15’’بد نِگاہی‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’ مسلمان مَردوں کو حکم دو کہ اپنی نِگاہیں کچھ نیچی رکھیں‘‘ ۔(ترجمۂ کنز العرفان) (پ۱۸، النور:۳۰) علماء فرماتے ہیں :اس آیت میں مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور جس چیز کو دیکھنا جائز نہیں اسے نہ دیکھیں۔ (صراط الجنان، ۶/۶۱۶، مُلخصاً)
احادیث مُبارکہ: (1( حدیث ِ پاک میں ہے کہ (اللہ پاک فرماتا ہے): بدنِگاہی شیطان کے تیروں (arrows) میں سے زہر (poison)لگا ہوا ایک تیر ہے، جو بدنگاہی چھوڑ دے گا میں اُسے ایسا کامل ایمان دونگا جس کا مزہ وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ (معجم کبیر، ۱۰، ۱۷۳، حدیث: ۱۰۳۶۲)
(2) منقول ہے: جو شخص اپنی آنکھ کو حرام سے پُر کرتا (یعنی حرام دیکھتا)ہے اللہ پاک قِیامت کے دن اس کی آنکھ میں جہَنَّم کی آگ بھر دے گا۔ (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص۱۰ دارالکتب العلميۃ بيروت)
بدنِگاہی کسے کہتے ہیں؟: جس کو دیکھنے سے اللہ پاک اور رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے منع کیا ہو اُسے جان بوجھ کر دیکھنا بد نِگاہی ہے۔ (گناہوں کے عذابات، ص ۶۶ ماخوذاً)
بد نِگاہی کی صورتیں(Cases): مرد کاایسی بے پردہ عورتوں کو دیکھنا جائز نہیں کہ شریعت نے جن سے پردے کا حکم دیا (بہارِ شريعت ج ۱ ص۴۸۳ ماخوذاً)بغیر شرعی اجازت کےان بے پردہ عورتوں کو کسی طرح بھی دیکھےیعنی یہ سامنے ہوں یا ان کی تصویر یا ویڈیو میں دیکھے، یہ سب ناجائز ہے۔ یاد رہے! ایسی عورت کا صرف چہرہ دیکھنا بھی منع ہے۔(بہار شریعت،ح۱۶،ص۴۴۶، مسئلہ۲۵، ماخوذاً) باپردہ عورتوں کو بری نیّت کے ساتھ دیکھنا بھی بدنگاہی ہے بلکہاگر کسی کو اپنے محارم (یعنی ایسے رشتہ دار کہ جس سے کبھی نکاح نہیں ہوسکتا)کی طرف نظر کرنے سےیا کسی بھی چیز کو دیکھنے سے نیّت میں خرابی آتی ہے تو اُن کو اِ س طرح دیکھنا بھی بدنگاہی ہے(احیاءُ العلوم،کتاب کسر الشھوتین ،۳ /۱۲۷ ماخوذاً دار صادر بيروت ) اسی طرح اَمْرَد (یعنی خوب صورت لڑکے) کو غلط نیّت سے دیکھنا(بہار شریعت،ح۱۶،ص۴۴۲،۴۳، مسئلہ۳، ماخوذاً) عورت کا مرد کو بُری نیّت سے دیکھنا(بہار شریعت،ح۱۶،ص۴۴۳، مسئلہ۶، ماخوذاً) مرد نے ایسا باریک لِبَاس پہنا ہو جس سے ناف (پیٹ کے سوراخ)کے نیچے سے لے کر گھٹنے تک کسی حصے کی رنگت (colour) واضح نظر آرہاہو۔یہ بے پردگی اور اس جگہ کو بغیر اجازت کے دیکھنا بھی بدنگاہی ہے(ردالمحتار ج۱،ص۴۱۰،بیروت ماخوذاً)عورت اس طرح کا لباس پہن کر اپنے محرم بلکہ کسی عورت کے سامنے بھی نہیں آسکتی کہ جس میں ناف کے نیچے سے گھٹنے تک ، جسم کے کسی حصّے کا رنگ نظر آرہا ہو(بہار شریعت،ح۱۶،ص۴۴۳، مسئلہ۴، ماخوذاً) عورت نے باریک دوپٹہ پہنا ہے کہ اس کے بالوں کا رنگ نظر آ رہا ہے تو جن سے پردے کا حکم ہے ، ان کے سامنے نہیں آسکتی اور غیر محرموں کا اِن جگہوں کو دیکھنا بھی بدنِگاہی ہے(ص۴۴۸، مسئلہ۳۱، ماخوذاً) مرد یاعورت نے ا یسا چست لباس (close-fitting dress) پہنا جس سے جسم کے اُن حصّوں کی صورت سمجھ میں آرہی ہو کہ جنہیں چھپانے کا حکم ہے، تو انہیں دیکھنا بھی بدنگاہی ہے۔(مسئلہ۳۱، ماخوذاً) غیر محرم عورت کے ساتھ ایک مکان میں ، دونوں کااکیلے (alone) ہونا حرام ہے(ص۴۴۹، مسئلہ۳۶، مُلخصاً) جب اکیلے ہونے کی اجازت نہیں تو اس طرح دیکھنے کی اجازت کیسے ہوگی؟
بد نِگاہی جہنّم میں لے جانے والا کام ہے: (1): بَدْنِگاہِی حرام (فتاوی رضویہ،۱۰/۷۵۰)اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔
(2): اگر بے خیالی(without attention) میں کسی عورت پر نظر پڑ گئی تو گناہ نہیں مگر فورا ًنظرہٹا لینا ضروری ہے ۔
(3): جسے دیکھنا حرام ہے، اس پر جان بوجھ کر ڈالی جانے والی پہلی نظر بھی حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ (پردے کے بارے میں سوال جواب،ص ۲۹۶ملتقتطاً)
بد نِگاہی کے کچھ نقصانات : بدنگاہی حَرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے بد نگاہی اللہ پاک و رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نافرمانی والا کام ہےبدنگاہی کرنے والے کی آنکھ میں قیامت کے دن آگ بھردی جائے گی بدنگاہی حافظے(memory) کی کمزوری کا سبب(reason)ہےبدنگاہی بے حیائی والا کام ہے بدنگاہی ایسی برائیوں کی طرف لے جاتی ہے کہ جس سے پورا (society) معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔وغیرہ
بد نِگاہی سے روک کر اسلام نے ہمیں کیا دیا؟: اِسلام نے بدنگاہی سے روک کر نسلوں کی حفاظت کی اِسلام نے بدنگاہی سے روک کر حیا کا درْس دیا اِسلام نے بدنگاہی سے روک کر دلوں کو چین و سُکون دیا اِسلام نے بدنگاہی سے روک کر میاں بیوی کے رشتے کو مضبوط کیا۔وغیرہ
بدنگاہی کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں : علم کی کمی(شرعی پردے کے مسئلے معلوم نہ ہونا) تفریح گاہوں(entertainment venues) میں گھومنا انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کافضول یا غلط استعمال فلمیں ڈرامے دیکھنامرد و عورت کا مل کر فنون (arts)سیکھنااِدھر اُدھر دیکھنے کی عادت ۔
بدنگاہی کی عادت ہو تو ختم کرنے کے کچھ طریقے: اللہ پاک سے ڈرتے ہوئے سچّی توبہ کیجئے آنکھیں نیچی رکھنےکی عادت بنائیے اور اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچنے کی کوشش کیجئے کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نگاہیں اکثر نیچی رہتی تھیں جہاں بدنگاہی کا خطرہ ہو وہاں جانے سے بچئے بدنگاہی کا دل کرے تو خود کو جہنّم کے عذاب سے ڈرائیے ’’حیا‘‘ اپنانے کی کوشش کیجئے یہ ذہن میں رکھیے کہ ’’ اللہ پاک دیکھ رہا ہے‘‘ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کا صرف جائز اور ضروری استعمال کیجئے۔وغیرہ
نوٹ: بدنگاہی سے بچنے کا ذہن بنانے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی یہ کتابیں ’’باحیا نوجوان‘‘،’’پردے کے بارے میں سوال جواب‘‘ اور ’’قوم لوط کی تباہ کاریاں‘‘ کو پڑھ لیجئے۔
16 ’’قناعت‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’ اور یہ کہ وہی ہے جس نے غنی کیا اور قناعت دی ‘‘ ۔(ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۲۷، النجم:۴۸)علماء فرماتے ہیں:یعنی اللہ پاک ہی لوگوں کو مال و دولت دے کر غنی کرتا ہے اور قناعت (یعنی جتنا مال وغیرہ موجود ہو، اُس پر خوش رہنے کی عادت) بھی وہی دیتا ہے۔ (صراط الجنان، ۹/۵۷۹مُلخصاً)
اَحادیثِ مُبارکہ : (1)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو مسلمان ہوا اور اُسے اِتنا رِزْق ملا جو اُس کے لئے کافی ہو اور اللہ پاک نے اُسے قناعت بھی دی تو وہ کامیاب ہوگیا۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۴/۱۵۶، حدیث: ۲۳۵۵)
(2)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : امیر ہونا، زیادہ مال اور اسباب(یعنی سامان) سے نہیں لیکن امیری دل کی غنا ( یعنی دل کے مالدار ہونے)سے ہے۔(بخاری ،کتاب الرقاق ،۴/۲۳۳،حدیث:۶۴۴۶)
تفصیل ( یعنی وضاحت ۔explanation ) : دل کی غنا سے مراد قناعت(یعنی جتنا مال وغیرہ موجود ہو، اُس پر خوش رہنے کی عادت) ، صبر، اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنا ہے۔حریص مالدار(یعنی ایسا امیر جس کے پاس بہت مال ہے، مگر پھر بھی وہ چاہتا ہے اور مال مل جائے تو وہ) فقیر ہے قناعت والا غریب (یعنی ایسا غریب کہ جس کے پاس مال اُس کی ضرورت سے بھی کم ہے مگر اُسے مزید مال جمع کرنے کی لالچ نہیں ہے ، تو وہ)امیر ہے۔ (مراۃ،ج۷،ص۱۶)
قناعت کسے کہتے ہیں؟: س۱) بدنگاہی کسے کہتے ہیں؟
س۲) بدنگاہی سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
روزانہ یا آئے دن استعمال ہونے والی چیزوں کے نہ ہونے پر بھی صبر کرنا قناعت کہلاتا ہے۔(ماخوذ از التعریفات للجرجانی، باب القاف، ص ۱۲۶) حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا اے عائشہ اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو،تو تم کو دنیا سے اتنا (مال اور سامان)کافی ہو جیسے مسافر کا (تھوڑا سا) سامان( ہوتا ہے)۔ (سنن الترمذي،کتاب اللباس،الحدیث:۱۷۸۷،ج۳ص۳۰۲)
قناعت کی ایک نشانی(sign) ا ور مثال : لذیذ اور مزیدار کھانوں کی خواہش (desire) نہ کرےبلکہ جو مل جائے اس پر راضی رہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم، ج۴،ص۵۲۸ مُلخصاً)
قناعت کے کچھ فائدے: (1) قناعت دل سے دنیا کی مَحَبَّت ختم کر دیتی ہے
(2) قناعت کرنے والا لوگوں پر بھروسہ(trust) کرنےسے زیادہ اللہ پاک پر بھروسہ(trust) کرتا ہے
(3) قناعت کی برکت سے زندگی میں سُکون ملتا ہے
(4) قناعت سے حِرْص ، لالچ اور کنجوسی جیسی بُری عادتیں ختم ہوتی ہیں۔وغیرہ
قناعت سے دور کرنے والی کچھ چیزیں: 1) بڑا مقام حاصل کرنےکی خواہش(desire)
(2) دنیا وی چیزوں کا مزہ لیتے رہنے کے لیے زیادہ وقت زندہ رہنے کی خواہش(desire)
(3) غریب ہونے کا ڈر
(4) جتنا مل گیا،اس پر ناخوش ہونا وغیرہ۔(اِحیاءُ الْعُلوم، ج۱،ص۹۰مُلخصاً)
قناعت کی طرف جانے کے لیے، کچھ کام کیجیے: 1) ضرورت کے مطابق خرچ کریں(2) اگر فی الحال اتنا موجود ہے جو” آج “کے لئے کافی ہے تو” کل “کے لئے زیادہ پریشان نہ ہوں (3) یہ بات سمجھ لیں کہ قناعت کرنے والا دوسروں سے نہیں مانگتا اور اس میں عزّت ہےجبکہ حرص اورلالچ کی وجہ سے دوسروں سے سوال کرنا پڑتا ہے اور اِ س میں ذلت(humiliation) کا سامنا ہے (4) بعض بیوقوف ،اَحمق ، بے عقل اور بے دین لوگ بہت آرام اور سکون سے گناہوں بھری زندگی گزارتے ہیں مگر” کل “ آخرت کے لیے انہوں نے پریشانیاں جمع کر لیں ہیں جبکہ دوسری طرف انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور اولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کی زندگی بہت سادہ ہوتی ہیں مگر ” آخرت “ میں اُن کا بڑا مقام ہے،تو اب فیصلہ کریں کہ کس طرح کی زندگی گزار کر آخرت میں کامیاب ہونا ہے؟(5) مال جمع کرنے میں جو خطرات اور نقصانات ہیں اس میں غورو فکر کرنا چاہئے جیسا کہ چوری اورڈکیتی کا خطرہ ہونا اورجس کے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے وہ ان باتوں سے بچ جاتا ہے۔(اِحیاءُ الْعُلوم، ج۳،ص۷۲۶ تا۷۳۲ ماخوذاً)
قناعت کی عادت بنانے کے کچھ طریقے: اللہ پاک پر مضبوط یقین(believe) رکھیے اور اس بات کو دل میں جمالیجئے کہ میرا تمام حال اللہ پاک جانتا ہے آخرت کے حساب سے خود کو ڈرائیے اور اپنی تنگ حالت(tight condition) سے آخرت بہتر بنانے کے لیے صبْر کیجئے ایسے لوگوں کے ساتھ رہئے جو قناعت سے زندگی گزارتے اور ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرنے والے ہوں مال و دولت کی حِرْص ختم کیجئے، اِس کے لئے دنیا کے فَنا (یعنی ختم)ہونے اور آخرت میں ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں کے ملنے کو ذِہْن میں رکھیے اللہ پاک سے دُعا بھی کیجئے کہ وہ ہر حال میں خوش رہنے اور صبْر و شکر کرنےکی توفیق دے۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص ۷۷تا۸۰)
نوٹ: قناعت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’نجات دلانے والے اعمال کی معلومات‘‘ صفحہ 75تا 81 کو پڑھ لیجیئے۔
17 ’’شیطان اور اس کے وسوسوں کے پیچھے چلنا ‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’ اے ایمان والو!شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرواور جو شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو بیشک شیطان تو بے حیائی اور بُری بات ہی کا حکم دے گا ‘‘ ۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ۱۸، النور: ۲۱)علماء فرماتے ہیں: اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو شیطان کے رستوں پر چلنے سے منع فرمایا، چنانچہ فرمایا کہ اے ایمان والو!تم اپنے کاموں میں شیطان کے طریقوں پر نہ چلواور جو شیطان کے طریقوں کی پیروی کرتا ہے تو بیشک شیطان بے حیائی اور بُری بات ہی کی طرف لے جائے گا۔ (صراط الجنان،ج۶ ، ۵۹۷مُلخصاً)
(2) جواب دیجئے:
س۱) قناعت کسے کہتے ہیں؟
س۲) قناعت کی عادت کیسے بنے؟
حدیث شریف: حضرت عبدُ اللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ہمیں سمجھانے کے لیے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: یہ اللہ پاک کا راستہ ہے، پھر اس لکیر کی سیدھی اوراُلٹی طرف بہت سی لکیریں کھینچیں اور فرمایا: یہ مختلف راستے ہیں ، ان میں سے ہر ایک پر ایک شیطان ہے جو لوگوں کو اس پر چلنے کی دعوت دیتا (یعنی بُلاتا)ہے۔پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ (Translation) : یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس پر چلو اوردوسری راہوں(یعنی راستوں) پر نہ چلو۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ۸، الانعام: ۱۵۳) (سنن کبری للنسائی، کتاب التفسیر، ۶ / ۳۴۳، حدیث: ۱۱۱۷۴) علماء فرماتے ہیں: قرآنی حکم سیدھا راستہ ہے تو اسلام کے خلاف جو رستے ہیں، اُن پر مت چلو (تفسیر خزائن العرفان ماخوذاً)
شیطان کی پیروی کرنا یا اس کی مخالفت(oppose) کرنا کسے کہتے ہیں؟: شیطان کے وسوسوں پر چلنا شیطان کی پیروی کرنا کہلاتاہے۔ (تفسیر خزائن العرفان ،پ۲،البقرۃ ،تحت الایہ:۲۰۸، ص۶۹ ماخوذا) اللہ پاک کی عبادت کرکے شیطان سے دشمنی کرنا، اللہ پاک کی نافرمانی میں شیطان کی پیروی نہ کرنا ، شیطان کی مخالفت (oppose)کرنا کہلاتا ہے۔(مکاشفۃ القلوب، ص۱۱۰ماخوذا)
اِلہام اور وسوسہ کیاہے؟ : فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم:دل میں دو(2) طرح کے خیالات آتے ہیں ایک (1)فرشتے کی طرف سے ہوتا ہے اور وہ بھلائی کا وعدہ اور حق کی تصدیق ہے توجو اسے پا ئےوہ جان لے کہ یہ اللہ پاک کی طرف سے ہےاور اللہ پاک کا شکر ادا کرےاور دو سرا (2nd )دشمن(شیطان) کی طرف سے ہوتا ہےاور وہ شر(یعنی بُرائی)کا وعدہ،حق کی تکذیب (یعنی سچائی کا انکار)اور خیر(یعنی بھلائی) سےروکنا ہے تو جو اسے پا ئےوہ شیطان مردود(کے وسوسوں)سے اللہ پاک کی پناہ مانگے۔(سنن الترمذی،کتاب تفسيرالقراٰن،۴/ ۴۶۴،حديث:۲۹۹۹)
وسوں کی تفصیل( یعنی وضاحت ۔explanation ): دل میں پیدا ہونی والی باتوں کی تین قسمیں ہیں:(۱)جن کے بارے میں یقینی طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ یہ بُرائی (جیسے فلم دیکھنے یا گانا سننے)کی طرف بلا رہی ہیں، ان کے وسوسہ ہونے میں کوئی شک نہیں (۲) جو بھلائی(goodness جیسے نماز پڑھنے یا قرآن پا ک کی تلاوت کرنے)، کی طرف بلا رہی ہوں ان کے الہام ہو نے میں کوئی شک نہیں (۳)جن کےبارے میں شک ہو اور معلوم نہیں ہوتا کہ یہ فرشتے کی طرف سے ہیں یا شیطان کی طرف سے (مثلاً فرض علم چھوڑ کر نعت خوانی کی محفل میں جانے کا خیال)۔(احیاء العلوم، ج ۳،ص۹۱) سب سے مشکل کام شیطان کے ان دھوکوں کو جاننا ہے۔ اس کا علم حاصل کرناہر بندے پر فرضِ عین اور لازم ہےلیکن لوگ اس سے غافل ہیں(احیاء العلوم، ج ۳،ص۹۴مُلخصاً) یعنی علم کے بغیر اس طرح کی باتوں کا پتانہیں چل سکتا کہ یہ فرشتے کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے(جیسے: فرض چھوڑ کر نفل میں لگ جانا)۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : میری اُمّت کے دل میں آنے والے وسوسے معاف ہیں جب تک کہ ان کو زبان پر نہ لایا جائے یا ان کے مطابق (according to them)عمل نہ کیا جائے۔(بخاری،کتاب الطلاق،۳/ ۴۸۵، حديث:۵۲۶۹) علماء فرماتے ہیں :اگر گناہ کرنے کا وسوسہ آیا اور اِسے کرنے کا بالکل پکا ارادہ کرلیا جس کو عزم کہتے ہیں تو یہ بھی ایک گناہ ہے اگرچہ جس گناہ کا عزم کیا تھا اسے نہ کیا ہو۔(بہارِ شریعت حصّہ ۱۶ صَفْحَہ ۲۵۸مُلخصاً) یاد رہے کہ کفر کا ارادہ(intention) بھی ’ ’کُفْر‘‘ ہے۔(مراٰۃ ج اول ص ۸۱ مُلخصاً) شیطان عالِموں کے دل میں عالِمَانہ وَسوَسے اورصُوفیوں کے دل میں عاشِقَانہ وَسوَسے،عوام کے دِل میں عام وَسوسے ڈالتا ہے۔(یعنی )’’ جیسا شکار ویسا جال!‘‘ کئی مرتبہ(گناہوں کو ایسا سجا کر پیش کرتا ہے کہ) اِنسان گناہ کو عبادت سمجھ لیتا ہے ! (مراٰۃ ج ۱ ص ۸۷ مُلخصاً)
ایمان کی ایک نشانی(sign): نبیِّ رَحمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس بعض صَحابۂ کِرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےحاضِر ہو کر عرض کی: ہمیں ایسے خیالات آتے ہیں کہ جنہیں بَیان کرنا ہم بَہُت بُرا سمجھتے ہیں ۔ سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کیاواقعی ایسا ہوتا ہے؟ اُنہوں نے عرض کی: جی ہاں ۔ فرمایا: یہ توخالص(pure) ایمان کی نشانی(sign of faith ) ہے۔(صَحیح مُسلِم ص۸۰حدیث ۱۳۲ ) علماء فرماتے ہیں :کفری بات کا دل میں خیال پیدا ہوا اورزَبان سے بولنا بُرا جانتا ہے تو یہ کفر نہیں بلکہ اِیمان کی عَلامَت(پہچان۔symbol) ہے کیونکہ دِل میں اِیمان نہ ہوتا تو اسے بُراکیوں جانتا؟ (بہارِشریعت جلد۲، حصّہ ۹ ص ۴۵۶، مُلخصاً)
شیطان کے راستوں کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں: خواہش (desire) کے پیچھے چلنا: اللہ پاک فرماتاہے:ترجمہ (Translation) : کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود(خدا) بنالیا ہے۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۵،الجاثية:۲۳) یعنی اپنی خواہشات (desires) پر چلنے لگا۔ (صراط الجنان مُلخصاً) غصّہ : غصّے کی وجہ سے عقل میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اور جب انسان کو غصّہ آتا ہے تو شیطان اس کے ساتھ ایسے کھیلتا ہےجیسے بچہ گیند سےکھیلتا ہے۔ (احیاء العلوم، ج ۳،ص ۹۸مُلخصاً) حرص: جب بندہ کسی دنیوی چیز کا لالچی ہوجاتا ہے تواس کی لالچ اسے اندھا (blind)اور بہرا (deaf)کردیتی ہے کیونکہ حضورنبیّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: کسی چیز سے تیری محبّت تجھے اندھا اور بہرا کردیتی ہے۔(سنن ابی داود،کتاب الادب،۴/ ۴۳۰،حديث:۵۱۳) جلدبازی: فرمانِآخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : جلد بازی شیطان کی طرف سے اور بردباری(یعنی آرام سے کام کرنا) اللہ پاک کی طرف سے ہے۔ ( سنن الترمذی،۳/ ۴۰۶،حديث:۲۰۱۹) علماء فرماتے ہیں:قرآن پاک میں نیکی میں جلدی کرنے کا حکم ہے تو وہاں دینی کام میں دیر نہ کرنے کا فرمایا گیا ہے جبکہ یہاں ایسی جلدی کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ جس جلدی سے کام ہی بگڑ جائے، بعض لوگ دو(2) منٹ میں چار(4) رکعتیں پڑھ لیتے ہیں، یہ جلدی بُری ہے۔(مراۃ، ج۶،ص۸۸۲) مال ودولت: جو چیزبھی ضرورت اور حاجت (need)سے زیادہ ہو وہ شیطان کا راستہ ہے کیونکہ جس کےپاس صرف ضرورت کا مال ہو تو ایسے شخص کو اگر راستے میں سو( 100)دینار(یعنی سونے کےسکّے۔gold coins) مل جائیں تو اس کے دل میں 10خواہشات (desires)پیدا ہوجائیں گی، پھرہر خواہش(desire) پوری کرنے کے لئےمزید 100دینار کی ضرورت ہوگی(اور یوں وہ شیطان کی پیروی کرے گا)۔(احیاء العلوم، ج ۳،ص۱۰۴) فقر (یعنی غریب ہو جانے)کا ڈر: شیطان کےبڑےدروازوں میں سے فقر(poverty) کا ڈر بھی ہےکیو نکہ یہ ڈر انسان کو اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے اور صدقہ کر نے سے روک دیتا ہے ۔(احیاء العلوم، ج ۳،ص۱۰۶، مُلخصاً)
شیطان کی پیروی سے بچنے کے کچھ طریقے: خواہش (desire) کے پیچھے چلنا: اللہ پاک فرماتاہے:ترجمہ (Translation) : کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود(خدا) بنالیا ہے۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۵،الجاثية:۲۳) یعنی اپنی خواہشات (desires) پر چلنے لگا۔ (صراط الجنان مُلخصاً) غصّہ : غصّے کی وجہ سے عقل میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اور جب انسان کو غصّہ آتا ہے تو شیطان اس کے ساتھ ایسے کھیلتا ہےجیسے بچہ گیند سےکھیلتا ہے۔ (احیاء العلوم، ج ۳،ص ۹۸مُلخصاً) حرص: جب بندہ کسی دنیوی چیز کا لالچی ہوجاتا ہے تواس کی لالچ اسے اندھا (blind)اور بہرا (deaf)کردیتی ہے کیونکہ حضورنبیّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: کسی چیز سے تیری محبّت تجھے اندھا اور بہرا کردیتی ہے۔(سنن ابی داود،کتاب الادب،۴/ ۴۳۰،حديث:۵۱۳) جلدبازی: فرمانِآخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : جلد بازی شیطان کی طرف سے اور بردباری(یعنی آرام سے کام کرنا) اللہ پاک کی طرف سے ہے۔ ( سنن الترمذی،۳/ ۴۰۶،حديث:۲۰۱۹) علماء فرماتے ہیں:قرآن پاک میں نیکی میں جلدی کرنے کا حکم ہے تو وہاں دینی کام میں دیر نہ کرنے کا فرمایا گیا ہے جبکہ یہاں ایسی جلدی کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ جس جلدی سے کام ہی بگڑ جائے، بعض لوگ دو(2) منٹ میں چار(4) رکعتیں پڑھ لیتے ہیں، یہ جلدی بُری ہے۔(مراۃ، ج۶،ص۸۸۲) مال ودولت: جو چیزبھی ضرورت اور حاجت (need)سے زیادہ ہو وہ شیطان کا راستہ ہے کیونکہ جس کےپاس صرف ضرورت کا مال ہو تو ایسے شخص کو اگر راستے میں سو( 100)دینار(یعنی سونے کےسکّے۔gold coins) مل جائیں تو اس کے دل میں 10خواہشات (desires)پیدا ہوجائیں گی، پھرہر خواہش(desire) پوری کرنے کے لئےمزید 100دینار کی ضرورت ہوگی(اور یوں وہ شیطان کی پیروی کرے گا)۔(احیاء العلوم، ج ۳،ص۱۰۴) فقر (یعنی غریب ہو جانے)کا ڈر: شیطان کےبڑےدروازوں میں سے فقر(poverty) کا ڈر بھی ہےکیو نکہ یہ ڈر انسان کو اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے اور صدقہ کر نے سے روک دیتا ہے ۔(احیاء العلوم، ج ۳،ص۱۰۶، مُلخصاً)
شیطان کی پیروی سے بچنے کے کچھ طریقے: علم: کہ جب تک شیطان کے وسوسوں کو پہچان نہیں سکے گا، ان سے بچ نہ سکے گا۔ اور سب سے پہلے فرض علوم حاصل کرے کہ یہ ان وسوسوں کو پہچاننے کے لیے پہلی سیڑھی(first step) ہیں (فرض علوم جاننے کے لیے visit کیجیےwww.farzuloom.net) اللہ پاک کا ذکر: فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : شیطان ابنِ آدم (یعنی انسان)کے دل پر اپنی سونڈ (trunk)رکھے ہوئے ہو تا ہے اگر بندہ اللہ پاک کا ذکر کرتا ہے توشیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اگربندہ اللہ پاک کو بھول جائےتو شیطان فوراً اس کے دل پر غالب آجاتا (یعنی اپنے وسوسے ڈالتا رہتا)ہے۔(موسوعة الامام ابن ابی الدنيا،۴/ ۵۳۶،حديث:۲۲) اللہ پاک کے ذکر اور شیطان کے وسوں میں اسی طرح دشمنی ہے جیسے دن اور رات کے درمیان ہے (کہ ایک کے ہوتے ہوئے دوسرا نہیں ہوتا) ۔(احیاء العلوم، ۳ / ۸۷، مُلخصاً) بھوک سے کم کھا نا: فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : بے شک شیطان ابن آدم میں(یعنی انسان کے اندر) خون کی طرح گردش (circulation)کرتا ہے(بخاری،کتاب الاعتکاف،۱/ ۶۶۸، حديث:۲۰۳۵ باختصار)بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ فرماتے ہیں : پس اس کے راستوں کو بھوک کے ذریعے تنگ کرو (یعنی روزے وغیرہ کے ذریعے شیطان کو وسوسے ڈالنے سے روکو)۔(کشف الخفاء ج۱ص۱۹۸) لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ: ہر چیز کا علاج اس کی ضد (opposite)سے کیاجاتا ہےاور تمام شیطانی وسو سوں کی ضد اللہ پاک کی پناہ مانگنے میں ہے:”اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّابِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم‘‘ یعنی میں اللہ پاک کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت اللہ پاک ہی کی مدد سے ہے جو بلندی اور بزرگی والا ہے۔“(احیاء العلوم ج۳، ص ۸۷، مُلتقظاً)لہذا جب بھی کوئی وسوسہ آئےتو یہ پڑھ لیجیے۔ وسوسوں پر توجّہ(attention) نہ دینا:ابلیس ایک بَھونکنے والے کُتّے (barking dog)کی طرح ہے، اگر تم اس کو چھیڑو گے تو زیادہ شور مچائے گا اور اگر اس سے منہ پھیر لو گے(یعنی اس کے وسوسوں کی طرف توجُّہ(attention) نہ دو گے) تو وہ بھی خاموش ہو جائیگا ۔( مِنہاجُ العابِدین ص۴۶) کسی کامل پِیر کا مُرید بن جانا :انتقال کے وقت امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو آپ کے پیر صاحب حضرت( شیخ )نجم ُ الدّین کُبریٰ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے شیطان کے کفریہ وسوسوں سے بچایا۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت صَفْحَہ ۴۹۳ تا۴۹۴)زندگی میں کسی صحیح پیر کا مرید بن جانے سے کئی شیطانی وسوسوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے ۔
نوٹ: وسوسوں کی تفصیلی معلومات کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رِسالے ” وسوسے اور ان کا علاج“ کو پڑھ لیجئے۔
18 ’’چوری (Theft )‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’ اے نبی! جب مسلمان عورتیں تمہارے حضور(یعنی آپ کے پاس) اِس بات پر بیعت (یعنی وعدہ) کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ ا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی ‘‘ ۔ (مزید آیت جاری ہے)(ترجمۂ کنز العرفان) (پ۲۸، الممتحنہ:۱۲) علماء
(3) جواب دیجئے:
س۱) وسوسہ اور الہام کسے کہتے ہیں؟
س۲) وسوسوں سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
فرماتے ہیں:جس دن مکّہ شریف آزاد ہوگیا(یعنی غیر مسلموں کی جگہ مسلمانوں کی حکومت آگئی،اُ س )دن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مردوں سے بیعت(یعنی وعدہ) لے کر آئےاور عورتوں سے بیعت(یعنی وعدہ) لے رہے تھے تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (یعنی جرائیل عَلَیْہِ السَّلَام لے کر آئے)اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے چوری نہ کرنے پر بھی وعدہ لیا۔
احادیث مُبارکہ: (1) جس نے کوئی چیز چوری کی وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے گلے میں آگ کا پٹّا (strap) ہوگا۔ (قرۃ العیون و مفرح القلب المحزون، ص۳۹۲)
(2)ایک حدیث میں فرمایا: جس نے چوری کی اُس نے اپنے گلے سے اِسلام کا پٹّا (strap)اُتار دیا، اب اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (نسائی، کتاب قطع السارق، ص۷۸۳، حدیث:۴۸۸۲)
(3)اسی طرح ایک حدیث میں کچھ یوں فرمایا: میں نے جہنّم میں ایک شخص کو دیکھا جو اپنی ٹیڑھی لاٹھی کے ذریعے حاجیوں کی چیزیں چُراتا، جب لوگ اُسے چوری کرتا دیکھ لیتے تو کہتا: میں چور نہیں ہوں، یہ سامان میری لاٹھی میں پھنس گیا تھا۔ وہ آگ میں اپنی ٹیڑھی لاٹھی پر ٹیک لگائے یہ کہہ رہا تھا: میں ٹیڑھی لاٹھی والا چور ہوں۔ (جمع الجوامع للسیوطی، قسم الاقوال، ۳/۲۷، حدیث:۷۰۷۶)
چوری کرنا حرام ہے: (1): چوری کرنا گُنَاہِ کبیرہ، حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔(جہنم کے خطرات،ص ۳۸ملخصاً)
(2): چوری سے حاصِل کئے ہوئے مال کو خرید وفروخت(یعنی خریدنے یا بیچنے) وغیرہ کسی کام میں لگانا حرامِ قطعی( یعنی یقیناً گناہ ) ہے۔(فتاوی رضویہ،۲۳/۵۵۱ملتقطاً) یہ مال خبیث ( یعنی بہت بُرا) اورحرام ہے ۔(بہارِ شریعت حصّہ ۱۶،ص ۴۱۸ُملخصاً) چوری کا روپیہ ایسا ناپاک روپیہ ہے کہ چوری کرنے والا اُس مال کا مالک نہیں بنتا (فتاویٰ رضویہ جلد۲۳،ص ۵۶۴مُلخصاً)
(3): چور پر شرعاً فَرض ہے کہ جس کا مال ہے اُسی کو واپس دے دے۔وہ زندہ نہ رہا ہوتو وارِثوں(یعنی مرنے والے کے مال کے صحیح حقداروں(entitled)) کو دے دے اور اِن کا بھی پتا نہ چلے(یعنی نہ مالک ملیں اور نہ اس کے رشتہ دار) تو ثواب کی نِیَّتِ کے بغیر شرعی فقیر(کہ جسے زکوۃ دی جاسکتی ہے) پر خیرات کر دے۔(فتاوی رضویہ،۲۳/۵۵۱ماخوذًا)
چوری کرنا، کس کو کہتے ہیں؟: کسی شخص کا چھپ کر ایسی چیز اٹھانا جو حِفاظت سے کسی محفوظ جگہ رکھی گئی ہو، اُس چیز کی قیمت 10 دِرہم (یعنی 2 تولہ ساڑھے سات ماشہ(30.618گرام)چاندی) کے برابر یا اِس سے زیادہ ہو اور وہ چیز جلدی خراب بھی نہ ہوسکتی ہو۔ (ماخوذ از صراط الجنان، ۲/۴۲۹۔ بہار شریعت، ۲/۶۴) مثلاً بغیر اجازت کسی کی الماری سے اتنے پیسے یا اتنے پیسے کا سامان نکال لینا(ہاں! اگر پتا ہے کہ اس طرح امّی کی الماری سے ہم ضرورت کے پیسے لے لیتے ہیں اور امّی کو بھی معلوم ہے اور وہ نہ تو ناراض ہوتی ہیں اور نہ ہی منع کرتی ہیں تو یہ چوری نہیں)۔یاد رہے! دنیا میں شرعی سزا کے لیے اتنا مال، اس طرح لے لینا چوری ہے لیکن کسی کی چیز بھی بغیر اُس کی اجازت اور خوشی کے استعمال کے لیے لینا بھی ناجائز ، گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے تو سستی چیزیں بھی چوری کرنے کی اجازت کیسے ہوگی؟
چوری کرنا، کس کو کہتے ہیں؟: کسی شخص کا چھپ کر ایسی چیز اٹھانا جو حِفاظت سے کسی محفوظ جگہ رکھی گئی ہو، اُس چیز کی قیمت 10 دِرہم (یعنی 2 تولہ ساڑھے سات ماشہ(30.618گرام)چاندی) کے برابر یا اِس سے زیادہ ہو اور وہ چیز جلدی خراب بھی نہ ہوسکتی ہو۔ (ماخوذ از صراط الجنان، ۲/۴۲۹۔ بہار شریعت، ۲/۶۴) مثلاً بغیر اجازت کسی کی الماری سے اتنے پیسے یا اتنے پیسے کا سامان نکال لینا(ہاں! اگر پتا ہے کہ اس طرح امّی کی الماری سے ہم ضرورت کے پیسے لے لیتے ہیں اور امّی کو بھی معلوم ہے اور وہ نہ تو ناراض ہوتی ہیں اور نہ ہی منع کرتی ہیں تو یہ چوری نہیں)۔یاد رہے! دنیا میں شرعی سزا کے لیے اتنا مال، اس طرح لے لینا چوری ہے لیکن کسی کی چیز بھی بغیر اُس کی اجازت اور خوشی کے استعمال کے لیے لینا بھی ناجائز ، گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے تو سستی چیزیں بھی چوری کرنے کی اجازت کیسے ہوگی؟
چوری کی طرف لے جانے والی کچھ باتیں: (1)حرص اور لالچ(2) دنیا اور اس کے مال کی محبّت(3)خودداری اور قناعت (یعنی جو اپنے پاس ہے، اس پر خوش رہنے )کی کمی (4)مال کی کمی اور مصیبت پر صبر کی عادت نہ ہونا ۔ وغیرہ
چوری کے کچھ نقصانات: چوری حرام اور کبیرہ (بڑا) گناہ ہے۔ (صراط الجنان، ۲/۴۲۹) چوری کامِل مسلمان بننے میں رکاوٹ (obstacle) ہے چوری سے دِل آزاری (یعنی دوسروں کو تکلیف) ہوتی ہے چوری احترام مسلم (muslims respect ) کے خلاف ہے چوری کرنا خود کوذلیل (dishonoured)کرنے کے برابر ہے چوری سے معاشرےکا امن(peace) خراب ہوتا ہے چوری انسان کو ڈاکے اور لوٹ مار تک پہنچادیتی ہےچوری کی بُرائی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگائیے کہ چور بھی اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اُسے چور کہا جائے۔ وغیرہ چور پر کوئی بھی بھروسہ(trust) نہیں کرتا چور ہر جگہ شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے چور اپنے گھر اور خاندان کے لئے بھی شرم کا باعث بنتا ہے چور مرنےکے بعد بھی بُرے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہےچور کی نہ گھر میں عزّت ہوتی ہےاور نہ ہی معاشرے(society) میں چورسے نہ کوئی دوستی کرتا ہے اور نہ ہی ہمدردی(sympathy)۔
چوری کی عادت ہو تو ختم کرنے کے کچھ طریقے: چوری کے دنیا و آخرت کے نقصانات کو جانیے اپنے دل میں مسلمانوں کا احترام(respect) پیدا کیجئے اور ان کی جان، مال اور عزّت کی حفاظت(safety) کاذہن بنائیے اللہ پاک پر بھروسہ(trust) رکھئے اور ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کی عادت بنائیے یہ ذہن بنائیے کہ دنیا میں آزمائشیں ہیں اور مجھے آزمائشوں پر صبر کر کے اللہ پاک کو راضی کرنا ہے قبْر اور آخرت کی تیاری کی فکْر دل میں پیدا کیجئے، اِس سے ہر نافرمانی والے کام سے بچنےمیں مدد ملے گی یوں ذِہْن بنائیےکہ چوری کرتے ہوئےبظاہر مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا لیکن ’’ اللہ پاک دیکھ رہا ہے‘‘ اپنے آپ سے یہ پکّا وعدہ کرلیجئے کہ کبھی بھی کسی بھی مسلمان کو نقصان نہیں پہنچاؤنگا۔ وغیرہ
نوٹ: چوری کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’بہار شریعت‘‘جلد 2 صفحہ 411 تا 420 کو پڑھ لیجئے۔
19 ’’سچ بولنا‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’ اللہ نے فرمایا، یہ (قیامت) وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کا سچ نفع (یعنی فائدہ)دے گا، اُن کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں(canals) جاری ہیں، وہ ہمیشہ ہمیشہ اُس میں رہیں گے، اللہ پاک اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ پاک سے راضی ہوئے ۔ یہی بڑی کامیابی(success) ہے ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۷، المآئدۃ:۱۱۹) علماء فرماتے ہیں کہ:ا س آیت کا مطلب یہ ہےکہ جنہوں نے دنیا میں سچ بولا تھا ان کا سچ قیامت کے دن انہیں
(4) جواب دیجئے:
س۱) چوری کرنے والے کو کیا سزا دی جائے گی؟
س۲) چوری کی عادت ہو تو ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
اَحادیثِ مُبارکہ : (1)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سچ بولنے کو لازم کرلو! کیونکہ سچّائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنّت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک ’’صِدِّیق‘‘(یعنی بہت سچ بولنے والا) لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم ، کتاب البر والصلۃ، ص ۱۰۷۸، حدیث: ۶۶۳۹)علماء نے فرمایا: یعنی جو شخص سچ بولنے کا عادی ہوجائے اللہ پاک اُسے نیک آدمی بنادے گا اسے اچھے کام کرنے کی عادت ہوجائے گی،اس کی برکت سے وہ مرتے وقت تک نیک رہے گا برائیوں سے بچے گا۔(مراۃ ج۶، ص۶۵۹ مُلخصاً)
(2)حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ایک روایت نقل کی ، جس میں یہ بھی ہے کہ سچے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے نجات دینے والی تین چیزیں بیان فرمائیں(۱) اللہ پاک سے خفیہ اور علانیہ ڈرنا (یعنی چھپی ہوئی حالت میں اور لوگوں کے سامنے بھی) (۲)خوشی اور ناخوشی(کی حالت) میں سچی بات کہنا(۳) اور درمیانی چال (میں رہنا) امیری اور فقیری (دونوں صورتوں میں)۔ (مشکوٰۃ،باب الغضب والکبر،ص۴۳۴)علماء نے فرمایا: یعنی ہر حالت میں سچ بولے ،غصہ اور خوشی اسے سچ بولنے سے نہ روکے ۔(مراۃ ج۶، ص۹۴۳، مُلخصاً)
کونسی بات سچ ہے: ایسی بات کہنا جو حقیقت کے مطابق ہویعنی جیسا ہوا ہو ویسا ہی کہنا سچ کہلاتا ہے۔ (ماخوذ از التعریفات للجرجانی، باب الصاد، ص ۹۵)
سچ بولنے کی کچھ مثال: سچی باتیں سکھانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :قیامت کے دن کاروبار کرنے والے بدکاراٹھائیں جائیں گے(مطلب یہ ہے کہ قیامت میں سارے تاجر فاسق وفاجر ہوں گے مگر) سوائےان کے جو پرہیزگاری کریں ، بھلائی کریں اور سچ بولیں ۔(ترمذی،ابن ماجہ،دارمی) علماء نے فرمایا: سچ سے مراد سودے(deal) میں صاف بات کرنا، اگر عیب (defect)والامال ہو تو اس کو بغیر عیب والا(without defect) ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے۔(مراۃ ج۴، ص۴۰۴)
سچ بولنے کے کچھ فائدے: مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: جوشخص سچ بولنے کا عادی ہوجائے، اللہ پاک اسے نیک کام کرنے والا بنادے گا اس کی عادت اچھے کام کرنے کی ہو جائے گی اِس کی برکت سے وہ مرتے وقت تک نیک رہے گا برائیوں سے بچے گا جو اللہ پاک کے نزدیک صدیق( یعنی سچا) ہو جائے اس کا خاتمہ اچھا ہوتا ہےوہ ہر قسم کے عذاب سے بچ جاتا ہے ہر قسم کا ثواب پاتا ہے دنیا بھی اسے سچا کہنے اوراچھا سمجھنے لگتی ہے اُس کی عزت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہےوغیرہ۔(مرآۃ المناجیح، ۶/۴۵۲،ضیاء القرآن پبلی کیشنزلاہور،مُلخصاً)
سچ سے دور کرنے والی کچھ چیزیں: (۱)تکبر۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : تکبُّر(arrogance) کرنے والااپنی عزّت بچانے کے لئے ہمیشہ سچ بولنے کی طاقت نہیں رکھتا(یعنی دوسروں کو گھٹیا بتانے کے لیے جھوٹ بول دیتا ہے) ۔(احیاء العلوم ج۳، ص۱۰۱۳)
(۲) بیان اور تقریر میں لوگوں کا دل جیتنے کی خواہش(desire) ۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: جب کوئی شخص اپنی تقریر(بیان )سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانا چاہتا ہے تو بہت خوبصورت گفتگو (conversation) کرنے کی کوشش کرتا ہے اگرچہ اس کے لیے غلط باتیں بولنی پڑئیں اور ہر ایسی بات سے دور رہتا ہے کہ جولوگوں کو اچھی نہ لگےاگرچہ سچ (ہو اور ان کی اصلاح کے لیے ضروری ) ہی کیوں نہ ہو۔(احیاء العلوم ج۳، ص۹۶۰)
(۳)غیبت کی عادت۔(یعنی جب وہ کسی کی برائی کرنا شروع کرتا ہے تو) پہلےسچی بات کہتا ہے پھر اِس کے بعد اُس(شخص) کے خلاف جھوٹ بولتا ہے(تاکہ مضبوط انداز سے غیبت ہو سکے)۔ (احیاء العلوم ج۳، ص۴۴۴، مُلخصاً)
سچ کے فضائل اور بُزرگانِ دین کی نصیحت بھری باتوں کو پڑھیے ۔مثلا حضرت سعید بن مُسَیَّب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آنکھوں میں میل کچیل جمع ہو جاتا حتّٰی کہ آنکھوں سے باہر نکل آتا ۔آپ سے کہا جاتا: آپ اپنی آنکھیں صاف کر لیں تو فرماتے:پھرطبیب(doctor) کی بات کا کیا ہوگا؟اس نے کہا تھا کہ اپنی آنکھوں کو مت چھونا (touch کرنا)اور میں نے کہا تھا کہ نہیں چھوؤں گا(یعنی آپ اپنی بات کو سچا رکھنے کے لیے، آنکھ کو ہاتھ نہ لگاتے)۔(احیاء العلوم ج۳، ص۴۲۷) سچّا بننے کے لیے چغل خوری (یعنی ایک کی بات دوسرے کو نقصان پہچانےکے لیے بتانے )کی عادت نکالیں۔ بادشاہ سلیمان بیٹھا ہو ا تھا کہ ایک شخص آیا، امام محمد بن شہاب زُہری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی وہاں موجودتھے، بادشاہ نے آنے والے سے کہا:مجھے پتا چلا ہےکہ تم نے میرے خلاف فلاں فلاں بات کی ہے۔اس نے جواب دیا:میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔ بادشاہ نے کہا:جس نے مجھے بتایا ہے وہ سچا آدمی ہے۔امام زُہری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہ سنا تو فرمایا: چغل خور کبھی سچا نہیں ہوسکتا۔یہ سن کر بادشاہ کہنے لگا :آپ نے سچ فرمایا۔پھر اس شخص سے کہا: تم سلامتی (safety) کے ساتھ واپس چلے جاؤ۔(احیاء العلوم ج۳، ص۴۷۵) یہ ذہن بنائے کہ زبان اللہ پاک کی نعمت ہے اور اس نعمت کا شکر ،یہ بھی ہے کہ اس سے سچ بولا جائے سچ کے دنیا اور آخرت کے فائدے سمجھیے اِسی طرح جھوٹ کے نقصانات بھی ذِہْن میں رکھیےاور اِس کے عذابات سے خود کو ڈرائیے سچ بولنے میں کسی کے ناراض ہونے سے مت ڈرئیےکہ دنیا کی ذِلّت (humiliation) آخرت کی ذِلّت سے بہت کم ہے اپنے دل میں اللہ پاک کاخوف پیدا کیجئے کہ اللہ پاک سے ڈرنے والا ہمیشہ سچ ہی بولتا ہے۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص ۲۲۹ تا۲۳۲)
نوٹ: سچ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’نجات دلانے والے اعمال کی معلومات‘‘ صفحہ 227 تا 233 کو پڑھ لیجیئے۔
20 بد گمانی اور حسن ظنّ
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’ اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۲۶، الحجرات:۱۲)علماء فرماتے ہیں: اللہ پاک نے اپنے مؤمن بندوں کو بہت زیادہ گمان (یعنی خیال، شک اور وہم۔guess) کرنے سے منع فرمایا، کیونکہ بعض گمان (guess)ایسے ہیں جو صرف گناہ ہیں، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ زیادہ گمان کرنےہی سے بچاجائے۔ (صراط
(5) جواب دیجئے:
س۱) سچ بولنے کی تعریف کیا ہے؟
س۲) سچ بولنے کی عادت کیسے بنے؟
یاد رہے!اِس آیت میں کچھ گُمانوں کو گناہ کہا گیا، اس کی وجہ اِمام فخرُالدّین رازِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہ لکھی:کیونکہ کسی شخص کا کام بعض اوقات دیکھنے میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی اُ س کام کی شریعت نے اجازت دی ہوتی ہے (مثلاً جمعہ کی نماز کے لیے دو اذانیں ہوتی ہیں تودوسری اذان کا جواب دینا منع ہے مگر (جمعہ کی نماز کے لیے عربی میں خطبہ دینے والے)خطیب صاحب (دوسری اذان کا جواب)دے رہے ہوں تو ہم سمجھیں کہ یہ عالم صاحب یا خطیب صاحب غلط کر رہے ہیں، حالانکہ جمعہ کی دوسری اذان کا جواب دینا عام نمازیوں کو تو منع ہے مگر خطیب صاحب کو اجازت ہے،لھذا غیرِ عالم کو سنّی عالم صاحب کے کسی کام پر بدگمانی(Suspicion) نہیں کرنی چاہیے) یا وہ بھول کر غلطی کررہا ہوتا ہے یا دیکھنے والا غَلَط سمجھ رہا ہوتا ہے ( مثلاً کوئی جوان شخص رمضان کے مہینے میں ، دن میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر، اکیلے میں کچھ کھا رہا ہے اور وہ بیمار بھی نہیں ہے تو اِس پر بھی بدگمانی نہیں کی جائے گی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھول کر کھا رہا ہو، البتہ ایسے شخص کو روزہ یاد دلادینا لازم ہے)۔ (تفسیرِ کبیر، ج ۱۰ ، ص ۱۱۰ مُلخصاً)
احادیثِ مُبارکہ: (1) فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بدگمانی سے بچو، یقیناً بدگمانی بدترین(یعنی بہت بُرا) جھوٹ ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح،۳/۴۴۶، حدیث: ۵۱۴۳)
2) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :مسلمان کا خون، مال اور اُس کی بدگمانی (دوسرے مسلمان پر) حرام ہے۔ (شعب الایمان، الرابع والاربعون، ۵/۲۹۷، حدیث: ۶۷۰۶)
(3) حضرتِ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے روایت ہے کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی سے برا گمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے بُرا گمان رکھا۔ ( درمنثور،پ:۲۶،الحجرات،تحت الآية:۱۲،۷/۵۶۶ دار الفکر بیروت
بدگمانی کسے کہتے ہیں؟: بغیر کسی ثُبوت کے کسی کے بُرا ہونے کا یقین(believe) کرلینا بدگمانی کہلاتا ہے۔ (ماخوذ از شیطان کے بعض ہتھیار، ص ۳۲)
بدگمانی کی کچھ مثالیں: شوہر کی توجّہ (attention)کم ہوتی دیکھ کر، بیوی کا اپنی ساس (یعنی شوہر کی ماں)سے بدگمانی کرنا کہ ضرور ساس نے میرے شوہر کو جھوٹی شکایت کی ہےبیٹے کی توجّہ (attention) کم ہوتی دیکھ کر بہو(یعنی بیٹے کی بیوی) سے بدگمانی کرنا کہ ضرور بہو نے کچھ اُلٹا سیدھا کہہ دیا ہےکسی اچّھی نوکری سے نکالے جانے پر دفتر کے کسی شخص سے بدگمانی کرنا کہ ضرور اس نے مجھے نکالنے کی سازِش (conspiracy)کی ہوگی قرض دار(یعنی جس نے ادھار لیا ہے) رابطے(contacts) میں نہیں آرہا ہوتو ذہن بنا لیناکہ ضرور مجھ سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہے کاروبار(business) شروع کرنے کے کچھ دن بعد کسی نے گھر لے لیا اور گاڑی خرید لی تو فوراً یہ ذہن بنا لیناکہ ضرور یہ کوئی ناجائزکام کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اتنی جلدی ترقّی (Progress )کی ہے۔ وغیرہ
بدگمانی کی ایک نشانی(sign): دل کی کیفیت یا ذہن کا بدل جانا۔اِمام محمدغزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: بدگُمانی ہو جانے کی پہچان یہ ہے کہ جس کے بارے میں غلط گمان آیا ہواُس کے بارے میں دل کی کیفیت اور ذہن بدل گیا کہ یہ شخص اچھا نہیں ہے یا غلط کام کر رہا ہے۔ (احیاءالعلوم،کتاب آفات اللسان،۳/۱۸۶) یاد رہے!ایسا نہیں ہے کہ دِل میں کسی کے بارے میں بُرا گُمان آیا تو گُناہ ہوگیا۔ اِمام محمدغزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : (مسلمان سے) بدگُمانی بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح زبان سے برائی کرنا حرام ہے۔ لیکن بدگُمانی سے مُراد یہ ہے کہ دِل میں کسی کے بُرا (bad)ہونے کا یقین(believe) کرلیا جائے، رہے دِل میں پیدا ہونے والے وَسوَسے تو وہ معاف ہیں۔ (احیاءالعلوم،کتاب آفات اللسان ،۳/۱۸۶)
بدگمانی کب حرام ہے؟: مسلمان سے بدگمانی (گناہ اور)حرام ِ قطعی (یعنی یقیناً حرام) ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۱۶،ص ۳۳۱) البتہ اگر کوئی شک میں ڈالنے والے بُرے کام سب کے سامنے کرتاہو جیسے شراب کی دُکان میں آنا جانا تو اس صورت میں بدگمانی حرام نہیں۔(روح المعانى، پ٢٦، الحجرات، تحت الآيه:١٢، ٢٦/٤٢٨، ملتقطًا. )یاد رہے کہ( اگرکسی کو شراب پینے کی عادت نہیں ہے اور)کوئی شخص اُس کامنہ سو نگھے اور اس سے شراب کی بد بو آئے تو اسے سزا دیناجائز نہیں کیو نکہ ممکن ہے کہ اس نے شراب منہ میں لی ہو پھر اِسے پھینک دیا ہو ہو یا اسے(دھمکی(threat) وغیرہ دے کر) زبردستی پینے پر مجبور(force) کیا گیا ہو لہٰذاس صورت میں مسلمان کے ساتھ برا گمان رکھناجائز نہیں۔(احیاءالعلوم،۳/۴۵۶مُلخصاً)
بد گمانی حرام کیوں ہے؟: اِمام محمدغزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : بدگُمانی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دِل کی باتوں کوصِرْف اللہ پاک جانتا ہے، لہٰذا تمہارے لئے کسی کے بارے میں بُرا گُمان رکھنا اُس وَقْت تک جائز نہیں جب تک تم اُس کی بُرائی کو اِس طرح نہ دیکھو کہ اس میں اچھے گمان کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔(اِحیاءُ الْعُلوم، ج۳،ص۱۸۶ مُلخصاً)
اہم بات: ہمارے پاس جب تک شرعی دلیل(Sharia proof) نہ ہو، ہم کسی کے گناہ گار ہونے کا گمان نہیں کر سکتے، اگرچہ وہ گناہ کر رہا ہو۔ مثلاً کوئی دکھاوئے کے لیے بڑے اچھے انداز سے نماز پڑھ رہا ہے تب بھی ہم اسے”ریاکار “نہیں کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ہم بدگمانی سے بچیں کہ یہ اُس کا اور اللہ پاک کا معاملہ ہے لیکن دوسری طرف اگر وہ شخص واقعی (really)ریکاری(show off) کر رہا ہو تو ہمارا حسنِ ظنّ(یعنی اچھا گمان) اُسے گناہ سے بچا نہیں سکے گا کیونکہ ریاکاری حرام وگناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔
بد گمانی کی طرف لے جانے والی کچھ باتیں: ہمارے پاس جب تک شرعی دلیل(Sharia proof) نہ ہو، ہم کسی کے گناہ گار ہونے کا گمان نہیں کر سکتے، اگرچہ وہ گناہ کر رہا ہو۔ مثلاً کوئی دکھاوئے کے لیے بڑے اچھے انداز سے نماز پڑھ رہا ہے تب بھی ہم اسے”ریاکار “نہیں کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ہم بدگمانی سے بچیں کہ یہ اُس کا اور اللہ پاک کا معاملہ ہے لیکن دوسری طرف اگر وہ شخص واقعی (really)ریکاری(show off) کر رہا ہو تو ہمارا حسنِ ظنّ(یعنی اچھا گمان) اُسے گناہ سے بچا نہیں سکے گا کیونکہ ریاکاری حرام وگناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔
(۱) بُغْض وکینہ(یعنی دل کی دشمنی )
(۲)دوسرے کے بارے میں بلا وجہ سوچنا
(۳) تَجَسُّس یعنی دوسروں کی چُھپے ہوئی باتوں کو جاننے کی کوشش
(۴)اور بُرےدوستوں کے ساتھ رہنا ۔حضرت ابوتراب نخشبی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں بُرے لوگوں کے ساتھ رہنے سے،نیک لوگوں سے بدگُمانی پیدا کرتی ہے۔(روح المعانی،پ ۱۶،مریم :تحت الآیة ۹۸،الجزء السادس عشر، ۸/۶۱۲)
بدگمانی سے بچنے کے کچھ طریقے: بُرے لوگوں کو چھوڑ کر عاشقانِ رسول کے ساتھ رہیے اچھے کام کیجئے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے جب کسی کے کام برے ہوجائیں تو اس کے گمان بھی برے ہوجاتے ہیں۔ (فیض القدیر ،حرف الھمزة، ۱/۴۲۴، تحت الحدیث: ۵۶۳) ہر مسلمان کے بارے میں اچّھا گمان رکھنے کے لیے اس کی اچھائیوں پر نظر رکھیں۔ فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اچّھا گُمان اچّھی عبادت ہے۔ ( ابوداوٗد، ج۴،ص۳۸۷،حدیث: ۴۹۹۳) اگر کسی کی بارے میں بد گمانی ہو رہی ہو، تو توجّہ (attention)ہٹا دیں۔فتاوی رضویہ میں ہے :خبیث (یعنی بُرا)گُمان ، خبیث (یعنی بُرے) دل ہی سے نکلتا ہے(فتاوٰی رضویہ، ج۲۲،ص۴۰۰) اپنی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اصلاح (یعنی اپنے آپ کو ٹھیک کرنے) کی کوشش شروع کردیجئے تاکہ دوسروں کی طرف سے توجّہ (attention) ہٹ جائے اپنے آپ کو آخرت کے عذاب سے ڈرائیے اگر کسی کے بارے میں بدگمانی ہو رہی ہو تو فوراً ’’اَسْتَغْفِرُ اللہ‘‘پڑھیے اور کسی دوسرے کام میں مصروف(busy) ہو جائیں ا اللہ پاک سے دعا بھی کیجئے ۔ (ماخوذ ازبدگمانی، ص ۳۳ تا ۳۵)
نوٹ: بدگمانی کے بارے میں جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”بدگمانی“ کو پڑھ لیجئے۔
21 ’’گانے سننا (Listening to Songs)‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر سمجھے اللہ کی راہ سے بہکادیں (یعنی گمراہ کردیں)اور اُنہیں ہنسی
(6) جواب دیجئے:
س۱) بدگمانی کسے کہتے ہیں؟
س۲) بدگمانی سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
مذاق بنالیں۔ اُن کےلئے ذِلّت(humiliation) کا عذاب ہے ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ۲۱، لقمٰن:۶) عُلَما فرماتے ہیں: (کھیل کی باتوں میں) گانا بجانا بھی داخل ہیں۔ وہ آلات اور سامان (instruments) کہ جن سے گانا بجایا جاتا ہے، اُن (musical instruments) کوبیچنا بھی منع ہے اور خریدنا بھی ناجائز۔ اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ گانا بجانا حرام اور جہنّم میں لےجانے والا کام ہے۔ (ماخوذ از صراط الجنان، ۷/۴۷۵)
احادیثِ مُبارکہ: (1)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :گانا دل میں ایسے نفاق( ) پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اُگاتاہے۔ (شعب الایمان، ۴/۲۷۹، حدیث:۵۱۰۰)
(2) حدیث شریف میں فرمایا: جو شخص گانا سننے کے لئے کسی گانے والی کے پاس بیٹھا، اُس کے کانوں میں قیامت کے دن پگھلا ہوا سیسہ(lead) ڈالا جائے گا۔ (تاریخ دمشق، محمد بن ابراہیم ابو بکر الصوری، ۵۱/۲۶۳)
(3)ایک اور مقام پر فرمایا: اِس اُمّت میں زمین میں دھنسنے(یعنی داخل ہونے )، مَسخ ہونے(یعنی صورت بگڑنے)، اور آسمان سے پتّھر برسنے کے واقعات ہوں گے۔ عرض کی گئی: ایسا کب ہوگا؟ فرمایا: جب گانے والی عورتیں اور موسیقی کے آلات(musical instruments) آجائیں گے اور (سب کے سامنے)شرابیں پی جائیں گی۔(ترمذی، کتاب الفتن، ۴/۹۰، حدیث:۲۲۱۹)
گانے کی طرف لے جانے والی بعض باتیں: گانے سننا ، اللہ پاک اور رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ناراض کرنے والا کام ہے گانے سننا، رُوح کو کمزور کرتا ہے گانے سننا،دل کوسیاہ (یعنی کالا) کرتا ہے(یعنی بندے کا دل ایسا ہوجاتا ہے کہ اس پر اصلاح کی کوئی بات اثر (effect)نہیں کرتی) گانے سننا، کامل مسلمان بننے سے روکتا ہے گانے سننا، بُرے خیالات دل میں پیدا کرتا ہے گانے سننا،اِنسان کا ذِہْن خراب کرتا ہے گانے سننا،انسان کو غلط راستوں کی طرف لے کر جاتا ہے ۔وغیرہ
گانے پر پیسے خرچ کرنا اسراف ہے: شراب ، سینما، گانا وغیرہ ناجائز کاموں میں(رقم) خرچ کرنا یا اپنے روپے کو دریا میں پھینک دینا یا نوٹوں کو جلا دینا وغیرہ یہ صورَتیں اِسراف کی ہیں ۔ اس کا اُصول یہ ہے : ” لَاخَیْرَ فِی الْاِسْرَاف، وَلَا اِسْرَافَ فِی الْخَیْر یعنی اِسراف میں کچھ بھلائی(goodness) نہیں ہے اور نیکی میں خرچ کرنا اِسراف نہیں ہے ۔ “(وَقارُالفتاویٰ ، ج ۱، ص۱۵۵، کرا چی)
گانے سے روکنے کا صحیح طریقہ : اگر کوئی گانا چلا رہا ہو تو اُسے یہ کہنا کہ”اس وقت(مثلاً رات میں) گانا نہ چلایا کرو ، صبح چلالیا کرو“۔ یہ بھی گانا چلانے اور گناہ کرنے کی اجازت دینا ہے ، جو کہ خود گُناہ ہے کیونکہ گناہ کرنے کی اجازت دینا بھی گناہ ہے۔ اگر کسی کو گانے چلانے سے منع کرنا ہو تو کہا جائے کہ”گانا بند کردیں“ یا”گانا نہ چلایا کریں“ یعنی ایسے الفاظ ہوں کہ جس میں گانا چلانے کی اجازت نہ ہو۔(فتاوی رضویہ جلد۲۴،ص۱۷۹ ماخوذاً)
گانا سننا کیسا؟: حضرت علّامہ شامی َرحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: ناچنا (dance کرنا)، مذاق اُڑانا، تالی بجانا ( clap کرنا)اور موسیقی کی چیزیں (musical instruments) بجانا ، مکروہِ تحریمی( یعنی ناجائز، حرام کے قریب اور جہنّم میں لے جانے والا کام) ہے کیونکہ یہ سب غیر مسلموں کے طریقے ہیں، نیز بانسری (flute)اور دیگر سازوں(music) کا سننا بھی حرام ہے اگر اچانک سُن لیا تو معذور ہے (یعنی مُعاف ہے، مگر) اُس پر واجِب ہے کہ نہ سننے کی پوری کوشِش کرے۔ (گانے باجے کے ۳۵ کفریہ اشعار ص۹)
آج کل گانے بہت زیادہ ہیں : آج کل موبائل ٹیونز(mobile tunes) میں گانوں کاسلسلہ ہے، کبھی یہ ٹیونز نماز میں مساجد میں بج جاتی ہیں،جو نمازیوں کو بہت تکلیف ہوتی ہےآج کل عمومًا شادیوں میں گانے باجوں کا سلسلہ ہوتا ہے جس سےپڑوسیوں اور مریضوں کو بھی پریشانی ہوتی ہےاسی طرح معاشرے(society) میں گھروں ، دکانوں میں بھی گانے وغیرہ کا سلسلہ عام ہے، یہ بچوں کے اخلاق خراب کرنے کا سبب(reason) ہے دکانوں اور گاڑیوں میں گانے بجانے کاسلسلہ بے برکتی کی ایک وجہ ہےبدقسمتی سے بچوں کے کئی کھلونوں میں بھی میوزک کا سلسلہ ہوتا ہے،والدین پر لازم ہے کہ بچوں کو میوزک والے کھلونے نہ دلوائیں۔
گانے کا سب سے بڑا نقصان : کئی گانے ایسے بھی ہیں جن میں کفریہ شعر ہوتے ہیں جنہیں خوشی اور رضامندی سے سننا ایمان خراب کرنے کا سبب(reason) بن سکتا ہے۔یاد رکھیے ! قطعی (یعنی یقینی )کُفر یّہ ، ایک شعر بھی جس نے دلچسپی (interest) کے ساتھ پڑھا ، سنا ،یا گایا تووہ اسلام سے نکل کر غیر مسلم ہو گیا ۔ اس کے تمام نیک اعمال ختم ہو گئے یعنی پچھلی (previous)ساری نَمازیں ، روزے ، حج وغیرہ تمام نیکیاں ضائع(waste) ہو گئیں ۔ شادی کی ہوئی تھی تو نکاح بھی ٹوٹ گیا اگر کسی کامُرید تھا تو بیعت بھی ختم ہو گئی (یعنی مرید بھی نہ رہا) ۔ اس پر فرض ہے کہ اس شِعر میں جو کفر ہے اُس سے فوراً توبہ کر ے اور کلمہ پڑھ کر دوبارہ مسلمان ہو ۔ مُرید ہونا چاہے تو اب کسی بھی صحیح پیر صاحب کا مُرید ہو سکتا ہے۔ اگر پہلی بیوی سے نکاح باقی رکھنا چاہتا ہے تودوبارہ اُس سے نکاح کرے۔ جس کو یہ شک ہو کہ شایدمیں نے اس طرح کا شعر دلچسپی (interest) کے ساتھ گایا ،سنا، پڑھا ہے یا نہیں!!! مجھے تو بس یوں ہی فِلمی گانے سننے اور گانے کی عادت ہے توایساشخص بھی اِحتیاطًا توبہ کر کے دوبارہ مسلمان ہو جائے۔(گانے باجے کے ۳۵ کفریہ اشعار ص۲۶ تا ۲۷ مُلخصاً)کفریہ گانے باجے اور ان سے توبہ کی معلومات حاصل کرنے کے لیے امیرِ اہلسنّت کا رسالہ”گانے باجےکے35 کفریہ اشعار“ پڑھ لیجیے۔
گانے سننے کی عادت ہو تو ختم کرنے کے کچھ طریقے: فوراً اپنے پاس موجودتمام وہ چیزیں کہ جن کے ذریعے گانوں تک پہنچا جا سکتا ہے، ختم کیجیے۔ مثلاً میموری کارڈز(memory cards)، کمپیوٹر سسٹم (computer system)اور دیگر تمام سوشل سائٹس (social sites) کے اکاؤنٹس اور اپنے موبائل وغیرہ سے گانوں (songs) اور میوزک (music)کا ڈیٹا ڈیلیٹ (delete)کردیجئے گانوں کے بجائے تلاوت، نعت اور سنّتوں بھرے بیانات سننے کی ترکیب بنائیے، اِس میں دین و دنیا دونوں کا فائدہ ہے جتنا ہو سکے اللہ پاک کا ذِکْر کیجئے، اجتماعاتِ ذِکْر و نعت میں شرکت کیجئے، دل کا میل دور ہوگا اور رُوحانیت نصیب ہوگی (یعنی دل کو سکون اور چین ملے گا) روزانہ کم ازکم 313 مرتبہ دُرود پڑھنے کا معمول(routine) بنالیجئے، گناہ سے بچنے میں مدد ملے گی (اِنْ شَاءَ اللہ! )گانے سننے کا شوق رکھنے والے دو ستوں سے فورا دور ہوجائیے اور ذِکْر و نعت کا شوق رکھنے والے عاشقانِ رسول کے ساتھ رہیں یہ ذِہْن بنائیے کہ آج اگر کان میں تھوڑا سا بھی درد ہوجائے تو سونا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اللہ نہ کرے اگر گانے سننے کی وجہ سے کل قیامت میں میرے کانوں میں سیسہ(lead)ڈالا گیا تو میرا کیا بنے گا!!! اپنے ایمان کی فکر کیجئے ، کہ کہیں گانے سننے سے (اللہ نہ کرے) ایمان برباد ہوگیا (یعنی بندہ مسلمان ہی نہ رہا)تو ہمیشہ ہمیشہ جہنّم میں رہے گاایسی ہر جگہ جانے سے بچیں جہاں گانے باجے ہوں۔
نوٹ: : گانے سننے کےمزید نقصانات اور عذابات جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب‘‘ اور ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ کو پڑھ لیجئے۔
نوٹ: : گانے سننے کےمزید نقصانات اور عذابات جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب‘‘ اور ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ کو پڑھ لیجئے۔
22 ’’صبر اور بے صبری ‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’اے ایمان والو! صبر اور نَماز سے مدد مانگو، بیشک اللہ صابِروں (یعنی صبر کرنے والوں)کے ساتھ ہے ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۲، البقرۃ:۱۵۳)عُلَما فرماتے ہیں:صبر سے مدد مانگنا یہ ہےکہ(۱) عبادت کی جائے(۲) گناہوں سے رُکنے اور(۳) نفسانی خواہشات (یعنی دل میں پیدا ہونے والی ہر بات)کو پورا نہ کرنے پر صبر کرے۔اس آیت میں نماز اور صبر کو خاص طور پر(especially)اِس لئے ذِکْر کیا گیا کہ بدن پر باطِنی(یعنی دل کے) اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہِری اعمال میں سب سے مشکل نَماز ہے۔ (صراط الجنان، ۱/۲۴۵مُلخصاً
اَحادیثِ مُبارکہ : (1)ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: جب میں اپنے کسی بندے کو اس کے جسم، مال یا اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالوں(یعنی امتحان لوں) ، پھر وہ صَبر جمیل کے ساتھ(یعنی شکایت اور شور نہ کرتے ہوئے) اُس کا استقبال(welcome) کرے تو قیامت کے دن مجھے حیا آئے گی کہ اس کے لئے میزان قائم کروں یا اس کا نامۂ اعمال کھولوں(یعنی نہ میں اُس کا حساب لوں گا اور نہ ہی نامۂ اعمال کھولوں گا)۔(التیسیر بشرح جامع الصغیر،۲/۱۸۷۔نوادر الاصول، ۲/۷۰۰، حدیث: ۹۶۳)
(2)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جتنا میں اللہ پاک کی راہ میں ڈرایا گیا ہوں اتنا کوئی اورنہیں ڈرایا گیا اور جتنا میں اللہ پاک کی راہ میں ستایا (یعنی تنگ کیا) گیا ہوں اتنا کوئی اورنہیں ستایا گیا۔ ( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴/۲۱۳، الحدیث: ۲۴۸۰)
صبر کسے کہتے ہیں: (۱)دینِ اِسلام نے جس کام کو کرنے کا حکم دیا ہو اس پر عمل کرنا یا
(۲) جس کام سے دینِ اِسلام نے دور رہنے کا حکم دیا ہو اس سے بچے رہنا ’’صبر‘‘ کہلاتا ہے۔
(۳)اسی طرح عقل جس کام کو کرنے کا کہے اُس کام کو کرنا یا
(۴) جس کام کو عقل چھوڑدینے کا مشورہ دے اُس کام کو چھوڑدینا بھی ’’صبر‘‘ کہلاتا ہے۔ (مفردات امام راغب، باب الصاد، ص ۲۷۳مفہوما)
بےصبری کسے کہتے ہیں؟ اور اس کی مثال: کسی مصیبت پر بہت رونا، شور مچانا بے صبری اور جزع ہے ۔ (الحدیقۃ الندیۃ، ۲؍۹۸ ماخوذاً)مرنے والے میں پائی جانے والی باتیں یا اچھائیاں بڑھا چڑھا کر بتانا،آواز سے رونا اور ہائے مُصیبت ، ہائے مُصیبت جیسے جملے کہنا، حرام ہے۔ (بہارِ شریعت ،۱؍۸۵۴ ماخوذاً)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: جزع (یعنی بے صبری ) یقینی طور پر حرام ہے ۔ (فضائلِ دعا،۲۸۹ ماخوذاً)
صبر کی کچھ مثالیں: (فرائض) واجبات (، سنت)اور مُستحَب کوادا کرنے کی کوشش پر صبر کرنا ۔ ممنوعات (یعنی حرام، مکروہ تحریمی، مکروہِ تنزیہی وغیرہ )سے بچنے کی کوشش پر صبر کرنا ۔ دنیا کی مصیبتوں اور آفتوں (disasters)جیسے بیماری ، مال کی کمی اور خوف (کسی بات سےڈر) وغیرہ پر صبر کرنا۔ گھر والوں ،پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی بد اخلاقی(bad manners) برداشت کرنا اور ایساکرنے والوں سے بدلہ نہ لینا ۔ وغیرہ (صراط الجنان، ۲/ ۱۳۴بحوالہ خازن مُلخصاً)
صبر کب فرض ہے؟: شریعت نے جن کاموں سے منع کیا ہے(یعنی جو کام حرام ہیں) اُن سے صبر (یعنی رکنا) فرض ہے اسی طرح دین نے جن کاموں کو لازم کیا ہے (یعنی فرض ، واجب ، سنّت مؤکّدہ )ان پر صبر کرنا ضروری ہےناپسندیدہ کام (جو شرعاً گناہ نہ ہو اس) سے صبرمستحب ہے۔ تکلیف دہ کام جو شرعاً منع ہے ،اس پر صبر(یعنی خاموش رہنا) منع ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کا ہاتھ ناحق (یعنی کسی جرم کی سزا (punishment of crime)میں قاضی (judge)وغیرہ کے حکم کے بغیر) کاٹا جائے تو اُس شخص کا خاموش رہنا اور صبر کرنامنع ہے ایسے ہی جب کوئی شخص بُرے اِرادے سے اس کے گھروالوں کی طرف بڑھے تو روکنے کی طاقت ہونے کے باوجود نہ روکتے ہوئےصبر کرنا، حرام ہے۔(احیاء العلوم، ۴ / ۲۰۶ مُلخصاً) صبر جمیل یعنی سب سے بہترین صبر یہ ہے کہ جو شخص مصیبت میں ہو تو کوئی دوسرا شخص اُسے پہچان نہ سکے، اس کی پریشانی کسی پر ظاہر نہ ہو۔(احیاء العلوم، ۴ / ۲۲۱) صبر کا اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کیا جائے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو تم سے قطع تعلق کرے(یعنی رشتہ توڑے) اس سے صلہ رحمی سے پیش آؤ(یعنی رشتہ جوڑو)، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو۔ (مسند احمد بن حنبل ، ج۶،ص۱۴۸،رقم ۱۲۶) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میں تم سے کہتا ہوں کہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دو بلکہ جو تمہارے ایک گال پر مارے اپنا دوسرا گال اس کے آگے کردو۔امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : یہاں تکالیف پر صبر کرنے کا فرمایا گیا ہے اور یہی صبر کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔( اِحیاء العلوم، ۴ / ۲۱۵ مُلتقطاً)
مصیبت سے ملنے والے کچھ فائدے : مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل(یعنی نیک کاموں میں سُست(lazy) ہو) ہو مگر جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ بیمار ہوتا ہے تو کتنا اللہ پاک کو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے (اور یہ مصیبت کا بہت بڑا فائدہ ہے) ۔ بڑے درجےوالوں کی شان ہے کہ وہ تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال (welcome) کرتے ہیں جیسےعام لوگ خوشی کا استقبال کرتے ہیں ۔ اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہوئی مصیبت جاتی نہیں ہے بلکہ حدیثوں میں بتائے ہوئے ثواب سے بھی محرومی ہو جاتی ہے۔ (بہار شریعت، کتاب الجنائز، ۱ / ۷۹۹مُلخصاً)
صبر سے دور کرنے والی کچھ چیزیں: مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل(یعنی نیک کاموں میں سُست(lazy) ہو) ہو مگر جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ بیمار ہوتا ہے تو کتنا اللہ پاک کو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے (اور یہ مصیبت کا بہت بڑا فائدہ ہے) ۔ بڑے درجےوالوں کی شان ہے کہ وہ تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال (welcome) کرتے ہیں جیسےعام لوگ خوشی کا استقبال کرتے ہیں ۔ اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہوئی مصیبت جاتی نہیں ہے بلکہ حدیثوں میں بتائے ہوئے ثواب سے بھی محرومی ہو جاتی ہے۔ (بہار شریعت، کتاب الجنائز، ۱ / ۷۹۹مُلخصاً)
صبر سے دور کرنے والی کچھ چیزیں: (1) مایوسی(disappointment)
(2)صبر کے ثواب پر نظر نہ ہونا
(3)دنیا میں آزمائش اور امتحان ہونے کی طرف توجّہ (attention) نہ ہونا۔
صبر کی عادت بنانے کے کچھ طریقے: صبر کے فضائل اور ثواب پر لکھی ہوئی کتابیں پڑھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے بے صبری کے نقصانات جانیئے، بہارِ شریعت میں ہے :مصیبت پر صبر کرے تو اْسے دو (2)ثواب ملتے ہیں، ایک(1st ) مصیبت کا دوسرا (2nd )صبر کا اور جزع و فزع(یعنی بے صبری) سے دونوں جاتے رہتے ہیں۔ (بہارِ شریعت ،۱؍۸۵۲) اللہ پاک سے دعا کیجئے کہ وہ صبر کرنے کی طاقت عطا فرمائے بے صبری سے بچنے کےلئے عاجزی (یعنی نرمی )پیدا کیجئے اور تکبُّر (arrogance)سے دور رہیئے جلد بازی سے بچنے کی عادت بنائیے کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے معاف کرنےکی عادت بنائیے، اس سے صبر کرنا آسان ہوجائے گا مُصیبت میں بھی اُن نعمتوں پر غور کیجیئے کہ جواللہ پاک نے آپ کو اب تک دی ہوئی ہیں دنیا میں آزمائش وامتحان ہےاورصبر کامیابی کی چابی (key to success)ہے آزمائشیں اور مصیبتیں انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام کے پاس بھی حاضِر ہوئیں تو اُنہوں نے بھی صبر فرمایا کربلا کے میدان میں اِمامِ حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے خاندان پر آنے والی مصیبتیں یاد کیجئے اور اپنی مصیبتوں پر صبر کیجئے۔وغیرہ
نوٹ: صبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’احیاء العلوم جلد 4 صفحہ 184 تا 239‘‘کو پڑھ لیجیئے۔
23 کسی چیز کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’ تو جب اُنہیں بھلائی ملتی توکہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب بُرائی پہنچتی تو اُسے موسیٰ( عَلَیْہِ السَّلَام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست(یعنی بد بختی) قرار دیتے۔ سن لو! ان کی نحوست اللہ ہی کے پاس ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۹، الاعراف:۱۳۱)علماء فرماتے ہیں: فِرعونی(یعنی فرعون کو خدا ماننے والے) کُفر میں اس قدر مضبوط اور سخت تھے کہ جب اُنہیں پھل ، پھول ، جانور ، صحّت(health) ، سلامتی(peace) اور دیگر نعمتیں ملتیں تو کہتے: یہ توہمیں ملنا ہی تھا، کیونکہ ہم اِس کے حقدار(entitled) ہیں۔یہ لوگ اس بھلائی (goodness)
(9) جواب دیجئے:
س۱) صبر کسے کہتے ہیں؟
س۲) صبر کی عادت کیسے بنے؟
کونہ تو اللہ پاک کا فضل اور کرم جانتے او ر نہ ہی نعمتوں پر اللہ پاک کا شکر اد اکرتے تھے اور جب اُنہیں بیماری، تکلیف، تنگی(poverty)، مصیبت یا کوئی بُرائی پہنچتی تو اُسے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کہتے(یعنی یہ سب مصیبتیں اِن لوگوں کی وجہ سے ہیں) اور یہ بھی کہتے کہ اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں۔(صراط الجنان، ۳/۴۱۱، مُلخصاً) معلوم ہوا کہ بدشگونی لینا (یعنی کسی چیز کو اپنے لیے بُرا سمجھنا)غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اچھا یا بُراشگون لینے (یعنی کسی چیز کو اپنے لیے اچھا یا بُرا سمجھنے)کے لیے پرندہ اُڑانا(fly a bird) ، بَدشگونی لینا ہےاور طَرْق (یعنی پتھر پھینک کر یا مٹّی میں لکیر کھینچ کر کسی چیز کے اچھا یا بُرا ہونے کا نتیجہ(result) نکالنا)شیطانی کاموں میں سے ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطب،۴/۲۲، حدیث:۳۹۰۷) علماء فرماتے ہیں:عَرَب لوگ پرندے کے سیدھی طرف اُڑنے سے اچّھی فال لیتے یعنی اپنے حق میں اچّھا سمجھتے تھے جبکہ پرندے کے اُلٹی طرف اُڑنے اور کوّوں (crows)کے کائیں کائیں کرنے سے بدشگونی لیتے یعنی اپنے حق میں بُرا سمجھتے تھے۔ اِسی طرح عَرَب لوگ عُقاب (ایک طاقتور شکاری پرندہ۔ eagle) دیکھ کر اُس سے مصیبت کی بدشگونی لیا کرتے تھے یعنی چونکہ میں نے عُقاب دیکھ لیا ہے تو اب مجھے ضرور کوئ مصیبت آئے گی۔ (بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ،۲/۳۷۸ماخوذا۔تفسیر کبیر، ۵/۳۴۴ ماخوذا)
بدشگونی کسے کہتے ہیں ؟: کسی بھی چیز، شخص، کام، آواز یا وقت کو اپنے حق میں (یعنی اپنے لیے)برا سمجھنا بدشگونی یعنی بُری فال لیناکہلاتا ہے۔ (ماخوذ بدشگونی، ص۱۰)
بدشگونی کی کچھ مثالیں: اندھے(blind)، لنگڑے(lame)، ایک آنکھ والے یا کسی معذور(disabled) شخص کو دیکھ کر بُرا دن گزرنے کی بدشگونی لینا ایمبولینس(ambulance)، فائر بریگیڈ(fire brigade)، کسی پرندے یا جانور وغیرہ کی آواز کو اپنےلیے بُرا سمجھنا کہ اب مجھ پر مُصیبت آئے گی سیدھی یا اُلٹی آنکھ پھڑکنے( یعنی بار بار بند ہونے) سے کسی مصیبت کے آنے کا یقین(believe) کرلینا 13 کے عدد (number)کو منحوس(اور بُرا) سمجھنا کہ اگر13 نمبر کی گاڑی لی توحادثہ(accident)ہو جائے گا۔وغیرہ
بدشگونی کی ایک نشانی(sign): کسی کام کو اپنے حق میں منحوس (یعنی بُرا) جانتے ہوئے،اُس کام سے رُک جانا۔ اللہ پاک کے مَحبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :(جو)بدشگونی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آیا وہ بلند(یعنی بڑے) درجوں تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا۔(ابن عساکر، رجاءبن حیوة،۱۸/۹۸)
بدشگونی حرام ہے : مفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اسلام میں نیک فال(کسی چیز کو اپنے حق میں اچھا سمجھ) لینا جائز ہے، بدفالی بدشگونی لینا حرام(اور گناہ) ہے۔ (تفسیرنعیمی، پ۹، اعراف، تحت الآیۃ۱۳۱، ۹/۱۱۹)
یاد رہے! اگر کسی نے بَدشگونی کا خیال دل میں آتے ہی اسے دور کیا تو اس پر گناہ نہیں لیکن اگر بَدشگونی کی وجہ سے اُس کام سے رُک گیا تو گناہ گار ہوگا مثلاً کسی چیز کو منحوس (یانقصان پہنچانے والی)سمجھ کر سفر یا کاروبار کرنے سے یہ سوچ کر رُک گیا کہ مجھے نقصان ہی ہوگاتو اب گنہگار ہوگا۔اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : مسلمانوں کو چاہیے کہ جب دل میں بدشگونی کا وسوسہ آئے تو یہ دعاپڑھیں : اَللّٰھُمِّ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُک وَلَا خَیْرَاَلَّا خَیْرُک وَلَا اِلٰہ ِغَیْرُک۔(ترجمہ)”اے اﷲ ! کوئی برائی نہیں مگر تیری طرف سے اور کوئی بھلائی (goodness) نہیں مگر تیری طرف سے اور تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں“۔ اس دعا کو پڑھنے کے بعد اپنے ربّ پر بھروسا (trustاور یقین)کرکے اپنے کام کو چلا جائے ، ہر گز نہ رُکے نہ واپس آئے۔ (فتاوی رضویہ، جلد۲۹، ص۶۴۰مُلخصاً)
یاد رہے! اگر کسی نے بَدشگونی کا خیال دل میں آتے ہی اسے دور کیا تو اس پر گناہ نہیں لیکن اگر بَدشگونی کی وجہ سے اُس کام سے رُک گیا تو گناہ گار ہوگا مثلاً کسی چیز کو منحوس (یانقصان پہنچانے والی)سمجھ کر سفر یا کاروبار کرنے سے یہ سوچ کر رُک گیا کہ مجھے نقصان ہی ہوگاتو اب گنہگار ہوگا۔اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : مسلمانوں کو چاہیے کہ جب دل میں بدشگونی کا وسوسہ آئے تو یہ دعاپڑھیں : اَللّٰھُمِّ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُک وَلَا خَیْرَاَلَّا خَیْرُک وَلَا اِلٰہ ِغَیْرُک۔(ترجمہ)”اے اﷲ ! کوئی برائی نہیں مگر تیری طرف سے اور کوئی بھلائی (goodness) نہیں مگر تیری طرف سے اور تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں“۔ اس دعا کو پڑھنے کے بعد اپنے ربّ پر بھروسا (trustاور یقین)کرکے اپنے کام کو چلا جائے ، ہر گز نہ رُکے نہ واپس آئے۔ (فتاوی رضویہ، جلد۲۹، ص۶۴۰مُلخصاً)
بدشگونی کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں : (۱)اسلامی تعلیمات سے دوری(۲) اللہ پاک پر بھروسے(trust) کی کمی(۳)مختلف قسم (different types)کے وہم(غلط خیالات) رکھنا۔وغیرہ
بدشگونی سے بچنے کے کچھ طریقے : یہ ذِہْن بنالیجئے کہ کوئی بھی چیز نقصان یا فائدہ نہیں دیتی، وہی ہوتا ہے جو اللہ پاک چاہتا ہے جب بھی بدشگونی کے خیالات آئیں اللہ پاک سے دُعا کیجئے اور اسی پر بھروسہ (trust) کرتے ہوئے ہر بُر ا خیال دل سے نکال دیجئے بدشگونی کی وجہ سے کسی کام سے مت رکئے اور فائدہ و نقصان اللہ پاک پر چھوڑدیجئے نیک فال لینے کی عادت ڈالیں۔وغیرہ
نیک فال کسے کہتے ہیں اور اس کی مثال: نیک فال کا مطلب ہے کہ کسی چیز کو اپنے لئے بَرَکت والی، بھلائی(goodness) والی اور اچھی سمجھنا اور یہ مُسْتَحَب (یعنی ثواب کا کام)ہے۔مثلاً صبح صبح کسی بزرگ یا پیر صاحب سے مُلاقات ہوئی تو یہ سمجھنا کہ آج کا دن اچھا گزرے گا یا پیراور جمعرات کوسفر شروع کرنا اور یہ سمجھنا کہ یہ سفر اچھا رہے گا ۔ہمارے مکی مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو نیک فال لینا پسند تھا جیسا کہ ایک مرتبہ فرمایا:بَدفالی کوئی چیز نہیں اور فال اچھی چیز ہے۔ لوگوں نے عرض کی: فال کیا چیز ہے؟ فرمایا: اچھا کلمہ(یعنی بات) جو کسی سے سنے۔ (بخاری،کتاب الطب، ۴/۳۶، حدیث :۵۷۵۴) علماء فرماتے ہیں :کہیں جاتے وقت یا کسی کام کا ارادہ کرتے وقت کسی کی زبان سے اگر اچھا کلمہ نکل گیا(مثلاً کوئی امتحان کی تیاری کر رہا تھا تو امّی یا ابّو نے کہا کہ اِنْ شَاءَ اللہ! کامیاب ہو جاؤگے، اس بات کو سُن کردل خوش ہوگیا اور دل میں یہ بات آئی کہ اِنْ شَاءَ اللہ! اب تو میں کامیاب ہو ہی جاؤں گا تو)، یہ نیک فال ہے۔(بہار، شریعت، ۳/۵۰۳مُلخصاً) بَدشگونی کا مقابل(opposite)، نیک فال یا اچھاشگون ہے۔
بد شگونی اور نیک فال میں فرق: بَدشگونی لینا ناجائز و گناہ اور اچھا شگون لینا ثواب و مُسْتَحَبہے اچھا شگون لینا ہمارے مَدَنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا طریقہ ہے اور بَدشگونی لینا غیر مسلوں کا طریقہ ہے اچھا شگون لینے والا، اللہ پاک کی رحمت سے اُمید (hope)رکھتا ہے جبکہ بَدشگونی لینے سے بندہ نااُمید (hopeless)ہو جاتا ہے۔ مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:نیک فال لینا سنّت ہے اس میں اللہ پاک سے اُمید (hope)ہے اور بدفالی لینا منع ہے کہ اس میں اللہ پاک سے نا اُمّیدی(hopelessness) ہے۔اُمّید اچھی ہے نااُمّیدی بُری چیز ہے،ہمیشہ اللہ پاک سے اُمّید (hope)رکھو۔(مراٰۃ المناجیح، ۶/۲۵۵) نیک فال لینے کی وجہ سے بندہ اپنے کام میں کامیابی کی کوشش کرتا رہتا ہےاور اُ س کی اُمید ختم نہیں ہوتی جبکہ بَدشگونی کی وجہ سے وہ اپنے کام میں کامیابی کی کوششیں ختم کر دیتا ہے۔وغیرہ نوٹ: بدشگونی کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب’’بدشگونی‘‘ کو پڑھ لیجئے۔ ( )
24 ’’گالی دینا‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’بُری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا‘‘ ۔(ترجمۂ کنز العرفان) (پ۶، النساء:۱۴۸)عُلَما نے اس آیت کا ایک مطلب یہ بیان کیا ہے کہ بُری بات کے اِعلان سے مراد ’’گالی دینا‘‘ ہے۔ یعنی اللہ پاک اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو گالی دے۔ (صراط الجنان، ۲/۳۳۹)
احادیثِ مُبارکہ: (1)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے گالی دیتا ہے۔ (شرح السنہ، کتاب البر والصلۃ، ۶/۴۸۹، حدیث:۳۴۱۲)
(2)ایک مرتبہ فرمایا: مسلمان کو گالی دینا ’’فِسْق(یعنی اللہ پاک ا ور رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نافرمانی والا کام) ‘‘ ہے۔(بخاری، کتاب الفتن،۴/۴۳۴، حدیث:۷۰۷۶)
(3)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :تمہارا اس شخص کے بارے میں کیا خیال
(10) جواب دیجئے:
س۱) بدشگونی کسے کہتے ہیں؟
س۲) بدشگونی سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
ہے جو اپنے والدین کو گالی دیتا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےعرض کی :کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟فرمایا:ہاں!یوں کہ یہ کسی کے والدین کو برا بھلا کہتا ہے تو وہ اِس کے والدین کو برا بھلا کہتا ہے۔(صحيح مسلم،کتاب الايمان،الحديث ،ص۶۰،بتغير)
گالی دینا کسے کہتے ہیں؟: ایسی بات کرنا جس سے کسی بھی انسان کی عزّت خراب ہو، گالی کہلاتا ہے۔ (ماخوذ از عمدۃ القاری،کتاب الایمان، ۱/۴۳۳، تحت الحدیث:۴۸)
گالی کی کچھ مثالیں: اگر کسی کو کہا”او کتے“(dog)،”او سؤ ر“(pig)،”اوگدھے“ (donkey)تو یہ الفاظ گالی ہیں۔ (مراۃ المناجیح،۵/۳۲۶ بتغير)
گالی دینا جہنّم میں لے جانے والا کام ہے: (1): مسلمان کو بِلاوجہِ شَرْعِی گالی دینا سَخْت حرام(اور گناہ) ہے۔ (فتاوی رضویہ،۶/۵۳۸ملتقطاً)
گالی دینا کس بات کی نشانی (sign)ہے؟: بدباطن(یعنی بُرے خیالات والوں) اور گھٹیا لوگوں کی ایک عادت گالی دینا بھی ہے۔(احیاء العلوم ،۳/۳۷۳ ماخوذاً) یعنی گالی دینے والا گھٹیا آدمی ہے۔
گالی دینے کے نقصانات: گالی دینے میں انسان کا دینی اور دنیاوی ہر طرح کا نقصان ہے گالی دینا حرام ا ور اللہ پاک ورسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نافرمانی والا کام ہے گالی دینے والا کبھی ایک سچا مسلمان اور اچھا شہری نہیں سمجھا جاتا گالی دینا اپنے مسلمان بھائی پر ظلم کرنا ہے گالی سے معاشرے(society) کا اَمن تباہ ہوتا اور لڑائی جھگڑے بڑھ جاتے ہیں گالی کی وجہ سے دشمنیاں بڑھتیں اور کبھی تو قتل ہو جاتے ہیںگالی کی وجہ سے دوست بلکہ خونی رشتہ دار(blood relatives مثلاً بھائی بہن)بھی دور ہوجاتے ہیں گالی دینے سے اِحترامِ مسلم(Muslims respect ) اور ہمدردیٔ مسلم (Muslims sympathy) کا جذبہ ختم ہوتا ہے گالی دینے والا موت کے بعد بھی اچّھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جاتا۔وغیرہ
گالی کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں : (۱) غصّہ (۲) دوسرے سے نفرت(۳) گالی کے جواب میں گالی دینا وغیرہ۔ایسوں کو چاہیے کہ بزرگوں کے واقعات پڑھیں۔ حضرت اَحنف بن قیس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو کسی نے گالی دی تو آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا وہ گالی دیتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگاجب آپ اپنے محلے (neighborhood)کے قریب پہنچےتو رُک گئے اور فرمایا: تمہارے دل میں کوئی اوربات بھی ہےتو یہیں کہہ دو ورنہ محلےکے لوگ تمہاری بات سن کر (میری محبّت کی وجہ سے)تمہیں تکلیف پہنچائیں گے۔(احیاء العلوم ،۳/۲۱۹)ایک مرتبہ حضرت ِسلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو کسی نے گالی دی تو آپ نے اُس سے کچھ اس طرح فرمایا: اگر کل قیامت میں میری نیکیاں کم ہوئیں تو جو کچھ تو کہتا ہے میں اس سے بھی بُرا ہوں اور اگر میری نیکیاں زیادہ ہوئیں تو تیری گالی سے مجھے کچھ نقصان نہیں ہوگا۔(احیاء العلوم ،۳/۵۲۳)
نوٹ: گالی سے بچنے اور زبان کی حفاظت کا ذہن بنانے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی یہ کتابیں ’’خاموش شہزادہ‘‘ ’’میٹھے بول‘‘ ’’ایک چپ سو سکھ‘‘ اور ’’جنّت کی دو(۲) چابیاں‘‘ کو پڑھ لیجئے۔( )
25 ’’ شکر اور ناشکری‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے ‘‘ ۔ (صراط الجنان) (پ۱۳، ابراھیم: ۷) علماء فرماتے ہیں: اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے (صراط الجنان،ج۵، ص۱۵۰) بندہ جب اللہ پاک کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے احسانات کو پڑھتا ہے تو اس کا شکراداکرنے لگتا ہے ،اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللہ پاک کی محبّت بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۷۵-۷۶)
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (11) جواب دیجئے:
س۱) گالی دینے کے کیا کیا نقصانات ہیں؟
س۲) اگر گالی کی عادت ہے تو اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
’’ جسے چار (4)چیزیں مل گئیں اسے دنیاوآخرت کی بھلائی مل گئی: (۱)شکر کرنے والادل (۲)ذکر کرنے والی زبان (۳) آزمائش پر صبر کرنے والا بدن اور (۴)اپنے شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔‘‘( معجم اوسط، ۵/ ۲۴۴، حدیث: ۷۲۱۲) ایک روایت میں فرمایا:قیامت کے دن پکارا جائے گا کہ ”حَمَّادُوْن“ کھڑے ہوجائیں تو ایک گروہ کھڑا ہوجائے گا، ان کے لئے ایک پرچم(flag) بلند کیا جائے گا اور وہ تمام لوگ جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔ عرض کی گئی: ”حَمَّادُوْن“ کون ہیں؟ فرمایا: جو لوگ ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہیں. )قوت القلوب،شرح مقامات الیقین،۱/ ۳۴۵
شکر کسے کہتے ہیں؟: ’’ جسے چار (4)چیزیں مل گئیں اسے دنیاوآخرت کی بھلائی مل گئی: (۱)شکر کرنے والادل (۲)ذکر کرنے والی زبان (۳) آزمائش پر صبر کرنے والا بدن اور (۴)اپنے شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔‘‘( معجم اوسط، ۵/ ۲۴۴، حدیث: ۷۲۱۲) ایک روایت میں فرمایا:قیامت کے دن پکارا جائے گا کہ ”حَمَّادُوْن“ کھڑے ہوجائیں تو ایک گروہ کھڑا ہوجائے گا، ان کے لئے ایک پرچم(flag) بلند کیا جائے گا اور وہ تمام لوگ جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔ عرض کی گئی: ”حَمَّادُوْن“ کون ہیں؟ فرمایا: جو لوگ ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہیں. )قوت القلوب،شرح مقامات الیقین،۱/ ۳۴۵
شکر کی تفصیل( یعنی وضاحت ۔explanation ) امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: شکر کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اس بات کو پہچانے کہ اللہ پاک نے مجھ پر یہ احسان فرمایا اور اُسے اِ س نعمت سے خوشی حاصل ہواور وہ نعمت کو اللہ پاک کی خوشی کے مطابق استعمال کرے ۔ گویا اس کا دل اللہ پاک کی تعظیم (respect)کے لیے جُھک جائے، زبان سے شکر کے کلمات ادا ہوں اور جسم ، اس نعمت کے معاملے میں اللہ پاک کو راضی کرنے والے کام کرے(مثلاًبچہ پیدا ہوا تو اس کا دل اللہ پاک کے احسان کو مانے، زبان اللہ پاک کی حمد کرے اور بچے کی خوشی میں کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جسے اللہ پاک نے منع فرمایا ہو نیز وہ اس بچے کو اس طرح پالے اور تربیت کرے کہ جس طرح اِ سےتربیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے)۔(احیاء العلوم ج۴،ص ۲۴۴،۲۴۵مُلخصاً)
کیا صرف زبان سے شکر ادا کرنا ہے؟: امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:تمہیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ صرف زبان کوحرکت دے کر یہ کلمات(”اَلْحَمْدُلِلّٰہ“) پڑھنا کافی ہے بلکہ دل سے بھی شکر ہونا چاہیے۔ہاں!”اَلْحَمْدُلِلّٰہ“ کہنا اس بات کی نشانی (sign)ہے کہ کہنے والا سمجھتا ہے کہ یہ نعمت اللہ پاک کی طرف سے ہے اور اللہ پاک کا احسان ہے۔ لہٰذا جب”اَلْحَمْدُلِلّٰہ“ کہے توایمان اور یقین(believe) کے ساتھ کہے ۔(احیاء العلوم ج۴،ص ۲۴۶مُلخصاً) اللہ پاک نے ایک مقام پر حضرت موسٰی عَلَیْہِ السَّلَام سےفرمایا:جان لو! ہرچیز کو بنانے والامیں ہی ہوں،(یعنی اللہ پاک ہی سب کو پیدا کرنے والا ہے اور)اس بات کا یقین ہی ”شکر“ ہے۔ (احیاء العلوم ج۴،ص ۲۴۸مُلخصاً)
انسان نعمت پر خوش کیوں ہو؟: امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: اللہ پاک کی نعمت پر بندہ اس وجہ سے خوش ہو کہ ان نعمتوں کے ذریعے مجھے اللہ پاک کی رحمت سے حصّہ پانےمیں مدد ملے گی۔ اس کی علامت (پہچان۔symbol) یہ ہے کہ بندہ دنیا میں صرف انہی چیزوں سے خوش ہو جو آخرت کے لئے فائدہ مند(beneficial) ہوں اور ہر اس چیز سے پریشان ہو جو اللہ پاک کے ذکر سےدور کرے اور اللہ پاک کی رضا والے کاموں سے روکے(مثلاً اولاد ملے تو اس لیے خوش ہو کہ اسے نیک، نمازی، حافظ، عالم وغیرہ بنا کر اپنی آخرت کے لیے نیکیاں جمع کرونگا اور ایسا نہ ہو کہ اولاد کے لیے مال زیادہ کرنے میں لگ جائے اور نفل عبادت میں کمی ہوجائے )۔(احیاء العلوم ج۴،ص,۲۴۹مُلخصاً) حضرت شیخ ابوبکر شِبْلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: شکر یہ ہے کہ نظر نعمت پر نہ ہو بلکہ نعمت دینے والے پر ہو(یعنی جب نعمت ملے تو اس ملنے والی چیز کی خوشی میں ہی رہنے کی جگہ اللہ پاک کے احسان کا شکر ادا کرنے میں مصروف(busy) ہو جائے)۔(احیاء العلوم ج۴،ص ۲۵۰)
نعمتوں کو اللہ پاک کی رضا کے کاموں میں استعمال کرنا، شکر کی ایک نشانی (sign)ہے: اللہ پاک کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا واجب ہے۔ (خزائن العرفان، پ۲، البقرہ، تحت الآیۃ: ۱۷۲) شکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی نعمتوں کو اس کی رضا والے کاموں میں استعمال کیا جائے۔ (احیاء العلوم ج۴،ص ۲۶۳سے۲۶۶مُلخصاً)جو شخص سونا چاندی کو ان کی حکمتوں کے خلاف استعمال کرے (مثلاً مرد کو سونے کا زیور پہننے یا چاندی کی غیر شرعی انگوٹھی پہننے، تو)وہ اللہ پاک کی نعمت کا ناشکرا ہے ۔(احیاء العلوم ج۴،ص ۲۷۳مُلخصاً)
شکر اور نا شکری کی مثال: اپنے استاد کاانکار کرتے ہوئے یہ کہنا کہ: یہ ہمارے استاد نہیں ہیں حالانکہ انہوں نےاِ سے پڑھایا ہو تو یہ علم کی نعمت کی ناشکری ہے۔(فتاویٰ رضویہ،۲۳؍ ۷۰۷ ماخوذاً)ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :نعمت کی ناشکری کبیرہ گناہ ہے اور نعمت کا شکر یہ ہے کہ احسان کرنے والے کو بدلہ دے اور اس کے لیے دعا کرے ۔ (76 کبیرہ گناہ ،ص ۲۰۳مُلخصاً)
شکر سے دور کرنے والی کچھ چیزیں: (1)اپنی ہر بات پوری کرنے کاجذبہ(2)قناعت(جو مل گیا، اُس پر صبر) نہ ہونا(3)لالچ(4)خوفِ خدا کی کمی۔وغیرہ
شکر کے کچھ فائدے: شکر بہترین نیکی ہےشکر سے نعمتوں کی حفاظت ہےشکر سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہےشکر میں اللہ پاک کی اطاعت(obedience) ہےشکر ادا کرنا، اللہ والوں کا طریقہ ہےشکر گناہوں سے بچانے والا ہے کیونکہ شکر کا مطلب ہی یہ ہے کہ نعمت کو اسی طرح استعمال کیا جائے کہ جس میں اللہ پاک کی نافرمانی نہ ہوشکر سےنعمتوں کی اہمیّت(importance) پیدا ہوتی ہے۔ وغیرہ
شکر کی عادت اپنانے کے کچھ طریقے: شکر کےفضائل وواقعات پڑھیں اللہ پاک کی نعمتوں پر غور کریں نعمتیں ختم جانے سے ڈریں ۔علماء فرماتے ہیں : بندہ جب اللہ پاک کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم و اِحسان کو پڑھتاہے تو اس کا شکر کرنے لگتا ہے اور اِ س شُکر کی برکت سے نعمتیں اور زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللہ پاک کی محبّت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ( خزائن العرفان، پ۱۳، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷مُلخصا) اپنے سے نیچے والوں پر نظر کیجئے ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جو شخص دنیاوی معاملات میں اپنے سے کم کو دیکھے اور دینی مُعاملات میں اپنے سے بہتر کی طرف نظر رکھےوہ اللہ پاک کےنزدیک صبر کرنے والا اورشاکر کرنے والا ہوتا ہے اور جو شخص دنیاوی مُعاملات میں اپنے سے بہترکو دیکھے اور دینی مُعاملات میں خود سے کم کو دیکھےوہ اللہ پاک کےنزدیک صبر کرنے والا اورشاکر کرنے والا نہیں ہوتا۔ ( سنن الترمذی، باب(۱۲۳)، ۴/ ۲۲۹،حدیث:۲۵۲۰، بتغیر) احسان کرنے والےکا احسان (favor)یاد رکھنا۔ فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اسے چاہیے کہ اسے یاد رکھے کیونکہ جس نے احسان کو یاد رکھاگویا اس نے اس کا شکر ادا کیا اور جس نے اسے چھپایا بے شک اس نے ناشکری کی۔ (ابوداود،کتاب الادب،۴؍۳۳۶،حدیث:۴۸۱۴) شکر کرنے والوں کے ساتھ رہا کریں زبان سے بھی شکر کریں (مثلاً”اَلْحَمْدُلِلّٰہ“ کہنے کی عادت بنائیں) مصیبتوں پر بھی شکر کریں۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ہر مصیبت اور بیماری کے بارے میں یہ سوچےکہ اس سے بھی بڑی بیماری اور مصیبت موجود ہے اگر اللہ پاک اس بیماری میں اضافہ فرما دے (increase it) تو کیا میں روک سکتا ہوں؟کیا اسے دور کرسکتا ہوں؟ ہرگز نہیں! تو اس بات پراللہ پاک کا شکر کرےکہ اس نے بڑی مصیبت وبیماری نہیں بھیجی۔ ( احیاء العلوم، ۴/ ۳۷۷ تا ۳۸۲ملخصا)
26 ’’ چغلی‘‘
(12) جواب دیجئے:
س۱) شکرکسے کہتے ہیں؟
س۲) شکر کی عادت کیسے بنے؟
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’سامنے سامنے بہت طعنےدینے (طنز کرنے اور باتیں سنانے) والا، چغلی کے ساتھ اِدھر اُدھر بہت پھرنے والا ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۲۹، القلم:۱۱)عُلَما فرماتے ہیں: اس آیت میں 2 برائیاں بیان کی گئی ہیں: (1)لوگوں کے سامنے ان کے بہت زیادہ عیب (یعنی کمزوریاں) نکالنا یا طعنے دینا (یعنی باتیں سنانا) (2)اِدھر اُدھر بہت زیادہ چغلیاں کرتے رہنا(یعنی ایک کی بات، نقصان پہچانے کی نیّت سے دوسرے کو بتانا)۔ (صراط الجنان، ۱۰/۲۸۸ملخصاً)
اَحادیثِ مُبارکہ : (1)فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : چغل خور جنّت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، ۴/۱۱۵، حدیث:۶۰۵۶)
(2)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک کے بُرے بندے وہ ہیں جو چغل خوری کرتے، دوستوں میں جدائی (separation)کرتے اور نیک لوگوں کے عیب (یعنی کمزوریاں)ڈھونڈتے ہیں۔(مسند احمد، مسند الشامیین، ۶/۲۹۱، حدیث: ۱۸۰۲۰)
چغلی کسے کہتے ہیں؟: لوگوں میں لڑائی کروانےکےلئے ،ایک(1st ) کی باتیں دوسرے(2nd ) کو بتانا چغلی کہلاتا ہے۔ (شرح نووی، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم النمیمۃ، جزء۲، ۱/۱۲۸)
چغلی کی کچھ مثالیں: کسی سے کہا جائے کہ فُلاں نے تمہارے بارے میں یہ غلط بات کہی یا تمہارے خلاف (against)ایسا کیا یا وہ تمہارے کام کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے یا تمہارے دشمن سے دوستیاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے یا اس قسم کی دوسری باتیں کہے۔(احیاء العلوم، جلد۳، ص ۴۷۲ ماخوذاً)
چغلی حرام و گناہ ہے: (۱) چُغْلِی سَخْت حرام اور کبیرہ(یعنی بڑا) گناہ ہے۔)جہنّم کے خطرات، ص ۶۴( (۲) جس کے پاس کسی کی چُغْلِی کی گئی اس پر لازِم ہے کہ چغلی کرنے والے کو سچا نہ جانےاور اگر طاقت رکھتا ہو تو اُسے چُغْلِی کرنے سے روک دے اور جس کی چُغْلِی کی گئی اُس کے بارے میں بدگمانی(یعنی بُرے خیال) میں بھی نہ پڑے۔)احياء العلوم، ٣/١٩٢،١٩٣، ملُخصاً((۳) علامہ نووی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اگر (مشورہ لینے پر)کوئی کسی کو دوسرے کی کمزور بات اس لیے پہنچا رہا ہے تاکہ سامنے والے کونقصان نہ ہوتو وہ کمزوربات بتانا چغلی نہیں بلکہ اُسے بتاناواجب ہے کہ یہ خیر خواہی (goodwill)ہے۔ )حدیقہ ندیہ ،ج۲،ص ۴۲۷۔جنت کی دو چابیاں ص ۴۹ مُلخصاً)
چغلی کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں : جس کی چغلی کی جارہی ہے، اُس سے(۱) خاندانی یا کاروباری دشمنی یا (۲)نفر ت ہونا یا(۳)فضول باتوں کی عادت ہونا۔ وغیرہ
چغلی کے کچھ نقصانات: چغلی محبّت ختم کرتی ہے چغلی سے لڑائیاں ہوتی ہیں چغلی سے دشمنی ہوتی ہے چغلی مسلمانوں کا احترام (respect)ختم کرتی ہے چغلی خاندانوں کو تباہ کرتی ہے چغلی غیبت و جھوٹ کی طرف لے جانے والی ہے چغلی اللہ پاک اور رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نافرمانی ہے چغلی جہنّم میں لے جانے والا کام ہے خلیل بن احمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتےہیں :جو شخص تیرے پاس کسی کی چغلی کرےگا وہ دوسروں کے پاس بھی تیری چغلی کرے گا اور جو تجھے کسی کے بارے میں خبر دے گاوہ تیری خبر بھی دوسروں تک پہنچائے گا۔(احیاء العلوم، جلد۲، ص ۷۰۸)
اِسلام نے چغلی سے روک کر ہمیں کیا دیا؟ اِسلام نے چغلی سے روک کر معاشرے(society) کو محبّت کا تحفہ دیا اِسلام نے چغلی سے روک کر لڑائیاں رکوائیں اِسلام نے چغلی سے روک کردشمنیاں ختم کروائیں اِسلام نے چغلی سے روک کر احترامِ مسلم (Muslims respect ) کا درس دیا اِسلام نے چغلی سے روک کر خاندانوں کی حفاظت کی۔وغیرہ
چغلی سننےسے بچنے کے کچھ طریقے: جب آپ کے سامنے کوئی چغلی کرے تو (1) اسے چغلی سے منع کریں کہ یہ نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا ہے (2) اس کی بات پر یقین (believe) نہ کریں اور اسے سچانہ جانیں (مثلاً:اگر کوئی آپ کے سامنے چغلی کرے تو جہاں تک ممکن ہو اُسے اِس گناہ سے روکیں ،سمجھائیں اور اگر وہ نہ رُکے تو آپ چغلی سننے سے بچنے کی کوشش کریں)(3) اللہ پاک کی رِضا کے لئے اس برائی سے نفرت رکھیں (4) اپنے مسلمان بھائی یعنی جس کی چغلی کی گئی اس کے بارے میں بدگمانی (یعنی برا خیال) نہ کرے(5) اور نہ ہی تَجَسُّس کرتے ہوئے اس کے عیب (faults) اور گناہ ڈھونڈے(6) جس نے چغلی کی ہے، اس کی برائی بھی کسی اور کے سامنے نہ کرے ، کیونکہ ایک طرف تو آپ اُسے چغلی سے منع کر رہے ہیں اور دوسری طرف خود اُس کی چغلی کر رہے ہوں گے۔ (احیاء العلوم، جلد۳، ص۴۷۴ ماخوذاً)
چغلی کرنے سے بچنے کے کچھ طریقے: اللہ پاک سے دعا کیجئے کہ وہ چغلی کرنے اور سننے سے بچائے جتنا ہوسکے دوسروں کے معاملات(matters) میں پڑنے کے بجائے اپنے کام سے کام رکھئے فضول گوئی سے بچنے کی عادت بنائیے تاکہ گناہوں بھری باتوں کا دروازہ نہ کھلے چغلی کرنے والے کو ملنے والے عذابات سے خود کو ڈرائیے ہر مسلمان کا احترام (respect) کیجئے کسی کے خِلَاف دل میں غصّہ ہو اور اُس کی چُغْلِی کو دل چاہے تو فوراً اپنے آپ کو یوں ڈرائیے کہ اگر میں غصّے میں آ کر چُغْلِی کروں گا تو گنہگار اور جہنّم کا حق دار(entitled) بنوں گا ۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہے: جہنّم میں ایک دروازہ ہے اس سے وُہی داخِل ہوں گے جن کا غصّہ کسی گُنَاہ کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔( مسند الفردوس، باب الالف، ١/٢٠٥، حديث:٧٨٤)
محبّتوں کے چور!! !
چغل خور! چغل خور!
نوٹ: چغلی کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 468 تا 480‘‘ کو پڑھ لیجئے۔
27 ’’جوا (Gambling)‘‘
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)’’آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ (اے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ !) تم فرمادو: ان دونوں میں کبیرہ (یعنی بڑا) گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ دنیوی منافع (یعنی دنیاوی فائدے)بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ۲، البقرۃ:۲۱۹)عُلَما فرماتے ہیں: جوئے میں یہ فائدہ ہے کہ اس سے کبھی مفت کا مال ہاتھ آجاتا ہے لیکن جوئے کی وجہ سے ہونے والے گناہ اور خرابیاں بہت زیادہ ہیں ! مزیدفرماتے ہے: شطرنج(chess)، تاش(cards)، لُڈو، کیرم، بلیئرڈ ( billiards) ، کرکٹ (cricket) وغیرہ ہار جیت کے کھیل جن پر بازی (یعنی شرط) لگائی جائے (کہ جو ہارے گا ،وہ پیسے یا کوئی چیز دے گا یا کچھ کھلائے گا )سب جوئے میں داخل اور حرام ہیں۔
(13) جواب دیجئے:
س۱) چغلی کسے کہتے ہیں؟
س۲) چغلی سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
احادیثِ مُبارکہ: (1) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جس نے نَرْد شیر (یعنی ایک بادشاہ کا بنایا ہوے جوئے کو) کھیلا تو گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر (pig)کے گوشت اور خون میں ڈبودیا(یعنی ڈال دیا)۔ (مسلم، کتاب الشعر، ص۹۵۵، حدیث: ۵۸۹۶)
(2)حدیث شریف میں فرمایا: جو شخص نَرْد(یعنی ایک جوا) کھیلتا ہے پھر نَماز پڑھنے اٹھتا ہے، اُس کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جو پیپ (pus)اور سؤر کے خون سے وضو کرکے نَماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے۔ (مسند احمد، ۹/۵۰، حدیث: ۲۳۱۹۹)
(3)ایک جگہ فرمایا: جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ! جوا کھیلیں۔ اس کہنے والے کو چاہئے کہ صدقہ کرے۔ (مسلم، کتاب الایمان، ص ۶۹۲، حدیث:۴۲۶۰)یعنی جوا کھیلنا تو بہت بڑا گناہ ہے بلکہ اگر کسی کو جوا کھیلنے کی دعوت بھی دے تو وہ جوئے کا مال جس سے جوا کھیلنا چاہتا ہے وہ یا دوسرا مال صدقہ کردے تاکہ اس غلط ارادے(یعنی بُری نیّت) کا یہ کفّارہ (یعنی بدلہ)ہوجائے۔ (مراٰۃ المناجیح، ۵/ ۱۹۵مُلخصاً) یاد رہے کہ بُرائی اور گناہ کی طرف بُلانا بھی بُرائی اور گناہ ہے۔
جوئے کی کچھ مثالیں: مختلف کھیل مثلا کرکٹ، کَیرم، بِلیرڈ، تاش، شطرنج وغیرہ دو۲ طرفہ(both sides) شرط لگا کر کھیلے جاتے ہیں کہ ہارنے والا جیتنے والے کواتنی رقم یا فُلاں چیز دے گا یہ بھی جُوا ہے گھروں یا دفتروں میں چھوٹی موٹی باتوں پر جو اس طرح کی شرطیں لگتی ہیں کہ اگر میری بات دُرُسْت نکلی تَو تم کھانا کِھلاؤ گے اور اگر تمہاری بات سچ نکلی تو میں کھانا کِھلاؤں گا آج کَل موبائل پر کمپنی کو میسج (message) کرنے پر ایک مَخْصُوص رَقَم(fixed amount) کٹتی ہے اور اس پر بھی اِنْعَامات رکھے جاتے ہیں یہ سب جُوئے میں داخِل ہیں۔(جوئے کی مزید مثالیں جاننے کے لیے غیبت کی تباہ کاریاں ص ۱۸۶ تا ۱۹۱پڑھیں)
کون آگے بڑھ جائے گا؟: کچھ لوگ آپس میں یہ طے کریں کہ کون آگے بڑھ جاتا ہے جو آگے بڑھے گااس کو یہ انعام دیاجائے گا ۔یہ مقابلہ(competition) صرف تیر اندازی(archery) یا گھوڑےیاگدھے یا اونٹ کی دوڑ بلکہ انسانوں کی دوڑ کا بھی کیا جاسکتا ہے کہ جو سواری (ride)وغیرہ جہاد (war)کے لیے مدد دیتے ہیںان میں یہ مقابلہ (competition) جہاد کی تیاری کےلیے ہو سکتا ہےکھیلنےیا تفریح کے لیے یا اپنی طاقت دکھانے کے لیے اس طرح کا مقابلہ کرنا مکروہ ہے اس مقابلے(competition) کو مُسابقت(ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا مقابلہ) کہتے ہیں مسابقت جائز ہونے کے لیےیہ ضروری ہے کہ صرف ایک طرف سے مال کی شرط ہو، یعنی دونوں میں سے ایک نے یہ کہا کہ اگر تم آگے نکل گئے تو تم کو( مثلاً )سو روپے دوں گا اور میں آگے نکل گیا تو تم سے کچھ نہیں لوں گا اسی طرح اگر کسی تیسرے آدمی (third party)نے کہا کہ جو آگے نکلا، میں اُسے اتنے پیسے دونگا تو یہ بھی جائز ہے۔ (بہارِ شریعت ح۱۶،ص۶۰۷،مسئلہ۱اور ۳مُلخصاً)
جوا کھیلنا جہنّم میں لے جانے والا کام ہے: (1):جُوا کھیلنا حرام ہے (2):جوئے کا (جیتا ہوا)روپیہ قطعی(یقینی) حرام ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۹ص۶۴۶) (3):اسی طرح جُوئے کا اڈہ چلانا، جُوئے کے آلات (tools of gambling)بیچنا خریدنا سب حرام اور جہنّم میں لے جانے والے کام ہیں۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص۱۸۵،ملخصاً) (4):جس جس سے جتنا مال (جوئے میں )جیتا(won کیا) ہے اُسے واپس دے یا اُسے راضِی کر کے مُعَاف کرا لے۔ وہ نہ ہو تو اُس کے وارِثوں(مخصوص رشتہ داروں۔ specific relatives) کو واپس دے، یا اُن میں جو عاقِل بالغ(یعنی بڑے) ہوں ان کا حصَّہ اُن کی خوشی سے مُعَاف کرالے۔ باقیوں کا حصّہ ضَرور انہیں دے کہ اِس (نابالغو ں ، پاگلوں وغیرہ کی رقم )کی مُعَافی ممکن نہیں۔جن لوگوں کا کسی طرح پتانہ چلے اور نہ اُن کے وَرَثہ(یعنی مرنے والے کے مال کے صحیح حقداروں(entitled)) کا پتا چلے ، اُن سے جتنا جیتا(won کیا) تھا اُن لوگوں کی نیّت سے خیرات کر دے (فتاویٰ رضویہ، ۱۹/۶۵۱، مُلخصاً) (5): جس سے جوا جیتا تھا، اسی سے اتنی ہی رقم ہار بھی گیا تواب اسے کچھ بھی واپس نہ کیا جائے گا البتہ توبہ کرنی ہوگی(فتاویٰ رضویہ، ۱۹/۶۵۱، ماخوذاً)
جوئے کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں : 1): جُوَا کھیلنے والے لوگوں کے پاس اُٹھنا بیٹھنا (2):جہالت (یعنی علم نہ ہونے کی وجہ سے آدمی کسی طرح کےجُوئے میں پڑ جاتا ہے) (3):گیم کلب(game club) میں جانا (ایسی جگہوں پر جُوا عام طور پر پایا جاتا ہے )۔وغیرہ
جوئے کے کچھ نقصانات : جوا کھیلناحرام اور جہنّم میں لےجانے والا کام ہےجوئے کی وجہ سے دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں جوئے کی وجہ سے آدمی سب کی نظروں میں ذلیل ہوجاتا ہے جوا کھیلنے والا شخص کبھی اپنا سب مال جوئے میں ہار جاتا ہے جوا کھیلنے والے کی زندگی تباہ وبرباد ہوجاتی ہے جوا کھیلنے والا محنت سے بھاگتا ہےجوا کھیلنے والا کبھی سود پر قرض لیتا ہے اور یوں سود کے گناہ میں بھی پڑ جاتا ہے جوا کھیلنے والا کبھی کسی کا خیرخواہ(well wisher) اور دوست نہیں ہوتا، کیونکہ اُس کی کامیابی ہی دوسرے کی ہار میں ہوتی ہے جوا کھیلنے والا جوا کھیلنے کے پیسے حاصل کرنے کے لئے ہر بُرے سے بُرا کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جوا کھیلنے والے کی نوکر ی یا کاروبار بھی ختم ہوجاتا ہے جوا کھیلنے والے کی اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ، اُس کے گھر والوں کی زندگی بھی تباہ ہوجاتی ہے جوا کھیلنے والا کبھی زندگی سے تنگ آکر خودکشی (suicide)بھی کرلیتا ہے۔ وغیرہ
جوئے کے کچھ نقصانات : جوا کھیلناحرام اور جہنّم میں لےجانے والا کام ہےجوئے کی وجہ سے دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں جوئے کی وجہ سے آدمی سب کی نظروں میں ذلیل ہوجاتا ہے جوا کھیلنے والا شخص کبھی اپنا سب مال جوئے میں ہار جاتا ہے جوا کھیلنے والے کی زندگی تباہ وبرباد ہوجاتی ہے جوا کھیلنے والا محنت سے بھاگتا ہےجوا کھیلنے والا کبھی سود پر قرض لیتا ہے اور یوں سود کے گناہ میں بھی پڑ جاتا ہے جوا کھیلنے والا کبھی کسی کا خیرخواہ(well wisher) اور دوست نہیں ہوتا، کیونکہ اُس کی کامیابی ہی دوسرے کی ہار میں ہوتی ہے جوا کھیلنے والا جوا کھیلنے کے پیسے حاصل کرنے کے لئے ہر بُرے سے بُرا کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جوا کھیلنے والے کی نوکر ی یا کاروبار بھی ختم ہوجاتا ہے جوا کھیلنے والے کی اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ، اُس کے گھر والوں کی زندگی بھی تباہ ہوجاتی ہے جوا کھیلنے والا کبھی زندگی سے تنگ آکر خودکشی (suicide)بھی کرلیتا ہے۔ وغیرہ
جوئے کی عادت ہو تو ختم کرنے کے کچھ طریقے؟: جوا کھیلنے کے دینی و دنیا وی نقصانات پر غور کریں اور عقلمندی کا ثبوت(proof of wisdom) دیتے ہوئے جوئے سے بالکل دور رہئے جوا کھیلنے والے دوستوں کو چھوڑ کر نیکی کی دعوت عام کرنے والے عاشقانِ رسول کے ساتھ رہئے جوا کھیلنے کا دل کرے تو صدقہ و خیرات کیجئے فارِغ رہنے کے بجائے خود کو جائز اور نیکی کے کاموں میں مصروف(busy) رکھئے۔وغیرہ
نوٹ: جوئے سے بچنے کا ذہن بنانے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’غیبت کی تباہ کاریاں‘‘ صفحہ 184 تا 191 پڑھ لیجیے۔