229 ’’حضرتامام مہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ خلیفہ(caliph) ہونگے‘‘
جب قیامت قریب آئے گی ، اُس وقت عیسائی(christian)طاقت میں ہونگے ۔ عیسائیوں کا ایک گروہ (group)مُلک روم پر حملہ کر دے (یعنی جنگ کرے)گا اور کسی جگہ پر قبضہ بھی کر لے گا (یعنی اپنی حکومت (government) بنا لے گا)پھرمسلمان، عیسائیوں کے دوسرے گروہ (other group)کے ساتھ (جو پہلے گروہ کا دشمن ہوگا) مل کر پہلے گروہ سے لڑائی کریں گے، لڑائی بہت زبردست ہوگی اور مسلمان جیت جائیں گے۔ جو عیسائی مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کر رہے ہونگے، ا ن میں سے ایک شخص صلیب(cross) کو اٹھا کر کہے گا کہ صلیب غالب آ گئی ہے(یعنی یہ جنگ ہم نے صلیب کی وجہ سے جیتی)پھراسلامی لشکر میں سے ایک شخص غصّے میں آکر صلیب توڑ دے گا(اور کہے گا کہ ہم کلمہ طیبہ(یعنی لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )) کی برکت سے جنگ جیتے ہیں ) پھر روم کے عیسائی مسلمانو ں کے ساتھ کیا ہوا وعدہ (promise)توڑ کر جنگ کے لیے آ جائیں گے۔( سنن ابی داود، الحدیث :۴۲۹۲-۴۲۹۳،ج۴، ص۱۴۸-۱۴۹ مع مراۃ ۷،ص ۲۷۳مُلخصاً )
اس دوسری جنگ میں عیسائیوں کے دونوں گروہ (group)مل جائیں گے اور مسلمانوں کے بادشاہ شہید (یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)) ہو جائیں گے پھر شام میں عیسائی حکومت آجائے گی۔ باقی مسلمان مدینہ پاک چلے جائیں گے اور عیسائی مدینہ پاک کے قریب تک حکومت کریں گے۔ اس وقت مسلمانوں کو امام مہد ی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی ضرورت ہو گی۔(سیرتِ رسول عربی ص۵۲۱)
دنیا بھر کےاولیاء کرام حرمین شریفین(یعنی مکّہ پاک اور مدینہ شریف) آ جائیں گے اور ساری دنیا میں کفر(disbelief) پھیل جائے گا ۔ رمضان شریف کا مہینا ہوگا،اولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کعبۃ اللہ کاطواف(یعنی اللہ پاک کا ذکر کرتے ہوئے،کعبۃ اللہ کے چکر لگا رہے) ہوں گے اور حضرت امام مَہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی وہاں ہوں گے، اولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ اُنھیں پہچانیں گے(کہ یہ امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں)، اُن سے عرض کریں گے کہ آپ ہم سب سے بیعت (یعنی خاص وعدہ۔ special promise)لیں ، وہ منع کریں گے تو ایک آواز آئے گی:یہ اللہ پاک کے خلیفہ مہدی (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ)ہیں، ان کی بات سُنو اور ان کا حکم مانو۔ تمام لوگ اُن کے ہاتھ پر بیعت(خاص وعدہ) کریں گے۔پھر یہ وہاں سے سب کو اپنے ساتھ لے کر ملکِ شام کی طرف چلے جائیں گے۔(بہارِ شریعت ج۱، ح۱،ص۱۲۴، مُلخصاً)
مستقبل(future) میں ہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہقیامت کے قریب حالات (conditions)بہت خراب ہونگے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ان فتنوں (یعنی دین سے دور کرنے والی حالتوں(conditions))کے آنے سے پہلے ہی جلد ی جلدی نیک اعمال کرلوجو فتنے اندھیری رات (dark night)کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے۔ ان فتنوںمیں آدمی صبح کو مومن اور شام تک کافر ہوجائے گا اور شام کو مومن رہے گا اور صبح تک کافرہوجائے گا،دنیا کی حقیر (اور گھٹیا)چیزوں کے بدلے اپنا دین بیچ ڈالے گا۔(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفتن ، الحدیث:۵۳۸۳، ج۲، ص۲۷۹)
تَعَارُف (Introduction):
حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کا نام”مُحَمّد“ ، والدکا نا م ”عبدُاللّٰہ “ اوروالدہ کا نام” آمنہ “ہو گا۔ آپ حضرت فاطمۃ الزہر اء رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی اولاد سے (یعنی ”سیّد“)ہوں گے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی عمر مبارک اس وقت چالیس(40) سال ہو گی۔(سیرتِ رسول عربی ص۵۲۱) امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑے عالم اور مُجتَہِدبھی ہونگے یعنی چار امام((1) امامِ اعظم (2) امام شافعی(3)امام مالک(4)امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کی طرح مُجتَہِد ہونگے۔ مُجتَہِد ایسے عالم ہوتے ہیں جوقرآن و حدیث کو سمجھ کر اُس میں سے دین کے مسائل نکال کر بتاتے ہیں۔ علماء کرام ان مسائل کو سمجھ کر عام لوگوں کو سمجھاتے ہیں پھر عام لوگ دین کے مسائل پر عمل کرتے ہیں۔ امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بتانے سےدین کے مسئلوں پر عمل کریں گے اور دین کے حکم بتائیں گے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص۲۵۸ ماخوذاً) غوثِ اعظم، اولیاء کرام کے سردار کو کہتے ہیں۔ امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے آنے سے پہلے تک یہ درجہ (rank)ہمارے غوثِ پاک شیخ عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس رہے گا پھر امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دے دیا جائے گا۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص۱۷۸ ماخوذاً)
230 ’’حضرتامام مہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ ا ور خطر ناک جنگیں‘‘
حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ جب مکّہ پاک میں اولیاء کرام سے بیعت (یعنی خاص وعدہ۔ special promise)لے لیں گے ، اس وقت ایک شخص ”دمشق“ میں حکومت کر رہا ہو گااور وہ ظالم یزید کے راستے پر چلتے ہوئے اہل بیت کو بری طرح شہید(یعنی (murder)) کر رہا ہو گا، شام اورمصر میں اس کا حکم چلے گا۔اب یہ ایک لشکر(troop) امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے جنگ کرنے کے لئے بھیجے گا جو ناکام (failed) ہوجائے گا ۔اس کے بعد وہ شخص خود لشکر کے ساتھ جنگ کے لئے آئے گا اور مکّے پاک ا ورمدینہ شریف کے درمیان ، ایک جگہ لشکر کے ساتھ ہی زمین میں دھنس (sunk into the ground ہو)جائے گا، صرف ایک شخص زندہ بچے گا جو امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس آکر اس بات کی خبر دے گا (will inform) ، حضرت امام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی اس کرامت کی خبر دور دور تک پہنچ جائے گی(کرامت یعنی اللہ کے ولی کا کوئی ایسا کام کہ جن کو عام انسان نہیں کر سکتا کیونکہ وہ کام عادۃً (as per practice)نہیں ہوتے۔جیسے:مردہ زندہ کردینا، پیدائشی اندھے کو آنکھیں دے دینا،سینکڑوں بلکہ ہزاروں میل (miles)کا فاصلہ چند لمحوں (moments)میں طےکرلیناوغیرہ( ))۔ اس کے بعد شام اور عراق کے مسلمان بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے بیعت کرلیں گے۔
(سنن ابی داو،ح۴۲۸۶،ج۴،ص ۱۴۷مع اشعۃ اللمعات،کتاب الفتن، ج۴،ص۳۳۸ مُلخصاً)
اب روم کے عیسائی ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف (against) جنگ کے لیے آجائیں گے۔اس مرتبہ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ آئیں گے۔ان کے لشکر میں اَسّی(80) جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈےکے ساتھ بارہ ہزار (twelve thousand) کا لشکر ہو گا۔امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مکّہ پاک سے مدینہ شریف ، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہونگے پھر ملک شام چلے جائیں گے۔
امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے لشکر میں تہائی حصّہ(33% یعنی 1/3) بد نصیب(unlucky) لوگ ہو نگے، جو جنگ سے بھاگ جائیں گے اور یہ سب لوگ کافر ہو کر مریں گے، ایک تہائی (33% یعنی 1/3) شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)) ہو جائیں گے اور باقی تہائی (33% یعنی 1/3) جنگ جیت جائیں گے۔ اس کے بعد بھی عیسائیوں سے جنگ جاری رہے گی ،دوسرے دن امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پھر جنگ کے لئے نکلیں گے۔مسلمانوں کا ایک گروہ (group)وعدہ کرے گا کہ بغیر جنگ جیتے نہیں آئیں گے یا شہید ہو جائیں گے۔یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ دوسرے دن (next day)پھر ایک گروہ یہی وعدہ کر کے جنگ کے لیے جائے گااور وہ سب بھی شہید ہو جائیں گے۔اسی طرح تیسرے(3rd ) دن بھی ہوگا۔ چوتھے(4th ) دن بقیہ سب مسلمان جنگ کریں گے اور مکمل طور پر کافروں سے جیت جائیں گےمگر اس سے کسی کو خوشی نہ ہو گی کیونکہ اس لڑائی میں بہت سے خاندان ایسے ہوں گے جن میں ایک فیصد (1%یعنی سو میں سے ایک ہی زندہ) بچاہوگا۔ (سیرت رسول عربی ص۵۲۲ تا ۵۲۰ مُلخصاً)
پھر مسلمان اچانک (suddenly)سنیں گے کہ ان کے بچوں کے پاس دَجّال (بہت بڑا شیطان)پہنچ گیا ہے تولوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ مال ہو گا وہ اسے چھوڑ کراپنے بچوں کو دَجّال سے بچانے کی سوچیں گے اور دس(10) مسلمانوں کو دَجّال کی خبر لینے کے لیے بھیجیں گےکہ دیکھیں دَجّال آیا ہے یا نہیں ۔
(مسلم،ص۱۱۸۶،حدیث:۷۲۸۱ملخصا مع مراٰۃ المناجیح ،۷/۲۳۶تا۲۴۰ مُلخصاً)
حدیث وغیرہ میں قیامت کے قریب ہونے والی جنگ کے واقعےسے یہ پتا چلا کہ قیامت ضرور قائم ہو گی اور قیامت سے پہلے بہت سے امتحان ہونگے۔ ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ فرمایا: تم سب لوگ دَجّال کے فتنے (آزمائش، امتحان)سے اﷲپاک کی پناہ مانگو تو سب لوگوں نے کہا کہ ہم دجال کے فتنوں سے اﷲپاک کی پناہ مانگتے ہیں۔ (صحیح مسلم،کتاب الجنۃ،الحدیث:۲۸۲۷،ص۱۵۳۴)
اللہ کی ولی رَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہکی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :زمین ظلم و سرکشی (یعنی اللہ پاک کی نافرمانی۔disobedience) سے بھر جائے گی،پھر میرےگھروالوں اورمیری اولادمیں سے ایک شخص(یعنی امام مہدی) آئےگا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا(پہلے)جس طرح وہ (زمین)ظلم وسرکشی سےبھری ہوئی تھی۔‘‘
(مسند احمد،۴/ ۷۳،حدیث:۱۱۳۱۳)
231 ’’قیامت سے پہلے امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ضرورآئیں گے‘‘
قِیامت سے پہلے ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ دُنیا میں کُفر پھیل جائے گا، زمین میں بہت ظُلْم ہو گا، اولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ وغیرہ ہجرت(یعنی اپنے وطن چھوڑ ) کر حَرَمَین شریفَین (یعنی مکّہ شریف اور مدینہ شریف) میں آجائیں گےپھر حضرت فاطمۃُالزَّہراء رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کی اولاد سے ایک شخص زمین کو انصاف سے بھر دے گا۔ یہ تمام زمین پر حکومت کرنے والے پانچویں بادشاہ ہوں گے جنہیں حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہا جاتا ہے۔(التذکرۃ باحوال الموتی و امور الاخرۃ،ص ۵۶۵ملخصاً مع بہارِ شریعت) رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: دنیا ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ عَرَب کا بادشاہ ایک شخص بنے گا۔ جو مجھ سے یا میرے گھر والوں سے ہے اس کا نام میرے نام کی طرح ہوگا اور اس کے باپ کا نام میرے والد کے نام کی طرح ہوگا وہ زمین کو انصاف سے بھردے گا ۔(ابوداؤد،۴/۱۴۴،حدیث:۴۲۸۲، ۴۲۸۳ملخصاً) اس حدیثِ پاک سے یہ بات بھی واضح طور پر معلوم ہوئی کہ حضرت امام مہدی (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ)ابھی پیدا نہیں ہوئے بلکہ پیدا ہوں گے ۔( مراٰۃ المناجیح،۷/۲۶۶ملخصاً) امام مہدی والد کی طرف سے حَسَنی سیّد(یعنی حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد)اور والدہ کی طرف سے حُسَینی(یعنی حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد) ہوں گے ۔ آپ کے اُصول (یعنی ماں، دادی، نانی وغیرہ اُوپر تک) میں کوئی والدہ حضرت عباس کی اولاد سے ہوں گی لہٰذا آپ”حسنی“بھی ہوں گے، ”حسینی“ بھی اور ”عباسی“ (یعنی حضرت عباسرَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد سے) بھی۔( مراٰۃ المناجیح، ۷/۲۷۴ملخصاً) حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ اخلاقاور عادتوں میں ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرح ہوں گے مگر شکل وصورت میں پورے ملتے جُلتے نہ ہوں گے لیکن کچھ کچھ نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شکل سے ملتےہونگے۔( مراٰۃ المناجیح،۷/۲۷۴ملخصاً( جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مہدی مجھ سےہے، چوڑی پیشانی(wide forehead) والے، اُونچی ناک والے،سات سال سلطنت(یعنی حکومت) کرےگا۔( ابوداؤد،۴/۱۴۵، حدیث:۴۲۸۵مختصراً)علماء فرماتے ہیں:حُضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی جیتی جاگتی تصویر (ہوں گے) کہ چوڑی پیشانی اور اونچی ناک شریف یہ دونوں باتیں حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ہیں۔( مراٰۃ المناجیح، ۷/۲۶۶ ملخصا) حضرت عبدُ اللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہما کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:(امام) مہدی تشریف لائیں گے اور ان کے سر پر عِمامہ ہوگا۔ ایک آواز دینے والا یہ آواز دے گا کہ یہ مہدی ہیں جو اللہ پاک کے خلیفہ ہیں،لہٰذا تم ان کی پیروی(follow) کرو۔( الحاوی للفتاویٰ، ۲/۷۳)
232 ’’کوئی صدقہ نہ لے گا‘‘
قیامت کے قریب ایک شخص اپنے امام کے پاس آکر کہے گا کہ مجھے کچھ دیجئےتو اُس وقت کے امام مُٹھی بھر بھر کر اُس کے کپڑے میں جو چاہیں گے ڈالنا شروع کر دیں گے یہاں تک کہ کپڑے میں اتنا مال ڈال دینگے جتنا وہ شخص اُٹھا سکے۔ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بارے میں اس طرح کا واقعہ بیان فرمایا (ترمذی،۴/۹۹,حديث:۲۲۳۹ ماخوذاً) ۔جب دجاّل آئے گا تو اس وقت امام مہدیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، مسلمانوں کے امام بن چکےہونگےاور دجاّل کی موت کے بعد جب زمین اپنے خزانے(treasures) نکال دے گی ،اُس وقت یہ واقعہ ہوگا۔ حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے طریقے پر(on the way) ہونگےیہ سخاوت (اور اس طرح دینے ) کا انداز بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا طریقہ ہے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ ہمارے نبی بلکہ نبیوں کے نبی، آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو اتنامال دیا کہ سامان سے بھری ہوئی گٹھڑی(bag) ان سے اٹھائی نہ جا سکی۔(مراٰۃ المناجیح،۷/۲۶۷ ماخوذاً) امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے وقت میں اتنا مال ہو گا کہ آسانی سے کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملے گا۔(مراٰۃ المناجیح، ۳/۷۲ملخصا) جیسا کہ حضرت حارثہ بن وہبرَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ کوئی شخص اپنا صدقہ لے کر نکلے گا تو کوئی لینے والا نہ ملے گا ،آدمی کہے گا کہ اگر تم کل لاتے تو میں لے لیتا آج مجھے اس کی ضرورت نہیں۔(بخاری، ۱/۴۷۶، حدیث:۱۴۱۱، مسلم،حدیث:۲۳۳۷،ص۳۹۲) قیامت سے پہلے ہونے والے ان حالات (conditions)سے پتا چلاکہ انصاف کے ساتھ دین و دنیا کا نظام (system)چلانے والوں کی بہت برکتیں ہیں،حضرت امام مہدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے وقت میں بہت برکت ہوگی۔
233 ’’دجاّل كا ظلم ‘‘
جبدجّال آئے گا تو طرح طرح کے جادو دکھا کرلوگوں کا ایمان برباد کرنے (یعنی غیر مسلم بنانے)کی کوشش کرے گا، دجّال کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں کا بہت سارا سامان ہوگا، دجّال کو ماننے والوں کے علاوہ باقی لوگ سخت تکلیف(troubles) میں ہوں گے۔دجّال کے ساتھ دو(2) نہریں ہوں گی جن میں سے ایک (1st )کو جنّت اور دوسری(2nd )کو دوزخ کہے گا۔ اور اصل میں جسے وہ جنّت کا نام دے گا وہ دوزخ ہوگی اور جسے وہ دوزخ کا نام دے گا وہ جنّت ہوگی، اس کے کہنے پر آسمان سے بارش(rain) ہو گی۔ دجّال زمین کو حکم دے گا تووہ سبزے(پھل، سبزی وغیرہ) اُگائے گی، آسمان پانی برسائے گا اور اُس جگہ کے جانور لمبے چوڑے خوب تیار اور دودھ والے ہوجائیں گے اور ویرانے(deserted place) میں جائے گا تو وہاں کی قبر وں کے مردےشہد کی مکھیوں کی طرح اس کے ساتھ ہوجائیں گے۔ اِسی قسم کے بہت سے کام دکھائے گا اور حقیقت(یعنی اصل) میں یہ سب جادو ہوگا،اِسی لیے اُس کے وہاں سے جاتے ہی لوگوں کے پاس کچھ نہ رہے گا۔(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱ ۱۲ بتغیر) دجّال کی ایک آنکھ ہوگی اور ایک اَبر و(eyebrow) بالکل نہ ہو گی بلکہ وہ جگہ ہموار(smooth) ہوگی اور وہ ایک آنکھ والا ہوگا۔ وہ ایک بڑے گدھے پر سوار ہو گا اور اس کی پیشانی (forehead)کے درمیان ’’ ک۔ف ۔ر‘‘(یعنی کافر) لکھا ہو گا جسے صرف مسلمان پڑھ سکیں گے۔ دجّال کے ساتھی ایک مسلمان کو لے کر آئیں گے وہ مسلمان اللہ پاک پر یقین رکھنے والا، سچا مسلمان ہوگا، وہ دیکھتے ہی کہہ دے گا کہ لوگو! یہ تو دجّال ہے جس کے بارے میں اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے بتایا تھا۔ یہ سن کر دجّال حکم دے گا کہ اس کو لٹاکر اس کا سر توڑ دو۔اُ س کے ساتھی ایسا ہی کریں گےپھر دجّال اس کا سر صحیح کر کے پوچھے گا: کیا تومجھ پر ایمان نہیں لاتا ہے؟(یعنی مجھے خدا مان لے) مسلمان جواب دے گا کہ تو ”جھوٹا “ہے۔ پھر دجّال کے حکم سے سر سے پاؤں تک اس کے دو (2)ٹکڑے(pieces) کیے جا ئیں گے۔ دجّال دونوں ٹکڑوں کے درمیان چلے گا اور کہے گا: اٹھ۔ وہ مسلمان اٹھ بیٹھے گا۔ دجّال پھر کہے گا: کیا تو مجھ پر ایمان لاتا ہے؟ مسلمان جواب دے گا: اب تو مجھےیقین(believe) ہو گیا کہ تو ”جھوٹا دجّال “ہے اور کہے گا: اے لوگو! میرے بعد یہ کسی اور سے ایسا نہ کر سکے گا۔اب دجّال اسے ذبح(slaughter) کر نا چاہے گا مگر نہ کر سکے گا اور اسے اپنی دوزخ میں پھینک دے گا مگر وہ اس مسلمان کے لئے جنّت ہو جائے گی۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ مومن اللہ پاک کے نزدیک بڑا شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں قتل(murder)ہونے والا) ہوگا۔ (مسند امام احمد، ۵/۱۵۶، حدیث: ۱۴۹۵۹ مع سیرت رسول عربی ص۵۲۳ تا ۵۲۴ مُلخصاً) مستقبل(future) میںہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ایمان کی بہت اہمیّت (importance) ہے، جسے اللہ پاک ایمان کی حفاظت(protection of faith) کا ذہن اور مضبوط (strong) ایمان دے دے وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ہمیں اللہ پاک سے ایمانِ کامل کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
234 ’’ قیامت کے قریب دجال آئے گا‘‘
قِیامت قریب ہونے کی بڑی نشانیوں (signs)میں سے ایک نشانی”دَجّال کا آنا“ بھی ہے، دجّال کا فتنہ (فساد، تباہی) سب سے خطرناک(dangerous) ہوگی کہ جب سے انسان بنے اور قیامت تک جو ہونگے،ان میں اس طرح کی تباہی (یعنی دین سے دور کرنے والی حالت(condition)) نہ پہلے ہوئی اور نہ بعد میں ہوگی۔اور یہ تباہی کتنی خطرناک ہوگی اس بات کا اندازہ (guess)اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہر ایک نبی عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی اپنی اُمّت کو دجّال کے فتنے سے ڈرایا تھا۔(ترمذی: ۴/۱۰۱، حدیث: ۲۲۴۱مُلخصاً) دجّال کا مطلب ہے ”بہت زیادہ جھوٹا شخص “کیونکہ” دجّال “بہت بڑا جھوٹا ہوگا، شروع میں تو یہ نیک مسلمانوں جیسے کام کرے گا اور لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے گا لیکن پھر وہ کہنا شروع کر دے گا کہ میں ”نبی “ہوں(حالانکہ (although) ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد اب کوئی” نیا نبی“ آہی نہیں سکتا کہ ہمارےآقا، اللہ پاک کے آخری نبی ہیں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) اور اس کے بعد وہ یہ کہنے لگے گا کہ میں تمھارا ”خدا“ہوں، مشہور ہے کہ اس کا تعلق یہودیوں سے ہوگا۔(فتح الباری، ۱۴/۷۸، التذکرۃ لقرطبی، ص ۶۰۷، مراٰۃ المناجیح، ۷/۲۷۶) یہ یقین (believe)رکھنا ضروری ہے کہ: قیامت کے قریب دجّال آئے گا ۔ (التذکرۃ لقرطبی، ص ۶۱۲ مخلصاً) مختلف حدیثوں میں دجّال کا حُلیہ (شکل و صورت وغیرہ کا)بتایا گیا ہے ان کے مطابق دجّال ایک لمبےقد والاجوان مرد ہوگااور ایک آنکھ والا ہوگا۔ اس کا سینہ(chest) چوڑا اور ذرا سا اندر کی طرف ہوگا، دجّال کی پیشانی چوڑی (wide forehead) ہوگی اور دونوں آنکھوں کے درمیان:: ك ۔ف۔ ر۔ یعنی ” کافر“ لکھا ہوا ہوگا جسے ہر مسلمان پڑھ سکے گا چاہے اسے پڑھنا آتا ہو یا نہ آتا ہو اور اس کے بال گھنگھریالے(curly) ہوں گے۔ (بخاری، ۴/۴۵۰، حدیث:۷۱۲۸، مسلم،ص۱۱۹۹،حديث:۷۳۶۴، ۷۳۶۷، التذکرۃ لقرطبی، ص ۶۴۰مُلخصاً) دجّال کے نکلنے سے پہلے دنیا کی بہت بُری حالت(condition) ہوگی جیساکہ حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ اس کے نکلنے سے تین (3)سال پہلے ہی دنیا میں بارش(rain) ، پھل وغیرہ کی کمی ہو جائے گا، پہلے سال آسمان سے جتنی بارش ہوتی ہے اور زمین سے جتنا پیدا ہوتا ہے، اس سے تہائی(33% یعنی 1/3)کمی ہو گی، دوسرے سال دو تہائی( 66% یعنی 2/3)کمی ہو گی جبکہ تیسرے(3rd ) سال آسمان ساری بارش اور زمین ساری پیداوار روک لے گی،یہاں تک کہ آسمان شیشے کا اور زمین تانبے کی ہو جائے گی اور تمام جانور مرجائیں گے۔ خوب تباہی ہوگی اور قتل کرنا عام ہوجائے گا، آدمی ایک دوسرے کو اپنے شہروں اور ملکوں سے نکال رہے ہوں گے ۔ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ علم کی کمی بھی ہوجائے گی، دین کے معاملے میں لوگ کمزور ہو جائیں گے، عُلَماء کی تعداد بھی کم ہو جائےگی۔ تب دجّال مشرق کے ایک شہرسے نکلے گا۔ (ترمذی،۴/۱۰۲،حدیث:۲۲۴۴،مسند امام احمد،۱۰/۴۳۵،حدیث:۲۷۶۳۹، التذکرۃ لقرطبی، ص ۶۱۰، ۶۱۵مُلخصاً) دجّال کے ساتھ یہود کی فوجیں ہوں گی۔(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱ ۱۲) دجّال زمین پر چالیس(40) دن رہے گا جن میں سے ایک(1) دن ایک سال کے برابر، ایک دن ایک مہینے کے برابر اور ایک دن ایک ہفتے کے برابر جبکہ بقیہ(37) دن سال کے عام دنوں کی طرح ہوں گے۔( مسلم، ص۱۲۰۰، حدیث: ۷۳۷۳ مُلخصاً) دجّال اپنے گدھے پر سُوار ہو کر ساری دنیا کا چکر لگائے گا، گدھے کا جسم اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے دونوں کانوں کےدرمیان کا فاصلہ(distance) چالیس ہاتھ (20گز)کے برابر ہوگا اور اس کے گدھے کی رفتار(speed) ایسی ہوگی کہ ایک قدم(one step) اُٹھائے گا تو ایک میل کا راستہ طے کرے گا اور وہ بہت تیزی کے ساتھ سیر کریگا، جیسے کہ کسی بادل کو ہَوا اڑا کر لے جاتی ہے۔ زمین کا کوئی میدان(ground) اور پہاڑ ایسا باقی نہیں بچے گا کہ جہاں وہ نہ جائے،لیکن مکّہ پاک اور مدینہ شریف کے اندر آنے سے فرشتے روک دیں گے۔اب یہ مدینہ کے باہر ہی رکےگا اور مدینہ پاک میں زلزلے (earthquake) کے تین (3)جھٹکے(shocks) آئیں گے جن کی وجہ سے ہر کافر اور مُنافق مدینہ پاک سے بھاگ نکلے گا اور دجّال کے ساتھ مل جائے گا۔ ( مسلم،ص۱۲۰۶،حدیث:۷۳۹۰،مستدرک للحاکم،۵/۷۵۳،حدیث:۸۶۷۵، التذکرۃ لقرطبی، ص۶۱۴، ۶۱۵، ۶۱۶) دجّال کی حرکتوں (works)سے مسلمان بہت پریشان ہو کر حضرت امام مَہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے ساتھ ملکِ شام میں ہونگے مگر دجّال ساری دنیا گھوم کر مسلمان کے پیچھے، مُلکِ شام آجائےگا۔ اس وقت اہلِ ایمان(یعنی مسلمان) سخت بھوک اور تکلیف(trouble ) میں ہوں گے تب اللہ پاک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کو آسمان سے بھیجے گا، اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم آسمان سے جامع مسجد دمشق کے مینارے(minaret) پر آئیں گے، صبح کا وقت ہوگا، فجر کی نماز کے لیے اِقامت ہو چکی ہوگی(امام کے پیچھے جو نماز پڑھی جاتی ہے، اس سے پہلے جو الفاظ کہے جاتے ہیں، اُسے اقامت کہتے ہیں)پھر آپ عَلَیْہِ السَّلاَم حضرت امام مَہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کو امامت کا حکم دیں گے تو امام مَہدی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نماز پڑھائیں گے۔حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے سانس کی خوشبو سے دجّال ایسے پگھلے( meltہو)گا جیسے پانی میں نَمک گُھل(dissolve ہو) جاتا ہے اور آپ عَلَیْہِ السَّلاَم کی خوشبو اتنی دور تک جائے گی جہاں تک نظر جاتی ہے، آپ اس کا پیچھا کریں گے اور دجّال کو قتل کر دیں گے بلکہ اس کے ماننے والوں میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے۔ (مسند امام احمد،۵/۱۵۶، حدیث:۱۴۹۵۹، مسلم،ص۱۲۰۰،حدیث:۷۳۷۳ مع بہارِ شریعت ، ح۱، ص۲۱۲بتغیر)
235 ’’حضرت مریم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا‘‘
حضرت عِمران بن ماثان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بنی اِسرائیل کے سرداروں، بادشاہوں اور عُلَما کے خاندان(family) سے تھے۔ حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَامان کی بیوی کی بہن کے شوہر تھے۔ حضرت عِمران رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی کوئی اولاد نہ تھی اور عمر زیادہ ہوگئی تھی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بیوی(wife)حضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا ایک مرتبہ ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھیں کہ ایک پَرندے پر نظر پڑی جو اپنے بچوں کو دانہ کھِلا رہا تھا۔ اس سے آپ کے دل میں اولاد کا شوق اور زیادہ ہوگیا۔
پہلے ایمان والے(یعنی مسلمان) ،اپنی اولاد کو اللہ پاک کے برکت والے گھر بیت ُالْمُقدس کی خدمت (یعنی وہاں کے کام، صفائی وغیرہ)کے لیے دے دیتے تھے(’’ بَیْتُ الْمَقْدِس‘‘ایک مُلک فلسطین میں موجود ’’ مسجدِ اقصیٰ ‘‘کا نام ہے، جس طرف منہ کر کے پہلے نماز پڑھی جاتی تھی مگر اب قیامت تک کعبہ شریف کی طرف ہی نماز پڑھی جائے گی) کہ وہ بچے اپنی زندگی اس برکت والی مسجد کی خدمت (service)میں گزار دیتے، اس طرح بچے وقف کیے جاتے اور نذر مانی جاتی یعنی اللہ پاک کے لیے اپنے اوپر لازم کر لیا جاتا کہ ہماری اولاد اس مسجد کے لیے ہے۔اسی طرح حضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا نے اللہ پاک سے عرض کی:اے اللہ ! میں تیرے لیے نَذْر مانتی ہوں کہ اگر تُو نے مجھے اولاد دی تَو میں اُسے ’’ بیت ُالمقدس ‘‘کے لیے وَقْف کر دوں گی تاکہ وہ اس کی خدمت کرے۔(تفسير الخازن،پ٣، آلِ عمران، تحت الآية: ٣٥، ١ / ٢٤٠، ملتقطًا)
پھر جب اُن کے گھر بچّی کی پیدائش(birth) ہوئی تو بہت پریشان ہوئیں۔اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : اور وہ لڑکا (جس کی خواہش (desire)تھی) اس لڑکی جیسا نہیں (جو اسے دی گئی) اور (اس نے کہا کہ) میں نے اس بچی کا نام مریم رکھا اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر (یعنی نقصان پہچانے)سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (پ٣، آلِ عمران:٣٥مُلخصاً) (ترجمہ کنز العرفان مع صراط الجنان)
ابحضرت حَنَّہرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا اپنی نَذْر(منّت) پوری کرنے کے لیے انہیں ’’ بیت ُالمقدس ‘‘لے کر آئیں۔ وہاں موجود علماء کرام سب چاہتے تھے کہ اس بچّی کو میں پالوں(raising this baby)۔ حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَامان سب کے امیر اور اس بچی کے خالو (uncle)تھے، اُن کا کوئی بچہ بھی نہ تھا،وہ چاہتے تھے کہ یہ بچی مجھے دی جائے۔ یہ طے (settled)ہوا کہ سب اُردن شہر کی نہر(canal) جائیں گے اور سب ایک ایک قلم(pen) نہر میں ڈالیں گے تو جس کا قلم نہیں ڈوبے (drowned نہ ہو)گا تو وہ اِ س بچّی کو پالے گا۔ سب نے قلم ڈالا، حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَام کے علاوہ سب کے قلم ڈوب گئے۔ اب آپ بڑی محبّت سے بچّی کو لے گئے۔
حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت مریمرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا کو ایک کمرے میں رکھا ،جہاں اُ ن کے علاوہ اور کوئی نہ جاتا تھا۔ کھانے پینے کی چیزیں آپ عَلَیْہِ السَّلَام خود لے کر جاتے تھے لیکن آپ وہاں بے موسم (یعنی گرمی کے موسم میں سردی کے اور سردی کے موسم میں گرمی )کے پھل دیکھتے تو ایک مرتبہ اُن سے پوچھا، ترجمہ (Translation) : اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ اللہ کی طرف سے ہے، بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔ (پ٣، آل عمران:٣٧) (ترجمہ کنز العرفان) حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَام سمجھ گئے کہ یہ جگہ برکت والی ہے پھر( ترجمہ۔ Translation:) وہیں(حضرت) زکریا (عَلَیْہِ السَّلَام)نے اپنے ربّ سے دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے ربّ! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعاسننے والا ہے۔(پ٣، آل عمران:٣۸) (ترجمہ کنز العرفان) اس دعا کے بعد اللہ پاک نے حضرت زَکَریَّا عَلَیْہِ السَّلَام کو حضرت یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام جیسا بیٹا دیا۔(فیضان مریم ص۳ تا ۱۴ مُلخصاً)
اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک اپنے نیک بندوں اور نیک بندیوں پر خاص رحمت فرماتا ہے۔ان کی دعائیں قبول(accept) ہوتی ہیں بلکہ ان کے قریب رہ کر دعا کی جائے تو وہ بھی قبول ہوتی ہیں۔
تَعَارُف(Introduction):
حضرت مریمرَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ ہیں۔(پ۲۱، سورۃ الاحزاب،آیت۳۶۳مُلخصاً)اور جنّت میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نکاح میں ہوں گی۔ (معجم كبير،ج ۲۲،ص۴۵۱، حديث:۱۱۰۰ مُلخصاً) مریم کا معنی ہے عبادت کرنے والی خاتون۔(بغوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱ / ۲۲۷مُلخصاً) ۔ قرآنِ پاک میں آپ کے نام کے علاوہ مُختلف طرح آپ کا ذکر ہے:(۱) مُحَرَّرَہ (آزاد) ،(۲ )مُصْطَفَاۃ (چنی ہوئی۔ selected)، (۳ ) مُطَهَّرَہ (پاکیزہ) ، (۴) قَانِتَہ (فرمانبردار) ،(۵ ) سَاجِدَہ (سجدہ کرنے والی)،( ۶ )رَاکِعَہ (رُکوع کرنے والی)، (۷) مُحْصِنَہ (پارسائی کی حِفَاظت کرنے والی) ،(۸)اٰیَة (نِشانی)،(۹ ) اُمّ (ماں) ،( ۱۰ )صِدِّیْقَہ(بہت سچی)، (۱۱)وَالِدَہ (ماں) ،(۱۲)بِنْتِ عِمْرَان (عمران کی بیٹی) ۔(فیضان مریم ص۶۳ تا ۶۲ بالتغیر)
اللہ پاک کی ولیّہ رَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا کی شان:
حدیث ِ پاک میں ہے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےجنّتی عورتوں کی سردار خواتین کے نام بتائے، اُس میں ایک نام حضرت مریم رَحۡمَۃُ اللہِ عَلَیۡہَا کا بھی تھا۔(كنز العمال، کتاب الفضائل، ١٢/٦٥، الحديث:٣٤٤٠١مُلخصاً)
236 ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام آسمان پر‘‘
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے جب یہودیوں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا تو یہودی یہ بات اپنی کتاب’’ تورات شریف ‘‘میں پہلے سےپڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے آنے پر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کےدین پر عمل کیا جائے گا اور ہمارے دین پر عمل ختم ہو جائےگا، اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے۔ یہودیوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے قتل کا ارادہ کر لیا(planning کر لی) اور ایک شخص کو آپ کے گھر میں آپ کو شہید(یعنی قتل) کرنے کے لئے بھیجا اور کئی یہودی باہر کھڑے رہے۔ اللہ پاک نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف بھیجا۔وہ انہیں لے کر آسمان کی طرف آگئے۔ جس آدمی کو حضرت عیسی ٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس بھیجا تھا ، وہ بہت دیر تک گھر میں حیران،پریشان (surprised) رہا۔جب وہ باہر نہیں نکلا تو باقی یہودی مکان کے اندر آگئے۔ اللہ پاک نے اُس پہلے شخص کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی شکل کا بنا دیا تو یہودیوں نے اپنے ساتھی ہی کو قتل کردیا۔ اس کے بعد جب انہوں نےغور سے دیکھا تو صرف چہرہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی طرح تھا لیکن سارا جسم اُس ساتھی کی طرح کا تھا تو اس کے خاندان والوں نے کہا کہ اگر یہ (حضرت) عیسیٰ ہیں تو ہمارا آدمی کہاں گیا؟ اور اس بات پر خود یہودی ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ (عجائب القرآن ص ۷۶ مُلخصاً) اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا، ترجمہ (Translation) : انہوں نے نہ تواسے(یعنی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو) قتل کیا اور نہ اسے سولی (crucifixion) دی بلکہ ان (یہودیوں ) کے لئے (عیسیٰ سے ) ملتا جلتا (ایک آدمی)بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر(یعنی لڑ) رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ(یعنی شک) میں پڑے ہوئے ہیں ( حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان(guess) کی پیروی(follow) کے ان کواس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ (پ۳،آل عمران:۵۴،۵۵مُلخصاً) اس سچے واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے، وہ اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی حفاظت (protection) کرنے والا ہے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی جو بھی شان ہے، سب اللہ پاک ہی کی طرف سے ہیں وہ ہمارے سردار اور اللہ پاک کےنیک بندے ہیں ۔
237’’ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام آئیں گے‘‘
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں چند ضروری عقیدے(beliefs) :
اللہ پاک نے آپ عَلَیْہِ السَّلاَم کو زندہ آسمان پر اُٹھالیا ہے اورآپ عَلَیْہِ السَّلاَم کے پاس اب تک موت حاضرنہیں ہوئی(یعنی آپ زندہ ہی آسمان پر چلے گئے)۔قیامت سے پہلےآپ عَلَیْہِ السَّلاَم دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔
پہلی بات:حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کو نہ تو شہید(یعنی قتل)کیا گیا اور نہ ہی پھانسی (hanging) دی گئی بلکہ اللہ پاک نے آپ کو زندہ ہی آسمان پر اُٹھالیا۔ دوسری بات: جو شخص یہودیوں کو آپ کاپتا بتانے کے لئے آپ کے گھر میں گیا تھا اللہ پاک نے اسے آپ کا ہم شکل(same face) بنادیا۔یعنی اس شخص کا چہرہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم جیسا ہوگیا جبکہ اس کے ہاتھ پاؤں آپ کےہاتھ پاؤں سے مختلف(different) تھے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے دھوکے میں اسی شخص کو پھانسی پرچڑھا دیا۔یہ دونوں عقیدے(beliefs) دینِ اسلام کے بنیادی اور ضروری عقائد میں سے ہیں جن کا انکار(denial) کرنے والا کافر ہے۔( فتاویٰ حامدیہ، ص۱۴۰ ملخصاً، تفسیر مدارک، النسآء، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۲۶۳، ۲۶۴)
یہ عقیدہ(belief) رکھنا ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم قیامت کے قریب آسمان سے اُتر کردنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گےاور ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دین کو پھیلائیں گے۔اس عقیدے(belief) کا انکار(denial) کرنے والا گمراہ اور بدمذہب (یعنی جہنّم میں لے جانے والا عقیدہ رکھنے والا )ہے کیونکہ ہمار ے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بہت سی حدیثیں ،اس بارے میں موجود ہیں ۔( فتاویٰ حامدیہ، ص۱۴۲ ملخصاً)
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام دجاّل و خنزیر(pigs) کو قتل فرمائیں گے اور صلیب(the cross) کو توڑیں گے اور سات (7)سال تک دنیا میں انصاف کا نظام(justice system) بنا کر وفات پائیں گے اور مدینہ پاک میں ہرے گنبد (dome)کے اندر، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہی دفن (buried)کئے جائیں گے۔
(تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۴۲۷،پ۳، آل عمران: ۵۷مُلخصاً)
ضروری وضاحت:
قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کادنیا میں دوبارہ تشریف لانا حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کے خلاف (against) نہیں ہے کیونکہ وہ سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نائب (deputy)کے طور پرتشریف لائیں گے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعلیمات (teachings)کے مطابق دین کے حکم بتا ئیں گے۔ اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُمّت میں سے ہوں گے۔( خصائصِ کبریٰ، ۲/۳۲۹)
تمام اہلِ کتاب(عیسائی اور یہودی) جو قتل سے بچیں گے سب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم پر ایمان(believe) لائیں گے۔ تمام جہان میں صرف ایک دین یعنی دینِ اسلام ہی ہوگا اور مذہب صرف ایک مذہبِ اہلِ سنّت ہوگا۔ (مسند امام احمد،۵/۱۵۶، حدیث:۱۴۹۵۹، مسلم،ص۱۲۰۰،حدیث:۷۳۷۳ مع بہارِ شریعت ، ح۱، ص۲۱۲بتغیر)
238 ’’دنیا کی سب سے بڑی دیوار‘‘
کئی ہزار سال پہلے ساری دنیا پر اللہ پاک کے ایک نیک بندے اورولی کی حکومت( rule)تھی، اُن کا نام ’’اِسْکَنْدَرْ‘‘ہے اور انہیں ’’ذُوْ الْقَرْنَیْن‘‘ بھی کہتے ہیں، یہ اللہ پاک کے نبی حضرت خِضْر عَلَیْہِ السَّلَام کے خالہ زاد بھائی (cousin) ہیں (صاوی،ج ۴،ص ۱۲۱۴مع نسفی ، ص۶۶۱) ۔ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ شُمال (north ) کی طرف سفر کے دوران ایک مُلک تُرْکِستان کے پہاڑوں میں پہنچے، اِن پہاڑوں کی ایک طرف(side) کچھ خطرناک(dangerous) لوگ ’’یاجوج ماجوج‘‘رہتے تھے، اور دوسری طرف(on the other hand) ایک اور قوم رہا کرتی تھی۔ اُس قوم کے لوگوں نے حضرت ذُوْ الْقَرْنَیْن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے یاجوج ماجوج کی شکایت کی اور ساتھ ہی آپ کو مال دیتے ہوئے ایک مضبوط دیوار(solid wal) بنانے کا کہاتاکہ یاجوج ماجوج ہمارے پاس نہ آئیں ۔(ماخوذا زصراط الجنان، ج۶،ص ۳۴ مُلخصاً)یاجوج ماجوج انسان ہیں، کافر ہیں اور آج بھی زندہ ہیں۔یہ جس چیزکے پاس سے گزرتے تھے، اسے کھاجاتے تھے۔جب ہر طرف پھل پھول آجاتے تو یہ باہر نکل کر کھاجاتے اور دوسری چیزیں اٹھاکر لے جاتے تھے۔اِن کے ہاتھ اور دانت جانوروں کی طرح ہیں اور اِن کے بال اِتنے لمبے ہیں کہ جسم پر کپڑوں کی طرح ہیں۔(صاوی ،ج ۴،ص۱۲۱۸ ماخوذاً) حضرت ذوالقرنین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے قوم سے مال نہیں لیا اور ان کی مدد کرنے کے لیے فرمایا : مجھے تمہارا مال نہیں چاہیے، بس میرے ساتھ مل کر دیوار بناؤ! اب آپ نے پتّھروں کے سائز کے لوہے کے ٹکڑے (pieces of iron)منگوائے اور زمین کھودنے(digging ) کا حکم دیا ، جب پانی نکل آیا تو آپ نے پہلے پتّھر رکھوائے اور پگھلے ہوئے تانبے(melt copper) کو اوپر ڈال دیا ، اِس کے بعد لوہے (iron)کے ٹکڑے ڈالے اور پہاڑ جتنی دیوار بنا دی اور کوئلہ(coal) بھر کر آگ لگادی، پھر اوپر سے بھی پگھلا ہوا تانبا (melt copper)دیوار میں ڈال دیا اور ایک مضبوط دیوار(solid wal) بنادی ۔(ماخوذ ازصراط الجنان ،ج ۶،ص۳۶ مُلخصاً)حدیث شریف میں کچھ اس طرح ہے : بیشک یاجوج ماجوج روزانہ دیوار توڑتے رہتے ہیں، جب وہ مکمل ٹوٹنے کے قریب ہوتی ہے تو انہیں سورج کی روشنی نظر آ تی ہے، اِتنے میں اُن کا بڑا کہتا ہے: چلو! باقی کل توڑیں گےتو (اگلے دن next day) اللہ پاک اس دیوار کو پہلے سے بھی مضبوط(strong) بنادیتا ہے۔ جب اللہ پاک انہیں لوگوں کے سامنے لانا چاہے گا تو اُس دن جب وہ سورج کی روشنی دیکھیں گے تو اُن کا بڑا کہے گا : چلو! اِنْ شَآءَ اللہ ! باقی کل توڑیں گے۔ جب وہ اگلے دن( day next)آئیں گے تو(اِنْ شَاءَ اللہ یعنی” اللہ پاک نے چاہا تو ‘‘ کہنے کی برکت سے)دیوار اُتنی ہی ہوگی جتنی چھوڑ کر گئے تھے، یوں وہ باقی (rest)دیوار توڑ کر باہر آجائیں گے۔(ابن ماجہ ،ج ۴،ص۴۰۹، حدیث : ۴۰۸۰) اور زمین میں بہت قتل کریں گے،یہ سب قیامت کے قریب ہوگا۔ حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ا ِن کےلئےموت کی دعا فرمائیں گے تو اللہ پاک اِن کی گردنوں (necks )میں کیڑے(insects)پیدا فرمائے گا جس سے یہ فوراً مرجائیں گے۔(ماخوذ از بہار شریعت ،ج۱،ص۱۲۵) اس حكايت سے پتا چلا کہ زمین میں ظلم کرنے والوں کا اَنجام (result)اچھا نہیں ہوتا۔ اللہ پاک جو چاہے وہ کر سکتا ہے ۔مزید یہ بھی پتاچلا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا، بڑے سے بڑا کام کر دیتی ہے۔
239 ’’ایک خطرناک (dangerous)قوم ‘‘
دجّال کے قتل کے بعدحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کو اللہ پاک کی طرف سے حکم ہوگا کہ مسلمانوں کو کوہِ طور (ایک پہاڑ)پر لے جاؤ، اس لیے کہ کچھ ایسے لوگ آئیں گے کہ جن سے لڑنے کی کسی کوطاقت نہیں۔ مسلمانوں کےکوہِ طور پر جانے کے بعد یاجُوج و ماجُوج دنیا میں آجائیں گے، یہ اتنے زیادہ ہوں گے کہ ان کی پہلی جماعت ایک بہت بڑے سمندر (sea)کی طرف آئے گی، اُس کا پانی پی کر اس طرح سُکھادے گی کہ بعد میں آنے والی دوسری جماعت کہے گی: کہ یہاں کبھی پانی تھا ہی نہیں!۔ پھر یہ دنیا میں خوب قتل کریں گے یہاں تک کہ یہ کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو تو قتل کرلیا، آؤ اب آسمان والوں کو قتل کریں، یہ کہہ کر اپنے تیر(arrow) آسمان کی طرف پھینکیں گے، اللہ پاک کے حکم سے اُن کے تیر اوپر سے خون والے ہو کر گریں گے۔ یہ اپنی اِس طرح کی حرکتوں(movements) میں مصروف(busy) ہوں گے اور دوسری طرف(on the other hand) پہاڑ پر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم مسلمانوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ پاک کے کرم سے یہ ان تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت(condition) یہ ہوگی کہ ان کے لیےگائے کے سر (cow head)کی قیمت ایسی ہوگی جو آج ہمارے نزدیک سو (100)سونے کے سکّوں (gold coins)کی ہوتی ہے ۔اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم اپنے ساتھ موجود مسلمانوں کے ساتھ مل کر دُعا کریں گے،آپ عَلَیْہِ السَّلاَم کی دعا کی برکت سے اﷲ پاک یاجوج ماجوج کی گردنوں میں ایک قسم کےکیڑے پیدا کر دے گا جس سے وہ سب کے سب فوراً ہی مر جائیں گے، اُن کے مرنے کے بعد حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم پہاڑ سے اُتریں گے، دیکھیں گے کہ تمام زمین اُن کی لاشوں (یعنی مرے ہوئے جسموں) اور بدبُو سے بھری ہوئی ہے، تھوڑی سی جگہ بھی زمین کی خالی نہیں۔ اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم اپنے ساتھ موجود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک مرتبہ پھر دُعا کریں گے، اﷲ پاک ایک قسم کے پرندے(a kind of bird) بھیجے گا کہ وہ انکی لاشوں کو جہاں اﷲ پاک چاہے گا پھینک آئیں گے اور اُن کے تیر اور سامان کو مسلمان سات (7)سال تک جلائیں گے(will burn)، پھر اُس کے بعد بارش ہو گی کہ زمین ہموار (smooth) ہو جائے گی اور زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل اُگائے اور اپنی برکتیں نکال دے اور آسمان کو حکم ہوگا کہ اپنی برکتیں زمین میں اُتار دےتو یہ حالت (condition) ہوجائے گی کہ ایک انار(pomegranate) کو مسلمانوں کا ایک گروہ(group) کھائے گا اور اُس کے چھلکے (peels)کے سائے (shadow)میں دس (10)آدمی بیٹھیں گے اوردودھ میں یہ برکت ہوگی کہ ایک(1) اونٹنی کا دودھ، ایک گروہ (group) کو کافی (enough)ہوگا اور ایک (1) گائے کا دودھ، قبیلہ (tribe) کو اور ایک (1) بکری کا، خاندان (family)کو پورا ہو جائے گا۔ ( بہار شریعت ،ج۱،ص۱۲۴،۱۲۵ ماخوذ اً)
240 ’’ایک دن سورج مغرب سے آئے گا ‘‘
یاجوج وماجوج کے مرنےکے ایک عرصے(period) بعد ایک بڑا دُھواں(smoke) آسمان سے آئے گا اور چالیس(40)دن تک ر ہے گا،جس سے مسلمانوں کو نزلہ (flu)ہو جائے گا لیکن سب غیر مسلم بےہوش ہوجائیں گے۔ (تفسیر طبری ،الدخان، تحت الآیت: ۱۰۔۱۱، حدیث : ۳۱۰۶۱، ج ۱۱، ص ۲۲۷) اس کےکچھ دنوں بعد ایک ایسی رات آئے گی جو بہت لمبی ہو جائے گی، بچے رونا شروع کر دیں گے، مسافرپریشان ہو جائیں گے اور جانور بے چین ہو جائیں گے ، سب لوگ رو رو کر تو بہ کرنے لگیں گے یہاں تک کہ اتنا وقت گزر جائے گا ، جس میں تین (3)یا چار(4) راتیں گزر جاتی ہیں تو سورج مغرب(west) سے تھوڑ ی سی روشنی کے ساتھ نکلے گا اور غروب(sunset) ہوجائے گاپھر معمول کے مطابق(as usual) سورج مشرق (east) سے نکل جائے گا۔ (درمنثور ، الانعام :۱۵۸، ۳/۳۹۲۔۳۹۷مُلخصاً) سورج ہر وقت اللہ پاک کو سجدہ کر رہا ہو تا ہے اور اسی حالت(condition) میں آگے چلتا رہتا ہے (پ ۲۳، سورۃ یسین ،آیت ۳۸ مع بخاری ، ۲/ ۳۷۸ ، حدیث: ۳۱۹۹ماخوذاً) ۔اس کا چلنا قیامت تک ہے، یہ ہر وقت اللہ پاک سے آگے بڑھنے کی اجازت بھی مانگتا رہتا ہےمگر قیامت کے قریب آگے بڑھنے کی جگہ پیچھے بھیج دیا جائے گا(صراط الجنان،جلد۸،ص۲۵۱ معمراٰۃ المناجیح،۷/۲۸۰ اخوذاً)۔ جیسا کہ حضرت اَبُوذرغفاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج غروب ہوا تو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ پاک اور اس کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:وہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے،پھر وہ اِجازت مانگتا ہے تو اس کو اِجازت دے دی جاتی ہے(یعنی سورج ہر وقت آگے بڑھنے کی اجازت مانگتا رہتا ہے اور اسے اجازت ملتی رہتی ہے اوروہ آگے بڑھتا اور ہر ملک میں طلوع ہوتا رہتا ہے اسے واپس جانے کا حکم نہیں ہوتا مگر قیامت کے)قریب(ایک دن ایسا ہونا) ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور وہ سجدہ قبول(accept) نہ کیا جائے گا اور وہ اِجازت مانگے گا مگر(اُسےآگے جانے کی ) اِجازت نہ دی جائے گی (یہاں تک کہ تین (3)سے چار(4) رات کا وقت گزر جائے گا) اور اسے کہا جائے گا: واپس ہو جا۔ پھر سورج مغرب سے نکلے گا۔ (یعنی یہ ہر جگہ کے لیے ہوگا اور سورج ساری دنیا میں اُس جگہ سے آئے گا جہاں ڈوبتا ہے)۔ (بخاری ، ۲/ ۳۷۸ ، حدیث: ۳۱۹۹،مراٰۃ المناجیح،۷/۲۸۰،درمنثور ، الانعام :۱۵۸، ۳/۳۹۲۔۳۹۷مُلخصاً) اس کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ کافر اپنے کفر سے توبہ کرنا بھی چاہے گا تو توبہ قبول نہ ہوگی یعنی وہ غیر مسلم ہی رہے گا، مسلمان نہ ہو سکے گا۔(بہارِ شریعت ،حصہ۱،ص۱۲۶)یا گناہ گار اپنے گناہوں سے توبہ کرنا بھی چاہے گا تو توبہ قبول(accept) نہ ہوگی ۔(ہمارااسلام،حصہ۵،ص۲۹۲ مُلخصاً) قیامت کے قریب ہونے والی اس حالت(condition) سے یہ درسlesson) )ملا کہ قیامت کے آنے سے پہلے ایک وقت ایسا آئے گا کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا لیکن آج یہ دروازہ کھلا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کی نافرمانی (disobedience) سے بچیں اور اگر کبھی کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً توبہ کر لیں مگر یاد رہے کہ! توبہ وہی صحیح ہے کہ جس میں یہ پکی نیّت(firm intention) ہو کہ اب دوبارہ یہ گناہ نہیں کرنا۔
241 ’’لمبی رات کے بعد کیا ہوگا؟‘‘
قیامت سے پہلے ایک رات،تین(3) یا چار(4) راتوں کے برابر لمبی ہوگی پھر سورج مغرب(west) سے تھوڑ ی سی روشنی کے ساتھ نکلے گا اور غروب (sunset) ہوجائے گاپھر معمول کے مطابق(as usual) سورج مشرق(east) سے نکل جائے گا (درمنثور ، الانعام :۱۵۸، ۳/۳۹۲۔۳۹۷مُلخصاً)۔دوسرے دن کوہِ صَفَا( مکّے شریف میں مسجد ُ الحرام کے ساتھ ایک پہاڑ ہے، اب اُس پہاڑ کا تھوڑا سے حصّہ نظر آتا ہے، عمرہ اور حج کرنے والے یہاں آتے ہیں) زَلزلے(earthquake) سے پھٹ جائے گا اور اس سے ایک عجیب شکل(strange shape) کا جانور نکلے گا جسے دابۃ ُالا رض کہتے ہیں ۔ (سیرت رسول عربی، ص۵۲۶ تا ۵۲۷ملخصاً) دابۃ ُالا رض کے ایک ہاتھ میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی لاٹھی اور دوسرے ہاتھ میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی انگوٹھی (ring)ہو گی۔ وہ بہت تیزی سے ایک ایک کے پاس جائے گا۔ مسلمان کی پیشانی (forehead)پر حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کی لاٹھی سے ایک لکیر(line) لگا دے گا جس سے اس مسلمان کا چہرہ (face)نورانی اور خوبصورت ہو جائے گا اور غیر مسلم کی ناک یا گردن پر حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی انگوٹھی سے نشان لگائے گا جس سے اُس کا چہرہ کالا ہو جائے گا۔ (درمنثور ، النمل : ۸۲،۶/۳۷۹۔۳۸۱ ، ابن ماجہ، ۴/۳۹۳، ۳۹۴،حدیث :۴۰۶۶مُلخصاً)اس کے بعد ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس سے مسلمانوں کا انتقال ہونا شروع ہو جائے گایہاں تک کہ کوئی مسلمان باقی نہ رہے گا۔( عمدۃ القاری،۷/۱۵۵۔۱۵۶ ،تحت الحدیث: ۱۵۹۱۵)بارشیں بہت کم ہو جائیں گی اوربیماریاں عام ہو جائیں گی۔اس وقت ملک شام میں مال بہت ہوگا جس کی وجہ سے دوسرے ملکوں کے لوگ اپنے گھروالوں کے ساتھ ملک شام آجائیں گے۔ پھر ایک بڑی آگ باقی لوگوں کے پیچھے آئے گی یہاں تک کہ باقی لوگ بھی مُلکِ شام آجائیں گے پھر وہ آگ غائب ہو جائے گی۔ (مرقاۃ المفاتیح، ۹ / ۳۶۷، تحت الحدیث:۵۴۶۴ مُلخصاً) کچھ دنوں بعد جمعہ کے دن دس (10)محرم کی صبح اللہ پاک ،حضرت اِسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام کو صور پھونکنے (ایک قسم کی (a kind of) آواز نکالنے) کا حکم دے گا ، توحضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام اللہ پاک کے حکم سے صور پھونکیں گے۔ اس کی آوازشروع شروع میں تو بہت نرم ہوگی اور آہستہ آہستہ زیادہ ہوتی چلی جائے گی۔ لوگ اس کو سُنیں گے اور بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور مَرجائیں گے اورزمین و آسمان سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ (سیرت رسول عربی، ص۵۲۶ تا ۵۲۹ملخصاً) آنے والے ان حالات (conditions)سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ قیامت ضرور آئے گی اور لوگ اللہ پاک کے سامنے حاضر ہونگے،قیامت سے پہلے بہت سی نشانیاں (signs)سامنےآئیں گے جن میں کچھ آ بھی چکی ہیں مگر بڑی نشانیاں ابھی تک سامنے نہیں آئیں ۔ ہمیں چاہیے کہ نیک کام کریں اور اللہ پاک سے دعا بھی کرتے رہا کریں۔
242 ’’قیامت کیسے آئے گی؟‘‘
حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلاَم کو حکم ہوگا تو آپ ایک صور پھونکیں گے یعنی ایک آواز ہوگی کہ جو شروع شروع میں بہت ہلکی ہوگی اور آہستہ آہستہ بہت زیادہ ہو جائے گی، لوگ وہ آواز سنیں گے اور بے ہوش ہو کر گِر پڑیں گے اور مر جائیں گے۔ آسمان، زمین، پہاڑ بلکہ یہ آواز وغیر ہ بھی سب ختم ہو جائیں گےیہاں تک کہ حضرت اسرافیل اور تمام ملائکہ عَلَیْہِمُ السَّلاَم بھی انتقال فرما جائیں گے۔ ( بہار شریعت ،ج۱،ص۱۲۸ مُلخصاً) ایک گاؤں میں رہنے والے نے سوال کیا:یارسولَ اللہ! صُور کیا ہے؟ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: صُور ایک سینگ (horn)ہے جس میں پھونکا جائے گا۔(ترمذی،۵/۱۶۵،حدیث:۳۲۵۵) اس پہلی صُور میں(1)پہلے جن پر موت نہیں آئی تھی وہ سب جاندار(انسان، حیوان ، جنّ وغیرہ) مر جائیں گے۔(2)جو صور پھونکنے سے پہلے فوت ہو چکے تھے مگر ان کی روحیں ان کے جسموں میں واپس کر دی گئی تھیں جیسے انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام (کہ اُن کے پاس موت کچھ دیر کے لیے حاضر ہوتی ہے پھر وہ پہلے کی طرح زندہ ہوتے ہیں)،ان کے پاس صرف بے ہوشی حاضرہو گی۔(3)جنہیں اللہ پاک چاہے گا وہ بے ہوش بھی نہیں ہوں گے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کیونکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی ظاہری زندگی میں جب اللہ پاک کے دیدار کی خواہش(desire) سےپہاڑ(طور) پر گئے تھے تو بے ہوش ہوگئے تھے(کیونکہ دنیاوی زندگی میں جاگتے ہوئے،اللہ پاک کا دیدار صرف پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لیے تھا،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے پہلے بھی کسی نے نہیں کیا اور قیامت تک کوئی بھی نہیں کر پائے گا لھذا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام دیدار نہ کر سکے اور بے ہوش ہوگے ) اُسی بے ہوشی کے بدلے میں اللہ پاک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو قیامت کی اس بےہوشی سے بچا لے گا۔(تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید، ص ۳۸۶ملخصاً) (4) صور سے یہ چیزیں فَنا(یعنی ختم) نہیں ہوں گی:عرش، کُرسی، قلم( )، لوح( )، جنّت، دوزخ، ان دونوں میں موجود تمام چیزیں اور روحیں۔(بحر الکلام،ص ۲۱۹،البدور السافرۃ،ص۳۲) اُس وقت اللہ پاک فرمائے گا(ترجمہTranslation) : آج کس کی بادشاہی ہے؟( کنزُالعِرفان) ( پ۱۶، سورۃ المومنوں، آیت۱۶) مگر کون ہے جو جواب دے، پھر اللہ پاک خود ہی فرمائے گا (ترجمہTranslation) : ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔ ( کنزُالعِرفان) ( پ۱۶، سورۃ المومنوں، آیت۱۶) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تمہارے دِنوں میں افضل (superior) جُمعہ کا دن ہے،اسی میں صُور پھونکا جائے گا اور اسی میں پکڑ ہوگی۔( ابو داؤد ،۱/۳۹۱، حدیث:۱۰۴۷ملتقطاً) علماء فرماتے ہیں: قِیامت کا پہلا صور جمعہ کو ہوگا اور دوسرا بھی جمعہ کو ہو گا جس میں سب زندہ کیے جائیں گے اور کُفّار کے جہنّم میں جانے کےتعلق سے اللہ پاک کا غضب والا فیصلہ بھی جمعہ کو ہی ہوگا۔ خیال رہے کہ قِیامت میں نہ سورج ہوگا نہ دن رات لیکن اگر یہ ساری چیزیں ہوتیں اور دن رات کا نظام (system) ہوتاتو اس کے مطابق جمعہ کا دن ہوتا۔(مراٰۃ المناجیح،۲/۳۲۶ مُلخصاً) ایک بار صُور کے بعد دوسری مرتبہ صُور میں چالیس(40)سال کا فاصلہ (gap)ہو گا جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: دو نفخوں (یعنی دو مرتبہ صور)کے درمیان (between) چالیس(40)سال کا وقت ہے۔(البعث لابن ابی داؤد،ص۴۳، حدیث:۴۲ مُلخصاً) پھر اﷲ پاک حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلاَم کو زندہ فرمائے گا اور صور کو پیدا کرکے دوبارہ پھونکنے کا حکم دے گا، صور پھونکتے ہی تمام انسان حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم سے لے کر قیامت تک جو جو آئے، سب زندہ ہو جائیں گے اسی طرح فرشتے، جن اور جانور وغیرہ سب آجائیں گے۔( بہار شریعت ،ج۱،ص۱۲۸ مُلخصاً)اس وقت تمام روحیں اسی صُور میں جمع ہوں گی اور وہ ساری روحیں اس صُور سے نکل کر اپنے اپنے جسموں میں چلی جائیں گی۔(تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید، ص ۳۸۶ملخصاً) سب سے پہلے ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اپنے مزار شریف سے یوں باہر تشریف لائیں گےکہ سیدھے ہاتھ میں حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کا ہاتھ، اور دوسرے ہاتھ میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کا ہاتھ، پھر مدینے پاک اور مکّے پاک کے قبرستانوں(جنّت ُالبقیع اور جنّتُ المعلیٰ) میں جتنے مسلمان دفن(buried) ہیں، وہ سب آئیں گے اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سب کو اپنے ساتھ لے کر قیامت کے میدان میں تشریف لے جائیں گے۔ ( بہار شریعت ، ج۱، ص ۱۲۸ مُلخصاً) پھر ملکِ شام والے اور باقی لوگ اپنی اپنی قَبْروں سے باہر آئیں گے۔(شرح الصاوی علی جوھرۃ التوحید،ص۳۷۳) ہونے والے ان سچے واقعات سے پتا چلا کہ قیامت ضرور آئے گی اور قیامت کے بعد ہمیں اُٹھایا جائے گا پھر ہمارا حساب بھی ہے۔صرف یہ ذہن بن جائے کہ میں جو کر رہا ہوں یا کرونگا ، مجھے اس کا حساب دینا ہے تو ہر برائی سے جان چھوٹ جائے گی۔اِنُ شَاءَاللہ!
243 ’’ قیامت کے بارے میں ضروری باتیں ‘‘
قیامت کی حدیثوں میں جو جو نشانیاں (signs)بتائی گئیں وہ سب پوری ہونگی، سب نشانیوں (signs)میں سےکچھ پوری ہوچکیں اور کچھ باقی ہیں۔ قیامت کی کچھ نشانیاں بتا دی گئی ہیں اور کچھ یہ ہیں: () لوگوں پر ایک زمانہ(time) ایسا آئے گاکہ اس شخص کے سوا کسی دین والے کا دین محفوظ(safe) نہ رہے گا۔جواپنے دین کو لے کر (یعنی اس کی حفاظت کے لیے) ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ اور ایک سوراخ (غار) سے دوسرے سوراخ کی طرف بھاگے ۔ اس وقت روزی حاصل کرنااللہ پاک کوناراض کیے بغیر نہ ہوگا(الزهد الکبیر للبیهقی، ص۱۸۳، حدیث : ۴۳۹ مُلتقطاً)()آدمی کو اس بات کی کوئی پروا نہ ہوگی (یعنی وہ یہ نہیں دیکھے گا)کہ اس نے (مال)کہاں سے حاصل ؟ حرام سے یا حلال سے(بخاری، کتاب البیوع، ۲ / ۷، حدیث : ۲۰۵۹،مُلخصاً)()دین پر صبر کرنے والا انگارہ (embers of fire)پکڑنے والے کی طرح ہوگا(ترمذی، کتاب الفتن،اح، ۴ / ۱۱۵، حدیث : ۲۲۶۷مُلتقظاً)()ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ظاہر میں(یعنی سامنے) دوست ہوں گے اور باطن میں (یعنی پیچھے سے)دشمن ہونگے(مسند احمد، ۸ / ۲۴۴، حدیث : ۲۲۱۱۶مُلخصاً)()خاص خاص لوگوں(special people) کو سلام کیا جائے گا، تجارت پھیل (یعنی عام ہو)جائے گی یہاں تک کہ ( دنیا حاصل کرنے کے لیے) بیوی تجارت میں اپنے شوہر کی مدد کرنے لگے گی اور آدمی اپنا مال لے کر زمین کے اطراف (sides)میں جائے گا اور جب واپس آئے گا تو کہے گا مجھے کچھ بھی نفع(profit) نہ ہوا(مستدرک، کتاب الفتن والملاحم، ۵ / ۶۳۵، حدیث : ۸۴۲۷، ملتقطاً)()قاتل (قتل (murder)کرنے والے)کو معلوم نہ ہوگا کہ اس نے قتل کس وجہ سے کیا اور نہ ہی مقتول (یعنی جسے قتل کیا گیا)کو معلوم ہو گا کہ اسے قتل کس وجہ سے کیا گیا؟(مسلم، کتاب الفتن ، ص۱۵۵۵، حدیث : ۲۹۰۸ مُلخصاً)() قیامت نہ آئے گی یہاں تک کہ زُہَد (یعنی دنیا کو چھوڑنا) روایتی (انداز میں رہ جائے گا)اور تقوی (یعنی نیکی اور پرہیز گاری)بناوٹی (artificial)طور پر رہ جائے گا(حلیة الاولیاء، طبقة اھل المدینة، حسان بن ابی سنان، ۳ / ۱۴۱)() مساجد میں دنیا کی باتیں ہوں گی(شعب الایمان، ۳ / ۸۶، حدیث : ۲۹۶۲)۔ بیشک قیامت آئے گی، جو کہے کہ قیامت نہیں آئے گی وہ مسلمان نہیں رہے گا، کافر ہو جائے گا(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱۲۹ مُلخصاً) قیامت میں صرف رُوحیں ہی جمع نہیں ہونگی ، بلکہ روح او رجسم دونوں جمع ہونگے۔ دنیا میں جو رُوح جس جسم کے ساتھ تھی قیامت میں بھی اُسی جسم کے ساتھ ہوگی۔ جو کہے صرف رُوحیں اٹھیں گی جسم زندہ نہ ہوں گےوہ بھی کافر ہے۔(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱۳۰ مُلخصاً) جسم اگرچہ جل جائے، گل(rotten ہو) جائے، مٹی ہو جائے، مگر اُس جسم کے اصلی حصّے(parts) قیامت تک باقی رہیں گے،ا ور انہی پرعذاب(punishment)ا ورثواب ہوتا ہے (یعنی نعمتیں ملتی ہیں)۔ یہ اصلی حصّے بہت چھوٹے ہوتے ہیں کہ مائیکرواسکوپ ( microscope )سے بھی نظر نہیں آتے، نہ آگ اُنھیں جلا سکتی ہے، نہ زمین اُنھیں گلا سکتی ہے اور اُنھیں پر قیامت کے دن دوبارہ مکمل جسم بن جائے گا۔ اس کو یوں سمجھیں کہ جیسے: بچہ کتنا چھوٹا پیدا ہوتا ہے، پھر کتنا بڑا جوان ہو جاتاہے، پھر بیماری میں کمزور ہو جاتا ہے،پھر بیماری کے بعد طاقت ور ہو جاتا ہے، اِن سب تبدیلیوں (changes)سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص بدل گیا۔ یوہیں قیامت کے دن ہوگا۔(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱۱۲،۱۱۳ مُلخصاً)
244 ’’چار پرندے‘‘
سَمُندر(sea) کے ساتھ ایک آدمی مرا ہوا (dead)تھا، سَمُندر کا پانی کبھی اُس آدمی کے اوپر آتا اور کبھی پیچھے چلا جاتا۔جب پانی اُس مرے ہوئے آدمی پر آتا تو مچھلیاں اُس کو کھا تیں اور جب پانی پیچھے چلا جاتا تو جانور اُسے کھاتے، جب جانور کھا لیتے تو (پھر)پرندے (birds) اُسے کھاتے ۔ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ دیکھ کر اللہ پاک سے عرض کی:اے اللہ! مجھے یقین (believe) ہے کہ تو مُردوں (dead) کو زندہ فرمائے گا اور مُردوں کے جسم کے حصّوں(body parts) کوسب جگہ سے جمع کر لے گا (collect from everywhere)لیکن میں اِسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ پاک نے حکم دیا کہ چار پرندے پالو(raise four birds)! پھر ذَبْح کرکے (یعنی اُن کا گلا کاٹ کر)اُن کے سَر الگ کرلو اور سب کے گوشت ، ایک دوسرے میں ملا لو !اور وہ گوشت (meat)تھوڑا تھوڑاکئی پہاڑوں (mountains ) پر رکھ دو ! اِس کے بعدآپ خود کسی اور پہاڑ پر، اُن پرندوں کے سَر لے کرکھڑے ہو ں اور اُن پرندوں کو بلائیں ! تو وہ پرندے زندہ ہو کر آپ کےپاس آجائیں گے۔ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک ”مرغ(rooster ) “ ایک ”کبوتر(pigeon )‘‘ ایک ’’گِدھ(vulture ) ‘‘ اور ایک” مور(peacock ) “لے لیا انہیں پالا،ذبح کیا،گوشت ملایا اور پہاڑوں پر رکھ کر یوں آواز دی: ’’ اے مرغ! ‘‘ ، ” اے کبوتر! “ ، ” اے گِدھ ! “،’’ اے مور!‘‘ ۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی آواز سنتے ہی چاروں پرندوں کا گوشت جمع ہونا شروع ہوگیا ، ہڈّیاں (bons)ایک دوسرے سے ملنے لگیں اور تھوڑی دیر میں چار(4) پرندے بن گئے پھر وہ چاروں اُڑتے ہوئے اپنے اپنے سَروں کے ساتھ مِل گئے ۔ (ماخوذ از عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص ۵۶-۵۷) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ باتیں پتا چلیں کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَامجو چاہتے ہیں (desires کرتے ہیں)، اللہ پاک وہ بات پوری کر دیتا ہےاورنبیوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کے چاہنے سے مردے زندہ ہوجاتے ہیں۔جس طرح اللہ پاک نے ان پرندوں کو زندہ کیا ہے، اسی طرح قیامت کے دن اللہ پاک سب لوگوں کو زندہ فرمائے گا، چاہےان کے جسم ختم ہوگئے ہوں۔
245 ’’ہر ہزار میں سے ۹۹۹‘‘
قیامت کے میدان میں بعض لوگوں کو اتنا پسینہ (sweat)آئے گا کہ زمین پر گرے کا، زمین اُسے چوس suck)کر) لےگی ، مگر وہ پسینہ آتا رہے گا اور زمین چوستی رہے گی یہاں تک کے ستّر(70)گز تک پانی چوس لے گی مگر پھر بھی پسینہ آتا رہے گا اور اب زمین چوس نہیں پائے گی تو اب کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں (ankles)تک ہو گا، کسی کے گھٹنوں (knees)تک، کسی کی کمر (waist)، کسی کے سینہ، کسی کے گلے (hug) تک اور کافر کے تو منہ تک ہو گا ،جس میں وہ ڈوبنے لگے گا۔ اس گرمی میں جتنی پیاس (thirst)لگےگی وہ بتائی نہیں جاسکتی، زبانیں سُوکھ کر کانٹا ہوجائیں گی، بعضوں کی زبانیں منہ سے باہر نکل آئیں گی۔ جس کےجیسے گناہ ہونگے، وہ اتنی تکلیف(trouble ) میں ہوگا۔ جس نے چاندی سونے کی زکوٰۃ نہ دی ہو گی اُس مال کو خوب گرم کرکے اُس کی پیشانی(forehead) اورپیٹھ(back) پر وغیرہ پر نشان لگائے جائیں گے، جس نے جانوروں کی زکوٰۃ نہ دی ہوگی اس کے جانور خوب تیار ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو لٹایا جائے گا اور وہ جانور اپنے سینگوں سے مارتے اور پاؤں سے،اُس کے اوپر چلتے ہوئے گزریں گے، جب سب اسی طرح گزر جائیں گے پھر اُدھر سے واپس آکر یوہیں اُس پر گزریں گے، اسی طرح کرتے رہیں گے، یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ اس وقت کیفیت(condition) یہ ہوگی کہ بھائی سے بھائی بھاگے گا، ماں باپ اولاد سے دور رہیں گے، بیوی بچے الگ ہو جائیں گے، ہر ایک اپنی مصیبت میں پریشان ہوگا، کوئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہوگا...! حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم ہو گا کہ وہ دوزخیوں کی جماعت الگ کریں، عر ض کرینگے: کتنے میں سے کتنے؟ ارشاد ہوگا: ہر ہزار(1,000) سے نو سو ننانوے(999)، یہ وہ وقت ہو گا کہ اگربچے ہوں تو غم کی وجہ سے بوڑھے ہوجائیں گے، لوگ ایسے نظر آئیں گے کہ جیسے نشہ کیا ہوا ہو، حالانکہ(although) کسی نے نشہ نہ کیا ہوگا، آہ! اﷲ کی پناہ ، اللہ پاک کا عذاب (punishment) بہت سخت ہے۔ ۔۔۔ کس کس مصیبت کو بتایا جائے، ایک(1) ہویا دو(2) ہوں، سو (100)ہوں، ہزار(1000) ہوں بلکہ ہزاروں ہیں۔ ہم اللہ پاک سے رحم کی دعا کرتے ہیں...! اور یہ سب تکلیفیں دو(2) چار (4)گھنٹے، دو(2) چار (4) دن، دو(2) چار (4)مہینے کی نہیں، بلکہ قیامت کا دن پچاس ہزار(50,000) سال کا ہوگا ،ہم اللہ پاک سے اس کے فضل و کرم کا سوال کرتے ہیں۔ جب یہ دن آدھا گزر جائے گا، اس وقت تک اہلِ مَحْشَرْ(قیامت میں جمع ہونے والے) اسی طرح کی تکلیف میں رہیں گے پھر یہ سفارش کرنے والا ڈھونڈیں گے۔ (بہار شریعت ح۱، ص۱۳۳ تا ۱۳۵، مُلخصاً) مستقبل(future) میںہونے والےاس سچےواقعے سے معلوم ہوا کہ قیامت سخت تکلیف کا دن ہے، زندگی گناہوں میں گزارنے والے اُ س دن بہت پریشان ہونگے۔ یہ وہ دن ہوگا کہ سب غیر مسلم اورایمان لانے والے گناہ گاروں کی ایک بہت بڑی تعداد (too many)جہنّم میں جائے گی۔ ہمیں اپنی آخرت کو اچھا کرنے اور اللہ پاک کو خوش کرنے کے لیے نیک کام کرنے چاہئیں اور ہر طرح کے گناہ سے بچنا چاہیے۔
246 ’’قیامت میں کہاں اور کیسے جمع ہونگے؟‘‘
قیامت آنے سے پہلے کی سب نشانیاں(signs) جب پوری ہو جائیں گی اور اس کے بعد چالیس(40) سال ایسے گزریں گے کہ ان میں کسی کے یہاں اولاد نہ پیدا ہو گی، یعنی چالیس (40) سال سے کم عُمر کا کو ئی آدمی نہیں ہو گا اور دنیا میں کافر ہی کافر ہوں گے، اﷲ پاک کا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا تو ایک دن سب لوگ اپنے اپنے کام کر رہے ہونگے کہ اچانک (suddenly)قیامت آجائے گی۔(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱۲۷ مُلخصاً) میدانِ قیامت ملکِ شام کی زمین میں ہوگا۔ زمین ایسی ہموار(smooth) ہو گی کہ اِس کنارہ پر رائی کا دانہ (mustard seed) گر جائے تو زمین کےدوسرے کنارے (On the other side of the earth)سے نظر آئے ، اُس دن زمین تانبے (copper)کی ہوگی اور سورج ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ ابھی سورج کی پیٹھ(back) ہماری طرف ہے اوراُس وقت سورج کا منہ(front) ہماری طرف کو ہوگا اور اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی گرمی ہوگی کہ آج تومِٹی کی زمین ہے، مگر گرمیوں کی دھوپ میں زمین پرپاؤں نہیں رکھا جاتا، اُس وقت جب زمین تانبے(copper) کی ہوگی اور سورج اتنا قریب ہوگا، اُس وقت کی گرمی کیسی ہوگی...؟! اﷲ پاک ہم پر رحم فرمائے۔ قیامت کے دن لوگ اپنی اپنی قبروں سے تو کفن پہنے اٹھیں گےپھر وہ کفن پھٹ کر، گل کر گر پڑینگے اور وہ بغیر لباس ہو جائیں گے۔(اعلیٰ حضرت کے بعض نئے فتاوی، ص۴۱۱ ماخوذاً) انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا وہ سب کے سب اﷲپاک کی رحمت سے لباس میں ہوں گے۔(فتاویٰ نوریہ،۵/۱۲۵) سب صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ، اہلِ بیت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اور اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ بھی لباس میں ہوں گے۔نیز شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)ہونے والا) اور خاص (special)مَؤمنین بھی لباس ہی میں ہوں گے۔(تفصیل کیلئے دیکھئے:فتاویٰ نوریہ، ۵/۱۲۹) مسلمانوں میں سےکوئی پیدل، کوئی سوار ی(ride) پر قیامت کے میدان میں اس طرح آئے گا کہ ایک سواری پر وہ اکیلا ہوگا یاکسی سواری پر دو (2) ہونگے یا کسی سواری پر تین(3) ہونگے یا کسی سواری پر چار(4) ہونگے یاکسی پر دس (10)ہوں گے جبکہ کافر منہ کے بل(walking on the face) چلتا ہوا قیامت کے میدان کو جائے گا، کسی کو فرشتے گھسیٹ (drag) کر لے جائیں گے اسی طرح کسی کو آگ جمع کرے گی۔ (بہار شریعت،۱/۱۳۱ مُلخصاً) نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے پوچھا گیا کہ کافر مُنہ کے بل کیسے چلیں گے؟ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :جس ذات نے انہیں قدموں (یعنی پاؤں )پر چلایا وہ منہ کے بَل چلانے پر بھی قادر ہے۔ (ترمذی،۵/۹۶، حدیث: ۳۱۵۳)
247 ’’99 رجسٹرز(registers) ‘‘
قیامت کے دن حساب کتاب مختلف انداز(different styles) سے ہوگا۔کسی سے تو اس طرح حساب لیا جائے گا کہ اکیلے (alone)میں اُس سے پوچھا جائےگا: تو نے یہ کیا ؟اور یہ کیا؟ عرض کریگا: ہاں اے ربّ! یہاں تک کہ تمام گناہوں کو مان لے گا، یہ اپنے دل میں سمجھے گا کہ اب میرے لیے جہنّم میں جانے کا حکم ہوگا۔ اللہ پاک فرمائے گا: کہ ہم نے دنیا میں تیرے گناہ وغیرہ چھپائے اور آج تیرے گناہ معاف کردیے۔ کسی سے سختی کے ساتھ ایک ایک بات پوچھی جائےگی اور جس سے اس طرح سوالات ہوئے وہ تباہ و برباد(destroyed) ہوگا۔ کسی سے فرمائے گا: اے فلاں! کیا میں نے تجھے عزّت نہ دی...؟! تجھے سردار نہ بنایا...؟! تجھے گھوڑے اور اونٹ نہ دیے...؟! ان کے علاوہ اور نعمتیں یاد دلائے گا، عر ض کریگا: ہاں! تُو نے سب کچھ دیا تھا، پھر فرمائے گا: تو کیا تیرے ذہن میں تھا کہ مجھ سے ملنا ہے؟ عرض کریگا کہ نہیں، فرمائے گا: تَو جیسے تُو نے ہمیں یاد نہ کیا، ہم بھی آج تجھے عذاب(punishment) میں چھوڑتے ہیں۔ کچھ کافر ایسے بھی ہوں گے کہ اللہ پاک جب انہیں نعمتیں یاد دلا کر فرمائے گا کہ تُو نے کیا کیا؟ عرض کریگا: تجھ پر اور تیری کتاب اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا، نماز پڑھی، روزے رکھے، صدقہ دیااو ر ان کے علاوہ جہاں تک ہوسکے گا، نیک کام بتائے گا۔ اللہ پاک فرمائے گا: ٹھہر جا! تجھ پر گواہ (witness)پیش کیے جائیں گے، یہ اپنے دل میں سوچے گا: میرے خلاف (against) کون گواہی دیگا...؟! اس وقت اس کی زبان بندکر دی جائے گی اور جسم کے حصّوں (parts) کو حکم ہوگا: بولو ، اُس وقت اُس کے ہاتھ، پاؤں، گوشت ، ہڈیاں سب اس کے خلاف (against) بولیں گے کہ یہ تو ایسا تھا ایسا تھا، اور وہ جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔ اِس اُمّت میں وہ شخص بھی ہوگا، جس کے ننانوے (99) رجسٹر گناہوں کے ہوں گے اور ہر رجسٹر اتنا بڑاہوگا کہ جہاں تک نظر جاتی ہے، وہ سب کھولے جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا: تم ان میں سے کسی بات کا انکار (refusal)تو نہیں کرتے؟ میرے فرشتوں(یعنی کراماً کاتبین) نے تم پر ظلم تو نہیں کیا؟ عرض کریگا: نہیں اے ربّ! پھر فرمائے گا: تیرے پاس کوئی عذر ہے(یعنی ان کاموں کو کرنے کی کوئی وجہ ہے)؟ عرض کریگا: نہیں اے ربّ! فرمائے گا: ہاں تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے اور تجھ پر آج ظلم نہ ہوگا، ایک چھوٹا سا پرچہ لایا جائے گا، اُسے وزن (weight)کرنےکا حکم ہوگا، بندہ عرض کرے گا: اے ربّ! یہ پرچہ ان رجسٹروں سے زیادہ وزن والا کیسے ہوگا؟ فرمائے گا: تجھ پر ظلم نہ ہوگا، پھر ایک پلّے(scale) پر ننانوے (99) رجسٹر رکھیں جائیں گے اور دوسرےمیں وہ پرچہ تو وہ پرچہ ان رجسٹروں سے بھاری ہو جائے گا۔اُس پرچہ پر ''أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ وَأَشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ'' لکھا ہوگا کہ جو اُس نے کبھی سچے دل سے پڑھا ہوگا پھر اُسے جنّت میں بھیج دیا جائے گا۔(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱۴۱ تا ۱۴۳ مُلخصاً) قیامت کے دن ہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی رحمت بہت بڑی ہے، جس پر رحم فرمائے، تھوڑی نیکی بھی بہت ہو جائے مگرخبردار! اس کے عذاب (punishment) سے بھی ڈرنا ضروری ہے کہ بعض نیک لوگ ایسے بھی ہونگے کہ جن کا کوئی گناہ، انہیں جہنّم میں لے جائے گا لھذا نیک کام بالخصوص فرائض، واجبات اور سنّت مؤکدہ پر عمل کرتا رہے ،گناہوں (حرام، مکروہ تحریمی ،ناجائز کاموں) سے بچتا رہے اور اللہ پاک کی رحمت پر اُمید رکھے۔ مسلمانوں کے دوسرے(2nd ) خلیفہ ،حضرت عمر فاروقِ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : اگر اللہ پاک سب بندوں میں سے صِرف ایک کوجہنَّم میں ڈالنے والاہو تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہنَّم میں جانے والا وہ ایک بندہ میں ہی ہوں اوراگر اللہ پاک ایک کے علاوہ سب کو جہنَّم میں ڈالنےوالا ہو تو میں اُمّید (hope)کروں گا کہ وہ مجھے جہنَّم میں نہیں ڈالے گا ۔ (حلیۃ الاولیاء ج ۱ ص ۸۹ ) اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : بیشک نکو کار (یعنی نیک لوگ)ضرور چین میں ہیں اور بے شک بدکار(یعنی گناہ گار) ضرور دوزخ میں ہیں ۔(پ ۳۰، سورۃ الانفطار، آیت ۱۳،۱۴) (ترجمہ کنز العرفان)
248 ’’حرام روزی کھانے اور کھلانے والے کے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘
قیامت کے دن ایک شخص حاضِر کیا جائے گا ،اُس کے بیوی بچے شکایت(complain) کریں گے، کہیں گے: یا اللہ! اِس نے ہمیں شریعت کے اَحکام (یعنی دینی مسائل)نہیں سکھائے اور یہ ہمیں حرام روزی کھِلاتا تھا ، لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا۔ لِہذا اُس ( شخص) کو حرام روزی کمانے کی وجہ سے اتنا مارا جائےگا کہ اُس کی کھال تو کھال گوشت بھی جسم سے الگ ہو جائےگا، پھر اُس کو مِیزان پر (یعنی جہاں پر حساب ہوگا) ( ) لایا جائے گا، فِرشتے اُس کی پہاڑ کے برابر نیکیاں لائیں گے تو گھر والوں میں سے ایک شخص اُس کی نیکیوں میں سے لے لے گاپھر دوسرا آگےبڑھے گا وہ بھی اُس کی نیکیوں سے اپنی کمی پوری کریگا۔ اس طرح اُس کی ساری نیکیاں اس کے گھر والے لے لیں گے۔ اب وہ اپنے بیوی بچوں کی طرف دیکھ کر کہے گا :افسوس (Alas!)! اب مجھ پر صرف وہ گناہ رہ گئے ہیں کہ جو میں نے تم لوگوں کے لیے کیے تھے۔ فرشتے اِعلان (announce)کریں گے: یہ وہ شخص ہے جس کی ساری نیکیاں اُس کے بیوی ، بچّے لے گئے اور یہ اُن کی وجہ سے جہنّم میں چلا گیا۔ (قُرَّۃُ العیون،ص۴۰۱) قیامت کے روز ہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمیں خود بھی نیک کام کرنے، گناہوں سے بچنا ہے اور دوسروں کو نیکی کی دعوت دینی اور گناہوں سے بچانا ہے خصوصاً گھر والوں اور خاندان والوں کو نیک نمازی، سنّتوں کا عادی بنانا ہے۔ یقیناً وہ شخص بڑا بدنصیب ہے جو اپنے گھر والوں کی سنّت کے مطابق تربیت نہیں کرتا، اپنی بیوی اور بچّیوں کو پردے وغیرہ کے مسائل نہیں سکھاتا۔ بلکہ خود فیشن کرواتا ،میک اپ کروا کر بے پردہ اسکوٹر پر بٹھا کر شاپنگ سینٹروں میں لے جاتا ہے۔ یاد رکھئے جو لوگ روکنے کی طاقت رکھتے ہیں پھر بھی اپنی بیوی اور مَحرم رشتہ دار عورتوں (مثلاً: بیٹی، بہن، ماں وغیرہ)کو بے پردَگی سے مَنْع نہ کریں وہ دَیُّوث ہیں(اَلدُّرُالْمُخْتَارج۶ ص ۱۱۳دار المعرفۃ بیروت ماخوذاً) اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تین (3)شخص کبھی جنّت میں نہ جائیں گے دیُّوث اورمَردانی وَضْع بنانے والی (یعنی مردوں جیسی صورت بنانے والی مثلاً مردوں کی طرح بال رکھنے والی یا مردوں کی طرح کا لباس پہنے والی) عورت اور شراب پینے کا عادی۔(اَلتَّرْغِیب وَالتَّرْھِیب ج۳ ص۷۶حدیث ۸ دارالکتب العلمہۃ بیروت)
249 ’’ میزان اور حساب‘‘
میزان:
میزان حق ہے یعنی قراٰن وحدیث سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ میزان (یعنی ایک خاص قسم کا ترازو۔scale) لایا جائے گا۔ اس پر لوگوں کے اچھے ، برے اعمال تولے جائیں گے(will be weighed) ۔ اس پر ایمان(believe) لانا واجب اور لازم ہے۔(اا لمعتقد مع المعتمد،ص۳۳۳)
حضرت عبدُاللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ میزان کا ایک پلڑا(one side) جنّت پر اور دوسرا دوزخ پر ہوگا۔(تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الایۃ:۸، ج۵،ص۲۰۲)
وہ میزان یہاں کے ترازو (scale)کی طرح نہ ہوگا بلکہ وہاں نیکیوں کا پلّہ(one side) اگر بھاری ہو گا تو اُوپر ہو جائے گا اور گناہوں کا پلّہ نیچے آجائے گا۔(فتاویٰ رضویہ، ۲۹/ ۶۲۶ مُلخصاً)
حضرت حُذَیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: قیامت کے دن میزان کے نگران حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہوں گے۔( شرح اصول اعتقاد اہل السنّۃ، ۲/۱۰۰۱)
حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ پاک سے عرض کی: یااللہ !مجھے میزان دکھا دے۔ جب آپ نے اُسے دیکھا تو ہوش میں نہ رہے پھر جب طبیعت اچھی ہوئی تو عرض کی : یااللہ !کس میں طاقت ہے جو اسے اپنی نیکیوں سے بھر دے؟ اللہ پاک نے فرمایا:اے داؤد!بے شک جب میں اپنے بندے سے راضی ہو جاؤں گا تو اِسے ایک کھجور سے ہی بھر دوں گا۔( تفسیرکبیر، پ۱۷، الانبیاء، تحت الایۃ: ۴۷،ج۸،ص۱۴۸)
حساب:
حساب حق ہےیعنی قراٰن وحدیث سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ حساب ہوگا۔ مومن ،کافر،انسان اور جنّات سب کا حساب ہو گا مگر اللہ پاک جن سے حساب نہیں لینا چاہے گا، اُن کا حساب نہیں ہوگا۔(تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید،ص۴۱۳ ملتقطاً)
قیامت کے دن ہر شخص کو اُس کانامہ اعمال دیا جائے گا ، نیکوں کو سیدھے ہاتھ میں اور گناہ گاروں کو اُلٹے ہاتھ میں، جبکہ کافر کا سینہ(chest) توڑ کر اُس کا اُلٹا ہاتھ پیچھے سے نکال کر، اس میں دیا جائے گا۔(بہارِ شریعت ، ح۱،۴ ۱۴ مُلخصاً)
حساب کا انکار (denial) کرنے والا(مثلاً یہ کہنے والا کہ کل قیامت میں حساب نہ ہوگا) کافر ہے۔(بہارِ شریعت ، ح۱،۱ ۱۴ مُلخصاً)
حساب شمار(count) کرنےیا گننے کو کہتے ہیں اور اس کامعنیٰ ہے ” قیامت میں اللہ پاک کا لوگوں کے سامنے اُن کے اعمال(اچھے بُرے کاموں کو) ظاہر(یعنی سامنے) کرنا۔“ (شرح الصّاوی علی جوہرۃ التوحید،ص۳۷۶ مُلخصاً)
ہر ایک سے حساب کی کیفیت مختلف(different condition)ہوگی،کسی کا حساب آسانی سے، کسی کا سختی سے، کسی کا لوگوں سے الگ، کسی کا لوگوں کے سامنے، کسی کا غضب کے ساتھ اور کسی کا فضل اور کرم کے ساتھ حساب لیا جائے گا۔(تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید،ص۴۱۴)
جس پر سختی ہوگی اُس کے بارے میں حدیث میں ملتا ہے کہ:ایک شخص کو حساب کتاب کے لئے کھڑا کیا جائے گا تو اسے اتنا پسینہ آئے گا کہ اگر ہزار (1000)پیاسے اونٹ (thirsty camel)اسے پئیں توان کی پیاس (thirst) ختم ہو جائے۔(مسند احمد،۱/۶۵۲، حدیث: ۲۷۷۱، مُلخصاً)
جس کے لیے آسانی ہوگی اُس کے بارے میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اے لوگو! بے شک قیامت کے دن اس کی گھبراہٹوں اور حساب کتاب سے جلد ی نکل جانےوالا شخص وہ ہو گا جس نے تم میں سے مجھ پر دُنیا کے اندرکثرت سے(یعنی بہت زیادہ) درود شریف پڑھے ہوں گے۔ (فردوس الاخبار، ۵/۲۷۷، حدیث:۸۱۷۵)
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ (نسائی، ص ۶۵۲، حدیث: ۳۹۹۷) علماء فرماتے ہیں:یعنی عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا ۔ (مراٰۃ المناجیح، ۲/۳۰۶)
فرمانِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قیامت میں(بندے سے نعمتوں کے بارے میں) پہلا سوال یہ کیا جائے گا کہ: کیا ہم نے تیرے جسم کو صحّت(health) نہیں دی اور کیا ہم نےٹھنڈے پانی سے تیری پیاس(thirst) نہیں بجھائی؟ (ترمذی، ۵/۲۳۶، حدیث: ۳۳۶۹ مُلخصاً) علماء فرماتے ہیں:یعنی دوسری نعمتوں سے پہلے ان نعمتوں کا حساب ہوگا۔(مراٰۃ المناجیح، ۷/۳۱)
نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میری اُمّت سے ستر(70) ہزار بےحساب جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کے طفیل (یعنی اُن کی وجہ سے) ہر ایک کے ساتھ ستر(70) ہزار اور اللہ کریم ان کے ساتھ تین گروہ(three groups) اور بھی کردے گا( اس باے میں معلوم نہیں کہ ان میں کتنے لوگ ہونگے)۔(بہارِ شریعت، ۱/۱۴۳بحوالہ مسنداحمد،۱/۴۱۹، حدیث: ۱۷۰۶مفہوماً)
250 ’’جہنم پر ایک پُل ہے‘‘
حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس آپ کی ایک کنیز حاضر ہوئی ( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو عورت ملی وہ کنیز ہوتی، آج کل کنیزیں نہیں ہوتیں ) اور عرض کی : میں نے خواب میں دیکھا کہ جہنَّم کی آگ جل رہی ہے اور اُس کے اُوپر پُل صراط رکھ دیا گیا ہے۔اب دنیا میں خلافت (caliphate)کرنے والوں کو لایا گیا، سب سے پہلے خلیفہ عبدالمَلِک کو حکم ہو ا کہ پُل صراط سے گزرو! وہ پُلْ صراط پر چڑھا ، مگر وہ فوراً دوزخ میں گر گیا۔ پھر اُس کے بیٹے ولید کو لایا گیا ، وہ بھی دوزخ میں گر گیا۔ اس کے بعد سلیمان بن عبد المَلِک کو حاضِر کیا گیا اور وہ بھی اسی طرح دوزخ میں گیا۔ ان سب کے بعد امیرُالمؤمنین! آپ کو لایا گیا ، بس اِتنا سننا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خوف (یعنی جہنّم کے ڈر) سے چیخ ماری اور گر پڑے۔ کنیز نے پکار کر کہا : یاامیرَالمؤمنین! سنئے بھی تو… خداکی قسم! میں نے دیکھا کہ آپ نے سلامَتی کے ساتھ پُل صراط پار کرلیا۔ مگر حضرت عمر بن عبد العزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پُل صراط کا نام سن کربے ہوش ہو چکے تھے اور بے ہوشی میں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔( اِحْیاءُ الْعُلُوم ج ۴ص ۲۳۱ مُلَخّصاً)(پُل صراط کی دہشت ص۱،۲) یاد رہے!حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہتابعی ہیں کیونکہ آپ نے کئی صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے ملاقات کا شَرف پایا ہے ۔(عمر بن عبد العزیز کی 425حکایات ص۳۱)’’تابِعی‘‘اس خوش نصیب (lucky)کو کہتے ہیں جس نے (ایمان کی حالت(condition) میں)کسی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملاقات کی ہو(اور ان کا انتقال بھی ایمان پر ہوا ہو) ۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ، ص۳۹۲ ) اس سچی حکایت سے پتا چلا کہ مسلمانوں کے سچے خلیفہ، نیک و پرہیز گار، تابعی بزرگ بھی آخرت کا کتنا خوف رکھتے تھے۔ ہمیں بھی اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی ہے، ہمیں نماز وقت پر ادا کرنی ہے بلکہ ہر فرض، ہر واجب اور کم از کم ہر سنّت مؤکّدہ کو جیسا حکم ہے، اُس طرح پورا کرنا اور ہر گناہ سے بچناہے۔
251 ’’جنّتی صَحابی کا رونا‘‘
جنّتی صحابی، حضرت عبدُاللّٰہ بن رَواحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ایک بار روتے دیکھ کر ان کی نیک زَوجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کی : آپ کو کس بات نے رُلایا ہے ؟ کہنے لگے ایک مرتبہ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا تھا: مجھے اللّٰہ پاک کا یہ فرمان یاد آگیا( ترجمہ۔Translation) : اور تم میں سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔ (پ۶ ۱، سورۃ مریم، آیت ۷۱) (ترجمہ کنز العرفان) حضرت عبدُاللّٰہ بن رَواحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ روتے ہوئے مزید فرمانے لگے کہ:یوں میں نے یہ تو جان لیا کہ میں نے اس میں داخل ہونا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ میں ا سے پار کرسکوں گا یا نہیں ۔ (اَلْمُسْتَدْرَک ج۵ ص۸۱۰ حدیث ۸۷۸۶ ، اَلتَّخویف مِنَ النَّار ص ۲۴۴) جنّتی صحابی کے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمارے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْقرآن ِ پاک کی آیتوں پر غور کیا کرتےاور اپنی آخرت کے بارے میں سوچا کرتے تھے، ہمیں بھی چاہیے کہ کم از کم جو سورتیں ہم نماز میں پڑھتے ہیں، اس کے معنیٰ یاد کریں اور اس کی تفسیر پڑھیں اورسمجھیں۔جب بھی نماز پڑھا کریں تو ان سورتوں کے معنی ٰ کی طرف توجّہ (attention)رکھا کریں۔
252 ’’پُل صراط ‘‘
پل صراط حق ہے یعنی قراٰن وحدیث سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ کل قیامت کے دن ایک پُل(bridge) ہوگا۔ اس پر ایمان (believe)لانا واجب ہے (شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید،ص۳۸۹) اور اِس کا انکار(denialیعنی یہ کہنا کہ ایسا نہیں ہوگا) گمراہی (اور جہنّم میں لے جانے والا عقیدہ (belief) ہے۔ (المعتقد مع المعتمد،ص۳۳۵) اس پُل سے گزرے بغیر کوئی جنّت میں نہیں جا سکتا کیونکہ جنّت میں جانے کا یہ ایک ہی راستہ ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، ۲/۱۵) سب سے پہلے نبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ گزر یں گے، پھر اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَم ، پھر ہماری اُمّت پھر دیگر اُمّتیں گزریں گی۔(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱۴۷ مُلخصاً) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جہنَّم پر ایک پُل ہے جو بال سے زِیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے، اس پر لوہے کےکُنڈے (hooks) اور کانٹے ہیں جسے اللہ پاک چاہے گا یہ اُسے پکڑیں گے۔ لوگ اُس سے گزریں گے، بعض پلک جھپکنے(eyelash blink) کی طرح، بعض بجلی (lightning)کی طرح، بعض ہوا کی طرح، بعض بہترین اور اچھے گھوڑوں اور اُونٹوں کی طرح (گزریں گے) اور فِرشتے کہتے ہوں گے: ’’رَبِّ سَلِّمْ، رَبِّ سَلِّمْ‘‘ (یعنی اے اللہ سلامتی سے گزار، اے اللہ سلامتی سے گزار ) بعض مسلمان نجات پائیں گے(will be saved)، بعض زخمی(injured) ہوں گے، بعض اَوندھے(یعنی اُلٹے) ہوں گے اور بعض منہ کے بل(walking on the face) جہنَّم میں گِر پڑیں گے۔ (مسنداحمد،۹/۴۱۵،حدیث:۲۴۸۴۷) علماء فرماتے ہیں: ان کی رفتاروں(speeds) میں یہ فرق (difference)ان کے نیک اعمال اور سچی نیّتوں کی وجہ سے ہو گا جیسا عمل، جیسا اخلاص ویسی وہاں کی رفتار۔ (مراۃ المناجیح،۷/۴۷۴) پُل صراط کے دونوں جانب بڑے بڑے آنکڑے (hooks)لگے ہونگے (اﷲ پاک ہی جانتا ہےکہ وہ کتنے بڑے ہونگے) ، جس شخص کے بارے میں حکم ہوگا اُسے پکڑلیں گے اور اُسے جہنّم میں گرا دیں گے مگر بعضوں کوصرف زخمی کریں گے اور وہ پل صراط سے گزر جائیں گے ۔ (بہارِ شریعت ، ح۱، ص۸ ۱۴ مُلخصاً) حضرت سَعید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: میرے پاس یہ بات پہنچی ہے کہ قیامت کے روز پُل صراط بعض لوگوں پر بال سے بھی زیادہ باریک(یعنی پتلا) ہوگا اور بعض کے لئے بہت بڑی وادی(valley) کی طرح ہوگا۔(الزہد لابن المبارک، ص۱۲۲،حدیث:۴۰۶) بہت سے علماء نے کہا ہے: کہ پُل صراط کا سفر تین ہزا ر(3,000) سال کا ہے، ایک ہزار(1,000) سال اوپر چڑھنے کے، ایک ہزار(1,000) سال سیدھا چلنے کے اور ایک ہزار(1,000) سال نیچے اُترنے کے ۔(عمدۃ القاری، ۱۳/۴۸۲، تفسیر قرطبی، پ ۳۰، البلد:۱۱، ۱۰/۴۷مُلخصاً) پُل صراط سے گُزرنے والا آخری شخص پیٹ پر گِھسَٹ گِھسَٹ کر (dragging سے)گزرے گا، وہ اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض کرے گا: یا اللہ مجھے اتنی دیر کیوں لگی؟ اللہ کریم فرمائے گا: تجھے میں نے دیر نہیں کروائی بلکہ تجھے تیرے اعمال نے دیر کروائی ہے۔(التذکرۃ للقرطبی، ص۳۱۸ مختصراً) قیامت کا دن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا ، جس میں بہت سی پریشانیاں ہوں گی مگر اللہ پاک کے خاص بندوں کے لیے اتنا ہلکا کر دیا جائے گا، کہ انہیں ایسا لگےگا کہ جیسے ایک وقت کی فرض نمازکا وقت بلکہ اس سے بھی کم ۔ (بہارِ شریعت ، ح۱، ص ۱۴۹ مُلخصاً)
253 ’’نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سب کے لیے رحمت‘‘
کہا جاتاہے کہ قریش کےلوگوں نےآپس میں یہ بات کہی کہ اللہ پاک نےہم لوگوں میں سب سے زیادہ عزت(respect) محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کو دی ہے اور ان لوگوں نے اللہ پاک سےدعا کی: اے اللہ !اگرمحمد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) تیرے نزدیک سچے ہیں (in the right)تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش بھیج دے یا ہم پر سخت عذاب(punishment) فرما۔جب رات ہوئی تو انہیں اپنی اس دعا پرافسوس (felt sorry)کرنے لگے اور اللہ پاک سے دعا کی :کہ اے اللہ پاک ہمیں معاف فرما دے۔تو اللہ پاک نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی، ترجمہ (Translation) : اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب!تم ان میں تشریف فرما ہواور اللہانہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش(یعنی معافی) مانگ رہے ہیں۔(پ۹، سورۃالانفال،آیت۳۳) (ترجمہ کنز العرفان) (تفسیر ابن کثیر ،۴ /۴۹) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمارے پیارےنبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم رَحْمَۃُ الِّلْعٰلَمِیْن ہیں یعنی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم فرشتوں ،انسانوں ،جنّات ،جانوروں اورتمام مخلوقات (creatures) کے لیے رحمت ہیں کیونکہ جب لوگوں نےعذاب مانگا تو انہیں جواب دیا گیا کہ جب تک تمھارے نبی محمدٌ رّسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تمہارے درمیان موجود ہیں اللہ پاک عام (یعنی سب پر)عذاب نازل نہیں فرمائے گا۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جب کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً اللہ پاک سے معافی مانگنی چاہیے۔تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہاللہ پاک کے غضب سے بچنے کےلیےہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا (مثلاً اَسْتَغْفِرُاللہ!کہتے رہنا)چاہیے۔
254 ’’تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِم ُ السَّلَام کے سردار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےساتھ ایک دعوت میں حاضر تھے،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا :میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا، اللہ پاک دنیا کی ابتداء (یعنی شروع)سے آخر تک کےتمام لوگوں کوایک میدان میں جمع فرمائے گا ،سورج ان کےقریب ہو جائے گا اور لوگوں کوبہت زیادہ پریشانی (panic) ہوگی اور وہ ایک دوسرے سےکہیں گے: کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ کیا تم اللہ پاک سے کسی کی شفاعت کا انتظار(wait) کر رہے ہو؟وہ ایک دوسرے سےکہیں گے: چلو! حضرت آدمعَلَیْہِ السَّلاَم کے پاس چلیں۔لہٰذا وہ ان کےپاس جائیں گےاورعرض کریں گے:آپ عَلَیْہِ السَّلاَمتمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ پاک نے آپ کو اپنی قدرت(اور طاقت) سےپیدا فرمایا اور فرشتوں کوسجدۂ (تعظیمی یعنی آپ کی respect کے لیے سجدہ)کرنے کا حکم دیاتو انہوں نےآپ کو سجدہ کیا اور آپ کو جنّت میں رکھا، کیا آپ اللہ پاک کی بارگاہ میں ہماری شفاعت(یعنی سفارش) نہیں فرمائیں گے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت اور عذاب(punishment) میں ہیں ؟ تو حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم فرمائیں گے:بے شک اللہ پاک آج اس قدر غضب اورجلال میں ہے کہ اس سے پہلےکبھی نہیں ہوا اور نہ ہی اس طرح اس کے بعد کبھی ہو گا،آج تو بس مجھے اپنی جان کی فکر ہے،میرے علاوہ کسی اور کی طرف جاؤ۔پھر تمام لوگ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلاَم ،حضرت ابراہیمعَلَیْہِ السَّلاَم، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے پاس باری باری حاضر ہو ں گےلیکن ہرنبی عَلَیْہِ السَّلاَمیہی فرمائیں گے :آج تو بس مجھے اپنی جان کی فکر ہے۔اللہ پاک کے غضب وجلال کی وجہ سے کوئی نبی بھی لوگوں کی سفارش نہیں کریں گے ۔ پھر تمام لوگ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے پاس حاضرہوں گےوہ بھی منع کریں گے اورفرمائیں گے کہ حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس جاؤ۔ پھرتمام لوگ میرے پاس آئیں گےاورعرض کریں گے:اے محمد(رّسولُ اللہ) صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) آپ اللہ پاک کے رسول اور آخری نبی ہیں ، اللہ پاک نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے صدقے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں،(اور سب لوگ آپ کی تعریف کریں گے، چاہے وہ آپ سے پہلے دنیا میں آئے ہوں یا بعد میں، مسلمان ہوں یا کافر،آپ کا ساتھ دینے والے ہوں یا تکلیف دینے والے ہوں اور یہ مقام (rank)اور فضیلت(یعنی درجہ) کسی کو بھی نہیں ملی اور نہ ملے گی کہ دنیا میں آنے والےتمام لوگ، کسی ایک عزّت والے شخص کی تعریف کر رہے ہوں اور عرض کریں گے کہ) اللہ پاک سے ہماری شفاعت (یعنی سفارش) کیجئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ مزیدفرماتے ہیں پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:میں عرش کے نیچےآؤں گا اور اللہ پاک کوسجدہ کرونگا۔ اللہ پاک میرا سینہ (chest) کھول دے گا اور میرے دل میں اپنی حمد و ثناء (یعنی تعریف ) کےایسے جملے ڈال دے گا جو اس سے پہلے کسی کے دل میں نہیں آئیں گئے، پھر اللہ پاک فرمائے گا:اے محمد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) اپنا سر اُٹھائیے، مانگیئے، آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول(accept) کی جائے گی۔ تومیں اپنا سر اٹھاؤں گااورعرض کروں گا: اے میرے ربّ ! میری اُ مَّت کو بخش(یعنی مُعاف کر) دے،اے میرے پالنے والے! میری اُمت کو بخش دے۔اللہ پاک فرمائے گا: اے محمد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )! اپنی اُمّت میں سے جن پر کوئی حساب نہیں ، انہیں جنّت کےدروازوں میں سے سیدھی طرف کے دروازے سےجنّت میں لے جاؤ۔ (صحیح البخاری، الحدیث:۳۳۴۰،ص۲۶۹ملخصاو حدیث: ۴۷۱۲،ص۳۹۳ ملخصا وصحیح مسلم، الحدیث:۴۸۰، ص ۷۱۴، بتغیرٍملخصا) ایک اورروایت میں ہے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا : میں اپنی اُمّت کی ایک مرتبہ شفاعت کر کے ہر99(ننانوے) میں سے ایک انسان کوباہر نکال دوں گا،مزید فرمایا: میں بار بار اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوتا رہوں گا اور شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ اللہ پاک مجھ سے فرمائے گا: تیری اُمّت میں سے جس نے ایک دن بھی سچے دل سے یہ گواہی دی(testified ہوا) کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی پر اس کی موت ہوئی(یعنی مسلمان ہونے ہی کی حالت (condition) میں فوت ہوا) اسے(جنّت میں ) لے جاؤ۔)المسند للامام احمد بن حنبل، مسند انس بن مالک، الحدیث:۱۲۸۲۴،ج۴،ص۳۵۵، بتغیرٍقلیلٍ) اس حکایت سےمعلوم ہوا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تمام نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلاَم سے افضل(superior) اوراعلیٰ (بڑے درجے والے)ہیں کہ قیامت کےدن اللہ پاک کےغضب اورجلال کی وجہ سے کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلاَم بھی لوگوں کی سفارش اور شفاعت نہیں کریں گے۔لیکن ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو یہ خاص مقام اورمرتبہ ديا جائے گا کہ سب لوگ آپ کی تعریف کریں گے، آپ سے مدد مانگیں گے اور آپ ہی اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے پہلے لوگوں کی شفاعت کریں گے(اس کے بعد انبیاءِ کرام عَلَیْہِم السَّلاَمبلکہ اولیاء ِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ وغیرہ بھی شفاعت کریں گے)اور پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی سفارش کی وجہ سے لوگوں کا حساب شروع ہو گا اور گناہ گار مسلمان بھی بالاخر(یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ سب کے سب) جنّت میں چلے جائیں گے۔
255 ’’قیامت میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان ‘‘
شفاعت:
اللہ پاک کے نیک بندے قِیامت کے دن گنہگاروں کی شفاعت کریں گے۔ (تفسیرکبیر،الزّخرف،تحت الآیۃ: ۸۶، ۹/۶۴۸ماخوذاً) شَفاعت کے معنیٰ ہیں:’’ گُناہوں سے مُعافی کی سِفارِش۔‘‘ یاد رہے کہ اللہ پاک کے حضور کوئی زبردستی(force) نہیں کر سکتا، یہ اللہ پاک ہی کا کرم ہے کہ اُس نے اپنے نیک بندوں کو سفارش (recommendation) کرنے کی اجازت دی ہےمُطلَقًا شَفاعت کا انکار(denial یعنی یہ کہنا کہ قیامت میں شفاعت ہوگی ہی نہیں) قرآنِ پاک کے حکم کا انکار اورکُفر ہے(نیکی کی دعوت،ص۴۵۱ مُلخصاً) اس بات کا عقیدہ (belief) رکھنا واجب ہے کہ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ایسے شفاعت (اور سفارش)فرمانے والےہیں کہ جن کی شفاعت قبول (accept) کی جائے گی اور اس بات پر ایمان(believe) رکھنا بھی واجب ہے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے علاوہ قراٰنِ مجید، انبیا ئے کرام عَلَیْہِم السَّلاَم ، فرشتے، عُلَما ئے کرام، نیک لوگ(مثلاً اولیائےکرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ)،شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)ہونے والے) بلکہ بہت سے مسلمان ،روزہ اور کعبۃُ اللہ وغیرہ سب شفاعت کریں گے۔ (المعتقد المنتقد،ص۲۴۷) جب تک ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم شفاعت کا دروازہ نہیں کھولیں گے کسی کو بھی شفاعت کی اجازت نہ ہوگی۔ (المعتقد المنتقد،ص۲۴۰) پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سفارش کی وجہ سے قیامت میں موجود سب لوگ گھبراہٹ (panic)سے باہر آئیں گے شفاعت کی اور بھی قسمیں ہیں (مثلاً: () جن مسلمانوں کے لیےجہنّم کا حکم ہوگیا، انہیں دوزخ جانے سے بچانا () جو مسلمان جہنّم جا چکے، ان کے عذاب (punishment) میں کمی کروانا () مسلمانوں کودوزخ سے نکلوانا () مسلمانوں کےجنّت میں درجے بلند کروانا ) ہر قسم کی شفاعت حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم فرمائیں گےاور شفاعت کا منصب (rank, authority)بھی آپ کو دیا جاچکا(بہارِ شریعت،ح۱،ص۷۲، عقیدہ ۴۳، ۴۴ باالفاظِ دیگر)۔یاد رہے !کہ ہم جہنّم کی ایک لمحے(moment) کی سزا (punishment) بھی برداشت نہیں کر سکتے اور ہر گناہ جہنّم میں جانے کا سبب ہے لھذا ہمیں ہر گناہ سے بچنا ضروری ہے کیونکہ حدیثوں نے یہ بات بیان کر دی ہے کہ کچھ نہ کچھ گناہ گار مسلمان دوزخ میں ضرور جائیں گے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ گناہ کفر کی طرف لے جاتے ہیں، اگر (اللہ نہ کرے کہ) کسی سے کفر ہوگیا اور بغیر توبہ کیے مرا توا ب ہمیشہ جہنّم میں رہنا پڑے گا۔ ہم اللہ پاک سے اپنے ایمان کی حفاظت(protection of faith) کی دعا کرتے ہیں۔
سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِہِ وَسَلَّمکیشفاعت کے بعد انبیا ء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی اُمّت کی شفاعت فرمائیں گے، اولیاءکرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ، علماء کرام، شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)) ہونے والے، قرآنِ پاک یادکرنے والے ، حج کرنے والے ، بلکہ ہر وہ شخص جس کو کوئی دینی منصب ملا (مثلاً پیر صاحب، امام صاحب ، دینی استاد صاحب)، اپنے اپنے تعلق(relation) رکھنے والوں کی شفاعت کرینگے۔ یہاں تک کے چھوٹےنابالغ بچے جو مرگئے ہیں، اپنے ماں باپ کی شفاعت کریں گے، یہ بھی ہوگاکہ علما ء کرام کے پاس کچھ لوگ آکر عرض کریں گے: ہم نے آپ کے وضو کے لیے فلاں وقت میں پانی بھر دیا تھاتو علما ء کرام اُن تک کی شفاعت کریں گے۔ (کتاب العقائد ص۳۴،۳۵)
سلسلہ قادریہ کی شان:
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا’’ تمام نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلاَم سے افضل(superior) ‘‘ ہونا قیامت کے دن ساری اُمّتوں کے سامنے آجائے گا کہ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہی شفاعت کا دروازہ کھولیں گے۔
حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان، ساری انسانیت مان لے گی اور اﷲ پاک اپنے حبیب( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کو ’’مقامِ محمود‘‘ عطا فرمائے گا اور وہ یہ کہ سب لوگ آپ کی تعریف کریں گے، چاہے آپ سے پہلے دنیا میں آئے ہوں یا بعد میں، مسلمان ہوں یا کافر،آپ کا ساتھ دینے والے ہوں یا تکلیف دینے والے ہوں۔(بہارِ شریعت،ح۱،ص۷۰ مُلخصاً)
پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سفارش کی وجہ سے لوگ قیامت کے دن کی گھبراہٹ(panic) سے بچ جائیں گے(اور حساب کتاب شروع ہو جائے گا) ۔ اس شفاعت کو’’شفاعتِ کُبرٰی‘‘ کہتے ہیں ۔ اس شفاعت سے ہر شخص کو فائدہ حاصل ہوگا چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو(یعنی اس شفاعت کے بعد حساب شروع ہو جائے گا مگر جو کافر مرا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنّم ہی میں رہے گا)۔ (بہارِ شریعت،ح۱،ص۷۰ مُلخصاً)
حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ایک جھنڈا دیا جائے گا جس کو’’ لِوَاءُ الْحَمْد ‘‘ کہتے ہیں، تمام مومنین یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے زمانے(time) سے آخر تک کے سب مسلمان اُسی کے نیچے ہوں گے۔ (بہارِ شریعت، ح۱،ص۱۴۷ مُلخصاً)
اللہ پاک نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو’’ حوض کوثر‘‘ بھی عطا فرمایا۔ یہ حوض (pool) اتنا بڑا ہوگا کہ ایک کنارے (side) سے دوسرے تک جانے کے لیے ایک مہینا چاہیے ، اس کے کناروں (sides) پر موتی کے گنبد(dome) ہونگے ، اسکے چاروں كنارے(all sides) برابر ہونگے(یعنی یہsquare shape ہوگا) ، اس کی مٹی مشک (یعنی خوشبو )کی ہوگی ، اس کا پانی دُودھ سے زیادہ سفید، شہد(honey) سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ پاک و صاف ہوگا، اس پر برتن ستاروں کی گنتی(numbers) سے بھی زیادہ ہونگے، جو اس کا پانی پیے گا کبھی پیاسا(thirsty) نہ ہوگا، اس میں جنّت سے دو پر نالے(یعنی مکان وغیرہ کی چھت پر لگے ہوئے پائپ جن سے بارش (rain) کا پانی زمین پر گرتا ہے ) ہر وقت گرتے ہیں(یعنی ہر وقت برکت والا پانی آتا رہتا ہے)، ایک (پر نالا) سونے کا، دوسرا چاندی کا۔(بہارِ شریعت،ح۱،ص۱۴۵ مُلخصاً) حَوض کوثر کے بارے میں ایمان(believe) رکھنا واجب ہے، جو اس کا انکار(denial) کرے(یعنی یہ کہے کہ قیامت میں حوض کوثر نہیں ہوگا)ایسا شخص فاسِق و بدعتی (گمراہ اور جہنّم میں لے جانے والا عقیدہ (belief) رکھنے والا)ہے۔(شرح الصاوی علیٰ جوھرۃ التوحید، ص۳۹۸، تحفۃ المرید، ص۴۴۲)حضرت امام محمدقُرطُبی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:صحیح یہ ہے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دو (2)حوض ہوں گے ایک (1st)پُل صِراط سے پہلے اوردوسرا (2nd)پُل صِراط کے بعد،ان دونوں کا نام کوثر ہے۔)التذکرۃ للقرطبی،ص۲۹۱(
سب لوگ پُل پر سے گزرنے کی کوششوں میں ہونگے، مگر ہمارےبے گناہ آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ گناہ گاروں کی
شفاعت کر رہے ہونگے۔اپنے ربّ سے دُعا کر رہے ہونگے: رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ ، یا اللہ ! ان گناہگاروں کو بچالے بچالے (مسلم، ص۱۰۶،حدیث: ۴۸۲ملتقطاً)۔ صرف یہی نہیں ، کبھی میزان( ) پر تشریف لے جائیں گے، وہاں جس کی نیکیوں میں کمی دیکھیں گے، اس کی شفاعت فرما کر اُسے بچا لیں گے اور فوراً ہی دیکھو گے تو حوضِ کوثر پر تشریف فرما ہیں ، پیاسوں (thirsty)کو کوثر پلارہے ہیں اور وہاں سے پُل صراط تشریف لے گئے اور گر نے والوں کو بچا رہے ہیں۔ غرض ہر جگہ اُمّت انہیں پکار رہی ہوگی، وہ مدد فرما رہے ہونگے...! ہر ایک کو تو اپنی فکر ہے، مگر ہمارے آخری نبی محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو سب کی فکر ہے۔(بہارِ شریعت،ح۱،ص۱۴۸،۱۴۹ مُلخصاً) کاش ہم اپنے احسان فرمانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سنّتوں پر عمل کیا کریں، ان پر کثرت سے درود شریف پڑھا کریں، کھڑے ہو کر سلام عرض کیا کریں، ان کے دین کی تعلیمات(teachings) کے مطابق، ان کا میلاد منایا کریں، ان کی جشنِ ولادت کی برکتیں حاصل کیا کریں۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد وَعَلٰی اٰلہِ وَاَصْحَابِہِ وَسَلَّم
جنّت میں وسیلہ: فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جب تم مؤذن کو (اذان کہتے ہوئے) سنو تو اذان کے کلمات دہراتے جاؤ (keep repeating) اور پھر مجھ پر دُرود پڑھو کیونکہ جو مجھ پر ایک مرتبہ دُرود پڑھتا ہے اللہ پاک اس کے بدلے میں اس پر دس (10) رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس کے بعد اللہ پاک سے میرے لئے ’’وسیلہ ‘‘ کے مقام (یعنی جگہ ملنے )کی دعا مانگو کیونکہ وہ جنّت کا ایک ایسا مقام ہے جو اللہ پاک کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں۔ جو شخص میرے لئے مقامِ وسیلہ کی دعا مانگے تو میں اُس کی شفاعت کرونگا۔( مسلم ، ص۱۶۲ ، حدیث : ۸۴۹) یاد رہے!اللّٰہ پاک قیامت کے دن اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو یقینی طور پر (definitely)وسیلہ اور مقامِ محمود عطا فرمائے گا ، چاہے مسلمان نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے اس کی دعا کریں یا نہ کریں کیونکہ یہ اللّٰہ پاک کا اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے وعدہ ہے اور اللّٰہ پاک اپنے وعدے کے خلاف (against)نہیں فرماتا، البتہ مسلمانوں کو وسیلہ اور مقامِ محمود کی دعا مانگنے کا جو فرمایا گیاہے وہ اس لئے ہے کہ اس دعا سے ، دعا کرنے والے کو یہ فائدہ ملے کہ وہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شفاعت حاصل کر لے۔(صراط الجنان ج۵،ص۴۹۹مُلخصاً)
اہم بات: ان تمام مرحلوں(steps) کے بعد اب ایسے گھر میں جانا ہے کہ جس میں ہمیشہ رہنا ہے، کسی کو آرام کا گھر ملے گا، جس کی راحتیں اور سکون کبھی ختم نہ ہوگا، اس کو جنّت کہتے ہیں۔ اور کافروں کو تکلیف کے گھر میں جانا پڑے گا جس کی تکلیف کی کوئی حد(limit) نہیں، اسے جہنّم کہتے ہیں۔ (بہارِ شریعت ح۱، ص۱۱۶، ۱۵۱ بتغیر)مسلمانوں میں سے ایک تعداد (a number of Muslims)جہنّم میں ضرور جائے گی، جیسا کہ حدیثوں میں موجود ہے مگرا للہ پاک کے فضل سے، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شفاعت سے بالآخر(ultimately)وہ سب جہنّم سے جنّت میں چلے جائیں گے۔ یاد رہے کہ جہنّم کا عذاب(punishment) سخت ترین ہے کہ کوئی ایک لمحے(a moment) کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ ہم اللہ پاک سے جہنّم سے بچنے کا سوال کرتے ہیں اور جنّت میں جانے کی دعا کرتے ہیں۔
256 ’’موت کو ذبح (slaughter)کر دیا جائے گا‘‘
جب جہنّمی ، دوزخ میں چلے جائیں گے اور صرف وہ رہ جائیں گے کہ جنہیں ہمیشہ اس میں رہنا ہےتوایک فرشتہ آواز دے گا: فلاں(شخص) کہاں ہے؟ جس نے اپنی عمر کو برے اعمال میں خراب کردیا؟ پھر وہ فرشتےلوہے کے بڑے بڑے گرز(ایک ہتھیار جس کے اوپر گول موٹا لوہا ہوتا ہے) لے کر اس کی طرف بڑھیں گے اور اس کو بہت ڈرائیں گے اور سخت عذاب(punishment) کی طرف لے جائیں گے اور اسے اُلٹا کرکےجہنّم میں پھینک دیں گے پھر اُسے ایسے گھر میں قید (prison)کر دیں گے جس کےراستے میں بھی سخت اندھیرا ہو گا اور اس میں طرح طرح کے عذاب ہوں گے۔ قیدی (prisoner)ہمیشہ اس میں قید رہیں گے، اس میں آگ بھڑکائی جائے گی (fire will be lit) ، ان کے پینے کو کھولتا ہوا پانی (boiling water) دیا جائے گااور عذاب کے فرشتے ان کو خوب ماریں گے اور ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی ۔ وہاں کسی قسم کی ذہانت(intelligence) یا طاقت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اورجہنّم سے آزادی نہ ملے گی،ان کےپاؤں سر کے بالوں سے باندھ دئیے جائیں گےاورگناہوں کی کالک(blackness) سے ان کےمنہ سیاہ (black)ہو جائیں گے،وہ دوزخ میں چیختے چلاتے رہیں گے:اے(جہنّم کے نگران فرشتے) مالک (عَلَیْہِ السَّلَام) ! عذاب پہنچنے کا وعدہ، جو ہمارے لیے تھا وہ سچا ہو چکا،اے مالک! اب ہمیں آزاد کر دو،اے مالک! اب ہم دوبارہ بُرے اعمال نہیں کریں گے۔ دوزخ کے نگران فرشتے حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَامجواب دیں گے:ہائے افسوس (Alas!)! وقت گزر گیا اب تمارے لئے جہنّم سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، یہیں پڑے رہو اور کوئی بات مت کرو ۔ اگر تمہیں ایک بار اس سے نکال بھی دیا جائے تو تم دوبارہ وہی کرو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے۔اب جہنّمیوں کو بہت زیادہ افسوس ہوگا پھر ان کو مزید آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔ ان کے اوپر نیچے، سیدھی طرف، اُلٹی طرف بلکہ ہر طرف آگ ہی آگ ہو گی ، گویاکہ وہ آگ کے اندر ڈوبے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کاکھانا،پینا،پہننا، سب آگ ہی ہوگا۔ وہ دوزخ کی آگ کے ٹکڑوں کے درمیان ہوں گے، اب ان کو ڈامر (تارکول ۔ asphalt)کا لباس پہنایا جائے گا، بھاری بیڑیاں(shackles) پہنائی جائیں گی،وہ جہنّم کی سختیوں سے چیخیں گے اور موت کو پکاریں گے تو ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جو ان کی کھال اور پیٹوں کے اندر کا سب کچھ پگھلا دے گا، اور بہت کچھ ہوگا ۔(احیاء العلوم ج۵،ص ۷۲۱،۷۲۲ ماخوذاً)( ہم اللہ پاک سے اُس کے عذاب (punishment) سے پناہ مانگتے ہیں) اب جنّت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے(sheep) کی شکل میں لا کر کھڑا کر دیا جائے گا، پھر کوئی آواز دینے والا آواز دے کر جنّتیوں اور جہنّمیوں کو بُلائے گا توجنّت والے ڈر ڈر کر جنّت سے باہر دیکھیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہاں سے نکلنے کا حکم دے دیا جائے اور دوسری طرف جہنّم والے خوشی سے جہنّم کے باہر دیکھیں گے کہ شاید اس مصیبت سے آزادی ملے۔اب جنّتیوں اور جہنمیوں دونوں سے پوچھا جائے گا کہ اس مینڈھے(sheep) کو پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے : ہاں ! یہ موت ہے۔اب سب کے سامنے اُسے ذبح (slaughter)کر دیا جائے گی اور کہے جائے گا : اے جنّت والو! ہمیشہ کے لیے(تم جنّت میں) ہو اب مرنا نہیں ہے اور اے جہنّم والو! ہمیشہ کے لیے(تم جہنّم میں) ہو، اب موت نہیں ، اس وقت جنّتیوں کے لیے خوشی پر خوشی ہوگی اورغیر مسلم ہر طرح کی بھلائی سے نااُمید ہوجائیں گے اور گدھے کی آواز میں چِلّا چِلّا کر اِتنا روئیں گے کہ آنسو ختم ہوجائیں گےاور آنسوؤں کی جگہ خون نکلے گا، روتے روتے گالوں میں گڑھے پڑجائیں گے اور رونے کی وجہ سے اِتنا خون اور پیپ (pus)نکلےگا کہ اگر اُس میں کشتیاں (boats) ڈالی جائیں تو چلنے لگیں(بہار شریعت،۱/۱۶۳تا۱۷۱ماخوذ ا) نَسْألُ اللہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃ(ہم اللہ پاک سے دین، دنیا اور آخرت میں معافی اورسلامتی کا سوال کرتے ہیں) ۔(بہارِ شریعت ج۱ ص۱۷۰ تا ۱۷۱ مُلخصاً) جہنّمیوںکے ساتھ ہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ بُرے کاموں کا انجام(result) برا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کاموں کو اچھا کریں اور آخرت کی تیاری کریں۔
257 ’’جنّت چا ہئے یا دوزخ؟‘‘
حضرت اِبراہیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں نے سوچا کہ میں جہنَّم میں ہوں اور ہر طرف آگ ہی آگ ہے، میں زنجيروں(chains) سےبندھا ہوا ہوں ،تُھوہَڑ(یعنی زہریلےکانٹے (poisonous thorn) والا دَرَخت) کھا رہا ہوں اور کھولتا ہوا پانی (boiling water) پی رہا ہوں۔ اس طرح سوچنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے پوچھا: اے ابراہیم (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ)! بتا، کیا تجھے جہنَّم کا عذاب(punishment) چاہیے؟ تو میرے دل نے کہا: نہیں ، نہیں بالکل نہیں ۔ اِس کے بعد میں نے سوچا کہ میں جنَّت میں ہوں، صاف ستھرے لباس میں ہوں، بہت اعلیٰ قسم کے محل (palace) میں ہوں، ہر طرف خادم اور نوکر ہیں ،بہترین باغات ہیں ،وہاں کے پھل کھا رہا ہوں، اسکی نہروں سے پاک شربت پی رہا ہوں ۔ اِن خیالات کے بعد میں نے اپنے آپ سے پوچھا : اے ابراہیم (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ)! بتا، تجھے کیا چیز پسند ہے؟(جنَّت یا دوزخ ؟ ) تو میرےدل نے کہا:جنَّت چاہیے۔میں نے کہا۔ اچھا! تو سن لو، ابھی تمھیں وقت دیا جاتا ہے، دنیا میں جا کر نیک عمل کر کے آؤ تاکہ جنَّت کی خوب نعمتیں پاؤ اور سنو! کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں کرنا ورنہ جہنّم میں ڈال دیے جاؤ گے۔ (حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء،ج۴، ص۲۳۵ رقم ۵۳۶۱دار الکتب العلمیۃ بیروت بالتغیر) اس سچی حکایت سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی تھوڑی سی ہے، اس میں ملنے والی نعمتیں تھوڑی ہیں اور ختم ہونے والی ہیں جبکہ آخرت کی نعمتیں بہت ہی زیادہ ہیں اور وہ نہ ختم ہونے والی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ آخرت کی تیاری کر تے ہوئے ہر فرض، واجب اور سنّت مؤکدّہ پر عمل کرنے،فرض علوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ تلاوت قرآن، نفل نماز، نفل روزے،علمِ دین حاصل کرنے اور درودِ پاک پڑھنے کی عادت بنائیں۔اسی طرح اپنے آپ کو ہر طرح کےگناہ اور بُرےکاموں اور ہر طرح کےبُرے لوگوں سے بچائیں۔
258 ’’ جہنّم کے بارے میں چند ضروری باتیں‘‘
’’جہنّم‘‘ ایک مکان ہے جو اللہ پاک کے قَہْر اور جَلال کی جگہ ہے ہر وہ بڑی سے بڑی تکلیف جو محسوس کی جاسکے یا سوچی جاسکے جہنّم کے عذاب کے سامنے کچھ نہیں جہنّم میں جلنے والی آگ اُونچے اُونچے مَحَلّوں (palaces) کے برابر اُڑیں گی جہنّم کی آگ کو مزید جلانےکے لئے اُس میں آدَمی اور پتّھر ڈالے جائیں گے دنیا کی آگ جہنّم کی آگ کا سترواں (یعنی بہت چھوٹا سا )حصّہ ہے(کہ دنیا کی ساری آگ مل کر بھی جہنّم کی آگ نہیں بن سکتی) جہنّم کا سب سے ہلکا عذاب (punishment) یہ ہے کہ جہنّمی کو آگ کی جوتیاں (shoes of fire) پہنادی جائیں گی جس سے اُس کا دِماغ ایسے پکے گا جیسے تانبے (copper)کی پتیلی آگ سے کَھولتی ہے، اور وہ شخص سوچے گا کہ شاید جہنّم میں سب سے زیادہ عذاب مجھے ہی ہورہا ہے سب سے ہلکے عذاب والے سے اللہ پاک پوچھے گا: اگر ساری زمین تجھے دے دی جائے تو کیا تو اس عذاب(punishment) سے باہر نکلنے کے لئے وہ ساری زمین دے دے گا؟ عرض کرے گا: جی ہاں۔ اللہ پاک فرمائے گا: ہم نے تو تجھے بہت آسان چیز کا حکم دیاتھا کہ ’’کُفر نہ کرنا‘‘ مگر تو نہیں مانا جہنّم کی آگ ہزار (1000)سال تک جلتی رہی ، یہاں تک کہ لال ہوگئی، پھر ہزار (1000)سال تک جلتی رہی ، یہاں تک کہ سفید ہوگئی، اُس کے بعد پھر ہزار (1000)سال تک جلتی رہی، یہاں تک کہ کالی ہوگئی، اب وہ بہت ہی زیادہ کالی ہے اگر جہنّم کو سُوئی کے سُوراخ کے برابر کھول دیا جائے توزمین میں رہنے والے سارے لوگ اُس کی گرمی سے مرجائیں اگر جہنّم کا کوئی فرشتہ دنیا والوں کو دکھایا جائے تو سب کے سب اُس کے ڈرسے مرجائیں جہنّمیوں کی زنجیر کی ایک کڑی(یعنی لوہے کا حلقہ۔link of chain) بھی اگر دنیا کے پہاڑوں پر رکھ دی جائے تو وہ ہلنے لگیں، یہاں تک کہ سارے پہاڑ پگھل کر (molten) زمین کے اندر چلے جائیں دنیا کی آگ بھی اللہ پاک سے پناہ مانگتی ہے کہ اسے جہنّم میں نہ لے جایا جائے، مگر حیرت (یعنی عیب سی بات)ہے اُس انسان پر کہ جو جہنّم کے بارے میں یقین(believe) رکھتا ہے اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ کچھ نہ کچھ مسلمان دوزخ میں جائیں گے مگر پھر بھی جہنّم میں جانے والے کام کرتا ہے جہنّم میں اتنی گہرائی (depth)ہے کہ اگر پتّھر کی چٹّان (rock)جہنّم کے کنارے (یعنی اوپر)سے اندر پھینکی جائے تو ستّر(70)سال میں بھی اُس کی زمین میں نہیں پہنچے گی جہنّم میں ایسی جگہیں (places) بھی ہیں جن سے جہنّم خود روزانہ ستّر(70) یا اِس سے زیادہ باراللہ پاک سے پناہ مانگتا ہے(کہ مجھے اس جگہ سے بچا) جہنّم میں لوہے کے گُرز ( ایک قسم کے ہتھیار)سے فرشتے ماریں گے، اگر ان میں سے ایک بھی زمین پر رکھ دیا جائے تو سارے انسان اور جنّات مل کر بھی اُسے اٹھا نہیں سکتے جہنّم میں مزید یہ عذابات(punishments) بھی ہیں:() بڑی قسم کے اُونٹوں کی گردن کے برابر بچّھو (scorpion)اور بڑے بڑے سانپ کاٹیں گے، اُن کے ایک بار کاٹنے کی وجہ سے ہزار(1000)سال تک درد، جلَن اور بے چینی ختم نہیں ہوگی ()کانٹوں والا زہریلا(poisonous thorn) درخت کھانے کو دیا جائے گا، جو جاکر گلے میں پھنس جائے گا، اُسے اُتارنے کے لئے پانی مانگیں گے تو اِتنا کھولتا ہوا پانی(boiling water) دیا جائے گا کہ پیٹ میں جاتے ہی آنتوں (Intestines) کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا جہنّمی کی شکل اِتنی بُری ہوگی کہ اگر دنیا میں وہ شکل دکھا دی جائے تو اُس کی بدصورتی اور بدبو کی وجہ سے سب مرجائیں جہنّمی کا جسم اتنا بڑا کردیا جائے گا کہ ایک کندھے سے دوسرے کندھے تک پہنچنے کے لئے تیز سواری والے شخص کو 3 دن لگیں گے، ایک داڑھ اُحُد
(مدینے پاک کے ایک )پہاڑ جتنی ہوگی، کھال 42 گز موٹی ہوگی اور زبان 3 یا 4 ہزار گز لمبی ہوگی غیر مسلموں کو آگ کے صندوق(box) میں ڈالا جائے گا، پھر اُس میں آگ جلا دی جائے گی اور آگ کا تالا لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں ڈالا جائے گا اور اُس میں بھی آگ جلا دی جائے گی اور آگ کا تالالگادیا جائے گا، ایسا ہی ایک اور مرتبہ ہوگا۔ غیر مسلم سمجھے گا کہ اُس کے سوا اب کوئی آگ میں نہیں رہا ۔ یہ اُس کے لئے عذاب(punishment) پر عذاب اور ہمیشہ کا عذاب ہوگا۔(بہار شریعت،۱/۱۶۳تا۱۷۱ماخوذ ا)
اہم باتیں :
دوزخ حق ہے یعنی قراٰن وحدیث سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ جہنّم موجود ہے، اس کا انکار(denial) کرنے والا (یعنی یہ کہنے والا کہ جہنّم ہے ہی نہیں)کافر ہے ۔ ( الشفا،۲/۲۹۰) جو کہے کہ جہنّم ہے مگر جہنّم کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کو دیکھ کر غمگین (sad)ہوگا تو یہ بھی جہنّم کا انکار(denial) کرنے والا اور کافر ہے دوزخ کو پیدا ہوئے ہزاروں سال ہو گئے ہیں(بہار شریعت،۱/۱۵۱ مُلخصاً) اور وہ اب بھی موجود ہے ایسا نہیں ہے کہ قِیامَت کے دن بنائی جائے گی (منح الروض الازھر، ۲۸۴) ۔ دوزخ ساتویں زمین (seventh earth)کے نیچے ہے (منح الروض الازھر، ۲۸۵) ۔
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جو شخص تین(3) بار جہنّم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنّم بھی کہتی ہے: یااللہ! اسے دوزخ سے محفوظ(یعنی دور) رکھ۔(ترمذی، ۴/۲۵۷، حدیث:۲۵۸۱)
259 ’’بہترین محل(palace) ‘‘
حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک بار بصرہ شہر کے کسی مَحَلّے سے گزر رہے تھے کہ ایک بہترین محل (palace) دیکھا ، وہاں ایک جوان آدمی مزدوروں کے کاموں کو چیک کر رہا تھا۔حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے ساتھ موجودحضرت جعفر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے فرمایا: یہ جوان اتنی دِلچسپی (interest) کے ساتھ اپنا محل بنا رہا ہے،میں چاہتا ہوں کہ اللہ پاک سے دُعا کروں کہ یہ شخص جنّت کے جوانوں میں ہو جائے ۔ پھر آپ اُس جوان کے پاس آئے،سلام کیا اور فرمایا:آپ اِ س محل (palace) پر کتنی رقم (amount)خرچ کرنا چاہتے ہیں؟ تواُس جوان نے کہا :ایک لاکھ دِرہم (چاندی کے سکّے،coins)۔حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا :اگر یہ رقم(amount) آپ مجھے دے دیں(تاکہ میں اسے فقیروں میں بانٹ دوں) تو میں آپ کے لئے ایک ایسے بہترین محل کی ضمانت(guarantee) لیتا ہوں ،جو اِس سے بہت زیادہ اچھا ہوگا اور صرف مَحل ہی نہیں بلکہ اُس کے ساتھ خادِم بھی ہونگے مزید بھی بہت کچھ ہوگا، یہ بھی یاد رہے! کہ اُس محل کو مزدور (laborer)نہیں بنائیں گے بلکہ وہ اللہ پاک کے حکم سے بنایا جائے گا ۔ اُس جوان نے کہا:مجھے سوچنے کا وقت دیں ۔حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : ٹھیک ہے ۔اِس کے بعد آپ وہاں سے آگےچلے گئے۔ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بار بار اُس شخص کے لیے دُعا کرتے رہے۔صبح جب آپ اس کے محل (palace) کے سامنے سے گزرے تو وہ جوان پہلے ہی سے وہاں کھڑا تھا، اُ س نے سلام کرنے کے بعدعرض کی: کیا آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو کل کی بات یاد ہے ؟ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : جی ! تو اُس شخص نے ایک لاکھ دِرہِم کی تھیلیاں آپ کو دے دیں اور ساتھ ہی قلم اور کاغذ بھی دے دیا ۔ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کاغذ لے کر، اُس پر کچھ اس طرح لکھا: '' بِسْمِ اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم یہ تحریر اِس لئے ہے کہ اِس ایک لاکھ دِرہم کے بدلے(exchange) میں ،(حضرت )مالِک بن دِینار (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) نے فُلاں شخص کے لیے اس کے دنیوی مکان سے بہترین ایک محل اللہ پاک سے دِلوانے کا وعدہ کیاہے '' ۔ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کاغذ اُس جوان کو دیا اورایک لاکھ دِرہِم اُس سے لے کر چلے گئے اور شام سے پہلے پہلے وہ سب رقم غریبوں میں تقسیم (distribute)کر دی ۔ابھی چالیس (40) دن بھی نہیں گُزرے ہونگے کہ فجر کی نَماز کے بعد مسجِد سے نکلتے ہوئے حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مسجد کی محراب (arch)میں وُہی کاغذ دیکھا، تو حیران ہوئے (surprised) اور اُس کاغذ کے پیچھےسِیاہی(ink) کے بغیر اس طرح کے الفاظ چمک رہے تھے: اللہ پاک کی طرف سے مالِک بن دِینار (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ )کے لئے کہ تُم نے جِس محل کے لیے ہمارے نام سے ضَمانت(guarantee) لی تھی وہ ہم نے اُس جوان کو دے دیا بلکہ اِس سے سترگُنا ( times 70)زیادہ دے دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اُس شخص کا انتقال ہوگیا ہے اور یہ کاغذ اس کی قبر میں رکھا گیا تھا۔یہ سب دیکھ کر ایک امیر آدمی آیا اور حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دو(2) لاکھ دے کر اس طرح کی تحریر لکھنے کی عرض کی تو آپ نے فرمایا:جو ہونا تھا وہ ہو چکا، اللہ پاک جس کے ساتھ جو چاہتا ہے، کرتا ہے ۔ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بار باراُس جوان کو یاد کر تے رہتے اور روتے تھے۔ (روضُ الرّیاحین، ص ۵۸۔۵۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ آخرت کو اہمیّت (importance) دینا بہت زیادہ ضروری ہے۔اور یہ بھی پتا چلا کہ اللہ پاک کے نیک بندوں کی بڑی شان ہے، اللہ پاک اپنی رحمت سے اُن کی کہی ہوئی باتیں پوری کر دیتا ہے۔
260 ’’شدَّاد کی جنّت‘‘
ہزاروں سال پُرانی بات ہے، ایک کافِر بادشاہ جس کا نام شَدّاد تھا ، پوری دنیا پر حکومت کرتا تھا۔ جب اُس نے کئی انبیاءِ کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے جنّت کے بارے میں سُنا تو شیطان کی باتوں میں آ کر اُ س نے اپنی عقل کے مطابق دنیا میں جنّت بنانا شروع کر دی (حالانکہ(although) دنیا کی چیزیں ، جنّت کی نعمتوں کی طرح ہو ہی نہیں سکتیں )۔ شَدّاد نے ایک بہت بڑا شہر بنوایا جس میں گھرسونے چاندی کی اینٹوں سے بنوائے۔اُن گھروں کے سُتون (column) زَبَرجَد ( یعنی ہرے اور پیلے رنگ کے بہت مہنگے پتھر) اور یاقُوت (لال، سفید یا نیلے رنگ کےقیمتی (expensive)پتھر)کے تھے۔ گلیوں کے راستوں میں (jewels) جواہِرات تھے اور پتھر کی جگہ بہترین موتی (pearl) تھے ۔جگہ جگہ نہریں (canals) تھیں اور سائے کے لیے (for shade)طرح طرح کے درخت لگائے تھے۔ پہلے بہت لمبی لمبی عمریں (ages) ہوتیں تھیں، لھذا یہ کام تین سو(300) سال میں مکمل ہوا اور زندگی گزارنےکے لیے طرح طرح کے سامان سے اس شہر کو بھر دیا گیا۔ شَدّاد کے حکم کے مطابق اس جنّت کو بنایا گیا تھا مگر شدّاد اب تک اسے دیکھنے نہیں گیا تھا، وہ چاہتا تھا کہ جب یہ مکمل ہو جائے تو میں بہت شان ( glory)کے ساتھ اس میں جاؤں گا مگر اللہ پاک جو چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے۔ شَدّاد کی جنّت مکمل ہو گئی تھی، اُس کے محل (palace) سے وہ جنّت بہت دور تھی، اُسے وہاں پہنچنے میں کئی دن چاہیے تھے، شَدّاد پوری تیاری کے ساتھ اپنے وزیروں کو لے کر اپنی جنّت کو دیکھنے کے لیے نکل پڑا،وہ سفر کرتا رہا یہاں تک کہ اب صرف ایک دن کا راستہ رہ گیا تھا لیکن اچانک(all of a sudden) آسمان سے ایک خطر ناک آواز آئی جس سے سب کے دل پھٹ گئےاور شَدّاد 900 سال کی عمر میں اپنے سب ساتھیوں کے ساتھ مر گیا۔ جنّتی صحابی حضرت امیر مُعاوِیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے وقت میں ایک بُزرگ حضر ت عبد اللہ بن قِلابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا ایک اونٹ یَمَن کے قریبی شہر عَدَن کے صَحْرا (desert)میں گم ہوگیا، آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ اونٹ ڈھونڈ رہے تھے کہ وہ ایسے شہر پہنچ گئے جو بہت ہی خوبصورت تھا مگر وہاں کوئی آدمی موجود نہ تھا، آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے وہاں سے تھوڑے سے جواہِرات (jewels وغیرہ)ساتھ لئے اور چلے آئے، اس بات کی خبر حضرت امیر مُعاوِیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ہوئی تو انہوں نے آپ کو بُلا یا اور حضرت کَعْبُ الاَحبار رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے پوچھا: کیا دنیا میں اِس اِس طرح کا بھی کوئی شہر موجود ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: ہاں! اور آپ کے زمانے(time) میں ایک مسلمان اپنا اونٹ تلاش کرتے کرتے اِس شہر میں چلا جائےگا، اُس شخص کا رنگ سُرخ، آنکھیں نیلی(blue)، قد چھوٹا(small height) جبکہ بَھنووں(eyebrows) پر ایک تِل(یعنی نشان) ہوگا۔ بعد میں جب حضرت عبد اللہ بن قِلابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو دیکھا تو حضرت کَعْبُ الاَحبار رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا: اللہ پاک کی قسم! یہ وہی شخص ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص۲۲۲-۲۲۳مفہوماً، صراط الجنان،ج۱۰،ص۶۶۳-۶۶۴مفہوماً ، خازن،ج۴،ص۳۷۶) اس حکایت سے یہ سیکھنے کوملا کہ تکبُّر (arrogance)بہت بُری چیز ہے اور کبھی دنیا میں بھی اس کی سزا (punishment) مل جاتی ہے جیسا کہ شداد نے جنّت بنائی مگر اُسے دیکھ نہ سکا۔ شداد تو مر گیا مگر جب تک دنیا رہے گی،لوگ یہ واقعہ بتاتے رہیں گے اور اس کی بُرائی کرتے رہیں گے۔
261 ’’جنّت کے بارے میں چند ضروری باتیں‘‘
’’جنّت‘‘ ایک مکان ہے جو اللہ پاک نے ایمان والوں(یعنی مسلمانوں) کے لئے بنایا ہے جنّت میں ایسی نعمتیں ہیں جنہیں نہ کسی شخص نے کبھی دیکھا نہ اُن کے بارے میں سُنا اور نہ ہی کسی کے دل میں ایسی نعمتوں کا کبھی خیال آیا جنّت کی تعریف کےلئے جو بھی مثال دی جاتی ہے وہ صِرْف سمجھانے کے لئے ہوتی ہے ورنہ حقیقت(یعنی اصل) میں دنیا کی بہترین سے بہترین چیزیں جنّت کی کسی چیز کے سامنے کچھ بھی نہیں جنّت کی ناخُن جتنی چیز بھی پورے آسمان اور مکمل زمین کو سجانے کےلئے کافی (enough)ہے جنّت کی اتنی جگہ جس میں چابُک (کَوڑا۔ whip) رکھا جاسکے دنیا اور اس کی ہرچیز سے بہتر ہے جنّت میں 100 دَرَجے(یعنی منزلیں۔levels) ہیں، ہر دو دَرَجوں کے درمیان اِتنا فاصلہ(distance) ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے، اور ہر دَرَجہ اتنا بڑا ہے کہ پوری دنیا بلکہ ساری کائنات(universe) اُس میں آ جائے جنّت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اُس کے سائے(shadow) میں سو (100)سال تک کوئی تیز رفتار گھوڑا دوڑتا رہے تب بھی وہ ختم نہیں ہوگا جنّت کے دروازے اِتنے بڑے ہیں کہ ہر دروازے کے درمیان تیز رفتارگھوڑا ستّر(70)سال تک دوڑ سکتا ہے، لیکن جب جنّتی جنّت میں جائیں گے تو رَش کی وجہ سے(یعنی اتنے زیادہ ہونگے کہ) دروازہ آواز کرنےلگے گا جنّت کے مَحَلّات(palaces) طرح طرح کے ہیروں (diamonds) سے بنے ہوئے ہیں اور اتنے صاف ہونگے کہ اندر کا حصّہ باہر سے نظر آئے گا جنّت کی دیواریں سونے چاندی کی اینٹوں (bricks) سے بنی ہوں گی اوراُنہیں ملانے کے لیے(ایک بہترین خوشبو) مُشک لگائی گئی ہوگی جنّت میں چار(04)دریا ہیں جن سے نہریں (canals)نکل کر جنّت کے ہر مکان میں جا رہی ہو نگی (1)پانی کا دریا(2)دودھ کا دریا (3)شہد کا دریا (4)پاکیزہ مشروب کا دریا جنّت کے مشروب میں دنیا کی شراب کی طرح بدبو، کڑوا ہونا اور نشہ نہیں ہےکہ پینے والے کو چکر(dizziness) آجائیں اور وہ اُلٹا سیدھا بولنا شروع کر دے بلکہ جنّتی شراب بہت اچھی، مزیدار اور صاف ستھری ہوگی جنّت میں ہر قسم کا لذیذ(delicious) کھانا ملے گا، جنّتی جو کھاناجتنا کھانا چاہے گا فوراً اُس کے سامنے،اُتنا آجائے گا {} جنّت میں کسی قسم کی کوئی گندَگی بالکل نہیں ہوگی {} کھانے پینے کے بعد ایک خوشبودار، مزیدار ڈکار(burp) آئےگی، خوشبودار پسینہ نکلے گا اور سب کھانا ہَضْم ہوجائے گا(will be digested) {} جنّتی کی زبان سے ہر وقت ’’سُبْحٰنَ اللہ‘‘ اور ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کا ذِکْر سانس کی طرح چلتارہے گا {} سب جنّتیوں کے دل صاف ہوں گے، آپس میں کوئی لڑائی جھگڑانہیں ہوگا{} حوریں جنّت میں کلام بھی سنائیں گی، اُن کے کلام میں شیطانی ڈھول، باجے اور موسیقی نہیں ہوگی بلکہ اللہ پاک کی حَمْد (اور تعریف )ہوگی {} اگر جنّت کا کوئی کپڑا دنیا میں آجائے تو لوگ دیکھ کر بےہوش (unconscious) ہوجائیں بلکہ کوئی اسے صحیح طرح دیکھ بھی نہ سکے {} ہر جنّتی عورت کی عمراٹھارہ (18)سال اور مردکی عمر تيس (30)سال ہوگی(مراۃ،ج۸،ص ۳۰۲) {}سَر، پلکوں(eyelids) اور بھنووں(eyebrow)کے علاوہ جنّتیوں کے جسم پر کہیں بال نہیں ہوں گے {} جنّت میں نیند نہیں ہے، کیونکہ نیند ایک قسم کی موت ہے اور جنّت میں موت نہیں ہے سب سے کم دَرَجے (rank)والے جنّتی کے پاس بھی اِتنے باغ اور نعمتیں ہوں گی کہ اُنہیں دیکھنے کے لئے ہزار (1000)سال چاہیے ہوں گے جنّت میں ہرہفتے بازار بھی لگے گا (یعنی دنیا میں جتنا وقت ایک ہفتے میں لگتا ہے، ورنہ جنّت میں دن،رات وغیرہ نہیں ہونگے(مراۃ،ج۷،ص ۴۷۲))اور وہ بازارفرشتے لگائیں گے، اُس بازار میں ایسی چیزیں ہوں گی کہ ہماری سوچ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی، جنّتی اُس بازار سے جو چیز لینا چاہیں گے بغیر قیمت(without price) یا بغیر مال(without money) کے اُنہیں دے دی جائے گیجنّت میں سب سے بڑی نعمت جو مسلمانوں کو ملے گی وہ اللہ پاک کا دیدار ہے، کہ اس نعمت کے برابر کوئی نعمت نہیں، جسے ایک بار اللہ پاک کا دیدار ہوگا، ہمیشہ ہمیشہ اس کی خوشی باقی رہے گی اوراُس دیدار کو کبھی نہ بھولے گا ۔ سب سے پہلے ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ پاک کا دیدار کرنے کی سعادت حاصل کریں گے، جنّت میں ہر ہفتے اللہ پاک کا دیدار بھی ہوگا ۔ (بہارِ شریعت ح۱، ص۱۱۶، ۱۵۱،۱۵۲ تا ۱۶۲) اہم باتیں : جنّت کا انکار(denial) کرنے والا (یعنی یہ کہے کہ جنّت ہے ہی نہیں، وہ )کافر ہے جو کہے کہ جنّت ہے مگر جنّت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی نیکیاں دیکھ کر خوش ہوگا تو یہ بھی جنّت کا انکار کرنے والا اور کافر ہے جنّت کو بنے ہوئے ہزاروں سال ہوچکے ہیں اور وہ اس وقت بھی موجودہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ قیامت کے دن بنائی جائے گی۔ (بہارِ شریعت ح۱، ص۱۱۶، ۱۵۱، مُلخصاً) جنّت ہمیشہ رہے گی،کبھی ختم نہ ہوگی۔( الفقہ الاکبر،ص۱۷۹) جنّتی جنّت میں ہمیشہ رہیں گے۔ (شرح الفقہ الاکبر،ص۱۸۰)جنّت میں عربی زبان بولی جائے گی۔(معجم الاوسط، ۴/۲۶۶، حدیث:۵۵۸۳) فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : جو اللّٰہ پاکسے تین (3)مرتبہ جنّت مانگے تو جنّت کہتی ہے: یا اللہ! اسے جنّت میں داخل کر دے ۔(ترمذی، ۴/۲۵۷، حدیث:۲۵۸۱)