہ(یعنی سب کے سامنے) نماز پڑھے تو بھی اچھی اور خفیہ(اکیلے میں) نماز پڑھے تو بھی اچھی ہے (مگر اکیلے نماز پڑھتا ہے)تو اللہ پاک فرماتا ہے کہ یہ میرا سچا بندہ ہے ۔ (سنن ابن ماجہ،الحدیث۴۲۰۰،ج۴،ص۴۶۸)

عمل کا ثواب:
اعمال کا ثواب اخلاص سے ہے۔(مراۃ المناجیح، ۱/۲)

اخلاص کے بارے میں بُزُرگانِ دین فرماتے ہیں:
{1}حضرت یعقوب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : مُخْلِص (یعنی اخلاص کے ساتھ نیک کام کرنے والا)وہ ہے جو اپنی نیکیاں اِس طرح چھپائے جس طرح اپنے گناہ چھپاتاہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ،ج۵ ،ص ۱۰۵) {2} حضرت سَرِی سَقَطی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اگرتم اِخلاص کے ساتھ اکیلے میں دو(2) رَکعتیں پڑھو تو یہ بات تمہارے لئے ستّر ( 70) یا سات سو( 700)حدیثیں اچھی اسناد(حوالوں۔referencesوغیرہ) کے ساتھ لکھنے سے بہتر ہے۔(ایضا ،ص۱۰۶) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :آدَمی کا ایسی جگہ نَفْل نَماز پڑھنا جہاں لوگ اسے نہ دیکھتے ہوں، لوگوں کے سامنے پڑھی جانے والی پچیس(25 )نَمازوں کے برابر ہے۔(جَمْعُ الْجَوامِع، ج۵،ص۸۳،حدیث: ۱۳۶۲۰){3}ایک بُزُرْگ کا قول ہے کہ ایک لمحے(moment) کا اِخلاص ہمیشہ کی نَجات (یعنی بخشش اور کامیابی) کا سبب (reason) ہے لیکن اِخلاص بَہُت کم پایا جاتا ہے۔(اِحیاءُالْعُلوم ج۵، ص ۱۰۶){4} حضرتِ فضیلرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: لوگوں کی وجہ سے عمل چھوڑنا ریا ہے اور مخلوق کو دکھانے کیلئے عمل کرنا شرِکِ(اصغر) ہے۔ (ایضاً ،ص ۱۱۰)

30 سال کی نَمازیں دوبارہ پڑھ لیں :
ایک بُزُرْگرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں نے تیس (30)سال کی نَمازیں دوبارہ (again)پڑھیں ، اِس کی وجہ یہ ہوئی کہ میں ہمیشہ ہر نَماز پہلی صَف میں جماعت کے ساتھ پڑھتا تھا۔ تیس (30)سال کے بعد کسی وجہ(reason) سےدیر ہو گئی اور مجھے دوسری صَف میں جگہ ملی،اِس سے مجھے شرمندَگی (embarrassing) ہوئی کہ آج لوگ کیا کہیں گے ! یہ خیال آنے کی وجہ سے میں جان گیا کہ جب لوگ مجھے پہلی صَف میں دیکھتے تھے تو اِس سے مجھے خوشی ہوتی تھی اس لیے میں پہلی صف میں نماز پڑھتا رہا۔ (اور اب پہلی صف چھوٹنے کا افسوس ہو رہا ہے کہ آج لوگ کیا کہیں گے! توگویا تیس (30) سال سے میں لوگوں کو دکھانے کیلئے پہلی صَف میں نَماز پڑھتا رہا ہوں!اس لیے میں نے تیس (30)سال کی نَمازیں دوبارہ (again)پڑھیں) ۔(اِحیاءُ الْعُلوم، ج۵،ص۱۰۸،بِتَصَرُّفٍ )

بیان کرنے والے میں اخلاص کی نشانیاں(signs):
پہلی نشانی(first sign)یہ ہے کہ اگر اس کے سامنے ایسا شخص آجائے جو اس سے اچھا بیان کرنے والا ہو یا اس سے زیادہ علم رکھنے والا اور لوگوں اسے سننا پسند کرتے ہوں تو اس(عالِم یا واعِظ) کو خوشی ہو ،اس سے حسد (Jealousy)نہ ہو۔البتہ غبطہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، غِبْطہ یہ ہے کہ جیسا اس کا علم ہے ویسے علم اس کے پاس رہے اور مجھے بھی مل جائے۔ ٭…دوسری نشانی(second sign)یہ ہے کہ جب کوئی بڑے عُہدے (rank)والا اس کے بیان میں آجائے تو اس کی وجہ سے اس کی گفتگو (یعنی انداز اور الفاظ وغیرہ) میں کوئی فرق نہ آئے بلکہ جیسے پہلے تھا اسی حال پر رہے اور تمام لوگوں کو برابر سمجھے۔ ٭…تیسری نشانی(third sign)یہ ہے کہ وہ یہ خواہش (desire)نہ رکھے کہ لوگ راستے اور بازار میں اس کے پیچھے پیچھے چلیں۔ (اِحیاءُ الْعُلوم، ج۳،ص۹۶۸مُلخصاً)

اخلاص سے دور کرنے والی کچھ چیزیں:
ہر وہ بات کہ جو ریاکاری کی طرف لے جاتی ہو، اخلاص سے دور کرنے والی ہے(1) مشہور ہونے کی خواہش (desire) (2) تعریف سننے کا شوق(3)لوگوں سے مال ملنے کی سوچ (4) یہ ذہن ہونا کہ ہر شخص میری عزّت کرے۔وغیرہ

اخلاص کے کچھ فائدے:
اخلاص، اللہ پاک سے محبّت بڑھانے کا سبب(reason) ہےاخلاص ، آخرت کی تیاری میں مددگار ہےاخلاص،دنیا کی محبّت کو کم کرتا ہےاخلاص،دل اور زبان کے فرق (difference)کوختم کرتا ہے۔ وغیرہ

اخلاص حاصل کرنے کے کچھ طریقے:
اپنی نیّت اچھی کریں ، کیونکہ جب تک نیک کام کرنے کی نیّت صحیح نہیں ہوگی اخلاص حاصل نہیں ہوسکتا کوئی بھی نیک کام ،دنیا کافائدہ حاصل کرنے کے لئے نہ کیجئے اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کے فائدے اور اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے آخرت میں ہونے والے نقصانات پر غور کیجئے عاشقانِ رسول کے ساتھ رہا کریں اور ایسی کتابوں کو پڑھیں کہ جن میں اخلاص کے حوالےسے بزرگوں کی باتیں اور حکایتیں ہوں کوئی بھی کام کرنا ہو بس یہ بات ذہن میں ہو کہ ’’ اللہ پاک دیکھ رہا ہے‘‘۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص ۲۹۔۳۳مُلخصاً) اپنا عمل جاری رکھے، جیسا کہ امام غزالی(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) نے فرمایا: بندہ اخلاص کے ساتھ عمل شروع کرے لیکن ریاکاری حملہ آور (یعنی شیطان ریکاری کا وسوسہ ڈالتا )ہو تو اسے چاہئے کہ عمل نہ چھوڑے بلکہ زبردستی(forceکر کہ) نفس (یعنی اپنے دل)کو اخلاص کی طرف لائے یہاں تک کہ عمل پورا ہو جائے کیونکہ شیطان پہلے تمھیں عمل چھوڑنے کی طرف بلائے گا اگر تم نے اس کی بات نہ مانی ، تو وہ تمہیں ریاکاری کی طرف بلائے گا اور اگر تم نےیہ بات بھی نہ مانی تو وہ تم سے کہے گا: یہ نیکی خالص(یعنی اللہ پاک کے لیے) نہیں ہے تم ریاکار ہو اور تمہاری محنت ضائع(waste) ہو رہی ہے،لہٰذا ایسے عمل کا کیا فائدہ جس میں اخلاص ہی نہ ہو؟یہاں تک کہ وہ تمہیں عمل چھوڑنے کا کہتا رہے گا اب اگر تم نےعمل چھوڑ دیا تو شیطان کامیاب ہو جائے گی۔ (اِحیاءُ الْعُلوم، ج۳،ص۹۵۰،۹۵ٍ۱ مُلتقاً)

نوٹ:
: اخلاص کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’نجات دلانے والے اعمال کی معلومات‘‘ صفحہ ۲۵ تا ۳۳ پڑھ لیجیے۔ ( )

11 ’’ مخلوق(creatures) پر بھروسہ(trust) ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سواکوئی تکلیف کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اس کے فضل کو کوئی رد کرنے والا نہیں۔ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے اور وہی بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔)ترجمۂ کنزُالعِرفان)(پ ۷،سورۃ الانعام،آیت۱۷ (علماء فرماتے ہیں: (اس آیت میں) یہ فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ پاک کسی کو نفع پہنچانا چ

(10) جواب دیجئے:

س۱) اخلاص کسے کہتے ہیں؟

س۲) اخلاص کی عادت کیسے بنے؟

چاہے تو کوئی اسے روک کرنقصان نہیں پہنچا سکتا اور جب اللہ پاک کسی کے نقصان کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس نقصان کو ٹال کر نفع نہیں پہنچا سکتا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۳۳۸)

ایک روایت:‏
اللہ پاک نے حضرتِ داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر وحی نازل فرمائی: اے داؤد! میرا ایسا کوئی بندہ نہیں جو مخلوق کو چھوڑ کر میری رحمت کی طرف توجّہ (attention)کرتا ہے اور زمین و آسمان(والے) اس پر سختیاں لاتے ہیں مگر میں اس کی سب تکلیفیں دور کردیتا ہوں اور اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہوں۔(مکاشفۃ القلوب ص ۵۰۵)

ایک روایت:‏
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے کچھ اس طرح کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اپنی تلوار شریف (sword)ایک درخت پر لٹکا کر، اُس کے نیچے آرام فرما رہے تھے تو ایک گاؤں والاآیا ، اُ س نے وہ تلوار لے لی اورسرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کہنے لگا کہ كيا آپ مجھ سے نہیں ڈرتے۔فرمایا: نہیں ۔تو کہنے لگا مجھ سے آپ کو کون بچائے گا ؟تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: "اللہ " پھر صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نے اُسے آواز دی تو تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی۔(مسلم ،ج١، ص ٥٧٦، مُلخصاً، مطبوعہ بیروت )علماء فرماتے ہیں :مخلوق سے بالکل خوف نہ ہونااور ایسی صورتِ حال(situation) میں بھی دل کا پریشان نہ ہونا اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا سکون اور اطمنان(satisfaction) سے بتا دینا کہ مجھے بچانے والا"اللہ پاک" ہے، یہ توکُّل یعنی اللہ پاک پر بھروسے (trust) کا وہ درجہ(level) ہے کہ جو ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ملا۔(مراۃ ج۷،ص ۱۴۶ ماخوذاً)

مخلوق (creatures)پر بھروسہ (trust) کا کیا مطلب ہے؟:‏‏
اللہ پاک کو چھو ڑ کر صرف مخلوق پر بھروسہ کرلینا یا اسباب (مثلاً کھیت ، پھل وغیرہ)کو پیدا کرنے والے ’’ربّ ‘‘کو چھوڑ کرصرف ’’اسباب‘‘ (مثلاً زندہ رہنے کے لیے جو چیزیں چاہیے، اُن)پر بھروسہ(trust) کرلینا ،اعتماد خلق (یعنی مخلوق پر بھروسہ کرنا)کہلاتا ہے۔ ہرمسلمان کو اس سے بچنا ضروری ہے۔

مخلوق پر بھروسہ کرنے کی ایک مثال:‏‏‏
اپنی ترقی ( grading وغیرہ)کے لیے،صرف اپنے سیٹھ یا اپنی کوششوں کی طرف نظر رکھنا اور اللہ پاک کی طرف توجّہ(attention) نہ دینا اور نہ اللہ پاک سے دعا کرنا۔

مخلوق پر بھروسہ کرنے کی ایک نشانی(sign):‏‏‏‏
ظاہری اسباب (یعنی کوشش وغیرہ) کو مکمل کر نے کے بعد دل کا بالکل مطمئن (satisfied)ہو جانا کہ نتیجہ (result)درست ہی آئے گا کہ میں نے سب کام پورے کر لیے۔

مخلوق (creatures)پر بھروسہ(trust) کرنے کا نقصان:‏‏‏‏‏
بندے کی توجّہ(attention) اللہ پاک سے ہٹ کر مخلوق کی طرف ہو جاتی ہے۔

مخلوق پر بھروسہ کرنےکی تفصیل( یعنی وضاحت ۔explanation ):‏‏‏‏‏
اللہ پاک کی طرف سے توجّہ(attention) ہٹا کر، مخلوق یا اسباب پر بھروسہ (trust) کرلینا بہت ہی بُرا اور ہلاکت (یعنی تباہی) میں ڈالنے والا عمل ہے۔ ہرمسلمان کو اس سے بچنا ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں :اللہ پاک پر بھروسہ کرنا ’’ فرض‘‘ ہے۔ اس کا حکم خود اللہ پاک نے دیا:(ترجمہTranslation): ’’ اللہ ہی پر تَوکُّل (یعنی بھروسہ) کرو اگر مسلمان ہو‘‘۔ (پ۶، المائدۃ: ۲۳) یہ بات یاد رہے کہ تَوکُّل کے معنی یہ نہیں کہ اسباب(مثلاً کوشش وغیرہ) کو چھوڑ کر بیٹھا رہے بلکہ ان اسباب کو اصل نہ سمجھے(یعنی یہ نہ سمجھے کہ کوشش کر لی تو اب میں کامیاب ہو ہی جاؤنگا) اور نہ ہی ان پر بھروسہ (trust) کرے(بلکہ اللہ پاک پر بھروسہ کرے کہ کامیابی دینا ، اللہ پاک ہی کا کام ہے )۔(فضائل دعا ص۲۸۷،۲۸۸ ماخوذاً ،ملتقتطاً)

مخلوق پر بھروسہ کرنے کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏‏‏‏‏‏
(1) ہر کسی سے فوراً اُمید (hope)کر لینا (2) ہر اختیار(authority) رکھنے والے ہی کو سب کچھ سمجھنا(3) اپنی خواہش(desire) پوری کرنے کے لیے ، ہر کوشش کے لیے تیار رہنا(4) اللہ پاک پر بھروسے(trust) کی کمی ۔ وغیرہ

مخلوق (creatures)پر بھروسہ(trust) چھوڑنے کے کچھ طریقے:‏‏‏‏‏‏‏
ساری مخلوق ہماری طرح ہےکیونکہ ہرایک کو اللہ پاک ہی نے پیدا فرمایا ہے اور اللہ پاک نے اپنے کرم سے زمین پر چلنے والی ہر مخلوق (all creatures)کو رزق دینے کا وعدہ فرمایا ہےاور جب اس بات پر مکمل یقین (believe)ہو جائے گا تو انسان مخلوق کی طرف توجّہ (attention) کرنا چھوڑ دے گا۔(احیاء العلوم ج۴، ص۷۳۲ ماخوذاً) جب یہ ذہن بن جائے گا کہ اللہ پاک کی رحمت بہت بڑی ہے تو بندے کی توجّہ(attention) اللہ پاک ہی کی طرف رہےگی ۔(احیاء العلوم ج۴، ص۷۷۶ ماخوذاً) مخلوق پر بھروسہ(trust) بےکار ہے کہ اللہ پاک کے فیصلے اور حکم کو کوئی بھی روک نہیں سکتاہے بلکہ ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے ۔ جس چیزکا تم تک پہنچنالکھا ہے ایسا نہیں کہ وہ تم تک نہ پہنچے اورجس چیز کا تم تک نہ پہنچنالکھا ہے ایسا نہیں کہ وہ تم تک پہنچ جائے۔(احیاء العلوم ج۴، ص ۷۷۸ ، مُلخصاً) حضرت شقیق بلخی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے شاگرد حضرت حاتمِ اصم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے استاذ سےعرض کی:میں نے لوگوں کو دیکھا کہ مخلوق(creatures) پر بھروسا (trust) کئے ہوئے ہیں ، کوئی اپنی زمین پر، کوئی اپنے کاروبار پر، کوئی اپنے فن (art)پر، کوئی اپنی صحت پر یعنی ہر مخلوق اپنی طرح کی مخلوق پر بھروسا کئے ہوئے ہے تو میں نے اللہ پاک کے اس فرمان کی طرف نظر کی) ترجمۂ کنزالایمان(:’’ اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے(پ۲۸، الطلاق:۳)۔لہٰذا میں نے اللّٰہ پاک پر توَکُّل (trust)کرلیا اور وہی مجھے کافی ہے‘‘۔ (احیاء العلوم ج۱، ص۲۲۸)

نوٹ: ‏‏‏‏‏‏‏
توَکُّل کی معلومات کے لیے، امام مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن مُحَمَّد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی کتاب ”احیاء العلوم جلد۴“ کو پڑھ لیجئے۔

12 ’’دینی معاملات میں بے جا نرمی‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے تھے ‘‘۔ (پ۶، المائدۃ: ۷۸)( ترجمہ کنز العرفان)علماءفرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ برائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور گناہ سے منع نہ کرنا سخت گناہ ہے ۔( صراط الجنان۲/۴۷۹،مُلخصاً)

اَحادیثِ مُبارکہ :
(1)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعے روکے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، ص ۴۴، الحدیث: ۷۸(۴۹))

(2)حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں ہم نے اللّٰہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بیعت کی ( یعنی وعدہ کیا،جس میں یہ بھی ہے کہ) ہم جہاں بھی ہوں حق ہی کہیں، اﷲ پاک کے بارے میں کسی ملامت کرنے (یعنی بُرا بھلا کہنے)والے کی ملامت سے نہ ڈریں (بخاری،ج۹، ص ۷۷، مُلتقطاً، مطبوعہ بیروت )علماء فرماتے ہیں :یعنی ہم مداہنت فی الدین (دین کے معاملے میں بے جا نرمی کہ اسلام اس طرح کی نرمی

(11) جواب دیجئے:

س۱) مخلوق پر بھروسہ(trust) کسے کہتے ہیں؟

س۲) مخلوق پر بھروسہ (trust) سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

کی اجازت نہیں دیتا) نہ کرینگے ہر چھوٹے بڑے کے سامنے ہر جگہ ہر وقت سچی بات کہیں گے ہر مسلمان اپنی طاقت کے مطابق مُبَلّغ (یعنی نیکی کی دعوت دینے والا اور بُرائی سے منع کرنے والا)ہے۔(مراۃ جلد۵،ص۵۶۷) (3)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک نے تمہارے درميان اخلاق کو اسی طرح تقسيم (distribute)کر ديا ہے جس طرح تمہارا رزق ( sustenance ۔روزی)تقسيم فرمايا ہے اور اللہ پاک جس سے محبّت فرماتا ہے اسے بھی دنيا ديتا ہے اور جس سے محبت نہيں کرتا اسے بھی ديتا ہے، مگر دين صرف اُسی کو دیتا ہے جس سے وہ محبّت فرماتا ہے اور اللہ پاک نےجسے دين عطا فرمایا گويا کہ اُس(ربّ) نے اِس(بندے) سے محّبت فرمائی۔ اللہ پاک برائی کو برائی سے نہيں مٹاتا مگر برائی کو اچھائی سے مٹا ديتا ہے، بے شک گندگی گندگی کو نہيں مٹاتی۔(المسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث: ۳۶۷۲ ، ج۲ ، ص ۳۳ مُلتقظاً)

مُداہنت کسے کہتے ہیں؟:‏
مداہنت کا ایک معنیٰ ہے پلپلا پن یعنی ’’نرم ہو جانا‘‘۔ (مراۃ ج۵،ص۵۷۲) اور شریعت میں اس کا معنی ٰ ہے:دین کے معاملے میں بے جا نرمی کہ اسلام جس نرمی کی اجازت نہیں دیتا۔اسی طرح ناجائزاورگناہ والے کام دیکھنے کے بعد(روکنےکی طاقت ہونے کےباوجود ) اسے نہ روکنا اور کسی دینی معاملے میں کمزوری و کم ہمتی(low confidence) کرتے ہوئے، سامنے والے کی مدد نہ کرنا یا کسی بھی دنیوی وجہ سے دینی معاملے میں نرمی یا خاموشی اختیار (adopt)کرنا’’مُدَاہَنَت ‘‘ہے۔) الحدیقۃ الندیۃ، ج۲، ص۱۵۴

تفصیل( یعنی وضاحت ۔explanation ):‏
اگر اپنے دین کی سلامتی اور مسلمان بھائی کی اصلاح کی وجہ سے معاف کیا جائے تو اسے’’ مُدارات ‘‘کہتے ہیں اور اگر دنیا حاصل کرنے، نفسانی(یعنی دل میں پیدا ہونے والی ) خواہشات(wishes) کو پورا کرنے کے لئے (طاقت ہونے کے باوجود ، بُرائ کے خلاف) خاموش رہنے کو ’’مُدَاہَنَت ‘‘کہتے ہیں ۔ (احیاء العلوم، جلد ۲، ص ۶۶۱ مُلخصاً)

مُداہنت کی کچھ مثالیں:‏‏
جو شخص نماز کے مسائل نہ جانتا ہو یاقرآن درست پڑھنا نہ آتا ہو، ایسے کو نماز میں امامت کے لیے کھڑا کر دینے کےبارے میں اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :ایسے شخص کو نماز میں امام کرنا حالانکہ نماز توعمادِ اسلام (یعنی اسلام کا ستون)اورافضلِ اعمال (بہترین نیکی)ہے، (مسائل نہ جانے والے شخص کو اتنی اہم دینی جگہ پر کھڑا کرنا اور امام بنانا)یقیناً بے احتیاطی(careless کام) اورحُکمِ شرعی( یعنی دین کے معاملے)میں مداہنت ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۶،ص۴۴۶) اگر کسی کو گھٹنا(knee) کھولے ہوئے دیکھے، تو نرمی کیساتھ منع کرے، اگر باز نہ آئے(اور گھٹنے کو نہ چھپائے)، تو اس سے جھگڑا نہ کرے اور اگر ران (thigh) کھولے ہوئے ہے، تو سختی سے منع کرے اور باز نہ آیا(یعنی ران نہ چھپائے)، تب بھی اُسے مارنے کی اجازت نہیں ۔(بہار شریعت جلد۱،ح۳،ص۴۸۲، مسئلہ ۲۹مُلخصاً)

مُداہنت جہنّم میں لے جانے والا کام ہے:‏‏
مُدَاہَنَت (یعنی برائی کو دیکھ کر طاقت کے باوجود نہ روکنا یا خاموش رہنا یاکسی دنیوی فائدے کی وجہ سے دین کے حکم پر عمل کرنے میں نرمی کرنا)حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق التاسع و الاربعون،ج۲،ص۱۵۵) جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے کی طاقت رکھتا ہو(یعنی مضبوط خیال ہو کہ بُرائی سے منع کرونگا تو سامنے والا گناہ چھوڑ دے گا تو)وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین (اور لازم) ہوجاتا ہے۔(صراط الجنان۲/ ۲۳ مُلخصاً) گناہ سے روکنے میں شریعت کی حدود(boundaries) نہیں توڑی جائے گی (مثلاً گناہ سے روکنے والے کو غیر شرعی انداز سے مارنا)۔ اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فِقہ کا ایک اُصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: گناہ کا اِزالہ گناہ سے نہیں ہوتا۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۳، ص ۶۳۹) مُفتِی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’ بُرائی کو بدلنے کے لیے ہر طبقے(all classes) کو اس کی طاقت کے مطابق ذمہ داری(responsibility) دی گئی ہےکیونکہ اسلام میں کسی بھی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی کام کولازم نہیں کیا۔ حکمران(ruler) ، اساتذہ (teachers)، والدین وغیرہ جو اپنے ماتحتوں(subordinates) کو کنٹرول کرسکتے ہیں وہ قانون پر سختی سے عمل کراکے اور مخالفت (against کرنے)کی صورت میں سزا دے کر برائی کو ختم کرسکتے ہیں۔ عام مسلمان جو کچھ قدرت نہیں رکھتاوہ دل سے اس برائی کو برا سمجھے ، اگرچہ یہ ایمان کا کمزور ترین مرتبہ ہے لیکن جب خود برائی کے قریب نہیں جائے گا تو اس طرح بھی معاشرے(society) کے بہت سارے لوگ گناہوں سے بچ جائیں گے۔(مراٰۃ المناجیح ج۶ ص۵۰۲ ، مکتبہ اسلامیہ ،مُلخصاً) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :خالق (یعنی اللہ پاک)کی نافرمانی میں مخلوق (creatures) کی اطاعت (یعنی حکم ماننا) جائز نہیں۔ (مسند امام احمد بن حنبل عن علی ۱/۱۲۹) اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جو اس حدیث کی وضاحت (explanation) فرمائی، اُس سے معلوم ہوتا ہے:(1)فرض، واجب اور سنّت مؤکدّہ کو پورا کیا جائے گا، کسی کے کہنے پر نہیں چھوڑیں گے(2) کسی کے کہنے پر کوئی گناہ نہ کیا جائے(3) اگر برادری(community) کی کوئی ایسی رسم(custom) ہے کہ جس کی وجہ سے مستحب (یعنی نفلی کام) چھوٹ رہا ہوتو لوگوں کے دل خوش کرنے کے لیے مستحب (صرف نفلی کام) چھوڑا جائے(فتاوی رضویہ جلد۴،ص۵۲۸ماخوذاً) (مثلاً نکاح مسجد میں ہونا مستحب ہے(بہارِ شریعت جلد۱، ح ۷ص۵،مسئلہ۹) لیکن برادری (community)کی رسم (custom) شادی ہال میں نکاح کروانے کی ہےتو شادی ہال ہی میں نکاح رکھا جائے) ۔

مُداہنت کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏‏‏
(1) جہالت(2)دوست اوررشتہ دار وغیرہ کی بے جا (شریعت کے حکم سے ہٹ کر)محبّت(3) بُرے دوستوں کے ساتھ رہنا(4) دنیوی فائدہ۔وغیرہ

دینی معاملات میں بے جا نرمی سے بچنے کے کچھ طریقے:‏‏‏‏
اللہ پاک کی محبّت ایسی ہونا کہ مخلوق کی محبّت، اللہ پاک کی اطاعت(یعنی حکم ماننے) میں رکاوٹ نہ بنے ۔ اس کے لیے اللہ پاک کے احسانات یاد کرے اور یہ بھی سوچے کہ یہ دوست اور رشتہ دار سب اللہ پاک نے دیے ہیں نیز یہ بھی ذہن بنائے کہ اگر میں نے طاقت ہونے کے باوجود ان کو گناہوں سے نہ روکا اور کل قیامت کے دن انہی دوستوں یا رشتہ داروں نے میری شکایت اللہ پاک سے کی تو میرا کیا بنے گا؟ بُرےدوستوں کے ساتھ رہنے سے بندہ بُرا ہی بنان جاتا ہے،اسی طرح دین کے معاملات میں غیر شرعی نرمی کرنے والوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے سے بندہ ، مُدَاہَنَت کرنے والا بن جاتا ہے۔ا س کا ایک ہی علاج ہے کہ ایسے لوگوں کوچھوڑ دےختم ہونے والی دنیا کے تھوڑے سے فائدے کے لیے، باقی رہنے والی آخرت کا بہت بڑا نقصان اُٹھانا، عقلمند شخص(wise man) کا کام نہیں لھذا اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے خود بھی گناہوں سے بچے اور طاقت کے مطابق دوسروں کو بھی بچائے۔

نوٹ: ‏‏‏‏
مُدَاہَنَت کی معلومات حاصل کرنے کےلئے ”نجات دلانے والے اعمال کی معلومات“ کو پڑھ لیجئے۔

13 ’’نیّت ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی ‘‘ ۔ (پ۱۵، بنی اسرائیل: ۱۹) (ترجمہ کنزالعرفان)علماء فرماتے ہیں:اس آیت سے معلوم ہوا کہ عمل قبول ہونے کے

(12) جواب دیجئے:

س۱) مداہنت کہتے ہیں؟

س۲) مداہنت سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

لئے تین (3)چیزیں درکار (required) ہیں : ایک تو‏طالب آخرت ہونا یعنی نیّت نیک ہونا ، دوسرا عمل کو اس کے حقوق (یعنی شریعت کے بتائے ہوئےحکموں )کے مطابق پورا کرنا، ‏تیسری ایمان جو سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ (خزائن العرفان، پ۱۵، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۹،مُلخصاً)

فرامینِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏
(۱) اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی وہ نیّت کرے(یعنی ہمارے کاموں میں ثواب ملنے یا گناہ ملنے کی بنیاد(base)نیّت ہے کہ جیسی نیّت ہوگی ، ویسا ہی نتیجہ(result) ہوگا یعنی نیک و جائز کام ثواب کی نیّت سے کرنے پرثواب ملے گا اور گناہ کی نیّت سے کرنے پرگناہ ملے گا )۔(بخاری ، کتاب بدء الوحی، ۱ / ۶، حدیث: ۱ مع نزھۃ القاری، ج ۱، ص۲۲۷، مطبوعہ لاہور، ماخوذاً)

‏(۲)مؤمن کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ (معجم کبیر، ۶ / ۱۸۵، حدیث: ۵۹۴۲)

‏‏(۳) اچھی نیّت بندے کو جنّت میں داخل کردیتی ہے۔ ( مسند الفردوس، ۴ / ۳۰۵، حدیث: ۶۸۹۵)

نیّت کسے کہتے ہیں؟:‏‏
نیّت کے لفظی معنیٰ دل کا پُختہ (پکا) اِرادہ(intention) ہے اور شَرعاًعبادت کے اِرادے کو نیّت کہاجاتاہے۔(نزہۃ القاری ، ۱ / ۲۲۴ ملتقطاً) کسی بھی نیک کام میں اچّھی نیّت کا مطلب یہ ہے کہ جو عمل کیا جا رہا ہے دل کی توجّہ(attention) اُس کام کی طرف ہو اور وہ عمل اللہ پاک کی رِضاکیلئے کیا جا رہا ہو ۔ (ثواب بڑھانے کے نسخے ص۳مُلخصاً) لیکن اس کے ساتھ یہ یاد رہے کہ بَہُت سے اعمال ایسے ہیں کہ جن میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ صرف عادت کے طور پر کر رہے ہیں لیکن اِس میں بھی ’’عبادت کی نیَّت‘‘ موجود ہوتی ہے اور اس کا اِحساس اِس لئے کم ہو تا ہے کہ شروع میں نیّت پرجس طرح توجُّہ (attention)دی جاتی ہے وہ باربار عمل کرنے کی وجہ سے برقرار نہیں رہتی۔ہاں اگر بِالکل ہی نیَّت کچھ نہ ہو تواب اُس عمل پر کوئی ثواب نہیں۔ (نیکی کی دعوت ص۱۱۴مُلخصاً)

نیّت کی تفصیل ( یعنی وضاحت ۔explanation )اور کچھ مثالیں:‏‏‏
اعمال تین(3) طرح کے ہوتے ہیں(۱)نیک : مثلاًنماز، روزہ ، حج،زکوۃ، علمِ دین حاصل کرنا ، صدقہ دینا، قرآن پاک پڑھنا،صبر ، حسن اخلاق ، توبہ کرنا، ذکر کرنا، درود پاک‏ پڑھنا وغیرہ(۲)گناہ: مثلاً شراب پینا،جوا کھیلنا،سود لینا،ریاکاری کرنا، غیبت کرنا،گانے باجے سننا وغیرہ‏‏(۳)مُباح: اُس جائز کام کو بولتے ہیں جس کا کرنا یا نہ کرنا (دونوں)برابر ہو یعنی ایسا کام کرنے سے نہ ثواب ملے اور نہ گناہ ہو۔مَثَلًا کھانا پینا،سونا،ٹہلنا(walk کرنا)،دولت جمع کرنا،تحفہ دینا،اچھے لباس پہننا وغیرہ کام مُباح ہیں۔(نیکی کی دعوت ص۱۰۹مُلخصاً)

(۱)نیک کام اور نیّت: ‏‏‏
بِغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی نیک کام کا ثواب نہیں ملتا نیک کام میںجتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ(ثواب کے نسخے ص۳) بیشک جو علم نیت جانتا ہے ایک کام میں کئی نیکیاں حاصل کرسکتا ہے مثلاً جب نماز کے لئے مسجد کو جائے اور صرف یہی نیّت ہے کہ نماز پڑھوں گا تو بیشک اُس کا یہ چلنا اچھا ہے، ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جائے گی اور دُوسرے پر گناہ مٹایا جائےگا مگر عالمِ نیت (یعنی نیّت کا علم جاننے والا)اس ایک ہی کام میں کئی نیّتیں کرسکتا ہے(فتاوٰی رضویہ ج۵، ص ۶۷۳مُلخصاً) (مثلاً جو چالیس(40) نیّتیں کر کے نماز پڑھنے مسجد کو گیا تو وہ) صرف نماز کے لئے نہیں گیا بلکہ ان چالیس نیک کاموں کے لئے گیا تو گویا اُس کا یہ چلنا چالیس(40) نیک کاموں کی طرف چلنا ہے اور ہر قدم ،چالیس قدم کے برابر ہو گا، پہلے (جب ایک(1) نیّت کی تھی تو) ہر قدم پر ایک نیکی ملتی اور اب چالیس (نیک کاموں کی نیّت سے گیا تو اب ہر قدم پر چالیس )نیکیاں ملیں گی(فتاوٰی رضویہ ج۵، ص ۶۷۵) نیک کام ،اگر گناہ کی نیّت سے کیا جائے تو کرنے والا گناہ گار ہوگا(نیکی کی دعوت ص۶۶ ماخوذاً)مثال: زکاۃ علانیہ اور ظاہر طور پردینا افضل (یعنی زیادہ ثواب کا کام)ہے کہ دوسروں کے لیے ترغیب (motivation) کا سبب(reason) ہے اور اگر ریا کاری کی وجہ سے سب کے سامنے دی تو اب ثواب ختم ہو گیابلکہ اب یہ شخص گناہ گار اورعذاب کا حقدار (entitled) ہوا(بہارِ شریعت ج۱، ح۵،ص،۸۹۰ مسئلہ۷۵مُلخصاً) مسجد جانے کی نیّتیں٭ نمازکے لئے جاتا ہوں ٭ مُؤذِّن کی دعوت (یعنی نما ز کیلئے بلانے کو)قَبول کرتا ہوں ٭جومسلمان راستے میں ملا اُسے سلام کروں گا٭سلام کرنے والے کو جواب دوں گا٭ ہو سکا تو کم از کم ایک مسلمان کورغبت(motivation) دلا کر نماز کیلئے ساتھ لیتا جاؤں گا٭مسجدکی زیارت کروں گا٭مسجدکے اندر آتے وَقت سیدھے اور باہَر نکلتے وقت اُلٹے پاؤں کو نکال کر سُنّت پر عمل کروں گا٭ داخِل ہونے اور باہَر نکلنے کی سنّت دعائیں (اوّل آخِر دُرُودشریف کے ساتھ) پڑھوں گا ٭اِعتِکاف کروں گا ( اِس اِعتِکاف کے لئے روزہ شرط نہیں اوریہ ایک لمحے(moment) کا بھی ہوسکتا ہے)٭مسلمانوں سے سلام و مُصافَحہ کروں گا ٭ اَمْـــرٌ بِالْمَعْرُوْف وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر (یعنی نیکی کا حکم اور بُرائی سے منع ) کروں گا٭با جماعت نماز میں مسلمانوں کے قریب جانا ہوگا تو اُن کی بَرَکتیں حاصِل کروں گا ۔(ثواب کے نسخے ص۶،۷) یاد رہے!عبادت میں نیّت ضروری ہے۔بلکہ فرض نماز میں” فرض “کی نیّت بھی ضروری ہے یہاں تک کہ کونسی فرض نماز ہے؟ ظہر یا عصر؟ اس کی نیّت بھی ضروری ہے۔(بہارِ شریعت حصّہ ۳، صَفْحَہ۴۹۳، مسئلہ۸۶،۸۷ ماخوذاً) واجب نماز میں واجب کی نیّت کرنا بھی ضروری ہے اور یہ نیّت بھی کرنی ہوگی کہ کونسا واجب ہے؟ مثلاً عید الاضحیٰ میں قربانی والی عید اور عید الفطر میں میٹھی عید کی نیّت کرنا(حاشیۃ الطحطاوی ص۲۲۲ ماخوذاً)

‏(۲)گناہ اور نیّت ‏‏‏
گناہ کسی بھی نیّت سے کیا جائے، گناہ تو گناہ ہےاور گناہ عبادت کی نیّت سے عبادت نہیں بن جاتا(لباب الاحیاءص۳۶۶مُلخصاً) گناہ پر ثواب کی اُمّید(hope) اور زیادہ سخت بلکہ بہت سخت جُرم ہے۔(فتاویٰ رضویہ ج۱۰، ص۱۹۳، مُلخصاً)حرام وناجائزکام سے پہلے بِسْمِ اللہ شریف ہرگز،ہرگز،ہرگزنہ پڑھی جائے، حرامِ قَطعی (یعنی جو یقینی طور پر حرام کام ہو، اُس) سے پہلے بِسْمِ اللہ پڑھنا کفر ہے جیسا کہ ''فتاوٰی عالمگیری ''میں ہے:شراب پیتے وَقْت،زِناکرتے وَقْت یا جُواکھیلتے وَقْت بِسْمِ اللہ کہنا کُفْر ہے۔ (فتاوٰی عالَمگیری ج ۲ ص ۳ ۲۷)(غیبت کی تباہ کاریاں ص۱۳۱ مُلخصاً) گناہ کر نے کا (intention) ارادہ تھا لیکن گناہ نہ کیا تو اب گناہ چھوڑنے پر نیکی اسی صورت میں ملتی ہے جبکہ اللہ پاک کے خوف(یعنی ڈر) کی وجہ سے گناہ چھوڑا ہو۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے گناہ چھوڑا تواب اس گناہ چھوڑنے پر نیکی نہیں ملی گی ۔ (ماخوذاز تفہیم البخاری ج۹، ص ۷۸۲) اگر گناہ کے کام کا بالکل پکا ارادہ کرلیا جس کو عّزم کہتے ہیں تو یہ بھی ایک گناہ ہے چاہے جس گناہ کا عزّم کیا تھا بعد میں وہ گناہ نہ بھی کرے۔(بہارِ شریعت حصّہ ۱۶، صَفْحَہ۲۵۸ ، مُلخصاً) مثال:فلم دیکھنے کا پکا ارادہ تھا، کوشش بھی کی مگر کوئی مسئلہ ہوگیا (مثلا ٹی وی خراب ہو گیا یا موبائل پر دیکھنی تھی مگر نیٹ پیکج ختم ہوگیا، اس لیے نہیں دیکھ پایا) تو اب بھی گناہ گار ہوگا جس نے حرام مال کو اپنا مال سمجھ کر کےرِضا اور رغبت(یعنی خوشی) کے ساتھ ثواب کی نیّت سے خیرات (یعنی صدقہ) کیا اُس کو ہرگز ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس طرح صدقہ کرنے کی کچھ صورَتوں(cases) کو عُلماءکرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ نے کفر لکھا ہے۔ (فتاوٰی رضویہ جلد ۱۹، صَفْحَہ ۶۶۱،مُلخصاً) یاد رہے! کچھ کُفر ایسے ہیں کہ اُ س میں نیّت کی ضرورت نہیں، وہ کُفر ہی ہیں لیکن کچھ جُملے (sentences)ایسے ہیں کہ اُس کے کہنے والے کی نیّت معلوم کرنی ہوگی اس لیے کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے اسلام کے خلاف کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔

‏(۳)مُباح اور نیّت ‏‏‏
مباح کام کرنا یا نہ کرنابرابر ہوتا ہے یعنی ایسا کام کرنے سے نہ ثواب ملتا ہے اور نہ گناہ ہوتا ہے بِغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی مُباح کام کا ثواب نہیں ملتامُباح کام میںجتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہہرمباح کام،اچھی نّیت سے مستحب اور ثواب والا ہو جاتاہے (فتاوی رضویہ، ۸ / ۴۵۲ مُلخصاً) مُباح کام اگر بُرى نىّت سے کیا اور وہ بُرى نىّت گناہوں بھرى ہے تو گُناہ مِلے گا۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلسنّت قسط۲۱۵ صَفْحَہ۱۹) مثال: کھانا پینا، سونا اگر عبادات پر طاقت حاصل کرنے کی نیّت سے ہوں تو اس کھانے پینے کا بھی ثواب ملے گا(فتاوی، رضویہ، ۷ / ۱۸۹ ماخوذاً) کھانے میں اور کئی نیّتیں بھی کی جاسکتی ہیں ٭کھانے سے پہلے اور بعد میں کھانے کا وُضو کروں گا (یعنی دونوں ہاتھ پہنچو ں تک دھوؤں گا ) ٭کھانے کے ذَرِیعے عبادت ا ور حسبِ ضَرورت حلال کمانے کیلئے بھاگ دوڑ پر طاقت حاصِل کروں گا٭ زمین پر بچھے ہوئے دسترخوان پر سنّت کے مطابِق بیٹھ کر بِسْمِ اللہ اور دیگر دُعائیں پڑھ کر تین انگلیوں سے چھوٹا نوالا (یعنی لقمہ)لے کراچّھی طرح چبا (chew well)کر کھاؤں گا٭کھانے کے دَوران(during meals) ہر لقمے پر یَا واجِدُ اور بِسْمِ اللہ نیز ہر لقمہ کھا لینے کے بعداَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہوں گا ٭گرے ہوئے دانے وغیرہ دسترخوان سے اٹھا کر کھا لوں گا٭آخِر میں سنّت پوری کرنے کی نیّت سے برتن اور تین(3) تین بار انگلیاں چاٹوں گا۔(ثواب کے نسخے ص۹،۱۰)اگر کھانا اس نیّت سےکھایا کہ کھانا کھا کر فریش ہو جاؤ ں گا پھر فلم دیکھوں گا تو اب اس نیّت سے کھانا کھانا بھی گناہ ہوگا۔

اچھی نیّتیں کرنے کاذہن بنانے کے لیے:‏‏‏‏
‏(1)نیّتوں کی اہمیت سمجھیں : حضرت یحییٰ بن کثیر رَحمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : نیّت کا علم حاصل کرو کیوں کہ نیّت کی اہمیّت(importance) عمل سے کئی گنا(many times) زیادہ ہے۔ (حلیۃ الاولیاء، یحی بن کثیر، ۳ / ۸۲، رقم:۳۲۵۷) حضرت ابنِ مبارَک رَحمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے فرمایا:کئی چھوٹے عمل ایسے ہیں جن کو نیّت بڑا عمل بنا دیتی ہے۔(قُوتُ القلُوب ج ۲ ص۲۷۵) کام ایک ہی کرنا ہے ،صِرْف نیّت کرلینے سے جب ایک نیک کام کا ثواب دس(10) نیک کاموں کے برابرہو جا تا ہے تو ایک ہی نیّت کرنا کیسی حماقت اور بِلاوجہ اپنا نقصان ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص ۱۵۷ مُلخصاً) مناسب یہی ہے کہ بندہ ہرچیز میں کچھ نہ کچھ نیّت کرے یہاں تک کہ کھانے، پینے، پہننے، سونے اور‏نکاح میں بھی نیّت کرے کیوں کہ ان تما م کاموں کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔اگر نیّت اللہ پاک کی رضاکی ہو تو یہ ہی عمل نیکیوں میں ہوجائےگا۔(قوت القلوب، الفصل الثامن فی الاخلاص، ۲ / ۲۶۷، مُلخصاً)

‏(2)عالمِ نیّت کی بیان کردہ نیّتوں کو یا د کر لیں:شیخِ طریقت،عالمِ نیّت، اَمِیْرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ”ثواب بڑھانے کے نسخے“ کو یاد کر لیجئے تاکہ ہم جیسے بھی اچھی نیّتیں کر سکیں کہ عام طور پر صحیح نیّت ہر کوئ نہیں کر سکتا۔

(3) صبح صبح اچھی اچھی نیّتیں کر لیجئے: آج کا دن آنکھ، کان، زبان اورجسم کے ہرحصّے کو گناہوں اور فُضول کاموں سے بچاتے ہوئے نیکیوں میں گزاروں گا، اِنْ شَآءَ اللہ!َ(ثواب بڑھانے کے نسخے ص۴، مُلخصاً)

‏(4) کوشش کر کے عادت بنائیں:جو اچّھی نیّتوں کا عادی نہیں اُسے شُروع میں کوشش کر کے اس کی عادت بنانی پڑے گی ، نیک کام شروع کرنے سےپہلے کچھ رک کر ہوسکے تو سر جُھکائے،آنکھیں بند کئے ذِہن کو مختلف خیالات(different thoughts) سے خالی کر کے نیّتیں کریں۔(ثواب بڑھانے کے نسخے ص۳ مُلخصاً)

(5) اچھی نّیتیں کرنے والوں کے ساتھ رہیں۔

نوٹ: ‏‏‏‏
‏(1)نیّتوں کی اہمیت سمجھیں : حضرت یحییٰ بن کثیر رَحمَۃُ اللّٰہِ نیّت کی تفصیلی مسائل جاننے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ”نیکی کی دعوت ص۱۰۸ تا ۱۱۹“ کو پڑھ لیجئے۔

14 ’’غفلت (لاپرواہی۔carelessness) ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(13) جواب دیجئے:

س۱) کیا ہر کام میں اچھی نیّت کرسکتے ہیں؟

س۲) نیک اور جائز کام میں اچھی نیّتیں کرنے کا ذہن کیسے بنائیں؟

(ترجمہ Translation :)’’لوگوں کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔جب ان کے پاس ان کے ربّ کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔ ان کے دل کھیل میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘ ۔ (پ ۲۱، انبیاء:۱-۳) (ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں کہ:اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں نے دنیا میں جو بھی عمل کئے ہیں اور ان کے بدنوں ، ان کے جسموں ، ان کے کھانے پینے کی چیزوں اور ان کےلباس میں اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئے اللہ پاک نے انہیں جو بھی نعمتیں دی ہیں ، ان کے حساب کا وقت(یعنی قیامت کا دن ) قریب ہے اوراس وقت ان سے پوچھا جائے گا کہ ان نعمتوں کے بدلے میں انہوں نے کیا عمل کئے؟ کیا انہوں نے اللہ پاک کی اطاعت کی(یعنی حکم مانا؟) اور ا س کے دئیے ہوئے حکموں پر عمل کیا اور جس چیز سے اس نے منع کیا اس سے رُک گئے یا انہوں نے اللہ پاک کے حکموں کے خلاف کیا ،اس کے باوجود لوگوں کی غفلت (لاپرواہی۔carelessness)کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے عمل پرغور کرنے اور قیامت کے دن آنے والی مصیبتوں کے بارے میں سوچنے سے بھی غافل (careless) ہیں ۔ ( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۲۷۰-۲۷۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ص۷۰۹، تفسیر طبری، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۳، ملتقطاً)

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
”اس شخص پر بڑی حیرت ہے جو ہمیشہ رہنے والے گھر (جنّت) کی تصدیق تو کرتا(یعنی یقین(believe) رکھتا اور مانتا) ہے لیکن کوشش دھوکے کے گھر (یعنی دنیا کو پانے ) کے لئے کرتا ہے“۔ (کتاب الزہد لابن ابی الدنیا، ص۲۸، رقم: ۱۴) علماء فرماتے ہیں کہ: کافروں کا تو عقیدہ ہی یہ تھا کہ زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہے اور مرنے کے بعد کوئی اٹھایا نہیں جائے گااور اسی وجہ سے ان کی زندگی غفلت (لاپرواہی۔carelessness) کے ساتھ گزر رہی تھی لیکن مسلمانوں پر بھی افسوس ہے کہ ان کا تو یقین ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کو اٹھایا جائے گا، اعمال کا جواب دینا پڑے گا لیکن اس کے باوجود وہ غفلت(لاپرواہی۔carelessness) میں پڑے ہیں ، یہ بڑی افسوس کی بات ہے۔(صراط الجنان جلد۳، ص۸۹مُلخصاً)

غفلت کسے کہتے ہیں؟:‏
یہاں دینی معاملےمیں غفلت مراد ہے یعنی’’ دینی معاملے میں وہ بھول جو انسان احتیاط(caution) کی کمی کی وجہ سے کرتا ہے۔‘‘(مفردات الفاظ القرآن،کتاب الغین،غفل، ص۶۰۹، ماخوذاً) امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں :زندگی کا ہر لمحہ (moment)،بلکہ ہر سانس بہت قیمتی ہے جس کا کوئی بدل نہیں کہ ہر لمحے(moment) میں کوئی ایسا کام کرسکتا ہے جس سے اُسے جنّت مل جائے(اگر اللہ پاک راضی ہو جائے)، تو اگر تم اس وقت کوغفلت(لاپرواہی۔carelessness) میں ضائع(waste) کر دو گے تو نقصان اٹھاؤ گے اور اگر اسے گناہ میں گزارو گے تو تباہ ہو جاؤ گے۔ ( احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، الخ، ۴ / ۱۵)

غفلت کی ایک مثال:‏‏
شریعت اور دین کی اجازت کے بغیر نمازیں قضا کرنا، روزے نہ رکھنا غفلت (لاپرواہی ۔carelessness) بھی ہے اور گناہ بھی جبکہ صرف سستی کی وجہ سے نفل نہ پڑھنا گناہ نہیں مگر یہ بھی غفلت ہے۔

غفلت کی ایک نشانی(sign):‏‏‏
جا نو ر ذَبح ہو رہا ہو تو بِلا ضَرورت اْس کی طرف دیکھنے سےبچیں۔ اْس کے آس پاس جمع ہونا، اس کے چِلّانے اور تڑپنے کے منظر کو دیکھ کر مزہ لینا، ہنسنا، قَہقَہے لگانا، غفلت (لاپرواہی۔carelessness)کی علامت (پہچان۔symbol) ہے۔ (فیضان سنت،۱؍۵۹۷، مُلخصاً)

غفلت کرنا کیسا؟:‏‏‏‏
فرائض وواجبات وسنن مؤکدّہ کو پورا کرنے میں غفلت(لاپرواہی۔carelessness) ناجائز ، گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے، ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔

غفلت کی طرف لے جانے والی کچھ باتیں :‏‏‏‏‏
(۱)دنیا۔ اللہ پاک فرماتا ہے (ترجمہ Translation) :اے لوگو!بیشکاللہ کا وعدہ سچا ہے تو ہرگز دنیا کی زندگی تمہیں دھوکا نہ دے (پ۲۲ ، الفاطر :۵) (ترجمہ کنز العرفان) (۲)مال۔ اللہ پاک فرماتا ہے (ترجمہ Translation ) : زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔ (پ۳۰ ، اتّکاثر :۱,۲) (ترجمہ کنز العرفان)

غفلت سے بچنے کے کچھ طریقے:‏‏‏‏‏‏
کم چیز وں پر خوش رہنا۔ فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :ہمیشہ سورج نکلنے کے وقت سورج کے پہلو میں(یعنی ساتھ) دوفرشتے ہوتے ہیں جو آواز دیتے ہیں:اے اللہ!(مال) خرچ کرنے والے کو (اچھا)بدلہ دے اور مال روک کر رکھنے والے کا مال تباہ فرما دے۔ (صحیح ابن حبان،کتاب الرقائق،۲؍۳۷، حدیث:۶۸۵) ایک اور روایت میں ہے :ان دونوں فرشتوں کی آواز جنّ و انسان کے علاوہ ساری مخلوق (creatures) سنتی ہے، وہ کہتے ہیں : لوگو! اپنے ربّ کی طرف آ جاؤ، بے شک جو چیز کم ہو اور کفایت (یعنی ضرورت پوری کرے) کرے وہ اس چیز سے بہتر ہے جو زیادہ ہو مگر غفلت میں ڈال دے۔ (صحیح ابن حبان،کتاب الزکوٰۃ،۵؍۱۳۸،حدیث:۳۳۱۹) {}خوفِ خدا پیدا کرنے والے بیانات کو سننا،سنانا اور ایسی کتابوں کو پڑھنے سے بھی غفلت دور ہوتی ہے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے (ترجمہ کنز العرفان): اور انہیں پچھتاوے (یعنی قیامت) کے دن سے ڈراؤ جب فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ غفلت میں ہیں اورنہیں مانتے (پ۱۶،مریم :۹۳)

نوٹ: ‏‏‏‏‏‏
”غفلت (لاپرواہی۔carelessness) “کی تفصیل جاننے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رِسالہ ” غفلت“ پڑھ لیجئے۔ ( )

(14) جواب دیجئے:

س۱) غفلت (لاپرواہی۔carelessness) کسے کہتے ہیں؟

س۲) غفلت سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟