’’ دین کی ضروری باتیں ‘‘(part 01b)

13) ’’ بڑےبن کر بھی نیکی نہ چھوڑو‘‘

خلیفہ(حاکم۔caliph) بننےسےپہلےحضرت ابُوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے پاس چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنی بکریاں لے کر آتیں، آپ ان کو خوش کرنے کے لیےبکریوں کا دودھ نکال دیا کرتے تھے۔جب آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو خلیفہ بنایاگیاتومحلے کی ایک بچی آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی:اب تو آپ خلیفہ بن گئے ہیں ،آپ ہمیں دودھ نکال کر نہیں دیں گے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا:کیوں نہیں!اب بھی میں تمہیں دودھ نکال کر دیا کروں گااورمجھے اللہ پاک کے کرم سے یقین (believe)ہے کہ تمہارے ساتھ اسی طرح رہوں گا جیسا پہلے تھا۔پھر خلیفہ بننے کے بعدبھی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ان بچیوں کودودھ نکال دیا کرتے تھے۔ (تھذیب الاسماء واللغات ، ۲/ ۴۸۰) اس واقعے سے سیکھنے کو چند باتیں ملیں، پہلی(1st ) یہ کہ جب ہم کوئی نیکی کرنا شروع کریں تو اُسےکسی بھی وجہ سے کرنانہ چھوڑیں۔دوسری(2nd ) بات یہ کہ ہماری باتیں اور کام ایسے ہوں جو مسلمانوں کا دل کاخوش کریں،ایسے نہ ہوں جس سے اُن کے دل دُکھیں۔ تَعَارُف (Introduction): مسلمانوں کےپہلے(1st )خلیفہ(حاکم۔caliph) اورجنّتی صحابی،امیر المومنین حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کانام”عبد اللہ “،کُنْیَت(kunyah)”ابوبکر“اورلقب(title)”صدیق“ہے۔آپ کے والد کا نام” عثمان“ اوروالدہ ماجدہ کا نام ”سلمیٰ“ ہے۔(معجم کبیر۱۱۴/۴ )آپ،آپ کے والد، والدہ، بیٹے، بیٹی سب صحابی اور صحابیہ تھے (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)بلکہ آپ کی شہزادی بی بی عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا تو اُمُّ المؤمنین(یعنی ہماری والدہ) ہیں کیونکہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح فرمایا(یعنی شادی کی تھی)۔ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے انتقال کےبعد حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بنے ۔ 22 جمادی الاخری، 13 سنِ ہجری کو انتقال ہوا۔ حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے آپ کی نماز ِ جنازہ پڑھائی۔(طبقاتِ کبریٰ، ۳/۱۵۴،الریاض النضرۃ،۱/۲۵۸) حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی قبر شریف کے ساتھ دفن کیے گئے۔ جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا:جس شخص کی صحبت(یعنی ساتھ ہونے) اور(اُن کے) مال نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ فائدہ پہنچایاوہ اُبوبَکربِن اِبی قَحَافَہہےاوراگرمیں دنیا میں کسی کو خلیل(یعنی دوست) بناتا تو اُبوبَکَر کو بناتا لیکن اسلام کی محبت قائم (ہو چکی)ہے۔(بخاری، ، حدیث: ۳۹۰۴، ۲/۵۹۱) ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

(1) والدین کو چاہیے کہ خود بھی پڑہیں اور اگر صلاحیت ہو تو اپنے بچوں کو پڑھائیں ورنہ کسی سُنی عالم/ سُنی عالمہ کے ذریعے پڑھوائیں (بھلے انہیںfess دینا پڑے لیکن عام قاری صاحبان کے ذریعے نہ پڑھوائیں کہ دینی عقائد سکھانے میں غلطیاں ہونے کا بہت امکان ہے) ۔

14) ’’چھوٹے چھوٹے ہی رہیں، مگر کام بڑے بڑے کریں‘‘

ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے خود ہی لوگوں سے ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے خود ہی لوگوں سے ایک آیتِ مبارکہ کی تفسیر پوچھی(یعنی قرآن کی ایک آیت کا مطلب پوچھا)،جب کسی نے کوئی جواب نہ دیا توکم عمرصحابی حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کیا : اس بارے میں میرے ذہن میں کچھ ہے۔تو فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اُنہیں محبت دیتے ہوئے فرمایا: اے میرے بھتیجے(یعنی میرے بھائی کے بیٹے)! اگر تمہیں معلوم ہے تو ضرور بتاؤ اورخودکو چھوٹا نہ سمجھو۔ ( بخاری، کتاب تفسیر القرآن، ۳/۱۸۵،حدیث:۴۵۳۸) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہاگرکوئی بڑا سوال کرے اورآپ چھوٹے ہوں لیکن آپ کوجواب معلوم ہو تو”خود کو چھوٹا سمجھ کر“جواب دینے سےمت رُکیے، اگرآپ کا جواب غلط ہوا تو آپ کو صحیح جواب معلوم ہوجائے گا،تب بھی فائدہ آپ ہی کا ہے ۔ تَعَارُف (Introduction): مسلمانوں کے دوسرے(2nd) خلیفہ(حاکم۔caliph) اور جنّتی صحابی، امیر المومنین حضرت فاروق ِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”عُمَر “،اورلقب (title)”فاروقِ اَعْظَم“ہے۔ (الاصابۃ،۴/۱۴۵،اسد الغابۃ،۳/۳۱۶)حضرت اَبُوبَکرصِدِّیْق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےانتقال کےبعدآپ مسلمانوں کے دوسرےخلیفہ بنے ۔ آپ نے بڑے بڑے کام کیے جو کہ بہت سی کتابوں میں لکھے گئے ہیں، چھبیس(26) ذُو الْحِجۃ الحرام کی صبح ایک آگ کی عبادت کرنے والے شخص نے آپ پر فجر کی نماز کے دوران حملہ (attack)کرکے بہت زخمی کردیا، چند دن بعد آپ شہید ہوگئے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ پہلی(1st) محرَّم الحرام 24 سنِ ہجری خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی قبر شریف کے قریب صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی قبر شریف کے ساتھ دفن کیے گئے۔ )طبقات ابن سعد، ۳/۲۶۶ ۔ ۲۸۱،۲۸۲- تاریخ ابن عساکر، ۴۴/۴۲۲، ۴۶۴) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: عمر جنّتی ہیں۔(صحیح ابن حبان، ،جزء:۹، ۶/۱۸، حدیث:۶۸۴۵) حدیث شریف کی اہم(Important) کتاب’’ بخاری شریف ‘‘میں ہے : خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب روضۂ منوَّرہ (جہاں پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ،حضرت ابُو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اورحضرت عُمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے مزارات ہیں،وہاں)کی دیوار گری تو لوگ اُس کو بنانے لگے ، ( دیوار کھودتے وقت ) ایک پاؤں ظاہر ہوا تو حضرت عروہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے کہا : یہ حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا پیر مبارک ہے ۔ (بُخاری شریف ج۱ ص۴۶۹حدیث ۱۳۹۰ مُلتقتاً) سُبْحَانَ اللہ! ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی کیا شان ہے کہ انتقال کے بعد قبر شریف میں بھی جسم صحیح ہے( کوئی فرق نہیں آیا)۔ ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

15) ’’صحابی کسے کہتے ہیں؟‘‘

صحابی کسے کہتے ہیں؟: جس نے ایمان کی حالت میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دیکھا ہواور ایمان ہی کی حالت میں اُن کا انتقال ہوا ہووہ صحابی ہیں۔“(بنیادی عقائد اور معمولات اہل سنّت ص ۷۹) جنّتی صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی شان: {} اللہ پاک نےصحابہ کرامرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے بارے میں فرمایا:بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اوّلین (یعنی ایمان قبول کرنے میں پہل کرنے والے) اور دوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی(follow) کرنے والے ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں(rivers) بہتی ہیں، (صحابہ کرام)ہمیشہ ہمیشہ ان (جنّتی باغات)میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۰ ماخوذاً) {} صحابہ کرام کے ایمان کی طاقت، دل کی حالت اور عمل کی کیفیت ، قرآن پاک میں یوں بیان فرمائی گئی: محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) اللہ (پاک) کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے(یعنی صحابہ کرام) کافروں پر سخت، آپس میں نرم دل ہیں۔ تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے، سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا، (یہ صحابہ کرام) اللہ کا فضل و رِضا چاہتے ہیں، ان کی علامت(اور نشانی) ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان سے ہے۔ یہ ان کی صفت(یعنی ان میں پائی جانے والی یہ بات) تورات(شریف) میں (بھی موجود) ہے اور ان کی (یہ)صفت(یعنی بات) انجیل(شریف) میں ( بھی موجود) ہے۔(پ۲۶، الفتح:۲۹ ماخوذاً)

16)’’اپناکام اپنے ہاتھ سے کریں ‘‘

حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ ایک مرتبہ ا پنے باغ میں سے لکڑیاں اُٹھا کر لارہے تھے حالانکہ کئی غلام بھی موجود تھے( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔ کسی نے عرض کی: آپ نے یہ لکڑیاں اُٹھائی ہوئی ہیں اپنے غلام سے کیوں نہیں اُٹھوائیں؟ فرمایا:( غلام سے)اُٹھواتو سکتا تھا لیکن میں اپنے آپ کو آزما(check کر)رہاہوں کہ میں ( اللہ پاک کو خوش کرنےکے لیے ) اس کام کرنے کو پسند کرتا ہوں یا نہیں!(کرامات عثمان غنی،ص۱۰ مُلخصاً) اس واقعے سےسیکھنے کو ملا کہ ہمیں بھی اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی عادت بنالینی چاہئے ، ہماری یہ عادت گھر کے سب لوگوں کی خوشی کرنے والی ہو گی ۔ان شاء اللہ ! تَعَارُف (Introduction): مسلمانوں کے تیسرے (3rd )خلیفہ(حاکم۔caliph) اور جنّتی صحابی، امیُر المو منین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”عثمان “، اورلقب(title) ” ذو النورین(دو نور والا)“ہے۔ حضرت فاروق ِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےانتقال کےبعدآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ پہلی(1st ) محرَّم الحرام 24 سنِ ہجری کو خلیفہ بنے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے دور میں اَفریقہ، ملکِ روم کا بڑا عَلاقہ اور کئی بڑے شہر اسلامی ملک بن گئے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی خلافت(caliphate) بارہ (12) سال رہی۔18 ذُوالحجۃ الحرام 35 سنِ ہجری میں جمعہکے دن روزے کی حالت میں تقریباً 82 سال کی عمرمیں شہیدہوئے ۔(الریاض النضرۃ ،۲/۶۷)آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔(البدایۃ والنھایۃ،۷/۱۹۰) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا:عثمان جنّتی ہیں، ان کارفیق(یعنی ساتھی) میں خود ہوں۔(الریاض النضرۃ ،۱/۳۵) ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

17 ) ’’نیکی کے کام میں دوسروں کی مدد کریں‘‘

ایک دن حضرتِ علی المرتضیٰ، رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےاپنے بڑے بیٹے حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرمایا: اے بیٹے!کیاتم میرے سامنے بیان نہیں کرسکتے جِسے میں سنوں؟انہوں نےعرض کی:مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں آپ کو دیکھتے ہوئےبیان کروں ۔ شیرخدا،حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے یہ سنا تو امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی ہمت (courage)بڑھانے کے لیے ایسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں سے وہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو نہ دیکھ سکیں۔ پھر امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ لوگوں میں بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ آپ کی آواز سُن رہے تھے۔ امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے بہت اچھابیان کیا۔ (البدایۃ والنھایۃ، ۵ / ۵۲۴ ) اس سچے واقعے سے یہ درس (lesson)ملا کہ اگر کسی بڑے کے سامنے بھی نیکی کی دعوت یا درس وبیان کرنا پڑے تو اللہ پاک کی رضا کے لیے ہمیں ایسا کرنا چاہیے اور اس وقت بڑوں کو بھی چھوٹوں پر شفقت کرنی چاہیے۔ تَعَارُف (Introduction): مسلمانوں کےچوتھے(4th )خلیفہ(حاکم۔caliph) ، جنّتی صحابی،اہلِ بیتِ مُصطفیٰ،قادریوں کے پیشوا،امیرُ المومنین حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام”علی “اورلقب(title) ”اَسَدُ اللہ (شیرِ خدا)“ ہے۔حضرتِ عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےانتقال کےبعدآپ مسلمانوں کےچوتھے(4th )خلیفہ بنے ۔ 40 سنِ ہجری میں 17 یا 19 رمضان کو فجر کی نماز میں کسی نے حملہ کیا تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ بہت زخمی(very injured) ہوئےاور 21 رمضانُ المبارک اتوار کی رات اپنی زندگی کے 63 سال گزار کرشہیدہوئے ۔ نمازِ جنازہ بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن مجتبی ٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے پڑھائی، مشہور یہی ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی قبرِ مبارک نجفِ اشرف (عراق)میں ہے۔ (طبقات ابن سعد، ۳/۲۷) جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: فرامینِ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (1) ’’انَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ (المستدرک، ۴/۹۶، حدیث:۴۶۹۳) (2)بے شک اللہ پاک نے مجھے چار(4) لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے(پھر جو نام بیان فرمائے ان میں سے ایک نام حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا بھی تھا)۔ (ترمذی،۵/۴۰۰،حدیث:۳۷۳۹) ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

18) ’’سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو سیکھاتے تھے‘‘

قرآن اور شانِ صحابہ: {} سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خود صحابہ کرامرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو قرآنِ پاک سیکھاتے، جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا: بیشک اللہ (پاک) نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا، جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا (یعنی بھیجا) جو انہی میں سے ہے۔ وہ ان کے سامنے اللہ (پاک) کی آیتیں تلاوت فرماتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب(یعنی قرآنِ پاک) اور حکمت(یعنی اپنے فرمان) کی تعلیم دیتے(یعنی سیکھاتے) ہیں اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی(یعنی دین سے دوری) میں پڑے ہوئے تھے۔(پ۴، آل عمران:۱۶۴ ماخوذاً) {} صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے ایمان کی شان اللہ پاک نے بیان فرمائی:اگر وہ (غیرمسلم) بھی یونہی ایمان لے آئیں جیسا (اے صحابہ) تم ایمان لائے ہو جب تو وہ ہدایت پا گئے۔ (پ۱، البقرۃ:۱۳۷ماخوذاً) {} اللہ پاک نے انہیں جنّت، مغفرت اور عزّت والی روزی کی خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا:اور وہ جو ایمان لائے اور (ہجرت کر کہ)مہاجر بنے اور اللہ (پاک) کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے (ان ہجرت کرنے والوں کو)پناہ دی اور مدد کی وہی سچےایمان والے ہیں، ان کے لئے بخشش(یعنی مغفرت) اور عزّت کی روزی ہے۔ (پ۱۰،الانفال: ۷۴ ماخوذاً){} تمام صحابہ جنّتی اور خدا کے مقبول بندے ہیں، جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:اور ان سب(صحابہ کرام) سے اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا (پ۲۷، الحدید:۱۰ ماخوذاً)

19) ’’جنّت کا پھل‘‘

ہماری پیاری امّی جان، اُمُّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نےایک دن پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے جنّت کا پھل دیکھنےکی خواہش کی تو حضرت جبرائیلعَلَیْہِ السَّلَام آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس جنّت سے دو (2)سیب لے کر حاضر ہو گئے اور عرض کی: یارسول اللہ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )! اللہ پاک فرماتا ہے: ایک(1) سیب آپ کھائیں اور دُوسرا (حضرت) خدیجہ کو کھلائیں پھر(حضرت) فاطمہ پیدا ہوں گی ۔ تو حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ ٖ وَسَلَّمَ نے حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے کہنے کےمطابق ایک سیب خودکھا یا ا ور دوسرا (2nd ) حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کو کھلایا۔ جب حضرتِ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا پیدا ہوئیں تو ساری فضا(یعنی ہوا) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کے چہرے(یعنی منہ) شریف کے نور(یعنی روشنی ) سے نور والی ہو گئی۔ نور والے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو جب جنّت اور اس کی نعمتوں کا شوق ہوتا تو اپنی چھوٹی سی شہزادی حضرتِ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کو چوم لیتے اور ان کی پاک خوشبو کو سونگھتے اور فرماتے :فَاطِمَۃُ حَوْرَاءُاِنْسِیّۃٍ یعنی فاطمہ توانسانی حُور ہے۔(الروض الفائق فی المواعظ و الرقائق، ص۲۷۴ملخصاً) اس حدیث مُبارک سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت ہی پیارا خاندان دیا ہے۔ ہمیں سب اُمھات المؤمنین ، اولادِ پاک اور سب اہل بیت (آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے گھر والوں)سے محبّت کرنی چاہیے۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے بارے میں حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا: اللہ کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا(اور مجھے نہ مانا) اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھوٹا کہہ رہے تھے اس وقت انہوں نے میری باتوں کو سچّا کہا اور جس وقت کوئی شخص مجھے کچھ دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں سےاﷲ پاک نے مجھے اولاد عطافرمائی۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،ج۴،ص۳۶۳) حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تمام اولادحضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے ہوئی۔ مگر حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حضرت ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے پیدا ہوئے۔حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے دو (2)شہزادے حضرت قاسم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہوئے اور شہزادیاں حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ، حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ، حضرت اُمّ کلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ہوئیں۔ ( اسدالغابۃ،کتاب النساء،خدیجۃ بنت خولید، ج۷،ص۹۱) اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: ایک مرتبہ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ پاک کے رسول! صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آپ کے پاس حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں تو اِن کو اِن کے ربّ کا سلام پہنچائیں۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،الحدیث۲۴۳۲،ص۱۳۲۲)

20 )’’ تسبیح فاطمہ‘‘

ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا خود روٹیاں پکاتیں ،گھر میں جھاڑو دیتیں۔ چکی(grinder) میں دانے ڈال کر،پیس (grind)کر آٹا بناتی تھیں جس سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے ہاتھوں میں چھالے(دانے۔blisters) پڑگئے تھے۔ایک مرتبہ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور کام کاج میں مدد کے لئے خادم(نوکر) مانگا۔نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:تمہیں ہمارے پاس سےخادم تو نہیں ملے گا،لیکن کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو خادم سے بہتر ہے؟تم جب بستر پر جاؤتو تینتیس(33)بار سُبْحٰنَ اللہ، تینتیس(33)بار اَلْحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور چونتییس (34)بار اَللہ اَکْبَر پڑھ لیا کرو۔ (مسلم،ص۱۰۴۸،حدیث:۲۷۲۸،شان خاتون جنت،ص۳۳) اس حدیثِ پاک سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمیں ہرنماز کے بعداور رات سونے سے پہلے ” تینتیس(33)بار سُبْحٰنَ اللہ، تینتیس(33)بار اَلْحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور چونتیس (34)بار اَللہ اَکْبَر “پڑھنے کی عادت بنانی ہے ، ان شاء اللہ! اس سے فائدہ حاصل ہوگا۔ ان سب کلمات(words) کوتسبیحِ فاطمہ کہتےہیں۔ اس سچی حکایت سے یہ بھی پتا چلا کہ ہمیں اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرنے چاہیئے۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابیہ، بنتِ مُصطفیٰ،خاتونانِ جنّت کی سیّدہ، فاطمۃُ الزّہرۃ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام ’’فاطِمہ‘‘ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی ہیں۔آپ کی والدہ اُمُّ المومنین حضرت خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ہیں ۔ ’’زَہرا‘‘اور’’بَتُول‘‘ آپ کے لقب(title)ہیں ۔پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےدنیاسےتشریف لےجانے کےتقریباً پانچ(5) یا چھ(6) ماہ بعد تین(3) رمضانُ المبارک، گیارہ(11) سنِ ہجری میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال ہوا۔ حضرتِ ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نمازِ جنازہ پڑھائی (کَنْزُ الْعُمَّال، کتاب الموت، باب فی اشیاء قبل الدفن، ج۸، ص۳۰۳، الحدیث:۴۲۸۵۶)اورآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔ اہلِ بیت نبی رَضِیَ اللہُ عَنْہَاکی شان: فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: ( میری بیٹی) کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کیونکہ اللہ پاک نے اِس کو اور اس سے محبّت کرنے والوں کو دوزخ سے آزاد کیا ہے۔ (کَنْزُ الْعُمَّال،کتا ب الفضائل، ج۱۲، ص۵۰، الحدیث:۳۴۲۲۲)اِس لئے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام ’’فاطِمہ‘‘ ہوا کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا دُنْیا میں رہتے ہوئے بھی دُنْیا (کی چیزوں)سے الگ تھیں۔(مِراٰۃُ الْمَنَاجِیْح،، ج۸، ص۴۵۲، نعیمی کتب خانہ گجرات)

21) ’’صحابہ کرام (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)کی اہل ِ بیت(آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے گھر والوں) سے محبّت ‘‘

ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا خود روٹیاں پکاتیں ،گھر میں جھاڑو دیتیں۔ چکی(grinder) میں دانے ڈال کر،پیس (grind)کر آٹا بناتی تھیں جس سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے ہاتھوں میں چھالے(دانے۔blisters) پڑگئے تھے۔ایک مرتبہ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور کام کاج میں مدد کے لئے خادم(نوکر) مانگا۔نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:تمہیں ہمارے پاس سےخادم تو نہیں ملے گا،لیکن کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو خادم سے بہتر ہے؟تم جب بستر پر جاؤتو تینتیس(33)بار سُبْحٰنَ اللہ، تینتیس(33)بار اَلْحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور چونتییس (34)بار اَللہ اَکْبَر پڑھ لیا کرو۔ (مسلم،ص۱۰۴۸،حدیث:۲۷۲۸،شان خاتون جنت،ص۳۳) اس حدیثِ پاک سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمیں ہرنماز کے بعداور رات سونے سے پہلے ” تینتیس(33)بار سُبْحٰنَ اللہ، تینتیس(33)بار اَلْحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور چونتیس (34)بار اَللہ اَکْبَر “پڑھنے کی عادت بنانی ہے ، ان شاء اللہ! اس سے فائدہ حاصل ہوگا۔ ان سب کلمات(words) کوتسبیحِ فاطمہ کہتےہیں۔ اس سچی حکایت سے یہ بھی پتا چلا کہ ہمیں اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرنے چاہیئے۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابیہ، بنتِ مُصطفیٰ،خاتونانِ جنّت کی سیّدہ، فاطمۃُ الزّہرۃ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام ’’فاطِمہ‘‘ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی ہیں۔آپ کی والدہ اُمُّ المومنین حضرت خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ہیں ۔ ’’زَہرا‘‘اور’’بَتُول‘‘ آپ کے لقب(title)ہیں ۔پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےدنیاسےتشریف لےجانے کےتقریباً پانچ(5) یا چھ(6) ماہ بعد تین(3) رمضانُ المبارک، گیارہ(11) سنِ ہجری میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال ہوا۔ حضرتِ ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نمازِ جنازہ پڑھائی (کَنْزُ الْعُمَّال، کتاب الموت، باب فی اشیاء قبل الدفن، ج۸، ص۳۰۳، الحدیث:۴۲۸۵۶)اورآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔ اہلِ بیت نبی رَضِیَ اللہُ عَنْہَاکی شان: فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: ( میری بیٹی) کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کیونکہ اللہ پاک نے اِس کو اور اس سے محبّت کرنے والوں کو دوزخ سے آزاد کیا ہے۔ (کَنْزُ الْعُمَّال،کتا ب الفضائل، ج۱۲، ص۵۰، الحدیث:۳۴۲۲۲)اِس لئے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام ’’فاطِمہ‘‘ ہوا کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا دُنْیا میں رہتے ہوئے بھی دُنْیا (کی چیزوں)سے الگ تھیں۔(مِراٰۃُ الْمَنَاجِیْح،، ج۸، ص۴۵۲، نعیمی کتب خانہ گجرات)

22) ’’ضرورت پوری کردی‘‘

حضرتامام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاسں ایک ضرورت مند(needy man) نے درخواست (application) پیش کی۔ آپرَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے بغیر پڑھے فرمایا: تمہاری ضرورت پوری کی جائے گی۔کسی نےعرض کی :اے نواسۂ رسو ل(Holy Prophet’s grandson)!آپ نے اس کی درخواست (application) پڑھے بغیر ہی کام کرنے کا فرما دیا۔تو فرمایا: جب تک میں اس کی درخواست پڑھتا وہ میرے سامنےشرمندہ(embarras) کھڑا رہتا پھر اگر اللہ پاک مجھ سے پوچھتا کہ تو نے ایک بات کرنے والے کو اتنی دیر کھڑا رکھ کر کیوں ذلیل(disgraced) کیا ؟ تو میں کیا جواب دیتا؟ (احیاء العلوم،۳/۳۰۴) اس سچے واقعے سےہمیں یہ درس(lesson) ملتا ہے کہ ہمیں حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی مبارک عادت کو اپناتے ہوئےمسلمان کی عزّت (respect)کرنی چاہیے ۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی،اہلِ بیتِ مُصطفیٰ،ابنِ علُّی الُّمرتضیٰ، امام حسن مُجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پندرہ (15) رَمضانُ المُبارک3 سنِ ہجری کی رات مدینۂ پاک میں پیداہوئے۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا نام خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ”حسن“رکھا۔(سوانحِ کربلا،ص۹۲)آپ کے والد امیر المومنین حضرتِ علی المرتضی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور والدہ حضرت بی بی فاطمہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ہیں ۔آپ کی کُنْیَت(kunyah) ”ابو محمد“ ہے۔ آپ کو”رَیْحَانَۃُالرَّسُوْل“(یعنی رسول پاک کے پھول)بھی کہتے ہیں۔ (امام حسن کی ۳۰حکایات،ص۳)امام حسنرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے پانچ (5)ربیع الاول ، پچاس(50)ھ میں سینتالیس(47)سال کی عمر (age)میں مدینہ منوّرہ میں وفات پائی۔ (صفۃ الصفوۃ ،۱/۳۸۶،تقریب الھذیب لابن حجر عسقلانی ص۲۴۰ ) اہلِ بیت نبی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: حضرتِ اَنَس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کہتے ہیں کہ (امام )حسن (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) سے زیادہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سے ملتا جلتا کوئی بھی شخص نہ تھا۔(بُخاری ج۲ص۵۴۷حدیث ۳۷۵۲)

23)’’کنویں کا پانی بڑھ گیا‘‘

حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جب مدینہ پاک سے مکّہ پاک کی طرف گئےتو راستے میں کسی نے ان سے عرض کی: میرے کُنویں(well) میں پانی بَہُت ہی کم ہے، برائے مہربانی (please)!برکت(blessings) کی دعا کردیجئے۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اُس کُنویں کاپانی منگوایا۔ جب پانی کا ڈول (کنویں سے پانی نکالنے کابرتن۔bucket)لایا گیا تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے منہ لگا کر اس میں سے پانی پیا اور کُلی (rinsing) کی پھر ڈول کو واپس کنویں میں ڈال دیاتوکنویں کاپانی کافی زیادہ ہو گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ (tasty)بھی ہو گیا۔ (طبقات کبری،۵/۱۱۰) اس سچی حکایت سے معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نواسے(Grandson) اپنے نانا جان (Grandfather)کی امت پربہت مہربان تھے ،ا ن کےمسائل حل کر دیتے تھےہمیں بھی دوسروں کی نیک کاموں میں مدد کرنی چاہیے۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابی،اہلِ بیتِ مُصطفیٰ، شیخِ سلسلہ قادریہ، امام حسین ابن مُرتَضٰیرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی پیدائش پانچ(5)شَعْبان، چار(4) سنِہجری کوہوئی ۔ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ”حُسین“نام رکھااورآپ کو بھی جنَّتی جَوانوں کا سَرداراوراپنا بیٹا فرمایا۔ آپ کی کُنْیت(kunyah) ابُوعبدُ اللہ ہے۔ آپ کو”رَیْحَانَۃُالرَّسُوْل“(یعنی رسول پاک کے پھول)بھی کہتے ہیں۔ (اسد الغابۃ، باب الحاء والسین،۲/۲۵،۲۶ملتقطاً ) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے دس(10)محرم الحرام سن 61 سنِ ہجری جمعہ کے دن شہادت پائى،اس وقت آپ کى عمر چھپن(56) سال، پانچ(5) ماہ اورپانچ(5) دن تھى۔(طبقات ابن سعد، ۶/۴۴۱، البداية والنہاية،۸ / ۱۹۷) اہلِ بیت نبی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: یزیدی فوج امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو شہید کرنے کے بعد،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُکےبرکت والے سرِ کو لے کر آئے تو اُس وقت آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ہونٹ ہل رہے تھے اور زَبان شریف سے قرآنِ پاک کی اس آیت کی آواز آرہی تھی، ترجمہ (Translation) : اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے ۔( پارہ۱۳،سورۃ ابراہیم،آیت۴۲ ) (ترجَمۂ کنزالایمان) (کراماتِ صحابہ ص۲۴۶ ) یعنی شہید ہونے کے بعد بھی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قرآنِ پاک کی تلاوت فرما رہے تھے۔

24) ’’صحابہ کرام کی امام حسن و امام حسین سے محبّت(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) ‘‘

حسنینِ کریمین(یعنی امام حَسَن اور امام حُسین(رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے محبت: جب حضرتِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے لوگوں کے وظائف(مال وغیرہ) مقرر (fixed)فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکے لئے( رسولِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی رشتہ داری کی وجہ سے) اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ ُوَجْہَہُ الْکَرِیْم کے برابر حصّہ رکھا، دونوں کے لئے پانچ(5) پانچ ہزار دِرہم کا حصّہ رکھا۔(سیراعلام النبلاء،۳/۲۵۹) امام حَسَن اور امام حُسین (رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا)کے لئے یمن سے کپڑے منگوائے : ایک مرتبہ ملکِ یمن سے کچھ کپڑے آئے تو فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے لوگوں میں تقسیم کردیئے۔لوگ وہ کپڑے پہن کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے پاس آ آ کر دعادینے لگے اس وقت آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مزار شریف اور منبر مُبارک کے درمیان بیٹھےتھے ( منبر یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں)کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے سامنے خاتونِ جنّت فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کے گھر سے حسنینِ کریمین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھما باہر تشریف لائے، دونوں شہزادوں کے جسموں پر ان کپڑوں میں سے کوئی کپڑا نہیں تھا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ یہ دیکھ کر افسوس ہوا تو فوراً یمن کے حاکم (ruler of Yemen)کو خط لکھا کہ حسنینِ کریمین کے لئے دو (2)بہترین اور قیمتی لبا س جلد(quickly)بھیجو۔ حاکم نے فوراً حکم کے مطابق دو (2)لباس بھیج دیئے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یمن سے آئے ہوئے کپڑے، اتنے اچھے نہیں تھے کہ حسنینِ کریمین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھماکو دیے جائیں تو فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے یمن سے دوسرے کپڑے منگواکر انہیں پہنائے اور فرمایا: اب میں خوش ہوگیا ہوں۔(تاریخ ابن عساکر، ۱۴/۱۷۷، ماخوذاً) حضرت ابوہریرہ کی اہلِ بیت سے محبت: حضرتِ ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں:میں جب بھی حضرت امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کو دیکھتا ہوں تو محبت کی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔(مسند امام احمد، ۳/۶۳۲ مُلخصاً) پاؤں پر لگی ہوئی مٹی صاف کی: ابومَہْزم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرتِ ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے۔(سیراعلام النبلاء،۴/۴۰۷) حضرت عَمْرو بن عاص کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت عَمْرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ خانۂ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ پر پڑی تو فرمایا:اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب (beloved)شخص یہی ہیں۔(تاریخ ابن عساکر،۱۴/۱۷۹)

25) ’’باتوں میں بھی امانت ہوتی ہے‘‘

حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اپنی شہزادی حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح کے لئے حضرت عثما ن غنی حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اپنی شہزادی حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح کے لئے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ُسے کہا مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا ، اس کے بعد حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ُسے ملاقات کی اور فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو حفصہ کا نکاح آپ کے ساتھ کردوں ! اس پر ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بھی خاموش رہے ۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگا۔ اس بات کے کچھ دن بعد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرتِ حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح کاپیغام (message)دیا اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کانکاح حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کردیا۔ پھرحضرت ِ ابو بکر صدیق نےحضرت عمر سے فرمایا کہ شاید آپ اس وقت مجھ سے ناراض ہوگئے تھے جب آپ نے مجھے نکاح کا کہا تھاا ور میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کہا : جی ۔ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا: مجھے پتا تھا کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو یاد فرمایا ہے اور میں نے اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے راز کی بات (secret) کو چھپائے رکھا۔ اگرحضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ انہیں قبول نہ فرماتے تو میں قبول کرلیتا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ذکر ازواج رسول اللہ، ج۸، ص۶۵،ملخصاً) اس حدیث ِپاک سے معلوم ہوا کہ کسی کی راز کی بات(secret) دوسرے کو نہیں بتانی چاہیے۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ،امیرُالمومنین حضرتِ عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی بیٹی تھیں اور مزاج و عقلمندی(wisdom) میں بھی اُن کی طرح کی تھی،نفلی روزے بہت رکھتیں ، قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر عبادات بہت کرتیں ۔ عبادت کے ساتھ ساتھ انہیں دین کے مسئلوں اور حدیث شریف کا بھی بہت علم تھا۔(سیرت مصطفیٰ، ص۶۶۳،ملخصاً) اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: ایک مرتبہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضرہوکرعرض کی:(حضرت حفصہ) راتوں کو عبادت کرنے والی، بہت ر وزے رکھنے والی اورجنّت میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی زوجہ ہیں۔ (المعجم الکبیرللطبرانی،الحدیث۳۰۶،ج۲۳،ص۱۸۸) ہماری پیاری امّی جان رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال حضرتِ امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے زمانے میں ہوا۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۴)

26)’’پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بدن کا ادب‘‘

ایک جگہ سے واپسی پرہمارے پیارے پیارے آقا ،مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے پیر مبارک سواری(ride) پر رکھے تاکہ حضرتِ صفیّہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اپنے قدموں کو حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ران(thigh) پر رکھ کر سواری پر بیٹھ جائیں ۔ حضرتِ صفیّہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نےاپنے پیر کی جگہ ، اپنی ران(thigh) کو حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ران پر رکھا اور سواری کے اوپر بیٹھ گئیں ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج۸،ص۹۶) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کا کتنا ہی بڑا مقام ہو مگر اُ س پر بھی حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ادب لازم اور ضروری ہے۔ تَعَارُف (Introduction): جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا تعَلُّق(relation)بنی اسرائیل(یعنی حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم) سے تھا اور یہ (حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائی)حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد سے ہیں۔ (المواہب اللدنیۃ،ج۱، ص۴۱۲) ہماری پیاری امّی جان،حضرتصفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا جنگِ خیبر کے قیدیوں(prisoners) میں آئیں ۔ یہ دحیہ کلبی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے حصّہ میں آئیں لوگوں نے کہا وہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں ، سردار کی بیٹی بھی ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے، کہ وہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےپاس ہوں ۔ پھر خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انہیں خرید کر آزاد فرمادیا اور نکاح فرمالیا ۔(مدارج النبوت،قسم سوم،ج۲،ص۲۴۹) اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا دل خوش کرنے کے لیے، ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ تم ایک نبی (حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام)کی اولاد میں ہو اور تمہارے چچاؤں میں بھی ایک نبی ( حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام) ہیں اور تم ایک نبی کی بیوی بھی ہو یعنی میری بیوی ہو۔ (تفسیر صاوی،ج۵، ص۱۴۹۴، پ۲۶، الحجرات:۱۱)

27)’’پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے خاندان سےصحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی محبّت‘‘

صَحابَۂ کرام کا حضرت عبّاس کی تعظیم(respect) کرنا: صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ(حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چچا )حضرتِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں چومتے،آپ سے مشورے (consultation)کرتے اور آپ کی بات کو اہمیت(importance) دیتے تھے۔(تہذیب الاسماء، ۱/۲۴۴، تاریخ ابنِ عساکر، ۲۶/۳۷۲) حضرتِعباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوتے تو حضرتِابوبکر صِدّیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اِحترام کی وجہ سے آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔(معجمِ کبیر، ۱۰/۲۸۵، حدیث:۱۰۶۷۵) حضرت ِعباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت ِعمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اور حضرتِ عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ سواری پر ہوتے اور حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے پاس سے گزرتے تو تعظیم(respect) کی وجہ سے سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ وہاں سے گزر جاتے۔(الاستیعاب، ۲/۳۶۰) اللہ پاک نے اپنے محبوب(beloved) کو فرمایا کہ وہ لوگوں کو اپنے اہلِ بیت کی محبت کا حکم دیں: ترجمہ (Translation):(اے نبی!)تم فرماؤ میں اس(یعنی اللہ پاک کا پیغام پہنچانے ) پر تم سے کچھ اجرت(یعنی رقم وغیرہ) نہیں مانگتا مگر قرابت(یعنی میرے رشتہ داروں) کی محبّت( کا کہتا ہوں)۔ (تَرجَمۂ کنزُ الایمان)(پ۲۵، الشوریٰ،آیت ۲۳، ماخوذاً) معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے دین میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اہل بیت سے محبّت کرنے کی بہت اہمیت(importance) ہے۔

28)’’میں ہاتھ نہیں چھوڑوں گا‘‘

جب مکّہ شریف سے غیر مسلموں کی حکومت ختم ہو گئی اور مسلمان یہاں آگئے پھر مسلمان (دوسرے شہر) طائف کی طرف گئے۔ اس وقت پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دودھ پلانے والی حضرت بی بی حلیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا اپنے شوہر حارث سعدی اور بیٹے کو لے کر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہو رہی تھیں۔ راستے میں غیر مسلم ملے اور طرح طرح کی باتیں کرنے لگے، کسی نے کہا:اے حارِث!تمھیں اپنے( دودھ کے رشتے کے) بیٹے (یعنیمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم )کی باتیں پتا ہیں ،وہ کیاکہتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں: اللہ پاک پر ایمان لے آؤ (یعنی مسلمان ہو جاؤ)،مرنے کے بعد سب لوگ دوبارہ زندہ ہوں گے اور اللہ پاک نے دو (2)گھر بنائے ہیں ، ایک جنَّت ا ور دوسرا دوزخ ۔یہ باتیں سن کر یہ سب مدنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوگئے۔ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےان کے لئے اپنی چادر مبارک کو زمین پر بچھا کر ان کو اس پر بٹھایا۔ حارث سعدی کہنے لگے:اے میرے بیٹے!آپ کی قوم آپ کے بارے میں شکایت(complain) کرتی ہے۔فرمایا:جی! میں ایسی باتیں کرتا ہوں اور اے میرے والد ! جب وہ دِن آئے گا تو میں آپ کاہاتھ پکڑ کر بتا دوں گا کہ دیکھیں یہ وہ(یعنی قیامت کا) دن ہے یا نہیں ؟جس کے بارے میں، میں بتاتا تھا۔ پھریہ سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےان سب کو تحفے بھی دیے۔ حضرت حارِث سَعَدی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِیمان لانے کے بعد اِس بات کو یاد کر کے کہا کرتے: اگر میرے بیٹے میرا ہاتھ پکڑیں گے تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ نہ چھوڑیں گے جب تک مجھے جنَّت میں نہ لے جائیں۔(‬ الروض الأنف،أبوہ من الرضاعة، ۱/۲۸۳،الاستیعاب ،حلیمۃ السعدیۃ،۴/۳۷۴،‬‬‬‬‬‬‬‬فتاویٰ رضویہ ۳۰/۲۹۳مُلخصاً)‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬ اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کی یہ سوچ تھی کہ قیامت کے دن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جنّت میں لے کر جانے والے ہیں۔ تَعَارُف (Introduction): پہلے عرب میں یہ ہوتا تھا کہ گاؤں کی عورتیں بچوں کو شہروں سے لے کر چلی جاتی اور بچوں کو پالتی تھیں، جس سے انہیں پیسے وغیرہ ملتے اور بچے کی صحت (health)گاؤں میں رہنے کی وجہ سے اچھی ہو جاتی تھی۔ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دودھ پلانے والی والدہ، حضرت حلیمہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا جب مکّے پاک حاضر ہوئیں تو رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کواپنے ساتھ اپنے قبیلے(tribes) میں لے گئیں ۔اب آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بچپن(childhood) کے کچھ سال گزرے۔ (مدارج النبوۃ، ۲ / ۱۸ملخصاً) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا،آپ کے شوہر اور سب بچےمسلمان ہوگئے تھے، یعنی یہ گھر صحابہ اور صحابیات کا تھا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ۔ (طبقات ابن سعد، ۱ / ۸۹) حضرت حلیمہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کی بیٹی حضرت شیما رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو گود میں کِھلاتیں، سینے پر لِٹاکر دُعائیہ نظمیں(prayer poems) سُنا کرسُلا یا کرتی تھیں ، اِس لئے انہیں بھی حضور کی والدہ کہا جاتا ہے۔(‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬ فتاویٰ رضویہ ، ۳۰/۲۹۴مُلخصاً) حضرت حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔(جنّتی زیور،ص۵۱۲) حضرت علامہ عَبدُالمصطفےاعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ فرماتےہیں: جنتُ البقیع کی کسی قبر پر میں نے کوئی گھاس اور سبزہ (greenery)نہیں دیکھا لیکن حضرت بی بی حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کی قبر شریف پر سبزہ تھا۔ اس وقت میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ انہوں نے ہمارے اور اپنے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ كو دودھ پلایا تو اللہ پاک نے اپنی رحمت کےپانی سے ان کی قبر کو ہری گھاس سے بھر دیا۔(جنّتی زیور،ص ۵۱۳مُلخصاً) دودھ کے رشتے کی والدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں نے خواب میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا تو اُن سےحضرت حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یعنی اللہ اُن سے راضی ہوا۔(سبل الھدی والرشاد،۱/۳۸۴)

29)’’حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آنے کی خوشی منانے سے غیر مسلم کو بھی فائدہ ہوا‘‘

جب ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دنیا میں تشریف لائے(یعنی پیدا ہوئے) تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چچا ابو لہب کی کنیز”حضرت ثُوَیْبَہ“ خوشی میں دوڑتی ہوئی گئیں ( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو مردملا وہ غلام اور جو عور ت ملی تو وہ کنیز ہوتی۔ آج کل غلام اورکنیز نہیں ہوتے )۔ ” حضرت ثُوَیْبَہ“ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہانے”ابو لہب“ کو بھتیجا(یعنی بھائی کا بیٹا) پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو”ابو لہب“ (جو کہ مرتے وقت تک سخت کافر رہا) نے خوشی میں ” حضرت ثُوَیْبَہ“کو آزاد کر دیا(یعنی اب آپ کنیزنہ رہیں بلکہ اور عورتوں کی طرح آزاد ہوگئیں)۔ انہیں آزاد کرنےکا فائدہ ابو لہب کو یہ ملاکہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھااور حال پوچھا،تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ تم لوگوں کے پاس سے جانے کے بعد مجھے کچھ(کھانے پینے) کو نہیں ملا مگر اس انگلی سے کہ جس سے میں نے ” ثُوَیْبَہ“ کو آزاد کیا تھا(بخاری،کتاب النکاح،حدیث: ۵۱۰۱ ،۳/۴۳۲مُلخصاً) یعنی اس اُنگلی سے مجھے تھوڑا سا پانی دیا جاتا ہے۔(عمدۃ القاری ج۱۴ص۴۴تحت الحدیث۱۰۱ ۵) حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف “ وغیرہ میں موجود سچےواقعے میں میلاد شریف والوں کیلئے خوشخبری(good news) ہے کہ ابولَہَب جو کہ غیر مسلم تھا جب وہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آنے کی خوشی منانے پر مرنے کے بعد بھی فائدہ پائےتو اس مسلمان کو کتنی برکتیں(blessings) ملیں گی کہ جو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبَّت میں جشنِ ولادت کی خوشی منائے اور مال خرچ کرے۔لیکن یہ ضَروری ہے کہ محفلِ میلاد شریف شریعت کے مطابق ہو، کسی طرح کے گناہ کا کام نہ ہو۔ (مدارِجُ النُّبُوَّت ج۲ص ۱۹ ماخوذاً) تَعَارُف (Introduction): پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی وِلادَت(یعنی پیدا(born) ہونے) کےبعدسب سے پہلےآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی والِدہ صاحبہ حضرت بی بی آمنہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہانےآپ کودُودھ پلایاپھرحضرت ثُوَیْبَہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نے۔(منتظم ،۳ /۳۰۷، مدارج النبوت ،۲/ ۱۹) پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو دودھ پلانے والی والدہ ،حضرت ثویبہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کا انتقال 7 سنِ ہجری میں ہوا ۔(منتظم ،۳/۳۰۷) حضرت ثویبہرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا مسلمان ہو کر صحابیہ بنیں۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا (فتاوی رضویہ جلد۳۰، ص ۲۹۳ماخوذاً) دودھ رشتے کی والدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور حضرت بی بی خدیجۃُ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ، حضرت ثویبہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کابہت خیال رکھا کرتےاور مدینۂ منوّرہ سے ان کے لیے کپڑے وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔(سبل الہدی والرشاد،۱/۳۷۷)

30) ’’ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے والدین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ‘‘

{}حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والدین حضرت عبد ُاللہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اور حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاجنّتی ہیں کہ وہ تو ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنھیں اللہ پاک نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے چُنا (select کیا)تھا ۔ (فضل القری لقراء ام القری شعر ۶ المجمع الثقافی ابو ظہبی ۱ /۱۵۱مُلخصاً) {}حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کہتی ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اللہ پاک سے دعاکی کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والدین کو زندہ فرمادے ۔اللہ پاک نے انہیں زندہ فرمادیا تووہ آپ کے نبی ہونے پر ایمان لائے۔(زرقانی ۱/۳۱۶،الحاوی للفتاوٰی، ۲/۲۷۸مُلخصاً) {} یہ زندہ کرنے کا واقعہ حج کے دنوں میں اُس وقت ہوا جب قرآنِ کریم مکمل نازل ہو چکا تھا اور یہ آیت بھی نازل ہوگئی تھی(ترجمہ ۔Translation :)آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔یعنی مُبارک والدین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا اس وقت سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُمت(nation) میں آگئے جب قرآن پاک اوردین کےاحکام(یعنی دینی مسائل) مکمل آگئے تھے۔(فتاوی رضویہ جلد۳۰، ص ۲۸۶ماخوذاً) {}والدین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو دوبارہ(again) زندہ کرنا ، حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور صحابی اور صحابیہ کا درجہ (special status) پانے کے لئے تھا ورنہ یہ دونوں توپہلے ہی سے ایمان والے مسلمان تھے۔جیسا کہ اصحابِ کہف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کو زندہ کیا گیا تھا حالانکہ وہ بھی پہلے سے مسلمان تھے۔(فتاوی رضویہ جلد۳۰، ص ۲۸۶ماخوذاً)اکثر علماء کہتے ہیں کہ اصحابِ کہف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کا واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد ہوا کہ یہ مسلمان بلکہ اولیاء کرام تھے،غیر مسلم بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لیے ایک غار(cave) میں چلے گئے، وہاں سوئے تو اُن کو موت آگئی اور تین سو(300) سال سوتے رہے پھر مسلمان بادشاہ کی حکومت میں یہ جاگے اور ان کے واقعے سے غیر مسلموں کو پتا چلا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی مل سکتی ہے اور مسلمان جس قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کی بات کرتے ہیں، وہ صحیح ہے۔(صراط الجنان ج۵،ص۵۴۰ تا ۵۴۱ مُلخصاً) {}حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے والدین حضرت عبدُ اللہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اور حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کےنام بھی مسلمانوں والے ہیں ۔ عبد ُاللہ کا مطلب اللہ پاک کا بندہ اور آمنہ کا مطلب ایمان والی۔ {} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏تمہارے ناموں میں اللہ پاک کو سب سے زیادہ پیارے نام عبد اللہ اور عبدُالرَّحْمٰن ہیں۔ (جامع الترمذی ۲ /۱۰۶) {} آمنہ میں چار(4) حروف ہیں : ’’الف‘‘ ،’’ میم ‘‘ ،’’ ن‘‘ اور ’’ ہ ‘‘۔ ’’الف‘‘سے اللہ پاک کے کرم کی طرف اشارہ ہے ’’ میم ‘‘ سے پیارے آقامُحَمَّد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرف’’ ن‘‘ سے پیارے آقا کےنور کی طرف ا ور ’’ ہ ‘‘سے ہدایت اور سیدھے راستے کی طرف اشارہ ہے۔ (دیوانِ سالک ،ھاشیہ ص ۸۵ماخوذاً) ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی چار یارانِ نبی جنّتی جنّتی ہر زوجہء نبی جنّتی جنّتی سب اولادِ نبی جنّتی جنّتی والدینِ نبی جنّتی جنّتی

31) ’’انتقال پررحمتِ عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آنسو‘‘

حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بیٹے تھے ان کو دودھ پلانے کی ذمہ داری حضرت اُمّ سیف رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی تھی۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کوحضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بہت زیادہ محبت تھی کبھی کبھی آپ ان کو دیکھنے کےلیےتشریف لے جایا کرتے تھے۔ایک روز پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے ساتھ حضرت ابراہیم سے ملنے آئےتو یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ آخری سانسیں لے رہے تھے(یعنی آپ کا انتقال ہونے والا تھا)۔یہ دیکھ کر ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔اس وقت عبدُالرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نےارشادفرمایا: میرا رونا ، شفقت(اور محبّت) کی وجہ سے ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو نکلے تو آپ کی زبان مبارک پریہ جملےجاری ہوگئے کہ:آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل میں غم (grief)ہے مگر ہم وہی بات زبان سےکرتے ہیں جس سے ہمارا ربّ خوش ہو جائے اور بے شک اے اِبراہیم! ہمیں تمہاری جدائی(یعنی انتقال) کا بہت زیادہ غم ہے۔ (بخاری، جلد۲،ص۸۳،ح۱۳۰۳ مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بہت پیار فرماتے تھے اسی لیے آپ کے انتقال پر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد سے محبت کرنا پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا طریقہ ہے ۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے اور سب سے آخری بیٹے ہیں۔آپ کی والدہ اُمّ المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاہیں،آپ ذوالحجہ کےمہینے 8 سنِ ہجری میں مدینہ منورہ کےقریب پیدا ہوئے ۔آپ کا انتقال دس(10) ربیع الاوّل کو ہوا۔ (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم،۴/۱۰،البدایہ والنہایہ۴/۳۰۱) جنّتی شہزادےرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جب پیدا ہوئے، تو اُس کی خبرحضرت ابو رافع رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دی۔ یہ خو ش خبری (good news)سن کر ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انعام میں حضرت ابو رافع رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو ایک غلام دے دیا( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔ اس کے فوراً بعد حضرت جبرئیل عَـلَـيْهِ السَّلَام آئے اور پیارے آقا کو ’’یااباابراہیم ‘‘ (اے ابراہیم کے والد) کہہ کر پکارا،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بہت خوش ہوئےاور ان کے عقیقہ میں دو مینڈھے (rams) ذبح فرمائے(بچے کی پیدا ہونے پر اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جانور ذبح کیا جائے،اسے عقیقہ کہتے ہیں)۔ اس کے بعد پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ان کےسر کے بال کےوزن کے برابر چاندی(silver) خیرات(یعنی صدقہ) فرمائی اور ان کے بالوں کو(زمین میں) دفن کرادیا اور ان کا نام ''ابراہیم'' رکھا ۔ (سیرت مصطفی ۶۹۰۔۶۸۹مُلخصاً)

32) ’’غزوہ بدر میں نہ جاسکے‘‘

شروع شروع میں غیر مسلم، مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے اوروہ اسلام اورمسلمانوں کو دنیا سے بالکل ختم کرنا چاہتے تھے اسی لیے وہ مسلمانوں سے بار بار جنگ بھی کرتے تھے ایک مرتبہ بدر کےمقام پر غیرمسلم، مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے آگئے تو پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےمسلمانوں کو ان سے مقابلہ(جنگ۔war) کرنے کا حکم فرمایا۔اس وقت پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شہزادی (یعنی بیٹی) حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بہت بیمارتھیں ۔ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےحضرت عثمانرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (جو کہ ان کے شوہر تھے) کو ان کےعلاج وغیرہ کے لئے مدینے شریف میں رہنے کا حکم دے دیا اور جنگِ بدر میں جانے سے روک دیا۔ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کہتے ہیں کہ جس دن ہم جنگِ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی اور جنگ جیتنے کی خوشخبری(good news) لے کر مدینہ پاک پہنچے اسی دن حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نے بیس(20) سال کی عمر میں انتقال کیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جنگِ بدر کی وجہ سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے ۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے اللہ پاک کے رسول کے حکم پر عمل کیا اور اپنی زوجہ(wife) حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کے علاج کی وجہ سے جنگ بدر نہ گئےمگرحضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ان کو جنگِ بدر میں جانے والوں میں رکھا اور مجاہدین (یعنی جنگ جیت کر آنے والوں )کے برابر مال میں سے حصّہ بھی دیا۔ (سیرت مصطفے ۶۹۵،۶۹۴مُلخصاً) اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی مبارک اولاد کی بہت اہمیت ہے کہ ہمارے آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے حکم پر ان کے علاج کی وجہ سے جنگ میں نہ جانے والے بھی جنگ میں جانے والے بن گئے۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی صاحبزادی ہیں اور آپ کی والدہ اُمّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ہیں ۔جس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا تھا،اُس سے سات(7) سال پہلے حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مکّے پاک میں پیدا ہوئیں اور اُس وقت حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی عمر شریف تینتیس( 33)سال تھی ۔آپ کا پہلانکاح ابولہب کے بیٹے عُتبَہ سے ہوا تھا (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے )، عتبہ نے اپنے باپ ابولہب کےکہنےپر رخصتی (یعنی اُن کے گھر جانے )سےپہلے ہی آپ کو طلاق دے دی تھی پھر پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےحضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کا نکاح حضرت ِ عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے کیا۔ جنّتی شہزادیرَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نے اپنے شوہر حضرتِ عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے ساتھ مکّہ مکرمہ سے پہلےحبشہ پھر مدینہ منورہ طرف ہجرت کی (یعنی رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے حکم پر پہلے مکّہ شہر سے حبشہ چلے گے پھر جب حکم ہوا تومدینہ پاک چلے گئے)۔اسی لیے آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کو ذَاتُ الْہِجرَتَیْن یعنی دو(2)ہجرتیں کرنے والی کہا جاتا ہے۔ حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا ۔ حضرت رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کے ہاں ایک بیٹے بھی پیدا ہوئے تھے، جن کا نام ''عبداﷲ'' تھا مگر وہ بھی آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کی وفات کے بعد ۴ سنِ ہجری میں وفات پا گئے ۔(شرح العلامۃ الزرقانی،ج۴،ص۳۲۲۔۳۲۳)

33) ’’ اولادِمُصطفیٰ‘‘

{} اہل بیت کے معنی ہیں گھر والے۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سب اولاد بھی اہل بیت میں سے ہے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ۔ (از اشعہ)(مراۃ جلد۸،ص۳۷۶ ماخوذاً) {}حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے تین(3) بیٹے ہیں۔(۱) حضرت قاسم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ،(۲)حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُاور(۳) حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ۔حضرت عبد اللہ کے پیارے پیارے لقب (title)بھی تھے، جیسے: طیّب، طاہر ۔یعنی طیّب، طاہر وغیرہ الگ الگ بیٹے نہیں بلکہ حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہی کے نام ہیں۔(تذکرۃ الانبیاء ص ۸۲۷مُلخصاً) {} بیٹیاں حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ، حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ، حضرت کلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ہیں ساری اولاد حضرتِ خدیجۃ الکبری رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے تھیں مگرحضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُحضرتِ ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے تھے۔(مراۃ، جلد۸/۹۰) {} جن ناسمجھ چھوٹے بچوں نے سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی زیارت کی یا صحبت اُٹھائی (یعنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوئے)، وہ بھی صحابی ہیں(شرح بخاری بشیر القادری،ص١٢٧ ماخوذاً)لھذا اللہ کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے تمام شہزادے ،شہزادیاں (بیٹے اور بیٹیاں)، امام حَسن و امام حُسین ، اہلِ بیت ہونے کے ساتھ ساتھ صحابی اور صحابیہ بھی ہیں۔ اسی طرح نواسی اُمَامَہ بنتِ زَینَب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا صحابیہ ہیں اور ان کی عمر کے بچے بھی ۔ ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی چار یارانِ نبی جنّتی جنّتی ہر زوجہء نبی جنّتی جنّتی سب اولادِ نبی جنّتی جنّتی والدینِ نبی جنّتی جنّتی