سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے والدین پر اولاد کے جو حقوق بیان کیے ، ان میں یہ بھی ہے:
علم دین خصوصاً وضو، غسل، نمازوروزہ کے مسائل توکل، قناعت، زہد، اخلاص، تواضع، امانت، صدق، عدل، حیا، سلامت صدورولسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل ۔حرص وطمع ، حب دنیا، حب جاہ، ریا، عجب، تکبر، خیانت، کذب، ظلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل پڑھائے۔(فتاویٰ رضویہ ،۲۴/ ۴۵۴)
اعلیٰ حضرت کے اس فرمان میں،اخلاقیات وباطنی بیماریوں کے کُل24 موضوعات بیان ہوئے:
(۱)تَوَکُّل(اللہ پاک پر بھروسہ اور یقین)(۲)حِرص وطَمَع(لالچ) (۳)قَنَاعَت(جو ملا اُ س پر خوش رہنا) (۴)حُبِّ دُنْیَا(دنیا کی محبّت) (۵)زُہَد(دنیا سے دوری) (۶)حُبِّ جَاہ(عزّت حاصل کرنے کی خواہش) (۷)اِخْلَاص(نیک کام، اللہ کے لیے) (۸)رِیَا(اپنی عزّت بڑھانے یا لوگوں سے پیسے وغیرہ لینے کے لیے نیک کام کرنا) (۹)اَمَانَت (۱۰)عُجُب (اپنی خوبیوں کو اپنا کمال سمجھنا)(۱۱)صِدْق(سچائ) (۱۲)تَکَبُّر(دوسرے کو گھٹیا سمجھنا) (۱۳)عَدَل (انصاف)(۱۴)خِیَانَت(اجازت کے بغیر، امانت استعمال کرنا) (۱۵)حَیَا(دین کے حکم کے مُطابق شرم) (۱۶)کِذْب(جھوٹ)(۱۷)سَلَامَتِ صُدُور(صاف دل ہونا) (۱۸) ظُلْم (۱۹) سَلاَمَتِ ِلِسَان (زبان کاصحیح استعمال) (۲۰)فُحَش(بے شرمی کی باتیں کرنا) (۲۱)تَواضُع(عاجزی)(۲۲)غِیْبَت (۲۳)حَسَد (۲۴)کِینْہ(دل میں نفرت ہونا)۔
حکایات:
حکایت: (1) لکڑ ہارے نے کیا دیکھا؟
ایک لکڑ ہارا(woodcutter) کام سے بہت بھاگتا تھا اور اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کی بجائے ہر وقت شکایت ہی کرتا رہتا کہ ’’پتہ نہیں آج اچھی لکڑی ملے گی یا نہیں، میں گھر جلدی جاؤنگا یا نہیں‘‘جنگل میں لکڑیاں کاٹنے میں اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ایک بار جب یہ جنگل کی طرف گیا تو اُس نے دیکھاکہ چڑیاں اپنے گھونسلوں(nests)سے باہر آئیں ان کے پاس نہ کچھ سامان تھا نہ کھانا، تھوڑی دیر اِدھر اُدھر گھومتی رہیں اور دانے کھاتی رہیں پھر جب واپس آئیں تو ان کے منہ میں بھی دانے تھے جو انھوں نے اپنے بچوں کو کھلائے۔یہ دیکھ کر اس شخص کی سمجھ میں بات آگئی کہ ’’مجھے بھی محنت کرنی چاہئے اور اللّٰہ پاک پر بھروسہ( trust) کرنا چاہئے کہ وہ مجھے بھی اچھا رزق دے گا۔‘‘ توکل(بھروسہ): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!ہر چیز کا مالک اللہ پاک ہی ہے ہمیں اسی پر بھروسہ( trust) کرنا چاہئے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :اگر تم لوگ اللہ پر ایسا توکل(بھروسہ)کرو جیسا کہ اس کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے، جیسے ایک پرندے کو رزق ملتا ہے،وہ صبح خالی پیٹ نکلتا ہے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتا ہے۔ (ترمذی،کتاب الزھد، ۴ / ۱۵۴،حدیث:۲۳۵۱) اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!یہ ذہن بنائیے کہ جس طرح چھوٹا بچہ ہر کام کے لیے ماں کی طرف جاتا ہے، اسی طرح ہمیں اپنے کاموں میں کامیابی پانے کے لئے اللہ پاک سے دعا کرنی چاہئے۔یہ یاد رہےبھروسہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام کاموں میں انسان اللہ پاک ہی پر یقین رکھے ۔کھیت لگانے، بیج ڈالنے، فصل پر پانی ڈالنے پر خوش نہ ہو کہ بس اب میں کامیاب ہو گیا بلکہ ان کاموں کے بعد بھی یہ ذہن ہو کہ اللہ کریم ہی کامیاب کرنے والا ہے۔نیّت کیجئے کہ میں اپنے کاموں میں اللہ پاک پر بھروسہ کروں گا، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۲)کتا اورگوشت کا ٹکڑا
ایک کتا نہر کے کنارے گوشت کا ٹکڑا لے کر جا رہا تھا راستے میں اس کی نظر نہر کے پانی پر پڑی کتے نے جب نہر میں اپنا عکس(image ) دیکھا تو سمجھا کہ شاید نہر میں کسی دوسرے کتے کے پاس بھی گوشت کا ٹکڑا ہے کیوں نا اس سے یہ چھین لیا جائے یہ خیال آتے ہی کتا نہر کے پانی کی طرف لپکااور جیسے ہی منہ کھولا اس کے منہ کا ٹکڑا بھی نہر میں جا گرااور یوں لالچ کی وجہ سے اسے گوشت کا ٹکڑا کھونا پڑا۔ حرص وطمع(لالچ): پیارے بچو اور اچھی بچیو!! فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :’’اگر ابن آدم(یعنی آدمی) کے پاس سونے کی دو وادیاں(valleys) بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا(یعنی دو تو ہیں تیسری بھی مل جائے)اور ابن ِآدم(یعنی آدمی) کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔(بخاری،کتاب الرقاق،۴ / ۲۲۸،حدیث :۶۴۳۶) ہماری ایسی عادت نہیں ہونی چاہئے کہ یہ بھی مل جائے وہ بھی مل جائے اور مل جائے۔ اپنا حصہ مل جانے کے بعد دوسرے کا حصہ مل جانے کی خواہش(wish) رکھنا(مثلاً: سب کو ایک ایک ٹافی ملی ، ایک مدنی منّے نے اپنی کھا لی اور خواہش ہے کہ دوسرے سے چھین لے) یہ بری عادت اور لالچ ہے۔ اس برائی سے بچنے کا بہترین طریقہ!! جو چیز آپ کے پاس ہے اس پر خوش رہیں ۔ ایسوں کو دیکھیں کہ جن کے پاس آپ سے بھی کم ہے اور ایسوں کو نہ دیکھیں کہ جن کے پاس آپ سے زیادہ ہے،نیّت کیجئے اِنْ شَاءَللّٰہ،لالچ کی عادت ختم کرینگے ۔ یاد رہے کہ گناہوں کی لالچ رکھنا بری بات ہے جبکہ نیکیوں کی حرص رکھنا اچھی بات ہے۔
حکایت: (۳)کمزور گدھااورطاقت ور گھوڑے
ایک کمزور گدھا گھاس چرتا ہوا گھوڑوں کے اصطبل(stayble)جا نکلا، کیا دیکھتا ہے کہ طاقت ور گھوڑوں کی خدمت ہورہی ہے ان کے لئے اچھے کھانے اورصفائی کا بھی نظام ہے۔ دل ہی دل میں بہت کچھ سوچتا ہوا وہاں سے چلا گیا اب گدھے کا کسی کام میں دل نہ لگتا ہر وقت گھوڑوں کے اصطبل کے خیالوں میں کھویا رہتا چند دن بعد وہاں سے گزر ہوا تو دیکھتا کہ کئی گھوڑے زخمی ہیں کسی کی ٹانگ تو کسی کی گردن پرزخم ہیں،معلوم کیا تو پتا چلا کہ ’’یہ گھوڑے جنگ کے میدان سے اسی حال میں آئے ہیں۔‘‘ گدھا یہ دیکھ کر اللہ پاک کا شکر کرنے لگا اور اسے اللہ پاک نے جو دیا ہے، اس پر راضی (satisfied) ہو گیا۔ قناعت(جو مل جائے،اُس پر راضی رہنا): پیارے بچو اور اچھی بچیو!! جتنی ضرورت (need) ہے اتنی چیز کو اپنے لیے بہت سمجھنا اچھی عادت ہے۔ اسی طرح ضرورت سے کم چیز پر صبر کرنا اچھی بات ہے۔ جو اپنی ضرورت کی چیز ملنے پر راضی رہتا ہے اس کودوسروں کی ضرورت نہیں رہتی (کہ میرا دوست مجھے کھانا کھلائے، پڑوسی موٹر سائیکل پر بٹھائے یہ سوچ نہیں رہتی اور) وہ پُرسکون رہتا ہے۔ اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!یہ ذہن بنائے کہ جس کا مال جتنا زیادہ ہوگا اُسے دشمن اور چوروں کا خطرہ بھی اُتنا ہی زیادہ ہوگا اور جس کا مال جتناکم ہوگا اس کی زندگی اُتنی آسان ہوگی۔ نیّت کیجیے کہ مجھے جو چیز ملے گی، اس پر صبر وشکر کروں گا ، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۴)اشرفیوں سے بھری تھیلی
ایک بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ شکار پر گیا، اُس کے پاس اشرفیوں (gold coins ) کی تھیلی بھی تھی جسے دیکھ کر وزیر کی نیّت خراب ہوگئی تھی۔ شکار کے دوران وزیر نے موقع ملتے ہی بادشاہ کی اشرفیوں سے بھری تھیلی چوری کر لی ۔ شکار ختم ہوا تو یہ سب محل واپس آگئے ،اب بادشاہ کو اشرفیوں کی تھیلی یاد آئی، جب اُسے ڈھونڈنے پرنہ ملی تو اُس نے وزیر سے پوچھا،وزیر نے جھوٹ بول دیا کہ:مجھے نہیں معلوم کہ وہ تھیلی کہاں گئی۔ بادشاہ نے اُس کی بات پر یقین کرلیا اور وزیر گھرکی طرف چلا گیا۔ راستے میں وہ ایک جگہ پر رُکا اور اشرفیاں(gold coins ) گننے لگا، بالکل اُسی وقت ڈاکو وہاں پہنچ گئے، اُس سے تھیلی لی اوراُس وزیر کو قتل بھی کردیا۔ حب دنیا(دنیا کی محبّت): پیارے بچو اور اچھی بچیو!! فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’’دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ(root) ہے۔‘‘(موسوعہ ابن ابی الدنیا، کتاب ذم الدنیا، ۵/۲۲،حدیث:۹) جو اپنی آخرت کو پیارا رکھے اس کی دنیا میں آزمائشیں(turbulences ) تو آسکتی ہیں مگر اللّٰہ کریم کی رحمت سے امید ہے کہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں نعمتیں ہی نعمتیں ہونگی ۔ یاد رہے کہ’’دنیا کی وہ محبت(بُری ہے) جو آخرت کے نقصان کا باعث ہو۔‘‘ (باطنی بیماریوں کی معلومات،ص۷۲) دنیاکی محبت ختم کرنے کا ایک طریقہ!! سخاوت اور بھلائی کرنے (یعنی ، charity and kindness)سے دُنیا کی محبت دور ہوتی ہے۔نیّت کیجیے کہ دنیا کا کیسا ہی کام ہو، نماز نہیں چھوڑیں گے۔، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت(۵): چادر والا شخص
ایک مرتبہ کسی ملک سے کوئی بڑا آدمی، مسلمانوں کے بادشاہ سے ملنے آیا۔اس نے لوگوں سے پوچھا کہ بادشاہ کہاں ہے۔لوگوں نے کہا" مسجد میں"۔وہ کہنے لگا کہ ابھی تو کسی نماز کا وقت نہیں۔ وہ مسجد گیا تو مسجد میں سادہ چٹائیاں تھیں اور ایک شخص چادر اوڑھے ہوئے تھا۔وہاں نہ تو کوئی تخت، نہ کرسی، نہ پہرے والے(watchmen) لہٰذا وہ واپس آکر ان لوگوں سے کہنے لگا کہ کیا تم لوگوں نے میرے ساتھ مذاق کیا ہے؟لوگوں نے کہا: نہیں۔ پھر ان میں سے ایک شخص مسجد ساتھ چلاآیااور اس چادر والے شخص کی طرف اشارہ کر کہ کہنے لگا کہ چادر والے یہ جو بیٹھے ہیں، یہی مسلمانوں کے بادشاہ ہیں۔ زہد(دنیا سے دوری): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!ایک اچھی عادت یہ ہے کہ بندہ ہر اس چیز کو چھوڑ دے کہ جو اسےاللّٰہ پاک سے دور کرے۔ویڈیو گیم یا موبائل کے استعمال کی وجہ سے نماز بالکل نہیں چھوڑنی چاہیے۔ ایک شخص نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کی :’’یارسول اللہ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )! مجھے کوئی ایساعمل بتائیے جس کی وجہ سے اللّٰہ پاک مجھ سے محبت کرے ۔ارشاد فرمایا :’’وہ عمل جس کی وجہ سے اللہ پاک تم سے محبت فرمائے گا دنیا سے بے رغبتی ہے۔‘‘(موسوعہ ابن ابی الدنیا،کتاب مدارۃ الناس،۷/ ۴۲۵،حدیث:۳۳) نیّت کیجیے:سادہ زندگی گزاریں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۶) بھالو اوربھیڑیا
ایک جنگل کا بادشاہ، شیرکمزور جانوروں کی مددکرنے اوربُرے جانوروں کا شکار کرنے کی وجہ سے مشہور تھا ۔ایک بھالو(bear ) شیر کو دیکھتا تو دل میں سوچتا رہتا کہ’’ میں بھی شیر کی طرح مشہور ہو جاؤں تو سب میری عزت کریں گے اور میرے شکار پر کوئی بھی ہاتھ نہیں ڈالے گا۔‘‘ بس اسی خیال کی وجہ سے وہ ہر وقت کسی موقع کی تلاش میں رہتا اور جنگل میں پھرتا رہتا ۔ بھالو ایک مرتبہ بکری کے پاس سے گزرا تو بولا:’’ بکری بہن! میں بہت طاقتور ہوں جب کبھی میری ضرورت ہو تو بتانا۔‘‘ یہ کہہ کر بھالو چلتا بنا۔ایک بار بکری کے بچے کو بھیڑیا (wolf)اٹھا کر لے گیا بکری بھاگی بھاگی بھالو کے پاس آئی اورپورا واقعہ ایک ہی سانس میں بتا دیا اب تو بھالو کے ہاتھ مشہور ہونے کا موقع آگیاتھالہٰذا وہ بکری کے بچے کو چھڑانے چلااور وہاں پہنچ کربھیڑئے سے لڑ پڑا ، بھیڑیئے نے اس کی خوب پٹائی لگائی سارے جنگل میں بات پھیل گئی کہ بھالو نے بھیڑیئے سے مار کھائی یوں اُس کے حصے میں نیک نامی (good name )کی جگہ بدنامی (bad name)آئی۔ حب جاہ(عزّت ملنے کی خواہش): پیارے بچو اور اچھی بچیو!! فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے رَیوڑ (flock)میں اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنی تباہی حُبِّ مال وجاہ (یعنی مال و دولت اور عزّت و شہرت کی محبَّت)مسلمان کے دین میں مچاتی ہے۔(ترمذی،کتاب الزھد،۴ / ۱۶۶،حدیث :۲۳۸۳) اس بات کی خواہش کرناکہ گھروالوں اورخاندان میں میری واہ واہ ہو،تعریفیں ہوں،مجھے اچھاسمجھاجائے۔یہ اچھی سوچ نہیں ہے۔ہونایہ چاہئے کہ اگرخاندان میں تعریفیں ہوں تواس پراترایا(proud)نہ جائے بلکہ اللہ پاک کاشکریوں اداکیاجائے کہ اس نے مجھے عزت دی۔ اس برائی سے بچنے کا طریقہ!! امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :یہ ہر فساد(ہر برائی) کی جڑ (root)ہے (احیاء العلوم ،کتاب ذم الجاء والریاء، ۳/۳۴۲)۔نیّت کیجیے ہر نعمت پر اللہ پاک کا شکر ادا کرینگے ،اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۷) حج کا سفر
ایک تاجر (merchent)چند سالوں سے نفلی حج کا ارادہ رکھتا تھا،اس کی رقم سالوں سے کہیں پھنسی ہوئی تھی جو اسے مل نہیں رہی تھی، اس کا ارادہ تھا کہ وہ رقم مل جائے تو وہ حج پر جائے مگر وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔ ایک سال اُسے اچھا نفع(profit) ہوا تو وہ حج کے لئے روانہ ہو گیا۔راستے میں ایک غریب خاندان کو دیکھا جن کے پاس زندگی گزارنے لئے کچھ سامان نہ تھا اور نہ کھانے پینے کی چیزیں،اس آدمی نے جمع کی ہوئی رقم اللہ پاک کو خوش کرنے کے لیے، ان خاندان والوں کی مدد کے لئے دےدی اور واپس گھرآگیا، رات سونے لیٹا تو نیند نہ آئی بس حج کے خیالوں میں بے چین(anxious) رہا، صبح اُٹھانمازِ فجرادا کرکے بازار گیا تو اس کی دکان پر وہ آدمی پہلے سے موجود تھا کہ جس نے اُسے رقم دینی تھی۔اُس نے ملاقات کے بعد رقم اُسے دے دی اور شکریہ ادا کر کے چلا گیا دوسری طرف وہ تاجر بھی واپس چلا گیا اور حج کا سفر دوبارہ شروع کر لیا اوریوں اُسے اپنے اخلاص(sincerity) کا پھل مل گیا۔ اخلاص(اللہ پاک کی خوشی کے لیے): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!جب بھی کوئی کام کریں ، اللہ پاک کو راضی(pleased) کرنے کے لئے اچھی اچھی نیّتوں سے کریں۔ اخلاص یہ ہے کہ بندہ نیکیاں صرف اور صرف اللہ پاک کے لئے کرے۔(مفھوماًمرقاۃ المفاتیح، کتاب العلم ،۱ / ۴۸۶ ) اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!یہ ذہن بنائیں کہ اللہ پاک دیکھ رہا ہے۔نیّت کیجیے کہ ہر نیک اور جائز کام اللہ پاک کو راضی کرنے کے لیے کریں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ
حکایت: (۸) کھانا اور نماز
ایک عبادت گزار شخص اپنے نوکر کو لے کر بادشاہ کے ہاں دعوت میں گیا وہا ں اُس نے بادشاہ کو دکھانے کے لئے کھانا توکم کھایا البتہ نماز لمبی پڑھی۔ وہ دعوت سے گھر واپس پہنچا، تو اُسے بھوک بہت لگ رہی تھی لہٰذا اُس نے نوکر کو کھانا لانے کاکہا،اس بات پراُس نوکر نے کہا:اگرآپ نے کم کھانا بادشاہ کی وجہ سے کھایا اور لمبی نماز بھی اُس کو دکھانے کے لئے پڑھی تو کھانا دوبارہ کھانے کے ساتھ ساتھ نماز بھی دوبارہ پڑھ لیجئے۔ ریا(لوگوں کے لیے نیک کام کرنا): پیارے بچو اور اچھی بچیو!! عبادت صرف اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے کرنی چاہئے۔نہ یہ ذہن ہو کہ پیسے ملیں گے اور نہ یہ کہ سب واہ!! واہ!! کریں گے اور نہ یہ ذہن ہو کہ سب میری عزّت (respect) کریں گے اس لئے نماز اچھے انداز سے پڑھنا بری بات ہے بلکہ اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے نماز پڑھے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک نے ہر رِیاکار(لوگوں کو دکھانے کے لیے عبادت کرنے والے) پر جنت کو حرام کردیا ہے۔(کنز العمال،کتاب الاخلاق،۳، ۲/ ۱۹۰، حدیث:۷۴۸۴) اس برائی سے بچنے کا طریقہ!! ذہن بنائیں کہ ریاکار(لوگوں کو دکھانے کے لیے عبادت کرنے والا) کتنا بیواقوف ہے گویا یہ شخص ثواب بیچ کر عذاب خرید رہا ہے اور اُن لوگوں کو خوش کرنے کی کوششیں کررہا ہے جو اُسے اِن نیکیوں کاکچھ بدلہ نہیں دے سکتے! بلکہ دُنیا ہی میں ان لوگوں کویہ پتا چل جائے کہ وہ اللہ کریم کے لیے عبادت نہیں کر رہا بلکہ لوگوں میں عزّت پانے کے لئے کر رہا ہے تو وہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں گے۔ نیّت کیجئے کہ ہر نیک کام صرف ا ور صرف اللہ پاک کے لئے کریں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۹)امانت کی حفاظت سے مالا مال ہوگیا
ایک شخص نے کہیں دور سفر پر جانا تھا اس نے دال کا ایک بہت بڑا بورا (sack)اپنے دوست کو بطورِ امانت دیا۔کئی دن گزر گئے دوست واپس نہیں آیا، ایک دن اسے دال کی ضرورت پڑی، اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر تھوڑی سی لے لوں گا تو کسی کو کیا پتہ چلے گا!! وہ کونسا وزن کر کے واپس لے گا لیکن اس نے امانت ہونے کی وجہ سے اس میں سے کچھ نہیں لیا۔ سفر سے واپسی پروہ دوست ملنے آیا اورساتھ سونے کی اشرفیوں(gold coins ) کی ایک تھیلی لایااور اپنے دوست کو یہ کہتے ہوئے دی کہ ’’مجھے بہت نفع ہوا، اس لیے یہ تم رکھ لو۔‘‘ اس نے دال کی بوری لا کے اُسے واپس دی تو اس نے کہا کہ ’’تم یہ بھی رکھ لو۔‘‘ امانت: پیارے بچو اور اچھی بچیو!!کوئی چیز کسی کو حفاظت کے لئے دینا (for taking care) یا کسی کی کوئی چیز کسی بھی طرح کسی کے پاس آجائے یہ امانت کہلاتی ہے مثلاًآپ کے دوست نے یہ کہہ کرآپ کو کتاب دی: یہ پکڑو میں آرہا ہوں۔ تو اب آپ کے دوست کی کتاب آپ کے پاس امانت ہے۔ امانت صرف چیزوں میں نہیں ہوتی، راز کی باتوں (secrets) میں بھی ہوتی ہے مثلاً: دوست نے آپ کو کوئی بات بتائی اور کہا کہ کسی کو مت بتانا تو اب یہ امانت ہے کسی کو بتائیں گے تو امانت میں خیانت ہو گی ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : منافق کی تین علامتیں ہیں: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲)جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (۳)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب خصال المنافق ،ص۵۳،حدیث:۲۱۱، ۲۱۴) اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!امانت میں خیانت کرنا بہت بری بات ہے ۔یاد رہے کہ ’’اللہ دیکھ رہا ہے۔‘‘نیّت کیجیے کہ ہم بھی امانت دار بنیں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۱۰) عقل مندلڑکا
ایک لڑکا گائوں میں صرف اپنے ہی کام کو پسند کرتا، اپنے آپ کو بہت عقل مند(wise) سمجھتا اور اپنے کاموں پر بہت فخر(pride ) کرتا۔ ہر وقت یہ سوچتا اور کہتا رہتا دیکھو میں نے یہ کام کیسا بہترین کیا۔ گائوں میں اس کی عادت کو کوئی پسند نہیں کرتا تھا،گائوں کے بوڑھے اس کو سمجھاتے کہ اپنی عادت کو بدلو لیکن اس کو کسی کی بات سمجھ نہ آتی۔ایک دن یہ شخص جنگل گیا اور بھٹک گیا، دو تین لوگ اس کو وہاں ملے لیکن اپنی عادت کی وجہ سے اس نے،اُن سے راستہ تک نہ پوچھا بالآخر جب وہ بھوکا پیاسہ دو دن بعد گھر پہنچا تو اسے اپنی غلطی کا احساس( realization)ہوچکا تھااور اس نے اپنی عادت پر شرمندہ ہو کر توبہ کی۔ عجب(اپنی خوبیوں کو اپنا کمال سمجھنا): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!ہر نعمت پر اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنا کمال(excellence) نہیں سمجھنا چاہیے۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خود پسندی کرنے والا اللہ پاک کی ناراضی کا منتظر (انتظار کرنے والا) ہوتا ہے ۔(معجم صغیر ،باب العین من اسمہ عمر ،۱/ ۱۸۹) اس برائی سے بچنے کا طریقہ!!یہ ذہن بنائیں کہ ہر نعمت اللہ پاک نے دی ہے۔اگر انسان طاقت ور(strong) ہو یا خوبصورت (beautiful )تو یہ اللہ پاک ہی کے کرم سے ہے۔نیّت کیجیے کہ ہم ہر نعمت پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۱۱) سچ بولنے کا فائدہ
ایک بچہ ہمیشہ سچ بولتا تھا،کیسا ہی مشکل وقت آجائے اس کی سچ بولنے کی عادت نہیں چھوٹتی تھی۔ ایک باروہ گلی کے بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھااچانک اُسی بچے سے کسی کے گھر کا شیشہ ٹوٹ گیا، فوراً گھر سے اَنکل(uncle)آگئے۔سب دوستوں نے بولا کہ آگے پیچھے ہوجاؤ،اَنکل پوچھیں توبول دینا کہ ہمیں نہیں معلوم لیکن جب انکل نے بچے سے کہا سچ بتاؤ میں کچھ نہیں کہوں گا تو اس بچے نے اَنکل کو سب کچھ سچ سچ بتا دیااور اَنکل نے بھی اس کی سچ کی عادت کو پسند کرتے ہوئے، اسے معاف کر دیا ۔ صدق: پیارے بچو اور اچھی بچیو!!اگرآپ کو لگے کہ’’ میں سچ بولوں گا تو پھنس(in trouble) جاؤں گا۔‘‘ تب بھی سچ بولیں کہ سچ بولنے کے بہت فائدے ہیں ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے محفوظ(safe) ہوجاتا ہے اور جب محفوظ ہوجاتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ (مسندامام احمد، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص ،۲/ ۵۸۹، حدیث:۶۶۵۲) اس اچھی عادت کو اپنانے کا بہترین طریقہ!!سچ بولنا نجات(deliverance) دلانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔نیّت کیجیے کہ ہم ہمیشہ سچ بولیں گے، اِنْ شَاءَللّٰہ۔
حکایت: (۱۲) دوسروں کو گھٹیاسمجھنے کا نقصان
ایک شخص جو بہت گنہگار تھا، ایک مرتبہ بہت عبادت کرنے والے شخص کے پاس سے گزرا، تو دیکھا کہ اس پر ایک بادل سایہ(shade) کیے ہوئے ہے۔ اس گنہگار شخص نے اپنے دل میں سوچا: ’’میں بہت گنہگار ہوں اور یہ بہت نیک آدمی ہیں ، اگر میں ان کے پاس بیٹھوں تو امید (hope)ہے کہ اللہ پاک مجھ پر بھی رحم فرمادے۔‘‘یہ سوچ کر وہ ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نیک آدمی کو بہت بُرا لگا اور دل میں یہ خیال آیاکہ کہاں مجھ جیسا عبادت کرنے والااور کہاں یہ گنہگار! چنانچہ اس نے گنہگار شخص کو کہا: ’’یہاں سے اٹھ جاؤ۔‘‘ یہ سُن کروہ گنہگار وہاں سے اُٹھ کر گیا تو بادل بھی اسی کے ساتھ چلا گیا اور یہ عبادت کرنے والا دیکھتا رہ گیا۔ تکبر(دوسروں کو گھٹیا سمجھنا): پیارے بچو اور اچھی بچیو!!خُود کو بہتر اوردوسروں کوگھٹیا(inferior) جاننے کا نام تَکَبُّر ہے۔ تَکَبُّر کرنے والے کی مثال ایسی ہے کہ کوئی خادم بغیر اِجازت بادشاہ کا تاج پہن کر اُس کے شاہی تخت(throne) پربیٹھ جائے ،توجس طرح یہ غُلام بادشاہ کی طرف سے سخت سزا پائے گا بالکل اِسی طرح تکبر کرنے والا شخص اللہ پاک کی طرف سے سزا کا حقدار ہو گا ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم الکبروبیانہ ،ص۶۱،حدیث ۱۴۷) اس برائی سے بچنے کا طریقہ!!یہ ذہن بنائیں کہ ہر نعمت اللہ پاک نے دی ہے۔مجھے اس پر اِترا کر اللہ پاک کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ نیّت کیجیےکہ ہم تکبّر نہیں کرینگ
(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)