باطنی اخلاق ، باطنی بیماریاں اور ظاہری گناہ) (part 01c)

28 ’’ تنہائی‘‘(loneliness)

’’ تنہائی‘‘(loneliness) اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’ اور اپنے ربّ کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اُسی کے بنے رہو ‘‘ ۔ ( پ۲۹، المزمل: ۸) (ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں:یعنی‏عبادت میں دل اللہ پاک کے علاوہ کسی اور طرف مصروف (busy)نہ ہو۔(خزائن العرفان، پ۲۹، المزمل، تحت الآیۃ: ۸مُخلصاً

حدیث شریف:‏
حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمسے عرض کی: نجات(بخشش اور معافی) کا ذریعہ(source) کیا ہے؟ فرمایا:اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تم کو تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطاؤں (یعنی غلطیوں)پر روؤ۔ (ترمذی، کتاب الزھد، ۴ / ۱۸۲، حدیث:۲۴۱۴) علماء فرماتے ہیں: یعنی بلا ضرورت گھر سے باہر نہ جاؤ، لوگوں کے پاس بلاوجہ نہ جاؤ، گھر سے نہ گھبراؤ (یعنی پریشان نہ ہو)، اپنے گھر میں اکیلے(alone) رہنے کو اچھا جانو کہ اس میں بہت ساری آفتوں (یعنی مشکلوں)سے حفاظت ہے۔ (مرآۃ المناجیح، ۶ / ۴۶۴مُلخصاً)

گوشہ نشینی کسے کہتے ہیں؟:‏
بندے کا اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے، عبادت کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لیے اپنے گھر یا کسی جگہ پر لوگوں سے الگ ہو کر نفل عبادت کرنا ’’ خلوت ،گوشہ نشینی اور تنہائی(loneliness) ‘‘ کہلاتا ہے۔ (نجات دلانے والے اعمال ص۱۳۸ماخوذاً)

کیا ہر کوئی گوشہ نشینی کر سکتا ہے؟:‏
عبادت کے لیے تنہائی بہت اچھی چیز ہے مگر تنہائی سے پہلے ان باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

(1) اللہ پاک اور بندوں کے حقوق جو ا س پر لازم ہیں (یعنی فرائض وواجبات اورسنن مؤکدہ) وغیرہ کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ یعنی مسجد قریب ہے اورجماعت چھوڑنے کی کوئی شرعی وجہ بھی نہیں تو نماز جماعت کے ساتھ پڑھنی ہوگی، اسی طرح بیوی بچے ہیں تو ان کے کھانے، پینے، رہنے ،لباس ، دینی تربیت وغیرہ کا انتظام(management) کرنا ہوگا۔

(2) یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ عبادت کرنے کے لیے نکاح ہی نہ کرے، نبی ٔاکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اسلام میں نکاح نہ کرنا اوردنیا کو چھوڑ کر عبادت کرنا منع ہے۔( مصنف عبد الرزاق، کتاب الایمان والنذور، ۸ / ۳۸۹، الحدیث: ۱۶۱۴۰)علماء فرماتے ہیں: بعض صورتوں میں نکاح کرنا منع بلکہ ناجائز ہے، البتہ مردوں کی ایک تعداد (number of men)پر نکاح کرنا سنّت مؤکّدہ اور نہ کرنے پراڑے رہنا (یعنی نکاح نہ کرنے کی ضد کرنا) گناہ ہے۔ ان سب کی تفصیل بہارِ شریعت سے پڑھ لیجیے۔

(3)ایسا شخص جوفرض علوم نہیں جانتا، اگر علم حاصل نہ کرے گا تو شیطان کے وسوسوں میں آکر گمراہی میں پڑ جائے گا اور دین سے دور ہو جائے گا تو اُسے پہلے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ پانچ (5)طرح کے علوم حاصل کرنا ہر عاقل (جو پاگل وغیرہ نہ ہو) بالغ (grownup) ( ) مسلمان پرفرض ہے:

(۱)اسلامی عقائد(یعنی ان عقیدوں کو جاننا کہ جن کے ذریعے آدمی سچا پکا مسلمان بنے اور ان کا انکار کرنے سے بندہ اسلام سے نکل جائے یا گمراہ (بد مذہب)ہو جائے)۔

(۲)ضرورت کے مسئلے یعنی عبادات(مثلاً نماز، روزہ،حج و زکوۃ وغیرہ) و معاملات (مثلاً نوکری ا ور کاروبار وغیرہ جس کام سے اس شخص کا تعلق(relations) ہے) کے ضروری مسائل۔

(۳) حلال و حرام (مثلاً کھانا کھانے ،لباس پہننے، ناخن و بال کاٹنے، نام رکھنے،عارضی(temporary) استعمال کے لیے چیزیں لینے، قرض و امانت و تحفہ لینے دینے، قسم کھانے، وغیرہ)کے مسائل(ظاہری گناہ کی ضروری معلومات بھی اس میں شامل ہیں)۔

(۴)ہلاک کرنے والے اعمال (مثلاً: جھوٹ، حسد، تکبُّر وغیرہ)کی ضروری معلومات اور ان سے بچنے کے طریقے۔

(۵)نجات دلانے والے اعمال (مثلاً: اخلاص، صبر، شکر وغیرہ)کی ضروری معلومات اور انہیں حاصل کرنے کے طریقے۔

نوٹ:اس کے لیے دعوت اسلامی کی فرض علوم ویب سائٹ www.farzuloom.net وزٹ کیجیے۔

(4) اسی طرح اگر قرآنِ پاک صحیح طرح نہیں پڑھ سکتا۔ تو تجوید(یعنی قرآن پاک درست طریقے سے پڑھنا) سیکھے تاکہ نماز، تلاوت اور ذکر وغیرہ میں غلطیاں نہ ہوں۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت، مولانا شاہ امام احمدرضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: اتنی تجوید کا آنا کہ جس سےحُرُوف کودُرُست مخارِج سے ادا کر سکے (یعنی قرآن صحیح پڑھ سکے)اورغَلَط پڑھنے سے بچ سکے، فرضِ عَین اور لازم ہے۔( فتاوٰی رضویہ،۶/ ۳۴۳) کسی سے اگر کوئی قرآنی حرف غلط ادا ہوتا ہے تو اسے سیکھنے اور صحیح طرح ادا کرنے کی کوشش کرنا واجب ہے بلکہ کئی علما ء کرام نے صحیح طرح پڑھنے کی کوشش کی کوئی حدّ(limit)نہیں رکھی اور حکم دیا کہ زندگی بھر، دن رات کوشش کرتا رہے اور اِس کوشش کو اس وقت تک جاری رکھے جب تک قرآنِ پاک درست پڑھنا سیکھ نہ جائے ۔( فتاوٰی رضویہ،۶/ ۲۶۲) نوٹ:اس سے وہ لوگ بھی درس(lesson) حاصل کریں کہ جو طرح طرح کے نفل کام کرتے رہتے ہیں مگر فرض و لازم کام چھوڑ دیتے ہیں۔ حضورِ غوث اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب شریف میں فرض چھوڑ کر نفل عبادات کرنے والوں کو بہترین مثال سے سمجھایا ہے۔ فرماتے ہیں: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ اپنی خدمت(service) کے لیے بلائے ۔ یہ وہاں تو حاضر نہ ہُوا اور بادشاہ کے غلام کی خدمت میں مصروف(busy) ہوگیا ۔(فتاوی رضویہ،۱۰/۱۷۹۔۱۸۰،ماخوذا) نوٹ: پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے ۔

(5)اگر قضاء نمازیں ہوں تو،ان کا جلد سےجلد (as soon as possible)پڑھنا ضروری ہے۔ (دُرِّمُختار ج۲ص ۶۴۶، مُلخصاً)

(6) اگر کسی شخص کو اچھے دوست نہیں ملتے اور اگر وہ تنہائی(loneliness)میں نہیں کرے گا تو بُرے دوستوں کی وجہ سے گناہ کرے گا تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ حقوق اللہ وحقوق العباد ( یعنی اللہ پاک اور بندوں کے حقوق)کو پورا کرنے کے بعد لوگوں سے الگ ہو جائے۔(مرآۃ المناجیح، ج۵، ص۱۳۷ماخوذاً)

(7)ہرمسلمان کو چاہیے کہ اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لیے اور عبادت کی عادت بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت اکیلے میں عبادت کرے۔بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کے نزدیک لوگوں میں ظاہری طور پر رہتے ہوئے باطنی طور پر ان سے الگ رہنا یعنی اپنی توجہ(attention) اللہ پاک کی طرف رکھنا بھی تنہائی(loneliness)ہے۔

(8) ایسا عالم دین جس سے لوگ علم دِین حاصل کرتے ہوں اور اگر یہ تنہائی(loneliness) میں رہےتو لوگ شرعی مسائل سے محروم ہوکر گمراہی میں جا پڑیں گے ، ایسے عالم کے لیےسب سے الگ ہو کر رہنامنع ہے۔ (نجات ص۱۳۸ تا۱۴۳ماخوذاً)

گوشہ نشینی کرنےکا فائدہ:‏‏
گوشہ نشینی کی وجہ سے آنکھ اور کان وغیرہ کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے اور بندہ دل لگا کر عبادت کرتا ہے۔(احیاء العلوم ج۳، ص۲۳۳ ماخوذ۱ً)

گوشہ نشینی نہ اپنانے کے کچھ نقصانات:‏‏‏
لوگوں سے میل جول(interactions) کی وجہ سے انسان سے کئی گناہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاًوہ (۱) غیبت(۲) چغلی(۳) ریاکاری اور(۴) لازم ہونے کے باوجودنیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے میں خاموش رہنے جیسے گناہوں میں پڑ جاتا ہے۔(احیاء العلوم ج۲، ص۸۲۴،۸۲۵) اور اگر تنہائی(loneliness) شرعی حکم کے مطابق ہوگی یعنی لوگوں سے صرف اُتنا ملے گا کہ جتنا دین کے لیے فائدہ ہو تو یہی کامیابی ہے۔

گوشہ نشینی سے دور کرنے والی کچھ چیزیں :‏‏‏‏
اللہ پاک سے محبّت کی کمی کیونکہ فرض کے ساتھ ساتھ نفل عبادت، اللہ پاک سے محبّت کی علامت (پہچان۔symbol) ہے (2) علمِ آخرت کی کمی(3) نیکیوں پر ملنے والے ثواب کی طرف توجّہ (attention) میں کمی(4) لوگوں سے بے جا میل جول(unnecessary interaction) پر ہونے والی دینی اور دنیاوی نقصانات کا علم نہ ہونا۔وغیرہ

گوشہ نشینی اپنانے کا ایک طریقہ:‏‏‏‏‏
اللہ پاک سے محبّت میں اضافہ کرےکیونکہ عبادات کا حاصل یہ ہے کہ انسان کواس حال میں موت آئے کہ وہ اللہ پاک سے محبّت کرتا ہواور یہ اسی وقت ہوگا کہ جب وہ ہمیشہ ذکر کی طرف توجّہ رکھتا ہو۔اور اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے والے کاموں میں مصروف(busy) رہتا ہو،اس کے لیے اپنے دل کو دنیا کی سوچوں سے الگ رکھنا ضروری ہے،جبکہ میل جول کے ساتھ دنیا کی سوچوں کی کمی نہیں ملتی۔(فیضان احیاء العلوم ۱۷۸ماخوذاً)یاد رہے! اکیلے میں(alone) بھی فلمے ِ ڈرامے، موبائل وغیرہ سے بچتے ہوئے عبادت والے کام کرنے ہونگے۔ نوٹ: گوشہ نشینی کی تفصیل جاننے کے لئے”احیاء العلوم جلد۳“ کو پڑھ لیجئے۔

(2) جواب دیجئے:

س۱) تنہائی میں نفل عبادت کے لیے مصروف(busy) رہنے میں کن کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

س۲) تنہائی میں عبادت کے فوائد بتائیں؟

س۲) تنہائی میں عبادت کے فوائد بتائیں؟

29 ’’غیبت‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’ اورایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۲۶، الحجرات:۱۲)عُلَما فرماتے ہیں: جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اُسے تکلیف پہنچتی ہے اِسی طرح اس کے بارے میں بُری بات کہنے سے بھی اُس کے دل کو تکلیف پہنچتی ہے۔ (صراط الجنان، ۹/۴۳۹ملخصاً)

قراٰن و حدیث اور بُزُرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کے فرمان سے ملنے والے غیبت کے نقصانات:
غیبت ایمان کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے غیبت بُرے خاتمے کا سبب (reason) ہےجو غیبت کرتا رہتا ہے ، اُس کی دعا قبول نہیں ہوتی غیبت سے نَماز روزے کی نورانیَّت اور برکتیں چلی جاتی ہے غیبت نیکیاں جلا دیتی ہےغیبت کرنے والا توبہ کر بھی لے تب بھی سب سے آخِرمیں جنَّت میں داخِل ہوگاغیبت گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام ہےمسلمان کی غیبت کرنے والا سُود سے بھی بڑا گناہ کرنے والا ہے غیبت کو اگر سمندر(sea) میں ڈال دیا جائے تو سارا سمندر بدبُو دار ہو جائے غیبت کرنامُردہ بھائی کا گوشت کھانے کی طرح ہے غیبت کرنے والے کو جہنَّم میں مُردہ کھلایا جائے گا غیبت کرنے والے کوعذابِ قبر ہو گاغیبت کرنے والا قیامت میں کتّے کی شکل میں اٹھے گا غیبت کرنے والا جہنَّم کا بندر ہو گاغیبت کرنے والے کو دوزخ میں خود اپنا ہی گوشت کھانا پڑے گا غیبت کرنے والا سب سے پہلے جہنَّم میں جائے گا ( معراج کی رات پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دیکھا کہ)غیبت کرنے والاتانبے کے ناخنوں (copper nails) سے اپنے چہرے اور سینے(chest) کو بار بار چھیل رہا تھا ( یہ بھی دیکھا کہ )غیبت کرنے والے کو اُس کے پہلوؤں(sides) سے گوشت کاٹ کاٹ کر کِھلایا جا رہا تھا (جہنّم میں جانے کے بعد)غیبت کرنے والا جہنَّم کے کھولتے ہوئے پانی اور آگ کے درمیان دوڑ رہا ہوگا اورموت مانگ رہا ہو گا اور اس سے جہنَّمی بھی تنگ آجائیں گے ۔(غیبت کی تباہ کاریاں ص۶ ۲ تا۲۷)

غیبت کسے کہتے ہیں؟:
کوئی شخص موجود نہ ہو، اُس (کی بُرائی بیان کرنے کے لیے،اُس)کے بارے میں ایسی بات کہنا کہ اگر وہ سُن لے یا اُس کو پتا چل جائے تو اُسے بُرا لگے گا، اسےغیبت کہتے ہیں۔ (غیبت کی تباہ کاریاں، ص ۴۳۸ملخصاً) غیبت سخت حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔ یاد رہے ! غیبت اُس برائی کو کہتے ہیں کہ جو سامنے والے میں موجود ہو اور اگر وہ برائی اُس میں موجود نہ ہو تویہ غیبت نہیں ، بہتان ہو گا جو کہ غیبت سےبھی بڑا گناہ ہے۔

غیبت کی کچھ مثالیں:
کسی کی برائی بیان کرنےکے لئے کہنا: سوتا بہت ہے ہر وقت کھاتا رہتا ہے بولتا بہت ہےکپڑوں سے بدبو آتی ہےدھوکے باز (cheater)ہےسود کھانے والا ہے کام چور ہے میری ترقی (progress) سے جلتا ہے نَماز نہیں پڑھتا غصّے کا بہت تیز ہےگھر والوں پر ظلم کرتا ہے رات دیر تک گھر سے باہر رہتا ہے گھر کا ایک کام نہیں کرتا اس کے پیٹ میں کوئی بات نہیں رہتی گھٹیا خاندان سے تعلق ہے۔وغیرہ یاد رہے! اگر کسی کی اِصلاح کی نیّت سے، صرف اُس شخص کے بڑے کے سامنے اکیلے میں (alone) اُس شخص کی بُرائی کی تو یہ گناہ نہیں، اِس طرح کی اور صورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔

اگر کوئی آپ سے مشورہ مانگے تو؟:
جس سے کسی بات کا مشورہ لیا گیا وہ اگر اُس شخص کی بُرائی بتادے جس کے بارے میں مشورہ(لیا گیا)ہے ،یہ غیبت نہیں۔ حدیث میں ہے: جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین (امانت دارtrustworthy )ہے۔ (مصنَّف عبدالرزاق ،ج ۱۰،ص۳۶۲ ) لہٰذا اس کی بُرائی ظاہر نہ کرنا خیانت اور دھوکہ (یعنی امانت کے خلاف) ہے، مَثَلاً ایک شخص اپنے بچے کا نکاح، آپ کے پڑوسی (neighbour) کی بیٹی سے کرنا چاہتا ہے۔وہ آپ سے پوچھے کہ آپ کے پڑوسی کیسے ہیں؟ اب اگر اُس پڑوسی کی عادتیں اچھی نہیں ہیں تواُس کی یہ بُرائی بیان کرناغیبت نہیں بلکہ امانت کا تقاضہ (requirement)ہے کہ یہ باتیں بتا دے۔ (غیبت کی تباہ کاریاں ص ۴۷۲ ماخوذاً)

غیبت کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:
(1)غصّہ(2)نفرت(3)حسد(4)گہرے دوست کی غلطی میں بھی ساتھ دینے کی عادت (5)زِیادہ بولنے یا (6)طنز کرنے یا (7)ہنسی مذاق یا(8) شکایت کرنے یا(9) ''بھڑاس''نکالنے کی عادت (10) خاندانی مسائل(11)تکبّر (12) غیبت کے دینی (13) اور دنیوی نقصان معلوم نہ ہونا (14) خوفِ خدا کی کمی۔وغیرہ (غیبت کی تباہ کاریاں، ص۲۴۸-۲۴۹، باالتغیر)

غیبت سے تو بہ کرنے کا طریقہ:
اللہ پاک سے رو رو کر توبہ کیجئے ۔ جس جس کی غیبت کی ہے اُس کیلئے دعائے مغفِرت کیجئے۔فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہے: جس کی غیبت کی ہے، اُس کے کفّارے میں ، اُس کے لیے اِستِغفار (یعنی بخشش کی دعا)کرے، یہ کہے: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلَہ (یعنی الٰہی!ہمیں اور اُسے بخش دے) ۔(الدَّعَواتُ الْکَبِیرلِلْبَیْہَقِی ج۲ص۲۹۴حدیث۵۰۷) اگر نام یاد نہ رہے ہوں تو مشورۃً عرض ہے کہ ہو سکے تو روزانہ یوں کہے:یا اللہ پاک!میں نے آج تک جِتنی بھی غیبتیں کی ہیں اُن سے توبہ کرتا ہوں ۔ یا اللہ پاک! میری اور آج تک میں نے جن جن مسلمانوں کی غیبت کی ہے اُن سب کی اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے صدقے مغفِرت فرما۔( یاد رہے ! توبہ کیلئے یہ بھی شرط (condition)ہے کہ اُس گناہ سے دل میں نفرت ہواور آئندہ(next time) نہ کرنے کا پَکّا ارادہ (intention)ہو ) ۔ جس کی''غیبت ''کی اُس کو پتا نہیں چلا تو اُس سے مُعافی مانگنا ضَروری نہیں ۔ اللہ پاک سے سچی توبہ کیجئے اور دل میں پکّا ارادہ کیجئے کہ آئندہ کبھی کسی کی غیبت نہیں کروں گا۔ اگر اُس کو معلوم ہو گیا ہے تو اُس کے پاس جا کر غیبت کے بدلے اُس کی جائز تعریف اورمَحَبَّت کا اظہار کیجئے، تاکہ اُس کا دل خوش ہو اور نرمی کے ساتھ عرض کیجئے کہ میں نے جو آپ کی غیبت کی ہے اُس پر شرمندہ(embarrassing) ہوں مجھے مُعاف فرما دیجئے۔ اب بالفرض وہ مُعاف نہ بھی کرے تب بھی اِن شاءَ اللہ آخِرت میں اس بارے میں سوال جواب نہ ہو گا۔ہاں اگر بِغیراِخلاص (اوپر اوپر سے sorryکہہ کر) مُعافی مانگی اور سامنے والے نے مُعاف کر بھی دیا تب بھی آخِرت میں سوال اور پوچھ گچھ کا خوف باقی ہے۔ (ماخوذ از:بہار شریعت حصّہ ۱۶ ص ۱۸۱مُلخصاً) جس کی غیبت کی (اُ س کو پتا چل گیا اوراب )وہ مر گیا یا غائب ہو گیا اُس سے کس طرح مُعافی مانگے؟اس کے جواب میں امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : یہ مُعامَلہ بہت مشکل ہوگیا !لہٰذا اب چاہیے کہ خوب نیکیاں کرے تا کہ قِیامت میں اگر اِس کی نیکیاں غیبت کے بدلے دے دی جائیں جب بھی اس کے پاس نیکیاں باقی رَہ جائیں ۔ (غیبت کی تباہ کاریاں ص ۲۹۰ تا ۲۹۴) لھذا چاہیے کہ غیبت کرنا ہی چھوڑ دے۔

غیبت سے بچنے کے کچھ طریقے:
اللہ پاک سے دعا کیجئے کہ وہ غیبت کرنے اور سننے سے بچائے عاشقانِ رسول کے ساتھ رہیں ذاتی دوستیاں ختم کیجئے یہ ذِہن بنائیے کہ اگر کوئی میری غیبت کرے تو مجھے بہت تکلیف ہوگی تو اگر میں کسی اور کی غیبت کروں تو اُسے بھی تکلیف ہوگی اور اچھا مسلمان وہ ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسرے کے لئے بھی پسند کرے تو جب میں اپنے لئے پسند کرتا ہوں کہ میری غیبت نہ کی جائے تو مجھے دوسرے کے لئے بھی یہی پسند کرنا چاہئے کہ میری وجہ سے اُسے تکلیف نہ ہو غصّہ آنے پرصبْر کیجئے غیبت کے عذابات سے خود کو ڈرائیے اگر کسی کی غیبت کرنےکا دل کرے تو اپنی غلطیوں کی طرف نظر کرکے اپنی اِصلاح کی فکْر کرنا شروع کردیجئے۔ اِنْ شَاءَ اللہ غیبت کی عادت ختم ہو جائے گی۔ (غیبت کی تباہ کاریاں، ص۲۵۷ تا ۲۹۰ ملخصاً) ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہے :جب کسی مجلس میں (یعنی لوگوں میں) بیٹھواورکہو: بسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلَيٰ مُحَمَّد تو اللہ پاک تم پر ایک فِرِشتہ مقرّر فرمادے گا جو تم کو غیبت سے روکےرکھے گا۔اور جب مجلس(محفل، بیٹھک) سے اُٹھو تو کہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّي اللہُ عَلَيٰ مُحَمَّد تو فِرِشتہ لوگوں کو تمہاری غیبت کرنے سے روکےرکھے گا ۔(اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص۲۷۸)

نوٹ:
غیبت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ’’غیبت کی تباہ کاریاں‘‘ پڑھیے۔

(3) جواب دیجئے:

س۱) غیبت کسے کہتے ہیں؟

س۲) غیبت سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

30 ’’نماز قضا کرنا‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
( (1 (ترجمہ Translation :)’’ جنہوں نے نمازیں گنوائیں(wasteکیں) اور اپنی خواہشوں(wishes) کے پیچھے ہوئے تو عنقریب (soon)وہ دوزخ میں غَی کا جنگل پائیں گے ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۱۶، مریم:۵۹)علماء فرماتے ہیں:”غَیّ“ جہنّم میں ایک جگہ ہے جس کی گرمی سے جہنّم کی وادیاں بھی پناہ مانگتی ہیں)خزائن العرفان( جان بوجھ کر نَماز قَضا کرنے والے اس میں جانے کے حقدار(entitled) ہیں۔

((2(ترجمہ Translation :)’’ تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔(پ۱۶، الماعون:۴،۵) (ترجمۂ کنز العرفان )علماء فرماتے ہیں: نماز سے غفلت کی چند صورتیں ہیں ، جیسے پابندی سے(یعنی ہمیشہ) نہ پڑھنا، صحیح وقت پر نہ پڑھنا، فرائض و واجبات کو صحیح طریقے سے ادا نہ کرنا، شرعی اجازت کے بغیر جماعت کے ساتھ نہ پڑھنا، نماز کی پروا نہ کرنا (یعنی توجّہ(attention) نہ دینا)، تنہائی(loneliness)میں قضا کر دینا اور لوگوں کے سامنے پڑھ لینا وغیرہ۔یہ سب صورتیں آیت میں بتائی گی سزا میں شامل ہیں(یعنی اللہ پاک چاہے گا توان لوگوں کو سزا دے اور انہیں جہنّم میں ڈال دے )۔ (صراط الجنان۱۰/۸۲۷مُلخصاً)

احادیث ِمُبارکہ:‏
1آج رات دو (2) اشخاص (یعنی حضرت جِبْرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت مِیکائیل عَلَیْہِ السَّلَام) میرے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ (کسی جگہ ) لے آئے۔ میں نے دیکھا کہ ایک شَخْص لیٹا ہے اور اس کے سَر کی طرف ایک شَخْص پتّھر اُٹھائے کھڑا ہے اور پتّھر سے اُس کا سر کُچَل رہا ہے (یعنی سر پر بار بار پتھر مار رہاہے)، ہر بار کُچَلنے کے بعد سَر پھر ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ میں نے فِرِشتوں سے کہا: سُبْحٰنَ اللہ! (یعنی پاکی تو اللہ کے لیے ہے)یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: آگے تشریف لے چلئے (مزید مَنَاظِر(views) دِکھانے کے بعد) فِرِشتوں نے عرض کی کہ پہلا شَخْص جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دیکھا یہ وہ تھا جس نے قرآن پڑھا (یعنی یاد کیا)پھر اس کو چھوڑ دیا (یعنی بھول گیا) تھا اور فرض نمازوں کے وَقْت سو جاتا تھا۔(بخارى، كتاب التعبير، ص١٧١٤، حديث:٧٠٤٧، ملخصًا) (2 حضرت عبدُ اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک مرتبہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے قریب سے گزرے تو فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ تمہار ا ربّ کیا فرماتاہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےعرض کی: اللہ پاک اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں ۔سرکا ر ِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے تین(3) مرتبہ یہی سُوال کیا پھر فرمایا: اللہ پاک فرماتاہے کہ مجھے اپنی عزّت اور اپنے جلال کی قسم!جو بھی بندہ نماز اپنے وقت میں ادا کرے گا میں اُسے جنّت میں داخِل فرماؤں گا اور جو اِنہیں وقت گزارکرادا کرے گا، اگر میں چاہوں گا تو اُس پر رحم فرماؤں گااور اگر چاہوں گا تو اسے عذاب دوں گا۔(معجم کبیر ج۱۰ص۲۲۸حدیث۱۰۵۵۵) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں :جس نے جان بوجھ کرایک وَقت کی نَماز چھوڑدی ہزاروں سال جہنَّم میں رہنے کی سزا کا حقدار (entitled) ہوگیا، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قضا نہ (پڑھ)

نماز قضا کرنا کس کو کہتے ہیں ؟:‏‏
نماز کو اس کا وَقْت گُزَار کر پڑھنا نماز قضا کرنا ہے۔

نماز قضا کرنے کی ایک مثال:‏‏‏
مثلاً نمازِ ظُہْر کے وَقْت میں سستی کی یا کاموں میں اس طرح مصروف(busy) رہا کہ ظُہْر کا پورا وَقْت خَتْم ہو گیا اور نمازِ ظُہْر نہ پڑھی اب عَصْر کا وَقْت شروع ہونے کے بعد یا کسی اور وَقْت میں نماز پڑھی تو اسے نماز قضا کرنا کہتے ہیں۔

نماز قضا کرنا جہنّم میں لے جانے والا کام ہے:‏‏‏‏
(1): شَرْعِی اجازت کے بغیر نماز قضا کر دینا بہت سَخْت گُنَاہ ہے۔ اس پر فرض ہے کہ اس کی قضا پڑھے اور سچے دل سے تَوْبہ کرے۔ توبہ جب ہی صحیح ہے کہ قضا پڑھ لے۔ (جو نماز چھوڑی تھی)اُس کو تو ادا نہ کرے، توبہ کيے جائے، یہ توبہ نہیں کہ وہ نماز جو اس پر لازم تھی اس کا نہ پڑھنا تو اب بھی باقی ہے اور جب گناہ ہی سے نہ رُکا تو توبہ کہاں ہوئی؟ حدیث میں فرمایا: گناہ پر قائم رہ کر استغفار ( یعنی توبہ) کرنے والا اس کے مثل (اس آدمی کی طرح ) ہے جو اپنے رب سے ٹھٹھا (یعنی مذاق) کرتا ہے۔)بہارِ شریعت، حصہ چہارم، قضا نماز کا بیان، ۱/۷۰۰، ملتقطًا،شعب الإيمان، الحديث: ۷۱۷۸، ج۵، ص۴۳۶( (2): جب مضبوط خیال ہو جائے کہ اب سویا تو نَماز نکل جائے گی تو اس وَقت سونا جائز نہیں ۔ہاں اگر کوئی جگانے والا ایسا آدمی ہو کہ جس پر اعتماد(trust) ہو کہ جگا دے گا تو اب سو سکتا ہے۔ اگرایسے وقت میں سویا کہ عام طور پر وقت پہ آنکھ کھل جاتی اور اتفاقاً (incidentally)نہ کُھلی تو گنہگار نہیں۔)فوائد جلیلہ، فتاویٰ رضویہ ،۴/۶۹۸، ملخصاً( (3): جس پر قضا نمازیں باقی ہوں ان کا جلد سے جلد (as soon as possible)پڑھنا واجب ہےمگرگھر والوں اور اپنی ضَروریات پوری کرنے کے لیےتاخیر (delay)جائز ہے ۔لہٰذا کاروبار بھی کرتا رہے اورجیسے جیسے وَقت ملے اُس میں قضا پڑھتا رہے یہاں تک کہ یہ نمازیں پوری ہو جائیں۔) بہارِ شریعت، حصہ ۴، قضا نماز کا بیان، ۱/ ۷۰۶ بالتغیر

نماز قضا کرنے کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں :‏‏‏‏‏
(1): بےنمازیوں کے ساتھ رہنا (2): سستی (3):کھیل اور فُضُول کاموں کی عادت (4): مال جَمْع کرنے کی لالچ کہ ایسے لوگ کاروبار وغیرہ کی وجہ سے نماز پڑھنے میں سستی کرتے ہیں۔وغیرہ

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے سوال ہوا ، جس میں کچھ یوں بھی تھا:بعض جگہ کاشتکاری(کھیتی باڑی ) کا کام کرنے کی وجہ سے،ان میں سے اکثر لوگوں کی نماز قضا ہوجاتی ہے۔ تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےکچھ اس طرح فرمایا : کیا نہیں جانتے کہ کھیتی بھی اسی کے حکم سے پیدا ہوتی ہے کہ جس نے نماز سب سے بڑھ کر فرض کی ہے اگر نماز کھونے میں تمہاری کھیتی ختم کردے تو تم کیا کر سکتے ہو ؟نماز گھنٹوں میں نہیں ہوتی تھوڑی دیر کے لئے نماز کے لیے کھیتی کے کام کو روک دو تو نماز اور کھیتی کا مالک تمھاری کھیتیوں میں بہت برکت دے گا۔ (فتاوٰی رضویہ جلد ۷، صفحہ ۵۴۴)

نمازی بننے کے کچھ طریقے:‏‏‏‏‏‏
نمازی بننے کے لیے صحیح طریقے سے نماز پڑھیں کہ اللہ پاک فرماتا ہے:(ترجمہTranslation): بیشک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے ۔ (ترجمہ کنز العرفان)(سورۃ العنکبوت، پ۲۱،آیت۴۵)علماء فرماتے ہیں: ہمارے معاشرے(society) میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آتے اور بری عادتوں سے نہیں رکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس طرح نماز نہیں پڑھتے جیسے نماز پڑھنے کا حق ہے مثلاً نماز کے ارکان (فرائض جو نماز کے اندر لازم ہیں) اور شرائط (جو نماز سے پہلے لازم ہیں)کو ان کے حقوق کے ساتھ اور صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے ۔یہ ان کی نما زہوتی ہے جو ظاہری نماز تو ہے لیکن حقیقی اور کامل نماز نہیں (کہ فرض و شرط کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں) ۔ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :جس کی نماز اس کو بے حیائی اور ممنوعات(یعنی جس چیز سے دین نے منع کیا ہے) سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں۔(درمنثور، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۶۶)اس کا یہ مطلب نہیں کہ دل نہیں لگ رہا تو نماز چھوڑدیں یا گناہوں سے بچ نہیں پا رہے تو نماز پڑھنا چھوڑ دیں بلکہ نماز کو مزید اچھے انداز میں پڑھیں اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں ۔اِنْ شَاءَاللہ! نماز صحیح طرح پڑھنے کی برکت سے، گناہوں کے ساتھ ساتھ نمازنا پڑھنے کی برائی سے بھی بچ جائیں گے۔ نیک لوگوں کے ساتھ رہیں اور بُری دوستیاں ختم کر دیں نماز پڑھنے کے فضائل اور نماز چھوڑنے کے عَذَابات پڑھئے یاسُنئے ۔ یہ بات ذِہْن میں اچھی طرح بِٹھا لیجئے کہ جو رِزْق قِسْمَت(یعنی نصیب) میں ہے وہ مِل کر رہے گا تومال جمع کرنے کی لالچ میں نماز کو چھوڑ دینا بہت بڑا نُقْصان ہے۔

نوٹ:‏‏‏‏‏‏
قضا کی ہوئی نمازیں پڑھنے کا طریقہ اور اس کے تفصیلی مسائل جاننے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ”قضا نمازوں کا طریقہ“ پڑھ لیجئے۔

31 ’’ اللہ پاک پر بھروسہ(یعنی یقین۔trust)‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’اور جو اللہ پر بھروسہ (یعنی توکُّل اور یقین)کرے تو وہ اُسے کافی ہے ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۲۸، الطلاق:۳)عُلَما فرماتے ہیں: اِس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کو اللہ پاک پر توکُّل (یعنی یقین۔trust) کرنا چاہئےاور اپنے تمام کاموں میں اُسی پر بھروسہ(trust) کرنا چاہئے۔ (صراط الجنان، ۱۰/۲۰۲مُلخصاً)

احادیث ِمُبارکہ:‏
(1)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏ اگر تم اللہ پاک پر اس طرح بھروسہ(trust) کرو جیسے اس پر بھروسہ (trust) کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اُس طرح رِزْق عطا فرمائے گا جیسے پرندوں کو عطا فرماتا ہے کہ وہ صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔ (ترمذی، ابواب الزہد، ۴/۱۵۴، حدیث:۲۳۵۱)

(4) جواب دیجئے:

س۱) نمازیں قضا کرنے کے کیا کیا نقصانات ہیں؟

س۲) اگر نمازیں قضا کرنے کی عادت ہے تو اسے ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

(2) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جسے پسندہو کہ وہ لوگوں سے زیادہ مال دار ہوجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے مال سے زیادہ اس پر بھروسا کرے جو اللہ پاک کے پاس موجود ہے۔(المستدرک، کتاب الادب، ۵/ ۳۸۴، حدیث:۷۷۷۹)

توکُّل کسے کہتے ہیں ؟:‏
کسی بھی کام کو کرنے کے لئے اُس کے اسباب کواستعمال کرنا (مثلاً اچھی جگہ دکان لی اور بیچنے کے لیے خوبصورت کپڑے لیے)مگر نتیجہ(result) اللہ پاک پر چھوڑدینا(یعنی محنت کر لی ہے، اب اللہ پاک چاہے گا تو یہ کپڑے بکیں (sellہوں)گے اور فائدہ(نفع ،profit) ہوگا)۔ (ماخوذ از نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص ۱۵۷) حضرت اِبن مسروق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اللہ پاک کے فیصلوں اور حکموں کے سامنے سرجھکانا توکُّل ہے (یعنی جو نصیب سے مل رہا ہے، اُس پر خوش رہے)۔ (الرسالۃ القشیریۃ، باب التوکل، ص۲۰۰)

توکُّل کی ایک مثال:‏
کسان کھیت لگائے گا، بیج ڈالے گا، فصل کو پانی دے گا مگر وہ یہ نہ سمجھے گا کہ میں کامیاب ہوگیا بلکہ ان کاموں کے بعد بھی یہ ذہن رکھے گاکہ اللہ پاک ہی کامیاب کرنے والا ہے۔

توکُّل کی ایک نشانی(sign):‏
اگر مال چوری ہوجائے یا کاروبار(business) میں نقصان ہوجائے یا کوئی مشکل آجائےتو وہ راضی اور خوش رہے،دل کا اطمینان(satisfaction) اور سکون ختم نہ ہونا (توکُّل کی نشانی ہے)۔(احیاء العلوم، ۴/ ۸۰۴)

توکُّل کرنا فرض ہے:‏
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اللہ پاک پر توکُّل(یعنی بھروسہ۔trust) کرنا فرض ہے۔ (فضائل دعا، ص۲۸۷مُلخصاً) ایک اور جگہ اس طرح فرماتے ہیں: توکُّل اسباب (مثلاً کمانے کو)چھوڑ دینے کا نام نہیں بلکہ اسباب پر بھروسہ(trust) نہ کرنے کا نام ہے(یعنی یہ سوچ ہو کہ یہ job میرے مسئلے حل نہیں کرے گی،بلکہ میں job کرونگا اور اللہ پاک ہی میرے مسئلے حل فرمائے گا)۔(فتاوی رضویہ ۲۴/۳۷۹)

توکُّل سے دورکرنے والی کچھ چیزیں :‏‏
(1)صرف اپنی محنت اورعقل پر بھروسہ(trust) کرنا(2) اللہ پاک کی رحمت سے توجُّہ (attention)کا ہٹ جانا(3)مال وغیرہ کی کمی کا سوچتےرہنا۔وغیرہ

توکُّل کیسے ملے گا؟:‏‏
بندہ یہ بات جان لے کہ سب کام اللہ پاک کرنے والا ہے، سب کو وہی پیدا کرنے والا ہے۔ وہ قدرت والا، ہر بات کا جاننےوالا ہے، کوئی چیز نہ تو اس کی قدرت سے بڑھ کر ہے اور نہ اس کے علم سے باہر ہے۔ جب بندہ یہ بات اچھی طرح جان لے گا تو اس کے نتیجے میں بندے پر یقین (believe) کی ایسی کیفیت (condition)پیدا ہوجائےگی کہ وہ ایک اللہ پاک ہی پر بھروسہ (trust) کرنے والا بن جائےگا۔ (احیاء العلوم، ۴/ ۷۴۵ ،۷۸۰ ملخصا بالتغیر)

توکُّل کا فائدہ:‏‏
انسان شیطانی وسوسوں سے بچ جاتا ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے،(ترجمہTranslation): ’’ بیشک اسے(یعنی شیطان کو) ان لوگوں پر کوئی قابو نہیں جو ایمان لائے اور وہ اپنے ربّ ہی پر بھروسہ (trust) کرتے ہیں ۔‘‘(پارہ۱۴سورۃ النحل آیت ۹۹ )(ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں: (ایسے نیک مسلمان کہ جو اللہ پاک پر بھروسہ (trust) کرتے ہیں) وہ شیطانی وسوسے قبول نہیں کرتے ۔( خزائن العرفان، پ۱۴، النحل، تحت الآیۃ:۹۹)

توکُّل کی عادت بنانے کے کچھ طریقے:
توکُّل کے بارے میں اِسلامی تعلیمات اور بزرگوں کے انداز کو پڑھیں ہر معاملے میں اللہ پاک کی قدرت پر مکمّل یقین(believe) رکھیں دعا کرتے رہیں اللہ پاک پر یقین رکھنے والوں کے ساتھ رہا کریں صرف اللہ پاک کی طرف توجّہ (attention) رکھیں اللہ پاک کے وعدے پر یقین رکھیں کہ اُس نے رزق(روزی وغیرہ) دینے کا وعدہ فرمایا ہے اللہ پاک کی رحمتوں پر غور کریں ! توکُّل کا ذِہْن بنے گا کہ جو ربّ پرندوں کو روزی دیتا ہے، وہ مجھ پر بھی کَرَم فرما کر میرے کام پورے کرے گا بچّے سے درْس حاصل کیجئے کہ وہ ہر معاملے میں اپنی ماں پر بھروسہ (trust) کرتا اور ہر پریشانی میں اُسی کی طرف جاتا ہے تو ماں اُس کے کام کر دیتی ہے۔ اللہ پاک تو ماں سے بھی زیادہ بندوں سے پیار فرماتا ہے بلکہ ماں کے دل میں رحم ڈالنے والا بھی تو اللہ پاک ہی ہے،تواگر میں ہر معاملے میں اُس سے دعا کرونگا تو وہ مجھ پرکَرَم کیوں نہ فرمائے گا!! اگر دعا قبول ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہی تو بھی اِسے اللہ پاک کا احسان سمجھیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جو ہم چاہ رہے ہیں ، وہ ہمارے لیے بہتر نہ ہو، اس لئے اللہ پاک نے اِسے پورا نہ کیا اور اس کی جگہ ہماری آخرت کے لئے اُس دعا کو جمع کر لیا۔(ماخوذ ازنجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص ۱۶۱ تا ۱۵۷)

نوٹ:
توکُّل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’احیاء العلوم جلد 4 صفحہ 732تا 871 ‘‘ کو پڑھ لیجیئے۔ ( )

32 بخل

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(5) جواب دیجئے:

س۱) توکُّل کسے کہتے ہیں؟

س۲) توکُّل کی عادت کیسے بنے؟

(ترجمہ Translation :)’’اور جو لوگ اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے وہ ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ یہ بخل ان کے لئے برا ہے ‘‘ ۔ (پ ۴، آل عمران، آیت ۱۸۰)(ترجمہ کنز العرفان) علماء فرماتے ہیں: اس آیت میں اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ نہ کرنے والے بخیل(کنجوس) کے بارے میں سخت وعید (یعنی سزا)بتائی گئی ہےاوراکثر (یعنی بہت سارے) علماء نے فرمایا کہ یہاں بخل (یعنی کنجوسی) کا مطلب زکوٰۃ نہ دینا ہے۔(صراط الجنان۲/۱۰۲مُؒخصاً)

احادیث ِمُبارکہ:‏
(1) فرمانِ مُصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏مالدار بخل کرنے کی و جہ سے بغیر حساب کےجہنّم میں داخل کر دیے جائیں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین، ۱ / ۴۴۴، الحدیث: ۳۳۰۹)

(2) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏بخیل اللہ پاک سے دورہے، جنّت سے دور ہےاور آدمیوں سے بھی دور ہے جبکہ جہنّم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، ۳ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۹۶۸)

(3) پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :بخل جہنّم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی (branch) پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنّم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ (شعب الایمان، ۷ / ۴۳۵، الحدیث: ۱۰۸۷۷)

بخل کسے کہتے ہیں؟:‏
جہاں شرعاً یا عرف وعادت(common practice and habit) میں خرچ کرنا واجب اور ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ البخل ، ۳ / ۳۲۰، ملخصاً)

بخل کی تفصیل یعنی وضاحت ۔explanation‏
زکوٰۃ،(واجب) صدقہ اور فطرہ وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے ۔ دوست اوررشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت (common practice and habit) میں لازم ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ البخل ، ۳ / ۳۲۰، ملخصاً)مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :اسلام اور شریعت میں بخل یہ ہے کہ وہاں خرچ کرنےسے مال وغیرہ کا روکناجہاں سےروکنامناسب نہ ہو۔حقوق کاادانہ کرنابھی بخل ہے،خواہ انسانوں کاحق ادا نہ کرے یاشریعت کا یا اللہ پاک کا،لہٰذا زکوٰۃ نہ دینے والا،اپنے ضرورت مند ماں باپ،بال بچوں ،رشتہ داروں پرخرچ نہ کرنے والانیز اپنےاو پرخرچ نہ کرنے والا بھی بخیل اور کنجوس (miser)ہے۔یوں ہی ضرورت کے وقت مسلمانوں پرخرچ نہ کرنے والا،جہاد میں ضرورت کے باوجودخرچ نہ کرنے والا بھی بخیل اور کنجوس ہے۔ (تفسیرنعیمی ،۴/۳۷۷مُلخصاً)

بخل کی مثال:‏‏
صدقہ واجبہ(زکوۃ، فطرہ وغیرہ) نہ دینا، گنجائش اور طاقت ہونے کے باوجود مہمان کی مہمان نوازی نہ کرنا۔

بخل کی ایک نشانی(sign) :‏‏‏
اپنی دنیا بہتر کرنے کے لیے مال جمع کرنا اور مال کی لالچ کرنا، بخل کی نشانی(sign) ہے۔(قوت القلوب ،۱؍۴۱۹مُلخصاً)

بخل کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏‏‏‏
(۱)تنگدستی(poverty)کاڈر(۲)مال سے محبّت(۳)اپنی ہر خواہش (desire) پوری کرنے کا شوق(۴)دنیاوی مستقبل روشن کرنے کی بے جا خواہش(unreasonable desire) (۵)غفلت وغیرہ۔

بخل کی طرف لے جانے والی چیزوں سے بچنے کے لیے:‏‏‏‏‏
قناعت کرنے(یعنی جو مل جائے اُس پر راضی رہنے)، صبر کرنے، موت کو بہت یاد کرنےا ور دنیا سے فوت ہوجانے والوں کے بارے میں غور کرنے سے بخل کی طرف لے جانے والی چیزوں سے بچا جاسکتا ہے ۔اسی طرح بخل کے نقصانات اور سخاوت(اللہ پاک کی رضا اور خوشی حاصل کرنے کے لیے غریبوں پر مال خرچ کرنے) کے فائد ےپڑھنا ۔ (کیمیائے سعادت،علاج بخل، ۲ / ۶۵۰-۶۵۱، ملخصاً)

بخل کے کچھ نقصانات:‏‏‏‏‏‏
(1)بخل کرنے والا کبھی کامل مومن نہیں بن سکتا بلکہ کبھی بخل ایمان سے بھی روک دیتا ہے اور انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے ،جیسے قارون کو اس کے بخل نے کافر بنا دیا (یہ حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کے چچا کا بیٹا(cousin) ،بہت بڑا عالم اور غریب آدمی تھا پھر اللہ پاک نے اسے اتنا مال دیا کہ اُس نے سونے کا گھر بنا لیا اور بہت بڑے خزانوں (treasures)کا مالک ہو گیا پھر زکوۃ دینے سے منع کیا پھر کافر ہو گیا، زمین نے زندہ ہی اُسے اپنے اندر لے لیا (تفسیر صاوی، ج۴، ص۶۴۵۱۔۷۴۵۱،پ۰۲، القصص:۱۸ ماخوذاً))(2) بخل کرنے والے کو لوگ بُرا بھلا کہتے ہیں(3) بخل کرنے والا ظلم پر اُتر آتا ہے(4) بخل کرنے سے رشتہ داریاں ٹوٹ جاتی ہیں(5) بخل کرنے کی وجہ سے آدمی مال کی برکت سے محروم ہوجاتا ہے۔(صراط الجنان۹/۳۳۰ مُلخصاً)

بخل سے بچنے کے کچھ طریقے:
یہ ذہن بنائیں کہ اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بڑھتا ہے اصل مال تو اعمال ہیں جو قبر میں ساتھ جائیں گے غلط خواہشات(desires) کو پورا کرنے کے نقصان جانےآخرت کا مستقبل (future)روشن کرنے کی کوشش کرے اور دنیاوی مستقبل کے لیے اللہ پاک پر بھروسہ(trust) کرے مال جو کام آئے گا وہ تو وہی ہے کہ جو اللہ پاک کی راہ میں خرچ کیاامام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ کنجوسی ایک ایسا مرض ہے کہ اس کا علاج بہت مشکل ہے خصوصاً بوڑھا آدمی بخیل ہو تو وہ تقریباً لاعلاج (یعنی اس کا کوئی علاج نہیں)ہے اور کنجوسی کا سبب(reason) مال کی محبت ہے۔ جب تک مال کی محبت دل سےختم نہیں ہوگی۔کنجوسی کی بیماری دور نہیں ہو سکتی۔ پھر بھی اس کے دو(1) علاج بہت ہی کامیاب ہیں۔ پہلا (1st )علاج یہ کہ آدمی سوچے کہ مال مجھے کیوں ملا ہے؟ اور میں کس لئے پیدا کیا گیا ہوں؟ اور مجھے دنیا میں مال جمع کرنے کے ساتھ ساتھ آخرت کے لئے بھی جمع کر ناہے۔ جب یہ خیال دل میں ہو گا تو پھر دل میں دنیا کی محبّت کم ہوگی اور بخل سے بچ جائے گا۔ اور دوسرا(2nd ) علاج یہ ہے کہ بخیلوں اور سخی لوگوں کی حکایات پڑھے اور درس حاصل کرے۔ (احیاء علوم الدین ، کتاب ذم البخل ، ۳؍۳۲۲، ملخصا)

نوٹ:
بخل کی تفصیل جاننے کے لئے”احیاء العلوم جلد۳“ کو پڑھ لیجئے۔( )

(6) جواب دیجئے:

33 ’’ شراب(Wine) ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بُت اور قسمت معلوم کرنے کے تِیر (Arrows) ( ) ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ (یعنی کامیاب ہو جاؤ)۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض و کینہ ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم باز آتے ہو؟ ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ7، المائدۃ:۹۰۔۹۱)علماء فرماتے ہیں : شراب پینے اور جوا کھیلنے کا ظاہِری دنیوی نقصان تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں نفرتیں اور دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں جبکہ ظاہری دینی وَبال یہ ہے کہ جو شخص یہ گناہ کرتا ہے وہ اللہ پاک کے ذِکر اور وقت پر نَماز پڑھنے سے دور ہو جاتا ہے۔ (صراط الجنان، ۳/۲۶ مُلخصاً)

احادیث ِمُبارکہ:‏
1 فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک فرماتا ہے: مجھے میری عزّت کی قسم! میرا جو بندہ شراب کا ایک گھونٹ(sip) بھی پئے گا میں اسے اُتنی ہی جہنّمی پیپ(pus) پلاؤں گا۔ اور میرا جو بندہ میرے خوف سے شراب چھوڑے گا میں اسے جنّتی مشروب پلاؤں گا۔(مسند احمد، مسند الانصار، ۸/۲۸۶، حدیث:۲۲۲۸۱ملتقطاً) (2 فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏جو لوگ دنیا میں کسی نشہ کرنے والے

س۱) بُخل کسے کہتے ہیں؟

س۲) بُخل سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

(7) زمانۂ جاہلیت میں غیر مسلم کچھ خاص انداز میں تیروں کے ذریعے اپنی قسمت معلوم کرتے اور کسی کام کو کرنے یا نہ کرنےکا فیصلہ کیا کرتے تھے۔

کے پاس آتے ہیں، اللہ پاک ان سب کو جہنّم میں ڈال دے گا۔ اور وہ جہنّم میں ایک دوسرے کو آکر بُرا بھلا کہیں گے کہ تو نے ہی مجھے اس جگہ پہنچایا ہے۔ (الکبائر للذہبی، ص ۹۵ملخصاً)

شراب (Wine) کسے کہتے ہیں ؟:
ہر وہ بہنے والی چیز (یعنی liquid) جس کے پینے سے نشہ(intoxication) آتا ہو شراب ہے۔ چاہے کسی بھی چیز سے بنائی گئی ہو۔ (فتاوی رضویہ، ۲۵/۲۰۵ملخصاً)

شراب پینا جہنّم میں لے جانے والا کام ہے:
(1): شراب پینا سَخْت کبیرہ(یعنی بہت بڑا) گُنَاہ ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ۲۵/۱۰۱مُلخصاً)

(2): کسی غیر مسلم کوشراب پلانا بھی حرام ہے اور پلانے والا سخت گنہگار ہوگا۔ (ہدایہ، کتاب الاشربۃ، ۲/۳۹۸ملخصاً)

(3):شراب قطعاً(یعنی یقیناً)حرام اور پیشاب کی طرح ناپاک ہے مسلمان کو اس کا بیچنا(sell کرنا)حرام، چھونا(touch کرنا) حرام، اس سے کسی طرح کا نفع(profit) لینا حرام۔(فتاویٰ رضویہ، ۱۷/۵۴۶ مُلخصاً)

(4): شراب کی طرح (نشے کیacting کرتے ہوئے)پانی پینا حرام ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ۶/۵۸۳ مُلخصاً)

(5): علماء فرماتے ہیں کہ شراب پینے پر” بِسْمِ ﷲ “کہے توکافر ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ۶/۵۹۴ مُلخصاً)

شراب پینے کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:
(1) شراب پینے والے لوگوں کے پاس اُٹھنا بیٹھنا (2)جَہَالَت (جیسا کہ بَعْض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شراب پینے سے غم دُور ہو جاتے ہیں) (3) ناچ گانے کی مجلسوں (gatherings) میں شرکت کرنا، خاص طور پر dance clubs میں جانا (ایسی جگہوں پر شراب عام پائی جاتی ہے )۔ وغیرہ

شراب پینے کے کچھ نقصانات:
شروع شروع میں انسان کا بدن شراب کے نقصان پہنچانے والے اثرات(harmful effects) کا مقابلہ کرلیتا ہے اور شراب پینے والے کو خوشی والی کیفیت(condition) محسوس ہوتی ہے لیکن جلد ہی انسان کے اندر کی طاقت ختم ہوجاتی ہے اور شراب کے نقصان پہنچانے والے اثرات(harmful effects) اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ شراب کا سب سے زیادہ اثر (effects)جگر (liver) پر ہوتاہے اور جگر خراب ہونے لگتا ہے۔ شراب کی وجہ سے گردوں(kidneys) پر بوجھ زیادہ ہوجاتا ہے اور آخر کار گردے فیل ہوجاتے ہیں۔ شراب کی وجہ سے دماغ اور معدہ سوج جاتا (swelling ہو جاتی)ہے جبکہ ہڈّیاں نرم اور کمزور ہوجاتی ہیں۔ شراب کی وجہ سے جسم میں موجود وٹامنز (vitamins) بھی تیزی سے ختم ہوتے ہیں اور ساتھ ہی تھکن، سر درد، متلی(sickness) اور پیاس کی شدّت بھی بڑھ جاتی ہے۔ شراب زیادہ پینے والے کا دل اور سانس لینے کا عمل بھی رک جاتا ہے ۔ (بیماریوں کی ماں، ص ۴۳۔۴۴ملتقطاً و ملخصاً) 12 سے 23 سال کی عمر میں شراب کی عادت ڈالنے والوں میں سے 51 فیصد(percent) لوگ جلد مرجاتے ہیں ۔ 20 سال کی عمر سے شراب پینے والےاکثر لوگ 35 سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتے۔ (بیماریوں کی ماں، ص۵۹ ملُخصاً)

شراب پینے کے کچھ نقصانات:
شروع شروع میں انسان کا بدن شراب کے نقصان پہنچانے والے اثرات(harmful effects) کا مقابلہ کرلیتا ہے اور شراب پینے والے کو خوشی والی کیفیت(condition) محسوس ہوتی ہے لیکن جلد ہی انسان کے اندر کی طاقت ختم ہوجاتی ہے اور شراب کے نقصان پہنچانے والے اثرات(harmful effects) اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ شراب کا سب سے زیادہ اثر (effects)جگر (liver) پر ہوتاہے اور جگر خراب ہونے لگتا ہے۔ شراب کی وجہ سے گردوں(kidneys) پر بوجھ زیادہ ہوجاتا ہے اور آخر کار گردے فیل ہوجاتے ہیں۔ شراب کی وجہ سے دماغ اور معدہ سوج جاتا (swelling ہو جاتی)ہے جبکہ ہڈّیاں نرم اور کمزور ہوجاتی ہیں۔ شراب کی وجہ سے جسم میں موجود وٹامنز (vitamins) بھی تیزی سے ختم ہوتے ہیں اور ساتھ ہی تھکن، سر درد، متلی(sickness) اور پیاس کی شدّت بھی بڑھ جاتی ہے۔ شراب زیادہ پینے والے کا دل اور سانس لینے کا عمل بھی رک جاتا ہے ۔ (بیماریوں کی ماں، ص ۴۳۔۴۴ملتقطاً و ملخصاً) 12 سے 23 سال کی عمر میں شراب کی عادت ڈالنے والوں میں سے 51 فیصد(percent) لوگ جلد مرجاتے ہیں ۔ 20 سال کی عمر سے شراب پینے والےاکثر لوگ 35 سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتے۔ (بیماریوں کی ماں، ص۵۹ ملُخصاً)

شرابی (wine drinker)کیا کیا کرتا ہے؟:
شرابی کبھی لوگوں کا قتل بھی کر دیتا ہے شرابی شوہر کبھی اپنی بیوی پر ظلم کرتا اور اُسے مارتا ہے شرابی لوگ دیگر عورتوں پر بھی ظلم کر دیتے ہیں شرابی والدین کی اولاد بھی بیمار اور کمزور ہوسکتی ہےشرابی کے گھر والے اور دوست اُس سے دور ہو جاتے ہیں۔(صراط الجنان ۳/۲۲ماخوذاً)

شراب کی عادت ہو تو ختم کرنے کے کچھ طریقے:
سب سے پہلے ایسے دوستوں سے دور ہوں کہ جو شراب پیتے ہیں سچّی توبہ کر کے اللہ پاک سےدعا بھی کرتے رہیں شراب کی عادت چھڑانےکےلئے اگر علاج کروانا پڑے تو وہ بھی کروائیں ہوسکے تو حلال کمانے کھانے کے علاوہ جو وقت ملے اُسے نیکی کے کاموں مثلاً : مدرسۃ المدینہ بالغان میں گزاریں اور صحیح طریقے سے قرآنِ پاک اور نمازپڑھنا سیکھیںاگر کبھی دوبارہ شراب پینے کا دل چاہےتو قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے عذابات پر غور کر یں اور ایسے بیانات سنیں کہ جس میں شراب کے گناہ بتائے گے ہوں ۔ وغیرہ

نوٹ:
تفصیل کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’برائیوں کی ماں‘‘ کو پڑھیں ۔

(8) جواب دیجئے:

س۱) شراب پینے کے کیا کیا نقصانات ہیں؟

س۲) اگر شراب پینےکی عادت ہے تو اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

34 ’’ا للہ پاک کی راہ میں خرچ ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’اے ایمان والو! ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں اس دن کے آنے سے پہلے خرچ کرلو جس میں کوئی خرید و فروخت نہ ہوگی ‘‘ ۔ (ترجمہ کنز العرفان مُلخصاً) (پ۳، البقرہ: ۲۵۴) علماء فرماتے ہیں: قیامت کے آنے سے پہلے پہلے اللہ پاک کی راہ میں اللہ پاک کا دیا ہوا مال خر چ کرلو۔ قیامت کا دن بہت خطر ناک ہے، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا اور دنیوی دوستیاں بھی بیکار ہوں گی بلکہ باپ بیٹے بھی ایک دوسرے سے جان چھڑا رہے ہوں گے۔(صراط الجنان۱/۳۸۳ مُلخصاً)

اَحادیثِ مُبارکہ :
(1) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا‏: اللہ پاک فرماتا ہے اے ابنِ آدم! خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا۔( بخاری، کتاب النفقات، ۳ / ۵۱۱، الحدیث: ۵۳۵۲) (2) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔( مسلم، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۶۹)

اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے کا مطلب:‏
اللہ پاک کی رضا اور خوشی کے لیے، اسلام کی تعلیمات کے مطابق ایسی جگہ خرچ کرنا کہ جہاں خرچ کرنا دین کو پسند ہو۔ پھر اس کی دو(2) صورتیں ہیں: (۱)جہاں خرچ کرنا اسلام نے لازم کیا ہو(۲) جہاں خرچ کرنا اسلام نے لازم نہیں کیا یاد رہے! دونوں طرح کا خرچ، جنّت میں لے جانے والا کام ہے لیکنجہاں خرچ کرنا اسلام نے لازم کیا، اگر وہاں خرچ نہ کیا تو یہ جہنّم میں لے جانے والا کام اور بُخل ہے۔( ) یہاں ہم اللہ پاک کی راہ میں ایسے خرچ کو بیان کریں گے کہ جو اسلام نے لازم نہیں کیا۔

جہاں خرچ کرنا اسلام نے لازم تو نہیں کیا مگر پسند فرمایا ہے:
صَدَقہ خَیْرات ہَدِیّہ(تحفہ) (چندے کی شرعی احتیاطیں ص۸) اللہ پاک کی رضا اور خوشی کے لیے اپنے گھروالوں پر(ضرورت کے علاوہ،جائز خرچ) دیگررشتہ داروں(کہ جن کا خرچہ اُٹھانا لازم نہ ہو) پر خرچ کرنا، اسی طرح زکوۃ، فطرہ وغیرہ کے علاوہ شرعی فقیروں مسکینوں یتیموں مسافروں غریبوں ا و ردیگر مسلمانوں (مثلاًعلماء کرام، امام صاحبان، سیّد صاحبان وغیرہ) پر خرچ کرنا یا نیک جگہوں(مثلاً مسجد و مدرسہ وغیرہ) میں حلال وجائز مال سےخرچ کرنا ہے۔(نجات دلانے والا اعمال ص۱۷۹ماخوذاً) تلاوت کی محفل محفلِ ذکر محفلِ میلاد پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارہویں شریف امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی نیاز شریف (یعنی ۱۵ رجب کی کھیر پوری) غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی گیارہویں شریف خواجہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی چھٹی شریف بزرگوں رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کے عرس و نیاز وغیرہ پر خرچ ، اللہ پاک کی راہ میں خرچ اور نفلی صدقہ ہے۔

اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنےکے کچھ فائدے:‏
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اَحادیث مبارکہ سے اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سے فائدے بیان کیے ہیں، اُن میں سے اس طرح کے فائدے بھی ہیں : (۱) اللہ پاک کے کرم سے بُری موت سے بچیں گے، یعنی بُری موت کے دروازے بند ہوں گے(۲) صدقہ کرنے والوں کی عمریں زیادہ ہوں گی(۳) رِزق اور مال زیادہ ہوگا(۴) صدقے کی عادت سے کبھی محتاج نہ ہوں گے(۵)خیراوربرکت ملے گی (۶)آفتیں اور مُصیبتیں دُور ہوں گی(۷) بُرائیاں دور ہوں گی کہ ستر(70) دروازے برائی کے بند ہو جائیں گے بلکہ ستر(70) قسم کی بلائیں دور ہوں گی (۸) صدقہ کرنے والوں کے شہر آباد ہوں گے (۹)محتاجی دور ہوگی(۱۰)دل کو اطمینان ملے گا (۱۱) اللہ پاک کی مدد حاصل ہوگی (۱۲)رحمت الٰہی

ملے گی (۱۳)فرشتے رحمت کی دعا کریں گے (۱۴) اللہ پاک کو راضی اور خوش کرنے والے کاموں کی توفیق ملے گی (۱۵) اللہ پاک کا غضب دور ہوگا (۱۶) صدقہ کرنے والوں کے گناہ بخشے جائیں گے(۱۷) اُن کی مغفرت ہو جائے گی (۱۸) اُن کے گناہوں کی آگ بجھ جائے گی (۱۹) غلام آزاد کرنے سے زیادہ ثواب ملےگا( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )(۲۰)اُن کے ٹیڑھے کام صحیح ہوں گے (۲۱) آپس میں محبتیں بڑھیں گی (۲۲) جب دوسروں کو کھلائیں گے توتھوڑے پیسوں میں بہت کا پیٹ بھرے گا (۲۳) صدقہ کرنے والوں کے درجے بلند ہوں گے (۲۴) اللہ پاک فرشتوں کے سامنے ،صدقہ کرنے والوں سے خوشی ظاہر فرمائے گا (۲۵)قیامت کے دن ،دوزخ کی آگ ،اُن پر حرام ہوگی (۲۶) آخرت میں بھی اللہ پاک اُن پر احسان فرمائے گا(۲۷) اللہ پاک نے چاہا تو اُس مبارک گروہ میں شامل ہوں گے جو پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صدقے، سب سے پہلے جنّت میں جائے گا۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۱۵۳بتصرف) یاد رہے! اللہ پاک چاہے تو کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر ہمیشہ رہنے والی جنّت دے دے۔اسی طرح چاہے تو چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر جہنّم میں داخل فرمادے۔ وہ رحم کرنے والاہے،ظلم نہیں کرتا۔ہمیں حکم ہے کہ ہم فرائض،واجبات اور سنّتِ مؤکدّہ میں کمی نہ کریں اور ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچیں۔ہم پر اِن کاموں (فرائض، واجبات اور سنّتِ مؤکدّہ) کا کرنا ضروری اور ہر گناہ سے بچنا لازم ہے، ساتھ ساتھ ہر طرح کی نیکی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہمیں کیا معلوم کہ اللہ پاک ہماری کس نیکی سے خوش ہو جائے؟اس لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ نفلی صدقہ بھی کرنا چاہیے تاکہ دین و دنیا کے فائدے حاصل ہوں۔

اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے میں یہ باتیں ضرور دیکھیں :‏
(1)اپنی نیّت اچھی کریں۔ اللہ پاک کو خوش کرنے کی نیّت ہو، ریاکاری اور دوسروں کو دکھانے یاکسی قسم کی غلط نیّت نہ ہو۔

(2)صرف ایک ہی اچھی نیّت نہ کریں۔ جتنی اچھی نیّتیں کرسکتے ہیں (اوپر حدیثوں سے حاصل ہونے والے فائدوں کو پڑھیں اور اُن کے مطابق نیّتیں )کر یں۔

(3) صرف حلال اور پاک مال سے صدقہ کریں کہ اللہ کریم، پاک ہے اور پاک مال کو ہی قبول فرماتا ہے۔ ناپاک مال کا صدقہ خیرات، فاتحہ، نیاز کچھ قبول نہیں ہوتابلکہ بعض صورتیں کفر تک لے جا سکتی ہیں۔

(4)اگر (محفل وغیرہ میں)کھانے کا انتظام ہو تو ایسا بالکل نہ کریں کہ اپنے جاننے والے مال دار لوگوں کو بُلائیں اور غریبوں اور ضرورت مندوں کو بھول جائیں کہ اس طرح غریبوں کو چھوڑنا انھیں تکلیف دینا اور اُن کا دل دکھانا ہے۔مسلمانوں کا دل دکھانا ایسا بُرا کام ہے کہ یہ (اس صدقے کی)ساری نیکی کو ختم کرنے والا ہے۔ اس طرح کے کھانے کو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے سب سے بُرا کھانا فرمایا ہے کہ جس میں ایسے لوگوں کو بُلایا جائے کہ جن کے پیٹ بھرے ہوں (یعنی امیر ہوں) اورایسے بھوکوں(غریبوں) کو نہ بُلایا جائے کہ جو (اس دعوت میں ) آنے کی خواہش (desire) رکھتے ہوں۔(صحيح البخاری،کتاب النکاح،۴۵۵/۳،الحديث:۵۱۷۷، ماخوذاً)

5) جب دعوت میں غریب لوگ آئیں تو یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اُن پر احسان (favor)کیا ہے بلکہ یہ سمجھیں کہ انہوں نے ہم پر احسان کیا ہے کیونکہ جو آتا ہے وہ اپنا رزق کھاتا ہے(یعنی اللہ پاک نے جو اُس کے نصیب میں لکھا ہے، وہ تو اُسے ملے گا ) اور تمھیں یہ فائدہ دیتا ہے کہ تمھارے گناہ مٹادیتا ہے۔اُن کو اُٹھانے، بٹھانے، بُلانے، کھلانے، کسی بھی کام میں ایساانداز نہ رکھیں کہ جس سے اُن کا دل دُکھے کیونکہ ایسا صدقہ کہ جس کے ساتھ احسان(favor) جتایا (یعنی جو احسان کیا ہو، وہ یاد دلائے)جائے، (تو یہ انداز)ثواب کو ختم کر دیتا ہے۔

(6)اس طرح غریبوں کی خدمت (یعنی ان پر مال خرچ کرنا) ایک بار نہ کریں بلکہ بار بار کریں (ہر ماہ گیارہویں شریف کر کے بھی ، اس طرح کی نیاز بار بار کی جاسکتی ہے)۔یہ خدمت جتنی زیادہ ہوگی، اُتنا غریبوں کا فائدہ ہوگا اور ہمارے لیے بھی دنیاوی، جسمانی، جانی،مالی رحمت وبرکت ہوگی خصوصاً جب مال کی کمی ہو اور غریبوں کو ضرورت ہو تو یہ خدمت زیادہ اور بار بار کریں۔(فتاوی رضویہ جلد۲۳،ص۱۶۲ ماخوذاً)

اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے دور کرنے والی کچھ چیزیں:‏
(1)شیطانی وسوسے(2) انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام،صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ، اہلِ بیتِ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی شان کو نہ جاننا(3) علماءِ کرام، پیر صاحبان اور سیّد حضرات سے محبّت کی کمی(4) اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل نہ جاننا۔وغیرہ

اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے کا ذہن بنانے کے کچھ طریقے:‏
بزرگانِ دِین کے واقعات پڑھیںوالدین، اولاد، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی اہمیّت(importance) کو سمجھیں علماءکرام ، سیّد صاحبان اور نیک لوگوں کے فضائل پڑھیںیتیموں (orphans)،مسکینوں، غریبوں کی خدمت (یعنی ان پر مال خرچ کرنے) کی فضیلتیں پڑھیںاِیصالِ ثواب کی برکتیں جانیں مسجد و مدرسہ کی اہمیّت پر غور کریں بھوکے کو کھلانے، پیاسے کو پلانے کی فضیلت والی روایات پڑھیں قرض دینےکی فضیلتوں پر غورکریں۔ وغیرہ

نوٹ:
اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے کی تفصیل جاننے کے لئے(کتاب)”ضیائے صدقات“ کو پڑھ لیجئے۔

(10) جواب دیجئے:

س۱) اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے کی کیا تفصیل ہے؟

س۲) اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت کیسے بنے؟

35 ’’ نفاق ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’ اور (مُنافق)جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ‘‘ ۔ (پ۵، سورۃ النساء، آیت ۱۴۲)(ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سستی کرنا منافقوں کی علامت (پہچان۔symbol اورنشانی ۔ sign )ہے ۔نماز نہ پڑھنایا صرف لوگوں کے سامنے پڑھنا اور اکیلے میں (alone) نہ پڑھنا یالوگوں کے سامنےبہت آرام آرام سے پڑھنا اوراکیلے میں جلدی جلدی پڑھنایا نماز میں اِدھر اُدھر کی سوچنا، دل لگا کر نماز پڑھنے کی کوشش نہ کرنا وغیرہ سب سستی کی علامتیں(پہچان۔ symbols) ہیں۔(صراط الجنان۲/۳۳۴ مُلخصاً)

احادیثِ مُبارکہ:
(1) فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :چار (4)باتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکّا منافق ہوگا اور ان میں سے ایک بات ہوئی تو اس شخص میں نفاق(یعنی مُنافِق ہونے ) کی ایک نشانی(sign) پائی گئی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے: (۱)جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (۲) جب بات کرے تو جھوٹ بولے(۳)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (۴)جب جھگڑا کرے تو گالی دے ۔(بخاری ، کتاب الایمان، ج۱،ص ۲۴،حدیث: ۳۳)علماء فرماتے ہیں:اگر وعدہ صرف زبانی کیا اور اُسی وقت دل میں تھا کہ وعدہ پورانہ کرونگا توبغیر شرعی ضرورت کے سخت گناہ اورحرام ہے۔ اس طرح کی وعدہ خلافی کو حدیث میں منافقت کی نشانی(sign) بتایا گیا ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۱۲،ص۲۸۱مُلخصاً)

(2) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فحش بکنا اور زبان کا تیز ہونا نفاق کے دو (2) شعبے (departments) ہیں۔ ( جامع الترمذی ۲/ ۲۳،المستدرک للحاکم ۱/ ۵۲ مسند احمد بن حنبل ۵/ ۲۶۹ )

(3) حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو شخض دنیا میں دو چہروں والا ہو،قیامت کے دن اس کی دوزبانیں آگ کی ہوں گی۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، الحدیث۴۸۷۳،ص۱۵۸۱) علماء فرماتے ہیں:منافقت یہ ہے کہ دو ایسے افراد(بندے) جن میں لڑائی ہو،ایک تیسرا آدمی دونوں کے پاس الگ الگ جائے اوراُس کی ہاں! میں ہاں! ملائے یعنی ایک کے پاس دوسرے کی بُرائی اور دوسرے کے پاس پہلے کی بُرائی کرئے تویہ نفاق (مُنافقت) ہے۔ (لباب الاحیاءص۲۴۵)

منافق کسے کہتے ہیں؟:‏
نفاق کی دو (2)قسم کا ہے۔(۱) (پہلی قسم یہ ہے کہ)زبان سے کہے کہ میں مسلمان ہوں اور دل میں یہ ہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں، یہ عقیدے(beliefs) کا منافق ہے(پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی ظاہری زندگی میں موجود منافقین کی تفصیل بتا دی کہ کون کون منافق ہے لیکن اب ہم کسی کے بارے میں یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ یہ عقیدے کا مُنافق ہے) ، ایسے لوگ جہنّم کے سب سے نچلے (lower) حصّے میں ہوں گے۔ (۲)اور (نفاق کی دوسری قسم یہ ہے کہ)زبان و دل ایک طرح کا نہ ہونا(یعنی دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ اور ہو،مثلاً دل میں کسی کی نفرت ہو لیکن زبان سے اس کی تعریف کرے)، یہ عمل کا نفاق ہے۔(بہار شریعت، ج۱، ص۱۸۲،جامع العلوم و الحکم، الحدیث الثامن و الاربعون،ص۵۲۹مُلخصاً)

مُنافقت کی کچھ مثالیں:‏
زبان سے کہا کہ میری جو بھی چیز تم کھانا چاہو کھا لو اور دل سے اجازت نہیں دی تو یہ نفاق ہے اور اگر معلوم ہے کہ اُ س نے دل سے اجازت نہیں دی تو اُس کی چیزیں کھانے کی اجازت بھی نہیں۔(بہار شریعت ح۱۴، ص ۱۰۰،مسئلہ۱۱مُلخصاً) کسی کےعیب یا خامی(faults) کو اُس کی غیر موجودگی میں لوگوں کوبُرائی کے طور پر بیان کرنا غیبت ہے اور اگر یوں بیان کرے کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ وہ ایسے بُرے کام کرتا ہے یہ غیبت نہیں، مگر یہ ضرور ی ہے کہ واقعی افسوس ہو کہ اگر افسوس نہیں ہے اور ایسا انداز (manner)کیا کہ لوگ افسوس سمجھیں تو یہ نفاق ہے۔(بہار شریعت ح۱۶،ص۵۳۳) ایک شخص کی برائی کرتا ہے اور اس کا نام نہیں لیتا مگر جس کے سامنے برائی کرتا ہے، وہ اس کو جانتا پہچانتا ہے، (بلا اجازت شرعی) ایسا کرناغیبت اور گناہ ہے تو وہ غیبت بھی کر رہا ہےاور اپنے کو نیک ، پرہیز گار بھی ظاہر کر رہاہے تو یہ بھی ایک قسم کا نفاق ہے۔ (بہار شریعت ح۱۶،ص۵۳۴ مُلخصاً)

مُنافق کی ایک نشانی(sign):
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بے شک مؤمن جب بیمار ہوتا ہے پھر اللہ پاک اُسے شفا دےدے تو یہ بیماری اُس کے پچھلے(previous) گناہوں کا کفّارہ(گناہوں کو مٹانے والی) اور مستقبل(باقی زندگی) میں اُس کے لیے نصیحت(lesson) ہو جاتی ہے اور مُنافق جب بیمار ہو پھر جب ٹھیک ہو جاتا ہے تو وہ اُس اونٹ کی طرح ہوتا ہے جسے اُس کے مالک نے باندھ کر کھول دیا ہو کہ وہ نہیں جانتا کہ اُسے کیوں باندھا گیا اور کیوں چھوڑا گیا۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! یہ بیماریاں کیا ہوتی ہیں؟ خُدا کی قسم ! میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا۔ فرمایاکہ: ہم سے دور ہو جا، تُو ہم میں سے نہیں (یعنی ہمارے طریقے پر نہیں )۔ (ابوداؤد، کتاب الجنائز،رقم ۳۰۸۹ ،ج۳ ،ص۲۴۵) علماء فرماتے ہیں:جس کو گناہ آسان معلوم ہوں اور نیک کام بھاری ، سمجھو اس کے دل میں نِفاق ہے۔ ( نورْ العِرفان ،پ۱۰،التوبۃ،تحت الآیۃ:۸۱)

عملی مُنافقت کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏
(1) گانا۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :گانا دل میں نفاق اُگاتا (یعنی پیدا کرتا)ہے، جس طرح پانی سے کھیتی اُگتی ہے(like water grows crops)۔(شعب الإیمان، الحدیث:۵۱۰۰،ج۴،ص۲۷۹)

(2) بے حیائی۔ فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حیاء ایمان کا حصّہ(part) ہے اور بے حیائی نفاق کا حصّہ ہے ۔ ( جامع الترمذی ، ۲/ ۲۳)

(3)مال اور عزّت کی محبّت۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: یہ ( مال اور عزّت کی محبت دل میں ) نفاق کو ایسے اُگاتی ہے جیسے پانی سبزی کواُگاتا ہے۔(السنن الکبری للبیھقی، الحدیث۲۱۰۰۸، ج۱۰،ص۳۷۷۔۳۷۸)

(4) جماعت واجب ہونے کے باوجود، مسجد میں نہ جانا۔ فرمانِآخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ظلم ہے، پورا ظلم اور کفر ہے اور نفاق (یعنی عملی مُنافقت)ہے، یہ کہ اﷲ کے منادی(مؤذّن) کو اَذان کہتے سُنے اور (شرعی اجازت کے بغیر مسجد میں جماعت سے نماز کے لیے)حاضرنہ ہو۔ (المعجم الکبير للطبراني، الحدیث: ۳۹۴، ج۲۰، ص۱۸۳)

عملی مُنافقت سے بچنے کے کچھ طریقے:‏
عملی مُنافقت کے اسباب(reasons) دور کر یں اور ان طریقوں پر عمل کریں: صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا ذکر اچھے انداز سے کرنا۔فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جس نے میرے اَصحاب(یعنی صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) کے بارے میں اچھی بات کہی تو وہ نِفاق (یعنی مُنافقت)سےآزاد ہوگیا،جس نے میرے اَصحاب کے بارے میں کوئی بُری بات کہی تووہ میرے طریقے سے ہٹ گیااور اس کا ٹِھکانا آگ ہے اور (وہ جہنّم کی آگ) کیاہی بُری جگہ ہے کہ جس کی طرف اُس (برائی کرنے والے کو) جانا ہے۔ (الریاض النضرۃ، الباب الاول ،۱/۲۲) پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرنا۔فرمانِآخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جو اﷲ پاک کے ليے چالیس(40) دن باجماعت نماز پڑھے اور تکبیرۂ اُولیٰ پائے، اس کے ليے دو(2) آزادیاں لکھ دی جائیں گی، ایک (جہنّم کی)آگ سے، دوسری نفاق سے۔ (جامع الترمذي، الحديث: ۲۴۱، ج۱، ص۲۷۴) کم از کم 100مرتبہ درودِ پاک پڑھنے کی عادت ۔ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جو مجھ پر سو (100)مرتبہ درودِ پاک بھیجے گا اللہ پاک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دے گا کہ یہ بندہ نفاق اور دوزخ کی آگ سے بری (یعنی آزاد) ہے اور قیامت کے دن اسے شہیدوں کے ساتھ رکھے گا۔ (مجمع الزوائد،کتاب الادعیۃ،فی الصلوۃ علی النبی۔الخ، الحدیث:۱۷۲۹۸ ، ج۱۰، ص۲۵۳)

نوٹ:
نفاقِ عملی کی تفصیل جاننے کے لئے(کتاب)”باطنی بیماریوں کی معلومات“ کو پڑھ لیجئے۔( )

36 ’’ اپنی ذات کے لیے غصّہ کرنا ‘‘

اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر(یعنی معاف) کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پارہ ۴،سُوْرَۂ اٰلِ عِمْرَان، آیت ۱۳۴) امام زین العابدین علی بن حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکی کنیز وضو کرواتے ہوئے ان پر پانی ڈال رہی تھی( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو عورت ملی ،اُسے کنیزکہتے تھے۔ آج کل یہ نہیں ہوتیں) ۔ اچانک اس کے ہاتھ سے برتن آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی(injured) ہو گیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی کہ اللہ پاک فرماتا ہے: ’’وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ‘‘ (ترجمہ)اور غصّہ پینے والے۔امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا: میں نے اپنا غصّہ پی لیا۔ پھر اس نے آیت کے آگے کا حصّہ پڑھا: ’’وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ‘‘ (ترجمہ)اور لوگوں سے در گزر کرنے والے توفرمایا: اللہ پاک تجھے معاف کرے۔ پھر اس نے مزید آیت کے آگے کا حصّہ پڑھا: ’’وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ (ترجمہ)اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔اب فرمایا: جا ! تو اللہ پاک کی رضا

(11) جواب دیجئے:

س۱) نفاقِ عملی کسے کہتے ہیں؟

س۲) نفاقِ عملی سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

کے لئے آزاد ہے(یعنی اب وہ کنیز نہ رہی، دوسری عورتوں کی طرح آزاد ہوگئی)۔(ابن عساکر، ذکر من اسمہ علی، ۴۱ / ۳۸۷)

حدیث شریف :
حضرتِ ابو الدَّرداء رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! کوئی ایسا( نیک )عمل بتائیں کہ جو مجھے جنَّت میں لے جائے؟ حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’لَا تَغْضَبْ وَلَکَ الْجَنَّـۃ‘‘ یعنی غُصّہ نہ کیا کرو، تو تمہارے لئے جنَّت ہے۔(معجم اوسط ج۲ص۲۰حدیث۲۳۵۳) علماء فرماتے ہیں: اس حدیث کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جن چیزوں سے غصّہ آتا ہے،اُن سے دور رہو۔(اعلام الحدیث للخطابی ج۳ص۲۱۹۷ مُلخصاً) حضرت عبداﷲ ابن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہواعرض کیا یارسول اﷲ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہم خادم کو کتنی بار(how many times) معافی دیں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خاموش رہے اس نے پھر وہ سوال کیا، آپ خاموش رہے پھر جب تیسری بار سوال کیا تو فرمایا: اسے ہر دن میں ستر بار(70 times) معافی دو۔(ابوداؤ، ج۴، ص۳۴۱، بیروت) علماء فرماتے ہیں:یعنی ہر دن اسے بہت مرتبہ معاف کرو،یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءً (بھول سے)غلطی ہوجاتی ہو خباثت نفس سے(یعنی جان بوجھ کر) نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو(یعنی مالک کا کوئی نقصان پہنچایا ہو) شریعت کا یا قومی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصور(یعنی یہ غلط کام) معاف نہیں کیے جاتے۔(مراۃ،ج۵،ص۲۸۳ مُلخصاً)

غصّہ کسے کہتے ہیں؟:
بدلہ لینے کے لیے دل کے خون کا جوش مارنا (یعنی تیز ہو جانا)،غصّہ کہلاتا ہے(المفردات للراغب ص۶۰۸) مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : غُصّہ انسان کے اُس جوش (تیزی) کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دورکرنے کے لیے ہو۔ (مراٰۃ المناجیح ج۶ ص۶۵۵)

کیا غصّہ حرام ہے؟:
عوام میں یہ غَلَط مشہور ہے کہ’’غُصّہ حرام ہے ‘‘غُصّہ ایک ایسی چیز ہے کہ جو آدمی کے ہاتھ میں نہیں یعنی انسان کو آہی جاتا ہے، اِس میں انسان کی غلطی نہیں، ہاں غصّے کا بے جا(یعنی غَلَط) استِعمال بُراہے ۔(غُصّے کا علاج ص۳۰ مُلخصاً)

غصّے کے تین درجات(levels) ہیں:
(۱) کم ہونا(۲) زیادہ ہونا(۳) مناسب ہونا۔

(۱) کم ہونا:
غصّہ زیادہ ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ انسان میں اتنا زیادہ ہوجائے کہ وہ عقل اوردِین دونوں کی سمجھ نہ رکھ پائے ۔(احیاء العلوم، جلد ۳، ص ۵۱۱،۵۱۲ مُلخصاً) اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی اچھی کیفیت (condition)نہیں ۔غصّے کا ’’اِزالہ‘‘ (یعنی بالکل ختم ہوجائے اور آئے ہی نہیں تو یہ) ممکن نہیں ’’اِمالہ‘‘ ہونا چاہئے یعنی غصّےکا رُخ (direction)کسی دوسری طرف کر دینا چاہئے کہ جہاں شریعت غصّے کو پسند کرتی ہے ۔ (غصّے کا علاج ص۳۱مُلخصاً) مثلاً اپنے اوپر غصّہ کرے کہ میری نماز قضا کیوں ہوتی ہے یا میری جماعت یا رکعتیں کیوں نکل جاتی ہیں یا میرے فرض، واجب اور سُنّت مؤکّدہ علوم اب تک کیوں پورے نہیں ہیں؟ یا میں اب تک درست طریقے سے قرآنِ پاک پڑھنا یا وضو کرنا یا نماز پڑھنا کیوں نہیں سیکھا؟ یا میں روزانہ تلاوتِ قرآن کیوں نہیں کرتا یا میں روزانہ 313 مرتبہ درود شریف کیوں نہیں پڑھتا؟ وغیرہ

(۳) مناسب ہونا:
وہ غصّہ اچھا ہے کہ جوعقل اور دین کے مطابق ہو اور جہاں برداشت کا موقع(opportunity) ہو وہاں غصّے پر قابو(control) کیا جائے، یہی وہ درمیانی حالت ہے جس کی تعریف پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی:”خَیْرُالْاُمُوْرِ اَوْسَاطُھَا یعنی بہترین اموروہ ہیں جن میں میانہ روی (اعتدال۔ moderation)ہو۔“ (شعب الایمان، ۵/ ۲۶۱، حدیث :۶۶۰۱ عن مطرف) (احیاء العلوم، جلد ۳، ص۵۱۷ مُلتقطاً)

غصّے کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں :
حضرت ِیحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت عیسٰیعَلَیْہِ السَّلَام سے پوچھا: کونسی چیز زیادہ سخت ہے؟فرمایا:اللہ پاک کا غَضَب۔ پوچھا:کونسی چیز اللہ پاک کے غَضَب کے قریب کرتی ہے؟ فرمایا: غصّہ کرنا۔ پوچھا: کونسی باتیں غصّہ دلاتی ہیں؟ فرمایا: تکبُّر (arrogance)،فخروغُرور اور(علم نہ ہونے کی وجہ سے )غیرت۔ (احیاء العلوم، جلد ۳، ص۵۲۴)

غصّہ پیدا کرنے والی چیزیں، کیسے دور ہوں؟ :
عاجزی کے ذریعے فخرو غُرور(arrogance) کو دور کرے اور اپنی کمزوری اور غلطیوں کو پہچان کر اپنے آپ کو خودپسندی(self-regard) سےدور کرے ۔فخرو غُرور کو دور کرنے کے لئے اپنے آپ کوخادموں کی طرح ایک عام بندہ سمجھے۔ (احیاء العلوم، جلد ۳، ص۵۲۵، مُلخصاً)

بے جا غصّے(unnecessary anger) سے بچنا ضروری ہے:
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : غصّے کے علاج کی کوشش کرنا (کئی صورتوں میں ) فرض ہے ، کیونکہ اکثر لوگ غصّے ہی کی وجہ سے جہنَّم میں جائیں گے ۔ (کیمیائے سعادت ج ۲ ص ۶۰۱ )(غصّے کا علاج ص۵) مدنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےفرمایا: بےشک غصّہ دل میں دہکنے والا ایک انگارہ (a burning ember) ہے، کیا تم غصّہ کرنے والے کی رگیں (veins)پھولتے(swell) اور آنکھیں لال ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصّہ آئے تو وہ بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا تھا تو لیٹ جائے۔(شعب الایمان، ۶/ ۳۱۰،حدیث :۸۲۹۰ بتغیرقلیل)اگر اس طرح بھی غصّہ ختم نہ ہو تو ٹھنڈے پانی سے وضو یا غسل کرے کیونکہ پانی ہی آگ کو بجھاتا ہے۔ (احیاء العلوم، جلد ۳، ص۵۳۰)

کسی پر غُصّہ آئے تو اس سے بچنے کے کچھ طریقے :
{۱}جب کسی پر غصہ آئے اوراُسے مارنے کا دل کرے تو اپنے آپ کو اس طرح سمجھائیے : میں اگر دوسرے کو مار سکتا ہوں تو اس سے بہت زیادہ اللہ پاک مجھ پر قدرت اور طاقت رکھتا ہے، اگر میں نے غصّے میں کسی کو تکلیف پہنچائی توقیامت کے دن اللہ پاک کے غضب (یعنی ناراضی)سے میں کس طرح محفوظ رہ سکوں گا!(غصّے کا علاج ص۲۸، مُلخصاً) {۲}اَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنَ الشَّیطن الرَّجِیم پڑھئے{۳}وَ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہپڑھئے {۴}چپ ہوجائیے{۵} وُضو کرلیجئے {۶}(ہتھیلی(palm) میں پانی لے کر ، سونگھ کر)ناک میں پانی چڑھایئے{۷}کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیے{۸}بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیے۔ (احیاء العلوم ج۳ ص ۲۱۵ مُلخصاً) {۹}جس پر غُصّہ آرہا ہے اُس کے سامنے سے ہٹ جایئے {۱۰}سوچئے کہ اگر میں غصّہ کروں گا تو ہو سکتا ہے دوسرا بھی غصّہ کرے اور بدلہ لے ا ور مجھے دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے {۱۱}اگر کسی کو غُصّے میں جھاڑ دیا تو سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اُس سے مُعافی مانگئے،اِس طرح نفس (یعنی انسان خود) ذلیل ہوگا اور آئندہ(next time) غُصّہ کرتے وقت اپنی ذِلّت (humiliation) یاد آ ئے گی اور ہوسکتا ہےاس طرح کرنے سے غصّے کی عادت نکل جائے ۔وغیرہ

نوٹ:
غصّے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ’’غصّے کا علاج ‘‘ کو پڑھ لیجئے۔

(12) جواب دیجئے:

س۱) کیا غصّہ حرام ہے؟

س۲) بے جا غصّے کی عادت ہو تو اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

37 ’’ اللہ دیکھ رہا ہے‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(1) (ترجمہ Translation :)’’کیا نہ جانا! کہ اللہ دیکھ رہا ہے ‘‘ ۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ ۳۰، سورۃ العلق، آیت ۱۴)

(2) (ترجمہ Translation :)’’بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے ‘‘ ۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ ۴، سورۃ النساء، آیت ۱)

حدیثِ مُبارک :
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام پیارے آقاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پاس حاضر ہوئے اور کچھ سوالات کیے، اُن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ’’ یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم! اِحسان کیا ہے؟ ‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: تم اللہ پاک کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا(یعنی یہ خیال کرو کہ) تم اللہ پاک کودیکھ رہے ہو اور اگر تم( خیال میں ) اللہ پاک کو نہیں دیکھ رہے تو وہ (یعنی اللہ پاک)تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، ۱ / ۳۱، حدیث: ۵۰ملتقطا) علامہ قشیری رَحمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ہمارےآخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا یہ فرمانا کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔مراقبہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ مراقبہ یہ ہےکہ’’ اللہ پاک اسے دیکھ رہا ہے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃ، باب المراقبۃ، ۲۲۵)

مراقبہ کسے کہتے ہیں؟:‏
مراقبہ کا مطلب ہے نظر رکھنا، دیکھ بھال کرنا وغیرہ۔ اصل میں مراقبہ یہ ہے کہ بندہ اپنی پوری توجّہ (attention)صرف اللہ پاک کی طرف رکھے اوراس بات کو سمجھ لے ، جان لے، یقین(believe) کر لے اور اس بات کی طرف توجّہ (attention) رکھے کہ’’ اللہ پاک دیکھ رہا ہے‘‘، یعنی اللہ پاک دلوں کی باتیں جانتا ہے، ہماری چھپی ہوئی باتوں(hidden things) کوبھی جانتا ہے، ہمارے اعمال کو بھی جانتا ہے، ہمارے ہر کام کو دیکھ بھی رہا ہے ۔ اگر یہ حالت ، یہ سوچ صحیح طور پر بن جاتی ہے، تو یہ مُراقبہ ہے۔(احیاء العلوم، ۵ / ۳۲۸ ماخوذاً) اسی طرح اکیلے میں(alone) ، یا کسی بزرگ کے مزار پر سر جھکا کر دل میں اللہ پاک کی نعمتیں یاد کرنا، یا اپنی قبر و آخرت کے بارے میں سوچنا، یا اللہ پاک کی رحمت اور محبّت کی طرف توجّہ (attention)بڑھانا، یا اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یا اپنے مشائخ کا تصور کرنا تاکہ دل سے دنیا کی محبّت دور ہو اور بندہ اللہ پاک کی رضا اور خوشی والے کاموں میں مصروف (busy)ہوجائے۔ یہ سب صورتیں بھی مُراقبے کی ہیں۔(نجات دلانے والے اعمال ص۶۲ مُلخصاً)

مراقبہ کرنے کا ایک طریقہ :‏
مُراقَبہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ساری توجّہ (attention) ایک طرف کرکے آنکھیں بند کرلیں اور سَر جھکا کر بیٹھ جائیں ، اب جس چیز کے لئے مُراقَبہ کیا ہے اُس کے بارے میں سوچیں، جیسے ’’اللہ پاک دیکھ رہا ہے‘‘ ۔پہلے چند مِنَٹ کے لئے مُراقَبہ کیا جائے ، بعد میں آہستہ آہستہ وقت بڑھایا جائے ۔ اِس کے علاوہ اور بھی مُراقَبے ہوسکتے ہیں ، مثلاً ’’موت کی یاد کا مُراقَبہ‘‘ ، ’’اللہ پاک کے خوف کا مُراقَبہ‘‘ ، ’’اپنی آخرت اورقیامت کا مُراقَبہ ‘‘ وغیرہ۔ (ملفوظاتِ امیر اہلسنّت قسط۸۸،ص ۱مُلخصاً)

مُراقبہ کرنے کا فائدہ :‏
اگر مُراقبہ کرتے رہیں گے کہ ’’اللہ پاک دیکھ رہا ہے ‘‘ تو اِنْ شَآءَ اللہ! گُناہوں کی عادَت نکل جائے گی۔ یوں سوچئے کہ اگر کوئی بندہ کسی کو گندی گالی دے رہا ہو اور اُسے معلوم ہو کہ میرے گھر والے سُن رہے ہیں تو اُسے کیسا لگے گا؟ ظاہِر ہے کہ شرم آئے گی۔ ربّ کو تو سب معلوم ہے تو اُس سے کتنی شرم و حیا آنی چاہیے!! اِس لئے اگر یہ مُراقبہ کرنے کی عادت ہوگی کہ ’’اللہ پاک مجھے دیکھ رہا ہے اور اللہ پاک مجھے سُن رہا ہے‘‘ ۔ تو اِنْ شَآءَ اللہ! گُناہوں کی عادَت نکل جائے گی۔(ملفوظاتِ امیر اہلسنّت قسط۸۸،ص۶ماخوذاً)

مُراقبے سے دور کرنے والی کچھ چیزیں:‏
(1) آخرت کی فکر کی کمی(2)دنیا میں آنے کے مقصد(aim) کو بھول جانا(3) اللہ پاک کی محبّت پیدا کرنے کے لیے کوششوں کی کمی۔ وغیرہ

مُراقبہ اپنانے کے کچھ طریقے:‏
حضرت ابوبکر شبلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےپوچھاگیا:آپ نےمراقبہ کہاں سے سیکھا؟ توفرمایا:ہماری ایک بلی تھی اس سے سیکھا ہےیوں کہ جب وہ شکار (مثلاً چوہے یا چڑیا کو پکڑنے)کا ارادہ کرتی تو بِل کے پاس اس طرح بیٹھتی کہ اس کا ایک بال بھی حرکت نہ کرتا۔(احیاء العلوم، ۵ / ۳۳۱ مُلخصاً) یعنی بندہ اپنی پوری توجّہ (attention) ایک طرف کرے ’’ اللہ پاک دیکھ رہا ہے ‘‘ کسی ایسی جگہ پر لکھ کر لگائیں کہ جہاں بار بار نظر پڑتی ہو بچوں کو بھی بات بات پر یہ کہتے رہا کریں کہ’’ اللہ پاک دیکھ رہا ہے ‘‘ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کا اپناذہن بھی بنتا رہے گا ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زیادہ تر اپنی نگاہیں نیچی رکھتے تھے، نگاہیں نیچی رکھنے کی عادت بنانا بھی مُراقبے کے لیے مددگار ہے۔ایک شخص نے حضرت جنید بغدادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا:نگاہیں نیچی رکھنے پر میری کون سی بات مدد کرسکتی ہے؟فرمایا:یہ ذہن بناؤکہ جس کی طرف تم نظر کررہے ہو اس سے پہلے تمہیں اللہ پاک دیکھ رہا ہے۔ (احیاء العلوم ج۵،ص۳۲۵ ، مُلخصاً) اپنی دینی و دنیا وی ضروریات سے فارغ ہو کر اکیلے(alone) رہنے کی عادت بنائیں( ) ۔وغیرہ

نوٹ:
مراقبہ کی تفصیل جاننے کے لئے”احیاء العلوم جلد۵“ کو پڑھ لیجئے۔

38 ریاکاری اور اپنے نیک کام سُننانا

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(13) تنہائی(loneliness) کی تفصیل کے لیے topic number: 28 دیکھیں۔

(14) جواب دیجئے:

س۱) مُراقبہ کسے کہتے ہیں؟

س۲) مُراقبہ کی عادت کیسے بنے؟

(ترجمہ Translation :)’’ تو جو اپنے رب سے ملاقات کی اُمید(hope) رکھتا ہو اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۱۶، الکہف:۱۱۰)علماء فرماتے ہیں:اس آیت میں شِرک یعنی اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ریاکاری یعنی اللہ پاک کو راضی کرنے کے علاوہ کسی اور کو دکھانے کے لئے عبادت کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ (صراط الجنان، ۶/۵۶ مفہوماً)

احادیثِ مُبارکہ:
(1) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ایک حدیث پاک کے مطابق قیامت کے دن ایک حافظِ قرآن، ایک اللہ کی راہ میں شہید ہونےوالے اور ایک امیر سخی شخص کو لایا جائے گا اور انہیں جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔ کیونکہ اس حافظِ قرآن نے اس لئے قرآن حفظ کیا ہوگا تاکہ لوگ اُسے حافظ کہیں، اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا اس لئے شہید ہوا ہوگا کہ اُسے بہادر کہا جائے، جبکہ امیر سخی شخص نے دنیا میں اس لئے سخاوت کی ہوگی (یعنی غریبوں کو مال دیا ہوگا) کہ لوگ اسے سخی (اور نیک)کہیں۔ ان تینوں میں سے کسی کا ارادہ اللہ پاک کو راضی کرنے کا نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ ان کو جہنّم میں ڈال دیا جائےگا۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۴/۱۶۹، حدیث:۲۳۸۹ملخصاً )

(2) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’ اللہ پاک اُس عمل کوقَبول نہیں کرتا جس میں رائی کے دانے (mustard seed)کے برابر بھی رِیا(یعنی دِکھاوا)ہو۔‘‘ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۱ ص۳۶ حدیث ۲۷)

ریاکاری کسے کہتے ہیں؟:
نیک کام ثواب کے لئے یا اللہ پاک کو خوش کرنے کے لئے نہ کرنا بلکہ اس لئے کرنا تاکہ لوگ اُسے نیک سمجھیں یا لوگوں سے مال مِل جائے یا لوگ اس کی تعریف کریں یا اسے عزّت وغیرہ دیں ،یہ ریا کاری ہے۔ (اَلزّواجر ج۱ ص ۷۶مُلخصاً)بہارِ شریعت میں کچھ یوں ہے:’’ رِیا‘‘یعنی دِکھاوے کیلئے(نیک)کام کرنا اور ’’ سُمعَہ‘‘ یعنی اِس لئے(نیک)کام کرنا کہ لوگ سنیں گے اور اچّھا جانیں گے،یہ دونوں چیزیں بَہُت بُری ہیں،اِن کی وجہ سے عبادت کا ثواب نہیں ملتا بلکہ گناہ ہوتا ہے اور یہ شخص عذاب کا حقدار(entitled) ہے۔ (بہارِ شریعت ج۳،ص۶۲۹)

ریاکاری کی کچھ مثالیں:
لوگوں کے دلوں میں جگہ پیدا کرنے کےلئے لمبی نماز پڑھنا سیٹھ صاحب کااس لئے غریبوں میں خیرات بانٹنا کہ غریب لوگ اس کے آس پاس جمع ہو کر اِسےحاجی صاحب !سیٹھ صاحب!کہیں اور عاجزی و نرمی سے اس سے بھیک مانگیں۔وغیرہ ( نیکی کی دعوت ص۶۷۔۷۳، ماخوذاً)

ریاکاری کی مثالوں کی تفصیل( یعنی وضاحت ۔explanation ):
یاد رہے! رِیا کاری کی یہ مثالیں اس لیے ہیں کہ آپ اپنے آپ میں رِیاکاری ڈھونڈئیں۔ یہ اس لیے نہیں ہیں کہ آپ کسی دوسرے کو رِیاکار کہہ دیں کیونکہ رِیاکاری کا تعلّق دل سے ہے اور کسی کے دل کے حالات (condition)کوہر کوئی نہیں جانتا ۔لہٰذا اِن مثالوں کو پڑھ، سن کر کسی مسلمان پر بدگمانی کرنے کی اجازت نہیں، کہ بدگمانی حرام اور جہنَّم میں لیجانے والا کام ہے اوراِسی طرح کسی کے بارے میں تجسُّس(یعنی گناہ کی تلاش)کرنا،اس کے عیب(faults) کھولنے کی کوشش کرنا اوراس میں رِیاکاری کی نشانیاں(signs) تلاش کرناتاکہ اس کوبدنام کیاجائے یہ بھی حرام ہے۔(نیکی کی دعوت، ۷۸ماخوذاً) یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر وہ شخص واقعی (really)ریکاری(show off) کر رہا ہو تو ہمارا حسنِ ظنّ(یعنی اچھا گمان) اُسے گناہ سے بچا نہیں سکے گا کیونکہ ریاکاری حرام وگناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔

ریاکار کی کچھ نشانیاں(signs):
حضرتِ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا: ’’رِیاکار ‘‘ کی تین(3) نشانیاں(signs) ہیں: (1)اکیلے میں(alone) ہو تو عمل میں سستی کرے (lazyہو جائے)اور لوگوں کے سامنے ہو تو چستی دکھائے (active ہو جائے) (2)تعریف کی جائے تو عمل زیادہ دے اور(3)بُرائی کی جائے تو عمل کم کر دے۔ (الزواجر،، ۱/۸۶)

ریاکاری کی طرف لے کر جانے والی کچھ چیزیں :
(۱)عزّت اور شہرت ملنے (fame ہونے)کی خواہش (۲)لوگوں کی طرف سے بُرائی کاڈر (۳)مال و دولت کی لالچ وغیرہ۔ امام محمدغزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ’’رِیا کاری‘‘ کو اِس طرح کی مِثال سے سمجھاتے ہیں:مَثَلًاکوئی شخص سارا دن بادشاہ کے سامنے کھڑا رہے جس طرح خادم (servent)کی عادت ہوتی ہے اور بادشاہ کے سامنے یہ ظاہر کرے کہ صرف آپ کی ملاقات کےلئے حاضر ہوا ہوں لیکن وہ بادشاہ کی خدمت (service)کرنے نہیں آیا بلکہ اُس کی کسی کنیز کو دیکھنے کے لیے آیا ہو تویہ(یعنی اُس شخص کاکھڑا ہونا)بادشاہ کے ساتھ یقینًا مذاق ہے۔اور اِس سے زیادہ نفرت والی بات کیا ہوگی کہ کوئی شخص اللہ پاک کی عبادت اُس کے کمزوربندے کو دکھانے کے لئے کرے جواپنی طرف سے اُسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ص۳۶۹مُلَخَّصًا)

اپنے ہر عمل پر غور کریں :
فضائل ِ دعا میں دعا کےادب نمبر۳۳ میں کچھ یو ں لکھا ہے : دعا میں آنسو ٹپکانے (یعنی رونے) کی کوشش کرے اگرچہ ایک ہی قطرہ(drop) ہو کہ یہ دعا قبول ہونے کی دلیل (proof)ہے۔ رونا نہ آئے تو رونے جیسا منہ بنائے کہ نیک لوگوں جیسی صورت بنانابھی نیک کام ہے(یعنی نیک لوگ روتے ہیں اور ہم رو نہیں پا رہے مگر کوشش کر رہے ہیں کہ نیک لوگ کی طرح ہمارا بھی چہرہ (face) ہو جائے)۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس کے بارے میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں: یہ رونے جیسی صورت بنانا ، ا للہ پاک کی پاک بارگاہ میں نیک لوگوں کی صورت بنانے کی نیّت سے ہو۔ایسا نہ ہو کہ دوسروں کو دکھانے کے لیے اس طرح کی صورت بنائے کہ اب ایسا کرنا رِیاکاری اور حرام ہے،یہ نکتہ یاد رہے۔(فضائل دعا ص۸۱،۸۲)

ریاکاری سے توبہ کی برکت:
مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں: ’’رِیا ‘‘ سے عبادت قبول نہ ہونے کا ڈر ہے۔ اگر ’’رِیاکار‘‘ ، ’’ رِیاکاری‘‘ سے(سچّی)توبہ کرے(یعنی جس طرح توبہ کرنے کا حکم ہے، اس طرح توبہ کرے) تو اس پر ’’رِیا ‘‘ کی عبادت کی قضا لازم نہیں بلکہ اس توبہ کی بَرَکت سے پچھلی (previous)قبول نہ ہونے والی عبادت بھی قَبول ہو جائیں گی۔ کوئی شخص’’ رِیا ‘‘کے خوف سے عبادت نہ چھوڑے بلکہ’’ رِیا ‘‘سے بچنے کی دعا کرے۔ (مِراٰۃ المناجیح ج۷ص۱۲۷مُلخصاً)

ریاکاری سے بچنے کے کچھ طریقے:
دعا کرےریاکاری کے نقصانات کی معلومات حاصل کرے اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرے نیّتوں کی اصلاح کرےریاکاری کے وسوسوں کا علاج کرے اکیلے (alone) ہوں یا سب کے سامنے،ایک جیسا عمل کرےنیکیاں چھپانے کی کوشش کرے اچھےدوستوں کے ساتھ رہیں ریاکاری سے بچنے کے وظائف پڑھے۔وغیرہ (تفصیلات کے لیے نیکی کی دعوت صفحہ۳۸تا۴۸کو پڑھ لیجئے)

نوٹ:
ریاکاری کے بارے میں مزید جاننے کے لئے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطَّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ”نیکی کی دعوت “ (صفحہ 63تا100)کو پڑھ لیجئے ۔ ( )

(15) جواب دیجئے:

س۱) ریاکاری کسے کہتے ہیں؟

س۲) ریاکاری سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

39 ’’حسد اور رشک‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ Translation :)’’اور اس کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز الایمان ) (پ۴، النساء:۳۲)علماء فرماتے ہیں :جب ایک اِنسان دوسرے کے پاس کوئی ایسی نعمت دیکھتا ہے جو اس کے پا س نہیں تو ا س کا دل اُ س نعمت کو پانا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے دل کی حالت دو (2) طرح کی ہوتی ہے(نمبر۱) وہ انسان یہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت دوسرے کے ہاتھ سے نکل جائے اور مجھے مل جائے۔ یہ ’’حسد ‘‘ ہے اور حسد حرام وگناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ (نمبر۲) دوسرے سے نعمت چلے جانے کی خواہش(desire) نہ ہو بلکہ یہ چاہتا ہو کہ ا س جیسی مجھے بھی مل جائے، اسے’’ غبطہ ‘‘ (اور ’’رشک ‘‘) کہتے ہیں ۔(صراط الجنان،پ:۴،النساء،تحت الآیۃ:۳۲،۲/۱۹۱ مُلخصاً)

حسد جہنّم میں لے جانے والا کام ہے:
حسد حرام(اور گناہ) ہے اور اس باطنی بیماری کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے ۔(صراط الجنان، جلد اوّل ، ص ۱۶۴ مُلخصاً)البتہ اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت وغیرہ کی وجہ سے گمراہی پھیلاتا ہو تو اُس کے فتنے اور نقصان سے بچنے کے لئے اُس کی نعمت چِھن جانے کی خواہش حَسَد نہیں ۔ (ماخوذ از صراط الجنان، ۱/۱۸۸)

فرامینِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
(1) ‏حَسَد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں یا گھاس کو کھاجاتی ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، ۴/۳۶۱، حدیث:۴۹۰۳)

(2) حسد ایمان کو اس طرح تباہ کردیتا ہے جیسے ایلوا (ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس) شہد کو خراب کردیتا ہے۔ (جامع صغیر، حرف الحاء، ص ۲۳۲، حدیث:۳۸۱۹)

حَسَد کسے کہتے ہیں؟:
کسی کی دینی یا دنیوی نعمت چِھن جانے کی خواہش (desire) کرنایا یہ چاہناکہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے۔ (الحدیقۃ الندیہ، الباب الثانی، ۳/۳۴)

حَسَد کی کچھ مثالیں:
کسی مال دار کو دیکھ کر یہ خواہش کرنا کہ اس کے ہاں چوری یا ڈکیتی ہوجائے یا اِس کی دُکان و مکان میں آگ لگ جائے اور کسی کو دین یا دنیا کے اعلیٰ منصب و مرتبے (position)پر دیکھ کر جلنا اور خواہش(desire) کرنا کہ اِس سے کوئی غلطی ہوجائے اور یہ مرتبہ اِس سے چِھن جائےفلاں آدمی کی عزّت خراب ہوجائے اور وہ ہمیشہ ذلیل ہی رہے۔وغیرہ

حسدکی ایک نشانی(sign):
حضرت وھب بن منبِہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ حاسِد کی تین نشانیاں ہیں : (1) جس سے حسد کرتا ہے، اگر وہ موجود ہو تواُس کی چاپلوسی ( یعنی بے جا تعریفunreasonable compliments ) کرنا (2)جہاں وہ نہ ہو، اُس جگہ اس کی غیبت کرنا (3) جس سے حسد کرتا ہے، اُس کی مصیبت پر خوش ہونا ۔ (منھاج العا بدین،ص۷۴ دار الکتب العلمية بيروت مُلخصاً) حاسد کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو دشمن کو مارنے کے لیے پتھر پھینکے لیکن وہ دشمن کو لگنے کے بجائے ( اوپر سے گر کر)اُسی شخص کی سیدھی آنکھ پر لگے اور وہ پھوٹ جائے تو اُسے اور زیادہ غصہ آئے۔اب دوسری بار اور زور سے پتھر پھینکے لیکن اس بار بھی دشمن کو لگنے کے بجائے ( اوپر سے گر کر) اسی کو لگے اوراُس آدمی کی دوسری آنکھ بھی پھوٹ جائے، تیسری بار اس کا اپناسرپھٹ جائے اور اس کا دشمن سلامت رہے۔ (کیمیائے سعادت،پیداکردن علاج حسد،۲/۶۱۴مُلخصاً)

حسد کی طرف لے جانے والی کچھ باتیں:
(۱)احساسِ کمتری(یعنی کسی چیز کے نہ ملنے پر،دل میں کمی محسوس کرنا)(۲)قناعت (یعنی جو ہے، اُس پر راضی اور خوش)نہ ہونا(۳)خواہشات (desires)بہت زیادہ ہونا(۴)بغض (یعنی کسی کے لیےدل میں نفرت ہونا) (۵)غصّہ۔وغیرہ حسد ، غصّے سے پیدا ہوتا ہے۔جب انسان کو غصہ آئے اور وہ غصّہ نکال نہ سکتا ہو(مثلاً سیٹھ پر غصّہ آیا)تو وہ غصّہ اندر کی طرف چلا جاتاہے پھر وہ حسد بن جاتا ہے۔(الزواجر،الباب الاول، ۱/۱۲۴مُلخصاً)

حسد سے بچنے کے کچھ طریقے:
اللہ پاک سے سچّی توبہ اور دعا کریں اللہ پاک نے جتنا دیا ہے، اُس پر خوش رہیں حضرتِ ابوالدَّرداءررَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا: جو موت کو کثرت کے ساتھ(یعنی زیادہ) یاد کرے اس کے حَسَد میں کمی آجائے گی۔ (مصَنَّف ابن اَبی شَیبہ، کتاب الزھد ، ۸/۱۶۷، حدیث: ۴) فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏ ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو کہ اس سے حسد دور ہوجاتا ہے (مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع،الحدیث: ۳۰۲۷،ج۲، ص۱۸۷) کسی کی دینی عزّت و شہرت دیکھ کر اُسے بَرَکت کی دعا دیجئے کہ اسے یہ عزّت اللہ پاک نے دی ہے جن کو ہم سے زیادہ نعمتیں ملی ہیں،اُن کو دیکھنے کے بجائے، اُن لوگوں کو دیکھئے جنہیں ہم سے کم نعمتیں ملی ہیں دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنائیں جب بھی دل میں کسی سے حَسَد پیدا ہو تو ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ اور ’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَظِیْم‘‘ پڑھ کر اِس شیطانی خیال کو دورکیجئے حسد کی جگہ غبطہ(یعنی رشک) کریں۔حضرتِ فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : رشک ایمان سے ہے اورحسد نفاق سے، مؤمن رشک کرتا ہے حسد نہیں کرتا اور منافق ( )حسد کرتا ہے رشک نہیں کرتا۔(حلیۃ الاولیاء، الفضیل بن عیاض، ۸ / ۹۸، رقم:۱۱۴۸۷)

غبطہ (رشک)کی تعریف:‏
کسی شخص میں کوئی خوبی یا اس کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ خواہش (desire) کرنا کہ مجھے بھی یہ خوبی یا نعمت مل جائے اور اس شخص کے پاس بھی رہے تو یہ’’ غبطہ ‘‘یعنی رشک ہے۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۴۲ مُلخصا)

غبطہ (رشک)کا ثواب:‏
حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: ایک شخص وہ ہے جسے اللہ پاک نے مال اور علم دیا اور وہ اس میں اپنے ربّ سے ڈرتا ہے اور صلہ رحمی(یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک، اچھا برتاؤ) کرتا ہے اور اس میں اللہ پاک کے حق کو جانتا ہے، یہ شخص سب سے افضل مرتبہ میں ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جسے اللہ پاک نے علم دیا، مال نہیں دیا، یہ شخص سچی نیت کے ساتھ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں کی طرح عمل کرتا پس یہ اس کی نیّت ہے اور ان دونوں کا ثواب برابر ہے۔ (ترمذی، کتاب الزھد، ۴ / ۱۴۶، حدیث:۲۳۳۲ )یاد رہے! اگر کسی کے پاس مال ہے اور وہ اس سے گناہ کرتا ہے تو اس پر ’’غبطہ ‘‘ کرنا کہ اس کے پاس بھی مال ہو اور یہ بھی یوں گناہ کرتا رہے اور میں بھی کرتا رہوں، اس کی شرعاً اجازت نہیں۔

نوٹ:
حسد کی تفصیل جاننے کے لئے”احیاء العلوم جلد۳“ کو پڑھ لیجئے۔( )

(16) منافق اور نفاق کی تفصیل کے لیے topic number: 35 دیکھیں۔

(17) جواب دیجئے:

40 ’’توبہ ‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(1) (ترجمہ Translation :)’’بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ‘‘ ۔ (پ ۲، البقرہ ، آیت:۲۲۲) (ترجمہ کنز العرفان)

(2) (ترجمہ Translation :)’’اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر(یعنی مُعاف) فرماتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو ‘‘ ۔ (پ ۲۵، الشورٰی،آیت: ۲۵) (ترجمہ کنز العرفان)

(3) (ترجمہ Translation :)’’اے ایمان والو!اللّٰہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا (یعنی دوبارہ گناہ کرنا)نہ ہو ‘‘ ۔ (پ ۲۸، سورۃ التحریم، آیت ۸) (ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں: یعنی اے ایمان والو! اللہ پاک کی بارگاہ میں ایسی سچی توبہ کرو جس کا اثر (effects)توبہ کرنے والے کے اَعمال میں نظر آئے اور اس کی زندگی اللہ پاک کے حکم کے مطابق عبادتیں کرتے ہوئے گزرے اور وہ گناہوں سے بھی بچتا رہے۔ (صراط الجنان۱۰/۲۱۲مُلخصاً)

فرامینِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
1 گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔ (السنن الکبری ، رقم ۲۰۵۶۱ ، ج ۱۰ ، ص ۲۵۹)

1 گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔ (السنن الکبری ، رقم ۲۰۵۶۱ ، ج ۱۰ ، ص ۲۵۹)

س۱) حسد کسے کہتے ہیں؟

س۲) حسد سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

اسکے گناہ پر کوئی گواہ (witness)نہ ہوگا۔ (الترغیب والترھیب،کتاب التو بۃ والزھد ، رقم ۱۷، ج ۴ ، ص ۴۸)

توبہ کسے کہتے ہیں؟:‏

جب بندے کو اس بات کی پہچان حاصل ہوجائے کہ گناہ کا نقصان بہت بڑا ہے، گناہ بندے اور اس کے ربّ کی رحمت کے درمیان رکاوٹ (obstacle)ہیں تو وہ اپنے گناہ پر شرمندہ (embarrassed)ہوگا اور اس بات کا اِرادہ (intention)کرتا ہے کہ میں گناہ کو چھوڑ دوں گا، آئندہ(next time) گناہ نہ کروں گا اور جو پہلے کیے ان کی وجہ سے میری نیکیوں میں جو کمی ہوئی اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا تو یہ سب مل کر’’ توبہ ‘‘ کہلاتی ہے ۔ (اِحیاء العلوم، ۴ / ۱۱ مُلخصا)

گناہوں سے توبہ کا طریقہ :‏
ہرمسلمان پر ہر گناہ سے فوراً توبہ کرنا واجب ہے۔ (احیاء العلوم، ج۴، ص۱۷ماخوذا) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : کوئی گناہ ایسانہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک و کفر (بھی باقی نہیں رہتے)۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ (۱)گناہ پر اس لئے نادم اور شرمندہ ہو کہ گناہ اللہ پاک کی نافرمانی ہے، (۲) گناہ فوراً چھوڑ دے اور(۳) آئندہ(next time) کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پکا ارادہ(intention) کرے۔( فتاویٰ رضویہ،جلد۲۱ص ۱۲۱-۱۲۲مُلخصاً) ہر گناہ کی توبہ ایک جیسی نہیں ، بلکہ مختلف (different) گناہوں کی توبہ بھی مختلف ہے ۔ اگر اللہ پاک کے حقوق(rights) پورے نہ کئے ہوں (اور اُن حقوق کی کمی پوری کی جاسکتی ہے)مثلاً نمازیں قضا کی ہوں ، رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں ، فرض زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، حج فرض ہونے کے بعد حج نہ کیا ہو تو اُن سے توبہ یہ ہے کہ نماز کی قضا پڑھ لے، روزے رکھ لے، زکوٰۃ ادا کرے ، حج کرے اور شرمندگی (embarrassing)کے ساتھ اللہ پاک سے سچے دل سے مُعافی مانگے۔(صراط الجنان جلد۴، ص ۲۲۸ مُلخصاً) اگر اپنے کان ،آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ پاؤں اور جسم کے دوسرے حصّوں(parts) سے ایسے گناہ کئے ہوں جن کا تعلق اللہ پاک کے حقوق (rights) کے ساتھ ہو مگر بندوں کے حقوق کے ساتھ نہ ہو (اور اُن حقوق کی کمی پوری نہ کی جاسکتی ہو)جیسے غیر مَحرم عورت(کہ جس سے پردہ کرنے کا حکم ہے) کی طرف دیکھنا، قرآنِ مجید کو بغیر وضو پکڑنا، شراب پینا، گانے باجے سننا وغیرہ۔تو اِن سے توبہ یہ ہے کہ اللہ پاک سے اپنے گناہوں پر شرمندگی(embarrassing) اور افسوس کااظہار کرے(یعنی اللہ پاک سے دعا وغیرہ میں اپنی غلطی مانے کہ مجھ سے یہ کام غلط ہوا ) اور آئندہ (next time)یہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ (intention)کرتے ہوئے معافی مانگےاور اس کے بعد کچھ نہ کچھ نیک کام کرے کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں ۔ (صراط الجنان جلد۴، ص ۲۲۸ مُلخصاً) اگر بندوں کے حقوق ضائع کئے ہوں تو ان کی تین صورتیں ہیں : (1)بندوں کے حقوق(rights) کا تعلق، اگرصرف قرض(loan) کے ساتھ ہے۔ جیسے خریدی ہوئی (purchased) چیز کی قیمت(price)، مزدور (laborer)کی اجرت(wages) یا بیوی کا مہر (وہ مخصوص(specific) مال (یعنی رقم، سامان، جائیداد وغیرہ) کہ جو نکاح کے دوران طے کی جاتا ہے کہ مرد اپنی بیوی کو دے گا)وغیرہ۔ تو اس کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے (یعنی مال دے دے)یا صاحب ِحق(یعنی جس کا مال ہے،اُس) سے معافی حاصل کرے۔ (2) بندوں کے حقوق(rights) کا تعلق، اگر صرف ظلم کے ساتھ ہے۔ جیسے کسی کو مارا، گالی دی یا غیبت کی اور اس کی خبر اس تک پہنچ گئی۔تواس کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ صرف صاحب ِحق(یعنی جس کا حق ضائع کیا ہے، اُس) سے معافی حاصل کرے ۔(صراط الجنان جلد ۴، ص۲۲۸مُلخصاً) مَثَلاً ماں باپ، بہن بھائی، بیوی یا دوست وغیرہ کی دل آزاری کی (یعنی تکلیف دی)ہے تو اُس سے اِس طرح مُعافی مانگے کہ وہ مُعاف کر دے۔ یاد رہے! صِرف مسکرا کر sorry کہہ دینا ہر معاملہ میں کافی نہیں ہوتا!(بُرے خاتمے کے اسباب ص۶) (3) بندوں کے حقوق (rights)کا تعلق، اگر قرض اور ظلم دونوں کے ساتھ ہے۔ جیسے کسی کا مال چرایا، چھینا، لوٹا، کسی سے رشوت لی، سود لیا یا جوئے میں مال جیتا وغیرہ۔ تو اس سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حقوق(rights) ادا بھی کرے اور صاحب ِحق (یعنی جس کا حق ضائع کیا ہے،اُس) سے معافی بھی حاصل کرے۔(صراط الجنان۴/۲۲۸مُلخصاً) اگر وہ شخص انتقال کر گیا ہو تو اس کے وارثوں (یعنی مخصوص رشتہ داروں۔ specific relatives)کو دے دے یا پھراُن سے معاف کروا لے۔ اگر اس شخص کا پتا ہی نہیں چل رہا ہو ، نہ ہی اس کے وارثوں کا پتا چل رہا ہو، تو اتنا مال اُس شخص کی طرف سے صدقہ کرے اور یہ نیّت بھی کرے کہ اگر وہ شخص یا اس کے وارث(یعنی مرنے والے کے مال کے صحیح حقدار(entitled)) بعدمیں مل گئے اور انہیں اِس صدقے سے اتفاق نہ ہوا یعنی انہوں نے اپنے پیسے مانگے تو میں انہیں اتنی رقم دے دونگا۔( فتاویٰ رضویہ،جلد۲۱ص ۱۲۱-۱۲۲مُلخصاً)سود میں لئے گئے مال کے بارے میں یہ بھی اجازت ہوتی ہے کہ جس سے لیا ہے اسے دینے کی بجائے، پہلے ہی صدقہ کردے یعنی سود دینے والے ہی کو واپس کرنا ضروری نہیں ہوتا۔(صراط الجنان۹/۵۳) اگرتوبہ کی سب باتیں پوری ہوں تو(اللہ پاک کی رحمت سے) توبہ ضرور قبول ہوگی کیونکہ یہ اللہ پاک کا وعدہ ہے اور اللہ پاک اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔(صراط الجنان۴/۲۲۸مُلخصاً) نوٹ: بندوں کے حقوق (rights)کی سب صورتوں میں اللہ پاک سے بھی توبہ کرے کہ لوگوں کے حقوق پورا نہ کرنے والےنے اللہ پاک کا حق بھی پورا نہیں کیا کہ اللہ پاک نے ہی بندوں کے یہ حقوق پورے کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگر گناہ چھپ کر کیا (مثلاً اکیلے میں(alone) ، اپنے موبائل پر گانے سنے اورفلمیں دیکھیں ) تو اس کی توبہ بھی اکیلے میں کرنا ہوگی۔(فتاوی رضویہ ، ۲۱ / ۱۴۲ مُلخصاً) جوگناہ چھپ کر کیا،اُس کے بارے میں دوسرے کو بتانا، چھپ کر کرنے والے گناہ سے بھی بُرا گناہ ہے(فتاوی رضویہ ، ۲۱ / ۱۴۴مُلخصاً) فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏میری سب اُمت عافیت (یعنی امن اور سلامتی)میں ہے سوائےاُن لوگوں کے جو گناہ ظاہرکرتے ہیں(یعنی گناہ ظاہر کرنے والے امن اور سلامتی میں نہیں) ۔ ( صحیح البخاری ۲ /۸۹۶) یہاں تک کہ اگر کوئی وتر کی قضا لوگوں کے سامنے کرے تو تیسری(3rd ) رکعت میں پڑھی جانے والی دعا سے پہلے کی تکبیر(یعنی اَللہُ اَکْبَر) کے لیے ہاتھ نہ اُٹھائے(یعنی اگر وہ تیسری رکعت میں ہاتھ اُٹھائے گا تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ یہ شخص قضا نماز پڑھ رہا ہے ) کہ اس وقت تکبیر کے لیے ہاتھ اُٹھانا، لوگوں کواپنے گناہ کا پتا دینا ہے۔(بہار شریعت ح۴،ص ۶۵۸،مسئلہ۱۵ مُلخصاً) اگر گناہ سب کے سامنے ہوا مثلاً سب کے سامنے شراب پی وغیرہ۔ تو اس گناہ کی توبہ بھی اعلانیہ کرے۔(فتاوی رضویہ ، ۲۱ / ۱۴۲ مُلخصاً) سَو (100) کے سامنے گُناہ کیا، تو توبہ بھی سو(100) کے سامنے ہی ہوگی ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی کونے(corner) میں ایک، دو کے سامنے توبہ کرلی (فتاوٰی رضویہ شریف جلد ۲۱، ص۱۴۶ ماخوذا) ۔فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏تم میں سے جب کوئی گناہ کرلے تو توبہ کرلے، چھپ کر ہونے والے گناہ کی توبہ چھپ کر اور سب کے سامنے ہونے والے گناہ کی توبہ سب کے سامنے ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر ج۲۰، ص ۱۵۹، حدیث ۳۳۱ ) یادر کھیں ! جب گناہ پر شرمندگی(embarrassing) ہو تو فوراً اللہ پاک سے توبہ کر لے ، معافی مانگ لے اور فوراً ایسی کوشش شروع کر دے کہ جن جن کے سامنے گناہ کیا تھا، اُن کے سامنے توبہ ہوجائے یا انہیں توبہ کی اطلاع کر دے۔ کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو کرنے سے بندہ مسلمان نہیں رہتا اور وہ گناہ کُفر ہے کہ جو صاف صاف کُفر کرے تو وہ کافر ہوجاتا ہے ۔مثلاً اللہ پاک کو ظالم کہنا وغیرہ۔(تفصیل کے لیے امیر ِا ہلسنّت کی کتاب: کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب کو پڑھ لیجیے) یادرہے: کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے اس طرح کی کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔ کسی نے کفر بول ديا، اس کو دوسرے نے اس طرح توبہ کروا دی کہ کفر بکنے والے کو معلوم تک نہيں ہوا کہ ميں نے فلاں کفر کيا تھا اور یہ اُ س کی توبہ ہے(مثلاً کسی نے اللہ پاک کو ظالم بولا(مَعَاذَاللہ! یعنی اللہ پاک کی پناہ)، تو دوسرے نے کہا: ہم مل کر اپنے سب گناہوں اور کفریہ جملوں سے توبہ کرتے ہیں اور اس طرح کے جملے سب نے بول لیے) ، يوں توبہ نہيں ہو سکتی، اس کا کفر ابھی بھی باقی ہے۔ جس کفر سے توبہ کرنی ہو، وہ اسی وقت ہو گی جبکہ وہ اُس کفر کو کفر مانے اور دل ميں اس کفر سے نفرت بھی ہو پھر جو کفر کیا ہے،اس کا ذکر کرتے ہوئے توبہ کرے ۔ مثلاً جس نے ا اللہ پاک کوظالم کہہ دیا تھا،وہ اس طرح کہے: ’’ يا اللہ پاک ! ميں نے جو تجھے ظالم کہہ دیا تھا، اس کفر سے توبہ کرتا ہوں لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ ۔ اس طریقے سے ، خاص اس کفر سے توبہ بھی ہو گئی اور بندہ دوبارہ مسلمان بھی ہوگیا۔ ( کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص۶۲۲، ۲۸کلمات کفر، ص۹ مُلخصاً) نوٹ : یہ بات یاد رہے کہ جتنے لوگوں کے سامنے کفر کیا، اُن سب کے سامنے توبہ کرنی ہوگی یا انہیں اپنی توبہ کی اطلاع کرنی (information دینی ) ہوگی۔ اگر کئی کفر بولے ہوں اور ياد نہ ہو کہ کيا کيا بولا تو يوں کہے: ’’یَا اللہ پاک! آج تک مجھ سے جو جو کفر ہوئے ہيں ميں ان سے توبہ کرتا ہوں ‘‘ ۔ پھر کلمہ پڑھ لےاگر يہ معلوم ہی نہيں کہ کفر بولا بھی ہے يا نہيں تب بھی اگر احتياطا توبہ کرنا چاہيں تو اس طرح کہیں : ’’یَا اللہ پاک! اگر مجھ سے کوئی کفر ہو گيا ہو تو ميں اس سے توبہ کرتا ہوں ۔ ‘‘يہ کہنے کے بعد کلمہ پڑھ ليں ۔( کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص۶۲۲، ۲۸کلمات کفر، ص۹ مُلخصاً)

توبہ کرنےکا فائدہ:‏
اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جس نے استغفار(یعنی توبہ) کو اپنے لئے ضروری قرار دیا (یعنی استغفار کرتا رہا)تو اللہ پاک اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسےگمان (یعنی خیال )بھی نہ ہو گا۔( ابن ماجہ، کتاب الادب، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)

توبہ سے دور کرنے والی کچھ چیزیں:‏
(1) گناہوں کے عذاب کی طرف توجّہ (attention) نہ دینا(2) گناہوں سے مزہ اُٹھانے کا شوق (3) لمبی زندگی کی اُمید(hope)ہونا (4)رحمت الٰہی کی طرف توجّہ (attention)نہ کرنا(5)لوگوں کے حقوق ادا کرنےاور اُن سے مُعافی مانگنے میں شرم(shame) محسوس کرنا۔وغیرہ

توبہ کی طرف لے جانے والی کچھ باتیں:‏
توبہ نہ کرنے کے نقصانات پر غور کریںجن کا اَچانک (حادثےیعنی accidentsمیں) انتقال ہو جاتا ہے،اُن کی موت کو یاد کریں اور سوچیں کہ اگر ہم توبہ سے پہلے ہی مرگئے تو ہمارا کیا ہوگا؟اپنے آپ کو اللہ پاک کے عذاب سے ڈرائیںتوبہ کرنے والے کو ملنے والے انعامات کو یاد کریں بزرگانِ دِین کے توبہ کے واقعات پڑھیں ۔وغیرہ

توبہ کرنے کے بعد دوبارہ گناہ سے بچےرہنے کے کچھ طریقے:‏
روزانہ سونے سے پہلے صلاۃ التوبہ(دو (2)رکعت نمازِ توبہ ) ادا کریںگناہ سے توبہ کرنے کے فوراً بعد کوئی نیکی کر لیں توبہ کرنے والوں کے ساتھ اپنا وقت گزاریں توبہ و استغفار کرتے رہیں اللہ پاک سے دعا کرتے رہیں۔وغیرہ

نوٹ:
توبہ کی تفصیل جاننے کے لئے” توبہ کی روایات وحکایات “ کو پڑھ لیجئے۔ ( )

41 ’’ کینہ اور مسلمانوں کی محبّت‘‘

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(18) جواب دیجئے:

س۱) توبہ کے لیے کیا کیا کرنا ضروری ہے؟ اورکس گناہ کی توبہ کس طرح کرے؟

س۲) توبہ کی طرف لے جانے والی باتیں بتائیں۔

(ترجمہ Translation :)’’ اور ہم نے ان کے سینوں سے بغض و کینہ (یعنی نفرت)کھینچ لیا، ان کے (لیے جو جنّت ہے، اُس میں)نیچے نہریں بہیں گی اور وہ کہیں گے: تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم ہدایت نہ پاتے اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا ‘‘ ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ۸، الاعراف:۴۳) عُلَما فرماتے ہیں: جنّتیوں کے دلوں سے اللہ پاک نے کینے (یعنی دوسرے مسلمان کی نفرت)کو نکال دیا اور وہ سب پاکیزہ دل والے ہوں گے۔ نہ تو دنیوی باتوں کا کینہ ان کے دلوں میں ہوگا اور نہ ہی جنّت میں ایک دوسرے کے بلند مقام اور بڑے بڑے مکانوں پر حسد کریں اور سب پیار و محبّت سے رہیں گے بلکہ جنّت میں جانے سے پہلے ہی سب کے دلوں کو کینہ سے پاک کردیا جائے گا ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ پاکیزہ دل ہونا جنّتیوں والی بات ہے اور اللہ پاک کے فضل سے اُمید (hope) ہے کہ جو یہاں اپنے دل کو بغض و کینہ(یعنی مسلمانوں کی نفرت) اور حسد سے پاک رکھے گا اللہ پاک قیامت کے دن اُسے پاکیزہ دل والوں یعنی جنّتیوں میں شامل فرمائے گا۔ (صراط الجنان، ۳/۳۱۹ملخصاً)

فرامینِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
(1) ‏بغض و کینہ سے بچو! کیونکہ بغض و کینہ دین کو تباہ کردیتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، جزء۳، ۲/۲۸، حدیث:۵۴۸۶)

(2) بے شک چغلی اور کینہ جہنّم میں ہیں۔ یہ کسی مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ (مسند احمد، مسند الشامیین، ۶/۲۹۱، حدیث: ۱۸۰۲۰)

کینہ کسے کہتے ہیں؟:
کینہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانے، اس سے غیر شرعی دشمنی اور غصّہ رکھے، نفرت کرے اور یہ کیفیت(condition) ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔ (احیاء العلوم، کتاب ذم الغضب والحقد والحسد، ۳/۲۲۳)

کینے کی کچھ مثالیں:
کسی کا دل میں خیال آتے ہی دل میں بوجھ محسوس کرنا اور نفرت پیدا ہو جانا وہ اگر نظر آجائے تو نفرت کی وجہ سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ملنے سے بچنا زبان، ہاتھ یا کسی بھی طرح اُسے نقصان پہنچانے کا موقع(opportunity) ملے تو پیچھے نہ ہٹنا ملاقات ہونے پربد اَخلاقی (یعنی برے طریقے)سے مِلنا اُس کی خوشیاں دیکھ کر تکلیف ہونا جہاں موقع ملے اُس کی عزّت خراب کرنا۔وغیرہ

نوٹ:
: یہ سب مثالیں اُسی صورت میں کینہ ہونگی کہ جب اِس نفرت کی کوئی شرعی وجہ نہ ہو، اگر شرعی وجہ ہوتو یہ کینہ اورگناہ نہیں، مثلاً :کسی کے دینی نظریات غلط ہیں اور وہ بد مذہب ہے تو اس سے کینہ رکھنا واجب ہے۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص۲۷۴ماخوذاً)

کینہ جہنّم میں لے جانے والا کام ہے:
مسلمان سے بلاوجہ شرعی کینہ وبُغض رکھنا حرام (اور گناہ) ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،۶/۵۲۶) اگر کسی نے ظلم کیا اور اس وجہ سے کینہ ہے تو یہ حرام نہیں ہے۔ (الحدیقۃ الندیہ،۳/۸۶، ملتقظا) البتہ مسلمان کو معاف کر کے دل صاف کرنا چاہیے۔

کینہ کس چیز سے پیداہوتا ہے؟:
(۱)غصّہ کینہ پیدا کرتا ہےنیز (۲)بدگمانی اور(۳)ہنسی مذاق کی وجہ سے بھی کینہ پیدا ہوتا ہے، امیرالمومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اللہ پاک سے ڈرو اورمذاق سے بچو کیونکہ اس سے کینہ پیدا ہوتا ہے۔(احیاءالعلوم،کتاب آفات اللسان،۳/۱۵۹) (۵)کینے کی آگ بھڑکنے کی سب سے بڑی وجہ جھگڑا کرنا ہے۔ وغیرہ(احیاءالعلوم،کتاب آداب الالفة والاخوة، ۲/۲۲۴، ملخصاً)

کینے کی ایک نشانی(sign):
دل میں بزرگوں کے لئے بغض و کینہ رکھنے کی وجہ سے ان کے سامنے عاجزی کا اظہار نہ کرنا۔ (احیاءالعلوم،کتاب ذم الکبروالعجب،۳/۴۳۳،ملخصاً)

کینہ سے بچنے کے کچھ طریقے:
اللہ پاک سے دُعا کیجئے کہ وہ بغض و کینہ سے دل کو پاک فرمادے غصّہ پینے کے فضائل پڑھیں اور اپنے غصّے پر قابو پانے کی کوشش کیجئے کسی کے بارے میں بدگمانی کو دل میں جگہ مت دیجئے بلکہ جہاں تک ہوسکے ہر کسی سے اچّھا گمان رکھئے شراب اور جوئے سے بالکل دور رہئے کہ اس سے آپس میں نفرتیں اور بغض پیدا ہوتا ہے کسی کے پاس زیادہ نعمتیں دیکھیں تواللہ پاک کی تقسیم(distribution) پر راضی رہئے شریعت اجازت دےتو تحفہ پیش کیجئے کہ اس سے محبّت بڑھتی ہےآپس میں ہاتھ ملانے سے کینہ ختم ہوتا ہے فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرو(یعنی ہاتھ ملاؤ)، اس سے کینہ جاتا رہتا ہے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،الحدیث ۴۶۹۳، ج۲، ص۱۷۱) اپنے دل میں مسلمانوں کی محبّت پیدا کیجیئے۔

مسلمانوں سے محبّت پیدا کرنے کا ایک طریقہ :
فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :تم جنّت میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ اور تم (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ ‘‘ پھر فرمایا: آپس میں سلام کو عام کرو ۔ (مسلم، کتاب الایمان، ص۴۷، حدیث:۵۴)

محبّت اللہ پاک کے لیے:
اللہ پاک کے لیے کسی سے محبّت کرنا بہترین نیکی ہے اور ایسی محبّت سے اللہ پاک کی محبّت پیدا ہوتی ہے۔(مرآۃ المناجیح، ۶ / ۵۸۸ ملخصًا)البتہ دینی دوستی یا اللہ پاک کی رضا اور خوشی کے لیے کی جانے والی محبّت ، اسی وقت صحیح ہو سکتی ہے جب کہ شریعت کے حکم کے مطابق ہو غیر محرم(کہ جس سے کبھی بھی نکاح ہو سکتا ہو) سے محبّت نہیں کی جاسکتی بلکہ اُس سے شرعاً پردہ ہے ہر ایسے شخص کی دوستی کہ جو گناہ کی طرف لے جائے(مثلاً ہم نماز کی دعوت دیتے ہیں اور اُسے فلمیں دیکھنے کی عادت ہے، تو یہ نہ ہو کہ وہ نماز کی طرف آنے کی جگہ ہمیں فلمیں دیکھنے میں لگا دے لھذا)، ایسوں سے دوستی نہ کی جائے اسی طرح کسی سے دوستی میں بُرے بُرے خیالات پیدا ہوتے ہیں تو اُس سے دور رہے۔وغیرہ

نوٹ:
کینہ کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی یہ کتابیں ’’بغض و کینہ‘‘ اور ’’احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 552 تا 570‘‘ کو پڑھ لیجئے۔ ( )

42 امانت میں خیانت

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(1) (ترجمہ Translation :)’’ بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پرامانت پیش فرمائی تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اورانسان نے اس امانت کو اٹھالیا بیشک وہ زیادتی کرنے والا، بڑا نادان ہے ‘‘ ۔ (پ ۲۲، سورۃ ا آل احزاب، آیت ۷۲)(ترجمہ کنز العرفان) حضرت عبداللہ بن عباسرَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کہتے ہیں کہ(اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ) امانت سے مراد لوگوں کی امانتوں ا

(19) جواب دیجئے:

س۱) کینہ کسے کہتے ہیں؟

س۲) کینےسے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

اور وعدوں کو پورا کرنا ہے، تو یہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ کسی مسلمان کے ساتھ خیانت نہ کرے اور خیانت نہ کسی چھوٹی امانت میں ہو نہ بڑی میں (مُلتقطاً)۔(صراط الجنان جلد۸،ص۱۰۲ مُلخصاً) (2) (ترجمہ Translation :)’’جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن اس چیزکو لے کرآئے گا جس میں اس نے خیانت کی ہوگی۔‘‘ (پ ۴، سورۃ ا آل عمران، آیت ۱۶۱)(ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں: اس آیت میں خیانت کی بُرائی بھی بیان فرمائی کہ جو کوئی خیانت کرے گا وہ کل قیامت میں اس خیانت والی چیز کے ساتھ آئے گا۔(صراط الجنان۲/۸۳ مُلخصاً)

فرامینِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
(1) امانت اور صِلۂ رِحمی(رشتہ داروں سے اچھے سلوک) کو بھیجا جائے گا تووہ پل صراط کےسیدھی(right) اور اُلٹی (left) طرف کھڑے ہو جائیں گے۔ (مُسلِم ص۱۲۷حدیث۳۲۹) علماء فرماتے ہیں: شفاعت (یعنی سفارش)اور شکایت کے لیے، کہ ان کی شفاعت پرنجات ہوگی (یعنی لوگ چھوٹ جائیں گے اور)ان کی شکایت پر لوگوں کی پکڑ ہوگی۔ اس فرمان سے معلوم ہوا کہ انسان ،امانت داری اور رشتے داروں کے حقوق(rights) ضرور پورے کرے کہ ان دونوں میں غفلت، سستی اور کوتاہی کرنے پر سخت پکڑ ہےاور ان کی شفاعت پر دوزخ سے نجات (یعنی آزادی)ہے ۔(مراٰۃ المناجیح ج ۷ص۴۲۴ مُلخصاً) (2) مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹااور خیانت کرنے والانہیں ہوسکتا ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، ۸ / ۲۷۶، الحدیث: ۲۲۲۳۲)

امانت کسے کہتے ہیں؟:‏
کوئی چیز کسی کو حفاظت کے لئے دینا (for taking care) یا کسی کی کوئی چیز کسی بھی طرح کسی کے پاس آجائے یہ امانت کہلاتی ہے۔(ماخوذاً التعریفات)نوٹ:مال کے علاوہ باتوں میں بھی امانت ہوتی ہے۔(غبیت کی تباہ کاریاں ص۴۲۸ ماخوذ۱ً)

خیانت کسے کہتے ہیں؟:‏
’’بلا اجازتِ شرعی کسی کی امانت استعمال کرنا یا اُسے نقصان پہنچاناخیانت کہلاتا ہے۔ ‘‘ (عمدۃ القاری، کتاب الایمان، ۱؍۳۲۸،تحت الحدیث:۳۳ مُلخصاً) حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ خیانت کرنے والے کی اور خیانت کرنے والی کی گواہی جائز نہیں (ترمذی،ج۴،ص۱۲۰، بیروت) خیانت ضد(opposite) ہے امانت کی،کسی کا مال ناحق دبا لینا خیانت ہے اورخیانت کی بہت صورتیں ہیں۔گناہ کبیرہ کرنا یا گناہ صغیرہ (یعنی چھوٹے گناہ)پر اڑ جانا یا گناہ صغیرہ کرتے رہنا فسق(یعنی اللہ پاک کی نافرمانی) ہے اور ہر فسق خیانت ہے کہ اس نے اللہ پاک کا حق (right) اور شریعت و دین کا حق پورا نہ کیا، اس لیے ہر فاسق خیانت کرنے والا ہے۔(مراۃ ج۵،ص۶۷۷ مُلتقطاً، مُلخصاً)

امانت کی ایک مثال:‏
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏جب کوئی آدمی بات کر کے اِدھراُدھر دیکھے تو وہ بات امانت ہے۔ (سُنَنِ تِرمِذی ج۳ ص۳۸۶ حدیث۱۹۶۶) یعنی اگر کوئی شخص تم سے اکیلے میں(alone) کوئی بات کہے اور بات کے دوران یا بات کے درمیان میں اِدھر اُدھر دیکھے کہ کوئی سن نہ لے تو وہ اگرچِہ منہ سے نہ کہے کہ یہ کسی سے نہ کہنا مگر اس کی یہ حرکت بتاتی ہے کہ وہ راز کی بات ہے لہٰذا اسے امانت سمجھو ،اُس کا راز ظاہر نہ کرو، کسی سے یہ بات نہ کہو۔( مراٰۃ المناجیح ج۶ ص۶۲۹)

خیانت کی کچھ مثالیں:‏
کسی نے آپ سے اپنے راز کی بات کہہ دی اور آپ نے کسی اورسے کہہ دی تویہ امانت میں خیانت ہے کسی نے آپ کو مزدور رکھ کر کوئی کام کرنے کو دیا مگر آپ نے جان بوجھ کر اس کام کو بگاڑ دیا تو یہ خیانت ہے یا کام کم کیا تو یہ خیانت ہے میاں بیوی ایک دوسرے کے امین ہیں ، اگر ان دونوں میں سے کسی دوسرے کی ایسی بات لوگوں سے کہہ دی کہ جو چھپائی جاتی ہے تو یہ خیانت ہےمزدور ، کاریگر، ملازم وغیرہ جو کام ان لوگوں کو دیاگیا ہے وہ ان کاموں کے امین ہیں ، اگر یہ لوگ اپنے کام اور ڈیوٹی پوری کرنے میں کمی کرتے ہیں تو یہ خیانت ہے ۔ (جہنم کے خطرات، ص۶۷ مُلخصاً) کسی نے کوئی چیز، کچھ دیر کے لیے سنبھالنے کے لیے دی تو یہ امانت ہے، اگر اس میں سے بغیر اجازت کچھ لے لیا یا استعمال کر لیا تو یہ خیانت ہےکسی پڑوسی دکان دار کا کوئی سامان، آپ کی دکان پر آگیا اور آپ نے وہ مال بیچ دیا تو آپ نے خیانت کی۔

خیانت جہنّم میں لے جانے والا کام ہے:‏
امانت میں خیانت کرنا گناہ ،حرام اور جہنّم میں لے جانے والاکام ہے ۔(باطنی بیماریوں کی معلومات ص۱۷۶ ملخصاً)

خیانت کے کچھ نقصانات:‏
مال میں خیانت کرنے والے پر لوگ اعتماد(trust) کرنا چھوڑ دیتے ہیں باتوں میں خیانت کرنے والے سے اپنے راز چھپاتے ہیں کام میں خیانت کرنے والے کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے لوگوں کے حقوق میں خیانت کرنے والا کبھی ترقی نہیں کر پاتا اللہ پاک کے حقوق میں خیانت کرنے والے کی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی خراب ہوتی ہے۔

خیانت کی طرف لے جانے والی کچھ چیزیں:‏
(۱)بُری نیّت(۲)دھوکا بازی(۳) اللہ پاک پر بھروسے(trust) کی کمی(۴)اپنی ہر خواہش(desire) کو پورا کرنے کا ذہن (۵)ذاتی فائدے کے لیے دوسروں کے نقصان ہونے کو نا دیکھنا(۶) بُرےدوستوں کے ساتھ رہنا وغیرہ

خیانت سے بچنے کے کچھ طریقے:‏
مسلمانوں کی خیرخواہی (یعنی بھلائی) کا جذبہ پیدا کیجیےآخرت کی فکر کریں کہ کل قیامت کے دن ایک ایک چیز کا حساب ہوگاایسے نیک لوگوں کے ساتھ رہنا کہ جن کے ساتھ رہنے سے اللہ پاک کا خوف دل میں پیدا ہوبزرگانِ دین کےایسے واقعات پڑھیں کہ ذہن بنے” اللہ پاک دیکھ رہا ہے “ اللہ پاک پر بھروسہ (trust) کیجیئے۔وغیرہ

نوٹ:
خیانت کی تفصیل جاننے کے لئے”احیاء العلوم جلد۲“ کو پڑھ لیجئے۔( )

(20) جواب دیجئے:

س۱) خیانت کسے کہتے ہیں؟

س۲) خیانت سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟